Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, February 28, 2019

‎فرسودہ رسمیں نعمت بھی ثابت ہو سکتی ہیں





‎جمعہ کی نماز ختم ہوئی تو یوں لگا جیسے میلے کا سماں تھا۔ سب ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔

‎ اس مسجد کا انتظام مصریوں کے سپرد تھا۔ اگرچہ علاقے میں آبادی زیادہ صومالیہ کے پناہ گزینوں کی تھی۔ زیادہ تر مصری کوٹ پتلون میں ملبوس تھے۔ کچھ نے نکٹائیاں بھی لگائی ہوئی تھیں۔ مسجد کے احاطے ہی میں ایک کمرہ انتظامیہ نے بیٹھک کے طور پر مختص کر رکھا تھا۔ جمعہ کی نماز کے بعد مصری نمازی اور مسجد کے منتظمین یہاں اکٹھے ہوتے۔ کمرے میں بڑا سا ریفریجریٹر رکھا تھا یہ کھانے پینے کی اشیا سے بھرا رہتا۔ جو آتا مصری یا غیر مصری‘ اپنی پسند کی شے لے لیتا۔ کافی اور چائے کا بندوبست فیاضانہ تھا۔ ایک بڑے سے ٹوکرے میں ڈبل روٹیوں کا ڈھیر پڑا رہتا۔ سفید پوش ضرورت مند گھر کے لئے لے جاتے۔ ایک دو بار یہ کالم نگار بھی گھر سے کچھ پکوا کر لے گیا اور ریفریجریٹر میں رکھ دیا۔ 

‎یہ رواج اچھا لگا کہ ہفتہ وار عبادت کے بعد اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ کچھ اپنی سناتے ہیں۔ کچھ دوسروں کی سنتے ہیں۔ وطن سے
‎ہزاروں میل دور ایسی محفلیں غریب الوطنی کے زخم پر مرہم ثابت ہوتی ہیں کہ کہاں چھائوں گھنی ہو کچھ دیر کے لئے بیٹھ جائیں مگر یہ سب باتیں ضمنی ہیں۔ اصل بات جو بتانی ہے اور ہے۔ 

‎نماز ختم ہوئی تو میں ایک واقف کار کے ساتھ کھڑے ہو کر باتیں کر رہا تھا۔ اس دن شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ دیکھا تو ایک صاحب شلوار قمیض میں ملبوس‘ میری طرف بڑھے اور مسکرا کر مصافحہ کیا سر پر گول ٹوپی تھی۔ داڑھی سرسید احمد خان کی داڑھی سے ملتی جلتی تھی۔ مگر بہت زیادہ منتشر۔ لگتا تھا داڑھی کو کنگھی تو خیر کبھی بھی نہیں کی گئی۔ باقاعدہ کوشش کر کے اسے بے ترتیب کیا گیا ہے۔ راولپنڈی کی ٹھیٹھ مضافاتی پنجابی میں انہوں نے پوچھا۔ پاکستان سے آئے ہیں؟ کہا جی ہاں! فرمانے لگے‘ غلطی کی آپ نے نہیں آنا چاہیے تھا۔ پوچھا کیوں؟ کہنے لگے اچھی جگہ نہیں ہے۔ غیر مسلم ملک ہے۔ 

‎یہ مولانا عبدالکریم سے پہلی ملاقات تھی۔ (نام مصلحتاً بدل دیا ہے) اس کے بعد ان سے دوستی ہو گئی۔ دلچسپ اور دلکش شخصیت! قائد اعظم یونیورسٹی سے سائنس کی کسی برانچ میں پی ایچ ڈی تھے۔ دارالحکومت کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں ملازمت کرتے تھے۔ نکال دیے گئے۔ خدا جانے اصل وجہ نکالے جانے کی کیا تھی۔ بہر طور اب پچیس تیس سال سے آسٹریلیا میں تھے۔ کچھ عرصہ انڈونیشیا کے کسی سکول میں پڑھایا مگر قرار نہ ملا۔ اب پوری فیملی کو آسٹریلین شہریت ملی ہوئی تھی۔ سرکار کے دیے ہوئے خیراتی مکان میں رہائش پذیر تھے۔ افراد خانہ ’’گزارہ الائونس‘‘(سوشل سکیورٹی) لے رہے تھے۔ خود مولانا تبلیغی جماعت کے لئے پرجوش اور خطیبانہ جذبات رکھتے تھے۔ کبھی کبھی فون کرتے کہ آ رہا ہوں مسجد چلنا ہے فارغ ہوتا تو ان کے ساتھ چلا جاتا۔ اس سے انہیں بہت مسرت اور اطمینان ملتا۔ ہر بار سمجھا بجھا کر لے جاتے کہ کسی تبلیغیے سے بحث نہیں کرنی۔ مگر میں ان کے کسی نہ کسی ساتھی کو بحث میں ’’ملوث‘‘ کر ہی لیتا۔ ایک بار تھوڑے سے دل برداشتہ ہو گئے فرمانے لگے آپ کو لانے کا فائدہ تو کوئی ہے نہیں! یقین دلایا کہ بہت فائدہ ہے۔ نماز باجماعت مل جاتی ہے۔ خوش ہو گئے۔ 

‎جس نووارد پاکستانی یا انڈین مسلمان سے ملتے اسے یہ ضرور باور کراتے کہ اس نے آ کر غلطی کی ہے۔ ایک صاحب نے پوچھا مولانا! آپ خود کیوں آئے ؟ کہنے لگے بس غلطی ہو گئی۔ ان کا خیال تھا کہ بچے ان کے  آسٹریلیا میں رہتے ہوئے مذہبی نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ مسجد میں وہ اکثر دیکھے جاتے۔ ایک بار چائے پلانے گھر لے گئے ان کے صاحبزادے نے شارٹس(نیکر) پہنی ہوئی تھی۔ اسے خوب ڈانٹا۔ وہ آگے سے خاموش ہی رہا۔ چلا گیا تو عرض کیا کہ مولانا جوان اولاد ہے۔ دوسروں کے سامنے نہ ڈانٹا کیجیے۔ اور پھر شارٹس تو یہاں گرمیوں میں سب پہنتے ہیں۔ کہنے لگے ہاں یہ دوسروں کے سامنے نہ ڈانٹنے والی بات کچھ اور دوستوں نے بھی سکھائی ہے!! یہ اعتراف کرتے وقت ان کے چہرے پر اس قدر سادگی تھی کہ بے اختیار ہنسی آ گئی۔ 

‎ایک بار معلوم ہوا کہ مولانا ہسپتال داخل ہیں دل کا کوئی عارضہ ہے۔ ہسپتال قریب ہی تھا۔ ایک پاکستانی ماہر امراض قلب کو لے کر پہنچا۔ وارڈ میں دو اور مریض بھی تھے۔ دونوں سفید فام مقامی باہم پہنچے تو مولانا بے قراری کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی فریاد کی’’انہوں نے مجھے زبردستی یہاں رکھا ہوا ہے۔ مجھے دل کا کوئی مسئلہ نہیں میرے گھروالوں کی شرارت ہے‘‘ مشکل سے چارپائی پر بٹھایا۔ پاکستانی ڈاکٹر نے معائنہ کیا۔ کاغذات دیکھے اور بتایا کہ دل کی تکلیف ہوئی تھی۔ اب سٹنٹ ڈالیں گے۔ مولانا مصر تھے کہ سٹنٹ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر یہ سب باتیں ضمنی ہیں۔ بات جو بتانی ہے اور ہے۔ 

‎پہلی بار مولانا ہمارے ہاں تشریف لائے تو تحفے کے طور پر دودھ کی ایک بڑے سائز کی بوتل لائے۔ عام طورپر لوگ چاکلیٹ یا کیک لاتے ہیں۔ اگر پاکستانی یا انڈین مٹھائی کی دکان نزدیک ہوتو مٹھائی‘ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ازراہ تکلف مولانا کو کہا کہ آپ نے کیوں تکلیف کی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ضرورت کی شے ہے! یہ تھی معاملے کی جڑ ، یہ تھا 

Crux of the Matter

‎یعنی ضرورت کی شے۔ 

‎کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کسی عزیز یا دوست کے گھر جا رہے ہیں تو کیا لے کر جا رہے ہیں؟ ہماری ثقافت کا حُسن ہے کہ خالی ہاتھ جانا معیوب گردانا جاتا ہے‘ کسی کی ترقی ہوئی ہے یا کوئی حج یا عمرہ کر کے آیا ہے تو مبارک دینے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ ہے یا کیک، شام کو گھر والے دیکھتے ہیں کہ بیس کیک اور تیس مٹھائی کے ڈبے پڑے ہیں۔ ریفریجریٹر میں اتنی جگہ نہیں اور کھا کر ختم کرنا ممکن نہیں! 

‎ایک زمانہ تھا کہ اگر کوئی ملنے آتا تھا اور اس کا قیام دور ہوتا تھا تو بزرگ اس کے ہاتھ پر کچھ رقم رکھتے تھے کہ یہ تمہاری دعوت کے لئے ہیں اس لئے کہ اتنی دور سے دعوت کھانے آئو گے تو راحت کے بجائے کلفت ہو گی۔ یہ ایک پریکٹیکل اور حقیقت پسندانہ رویہ تھا۔ یہ رویہ اس وقت بھی ضروری ہے جب کسی کے گھر جانے کے لئے ہم کچھ خریدتے ہیں۔ بیکری میں جہاں کیک پڑے ہیں اور ایک کونے میں مٹھائی کا شوکیس دھرا ہے۔ وہیں بسکٹ بھی ہیں اگر کیک یا مٹھائی کے بجائے بسکٹ لے لیں تو ان کی افادیت زیادہ ہو گی۔ ایک دوست کی بیگم بتا رہی تھیں کہ فلاں موقع پر آپ بسکٹ لائے تھے تو کئی دن بچے سکول لے جاتے رہے۔ 

‎کسی عزیز کے ہاں جاتے وقت آپ نے کچھ نہ کچھ تو لے کر جانا ہے۔ جتنا بجٹ آپ نے مٹھائی یا کیک کے لئے ذہن میں مختص کر رکھا ہے اس میں آپ مٹھائی یا کیک کے بجائے وہ اشیاء خرید سکتے ہیں جن کی افادیت کہیں زیادہ ہے۔ فرض کیجئے آپ یہ اشیا خریدتے ہیں۔ شہد کی شیشی‘ خواہ دو یا اڑھائی سو گرام کی ہو۔ جام یا مارملیڈ کی بوتل۔ ایک پیکٹ سوئیاں یا شیر خورما۔ ایک ڈبہ دلیا یا کارن فلیکس۔ ایک پیکٹ پنیر۔ نمکو کا پیکٹ۔ چند ڈبے بسکٹ کے، دو ڈبے پھلوں کا رس۔ آپ کی جیب سے تو رقم ہر حال میں جانا ہی تھی۔ اس سے اگر میزبان کے گھر والوں کو آرام مل جائے تو کیا بری بات ہے!! 

