Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, June 30, 2019

گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا


سہ پہر ابھی نہیں ہوئی مگر کالی گھٹا نے جُھٹپٹے کا سماں پیدا کر رکھا ہے۔ قطرہ قطرہ بارش بے لباس درختوں کی ٹہنیوں سے ہوتی ہوئی‘ زمین پر گر رہی ہے۔ سڑک پر دور دور تک کوئی ذی روح نہیں! کبھی کبھی کوئی گاڑی زناٹے سے گزرتی ہے اس کے بعد پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔ 

یہ گیند جسے ہم کرہ ارض کہتے ہیں‘ عجائبات کی زنبیل ہے۔ کبھی ایک عجوبہ نکلتا ہے‘ کبھی دوسرا‘ الاسکا سے لے کر نیوزی لینڈ تک۔ سائبیریا سے لے کر جزائر انڈیمان تک۔ کینیڈا کے انتہائی شمال سے لے کر چلّی کے جنوبی کونے تک۔ آئر لینڈ سے لے کر جنوبی افریقہ کے ساحل تک۔ موسموں کے عجیب الٹ پھیر ہیں۔ کہیں صحرائوں میں  ٹھنڈک ہے۔ کہیں پہاڑوں میں گرمی! کہیں سمندروں کی سطح منجمد ہے، کہیں خشکی کے وسیع و عریض ٹکڑے پانیوں میں غرق! 

صرف ٹائم زون گنتے جائیے اور حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں کھاتے جائیے۔ روس‘ شرقاً غرباً‘ افقی چوڑائی میں پھیلا ہوا ہے۔ گیارہ ٹائم زون ہیں۔ دوسری طرف جو شہر ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہیں عمودی لمبائی میں واقع ہونے کی وجہ سے یکساں ٹائم زون رکھتے ہیں۔ سویڈن کا شہر سٹاک ہوم۔ زمبابوے کے شہر ہرارے سے سات ہزار کلو میٹر دور ہے مگر وقت وہی ہے۔ یہ رات دن‘ یہ طلوع و غروب‘ یہ موسموں کا الٹ پھیر‘ یہ ٹائم زون‘ یہ خشکی‘ یہ سمندر‘ جس نے تخلیق کئے ہیں اسی کا کام تھا ؎ 

بنائے آدمی خشکی پہ‘ کچھ کو حُسن بخشا 
مناسب فاصلوں پر بحر میں گرداب رکھے

 قطب جنوبی سے قریب ترین اس خطے میں‘ جہاں اس وقت جاڑا سر چڑھ کر بول رہا ہے‘ بحرالکاہل سے مسلسل سرد ہوائیں آ رہی ہیں۔ درجہ حرارت دس ڈگری ہے۔ گھروں میں آتش دان ہیں جن میں شعلے دکھائی نہیں دیتے۔ لحاف پتلے‘ مگر آن کی آن میں گرم کر دینے والے۔ گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ کر بٹن دبائیے۔سیٹ گرم ہونا شروع ہوجائے گی۔ کمبل بجلی کے ہیں۔ یعنی الیکٹرک۔ بستر پر بچھائیے۔ سوئچ آن کیجیے‘ حرارت بالین سے لے کر پائنتی تک اپنی آغوش میں لے لے گی۔ 

سرما عجیب موسم ہے۔ آتا ہے تو یادوں کے ساون بھادوں جلو میں لے کر آتا ہے۔ بشیر بدر مشاعرہ بازی سے پہلے کیا کمال کے شعر کہتے تھے ؎ 

گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک 
خون میں آگ بن کر اتر جائے گی‘ یہ مکاں صبح تک راکھ ہو جائے گا

 کیا کیا خوشبوئیں اور خوشبوئوں کی یادیں لے کر جاڑا آتا ہے۔ ریڑھی پر رکھی مونگ پھلی اور اس کے اوپر درمیان میں رکھی تپتی تپاتی مٹی کی ہنڈیا‘ دوپہر کی دھوپ میں کٹے ہوئے مالٹوں کی مہک! کیا کسی کو وہ سنگترے یاد ہیں جو اب کہیں نہیں نظر آتے ؟ سارا چھلکا آن کی آن میں ایک بار ہی اتر کر ہاتھ میں آ جاتا تھا۔ یہ اس زمانے میں ہوتے تھے جب فروٹر اور کِنّو کی بدعت شروع نہیں ہوئی تھی۔ بھارت میں ناگپورکے سنگتروں کا سنا ہے‘ دیکھے نہیں‘ مگر جو اپنے ہاں تھے وہ غائب ہو گئے۔ لاہور میں ایک دن برادر عزیز سعود عثمانی کے دفتری بالا خانے سے اتر کر باہر شاہراہ پر آیا۔ ایک ریڑھی والا کھڑا تھا۔ پیاسی اور متلاشی نظروں نے دُور سے بھانپ لیا کہ سنگترے ہیں۔ لیے اور بہت سے لئے۔ اس سے عہد و پیمان ہوئے کہ آئندہ کہاں اور کب ملا کرے گا مگر متحرک دکاندار کو دوبارہ پانا ناممکنات میں سے ہے۔ آسٹریلیا میں‘ سنگترے کا ایک سوتیلا بھائی پایا جاتا ہے‘ اسے مینڈرین کہتے ہیں۔(چین کی زبان‘ مینڈرین الگ لفظ ہے) چھلکا آسانی سے اترتا ہے مگر اتنی سرعت اور مزے سے نہیں‘ جیسے سنگترے کا اترتا تھا۔ 

کہاں کہاں کا جاڑا یاد نہیں آ رہا۔ دسمبر تھا اورتاشقند کی رات۔ سڑک پر چل رہا تھا۔ دو سالہ مرضیہ کو اٹھائے۔کھمبوں سے روشنی سیلاب کی صورت بہہ رہی تھی۔ درختوں پر پڑی برف روشنی کے سمندر میں آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔ اسی روشنی اور اسی برف میں لپٹے ہوئے شعر اترے ؎ 

