Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, November 29, 2018

: قیصر کا حصہ قیصر کو اور پوپ کا پوپ کو



جناب احسن اقبال نے کرتارپور کوریڈور اقدام کو سراہا۔ یہ حمایت سیاسی پختگی کی علامت ہے۔ لگتا ہے اہل سیاست زیادہ بالغ نظر ہورہے ہیں۔ ذہنی سطح بلند ہورہی ہے۔

جن ملکوں میں جمہوری سفر کئی سو سال پہلے شروع ہوا، وہ اب اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ’’اپنے‘‘ اور ’’پرائے‘‘ کے گرداب میں پڑے بغیر سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہہ سکتے ہیں۔پارٹیوں کے اندر ’’اصلی‘‘ انتخابات ہوتے ہیں۔ ارکان کھل کر پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں اور ضرورت پڑے تو پارٹی کے سربراہ کو گلی کاراستہ بھی دکھا دیتے ہیں۔ اسی طرح مخالف پارٹی کے مثبت اقدامات کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ ہم ابھی اس سطح پر نہیں پہنچے تاہم غنیمت ہے کہ خارجہ امور کے ضمن میں تمام پارٹیاں، جب بھی ضرورت پڑے، ایک پیج پر
ہو جاتی ہیں۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے جو ہرزہ سرائی کی اور وزیراعظم پاکستان نے اس کا جو جواب دیا، اس حوالے سے ساری اپوزیشن نے حکومت کا ساتھ دیا۔ اتحاد کا یہ ایک عظیم الشان مظاہرہ تھا۔ اس سے عوام کے حوصلے بلند ہوئے، قوم کا مورال بڑھا۔ یکجہتی کی فضا پروان چڑھی۔ 

یہی صورت حال اگراندرونی پالیسیوں کے ضمن میں بھی ہوتی تو ہمارا احوال بہت بہتر ہوتامگر ایک تعصب ہے جو کارفرما ہے۔ نون لیگ کی ہر پالیسی کی تحریک انصاف نے مخالفت کرنی ہے۔ تحریک انصاف ہوا میں اُڑ بھی لے تو اپوزیشن یہی کہے گی کہ ٹیڑھا اُڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی الگ کیڑے نکالنے بیٹھ جاتی ہے۔ موٹر وے بہرطور میاں نواز شریف کا ایک قابلِ ذکر کارنامہ ہے۔ اس کی تعریف نہ کرنا تُھڑ دلی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اقلیتوں کے حوالے سے بھی نواز شریف حکومت کا رویہ لائقِ تحسین تھا۔ اسی طرح تحریک انصاف کی حکومت منی لانڈرنگ کے سلسلے میں جو کاوشیں کر رہی ہے ان کی تعریف اپوزیشن کو کرنی چاہیے مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ع 

مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات 

تو اپوزیشن کی مجبوری یہاں یہ ہے کہ منی لانڈرنگ میں خود اس کے زعما کے اسمائے گرامی در آتے ہیں۔ 

یوں بھی ’’اپنوں‘‘ کی طرف داری کیے بغیر سوفیصد انصاف کے ساتھ برائی کی مذمت کرنا ہم اہل اسلام کو بطور خاص سکھایا گیا ہے۔ فرمایا کہ ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ یہ اور بات کہ اس بنیادی فریضے سے ہم انفرادی، خاندانی، گروہی اور جماعتی سطح پر اعراض ہی برتتے آئے ہیں اور برت رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا رویہ دیکھئے۔ ایک ڈاکٹر مریض یا پیرا میڈیکل سٹاف کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔ انصاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صوبے کے اور پھر ملک بھر کے ڈاکٹر، اس ڈاکٹر کی حمایت شروع کردیتے ہیں جو ملزم ہے۔ وکیل ناانصافی کی اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ کبھی موکلین پر ٹوٹ پڑتے ہیں کبھی منصفوں کو زدوکوب کرنے پر اتر آتے ہیں۔ جن سرکاری اور نیم سرکاری شعبوں میں یونین کا زور ہے وہاں یہ ناانصافی اور گروہ پرستی اور بھی زوروں پر ہے۔ قومی ایئرلائن کی مثال سب کے سامنے ہے۔ جہازوں کی تعداد شرمناک حد تک کم ہے مگر ملازمین گلچھرے اڑائے چلے جا رہے ہیں۔ ڈائون سائزنگ کرنا حکومت کے لیے ناممکن بنایا گیا ہے۔ یونینوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ کسی مجرم کو سزا دینے دیتے ہیں نہ اصلاحات کو بروئے کار لانے دیتے ہیں۔ خاندانوں میں افتراق کی بنیادی وجہ بھی یہی تعصب ہے۔ بیٹا چونکہ اپنا خون ہے اس لیے وہ بے قصور ہے۔ سارا الزام بہو پر ہے۔ بیٹی کا ہر حال میں دفاع کرنا ہے، ملبہ داماد پر ڈالنا ہے، مجرم، مجرم ہے مگر چونکہ اپنی برادری سے ہے اس لیے اس کا ساتھ دینا عزت داری کے لیے لازم ہے۔ غلاف میں لپٹا ہوا، طاق پر دھرا قرآن پاک کیا حکم دیتا ہے ،اس کی مطلق پرواہ نہیں، تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں۔ بات چیت ختم ہو جاتی ہے۔ مقدمہ بازی میں سالہا سال گزر جاتے ہیں۔ زمینیں بک جاتی ہیں۔ جائیدادیں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں مگر قاتل کا ہر حال میں ساتھ دینا ہے۔ دوسرے کی زمین ہڑپ کردینے والا چونکہ بیٹے کے سسرال سے تعلق رکھتا ہے یا ذات برادری کے حوالے سے اپنا ہے اس لیے مظلوم کی مخالفت کرنی ہے۔ ظلم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ رویہ بنیادی طور پر جاہلی معاشرے کی نشانی ہے۔ مسدس میں حالی نے اسے کمال بلاغت سے بیان کیا ہے 

وہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی 
صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی 
قبیلوں کی کردی تھی جس نے صفائی 
تھی اک آگ ہر سو عرب میں لگائی 
نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ 
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ 

جاہلیت کا یہ رویہ کنبے میں بچوں کی ساری نفسیات کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھال کر رکھ دیتا ہے۔ بچہ جب دیکھتا ہے کہ ماموں یا چچا قصور وار ہے مگر گھر والے اس کی حمایت کر رہے ہیں تو یہ تعصب اور کذب اس کے مستقبل کے رویے کا فیصلہ کردیتا ہے۔ مغربی معاشرے میں بچے کو پہلا سبق یہ دیا جاتا ہے کہ اس نے جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنا ہے۔ ماں یا باپ جھوٹ بولیں گے تو بچے ان کے منہ پر صاف کہہ دیں گے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اسی رویہ سے برادری ازم کا خاتمہ ہوا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ امریکہ میں اطالوی یا آئرش کسی کے ذاتی مسئلے کو بنیاد بنا کر احتجاج کر رہے ہوں؟ 

احسن اقبال صاحب نے کرتارپورکوریڈور کی تعریف کی مگر ایک زیادتی بھی کرگئے۔ سارا کریڈٹ انہوں نے آرمی چیف کو دیا ہے۔ وہ سیاسی حکومت کا کردار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ تاہم اپنی حکومت کے ضمن میں ان کا یہ معیار نہیں تھا۔ سابق وزیراعظم سے لے کر مسلم لیگ نون کے ارکان اور منتخب نمائندوں تک، سب نے دہشت گردی کے استیصال کا کریڈٹ ہمیشہ نونی حکومت کو دیا۔ سب جانتے ہیں کہ پہل اس سلسلے میں عساکر نے کی تھی۔ کیا سابق وزیر اعظم نوازشریف نے فوج کو زبانی یا تحریری حکم دیا تھا کہ وزیرستان سے یا دوسرے علاقوں سے دہشت گردوں کے مراکز ختم کردو؟ نوازشریف صاحب نے تو طالبان سے مذاکرات کے لیے جو ٹیم بنائی تھی اس میں ایک کالم نگار ایسے بھی تھے جو ہمیشہ طالبان کے ہرقول، فعل کی غیر مشروط حمایت کرتے رہے۔ کون نہیں جانتا کہ میاں شہبازشریف نے طالبان سے درخواست کی تھی کہ پنجاب کو کچھ نہ کہیں، مسلکی تنظیموں کے ساتھ اتحاد بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سفارتی محاذ پر کرتار پور کوریڈور پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایک تیر سے کئی شکار ہوئے ہیں۔ اس کا کریڈٹ اگر فوج کو جاتا ہے تو سیاسی حکومت کو بھی دیجئے جو قیصر کا حصہ ہے وہ قیصر کو دیجئے جو پوپ کا حصہ ہے وہ پوپ کو دیجئے۔ 

سیاسی بالغ نظری کے سفر میں ارتقا تو ہورہا ہے مگر ابھی بہت سی منازل طے کرنی ہیں۔ 



   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Tuesday, November 27, 2018

آٹھ لاکھ روپے کی چربی ……


دل دہل گیا۔ 

جانے کیا ایمرجنسی تھی! ابھی گائوں جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ 

میں بھی انہی بدقسمت لوگوں میں سے ہوں جو گائوں واپس جا کر بسنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں مگر شہر ایک کمبل ہے جو چھوڑتا نہیں۔ ویسے فرق ہی کیا ہے‘ ایک طرف لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد اور دوسری طرف نیویارک‘ لندن‘ سڈنی جا کر بس جانے والوں میں۔ لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد والوں کی ساری زندگی اس منصوبہ بندی میں گزر جاتی ہے کہ بچے نوکریوں پر لگ جائیں تو واپس گائوں چلے جائیں گے۔ کھیتی باڑی کریں گے‘ حویلی کو پکا کریں گے‘ بچوں کو گندم اور سبزیاں بھجوایا کریں گے۔ نیویارک‘ لندن‘ سڈنی والے ارادے باندھتے رہتے ہیں کہ بس ریٹائر ہوتے ہی‘ بچوں کی شادیاں کرتے ہی واپس پاکستان چلے جائیں گے۔ دوست احباب اور اعزہ و اقارب کے درمیان رہیں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! نہ لاہور‘ کراچی والے واپس گائوں آپاتے ہیں نہ لندن نیویارک والے پاکستان پلٹ سکتے ہیں‘ یہ کھیل تقدیر کا ہے۔ یہاں پلاننگ‘ منصوبہ بندی‘ ارادے سب ناکام رہتے ہیں‘ مختار صدیقی نے کہا تھا ؎ 

پیر‘ فقیر‘ اوراد‘ وظائف اس بارے میں عاجز ہیں 
ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا 

گائوں پہنچا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ ڈھور ڈنگر واپس آ رہے تھے۔ تنوروں سے دھواں اٹھتا‘ مرغولے بناتا‘ ہوا میں تحلیل ہورہا تھا۔ میں بھی حقیر سا زمیندار ہوں۔ دو تین کھیتوں کا مالک۔ نوجوان جو میرے کھیتوں کا انتظام و انصرام کرتا ہے‘ بے چینی سے منتظر تھا۔ ڈانٹتے ہوئے میں نے پوچھا۔ یار‘ ایسی کیا مصیبت پڑی تھی کہ تم نے فوراً آنے کے لیے کہا۔ پریشان حال نوجوان نے بتایا کہ بڑے والا یعنی بوڑھا دنبہ دو دن اور دو راتوں سے مسلسل ڈھاں ڈھاں کر رہا ہے۔ رخ دارالحکومت کی طرف کر کے پیر زمین پر زور زور سے مارتا ہے اور آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ 

شکاری کتے اور باز رکھنے والے بابے گامے کی روح کو خدا سکون بخشے‘ بچپن میں مجھے بھیڑ بکریوں کی بولی سکھا دی تھی۔ میں شروع سے ہی ان مخلوقات سے محو کلام رہتا تھا۔ دنبے نے مجھے دیکھتے ہی سر جھکا لیا اور گردن میرے کوٹ کے ساتھ رگڑنے لگ گیا۔ معانقہ ختم ہوا تو پوچھا۔ 

تم تو سب سے سینیئر دنبے ہو‘ بجائے اس کے کہ دوسروں کو صبر و رضا کی تلقین کرو‘ تم نے خود ہی ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے۔ 

بوڑھے‘ موٹے دنبے نے میری طرف دیکھا۔ جھیل سی گہری آنکھوں میں شکایت تھی۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میرے بھی‘ اس کے بھی۔ رہا نہ گیا‘ میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ 

میری جان‘ بتائو‘ مسئلہ کیا ہے۔ 

دنبے نے زیر لب کہا۔ 

صاحب جی‘ پہلے اس نوجوان کو اندر بھیجئے جو آپ کی غیر حاضری میں میرے ساتھ کھردرا سلوک کرتا ہے۔ 

نوجوان کو اندر بھیج دیا۔ دنبہ کہنے لگا‘

یہ آپ میری بیس کلو کی چکی دیکھ رہے ہیں؟ چربی سے بھری ہوئی؟ 

ہاں‘ دیکھ رہا ہوں‘ یہی تو تمہارے حسن کا راز ہے۔ 

نہیں‘ صاحب جی‘ مجھے یہ حسن نہیں چاہیے۔ اس بوجھ کو اٹھا اٹھا کر تنگ آ گیا ہوں۔ بس آپ میرا آپریشن کرا دیجئے۔ چربی کے اس پہاڑ سے میری جان چھوٹے۔ 

