Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, January 31, 2019

سیاحت؟ کون سی سیاحت؟




یہ ان دنوں کی بات ہے جب سردیوں میں چترال جانے کے لئے لواری کی سرنگ  نہیں تھی -چترال پہنچنے کے لئے لوگ افغانستان کا راستہ استعمال کرتے تھے۔ ایک وفاقی وزیر نے اعلان کیا کہ ہم چترال کے مقام گرم چشمہ کو وسط ایشیا سے ملا دیں گے۔ لوگوں نے سنا اور ہنسے۔ اس لئے کہ چترال تو خود باقی ملک سے کٹا ہوا تھا۔ 


یہی صورت حال آج یوں پیش آئی کہ وزیر اعظم نے سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ایک ولولہ انگیز پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ ایک سو پچہتر ملکوں سے آنے والے سیاحوں کو ویزا آن لائن دیا جائے گا اور پچاس کو پاکستان کے ایئر پورٹ پر اترنے کے بعد دیا جائے گا؟ وزیر اعظم کے حسن نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں! وہ پورے خلوص سے سیاحت کی ترقی چاہتے ہیں۔ مگر ایک نظر زمینی حقائق پر ڈال لی جائے تو معلوم ہو گا کہ محض ویزا پالیسی نرم کرنے سے مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ 


شمالی علاقے تو دور ہیں، ایک نظر لاہور پر ڈال لیجیے۔ شاہی قلعہ کے بیشتر حصے ایک عرصہ سے مرمت اور بحالی کے نام پر بند ہیں۔ اہلیت رکھنے والے ٹورسٹ گائیڈ ناپید ہیں۔ شاہی مسجد میں صفائی نام کی کوئی شے نہیں۔ بدترین مسئلہ وہاں وہ مافیا ہے جو مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کو جوتوں کی حفاظت کے نام پر لوٹ رہا ہے۔ بورڈ دس روپے کا لگا ہوا ہے مگر مافیا کے ورکر‘ جن کی اکثریت غنڈہ قسم کے افراد پر مشتمل ہے‘ چار سو روپے فی جوڑا وصول کر رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے کراچی سے آئے ہوئے چند نوجوان سیاحوں نے اس دھاندلی پر اعتراض کیا تو انہیں ’’راہ راست‘‘ پر لانے کے لئے ایک مخصوص برادری کے مافیا ٹائپ افراد طلب کئے گئے جنہوں نے ان اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان سیاحوں پر واضح کیا کہ ہڈی پسلی سلامت چاہتے ہو تو فی جوڑا چار سو روپے دو! 


مری کا معاملہ لے لیجیے۔ پہلی ذلت آمیز اذیت سیاحوں کو مری روڈ پر ہی پیش آ جاتی ہے۔ بارہ کہو کے مقام پر ٹریفک کا مسئلہ مکروہ ترین شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔ ہفتے کا اختتام ہو یا برفباری کا دن‘ بارہ کہو کے مقام پر گھنٹوں نہیں پہروں ٹریفک کا اژدھام رہتا ہے۔ تین گھنٹے تو کہیں گئے ہی نہیں! مری جانے والی گاڑیاں ہوں یا مری سے آنے والی، یہاں ایک ایسی صورت حال سے دو چار ہوتی ہیں جس کا اور کوئی حل ہو یا نہ ہو‘ خودکشی والا حل ضرور ذہن میں آتا ہے۔ مقامی آبادی الگ‘ ہر روز اس قیامت سے گزرتی ہے۔ سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ یہاں ایک اوور ہیڈ پل تعمیر کرائیں گے۔وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے حالانکہ شاہراہوں اور پلوں ہی کے لئے تو وہ مشہور تھے۔ 


اس علاقے سے تحریک انصاف کا جو رکن ایم این اے منتخب ہوا ہے اس پر لازم تھا کہ سب سے پہلے وزیر اعظم کی توجہ اس کی طرف مبذول کراتا۔ اگر نئے وزیر اعظم اوور ہیڈ پل کی تعمیر کا اعلان کر دیتے تو کئی مقاصد حاصل ہو سکتے تھے۔ مقبولیت میں اضافہ ہوتا اور سیاح سُکھ کا سانس لیتے۔ 


مری پہنچنے کے بعد جو کچھ پیش آتا ہے‘ اس کے لئے تو ’’قصہ چہار درویش بے تصویر‘‘جیسی کئی جلدیں درکار ہیں۔ مرد سیاحوں کے ساتھ اہلیان مری جو سلوک کر رہے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خواتین کو وہاں باقاعدہ زدوکوب کیا جاتا ہے، پینے کے صاف پانی کی قلت ہے۔ ایک آدھ فائیو سٹار ہوٹل کو چھوڑ کر باقی ہوٹل غلاظت، بدانتظامی، بدسلوکی اور گرانی کے گڑھ ہیں۔ کسی ریستوران میں کھانا کھا لیں تو ہفتوں پیٹ کا علاج کراتے رہیے، مری کے اندر ٹریفک کا سسٹم کسی قاعدے قانون کا محتاج نہیں، مال پر غنڈہ گردی عام ہے۔ گویا چترال باقی ملک سے کٹا ہوا ہے اور آپ گرم چشمے کو بدخشاں سے ملا رہے ہیں۔ ہم وزیر اعظم کی خدمت میں بصد احترام عرض گزارتے ہیں کہ حضور!پہلے لاہور اور مری کو تو سیاحت کے نکتۂ نظر سے ’’ماڈل شہر‘‘ بنائیے کہ بقول سعدی ؎ 


تو کارِ زمین را نکو ساختی


کہ با آسمان نیز پرداختی


زمین کے معاملات درست ہو لیں تو پھر آسمان کا رُخ کیجیے۔


 رہا معاملہ شمالی علاقوں کا، تو یہاں سیاحت کے راستے میں بدترین رکاوٹ قومی ایئرلائن کا وہ سوتیلا رویہ ہے جو وہ شمالی علاقوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔ موسم کی آڑ میں پروازیں مؤخر کر دی جاتی ہیں اور اکثر و بیشتر منسوخ! بارہا ایسا ہوا کہ سکردو یا گلگت جانے والا طیارہ کسی اور رُوٹ پر بھیج دیا گیا۔ انتظار کرنے والے مسافروں کو کچھ بتانے کی ضرورت ہی کبھی محسوس نہیں ہوئی اور اگر کوئی پاگل جان چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو تو اسے بتایا جاتا ہے کہ جہاز میں فنی خرابی ہے یا موسم اجازت نہیں دیتا۔ اس کالم نگار نے ان گنہگار آنکھوں سے بارہا اسلام آباد، سکردو، گلگت اور چترال کے ہوائی اڈوں پر مقامی سیاحوں کو روتے اور غیر ملکی سیاحوں کو سر پیٹتے دیکھا ہے۔ 


آخری بار گلگت جانا ہوا تو واپسی پر چادر دن موسم صاف تھا۔ چاروں دن جہاز نہ آیا۔ وجہ؟ فنی خرابی؟ مجبوراً بائی روڈ آنا پڑا۔ آخری بار سکردو ایئر پورٹ پر چھ دن خواری کا سامنا کرنا پڑا۔ خلقِ خدا ایئرلائن کو کم اور حکومتِ وقت کو زیادہ گالیاں دے رہی تھی۔ ساتویں دن بخت نے یاوری کی اور پاکستان ایئر فورس کے لطف و کرم سے ایک سی ون تھرٹی کے طفیل وہاں سے نکل سکے۔ رہا شاہراہ کا سفر، تو گاڑیاں نقص والی، ڈرائیور موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلانے میں مشاق، ایک بار چترال شہر سے ایک جیپ میں وادیٔ بمبریٹ جانا ہوا۔ غیر ملکیوں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور مسلمان مسافر ورد وظیفے کر رہے تھے۔ یعنی ع 


یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں 


یہ دلیل اپنی جگہ مضبوط ہے کہ سارے کام بیک وقت نہیں ہو سکتے۔ صبر کو آزمانا پڑے گا۔ مگر شروع کریں گے تو تبھی کہیں پہنچ پائیں گے۔ آج کی تاریخ میں حالت یہ ہے کہ ایبٹ آباد سے لے کر سکردو تک اور ایبٹ آباد سے لے کر گلگت تک راستے میں ایک بھی با عزت ہوٹل ہے نہ ریستوران نہ واش روم! چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا ہے کہ گلگت سے آنے والی بس نمازِ فجر کے لیے راستے میں رکی تو جہاں ایک صاحب وضو کر رہے تھے، وہیں ایک اور بندۂ خدا شاشیدن مصدر کی گردان کر رہا تھا۔ 


بیورو کریسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا مگر جیسی روح ویسے فرشتے، سیاست دانوں کا اس حوالے سے طرزِ عمل کیا رہا ہے؟ سیاحت کے فروغ کے لیے ذمہ دار وفاقی حکومت کے ادارے کا نام ہے پاکستان ٹور ازم ڈی ویلپمنٹ کارپوریشن! یعنی پی ٹی ڈی سی، اس کے سربراہ کی پوسٹ پر تعیناتیاں ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر ہوتی رہیں۔ یہ بھی ہوا کہ وزیر سیاحت نے کارپوریشن کے سربراہ کی پجارو گاڑی اپنے ’’ساتھیوں‘‘ کی مدد سے فتح کر لی۔ جہاں وزیروں کی ترجیحات چھینا جھپٹی پر مشتمل ہوں گی وہاں بیورو کریسی کو کام کرنے کی کیا پڑی ہے۔ شریف اور دیانت دار بیورو کرپٹ وَاِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرّوُ کِراَما کے تحت گوشہ نشین ہو جائیں گے اور جوخائن اور زمانہ ساز ہوں گے وہ وزیر کے حلقۂ خاص میں داخل ہو جائیں گے۔ 


ہم کون ہوتے ہیں وزیر اعظم کی خدمت میں مشورہ پیش کرنے والے! وہ گروہ جو شریفوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز تھا بنی گالہ کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے! پھر بھی ہم جیسے احمقوں کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کوئی سنے یا نہ سنے، اپنی دانست میں جو بات درست سمجھتے ہیں، نہ بتائی توکل مواخذہ ہو گا۔ گزارش ہے کہ ایک مستعد اور جاہ و چشم سے بے نیاز شخص کو سیاحت کا وزیر مقرر کیجیے۔ ایک بے لوث فرد کو متعلقہ کارپوریشن کا سربراہ بنائیے۔ ماہانہ پراگرس رپورٹ کا خود معائنہ فرمائیے۔ تا کہ ویزا پالیسی میں لائی گئی تبدیلی کامیابی سے ہم کنار ہو سکے۔وما علینا…… 





Tuesday, January 29, 2019

خالی گھونسلہ سنڈروم

جان جوکھوں کی مہم ہے! مجھ معمر شخص کے لیے جان جوکھوں کی مہم!! 


