Thursday, May 30, 2019
… اگلے پچیس سال کا قمری کیلنڈر جو استعمال ہو رہا ہے
Tuesday, May 28, 2019
چھاج بولے سو بولے چھلنی کیوں بولے
Sunday, May 26, 2019
عابدی صاحب
Saturday, May 25, 2019
مسئلے کا مستقل حل:آئینی ترمیم
Thursday, May 23, 2019
کتے ، خوک زادے اور ہنسانے والا
Tuesday, May 21, 2019
مولانا طارق جمیل ……صحرا میں اذان دے رہا ہوں
Sunday, May 19, 2019
کوئی ہے جو اس قتلِ عام کو روکے
یہی کہا ہے نا کہ کمزور ترین کرنسی ہے پاکستان کی؟
مان لیا کمزور ترین ہے! مگر گزارہ ہو جائے گا۔ ایک وقت فاقہ کر لیں گے۔ چُپڑی ہوئی نہ سہی‘ سوکھی کھا لیں گے۔ گوشت کے بجائے چٹنی پر قناعت کر لیں گے۔ مگر جس ملک میں ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفک میں سے ہو اس میں کون بچے گا؟ مغربی سیاح کا کمنٹ نہیں بُھولتا۔
People have been left on roads to kill each other!
خلق خدا شاہراہوں پر ایک دوسرے کو کھلے عام قتل کر رہی ہے!
قمر زمان کائرہ کا جواں سال بیٹا ٹریفک کے حادثے کی نذر ہو گیا ع
دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے!
جو ماں باپ ایسے روح فرسا سانحے سے گزر چکے ہوں۔ وہی اس قیامت کا اندازہ کر سکتے ہیں!اولاد ماں باپ کو کاندھا دینے کے لئے پال پوس کر بڑی کی جاتی ہے مگر جب موت و حیات کا مالک فیصلہ کر لے کہ باپ نے کاندھا دینا ہے تو آمناّ و صدّقناَ کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے! امانتیں سپرد کرنے والا امانتیں واپس لے لیتا ہے! وقت کا تعین وہی کرتا ہے! مگر ڈھلتی عمر والے ماں باپ اس کے بعد ہر روز مرتے ہیں!
ہر روز جیتے ہیں! کاش کوئی ایسا دلدوز حادثہ اس ملک کے اربابِ حل و عقد کو عقل سکھا دے کہ اس قتل عام کو روکنا ہے! مدتوں سے اس ملک کی شاہراہوں پر بدترین خانہ جنگی جاری ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ وحشیوں کو ڈرائیونگ لائسنس دے دیے جاتے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ بے مہار ڈمپر‘ ٹریکٹر‘ ٹرالیاں‘ سڑکوں پر دندنا رہے ہیں۔ کاروں کو کچل دیتے ہیں۔ کوئی پوچھ گچھ نہیں! کوئی نیاں نہیں۔ راولپنڈی میں پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر جیسا ہیرا‘ عالم فاضل‘ طلبہ کے دلوں پر حکمرانی کرنے والا۔ ڈمپر کے نیچے آ کر کچلا گیا۔ شہر کے رکھوالوں کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی!
