Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 30, 2019

کیا افغان تاریخ میں یہ معجزہ برپا ہو گا؟


بھارت میں علیحدگی کی سترہ تحریکیں چل رہی ہیں یا سترہ سو ! سترہ ہزار بھی چل رہی ہوتیں تو اس پریشانی کا عشیرِ عشیر 

بھی بھارت کو لاحق نہ ہوتا جو پاکستان صرف اس لئے بھگت رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ اس کی سرحد ملتی ہے

بازی گر تماشے دکھا رہا تھا۔ وہ تنی ہوئی رسی پر اُلٹا لٹکا ہوا تھا۔ اس کے ساتھی نے زمین سے پوچھا کیا تم تکلیف میں ہو؟ ’’ہاں! میں بہت تکلیف میں ہوں‘‘ ’’کیا تم اذیت میں ہو؟‘‘ ’’ہاں!میں بہت اذیت میں ہوں مگر اب بھی اس مرد سے کم تکلیف اور کم اذیت میں ہوں جس کی دو بیویاں ہیں۔ 


قیام پاکستان سے لے کر اب تککون سا دکھ ہے جو پاکستان نے اس سرحد کی وجہ سے نہیں جھیلا۔ کوئی مورخ ایسا ہو جو صرف ان دکھوں کی تاریخ لکھے۔ کوئی جادوگر ایسا ہو جو افغانستان کو اٹھا کر یورپ لے جائے یا امریکہ اور کوئی ایسی سرحدپاکستان کے مغرب میں لے آئے۔ جس سے گولیاں نہ چلیں جیسے کینیڈا کی سرحد امریکہ کے ساتھ ہے، جیسے اٹلی کی سرحد سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ہے، جیسے ہسپانیہ کی سرحد فرانس کے ساتھ ہے


یہ اس سرحد ہی کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ اپنی باڑ سیدھا کرنا پڑ رہی ہے۔ یہ جو نقطہ نظر ہے کہ ہمارا جھکائو اچھا بھلا چین اور روس کی طرف تھا تو پھر امریکہ کے ساتھ محبت کی پینگیں کیوں بڑھا رہے ہیں، اپنی جگہ درست ہے، مگر سخن گسترانہ بات یہ ہے کہ سرحد پار افغانستان میں چین بیٹھا ہے نہ روس! وہاں امریکہ بیٹھا ہے اور کابل میں عملاً مالک بن کر بیٹھا ہے جب تک امریکہ افغانستان میں موجود ہے، کابل میں کٹھ پتلی حکومت سانس لیتی رہے گی اور جب تک یہ کٹھ پتلی حکومت قائم ہے پاکستان کے لئے افغان سرحد ناسور بنی رہے گی۔ اس پار سے گولیاں چلتی رہیں گی۔ چادر پوش دہشت گرد سرحد پار سے آ کر دھماکے کرتے رہیں گے۔ جب تک افغانستان میں قومی حکومت نہیں بنتی، احوال اسی طرح دگرگوں ہی رہے گا۔ قومی حکومت وہ ہو گی جس میں پختون، تاجک، ازبک، ہزارہ سب اپنا اپنا حصہ انصاف کے ساتھ صول کریں گے اور اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس وقت افغانستان کی زمام امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ اس کھائی سے باہر نکلنا چاہتا ہے اسے معلوم ہے کہ باہر نکلنے کے لئے اسے پاکستان کے ہاتھ کی ضرورت ہے، اگر پاکستان امریکہ کا یہ بڑھا ہوا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر نکلنے میں مدد نہیں دیتا تو اس میں پاکستان کا بھی نقصان ہے۔ 