آٹھ سالہ لڑکا غچہ دے کر اڑتے ہوئے غالیچے پر سوار ہوگیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے غالیچہ، جس پر چھت تھی اور آگے کل لگی تھی اوپر اٹھا اڑنے لگا، پھر دور ہوتا ہوتا ایک نقطے کی صورت اختیار کر گیا۔ ابھی  میں جیب میں رومال  ٹٹول رہا تھا، ادھر وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ 


کڑک کی آواز تو نہیں آئی مگر کچھ ہوا ضرور ہوگا۔ ابھی تو دن تھا۔ ابھی رات پڑ گئی۔ اور کیسی رات، چراغ نہ جگنو، تارا نہ چاندنی، کوئی آواز نہیں، شاید ہوا ناپید ہو گئی۔ سانس لینے کے لیے ہوانہیں تو آواز کیسی؟ 


کیا کرسکتا ہوں۔ میں ایک عمر رسیدہ شخص کیا کرسکتا ہوں۔ میرا تو زمانہ لد چکا۔ اڑتے ہوئے غالیچے کا کیسے تعاقب کروں۔ میں نے درد کی زین کسی اور ہجر کے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ کہاں گھوڑا، کہاں غالیچہ۔ غالیچے کا رخ بحرالکاہل کی طرف ہے۔ عناصر کو زیردست کرتا، فضائوں کو چیرتا، بادلوں سے بہت اوپر، آسمانوں سے اک ذرا اس طرف، غالیچہ اڑتا چلا جارہا ہے۔ نیچے زمین پر۔ میری زمین پر۔ سب پیچھے رہے جاتے ہیں۔ سمندر، دریا، پہاڑ، ملک، شہر، قصبے، کھیت، کارخانے، جنگل سب پیچھے رہے جاتے ہیں۔ فرسنگ در فرسنگ منزل بہ منزل، اقلیم در اقلیم، وہ تمام تصوراتی خطوط جو جغرافیہ دانوں نے کرۂ ارض پر کھینچے تھے، لڑکا انہیں عبور کرتا جارہا ہے۔

میں ہجر کی سواری پر کتنا دور جا سکتا ہوں۔ کہیں نہیں، جدائی نے اردگرد حصار کھینچا ہوا ہے۔ اسی کے اندر رہنا ہے



ستارے کاٹتا ہوں  راستہ بناتا ہوں 

مرا ہی کام ہے جس طرح  صبح کرتا ہوں


فراق میرا عصا یاد میری بینائی 

تو آکے دیکھ کہ میں اب بھی چلتا پھرتا ہوں 


جہاں سے گزرے گا وہ باد پا سواری پر 

میں 

ہجر اوڑھ کے اس راستے پہ بیٹھا ہوں


جدائی بن کے بچھالی ہے فرش پر اظہار

 اسی پہ بیٹھ کے روتا، اسی پہ سوتا ہوں


 (2) 


چڑیا نے بچوں کے منہ میں دانہ دانہ چوگ ڈالی۔ خود موسموں کی سختیاں برداشت کیں۔ اڑتے اڑتے پر تھکا دیئے، خوراک ڈھونڈتے ڈھونڈتے نظر کمزور پڑنے لگی۔ دانہ دانہ، ذرہ ذرہ، قطرہ قطرہ، کھلاتی رہتی، پلاتی رہی، کووں سے اور چیلوں سے اور عقابوں سے حفاظت کرتی رہی۔ پھر کیا ہوا؟ بچے بڑے ہو گئے۔ ایک دن آیا کہ گونسلا چھوڑ گئے۔ گھونسلا خالی ہو گیا۔ 


یہ خالی گھونسلے کا قصہ صرف چڑیا اور اس کے بچوں کے حوالے سے نہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو نفسیات میں ایک نیا باب بن چکا ہے۔ اسے 


Empty nest Syndrome 


کہا جاتا ہے۔ اس کی علامات بیان کی جاتی ہیں، پھر ایسی تدبیریں بتائی جاتی ہیں جو اس ’’ابتلا‘‘ کا مقابلہ کرنے میں ممد ثابت ہوسکتی ہیں۔ ’’سنڈروم‘‘ کئی علامتوں کے بیک وقت ظاہر ہونے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں 

Empty Nest 

Syndrome 

کی شکل اور ہے۔ مغرب میں اور ہے۔ ہمارے ہاں کی چند نعمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ سوشل لائف ہری بھری ہے۔ دوست احباب ملتے جلتے ہیں، رشتہ داروں کے ساتھ آمدورفت اکثر و بیشتر ہے۔ شادی بیاہ کے لمبے چوڑے سلسلے ہیں۔ تقریبات میں جانا رہتا ہے۔ کہیں خوشی، کہیں غم۔ معاشرہ مجموعی طورپر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ ساری اینٹیں بہم پیوست ہیں۔ دیوار میں لاتعلقی کا سوراخ کوئی نہیں۔ 


مغرب میں میاں بیوی، گھونسلے سے بچوں کے اڑ جانے کے بعد بالکل تنہا ہو جاتے ہیں، دوست احباب ‘اعزہ و اقربا سب اپنی اپنی مصروفیات میں گلے گلے تک دھنسے ہیں۔ کسی را با کسی کاری نہ باشد۔ ہفتوں تک ایک ایک ساعت پہلے سے طے شدہ ہے۔ دوسری طرف بچے، اپنے معاشرے کے رواج کے مطابق، رابطہ ذرا کم ہی رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں کی طرح نہیں جہاں بچے ماں باپ کے ساتھ تعلق کی ڈور ڈھیلی نہیں ہونے دیتے۔ تعطیلات میں آتے ہیں والدین کو اپنے ہاں بلاتے ہیں، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے ہر سال لاکھوں والدین بچوں کے ساتھ کچھ مہینے رہنے کے لیے امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا کا سفر کرتے ہیں۔


 لیکن مشرق میں، خاص طورپر جنوبی ایشیا میں یہ سنڈروم ایک اور مصیبت لے کر آتا ہے۔ یہاں جذباتیت زیادہ ہے۔ بچوں کے ساتھ تعلق اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد دھچکا پوری قوت سے لگتا ہے اور پھر لگتا ہی رہتا ہے۔ زخم ہر پھیرے، ہر وصال کے بعد تازہ ہو جاتے ہیں۔ خون پھر رسنے لگتا ہے۔ پہلے ریلوے اسٹیشنوں پر رومال ہلتے تھے ؎ 


وہ رنگ رنگ کے آنکھوں میں پھول کھلنے لگے 

وہ رینگنے لگی گاڑی وہ ہاتھ ہلنے لگے


اب جہازوں کا زور ہے ؎ 


جہازاں تے چڑھ گئے او

 مار کے باریاں 

انھے ہنیرے کر گئے او



 ہفتے میں کئی بار بچوں سے اور ان کے بچوں سے سکائپ پر، وٹس ایپ پر، فیس ٹائم پر، لمبی گفتگو ہوتی ہے۔ بولتی تصویر سامنے ہوتی ہے۔ اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ 

؎ 


تصویر تری دل مرا بہلا نہ سکے گی

 میں بات کروں گا تو وہ شرما نہ سکے گی 


اب لڑکا ماں سے دال یا بریانی پکانے کی ریسی پی بھی سمجھتا ہے۔ کل کی تقریب میں کون کون آیا تھا، کیا کیا پکا تھا، تفصیل سے بتایا جاتا ہے۔ بیٹا کھانستا ہے تو ماں فوراً شہد اور خشخاش تجویز کرتی ہے اور تو اور اب مغربی ملکوں میں ہمدرد کی سعالین سے لے کر اسبغول اور اجوائن تک ہر شے دستیاب ہے۔ 


ایک پہلو 


Empty nest Syndrome


 کا ہمارے مخصوص بڑے بڑے مکان بھی ہیں۔ یہ دو کمروں کا اپارٹمنٹ نہیں جو خالی ہوا یہ تو دو، تین منزلوں، دو لائونجوں، کئی بیڈ رومز پر مشتمل ایک بڑا مکان ہے جو دن کو بھائیں بھائیں اور رات کو سائیں سائیں کرتا ہے۔ ایک کمرے میں میاں بیوی پڑے ہیں۔ کمرے کی دیواروں پر اور دل کی دیواروں پر بچوں کی تصویریں آویزاں ہیں ؎ 


خالی مکاں میں کوئی نہ لوٹا تمام عمر 

دو پہریدار روتے رہے جاگتے رہے 


کسی کا کھلونا رہ گیا ہے تو اسے حرز جاں بنایا ہوا ہے۔ چھوٹے سائز کی جوتی نظر آئی تو اس پر صدقے قربان ہورہے ہیں 


؎ نشاں کہیں بھی نہ تھے اس کی انگلیوں کے مگر 

میں گھر کی دیکھ کے ایک ایک چیز رویا تھا 


کاغذ پر الٹی سیدھی تصویر بنا گئے تو وہ مدتوں سنبھال کر رکھی جائے گی۔


 (3) 