شبیں تھیں اطلس کی‘ دن تھے سونے کے تار جیسے 
بہشت اترا ہوا تھا آمو کے پار جیسے 

گلاب سے آگ‘ آگ سے پیاس بجھ رہی تھی 
زمیں وہاں کی فلک‘ فلک تھے ہزار جیسے

 اردن کے دارالحکومت عمّان کا سرما یاد آ رہا ہے۔ سال کی آخری رات تھی۔ سردی تھی۔ ایسی کہ رگوں میں لہو برف بنا دے۔ اس عرب ‘ ہاشم‘ کو ڈھونڈنا تھا جو اٹلی کے شہر ناپولی میں ہمدرس تھا ۔ جس سے پوچھتا‘ قبیلے کا نام پوچھتا جو معلوم نہ تھا۔ آخر ڈھونڈ نکالا۔ دیکھ کر حیران ہوا۔ اور خوش کہ آج ہم فلسطینی اپنے خاندان کے ساتھ نیو ایئر نائٹ منا رہے ہیں اور تم مہمانِ خاص ہو گے۔ رشتہ دار ان کے یورپ تک سے آئے ہوئے تھے۔ عرب پلائو کے اوپر چلغوزوں کی تہہ اور بریاں گوشت منوں کے حساب سے۔ کلوا واشربوا کے حکم پر جس طرح اپنے عرب بھائی عمل کرتے ہیں‘ کم مسلمانوں کو توفیق ہوتی ہے۔

 گائوں کا سرما یاد آ رہا ہے۔ لکڑیوں کی آگ‘ کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوا۔کچے صحن کیچڑ میں چَھپ چَھپ کرتے۔ لالٹین کی مدہم روشنی۔ لوہے کی انگھیٹی میں تمتماتے انگارے‘ کسان سفید یا گیروے یا ڈبیاں ڈبیاں چَیک کے کھیس لپیٹے ہوئے۔ جہاں بیٹھتے‘ اپنے نئے کھیس کے کناروں پر لگے دھاگے بٹتے ہوئے۔ بارشیں تھمتیں تو دن کو سورج کی کرنیں گندم کے کھیتوں پر پڑتیں۔ سبز بوباس روشنی میں گھل کر بہشت کی خوشبو میں تبدیل ہو جاتی۔ چاشت کے وقت تنور سلگا دیے جاتے۔ مکی اورباجرے کی روٹیاں پکتیں ؎ 

تندوری تائی ہوئی اے 
لمّا پراندہ 
پُھمناں کھیڈ مچائی ہوئی اے 

گرمیوں کے برعکس جاڑوں میں لسّی گھنی ہوتی۔ سلگتے معدوں میں ٹھنڈا حشر برپا کرتی ہوئی۔ پینے والا‘ پینے کے بعد’’ہائے ‘‘ ضرور کہتا جیسے ارمان پورے ہوئے ہوں! 

اسی زمین پر۔ دوربہت دُور اِس وقت کہیں تابستان ہے۔ لُو کے تھپیڑے چہروں پر ضرب لگاتے ہوں گے۔ اسماعیل میرٹھی نے کہا تھا ع 

بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ 

اب برقی پنکھے چلتے ہیں اور ایئر کنڈیشنر ۔کبھی پنکھیاں ہوتی تھیں،پ ،کھجور کے پتوں سے بُنی ہوئیں۔ اُوپر کپڑے کے پھول کڑھے ہوئے۔ بچے سوتے تو مائیں خود پسینے میں نہاتیں مگر بچوں کو پنکھی سے مسلسل ہوا دیتیں۔ 

اسی زمین پر سمندر ہیں اور سمندروں کے اُس پار بچھڑے ہوئے لخت ہائے جگر ؎ 

بیٹے اسی زمین پہ رہتے رہے مگر 
حائل ہمارے بیچ سمندر بہت ہوا

 کیا کچھ نہیں ہے اس زمین پر!!

Saturday, June 29, 2019

میلہ بلاول نے لوٹا



‎اچکزئی صاحب اور اسفند یار ولی صاحب کی بات دوسری ہے‘ نمایاں پہلو یہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں مریم صفدر صاحبہ نے مولانا کی مکمل اور غیر مشروط تائید کی! 

‎آخر دونوں میں کیا قدر مشترک ہے؟ جواب کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ دونوں کی عمران خان سے دشمنی ہے۔ صرف دشمنی نہیں! نفرت! شدید نفرت! سیاست میں مخالفت تو عام ہے اور کبھی کبھی دشمنی بھی۔ مگر نفرت کا سکِہ کم ہی چلتا ہے! مولانا کو اور مریم بی بی کو عمران خان سے نفرت ہے! اتنی کہ اس نفرت کو دریا میں ڈالا جائے تو بہتا ہوا پانی کھولنے لگے! 

‎نفرت کی وجوہات ‘ تاہم‘ الگ الگ ہیں! مولانا عشروں کے بعد اقتدار کی غلام گردش سے باہر ہوئے۔ انہیں قلق ہے۔ بہت زیادہ قلق! انہوں نے ہر خاص و عام کو باور کرا دیا تھا کہ وہ سیاست کے افلاطون ہیں اور عملیت پسندی
(Pragmatism)
‎کے ماہر۔ چاروں شانے چت ہونے کے بعد اب وہ سخت طیش میں ہیں اور پوری اسمبلی کو ہلاک کرنے کے درپے۔خواہ اس میں لخت جگر کی رکنیت ہی کیوں نہ کام آ جائے۔ 

‎مریم صفدر کی نفرت اقتدار کے لئے نہیں! بنیادی طور پر اپنے والد کی آزادی اور سلامتی میں اقتدار بھی ایک حد تک شامل ہے مگر فرض کیجیے‘ میاں صاحب زنداں سے نکل کر ارض موعود 
Promised Land
‎یعنی لندن سدھار جاتے ہیں تو مریم بی بی کے دل میں چھلکتا زہر‘ بہت حد تک کم ہو جائے گا۔ 

‎انصاف کی بات یہ ہے کہ مریم بی بی نے صدیوں کے تجربے پر مشتمل یہ کہاوت ایک بار پھر درست ثابت کر دی ہے کہ آخر میں بیٹیاں ہی کام آتی ہیں۔ سیاست کو ایک لمحے کے لئے ایک طرف رکھ دیجیے۔ مریم ایک ایسی بیٹی کا کردار ادا کر رہی ہیں جو اپنے والد کی تکلیف پر تڑپ رہی ہے‘ مضطرب ہے اور کسی بھی قیمت پر انہیں آزاد اور پُرسکون دیکھنا چاہتی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں جب انہوں نے مطالبہ کیا کہ نیب کے قیدیوں کو سیاسی قیدی قرار دیا جائے تو اس کے پیچھے بھی والد کی محبت تھی۔ فرض کیجیے‘ حسن اور حسین نواز پاکستان میں ہوتے اور مریم لندن میں۔ تو موجودہ حالات میں مریم لندن بیٹھنے پر کبھی اکتفا نہ کرتیں۔ بیٹے بھی ماں باپ کے لئے سب کچھ کرتے ہیں مگر مریم نے بیٹیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ 

‎یہ لڑائی ملک کے لئے ہے نہ قوم کے لئے۔ جمہوریت کے لئے ہے نہ ترقی کے لئے۔ یہ خاندان کے لئے ہے۔ پشت پر بے حساب دولت ہے اور وسطی پنجاب کی حمایت! اب دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ ساز قوتیں اس ضمن میں کیا کرتی ہیں۔ ہمارے کلچر میں جب معاملہ ایک خاتون سے پڑ جائے تو عام طور پر قواعد اور انصاف پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور رحم اور عزت‘ رکھ رکھائو اور وضع داری آڑے آ جاتی ہے! 

