Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, October 30, 2018

چھوٹے دن اور لمبی رات


کوئی تختِ حکومت پر ہو یا تختۂ دار پر رُت کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ وقت بے نیاز ہے۔ اسے کیا پرواہ کہ ؎

کسی سے شام ڈھلے چھِن گیا تھا پایۂ تخت 
کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا

جاڑے کی آمد آمد ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎

پھر جاڑے کی رُت آئی 
چھوٹے دن اور لمبی رات

کبھی خلاقِ عالم کی صناعی پر غور کرو،

بچھاتا ہے سنہری دھوپ سرما میں زمیں پر
کڑکتی دوپہر میں سر پہ چادر تانتا ہے

باغ میں ہر طرف پیلے، خشک پتے! ہوا چلے تو یہ اُڑتے ہیں۔ کھڑ کھڑاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎

خشک پتے مرے عمروں کے رفیق 
خشک پتے مری تنہائی کے پھول

ٹنڈ منڈ درخت۔ حدِنظر تک زرد سبزے کا اداس فرش! مگر پھر رُت بدلتی ہے۔ موسم گدراتا ہے۔ مردہ زمین میں جان پڑتی ہے۔ سوکھی شاخیں ہری ہونے لگتی ہیں۔ پھر پتوں سے لد جاتی ہیں۔ پتے ہلتے ہیں چھائوں بُنتے ہیں۔ پھر بور لگتا ہے۔ شجر ثمردار ہونے لگتے ہیں۔ کذَالِکَ النَشُورْ! جو مُردہ زمین کو دوبارہ زندہ کرتا ہے، وہ حشر بھی برپا کر سکتا ہے۔

وسط ایشیائی دوست، مغل بادشاہوں کو سرما کے لیے اڑھائی اڑھائی سو اونٹ خشک میووں سے لدے بھیجتے تھے۔ مغل حکومت ہندوستان میں کرتے رہے اور آہیں فرغانہ اور کابل کی وادیوں کو یاد کر کے بھرتے رہے۔ کہاں نمنگان اور سمر قند کا سرما! باہر برف باری، اندر مشروبات، افیون اور معجون، لاتعداد اقسام کے خشک اور تازہ پھل، بادام، اخروٹ، لبوں کو باہم پیوست کرتے خربوزے، مالٹے جتنے انجیر، شہتوت اور سیب، تین سو قسموں کے شفتالو اور کہاں دلی، آگرہ اور لاہور کا سرما۔ برف نہ خشک پھلوں کے انبار، ہاں! آم سے تلافی ضرور ہوئی۔ وہ بھی گرمیوں میں۔ فارسی میں آم انبہ ہو گیا۔ نظیری سے لے کر فیضی تک سب نے انبہ کی شان میں شاعری کی اور قصیدے اس کے ذکر سے مزین کیے۔ کچھ کمی وسط ایشیائی عیاشی کی پان نے پوری کی۔ پان اور آم، ہر دو کا تعلق برصغیر سے اور صرف برصغیر سے ہے۔ کچھ دوسرے ممالک آم پیدا کرتے ہیں مگر وہ آم کم اور سبزی زیادہ ہے۔

مغل پان کے خوگر ہوئے اور ایسے ہوئے کہ پان کی جگالی درباری زندگی کا جزو لاینفک بن گئی۔ بیٹیوں کی شادیاں نہ کرنا صرف آج کے وڈیروں کا طریق نہیں۔ سارے ظالم یہی کرتے آئے ہیں۔ مغل شہنشاہوں کی صاحبزادیاں بھی محلات میں چہل قدمی کرتے کرتے زلفوں میں چاندی بھر لیتی تھیں۔ شاہ جہان کے عمائدین میں وجیہہ شخصیت کا مالک ایک ایرانی جرنیل تھا۔ شہنشاہ کو شبہ ہوا کہ شہزادی سے ربط رکھتا ہے ؎

کنیزِ شاہ پسِ نسترن ملی تھی مجھے 
حرم کے خاص اشارے مرے موافق تھے

بھرے دربار میں اپنے ہاتھ سے پان کھلایا۔ شہنشاہ کے ہاتھ سے پان کھانا عزت و توقیر کی انتہا تھی۔ انکار کرنے کا سوال ہی نہ تھا۔ مگر سب جانتے تھے کہ گلوری موت کا نوالہ ہے۔ شاہی حرم میں عشق کی نقب زنی ناقابلِ معافی تھی۔ جرنیل انجام کو پہنچا۔

وفاقی دارالحکومت سرما کے دوران کبھی خیوا اور بلغراد کی یاد دلاتا تھا۔ پارک اور باغ ہر طرف تھے۔ گرین ایریا کے وسیع و عریض قطعات جا بجا یوں چمکتے اور لَو دیتے جیسے کم خواب کی عبا پر موتی ٹانکے گئے ہوں۔ ہر طرف درخت تھے۔ صبح شاہراہوں پر منجمد پانی کے صاف شفاف سفید براق ٹکڑے عام دکھائی دیتے تھے۔ شاہراہوں کے کنارے لہورنگ، پودے تھے۔ ان کے سرخ پتے شہر کو بے مثال حسن سے مالا مال کر دیتے۔ سیرگاہوں میں سنہری دھوپ ہرطرف جگمگاتی۔

پھر یہی دارالحکومت زمین کی لالچ(جُوع الارض) کا شکار ہو گیا۔ اسلام کا لبادہ اوڑھے ایک حکمران آیا اور دارالحکومت کے ماسٹر پلان کو تاخت و تاراج کر دیا۔ اُردن میں قیام کے دوران، کوئی پاس سے بھی گزرا تھا، تو اسے پلاٹ مل گیا۔ زرعی فارموں اور نرسریوں کی تقسیم یوں ہوئی جیسے جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔ گرین ایریا کے خوبصورت ٹکڑے ایک ایک کر کے ہڑپ ہونے لگے۔ اس کے بعد آنے والوں نے بد ذوقی سے بھرے اس ظلم کو انتہا تک پہنچا دیا۔ کیا سول، کیا خاکی! سب نے محلات بنائے اور پارک، باغ، شاہراہیں، قلاش ہو گئیں۔ آج حال یہ ہے کہ ؎

اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے

شہر غلاظت کا گڑھ ہے۔ جناح سپر اور سپر مارکیٹ، جو کبھی یورپی بازاروں کی طرح تھیں، آج یوں لگتی ہیں جیسے راجہ بازار، گنج منڈی اور نرنکاری بازار کا حصہ ہیں۔ کھوکھے ہی کھوکھے، دکانوں کے سامنے کوڑے کے ڈھیر۔ کہیں بہتا ہوا گندا پانی۔ پائوں دھرنے کی جگہ نہیں۔ پارکنگ کا نظام مفقود۔ گاڑیاں یوں کھڑی ہیں جیسے مویشی منڈی میں گائے بکریاں کھڑی ہوں۔ کسی کا منہ اِس طرف تو کسی کا اُدھر!۔

شہر کے وسط میں، بڑا مرکز جو میلوڈی مارکیٹ کہلاتا ہے۔ گندگی میں گوجرانوالہ کو مات کرے۔ نام نہاد فوڈ پارک میں داخل ہونے کے لیے تعفن اور غلاظت سے بھرے بازار میں سے گزرنا ہوتا ہے۔ کہیں ریستوران کی چھت سے پانی ٹپک رہا ہے۔ اور ساتھ ماشاء اللہ جلیبیاں تلی جا رہی ہیں۔ سموسے بن رہے ہیں۔ یوں، جو شہر جاڑوں میں عاشق کا دل کھینچتا تھا اور شاعر کا دامن، آج شرمندگی کی چادر اوڑھے، سر جھکائے، پراگندہ حال کھڑا ہے۔

ہم کیسے لوگ ہیں! اپنے قاتل خود ہیں، اجتماعی خود کشی ہماری منزلِ مقصود لگتی ہے۔ ہم سے کوئی کام سیدھا نہیں ہوتا۔ گاڑی چلائیں گے تو رات کو پوری لائٹ سامنے سے آنے والے کی آنکھوں میں خنجر کی طرح اتاریں گے۔ کل ایک موٹر سائیکل چھوٹی سڑک سے بڑی شاہراہ پر تیز رفتاری سے، اِدھر اُدھر دیکھے بغیر چڑھ گیا۔ بڑی شاہراہ پر ٹرک جا رہا تھا۔ ذرا سا کونہ لگا اور موٹر سائیکل والا دھڑام سے گرا۔ بخت نے یاوری کی بچ گیا۔ اٹھا تو جاتے، دھواں چھوڑتے ٹرک کو پیچھے سے بے نقط سنانے لگ گیا۔ اس کالم نگار نے کہا کہ بیٹے! آپ کی غلطی ہے۔ بڑی شاہراہ پر چڑھنے سے پہلے رُکنا لازم ہے۔ مگر اس کا خیال تھا کہ وہ فرشتہ ہے اور ٹرک والا شیطان! قصور اُس کا بھی نہ تھا۔ آج تک ٹیلی ویژن پر یا اخبارات میں پولیس نے(یعنی ریاست نے) عوام کو یہ سبق ہی نہیں سکھایا کہ صرف دو باتیں اکثر ٹریفک حادثات کا باعث ہیں ایک بائیں طرف سے اوورٹیک کرنا دوسرے رُکے بغیر چھوٹی سے بڑی سڑک پر چلے جانا۔

ہم کیسے لوگ ہیں۔ اپنی گلیوں، میدانوں، باغوں، پارکوں، بازاروں، راستوں کو کوڑے کرکٹ سے خود اپنے ہاتھوں سے بھرتے ہیں۔ مکان کے منظور شدہ نقشے سے تجاوز کرنے کو بہادری سمجھتے ہیں۔ شکریہ ادا کرتے ہیں نہ سلام کا جواب دیتے ہوئے مسکراتے ہیں۔ قطار کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ دروغ گوئی کو معمول جانتے ہیں اور پھر ساری مصیبتوں کا ذمہ دار امریکہ اور یہودوہنود کو قرار دیتے ہیں۔

سرما کا ہر موسم ہماری بے حسی پر نوحہ پڑھتا ہے۔

Sunday, October 28, 2018

ایک اور سفید ہاتھی


کیسا بدقسمت بیمار ہے۔ پڑا کراہ رہا ہے‘ گردے میں درد ہے۔ آنکھوں سے دکھائی کچھ نہیں دے رہا۔ ٹانگیں جواب دے رہی ہیں۔ کوئی نہیں جو اسے کسی شفاخانے پہنچائے۔ 

ہاں‘ ایک کام لواحقین زور و شور سے کر رہے ہیں۔ اس کی جائیداد ‘مال و دولت کا بٹوارہ ابھی سے کر رہے ہیں۔ ایک صاحب شہر والے مکان پر قبضہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ دوسرا رشتہ دار زرعی زمین پر حق جتا رہا ہے۔ ایک اور بینک بیلنس کے پیچھے پڑا ہے۔ 

یہ بیمار کون ہے؟ ایسے کئی بیمار پاکستانی ریاست کے دالان میں‘ بان کی ٹوٹی ہوئی‘ جھولتی چارپائیوں پر پڑے‘ پانی‘ پانی کہہ رہے ہیں مگر یہ نوحہ جو ہم لکھ رہے ہیں‘ بطور خاص پاکستان یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی حالت زار کا ہے۔ 

حکومت اور یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن ملازمین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ ملازمین نے دھرنا دیا ہوا تھا۔ ان کی یونین نے مذاکرات کی کامیابی کی خوش خبری دی تو دھرنا ختم کیا گیا۔ حکومت نے مان لیا کہ تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ ہوگا۔ پچاس فیصد ہائوس رینٹ (غالباً تنخواہ کا پچاس فیصد) اور چند دیگر مراعات کا اعلان بھی کیا گیا۔ ملازمین نے یونین قائدین کے حق میں نعرے لگائے۔ دھیاڑی پر رکھے گئے ملازمین کا کچھ کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت بھی حکومت کو ازراہِ لطف و کرم عنایت کیا گیا۔ خبر میں تو یہ بات نہیں ہے مگر اندازہ ہے کہ اس زبردست فتح کے بعد کچھ خوشیاں دستر خوان پر بھی لوٹی گئی ہوں گی۔ 

اب بدبخت مریض کا حال سنیے۔ جنوری 2018ء میں قومی اسمبلی کے ارکان کو بتایا گیا کہ اس کارپوریشن کو 2013-14ء میں بیس کروڑ بیس لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ ایک سال بعد یہ نقصان دو ارب روپے تک پہنچ گیا۔ اگلے دو سالوں میں دو ارب روپے سے بڑھ کر نقصان چار ارب روپے ہوگیا۔ اس اثنا میں کرپشن کے پچاس کیس منظر عام پر آئے۔ کارپوریشن کو اجناس مہیا کرنے والے سپلائر پیچھے ہٹتے گئے کیونکہ انہیں وقت پر ادائیگیاں نہیں ہورہی تھیں۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے آتے ہی اس ادارے پر ٹیکس بڑھا دیا اور امداد (سبسڈی) روک دی۔ نئی حکومت نے مزید مال کی خریداری روک دی۔ کارپوریشن کی پانچ ہزار سے زیدہ شاخیں یعنی سٹورز ہیں۔ ملازمین کی تعداد 14 ہزار سے کم نہیں۔ مگر یہ سٹور اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں‘ ایک ماہ پہلے کے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق کچھ اشیاء کی قیمت بازار کے برابر ہے اور کچھ میں فرق برائے نام ہے۔ کچھ دکانداروں نے پریس کو بتایا کہ یوٹیلیٹی سٹورز کے بہت سے گاہک ان کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ 

ایک اور ذریعہ بتاتا ہے کہ روزانہ کا نقصان کارپوریشن کا ڈیڑھ کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ 5327 سٹورز میں سے 4470 برانچیں نقصان میں جا رہی ہیں۔ 

یہ ہے وہ صورت حال جس میں ادارے کی صحت کا سوچے بغیر ملازمین نے دھرنا دیا۔ حکومت کے گلے پر پائوں رکھ کر تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرایا۔ رہا ادارہ! تو کسی کی بلا سے نفع میں جائے یا خسارے میں۔

ہبنیادی سوال اور ہے۔ کیا ریاست کا کام کاروبار کرنا ہے؟ نہیں‘ ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں‘ کاروبار کرنے والوں کو کنٹرول کرنا ہے‘ قوانین بنانے ہیں۔ تاجروں کو ان قوانین کا پابند کرنا ہے۔ 

ریاست کا کاروبار کرنا نفع آور ہوتا تو سوویت یونین کا شیرازہ نہ بکھرتا۔ تاریخ بالخصوص اقتصادیات کی تاریخ سے نابلد‘ جذباتی‘ سطحی سوچ رکھنے والے پاکستانی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ افغان ’’جہاد‘‘ نے اور مرد مومن مرد حق نے سوویت یونین کو توڑا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ یہ تابوت میں آخری کیل تو ہوسکتی ہے‘ تابوت بہرطور پہلے سے تیار تھا۔ کاروبار حکومتی کارندوں کے ہاتھ میں تھا۔ کرپشن کا دور دورہ تھا۔ رشوت عام تھی۔ رشوت ستانی کے اس کلچر کی چند جھلکیاں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد‘ اس کالم نگار نے ازبکستان میں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ سوویت یونین میں وزیروں اور بڑے بڑے افسروں کی دیہی قیام گاہیں (ڈاچے) تھے۔ دریائوں کے کنارے عیش و عشرت کے مراکز تھے۔ عام روسی اور ملحقہ ریاستوں کے باشندے پہروں گھی کے ایک ایک ڈبے‘ چاول کے ایک ایک پیکٹ‘ ایک ایک ڈبل روٹی کے لیے قطاروں میں کھڑے رہتے تھے۔ خوراک کی کوالٹی بدترین تھی۔ اس ڈبل روٹی کا ذائقہ اس کالم نگار نے چکھا ہے۔ میلے رنگ کے سوکھے ہوئے ٹکڑے‘ اکثریت ترکستانی ریاستوں میں ‘نان کے خشک‘ سخت نوالے قہوے میں بھگو بھگو کر کھاتے تھے۔ شکست و ریخت کے علاوہ سوویت یونین کا انجام مختلف ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ 