‎شہروں سے دور‘ قریوں اور بستیوں میں جہاں تہذیب اور عقل دونوں عملی شکل میں کارفرما ہیں‘ لڑکی کی شادی پر اس کے اعزہ ذمہ داریاں تقسیم کر لیتے ہیں۔ تحفہ ماموں نے بھی دینا ہے۔ چچا نے بھی ۔ پھوپھو نے بھی خالہ نے بھی اور سہیلیوں نے بھی۔ دلہن کے گھر سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا کچھ خرید لیاہے اور کیا کچھ ابھی باقی ہے۔ پھر کوئی مسہری تحفے میں دیتا ہے کوئی کھانے کا میز اور کرسیاں۔ ماموں سلائی مشین لے آتا ہے تو چچا کراکری۔ یہ اس رقم کا بہترین استعمال ہے جس نے خرچ بہر طور ہونا تھا اور اس بات کا بہت امکان تھا کہ اللے تللے خرچ ہوتی! 

‎لکیر کا فقیر بننے کے بجائے اگر ہم عملیت پسند ہو جائیں اور اپنے رویوں کو فنکشنل کر لیں تو معاشرہ روشن تر صورت اختیار کر سکتا ہے!فرسودہ رسمیں نعمت بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔

Tuesday, February 26, 2019

Grow up انور مقصود صاحب!!







برسوں کا نہیں، صدیوں کا احساس کمتری بھارتی حکومت کو چین کا سانس نہیں لینے دیتا۔ 


تقسیم کے بعد پہلی بار آر ایس ایس کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔ بی جے پی کیا ہے؟ آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے زعم میں ایک ہزار سال کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتے ہیں۔ پاکستان پر بس نہ چلے تو بھارتی مسلمان تو ان کے پنجے میں ہیں۔ وہ بھاگ کر کہاں جائیں گے؟ 

T

آر ایس ایس کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے شیوا جی اور افضل خان کے واقعہ سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ اورنگ زیب کا زمانہ تھا۔ افضل خان نے شیوا جی کے گرد گھیرا تنگ کیا تو چالاک شیوا جی نے مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ شرط یہ تھی کہ فوج دور ٹھہرے گی۔ خصوصی خیمہ تانا گیا۔ بلند قامت افضل خان کے سینے میں پستہ قد شیوا جی نے گلے ملتے وقت خنجر بھونکا اور یوں ’’فتح‘‘ حاصل کرلی۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎ 


سچ کہتا تھا افضل خان 

تری پورہ تا راجستان 

مر گیا ہندو میں انسان 


مجسم فریب شیوا جی کو اورنگ زیب ’’موش کوہستانی‘‘ کہتا تھا۔ پہاڑی چوہا، آج شیوا جی کی معنوی اولاد افضل خان کے بلند قامت جانشینوں کو للکار رہی ہے۔ اس سے پہلے پستہ قد شاستری کا بلند قامت ایوب خان سے ٹاکرا تاریخ دیکھ چکی ہے۔ 


ہم یہاں پورے بھارت کی بات نہیں کر رہے۔ آر ایس ایس کی بات کر رہے ہیں، اس لیے کہ انصاف ہر حال میں ہونا چاہیے۔ لاکھوں ہندو آر ایس ایس کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے مگر پورے مجمع کو ہراساں کرنے کے لیے ایک سانپ کافی ہوتا ہے۔ کیا تعصب کی اس سے بدتر بھی کوئی مثال ہو سکتی ہے کہ ہندو پنڈت جو یوپی کا حکمران ہے، الٰہ آباد کا نام تبدیل کر رہا ہے۔ 


پاکستانی فوج صرف اکھنڈ بھارت کے راستے میں رکاوٹ نہیں، بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں دیوار ہے۔ مضبوط اور ٹھوس دیوار۔ میرے منہ میں خاک، پاکستانی عساکر نہ ہوتے تو بھارتی فوج کے لیے بحیرہ قلزم تک راستہ صاف تھا۔ یو اے ای، بحرین اور اومان ترنوالہ ہوتے۔ان  ریاستوں کی حیثیت بھارت کے سامنے وہی ہوتی جو بنگلہ دیش، بھوٹان، سکم اور نیپال کی ہے۔ ہر ریاست میں بھارتی ’’مشیر‘‘ براجمان ہوتے جو اسی طرح حکمرانی کرتے جیسے برٹش انڈیا میں نام نہاد ریاستوں کے درباروں میں انگریز ریزیڈنٹ کیا کرتے تھے۔ 


مگر پاکستانی افواج، بھارت کے لیے کباب میں ہڈی ثابت ہوئیں۔ احساس کمتری کی بدتر مثال کیا ہو گی کہ کئی گنا بڑا بھارت، کئی گنا وسیع تر رقبہ، کئی گنا زیادہ مضبوط معیشت، کئی گنا بڑی آرمی، ایئرفورس اور بحریہ مگر بھارت کو ہر وقت پاکستانی افواج کا کھٹکا رہتا ہے۔ چوہے کو شیر کا تاج پہنا دیا جائے تو چوہا ہی رہتا ہے۔ بھارت کی افواج ایک ہزار گنا بھی تعداد میں زیادہ ہو جائیں، پاکستانی افواج کا ڈر پھر بھی ان کے لاشعور سے کبھی نہیں جائے گا۔ 


مسلمان سلاطین کا عہد شروع ہوا تو بھارتی پہنتا کیا تھا۔ صرف لنگوٹی، یہ پاجامہ، یہ کرتا اور یہ واسکٹ جو آج مودی پہن کر منہ سے آگ اگلتا ہے، یہ لباس بھی تو مسلمانوں ہی کی دین ہے۔ یہ مغل اشرافیہ کا لباس ہے۔ گاندھی اپنے اصل لباس کی طرف پلٹا۔ مودی کو بھی چاہیے کہ مسلمانوں کا لباس اتار پھینکے، لنگوٹی باندھ کر دنیا میں گھومے اور فخر سے بتائے کہ یہ ہے اصل بھارتی ’’ملبوس‘‘ یہی لباس پہن کرآگ اگلتے ارکان پارلیمنٹ لوک سبھا میں تشریف لائیں۔ بھارتی کپڑا سی ہی نہیں سکتے تھے۔ ان کے پاس قینچی نہیں تھی۔ اسی لیے دھوتی ہے یا لنگوٹ یا ساری، سب ان سلے کپڑے ہیں۔ سکندر اعظم کے ہمراہ کاریگر یونان سے آئے تو ان کے پاس قینچی تھی۔ اس کے بعد ہی ہندوستان میں کپڑے کاٹنے اور سینے کا رواج پڑا۔ 


پاکستانی افواج سلامت رہیں ؎ 


وادی قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ


 سربکف ہوکے جوانان وطن نکلیں گے 


پس نوشت:۔ ایک عرصہ سے کراچی میں ایک مخصوص لسانی گروہ ’’لٹریری فیسٹیول‘‘ کا ناٹک رچا رہا ہے جس میں زیادہ پھوں پھاں انگریزی لکھنے والوں کی ہوتی ہے یا مخصوص لسانی گروہ کے بزرجمہروں کی۔ ان فیسٹیولز میں یادش بخیر انور مقصود کی خوب پذیرائی ہوتی ہے۔ انور مقصود کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس میں پنجابیوں اور سندھیوں کی تحقیر نہ ہو۔ ان دنوں ایک وڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں انور مقصود شریف برادران، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، ملک ریاض، آصف زرداری، مراد علی شاہ اورقائم علی شاہ کا خوب خوب مذاق اڑاتے ہیں مگر حیرت ہے کہ انہوں نے کبھی الطاف حسین کا ذکر نہیں کیا جو تقریر کرتے ہوئے مضحکہ خیز نقلیں اتارتے ہیں۔ گانے گاتے ہیں اور ہر ممکن اور ہر ناممکن حرکت کرتے ہیں۔ انور مقصود کو الطاف حسین تو دور کی بات ہے، فاروق ستار کا مذاق اڑانا بھی گوارا نہیں۔ دیکھئے، اقبال کے حوالے سے پنجابیوں کی تضحیک کس طرح کر رہے ہیں۔


 ’’اقبال نے جو پنجابی بولی اس میں نہ آزادیٔ افکار نہ تجدید کا پیغام نہ علم و دین نہ حیات ابدی نہ آگاہی نہ مغربی تہذیب نہ خودی کی تربیت نہ ٹیپو سلطان کی وصیت صرف ایک پنجابی مسلمان جو مرضی بولے جارہا ہے۔‘‘ 


آگے چل کر اقبال کو پنجابی دہقان اور محمود غزنوی کو لوٹ مار کرنے والا ثابت کیا گیا۔ 


تعجب ہے کہ سٹیج پر بیٹھے ہوئے جغادری ادیب سب تالیاں پیٹ رہے تھے۔ یہ اور بات کہ ان میں کوئی سندھی دانش ور تھا نہ پنجابی ادیب۔ ویسے وزن بیت پورا کرنے کے لیے عقل مند احمد شاہ ایک دو اصحاب کو شمال سے بلا لیا کرتے ہیں۔ 


یہ احمد شاہ کون ہے؟ ادب میں ان کا کوئ حصہ نہیں   - شاعر ہیں نہ ادیب   - ہاں شاعر اور ادیب ان کے گھٹنے ضرور چھوتے ہیں کہ بھائی لٹریری فیسٹیول میں ہمیں بلالو۔ پھر یہ ادائے خاص سے فیصلہ کرتے ہیں کہ کون شاعر ہے اور کون ادیب۔ امجد اسلام امجد اور مستنصر حسین تارڑ کو بلانا ان کی مجبوری ہے کہ نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اسلام آباد میں ایک بار ایسے ہی ایک فیسٹیول میں تارڑ صاحب کو صفر ثابت کرنے کی پوری کوشش کی مگر حاضرین تقریب نے ساتھ نہ دیا۔ منہ کی کھائی۔ 


کراچی میں ہونے والے ان مخصوص لسانی لٹریری فیسٹیولز میں کچھ ’’ادیب‘‘ دساور سے بھی منگوا کر سٹیج پر بٹھائے جاتے ہیں۔ انہیں اردو دنیا میں یوں تو کوئی نہیں جانتا مگر یہ ان کی پہچان ضرور بن گئی ہے کہ مندوب مستقل ہیں۔ 


ماتم کرنا چاہیے اس مائنڈ سیٹ پر جو ادب کے نام پر لسانی تعصب اور صوبائی امتیاز کا زہر بکھیر رہا ہے۔ انور مقصود کے نظریات کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ پاکستانیت اور اسلام  انہیں کبھی نہیں بھائے۔ مگر تضحیک کرنی ہو تو سب کی کیجئے۔ شریف برادران، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، مراد علی شاہ اور قائم علی شاہ کے علاوہ کوئی اور کیوں نہیں نظر آتا؟ عینک کا نمبر بدلوا لیجئے۔ اپنے اردگرد دیکھئے۔ تضحیک کا سامان وافر میسر ہے مگر عینک کے شیشے نہیں بدلیں گے تو سوائے پنجابیوں اور سندھیوں کے کوئی نہیں نظر آئے گا۔ لندن چلے جائیے، وہاں تو ایک صاحب اتنے مضحکہ خیز بیٹھے ہیں کہ ساری دنیا ان پر ہنس رہی ہے۔ تعجب ہے آپ کو پنجاب کے شریف برادران اور سندھ کے سیدوں کے سوا کوئی اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔ 


حضور! انور مقصود صاحب

!    Grow up!