غالیچہ اڑ گیا۔ گھوڑا رہ گیا ‘ناصر کاظمی یاد آ گئے ؎ 


ٹھہرا تھا وہ گلغدار کچھ دیر 

بھرپور رہی بہار کچھ دیر


 اک دھوم رہی گلی گلی میں 

آباد رہے دیار کچھ دیر 


پھر جھوم کے بستیوں پہ برسا

 ابرِ سرِ کوہسار کچھ دیر 


پھر لالہ و گل کے میکدوں میں 

چھلکی مئے مشکبار کچھ دیر 


جتنے دن رہے آٹھ سالہ حمزہ اور پانچ سالہ زہرا دادا کے ساتھ سوتے رہے۔ کہاں کا مطالعہ اور کہاں کا لکھنا لکھانا۔ شام کو سیر، شام ڈھلے شاپنگ مال میں چہل قدمی۔ رات سونے سے پہلے کہانی۔ ماں باپ نے کارٹونوں کے لیے جو وقت مقرر کیا، دادا دادی کی اشیرباد سے اس کی خلاف ورزی۔ کھلونوں کی خریداریاں۔ پھر جاتے ہوئے ان کے اعلانات کہ ہم نے پاکستان ہی میں رہنا ہے مگر کون رہتا ہے اور کون رہنے دیتا ہے۔ بس اپنا زمانہ یاد کیجئے ؎ 


یوں تھا کہ میں بھی چاند تھا دادا مرا بھی تھا 

اک پیڑ تھا اور اس پہ الوچے لگے ہوئے 






Sunday, January 27, 2019

کہاں ہے PTA






اب اس روایتی اور مذہبی معاشرے میں اسی چیز کی کسر باقی تھی۔ سو پوری ہو گئی۔ 


جنسی ادویات کے اشتہار موبائل ٹیلی فونوں کے ذریعے ایس ایم ایس پر گھر گھر بھیجے جا رہے ہیں۔ ایک سرکاری ادارہ پی ٹی اے(پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی) صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لئے قائم ہے۔ بھاری مشاہروں پر اس میں بڑے بڑے افسر‘ بڑے بڑے ٹیکنو کریٹ تعینات ہیں۔ بھاری بجٹ ہے اور حالت یہ ہے کہ گھروں میں جنسی ادویات کے ناقابل برداشت‘ مکروہ اشتہارات بھیجے جا رہے ہیں۔ ادارہ کہاں ہے؟ کیا کر رہا ہے؟ 


پہلی صدائے نفرین تو اُن زرپرست جانوروں کے خلاف بلند کرنی چاہیے جن کا کوئی اخلاقی آگا پیچھا نہیں! جو ہر حال میں پیسہ بٹورنا چاہتے ہیں۔ انہیں جانور کہنا جانوروں کی توہین ہے۔ جانوروں کے پھر اخلاقی ضابطے ہوتے ہیں۔ سوائے اس ایک جانور کے جس کا نام لینا اس معاشرے کی روایت کے خلاف ہے۔کیا فرق ہے ان میں اور جنسی ادویات فروخت کرنے والوں میں؟ 


سب کو معلوم ہے کہ بہت سے گھروں میں اب لینڈ لائن ٹیلی فون نہیں لگوایا جاتا۔ ایک موبائل فون گھر کے عمومی استعمال کے لئے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔ اسے گھر کے بچے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جوان لڑکیاں بھی اور خواتین بھی۔ یہ جنسی اشتہار ان کی نگاہوں سے بھی گزرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ رسی کا سرا دستیاب ہو تو نوجوان لڑکے نوخیز لڑکیاں اس سرے سے پوری رسی تلاش کر لیتے ہیں۔ 


اول تو کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ مارکیٹنگ کرنے کے لئے سینکڑوں ہزاروں صارفین کو نشانہ بنائے۔ اشتہار مکان بیچنے کا ہے یا پلاٹ خریدنے کا‘ ونڈو ایئر کنڈیشنر کے لئے ہے یا کسی سیل کا ‘آپ کو کیوں پریشان کرے؟ آپ سو رہے ہیں‘مطالعہ کر رہے ہیں۔ نماز ادا کر رہے ہیں‘ تلاوت کر رہے ہیں۔ کسی ضروری کام میں مصروف ہیں۔ کسی ذہنی پریشانی کا شکار ہیں‘ گھنٹی بجتی ہے‘ آپ تجسس میں فون کی سکرین دیکھتے ہیں۔ کوئی لالچی شخص کوئی شے بیچنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ آپ خریدیں۔ 


موبائل فون کے ذریعے سینکڑوں ہزاروں افراد کو اشتہار بھیجنے والا ’’خدا ترس‘‘ شخص چُھپا بیٹھا ہے۔ وہ ایک اشتہاری ’’کمپنی‘‘ چلا رہا ہے۔ تاجر اپنا اشتہار اور اپنے فون نمبر اسے دیتے ہیں۔وہ ایک کلک کے ذریعے یہ اشتہار گھر گھر‘ کمرہ کمرہ ‘ بستر بستر‘ پہنچاتا ہے۔ آپ اسے ٹیلی فون کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بھائی میرا نام اپنی برگزیدہ فہرست سے خارج کر دو۔ مگر اس تک رسائی ناممکن ہے۔ وہ نمبر اٹھاتا ہی نہیں! آپ اس تاجر کو فون کرتے ہیں جو فروخت کنندہ ہے۔ اس کا جواب ایک ہی ہے کہ ’’یہ تو اشتہاری کمپنی کا کام ہے۔ اسے کہیے کہ آپ کا نمبر اپنی فہرست سے نکال دے۔ رہا میں تو حکم کیجیے کون سی جنسی دوا درکار ہے؟ 


پی ٹی اے کے متعلقہ افسر سے بات کی تو ان کا خوف زدہ جواب تھا کہ پریس انچارج سے بات کریں۔ وضاحت کی کہ پریس انچارج آپ ہی سے پوچھے گا۔ بہرطور انہوں نے ای میل ایڈریس دیا جس پر بدمعاشی کی ساری تفصیل بھیج دی گئی۔ اب دیکھیے کیا ایکشن لیا جاتا ہے۔ 


مگر اصل سوال اور ہے! کیا پی ٹی اے نے کبھی ٹیلی ویژن یا پرنٹ میڈیا کے ذریعے صارفین کو آگاہ کیا ہے کہ اشتہار بازی فلاں قانون کی خلاف ورزی ہے اور فلاں نمبر پر رابطہ کیا جائے۔؟ یہ کالم نگار سال کے کئی ماہ بیرون ملک گزارتا ہے۔ وہیں کی سِم استعمال ہوتی ہے۔ وہیں کا نیٹ ورک! کبھی کوئی اشتہار نہیں موصول ہوتا۔ ہاں‘ ٹیلی فون کمپنی یہ اطلاع ضرور دیتی ہے کہ کون سے نئے پیکیج صارفین کے لئے ارزاں ثابت ہوں گے۔ 


کیا یہ ہماری قومی سرشت کا حصہ ہے کہ ہم ہر ایجاد کا‘ ہر سہولت کا بھر پور طریقے سے غلط استعمال کریں۔ لائوڈسپیکر سے شروع کیجیے۔ پورا محلہ بیزار ہوتا ہے۔ صبح چار بجے سے رات نو دس بجے تک وقفے وقفے سے مسلسل استعمال ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ نماز باجماعت بھی لائوڈ سپیکر پر ادا کی جاتی ہے۔ کئی مسلمان ملکوں میں لائوڈ سپیکر کی آواز مسجد کی حدود سے باہر نہیں جاتی۔ یہاں مریض ہے یا طالب علم‘ بوڑھا ہے یا بچہ‘ اذیت سے دوچار ہے! 


ٹیلی ویژن لے لیجیے۔ تفریح کے نام پر جو ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ان میں شادیوں طلاقوں سازشوں معاشقوں اور ساس بہو کے جھگڑوں کے علاوہ کوئی پلاٹ ہی نہیں! تاریخ ہے نہ جغرافیہ‘ بین الاقوامی تعلقات پر کوئی ڈھنگ کا مضمون نہیں! صبح کے پروگرام فیشن اور گھٹیا ذوق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نیم تعلیم یافتہ نوجوان اچھلتے کودتے پستے ذہنی سطح بروئے کار لا کر عوام کے ذوق کو بھی پاتال تک لا رہے ہیں اور اب تو ان ڈراموں نے حد کر دی ہے۔ مقدس رشتوں کے ساتھ معاشقے ! الامان و الحفیظ!! 


پوری ترقی یافتہ دنیا میں ای ریڈر پر خلقِ خدا کتابوں کا مطالعہ کر رہی ہے۔ پاکستان میں ای ریڈر مقبول ہی نہیں ہو سکا۔ اس لئے کہ کتابوں سے ازلی ابدی دشمنی ہے۔ فیس بُک کو دیکھ کر ابکائی آتی ہے۔ احرام باندھا تو اس کی تشہیر! عمرہ ادا کیا تو اس کی تصویر! مریض ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ یہاں اس کی تصویر فیس بک پر لگانے کا شوق تیز ہو رہا ہے۔ وٹس ایپ اور مسینجر کا غلط استعمال تو انتہا کو چھو رہا ہے۔ کوئی دعائیں سکھا رہا ہے۔ کوئی نسخے بتا رہا ہے۔ کوئی جمعہ مبارک بھیجنا نہیں بھولتا۔ بھائی لوگو! یہ جمعہ مبارک آج سے چند برس پہلے تو سننے میں نہیں آتا تھا۔ یہ کہاں سے آ گیا؟ جمعہ کے دن اپنی عبادت اپنی عاقبت کی فکر کرو! نہائو‘ دھوئو‘ اجلا لباس زیب تن کرو۔ تلاوت کرو۔ وقت پر مسجد پہنچو‘ عبادت کرو! گناہوں کی معافی مانگو۔ دوسروں کو مبارکیں بھیجنے کا وقت تمہیں کیسے مل گیا؟ 


انٹرنیٹ کا مجموعی طور پر غلط استعمال کتنا ہے؟ اس کا اندازہ اسی حقیقت سے لگا لیجیے کہ گوگل کے سروے کے مطابق فحش فلمیں فحش کلپ اور یو ٹیوب سے فحش ٹوٹے دیکھنے دکھانے میں یہ روایتی مذہبی ملک پہلے نمبر پر ہے!! 