انسان کی جبلت میں ہے کہ وہ منافع کے لیے کاروبار کرتا ہے۔ تاجر گھاٹے میں جارہا ہو گا تو دکان کا سائز چھوٹا کرلے گا‘ ملازمین کی تعداد کم کرے گا۔ اپنی گاڑی بڑی ہے تو بیچ دے گا۔ چھوٹی گاڑی رکھے گا۔ پیدل چلنا پڑا تو وہ بھی کرے گا مگر کاروبار کو نقصان سے ہر حال میں بچائے گا۔ جب ریاست کاروبار کرے گی تو وہی ہوگا جواب یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے کارندے کر رہے ہیں۔ ہر روز ڈیڑھ کروڑ کا نقصان۔ مگر تنخواہوں میں اور ہائوس رینٹ میں اضافہ۔ ملازمین کی تعداد کم کرنے کے بجائے دھیاڑی والے عارضی ورکروں کو بھی مستقل کرنے کا پروگرام۔ 

ریاست کاروبار میں تھوتھنی ڈالتی ہے تو کاروبار نہیں چلتا ہاں! ملازمین گردن پر سوار ہو جاتے ہیں۔ سٹیل ملز کو دیکھ لیجئے۔ ناسور کی طرح ریاست کے جسم میں پڑی‘ کب سے رِس رہی ہے۔ اس لیے کہ زور‘ بیوروکریسی کا مراعات پر تھا۔ ایسے ایسے سربراہ سٹیل ملز نے دیکھے کہ چارج لینے کے بعد بیلنس شیٹ (اثاثوں‘ نفع اور نقصان کا حساب کتاب) دیکھنے کے بجائے پہلا یہ سوال کرتے کہ انہیں گاڑی کون سی ملے گی؟ گھر کے لیے کیا مراعات ہوں گی۔ کتنے ہی چیئرمینوں نے جیل کی ہوا کھائی۔ 

پی آئی اے کے ایک چیئرمین نے ماضی قریب میں سرعام دہائی دی کہ یونینیں کچھ نہیں کرنے دیتیں۔ پائلٹوں کی الگ یونین‘ انجینئروں کی اپنی یونین‘ فلاں شعبے کی الگ‘ فلاں کی الگ۔ چیئرمین کا کہنا تھا کہ کوئی قدم اٹھا ہی نہیں سکتے۔ کسی کوسزا دے سکتے ہیں نہ نوکری سے برخواست کرسکتے ہیں۔ فی جہاز ملازمین کی تعداد کے حوالے سے ہماری قومی ایئرلائن بدترین حالت میں ہے۔ جونکیں چمٹی ہوئی ہیں‘ خون پئے جا رہی ہیں۔ ہر حکومت نے سیاسی بنیادوں پر ملازمتیں پرشاد کی طرح بانٹیں۔ آج یہ ایئرلائن شرمندگی کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں ؎ 

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو 
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے 
داغِ فراقِ صحبت شب کی جلی ہوئی 
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

عدلیہ کارول بھی تباہی کے اس سفر میں محل نظر ہے۔ متعلقہ محکمے سے پوچھے بغیر حکم امتناعی جاری کردیا جاتا ہے۔ بارہا اس کالم نگار کو سرکاری ملازمت کے دوران اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ ملازمین کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ معمول کی کارروائی ہے مگر ملازمین تبادلے کے احکام پائوں تلے روند کر‘ سامنے آ کر‘ پوری رعونت کے ساتھ حکم امتناعی دکھا دیتے ہیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپویشن کی یونین نے بھی حکم امتناعی حاصل کرلیا ہے جس کی رو سے انتظامیہ کسی ملازم کو برخواست نہیں کرسکتی۔ یعنی ؎ 

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف 
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Saturday, October 27, 2018

ہم جنگل میں رہ رہ رہے ہیں


اگر شہر میں باقی ساری یونیورسٹیاں، باقی تمام تعلیمی ادارے ختم ہو جائیں تب بھی اس جامعہ میں اولاد کو داخل کرنا گھاٹے کا سودا ہوگا۔

خدا کی پناہ! ایک شوہر اپنی منکوحہ کو لینے کے لیے یونیورسٹی جاتا ہے۔ وہاں ایک تنظیم کے ارکان، جو طالب علم ہیں، اسے مارتے پیٹتے ہیں۔ اس کی بیوی چیختی ہے کہ یہ میرا شوہر ہے۔ بہت سے لوگ۔ بے حس لوگ۔ پاس کھڑے یہ تماشا دیکھتے رہتے ہیں، کوئی مداخلت نہیں کرتا۔

اس تنظیم سے کوئی گلہ نہیں، مجرم کی منت سماجت کبھی نہیں کی جاتی، کوئی ہاتھ جوڑ کر مجرم سے یہ درخواست نہیں کرتا کہ بھائی جان! مہربانی فرمائیے، ازراہ لطف، ازراہ کرم، آئندہ اس قسم کی حرکت نہ کیجئے گا۔ یوں بھی اس تنظیم کو اور اس کی سرپرست پارٹی کو قائل کرنا کارِ لاحاصل ہے۔ یہ حضرات اپنے جس عمل کو درست سمجھتے ہیں، اسے کیوں نادرست قرار دیں؟ ان کا اپنا موقف ہے۔ ان کے طرز عمل اور طرز فکر میں تضادات کے پلندے سہی، وہ بہرحال اس معاملے میں ایک فریق ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں کوئی اتھارٹی ایسی ہے جو اس نام نہاد سرپرستی کو، اس مداخلت کو، اس ٹھیکیداری کو ختم کرسکے؟ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں، ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں، دن دیہاڑے، بے شمار لوگوں کی موجودگی میں، ایک شوہر کو اس لیے زدوکوب کیا جاتا ہے کہ وہ ایک لڑکی کے ساتھ کھانا کیوں کھا رہا ہے یا باتیں کیوں کر رہا ہے یا اس کے قریب کیوں بیٹھا ہوا ہے۔ لڑکی چلا چلا کر کہتی ہے کہ یہ میرا شوہر ہے مگر مارپیٹ جاری رہتی ہے۔ بیسیوں تاویلیں کی جا رہی ہیں۔ گارڈ نے اونچا بولنے سے منع کیا۔ گارڈ کے ساتھ جھگڑا ہوا۔ یہ ہوا، وہ ہوا مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ایک خاص طلبہ تنظیم کا نام اس واقعے کے حوالے سے پورے میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے -اور بھی کئی تنظیمیں ہوں گی۔ آخر اس قبیل کے معاملات میں اسی طلبہ تنظیم کا نام ہی کیوں آتا ہے۔ 

اس طلبہ تنظیم کی اپنی اخلاقیات کیا ہیں، اس کی سرپرست پارٹی تقویٰ اور زید کی کس بلندی پر فائز ہے، اس بارے میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ ناقابل تردید شواہد کے ساتھ، مگر اس سے سارا مقدمہ کمزور ہو جائے گا، وہی بات جو اوپر کی گئی کہ مجرم سے کچھ کہنا سننا فضول ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ جرم کس کا ہے، سب جانتے ہیں کہ فسطائیت کا ذمہ دار کون ہے، اس پر کیا بات کی جائے، اس پر کچھ کہنا ریگزار میں پانی بہانے کے برابر ہے۔ 

طرفہ تماشا دیکھیے کہ یہ معاملہ یونیورسٹی ہی کی ڈسپلنری کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔ بھائی اگر یہ کمیٹی کسی کام کی ہوتی تو کیا یونیورسٹی میں ڈسپلن کا یہ عالم ہوتا؟ جس کمیٹی کی موجودگی میں ریاست در ریاست کی صورت حال پہلے ہی برپا ہے، وہ اس بکھیڑے کو کیسے حل کرے گی؟ کمیٹی نے مبینہ طور پر شوکاز نوٹس جاری کئے ہیں۔ فرض کیجئے، کچھ مقوی ادویات کھا کرکمیٹی میں اتنی جان آ بھی جاتی ہے کہ زدوکوب میں ملوث طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دے، تب بھی اصل مسئلہ تو جوں کا توں رہے گا۔ ایک بڑی، جہازی سائز کی تنظیم سے دو تین یا چند ارکان کو خارج کرنا اور تنظیم کو جوں کا توں یونیورسٹی کے اندر رکھنا، یا رہنے دینا، کہاں کی چارہ گری ہے؟ کنویں سے بیس یا سو یا پانچ ہزار ڈول نکالیں پھر بھی مسئلہ تو حل نہ ہوگا، پانی ناپاک ہی رہے گا۔ 

چانسلر نے یعنی صوبے کے گورنر نے نوٹس لیا بھی تو کیسا نوٹس۔ گورنر صاحب نے رپورٹ وائس چانسلر سے مانگی، یعنی اس چرواہے سے رپورٹ مانگی جا رہی ہے جس نے گوسفند خوروں کو کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ آئو، ریوڑ کے اندر آئو تم پر کوئی پابندی نہیں۔ یہ چراگاہ تمہاری اپنی ہے، جو بھیڑ پسند آتی ہے، کھالو۔ واہ گورنرصاحب واہ۔ واہ چانسلر صاحب واہ۔ حضور! آپ پورے صوبے کے بادشاہ ہیں۔ ایک کمزور وزیراعلیٰ کی موجودگی میں، یوں بھی گورنری اس وقت نمایاں تر ہے۔ آپ یونیورسٹی کے باہر کے افراد سے تفتیش کرائیے۔ یہ تو سادگی کے باوجود میر صاحب کو بھی معلوم تھا کہ جس کے سبب بیمار ہوا جائے، اس سے دوا نہیں لیتے۔ 

فرض کیجئے، اس جامعہ میں بے حیائی عام ہے۔ اخلاقی عیوب زیادہ ہیں، اگر خدانخواستہ، ایسی صورت حال ہے بھی، تو کیا ایک مخصوص پارٹی کی ذیلی تنظیم کو تطہیر کی، تبلیغ کی اور لوگوں کو زدوکوب کرنے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ ؟ اگر دعوت اسلامی والے بھی یہی کام شروع کردیں؟ اگر تبلیغی جماعت والے بھی ڈنڈے اٹھالیں؟ ایک تنظیم لال مسجد والوں کی بھی اگر جامعہ میں پہنچ جائے؟ ایک گروہ تحریک لبیک کی نمائندگی کرتے ہوئے اگر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش شروع کردے؟ اگر اب تک ایسا نہیں ہوا تو یہ محض اتفاق ہے۔ حق تو پھر ان کا بھی اتنا ہی بنتا ہے۔ 

لطیفہ۔ درد ناک لطیفہ۔ یہ ہے کہ ان صالح حضرات کے اپنے نجی تعلیمی اداروں میں اس تطہیر کی قطعاً اجازت نہیں۔ وہاں کسی طلبہ تنظیم کو کھلی چھٹی نہیں دی جاتی۔ یہاں تک کہ ’’اپنی‘‘ طلبہ تنظیم کو بھی نہیں۔ 

مگر والدین کہاں ہیں؟ ان چند والدین کو چھوڑ کر، جو اس طوائف الملوکی کے حامی ہیں، والدین کی اکثریت اس صورت حال پر کسی صورت میں مطمئن نہیں ہوسکتی۔ والدین کی اکثریت اس سے ناخوش ہے اور خائف بھی۔ تو کیا وہ بیٹھے رہیں؟ ان میں سے جو اتنے آسودہ حال ہیں کہ دوسری، خاص طور پر، نجی شعبے کی یونیورسٹیوں کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو اس یونیورسٹی نما جنگل سے فوراً نکال لیں۔ کل زدوکوب کی اور بے حرمتی کی، باری ان کی بھی آ سکتی ہے۔ آج شوہر پٹا ہے تو کل کسی طالبہ کا باپ بھی اس مکروہ فسطائیت کانشانہ بن سکتا ہے۔ 

رہے وہ والدین جو نجی شعبے کی یونیورسٹیوں میں بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کے لیے ایک ہی راستہ ہے۔ تمام والدین، چانسلر یعنی گورنر اور وزیراعظم کی خدمت میں درخواست پیش کریں کہ طلبہ تنظیموں کو یونیورسٹیوں سے باہر نکالا جائے، یوں کہ جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ کسی بھی طلبہ تنظیم کو، خواہ وہ مذہبی ہے یا سیاسی، لسانی ہے علاقائی، کسی بھی تعلیمی ادارے میں کسی قسم کی سرگرمی کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ چہ جائیکہ ایسی تنظیمیں طاقت کا مظاہرہ کریں اور دہشت پھیلائیں۔ 

بدقسمتی سے اساتذہ میں بھی طلبہ تنظیموں کے ہمدرد موجود ہیں۔ ان اساتذہ کو فوراً ان نجی یونیورسٹیوں میں بھیج دینا چاہیے جو “ صالحین” خود چلا رہے ہیں۔

    


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Thursday, October 25, 2018

بھیڑیں!کالے رنگ کی بھیڑیں!