 اب بڑے ہو جائیے! 







Sunday, February 24, 2019

بٹوا صرف میری جیب میں رہے گا

  



‎یادش بخیر!کل شہباز شریف بہت یاد آئے! 

‎اپنے وقت کے شیر شاہ سوری! 

‎آہ! اصل شیر شاہ سوری کو وہ دریا دل لکھاری نہ نصیب ہوئے جو تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے! شہباز شریف قسمت کے دھنی تھے۔ ع 

‎اقصائے چیں سے تابہ سوادِ طرابلس 

‎ان کی پنجاب سپیڈ کے چرچے ہوئے۔ تصویر یہ پیش کی گئی کہ پورا پنجاب ترقی کے آسمان پر چڑھ کر کہکشائوں میں شامل ہو گیا ہے۔ یہاں تک دعویٰ کیا گیا کہ جس طرف سے بھی صوبے میں داخل ہوں حیران کن ترقی نظر آتی ہے!

‎ کل پنڈی بھٹیاں سے چنیوٹ جانا پڑا اور چودہ طبق روشن ہو گئے۔

‎ 35
کلو میٹر کا یہ فاصلہ ثابت کرتا ہے کہ منظم تشہیر کس طرح سیاہ کو سفید بنا کر پیش کرتی ہے اور پھر مسلسل اصرارکس طرح لوگوں کو قائل کر دیتا ہے کہ سیاہ ہی سفید ہے۔ یعنی جھوٹ بولو اور اس قدر تسلسل سے بولو کہ سچ بن جائے۔ 

‎مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ شاہراہ جسے شاہراہ‘ کہنا لغت میں شاہراہ کا معنی تبدیل کرنے کی واردات ہو گی‘ شیر شاہ سوری صاحب کے 2008ء میں تخت نشین ہونے کے بعد ’’بنائی‘‘ گئی کچھ عرصہ بعد یہ بہہ گئی تب سے آج تک عوام اس پر دھکے کھا رہے ہیں۔ گاڑیوں کے انجر پنجر ڈھیلے ہو رہے ہیں۔ دوران سفر پسلیاں پھیپھڑوں کی اور پھیپھڑے انتڑیوں کی جگہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

‎اس سے آگے کا حال بدتر ہے۔ چنیوٹ سے سرگودھا جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ شیر شاہ سوری سہسرام میں واقع اپنے مقبرے سے اٹھا لاہور آیا اور پھر لاہور ہی رہا۔ لاہور سے باہر نہیں نکلا۔ 

‎آپ کا کیا خیال ہے کہ فردِ واحد پورے ملک کے اور پورے صوبے کے کام کر سکتا ہے؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ ملک صوبوں میں کیوں تقسیم کیا جاتا ہے؟ صوبے ڈویژنوں‘ ڈویژن ضلعوں ‘ ضلعے تحصیلوں اور تحصیلیں یونین کونسلوں میں کیوں تقسیم در تقسیم ہوتی ہیں؟ اس لیے کہ فرد واحد پورا ملک نہیں چلا سکتا ‘فرد واحد صوبے کا وزیر اعلیٰ تو بن سکتا ہے مگر پورے صوبے کا انتظام و انصرام نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ ایک ڈویژن بھی فرد واحد(یعنی کمشنر) پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس ڈویژن کو بھی اضلاع میں تقسیم کرنا پڑتا ہے۔ ہر ضلع ایک والی کے سپرد کیا جاتا ہے اسے ڈپٹی کمشنر کہیے یا ضلع ناظم! پھر اس ضلع کو مزید اکائیوں میں بانٹا جاتا ہے! یہ کامن سینس کی بات ہے اس نکتے کو سمجھنے کے لئے راکٹ سائنس کی ضرورت ہے نہ ہارورڈ سے ایم بی اے کرنے کی نہ کیمبرج سے پی ایچ ڈی کرنے کی۔ 

‎فرض کیجئے پنجاب کے ہر ضلع میں شہباز شریف صاحب کی ایک فیکٹری ہے۔یوں 36اضلاع میں ان کی 36فیکٹریاں ہوئیں! آپ کا کیا خیال ہے یہ فیکٹریاں وہ کس طرح چلائیں گے؟ جیسے صوبہ چلاتے رہے ہیں؟ کیا وہ ہر فیکٹری کو ایک مقامی ڈائریکٹر یا منیجر کے حوالے نہیں کریں گے؟ کیا اسے فیکٹری چلانے کا اختیار نہیں دیں گے؟ کیا منیجر کو ایک ایک روپے کے لئے ایک ایک مزدور کو بھرتی کرنے یا نکالنے کے لئے ایک ایک مشین کی مرمت کے لئے ‘ایک ایک شیڈ ایک ایک برآمدے ‘ ایک ایک کمرے میں سوئچ تبدیل کرنے کے لئے لاہور سے پوچھنا پڑے گا؟ نہیں !شہباز شریف ‘ یا کوئی بھی صنعت کار اچھی طرح جانتا ہے کہ اس طرح فیکٹریاں نہیں چل سکتیں چلیں بھی تو ان کے چلنے کی رفتار ایک بے بضاعت کیڑے کی رفتار سے زیادہ نہیں ہو گی! 

‎فیکٹری کے مقامی سربراہ کو اختیارات دینے پڑیں گے پھر اس سے حساب لینا ہو گا کہ ان اختیارات کا استعمال اس نے کیسے کیا؟ پھر وہ ہر ماہ یا ہر پندرہ دن بعد‘ یا ممکن ہے ہر ہفتے 36کی 36فیکٹریوں کے سربراہوں سے میٹنگ کریں گے۔ پچھلے ہفتے کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے۔ کسی کو سرزنش کریں گے‘ کسی کی حوصلہ افزائی فرمائیں گے مگر یہ طے ہے کہ طاقت کے ارتکاز سے نہیں‘ اختیارات کی تفویض سے صنعت چل سکے گی! 

‎یہ جودنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مقامی حکومتوں(لوکل گورنمنٹس)کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتے تو یہ نتیجہ صدیوں کے تجربے کے بعد نکالا گیا۔ میونسپل خود مختاری جدید نظام حکومت کا مرکزی ستون ہے۔ یہ جو ترقی پاکستان میں لولی لنگڑی اور اندھی نکلتی ہے تو اس کی وجہ مقامی حکومتوں کا بے دست و پا ہونا ہے۔ لاہور‘ اسلام آباد‘ کراچی‘ پشاور میں شاہراہیں بن جاتی ہیں مگر صوابی‘ مانسہرہ‘ پنڈی بھٹیاں‘ چنیوٹ‘ دادو اور تھرپارکر میں نہیں بنتیں اس لیے نہیں بنتیں کہ اختیارات اور وسائل اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور اور پشاور کے آہنی ہاتھوں میں مرکوز ہیں۔ وہ جو دادو‘ تھرپارکر‘ صوابی‘ مانسہرہ‘ پنڈی بھٹیاں اور چنیوٹ میں بیٹھے ہیں‘ انہیں ہر سانس لینے کے لئے پانی کا ہر گھونٹ بھرنے کے لئے اور ہر قدم اٹھانے کے لئے کراچی‘ لاہور اور پشاور کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ وہاں سے ابرو کا اشارہ ہو یا انگلی کا اشارہ لازم ہے۔ یہ اشارہ کبھی ہاں میں ہوتا ہے کبھی نہ میں! 

‎شہباز شریف صاحب کو تاریخ کا ادراک ہوتا تو کابینہ اور اسمبلی کو عضوِ معطل میں تبدیل نہ کرتے۔ طاقت ور مقامی حکومتیں تشکیل کرتے۔ انہیں ٹارگٹ دیتے پھر یہ ٹارگٹ پورے کرنے کے لئے اختیارات دیتے۔ ان مقامی حکومتوں کے پاس وسائل ہوتے۔ پھر ٹارگٹ حاصل نہ ہوتے تو سزائیں دیتے۔ صوبے کی حالت بدل جاتی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک وزیر اعلیٰ 36اضلاع میں اور سینکڑوں تحصیلوں میں ترقیاتی کام کروا سکتا! وسائل کے ارتکاز ہی کا نتیجہ ہے کہ آج لاہور کی شاہراہیں قابل رشک ہیں۔ جب کہ صوبے کے باقی اضلاع کی سڑکیں گڑھوں‘ کھڈوں ‘ نالیوں‘ کھنڈرات اور پیوند کاری پر مشتمل ہیں۔

‎ ترقی یافتہ ملکوں میں عموماً ‘ تین اقسام کی حکومتیں ہیں۔ مرکزی‘ صوبائی‘اور مقامی (جسے امریکہ میں کائونٹی کہتے ہیں)۔ ان تینوں حکومتوں کے فرائض وضاحت سے بیان کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی ابہام ہوتا ہے نہ غلط فہمی! صوبہ مقامی حکومتوں کے معاملات میں دخل نہیں دیتا اور مرکز صوبوں کے مسئلوں میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ یہی حال وسائل کی تقسیم کا ہے۔ یہاں یہ حال ہے کہ جو کچھ کرنا ہے کراچی اور لاہور نے کرنا ہے! مقامی حکومتوں کے انتخابات تک میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں!ان حکومتوں کی تشکیل ہو جائے تو ایک ایک روپے کے لئے صوبائی ہیڈ کوارٹر کے سامنے جھولی پھیلانا پڑتی ہے! اتنی مضحکہ خیز صورت حال میں اضلاع‘ ڈویژن اور تحصیلوں کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ناممکنات میں سے ہے! 