ستر کی دہائی کے اوائل تھے۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کا ارادہ تھا۔ تیاری بھی تھی۔ اس لئے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اکنامکس میں ایم اے کرنے کے دوران‘ بنگالی دوست رفیق اللہ اکثر و بیشتر طعنہ دیتا کہ ایم اے کرنا ہو تو انگریزی ادب میں کیا جائے۔ ورنہ شاعری کا دعویٰ چھوڑ دو۔ اس کا تو اوڑھنا بچھونا ہی انگریزی ادب تھا۔ اداس آنکھوں سے افق کو دیکھتا اور شہزادہ ہیملٹ کا فقرہ دہراتا۔
To Be, or not to be that is the Question
اتنی دماغ شوئی کی کہ مغربی پاکستان واپس آ کر انگریزی میں ایم اے کی تیاری شروع کر دی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا۔ داخلہ بھیجنے کا وقت آیا تو سی ایس ایس کا داخلہ بھیج دیا۔ صرف چند ہفتے تھے لولی لنگڑی ‘ ماڑی موٹی‘ گرتی پڑتی تیاری کی! ایک پرچے کے لئے مسلمان ملکوں میں جاری ہم عصر تحریکوں کا حال درکار تھا۔اس موضوع پر کچھ مل ہی نہیں رہا تھا۔ کسی نے بتایا کہ خلیل حامدی کی تصنیف ’’عالم اسلام اور اس کے افکار و مسائل‘‘ دیکھو! کیا مبسوط تذکرہ کیا تھا خلیل حامدی صاحب نے انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک سب پر ان کی نظر تھی پھر ایک دن والد گرامی مرحوم کے پاس تشریف لائے۔ مولانا مودودی کی کسی کتاب یا کچھ کچھ کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرنے کی فرمائش کی۔ والد گرامی مرحوم کی صحت ان دنوں ڈانواں ڈول تھی! معذرت کی!
عربی زبان کے بحر ذخار خلیل حامدی کا انجام اس ملک میں کیا ہوا؟ کیا کسی کو یاد ہے؟ جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت کو تو شاید نام تک معلوم نہ ہو اس لئے کہ عبدالحمید صدیقی‘ مصباح الاسلام فاروقی‘ نعیم صدیقی‘ خلیل حامدی‘ ملک غلام علی‘ اسعد گیلانی‘ پروفیسر غلام اعظم اور خرم جاہ مراد جیسے اصحابِ قلم آج کی جماعت اسلامی کے لئے اجنبی ہیں۔ اب سیف رہی نہ قلم رہا ! ؎
گل گئے گلشن گئے جنگلی دھتورے رہ گئے
عقل والے چل بسے کچھ بے شعورے رہ گئے
اب تو پیش منظر پر وہ لوگ ہیں جو گہرا شعور اور ادراک رکھتے ہیں مگر کاروبار کا‘ پراپرٹی کا! کسی کے اعمال نامے میں کتاب تو کیا ایک صفحہ بھی ہو تو سورج مغرب سے طلوع ہونے کی ضد کرے! رہی تقریر! تو اس فن کے ایسے ایسے ماہرین ہیں کہ اچھے بھلے جاگتے کو تھپکی دے کر سلا دیں!
کیا انجام ہوا خلیل حامدی کا؟ ایک ٹرالی نے کہ شاید گنے ڈھو رہی تھی‘ ان کی گاڑی کوکچلا جیسے وہ انسان نہ ہوں‘ ایک بے بضاعت کپڑا ہوں! شیخ فریدالدین عطار کو ایک تاتاری سپاہی نے غلام بنا لیا۔ کسی نے اس غلام کو خریدنے کے لئے دس ہزار اشرفیاں پیش کیں۔ عطار نے سپاہی کو متنبہ کیا خبردار! اتنے میں نہ بیچنا۔ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے! ایک اور خریدار نے عطار کے عوض گھاس کے گٹھے کی پیشکش کی۔ عطار نے کہا لے لو! میری قیمت تو اتنی بھی نہیں ! سپاہی جھلا گیا۔ غصے میں قتل کر ڈالا۔ روایت ہے کہ بعد میں جب قاتل کو مقتول کا مقام و مرتبہ معلوم ہوا تو ندامت میں غرق ہوگیا۔ مسلمان ہو کر ان کے مزار پر ہی بیٹھ گیا۔ خلیل حامدی کو قتل کرنے والا ٹرالی کا ڈرائیور اس وحشی تاتاری سے بدتر تھا کیوں کہ اسے بعد میں بھی نہ معلوم ہوا ہو گا کہ اس نے ایک باکمال عالم مصنف اور مترجم کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
پاکستان کی ٹریفک آج 2019ء میں بھی بدترین ہے۔ مائوں کے لخت ہائے جگر بہنوں کے بھائی‘ دلہنوں کے سہاگ‘ بچوں کے باپ‘ گھروں سے نکلتے ہیں اور لاشوں کی صورت میں پلٹتے ہیں۔ پولیس کا رول صفر سے کم تر ہے۔ ہدایات نہ تربیت ! نہ قانون کا نفاذ! نہ جیل کا ڈر نہ پھانسی کا خوف! ویگن کا مالک ڈرائیور کو وارننگ دیتا ہے کہ اتنے منٹ میں تم نے اس روٹ پر ایک پھیرا پورا کرنا ہے تاکہ دن میں اتنے پھیرے لگ سکیں اور اتنی کمائی ہو سکے اب وقت کی یہ قید ڈرائیور کو مسلسل کوڑے مارتی ہے۔ اسے سڑک پر کوئی گاڑی دکھائی دیتی ہے نہ پیدل چلنے والا۔ وحشت اس کے سر پر سوار ہے۔ اتنے وقت میں پہنچنا ہے! خلق خدا کیوں نہ قتل ہو!
موٹر سائیکل سواروں نے الگ حشر برپا کر رکھا ہے۔ سانپ کی طرح ادھر سے ادھر دائرے بناتے ہوئے۔ گاڑیوں کے بیچ سے نکل کر زن سے جا رہے ہوتے ہیں! ٹرک ڈرائیور ہائی ویز پر کاروں کو راستہ نہیں دیتے۔ اکثر چرسی ہیں اور جرائم پیشہ! بڑے شہروں کو تو چھوڑ دیجیے‘ ضلع‘ تحصیل‘ یونین کونسل اور اس سے نیچے کی سطح پر جو حشر برپا ہے‘ ناقابل تصور ہے! پتھر کے زمانے میں گاڑیاں ہوتیں تو ٹریفک اس سے بدتر نہ ہوتی۔
جی ٹی روڈ‘ موت کا کنواں ہے۔ صرف گتکا کھیلنے کا ماہر اس پر کامیاب ڈرائیونگ کر سکتا ہے۔ اس شاہراہ پر سفر کرنے والا ہماری تہذیب‘ ہمارا کلچر‘ ہماری انسانیت ‘ہمارا ایمان۔ ہمارا اندر باہر سب کچھ جانچ لیتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیے۔ کتنے شہر درمیان میں پڑتے ہیں کسی شہر کی انتظامیہ میں خوف خدا ہے نہ عقل کہ بازار اور جی ٹی روڈ کے درمیان حدِ فاصل تعمیر کر کے سروس روڈ الگ بنا لیں۔ بازار اور شاہراہ آپس میں گڈ مڈ ہیں۔ ریڑھیاں شاہراہ پر ہیں اور گاڑیاں دکانوں میں گھس رہی ہیں۔ صندوق میں بندوق ہے بندوق میں گولی۔ اعصاب چٹخ جاتے ہیں۔ بازاروں کے لئے سروس روڈز الگ بن جائیں۔ بڑی شاہراہ اور سروس روڈ کے درمیان دیوار بنا دی جائے تو خلق خدا کو سکون ملے۔ ہر بار اس شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے لڑائی جھگڑے نظر آتے ہیں۔ ڈرائیور ایک دوسرے سے دست و گریباں‘ کہیں زخمی پڑے ہوتے ہیں کہیں لاشیں اٹھائی جا رہی ہوتی ہیں!
تہذیب و ترقی دو چیزوں سے جانچی جاتی ہے۔ ٹریفک اور واش روموں کی صفائی کا معیار! ہم دونوں میں ناکام ہیں!