لیڈروں کو ناکامی سے دوچار کرنے والوں کے دوسر اور تین ٹانگیں نہیں ہوتیں۔ وہ اسد عمر جیسے ہی ہوتے ہیں۔ 

رئوف کلاسرہ نے جو کچھ بتایا ہے اگر وہ سچ ہے تو وزیر اعظم پر لازم تھا کہ اب تک اسد عمر سے اس ’’بندہ پروری‘‘ کا سبب پوچھ چکے ہوتے ۔اگر غلط ہے تو اسد عمر کو رئوف کلاسرہ کے خلاف عدالت میں جانا چاہیے تھا۔ اور غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ ہر شے ریکارڈ پر ہے -

سوئٹزر لینڈ پڑے ہوئے اربوں ڈالر کے ساتھ چوہے بلی کا جو کھیل سٹیٹ بنک کا گورنر کھیلتا رہا ہے اور کھیل رہا ہے، اس کی ایک ایک تفصیل ظاہر ہو چکی ہے۔ اپنی ہی بھیجی ہوئی ٹیم کو موجودہ گورنر سٹیٹ بنک نے جس طرح جونیئر افسر کہہ کر بے وقعت کیا‘ جس طرح سوئٹزر لینڈ سے کیے گئے معاہدے سے انحراف کیا، پھر جس طرح اسحاق ڈار نے اسے سٹیٹ بنک کا گورنر تعینات کیا اور پھر جس طرح اس سارے معاملے کو یہ صاحب اب ’’غلطی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے پیشِ نظر، جو ردّعمل اسد عمر کا ہے، اس کے بعد دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ یا تو اسد عمر کو اس پورے معاملے کی سنجیدگی کا ادراک نہیں، یا وہ کالی بھیڑوں پر اپنا سایۂ عاطفت ڈال کر، خود ایک بڑی کالی بھیڑ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ 

حکومت کرنے کے جو اصول دانش ور بتا گئے ان میں اب تک تو یہی سرِ فہرست تھا کہ

’’محال است کہ ہنر منداں بمیرند و بی ہنراں جائی ایشاں گیرند‘‘ 

کہ مشکل ہے کہ ہنرمند رخصت ہو جائیں اور ان کی جگہ بے ہنر متمکن ہو جائیں۔ 

مگر جو نیا اصول نظر آ رہا ہے یہ ہے کہ ناممکن ہے کہ بے ہنروں کو فارغ کیا جائے اور ان کی جگہ ہنر مندوں کو ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ جو شخص ڈار صاحب کا دستِ راست تھا وہی عمران خان اور اسد عمر کے عہدِ حکومت میں پاکستانی بنکاری کے باپ اور ملک کے خزانچی، سٹیٹ بنک، کا سربراہ ہے۔ انّا للہ وانا الیہ راجعون!! یہ حماقت ہے یا فکری بددیانتی؟ دونوں صورتوں میں وزیر خزانہ اُس منصب کے لیے نا اہل ٹھہرتے ہیں جس پر بے نیاز گردشِ زمانہ نے انہیں فائز کردیا ہے۔ 

کراچی کے جس معروف تعلیمی ادارے سے اسد عمر نے ایم بی اے کیا، اس ادارے کا ایک اور ایم بی اے اس سے پہلے اس ملک کو بازیچۂ اطفال کے طور پر ’’استعمال‘‘ کرنے کے بعد ملک سے فرار ہو چکا ہے۔ یہ کراچی کا وہی ادارہ ہے جسے ڈاکٹر عشرت حسین جیسے طالع آزما چلاتے رہے ہیں۔ ایم بی اے کر کے کمپنیوں کو چلانا اور شے ہے، ملک کی وزارت خزانہ چلانا اور عمل! دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس ملک کی بھی عجیب قسمت ہے۔ پہلے جاگیر رہا، پھر یہ شریفوں کا کارخانہ بنا اور اب اسد عمر کے لیے کمپنی سے زیادہ نہیں۔ 

تاریخ میں جو کچھ پڑھتے رہے‘آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان چیتا سہی، ان کے اردگرد گیدڑ ہیں اور لومڑیاں۔ گورخر اور شغال! عمران خان ٹھنڈی آہ بھر کر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ؎ 

میرا دُکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں 

اس لیے کہ یہ ہارا ہوا لشکر انہوں نے خود اپنے اردگرد اکٹھا کیا ہے۔ یہ اسد عمر، یہ بُزدار، یہ عشرت حسین، امریکہ نے یا اقوامِ متحدہ نے یا اپوزیشن یا پارلیمنٹ نے ان پر مسلّط نہیں کیے ع 

اے بادِ صبا این ہمہ آوردۂ تُست 

بادِ صبا نے خود ہی یہ سارے پھول کھلائے ہیں۔ ؎ 

میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مرے سر پہ بُوم ہے، زاغ ہے مرے ہاتھ میں

کہاں وہ دعوے کہ لوٹا ہوا اور باہر ذخیرہ کیا ہوا ایک ایک پیسہ واپس لے کر آئیں گے اور کہاں اتنا مجرمانہ رویہ کہ سوئٹزرلینڈ جس معاہدے پر راضی ہو چکا تھا اور جس کے نتیجہ میں سوئٹزر لینڈ میں چھپائی ہوئی دولت کے درست اعدادوشمار حکومت پاکستان کو مہیا کیے جانے تھے، اس معاہدے کو دنیا میں آنے سے پہلے، ماں کی کوکھ ہی میں قتل کر دیا گیا اور قتل کرنے والا عمران خان کی حکومت میں کسی معمولی عہدے پر نہیں، سٹیٹ بنک کا گورنر ہے ؎ 

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے 
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 

تو پھر احد چیمہ، فواد حسن فواد اور توقیر شاہ کو ان کے مناصب سے ہٹانے کی کیا منطق تھی؟ اگر گزشتہ حکومت کا ستون، آپ کی حکومت میں بھی ستون ہی ہے اور آپ کا یہ گھانس پھونس کا چھپر اُسی کے سر پر کھڑا ہے تو پھر انصاف کیجیے اور بتائیے کہ پچھلی حکومت کے دیگر فدائیوں میں کیا برائی تھی ؟ ؎ 

کبھو جائے گی جو ادھر صبا تو یہ کہیو اس سے کہ بے وفا! 
مگر ایک میرِ شکستہ پا ترے باغِ تازہ میں خار تھا؟ 

حیرت ہے کہ اب تک عدالت عظمیٰ نے بھی اس معاملے کا نوٹس نہیں لیا۔ جناب چیف جسٹس ملک کو درپیش ہر معاملے کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ مجرمانہ اور مضحکہ خیز واقعہ سے بھی ان کی توجہ چاہتا ہے! ذرا گورنر سٹیٹ بنک کو بلا کر پوچھیں کہ معاہدے کا ڈرافٹ کہاں گیا؟ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پڑی ہوئی دولت کو شریفوں اور زرداریوں نے تو کیا چھیڑنا تھا، انصافیوں کے دورِ زریں میں بھی عہدِ شریفی کا خاص کارندہ، ملکی مالیات پر بدستور مسلط ہے! 

سچ ہے کہ حکومتوں کے اقدامات احمقانہ ہوتے ہیں۔ لکڑی کے جس گھوڑے میں دشمن کے سپاہی چھپے تھے، اس کو شہر کی حکومتی کونسل ہی فصیل کے اندر لائی تھی۔ تعلیمی اداروں سے لے کر بنکوں اور کارخانوں تک ہر سرگرمی کو قومیا لینے کی حماقت پاکستانی حکومت ہی سے ہوئی تھی۔ یہ پاکستان کا حکمران طبقہ ہی تھا جس نے ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر آمر کو سہارا دیا۔ ہر آمر کا ساتھ دیا اور ہر آمر کے لیے حکمران خاندانوں کے یہ سیاستدان ڈھال بن گئے۔ آج بھی حکمران طبقہ حماقتوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ایک بھائی گورنر سندھ رہا‘دوسرا اب خزانے کا امیر ہے! منہ میں سونے کے چمچ لے کر یہ لوگ پیدا ہوئے۔جرنیلی گھروں میں بے پناہ مراعات اور ان گنت سہولیات کے ساتھ پرورش پائی۔ پھر اپنے سوشل سٹیٹس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی قربت حاصل کی۔ ٹکٹ ملے۔ وزارتیں پائیں گورنریاں لیں! انہیں کیا پڑی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو کامیاب کرنے کے لیے کسی کو ہٹائیں۔ اپنا سماجی مرتبہ ان کا ہر حکومت میں ہمیشہ سے طے شدہ ہے۔ گورنری ہے یا وزارت رہے گی‘ جرنیلوں کے گھر میں ہی یا جاگیرداروں کے ڈیروں پر یا صنعت کاروں کے بنگلوںمیں۔ 

اسد عمر اپنی ذاتی کمپنی میں یا ذاتی انٹرپرائز میں گورنر سٹیٹ بنک جیسے کارندے رکھتے تو ہم دیکھتے! رہا پاکستان تو اس کے اداروں پر جو بھی مسلط رہے، اسد عمر کو کیا اور اس قبیل کے دیگر بخت آزمائوں کو کیا!! ؎ 

وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Tuesday, October 23, 2018

خوش خرامی یا برق رفتاری ؟


لڑکا بگڑا ہوا تھا۔ برسوں کا بگڑا ہوا، کھیل کود کا عادی، پڑھائی سے متنفر، کبھی گھر سے بھاگ جاتا، کبھی مکتب سے، کبھی کسی لڑائی میں ملوث، کبھی کسی کو پیٹ کر آتا، کبھی آتا تو سر پر پٹی بندھی ہوئی۔ 

ماں باپ کا بخت اچھا تھا۔ استاد وہ ملا جو حکومت پر نہیں حکمت پر یقین رکھتا تھا۔ اُس نے لڑکے پر رعب جمایا نہ کوئی سزا دی۔ اصلاح کا آغاز اُس نے لڑکے سے شطرنج کی بازی کھیل کر کیا۔ دوستی ہو گئی تو اس کے مشاغل کی تفصیل معلوم کرنے لگا۔ پھر وہ دن آیا کہ لڑکا زیادہ وقت استاد کے ساتھ گزارنے لگا۔ چند ہفتوں بعد اس میں تبدیلی آنے لگی۔ اس نے لڑائی جھگڑے والے دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ محلے والوں نے حیرت سے اسے کتابیں خریدتے اور پڑھتے دیکھا۔ اب وہ سکول میں باقاعدہ آنے لگا۔ پھر یہ وہی لڑکا تھا جس نے اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا اور تقریری مقابلوں میں سب سے زیادہ انعامات حاصل کیے۔ ایک طرزِ اصلاح متبادل بھی تھا۔ یہ کہ اسے زبردستی پڑھائی پر مجبور کیا جاتا۔ سارا کام سزا سے شروع ہوتا ہے۔ دوسرے طلبہ کے سامنے اس کی تذلیل کی جاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ ایسا بھاگتا کہ کسی کے ہاتھ نہ آتا۔ اور ظاہر ہوتا تو عادی، سزا یافتہ مجرم بن کر۔ 

یہ واقعہ ایک خبر پڑھ کر ذہن میں تازہ ہوا۔ لاہور میں کل سے ان افراد کے لیے بھی ہیلمٹ لازمی قرار دے دیا گیا ہے جو موٹر سائیکل چلانے والے کے پیچھے بیٹھیں گے یعنی دوسری سواری کے لیے بھی۔ 

اس میں کیا شک ہے کہ ٹریفک کے معاملے میں ہم مہذب دنیا سے پیچھے ہیں۔ کوسوں پیچھے۔ شاہراہوں پر قتلِ عام یوں ہو رہا ہے جیسے خانہ جنگی برپا ہو۔ موٹر سائیکل سوار کسی نظم کے پابند نہیں۔ وہ ٹکر مارتے ہیں اور اٹھائی گیروں کی طرح بھاگ پڑتے ہیں۔ سانپ کی طرح دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں رینگتے ہیں۔ ’’زرعی‘‘ گاڑیوں یعنی ٹریکٹروں، ٹرالیوں اور ڈمپروں نے الگ حشر برپا کر رکھا ہے۔ ان پڑھ، غیر تربیت یافتہ وحشی ان ٹریکٹروں، ڈمپروں اور ٹرالیوں کو چلاتے ہیں۔ لوگوں کو کچل دیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بڑی شاہراہوں پر، شہروں کے درمیان، ویگنوں، ٹرکوں اور بسوں نے ریاست کے درمیان ریاست الگ قائم کر رکھی ہے۔ 

شریفوں کی حکومت کو ان پہلوئوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کے خواب و خیال میں بھی پاکستان کو مہذب ملک بنانے کا نصب العین نہیں تھا۔ شاہراہوں، پلوں اور انڈر پاسوں سے ان کی حکومت شروع ہوتی تھی اور منی لانڈرنگ پر ختم ہوتی تھی خواہ اس کے لیے پاکستانی بنک کی نیویارک برانچ بند ہی کیوں نہ کرنی پڑتی۔ 

عمران حکومت کی خواہش ہے کہ پاکستانی ایک قانون پسند قوم بن کر دنیا کے نقشے پر از سرنو ابھریں، یہاں ہر کام ضابطے کے مطابق ہو۔ تعمیرات قانون کے مطابق ہوں مگر نئی حکومت کا طریقِ کار حکمت سے خالی نظر آ رہا ہے۔ حکومت کا طرزِ عمل اُس استاد کی طرح ہے جو اصلاح کا عمل ڈنڈے تھپڑ اور پائوں کی ٹھوکر سے شروع کرتا ہے۔ وزیر اعظم کے اردگرد جو لوگ حصار باندھے کھڑے ہیں وہ حکمت سے کم اور حکومت سے کام زیادہ لے رہے ہیں۔ کچھ تو شفقت محمود صاحب کی طرح بالکل ہی سو رہے ہیں اور ان کی قلمرو میں آلِ شریف کے وفادار راتب خور اسی طرح مسندوں پر براجمان ہیں جیسے پہلے تھے اور کچھ اتنا تیز بھاگ رہے ہیں کہ آج نہیں تو کل ضرور گریں گے۔ 

کوئی ہے جو انہیں بتائے کہ ستر برس پر پھیلی ہوئی برائیاں اچانک اصلاح پذیر نہیں ہوں گی۔ ہیلمٹ ہی کی مثال لے لیجیے۔ پیچھے بیٹھنے والی سواری کے لیے ہیلمٹ پہننا اس کی اپنی سلامتی کے لیے ضروری ہے مگر مسئلہ مالیات کا ہے۔ پہلے انہیں ذہنی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ یہ الیکٹرانک میڈیا کا عہد ہے۔ آسانیاں حکومت کے لیے بہت ہیں۔ کم از کم تین ماہ کا عرصہ تشہیر کے لیے رکھنا چاہیے۔ اخبارات میں اشتہارات دیجیے۔ ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے لوگوں کے ذہن بدلیے۔ انہیں مسلسل بتائیے کہ تین ماہ کے بعد یہ پابندی عائد کر دی جائے گی۔ اکثریت اس عرصہ سے فائدہ اٹھائے گی اور ہیلمٹ کا انتظار کر لے گی۔ جب یہ عرصہ گزر جائے تو پھر آپ بے شک قانون پر سختی سے عمل درآمد کرائیے۔ سزا دیجیے مگر اچانک پچھلی سواری پر ہیلمٹ کی پابندی لگائیں گے تو ردّعمل شدید ہو گا اور سخت منفی! 