کاش ! کوئی ایک کل ہی سیدھی ہوتی!

Saturday, January 26, 2019

نئی حکومت اور کرنے کے کام




مسئلہ بجٹ یا مِنی بجٹ کا نہیں! مسئلہ بنیادی پالیسیوں کا ہے،مسئلہ کامن سینس کا ہے! 


حکومتیں ملک کو اس طرح کیوں نہیں چلاتیں جس طرح کوئی بزنس مین اپنا کاروبار چلاتا ہے؟وہ بہترین افرادی قوت بھرتی کرتا ہے۔ پیشہ ورانہ صلاحیت رکھنے والے ٹاپ کلاس لوگوں کو منیجر لگاتا ہے۔ ایچ آر کا کام سونپتا ہے اور اکائونٹس اور فنانس کی ذمہ داری دیتا ہے۔ 


مشاہدہ بتاتا ہے کہ باربرا ٹک مین کا نظریہ درست تھا۔ باربرا ٹک مین امریکی تاریخ دان تھی۔ اپنی معروف تصنیف ’’حماقتوں کا مارچ‘‘

(March of follies)


میں وہ یہ تھیوری پیش کرتی ہے کہ فرد جب فیصلے کرتا ہے تو اپنی دانست میں بہترین فیصلے کرتا ہے۔ مکان کہاں بنانا ہے؟کیسا بنانا ہے؟بچوں کے رشتے کہاں کرنے ہیں؟فیکٹری کہاں لگانی ہے۔ گاڑی کون سی خریدنی ہے؟ تمام معاملات کو اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھتا ہے۔ مگر حکومت جب فیصلے کرتی ہے تو احمقانہ! ازحد احمقانہ! لکڑی کا گھوڑا شہر کے اندر لے جانے سے سب نے منع کیا۔ مگر سٹی کونسل(حکومت) فصیل کے اندر لے جا کر رہی۔ پھر کیا ہوا؟گھوڑے کے پیٹ میں دشمن کے سپاہی چھپے تھے۔ شہر چھن گیا۔ محمد تغلق کا فیصلہ کہ درالحکومت جنوبی ہند لے جایا جائے، تباہی پر منتج ہوا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کا فیصلہ کہ سب کاروبار، سب تعلیمی ادارے سب فیکٹریاں قومیالی جائیں، غلط تھا۔ نالائق ترین لالچی بیورو کریٹ ان کارخانوں پر مسلط کیے گئے۔ بزنس کا کچومر نکل گیا۔ شریف حکومت کا میٹرو بسوں والا فیصلہ از کار رفتہ تھا۔ شہباز شریف دلّی گئے۔ وہاں کا زیرزمین ریلوے سسٹم دیکھا مگر آ کر میٹرو بسوں کا ڈول ڈال دیا۔ کراچی لاہور اور پنڈی اسلام آباد میں زیرزمین ریلوے سسٹم کے سوا ٹریفک کے مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ جلد یا بدیر، یہی کرنا ہو گا۔ 


کامن سینس کے حوالے سے سب سے پہلا سوال اس کے سوا کیا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دے رہے۔ تاجر ہے یا صنعت کار، دکاندار ہے یا ڈسٹری بیوٹر، سب ٹیکس چور ہیں، سودا بیچ کر رسید دیتے ہوئے موت پڑتی ہے۔ سروس سیکٹر کا حال بدترین ہے۔ ڈاکٹر، آرکیٹکٹ، وکیل،طبیبوں کے لشکر کے لشکر۔ کوئی بھی ٹیکس نہیں دے رہا۔ پرائیویٹ کلینک مریضوں کے کپڑے ہی نہیں اتار رہے، انتڑیاں اور گردے بھی نکال رہے ہیں۔ بھاری فیسیں لیتے ہیں، وائوچر نہیں دیتے، مکان کا نقشہ بنانے والا آرکیٹکٹ، عدالت میں مقدمہ لڑنے والا وکیل، گلی گلی محلہ محلہ، بیٹھا ہوا ہومیو پیتھ، سب کروڑوں اربوں کما رہے ہیں۔ ٹیکس کوئی نہیں دے رہا۔ چھ ماہ ہونے کو ہیں۔ نئی حکومت نے اس ضمن میں کوئی ایسی پالیسی وضع نہیں کی جو مسئلے کو جڑ سے پکڑے۔ چلیے حل نہ کرے، حل کی طرف قدم تو بڑھائے۔ آغاز تو کرے۔ 


کامن سینس کیا کہتا ہے؟ گھر کا بجٹ خراب ہو تو سب سے پہلے میاں بیوی کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ یہ کہ وہ اشیاء جو ناگزیر نہیں، نہیں خریدی جائیں گی، کامن سینس کا یہ بنیادی اصول حکومت کو کیوں نہیں سوجھتا؟ امپورٹ بل کم کرنے کے سوا، زرمبادلہ بچانے کا اور کون سا ذریعہ ہے؟ تعیش کی اشیاء کیوں درآمد کی جا رہی ہیں؟ اِس فہرست پر نظرثانی کیوں نہیں کی جا رہی؟ کون سی مصلحت مانع ہے؟ درآمد کنندگان کا مافیا؟ یا کم عقلی؟ پراپرٹی ڈیلر اور کار ڈیلر کھربوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔کوئی نظام،کوئی سسٹم نہیں جو ان سے ٹیکس وصول کرے۔ بھتہ مافیا اور لوڈشیڈنگ سے تنگ آ کر صنعت کاروں نے ملائیشیا، ویت نام اور بنگلہ دیش کا رُخ کیا مگر لینڈ مافیا کا اکِل حرام تو منحصر ہی اسی زمین پر ہے۔ یہی معتبر ترین کاروبار ہے کیونکہ زمین اُٹھ کر بھاگ نہیں سکتی۔ آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے۔ سیوریج کے پانی میں تیزی سے اُگنے والی سبزیوں کی طرح۔ مکانوں،اپارٹمنٹوں، فلیٹوں کی ضرورت ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گی۔ لینڈ مافیا کے لیے چاندی ہی چاندی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ڈیلر بھی پجارو میں گھومتے پھرتے ہیں۔ سر چھپانے کے لیے جس نے پانچ یا دس مرلے کا ٹھکانا بنانا ہے۔ ان کے پیچھے پیچھے پھرتا ہے۔ ایک فیصد کمیشن، مان بھی لیا جائے، تو کہاں تک پہنچتا ہے۔ شہروں سے دور، زرعی زمینوں کی خرید و فروخت کا معاوضہ یہ لوگ ایک فیصد سے کہیں زیادہ لیتے ہیں، یہی حال کار ڈیلروں کا ہے۔ 


سونا ہے یہ ملک،خالص سونا، زرِ خالص!زراعت کی نہیں، صنعت کی بات ہو رہی ہے۔ سری لنکا جیسے ملکوں میں دنیا کے بڑے بڑے برانڈز نے کارخانے لگا رکھے ہیں۔ مقامی صنعت کار بھی ان کے لیے مصنوعات بنا رہے ہیں۔ نائکے،ادی داس، مارک اینڈ سپنسر، سی کے، ہیوگوباس، بربری، ارمانی اور کئی اور بین الاقوامی کمپنیاں سری لنکا، ویت نام، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور بھارت سے اپنے نام کی اشیاء بنوا کر عالمی منڈی میں بیچ رہی ہیں۔ مہاتیر کا ملائیشیا، جاپانی کمپنیوں کو اپنے ہاں لے آیا تھا۔ ٹیکس کی چھوٹ دی۔ دیگر سہولیات فراہم کیں۔ امن و امان کی فضا مہیا کی۔ لیبر ارزاں تھی۔ ساری دنیا میں ٹیلی ویژن سیٹ اور ایئرکنڈیشنر، ریفریجریٹر اور دیگر گھریلو استعمال کی مشینیں جاپان کے بجائے ملائیشیا کی بکنے لگیں۔ کمپنیاں جاپانی تھیں، نام ملائیشیا کا تھا، اس لیے کہ بن وہاں رہی تھیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کے لیے مشورہ ان سطور کے ذریعے یہ ہے کہ ایک پورا علاقہ صنعتی زون کے لیے مخصوص کریں۔ اسے شہر کی صورت دیں۔ اس کی حفاظت کا بندوبست اس طرح کریں جیسے عسکری تنصیبات کی کی جاتی ہے۔ پھر دنیا بھر کی صنعت کار کمپنیوں کو وہاں کارخانے لگانے کی دعوت دیں۔ ٹیکس میں رعایت دیں۔ دیگر جتنی مراعات ممکن ہوں پیش کی جائیں تا کہ ترغیب ہو اور تحریص بھی۔ یہ مصنوعات پاکستان ہی سے برآمد ہوں۔ ابھی تک حکومت نے غیر ملکی صنعت کاروں کو اور بڑی بڑی جاپانی اور کورین کمپنیوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے نہ ان کے ساتھ کوئی باضابطہ ملاقات کی ہے۔ جب تک مستقبل کے لیے باقاعدہ روڈ میپ نہیں بنایا جائے گا، عملی طور پر کچھ نہیں ہو گا۔ کل کو حکومت نہ رہی تو ناصر کاظمی کے اس شعر کا کیا فائدہ ؎ 


کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو 

نامِ خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے 







Thursday, January 24, 2019

مائی لارڈ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ! فریاد ہے فریاد







 

قتل کردو، مار دو، اس لیے کہ تم نااہل یہی کچھ کرسکتے ہو۔ 


ایک ایک پارک کو ختم کرو، سیرگاہوں کے گلے گھونٹ دو۔ 

باغوں کو اجاڑ دو، جنگل کاٹ دو، درختوں پر آرے کلہاڑے چلائو۔ اس لیے کہ اس کے علاوہ تم کچھ کرنہیں سکتے۔ 


تم نااہل ہو، راشی ہو، تم ترقیاتی ادارے نہیں، تم بدانتظامی کی سڑاند ہو۔ تمہارے دہانوں سے نالائقی کے بھبکے اٹھ رہے ہیں۔ تم سراپا تعفن ہو، تم تعمیر نہیں کرسکتے جو پہلے سے تعمیر شدہ ہو اسے منہدم کردو۔ 