‎سو سوالوں کا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اور بزدار صاحب ماضی سے سبق سیکھ کر اختیار کے ارتکاز سے جان چھڑائیں گے؟ یا تخت لاہور ‘ تخت لاہور ہی رہے گا اور صرف تخت پر بیٹھنے والے کا نام تبدیل ہو گا؟

Saturday, February 23, 2019

شرم تم کو مگر نہیں آتی





آپ کا کیا خیال ہے پاکستان میں کثیف ترین جگہ کون سی ہے؟ 


ایک زمانے میں سنتے تھے کہ گوجرانوالہ ایشیا کا سب سے زیادہ گندا شہر ہے مگر آج معلومات کا جو خزانہ آپ کو حاصل ہونے لگا ہے، اس کے بعد گوجرانوالہ آپ کو پیرس لگے گا۔ 


کیا آپ خیبرپختونخوا کے کسی دور افتادہ گائوں یا پنجاب کی کسی کچی بستی کا سوچ رہے ہیں؟ کیا کثیف ترین مقام سے آپ کے ذہن میں اندرون سندھ کی کوئی گوٹھ آ رہی ہے؟ 


نہیں! آپ غلط ہیں، آپ فریب خوردہ ہیں۔ میرے خیبرپختونخوا کے گائوں، میرے پنجاب کے قریے، میرے سندھ کے گوٹھ صاف ستھرے ہیں، کچے صحنوں میں دلہنیں نانیاں دادیاں چاچیاں مائیں بہنیں صبح شام جھاڑو دیتی ہیں۔ ایک ایک کمرے سے گرد جھاڑی جاتی ہے۔ ایک ایک برتن مانجھ کر چمکایا جاتا ہے۔ مکان کچے سہی، دیواریں مٹی کی سہی، برتن معمولی قیمت کے سہی اجلا پن ضرور ہوتا ہے۔ یہ عورتیں صبح سے شام تک اپنے گھروں کو بہشت کا ٹکڑا بنانے میں لگی رہتی ہیں۔ دھریک اور نیاز بو کے پودے بہار دکھاتے ہیں۔ انار کے سرخ پھول عاشقوں کی آنکھوں سے ٹپکے ہوئے آنسو یاد دلاتے ہیں ؎


 گل انار کچھ ایسے کھلا تھا آنگن میں 

کہ جیسے کوئی کھڑا رو رہا تھا آنگن میں 


منافقت کیا ہے؟ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ منافقت کیا ہے؟ مگر افسوس ہم میں سے کسی کو بھی نہیں معلوم کہ منافقت کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔ یہ فرمان کہ جھوٹ بولنے والا، وعدہ خلافی کرنے والا اور امانت میں خیانت کرنے والا منافق ہے، یہ فرمان ہم نے اپنے دل و دماغ سے نکال باہر کر دیا ہے مگر منافقت کی کوئی حد ہے نہ سرحد۔ جس قوم کے واعظ اور استاد، منبروں، محرابوں سے اور کلاس روموں میں ہر روز چیخ چیخ کر بتاتے ہوں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور صفائی ایمان کی شرط ہے، اس قوم کی غلاظت دیکھنی ہو تو اس قوم کے دارالحکومت کو دیکھو۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ عبرت پکڑو اے آنکھو والو، ماتم کرو اس قوم کی منافقت پر۔ سروں پر دو ہتھڑ مارو اس قوم کی غلاظت پر اور بدذوقی پر۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں شرم دلانے کے لیے کوئی بتائے کہ تمہاری پشت پر درخت اگا ہے تو حیا سے عاری یہ لوگ فخر سے سینہ تان کر جواب دیں گے کہ ہاں اگا ہے، اچھا ہے چھائوں میں بیٹھیں گے۔ 


آج کوئی علائوالدین خلجی ہوتا تو ترقیاتی ادارے کے سربراہ کو نشان عبرت بنا کر رکھ دیتا۔ کوئی شیر شاہ سوری ہوتا تو کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بہادر کو بدبو کے بھبکوں میں بیٹھ کر کھانا کھانے والوں کے ساتھ بٹھاتا اور کئی دن تین وقت کا کھانا وہیں کھانے کا حکم دیتا۔ 


یہ دارالحکومت کا دل ہے۔ 


عین وسط، 


فائیوسٹار ہوٹل کی بغل، 


ملک کے سب سے بڑے سرکاری کمرشل بینک کے مقامی ہیڈ کوارٹرز کا علاقہ۔ 


ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ اسے ’’سوک سنٹر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ معلوم ہے ’’سوک‘‘ کے معنی تہذیب کے بھی ہیں؟ جب آپ کہتے ہیں فلاں شخص میں سوک سینس نہیں ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ تہذیب اور تمیز سے بے بہرہ ہے۔ اس نام نہاد ’’سوک سنٹر‘ میں ایک فوڈ پارک ہے۔ فوڈ پارک بنا تو ایک مخصوص احاطے میں تھا مگر کہاں کا احاطہ، کہاں کی حد بندی، احاطے اور حد بندیاں وہاں ہوتی ہیں جہاں ریاست کا وجود ہوتا ہے، جہاں شہروں کے والی گلی گلی کوچہ کوچہ بازار بازار سیکٹر سیکٹر راتوں کو اور دوپہروں کو اور صبحوں کو اور شاموں کو بنفس نفس گھومتے ہیں۔ ہر شے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ایک ایک دیوار کا ہاتھ لگا کر، چھو کر معائنہ کرتے ہیں۔ فوڈ پارک تو احاطے میں تھا مگر اس مخصوص احاطے کے باہر بھی ریستوران کھل گئے

 ان غلاظت خانوں کو ریستوران لکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ قلم لکھنے سے انکار کرتا ہے۔ کاغذ دہائی دیتا ہے۔


سوک سنٹر میں ایک دلہن بھی ہے۔ اس دلہن کے بے مثال حسن کے ذکر سے پہلے رونگٹے کھڑے کر لیجیے کیوں کہ بعد میں آپ رونگٹے کھڑے کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ غلیظ ریستورانوں کے عین درمیان ایک نالی ہے۔ ایک بدر رو، اس کی گہرائی برائے نام ہے۔ اس کا مقصد شاید بارش کے پانی کا اخراج تھا مگر یہ بارش کے پانی کی محتاج نہیں، بارش ہو یا نہ ہو، یہ ہر وقت سیوریج کے پانی سے بھری رہتی ہے، نہیں۔ بھری ہی نہیں رہتی، گٹر کی طرح ابلتی ہے۔ بدبودار پانی اس کے کناروں سے باہر آ کر فرش پر پھیل جاتا ہے۔ بدبو کے بھبکے اٹھتے ہیں۔ آفرین ہے ان مسلمانوں پر، ان پاکستانیوں پر، جو اس بدر رو کے دونوں کناروں پر، میز کرسیوں پر، بیٹھے کھانا کھاتے ہیں، سارا دن، ساری شام چائے پیتے ہیں۔ 


یہ بدر رو، سوک سنٹر کی یہ دلہن اس قوم کی منافقت کا طرۂ امتیاز ہے۔ اگر یہ صرف گزرگاہ ہوتی تب بھی اس گندی نالی کا جواز نہ تھا مگر اس پر بیٹھ کر کھانا کھانا، پراٹھے، پوریاں، قورمے، گندی نالی کا تعفن، کیچڑ، ادھر نوالہ منہ میں ڈالا۔ ادھر بدبو کا بھبکا ناک میں گیا۔ تف ہے کھانے والوں پر اور خدا کی مار  کھلانے والوں پر۔ 


درختوں کے اردگرد یہاں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں، جگہ جگہ فرش کی اینٹیں اکھڑی ہوئی ہیں۔ گڑھوں سے کوڑا کرکٹ چھلک چھلک کر باہر آ رہا ہے۔ ان تاجروں سے اتنا نہیں ہوتا کہ دکانوں کے سامنے اکھڑی ہوئی اینٹیں ہی دوبارہ جوڑ دیں۔ جتنے برآمدے ہیں، دکانداروں کے مال سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ برآمدے اس لیے بنے تھے کہ گاہک یہاں چلیں گے۔ بوتلوں کے کریٹ، گندے کپڑے، دیگچے، ناجائز تجاوزات کا غلیظ ترین مظاہرہ دیکھنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، یہ ’’سوک سنٹر‘‘ وزیراعظم کے دفتر سے اور عالی شان شاہراہ دستور سے صرف پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے۔ 


چاہیے تو یہ تھا کہ ٹیلی ویژن چینلوں کے اینکر تعفن کے اس مرکز کو پردہ سیمیں پر دکھاتے مگر ان اینکروں کے پاس اتنا وقت کہاں، یہ تو عالمی مسائل کے ٹھیکیدار ہیں۔ یہ تو کھانے فائیو سٹار سے اس طرف کھاتے ہی نہیں۔ یہ ارب پتی اینکر اب اس فضا میں رہتے ہیں جس میں ایک زمانہ پہلے انڈین سول سروس کے انگریز بیوروکریٹ رہتے تھے۔ یہ کندھے حکمرانوں سے رگڑتے ہیں، اقتدار کے برآمدے ان کی پسندیدہ سیر گاہیں ہیں۔ غیر سیاسی پروگرام کرنے پر، عوامی مسائل اجاگر کرنے پر، ان کی شان میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ دارالحکومت کے ہزاروں درختوں پر کچھ عرصہ پہلے جب قیامت ٹوٹی تو رئوف کلاسرہ کے سوا کسی نے صدائے احتجاج نہ بلند کی۔ انڈین سول سروس کی شان والے یہ متکبر اینکر رئوف کلاسرہ کو ضرور طعنہ دیتے ہوں گے کہ ہر کچھ روز بعد وہ اپنے گائوں اور علاقے کی حالت زار پر کیوں لکھتا ہے۔ 