اسی طرح جرمانہ کی رقم بتدریج بڑھائیے۔ مہم کم جرمانے سے شروع کیجیے تا کہ عوام کو احتجاج کی ضرورت نہ پڑے۔ دو تین سو روپے کا جرمانہ ایک رکشے والے کے لیے، ایک موٹر سائیکل سوار کے لیے بہت ہے۔ اتنی رقم کا جرمانہ تین چار بار ہو گا تو وہ اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گا۔ یکدم جرمانہ اس کی بساط سے باہر ہو گا تو وہ خودسوزی کا تماشہ بھی لگائے گا۔ جلوس بھی نکالے گا اور حکومت کو گالیاں بھی دے گا۔ووٹ تو خیر وہ ایسی نامہربان حکومت کو کبھی بھی نہیں دے گا۔ 

غیر قانونی تعمیرات گرانے میں بھی حکومت نے عاجلانہ اقدام اٹھایا ہے۔ زیریں طبقے کو یا تو مستثنیٰ قرار دیا جاتا یا ان کی بات سنی جاتی۔ جس شخص کے پاس خریداری کی رجسٹری موجود ہے، اس نے رقم دے کر قطعۂ زمین خریدا پھر خون پسینے کی کمائی سے ایک چھوٹا سا ٹھکانہ تعمیر کیا، اسے گرا دینا دانش مندی نہیں ظلم کے دائرے میں آتا ہے۔ اس کالم نگار کے ذاتی علم میں ہے کہ دارالحکومت کی ایک نواحی آبادی میں ایک با اثر مقامی شخصیت نے پہاڑ اور ٹیلے کاٹ کر زمین ’’تیار‘‘ کی۔ پھر چھوٹے چھوٹے پلاٹ بنا کر فروخت کیے۔ اصل مجرم سرکاری پہاڑ اور ٹیلے کاٹنے والے افراد تھے۔ پلاٹ خریدنے والے کا مکان گرانا غیر منطقی ہونے کے علاوہ ناروا بھی ہے۔ ایک معروف کالم نگار الگ رو رہے تھے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے۔

تبدیلی حکمت اور تدبر سے آتی ہے۔ جبر اور دھونس کا طریقہ کارگر ہوتا تو سوویت یونین کی ایمپائر کبھی ختم نہ ہوتی۔ پہلے عوام کی ذہن سازی کیجیے۔ ان کی سوچ بدلیے۔ انہیں قائل کیجیے کہ چند ماہ کے بعد ہم یہ قانون نافذ کرنا چاہتے ہیںسو، ہماری مدد کیجیے۔ دشمنوں کی تعداد میں اضافہ نہ کیجیے۔ عشروں کا کام برسوں میں، برسوں کا مہینوں میں اور مہینوں کا دنوں میں کرنے کی کوشش نہ کیجیے۔ 

یہ بھی یاد رکھیے کہ پالیسیاں نافذ کرنے والی نوکر شاہی میں کالے رنگ کی بھیڑیں اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Sunday, October 21, 2018

2082ء



وہ رات کروٹیں بدلتے گزری آنکھ لگتی تو ایک آنسو نظر آتا۔ آنکھ سے ٹکپتا ہوا‘ رخسار پر گرتا ہوا۔

کمپیوٹر پر فیس ٹائم لگا کر اُسے دیکھ رہا تھا۔ ناراض ہو کر جب بُت کی طرح بے حس و حرکت بیٹھ جاتی ہے تو ہم کہتے ہیں پکوڑا بنی ہوئی ہے۔اس وقت وہ پکوڑا بنی ہوئی تھی۔ ہزاروں میل دور بیٹھا‘ میں اسے ہنسانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مشکل کے بعد وہ ایک ثانیے کے لیے ہنسی مگر عین اسی وقت آنسو اس کی آنکھ سے ٹپکا اور گال پر گرا۔ ایک ٹکڑا میرے کلیجے سے کٹ کر میرے حلق میں آ گیا۔ پوچھا کیوں رو رہی ہے۔ بتایا گیا کھانا نہیں کھارہی تھی۔ ابا نے ڈانٹا۔ اب میرا اندازہ یہ تھا کہ ابا نے ایک ہلکا پھلکا ہاتھ بھی ٹکا دیا ہو گا!

پانچ دس منٹ بعد وہ سب کچھ بھول کر کھیل میں مصروف ہو گئی ہو گی مگر میں اپنی افتاد طبع کا کیا کروں کہ وہ آنسو دل میں جیسے چھید کر گیا۔ رات تک بارہا تصور میں اسی آنسو کو ٹپکتے دیکھا۔ زہرا کا چہرہ سامنے آ جاتا۔ پھر نم آنکھیں۔ چھلکتی ہوئی! پھر گرتا ہوا آنسو! آنکھ لگتی! پھر کھلتی! پھر لگتیٖ پھرکھل جاتی! یہ خیال بھی آیا کہ ویزا تو لگا ہوا ہے۔ سیٹ بُک کرا کر چلا جاتا ہوں۔ پھر وہ مصروفیات یاد آئیں جو آنے والے دنوں اور ہفتوں کے لیے طے ہو چکی ہیں۔ یوں بھی اچانک جانے کا پروگرام بناتا تو سب گھر والوں نے کہنا تھا کہ بچے روتے رہتے ہیں! اس میں ایسی کیا بات ہے کہ مسئلہ بنایا ہوا ہے! پھر ایک ڈھارس بندھی کہ دو ماہ بعد ان لوگوں نے پاکستان چھٹی آنا ہے! کچھ وقت ساتھ گزارنے کا موقع مل جائے گا! مگر ایک بے کلی چھائی رہی! ایک پژمردگی تھی جو اندر‘ دل کے صحن میں ٹہلتی رہی! ادھر سے اُدھر۔ ہاتھ پیچھے باندھے۔ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک!!

گزشتہ برس آئی تو پانچ برس کی تھی۔ ایک دن جانے کیا خیال آیا‘ کپڑا لیا اور صفائی پر کمر باندھ لی۔ پہلے لائونج کے صوفے صاف کئے ۔ پھر کچن کا کائونٹر اور الماریوں کے دروازے۔ پھر ریفریجریٹر ۔ پھر کھیلنے کے لیے کاغذ کی وہ چٹیں مانگیں جن پر ایک طرف گوند لگی ہوتی ہے اور دیوار پر یا کسی بھی جگہ فوراً چسپاں ہو جاتی ہیں۔ ساری دیواریں چٹوں سے بھر دیں۔ پھر جہاز اُسے واپس لے گیا۔ اس کے جانے کے بعد دیکھا تو ایک چٹ خواب گاہ کی دیوار کے ساتھ لگی تھی۔ اس پر الٹی سیدھی لکیریں کھنچی ہیں -صفائی کرنے والے لڑکے کو زہرہ کی دادی نے اور میں نے بیک وقت کہا کہ اس چٹ کو نہیں اتارنا۔ سال سے زیادہ عرصہ ہوا۔ اسی طرح لگی ہے۔ ان الٹی سیدھی لکیروں میں داستانیں چھپی ہیں اور کہانیاں! ان لکیروں میں اس کی معصوم باتیں ہیں! ان لیکروں میں ایک بچپن بھرا ہے! ہنستا مسکراتا ‘ کھلکھلاتا ‘ لہلہاتا ! فرشتوں جیسی باتیں!

ایک دن ماں یا دادی کی لپ سٹک اٹھائے اپنا میک اپ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔میں نے کہا مجھے بھی لگائیے، کہنے لگی‘ نہیں! اس واسطے کہ تُسی بوائے او! بیرون ملک جب تک رہتا ہوں‘ ساتھ ساتھ رہتی ہے گھر سے باہر جانے لگتا ہوں تو جیسے ہی دروازے کے پاس جا کر جوتے پہننے لگتا ہوں‘ نہ جانے کیسے اسے خبر ہو جاتی ہے۔ کہیں سے یک دم نمودار ہوتی ہے اور پوچھتی ہے تُسی کتھے وینے پَو(یہ آخر والا پَو۔ اس کی اپنی اختراع ہے) پھر کہتی ہے میں نے بھی ساتھ جانا ہے۔ فوراً جوتے پہنے گی اور ساتھ ہو لے گی!

یاد نہیں یہ واقعہ کہاں پڑھا تھا۔ ایک امریکی تھا۔ دانشور یا مصنف یا شاید ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ! اسے وائٹ ہائوس سے ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔ کہ امریکہ کے صدر اس اتوار کو آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ کسی معاملے پر مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔ سو اتنے بجے تشریف لے آئیے! عمر رسیدہ شخص نے معذرت کی کہ میں اُس دن ایک طے شدہ پروگرام کی بنا پر مصروف ہوں۔ وائٹ ہائوس کے اہلکار نے تعجب سے پوچھا۔ حضور!امریکہ کے صدر کے ساتھ ملاقات سے زیادہ ضروری بھی کوئی مصروفیت ہو سکتی؟ جواب دیا! ہاں! یہ مصروفیت اس سے بھی زیادہ ضروری ہے! پوچھا کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ پوتی کو چڑیا گھر لے جانا ہے ! وائٹ ہائوس کا سیکرٹری ہنسا اور کہا سر! یہ بھی کوئی بات ہے بھلا! پوتی کو آپ اگلے اتوار کو لے جائیے۔ بوڑھے نے کہا نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا! امریکی صدر اس قدر مصروف ہے کہ مجھ سے ملاقات کرنے کے ایک گھنٹہ بعد اُسے یہ ملاقات یاد ہی نہیں رہے گی۔ مگر پوتی چڑیا گھر کی اس سیر کو ساری زندگی یاد رکھے گی۔یہ اس کی یادداشت کا ایسا حصہ ہوگا جو ہمیشہ تروتازہ رہے گا!

وقت گزر جاتا ہے۔ مگر دادا دادی اور نانا نانی کے ساتھ گزرے ہوئے لمحے ساعتیں‘ دن اور ہفتے ہمیشہ یاد رہتے ہیں! یہ آٹو بائیو گرافی ذہن کے صفحات پر لکھی ہوتی ہے دل کی آنکھیں اسے پڑھتی رہتی ہیں! پھروہ وقت آتا ہے جب اسے پڑھتے پڑھتے آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں! پھر بال چاندی ہونے لگتے ہیں! چہرے پر جھریوں کا قافلہ اترنے لگتا ہے! ایسے میں وہ وقت زیادہ شدت سے یاد آتا ہے جب پوتے یا نواسے کے طور پر‘ یا پوتی یا نواسی کی حیثیت سے شہزادوں اور شہزادیوں جیسی زندگی گزاری تھی! زمانہ‘ وقت کی شال اوڑھے سامنے کھڑا ہے! ایک انچ چلتا ہے تو برس گزر جاتے ہیں! پورا قدم اٹھاتا ہے تو ایک پوری زندگی افق کے اس پار اتر جاتی ہے!

2082
ء
 میں خدا اسے سلامت رکھے‘ زہرا ستر سال کی ہو گی! دادا کو زیر زمین منتقل ہوئے نصف صدی بیت چکی ہو گی! اس کے خوبصورت ‘ نرم‘ ریشمی بالوں میں نقرئی جھلک آ چکی ہو گی! وہ اپنے پوتوں اور نواسیوں کو بتایا کرے گی کہ بچو! تم کیا جانو! میں تو شہزادیوں کی طرح تھی! ایک آنسو بحرالکاہل کے کنارے‘ آنکھ سے ٹپکا تھا تو ہزاروں میل دُور‘ ہمالیہ کے جنوبی دامن میں‘ دادا رات بھر تڑپتا رہا تھا اور چاہتا تھا کہ اڑ کر میرے پاس پہنچ جائے! میرے ہاتھ سے کھینچی ہوئی بے معنی لکیریں اس کے لیے صحیفے کی حیثیت رکھتی تھیں ؎

یوں تھا کہ میں بھی چاند تھی‘ دادا مرا بھی تھا
اک پیڑ تھا اور اس پہ الوچے لگے ہوئے

وہ میرے ننھے ننھے جوتوں کو سنبھال کر رکھتا تھا۔ میرے ایک ایک کھلونے کی حفاظت کرتا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا تھا۔ میرے ابا نے جب مجھے ڈانٹنا ہوتا تو میرے دادا سے چُھپ کر‘ ڈانٹتا تھا۔ یہی کہانی ہمارے ہاں نسل درنسل چلی آ رہی ہے۔ اس لیے کہ جب ابا کو دادا نے ڈانٹنا تھا تو اسے لے کر بالائی منزل پر گئے۔ مڑ کر دیکھا تو ابا کے دادا بھی پیچھے پیچھے آ رہے تھے کہ پوتے کو ڈانٹ سے بچا سکیں!!

ہر شخص اتنا خوش بخت نہیں کہ اُسے یہ میوہ نصیب ہو! دنیا کی بڑی سے بڑی آسائش اس لذت کے سامنے ہیچ ہے! اس آسمانی درخت کی چھائوں عام نہیں! خاص ہے! نصیب اچھا ہے تو میسر آئے گی! میسر آئے تو بخت پر ناز کیجیے کہ یہ نعمت زور سے اور زر سے نہیں ملتی! اس درخت کا تنا چاندی کا ہے۔ پتے لعل و جواہر ہیں! اس پر بہشتی پھل لگے ہیں۔ کیا خوبصورت پرندے ہیں جو اس کی سنہری شاخوں پر بیٹھے ہیں! پروردگار کا شکر ادا کیجئے جس نے آپ کو ایک خاص مراعات یافتہ 
Elite
کا رکن بنایا ہے
۔ ؎

پو توں نواسیوں کے چمن زار واہ!واہ
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Saturday, October 20, 2018

سال درکار ہیں یا نوری سال ؟



جرم کا علم اس کے گھر والوں کو دوسرے دن ہی ہو گیا تھا۔

قتل کے دوسرے دن ٹیلی ویژن چینلوں پر فوٹیج دکھائی جا رہی تھی۔ چھوٹے بھائی نے فوٹیج دیکھ کر اسے پہچان لیا، گھر والوں کو بھی بتا دیا۔ یہ انکار کرتا رہا اور کہتا رہا کہ اس کا کوئی ہم شکل ہے جو فوٹیج میں نظر آ رہا ہے، تاہم اس نے ماں کو دودن بعد ساری بات بتا دی۔ ماں نے ٹوپی اور جیکٹ اتروا کر چھپا دی۔ رفتہ رفتہ بات رشتہ داروں تک پہنچ گئی۔ کچھ کا خیال تھا کہ پکڑوا کر ایک کروڑ روپے کا انعام لیں اور خاندان کے غربت زدہ حالات سنوارلیں مگر ماں سب کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی پھر محلے میں ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے آ گئے۔ اس نے بھی ٹیسٹ کروایا اور پاک پتن بھاگ گیا۔ واپس آیا تو ماں نے کئی دن تک گھر سے نہ نکلنے دیا

آٹھ معصوم بچیوں کی آبرو ریزی کرنے والے اور پھر قتل کر دینے والے مجرم کو پھانسی تو چند روز پہلے دے دی گئی ہے مگر ایک سوالیہ نشان فضائوں میں تیر رہا ہے۔ زینب اس کا آخری نشانہ تھی۔ زینب کا والد پھانسی گھاٹ کے پاس مجرم کا انجام دیکھ رہا تھا۔ یہ اور بات کہ باقی بچیوں کے والدین وہاں نہیں تھے۔

یہ قوم عجیب و غریب ہے۔ سارا زور تقریروں پر ہے اوراپنی تاریخ سے بار بار واقعات سن سنا کر فخر کرنے پر ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا واعظ خطیب، استاد، دانشور، لکھاری اور مبلغ ہو جس نے رسالت مآبﷺ کا یہ قول مبارک نہ سنایا ہو کہ فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ مگر عمل کا احوال یہ ہے کہ ہر خاندان، ہر قبیلہ، ہر گروہ، ہر صوبہ، ہر لسانی اکائی، ہر محکمہ، ہر ادارہ، مجرموں کو پناہ دینے پر یقین رکھتا ہے۔ ماں بچے کو قانون سے بچا رہی ہے۔ باپ بیٹے کو چھپائے ہوئے ہے۔ بہن بھائی کے جرم کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اہل مذہب اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکالنے پر آمادہ نہیں۔ جب بھی کسی واعظ کا جرم سامنے آتا ہے، ’’بزرگ‘‘ یا ’’اکابر‘‘ جمع ہو کر کوڑے کرکٹ کو قالین کے نیچے دھکیل دیتے ہیں۔ ایک معروف مذہبی شخصیت کی بیگم نے میاں پر سنگین الزامات لگائے مگر وہ اب بھی منبر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ایک واقعہ کچھ عرصہ قبل دارالحکومت میں پیش آیا تھا۔ ایک مسجد کے امام نے اوراق کی توہین کی تھی۔ اسے کیا سزا ملی؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔

سب سے ابتر صورت حال سیاسی جماعتوں کی ہے۔ ایان علی ہو یا ڈاکٹر عاصم، شہباز شریف ہو یا جہانگیر ترین یا کوئی اور، کوئی سیاسی جماعت نہیں چاہتی کہ قانون کا رخ اس کی صفوں کی طرف ہو۔ سب کو معلوم ہے کہ فلاں فلاں نے کرپشن کی ہے اور اتنی کی ہے مگر آہ و فغاں کیے بغیر سب مزے میں ہیں۔