یہ ایک مہنگی تجویز تھی‘ مگر بوڑھے دنبے کے ساتھ دیرینہ خاندانی تعلقات کا خیال آڑے آیا۔ اس کے دادا نے میرے دادا جان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا تھا۔ اس کی سگی پھپو‘ تایا جان کے گھر ایک عرصہ رہی‘ انتقال ہوا تو اس کے بڈھے کالے گوشت کو احتراماً خوب خوب بھونا گیا۔ ہم خاندانی حوالے سے نبھانے والے لوگ ہیں۔ میں نے سوچا اب اسلام آباد لے جا کر ڈاکٹر کو دکھائوں تو سہی‘ دیکھوں کیا کہتا ہے۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دنبے کو بٹھایا۔ دارالحکومت ایک پرائیویٹ کلینک پہنچے۔ لمبی قطار تھی۔ بڑے بڑے پیٹوں والے حضرات بیٹھے تھے۔ معلوم ہوا یہ سب چربی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ کئی گھنٹے انتظار کرنے کے بعد باری آئی۔ ڈاکٹر نے دنبے کا تفصیلی معائنہ کیا۔ پھر دنبے کو باہر بھیج کر بتایا کہ آپریشن کرنا پڑے گا۔ اخراجات کا پوچھا تو آٹھ لاکھ کا تخمینہ بتایا۔ 

میں خاموش ہوگیا۔ ڈاکٹر سمجھ گیا۔ پوچھا‘ کیا اتنی استطاعت ہے؟ بلاتکلف عرض کیا کہ نہیں۔ ڈاکٹر نے پوچھا 

کیا اس دنبے کا ایوان بالا سے یعنی سینٹ سے کوئی تعلق ہے یا ماضی میں رہا ہے؟ 

مجھے یاد آیا کہ اس دنبے کا سگا چچا دنبوں کی سینٹ کا رکن رہا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ سارے ایوان ہائے بالا‘ دنبوں کے ہوں یا انسانوں کے ہار کے موتیوں کی طرح ہیں اور ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ اس کے اخراجات کا بل وفاقی وزارت قومی صحت اپنے بجٹ سے ادا کردے گی۔ 

آپریشن کی تاریخ دو دن بعد کی رکھی گئی۔ آپریشن تھیٹر لے جایا جارہا تھا تو دنبے نے اپنی گردن کو میرے کوٹ کے ساتھ خوب رگڑا اور سرگوشی میں کہا

’’صاحب جی‘ دعا کرنا۔‘‘ 

تین گھنٹے لگے۔ میں بے تابی سے آپریشن تھیٹر کے باہر ٹہلتا رہا۔ بالآخر سٹریچر نمودار ہوا۔ چکی غائب ہو چکی تھی۔ دنبہ ہوش میں آیا تو خوش تھا۔ اس کی خواہش پوری ہو گئی تھی۔ 

اس کے بعد کی کہانی غیرخوشگوار ہے۔ ڈاکٹر نے آٹھ لاکھ روپے کا بل دیا۔ بل لے کر سینٹ کے دفتر پہنچا۔ انہوں نے ٹھپہ لگا کر وفاقی وزارت قومی صحت لے جانے کا کہا۔ وہاں پہنچا تو باہر سے جھگڑے کا شور سنائی دے رہا تھا۔ وفاقی سیکرٹری کی آواز باہر تک آ رہی تھی۔

“ہم یہ آٹھ لاکھ نہیں ادا کرسکتے۔ مولانا صاحب سینٹ کے معزز رکن ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کے جسم کی زائد چربی نکلوانے کے اخراجات ادا کریں۔ یہ کاسمیٹک سرجری ہے۔ یہ جان بچانے کے زمرے میں نہیں آتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ سرکاری ہسپتال پمز میں اس سرجری کی سہولت موجود ہے۔ نجی کلینک میں آپریشن کرانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ “”

سیکرٹری کے معاون نے اپنے باس کو سمجھایا کہ مولانا صرف سینٹ کے رکن ہی نہیں‘ ایک اور مولانا کے بھائی بھی ہیں جو ان سے بھی بڑے مولانا ہیں۔ بہت بااثر ہیں اور فراست و سیاست کے لیے معروف ہیں مگر سیکرٹری کے ہاتھ قوانین نے باندھے ہوئے تھے۔ 

میں اپنے دنبے کا بل لے کر سیکرٹری صاحب کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے ہمدردی کا اظہار کیا مگر عذر ان کا معقول تھا کہ دنبے کا کیس جائز تو ہے مگر مولانا کا کیس پہلے نامنظور ہو چکا ہے‘ اب دنبے کے بل کی ادائیگی کی تو سینٹ میں تحریک استحقاق پیش ہو جائے گی۔ 

دنبے کی چکی مولانا کی چربی پر قربان ہو گئی تھی۔

   






Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Saturday, November 24, 2018

عمر کٹ جائے آنے جانے میں



یہ الوداعی نظر تھی۔

مسجد نبویؐ کے بیرونی گیٹ نمبر5سے باہر نکل رہا تھا۔ پلٹ کر دیکھا، اس سفرِ زیارت کے دوران گنبدِ خضریٰ کا یہ آخری دیدار تھا۔ زمین نے پائوں جکڑ لیے۔ کئی بار ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر اپنے پیاروں کو الوداع کیا۔ مگر یہ کیفیت ہی اور تھی۔ چلنا شروع کیا۔ دو قدم چلا، پھر پلٹ کر دیکھا۔ وہیں کھڑا ہو گیا۔ ایک ایک کرن نور کی، جو گنبد سے نکل رہی تھی، آنکھوں میں بھر لینا چاہتا تھا۔

ایک ہُوک دل میں اٹھی… کاش میں یہیں رہ جائوں! اس دربار کا جاروب کش ہو جائوں! یہاں ماشکی لگ جائوں! زائرین کے جوتے سیدھے کرتا رہوں۔ معاوضے میں گنبدِ خضریٰ کا دیدار ملتا رہے، یہیں مرض الموت آ گھیرے۔ یہیں جان دے دوں۔ زبان پر کلمۂ شہادت ہو، آنکھوں کے سامنے سبز گنبد ہو۔ مسجد نبویؐ کا فرش ہو۔ مگر نظیری نیشا پوری نے کہا تھا ؎

نازاں مرو کہ بارِ علائق گزاشتی
ہستی تعلق است نظیریؔ جریدہ تر

دنیا، خانوادہ، علائق، آلائشیں، آلودگیاں! ہاں حسرت کے اظہار سے تو کوئی نہیں روک سکتا!

؎
 اسی دہلیز پر بیٹھا رہے میرا بڑھاپا
انہی گلیوں میں گزرے میرے بچوں کی جوانی

آتے ہوئے عرضی ڈال آیا کہ پھر طلب فرمائیے۔ والد گرامی حافظ ظہور الحق ظہورؔ کا شعر یاد آ رہا ہے ؎

طیبہ جائوں اور آئوں پھر جائوں
عمر کٹ جائے آنے جانے میں

اُس سے تین دن پہلے مکہ مکرمہ سے روانگی تھی۔ ایک دن خوش بختی سے مطاف میں دوسری صف میں جگہ مل گئی۔ بھاگ جاگ اٹھے۔ دیکھتا رہا، دیکھتا رہا، علماء کرام سے سنا ہے کہ اس گھر کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ ویٹی کن سے لے کر ایاصوفیہ تک۔ بڑی بڑی پرہیبت عمارتیں دیکھیں جن کی بلندی کے سامنے انسان حقیر ذرہ لگتا ہے۔ مگر یہ گھر! اللہ کا گھر! جس کی اونچائی چند فٹ سے زیادہ نہیں، جلال و جمال میں کوئی ثانی اس کا کیا ہو گا۔ ایک بقعۂ نور ہے جو ابد تک روشنی بکھیر رہا ہے، تزک و احتشام، شان و شکوہ! دست بستہ ہیں۔ دنیا کی کوئی زبان کوئی لغت، کوئی لفظ، کوئی ذریعۂ ابلاغ اُس کیفیت کو بیان نہیں کر سکتا جو اس گھر کو دیکھنے سے دل و دماغ پر طاری ہوتی ہے۔

ایک شاعر کے پاس ہے ہی کیا! برگِ سبز است تحفۂ درویش —جو نذرانہ پیش کیا، اپنے پڑھنے والوں سے شیئر کیا جا رہا ہے۔

(1)

میں تھا قلاش یا زر دار جو بھی تھا وہیں تھا
کہ میرا اندک و بسیار جو بھی تھا وہیں تھا

وہیں تھا ایک پتھر جس پہ تفصیلِ سفر تھی
یہ رستہ سہل یا دشوار جو بھی تھا وہیں تھا

وہیں میزان تھی اوزان لکھے جا رہے تھے
اثاثہ کاہ یا کہسار جو بھی تھا وہیں تھا

وہیں کم مائیگاں کے ناز اٹھائے جا رہے تھے
میں شکوہ سنج و کج گفتار جو بھی تھا وہیں تھا

لہو میں ان گنت شمعیں تھیں آنکھوں میں دھواں تھا
یہ عالم ہجر یا دیدار جو بھی تھا وہیں تھا

وہیں مٹی مری اظہارؔ گوندھی جا رہی تھی
ازل کا اولیں دربار جو بھی تھا وہیں تھا

(2)

متاعِ بے بہا آنسو زمیں میں بو دیا تھا
پلٹ کر جب ترا گھر میں نے دیکھا بو دیا تھا

عصادر دست ہوں اُس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا میں نے کھو دیا تھا

زمانے، حُسن، ثروتؔ، ہیچ سب اس کے مقابل
تہی کیسہ کو اُس پہلی نظر نے جو دیا تھا

پروں کی ارغوانی چھائوں پھیلائی تھی سر پر
بہشتی نہر کا پانی مسافر کو دیا تھا

بس اک قندیل تھی جلتی ہوئی اپنے لہو میں
یہی نذرانہ دینا تھا حرم کو، سو، دیا تھا

(3)

برون در نکلتے ہی بہت گھبرا گیا ہوں
میں جس دنیا میں تھا کیوں اس سے واپس آ گیا ہوں

کوئی سیارہ میرے اور اس کے درمیاں ہے
میں کیا تھا اور دیکھو کس طرح گہنا گیا ہوں

مجھے راس آ نہ پائیں گے یہ پانی اور مٹی
کہ میں ایک اور مٹی سے ہوں اور مرجھا گیا ہوں

میں پتھر چوم کر تحلیل ہو جاتا ہوا میں
مگر زندہ ہوں اور ہیہات! واپس آ گیا ہوں

کہاں میں اور کہاں دربار کا جہل و تکبر
مگر اک رسم کی تسبیح جس سے چھا گیا ہوں

(4)

دریچے کاخِ دل کے وا ہوئے ناگاہ میرے
میں تنہا تھا مگر تھے رفتگاں ہمراہ میرے

فرشتے لے چلے سوئے حرم تابوت میرا
کفِ افسوس ملتے رہ گئے بدخواہ میرے

یہاں میں محترم ہوں اور وہ نادم کھڑے ہیں
نظر مجھ سے چراتے ہیں وزیر و شاہ میرے

کہاں یہ چشمۂ کافور، یہ رحمت کی لپٹیں
کہاں وہ زندگی، وہ روز و شب جانکاہ میرے

زمیں گردش میں ہے اس پر مکاں رہتا نہیں ہے
مگر اس سے نہیں آگاہ واقف آہ! میرے

(5)

مدینے کی ہوا ہے اور رخساروں پہ پانی
کوئی ایسی لغت جس میں سنائوں یہ کہا نی

تھما بھی ہے کبھی کیا سیل انسانوں کا اس میں
پریشاں ہے مدینے میں ابد کی بیکرانی

برہنہ پا کھڑی ہے رات پتھر کی سلوں پر
سروں پر صبحِ صادق نے عجب چادر ہے تانی

یہاں مٹی میں کنکر لعل اور یاقوت کے سب
درختوں پر یہاں سارے پرندے آسمانی

مرے آقا کے چاکر اور کیکائوس کا تخت
مرے مولا کے خدمت گار اور تاجِ کیانی

مطہر جسم پر دیکھو چٹائی کے نشاں ہیں
چٹائی کے نشاں اور دو جہاں کی حکمرانی

کہاں تھا وقت میں جب جالیوں کے سامنے تھا
مجھے اس نے سمجھ رکھا ہے کس برتے پہ فانی

کہاں میں اور کہاں یہ فرش اور پلکوں پہ جاروب
زہے قسمت کہ میں نے لوٹ لی یہ میہمانی

کہاں یہ گنبدِ خضریٰ کہاں بینائی میری
کہاں قلاش مجھ سا اور کہاں یہ شہ جوانی

اسی دہلیز پر بیٹھا رہے میرا بڑھاپا
انہی کوچوں میں گزرے میرے بچوں کی جوانی

رہے میرا وطن اس شہر کے صدقے سلامت
۔ قیامت کے تلاطم میں وہ کشتی بادبانی

مرے دشمن مرا کشکول چھپ کر دیکھتے ہیں
غلامانِ محمدؐ کی سخاوت مہربانی

مرے آبِ وضو سے بھیگتی ہے رات اظہارؔ
مری آنکھوں سے کرتے ہیں ستارے دُرفشانی


(6)

ہر اک محاذ پر لشکر تباہ امت کے
حضور! ختم ہوں یہ دن سیاہ! امت کے

حضور! آپ پہ قربان ہوں مرے ماں بات
بدل بھی دیجیے شام و پگاہ امت کے

کسی کا تخت ہو یا جبر، کچھ نہیں ہے یہاں
بس ایک آپ ہی ہیں بادشاہ امت کے

غلام جمع ہیں، میدانِ حشر ہے اظہارؔ
چھپے ہوئے ہیں کہاں کج کلاہ امت کے






Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Tuesday, November 20, 2018

ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ


نہیں! بیورو کریسی ہشت پا نہیں!