سینکڑوں ہزاروں کی افرادی قوت کے باوجود تم نے دارالحکومت کو غلاظت کا گڑھ بنا دیا۔ رشوت تمہارا طرۂ امتیاز ہے۔ اقرباپروری تمہاری شناخت ہے، تمہاری یونین عوام کی دشمن ہے۔ تم اس یونین کے آلہ کار ہو، تم خود عوام سے لاتعلق ہو۔ یونین تمہاری آلہ کار ہے۔ تم نے گرین ایریا کاٹ کاٹ کر پلاٹوں میں بدل دیا اور اب تم اس پارک کوقتل کرنا چاہتے ہو جو پچاس سال سے دکھ بھرے شہریوں کی پنا گاہ بنا ہوا تھا۔ 


یہ 1971ء تھا۔ مشرقی پاکستان کٹ کر الگ ہو چکا تھا۔ بھارت اپنے نوکیلے دانت نکالے، خونی پنجے لہراتے، دندناتا پھر رہا تھا۔ اس لیے کہ ایک بڑی طاقت سوویت یونین کا رکھیل بنا ہوا تھا۔ سوویت یونین ویٹو کا تیز پھل والا چاقو، ہاتھ میں پکڑے اقوام متحدہ میں ہر اس قرارداد کو کاٹ کر رکھ دیتا تھا جو پاکستان کے حق میں ہو۔ ایسے میں ارجنٹائن نے پاکستان کی بھرپور مدد کی۔ ارجنٹینا کے پاس سکیورٹی کونسل کی صدارت تھی۔ اس نے سوویت یونین کے ارادوں کے آگے بند باندھ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹووزیراعظم ہوئے تو انہیں یہ احسان یاد تھا۔ احسان مندی کے جذبے کوبروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے دارالحکومت کے وسط میں واقع اس پارک کو ارجنٹینا پارک کے نام سے موسوم کردیا۔ گزشتہ پچاس برس سے یہ پارک ارجنٹینا اور پاکستان کی دوستی کا نشان ہے۔ بقول فیض ؎ 


بساط رقص پہ صد شرق و غرب سے سرشام 

چمک رہا ہے تری دوستی کا ماہ تمام 


اس پارک کو خوبصورت بنانے میں ارجنٹینا کے ہر سفیر نے دلچسپی لی، تقریبات کیں، درخت لگائے، وہ درخت بھی جو مقامی ہیں۔ وہ بھی جو ارجنٹائن کے ہیں۔ 


دارالحکومت کے شہریوں کے لیے یہ پارک ایک محبت کرنے والی ماں سے کم نہیں۔ یہ انہیں اس وقت اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے جب وہ تھکن سے چور ہوتے ہیں اور پریشانیوں میں محصور ہوتے ہیں، بچے یہاں کھیلتے ہیں۔ بڑے سرما میں دھوپ سینکتے ہیں، گرما میں ٹھنڈک پاتے ہیں۔ 


بچھاتا ہوں سنہری دھوپ سرما میں زمیں پر 

کڑکتی دوپہر میں سر پہ بادل تانتا ہوں


 مانا یہ پارک ارجنٹینا کے سفارت خانے کا حصہ ہے نہ ملکیت، مگر اس کا دونوں ملکوں کی باہمی محبت کے ساتھ ایک لازوال رشتہ ہے۔ ارجنٹینا کے ہر سفیر نے اسے اپنا سمجھا، اپنا دل دیا، توجہ دی۔ اسے خوب سے خوب تر بنایا۔ مگر افسوس! حیف! صد حیف! آج ترقیاتی ادارے اور حکومت کی نااہلی، کوتاہ بینی اور سنگدلی کے باعث اس پارک کی زندگی خطرے میں ہے، شدید خطرے میں ہے۔ 


دارالحکومت بن رہا تھا تو 1960ء کی دہائی میں جہاں سیکرٹریٹ کی عمارتیں کئی کئی منزلہ بنائی جا رہی تھیں، شہر کا (اس وقت) واحد ہسپتال احمقانہ منصوبہ بندی کا شکار ہوگیا۔ عقل کے اندھوں نے اس ہسپتال کو چھوٹی سی جگہ پر بنایا اور پرلے درجے کی حماقت یہ کی کہ سنگل سٹوری بنایا۔ آنکھوں پر نالائقی کی پٹی بندھی تھی۔ جانور بھی بھٹ بناتا ہے تو مستقبل کا سوچ کر بناتا ہے۔ چوہا بل بناتا ہے تو مہینوں کی نہیں برسوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ چیونٹیاں ایسی پلاننگ کرتی ہیں کہ ترقیاتی اداروں کو ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا چاہیے۔ 


دارالحکومت پھیلتا گیا۔ نئے سیکٹر بنے۔ مضافات کے مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ اسی کی دہائی میں ایک اور ہسپتال پمز بنا جسے عرف عام میں کمپلیکس کہا جاتا ہے مگر اصل سنگل سٹوری ہسپتال، پولی کلینک پر بوجھ کم نہ ہوا۔ 


ٹوپی چھوٹی ہو تو عقل مند ٹوپی کو بڑا کرتے ہیں۔ پاکستانی ادارے ایسی صورت حال میں ٹوپی کو اتنا ہی رہنے دیتے ہیں مگر سر کاٹ کر چھوٹا کرتے ہیں۔ ارجنٹینا پارک کی بدبختی کہ ایک منزلہ گنجان پولی کلینک اس کے پڑوس میں واقع تھا۔ نزلہ بر عضو ضعیف۔ حکومت میں بیٹھے شیخ چلیوںاور ترقیاتی ادارے میں متمکن ملا نصرالدینوں نے آنکھیں بند کرکے دماغ میں بھرے بھوسے کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ ’’تاریخ ساز‘‘ فیصلہ کیا کہ ٹوپی چھوٹی ہے تو سر کاٹ دیتے ہیں۔ ارجنٹینا پارک کو ختم کر کے پولی کلینک کی توسیع کردیتے ہیں۔ اس سنگدل احمقانہ فیصلے پر شہر دم بخود رہ گیا۔ فرشتے ہنسے، بادل روئے، دارالحکومت کے درختوں سے ماتم کرتی ہوائیں، چیختی ہوئی نکلیں اور مارگلہ کی چوٹیوں پر پہنچ کر انہوں نے سینے پر دو ہتھڑ مارے۔ کہاں کا ارجنٹینا، کہاں کی دوستی، کہاں کا ذوالفقار علی بھٹو، دنیا ماحولیات کو بہتر کر رہی ہے۔ جنگل محفوظ کئے جا رہے ہیں۔ نئے نئے پارک اور باغ بنائے جا رہے ہیں۔ یہاں پہلے سے موجود پارک کو فائلوں کے خنجر سے ہلاک کیا جارہا ہے۔




 2015ء میں دارالحکومت کے شہری روتے پیٹتے بین کرتے دہائی دیتے عدالت عظمیٰ پہنچے۔ عدالت نے حکم امتناعی جاری کیا۔ بلا ٹل گئی مگر نہیں! حکومت اور حکومت کا گماشتہ ترقیاتی ادارہ دندان آز مسلسل تیز کرتے رہے۔ چھری سان پر رگڑتے رہے۔ پارک کے پیچھے اس بھیڑیے کی طرح دوڑتے رہے جو ہرن کو بھنبھوڑنا چاہتا ہے۔ ماہ رواں کے وسط میں حکم امتناعی ختم کر دیا گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ پارک کا ایک تہائی حصہ۔ یعنی سر کاٹ کر ہسپتال کو دے دیا جائے گا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 


وہ جو محاورہ ہے کہ تو مجھے کھڑا ہونے کی جگہ دے۔ بیٹھنے کی میں خود بنا لوں گا تو یہ ایک تہائی حصہ پارک کا پولی کلینک کو دیا گیا تو مطلب واضح ہے۔ باقی بھی تجاوزات کی نذر ہو جائے گا۔ میمنا کب تک اپنا تحفظ کرے گا۔ وہ ندی کے نشیبی حصے سے پانی پی رہا ہے مگر بھیڑیا اس کی بات سننے ہی کو تیار نہیں۔ 


وزارت خارجہ چپ ہے، عقل نہیں یا ہوش نہیں کہ آواز بلند کرے۔ ایک دوست ملک کے نام کیا گیا پارک لولا لنگڑا کیا جارہا ہے۔ آئندہ ہمارے لیے کون آواز اٹھائے گا؟ 


پیپلزپارٹی اپنے عاصموں، ایان علیوں، دامادوں، پھپھیوں کو بچانے کی فکر میں غلطاں ہے۔ اس کے جغادری جو سینٹ میں ہیں، بے نیاز ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جو پارک ارجنٹینا کی نذر کیا تھا، اس کا سر کاٹا جارہا ہے۔ 


مائی لارڈ! چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ۔ اس قتل ناحق کو روکیے، فریاد ہے فریاد! اس سرکاری قبضہ گروپ کو نکیل ڈالیے۔ اس پارک کو بچائیے، آج سر کٹ رہا ہے۔ کل پائوں پر کلہاڑا چلے گا۔ ہسپتال کو گن کلب کی وسیع و عریض زمین سے وافر حصہ مل سکتا ہے۔ پولی کلینک کے کھنڈر کو گرا کر اس پارک کا حصہ بنائیے۔ مائی لارڈ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ! فریاد ہے! فریاد! 