کروڑوں کا بجٹ ہے اسلام آباد کیپٹل ٹیری ٹری کی انتظامیہ کا۔ ایک سفید ہاتھی کے اوپر ایک اور سفید ہاتھی بیٹھا ہے۔ سفید ہاتھیوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ ترقیاتی ادارہ، اس کے ممبر، اس کا سربراہ، پھر چیف کمشنر، پھر ڈپٹی کمشنر، پھر اسسٹنٹ کمشنر۔ پھر اہلکاروں کی بٹالینوں کی بٹالینیں، گاڑیاں، دیدہ زیب فرنیچروں سے بھرے دفاتر، پروٹوکول، نزاکتیں، نخرے، ایک نائب قاصد دروازہ کھولتا ہے۔ دوسرا بریف کیس نکالتا ہے۔ تیسرا سلیوٹ مارتا ہے۔ پی اے بات کرنے سے پہلے دروازے میں بنے سوراخ میں لگے شیشے سے دیکھتا ہے کہ صاحب کس پوز میں بیٹھے ہیں۔فون کرنے سے کہیں پوز کے جاہ و جلال میں کمی نہ واقع ہو جائے۔ نائب قاصد اندر چائے لے جانے سے پہلے اپنی واسکٹ ٹھیک کرتا ہے کہ طبع نازک پر کوئی سلوٹ گراں نہ گزر جائے اور شہر کا مرکز، نام نہاد ’’سوک سنٹر‘‘ غلاظت اور تعفن میں نوبل پرائز کا حق دار۔ 


وزیراعظم کے لیے ایک تجویز ہے کہ سعودی شہزادہ تو واپس چلا گیا۔ اب کوئی اور ایسا بلند مرتبہ مہمان آئے تو اسے اس ’’سوک سنٹر‘‘ کی سیر ضرور کرائیں۔ 










Sunday, February 17, 2019

میں کن کو اَن فرینڈ کرتا ہوں




اس میں کیا شک ہے کہ سوشل میڈیا جس مقدار اور جس رفتار سے سروں پر سوار ہوا ہے اس سے پناہ مانگنے کو جی چاہتا ہے۔ ایک شترِ بے مہار! جو مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے گھر کے اندر‘ آپ کی خواب گاہ میں اور پھر آپ کے بستر پر آبراجمان ہوا ہے۔ 


مگر جہاں مہمیز لگی ہے‘ وہاں لگام بھی خوش قسمتی سے آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے‘ آپ یہ لگام کسی بھی وقت کھینچ کر سوشل میڈیا کے حملے کو بہت حد تک بے اثر کر سکتے ہیں۔ 


مکروہ ترین خلل وہ تاجر ڈالتے ہیں جو اپنی اشیا فروخت کرنے کے لئے آپ کے موبائل فون پر اشتہار بھیجتے ہیں۔ اس عذاب پر کچھ دن پہلے یہ کام نگار تفصیل سے لکھ چکا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) اس کا سدباب کر دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی اے میں نچلی اور درمیانی سطح پر کوئی شنوائی نہ ہوئی مگر اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب ادارے کے نئے سربراہ جنرل عامر نے ٹیلی فون کال کا باقاعدہ جواب دیا اور یقین دہانی کرائی کہ اس مکروہ خلل کا سدباب کرنے میں ان کا ادارہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا ہے نہ کرے گا۔ آپ کو جس نمبر سے اشتہارات موصول ہو رہے ہیں۔ پی ٹی اے کے متعلقہ شعبے کو اطلاع کیجیے۔ وہ اس نمبر کو بلاک کر دے گا۔ 


رہا فیس بک کا معاملہ تو وہ ایک سمندر ہے جس میں مگرمچھ اور کیکڑے سے لے کر ویل اور شارک تک اور رنگین خوبصورت مچھلیوں سے لے کر جواہر تک سب کچھ موجود ہے۔ جو پسند نہ آئے اسے اَن فالو کر دیجیے۔ میسنجر پر آپ جب کسی کو ’’اگنور‘‘ کرتے ہیں تو آئندہ کے لئے اس کے پیغامات براہ راست ردی کی ٹوکری میں چلے جاتے ہیں۔ اس ترکیب کی خوبی یہ ہے کہ ارسال کنندہ کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس کا دل ہی نہ ٹوٹ جائے۔ 


کچھ احباب کو اپنی تشہیر اور اپنی پروجیکشن کا اس قدر خبط ہے کہ وہ اپنی ’’تخلیقات‘‘ اپنی ٹائم لائن پر لگانے کے بجائے آپ کے اِن باکس میں بھیجتے ہیں۔اپنی نظمیں‘ اپنی غزلیں‘ اپنی تصویریں اپنے ویڈیو کلپ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان میں ہر شخص کے لئے دلچسپی کا سامان نہیں ہو گا۔ اس کا آسان علاج ہے کہ آپ ان کی ڈاک کو ’’اگنور‘‘ کے خانے میں ڈال دیجیے۔ باقی کام فیس بک کا میکانزم خود کر لے گا۔ 


ایک اور فیشن یہ چل نکلا ہے کہ جو دعائیں رب العالمین کے حضور مانگنی ہیں وہ آپ کو بھیجی جا رہی ہیں۔ دعا کا اصول قرآن حکیم میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّ عًا وَّ خُفْیَہْ۔ کہ اپنے رب کو عاجزی سے اور چپکے سے پکارو۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کو ربِّ کریم حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ مگر یہاں یہ رجحان دن بدن زیادہ ہو رہا ہے کہ دعائوں کی دعائیں دوسروں کو بھیجی جا رہی ہیں۔ ہر شخص اپنی پسند‘ اپنے ذوق‘ اپنے مبلغ علم اور اپنی ضروریات کے حساب سے دعا مانگتا ہے۔ آپ کسی کو اپنی پسند کی دعا مانگنے پر کیسے آمادہ کر سکتے ہیں؟ یہ تو خالق اور مخلوق کا باہمی معاملہ ہے اور ٹاپ سیکرٹ کی کیٹیگری میں آتا ہے۔ ایک دوست نے مسلسل دعائیں بھیجنا شروع کیں۔ پوچھا یہ زحمت کیوں کر رہے ہیں۔ کہنے لگے آپ یہ دعائیں مانگا کریں۔ انہیں جواب دیا کہ جو دعائیں قرآن پاک میں سکھائی گئی ہیں اور احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔ وہ کیوں نہ مانگی جائیں؟ آپ اپنی پسند کی دعا خود مانگیں اور یہ معاملہ اپنے اور اپنے پروردگار کے درمیان رکھیں۔


 خود نمائی کی ایک مضحکہ خیز قسم یہ بھی ہے اپنی بیماریوں کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔ معمولی سردرد سے لے کر زیادہ خطرناک بیماری تک کے اعلانات فیس بک پر کئے جاتے ہیں کچھ تو ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد کی تصویر بھی پوسٹ کرتے ہیں۔ دارالحکومت کے ایک شاعر کے بارے میں جو مرحوم ہو چکے ہیں‘ مشہور تھا کہ لخت جگر کی میت گھر پڑی تھی مگر وہ خبر لگوانے کے لئے اخبارات کے دفاتر کے چکر لگا رہے تھے۔ اس زمانے میں تشہیر کا یہی ذریعہ تھا۔ ایک زمانے میں ایسے شاعر ہوا کرتے تھے جو محبوب کے سامنے‘ دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر درد کی شکایت کرتے تھے۔ یہ مضحکہ خیز عمل اب سوشل میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ کچھ تو دل کی دھڑکن تیز ہونے اور آنکھ پھڑکنے کی خبر بھی شیئر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ 


افسوس ناک ترین عمل اپنی نیکی کی تشہیر ہے۔ احرام باندھتے ہی سب سے پہلے سیلفی لی جاتی ہے جو فوراً فیس بک پر ظاہر ہوتی ہے۔ پھر ایئر پورٹ پہنچنے کی تصویر! یہ فکر نہیں کہ مناسک بخیرو خوبی تکمیل کو پہنچیں اور یہ عبادت قبولیت کا شرف حاصل کر لے۔ انسان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں جب طواف کعبہ کے دوران سیلفیاں لیتے ہوئے زائر‘ اپنے عمرے کو خود ہی غیر سنجیدہ کر لیتے ہیں۔ اس نرگسیت کا ماشاء اللہ دیگر ملکوں کے مسلمان بھی شکار ہیں۔ اپنی نیکی کی تشہیر ہمارے کلچر کا افسوس ناک حصہ‘ ویسے بھی ہو چکی ہے۔

 ’’میں اتنے روزے رکھتا ہوں‘‘ 

’’میں اتنی تسبیحات پڑھتا ہوں‘‘

 ’’میں اتنی خیرات کرتا ہوں‘‘ 

ایسی گفتگو اکثر سننے میں آتی ہے۔ سیاست دان اس خودنمائی میں حصہ یوں ڈال رہے ہیں کہ کسی بیوہ کو مشین دیتے وقت‘ یا کسی غریب دلہن کو جہیز دیتے وقت تصویر کھنچواتے ہیں جو میڈیا پر اچھالی جاتی ہے۔ 


عمرہ اور حج عبادات کا حصہ ہیں۔ عبادت کی تشہیر کرنا ریا کاری میں شمار ہوتا ہے۔ کیا عجب اب نماز پڑھتے ہوئے بھی ایسے اصحاب تصاویر کھینچوانا شروع کر دیں اور پوسٹ کے نیچے عنوان اس قسم کا ہو’’نماز ظہر کی ادائیگی‘‘ یا نماز جمعہ کے لئے مسجد میں ورود‘‘!ایسے احمقوں کو اگر ان فرینڈ یا اَن فالو نہ کیا جائے تو پھر یہ جو سہولت ہے ان فرینڈ یا اَن فالو کرنے کی تو یہ کس دن کام آئے گی؟ 


کچھ مکروہ پوسٹیں ایسی بھی ہیں جن کے لگانے والوں کو محض اَن فرینڈ کرنا یا اَن فالو کرنا کافی نہیں! اس کیٹیگری میں سرِ فہرست وہ بدبخت ہیں جو دشنام طرازی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں جس سیاسی یا مذہبی شخصیت سے اختلاف ہے‘ اسے گالی دیتے ہیں وہ بھی فیس بُک پر۔ کچھ لوگ کمنٹس لکھتے وقت بھی مغلظات بکتے ہیں۔ یعنی لکھتے ہیں! ان میں متشرع چہرے بھی شامل ہیں‘ ظاہر ہے وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں‘ جہاں عدم برداشت کا دور دورہ ہے! اس میں کیا شک ہے کہ دشنام طرازی عدم برداشت کی بدترین صورت ہے۔ اختلافِ رائے کا۔ یہ اسلوب غیر انسانی اور سراسر وحشیانہ ہے۔ یہ کالم نگار گالی دینے والے کو‘ خواہ کسی کو بھی دی گئی ہو۔ بلاک کر دیتا ہے۔ جن سے اختلاف ہے اور اختلاف بھی شدید ان کے خلاف بھی دشنام طرازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ 


لسانی‘ مسلکی اور گروہی اختلافات کو ہوا دینے والوں کو بھی بلاک کر دینا چاہیے کچھ لوگ ایسی احمقانہ پوسٹیں لگاتے ہیں کہ ان میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علما کی تصاویر ہوتی ہیں۔ پھر پوچھتے ہیں کہ آپ ان میں سے کس کو پسند کرتے ہیں۔ یہ بھی مسلکی اختلافات پھیلانے کی ایک مکروہ صورت ہے۔ ایسے حضرات ذہنی طور پر ناپختہ اور قابل اصلاح ہیں۔ یہ اور بات کہ فیس بک پر انہیں سمجھانے کا مطلب بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے! 