زینب کے قاتل کی ماں ایک ان پڑھ یا مشکل سے نیم خواندہ عورت ہوگی۔ اسے کیا مطعون کیا جائے اور اس سے کیا شکوہ کیا جائے۔ جب اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور طبقہ بالا کے ارکان مجرموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ سیاست دانوں کے ڈیرے پولیس کے دائرہ اختیار سے کوسوں باہر ہیں۔ اشتہاری مجرم برسوں وہاں مقیم رہتے ہیں۔ سر پر کسی نہ کسی وڈیرے یا منتخب نمائندے کا ہاتھ ہوتا ہے۔ گائوں کے، تحصیل بھر کے اور ضلع بھر کے عوام کے علم میں ہوتا ہے کہ مجرم یہاں موجود ہے مگر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔

مجرموں کو پناہ دینے کا عمل دوطرفہ ہے۔ اگر مجرم کسی مفلوک الحال محلے میں رہنے والا غریب انسان ہے، جیسے زینب کا قاتل، تو اس کی ماں یا باپ یا رشتہ دار اسے چھپاتے ہیں اور قانون کی گرفت سے بچاتے ہیں۔ مجرم اگر امرا کے طبقے سے ہے تو پولیس خود تجاہل عارفانہ برتتی ہے، کبھی ڈر کے مارے، کبھی لالچ کے زیر اثر اور کبھی ’’تعلقات‘‘ قائم کرنے کے لیے۔

یہ چند برس پہلے کی بات ہے۔ ایک اہم ادارے میں ملازمت کرنے والے بڑے افسر کی کار چوری ہو گئی۔ اس کا جواں سال فرزند ایک دن بازار میں تھا کہ اسے اپنی گاڑی نظر آئی۔ اس نے فوراً والد کو فون کیا۔ والد نے کہا میں پہنچتا ہوں تم گاڑی پر نظر رکھو۔ ابھی گاڑی کا مالک یعنی جواں سال لڑکے کا باپ پہنچا نہیں تھا کہ کار چل پڑی۔ لڑکے نے فوراً باپ کو فون پر بتایا کہ ایک آنٹی کار ڈرائیو کرکے جا رہی ہیں۔ باپ نے ہدایت کی کہ پیچھا کرو۔ لڑکا تعاقب کرنے لگ گیا۔ گاڑی بازار سے باہر نکلی اور سڑکوں سے ہوتی ایک گھر کے سامنے رکی۔ بقول لڑکے کے آنٹی اتری اور گھر میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد باہر آئی، گاری میں بیٹھی اور قریب ہی ایک اور گھر میں چلی گئی۔ وہاں سے وہ باہر نہ نکلی۔ لڑکے کو جب یقین ہو گیا کہ یہ ’’آنٹی‘‘ کا گھر ہی ہوگا تو وہ پلٹا اور باپ کو لے آیا۔ باپ نے دیکھا تو یہ اسی کی غائب شدہ گاڑی تھی۔ خاتون سے بات کی تو اس نے دعویدار کو اندر آ کر گاڑی چیک کرنے کی اجازت ہی نہ دی۔ پھر ایک تیسرا شخص درمیان میں ڈالا گیا۔ اس نے مالک کی بتائی ہوئی نشانیوں کی مدد سے تصدیق کی کہ گاڑی وہی ہے۔ لوگ بااثر تھے۔ بہت زیادہ بااثر۔ خاتون پہلے جس گھر میں گئی تھی وہ اس کے انتہائی قریبی عزیز تھے اور بہت بڑی، بہت بڑی شخصیت تھے۔ خاتون بھی معروف کاروباری شخصیت تھی۔ گاڑی کے مالک نے بڑی شخصیت سے رابطہ کیا تو ان کا موقف واضح تھا کہ میرا اس معاملے سے کیا تعلق۔ رہی خاتون تو وہ بات کم کرتی تھی دھونس زیادہ جماتی تھی۔ بے بس مالک نے پولیس سے لے کر پریس تک ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہر تعلق آزمایا جو دوڑ دھوپ گریڈ بیس کے اس افسر سے ہو سکی کی، مگر نام سن کر ہر کوئی ٹھٹھک کر رہ جاتا۔ پھر پریس کے ایک رکن نے اسے بتایا کہ ہم کیمرہ لے کر ابھی تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ تصویر چھاپیں گے اور خبر بھی۔ مگر یہ جان لو کہ ہوگا کچھ نہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ گاڑی اس گھر میں نہیں تھی۔

یہ ایک مثال ہے جو اس کالم نگار کے ذاتی علم میں ہے۔ اگر نام افشا کئے جائیں تو بھونچال تو شاید نہ آئے مگر بھونچال سے کم بھی نہ ہو۔ کالم نگار کو یہ بھی یقین ہے کہ اگر وہ احمقانہ بہادری سے کام لیتے ہوئے نام لکھ بھی ڈ الے تو گاڑی کا مظلوم مالک منقار زیر پر ہو جائے گا۔ بھائی لوگو!

یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔

کب پہنچیں گے ہم اس اخلاقی بلندی پر جب ماں مجرم بیٹے کو پولیس کے حوالے کرے گی۔ پارٹی کے ارکان ووٹ کے ذریعے اپنی صفوں میں موجود مجرموں کو پارٹی سے نکال باہر کریں گے۔ جب پولیس موم کی نہیں پتھر کی ہوگی جسے موڑنا ممکن نہ ہوگا۔ ایسا کب ہوگا! کچھ نہیں معلوم! کتنے ہی سال درکار ہوں گے! کیا عجب کتنے ہی نوری سال درکار ہوں۔ اس وقت تو اخلاقی پستی کا یہ حال ہے کہ قاتل ہوں یا حرام کھانے والے، معاشرے میں ڈٹ کر، کھلے عام، ڈنکے کی چوٹ رہ رہے ہیں۔ وہ زمانہ لد گیا جب مجرم چھپتے پھرتے تھے۔


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Thursday, October 18, 2018

کیا اس زہر کا بھی کوئی علاج کرے گا؟



پانی جو جھیلوں‘ دریائوں اور سمندر میں تھا۔ گلی کوچوں میں آ گیا ہے۔ سیوریج کا غلیظ بدبودار پانی بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر پانی میں تحلیل ہو رہے ہیں۔ گھروں سے باہر آنے والا متعفن پانی اس میں مزید شامل ہو رہا ہے۔ ہر لمحہْ ہر گھڑی! بدبو میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عفونت سنڈاس میں بدل رہی ہے۔ یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب سانس لینا محال ہو جائے گا! گندے پانی میں کوڑے کرکٹ کے ساتھ انسانی لاشیں تیرتی ملیں گی!

مذہبی اختلافات آج سے نہیں‘ اس دن سے چلے آ رہے ہیں جس دن کرہ ارض پر مذہب وجود میں آیا۔ کیا عجب انسان اور مذہب نے اس دھرتی پر ایک ساتھ زندگی شروع کی ہو!

عہدِ رسالت تمام ہوا تو ان مقدس اور برگزیدہ ہستیوں کا دور شروع ہوا جنہوں نے شب و روز رسالت مآب ﷺ کی زریں معیت میں گزارے تھے۔ یہ حضرات بھی آپس میں اختلافات رکھتے تھے۔ تعبیر کا اختلاف! توجیہہ اور تشریح کا اختلاف! نکتہ نظر کا اختلاف! مگر یہ ایک دوسرے کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ یہ ایک دوسرے کی رائے جاننے کے لیے باقاعدہ اہتمام کرتے تھے۔

پھر ائمہ کرام کا دور آیا۔ امام ابو حنیفہ‘ امام مالک‘ امام جعفر صادق‘ امام احمد بن حنبل امام شافعی! ان میں سے کچھ ایک دوسرے کے استاد اور شاگرد بھی تھے۔ کیا مجال جو ایک دوسرے کے بارے میں کبھی ایک لفظ بھی توقیر سے گرا ہوا استعمال کیا ہو!!
پھر مناظروں کا دور شروع ہوا۔ مناظرے مجادلوں اور مناقشوں کی صورت اختیار کر گئے۔ وہ مسئلے زیر بحث آنے شروع ہو گئے جو مضحکہ خیز تھے۔ یہ روایت عام ہے کہ ہلاکو خان کا لشکر جرار جب بغداد میں داخل ہو رہا تھا اس وقت بغداد کی مسجد میں علماء کرام اس موضوع پر دھواں دھار مناظرہ فرما رہے تھے کہ کوّا حلال ہے یا حرام !!
شاہ ولی اللہ تک برصغیر میں کوئی دیو بندی تھا نہ بریلوی! پھر یہ مسلک وجود میں آئے۔ مسلک فرقوں میں تبدیل ہو گئے۔ اس زمانے میں غالباً فرنگی حکومت بھی یہی چاہتی تھی کہ مسلمان ترقی کا راستہ طے کرنے کے بجائے مسلکی جھگڑوں میں پڑے رہیں! ؎

ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

چنانچہ مسلکوں کی باہمی لڑائی فرنگی عہد میں شروع ہوئی اور پھر روز بروز‘ سال بسال بڑھتی رہی۔ مناظروں کا کلچرایک کنارے سے دوسرے بارڈر تک پورے برصغیر پر چھا گیا۔ سنی تھے کہ شیعہ‘ بریلوی تھے کہ دیوبندی‘ وہابی تھے کہ غیروہابی‘ سب آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے۔ حکمرانی انگریزوں کے پاس تھی۔ تعلیمی اور اقتصادی ترقی کا زینہ ہندو چڑھتے رہے‘ مسلمان مذہبی گروہ بندی میں مصروف رہے۔
پھر پاکستان بنا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مسلکوں‘ فرقوں اور گروہوں سے بالاتر ہو کراقتصادی ترقی پر توجہ دی جاتی۔ عوام کے مائنڈ سیٹ کو پستی سے باہر نکالا جاتا‘ مگر ہوا یہ کہ سارا زور مذہبی منافرت پر لگا دیا گیا۔ کہا یہ گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اب یہ سوال پیدا ہو گیا کہ کس کا لا الہ الا اللہ درست ہے اور کس کا غلط! چھوٹے بڑے مدارس اپنا اپنا ہفت روزہ اپنا اپنا ماہنامہ نکالنے لگے۔ ایسے ماہنامے‘ ایسے ہفت روزے صرف اپنے مسلک کی ترویج کرتے۔ ہر مکتب فکر اپنا جلسہ الگ کرنے لگا۔ بڑے بڑے اشتہار چھاپ کر شہر کے ہر درو دیوار پر چسپاں کئے جاتے۔ ہر عالم کو ان اشتہاروں میں مناظر اسلام لکھا جاتا۔ ان جلسوں میں ’’فریق مخالف‘‘ پر خوب لعن طعن کی جاتی۔ نعروں کی گونج آسمان تک سنائی دیتی۔ سامعین کو مشتعل کیا جاتا۔ تقریباً ہر مسلک کے کسی نہ کسی عالم پر حملہ ہوا۔

پھر کیسٹوں کا دور آیا۔ دکانوں پر جلسہ گاہوں میں لوگوں نے کیسٹوں کے ذریعے اپنے پسندیدہ عالموں کی اور مناظرہ بازوں کی تقریریں سنیں اور سنائیں۔ تاہم اب تک خیریت یہ رہی کہ متعفن پانی گلیوں کے اندر نہ آیا تھا۔ جلسوں میں وہی جاتے جن کا ’’ذوق‘‘ انہیں مجبور کرتا۔ مناظرے سننے بھی کوئی کوئی جاتا۔ زیادہ تر اہل علم ہی جاتے۔ کیسٹ ریکارڈر اور ٹیپ ریکارڈز تک رسائی بھی آبادی کے ایک تھوڑے سے حصے کی ہوتی۔

پھر آہستہ آہستہ بند ٹوٹنے لگے۔

انٹرنیٹ آ گیا۔ پھر یو ٹیوب نے اپنا سایہ کرہ ارض کے کونے کونے پر ڈال دیا۔ لیپ ٹاپ سے بات آئی پیڈ پر آئی اور آج …آج حالت یہ ہے کہ پندرہ کروڑ افراد کے ہاتھوں میں موبائل فون ہیں ان میں سے ساٹھ فیصد کے پاس دو دو موبائل فون ہیں۔ یہاں تک کہ 3۔جی اور 4۔ جی کی تازہ ترین ٹیکنالوجی بھی چھ کروڑ افراد تک پہنچ چکی ہے! وٹس ایپ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ ہمارا ریکارڈ ہے کہ ہم ہر ایجاد کو اس طرح’’استعمال‘‘ کرتے ہیں کہ شیطان پناہ مانگتا ہے! لائوڈ سپیکر کو دیکھ لیجیے۔ موبائل فونوں کے رات رات بھر کے ارزاں پیکیج دیکھ لیجیے۔فحش مناظر والی فلمیں (پورنو گرافی) دیکھنے میں گوگل کے سروے کے لحاظ سے ہمارا ملک پہلے نمبر پر ہے!

المیے کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ جو مسلکی اور فرقہ وارانہ آتش بازی مناظروں‘ جلسہ گاہوں ‘مدرسوں‘ مسجدوں اور امام بارگاہوں تک محدود تھی۔ اب گھر گھر‘ ہاتھ ہاتھ‘ پہنچ گئی ہے۔ فرقہ وارانہ تقریروں کے ویڈیو کلپ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں وٹس ایپ‘ فیس بک‘ میسنجر ‘ ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے رات دن ایک دوسرے کو بھیجے جا رہے ہیں! ان پڑھ اور نیم تعلیم یافتہ افراد یہ زہریلی تقریریں‘ یہ نعرے بازیاں یہ جوشیلے دعوے یہ فریق مخالف کو سبق سکھانے کی اپیلیں سن رہے ہیں اور شدید حد تک متاثر ہو رہے ہیں! ہر مسلک ‘ ہر مکتب فکر‘ ہر فرقہ سوشل میڈیا پر یلغار کئے ہوئے ہے! ایسی ایسی روح فرسا تقریریں گردش کر رہی ہیں کہ سن کر روح کانپ اٹھتی ہے اور ہڈیوں کے اندر گودا خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ سو خنزیر مل کر فلاں مسلک کا ایک پیروکار بناتے ہیں۔ کوئی آدھا آدھا گھنٹہ صرف اور صرف لعنت بھیجنے میں صرف کرتا ہے۔ کوئی گارنٹی دے رہا ہے کہ فلاں مسلک کے پیرو کار دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ ایک عالم دوسرے عالم کا ذکر یوں کرتا ہے کہ۔ ”وہ بھونکتا ہے۔ “۔ ایک نوجوان دستار پوش اپنی سینکڑوں ویڈیو پھیلا رہا ہے اور ہر ویڈیو میں کسی نہ کسی اختلافی مسئلے کو خوب خوب اجاگر کرتا ہے۔ خدا کی پناہ! یہ لوگ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے‘ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے‘ رفع یدین کرنے‘رفع یدین نہ کرنے اور اس قبیل کے درجنوں موضوعات پر اس طرح گھنٹوں صرف کر رہے ہیں جیسے یہ اختلافات کل پیدا ہوئے اور آج ان نام نہاد علما نے آخری حل پیش کرنا ہے!