کسی دوسرے ملک کو ٹھیکہ دے دیجیے کہ ہماری ٹریفک کو قانون کے دائرے میں لے آئے۔ اپنے حکمران‘ اپنے عمال ‘ یہ کام نہیں کر سکتے! شاید آئندہ ستر برس بھی!! ۔
Saturday, May 18, 2019
بد بخت کہیں کے
Thursday, May 16, 2019
اچھے ماتحت
Tuesday, May 14, 2019
اب افاقہ ہے؟
Sunday, May 12, 2019
جو ہو رہا ہے ہم اسی کے مستحق ہیں
کیا آپ کو یاد ہے مہاجن چوکی سامنے رکھے‘ دری پر بیٹھا ہوتا تھا؟
نواب صاحب کا منشی اس کے پاس آتا تھا۔ کہ نواب صاحب نے مزید قرض مانگا ہے۔ وہ کھاتہ دیکھتا تھا کہ پچھلا حساب کتنا ہے۔ پھر کچھ کہے یا پوچھے بغیر مطلوبہ رقم گن کر منشی کے حوالے کر دیتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ قر ض واپسی آنا ہی آنا ہے اور مع سود آنا ہے۔ نواب صاحب کے پاس رقم نہ بھی ہوئی تو جاگیر تو کہیں نہیں گئی۔ یوں آہستہ آہستہ جاگیر قسطوں میں مہاجن کے نام منتقل ہوتی رہتی تھی۔ اس زمانے میں کتنے ہی نواب قرض لے لے کر قرقی ہوئے۔ کچھ نے پیسہ طوائفوں کے کوٹھوں پر لٹایا کچھ نے کنیزیں پالیں اور ان پر فدا ہوئے کچھ کو شادیوں کا شوق تھا۔ کچھ شراب نوشی اور قمار بازی کے شیدا تھے۔ کچھ کو انگریز سرکار پنشن جتنی دیتی تھی وہ ان کے شاہانہ اخراجات کی متحمل نہ ہوتی تھی۔ واجد علی شاہ کو لکھنؤ سے نکال کر انگریزوں نے کلکتہ میٹا برج میں نظر بند کیا تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دکانداروں کو انہیں ادھار دینے سے منع کر دیا۔
مہاجن کا وصف یہ تھا کہ وہ نصیحت نہیں کرتا تھا۔ قرض دیتے وقت شرط نہیں عائد کرتا تھا کہ نواب صاحب اپنی سلطنت میں فلاں فلاں اصلاحات بروئے کار لائیں یا جاگیر کے انتظام و انصرام میں یہ یہ تبدیلی لائیں۔ آئی ایم ایف بھی مہاجن ہے۔ مگر جدید زمانے کا پڑھا لکھا طاقت ور مہاجن ! جس کا رعب داب اتنا ہے کہ قرض مانگنے والے ملکوں کو پندو نصائح کرتا ہے۔ اصلاحات تجویزکرتا ہے۔ پھر ان اصلاحات کا عملی نفاذ مانگتا ہے۔
اگر ہم گریبان میں لمحہ بھر کے لئے جھانکنا گوارا کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آئی ایم ایف کے بجائے اگر عہد رفتہ کا مہاجن ہوتا تو اب تک پاکستان کے وسیع رقبے اس کے نام منتقل ہو چکے ہوتے۔ ہم وہ نواب ہیں جس کی جاگیر بدترین بدانتظامی کا شکار ہے اور ہم خود شکار کھیل رہے ہیں اور کوٹھوں پر بیٹھے مجروں سے حظ اٹھا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے اختیار میں تھا کیا ہم نے کیا ؟ حکومتیں سٹیل مل اور پی آئی اے کی درجنوں یونینوں کے ہاتھوں یرغمال رہی ہیں آج بھی حکومت یرغمال ہے۔ پی آئی اے کو پے درپے ہر حکومت نے رشوت کے طور پر استعمال کیا آج بھی اچھی طرح یاد ہے ایک سیاسی جماعت کے دو لیڈروں کی دو ڈاکٹر بیٹیوں کی تعیناتی قومی ایئر لائن میں ہوئی تھی۔ جب کہ ملک کی ہزاروں ڈاکٹر بیٹیاں اس خصوصی سلوک سے محروم تھیں۔ کتنے عشرے گزر گئے کہ کسی اشتہار کے بغیر کسی اوپن مقابلے کے بغیر‘ بھرتیاں کی جاتی رہیں۔ کیا بائیں بازو کے کامریڈ اور کیا اسلام پسند۔ سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ گنتی کے چند جہاز اور دنیا بھر میں فی جہاز سب سے زیادہ ملازمین؟ یونینیں کوئی اصلاحات نہیں کرنے دیتیں۔پائلٹوں کی اپنی یونین، انجینئروں کی اپنی‘ انتظامی سائڈ والے الگ ۔ اس کا ایک ہی علاج تھا کہ اسے نجی شعبے کے حوالے کیا جاتا۔وہ اسے نفع نقصان کی بنیاد پر چلاتا اور یہ اندھیر نہ ہوتا کہ جہاز کے اندر اچھی نشستیں سب اپنے ملازمین کو دی جاتی ہیں جو مفت سفر کرتے ہیں۔