مگر شاعر ہونے کے حوالے سے میرے نزدیک خارج از وزن شاعری لکھنا ناقابل معافی جرم ہے۔ ایسے نام نہاد شعرا کو بلاک نہ کیا جائے تو سعدی سے لے کر غالب تک تمام شعرا کی ارواح بے چین ہوں گی! 


یہ سب کچھ تو ہے مگر یہ بتائیے کہ کیا جمعہ مبارک کا پیغام بھیجنے والوں اور ہر روز صبح گلدستہ ارسال کرنے والوں سے بھی آپ تنگ آ رہے ہیں؟ 







Saturday, February 16, 2019

صرف ایمان نہیں!جہان بھی چاہیے جناب وزیراعظم

 









سگِ خانہ خراب بھی بیٹھتا ہے تو بیٹھنے سے پہلے جگہ کو دُم سے صاف کر لیتا ہے۔ 


دارالحکومت کھنڈر کا سماں پیش کر رہا ہے کیا وزیر اعظم نے ان کے عمائدین نے‘ ان کے وزراء اور امرا نے وہ بڑے بڑے ڈائنو سار جتنے ڈھانچے نہیں دیکھے جو شاہراہ کشمیر کے دائیں کنارے اور بائیں کنارے ایک ایسے شہر کا منظر پیش کر رہے ہیں جس کی آبادی نقل مکانی کر کے کہیں اور جا بسی ہو! 


گائوں کا لڑکا افسر بن گیا تو ایک دن اس کے ایک بزرگ اس سے ملاقات کو آئے۔ انہوں نے اسے وہ فارمولا بتایا جس کی وزیر اعظم عمران خان کو اشد ضرورت ہے! کہا:برخوردار! جب کوئی اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو لوگ اپنے مسئلے لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اگر وہ سائل کا کام نہیں کرتا‘ ہاں چائے پانی کا اچھی طرح پوچھتا ہے تو سائل باہر جا کر اس کے بارے میں مشہور کرتا ہے کہ اس کا ایمان تو خوب ہے مگر افسوس! جہان اس کا خراب ہے! اگر وہ سائل کا کام کر دیتا ہے مگر چائے پانی کا‘ خیر خیریت کا نہیں پوچھتا تو سائل اس کی شخصیت کا خاکہ یوں کھینچتا ہے کہ جہان تو اس کا اچھا ہے مگر ایمان نہیں ہے۔ پھر اگر وہ کام بھی کر دے اور مہمان نوازی کا فریضہ بھی سرانجام دے تو سائل اس کا ایمان اور جہان دونوں قابل رشک قرار دیتا ہے۔ کچھ ایسے سوختہ بخت بھی ہوتے ہیں کہ بے فیض رہتے ہیں! کام کیا کریں اور کرائیں گے‘ پانی تک کا نہ پوچھیں! سائل باہر آ کر خلق خدا کو بتاتا ہے کہ اس لکڑی کے بت کے پاس ایمان ہے نہ جہان! 


جناب وزیر اعظم! آپ کا ایمان خوب ہے آپ کرپشن کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ آپ دل سے چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے۔ آپ کا اپنا کاروبار ہے نہ ذاتی مفاد! نیب اور سپیکر نیشنل اسمبلی سوالیہ نشانوں کا روپ دھار لیتے ہیں مگر پھر بھی آپ کی خواہش ہے اور کوشش کہ جَمَعَ مَالاً وَ عَدَّدَہ جنہوں نے قومی مال میں خیانت کی۔ جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ کیفر کردار کو پہنچیں‘ آپ نے ایک خصوصی کارپرداز‘لوٹا ہوا قومی سرمایہ بیرون ملک سے واپس لانے کے لئے بھی تعینات کیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ؎ 


اب اُس کا کرم ہے گھٹا بھیج دے 

کہ ہم نے تو جو بیج تھے بو دیے 


مگر جناب وزیر اعظم! یہ سب تو ایمان کا حصہ ہے اور ایمان کا قصہ ہے! آپ کی نیت آپ کی کوشش‘ آپ کی خواہش ! سب بجا مگر بندہ پرور! آپ کا جہان کہاں ہے؟وہ تو نظر ہی نہیں آ رہا! خلقِ خدا باہر آ کر دہائی دے رہی ہے وزیر اعظم کا ایمان اچھا ہے مگر جہان؟ جہان کا خانہ افسوس ناک ہے! 


ملک انفراسٹرکچر کے بغیر نہیں چلتے! آپ کی حکومت نے آ کر نئے تعمیراتی منصوبے تو کیا بنائے تھے۔ جو جاری تھے۔ وہ بھی مکمل فُل سٹاپ کی نذر کر دیے! کیا آپ کشمیر ہائی وے پر سفر کر کے ایئر پورٹ نہیں جاتے؟ دنیا جب دارالحکومت کے ہوائی اڈے سے آتی ہے اور واپس جاتی ہے تو دیکھتی ہے کہ بڑے بڑے سٹرکچر بڑے بڑے ڈھانچے پڑے ہیں۔ یہ وہ تعمیراتی کام ہے جو گزشتہ حکومت نے ایئر پورٹ کی میٹرو بس کے لئے شروع کیا تھا۔ ستون اور سیڑھیاں کشمیر ہائی وے کے درمیان بس کے لئے الگ راستہ جس کے دونوں طرف جنگلہ ہے۔ بڑے بڑے پلیٹ فارم۔ یہ سارا کام رک گیا۔ 


شریفوں کے جاتی امرا کا تو بال بھی بیکا نہ ہوا۔ لندن کی جائیدادوں سے ایک اینٹ واپس پاکستان نہ آئی۔ بچہ بچہ اس خاندان کا آج بھی کھرب پتی ہے۔ سب کچھ ایسے ہی ہے جیسا پہلے تھا۔ مگر انہوں نے جو کام خلق خدا کے لئے شروع کئے تھے وہ رک گئے۔ دارالحکومت کے ہوائی اڈے کی میٹرو بس کے انفراسٹرکچر پر کروڑوں روپے لگے۔ مکمل نہ ہوا۔ اب کوئی اس کا والی ہے نہ وارث! 


حضور!یہ سب کچھ چیچو کی ملیاں میں نہیں ہوا نہ چیچہ وطنی میں! یہ سب اس شاہراہ کے کناروں پر دیکھا جا رہا ہے جس کے ذریعے لاکھوں لوگ ملک بھر سے اور دنیا بھر سے ہر روز دارالحکومت آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ غیر ملکی سیاح حکومتوں کے سفیر۔ سلطنتوں کے سربراہ ‘ عمائدین کیا سوچتے ہوں گے۔ کیا کہتے ہوں گے؟ کہ یہ کام‘ عوام کی سہولت کے لئے شریفوں نے شروع کیا تھا۔ عمران خان کی حکومت نے ان کی دشمنی میں آ کر اسے بھی بند کر دیا!! ؎


 سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا 

کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا


 چاہیے تو یہ تھا کہ آپ تخت پر بیٹھتے ہی حکم دیتے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے کہ عام لوگوں کو ایئر پورٹ پر جانے کے لئے وسیلہ مل جائے ! مگر افسوس! صد افسوس! حکومت کے سربراہ سے لے کر وزیروں تک‘ اعلیٰ نوکر شاہی سے لے کر ادنیٰ اہلکاروں تک کسی کو یہ بھی پروا نہیں کہ ان بدنما ڈھانچوں کا کیا بنے گا؟ یا انہیں اکھاڑ دیجیے اور ملبہ پورے شہر میں بکھیر دیجیے خواہ اس انہدام پر کروڑوں مزید لگ جائیں۔ نانی نے خصم کیا۔ بُرا کیا۔ کر کے چھوڑ دیا اور بھی بُرا کیا!!


 آپ کے اعلیٰ خیالات کرپشن کے خلاف قابلِ قدر ہیں مگر زندگی کے حقائق‘ اس سے آگے ‘ کچھ اور بھی چاہتے ہیں ؎ 


بھرا نہ مر مر و اطلس سے پیٹ خلقت کا 


یہ بدنہاد اب آب و گیاہ‘ مانگتی ہے 


آسمانی من و سلویٰ بنی اسرائیل کو مطمئن نہ کر سکا۔ انہیں پیاز اور مسور درکار تھی! سعدی نے کہا ؎ 


شَبِ جو عقدِ نماز می بندم 

چہ خورد بامراد فرزندم



عابد ہو یا زاہد ! رات کو نماز کے لیے نیت باندھتا ہے تو ذہن اس مشکل میں الجھا ہوتا ہے کہ صبح اہل و عیال کے نان نفقہ کا کیا بنے گا؟ شریف حکومت نے دارالحکومت کی حبل الورید۔ یعنی رگِ گلو۔ کو جسے ایکسپریس ہائی وے کہتے ہیں‘ بنایا۔ آدھی سے زیادہ بنا ڈالی۔ زیرو پوائنٹ سے لے کر فیض آباد تک۔ پھر فیض آباد سے گلبرگ تک مکمل ہو گئی۔ اب جو چند کلو میٹر کا حصہ رہتاہے۔ اس کے بننے کے کوئی آثار نہیں! لاکھوں لوگ بے پناہ اذیت سے دوچار ہیں۔ کوئی نہیں جو وزیر اعظم کو بتائے کہ چکوال اور جہلم کے ‘روات اور گوجر خان کے ‘ مندرہ اوردینہ کے‘ بحریہ ‘ ڈیفنس ‘پی ڈبلیو ڈی اور بیسیوں دیگر آبادیوں کے لوگ تحریک انصاف کو اس شاہراہ کی وجہ سے ووٹ نہیں دیں گے۔ جب آپ لوگوں کے پیٹ پر مکہ ماریں گے تو چہرے پر غازہ ملنے کا کوئی فائدہ نہیں! 