امریکہ کا دورہ کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ چین ناراض ہو جائے گا یا روس اور پاکستان کے درمیان کم ہوتے فاصلے پھر بڑھنے لگیں گے۔ بین الاقوامی تعلقات میں اگر کوئی اس طرح سوچتا ہے تو اسے عالمی سیاست کی حساسیت(Sensitivity)کا علم ہے نہ حسِ ادراک(sensibility)کا۔ یہ کوئی قصباتی رشتہ داری نہیں ہے کہ پھپھو جان کے گھر جانے سے ممانی دل برداشت ہو جائے گی، اس لئے چھپ کر جانا چاہیے اور بھابھی کو تحفہ دیا تو نند قطع کلامی پر اتر آئے گی۔ چین اور پاکستان کی دوستی مثالی ہے مگر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ چین بھارت سے تعلقات نہ رکھے؟ 2017ء کے دوران چین اور بھارت کے درمیان چوراسی ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ اگلے سال یہ تجارت نوے ارب ڈالر کو چھو رہی تھی۔ چین تائیوان کی الگ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا اور تائیوان کو اپنا حصہ گردانتا ہے مگر دوسری طرف تعلقات نارمل ہیں۔2010ء میں تائیوان نے چین کے ساتھ معاشی تعاون کے فریم ورک کا باقاعدہ معاہدہ کیا۔تائیوان کی تجارت سب سے زیادہ پانچ ممالک کے ساتھ ہے۔ ان میں چین سرفہرست ہے۔ باقی چار جاپانامریکہیورپی یونین اور ہانگ کانگ ہیں۔ 


جب ایک بار اس حقیقت کو ہم تسلیم کر لیں کہ امریکہ کے ساتھ لمحۂ موجود میں باڑ کی مرمت کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں تھا تو ضمنی مسائل کو سمجھنا سہل ہو گا۔ایک اور دلیل کا ذکر اس مقام پر نامناسب نہ ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ ضرورت کے وقت منہ پھیر لیتا ہے اور یہ کہ اس کی دوستی قابل اعتبار نہیں! ایسے اعتراضات بھی بین الاقوامی تعلقات (انٹرنیشنل ریلیشنز) کے اصولوں سے ناواقفیت کے سبب اٹھائے جاتے ہیں۔ دو آزاد ملکوں کی دوستی عاشق اور محبوب کی دوستی نہیں ہوتی کہ بے وفائی اور تغافل کا رونا رویا جائے۔ پاکستان نے امریکہ کو خون سے خط لکھ کر بھیجا ہے نہ امریکہ نے کسی درخت کے تنے پر پاکستان کا نام کھود کر درد ناک غزل کہی ہے جس میں ہجر و وصال کے تلازمے استعمال ہوئے ہیں۔ دو ملکوں کے درمیان مستقل صرف ایک شے ہوتی ہے اور وہ ہے اپنا اپنا مفاد۔ جب تک امریکہ کا مفاد تحریک پیدا کرتا رہے گا امریکہ پاکستان کے ساتھ گہری اور ڈونگی دوستی کا دم بھرے گا۔ اسی طرح کل اگر افغانستان کے حالات امریکی انخلا کے بعداطمینان بخش ہو جاتے ہیں تو پاکستان امریکی ٹوکری سے کچھ(یا سارے) انڈے نکال کر چین اور روس کی ٹوکریوں میں بھی رکھ سکتا ہے۔ 


امریکہ میں عمران خان کی کارکردگی پر جس آفرین آفرین کے نعرے لگائے جا رہے ہیں اس کا سبب ان کے پیشرو کی نالائقی ہے۔ دنیا کے اکثر جمہوری ملکوں میں جو سیاست دان حکومت یا ریاست کی سربراہی تک پہنچتے ہیں وہ گفتگو کے فن میں طاق ہوتے ہیں۔ خود اعتمادی کے مالک ہوتے ہیں اور بین الاقوامی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔عمران خان نے قابل تحسین کارکردگی دکھائی ہے تو اس میں کوئی تعجب نہیں۔ انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ تعجب اس لئے ہو رہا ہے کہ ان سے پہلے جو شخص وزیر اعظم کی حیثیت سے امریکہ گیا تھا۔ وہ بات کر سکتا تھا نہ مسائل کا ادراک رکھتاتھا۔ یہ ملک کی بدقسمتی تھی کہ ایک ایسا شخص جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بی اے کے پرچے کسی اور نے دیے تھے اوراس نے کبھی کوئی فائل پڑھی نہ کسی فائل پر کچھ لکھانہ صرف وزیر اعظم بنا بلکہ تین بار بنا۔ اوبامہ کے سامنے وہ پرچی دیکھ کر بھی گفتگو کرنے سے قاصر تھا۔کبھی پانی پیتا کبھی تھوک نگلتا۔ اس افسوسناک بلکہ عبرت ناک پس منظر میں عمران خان نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اگر اس کا نصف بھی کرتے تو آفرین ہی کی صدائیں بلند ہونا تھیں۔ 