یہ زہر پھیل رہا ہے۔ کیا کسی کو فکر ہے؟ کیا پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے؟ کیا منتخب نمائندوں کو معلوم ہے کہ اس ضمن میں انہیں فوراً قانون سازی کرنی چاہیے؟

کہیں ایسا نہ ہو کہ تاخیر ہو جائے اور کل مسلمانوں کے بجائے یہ ملک سُنیوں‘ شیعوں‘ دیو بندیوں‘ وہابیوں‘ بریلویوں سے بھرا ہوا ہو اور ہر شخص دوسرے فرقے کے پیروکار کو قتل کرنے کے درپے ہو۔ آج تو صرف واعظین جلسہ گاہوں میں ٹوکے لہرا رہے ہیں ایسا نہ ہو کل ہر ویڈیو کلپ کے ساتھ پانچ پانچ سو ٹوکے بھی ایک دوسرے کو بھیجے جا رہے ہوں!

Tuesday, October 16, 2018

روشنی مقدر ہو چکی


موسموں کا الٹ پھیر مقرر کردیا گیا ہے۔ گرما رخصت ہورہا ہے۔ سب کو معلوم ہے آنے والے مہینے سرد، تند ہوائوں کے ہیں۔ جھکڑ چلیں گے۔ درختوں کے پتے گریں گے۔ زرد خشک پتے! زرد خشک پتوں کے ڈھیروں پر چلنے سے کھڑکھڑانے کی آوازیں آئیں گی۔ پھول نہیں کھلیں گے۔ یہ وہ موسم ہیں جب برفانی وسط ایشیا کے باشندے چرم کے موزے پہنتے ہیں اور گھٹنوں کو چھونے والے لمبے جوتے۔ 

مگر خزاں ہمیشہ نہیں رہتی۔ خلاق عالم نے موسموں کا الٹ پھیر طے کر رکھا ہے تاکہ مخلوق اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے تیار رکھے۔ باغوں پر آئے ہوئے سختی کے دن بیت جائیں گے۔ بہار آئے گی، شگوفے پھوٹیں گے،کونپلیں نکلیں گی، صحنوں میں لگے ہوئے انار اور ریحان کے پودے گلبار ہوں گے۔ سبز گھنیرے پتوں سے لدی دھریکوں پر کاسنی رنگ کے پھول کھلیں گے۔ میرے گائوں کی دوشیزائیں کھنکھناتی چوڑیوں سے بھری باہوں سے گارا تیار کریں گی۔ پھر وسیع و عریض صحنوں میں گارا ڈال کر مٹی کا فرش بچھائیں گی۔ پھر گول پتھروں سے اسے یوں صیقل کریں گی کہ سنگ مر مر شرمائے گا۔ لکڑی کے نردبانوں پرکھڑی ہو کر دیواروں پر سفید پوچا ملیں گی۔ جھومتے درختوں سے پھل گریں گے، فصلیں لہلہائیں گی، کٹوروں میں چھلکتی سفید براق لسّی سیال چاندی جیسی ہوگی۔ شام کو ڈھور ڈنگر قریے کی طرف پلٹیں گے تو خوبصورت گردنوں کے ساتھ لٹکے گھنگھرئوں کی آوازیں بشاشت کی نوید سنائیں گی۔ 

موسم ایک سے نہیں رہتے۔ خزاں کا لمبا دور سخت سہی، مگر یہ طے ہے کہ باد برشگال کے بعد بادصبا نے آنا ہی آنا ہے ؎ 

دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے 
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے 
یہ ملک اس لیے نہیں بنا تھا کہ ہمیشہ ہی جھکڑوں طوفانوں میں آنکھیں بند کر کے کھڑا رہے اور تند ہوائوں میں سانسیں بے ترتیب ہوتی رہیں۔ نقب زنوں نے کیفرکردار کو پہنچنا ہے۔ رسی جتنی دراز ہو، ایک دن سمیٹ لی جاتی ہے۔ 

عمران خان غلطی پر غلطی کئے جا رہا ہے مگر ایک اطمینان ہر شخص کو ہے کہ وہ راہ زن نہیں، وہ قاطع الطریق نہیں۔ وہ گھات لگا کر نہیں بیٹھا ہوا کہ قومی وسائل گزریں تو جھپٹ پڑے۔ تاریخ غلطیوں کو معاف کردیتی ہے۔ غلطی کرنے والا اپنے آپ کو بدل لیتا ہے۔ مگر قافلوں کو لوٹنے والے کم ہی راہ راست پر آتے ہیں۔ لوٹی ہوئی دولت زنجیرپا بن جاتی ہے۔ اسے بچانے کے لیے نقب زنی کی مزید وارداتیں کرنا پڑتی ہیں۔ 

حیرت ہے ان بزرجمہروں پر جوضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ کر شہنائیاں بجانے پر اتر آئے ہیں۔ کیوں نہ اتریں، انہیں وہ شاداب چراگاہیں یاد آتی ہیں جن میں وہ بغیر روک ٹوک، بغیر حساب کتاب، رات دن، سبز میٹھی گھاس چرتے تھے۔ اڑن کھٹولوں پر حکمرانوں کے ساتھ سواری کرتے تھے۔ دربار تک ہمہ وقت رسائی تھی۔ الائچی کے پانی میں گندھے آٹے سے بنے ہوئے طلسمی داس کلچہ کھاتے تھے۔ شاہی دستر خوان پر شہد، دودھ اور بریاں گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے ان کی قابوں میں ڈالے جاتے تھے یا بیرونی دوروں سے لے کر ہیلی کاپٹروں کی اندرونی پروازوں تک۔ راتب خوروں کا ناپاک گروہ ساتھ ہوتا۔ کفش برداری کے اپنے مزے ہیں۔ یہ مزے خوب خوب لوٹے جاتے ہیں۔ 

سیاسی پارٹیاں اس کچی جمہوریت میں ارکان پر نظم مسلط نہیں کرسکتیں۔ ہرنشست پر امیدوار اپنا اپنا زور دکھاتے اور لگاتے ہیں۔ انتخاب جیتنے کی سائنس کا جو جتنا اطلاق کرسکے اتنا ہی کامیاب ٹھہرے۔ پھر نوزائیدہ حکومت کی اپنی پارٹی میں ابھرتے ہوئے اختلاف۔ کیا خبر، کتنوں نے ذاتی مایوسی سے مغلوب ہو کر پشت سے وار کر ڈالا۔ 

ضمنی انتخابات میں اونچ نیچ کچھ اور شے ہے۔ یہ پالیسیوں کو ماپنے والا بیرومیٹر نہیں۔ ابھی تو وادی سے راہزنوں کا صفایا کرنا ہے۔ یہ راہ زن، یہ نقب زن، اٹھائی گیروں کا یہ ٹولہ ادھر ادھر کے درّوں سے ہوتا، منظر نامے سے معدوم ہوگا، پھر بحالی ہوگی۔ بحالی میں وقت لگے گا۔ حکمران کی اپنی صنعتیں نہ ہوں، اپنی جاگیرنہ ہو، اپنا مفاد نہ ہو، اس کے اقربا اس کے گرد، کشکول اٹھائے، نہ کھڑے ہوں، سمندر پار محلات اور کارخانے کھڑے کرنے کا شوق نہ ہو تو جلد یا بدیر حالات درست ٹریک پر آ جاتے ہیں۔ 

مہاتیر کو سالہا سال لگے۔ تب جا کر ملائیشیا وہ ملک بنا جس نے دنیا میں عزت کمائی اور نام پیدا کیا۔ مہاتیر وزیراعظم بنے تو سلطان آف ملائیشیا کے اختیارات ترقی میں مانع تھے۔ متوازن بنانے میں وقت لگا۔ پھر نقصان اٹھاتے کاروبار کے سرکاری مراکز کو نجی شعبے کے سپرد کرنے میں مزید وقت لگا۔ ایئرلائنوں، یوٹیلیٹیز (Utilities)
 اور مواصلات۔ سب نجی شعبے کو منتقل کردیئے۔ نجی شعبے نے پیداوار خوب بڑھائی۔ حالات بدلنا شروع ہوئے۔ حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ پھر کارسازی کی طرف توجہ دی۔ دس سال۔ پورے دس سال لگے کارسازی کی صنعت کو پائوں جمانے میں۔ یہاں تک کہ ملائیشیا خطے میں کاریں بنانے کے حوالے سے سرفہرست ہوگیا۔ پھر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو کنٹرول کیا۔ 

لی کوان یو کو دہائیاں لگ گئیں، تب کہیں جا کر مچھیروں کی گندی بستی نے موجودہ سنگاپور کی شکل دھاری۔ کئی برس لگ گئے لی اور اس کے ساتھیوں کو اس فیصلے پر پہنچنے میں کہ معیشت کو مہمیز لگانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ یہ فیصلہ بہار آفریں ثابت ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے امریکی، جاپانی اور یورپی کمپنیوں نے سنگاپور میں دفاتر بنا لیے۔ یہاں تک کہ یہ چھوٹا سا جزیرہ الیکٹرانکس کا بہت بڑا برآمد کنندہ بن گیا۔ بہت بڑا مالی مرکز بننے کے علاوہ سنگاپور کرپشن سے بالکل پاک صاف ہوگیا۔ پاکستانی اساتذہ کو ہتھکڑی لگانے پر غوغا اٹھا ہے۔ کیا یہ کم جرم ہے ان اساتذہ کا کہ یہ نصاب سازی میں ملائیشیا اور سنگاپور کی ترقی کی داستان نہیں شامل کرتے۔ پاکستانی طلبہ یہ داستان پڑھتے تو معلوم ہوتاکہ ان دو ایشیائی ملکوں نے پسماندگی کے پہاڑ کو کس تیشے سے ریزہ ریزہ کیا۔ 

پتھر لعل بدخشاں بنتا ہے۔ کپاس کا بیچ معشوق کا گلوبند بنتا ہے اور شہید کا کفن۔ اون سے فقیر کی گدڑی تیار ہوتی ہے۔ بچہ شاعر بنتا ہے یا سکالر مگر حکیم سنائی کہتا ہے کہ اس کے لیے وقت درکار ہے۔ مہینے، سال اور کبھی کبھی عشرے۔ اس ملک نے افق سے ستارہ بن کر ابھرنا ہے۔ کل نہیں تو پرسوں۔ ایک دن ضرور! رہزنی کے آثار کو مٹانا پہلا قدم ہے، گرد اٹھے گی، یہاں تک کہ کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ پھر گرد بیٹھے گی، مطلع صاف ہوگا۔ روشنی اس سرزمین کا مقدر ہے۔ لوح محفوظ پر نقش ہو جانے والا مقدر!!


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Sunday, October 14, 2018

جیسی حکومت ویسے عوام‘ جیسے عوام ویسی حکومت


…………یہ کل تیرہ اکتوبر کا واقعہ ہے۔

اسلام آباد کے ایک مرکزی سیکٹر کا رہائشی علاقہ ہے۔ دونوں طرف مکان ہیں۔ درمیان میں سڑک ہے۔ صبح آٹھ بجے ایک مکان کی گھنٹی بجتی ہے۔ مکین باہر نکلتا ہے۔ پولیس کا اہلکار گیٹ پر کھڑا ہے۔
’’یہ گاڑیاں ہٹائیے! رُوٹ لگنے لگا ہے۔‘‘ 
گاڑیاں سڑک پر کھڑی تھیں نہ فٹ پاتھ پر! فٹ پاتھ اور مکان کے درمیان‘ خالی جگہ تھی جو مکان کا حصہ تھی۔ گاڑیاں وہاں پارک تھیں۔
’’گاڑیاں سڑک پر ہیں نہ فٹ پاتھ پر‘‘۔ آپ کو ان سے کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’بس حکم ہوا ہے کہ کوئی گاڑی سڑک پر نہ ہو‘‘ 
’’گزرنا کس نے ہے؟‘‘ 
’’یہ نہیں معلوم! مگر کوئی بڑا وی وی آئی پی ہے۔‘‘ 
’’لیکن نئے پاکستان میں تو یہ وی آئی کلچر۔ یہ روٹ سسٹم سب کچھ سنا تھا ختم ہو رہا ہے‘‘

اس پر پولیس اہلکار بے بسی سے ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ گھر کے مکین نے زیادہ بحث کی کہ گیٹ کے اندر جگہ نہیں‘ تو اہلکار نے دور ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے‘ عاجزانہ درخواست کی کہ وہاں کھڑی کر دیجیے۔ اس نے کہا کہ ’’ہماری مجبوری ہے۔ ہم تو خود بے بس ہیں‘‘ 

کل کے اس واقعہ میں‘ جو وفاقی دارالحکومت کے قلب میں واقع ہوا‘ ایک رمق بھر مبالغہ نہیں! مکین کو پولیس کے اہلکار پر رحم آیا۔ اس نے سوچا کہ یہ غریب‘ نہ جانے کس کس کی منتیں کر کے آیا ہو گا! اس نے دونوں گاڑیاں اس جگہ جا کر پارک کر دیں۔ جہاں اہلکار چاہتا تھا۔ 

دوسری طرف وزیر اطلاعات نے صاف بتا دیا ہے کہ بیورو کریسی کو حکومتی احکام پر عمل کرنا پڑے گا! گویا پرنالہ وہیں پر ہے جہاں تھا اور ’’جتھوں کی کھوتی اوتھے ای جا کھلوتی‘‘ یعنی گدھی جہاں کی تھی وہیں پہنچ گئی ہے! 

چلیے !مان لیا کہ اقتصادی اشاریے تبدیل کرنے میں وقت لگے گا۔ آبادی بڑھنے کی شرح‘ سالانہ ترقی کی شرح ‘ ڈیمو ں کی تعمیر‘ تعلیمی نظام میں تبدیلی اور کئی دوسرے مسائل ایسے ہیں جن کے حل کے لیے دن ‘ ہفتے اور مہینے نہیں‘ سال اور کبھی کبھی عشرے درکار ہوتے ہیں۔ مگر وی آئی پی کلچر اور پولیس میں مداخلت کا سدباب تو ایک حکم سے ہو سکتا ہے! 

اب یہ طے ہے کہ ایسا نہیں کیا جا رہا ! انہی صفحات پر رویا جا چکا ہے‘ دارالحکومت کے نئے ایئر پورٹ پر وی آئی پی کلچر شدومد سے مسلسل جاری ہے۔ نہ جانے اس پر کیا ایکشن ہوا۔ اگرچہ لگتا نہیں کہ ہوا ہو گا۔ اس لیے کہ ع

قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا 

باغ کودیکھ کر معلوم ہو ہی جاتا ہے کہ بہار کس رنگ کی ہے!! وزیر اعظم نے اپنے سارے دعوئوں کے باوجود‘ عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت کے ایشو پر ہتھیار ڈال چکے ہیں! اگر وہ ہتھیار نہ ڈالتے تو معاملہ سپریم کورٹ تک جاتا ہی کیوں؟ ان کی خاموشی اس امر کی شہادت دے رہی ہے کہ آئی جی پولیس کو ایک سائڈ پر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ کا پولیس افسروں کو طلب کرنا اور غیر متعلقہ شخص کو اس سارے معاملے میں وزیر اعلیٰ کی طرف سے درمیان میں ڈالنا۔ وزیر اعظم یہ سب قبول کر چکے ہیں۔ اقبال نے تو بہت پہلے وارننگ دے دی تھی ؎ 

زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا 
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی 

یہ تو حکومت کا رویہ ہے! عوام کا رویہ اس سے بھی زیادہ حوصلہ شکن ہے! جب بھی کسی کو جرم کے حوالے سے پکڑا جاتا ہے تو اس کے حمایتی اس کی خدمات گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ رہا جرم تو اُس کی بات ہی نہیں کرتے!میں اگر ڈاکٹر یا انجینئر ہوں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے کسی جرم میں نہیں پکڑا جائے گا؟ آخر میں نے اتنے مریضوں کا علاج کیا ہے۔ اتنی شاہراہیں اور اتنے پُل بنائے ہیں! جُرم جو بھی ہے اس پر گرفت نہیں ہونی چاہیے! 