کیا اس سے بڑی ناکامی بھی کوئی ہے کہ لوگ ادھورے منصوبے دیکھ کر شریف حکومت کو یاد کریں کہ آج ہوتے تو یہ کام مکمل ہو چکے ہوتے! 


جہان کی فکر کیجیے! جناب وزیر اعظم! جہان کی!! صرف ایمان سے کام نہیں بنے گا! اب بھی وقت ہے ! اپنی ترجیحات پر نظرثانی کیجیے کہ کل عوام ایمان نہیں‘ جہان دیکھ کر فیصلہ کریں گے! 





Thursday, February 14, 2019

خطرناک ترین حملہ



رات بھر نیند نہ آئی۔ حملہ ہونے میں صرف دو دن رہ گئے تھے - 


اگلا   دن بھی اضطراب میں گزرا۔ شام ڈھلی تو کرب میں اضافہ ہو گیا۔ رات پھر پیچ و تاب میں بسر ہوئی۔ کل صبح اٹھا تو سب سے پہلے کیلنڈر دیکھا۔ امتِ مسلمہ پر خوف ناک حملہ ہونے میں چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت رہ گیا تھا۔ 


وہ تو اخبار کھول کر دیکھا تو جان میں جان آئی!اللہ! تیرا شکر ہے ہمارے علماء خبردار اور ہوشیار ہیں۔ جنہوں نے اس سیلاب کے آگے بند باندھ دیا۔ ورنہ مذہب، ملت، قوم، پاکستان سب کچھ بہہ جاتا۔ 


جنہوں نے یہ خبر سن لی ہے وہ سجدہ ریز ہو جائیں، اور جوتاحال لا علم ہیں، وہ جان لیں کہ ایک نہیں، دو نہیں، پانچ نہیں، دس نہیں، پورے پچاس علماء نے ویلنٹائن ڈے کے حملے کے آگے بند باندھ دیا ہے۔ 


علما اور مفتیانِ کرام نے اپنے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں جو نکات بیان فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ 


اوّل:ویلنٹائن ڈے غیر اسلامی، مغربی اور اخلاق سوز تہوار ہے۔ 


دوم: حکومت اس پر پابندی لگائے۔ 


سوم:اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں مغربی ماحول پیدا کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ 


چہارم:پوری قوم اور مسلم نوجوان ویلنٹائن ڈے کا بائی کاٹ کریں۔ ی


پنجم:مشترکہ بیان میں دکانداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ویلنٹائن ڈے سے متعلق اشیاء کو اپنی دکانوں پر فروخت نہ کریں۔ 


ہم ان سطور کے ذریعے مفتیان کرام کے اس اعلامیہ کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ ان مفتیانِ مذہب نے قوم کو بروقت متنبہ کر کے دین کا حق ادا کر دیا ہے۔ جب تک ہمارے مفتیانِ کرام سلامت ہیں، کوئی میلی آنکھ سے ہمارے مذہب کو نہیں دیکھ سکتا۔ 


تاہم اس ضمن میں کچھ عقل سے بے بہرہ لوگ اعتراض کریں گے۔ ایک اعتراض یہ ہو گا کہ ویلنٹائن ڈے منانے والا طبقہ تعداد میں انتہائی قلیل ہے۔ بڑے شہروں اور بڑے قصبوں میں رہنے والے چند فیشن زدہ مرد اور عورتیں ویلنٹائن ڈے مناتی ہیں۔ علماء کرام کا دوسری طرف حکم ہے کہ پوری قوم ویلنٹائن ڈے کا بائی کاٹ کرے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مریض کو ڈاکٹر نے متنبہ کیا کہ دن میں دو سے زیادہ سگرٹ نہ پئے۔ اگلی بار ڈاکٹر کے پاس آیا تو اپنی مشکل بیان کی کہ میں تو سگرٹ نوشی کا عادی نہ تھا۔ آپ نے ایک دن میں دو سگرٹ پینے کا حکم دیا تو بہت مصیبت میں ہوں۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ میں سگرٹ نہ پیوں؟ 


اب اگر پوری قوم نے اس دن کا بائیکاٹ کرنا ہے تو لازم ہے کہ پہلے پوری قوم کو اس دن سے متعارف کرایا جائے۔ چھوٹے چھوٹے گائوں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ شہروں میں بھی کثیر تعداد ویلنٹائن ڈے کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ علماء کرام کی خدمت میں اس اعتراض کا توڑ ہم پیش کیے دیتے ہیں۔ وہ یوں کہ تمام ائمہ اور خطیب حضرات جمعہ کے خطبات اور روزانہ کے درس میں اپنے اپنے حاضرین سے ویلنٹائن ڈے کا تعارف کرائیں۔ اس دن مغرب میں اور ہمارے ہاں مغرب زدہ طبقہ کیا کرتا ہے، یہ سب تفصیل سے بتایا جائے۔ اس طرح پوری قوم ویلنٹائن ڈے کے نام اور کام سے روشناس ہو جائے گی۔ اس کے بعد مفتیان کرام کا یہ حکم سنایا جائے کہ اب جب تم ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سب کچھ جان چکے ہو تو اب بائی کاٹ کرو۔ 


اس کے جواب میں دلیل دی جا سکتی ہے کہ اب ویلنٹائن ڈے کا مسئلہ صرف شہروں اور بڑے قصبوں تک محدود نہیں، سوشل میڈیا نے اس مکروہ رسم کو گلی گلی، گھر گھر پہنچا دیا ہے۔ مگر یہ اعتراض سطحی ہے۔ 2018ء کے سروے کی رُو سے پاکستان کی کُل آبادی کا صرف بائیس فیصد حصہ انٹرنیٹ تک رسائی رکھتا ہے۔ یہ تو رسائی رکھنے والے ہوئے۔ ان میں سے تمام انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے۔ انٹرنیٹ کو باقاعدگی سے استعمال کرنے والے پوری آبادی کا صرف اٹھارہ فی صد ہیں، رہا موبائل فون سے انٹرنیٹ کا استعمال۔ تو وہ صرف سولہ فیصد لوگ کر رہے ہیں۔ عملی مشکل یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جو لوگ ویلنٹائن ڈے سے واقفیت رکھتے ہیں وہ سولہ فیصد سے زیادہ نہیں! اب جو اس بلا سے واقف ہی نہیں، وہ کیسے بائیکاٹ کریں؟ 


میں نے تو اس شرعی حکم کو بلا چون و چرا ماننے کا عزم کر لیا ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنے محلے میں، زیر تعمیر مکانوں میں کام کرنے والے تمام مزدوروں، اردگرد کے ریڑھی بانوں اور دیگر ان پڑھ لوگوں کو اکٹھا کر کے ویلنٹائن ڈے کے بارے میں تفصیل سے بتائوں گا اور پھر شرعی اعلامیہ سنا کر ان سے بائی کاٹ کی اپیل کروں گا۔ 


کچھ نا عاقبت اندیش یہ بھی کہیں گے کہ ہمارے دکاندار ایک عرصے سے ایسی اشیا فروخت کر رہے ہیں جو انسانوں کو ہلاکت میں ڈال رہی ہیں۔ خوفِ خدا سے بے نیاز یہ تاجر خوراک میں ملاوٹ کر رہے ہیں۔ مرچوں سے لے کر آٹے تک، چائے کی پتی سے لے کر شہد اور دودھ تک۔ بیسن سے لے کر گھی تک۔ ہر شے ناخالص بیچ رہے ہیں۔ ادویات جعلی بنا اور فروخت کر رہے ہیں، یہاں تک کہ یہ ظالم معصوم شیر خوار بچوں کا دودھ تک خالص نہیں بیچتے۔ مگر آج تک ہمارے مفتیانِ عظام نے ان تاجروں کو اس حرام کاری اور حرام خوری سے منع نہیں کیا۔ یہ کم تولتے ہیں۔ بیچتے وقت شے کا نقص نہیں بتاتے۔ پورے ملک میں ناجائز تجاوزات پر قبضہ کر رکھا ہے۔ فٹ پاتھ، برآمدے، سڑکوں کی سڑکیں، انہوں نے ہڑپ کر رکھی ہیں۔ ٹیکس نہیں دیتے۔ پوری دنیا میں بازار صبح نو بجے کھلتے ہیں اور غروب آفتاب کے وقت بند ہو جاتے ہیں مگر یہ دیدہ دلیر دن کے بارہ بجے دکانیں کھولتے ہیں اور آدھی رات تک برقی روشنی استعمال کرتے ہیں، علماء کرام نے آج تک اس اسراف سے انہیں منع نہیں کیا۔ 


ان کم عقل معترضین کو ہم یہ جواب دینا چاہتے ہیں کہ بے وقوفو!جرم کی نوعیت پر غور کرو! ناخالص خوراک،جعلی ادویات اور معصوم بچوں کے لیے خراب دودھ بیچنا کوئی اتنا بڑا جرم نہیں، زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ لوگوں کے گردے خراب ہوں گے۔ پھیپھڑے ناکارہ ہو جائیں گے۔ دل کی بیماریوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ معصوم بچے ملاوٹ والا دودھ پی کر زیادہ سے زیادہ مر ہی تو جائیں گے۔ اب ان معمولی معمولی غلطیوں پر دکانداروں کو کیا ٹوکنا! رہا ویلنٹائن ڈے تو بیوی یا منگیتر کو یا کلاس فیلو کو پھول پیش کرنے سے بڑا تباہ کن گناہ کیا ہو گا۔ 


پھر یہ بھی ہے کہ ویلنٹائن ڈے سال میں ایک بار منایا جاتا ہے۔ جب کہ ملاوٹ، کم تولنے اور ناجائز نفع خوری کا مکروہ کاروبار سارا سال جاری رہتا ہے۔ علماء نے تاجروں کو ملاوٹ سے اور دوسرے گناہوں سے اس لیے منع نہیں کیا کہ جو گناہ سارا سال کیا جاتا ہے وہ کم نقصان دہ ہوتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے زیادہ خطرناک ہے اس لیے کہ یہ سال میں صرف ایک دن کے لیے ہے۔ یہ باریک نکتہ یہ احمق سمجھتے تو اعتراض نہ کرتے۔ 