‎مگر اے پی سی کا میلہ بلاول نے لوٹا۔ جب دشمنی چکانے کے لئے مذہب کو استعمال کیا جانے لگا تو بلاول خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا اور مذہب کا کارڈ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ صاف انکار! روایت یہ ہے کہ اس پر جو ردعمل سامنے آیا وہ غیظ و غضب میں لتھڑا ہوا تھا۔ یوں بھی مذہبی کارڈ حبِ علیؓ کے لئے نہیں‘ بغض معاویہؓ کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح دشمن کو کچلا جائے! 

‎اس کالم نگار کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان میں مذہب کو سیاست اور تجارت کے لئے ایندھن کے طور پر برتا جا رہا ہے۔ (اس وقت بات سیاست پر ہو رہی ہے! تجارت کے حوالے سے پھر کبھی سہی)غور کیجیے! مذہبی جماعتیں عقائد کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہیں اور ووٹ مانگ رہی ہیں۔ مولانا ساجد میر اہل حدیث جماعت کے امیر ہیں اور اسی بنیاد پر سینیٹر بن جاتے ہیں۔ مولانا نورانی کے خلف الرشید بریلویت کے نام پر سیاست کر رہے ہیں‘ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق مرحوم کی جماعتیں دیو بندی عقاید کی علم بردار ہیں اور یہی ان کے سیاسی گروہوں کا طرّہ امتیاز ہے۔ تحریک لبیک نے الٹرا بریلوی بنیادوں پر پچھلا الیکشن لڑا۔ ایک امیدوار جب انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو ووٹرز سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ اپنے حلقے کی ترقی کے لئے جدوجہد کرے گا۔ ترقیاتی کام کرائے گا۔ سکول کالج بنوائے گا۔ سڑکیں پختہ کرائے گا۔ بے روزگاروں کو ملازمتیں دلوائے گا۔ یہی پارلیمنٹ کا کام ہے جہاں امیدواروں نے کامیاب و کامران ہو کر بیٹھنا ہے اور آئین سازی کرنی ہے۔ اب اگر کوئی امیدوار اس بنیاد پر ووٹ مانگتا ہے کہ وہ شیعہ ہے یا وہابی یا بریلوی یا دیو بندی تو پھر اس سیاست پر اور اس طرزِ سیاست پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے

‎ ستر برس سے اس ملک میں مذہب کے نام پر اور مذہبی بنیادوں پر سیاست ہو رہی ہے۔ دنیاوی ترقی تو کیا ہونا تھی‘ فرقہ واریت کا زہر پورے جسم میں پھیل چکاہے! یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام رہا۔ مذہب زندگیوں سے نکل گیا اور مذہبی جماعتوں کے سیاسی پرچموں میں آ گیا۔ جھوٹ، وعدہ خلافی‘ ملاوٹ‘ چور بازاری، ٹیکس چوری عام ہو گئی ہے۔ ملک کے اندر ہم ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے اور ملک سے باہر ہم پر اعتبار کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں!اکلِ حرام اس قدر عام ہو گیا ہے کہ ملازمین پوری تنخواہ وصول کر کے‘ وقت پر آتے ہیں نہ وقت پر جاتے ہیں‘ نہ ہی آج کا کام آج کرتے ہیں۔ یونین بازی نے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی کارکردگی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ 

‎اس صورتِ حال کا حل صرف ایک ہے کہ مذہب کو سیاست اور تجارت سے نکال کر زندگیوں میں جاری و ساری کیا جائے۔بجائے اس کے کہ میں اپنے عقیدے کی بنیاد پر کسی خاص پارٹی کو ووٹ دوں‘ مجھے یہ دیکھنا چاہیے کہ صبح سے شام تک میں اسلام کو اپنے اعمال کی کسوٹی بناتا ہوں یا نہیں! دفتر دیر سے پہنچوں‘ کام نہ کروں‘ سائل کو اذیت دوں، بازار میں کم تولوں، جھوٹ بول کر سودا بیچوں‘ اسمبلی میں پہنچوں تو اجلاس سے غیر حاضر رہوں اور حاضر ہوں تو سویا رہوں‘ وزیر بنوں تو ہفتے میں ایک دن دفتر آئوں‘رشتہ داروں کے حقوق ادا کروں نہ ملازموں کے ‘ دوسروں کا حق ہڑپ کر جائوں‘ اس سیہ کار اور ملعون طرزِ زندگی کے ساتھ ووٹ اگر میں جمعیت علماء کو دوں یا تحریک لبیک کو‘ یا جماعت اسلامی کو یا کسی اور مذہبی جماعت کو‘ تو سچ یہ ہے کہ میں پرلے درجے کا منافق ہوں اور میرا مذہب سے دور کا تعلق بھی نہیں! 