مانا کہ پروفیسروں کو ہتھکڑی نہیں لگانی چاہیے تھی مگر جو الزامات ان پر لگے ہیں‘ ان کی چھان بین کیوں نہ کی جائے؟ عدالتوں میں انہیں طلب کیوں نہ کیا جائے! ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیوں کا بُرا حال ہے! اقربا پروری اور قانون شکنی عروج پر ہے! گروہی سیاست یونیورسٹیوں کے کلاس روموں تک سرایت کر چکی ہے! اساتذہ قوم کے مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں۔ اگر وہی قانون کی دھجیاں اڑائیں گے تو ان کے شاگرد کل عملی زندگی میں کیا گل کھلائیں گے؟ اگر وہ استاد ہیں‘ اگر وہ عمر رسیدہ ہیں‘ اگر وہ عصادر دست ہیں تو ان کا احترام واجب ہے۔ ہتھکڑی نہیں لگنی چاہیے‘ پولیس کارویہ مودبانہ ہونا چاہیے۔ مگر خدارا انہیں فرشتہ تو نہ ثابت کیجیے۔ آخر کار وہ انسان ہیں یہ اور بات کہ انسان سازی پر مامور تھے! ایمرجنسی اختیارات کو 2175بار استعمال کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ منظور شدہ فیس طلبہ سے 62کروڑ‘ منظور شدہ سے زیادہ وصول کرنا‘ پرائیویٹ سب کیمپسز کو اتنی کھلی چھٹی دینا کہ وہ کروڑوں کی واجب الادا رقم ادا ہی نہ کریں۔ ایسے پروگراموں میں داخلے دے دینا جو یونیورسٹی میں پڑھائے ہی نہیں جا رہے۔ ایسے منصوبے شروع کر دینا جن میں فائدے کے بجائے نقصان کا احتمال ہے۔ ساری کاغذی کارروائی ایک ہی دن میں مکمل کر کے من مانے کام کرنا‘ بغیر اشتہار کے سینکڑوں ملازمتیں بانٹ دینا اور اس کے علاوہ کئی غیر قانونی کام کرنا اور پھر حواریوں کا اور ہم خیال ساتھیوں کا احتجاج کرنا۔ یہ تعلیم یافتہ اور قانون پسند لوگوں کا رویہ نہیں! 

ایک عالی منصب ’’استاد‘‘ کے بارے میں ثقہ راوی بتاتے ہیں کہ ایک ہی تقریر من و عن‘ لفظ بہ لفظ ‘ ہر جگہ کرتے ہیں! اہل علم کی شان ایسی نہیں ہوتی!ایسی حرکتیں اساتذہ نہیں دغل کار اور حیلہ گر کرتے ہیں! 

یوں بھی حیلہ گری بہت کچھ کر دکھاتی ہے! سرکاری یونیورسٹی ہو تو اُس پر مافیا کی طرح چھا جائیے۔ پورے نظام کو یرغمال بنا لیجیے۔ اساتذہ کو بے بس کر دیجیے! کچھ کو حواری بنا لیجیے کیمپس کو سیاسی جماعت کا گڑھ بنا لیجیے۔ مگر نجی یونیورسٹی ہو اور اپنی ہو تو رویہ مکمل طور پر بدل لیجیے۔ یہاں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہ دیجیے۔ جب زمینوں کا کاروبار کرنے والے اور پراپرٹی ڈیلر مصلحین کا روپ دھار لیں گے تو حیلہ گری اور دوغلے پن کے علاوہ کیا نظر آئے گا!! ؎ 

ان ظالموں پہ قہر الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Saturday, October 13, 2018

ایک فقرے کی مار


شہزادہ امریکہ میں سفیر مقرر ہوا تو سفارت کاری کی تاریخ میں تو کوئی معجزہ برپا نہ ہوا مگر خریداری کی دنیا میں انقلاب ضرور آ گیا۔
اٹھائیس برس کا نوجوان جو پائلٹ تھا امریکہ جیسے ملک میں سفیر مقرر ہوا۔ یہ وہ ملک ہے جس میں سفارت کاری کے لیے ان افراد کو تعینات کیا جاتا ہے جن کے سر کے بال اڑ چکے ہوتے ہیں۔ بھویں تک، سفارت کاری کے شعبے میں کام کرکے سفید ہو چکی ہوتی ہیں۔ جن کے بیسیوں سفیروں سے ذاتی تعلقات ہوتے ہیں، مگر آہ! اگر کوئی حکمران اعلیٰ کا بیٹا ہو تو پھر سارے معیار منسوخ ہو جاتے ہیں۔
شہزادے نے آتے ہی ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر کا محل خریدا جو واشنگٹن ڈی سی کے مضافات میں واقع ہے۔ اسی لاکھ ڈالر اس کے علاوہ خرچ کئے۔ سفر کے لیے وہ 767 لگژری جیٹ استعمال کرتا ہے۔ والد گرامی کے اثاثوں کی قیمت سترہ ارب ڈالر ہے۔ شہزادے نے ایک سفر میں پانچ سو چھ ٹن سامان ساتھ رکھا۔ اس سامان میں دو مرسڈیز کاریں اور برقی سیڑھیوں کے دو سیٹ بھی شامل تھے۔
یہ محل، جس میں آٹھ بیڈ روم ہیں اور جو سفیر بننے سے دو ماہ پہلے ڈھونڈ لیا گیا، شہزادے کو اس وقت پسند آیا جب وہ جارج ٹائون یونیورسٹی میں طالب علم تھا۔ دو ماہ بعد دنیا نے دیکھا کہ وہ سفیر مقرر ہو چکا تھا۔ اس محل کے اندر تھیٹر ہے۔ کھیلوں کے میدان ہیں۔ سوئمنگ پول ہے جس کے آگے پیچھے نظروں کو خیرہ کرنے والے ستون اور برآمدے ہیں۔ سفر کرنے کے لیے جو جہاز لیا جاتا ہے اس کا کرایہ تیس ہزار ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ اس جیٹ جہاز میں 63 نشستیں ہیں۔ دفتر ہیں اور بہت بڑا بیڈ روم ہے۔ ساڑھے چھ کروڑ ڈالر اس جہاز کی قیمت ہے۔
بادشاہ سلامت گزشتہ سال جب بالی کے جزیرے میں تفریح کے لیے تشریف لے گئے تو چار سوساٹھ ٹن سامان ہمراہ تھا۔ وفد میں چھ سو بیس افراد تھے۔ آٹھ سو مندوب اس کے علاوہ تھے جن میں دس وزیر تھے اور پچیس شہزادے۔ جکارتہ کے لیے ستائیس پروازوں اور وہاں سے بالی کے لیے 9 پروازوں میں یہ سب کچھ پہنچا۔ انڈونیشین پولیس کے اڑھائی ہزار نوجوان پہرے پر مقرر تھے۔ اخراجات کا محتاط تخمینہ تین کروڑ ڈالر تھا۔
کچھ عرصہ پہلے بادشاہ سلامت نے فرانس میں تفریح منانے کا پروگرام بنایا۔ ایک طویل ساحل (بیچ) ان کے لیے مخصوص کیا گیا جہاں فرانسیسی عوام کے جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ لاکھوں فرانسیسیوں نے تحریری درخواست کے ذریعے احتجاج کیا تو تعطیل کا پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔ 
جب تفریح کا یہ معیار ہو، جب کاریں خالص سونے کی ہوں، جب ہوائی جہازوں کے اندر محلاتی خواب گاہیں دالان، غلام گردشیں اور بارہ دریاں ہوں، جب پورے پورے جزیرے خرید لیے جائیں تب عزت کا گراف اوپر نہیں نیچے کا رخ کرتا ہے اور مسلسل گرتا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی صدر اپنے عوام کو جلسہ عام میں خوش خبری دیتا ہے کہ ’’میں نے بادشاہ کو بتا دیا کہ امریکہ تمہارے سر پر سے ہاتھ اٹھالے تو دو ہفتے بھی تمہاری حکومت زندہ نہ رہ سکے۔‘‘
یہ ہے اس نشاۃ ثانیہ کا اصل چہرہ جس نے پورے عالم اسلام کو اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے۔ دنیا بھر کو فتح کرنے کا خواب، کبھی لال قلعے پر اور کبھی وائٹ ہائوس پر پرچم لہرانے کا دعویٰ۔
دوسروں کو کافر قرار دینے کی فیکٹریاں دن رات چل رہی ہیں۔ فخر سے اعلان کیا جاتا ہے کہ ’’خودکش جیکٹ‘‘ ہماری ایجاد ہے۔ اپنے عوام کو تزک و احتشام دکھانے والوں، سجدہ ریز ہونے کے لیے حرم کی حدود کے اندر محلات بنانے والوں کی حقیقت کیا ہے؟ جھاگ! جو فوراً بیٹھ جائے، ریت! جو ایک ہی ریلے میں بہہ جائے، عکس! جو آئینے پر پانی کے دو قطرے پڑنے سے دھندلا جائے۔ امریکی صدر کا ایک فقرہ اور شان و شوکت تزک و احتشام جاہ و جلال دھڑام سے نیچے آ گریں۔
اور امریکی صدر کے پاس کیا ہے؟ یہ دھمکی اس نے اس لیے نہیں دی کہ اس کے غسل خانوں کے دروازوں کے ہینڈل اور پانی کھولنے اور بند کرنے کی ٹونٹیاں سونے کی بنی ہیں۔ اس امریکی صدر کی بہشت پر صدیوں کی محنت شاقہ ہے جو امریکی عوام نے کی ہے۔ وہ درجنوں امریکی سربراہ ہیں جو عوام سے تھے اور اقتدار سے ہٹنے کے بعد پھر عوام میں واپس آ جاتے تھے اور آ جاتے ہیں۔ وہ نظام ہے جو صدر کو اس لیے کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے کہ اس نے عوام سے جھوٹ بولا۔ وہ عدالتیں ہیں جن پر کوئی حکمران حکم نہیں چلا سکتا۔ انتخابات کا وہ مستحکم نظام ہے جو چار سال بعد حکمران کو تبدیل کر کے رکھ دیتا ہے جو دوبار سے زیادہ کسی کو صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔


جو قوم ہوائی جہاز ایجاد کرے، جو پوری دنیا کے بہروں کو آلہ سماعت کا تحفہ دے جس نے انٹرنیٹ، ای میل اور موبائل فون ایجاد کئے، پہلا کمپیوٹر بنایا۔ راستہ ڈھونڈنے کا آلہ (جی پی ایس) ایجاد کیا۔ اسی کا سربراہ ایسی دھمکیاں دے سکتا ہے۔ پچپن مسلمان ملکوں کے سربراہ اور عوام یہ دھمکی سن کر، دبک کر، بیٹھ گئے۔
لیزر پرنٹر، ڈیجیٹل کیمرہ، خلائی شٹل، تھری ڈی پرنٹنگ، آنکھوں کے اندر لگائے جانے والے لینز، وائی فائی، جگر کی پیوندکاری، فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب، آئی فون، کیا ہے جو امریکہ نے دنیا کو نہیں دیا۔
آپ امریکی نظام کا استحکام دیکھیے کہ یونیورسٹیوں نے جو تاریخیں داخلے کی، امتحانات کی، فارغ التحصیل ہونے کی مقرر کیں وہ صدیوں سے جوں کی توں ہیں۔ کبھی تبدیل نہیں ہوئیں۔
ہمارے مقدس ترین شہر کے ہوائی اڈے پر مسافر قطار میں کھڑے تھے۔ اپنے اپنے پاسپورٹ دکھا کر بورڈنگ کارڈ لے رہے تھے۔ ایک شخص دمکتی عبا پہن کر آتا ہے اور سیدھا کائونٹر پر جا کر سب سے پہلے بورڈنگ کارڈ لیتا ہے۔ ایک مسافر احتجاج کرتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ عبا والا فلاں خاندان سے ہے۔ خاموش ہو جائو ورنہ پانچ منٹ میں ایسی جگہ پہنچا دیئے جائو گے جہاں کسی کوسراغ تک نہیں ملے گا۔
قوموں کو استحکام، عزت اور برتری انصاف، تعلیمی نظام اور مساوات سے ملتی ہے۔ جہاں شاہی خاندان عوام کی دولت کو ذاتی دولت سمجھیں جہاں نظام، سسٹم، وجود ہی نہ رکھتا ہو اس ملک کا کیا وقار اور کیا عزت۔
سر کے نیچے اینٹ رکھنے والے عمرؓ کو ڈھونڈو عید کے دن سوکھی روٹی تناول فرمانے والے علیؓ کو تلاش کرو، ورنہ بدبختو! پیٹھ پر ٹرمپ کے کوڑے کھاتے رہو۔





Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Thursday, October 11, 2018

فیشن سٹار کا آخری پیغام


کیوبا سے سبھی واقف ہیں۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے جنوب میں واقع ملک، کیوبا، کیریبین جزائر کا حصہ ہے۔ یہاں اور ممالک بھی ہیں جو نسبتاً کم معروف ہیں۔ انہی میں ایک ملک ڈومینیکن ری پبلک ہے۔ ہسپانوی زبان بولنے والا یہ ملک کبھی ہسپانیہ کے قبضے میں رہا، کبھی اپنے پڑوسی ملک ہیٹی کے اور کبھی امریکہ کے!