Tuesday, January 22, 2019

خواب جھوٹے خواب تیرے خواب میرے خواب بھی

برطانیہ کے وزیراعظم نے لندن پولیس کے سربراہ سے درخواست کی۔
 ’’میں ہائوس آف کامنز سے نکلتا ہوں تو ٹریفک کے ہنگامے کی وجہ سے اپنی سرکاری قیام گاہ ٹین ڈائوننگ سٹریٹ پہنچنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ وہاں غیر ملکی مہمانوں کو وقت دیا ہوتا ہے۔ ان میں سربراہان مملکت بھی ہوتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ دس پندرہ منٹ کے لیے ٹریفک کو متبادل راستے پر منتقل کردیا جائے۔‘‘
 ’’نہیں! حضور‘ ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ پولیس کے سربراہ نے جواب دیا۔ مگر میں آپ کو ایک اور حل تجویز کرتا ہوں۔ 
’’وہ کیا؟ وزیراعظم نے پوچھا۔
’’آپ ہائوس آف کامنز سے دس پندرہ منٹ پہلے نکل آیا کیجئے۔‘‘
یہ ہے پولیس کی خودمختاری اور آزادی اور اس خودمختاری اور آزادی ہی سے پولیس میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ صرف یہی وہ طریقہ ہے جو پولیس کو احساس ذمہ داری سے لیس کرتا ہے۔ اس خوداعتمادی‘ آزادی اور احساس ذمہ داری کا نتیجہ یہ ہے کہ پولیس وہاں کسی پر گولی نہیں چلاتی‘ کسی پر تشدد نہیں کرتی۔ جرم کا ثبوت اس کا واحد ہتھیار ہے۔
 ہماری پولیس کیوں ظالم ہے؟ سفاکی اور سنگدلی میں کیوں یکتا ہے؟ احساس ذمہ داری کا مکمل فقدان کیوں ہے؟ خود اعتمادی سے مکمل طور پر محروم کیوں ہے؟ اس قدر محروم کہ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے‘ مسلسل بیان بدلتی ہے۔ کسی ایک موقف پر ٹھہرتی ہی نہیں۔ بدحواسی‘ منزل کی بے نشانی۔ ایک گم کردہ راہ پولیس! ایک بھٹکتا ہوا مسلح افراد کا ریوڑ! جسے اہل سیاست اور اہل حکومت اپنی مرضی سے ہانکتے پھریں!!
 تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے بھی خیبرپختونخوا کی پولیس اور پنجاب پولیس میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ سارا کریڈٹ پولیس کے رویے کا پی ٹی آئی کی حکومت کو نہیں دیا جا سکتا۔ کے پی کی سوسائٹی زیادہ آزاد ہے۔ وہاں نارسائی کا ناسور اس طرح نہیں رس رہا جیسے پنجاب میں رس رہا ہے۔ اعلیٰ حکام کو عام آدمی ہمیشہ مل سکتا ہے۔ کئی برس پہلے پشاور سے ایک عزیز نے جو ایک عام سرکاری ملازم تھے‘ فون پر ایک مسئلہ بتایا جو انہیں پریشان کر رہا تھا۔ ابھی یہاں ’’سفارش‘‘ تلاش ہی کی جا رہی تھی کہ ان کا فون دوبارہ آیا۔ مسئلہ حل ہوگیا تھا۔ ان کی ملاقات صوبے کے چیف سیکرٹری سے ہو گئی تھی۔ کیپٹن عیسانی اس وقت وہاں چیف سیکرٹری تھے۔ کالم نگار نے تعجب سے پوچھا ’’آپ کی ملاقات ہو گئی؟ چیف سیکرٹری سے؟
 ’’ہاں‘‘! انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ اس صوبے میں ایسا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔
 خیبرپختونخوا میں اور بھی کئی خوبیاں ہیں جو ہم اہل پنجاب کو ان سے سیکھنی چاہئیں۔ وہاں ڈرائیور اور چوکیدار ملازم اور نوکر۔ کھانا ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ پنجاب میں عام آدمی ڈپٹی کمشنر تو کیا‘ پٹواری یا ایس ایچ او سے تو مل کر دکھادے۔
 سوویت یونین میں بدامنی کی ابتدا ہوئی۔ روس میں پولیس نے چیرہ دستی کا مظاہرہ کیا۔ جون ایلیا نے تبصرہ کیا کہ پولیس ماسکو میں بھی پنجاب کی ہے۔ پنجاب کی پولیس اگر روئے زمین کی بدترین نہیں تو بدترین فورسز میں ایک ضرور ہے اور کیا عجب ٹاپ ٹین میں ہو۔ یہ ہمیشہ حکمرانوں کی‘ پھر اہل سیاست کی‘ پھر اپنے افسروں کی غلام رہی۔ یونہی تو نہیں آئی جی پنجاب کو ریٹائرمنٹ کے بعد وفاق میں اعلیٰ عہدہ مل گیا۔ صوبے میں وزیراعلیٰ جہاں جاتا ہے‘ آئی جی ذاتی ملازم کی طرح ساتھ ہوتا ہے۔ کیوں؟ وہ اپنے فرائض منصبی کیوں نہیں ادا کرتا؟ پنجاب پولیس کو اتنی آزادی بھی نصیب نہیں جتنی ایک ظالم شوہر کی مقہور بیوی کو حاصل ہوتی ہے۔ اسکے تھانوں میں تھانیدار آئی جی نہیں‘ کوئی اور تعینات کرتا ہے۔ درمیانی سطح کے افسروں کے اپنے روابط ہیں جن سے وہ اوپر کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں‘ جو سیاست دان لمحہ موجود میں اقتدار سے دور ہوں یہ پولیس ان کی بھی نمک خوار رہتی ہے۔ کیوں نہ رہے‘ کل انہوں نے بھی تخت نشین ہونا ہے۔
 آپ پولیس کی غلامی کی انتہا دیکھیے کہ ریٹائرڈ پولیس افسروں کے محلات کے باہر بھی خیمے نصب ہیں اور پولیس کے نوجوان شفٹیں بدل بدل کر پہرہ دیتے ہیں۔ کیوں؟ کیا وہ اس سہولت کے حقدار ہیں؟ نہیں‘ مگر پولیس کا نوجوان‘ غلام نہیں‘ کنیز ہے۔ غلام تو پھر گھر سے باہر قدم رکھ سکتا ہے۔ ایک ریٹائرڈ افسر اپنے پیٹی بند بھائی کو فون کر کے لاڈ سے کہتا ہے کہ میرے محل کا محل وقوع تبدیل ہو گیا ہے۔ وہاں بھی گیٹ کے سامنے خیمہ نصب کرا دیجئے۔ خیمہ نصب ہو جاتا ہے۔ نفری پہنچ جاتی ہے۔ یہ معاشرہ مہذب معاشرہ نہیں‘ یہ سوسائٹی آج کی نہیں‘ یہ جنگل ہے جس میں قبائلی سردار جسم پر پتے لپیٹے دندناتے پھرتے ہیں۔قانون کو وہ کڑاہی میں ڈال کر ابالتے ہیں اور وحشیوں کی طرح ہڑپ کر جاتے ہیں۔
ساہی وال میں پولیس نے شہری قتل کیے۔ کیا ایسا پہلی بار ہوا؟ دو دن میڈیا پر تبصرے ہوں گے اور پھر میڈیا کا مسلسل رواں قافلہ آگے بڑھ جائے گا۔ ستر برسوں سے پولیس عوام کوقتل کرتی آ رہی ہے۔ کبھی پولیس ’’مقابلوں‘‘ میں‘ کبھی تشدد سے‘ کبھی گولی سے‘ کبھی لاٹھی سے‘ کبھی زہر سے۔ یہ تو عمران خان سے بھی نہ ہوا کہ اقتدار میں آ کر ماڈل ٹائون کے قتل عام میں ملوث پولیس افسروں اور جوانوں کو گرفتار کرتے اور عدالت میں قاتل کے طور پر پیش کرتے۔ پھر یہ پولیس والے بتاتے کہ احکام کہاں سے آئے تھے؟ سیالکوٹ کے نواح میں جن دو وکیلوں کو دن دہاڑے پولیس مین نے قتل کیا تھا‘ اسے کیا سزا ملی؟ عابد باکسر کے اعترافات کا کیا نتیجہ نکلا؟
 پولیس کا کردار آج تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وہی ہے جو قاف لیگ‘ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومت میں تھا۔ پنجاب کا معاشرہ ناصر درانی کو برداشت ہی نہ کر سکا۔ عمران خان ناصر درانی کے مستعفی ہونے پر یوں مہر بلب رہے جیسے بہت زیادہ میٹھی چائے پینے کے بعد ہونٹ آپس میں جڑ جاتے ہیں۔
افسوس! صد افسوس! تحریک انصاف کی حکومت پنجاب میں کچھ نہیں کر پا رہی ع
خواب جھوٹے خواب تیرے خواب میرے خواب بھی
وہی پولیس! وہی قتل عام! وہی چھنال بیوروکریسی ؎
 بہت لمبی روش تھی باغ کی دیوار کے ساتھ
پس دیوار قسمت کب سے بیٹھی رو رہی تھی
پنجاب میں آج بھی دامن خالی ہے۔ ہاتھ خالی ہے۔ دست طلب میں فقط گرد طلب ہے اور کچھ نہیں اور کچھ نہیں۔ اس لیے کہ ع
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی 