‎ستر برس کے دوران مذہب کے نام پر سیاست کر کے جو نتیجہ نکلا ہے وہ سب کے سامنے ہے! اب مذہب کو نجی معاملہ بھی بنا کر دیکھ لیجیے۔ جس ملک کے وزیر اعظم کی طرز رہائش کو حافظ سعید صاحب جیسا کٹر مسلمان عدالت میں مثال بنا کر پیش کرتا ہے اور جس ملک کے باشندوں کے حوالے سے مولانا طارق جمیل صاحب جیسا مبلغ یہ کہتا ہے کہ اپنے اعمال ہمیں دے دو‘ اُس ملک میں اور اس جیسے دوسرے ملکوں میں مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ وہاں جھوٹ بولا جاتا ہے نہ وعدہ خلافی کی جاتی ہے۔ ڈیوٹی پر ایک منٹ تو کیا‘ ایک سکینڈ تاخیر سے پہنچنے کا رواج نہیں! یہاں تک کہ کام کے دوران ذاتی میل دیکھنے اور مہمانوں کی خاطر مدارت کا بھی تصور نہیں! طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہاں مذہب کے نام پر کوئی ووٹ مانگتا ہے نہ لیتا ہے۔اسی لئے وہاں صادق خان لندن کا میئر بن جاتا ہے، ساجد جاوید برطانیہ کا وزیر داخلہ بن جاتا ہے۔ ہرجیت سنگھ سجّن کینیڈا کا وزیر دفاع بن جاتا ہے اور حلیمہ یعقوب سنگا پور کی صدر بن جاتی ہے۔ 

‎مذہب کو نجی معاملہ قرار دینے کو دل نہیں مانتا تو نہ قرار دیجیے۔بسم اللہ! مذہب کے نام پر سیاست کرتے رہیے مگر پھر کردار اور اخلاق بھی سنگا پور‘ برطانیہ اور کینیڈا جیسے پیدا کر کے دکھائیے!

Thursday, June 27, 2019

……‎دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتاہے کیا



‎آسمانوں سے مدد اتری ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے مثبت نتائج ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ 
‎ایف بی آر کے انٹرنیشنل ٹیکس کے شعبے نے بتایا کہ صرف متحدہ عرب امارات سے 346ارب روپے کے اثاثے ظاہر کئے گئے۔ سوئٹزرلینڈ سے 114ارب روپے، برطانیہ سے 89ارب روپے‘ سنگا پور سے 87ارب روپے اور برٹش ورجن آئی لینڈز سے 48ارب روپے تسلیم کئے گئے۔ غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی (ڈاکومنٹڈ) معیشت میں تبدیل کرنے کی طرف یہ ایک اہم اقدام ہے! اہم اور انقلابی اقدام! 

‎وہ زمانہ لد چکا جب ترقی یافتہ ملک منہ دوسری طرف پھیر لیتے تھے۔ اب ایسے قانونی اور دو طرفہ انتظامات ہو چکے ہیں کہ اطلاعات خفیہ نہ رہیں اور ان کا تبادلہ کیا جا سکے۔ گزشتہ برس پاکستان کو 28ملکوں سے ایسی اطلاعات موصول ہوئیں۔ اس سال لگ بھگ 71ملکوں سے مل رہی ہیں۔ اگلے دو تین برسوں میں یہ تعداد ایک سوتک پہنچ جائے گی۔ 

‎اقبال دائود دبئی میں پاکستان بزنس کونسل کے صدر ہیں۔ انہوں نے سکیم کے لئے دی گئی آخری تاریخ میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ دستاویزی دائرے میں داخل ہونا چاہتے ہیں اورمزید وقت مانگ رہے ہیں۔ 

‎خالد حسین چودھری شارجہ میں پاکستان سوشل سنٹر کے صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان پاکستانیوں کے لئے بہت اچھا موقع ہے جو غیر رجسٹرڈ جائیدادیں اور اثاثے قانونی حدود میں لانا چاہتے ہیں تاکہ ملک کو اور ملک کے عوام کو فائدہ ہو! 

‎عمران خان آئیڈیل وزیر اعظم نہ سہی! تحریک انصاف کی حکومت ایسی نہیں کہ اس پر صدقے قربان ہوا جائے مگر جو بھی اس ملک سے دلسوزی کا رشتہ رکھتا ہے‘ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ کیا اربوں کے اثاثے ظاہر کرانے کی ایسی کوشش نواز شریف ، یوسف رضا گیلانی یا راجہ پرویز اشرف کر سکتے تھے؟ اور کیا مولانا صاحب نے کبھی اس حوالے سے آج تک ایک لفظ بھی کہا؟ 

‎جناب ایاز امیر اور جناب ہارون الرشید کے سارے اعتراضات بجا! مگر انگریز ایک محاورہ استعمال کرتے ہیں
given conditions،
‎وہ حالات جودرپیش ہیں! وہ حالات جو ہمیں درپیش ہیں ان میں یہی کیا کم غنیمت ہے کہ ایک ایسا سربراہ حکومت ہاتھ آیا ہے جو اپنے کارخانوں، اپنی جائیدادوں اور اپنے اثاثوں کی فکر میں نہیں؟ جس کا بھائی، بھتیجا بہن، بیٹا‘ وزیر اعظم ہائوس میں کھڑپینچ بن کر نہیں بیٹھا ہوا۔ جو یہ نہیں کہہ رہا کہ سعودی عرب میں ٹیکس نہیں ہے تو پاکستان میں کیوں ہو؟ جسے یہ فکر ہے کہ ٹیکس ادا کیا جائے برآمدات بڑھیں‘ قانون اپنا دائرہ وسیع تر کرے اور دلدر دور ہوں! غلطیاں ہوئی ہیں ! اور بھی ہوں گی! مگر غلطیاں بلکہ حماقتیں‘بدنیتی اور بددیانتی سے بہتر ہیں! کئی گنا بہتر! 

‎حضرت مولانا اے پی سی کا انعقاد فرما رہے ہیں۔ اس پیرانہ سالی میں شریف اور زرداری خاندانوں کے بچوں کو بنفس نفیس دعوت دے رہے ہیں۔ بس چلے تو آن کی آن میں حکومت کو بھسم کر دیں اور عمران خان کو پتھر کے بت میں تبدیل کر دیں! مگر مصیبت یہ ہے کہ ان کا بس نہیں چل رہا۔ جنرل مشرف سے لے کر زرداری صاحب تک‘ نواز شریف سے لے کر شہباز شریف تک‘ ہر ایک پر ان کا جادو چلتا رہا۔ وہ حیران ہیں اور اس صدمے سے نکل نہیں پارہے کہ عمران خان میں اتنی جرأت! کہ انہیں دائمی اقتدار کے محل سے باہر پھینک دیا۔ 
‎اتنا طویل عرصہ منتخب اداروں میں بیٹھنے کے دوران‘ کیا کسی کو یاد ہے کہ مولانا نے کوئی قرارداد ایسی پیش کی ہو جس میں ملک کی معاشی، سماجی، زرعی یا صنعتی اصلاح کا پہلو ہو؟ کبھی لینڈ ریفارمز کی بات کی ہو؟ کبھی یکساں تعلیمی نظام کی بات کی ہو؟کبھی سرحدوں سے غیر ملکیوں کے آزادانہ آنے جانے پر پابندی کا مطالبہ کیا ہو؟ کبھی ملک میں رہائشی مکانوں کی قلت کا رونا رویا ہو؟ کبھی بھولے سے پوچھا ہو کہ برآمدات کیوں کم اوردرآمدات کیوں بڑھ رہی ہیں؟ کبھی کہا ہو کہ فلاں علاقے میں‘ کارخانے کم ہیں وہاں صنعت کاری پر توجہ دی جائے؟ کبھی عوام کے معیار زندگی پر کوئی بات کی ہو؟ 