یہ آکٹوپس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ آکٹو پس کو مار سکتے ہیں۔ یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ 

بیورو کریسی پیرِتسمہ پا ہے ؎ 

ہشیار! کہ پیرِ تسمہ پا ہے 
یہ ضُعف سے کانپتا زمانہ

بیورو کریسی تحریکِ انصاف کی گردن پر سوار ہے۔ ٹانگیں گلے میں حمائل کیے۔ رہائی ہو تو کیسے۔ 

رہائی ہو بھی نہیں سکتی۔ تحریکِ انصاف کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ فواد چوہدری، افتخار درانی اور دوسرے عمائدین کے نزدیک یہ مسئلہ ترجیحی ہی نہیں! رہے شفقت محمود تو خود بیورو کریسی کے اُس برہمن گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جو بگاڑ کا ذمہ دار ہے۔ یادش بخیر عشرت حسین بھی اِسی مردم خور قبیلے کے رکن ہیں۔ کبھی سنتے تھے کہ بندہ جماعتِ اسلامی سے نکل جائے، جماعت اسلامی بندے کے اندر سے نہیں نکلتی۔ نہ معلوم یہ درست ہے کہ نہیں! مگر یہ ضرور درست ہے کہ بندہ بیورو کریسی کے برہمن گروپ ڈی ایم جی سے نکل جائے پھر بھی تفاخر کا احساس تا حیات رہتا ہے۔ قدرت چوٹی پر لے جائے بندہ وفاقی سیکرٹری بن جائے۔ وزیر بن جائے، سینیٹ میں بیٹھ جائے مگر ڈپٹی کمشنری کی یاد مرحومہ ماں کی یاد کی طرح ستاتی رہتی ہے۔ 

تحریک انصاف کے گرد گھیرا بیورو کریسی کے مخصوص گروہ کا مضبوط ہے۔ جو طبقہ مسئلے کا حصہ ہے، وہ مسئلہ کیسے حل کر سکتا ہے؟ جب تک بیورو کریسی کے تمام گروپوں کو برابر کے سول سرونٹ نہیں سمجھا جاتا، جب تک فارن سروس، پولیس سروس، ایف بی آر، آڈیٹر جنرل، کامرس اینڈ ٹریڈ، انفارمیشن سروس، ریلوے، پوسٹل سروس اور آفس مینجمنٹ، سب سے اصلاحات کے لیے مشورہ نہیں لیا جاتا، جب تک اصلاحات کمیشن میں ان تمام گروہوں کی مضبوط اور بامعنی نمائندگی نہیں ہو جاتی، ریفارم کی ہر کوشش رجعت قہقری ثابت ہو گی۔ ہاتھی پلٹ کر اپنے ہی لشکر کو روندتے رہیں گے۔ 

نئی حکومت کی معصوم لاعلمی دیکھیے یا اسے بے نیازی پر محمول کیجیے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت نے جاتے جاتے نوکر شاہی کو اپنی زلف کا اسیر کرنے کے لیے خزانے کا منہ کھول دیا۔ یہ فیصلہ ہوا کہ گریڈ بیس، اکیس اور بائیس کے افسروں کو سرکاری گاڑیاں نہیں دی جائیں گی۔ وہ اپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کریں گے۔ بدلے میں انہیں الائونس دیا جائے گا۔ اس پالیسی کو
 Monetization
کا نام دیا گیا؛چنانچہ درجہ بہ درجہ ان حضرات کو ماہانہ خطیر رقم ملنے لگی۔ بڑے گریڈ والوں کو ایک لاکھ ماہانہ، کم والوں کو نوے ہزار وغیرہ! سرکاری ڈرائیور بھی ہٹا لیے گئے۔ مگر گنتی کے چند دیانت دار افسروں کو چھوڑ کر باقی چوپڑی بھی کھانے لگے اور دو دو بھی۔ ایک لاکھ روپے ماہانہ جیب کے تنور میں ڈالنے لگے اور سرکاری گاڑی اور ڈرائیور کا استعمال پہلے کی طرح جاری رکھا۔ چنانچہ خزانے پر کروڑوں کا اضافی اور ناروا بوجھ پڑ رہا ہے۔ عقل کے اندھوں نے پالیسی بناتے وقت یہ نہ سوچا کہ گاڑیاں اور ڈرائیور انہی افسروں کے تو رحم و کرم پر ہیں۔ بلی دودھ کی رکھوالی کرے گی یا پی جائے گی؟ تحریکِ انصاف کی حکومت اگر چوکنی، چُست اور سمارٹ ہوتی تو ابتدائی ایام ہی میں اس لُوٹ سیل کو بند کرتی۔ ماہانہ الائونس بند کرتی یا سرکاری گاڑیاں ایک جگہ جمع کر کے بیچتی یا جیسے بھی ہوتا، انہیں ٹھکانے لگاتی۔ اسی طرح ڈرائیوروں سے جن کا غلط استعمال ہو رہا ہے، مسلسل ہو رہا ہے اور وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے، کچھ اور کام لینے کا فیصلہ کیا جاتا۔ مگر لوٹ سیل جاری ہے۔ انگلیاں گھی میں ہیں۔ سر کڑاہیوں میں ہیں۔ اٹھائی گیروں کو کھلی چھٹی ہے۔ 

نوکر شاہی کے ارکان ایک دوسرے کو کمک پہنچاتے ہیں۔ حکمرانوں کو وہ تجاویز پیش کی جاتی ہیں جن سے اہلکار بھائیوں کا فائدہ ہو۔ اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے کمال کی نظمیں لکھیں جن میں مزا بچوں کے لیے ہے اور سبق بڑوں کے لیے۔ کوّے پر، جو ان کی معرکہ آرا اور مشہور نظم ہے، وہ نوکر شاہی پر صادق آتی ہے۔ 

کوئی ذرا سی چیز جو پالے/کھائے نہ جب تک سب کو بلا لے/کھانے دانے پر ہے گرتا/پیٹ کے کارن گھر گھر پھرتا/اچھلا کودا لپکا سکڑا/ہاتھ میں تھا بچے کے ٹکڑا/آنکھ بچا کر جھٹ لے بھاگا/واہ رے تیری پھرتی کاگا! 

بیورو کریسی کے مسائل رہے ایک طرف۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم دیس دیس ملک ملک چندہ اکٹھا کرنے جا رہے ہیں تو ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے دعوے کدھر گئے؟ آٹھ فیصد آبادی ٹیکس ادا کرتی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے سوا کوئی اور حکومت کے ہاتھ نہیں آتا۔ ادبار کا یہ عالم ہے کہ جس ملک کو فیاضیٔ قدرت نے ہر طرح کے وسائل بہتات سے دیئے ہیں وہ ملک دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے۔ یہ امر اطمینان بخش ہرگز نہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد ابھی تک ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کے ضمن میں حکومت نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے سے پہلے بارہا یقین دلایا تھا کہ اس سلسلے میں انقلابی اقدام اٹھائے جائیں گے۔ تو کیا قوم پوچھنے کی جسارت کر سکتی ہے کہ ابھی تک کیوں کچھ نہیں کیا گیا؟ 

دوسری طرف قانون سازی کی ضرورت دروازے پر کھڑی مسلسل دستک دے رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس پاکستان سعید الزمان صدیقی مرحوم کے پلاٹ پر جس طرح قبضہ کیا گیا جس طرح ان کی معمر اہلیہ کو حبس بیجا میں رکھا گیا، اسلحہ کی نوک پر دھمکیاں دی گئیں اس سے امن و امان کی صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر سابق چیف جسٹس اور سابق گورنر کے اہلِ خانہ کے ساتھ یہ ظلم روا رکھا جا سکتا ہے تو عام شہریوں کے ساتھ کیا نہیں ہو رہا ہو گا۔ قبضہ مافیا سرطان ہے جو اندر تک پھیلا ہوا ہے۔ بیرون ملک رہنے والے لاکھوں پاکستانیوں کی جائیدادوں پر اس مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے کوئی شنوائی ہے نہ تدارک! مالکوں کے سامنے ان کے پلاٹوں اور مکانوں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ اگر حکومت اس سرطان کا علاج کرنا چاہتی ہے تو قانون سازی کرے اور ایسے مجرموں کو عبرت ناک اور سخت ترین سزا دے تا کہ اس لعنت کا خاتمہ ہو سکے۔ 

رہا سو دنوں کا حوالہ تو تحریک نے یہ گھنٹی اپنے گلے میں خود ڈالی ہے۔ ناتجربہ کاری اور بچپنے کے طفیل ایسے اعلانات کرتے رہے جو حقیقت پسندانہ نہیں تھے۔ یہ کوئی پانچ مرلے کے مکان کی تعمیر تھوڑی تھی کہ سو دنوں میں دیواریں کھڑی ہو جاتیں اور چھت بھی پڑ جاتی۔ معاملات عشروں کے بگڑے ہوئے ہیں۔آوے کا آوا خراب ہے۔ راستے کی صعوبتوں کا پتہ تب چلتا ہے جب سفر شروع کر دیا جائے۔ گھر بیٹھ کر خاردار جنگلوں کو عبور کرنا آسان لگتا ہے۔ قائم رہنے والے نقوش پا اس قدر جلد نہیں دیکھے جا سکتے۔ 

کاش حکومت کے اربابِ حل و عقد نعروں، طعنوں اور دعوئوں سے ہٹ کر ٹھوس بنیادوں پر کوئی اقدامات اٹھاتے جن کے اثرات دور رس ہوتے۔ اپوزیشن سو دنوں کی کارکردگی مانگ رہی ہے۔مگر بقول مصطفی زیدی ؎ 

ابھی تاروں سے کھیلو چاند کی کرنوں سے اٹھلائو 
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ!! ۰


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Sunday, November 18, 2018

کہ ہم یہ سلسلہ اب ختم کرنا چاہتے ہیں


انوریؔ بارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں موجودہ ترکمانستان میں پیدا ہوا۔ مشکل پسند شاعر تھا۔ قصائد معرکے کے لکھے۔ ایک بہت معروف قطعہ ہے جو انوری کے مقام کی نشاندہی کرتا ہے: 

در شعر سہ کسی پیمبرانند 
ہر چند کہ ’’لانبیّ بعدی‘‘ 
ابیات و قصیدہ و غزل را 
فردوسی و انوری و سعدی 

یعنی یہ درست ہے کہ اب کسی نبی نے نہیں آنا مگر یہ تین اشخاص شعر کی دنیا کے پیغمبر ہیں۔ اشعار (یعنی مثنوی) میں فردوسی‘ قصیدہ گوئی میں انوری اور غزل میں سعدی !

اگر یادداشت غلطی نہیں کر رہی تو یہ مشہور عالم فقرہ۔ ’’شعرِ مرا بہ مدرسہ کہ بُرد’’بھی انوری ہی کا ہے۔ اس کی شاعری اہل مدرسہ تک پہنچی تو انہوں نے خوب بال کی کھال اتاری‘ پوسٹ مارٹم کیا۔ کیا خبر فتویٰ بھی لگا دیا ہو۔ انوری کو معلوم ہوا تو برافروختہ ہو کر پوچھا۔ آخر میرے اشعار کو مدرسہ تک لے کر کون گیا۔ چند دن پہلے کچھ دوستوں نے ایک نوجوان دستار پوش مولوی صاحب کا ویڈیو کلپ بھیجا۔ یہ صاحب اختلافی مسائل خوب خوب اچھال رہے ہیں۔ اقبال کے اس شعر میں اپنی دانست میں ’’غلطیاں‘‘ نکال رہے تھے: 

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق 
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی 

علم و فضل میں ’’کمال‘‘ کا یہ حال تھا کہ محوِ تماشائے لبِ بام کو ’’محوِ تماشا۔ لبِ بام‘‘ پڑھ رہے تھے۔اقبال کی زندگی میں تو ان پر ملاّئیت نے خوب خوب فتوے پھینکے مگر لگتا ہے شاعرِ مشرق کی ابھی تک جان نہیں چھوٹی۔ 

انوری کی بات ہو رہی تھی۔ وفات اس کی بلخ میں ہوئی جو اب افغانستان میں ہے اور تب خراسان کہلاتا تھا۔ ایک بار انوری نے دیکھا کہ شہر کے چوک میں بہت سے لوگ جمع ہیں۔ نزدیک جا کر دیکھا تو ایک شاعر‘ اشعار سنا رہا تھا۔ انوری نے اشعار سُنے تو معلوم ہوا یہ تو اُس کے (یعنی انوری) کے اشعار ہیں۔ وہ سنانے والے کے پاس گیا اور پوچھا یہ کس کی شاعری ہے۔ اس نے جواب دیا انوری کی۔ انوری نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو اس نے کہا میں انوری ہی تو ہوں۔ اس پر انوری نے بے اختیار کہا کہ شاعری تو چوری ہوتی ہی آئی ہے۔ اب شاعر خود بھی چرایا جانے لگا ہے! 

پاکستان میں بہت کچھ چرایا جاتا رہا۔ اب بھی چرایا جا رہا ہے۔ دولت بھی‘ تعیناتیاں بھی۔ ترقیاں بھی یہاں تک کہ انتخابات بھی: یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چرا لیتے ہیں لوگ قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ مگر اب کے بار چوری کی ایک نئی قسم دریافت ہوئی۔ اسمبلی کی پوری نشست چوری کر لی گئی! بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے کیوں کہ جو صاحب جیتے تھے وہ پاکستانی نہیں تھے۔ وہ غیر ملکی نکلے!! ہنسا جائے یا رویا جائے؟ یہی وہ ملک ہے جہاں ’’نادرہ‘‘ جیسے حساس محکمے میں بھی غیر ملکی باقاعدہ ملازمت کرتے ہوئے پائے گئے۔ نہ جانے اب بھی’’خدمات‘‘ سرانجام دے رہے ہیں یانکال دئے گئے! 

