اشاعتیں

فروری, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

‎فرسودہ رسمیں نعمت بھی ثابت ہو سکتی ہیں

‎جمعہ کی نماز ختم ہوئی تو یوں لگا جیسے میلے کا سماں تھا۔ سب ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ ‎ اس مسجد کا انتظام مصریوں کے سپرد تھا۔ اگرچہ علاقے میں آبادی زیادہ صومالیہ کے پناہ گزینوں کی تھی۔ زیادہ تر مصری کوٹ پتلون میں ملبوس تھے۔ کچھ نے نکٹائیاں بھی لگائی ہوئی تھیں۔ مسجد کے احاطے ہی میں ایک کمرہ انتظامیہ نے بیٹھک کے طور پر مختص کر رکھا تھا۔ جمعہ کی نماز کے بعد مصری نمازی اور مسجد کے منتظمین یہاں اکٹھے ہوتے۔ کمرے میں بڑا سا ریفریجریٹر رکھا تھا یہ کھانے پینے کی اشیا سے بھرا رہتا۔ جو آتا مصری یا غیر مصری‘ اپنی پسند کی شے لے لیتا۔ کافی اور چائے کا بندوبست فیاضانہ تھا۔ ایک بڑے سے ٹوکرے میں ڈبل روٹیوں کا ڈھیر پڑا رہتا۔ سفید پوش ضرورت مند گھر کے لئے لے جاتے۔ ایک دو بار یہ کالم نگار بھی گھر سے کچھ پکوا کر لے گیا اور ریفریجریٹر میں رکھ دیا۔  ‎یہ رواج اچھا لگا کہ ہفتہ وار عبادت کے بعد اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ کچھ اپنی سناتے ہیں۔ کچھ دوسروں کی سنتے ہیں۔ وطن سے ‎ہزاروں میل دور ایسی محفلیں غریب الوطنی کے زخم پر مرہم ثابت ہوتی ہیں کہ کہاں چھائوں گھنی ہو کچھ دیر کے لئے بیٹھ جائیں مگر یہ سب باتیں ضمنی ہیں۔ اصل ...

Grow up انور مقصود صاحب!!

برسوں کا نہیں، صدیوں کا احساس کمتری بھارتی حکومت کو چین کا سانس نہیں لینے دیتا۔  تقسیم کے بعد پہلی بار آر ایس ایس کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔ بی جے پی کیا ہے؟ آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے زعم میں ایک ہزار سال کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتے ہیں۔ پاکستان پر بس نہ چلے تو بھارتی مسلمان تو ان کے پنجے میں ہیں۔ وہ بھاگ کر کہاں جائیں گے؟  T آر ایس ایس کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے شیوا جی اور افضل خان کے واقعہ سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ اورنگ زیب کا زمانہ تھا۔ افضل خان نے شیوا جی کے گرد گھیرا تنگ کیا تو چالاک شیوا جی نے مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ شرط یہ تھی کہ فوج دور ٹھہرے گی۔ خصوصی خیمہ تانا گیا۔ بلند قامت افضل خان کے سینے میں پستہ قد شیوا جی نے گلے ملتے وقت خنجر بھونکا اور یوں ’’فتح‘‘ حاصل کرلی۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎  سچ کہتا تھا افضل خان  تری پورہ تا راجستان  مر گیا ہندو میں انسان  مجسم فریب شیوا جی کو اورنگ زیب ’’موش کوہستانی‘‘ کہتا تھا۔ پہاڑی چوہا، آج شیوا جی کی معنوی اولاد افضل خان کے بلند قامت جانشینو...

بٹوا صرف میری جیب میں رہے گا

   ‎یادش بخیر!کل شہباز شریف بہت یاد آئے!  ‎اپنے وقت کے شیر شاہ سوری!  ‎آہ! اصل شیر شاہ سوری کو وہ دریا دل لکھاری نہ نصیب ہوئے جو تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے! شہباز شریف قسمت کے دھنی تھے۔ ع  ‎اقصائے چیں سے تابہ سوادِ طرابلس  ‎ان کی پنجاب سپیڈ کے چرچے ہوئے۔ تصویر یہ پیش کی گئی کہ پورا پنجاب ترقی کے آسمان پر چڑھ کر کہکشائوں میں شامل ہو گیا ہے۔ یہاں تک دعویٰ کیا گیا کہ جس طرف سے بھی صوبے میں داخل ہوں حیران کن ترقی نظر آتی ہے! ‎ کل پنڈی بھٹیاں سے چنیوٹ جانا پڑا اور چودہ طبق روشن ہو گئے۔ ‎ 35 کلو میٹر کا یہ فاصلہ ثابت کرتا ہے کہ منظم تشہیر کس طرح سیاہ کو سفید بنا کر پیش کرتی ہے اور پھر مسلسل اصرارکس طرح لوگوں کو قائل کر دیتا ہے کہ سیاہ ہی سفید ہے۔ یعنی جھوٹ بولو اور اس قدر تسلسل سے بولو کہ سچ بن جائے۔  ‎مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ شاہراہ جسے شاہراہ‘ کہنا لغت میں شاہراہ کا معنی تبدیل کرنے کی واردات ہو گی‘ شیر شاہ سوری صاحب کے 2008ء میں تخت نشین ہونے کے بعد ’’بنائی‘‘ گئی کچھ عرصہ بعد یہ بہہ گئی تب سے آج تک عوام اس پر دھکے کھا رہے ہیں۔ گاڑیوں کے انجر ...