اصل امتحان آگے آنا ہے۔ طالبان پاکستان کی بات مانتے ہیں یا نہیں! یہ ایک بڑا سوال ہے۔ کیوں کہ نہ صرف ملا عمر بلکہ پورے کا پورا گروہِ طالبان ایک خاص سٹائلایک خاص انداز رکھتا ہے پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ فلاں مسئلے پر ان کا ردعمل کیا ہو گا؟کچھ سوالات ایسے ہیں جن کا جواب وقت کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ کیا طالبان افغان حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کریں گے یا صرف امریکہ کے ساتھ؟ فرض کیجیے امریکہ افغانستان سے رخصت ہو جاتا ہے تو پھر طالبان کارویہ کیا ہو گا؟ کیا وہ نئے سیٹ اپ میں تاجکوں، ازبکوں اور ہزارہ کو ان کا حصہ بطیبِ خاطر دے دیں گے یا اس راستے میں دشوار گزار گھاٹیاں پڑیں گی؟ اگر امریکہ کا انخلا ہو جاتا ہے اور اس کے بعد پرامن طریقے سے ایسی حکومت بن جاتی ہے جس میں افغانستان کے تمام لسانی، سیاسی، نسلی اور مذہبی گروہ ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھ کر آگے بڑھتے ہیں تو یہ افغان تاریخ کا ایک معجزہ ہو گا۔ 

Sunday, July 28, 2019

پرتھ۔۔۔پاکستانی سفارت خانے کا سوتیلا بیٹا


پرتھ بھی عجیب و غریب شہر ہے۔ اتنا نخرہ کہ کسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ نزدیک ترین شہر ایڈی لیڈ ہے جو دو ہزار سات سو کلو میٹر دور ہے۔ سڈنی سے اس کا فاصلہ تقریباً چار ہزار کلو میٹر ہے۔ میلبورن سے ساڑھے تین ہزار اور برزبن سے سوا چار ہزار کلو میٹر۔ 


نخرے بلکہ رعونت کے ساتھسارے شہروں سے دور پرتھ آسٹریلیا کے جنوب مغربی کونے میں تن کر کھڑا ہے۔ کوئی آئے تو خوش آمدید ! نہ آئے تو پرتھ کی اپنی دنیا اتنی بڑی ہے کہ کسی اور کی ضرورت ہی نہیں


پرتھ کے باشندے اتنے سیدھے سادے بھی نہیں کہ دارالحکومت سے ہزاروں میل دور رہ کر ہر بات پر آمنّا و صدّقنا کہتے۔1933ء میں ایک ریفرنڈم ہوا جس کے نتیجے میں دو تہائی آبادی نے آسٹریلوی وفاق سے علیحدگی کے لئے ووٹ دیا۔ اتفاق سے وہ الیکشن کا موسم تھا۔ الیکشن میں علیحدگی پسند پارٹی ہار گئی۔ تاہم نئی حکومت نے ریفرنڈم کا احترام کرتے ہوئے معاملہ لندن کے آقائوں کو بھیج دیا۔ اس اثنا میں گفت و شنید اور منت سماجت جاری رہی۔ ڈیڑھ سال بعد دارالعوام لندن نے علیحدگی منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ تب سے اب تک ’’خاموشی‘‘ ہے! ویسے اہل پرتھ کو معلوم نہیں کہ ہمارے ہاں پاکستان میں ایک مولانا ہیں جو ان دنوں بے روزگار ہیں اور سخت بے روزگار! اتنے کہ جان کے لالے پڑے ہیں۔ اگر انہیں بلا کر پرتھ کمیٹی کا صدر مقرر کر دیں اور مراعات شان و شوکت بمنزلہ وزیر کے دے دیں تو ایسی پُر شور اور پُر زور تحریک چلائیں گے کہ کینبرا کے ہوش اُڑ جائیں گے۔ 