‎چلیے وہ اپنے آپ کو مدارس کا واحد خیر خواہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اپنے طویل عہد اقتدار میں انہوں نے مدارس ہی کے موجودہ نظام میں کوئی اصلاح کی ہو! مدارس کے طلبہ کی خوراک اور پوشاک میں بہتری کی کوئی صورت نکالی ہو؟ کبھی یہ بتایا ہو کہ ہر سال مدارس سے اتنے ہزار یا اتنے لاکھ طلبہ فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیں‘ ان میں سے اتنوں کو روزگار ملتا ہے‘ اتنے بے روزگارہیں‘ ان کے لئے میں یہ تجویزپیش کرتا ہوں۔ کبھی مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کے لئے انہوں نے کوئی اقدام اٹھایا ہو‘ یا تجویز ہی کیا ہو؟ قلیل تنخواہوں پر قال اللہ اور قال الرسول کہنے والے یہ اساتذہ مالکان مدرسہ کے بدترین استحصال کا شکار ہیں۔ پنشن کا کوئی نظام ہے نہ جی پی فنڈ کا۔ ان کا اور ان کے کنبوں کا علاج! ان کی رہائش کے مسائل ! کیا کسی بھی پہلو کی طرف اس سارے عرصہ میں مولانا نے کوئی توجہ دی ہے؟ وہ اکثر ’’نظریات‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ آج تک ان نظریات کی تشریح کسی نے نہیں سنی۔ انہیں فکر ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت مغربی تہذیب کو رائج کرنا چاہتی ہے۔ جنرل مشرف‘ زرداری صاحب اور میاں برادران کی منظور نظر جس مشرقی تہذیب کی خاطر مولانا ان کا ساتھ دیتے رہے اس مشرقی تہذیب کی کوئی جھلک ہی یاد دلا دیں! 

‎دارالحکومت کو لاک ڈائون کرنے کا وہ عزم رکھتے ہیں۔ کیا مدارس کے طلبہ کو وہ اپنی آگ کا ایندھن بنانا چاہتے ہیں؟ ان طلبہ کو ان کے (اکثر غریب) ماں باپ نے مدارس میں اس لئے نہیں چھوڑا ہوا کہ وہ کسی کی طالع آزمائی کے لئے زینے کا کام دیں۔ یہ طلبہ کینچوے نہیں جنہیں کانٹے میں پرو کر پانی میں رکھا جائے کہ اقتدار کی مچھلی پھنسے۔ 

‎مولانا کے ہم نفس اور ہمدم جناب اچکزئی پیش منظر سے غائب ہیں۔ یہ سکون کیا کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے یا بلوچی گاندھی کے خلف الرشید کا دل اس لئے ٹوٹ گیا کہ ایم ایم اے کے ہاتھوں وہ اپنی نشست سے محروم ہو گئے؟ نازک وقت میں جب مولانا جگر لخت لخت کو جمع کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں‘ اچکزئی صاحب کو چاہیے کہ آ کر درمے‘ دامے‘ نہ سہی‘ سخنے تو مدد کریں ؟ کہ اس صورت حال میں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی غنیمت ہو گا! 

‎یہ سطورلکھتے وقت اطلاع ملی ہے کہ اچکزئی صاحب اے پی سی میں شریک ہو رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت بھی بلاول زرداری خود کر رہے ہیں۔ مریم صفدر اور شہباز شریف بھی شریک ہو رہے ہیں گویا جہاں تک شرکت کا تعلق ہے اے پی سی کا کورم پورا لگ رہا ہے۔ 

‎اس کانفرنس سے نہ صرف محروم اقتدار سیاسی رہنمائوں کی امیدیں بلکہ ان صحافتی بزرجمہروں کی مسرتیں بھی وابستہ ہیں جن کے آگے سے دستر خوان لپیٹ دیے گئے۔ جن کی ہیلی کاپٹروں اور ہوائی جہازوں کی وہ سواریاں چھن گئیں جو انہیں شاہ کی قربت مہیا کرتی تھیں اور جو چیتھڑوں کے لئے پرکشش اشتہارات حاصل کرنے میں کامیاب رہتے تھے ؎ 

‎دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا 
‎گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا 0

Tuesday, June 25, 2019

سدا نہ ماپے‘ حُسن، جوانی‘ سدا نہ صحبت یاراں


‎تو کیا وہی ہونے جا رہا ہے جو ہوتا آیا ہے؟ 

‎اب بھی عبادات سرکاری خزانے کے بل بوتے پر ہوں گی؟ اور وہی کریں گے جو آسانی کے ساتھ اپنی جیب سے کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ 

‎نیکی کے پردے میں لپٹی ہوئی یہ لوٹ مار مرد مومن مردِ حق نے ابتدا کی! قومی خزانے کی مرحوم کی نظر میں وہی وقعت تھی جو آئین کی تھی! آئین ان کے نزدیک کیا تھا؟ کاغذ کا ایک بے جان ٹکڑا ! قومی خزانہ ان کے لئے کیا تھا؟ جیسے ایک بادشاہ کے لئے ہوتا ہے! کبھی تختِ طائوس بنوا لیا‘ کبھی تاج محل! کبھی حرم کی حدود میں سربفلک محلات کھڑے کر لئے کہ نماز کہنے کو حدود حرم میں ادا ہو! درجنوں مثالیں ایسی ہیں جن سے جنرل ضیاء الحق کا قومی خزانے کے ساتھ شاہانہ رویہ ثابت ہوتا ہے۔ بہت کچھ اس پر لکھا جا چکا! کسی کو ابہام نہیں! جو انہیں بزعمِ خود افغان’’جہاد‘‘ کا مائی باپ گردانتے ہیں‘ وہ بھی یہ کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کہ جنرل صاحب وزارت خزانہ کو قواعد کے مطابق چلانے دیتے تھے! 

‎پھر وہ اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ ان کی عمر‘ ان کی خواہش یا دعا کے مطابق میاں نواز شریف کو جا لگی! میاں صاحب نے ستائیسویں رمضان کو جہاز سرکاری خرچ پر اپنے پسندیدہ افراد سے بھرنے اور حرمین شریفین جانے اور لے جانے کا سلسلہ جاری رکھا! 