آج کل زرد فام غیر ملکیوں کی وطن عزیز میں بہتات ہے! کچھ عرصہ ہوا ایک کالم بعنوان’’2040ء میں لکھا گیا ایک کالم‘‘ تحریر کیا۔ یہ وائرل ہوا۔ اس میں یہی رونا رویا تھا۔ کہ خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ کچھ عشروں بعد ہمارے حاکم‘ والی اور اسمبلی کے ممبران تک زرد فام ہوں۔ ہم اپنے ہی گھر میں محکوم ہو جائیں! 

تاریخ کسی کی رشتہ دار نہیں! کیا ہم آج تک محمد تغلق کے کھاتے میں دہلی کی تباہی نہیں ڈال رہے؟ دارالحکومت وہ جنوبی ہند میں لے گیا۔ دہلی کی آبادی کو بزور نکالا۔ کچھ جاتے ہوئے مر گئے۔ کچھ عرصہ بعد واپسی کا فرمان جاری کیا۔ بہت سے واپس آتے ہوئے سفر کی اذیتوں کی نذر ہو گئے۔ تاریخ آئینہ ہے۔ جو چہرہ سامنے ہو گا وہی نظر آئے گا۔ اگر چہرہ بھدا ہے اور زخم خوردہ بھی! تو سلامت کیسے دکھائی دے؟ جنرل ضیاء الحق کے بارے میں بات کی جائے تو کچھ محبان گرامی کو قلق ہوتا ہے مگر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ نہیں کہا جا سکتا۔ ’’جہاد‘‘ تک تو مان لیتے ہیں کہ جنرل صاحب مرحوم کا موقف درست تھا۔ یہ اور بات کہ اس جنگ کو جہاد کہنا قدرے مشکل ہے۔ کم از کم حقائق یہی بتاتے ہیں۔ مگر اس پالیسی کی حمایت کیسے کی جا سکتی ہے جو انہوں نے افغان مہاجرین کے ضمن میں بنائی اور پھر نافذ کی۔ لاکھوں غیر ملکی آئے اور ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ پشاور سے لے کر کراچی تک کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ کاروبار پر چھا گئے۔ شاہراہیں ان کی مال بردار گاڑیوں سے بھر گئیں بازاروں میں وہ دکانیں ڈال کر بیٹھ گئے۔ خیبر پختون خواہ میں مقامی لوگوں کو مزدوری ملنا بند ہو گئی۔ مکانوں کے کرائے آسمان پر پہنچ گئے۔ کیا ایسا بھی کہیں ہوتا ہے؟ ملک کی سرحدیں مقدس ہوتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے مذہبی اور عسکری ساتھیوں نے ملکی سرحد کو ملیا میٹ کر دیا۔ لاکھوں لوگ روزانہ دستاویزات کے بغیر آتے اور جاتے۔ کون سا پاسپورٹ اور کہاں کا ویزا! 

پھر افغان ہی نہیں پوری دنیا سے لوگ‘ ہتھیاروں سمیت آئے اور پاکستان میں مقیم ہو گئے۔پھر انہوں نے مقامی عورتوں سے شادیاں کر لیں۔ نسلوں کی نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ مگر پاکستان سے وفاداری خون میں شامل نہ ہو سکی۔ گندم پاکستان کی۔ پانی پاکستان کا‘ دھوپ چاندنی ہوا اور بارش سب کچھ پاکستان کا۔ مگر ان احسان فراموشوں نے پاکستانیوں ہی کو شہید کیا۔ یہ ہر اُس طاقت کے آلۂ کار بنے جو پاکستان کی مخالف تھی۔ ان کے گڑھ ‘ خودکش جیکٹوں کے گودام بن گئے۔ پاکستان کے بازاروں مزاروں مسجدوں اور سکولوں کو ان لوگوں نے بموں سے تباہ و برباد کیا۔ بے گناہ پاکستانی موت کے گھاٹ اتارے۔ یہاں تک کہ جب پانی سر سے گزر گیا تو پاکستانی فوج کو مداخلت کرنا پڑی اور سرحدی علاقوں سے ان کے مراکز کو ختم کرنا پڑا۔ 

ہو سکتا ہے جدید تاریخ میں ایسا واقعہ کسی اور ملک میں نہ پیش آیا ہو کہ ایک غیر ملکی اسمبلی کا ممبر تک ہو گیا۔ یہ ہماری ناعاقبت اندیشی کی انتہا ہے۔ ہم غیر ملکیوں کے سامنے بچھ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے مفادات کو بھی قربان کر دیتے ہیں‘ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے: ع

ہٹا لے جائیں سب دریوزہ گر کشکول اپنے 
کہ ہم یہ سلسلہ اب ختم کرنا چاہتے ہیں



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Saturday, November 17, 2018

زیارت حرمین۔چند مشاہدات


فیس بُک پر اپنے حج اور عمرے کا اعلان کرنے والوں کو تو آپ اَن فرینڈ یا بلاک کر سکتے ہیں مگر اُن کا کیا کریں گے جو احرام باندھ کر ‘ کعبہ کے گرد‘ طواف کے دوران سیلفیاں لیتے ہیں؟ 

عجیب ہوا چلی ہے۔ عام طواف کی نسبت عمرے کا طواف ایک نازک عبادت ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے جانا‘ جسمانی مشقت برداشت کرنا اور پھر طواف کے دوران دعا مانگنے‘ تسبیح و تہلیل کرنے یا درود پاک پڑھنے کے بجائے سیلفیاں لینا ایک ناقابل فہم سرگرمی ہے۔ اس میں حسب توفیق پاکستانی اور غیر پاکستانی سب شامل ہیں۔ ہم کوئی فتویٰ نہیں لگا رہے نہ یہ ہمارا منصب ہے نہ اس کا شوق۔ مگر اتنا ضرور عرض کریں گے کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے فصل بو کر‘ کاٹنے کا وقت آئے تو سونڈی کے حوالے کر دی جائے۔ سُوت کات کر کپڑا بُنا جائے اور لباس تیار کرتے وقت کپڑے کو تار تار کر دیا جائے! 

حرمین شریفین میں سب سے زیادہ تعداد میں زائرین انڈونیشیا اور ملائشیا کے نظر آتے ہیں یہ منظم ترین اور تربیت یافتہ زائر تھے۔ہر گروہ کی خواتین یونیفارم کی طرح یکساں لباس میں تھیں یہ اس لیے کہ کوئی خاتون اپنے گروپ سے الگ ہو جائے تو دور ہی سے اسے گروپ کے ارکان نظر آ جائیں۔ مشرق بعید کے زائرین ہوٹلوں میں اپنے کھانے کا انتظام بھی ہوٹل انتظامیہ کی وساطت سے اجتماعی کرا لیتے ہیں۔ 

غیر منظم زائرین بہت ملکوں سے ہیں۔ پاکستانی‘ بھارتی‘ افغان اور بنگلہ دیشی ان میں سرفہرست ہیں! ان کی شناخت آسان ہے۔مخصوص لباس‘ زیادہ تر کثیف! اکثریت نہیں تو اچھی خاصی تعداد ناخواندہ مردوں اور عورتوں کی! اندرون مسجد کے بجائے یہ لوگ نمازیں زیادہ تر باہر کے پختہ فرش پر ادا کرتے ہیں۔ کچھ تو مناسک ہی سے بے خبر ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ بنیادی باتوں سے بھی لاعلم! مضحکہ خیز مناظر بھی نظر آ جاتے ہیں۔ عصر کی نماز با جماعت کا انتظار تھا۔ سب صفیں باندھ کر بیٹھے تھے۔ اچانک ایک عورت ظاہر ہوئی ٹھیٹھ پنجابی میں کہنے لگی کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے۔ اب باہر جانا ہے۔ اسے سمجھایا گیا کہ ابھی تو نماز ہوئی ہی نہیں۔ اس پر وہ عورتوں کے حصے کی جانب پلٹ گئی۔ 

مکہ مکرمہ میں حرم پاک کے احاطے کو چاروں طرف سے فلک بوس ‘ ہائی رائز‘ عمارتوں نے محصور کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ کثیر المنزلہ پلازے ہیں۔ ٹاور ‘ فائیو سٹار اور سیون سٹار ہوٹل!! انہیں دیکھ کر اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنا قلق ہوتا ہے۔ حرم کے بالکل ساتھ یہ انتہائی مہنگے کمرے اور اپارٹمنٹس امرا ہی کے دائرہ استطاعت میں آتے ہیں۔ رہے عام زائرین تو ان کی اقامت گاہیں پیچھے دھکیل دی گئی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ عام زائرین کے لیے سستے ہوٹل اور رہائش گاہیں حرم کے قریب تعمیر کی جاتیں۔ فائیو سٹار ہوٹل اور پلازے دور بنائے جاتے۔ امرا دور سے گاڑیوں پر آ سکتے ہیں جب کہ عام لوگ ہر نماز کے لیے میلوں پیدل چلنے پر مجبور ہیں۔ 

یہ حقیقت بھی خاص و عام سب کے علم میں ہے کہ ملوکیت نے مسجد کی حدود کے اندر فلک بوس محلات بنا لیے ہیں تاکہ جماعت کے ساتھ وہیں نماز ادا کر لیں۔ طواف کے دوران گزشتہ ہفتے عجیب منظر دیکھا۔ اچانک بہت سے پولیس کے سپاہی نظر پڑے ۔انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر ایک حصار بنایا ہوا تھا ۔ ہٹو بچو کی آوازوں کے درمیان‘ اس حصار میں کوئی بڑی شخصیت طواف کر رہی تھی۔
اہل اقتدار یہ بنیادی حقیقت کبھی نہیں سمجھتے کہ پروٹوکول‘ وہ بھی عبادت میں ایک کار لاحاصل ہے۔ موت کے بعد حساب کتاب کی منزل تن تنہا سر کرنی ہو گی۔ وہاں پروٹوکول ملے گا نہ ترجیحی سلوک!! ان حضرات کو چاہیے کہ کم از کم عبادت کے لئے عام مسلمانوں کی طرح آئیں اور عام مسلمانوں کے ساتھ عبادت کریں! پروٹوکول کے لیے ایک اور بھی دن ہے جب ’’ذُق اِنک انتَ العزیزُ الکریم!!‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جائے گا!! یعنی چکھ! بڑا ہی عزت والا اور زبردست ہے تو! 

مسلمان بزنس کرتے ہیں تو عجیب بددلی اور بیزاری سے! اوجِ کمال تک پہنچنا شاید ان کا نصب العین ہی نہیں ہوتا۔ مارکیٹنگ پر زور نہ تشہیر پر پوری توجہ! آج تک کسی مسلمان ملک کا کوئی برانڈ کسی شعبے میں بھی بین الاقوامی منڈی کو تسخیر نہیں کر سکا۔ سعودی عرب کی معروف فاسٹ فوڈ چین’’البیک‘‘ اس کی نمایاں مثال ہے۔ کھانا اس کا پسند کیا جاتا ہے مگر فروخت کے مراکز گویا منصوبہ بندی کر کے کونوں کھدروں میں بنائے گئے ہیں جنہیں زائرین ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں! مکہ مکرمہ کی معروف شاہراہ ابراہیم خلیل پر البیک کہیں نہیں نظر آتا۔ نہ ہی کلاک ٹاور اور بن دائود پلازا کے نزدیک! کہیں کوئی رہنمائی یا تشہیر کرنے والا بورڈ نہیں! یہی حال مدینہ منورہ میں ہے۔ تلاش شروع کی تو ایک دور افتادہ مارکیٹ کے دور افتادہ گوشے میں ملا۔ اس کے برعکس مغربی فاسٹ فوڈ کا کاروبار دیکھیے۔ میکڈونلڈ کا ’’ایم‘‘ میلوں دور‘ ہوا میں نصب نظر آ جاتا ہے۔ سفید فاموں کے فاسٹ فوڈ اور مشروبات پوری دنیا پر چھا گئے ہیں۔ آخر سوچنے کی بات ہے کہ البیک کی شاخیں دوسرے ملکوں میں کیوں نہیں قائم کی گئیں؟ ایران نے ’’زم زم‘‘ کے نام سے کولڈ ڈرنک نکالا۔ 2002ء میں سعودی عرب نے اس کا بائی کاٹ کر دیا۔ اسی سال ایک مسلمان کاروباری شخص نے فرانس سے ’’مکہ کولا‘‘ لانچ کیا مگر آج تک اسے شہرت نہیں نصیب ہوئی۔ برطانیہ میں دو مسلمان بہنوں نے ’’قبلہ کولا‘‘ نکالا۔ کیا آپ نے کبھی مکہ کولا یا قبلہ کولا کا نام سنا ہے؟ ان میں اتنی عقل نہیں کہ مذہب کو کاروبار سے وابستہ نہ کریں اور ایسے نام نہ رکھیں جن سے کسی خاص مذہب کا نام یا نشان واضح ہو۔ کیا کوکا کولا اور دوسرے مشروبات نے مذہبی حوالے استعمال کئے؟ اکثر و بیشتر یہ رونا بھی رویا جاتا ہے کہ میڈیا کے میدان میں مسلمانوں نے کوئی بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی نہیں قائم کی! لے دے کے ایک ’’الجزیرہ‘‘ ہے جس کی جڑیں مسلم شرق اوسط میں ہیں!