یہی حال سٹیل مل کا ہے۔ شریفوں سمیت سب کے نجی کارخانے کامیابی سے چل رہے ہیں صرف سٹیل مل سفید ہاتھی ہے ؎
انجم غریب شہر تھے اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
مگر حکومت اس سے جان نہیں چھڑا رہی ۔ہر سال اربوں روپے خیرات میں اس لولے لنگڑے کارخانے کو دیے جاتے ہیں۔
ہم کروڑوں روپے کی ماہانہ اس چوری کو نہیں روک سکتے جو گیس اور بجلی کی ملک کے اطراف و اکناف میں ہو رہی ہے آپ نااہلی اور بدانتظامی کی انتہا دیکھیے کہ گیس سائل کو قانونی طریقے سے نہیں دی جا رہی، وہ برسوں جوتے چٹخاتا ہے۔کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ رشوت دے کر چوری کا کنکشن لے لیتا ہے جس کا بل بھی نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی کے نرخ بڑھا دیں گے مگر ملک کے جن حصوں میں بجلی مفت دی جا رہی ہے، وہاںمفت دی جاتی رہے گی۔ چوری نہیں روکی جا رہی۔ پھر محکمے کے ہزاروں ملازمین جس بے دردی سے ایئر کنڈیشنر مفت استعمال کر رہے ہیں اس کا کوئی حساب ہے نہ تخمینہ!
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ تاجروں کی ہٹ دھرمی اور ملک دشمنی کتنی مہنگی پڑ رہی ہے؟ ٹیکس کی بات نہیں کی جا رہی۔ اوقات کار کی طرف اشارہ ہے۔ یہ کیسے محب وطن ہیں جو دن کے بارہ ایک بجے کاروبار شروع کرتے ہیں اور آدھی رات تک توانائی کو بے دردی سے استعمال کرتے ہیں پوری مہذب دنیا میں بازار نو بجے کھل جاتے ہیں‘ پاکستان میں دوپہر تک سناٹا رہتا ہے۔
آپ اداروں کی کارکردگی پر غور کریں گے توسر پیٹ لیں گے۔ نادرہ جیسے حساس ادارے میں غیر ملکی ملازمین پائے گئے۔ ہزاروں شناختی کارڈ غیر ملکیوں کو جاری کر دیے گئے۔ ترقیاتی ادارے کرپشن کا گڑھ ہیں۔ باقی شہروں کوچھوڑ دیجیے‘ وفاقی دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ نااہلی رشوت اور بدانتظامی سے ناسور بن چکا ہے ایک انتہائی طاقت ور یونین ہے جس کے عہدیدار دفتری کام کئے بغیر صرف دادا گیری کرتے ہیں۔ دارالحکومت کے رہائشی سیکٹر جھگیوں سے بدتر تصویر پیش کرتے ہیں۔ دکانداروں سے رشوت لی جاتی ہے۔ ناجائز تجاوزات کی بھر مار پارکنگ کے رقبے ریڑھیوں اور سٹال لگانے والوں کو ٹھیکے پر دیے جاتے ہیں۔ ترقیاتی ادارے کی آنکھوں کے سامنے ناجائز تعمیرات ہوتی ہیں۔ غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں تشکیل پاتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ بارہ کہو کے علاقے میں پہاڑ کاٹ کاٹ کر سرکاری زمینیں ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ مگر چیف کمشنر کا ادارہ کچھ کرتا ہے نہ ترقیاتی ادارہ!