‎لگتا ہے منہ کو لگی ہوئی یہ چاٹ پھر انگڑائیاں لینے لگی ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کی گئی کہ۔

‎ ’’پارلیمانی جماعتوں کے اراکین اور پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد کے امام پر مشتمل سرکاری وفد بھیجنے کے حوالے سے انتظامات کئے جائیں اور وفد کے لئے ارکان کی نامزدگی کی جائے جو حضورؐ کے روضہ پر جا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے انہیں سلام عقیدت پیش کرے‘‘ 

‎یہ قرار داد ایوان میں متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔انا للہ و انا الیہ راجعون! 

‎پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد کے خطیب پر لازم ہے کہ سمجھائے یہ غلط کام ہے! عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ رقم نفلی عبادت کے لئے دولت مندوں پر خرچ نہیںکی جا سکتی۔ فرض حج ہے وہ بھی اس پر جو مالی استطاعت رکھتا ہو! عمرہ نفلی عبادت ہے۔ جس نے کرنا ہے‘ سو بار کرے مگر اپنی جیب سے! اگر یہ لوگ بھوکے ننگے قلاش مفلس اور تہی دست ہیں تو عمرہ کرنے کے مکلف ہی نہیں! 

‎گمان غالب یہ ہے کہ سرکاری خطیب صاحب نہیں بتائیں گے۔ تقسیم ہند سے پہلے کسی نے کہا تھا ؎ 

اُچّے اچّے وعظ کریندا 
اے مُلّا سرکاری اے 

سرکاری ملائوں نے شیخ مبارک سے لے کر آج کے عمامہ پوشوں تک کبھی سچ کہا ہی نہیں! شرق اوسط میں دیکھ لیجیے۔ جب حکومت عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں تھی تو سرکاری ملا کہتے تھے کہ عورت ڈرائیونگ کرے تو بانجھ ہو جاتی ہے پھر جب حکومت نے موقف بدلا تو یہی سرکاری ملا نسوانی ڈرائیونگ کے فضائل بیان کرنے پر اتر آئے!

‎ تو پھر خطیب صاحب اور اسمبلی کے ارکان کو سرکاری خزانے کی مدد سے صاحب نصاب بھی بنا دیجیے تاکہ زکوٰۃ ادا کر سکیں! جس ملک کے ارب پتی وزیر‘ طوافِ کعبہ کے لیے بیس ریال کے چرمی موزے بھی سفارت خانے سے خریدوائیں‘ اس ملک کے ایم این اے سرکاری خرچ پر عمرے اور حج کیوں نہ کریں ع 

‎تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو 

‎یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے وزیر اعظم عمران خان کے لئے۔ ایک طرف سرکاری خرچ پر چائے کے ساتھ بسکٹ نہیں دیے جا رہے۔ دوسری طرف اگر ضیاء الحق اور نواز شریف کے زمانے کا یہ بے درد اور ظالمانہ رواج ایک بار پھر زندہ کر دیا گیا تو پھر شریف خاندان ہی بہتر ثابت ہو گا کہ اس نے تبدیلی کا وعدہ اور دعویٰ تو نہیں کیا تھا۔ اگر اس قبیل کی‘ نفاق سے بھری ہوئی‘ شہ خرچیاں ہوئیں تو یہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوں گی۔ 

‎سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان سے لاکھوں زائرین جو روضہ اقدس پر حاضر ہوتے ہیں‘ کیا اپنے ملک کی طرف سے سلام عرض نہیں کرتے؟ یقینا کرتے ہیں۔ اسی سلام کو شرفِ قبولیت بھی نصیب ہوتا ہو گا کیوں کہ یہ پاکستانی سرکاری خزانے کو لُوٹ کر نہیں‘ اپنی محنت کی کمائی خرچ کر کے حاضر ہوتے ہیں! 

‎ایک طرف خزانے میں نقب لگانے کی یہ کوشش ہو رہی ہے دوسری طرف مریم صفدر غیظ و غضب میں ہیں۔ طیش میں ہیں۔ تلملا رہی ہیں۔ کبھی وزیر اعظم کو نالائق اعظم کہتی ہیں‘ کبھی کہتی ہیں ووٹ چوری کر کے آئے ہیں۔ کبھی اعلان کرتی ہیں کہ جعلی حکومت سے حکومت کرنے کا حق چھین لیا جائے۔’’میں آخری حد تک جائوں گی اور عوام کے حقیقی نمائندے نواز شریف کو انصاف دلوا کر رہوں گی‘‘ 

‎صاف ظاہر ہے کہ یہ ردِ عمل کی سیاست ہے۔ اسے سیاست بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے والد اور اپنے خاندان کو بچانے کی کوشش ہے۔ غصہ اس قدر شدید ہے کہ کبھی چور کبھی نالائق اعظم کہہ کر دل کا غبار نکالا جا رہا ہے۔ آج اگر رہائی مل جائے اور لندن جانے کی اجازت ! تو سارا نام نہاد بیانیہ‘ ہوا میں تحلیل ہو جائے! شریف حکومت سے فائدے اٹھانے والے لکھاری مریم بی بی کے ہاتھ میں بیانیے کا جھنڈا پکڑانے کی جدوجہد کر رہے ہیں مگر اس نام نہاد بیانیے کا قوم سے کوئی تعلق نہیں!

‎ دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم صفدر نے کہا ہے کہ نواز شریف کو مرسی نہیں بننے دیں گے!اب معلوم نہیں اس خاتون کو مرسی کے بارے میں کتنا کچھ معلوم ہے! اخوان کا نام بھی سنا ہے یا نہیں! خلیل حامدی کی کتابیں اور اس موضوع پر عامر ہاشم خاکوانی اور آصف محمود کے عالمانہ کالم کہاں پڑھے ہوں گے! 

‎سابق صدر مرسی شہید کے بچوں نے پریس کانفرنسوں میں والد کی ڈسچارج سلپ اور ڈاکٹری رپورٹیں دکھا دکھا کر ہمدردی حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی! تاہم جس ملک میں سابق صدر آصف زرداری کو نیلسن منڈیلا کے ساتھ تشبیہ دی جا سکتی ہے اس ملک میں مرسی شہید کو نواز شریف کے ساتھ کیوں نہیں ملایا جا سکتا۔ یہاں سب کچھ ہو سکتا ہے 

‎؎ مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اک بوری
‎ سکھر کا پُل جہلم کا دریا‘ 
‎دونوں ہو گئے چوری!! 