شرم تم کو مگر نہیں آتی

آپ کا کیا خیال ہے پاکستان میں کثیف ترین جگہ کون سی ہے؟  ایک زمانے میں سنتے تھے کہ گوجرانوالہ ایشیا کا سب سے زیادہ گندا شہر ہے مگر آج معلومات کا جو خزانہ آپ کو حاصل ہونے لگا ہے، اس کے بعد گوجرانوالہ آپ کو پیرس لگے گا۔  کیا آپ خیبرپختونخوا کے کسی دور افتادہ گائوں یا پنجاب کی کسی کچی بستی کا سوچ رہے ہیں؟ کیا کثیف ترین مقام سے آپ کے ذہن میں اندرون سندھ کی کوئی گوٹھ آ رہی ہے؟  نہیں! آپ غلط ہیں، آپ فریب خوردہ ہیں۔ میرے خیبرپختونخوا کے گائوں، میرے پنجاب کے قریے، میرے سندھ کے گوٹھ صاف ستھرے ہیں، کچے صحنوں میں دلہنیں نانیاں دادیاں چاچیاں مائیں بہنیں صبح شام جھاڑو دیتی ہیں۔ ایک ایک کمرے سے گرد جھاڑی جاتی ہے۔ ایک ایک برتن مانجھ کر چمکایا جاتا ہے۔ مکان کچے سہی، دیواریں مٹی کی سہی، برتن معمولی قیمت کے سہی اجلا پن ضرور ہوتا ہے۔ یہ عورتیں صبح سے شام تک اپنے گھروں کو بہشت کا ٹکڑا بنانے میں لگی رہتی ہیں۔ دھریک اور نیاز بو کے پودے بہار دکھاتے ہیں۔ انار کے سرخ پھول عاشقوں کی آنکھوں سے ٹپکے ہوئے آنسو یاد دلاتے ہیں ؎  گل انار کچھ ایسے کھلا تھا آنگن میں  کہ جیسے کوئی کھ...

میں کن کو اَن فرینڈ کرتا ہوں

اس میں کیا شک ہے کہ سوشل میڈیا جس مقدار اور جس رفتار سے سروں پر سوار ہوا ہے اس سے پناہ مانگنے کو جی چاہتا ہے۔ ایک شترِ بے مہار! جو مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے گھر کے اندر‘ آپ کی خواب گاہ میں اور پھر آپ کے بستر پر آبراجمان ہوا ہے۔  مگر جہاں مہمیز لگی ہے‘ وہاں لگام بھی خوش قسمتی سے آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے‘ آپ یہ لگام کسی بھی وقت کھینچ کر سوشل میڈیا کے حملے کو بہت حد تک بے اثر کر سکتے ہیں۔  مکروہ ترین خلل وہ تاجر ڈالتے ہیں جو اپنی اشیا فروخت کرنے کے لئے آپ کے موبائل فون پر اشتہار بھیجتے ہیں۔ اس عذاب پر کچھ دن پہلے یہ کام نگار تفصیل سے لکھ چکا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) اس کا سدباب کر دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی اے میں نچلی اور درمیانی سطح پر کوئی شنوائی نہ ہوئی مگر اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب ادارے کے نئے سربراہ جنرل عامر نے ٹیلی فون کال کا باقاعدہ جواب دیا اور یقین دہانی کرائی کہ اس مکروہ خلل کا سدباب کرنے میں ان کا ادارہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا ہے نہ کرے گا۔ آپ کو جس نمبر سے اشتہارات موصول ہو رہے ہیں۔ پی ٹی ...