Sunday, January 20, 2019

کہیں مقصد صرف شور و غوغا تو نہیں؟

92نیوز چینل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی اور دیگر غیر سیاسی معاملات پر بھی بحث کرتا ہے اور مختلف آرا کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ ہفتے نفاذِ اردو پر بحث کی گئی۔
 شاید یہ ہمارا قومی رویہ بن گیا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو‘ اس کی جڑ کو نہیں پکڑتے۔ شاخیں جھاڑتے رہتے ہیں۔ ملا نصرالدین کا یہ لطیفہ بچپن میں سب نے پڑھا اور سنا ہے کہ باہر‘ روشن سڑک پر کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا کہ سوئی گم ہو گئی ہے۔ لوگوں نے پوچھا کیا سڑک پر گری تھی؟ جواب دیا نہیں! گم تو کمرے میں ہوئی ہے مگر وہاں اندھیرا ہے!
قائد اعظم نے فرمان جاری کیا کہ سرکاری زبان اردو ہو گی۔ اردو نہیں نافذ ہوئی۔ عدالتیں کئی بار حکم صادر کر چکیں کہ اردو کو نافذ کیا جائے۔ اردو نہیں نافذ ہوئی۔ اس لئے کہ جس مشین پر اردو کا کُرتا بُنا جاتا ہے اُس مشین پر اس وقت انگریزی کا سکرٹ بُنا جا رہا ہے۔ پہلے اس مشین سے انگریزی کو اتارنا ہو گا۔ پھر اردو کو اس مشین پر چڑھانا ہو گا۔ اس وقت ہو یہ رہا ہے کہ ہر طرف شور مچایا جا رہا ہے کہ اردو نافذ کرو۔ مگر مشین کی طرف کوئی دیکھتا تک نہیں!
 یہ مشین وہ امتحان ہے جسے اعلیٰ مرکزی ملازمتوں کا امتحان کہا جاتا ہے یعنی سی ایس ایس یا سنٹرل سپریئر سروسز! اس امتحان کا طریق کار سمجھنا قارئین کے لئے لازم ہے تاکہ نفاذ اردو کی راہ میں حائل اصل رکاوٹ کے بارے میں ذہن صاف ہو سکے۔
 مرکزی اعلیٰ ملازمتوں کا یہ امتحان انگریزی دور میں شروع ہوا۔ اس وقت اس میں صرف سفید فام نوجوان شرکت کر سکتے تھے۔ امتحان لندن میں ہوتا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں مقامی لوگوں کو اجازت دی گئی۔ تاہم یہ صرف محدود تعداد میں شریک ہو سکتے تھے۔ پاکستان بنا تو اس کے امتحانی مراکز لندن‘ کراچی‘ ڈھاکہ اور لاہور مقرر کئے گئے۔ آج کل پشاور‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ اسلام آباد میں بھی یہ امتحان لیا جاتا ہے۔ ہر سال تقریباً سات سے نو ہزار امیدوار شریک ہوتے ہیں۔ بھاری اکثریت تحریری امتحان کے نتیجہ میں ناکام ہو جاتی ہے۔ پانچ چھ سو کے لگ بھگ کامیاب قرار دئیے جاتے ہیں۔ ان کا تفصیلی انٹرویو کیا جاتا ہے۔ جو کامیاب ٹھہرتے ہیں‘ ان میں سے اوپر کے سو یا ڈیڑھ سو کو اعلیٰ مرکزی ملازمتوں کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ اس وقت اس امتحان کے تمام پرچے انگریزی زبان میں ہیں۔ لازمی مضامین میں انگریزی ‘ جنرل نالج‘ ابتدائی سائنس‘ ضروری اسلامیات اور مضمون (ESSAY)شامل ہیں۔ تقریباً اتنے ہی مضامین اختیاری ہیں۔ تاہم تمام پرچے‘ تاریخ کے ہوں یا اکنامکس کے‘ جغرافیے کے ہوں یا قانون کے‘ انگریزی زبان ہی میں لکھنے ہوتے ہیں۔
 مسئلے کا حل‘ اچانک‘ راتوں رات نہیں نکل سکتا۔ یہ تین مراحل میں بتدریج کرنا پڑے گا۔ پہلے مرحلے میں انگریزی زبان کی طرح اردو زبان کا پرچہ بھی لازمی کرنا پڑے گا۔ دو تین برس تک ایسا کرنے کے بعد اگلا قدم یہ اٹھانا ہو گا کہ امیدواروں کو اختیار دے دیجیے کہ وہ پرچے انگریزی میں کریں یا اردو میں‘ اس سے رجحان کا پتہ بھی چلایا جا سکے گا اور ارتقائی مراحل طے کرنے بھی آسان ہوں گے۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں تمام پرچے اردو میں حل کرنے لازمی ہوں گے۔ ان تینوں مراحل میں انگریزی زبان کا بھی معیار برقرار رکھنا ہو گا۔ انگریزی زبان کا پرچہ لازمی ٹھہرے گا اور کوئی ایسا امیدوار منتخب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جسے اردو پر تو عبور حاصل ہو مگر انگریزی پر نہ ہو۔
 یہ کام تقریروں سے ہو گا نہ جذباتی تحریروں سے۔ یہ کام فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے کرنا ہو گا جو سی ایس ایس کا امتحان لیتا ہے اور امیدوار منتخب کرتا ہے۔ مرکزی حکومت کا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اس میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔ یہ منتخب امیدوار‘ اردو کے ذریعے اپنے اپنے مناصب سنبھالیں گے۔ تمام شعبوں میں افسران بالا سی ایس ایس ہی کے ذریعے آتے ہیں۔ ریلوے ہے یا اطلاعات‘ تجارت ہے یا وزارت خزانہ‘ آڈٹ ہے یا ایف بی آر‘ پولیس ہے یا وزارت خارجہ‘ ڈاکخانہ جات ہیں یا عسکری زمینیں اور چھائونیاں‘ تمام محکموں کے افسر سی ایس ایس ہی کی چھلنی سے نکلتے ہیں۔ اردو کے ذریعے منتخب ہونے کے بعد ان کے اندر کا احساس کمتری ختم ہو چکا ہو گا۔ یہ سرکاری خطوط اردو میں لکھیں گے اور لکھوائیں گے۔ فائلوں پر آرا اور فیصلے اردو میں لکھیں گے۔ سمریاں وزیر اعظم کے لئے ہوں یا کابینہ کے لئے‘ اردو میں لکھی جائیں گی۔ پھر انگریزی کے بجائے اردو سٹیٹس کا نشان ہو گا۔
 اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ تنظیم سازی سے‘ یا مقدمہ بازی سے یا میڈیا میں مہم چلانے سے یا جذباتی تقریریں کرنے سے یا آتشیں تحریروں سے اردو کا نفاذ ہو جائے گا تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ صرف یہ شور مچانے سے کہ مریض کی دیکھ بھال کرو‘ مریض تندرست نہیں ہو سکتا۔ ایک منظم طریق کار کے تحت ایک حاذق طبیب سے‘ ایک اہل ڈاکٹر سے‘ اس کا علاج کرانا ہو گا۔ اس میں وقت لگے گا۔ راتوں رات نہ مریض تندرست ہو سکتا ہے نہ اردو نافذ ہو سکتی ہے۔
اُن تمام امیدواروں کو‘ جو اردو کے ذریعے سی ایس ایس کا امتحان دیں گے ‘ اردو کے ساتھ ساتھ‘ انگریزی پر بھی مکمل دسترس حاصل ہو گی۔ تاکہ وہ بین الاقوامی اخبارات ‘ جرائد‘ اقوام متحدہ کی رپورٹوں اور دیگر ممالک کے حالات کا بخوبی مطالعہ کر سکیں جس کے لئے ایک غیر ملکی زبان‘ خاص طور پر‘ انگریزی ضروری ہے۔ ان سارے مراحل سے عدلیہ کو بھی گزرنا پڑے گا۔ ان کے مقابلے کے امتحان‘ وکلاء کے امتحانات‘ پی ایل ڈی کے عدالتی فیصلے‘ سب کچھ اردو میں ڈھالنے ہوں گے اور اردو میں لکھنے ہوں گے۔ وزارت خارجہ کی افرادی قوت کو انگریزی میں مہارت‘ دوسرے شعبوں کی نسبت زیادہ حاصل کرنا ہو گی۔ انگریزی اور اردو کے مترجم اورترجمان درکار ہوں گے۔ ایک بار جب یہ تبدیلی رونما ہو جائے گی تو ضروری کتابیں بھی مارکیٹ میں آ جائیں گی۔ امرا اپنے بچوں کو اردو میں مستعد بنانے کے لئے ٹیوٹر بھی رکھیں گے۔ کئی نئے شعبے وجود میں آئیں گے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ انگریزی میں کام کرنے والوں ترجمہ کرنے والوں اور ترجمانی کرنے والوں کی طلب بڑھ جائے اور ان کے معاوضے زیادہ ہو جائیں۔ کئی نئے مسائل بھی سر اٹھائیں گے جو وقت کے ساتھ حل ہو جائیں گے۔ سرکاری دفاتر میں کام کی رفتار استعدادِ کار بڑھے گی۔ آج جو کلرک خزانے کے یا ٹیکس کے قوانین انگریزی میں پڑھ کر الٹا سیدھا مطلب نکالتا ہے۔ تب اردو میں پڑھ کر لب لباب بآسانی اس کی سمجھ سکے گا۔ عام سائل اور بیوروکریٹ کے درمیان فاصلے کم ہو جائیں گے۔
 رستہ بہر طور ایک ہی ہے اور یہی ہے۔ بزرگوں نے نصیحت بھی یہی کی ہے کہ راہِ راست برو گرچہ دوراست۔درست راستے پر چلو بے شک دور ہی کیوں نہ ہو

Saturday, January 19, 2019

کیا ہمارے ہیرو صرف وہی ہیں جو



کچھ دیر کے لیے وزیر اعظم کو چھوڑ کر دیکھیے۔ 


زرداری صاحب اور میاں صاحب کو بھی اپنے مسائل سے خود نمٹنے دیجیے، کچھ وقت ہمیں اپنے لیے بھی نکالنا چاہیے۔ہم کون ہیں؟کوئی ہمارا آگا پیچھا بھی ہے یا نہیں؟کیا ہمارے ہیرو صرف وہی ہیں جو کرکٹ کھیلتے ہیں اور فلموں میں کندھے اچکا کر رٹے رٹائے ڈائیلاگ بولتے ہیں، ایک صاحبزادے سے جنہوں نے او یا اے لیول میں بہت سے اےلیے تھے، پوچھا غالب کا کوئی شعر سنائیے۔ بھلا ہو گلزار کا کہ غالب کی زندگی پر ڈرامہ لکھا اور فلمایا۔ کچھ غزلیں اس میں گائی گئیں۔ ان میں سے ایک دو شعر صاحبزادے نے سنائے۔ غنیمت ہے کہ یہ فلم نما ڈرامہ انہوں نے دلچسپی سے دیکھا تھا۔ چنانچہ ان کی پیٹھ تھپکی اور شاباش دی۔ 


چلیے، اب آپ یہ بتائیے مومن کون تھے؟ کب تھے؟کہاں تھے؟ آپ سے یہ سوال پوچھتے ہوئے بیس پچیس سال پہلے کا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جو اس کالم نگار نے ایک سرکاری ادارے میں امیدواروں کا لیا تھا۔ اکثریت امیدواروں کی چودہ اور سولہ جماعتیں پاس تھی۔ اچھے نمبروں سے بی اے کر کے آنے والے ایک امیدوار سے پوچھا اقبال کیوں مشہور ہیں۔ ایک سیکنڈ کی تاخیر سے جواب، پورے اعتماد کے ساتھ، دیا کہ چمڑے کے تاجر تھے۔ ہو سکتا ہے ہونہار بچے نے اقبال کے نام کے ساتھ شیخ کا لفظ دیکھا ہو۔ اس سے اپنے تئیں درست اندازہ لگایا ہو گا کہ شیخ تجارت ہی تو کرتے ہیں اور پھر سیالکوٹ میں چمڑے کا کاروبار تو ہے! 