‎بلاول زرداری اور مریم صفدر دونوں نوجوان رہنمائوں میں بے پناہ امارت کے علاوہ ایک قدر اور بھی مشترک سامنے آئی ہے!اور وہ ہے تکبّر ! بے پناہ تکبّر ! ایک نے ’’روک سکتے ہو تو روک لو‘‘ کہہ کر تاریخ اور تقدیر دونوں کو چیلنج کیا تھا۔ دوسرے نے وزیر اعظم کو یہ کہہ کر اپنی جوانی پر غرور کیا ہے کہ ’’تم ستر سال کے بوڑھے ہو اور میں تیس برس کا نوجوان ‘‘!!غرور دولت پر کرنا چاہیے نہ حُسن پر نہ جوانی پر! ہائے میاں محمد بخشؒ کہاں یاد آ گئے ؎ 

‎مان نہ کر یو روپ گھنے دا، وارث کون حسن دا 
‎سدا نہ رہن شاخاں ہریاں، سدا نہ پُھل چمن دا 

‎سدا نہ لاٹ چراغاں والی سدا نہ سوز پتنگاں 
‎سدا اُڈاراں‘نال قطاراں‘رہسن کدن کلنگاں 

‎لکھ ہزار بہار حسن دی خاکو وچ سمانی 
‎لا پریت محمد جس تھیں جگ وچ رہے کہانی

‎ مگر شکاری کرے تیاری بار چریندیاں ہرناں 
‎جو چڑھیا اُس ڈھیناں اوڑک‘ جو جمیا اس مرناں 

‎سدا نہ باغیں بلبل بولے سدا نہ باغ بہاراں
‎ سدا نہ ماپے‘ حسن جوانی‘ سدا نہ صحبت یاراں

Sunday, June 23, 2019

آدمی کو انسان بھی ہونا چاہیے


اُس شخص کا تو آپ کو معلوم ہی ہے جو خط لکھ رہا تھا ساتھ ایک مجہول کھڑا تھا اور خط پڑھے جا رہا تھا۔ خط لکھنے والے نے خط میں لکھا۔ ’’کچھ اور بھی لکھتا مگر ایک بے وقوفمیرے لکھنے کے دورانخط پڑھ رہا ہے‘‘ اس پر اُس مجہول شخص نے احتجاج کیا کہ میں تو خط پڑھ ہی نہیں رہا اور آپ نے مجھے بے وقوف کا خطاب دے دیا‘‘ 


جس طرح ہم سڑک پر تھوکتے ہیں یا انگلی کو ناک کی مفصل سیر کراتےی ہیں یا خلقِ خدا کے سامنے بغلیں کھجاتے ہیں یا ہمارے دکاندار حضرات (سب نہیں کچھ) گاہک کے سامنےقمیض آگے سے اٹھا کرمیلی واسکٹ سے کرنسی نوٹ نکالتے ہیں۔ اسی طرح ایک کثیف یعنی خبیث عادت یہ بھی ہے کہ دوسروں کی پرائیویسی پر بھر پور حملے کریں۔ کچھ دن ہوئے ایک صاحب کے ہاں دعوت تھی۔ ہم سب مہمان ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ سائیڈ ٹیبل پر ڈاک کا لفافہ پڑا تھا۔ خط اس میں نہیں تھا۔ جو بزرگ سائیڈ ٹیبل کی بغل میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے اچھی خاصی تکلیف کر کے اپنی کسی جیب سے عینک نکالی۔ اسے ناک پر جمایا پھر لفافہ اٹھایا اور ایڈریس پڑھا۔ یہ بھی کہ کس نے بھیجا ہے۔ وہ تو غنیمت ہے کہ صاحب خانہ سے وہ خط نہیں منگوایا جو اس کے اندر تھا اور خوش قسمتی سے نکال لیا گیا تھا۔ کوئی پوچھے کہ یہ لفافہ جس کے بھی نام تھا اور جس نے بھی ارسال کیا تھا آپ کا اس معاملے سے کیا تعلق؟ 


یہ کتنی بدتمیزی ہے کہ جب معلوم ہو مخاطب کے بچے نہیں تو پہلے تو اظہار تاسف کریں گے’’اوہو!‘‘ پھر سوال داغیں گے شادی کو کتنا عرصہ ہوا؟ اسی پر بس نہیں کریں گے۔ کھردرے پن کی آخری حد چھوئیں گے کہ میڈیکل چیک اپ کرایا ہے؟ ہر کوئی دوسرے سے تنخواہ پوچھ رہا ہےیا یہ کہ ووٹ کسے دیا تھا؟ جن ملکوں سے جمہوریت لے کر ہم نے اس جمہوریت میں کھوٹ ملایاوہاں میاں بیوی سے باپ بیٹے سےبھائی بہن سے نہیں پوچھتا کہ ووٹ کسے دو گے یا کسے دیا ہے؟ 


ایک نامناسب سوال جناب ظفر اقبال نے بھی محبوب سے پوچھا ہے ؎ 


کوئی گڑ بڑ اگر نہیں ہے تو پھر 

کیوں لیے پھر رہے ہو ساتھ کموڈ 


ہمارے دوست اور برخوردارہمایوں تارڑ صاحب نے کچھ پند نصیحتیں یکجا کی ہیں۔ ان میں سے کچھ ان کی تالیف ہیں اور کچھ تصنیف۔ افادۂ عام کے لئے یہاں درج کی جا رہی ہیں۔ 


ملاقات کے دوران ایسے سوالات نہ پوچھیں جو ذاتی نوعیت کے ہیں۔ جیسے ’’ابھی تک آپ نے گھر کیوں نہیں خریدا؟‘‘ ’’گاڑی کیوں نہیں رکھی ہوئی؟‘‘ 


پیچھے آنے والے کے لئے دروازہ کھول کر رکھیں خواہ وہ مرد ہے یا عورت ! حسن سلوک کی یہ معمولی سی جھلک آپ کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ کوئی دوسرا آپ کے لئے دروازہ کھول کر رکھتا ہے تو شکریہ ضرور ادا کیجیے۔ 


کسی شخص کو دوبار سے زیادہ کال مت کریں۔ کال اٹینڈ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مصروف ہے۔ یا آپ کی کال سننا نہیں چاہتا۔ 