مدینہ منورہ کی خریداری میں سرفہرست کھجوریں ہیں۔ منظم مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے زائرین کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ منڈی کہاں ہے جہاں تمام اقسام دستیاب ہوں۔ اب روایتی کُھلی منڈی جانا ضروری نہیں۔حرم (مسجد نبوی) کے جنوب مغربی کونے میں جہاں بیرونی گیٹ نمبر چھ اور گیٹ نمبر سات واقع ہیں‘ منڈی بالکل سامنے ہے اور گیٹ نمبر چھ سے بمشکل دو منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔ یہ منڈی روایتی کھلی منڈی نہیں یعنی کسی میدان میں نہیں۔ یہ عمارتی بلاک ہیں، ہر بلاک میں متعدد دکانیں ہیں۔ اکثر سیلز مین پاکستانی ہیں۔ یہاں تمام اقسام کی کھجور تھوک کے حساب سے مہیا ہیں۔ اس کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس خریداری پر زیادہ وقت نہیں لگانا پڑتا۔ 

یوں بھی مدینہ منورہ میں ترجیح خریداری کی نہیں ہونی چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ وقت حرم میں گزارنا چاہیے۔ روضہ مبارک پر زیادہ سے زیادہ حاضریاں ہوں! ریاض الجنہ میں نوافل ادا کرنے کے مواقع ملیں اور سبزگنبد کی دید سے نظروں کو منور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جائے! پاکستان میں ہر شے دستیاب ہے۔ دیارِ حبیبؐ میں اولین ترجیح ذکرِ حبیبؐ ہی ہو تو مقدر کے سنورنے کی امید کی جا سکتی ہے! 

ہاں ’’پیشہ ور‘‘ زائرین کی اور بات ہے!! مباح امور کی ادائیگی میں توازن لازم ہے! تجارتی اور مالی سرگرمیاں وہاں حاوی ہو جائیں تو ہوس کی طنابیں کھینچ لینی چاہئیں!!

   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Thursday, November 15, 2018

ایک بار پھر بُلا لیجیے!


قطار طویل تھی اور صبر آزما! 

ہم انچوں کے حساب سے آگے بڑھ رہے تھے سب کچھ نہ کچھ زیر لب پڑھ رہے تھے۔ کچھ حمدو ثنا‘ کچھ درود شریف، کچھ کلام پاک کی تلاوت کرتے جا رہے تھے۔ پھر بائیں طرف جالیاں دکھائی دیں۔ زردی مائل سنہری جالیاں‘ دائیں جالی پر جلی حروف میں آیت لکھی تھی۔’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی ﷺ کی آواز سے زیادہ بلند نہ کرو اور نہ ان کی خدمت میں حاضری کے وقت زور سے بولو جیسے ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں‘‘ 

روضۂ مبارک پر یہ ایک مجرم کی حاضری تھی۔ رواں رواں کانپنے لگا۔ جس ہستی کے سامنے آواز بلند کرنے سے بھی اعمال ضائع ہو سکتے ہیں‘ اس ہستی کے احکام کی مخالفت! رات دن مخالفت! صبح شام مخالفت سال کے بارہ ماہ ! مہینے کے تیس ایام! ہفتے کے سات دن! دن کے چوبیس گھنٹے مخالفت! مخالفت! اور مخالفت!!

جس عظیم ہستی کے سامنے صحابہ کے پر جلتے تھے‘ جس کے ذکر سے اولیاء اللہ کانپ کانپ جاتے کہ ؎ 

ادب گاہیست زیرِ آسماں ازعرش نازک تر 

نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا 

اس ہستی کی نافرمانی یہاں معمول بن چکی ہے! حکم تو یہ فرمایا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘ میں بازار میں بیٹھ کر دن دہاڑے ہر شے میں ملاوٹ کر رہا ہوں۔ گاڑیوں کے تیل سے لے کر ادویات تک! غذا سے لے کر بچوں کے دودھ تک! شیمپو سے لے کر بیسن تک ! اور پھر ڈھٹائی کے اوپر بے حیائی! کہ نمازیں بھی ہو رہی ہیں اور عمرے بھی! آپ نے متنبہ کیا تھا۔ منافق کی تین علامتیں ہیں۔ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کا مرتکب ہوتا ہے۔ امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرتا ہے!‘‘ میرے تو جھوٹ رگ رگ میں خون کے ہر قطرے میں رچا ہے! میں تو اسمبلی سے لے کر بازار تک دفتر سے لے کر کارخانے تک‘ کھیت سے لے کر گھر تک ہر جگہ ہر وقت جھوٹ بولتا ہوں۔ میں باپ ہوں تو اولاد سے ‘ اولاد ہوں تو ماں باپ سے، ملازم ہوں تو مالک سے‘ مالک ہوں تو ملازم سے، استاد ہوں تو شاگرد سے‘ شاگرد ہوں تو استاد سے‘ رعایا ہوں تو حاکم سے اور حاکم ہوں تو رعایا سے جھوٹ بولتا ہوں۔ شے بیچتے وقت ٹیکس دیتے وقت ‘ فائل پر لکھتے وقت۔ اسمبلی میں بیان دیتے وقت۔ یہاں تک کہ عدالت میں گواہی دیتے وقت‘ جھوٹ بولتا ہوں پھر بے شرمی سے جھوٹ کا جواز تراشتا ہوں۔ کبھی کہتا ہوں فلاں تقریر تو سیاسی تھی کبھی کہتا ہوں وعدہ قرآن حدیث تو نہیں! وعدہ وفا کرنے کا میرے پاس تصور ہی نہیں! تاجر ہوں یا عام شہری، ڈاکٹر ہوں یا وکیل‘ وزیر ہوں یا سفیر وعدہ خلافی کی چکی رات دن چلتی ہے۔ مقررہ وقت پر پہنچنا سٹیٹس کے خلاف ہے! سائل گھنٹوں پہروں کھڑا رہتا ہے‘ اس سے کیا ہوا وعدہ خال خال ہی پورا ہوتا ہے۔ 


رہی امانت! تو اقتدار سے لے کر مال تک ہر شے میں خیانت کرتا ہوں ارشاد تو یہ ہے کہ ’’امانتیں حقداروں کو پہنچائو‘‘ مگر میں ملازمت اسے دیتا ہوں جو اس کا اہل نہیں ترقی اس کی کرتا ہوں جو نااہل ہے۔!سینٹ اور اسمبلی کی نشستیں اہل خواتین کے بجائے اپنے حواریوں کی بہنوں بیٹیوں اور بیگمات کو سونپتا ہوں۔ زبان سے مدینہ کی ریاست کا بتاتا ہوں! عمل سے دوست نوازی کرتا ہوں! 

فرمان یہ تھا کہ عورتوں کا خیال رکھو۔ میں انہیں انسان ہی نہیں سمجھتا! بیٹی کو وارثت میں سے حصہ دیناہو تو وہ حصہ میرے گلے میں پھنس جاتا ہے۔ میں نے دستار اور عبا پہنی ہو یا تھری پیس فرنگی سوٹ‘ بیٹی کو اس کا حق دیتے وقت موت پڑ جاتی ہے۔یہاں تک کہ اس کی شادی بھی اس کی مرضی کے صریحاً خلاف کرتا ہوں۔ بیوی کو خادمہ گردانتا ہوں! آپ ؐ اپنے کپڑے بھی دھو لیتے تھے۔ جوتا بھی گانٹھ لیتے تھے۔ گھر کے کام بھی کر دیتے تھے۔ میں گھر کا کام کرنا مردانگی کے خلاف سمجھتا ہوں۔ عورت کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا میرے لیے ناقابل تصور ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی جماعت کا سربراہ ہو کر میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ عورت کی آبروریزی ہوئی ہے تو وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے۔ 

میں جالیوں کے سامنے کھڑا ہوں! نظریں نیچے گڑی ہیں! مطہر جسم کھجور کی چٹائی پر استراحت فرماتا تھا تو اس پر چٹائی کے نشان پڑ جاتے تھے۔ میں اعلیٰ سے اعلیٰ بیڈ پر نرم سے نرم‘ دبیز سے دبیز بچھونا بچھاتا ہوں۔ آپؐ عموماًفاقے سے رہتے تھے۔ میں پو پھٹے سے نصف شب تک مسلسل کھاتا ہوں۔ آپؐ جو کچھ پاس ہوتا خیرات میں بانٹ دیتے، میں پیسہ پیسہ سینت کر رکھتا ہوں۔ پڑوسیوں کی خبر ہے نہ اہل محلہ کی۔ یہاں تک کہ اپنے نوکروں کی ضروریات سے بے نیاز ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تھا غلاموں کو وہی کچھ کھانے کو اور پہننے کو دو جو خود کھاتے اور پہنتے ہو۔میں ملازموں کو بچا کھچا کھلاتا ہوں اور پہننے کے لیے اترن دیتا ہوں۔ آپ دوسروں کو ہمیشہ مسکرا کر ملتے تھے‘ میں گردن اکڑا کر اور چہرے پررعونت کا بدبودار غازہ مل کر ملتا ہوں۔ آپؐ کو عجز و انکسار پسند تھا۔ مجھے تکبر بھاتا ہے، آپؐ سادگی پسند تھے۔ میں تصنع کا غلام ہوں۔ آپؐ کا دل بڑا تھا۔ میرا دل تنگ ہے! آپ ؐمعاف فرماتے تھے، میں بدلہ لینے پر یقین رکھتا ہوں! 

بدو مسجد نبوی کے صحن میں پیشاب کر دیتا ہے لوگ اسے مارنے کے لیے دوڑتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا رک جائو! اسے کرنے دو۔ آج میرے سامنے کوئی ایسا کرے تو اس کے پرخچے اڑا دوں! آپؐ کو گوہ کا گوشت پسند نہ تھا۔ نہیں تناول فرمایا مگر آپ کے سامنے آپ کے صحابہ نے کھایا۔میں وہاں ہوتا تو کھانے والوں پر توہین کا الزام لگاتا۔ آپؐ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور غرض کیا کہ میں اپنے شوہر سے علیحدگی چاہتا ہوں۔ آپؐ نے وجہ پوچھی تو کہا مجھے پسند نہیں! آپؐ نے کوئی جرح نہیں فرمائی کہ کیوں نہیں پسند؟میں عورت کو یہ حق دینے کو تیار نہیں۔ میں تو اسے ہندو دھرم کا اصول سکھاتا ہوں کہ اب اس گھر سے تمہاری میت ہی نکلے تو نکلے۔ آپؐ نے منافق کا بھی جنازہ اس امید پر پڑھایا کہ کیا خبر پروردگار بخش دے۔ میں ہر اس شخص کو جہنم کا حقدار قرار دیتا ہوں جو میرے مسلک سے سرِ مو بھی انحراف کر رہا ہو! آپؐ مریضوں کی عیادت فرماتے تھے میرا معیار یہ ہے کہ مریض صحت مند ہو کر میرے کام آ سکتا ہے یا نہیں! آپؐ بچوں کے لیے سراہا شفقت اور محبت تھے میں بچوں کے لیے غیض و غضب کی علامت ہوں! 

کس منہ سے مقدس جالیوں کو دیکھوں! شرم سے زمین میں گڑا جا رہا تھا اچانک شُرطے کی کڑ کڑاتی آواز کوڑے کی طرح سر پر پڑی۔ یہاں سے ہٹو۔ آگے بڑھو! یوں لگا جیسے شرطے نے میرے اندر کا حال جان لیا ہے اسے معلوم ہے میں یہاں کھڑا ہونے کے قابل نہیں۔ باہر نکلا تھوڑی دور جا کر پلٹ کر دیکھا سبز گنبد سامنے تھا، آسمان اور زمین کے درمیان ایک ابدی نشان! ایسا نشان جس کے گرد وقت گھومتا ہے! جس کے سامنے زمانے دست بستہ کھڑے ہیں۔ یہاں فرشتے چوبدار ہیں اور جن و انس زائر! عورتیں اور مرد مسجد کے وسیع و عریض صحن پر جس اطمینان ‘ جس اپنائیت جس مان کے ساتھ چل پھر رہے تھے‘ لگتا تھا ازل سے ان کا گھر یہی ہے ابد تک یہ گھر ان کے لیے پناہ گاہ رہے گا۔ ستونوں پر چھتریاں کھلی تھیں مدینتہ النبی کا آسمان روشن اور صاف تھا۔ گرد کا درمیان میں کوئی ذرہ نہ تھا۔ 

میں کتنا بدقسمت ہوں، دنیا کی آلودگیوں اور علائق کی آلائشوں میں دوبارہ الجھ جانے کے لئے واپس جا رہا ہوں! اس التجا کے ساتھ کہ مجھے پھر بلا لیجیے! آقا! پھر بلا لیجیے۔

    


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Saturday, November 10, 2018

جہاں وقت انسانی قدموں کے نیچے ہے



وہ سینکڑوں میں نہیں، ہزاروں میں ہیں۔

سرمئی رنگ کے اور سفید! کچھ سنہری! 