ہاں ایک عرض علماء کرام کی خدمت میں ہم بھی ضرور کریں گے کہ یہ جو حکم فرمایا ہے کہ دکاندار ویلنٹائن ڈے سے متعلق اشیا اپنی دکانوں پر فروخت نہ کریں، تو ازراہ لطف و کرم اگر ان اشیاء کی فہرست بھی شرعی اعلامیہ کے ساتھ جاری کر دی جائے تو تعمیلِ حکم میں سہولت رہے گی۔

Tuesday, February 12, 2019

شکنجا جو کسا جانے والا ہے




وہی ہوا جس کا ڈر تھا


 وہی ہونے جا رہا ہے جو ہوتا آیا ہے۔ 


آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ قرضہ لینا ہے تو روپکی قدر مزید گھٹائو۔ بجلی مہنگی کرو۔ گیس کے نرخ بڑھائو! کس کو نہیں معلوم کہ آئی ایم ایف ترقی پذیر ملکوں کے لئے بدترین ساہوکارہ ہے۔ یہ اندرونی معاملات میں کھلم کُھلا مداخلت کرتا ہے۔ ہاتھ پائوں باندھ دیتا ہے۔ اس کا پسندیدہ کلہاڑا جو یہ قرض خواہ ملک پر چلاتا ہے’’سٹرکچرل(Structural)ریفارمز‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنا۔ 


آئی ایم ایف کی سخت گیر سربراہ کرسٹائن لگارڈے اصلاً فرانس سے ہے۔ فرانس میں کئی وزارتوں کی انچارج رہی۔2011ء میں آئی ایم ایف کی سربراہ بنی۔ جن ملکوں نے اس کے انتخاب کی حمایت کی ان میں بھارت بھی تھا! اس کے مقابلے میں میکسیکو کے بینک کا گورنر تھا۔ ہسپانیہ سمیت لاطینی امریکہ کے ملکوں نے اس کا ساتھ دیا۔ اگر وہ منتخب ہو جاتا تو آئی ایم ایف کا پہلا غیر یورپی سربراہ ہوتا مگر یورپ نے یہ سرداری اپنے ہاتھ سے نہ نکلنے دی۔ امریکہ نے بھی یورپ کا ساتھ دیتے ہوئے اس سخت گیر خاتون کی حمایت کی۔ 


اس وقت یونان کی اقتصادی حالت زبوں تھی۔ آئی ایم ایف کا سربراہ بنتے ہی لگارڈے نے یونان کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت شروع کر دی۔ 


’’واحد پیغام جو میں آج یونان کو دینا چاہتی ہوں یہ ہے کہ یونان کی اپوزیشن جماعتیں‘ حکومت کی حمایت کریں۔‘‘ 


اس نے یونانی عوام کو مُشکیں کسنے کی خوش خبری سنائی۔2016ء میں یونان کی اقتصادی حالت مزید ابتر ہوئی تو یورپ کے ’’یورو‘‘ استعمال کرنے والے ملکوں نے یونان کے لئے ایمرجنسی امداد کی مہم چلائی مگر آئی ایم ایف نے کسی قسم کی امداد دینے سے انکار کر دیا۔ کیوں کہ آئی ایم ایف کے بقول۔’’یونان نے مناسب اقدامات نہیں لیے تھے۔‘‘ 


یہ مناسب اقدامات کیا ہوتے ہیں؟ یہی کہ ملک اپنی لگام آئی ایم ایف کے ہاتھ میں دیدے۔ پھر یہ آئی ایم ایف کی مرضی ہے کہ جدھر چاہے موڑے۔ ملک کی تمام اقتصادی‘ سیاسی‘ سماجی پالیسیاں اس کے ہاتھ میں آ جاتی ہیں۔ کرنسی کی قیمت گر جاتی ہے۔ ٹیکس ظلم کی حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ گیس ‘ پانی‘ بجلی ٹیلی فون کے نرخ‘ وہ ملک خود نہیں‘ آئی ایم ایف طے کرتا ہے۔ یہ ایک شکنجہ ہوتا ہے جس میں قرض لینے والا ملک پھنس جاتا ہے۔ آئی ایم ایف شکنجہ کستا جاتا ہے۔ عوام کی ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں آتی ہیں مگر جہاں آئی ایم ایف کے کان بند ہوتے ہیں وہاں قرضہ لینے والی حکومت بھی کانوں میں روئی ٹھونس لیتی ہے۔ پھر مزید اقدامات ۔ مزید قرضہ۔ مزید مہنگائی پھر وہ ملک کبھی بھی اس شکنجے کی گرفت ڈھیلی نہیں دیکھ سکتا! ۔


یونان کی مصیبت کم نہ ہوئی۔ حالات بدتر ہوتے گئے ۔ مرے کو مارے شاہ مدار، لگارڈے نے بیان دیا کہ یونان عیش کرتا رہا مگر اب قیمت ادا کرنے کا وقت ہے۔ پھر الزام لگایا کہ یونانی ٹیکس نہیں ادا کرتے۔ یونان کے نائب وزیر اعظم نے اس بیان کو یونانی عوام کی بے عزتی قرار دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں لگارڈے کی ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں! اُسی دن لگارڈے نے فیس بک پر اپنی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے دفاع میں لکھا کہ میں تو یونانیوں کی ہمدرد ہوں۔ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اس پر دس ہزار لوگوں نے کمنٹس دیے جن میں گالیاں بھی شامل تھیں! جہاں تک اس کے اس طعنے کا سوال تھا کہ یونانی عوام ٹیکس نہیں دیتے تو اس کے جواب میں یونیورسٹی آف لندن کے ایک پروفیسر نے کہا کہ اخلاقی طور پر لگارڈے ایسا کہہ نہیں سکتی کیونکہ وہ خود بھاری تنخواہ(468000ڈالر سالانہ) وصول کر رہی ہے اور اس پر ایک پائی ٹیکس نہیں دیتی! 


یہ ہے وہ آئی ایم ایف کی سربراہ جس سے وزیر اعظم عمران خان نے دبئی میں ملاقات کی ہے! کیا وہ اصل میں اس ملاقات ہی کے لئے گئے تھے؟ اس کا جواب حکومت تو انکار ہی میں دے گی مگر قرائن بتاتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ کیوں کہ آئی ایم ایف کے سربراہ کی پوزیشن اس وقت غریب ملکوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے استعماری حکومت کا وائسرائے ہوتا ہے۔ مناسب تو یہی تھا کہ وزیر اعظم خود نہ ملتے، ان کا وزیر خزانہ یا کوئی سرکاری ٹیم ملتی!


 اس ملاقات کے بعد ‘ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنی شرائط میں کوئی نرمی نہیں پیدا کی۔ یعنی وہ بدستور بضد ہے کہ ٹیکس مزید لگائے جائیں اور گیس اور بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے اپنے اس سٹاف کے مطالبات کی حمایت کی جو نیچے کی سطح پر پاکستانی حکومت کے کار پردازوں کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کر رہا ہے دو مطالبات ہوش ربا ہیں۔ گیس اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ اور روپے کی قدر میں مزید کمی۔ جس کا مطلب ہے کہ ڈالر کی قیمت ایک سو پچاس یا ایک سو ساٹھ روپے کے لگ بھگ ہو! اس سے ایک تو پاکستان کی ساکھ کو بین الاقوامی سیاسیات میں مزید دھچکا لگے گا۔ دوسرے عوام پس کر رہ جائیں گے۔ اخباری کاغذ مزید مہنگا ہو گا۔ تیل کی قیمت بڑھے گی۔ لائف سیونگ ادویات مزید گراں ہوں گی کیوں کہ ان کا خام مال درآمد کرنا ہوتا ہے۔ دوسری طرف اشیائے تعیش کی درآمد پر حکومت کوئی پابندی لگانے کے موڈ میں نہیں! گاڑیوں کی قیمتیں پہلے ہی آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں یہ مزید بڑھیں گی اور چھوٹی سے چھوٹی کار بھی مڈل کلاس کی دسترس سے باہر ہو جائے گی۔ موٹر سائیکل خریدنے کا خواب دیکھنے والے مزید دل شکستہ ہوں گے۔ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ قرض کے لئے ہمارے حضور حاضر ہونے سے پہلے یہ اقدامات کرو۔ پھر آئو!


 کتنا بدبخت ہے یہ ملک جس کے امرا‘ تاجر‘ جاگیر دار ٹیکس نہیں دیتے اور عوام آئی ایم ایف کے شکنجے میں اپنی ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں سنتے ہیں۔ ستر برس سے یہی ہو رہا ہے۔ آج تک کوئی ملک آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس کر باہر نہیںنکل سکا۔ 


زرداری خاندان‘ شریف خاندان‘ ترین خاندان‘ گجرات کا چودھری خاندان‘ علیم خان‘ منشا گروپ اور درجنوں ایسے کھرب پتی خاندان اور افراد ہیں جو اپنی اپنی دولت کا آٹھواں حصہ بھی ملک کو دیں تو آئی ایم ایف کے پاس کشکول بدست نہ جانا پڑے۔ ٹیکس ہی پورا دے دیں تو کام بن جائے۔ بیرون ملک محلات میں نوٹ گننے کی مشینیں نصب ہیں اور ملک بھیک مانگ رہا ہے۔ کبھی سعودی عرب سے، کبھی چین سے، کبھی متحدہ امارات سے اور اب بدترین سامراجی قوت سے جس کا نام آئی ایم ایف ہے!


 حکومت ایک طرف رونا روتی ہے کہ آبادی کا آٹھ فیصد حصہ ٹیکس دیتا ہے۔ دوسری طرف ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کا کوئی پلان تاحال قوم کے سامنے نہیں پیش کر سکی۔ ڈاکٹر‘ وکیل‘ مکانوں کے نقشے بنانے والے کروڑ پتی آرکیٹکٹ۔ گلی گلی پیسہ بٹورنے والے ہومیو پیتھ۔ میلوں تک پھیلی جاگیروں اور باغات کے مالک جاگیردار اور سب سے بڑھ کر تاجر، جو خریدار کو رسید تک نہیں دیتے۔ ان میں سے کوئی بھی ٹیکس نہیں دیتا۔ فخر سے بتایا جاتا ہے کہ یہ ملک خیرات و صدقات کے حوالے سے نمایاں ترین مقام رکھتا ہے! غنی کاشمیری یاد آ گیا ؎ 


غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن 

کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را 


کنعان کا بوڑھا بینائی کھو بیٹھا کہ

افسوس !!  اس کا نورِ چشم زلیخا کی آنکھیں ٹھنڈی کر رہا ہے! 






 

powered by worldwanders.com