جب بھی ادھار لیں، وقت کا تعین کریں۔ ایک روپیہ ہے یا کروڑوقت پر واپس کریں۔ نہیں کر سکتے تو مقررہ وقت پرذاتی طور پر حاضر ہو کر، توسیع کی اجازت لیں۔ اگر آپ سے کوئی قرض لیتا ہے اور وقت پر واپس کرتا ہے نہ شکل دکھاتا ہے، تو آئندہ اسے قرض دینے سے احتراز کریں۔ 


کوئی دعوت پر ریستوران لے جائے تو مہنگے مہنگے کٹے کھول کر نہ بیٹھ جائیں۔ مناسب یہ ہے کہ میزبان ہی کھانے کا آرڈر دے۔ 


کسی سے مذاق کر رہے ہیں اور وہ لطف اندوز نہیں ہو رہا تو رک جائیں۔ بعض اوقات مذاق ،تضحیک کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ 


دوسرے کی تعریف لوگوں کے سامنے کریں۔ اور تنقیدیا نصیحتتنہائی میں


کسی کے موٹاپے پر تبصرہ کرناخلاف آداب ہے ہاں اگر وہ خود اس پرگفتگو کرنا چاہیے تو متانت سے بات کیجیے۔ اچھا مشورہ دیجیے۔ بھد نہ اڑائیے۔ 


کوئی اپنے فون پر تصویر دکھاتا ہے تو تصویر کے دائیں یا بائیں سوائپ نہ کریں۔ صرف اسی تصویر پر اکتفا کریں جو وہ دکھانا چاہتا ہے۔


دفتر یا کارخانے میں سینئرز سے جھک کر بات کرنا اور اپنے ماتحتکلرکآفس بوائے یا ڈرائیور سے اکڑ کرسخت لہجے میں بات کرنایا مصافحہمعانقہ کرنے سے احتراز، آپ کے خاندانی پس منظر کے بارے میںبہت کچھ بتا دیتا ہے ع 


نہد شاخِ پُر میوہ سر بر زمیں 


میوہ دار ٹہنی جھکی ہوئی ہوتی ہے اور خزاں زدہبانجھ شاخاکڑ فوں میں رہتی ہے۔ 


کسی سے گفتگو کر رہے ہیں یا اس کی بات سن رہے ہیں تو اس دوران بار بار اپنے موبائل کی طرف توجہ نہ دیں۔ اگر ضروری پیغام بھیجنا ہے یا کال کرنی یا سننی ہے تو سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے معذرت کر کے اجازت لیں۔ 


پوچھے بغیر مشورہ نہ دیں۔ اس سے آپ کے مشورے کی ناقدری ہو گی!


 دوسروں کے معاملے میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ٹوہ نہ لگائیں۔ کرید کرید کر نہ پوچھیں۔کچھ باتوں کا معلوم نہ ہونا بھی بعض اوقات مصلحت پر مبنی ہوتا ہے۔ 


بحث کو طول دینا اور دوسرے سے بات منوانے کی سرتوڑ کوشش۔ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے۔ کوئی آپ سے متفق نہ ہو تو جذباتی نہ ہوں۔ گلے کی رگیں سرخ کرنے اور منہ سے جھاگ اڑانے کی ضرورت نہیں! اپنے آپ میں رہیں۔ خاموش ہو جائیں۔ یا بحث کو پرامن موڑ دیں یہ کہہ کر کہ ’’ہو سکتا ہے آپ درست کہہ رہے ہوں۔ تحقیق کر لیجیے‘‘ 


کسی جنرل سٹوروغیرہ پر قطار میں لگے گاہک کے بالکل ساتھ کھڑا ہونا مناسب نہیں۔ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوں۔ خاص طور پر وہ جو کائونٹر پر ٹرانزیکشن کرنے میں مصروف ہے اسے ڈسٹرب نہ کریں۔ جب وہ ٹرانزیکشن مشین پر اپنا پاس ورڈ درج کرتا ہے تو اس کی طرف نہ دیکھیں یہ اس کی پرسنل سپیس ہے۔ 


شب خوابی کے لباس میں بازار نہ جائیں۔ 


کسی کی گاڑی یا موٹر سائیکل کے پیچھے گاڑی کھڑی کرنایہ سوچ کر کہ میں تو منٹ میں آ ہی جائوں گاحماقت ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو آدھا گھنٹہ لگ جائے اور یاد بھی نہ رہے کہ گاڑی غلط پارک کر کے آئے ہیں۔ اس لئے گاڑی ہمیشہ مناسب جگہ پرقانون کے مطابق، پارک کریں۔ اگر غلطی ہو بھی جائے تو معذرت کریں۔ غلطی پر اصرار کرنا، یا دوسرے کی شکایت پر توجہ نہ دینا، ایسی فرعونیت ہے جس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ بڑائی غلطی ماننے میں ہے! جو غلطی نہیں مانتے وہ نیچ اور پست ذہن ہوتے ہیں۔ 


آپ کا سابقہ ایسے مرد یا خاتون سے بھی پڑ سکتا ہے جو لمبی بات کرنے اور غیر ضروری تفصیل میں جانے کی عادی ہو۔ ایسے موقع پر صبر کی ضرورت ہے۔ کوئی ایسا کلمہ نہیں کہنا چاہیے جو سخت یا تمسخر آمیز ہو۔ دوسری طرف کسی کو اس بات کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی کہ آپ کا وقت ضائع کرے۔ ایک حل اس صورت حال کا یہ ہے کہ خاموش رہیں اور اس قسم کا ریسپانس نہ دیں کہ اچھا؟ پھر کیا ہوا؟ دوسرا حل یہ ہے کہ نرمی سے کہیں کہ لب لباب بتا دیجیےمجھے کہیں پہنچنا ہے یا کوئی کام مکمل کرنا ہے۔ 


اس دنیا میں، اسی کرہ ارض پر، ایسے ملک بھی ہیں جہاں یہ سب کچھ، جس کی اوپر تلقین کی گئی ہے۔ معمول کی زندگی کا حصہ ہے! جہاں سامنے سے آنے والا مسکرا کر آپ کو ہیلوہائے کہے گے۔ جہاں شکریہ ادا کرنا اور غلطی پر معذرت کرنا اتنا ہی لازمی ہے اور اتنا ہی عام جتنا سانس لینا


مگر یہ بھی طے ہے کہ خوش اخلاقی اور ادب آداب کا دور دورہ وہاں ہوتا ہے جہاں معاشرتی انصاف رائج ہو جہاں چند خاندانوں کا رُول نہ ہو بلکہ رُول آف لا ہو!! ک










 

powered by worldwanders.com