پرتھ کی یہ خود اعتمادی اس کی امارت کے سبب ہے۔ سونے کی لوہے کی اور دیگر قیمتی دھاتوں کی کانیں یہاں بہت ہیں۔ ماہرین ارضیات(جیالوجسٹ) پوری دنیا سے کھینچے چلے آتے ہیں۔ اب کے تو نہیںمگر کئی سال پہلے یہاں ایک تقریب میں کئی پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی جو زمین شناسی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اکثر پی ایچ ڈی! اور کان کنی کے شعبے میں اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے !


 گزشتہ برس بھی پرتھ کے دوست تقاضا کرتے رہے کہ حاضری دوں مگر میلبورن سے نکلنا نہ ہوا۔ میلبورن سے سڈنی یا کینبرا جانا آسان ہے۔ ایک گھنٹے سے کم کی پرواز۔ جنوبی جزیرے تسمانیہ کا سفر بھی مختصر ہے۔ ایک بار وہاں بحری جہاز پر بھی جانا ہوا۔ رات کو میلبورن کے ساحل سے جہاز میں بیٹھے۔ صبح کا اجالا پھیلا تو تسمانیہ کادلربا جزیرہ سامنے تھا۔ مگر پرتھ کا سفر اتنا مختصر نہیں!ساڑھے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ٹائم زون بھی الگ ہے۔ مشرقی آسٹریلیا سے یہاں کا وقت دو گھنٹے پیچھے ہے اور پاکستان سے صرف تین گھنٹے آگے


اس بار پھر تقاضا ہوا معین ارشد اور بلا کے صاحبِ مطالعہ محمود احمد کا اصرار بہت زیادہ تھا۔ چنانچہ ساڑھے چار گھنٹے کا ہوائی سفر طے کر کے پرتھ نزول کیا۔ ایک دلکش اور باوقار محفل میں پرتھ کے پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ تارکین وطن کی بھاری اکثریت تحریک انصاف کی حامی ہے۔ نوجوان وطن کی محبت میں عمران خان سے امیدیں وابستہ کئے محو دعا ہیں۔عامر قریشیعمیر چودھریملک یاسر اور دیگر دوست بے تاب تھے کہ ملک کے 

حالات پر گفتگو کی جائے۔ سوال جواب کی ایک دل آویز نشست ہوئی جس میں سنانے اور سیکھنے کا معاملہ دو طرفہ رہا۔ 


یہ لوگ زرِ مبادلہ تو بھیجتے ہی ہیں اور پاکستانیوں کو بلا کر ملازمتیں دلوانے میں مدد  تو کرتے ہی ہیں مگر ان کی اصل اعانت ان کا کُڑھنا ہے۔ ملک کے حالات پر ان تارکین وطن کا کڑھنا اور ملک کے اندر رہنے والے پاکستانیوں کے مقابلے میں زیادہ کڑھنااس سبب سے ہے کہ آسٹریلیا جیسے ملک میں رہتے ہوئے یہ حضرات اپنے ملک کو بھی اسی سطح پراسی معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تارکین وطن ہر وقت اٹھتے بیٹھتےسوتے جاگتے اپنے آبائی ملک کا موازنہ اپنے نئے ملک سے کرتے ہیںاور پھر اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ لوگ بھی ہماری ہی طرح دو ٹانگیں ایک دماغ اور دو ہاتھ رکھتے ہیں ! آخر ہم اِن جیسے کیوں نہیں ہو سکتے؟ اگر پرتھ میں وزیر پروٹوکول کے بغیر آتے جاتے ہیں۔ اگر یہاں سفارش اقربا پروری اور کرپشن عنقا ہے۔ اگر انسانی حقوق پر یہاں کوئی سودا بازی کوئی کمپرو مائز نہیں ہوتااگر انسانی جان کی یہاں حد درجہ حفاظت کی جاتی ہےاگر پولیس یہاں حاکم نہیں خادم ہے اور اگر یہاں وزیر اعلیٰ کی اولاد کو چیف منسٹری کا کوئی حصہ نہیں ملا ہوا تو یہ سب کچھ پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ 