ابراہیم خلیل روڈ پر آپ جا رہے ہوں تو سامنے دائیں طرف کلاک ٹاور ہے۔ بالکل سامنے حرم کی سیڑھیاں ہیں۔ کلاک ٹاور سے پہلے، دائیں طرف بڑا سا میدان ہے۔یہیں پر یہ سینکڑوں، ہزاروں کبوتر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں کھلانے کے لیے لوگ باگ قیمتاً گندم کے اور باجرے کے اور چاول کے دانے خریدتے اور ان پر نچھاور کرتے ہیں۔ ایک ڈار اترتی ہے ایک جاتی ہے۔ کچھ کبوتر اڑتے ہیں اور زمین سے چند فٹ ہی اوپر رہتے ہوئے کچھ گز دُور پھر جا بیٹھتے ہیں۔ انہیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ لاکھوں لوگ جو بغلی شاہراہ سے گزر کر حرم کو جا رہے ہیں اور واپس آ رہے ہیں، ان کبوتروں کو غور سے دیکھتے ہیں۔ کچھ شوق سے کچھ حسرت سے، کچھ حیرت سے، انسان ساتھ سے گزر جاتے ہیں یہ کبوتر ذرا بھر نہیں ڈرتے۔ 

یہ کبوترانِ حرم ہیں۔ عربی، فارسی، ترکی اور اردو کا ادب ان کبوتروں کے ذکر سے اٹا پڑا ہے۔ حرم کا نواح ان کی جائے پناہ ہے۔ 

مگر حرم صرف ان کبوتروں کی جائے پناہ نہیں، کسی شاہراہ پر صرف ایک گھنٹہ کھڑے ہو جائیں، ہر پانچ منٹ کے بعد ایک جہازی سائز کی بس رُکے گی۔ یہ جدہ سے یا مدینۃ النبیؐ سے یا ریاض سے یا کسی اور شہر سے آئی ہو گی۔ جوق در جوق انسان نکلیں گے۔ گروہوں کی صورت، مکہ کی شاہراہوں کے دونوں کناروں پر بکھرے ہوٹل ان لاکھوں کروڑوں انسانوں کو اپنے اندر جذب کرتے جائیں گے۔ پھر حرم کے میناروں سے اذان کی آواز بلند ہو گی۔ اب انسانوں کا سمندر ان ہوٹلوں سے، اقامت گاہوں سے، پلازوں سے، گھروںسے، کمروں سے نکلے گا۔ شاہراہیں اس سمندر میں ڈوب جائیں گی۔ ہر چہار طرف سے لوگ حرم کی طرف بڑھیں گے۔ عورتیں، مرد، بچے، بوڑھے جوان، احرام کے دو کپڑوں میں ملبوس، کچھ اپنے اپنے لباس میں، انڈونیشیا کے اور ملائیشیا کے اور وسط ایشیا کے اور بنگلہ دیش کے اور بھارت کے اور پاکستان کے اور ترکی کے اور ایران کے، عرب بھی، افریقی بھی، بربربھی، مصری بھی۔ 

ویڈیو پر غیر مسلم جب یہ منظر دیکھتے ہیں کہ تکبیر کے ساتھ ہی لاکھوں انسان، کسی پولیس کسی فوج کسی طاقت کسی دھمکی کسی لالچ کے بغیر منظم صفوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ اکبر کی آواز کے ساتھ سر جھکا لیتے ہیں تو یہ غیر مسلم حیران ہوتے ہیں کہ کس طرح لاکھوں کا مجمع خاموش بے حس و حرکت، کھڑا ہو گیا۔ 

روئے زمین پر ایسا منظر کہیں نہیں۔ چند مربع فٹ کے ایک بند، سیاہ پوش کمرے کے گرد لوگ طواف کر رہے ہیں۔ رات بھر، دن بھر طواف جاری رہتا ہے -کڑکتی دھوپ کی تیز نوکیلی کرنیں جسموں میں نیزوں کی طرح اترتی ہیں، طواف جاری رہتا ہے۔ ہوا تیز چلے، آندھی آئے، موسلادھار بارش برسے، موسم آئیں موسم جائیں طواف جاری رہتا ہے۔ صدیوں سے جاری ہے۔ کیسا اتفاق ہے کہ گنتی کے جن چند مواقع پر تاریخ نے طواف کی سرگرمی کو معطل دیکھا، یہ مواقع خود مسلمانوں نے پیدا کیے۔ کچھ بدبخت حکمرانوں نے اور کچھ بدقسمت انتہا پسندوں نے مگر کسی غیر مسلم کو آج تک یہ ہمت نہیں ہوئی کہ طواف میں خلل ڈالتا یا حرم کو میدانِ جنگ بناتا۔ 

یہاں رات دن کی طرح ہے اور دن رات کے مانند، مال اسباب کی دکانیں ہیں یا ریستوران، چوبیس گھنٹے کھلے ہیں۔ اس لیے کہ جس طرح روئے زمین پر ہر وقت کسی نے کسی ملک میں اذان ہو رہی ہوتی ہے اسی طرح ہر وقت ٹھاٹیں مارتا سمندر حرم کی طرف رواں ہے یا حرم سے نکل رہا ہے۔ عشا پڑھ کر لوٹتے ہیں۔ کھانا کھاتے ہیں۔ کچھ خریداری ہوتی ہے اتنے میں تہجد کا وقت ہو جاتا ہے۔ اب شاہراہیں پھر انسانوں کے سمندر میں غرق ہو جاتی ہیں۔ جو سو رہے ہیں وہ فجر کی اذان سن کر نکل آئیں گے۔ کوئی ایسا وقت نہیں جب زمزم کے گرد پیاسوں کا ہجوم نہ ہو۔ جب صفا کی پہاڑی سے اتر کر خلقِ خدا مروہ کی اونچائی کی طرف نہ جا رہی ہو، جب مروہ سے صفا کی طرف نہ پلٹ رہی ہو۔ جب سبز روشنیوں کے نیچے مرد دوڑ نہ رہے ہوں۔ بے حد و بے کنار سمندر، انسان ہی انسان، بیسیوں دروازوں سے داخل ہوتے ہیں۔ کئی منزلیں اور ہر منزل پر انسانوں کا سمندر موجزن۔ 

بے آب و گیاہ پہاڑیوں اور لق ودق گھاٹیوں کے درمیان کیا رزق کی فراوانی ہے جو ربِ کعبہ برسا رہا ہے، مسلسل برسا رہا ہے۔ زمین پر اگنے والا کون سا پھل ہے جو اس شہر میں میسر نہیں۔ کون سا غلہ ہے جو دستیاب نہیں، آج صفا اور مروہ گراں بہا سنگِ مرمر سے ڈھکی ہیں۔ بی بی ہاجرہ کو کیا معلوم تھا کہ جن کھردری، نوکیلے پتھروں سے اٹی پہاڑیوں کے درمیان وہ بے تابانہ دوڑ رہی ہیں، یہ پہاڑیاں خوبصورت، ملائم چکنے مرمر سے ڈھانپ دی جائیں گی اور قیامت تک لوگ ان دو پہاڑیوں کے درمیان چلتے رہیں گے، دوڑتے رہیں گے۔ 

ایک یونین یورپ میں ہے۔ یورپین یونین کے لوگ یونین کے کسی بھی ملک میں آ جا سکتے ہیں، رہ سکتے ہیں۔ ملازمت کر سکتے ہیں۔ ایک یونین مکہ میں ہے۔ یہ عالمِ اسلام کی یونین ہے۔ یہ یونین مسلمان حکمرانوں کی مرہونِ احسان نہیں۔ یہ یونین کعبہ کی دین ہے۔ یہ یونین محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاکِ پا کے طفیل ہے۔ مکہ میں عالم اسلام کے ہر حصے کے لوگ رزق کما رہے ہیں۔ یہ دیکھیے، اس ہوٹل کا منیجر بنگالی ہے۔ یہ ڈھاکہ سے آیا ہے۔ اس سیلز مین سے ملیے، یہ کلکتہ کا بنگالی ہے، یہ دکاندار برما کا روہنگیا مسلمان ہے۔ یہ کون ہے؟ یہ سوڈانی ہے۔ یہ کون ہے یہ بھارت کے صوبے کیرالہ سے آیا ہوا ہے۔ یہ مراکشی ہے۔ وہ مصری ہے، یہ تیونس کا ہے، وہ خرطوم سے آ کر ملازمت کر رہا ہے، یہ سینی گال کا ہے، وہ ترک ہے، یہ انڈونیشیا سے ہے اور سالہا سال سے یہیں ہے۔ اس ’’وادٍ غیر ذی زرعٍ‘‘ میں جس رزق کی فراوانی کے لیے ابراہیم خلیل اللہ نے دعا کی تھی، ساری دنیا سے آئے ہوئے یہ لوگ اس رزق سے اپنا حصہ پا رہے ہیں اور وافر پا رہے ہیں۔ اس مسلم یونین کے لیے کوئی معاہدہ ہوا ہے نہ اس میں کسی سیاسی طاقت کا کمال ہے۔ اس یونین کے لیے دعا ایک جلیل القدر پیغمبر نے مانگی تھی اور اس کی عملی بنیاد پیغمبر آخرالزمان نے خود رکھی! یہاں قیامت تک دنیا بھر سے لوگ آتے رہیں گے۔ رزق وسیع اور کشادہ رہے گا۔ تجارت تابندہ اور فروزاں رہے گی۔ پہلے اونٹوں، گھوڑوں اور خچروں کے قافلے آتے تھے۔ پھر بحری جہاز۔ اب منٹ منٹ بعد پروازیں اترتی ہیں۔ دنیا بھر میں ہوٹل کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ تعمیرات الگ ہو رہی ہیں، ہوتی رہیں گی۔ 

حرم کے ایک گوشے میں ایک بڑھیا بیٹھی دعا مانگتے ہوئے رو رہی ہے۔ کیا خبر کہاں سے آئی ہے۔ وہ سامنے ایک اپاہج، پائوں گھسیٹتا، آہستہ آہستہ حرم کی طرف جا رہا ہے۔ ملتزم سے لوگ چمٹے ہوئے ہیں، مقام ابراہیم کی بلائیں لے رہے ہیں۔ دونوں ہاتھ حجرِ اسود کی طرف کر کے ’’وللہ الحمد‘‘ پکارتے ہیں۔ پھر ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہیں۔ یہ حطیم ہے۔ وہ رکنِ یمانی ہے۔ ایک دنیا ہے جو مطاف کے کناروں پر بیٹھی کعبہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ دیکھے جا رہی ہے۔ حرم میں بہترین عبادت نوافل نہیں، طواف ہے۔ یا بیٹھ کر کعبہ کو دیکھتے رہنا۔ 

بادشاہیاں آئیں اور گئیں، ہر حکمران نے حرمِ کعبہ میں توسیع کی، پہلے سے زیادہ دیدہ زیب کیا۔ پہلے سے زیادہ آرام دہ بنایا۔ پھر چلا گیا۔ جو اس کی جگہ آیا اس نے کام وہیں سے شروع کیا جہاں چھوٹا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ کس کو خبر ہے سو سال بعد کیا سہولتیں ہوں گی۔ مگر سو سال گزریں یا ہزار! مرکز دنیا کا مکہ ہی رہے گا۔


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Thursday, November 08, 2018

قافلوں کے غبار میں مٹی کا ایک ذرہ



نور کے قافلے رواں ہیں۔ 

ہزاروں لاکھوں قافلے۔ چہار دانگِ عالم سے! مشرق سے اور مغرب سے۔ شمال سے اور جنوب سے! ان قافلوں کے غبار کا ایک ذرّہ یہ کالم نگار بھی ہے۔ ایک حقیر ذرہ۔ ان قافلوں کے مسافروں کے جوتوں پر پڑا ہوا ایک ذرّہ۔ مگر کیا اس سے بڑا بھی کوئی اعزاز ہے؟ 

چودہ صدیوں سے یہ قافلے رواں ہیں۔ بطحا کی وادی میں اور مدینہ کے شہر میں پہنچتے ہیں۔ سبز گنبد کو دیکھتے ہیں۔ نگاہوں سے چومتے ہیں۔ اُن گلی کوچوں پر پلکیں بچھاتے ہیں جہاں مقدس پائوں پڑے تھے۔ اور کیا ہی مقدس پائوں تھے۔ محبت کرنے والے ان پیروں کے نقوش کو اپنے سینوں میں اتارتے تھے جہاں یہ ستارے بن جاتے تھے۔ پھر یہ قافلے اپنے ملکوں کو پلٹتے ہیں۔ پھر دوبارہ جاتے ہیں۔ جانے اور واپس آنے میں اور پھر جانے میں عمریں کٹ جاتی ہیں مگر حاضری کی حسرت ہے کہ پوری نہیں ہوتی۔ 

اس وقت جب کالم نگار استانبول میں بیٹھا یہ سطریں لکھ رہا ہے، اور اس وقت جب پڑھنے والے یہ سطریں پڑھ رہے ہیں، ہاں! عین اس لمحے بھی ہزاروں لاکھوں قافلے رواں ہیں۔ ہزاروں لاکھوں آنکھیں سبزگنبد پر نظریں جمائے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں آنسو جالیوں کے سامنے رخساروں پر گر رہے ہیں۔ مدینہ کی گلیاں چلنے والوں سے بھری ہیں۔ جو پیدا ہوں گے، وہ بھی مدینہ کی طرف جائیں گے۔ جا کر واپس آئیں گے۔ سینوں میں دوبارہ جانے کی حسرت پالتے ہوئے۔ قیامت تک لاکھوں کروڑوں اربوں کھربوں اور اس سے بھی زیادہ لوگ مدینہ کی طرف چلتے رہیں گے۔ رات کے وقت بھی، دن کے وقت بھی، صبح بھی شام بھی، موسم بدلتے رہیں گے۔ چرم کی پوستینیں اور فرغل زیب تن کیے، لوگ یثرب کی وادی کی طرف چلتے رہیں گے۔ پھر گرما آئے گا۔ پسینے بہیں گے، دھوپ کوڑے برسائے گی۔ قافلے رواں رہیں گے۔ بارشوں میں، آندھیوں کے دوران، طوفانوں کے درمیان، بہار میں بھی، خزاں میں بھی۔ کیا اس سے بڑا بھی کوئی معجزہ کسی پیغمبر کا ہو سکتا ہے۔ سورج ابھرے یا ڈوبے، چاند چمکے یا اماوس میں گم ہو جائے۔ بادلوں کا راج ہو یا ستاروں کا، دھوپ ہو یا چھائوں، قافلے مدینۃ النبی کی طرف چلتے رہے، چل رہے ہیں۔ چلتے رہیں گے۔ سائبیریا سے، جاپان سے، بحرالکاہل کے کناروں سے، اوقیانوس کے ساحلوں سے، 

دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جو ان قافلوں میں نہ بولی جاتی ہو۔ کرۂ ارض کا کوئی لباس ایسا نہیں جو ان مسافروں کے تن پر دیکھا نہ جا سکتا ہو۔ روئے زمین پر کھائی جانے والی کون سی حلال اور طیب غذا ہے جو ان قافلوں میں کھائی نہ جا رہی ہو ان میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی، ضعیف بھی، تنومند بھی، اپاہج بھی، بچے بھی، ہائے! کیا عالی ظرف دربار ہے، باریش بھی حاضر ہوتے ہیں، بے ریش بھی، وہ مرد بھی جنہوں نے پونیاں رکھی ہوئی ہیں، وہ عورتیں بھی جن کے گیسو بریدہ ہیں، ماڈرن بھی، دقیانوسی بھی، متوازن بھی، انتہا پسند بھی، لباس فاخرہ پہننے والے بھی، تار تار لباس والے بھی، یہاں کسی فقہ پر کوئی پابندی نہیں، وہ بھی دست بستہ کھڑے ہیں جو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں، وہ بھی ہاتھ لٹکائے حاضر ہیں جو ہاتھ باندھ کر قیام کرتے ہیں۔ ہاتھوں کو کانوں تک لے جانے والے بھی۔ نہ لے جانے والے بھی، وہ بھی جو نماز کے دوران کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں، وہ بھی جو بیٹھ کر گڑ گڑاتے ہیں۔ 

ساری بادشاہیاں چمک کر دمک کر ختم ہو گئیں۔ جرمن سلطنت بھی، افریقی ملک مالی کا چودھویں صدی کا بادشاہ منسا موسیٰ بھی نہ رہا جو آج کی دنیا میں بھی امیر ترین انسان سمجھا جاتا ہے۔ زار ختم ہو گئے، اموی، عباسی، سلجوق، مغل، عثمانی، صفوی قاچار ساری شہنشاہیاں غروب ہو گئیں۔ کیا ہٹلر کیا مسولینی، کیا نپولین، کیا سکندر! سب مٹ گئے۔ جنہیں دعویٰ تھا کہ ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا، سمٹ کر جزیرے میں بیٹھ گئے۔ مگر محمد عربی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی سلطنت آج بھی قائم ہے۔ یہ وہ سلطنت ہے جس کی کوئی سرحد ہے نہ مدت! پوری دنیا اس سلطنت کا حصہ ہے۔ کوئی توپ ہے نہ تفنگ جو لوگوں کو آنے پر مجبور کرے، مگر کشاں کشاں محمد عربی(صلعم) کی رعیت ان کے دربار کی طرف آتی ہے۔ کسی کے رکنے سے نہیں رکتی، غریب ہے تو پائی پائی جمع کرتا ہے کہ حاضر ہو۔ امیر ہے تو مسجد نبوی میں زائرین کے آگے گڑ گڑاتا ہے کہ اس کے دستر خوان پر روزہ افطار کریں۔ قیامت تک ایسا شہنشاہ پھر نہیں پیدا ہو گا اور پیغمبری کے آگے شہنشاہیت کی بھی کیا حیثیت ہے۔ شہنشاہ تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربانوں کے جوتے صاف کرتے ہیں۔ چوبداروں کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ غلاموں کے قدموں کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں۔ 

پیغمبر پردہ کر جاتے تو ان کے معجزے بھی ساتھ ہی ختم ہو جاتے۔ مگر محمد عربیﷺ کے معجزے آج بھی برپا ہیں۔ کیا یہ معجزہ نہیں کہ دنیا میں بچوں کا رکھا جانے والا سب سے زیادہ نام محمد ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں کہ رات دن کروڑوں زبانوں پر درود جاری ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی کتاب کا ان چودہ صدیوں میں ایک لفظ تک نہیں بدلا۔ لفظ تو دور کی بات ہے، ایک حرف، ایک زبر، ایک زیر، ایک پیش، ایک شوشہ تک نہیں بدلا جا سکا۔ کیا یہ معجزہ نہیں کہ یہ کتاب دنیا کے ہر حصے ہر ملک ہر گوشے میں ہر وقت پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہے اور لفظ تو کیا، تلفظ تک دنیا کے ہر حصے ہر ملک اور ہر گوشے میں وہی ہے۔ 

مکہ مکرمہ کا سفر فرض کا سفر ہے۔ یہ ڈیوٹی ہے۔ یہ خدائے ذوالجلال کی قہاری اور جبروت کا سفر ہے۔ مدینہ کا سفر محبت کا سفر ہے، شوق کا سفر ہے۔ اسے فرض نہیں قرار دیا گیا مگر اس کی فرضیت رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے۔ مدینہ بھی کیا شہر ہے۔ جب مکہ فتح ہو گیا تو اہلِ مدینہ خوف زدہ ہو گئے کہ کہیں آپ واپس نہ تشریف لے جائیں مگر وفا کے پیکر نے فرمایا! نہیں، میں تمہارے پاس ہی رہوں گا۔ کیا بھاگ لگے اس شہر کو۔ جو رہتی دنیا تک تمنائوں کا مرکز رہے گا۔ جہاں کی مٹی سونا ہے۔ کنکر ہیرے ہیں۔ جہاں درختوں پر طائر بہشتی ہیں۔ جہاں کی خاک پر آسمان رشک کرتا ہے۔ اقبال عظیم نے کہا ہے ؎ 

کہاں میں کہاں مدحِ ذات گرامی 
میں سعدی نہ قدسی نہ رومی نہ جامی 

غالب نے کہا ؎ 

غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم 
کان ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است 

حافظ محمد ظہورالحق ظہور نے کہا ؎ 

ہے شان تری اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ 
جو لفظ تری شان کے شایاں نظر آیا

قافلوں کے غبار میں مٹی کا یہ ذرہ بھی اُڑ کر اُسی سمت جا رہا ہے،پاشکستہ، سربریدہ اور آرزو کی معراج کیا ہے؟ دہلیز کا بوسہ!!

   





Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Monday, November 05, 2018

چوائس ہمارا اپنا ہے!



آپ اس طبقے کی طاقت اور دیدہ دلیری کا اندازہ لگائیے ۔کھرب پتی وفاقی وزیر کو وسیع و عریض فارم حاصل کر کے بھی چین نہ آیا۔ چنانچہ انہوں نے ساتھ پڑی ہوئی سرکاری زمین پر قبضہ کر لیا۔ پریس کا کہنا ہے کہ یہ قبضہ کئی کنال پر مشتمل ہے۔ جبکہ وزیر صاحب نے صرف پانچ یا چھ کنال پر قبضے کا اعتراف کیا ہے‘ غیر قانونی باڑ بھی لگائی۔ 

اب وہ مضحکہ خیز منطق ملاحظہ کیجئے جو اس طبقے کا خاصہ ہے۔ فرماتے ہیں ’’میں پہلے ہی سی ڈی اے سے درخواست کر چکا ہوں کہ میرے فارم ہائوس سے ملحقہ زمین مجھے دے دی جائے۔‘‘ سی ڈی اے نے یہ درخواست منظور نہ کی۔ دوسرے لفظوں میں گستاخ ادارے نے طبقۂ بالا کے اس ممتاز رکن کے حکم کی تعمیل نہ کی۔ چنانچہ بڑے آدمی نے خود ہی آگے بڑھ کر اس زمین پر قبضہ کر لیا۔ غیر قانونی باڑ بھی لگا لی‘ عقب کی طرف دروازہ بھی رکھ لیا۔ 

اب اس نحوست کا دوسرا پہلو دیکھیے۔ سی ڈی اے کے پاس پورا محکمہ ہے جو قوانین کے نفاذ (انفورسمنٹ) کے لیے ہمہ وقت ہاتھوں میں کدال اٹھائے پھرتا ہے مگر یہاں چونکہ قبضہ بااثر فرد نے کیا تھا اس لیے ترقیاتی ادارے نے قبضہ واپس تو کیا لینا تھا‘ بااثر فرد کے سامنے سیدھا رکوع میں چلا گیا۔ ہماری ریاست کے اکثر و بیشتر ادارے بڑے آدمیوں کی قانون شکنی دیکھ کر ان کے سامنے رکوع میں چلے جاتے ہیں۔ پھر سجدے میں! ترقیاتی ادارے سے کسی سر پھرے نے پوچھا کہ ناروا قبضے پر کیا کارروائی کی؟ ترجمان نے جواب دیا کہ پڑوسیوں کی طرف سے درخواست آئے تب ایکشن لیتے ہیں! کسی نے درخواست ہی نہیں دی! سبحان اللہ! کیا جواز ہے ایکشن نہ لینے کا!! 

اب اس ملک پر چھائی ہوئی تیسری نحوست پر غور کیجیے۔ اس شاہانہ فارم کی بغل میں باجوڑ سے آئی ہوئی ایک غریب فیملی رہتی ہے۔ قبضہ مبینہ طور پر اس کا بھی زمین پر ناجائز ہے۔ خبروں میں دلچسپی لینے والے قارئین کو یاد ہو گا کہ جب وفاقی وزیر نے اس فیملی کے ارکان کو پکڑوایا تو باجوڑ سے آئے ہوئے متعدد افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پھر پریس کانفرنس منعقد کی! غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وزیرستان سے باجوڑ سے‘ مہمند سے اور دوسرے قبائلی علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر کے اسلام آباد‘ لاہور‘ پشاور‘ ملتان‘ فیصل آباد اور دوسرے شہروں میں کیوں آن بستے ہیں! کیا اپنا آبائی علاقہ کوئی شوق سے چھوڑتا ہے؟ مگر جس علاقے میں زمین پتھریلی ہو‘ کارخانے ناپید ہوں‘ سکول کالج عنقا ہوں‘ ہسپتال نام کے بھی نہ ہوں۔ کوئی اقتصادی سرگرمی ہی نہ ہو‘ وہاں سے لوگ نقل مکانی نہ کریں تو کہاں جائیں؟

ستر برس سے یہ نحوست پاکستان کے قبائلی علاقوں پر چھائی ہوئی ہے۔ ریاست کی مکمل بے نیازی کی نحوست ! حکومتوں کے سوتیلے سلوک کی نحوست! یہ کہنا تو آسان ہے کہ قبائلی نوجوانوں نے بندوق کیوں پکڑ لی؟ یہاں کیوں آن بسے؟ وہاں کیوں ڈیرے ڈال دیے؟ مگر اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ ان لوگوں کو غیر تعلیم یافتہ رکھا گیا۔ بے روزگار رکھا گیا۔ ان پر پولیٹیکل ایجنٹ اسی طرح حکومت کرتا رہا جیسے فرنگی عہد میں کرتا تھا۔ فرق صرف یہ پڑا کہ پہلے پولیٹیکل ایجنٹ رچرڈ یا لارنس ہوتا تھا اب عبدالکریم یا احمد خان ہے! انگریز پولیٹیکل ایجنٹ بھی چند ملکوں اور خوانین کو ملکی خزانے کی اُس مد سے بھاری رقوم دیتا تھا جس کا آڈٹ نہیں ہو سکتا تھا۔ پاکستانی پولیٹیکل ایجنٹ بھی ستر سال یہی کام کرتا رہا۔ وزیرستان میں‘ باجوڑ میں اور دوسرے قبائلی علاقوں میں‘ ان ستر برسوں کے دوران کتنی یونیورسٹیاں بنیں؟ کتنے کارخانے قائم ہوئے؟ کتنے ہسپتال بنائے گئے؟ ریاست جب روزگار کے مواقع بھی فراہم نہ کرے‘ علاج کا بندوبست بھی نہ ہو‘ تعلیمی ادارے بھی مفقود ہوں تو دو ہی راستے بچتے ہیں۔ لوگ بندوق اٹھا لیں اور کسی منگل باغ کسی بیت اللہ محسود کسی ملا فضل اللہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ دوسروں کو مار کر اپنے اندر بھری ہوئی مایوسی اور غصے کو ٹھنڈا کریں اور ’’مال غنیمت‘‘ سے غربت کا بھی علاج کریں‘ یا قبائلی علاقوں کی سنگلاخ پہاڑیوں کو الوداع کہہ کر پشاور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ ملتان اور لاہور کے نخلستانوں میں ڈیرے ڈال دیں۔ 

یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ناجائز قبضہ کرنے والے شخص کو اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ وہ بااثر ہے۔ اور دوسری طرف ایک پورے خاندان کو پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا جائے کہ ان کی گائے باغ میں آ گھسی تھی۔ بااثر ‘ کھرب پتی شخص جو سینیٹر کے منصب پر فائز ہوتا ہے‘ کبھی وزارت کی مسند پر متمکن ہوتا ہے۔ یہ بھی تو کر سکتا تھا کہ اس غریب خاندان کو جو اس کے فارم کے عقب میں رہتا ہے۔ اپنی سرپرستی میں لے لیتا۔ اس کے بچوں کو تعلیم دلواتا‘ ان کی مالی اور اخلاقی مدد کرتا۔ خاندان اقتصادی اور تعلیمی ترقی بھی کر جاتا اور بااثر شخص سے محبت بھی کرتا۔ پختون محبت کا جواب وفاداری سے دیتا ہے اور بدسلوکی کا جواب دشمنی سے! 