اس سے حفیظ جالندھری کا واقعہ یاد آیا۔ اندازہ ہے کہ یہ واقعہ درست ہو گا۔آپ ریل کے ڈبے میں سفر کر رہے تھے۔ سنا ہے حفیظ صاحب ذرا خود پسند تھے۔ فخر سے سامنے بیٹھے مسافر کو بتایا کہ میں حفیظ ہوں۔ اس نے سنی ان سنی کر دی۔ پھر کہا کہ میں وہی حفیظ ہوں جس نے شاہ نامۂ اسلام جیسی عظیم الشان شعری کتاب تصنیف کی ہے۔ اس پر بھی اس مردِ ناداں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اب حفیظ صاحب نے ترپ کا پتہ پھینکا کہ قومی ترانے کا خالق بھی میں ہوں۔ اب بھی اُس نامعقول، حق ناشناس نے کسی تپاک کا اظہار نہ کیا۔ تنگ آ کر حفیظ صاحب نے کہا بھائی میں حفیظ ہوں۔ حفیظ جالندھری! یہ لفظ کہنے کی دیر تھی کہ ڈبے میں جیسے بھونچال آ گیا۔ وہ شخص اٹھا، حفیظ صاحب کو اٹھایا۔ بھینچ کر سینے سے لگایا اور کہا، اخاہ!تو آپ بھی جالندھر کے ہیں۔ 


کچھ روز پیشتر ایک ٹیلی ویژن چینل پر ایک من چلا اُن خواتین کے جنرل نالج کو بے نقاب کر رہا تھا جو منتخب ایوانوں کی زینت بنی ہیں۔ سوال تھا پاکستان کا پہلا صدر کون تھا؟ کوئی لیاقت علی خان کا نام لے رہی تھی۔ کوئی قائد اعظم کا! 


اب قارئین کا امتحان کیا لینا کہ مومن کون تھے۔ ملا نصرالدین کی طرح یہ مشورہ بھی نہیں دیا جا سکتا کہ جو جانتے ہیں وہ انہیں بتا دیں جو نہیں جانتے۔ یقیناً بہت سے قارئین خوبصورت ادبی ذوق کے مالک ہوں گے اور لکھاری سے زیادہ علم رکھتے ہوں گے۔ 


مومن خان مومن غالب کے ہم عصر تھے۔ یوں کہیے کہ غالب کی بہت زیادہ شہرت نے ان کے جن ہم عصروں کی یاد کچھ کچھ دھندلا دی ہے، ان میں مومن سرفہرست ہیں۔ خوش شکل اور خوش لباس مومنؔ 1800ء میں پیدا ہوئے والد غلام نبی خان حکیم تھے۔ حکیم کا مدار خان اور حکیم نامدار خان دو بھائی مغلوں کے آخری عہد میں کشمیر سے ہجرت کر کے دہلی آ بسے اور شاہی طبیبوں میں شامل ہوئے۔ حکیم نامدار خان مومن کے دادا تھے۔ مومن اکاون سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے خاندان کو شاہ عبدالعزیز دہلوی سے خاص عقیدت تھی۔ مومن کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سید احمد شہید کے مرید تھے۔ ’’مثنوی بمضمون جہاد‘‘ میں کہتے ہیں ؎ 


وہ نورِ مجسم وہ ظلِ اِلٰہ 

کہ سایہ سے جس کے خجل مہر و ماہ 


زہے سید احمد قبولِ خدا

 سرِ امّتانِ رسولِ خدا 


نِکو گوہری کا نہ پوچھو شرف 

علیؓ و حسینؓ و حسنؓ کا خلف 


خدا نے مجاہد بنایا اسے

 سرِ قتلِ کفار آیا اسے


 حبیبِ حبیبِ خداوند ہے 

خداوند اس سے رضا مند ہے 


امامِ زمانہ کی یاری کرو 

خدا کے لیے جاں نثاری کرو 


الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب 

یہ افضل سے افضل عبادت نصیب 


کرم کر نکال اب یہاں سے مجھے 

ملا دے امامِ زماں سے مجھے 


مشہور روایت ہے کہ غالب نے کہا تھا مومنؔ میرا پورا دیوان لے لیں اور ایک شعر مجھے دے دیں۔ مومن کا یہ شہرۂ آفاق شعر یوں ہے ؎ 


تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

 جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا


 کم از کم مومن کی یہ غزل تو اکثر نے سنی ہو گی۔ 


وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


محبت کے معاملات کو مومنؔ عجب پیرائے میں شعر کرتے ہیں۔ بعض اشعار تو اس قدر جدید ذائقہ رکھتے ہیں جیسے آج کے کسی شاعر نے کہے ہیں ؎ 


اس کے کوچے سے چلا آئے ہے اُڑتا کاغذ 

پھاڑ کر پھینک دیا کیا مرے خط کا کاغذ 


سب نوشتے ترے اغیار کو دکھلائوں گا 

جانتا ہے تو مرے پاس ہیں کیا کیا کاغذ 


اس شرط پر جو لیجے تو حاضر ہے دل ابھی 

رنجش نہ ہو فریب نہ ہو امتحاں نہ ہو 


چل پرے ہٹ، مجھے نہ دکھلا منہ 

اے شبِ ہجر! تیرا کالا منہ 


شبِ غم کا بیان کیا کیجے

 ہے بڑی بات اور چھوٹا منہ 


پھر گئی آنکھ مثلِ قبلہ نما

 جس طرف اُس صنم نے پھیرا منہ 


مومنؔ نے اپنے تخلص کا خوب خوب استعمال کیا اور اس قدر، جیسے استحصال کر رہے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر بار نیا مضمون لائے۔ 


اللہ رے گمرہی،بت و بت خانہ چھوڑ کر 

مومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ 


دشمنِ مومنؔ ہی رہے بُت سدا 

مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا


مومنِ دیندار نے کی بت پرستی اختیار 

ایک شیخِ وقت تھا سو بھی برہمن ہو گیا 


بوسہ صنم کی آنکھ کا لیتے ہی جان دی

 مومنؔ کو یاد کیا حَجَراُلاَسْود آ گیا 


ہر گز نہ رام وہ صنمِ سنگدل ہوا 

مومنؔ ہزار حیف کہ ایماں گیا عبث 


مومنؔ تو مدتوں سے ہوئے پر بقول دردؔ 

دل سے نہیں گیا ہے خیالِ بتاں ہنوز 


خدا کی بے نیازی ہائے مومنؔ 

ہم ایماں لائے ہیں زلفِ بتاں سے 


اے تپِ ہجر دیکھ! مومنؔ ہیں

 ہے حرام آگ کا عذاب ہمیں


 بت خانۂ چیں ہو گر ترا گھر

 مومنؔ ہیں تو پھر نہ آئیں گے ہم 


مومن حکیم تو تھے ہی، ریاضی اور نجوم کے بھی ماہر تھے۔ موسیقی میں بھی دلچسپی تھی۔ اپنے دونوں ہم عصروں غالبؔ اور ذوقؔ کے برعکس، بادشاہوں کی قصیدہ خوانی نہیں کی۔ عزتِ نفس کے معاملے میں حساس تھے۔ واسوخت غضب کی لکھتے تھے۔ ایک طویل حمد ایسی لکھی کہ قلم توڑ کر رکھ دیا۔ پروردگارِ عالم کی صفت اور اپنے گناہوں کا ذکر!اور اس روانی سے جیسے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان ایک دریا بہہ رہا ہے۔کچھ اشعار دیکھیے اور کلیات مومنؔ میں یہ حمد پوری پڑھیے۔ کیا غضب کی شاعری ہے ؎ 


کیوں شکر کریں نہ آلِ دائود 

افسونِ شہنشہی سکھایا 

اللہ رے تیری بے نیازی 

یعقوب کو مدتوں رلایا 

یوسف سے عزیز کو کئی سال

 زندانِ عزیز میں پھنسایا

 یاں شعلے کو سرکشی کی کیا تاب 

ابلیس کو خاک میں ملایا

 اللہ!غمِ بتاں میں یک چند 

بے فائدہ جان کو کھپایا 

یہ عشق وہ بد بلا ہے جس نے 

ہاروت کو چاہ میں پھنسایا

 کرتے رہے شکرِ بختِ بیدار

 ساتھ اپنے صنم نے گر سلایا 

کتنی ہی قضا ہوئیں نمازیں

 پر سر کو نہ پائوں سے اٹھایا

 آیا نہ کبھی خیال حج کا 

تلوا سو بار گر کھجایا

 نیت ہی تھی توڑنے کی گویا 

گر اس نے نماز میں ہنسایا 

افسوس! شکستِ صوم یک سُو 

صد شکر کہ اس نے ساتھ کھایا 

اللہ مرے گناہ بے حد 

وہ ہیں کہ شمار کو تھکایا

 وہ عشق دے جس کا نام اسلام 

وہ شیوہ نبیؐ نے جو بتایا 

مجھ کو بھی بچا لے جیسے تو نے 

یوسف کو گناہ سے بچایا 

وہ رفعتِ حال دے کہ جس نے 

منصور کو دار پر چڑھایا

 - مومنؔ کہے کس سے حال آخر 

ہے کون ترے سوا خدایا! 



 

powered by worldwanders.com