تارکین وطن کی عمران خان سے رشتہ داری ہے نہ تحریک انصاف سے! یہ لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ڈاکوئوںلٹیروںچوروںاٹھائی گیروں اور مکار لومڑیوں سے پاکستان اور اہل پاکستان کو نجات ملے۔ اگر ملک میں انصاف کا نظام ہوتااگر رول آف لا ہوتا تو یقینا تارکین وطن کی اکثریت اپنے ملک سے باہر جانا نہ پسند کرتی۔ مگر جب ارب پتی مریوں اور بلاولوں کے وراثتی حقوق دیکھتے ہیں تو یہ تارکین وطن ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک صاحب پوچھ رہے تھے کہ گجرات کے شاہی خاندان کے نوجوان شہزادے بھیجو اسمبلی میں پہنچے ہیںابھی سے کس طرح ارب پتی ہو گئے ہیں؟ یہ اور بے شمار دوسرے سوالات ان تارکین وطن کو ملک کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی میں مبتلا کرتے ہیں۔ تحریک انصاف ان کے لئے امید کا چراغ ہے اور ساری کمزوریوں اور نقائص کے باوجودپیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ قابلِ قبول ہے


پرتھ کے پاکستان اپنے ملک کے سفارت خانے سے دل برداشتہ ہیں اور ناراض! اس لئے کہ اس دور افتادہ شہر کے پاکستانیوں سے پاکستانی سفارت خانے کا سلوک وہی ہے جو ماں سوتیلے بیٹے سے کرتی ہے۔ سفارت خانہبقول ان کےکسی خطکسی ای میل کا جواب نہیں دیتا اور بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ شنوائی ہو! پاسپورٹ کا اجرا ہو یا ویزے کا کوئی مسئلہاکثر ضرورت مندوں کو سفارت خانے کی مجرمانہ خاموشی کے پیش نظر بنفس نفیس کینبرا جا کر بابوئوں کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے۔اس سفر اور اس منت سماجت کے لئے ہزاروں ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ معلوم نہیںہمارے دوست جناب جاوید حفیظ اور جناب ظفر ہلالی کیا کہیں گے مگر عمومی رویہ ہمارے سفارت خانوں کا حوصلہ شکن ہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آسٹریلیا میں ایک خاتون سفیر تعینات تھیں جو اپنے آپ کو سفیر کم اور وائسرائے زیادہ سمجھتی تھیں ۔ اس کالم نگار کا کام اُن سے آ پڑا تو معلوم ہوا کہ یہ تو پتھر کی دیوار ہے اور ان سے کام کرانا سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔ بالآخر جناب نفیس ذکریا نےکہ اُن دنوں وزارت خارجہ کے ترجمان تھےدستگیری کی! وائسرائے صاحبہ کو فون پر پندو نصیحت کی اور پھر کالم نگار کو پلٹ کر بتایا کہ کام ہو جائے گا! نفیس ذکریا آج کل برطانیہ میں سفیر ہیں۔ 


یہ مسئلہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی پیش کیا جائے گا۔ پاکستانی ہائی کمیشن کینبرا کو چاہیے کہ اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لائے اور درخواستوں کا جواب وقت پر دے تاکہ سائلین کو سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے آنا اور سفارت خانے کا دروازہ کھٹکھٹانا نہ پڑے۔ 


ویسے حیرت یہ ہے کہ پرتھ میں رہنے والے ساڑھے چار ہزار نیپالیوں کی سہولت کے لئے نیپال کی حکومت نے پرتھ میں کونسلیٹ کھول رکھا ہے مگر حکومت پاکستان کو توفیق نہیں ہو رہی کہ سات آٹھ ہزار پاکستانیوں کے لئے کونسلیٹ قائم کرے! ایک افسر اور ایک سٹاف سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے وزارت خارجہ کی خوش نیّتی درکار ہے! ؎ 


انجم غریبِ شہر تھے اب تک اسیر ہیں 

سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے 

 

powered by worldwanders.com