آپ ترقیاتی ادارے کی نااہلی کا اندازہ ایک مثال سے لگائیے پورے وفاقی دارالحکومت میں اگر کوئی سڑک پر تعمیراتی سامان یعنی سریا’ اینٹیں‘ بجری‘ سیمنٹ رکھ دے یہاں تک کہ گزرگاہ بند ہو جائے تو اس ظلم سے روکنے والا کوئی نہیں۔ دوسری طرف بحریہ اور ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اس حرکت کو جرم قرار دے کر بھاری جرمانے عائد کئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ترقیاتی ادارے میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟
کیا عجب کل آئی ایم ایف حکومت پاکستان سے یہ کہے کہ قرض لینے سے پہلے اپنے ملازمین کو وقت کا پابند کیجیے۔ کیا افسر کیا کلرک کیا نائب قاصد دس گیارہ بجے سے پہلے دفتر‘ خواب گراں سے جاگتے نہیں! سائل آئے تو متعلقہ اہلکار نشست پر موجود نہیں ہوتا۔ ایک استدعا آئی ایم ایف سے ہم خود کرنا چاہتے ہیں کہ کسی طرح اہل پاکستان کو تقاریب وقت پر شروع کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اس لاقانونیت میں شادی بیاہ کی تقاریب کے علاوہ تمام سرکاری اور نجی تقاریب سرگرم کارہیں۔ یہ عجیب مست ملنگ اور دامن دریدہ قوم ہے کہ دعوتی کارڈ پر آٹھ بجے کا وقت لکھتے ہیں اور میزبان خود نو دس بجے سے پہلے نہیں نظر آتے۔ جن تقریبات میں وزیر اعظم صدر اور وزراء شرکت کرتے ہیں ان میں بھی یہی جاہلانہ رویہ اپنایا جاتا ہے۔
پاکستان میں وقت پر کوئی کام کرنے کا تصور سرے سے مفقود ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ مادام لگارڈے‘ جو آئی ایم ایف کی سربراہ ہیں۔ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں اور وقت کے ناقابل بیان ضیاع کو رکوائیں۔
اگر وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کی ناک کے عین نیچے وفاقی دارالحکومت میں اتنی دھاندلی‘ اتنی لاقانونیت اور اتنی انارکی کا دور دورہ ہے تو ضلعوں اور تحصیلوں میں جو کچھ ہو رہاہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر بادشاہ ہے۔ دوپہر کو دفتر آئے تو کون اعتراض کر سکتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ‘ ایس پی‘ تحصیلدار‘ پٹواری‘ فراعنہ اور نماردہ سے کم نہیں! پورا دن دفترنہ آئیں سائل بیٹھ بیٹھ کر سوکھ سڑ جائیں تو کوئی تلافی ہے نہ شنوائی!
جس قوم کے یہ لچھن ہوں وہ دنیا میں سر اٹھا کر کیسے چل سکتی ہے؟ وہ اسی قابل ہے کہ کشکول ہاتھ میں اٹھائے‘ رُسوا ہوتی رہے!