صرف ایمان نہیں!جہان بھی چاہیے جناب وزیراعظم

  سگِ خانہ خراب بھی بیٹھتا ہے تو بیٹھنے سے پہلے جگہ کو دُم سے صاف کر لیتا ہے۔  دارالحکومت کھنڈر کا سماں پیش کر رہا ہے کیا وزیر اعظم نے ان کے عمائدین نے‘ ان کے وزراء اور امرا نے وہ بڑے بڑے ڈائنو سار جتنے ڈھانچے نہیں دیکھے جو شاہراہ کشمیر کے دائیں کنارے اور بائیں کنارے ایک ایسے شہر کا منظر پیش کر رہے ہیں جس کی آبادی نقل مکانی کر کے کہیں اور جا بسی ہو!  گائوں کا لڑکا افسر بن گیا تو ایک دن اس کے ایک بزرگ اس سے ملاقات کو آئے۔ انہوں نے اسے وہ فارمولا بتایا جس کی وزیر اعظم عمران خان کو اشد ضرورت ہے! کہا:برخوردار! جب کوئی اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو لوگ اپنے مسئلے لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اگر وہ سائل کا کام نہیں کرتا‘ ہاں چائے پانی کا اچھی طرح پوچھتا ہے تو سائل باہر جا کر اس کے بارے میں مشہور کرتا ہے کہ اس کا ایمان تو خوب ہے مگر افسوس! جہان اس کا خراب ہے! اگر وہ سائل کا کام کر دیتا ہے مگر چائے پانی کا‘ خیر خیریت کا نہیں پوچھتا تو سائل اس کی شخصیت کا خاکہ یوں کھینچتا ہے کہ جہان تو اس کا اچھا ہے مگر ایمان نہیں ہے۔ پھر اگر وہ کام بھی کر دے اور مہمان نواز...

خطرناک ترین حملہ

رات بھر نیند نہ آئی۔ حملہ ہونے میں صرف دو دن رہ گئے تھے -  اگلا   دن بھی اضطراب میں گزرا۔ شام ڈھلی تو کرب میں اضافہ ہو گیا۔ رات پھر پیچ و تاب میں بسر ہوئی۔ کل صبح اٹھا تو سب سے پہلے کیلنڈر دیکھا۔ امتِ مسلمہ پر خوف ناک حملہ ہونے میں چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت رہ گیا تھا۔  وہ تو اخبار کھول کر دیکھا تو جان میں جان آئی!اللہ! تیرا شکر ہے ہمارے علماء خبردار اور ہوشیار ہیں۔ جنہوں نے اس سیلاب کے آگے بند باندھ دیا۔ ورنہ مذہب، ملت، قوم، پاکستان سب کچھ بہہ جاتا۔  جنہوں نے یہ خبر سن لی ہے وہ سجدہ ریز ہو جائیں، اور جوتاحال لا علم ہیں، وہ جان لیں کہ ایک نہیں، دو نہیں، پانچ نہیں، دس نہیں، پورے پچاس علماء نے ویلنٹائن ڈے کے حملے کے آگے بند باندھ دیا ہے۔  علما اور مفتیانِ کرام نے اپنے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں جو نکات بیان فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔  اوّل:ویلنٹائن ڈے غیر اسلامی، مغربی اور اخلاق سوز تہوار ہے۔  دوم: حکومت اس پر پابندی لگائے۔  سوم:اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں مغربی ماحول پیدا کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔  چہارم:پوری قو...

شکنجا جو کسا جانے والا ہے

وہی ہوا جس کا ڈر تھا  وہی ہونے جا رہا ہے جو ہوتا آیا ہے۔  آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ قرضہ لینا ہے تو روپکی قدر مزید گھٹائو۔ بجلی مہنگی کرو۔ گیس کے نرخ بڑھائو! کس کو نہیں معلوم کہ آئی ایم ایف ترقی پذیر ملکوں کے لئے بدترین ساہوکارہ ہے۔ یہ اندرونی معاملات میں کھلم کُھلا مداخلت کرتا ہے۔ ہاتھ پائوں باندھ دیتا ہے۔ اس کا پسندیدہ کلہاڑا جو یہ قرض خواہ ملک پر چلاتا ہے’’سٹرکچرل(Structural)ریفارمز‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنا۔  آئی ایم ایف کی سخت گیر سربراہ کرسٹائن لگارڈے اصلاً فرانس سے ہے۔ فرانس میں کئی وزارتوں کی انچارج رہی۔2011ء میں آئی ایم ایف کی سربراہ بنی۔ جن ملکوں نے اس کے انتخاب کی حمایت کی ان میں بھارت بھی تھا! اس کے مقابلے میں میکسیکو کے بینک کا گورنر تھا۔ ہسپانیہ سمیت لاطینی امریکہ کے ملکوں نے اس کا ساتھ دیا۔ اگر وہ منتخب ہو جاتا تو آئی ایم ایف کا پہلا غیر یورپی سربراہ ہوتا مگر یورپ نے یہ سرداری اپنے ہاتھ سے نہ نکلنے دی۔ امریکہ نے بھی یورپ کا ساتھ دیتے ہوئے اس سخت گیر خاتون کی حمایت کی۔  اس وق...