حیرت اس پر ہے کہ بلوچستان کے قبائلی ہجرت کر کے شہروں میں کیوں نہیں آ رہے؟ آج نہیں تو کل وہاں سے بھی محروموں کی ایک لہر اٹھے گی اور کیا پتہ مراعات سے بھرے شہروں سے کیا سلوک کرے؟ بگتی ‘ مری‘ رئیسانی اور دوسرے قبائلی سردار عوام سے جو سلوک کر رہے ہیں اور کرتے آئے ہیں‘ آج کی مہذب دنیا میں اس کا تصور بھی ناممکن ہے!اپنے قبیلے کے کسی فرد کی تعلیمی ترقی ان سے برداشت ہوتی ہے نہ معاشرتی اٹھان! سکولوں کالجوں کی عمارتوں سے یہ کج کلاہ گوداموں کا کام لے رہے ہیں۔ عام قبائلی غلاموں سے بدتر زندگی گزار رہا ہے۔ غلام کے پھر بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ 

بدترین ظلم یہ ہوا کہ ان قبائلیوں کے اندر ان سرداروں نے قبائلی تعصب کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے۔ انگاروں پر چلا کر جھوٹ اور سچ کی تمیز کرنے والے غیر انسانی عمل کو یہ قبائلی اپنی ’’روایت‘‘سمجھ کر اس کا باقاعدہ دفاع کرتے ہیں! ایک مائنڈ سیٹ بنا دیا گیا ہے جو اقتصادی اور سماجی ترقی سے زیادہ’’بلوچ پرستی‘‘ پر یقین رکھتا ہے! 

مائنڈ سیٹ تعلیم کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے اور تعلیم کبھی ترجیح نہ بنی‘ قبائلی سرداروں کی‘ وزیرستان کے خوانین کی نہ ہمارے حکمرانوں کی!! آپ سروے کر کے دیکھ لیں! کاروں اور موٹر سائیکلوں پر لاٹھیاں برسانے والے لوگوں میں تعلیم یافتہ کتنے ہیں؟ یہ درست ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ڈاکٹر وکیل اور پروفیسر بھی مارپیٹ پر اتر آتے ہیں مگر بہت حقیر تعداد میں! ہزاروں لاکھوں لوگ جو نفرت اور تباہی کا درس دینے والے مولویوں اور ذاکروں کے سامنے بیٹھ کر نعرے لگاتے پھرتے ہیں‘ ان کی اکثریت ناخواندہ ہے یا نیم تعلیم یافتہ!! مولانا فضل الرحمن ہوں یا زرداری صاحب یا شریف برادران‘ سب کو یہ ناخواندہ اور نیم تعلیم یافتہ عوام راس آتے ہیں اس لیے کہ یہ چند قیمہ بھرے پراٹھوں اور بس کی مفت سواری کی مار ہیں! آپ کا کیا خیال ہے کوئی تعلیم یافتہ شخص’’میاں دے نعرے وجّن گے‘‘جیسا اُبکائی لانے والا درشت غیر مہذب نعرہ لگا سکتا ہے! یا گلو بٹ کی طرح گاڑیوں پر ڈنڈے برسا سکتا ہے؟ 

ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے اعظم سواتیوں کے فارموں اور خانوادوں کی خاطر پولیس کے آئی جی کی ٹرانسفریں کرنا ہیں یا باجوڑ کے غریب خاندانوں کو تعلیم دلوانی ہے! چوائس ہمارا اپنا ہے! نتائج بھی ہم ہی بھگتیں گے!!

   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Thursday, November 01, 2018

تین نحوستیں جو خم ٹھونک کر سامنے کھڑی ہیں


یہ جو گائے کا معاملہ ہوا ہے اور وفاقی وزیر اعظم سواتی کا اور آئی جی کے تبادلے کا اور مارپیٹ اور تھانے کچہری کا… تو اس سے ایک بار پھر وہ تین نحوستیں، لباس اتار کر، برہنہ حالت میں، قوم کے سامنے آ گئی ہیں جو ستر برس سے کالے بادلوں کی طرح چھائی ہوئی ہیں۔

پہلی نحوست یہ ہے کہ نوکر شاہی بالعموم اور پنجاب اور وفاق میں بالخصوص،عوام کے لیے اپنا دروازہ کھولتی ہے نہ فون سنتی ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ آئی جی نے بائیس گھنٹے تک ان کا فون نہیں سنا۔

ایک لمحے کے لیے بھول جائیے کہ یہ فریاد اعظم سواتی کی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آئی جی تو دور کی بات ہے، ایس پی، ڈپٹی کمشنر، اے سی، تحصیل دار یہاں تک کہ پٹواری تک، عام آدمی کی رسائی سے باہر ہیں۔ ایک عام شہری کے لیے ان میں سے کسی سے بھی ملاقات کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ کچھ عرصہ قبل تلہ گنگ کے ایک اسسٹنٹ کمشنر کا تبادلہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ وہ تجاوزات کے خلاف مہم چلا رہا تھا۔ اس بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے انتظامیہ کا نکتۂ نظر جاننا صحافتی اخلاق کا تقاضا تھا۔ کوششِ بسیار کے باوجود متعلقہ ڈپٹی کمشنر تک رسائی نہ ہو سکی۔ پھر متعلقہ کمشنر سے بات کرنے کی کوشش کی۔ بتایا گیا جہلم گئے ہیں۔ پیغام چھوڑا، یاددہانی کرائی۔ کوئی رابطہ نہ کیا گیا۔ پھر جب کالم لکھا تو باں باں شروع ہو گئی۔

فون سننا تو درکنار، نوکرشاہی کے یہ گماشتے خط کا جواب بھی سائل کو نہیں دیتے۔ ایک صاحب ترقیاتی اداروں کی سربراہی کے لیے بہت مشہور تھے۔آج ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اسی قبیل کے ایک منصب پر فائز ہیں اور ماشاء اللہ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے اکثر و بیشتر سکینڈلوں میں آپ کا اسمِ گرامی ہی سامنے آ رہا ہے۔ جن دنوں وفاقی حکومت کے ترقیاتی ادارے کے سربراہ تھے۔ ان سب مقامات کا خوب خیال رکھتے تھے جو بڑی شاہراہوں کے کنارے واقع تھے۔ رہا شہر کا اندرون، تو وہ ان کی توجہ سے محروم تھا۔ جسے یقین نہ آئے، آج بھی جا کر میلوڈی مارکیٹ، سپرمارکیٹ، جناح سپر، مرکز ایف ٹین، پشاور موڑ اور دیگر بازاروں کو دیکھ لے۔ غلاظت کے گڑھ ہیں اور راجہ بازار سے بدتر! بڑی شاہراہ کے کنارے انہوں نے پارک بنوایا۔ کچھ شہریوں نے ان صاحب کو خط(یا درخواست) بھیجی کہ نماز ادا کرنے کے لیے چھوٹا سا چبوترہ بنوا دیں۔ پھر یاددہانیاں(ریمائنڈر) بھیجے۔ کوئی جواب نہ آیا۔

رعونت سے بھرے اور احساس کم تری کے مارے، ان اہلکاروں نے دفتروں اور گھروں کے دروازوں پر تو داروغے کھڑے کر ہی رکھے ہیں، ٹیلی فونوں پر بھی ان لوگوں نے دربان مقرر کر دیئے ہیں۔ یہاں ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جن دنوں ایک بہت ہی سینئر ادیب، جو اب مرحوم ہو چکے ہیں، کمشنر تعینات تھے۔ حفیظ جالندھری ان سے ملاقات کرنے ان کے دفتر گئے۔ دربان نے روکنے کی کوشش کی مگر حفیظ صاحب کہاں رکنے والے تھے۔ اندر گئے اور کہا کہ ’’باہر،چھوٹے کُتے نے روکنے کی کوشش کی‘‘۔

آپ ستر بار بھی فون کریں تو ٹیلی فونی داروغہ یہی جواب دے گا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں، یا ابھی آئے نہیں، یا گشت پر ہیں، یہی کلچر نچلی سطح پر بھی عام رواج پا چکا ہے۔ کلرک حتیٰ کہ نائب قاصد بھی سائل کو فقیر سمجھتا ہے۔

اعظم سواتی وزیر ہیں۔ سینیٹر ہیں۔ ثروت مند ہیں۔ بااثر ہیں۔ وفاقی سیکرٹری سے لے کر وفاقی وزیر مملکت تک، یہاں تک کہ وزیر اعظم تک۔ انہوں نے دھرتی ہلا کر رکھ دی زلزلہ برپا ہو گیا۔ قیامت آ گئی۔ متعلقہ وزیر مملکت نے ان کے گھر کا باقاعدہ دورہ کیا۔ وزیر اعظم نے زبانی حکم دیا کہ آئی جی کو تبدیل کر لیا جائے۔ اب جو مرضی ہے، عذر تراشتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تبادلہ پہلے سے زیر غور تھا۔ اصل بات یہی ہے کہ اس تبادلہ کے احکام وفاقی وزیر کی شکایت پر جاری ہوئے۔

مگر عام پاکستانی کیا کرے؟ اس کا فون ڈی سی سنتا ہے نہ ایس پی، آئی جی نہ کمشنر، پٹواری نہ تحصیل دار! یہی ہے وہ مقام جہاں عام شہری اور خاص شہری کے راستے جدا ہو جاتے ہیں۔ خاص شہری کا فون نہ سنا جائے تو افسر کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ عام شہری کا گوشت، قبر میں جا کر، ہڈیوں سے الگ ہو جائے تب بھی کوئی شنوائی نہیں۔

یہ سن کر کہ آئی جی وفاقی وزیر کے فون کا جواب بائیس گھنٹے گزرنے پر بھی نہیں دیتا، وزیر اعظم کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ کیا اس کا حل آئی جی کا تبادلہ تھا؟ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان بائیس برس تک یورپ اور امریکہ کی اور ترقی یافتہ ملکوں کی مثالیں دیتے رہے یہ شکایت سن کر ہی تو موقع تھا، نظام تبدیل کرنے کا اور ترقی یافتہ ملکوں کی پیروی کرنے کا! وزیر اعظم نے یہ نہ سوچا کہ اعظم سواتی کو تو رسائی ہے۔ عوام کیا کرتے ہوں گے؟ یہ موقع تھا ایسا نظام وضع کرنے کا کہ کوئی افسر فون نہ سنے، یا جواب نہ دے، یا دسترس میں نہ ہو تو اس سے جواب طلبی ہو۔ سزا دی جائے۔

مگر تحریک انصاف کے وزیر اعظم نے وہی کیا جو نون لیگ کے اور پیپلزپارٹی کے زمانے میں ہوتا آیا ہے یعنی اگر آپ کی رسائی وزیر اعظم تک ہے تو افسر کو سزا ملے گی۔ رسائی نہیں تو خاموش بیٹھ جائیے۔ یہ نحوست بدستور چھائی ہوئی ہے۔ چھائی رہے گی۔

دوسری نحوست جو اس واقعہ سے ایک بار پھر پوری ہولناکی کے ساتھ سامنے آئی ہے یہ ہے کہ اس ملک میں دو پاکستان ہیں۔ ایک امرا کا ایک عوام کا۔ جہاں اعظم سواتی کا فارم ہے، وہاں با اثر طبقے سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے لوگوں کے سینکڑوں فارم ہیں۔ قانون کی رُو سے یہ فارم صرف سبزی اگانے اور پولٹری مصنوعات کے لیے وجود میں آئے تھے۔ پرویز مشرف کے زمانے میں ترقیاتی ادارے نے بااثر مالکان کو فارموں میں محلات تعمیر کرنے کی اجازت دے کر اپنے قانون کو خود ہی روند ڈالا۔ اب یہ علاقہ ریٹائرڈ جرنیلوں، وزیروں، حکمران طبقے کا قلع بن چکا ہے۔ یہ فارم وہ کام نہیں کر رہے جس کے لیے بنائے گئے تھے۔ ترقیاتی ادارے نے قانون تبدیل کر کے با اثر طبقے کے بوٹ پالش کرنے کا کردار ادا کیا۔

اس ملک پر چھائی ہوئی یہ دوسری نحوست ہے۔ جو اصل میں، نحوست کم اور لعنت زیادہ ہے۔ قانون امیروں کے لیے لچکدار ہے۔ موم کی ناک کی طرح۔ جدھر فائدہ ہے، اُدھر موڑ دیجیے۔ غریبوں کے لیے سخت بے لچک۔ لوہے کی سلاخ کی طرح۔چیخیں، چلائیں، سینہ کوبی کریں بال نوچیں، دیوار سے سرٹکرائیں، کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ؎

اسیرو! کچھ نہ ہو گا شور و شر سے
لپٹ کر سو رہو زنجیرِدر سے

کیا ان ناجائز تعمیرات کو، ان محلات کو نہیں گرایا جائے گا؟ کیا اُس وزیر یا بیورو کریٹ کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جائے گا جس نے قانون میں تبدیلی کی؟ کیا اُس وقت کے صدر پرویز مشرف سے اس ظلم، اس نا انصافی، قانون کو بوٹ تلے روندنے کی اِس شرم ناک حرکت کا نہیں پوچھا جائے گا؟

اس نحوست کے چھٹنے کے آثار دور دور تک نہیں نظر آ رہے! اپرکلاس اپر کلاس ہی رہے گی! قانون سے ماورا!زرداری ہوں یا شریف برادران! ریٹائرڈ جرنیل ہوں یا حکمرانوں کے سامنے رکوع میں جھکنے والے بیورو کریٹ۔ ان کی دنیا الگ ہی رہے گی۔ اصغر خان کیس کہاں گیا؟ سابق جرنیل نے کتاب لکھی، اسے طلب کیا گیا، کیا بنا؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم،اسحاق ڈار، جہانگیر ترین، ڈاکٹر عاصم سب مزے میں ہیں۔ ایک پائی کوئی نہیں واپس دے رہا۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎ تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
تیسری نحوست کا حال اگلی نشست میں پڑھیے۔

   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

 

powered by worldwanders.com