کیرزادہ روڈ۔ ری گوئز 1978ء میں یہیں پیدا ہوئی۔ پہلے ملازمت کرتی رہی۔ اس ملازمت کے دوران اس نے انٹرنیٹ پر اپنا بلاگ آغاز کیا۔ اس میں تازہ ترین فیشن کے حوالے ہوتے تھے۔ ساتھ ہی اس نے بوطیق شروع کر دی۔ ہر تین ماہ بعد لاس اینجلز جاتی اور بوطیق کے لیے تازہ ترین فیشن کے ملبوسات جوتے اور پرس خرید کر لاتی۔

فیشن سے دلچسپی لینے والوں کے لیے وہ ایک آئیڈیل شخصیت تھی۔ اپنے دن کی ابتدا ساڑھے پانچ بجے جم جا کر ورزش سے کرتی۔ ایک بیٹی تھی۔ اس پر پوری توجہ دیتی۔ بلاگ زیادہ مقبول ہونے لگا تو ملازمت کو خیر باد کہا اور فُل ٹائم بلاگر بن گئی۔ پانچ لاکھ سے زیادہ اس کے فین یعنی دلدادگان تھے۔ امریکہ کے تمام فیشن میگزین اس کی سرگرمیاں شائع کرتے تھے، انٹرویو لیتے تھے۔ ٹیلی ویژن شوز میں بھی ہر جگہ وہ موجود رہتی۔

دس ماہ پیشتر اسے بتایا گیا کہ اُسے معدے کا کینسر ہے۔ جو ابتدائی مراحل سے گزر کر خطرناک حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ کیرزادہ نے علاج شروع کر دیا مگر اپنے معمولات میں فرق نہ آنے دیا۔ بوطیق چلاتی رہی، بلاگ پر اپنے دلدادگان کے لیے مسلسل لکھتی رہی۔ ورزش اور فیشن کی تلقین کرتی رہی اور اپنے پڑھنے والوں کو کہتی رہی کہ زندگی میں رویہ مثبت رکھیں۔ اس عرصہ میں اپنی بیماری کے متعلق بھی جب علاج کارگر نہ ہوا تو اس نے لکھا: ’’میں کیموتھراپی بند کر رہی ہوں کیوں کہ فائدہ نہیں ہو رہا۔ میں زندگی کے باقی دن اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ رہ کر لطف اندوز ہونا چاہتی ہوں۔‘‘ کیمو تھراپی سے سر کے بال اتر گئے تو وِگ پہنی نہ اپنے گنجے سر کو چھپایا۔ دس ماہ لڑنے کے بعد 9ستمبر 2018ء کو وہ ہار گئی اور کینسر جیت گیا۔ یہ سب تمہید تھی۔ اصل بات جو بتانی ہے اس کا آخری پیغام ہے جو اس نے اپنے چاہنے والوں کو دیا۔ ذرا غور سے پڑھیے۔

’’باہر میری نئی نویلی قیمتی کار کھڑی ہے مگر وہ میرے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ میرے پاس بہترین ڈیزائنر ملبوسات، بیگ اور جوتے ہیں مگر وہ بھی میرے لیے بیکار ہیں۔ بینک میں بہت سا پیسہ پڑا ہے وہ بھی میرے کام نہیں آ سکتا۔ میری ملکیت میں بہت بڑا گھر ہے جو بہترین فرنیچر سے آراستہ ہے، یہ بھی میرے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ مجھے دیکھو! میں ہسپتال میں، ایک بستر پر پڑی ہوں۔ چاہوں تو کسی بھی دن جہاز چارٹر کرا سکتی ہوں مگر وہ بھی تو بیماری میں کوئی مدد نہیں دے گا۔ چنانچہ کسی کو کبھی اس امر کی اجازت نہ دو کہ وہ تمہیں احساس دلائے فلاں شے تمہارے پاس نہیں! جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے، اس سے لطف اٹھائو اور خوش رہو۔ اگر تمہارے سر پر چھت ہے تو کوئی یہ سوچے گا نہ دیکھے گا کہ اندر فرنیچر کیسا ہے۔ زندگی میں سب سے زیادہ اہم شے محبت ہے۔ فقط محبت! اور آخری بات، اس بات کو یقینی بنائو کہ جن سے تم محبت کرتے ہو، ان کے ساتھ اچھا وقت بھی بسر کرو۔‘‘

ایک بے خدا کیرزادہ کو وہ بات معلوم تھی جس کا ہم نام نہاد اہلِ ایمان کو نہیں پتہ! رات دن سڑ رہے ہیں، کسی کے پاس کوئی شے دیکھیں جو ہمارے پاس نہیں تو جل کر کوئلہ ہو جاتے ہیں۔ حسد دل کے اندر نارِ جہنم کی طرح دہک رہا ہے۔ اپنی آگ میں خود ہی بھسم ہو رہے ہیں۔ فلاں کا مکان ایسا ہے۔ فلاں کی گاڑی بڑی ہے، فلاں کے بچے بیرون ملک پڑھ رہے ہیں۔ فلاں کا منصب عالی شان ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ بڑا مکان، بڑی گاڑی، بیرون ملک پڑھتے بچے اور بلند منصب، خوشی کی گارنٹی نہیں۔ تفتیش کرتے ہیں تو منہ کی کھاتے ہیں۔ بڑے مکان والا رو رہا ہے کہ بھائیں بھائیں کرتا محل جن کے لیے بنایا تھا وہ باہر سے پلٹ کر آ ہی نہیں رہے۔ جہازی سائز کی کار والا ایک چپاتی نہیں ہضم کر سکتا۔ بڑے منصب والے کو اس کے ما تحت رات دن جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہے ہیں۔

جو نعمتیں میسر ہیں، وہ نظر نہیں آتیں۔ اپنے آپ پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ شیخ سعدی نے لکھا ہے، کہیں جا رہے تھے۔ جوتے نہیں تھے۔ رنجیدہ خاطر تھے۔ شاید پروردگار سے شکوہ کناں بھی۔ راستے میں ایک شخص کو دیکھا جس کے پائوں ہی نہیں تھے۔ نادم ہوئے اور شکر بجا لائے۔

انہیں دیکھیے جو گردہ بیچ کر معیشت کی تنگی کو کشادہ کرتے ہیں، وہ بھی کچھ دیر کے لیے، وہ بھی ہیں جو گردوں کو مشین سے ہفتے میں دوبار صاف کراتے ہیں اور لاکھوں روپے لگاتے ہیں۔ آپ چل پھر رہے ہیں، بھوک لگتی ہے، نیند آتی ہے، سانس کی ڈوری چل رہی ہے،دل دھڑک رہا ہے، جگر کام کر رہا ہے۔ دورانِ خون صحت مند ہے اور کیا چاہیے۔ بچے نارمل ہیں، انہیں دیکھیے جن کے گھروں میں ایک نہیں، دو دو تین تین جسمانی طور پر اپاہج اور دماغی طور پر ناکارہ بچے لیٹے ہیں۔ ماں باپ ہِل نہیں سکتے۔ ایک مستقل روگ ہے جو زندگی کو مسلسل کاٹ رہا ہے۔

مادی خوشحالی کے لیے محنت کرنا جرم نہیں۔ عمودی ترقی
(Vertical Mobility)
کے لیے کام کرنا ہر شخص کا حق ہے۔ یہ واعظین جو غربت کے فضائل بیان کرتے ہیں، چندہ غریبوں سے نہیں، امرا سے مانگتے ہیں۔ مگر مادی خوشحالی کی دھن میں نفسیاتی مریض بن جانا قابلِ مذمت ہے۔ کُڑھنا، حسد کرنا، خوشحالی ہونے کے لیے حرام جمع کرنے پر اتر آنا، مادی طور پر تو کیا خوشحال کرے گا، ذہنی طور پر بھی لعنت زدہ کر دے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے نواز شریف، زرداری صاحب، ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، یہ سب معززین کیا خوش ہیں؟ آئے دن عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں۔ برائی کا ذکر ہو تو مثالیں ان کی دی جاتی ہیں۔ ان کے چہروں کو غور سے پڑھیے۔انہوں نے سامانِ تعیش جمع کیا ہے۔ سامانِ تعیش
 (Comforts)
اور شے ہے
۔ خوشی اور شے!

؎ تڑپ نہ اتنا بھی کمخواب و پرنیاں کے لیے
سکونِ دل ہے میسر تو خاک پر سوجا

انگریزی، سنسکرت، لاطینی، رومن، فرانسیسی، جرمن، عربی، چینی، فارسی، اردو، ہندی، غرض دنیا کی ہر زبان میں لکھی گئی داستانیں، ناول، کہانیاں سب ایک مضمون کے حوالے سے مشترک ہیں۔ وہ یہ کہ مال و اسباب کے لیے بائولا کُتّا بن جانے کا انجام خوفناک ہے، اور ہمیشہ خوفناک، جس طرح سورج حرارت دیتا ہے جس طرح پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے، جس طرح بیج پھوٹ کر زمین سے باہر نکلتا ہے، اندر کی طرف نہیں، اسی طرح یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ وسائل اکٹھے کرنے کے لیے حسد، جھوٹ اور فریب کو بروئے کار لانے والا کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔

ایک اور اٹل حقیقت بھی ہے۔ برے مقصد کے لیے باہمی تعاون کرنے والے آخر میں ہمیشہ لڑ پڑتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ختم کر دیتے ہیں یا پکڑوا دیتے ہیں۔ عدالتی زبان میں انہیں وعدہ معاف گواہ کہا جاتا ہے۔


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Tuesday, October 09, 2018

خوشیاں منائو اے اہل پاکستان



شکیب جلالی نے کہا تھا: 

یہاں سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی 
کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا


کیا معلوم تھا کہ بہشت صرف چند فرسنگ کے فاصلے پر ہے 


اےاہل پاکستان! تمہارے درد کے دن ختم ہونے کو ہیں، یہ جو تم اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں، بیٹیوں کے فراق میں تڑپتے رہتے ہو، یہ جو تم ہفتے میں کئی بار سکائپ پر اور وٹس ایپ پر اور فیس ٹائم پر اور میسنجر پر سمندر پار رہنے والے عزیزوں سے باتیں کر کے جدائی کی پیاس بھڑکاتے رہتے ہو، اب اس کی ضرورت نہیں۔ انہیں کہو واپس آ جائیں، ان کے پاس امریکہ کی شہریت ہے یا یورپی ملکوں کی، جاپان کی یا آسٹریلیا کی، ان کے منہ پر ماریں، جہاز میں بیٹھیں اور اپنے وطن واپس آئیں۔ بہت ہو چکا سفید فام قوموں پرانحصار، قدرت نے ایک اور دروازہ کھولا ہے۔ 

قوم کے محسن، پاکستان سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے سیاسی عبقری، مسلم لیگ ن کے عظیم اتحادی میاں نوازشریف کے جگری یار اور عالم بے بدل فاضل اجل حضرت مولانا کے جڑواں ساتھی خان محمود اچکزئی نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغانستان کی شہریت حاصل کریں۔ فرمایا ہے کہ لاکھوں پاکستانی دوسرے ملکوں کی شہریت رکھتے ہیں تو پاکستان کے پشتون افغانستان کے شہری کیوں نہیں بن سکتے؟ 

پنجاب میں بسنے والے اور کاروبار کرنے والے لاکھوں پشتونوں کے لیے کتنی بڑی خوش خبری ہے کہ ظالم پنجابیوں سے انہیں نجات ملے گی۔ لاہور، ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی سے ہمارے پشتون بھائی قطار اندر قطار افغانستان جائیں گے اور وہاں شہریت لیں گے۔ کراچی سے بھی کروڑوں نہیں تو لاکھوں پشتون افغانستان جائیں گے۔ کیا ضرورت ہے انہیں کراچی کی دھوپ میں جلنے کی اور مرطوب آب و ہوا میں پھیپھڑوں کو زنگ آلود کرنے کی۔ 

صرف ایک التجا ہے محمود خان اچکزئی سے، گڑ گڑا کر التجا کرتے ہیں کہ خدارا یہ خوش خبری صرف پشتونوں تک محدود نہ رکھو۔ سارے پاکستانیوں کو افغانستان کی شہریت کا حقدار قرار دو۔ خدا تمہیں جزا دے۔ اچھی جزا، احسن الجزا۔ 

اب ہمارے بچے جو آکسفورڈ، ہارورڈ، کیمبرج، کولمبیا اور برکلے یونیورسٹیوں کے لیے پردیس کا بن باس کاٹتے ہیں، قندھار، خوست اور جلال آباد کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ اتوار کے دن بس میں بیٹھے اور چند گھنٹوں بعد راولپنڈی، کراچی یا لاہور پشاور پہنچ گئے۔ اس سے زیادہ خوش بختی کیا ہوگی۔ پیر کے دن صبح واپس۔ 

حیرت اس پر ہے کہ یہ روشنی محمود خان اچکزئی نے پہلے کیوں نہ دکھائی۔ پاکستانی قوم کب سے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ کوئی راہ نجات نہ تھی، ہمارے پروفیسر، ہمارے ڈاکٹر، ہمارے انجینئر، ہمارے آئی ٹی کے ماہرین، سفید فام ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر قطاریں باندھے کھڑے رہتے تھے۔ اب افغانستان کی شہریت کھلے گی تو دلدر سارے دور ہو جائیں گے۔ اے محمود خان اچکزئی! تمہارے منہ میں گھی شکر، قوم کا حقیقی محسن اگر کوئی ہے تو اے بطل جلیل، تم ہو، فقط تم۔ 

اب ہمارے ماہرین امراض قلب، یعنی کارڈیالوجسٹ، ہمارے سرجن، ہمارے آئی سپیشلسٹ، اب ہیوسٹن، نیویارک لندن اور سڈنی کے ہسپتالوں کو خیرباد کہہ کر کابل کے اس بڑے ہسپتال میں کام کریں گے جوساری دنیا میں دل کے امراض کے لیے مشہور ہے۔ جہاں گردوں اور جگر کی پیوندکاری ہوتی ہے جہاں ہر روز ہزاروں مریضوں کے کامیاب آپریشن ہوتے ہیں۔ اور یہ ہمیں ٹیکنالوجی، لائف سیونگ ادویات، کاریں، ریفریجریٹر، ٹیلی ویژن سیٹ اور موبائل فون، دوسرے ملکوں سے درآمد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اب ہم افغانستاان سے منگوائیں گے۔ مگ طیارے ہوں یا تھنڈر جنگی ہوائی جہاز، ہرات اور مزار شریف کے کاخانوں سے ان کے پرزے ہمیں محمود خان اچکزئی سستے داموں دلوائیں گے۔ ہمارے مزدوروں کو افغانستان کی صنعتوں میں روزگار ملے گا۔ یہ جو جلال آباد، غزنی، بامیان، ہرات اور غور میں اتنی بڑی بڑی فیکٹریاں چل رہی ہیں، اب ہم پاکستانی، افغان شہریت حاصل کرنے کے بعد یہاں مزدوری کرنے کے اہل ہو جائیں گے۔ 

بس ایک گزارش ہے محسن قوم جناب محمود اچکزئی سے کہ سب سے پہلے آپ خود افغان شہریت لیں اور وہاں جا کر مقیم ہو جائیں۔ یہ جو آپ نے عذر پیش کیا ہے کہ آپ افغان پاسپورٹ بنوانا چاہتے ہیں مگر نہیں بنوا سکتے اس لیے کہ آپ پاکستان میں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو جان برادر، یہ کیا بات کی تم نے، پاکستانی انتخابات اور پاکستانی اسمبلی کی ممبری کی اوقات ہی کیا ہے۔ افغان شہریت کے سامنے، ارے بھائی، اچکزئی، کیوں ہیرے کے مقابلے میں انگار ےکو ترجیح دیتے ہو۔ دو حرف بھیجو پاکستانی انتخابات پر افغان شہریت لو، اس نعمت سے خدارا اپنے آپ کو محروم نہ کرو، وہاں جا کر ان پاکستانیوں کا استقبال کرو جو یونیورسٹیوں میں تعلیم پانے، ہسپتالوں میں علاج کرانے اور افغانستان کی صنعتوں میں روزگار تلاش کرنے پاکستان سے جوق در جوق پہنچیں گے۔ آپ کی وہاں سنہری موجودگی کا فائدہ پاکستانی نوواردوں کو بے حدو بے حساب ہوگا۔ چونکہ افغانستان کی محبت آپ کے رگ و ریشہ میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے، اس لیے آپ کے طفیل افغان قوم اور افغان حکومت پاکستانی ضرورت مندوں کو بہتر اسلوب میں خوش آمدید کہے گی۔ 

ایک کرم اور اس مفلوک الحال ملک پر کیجئے کہ جب آپ دنیا کے اس امیر ترین اور سب سے زیادہ پرامن ملک میں جائیں تو مولانا کو بھی ساتھ لے جائیے۔ ایک تو ان کا آپ کے بغیر دل نہیں لگے گا، دوسرے، انتخابات میں جس دھاندلی کا رونا آپ رو رہے ہیں اس میں آپ کے پارٹی ارکان کے مقابلے میں مولانا کی ایم ایم اے کے ممبران ہی تو جیتے ہیں۔ دونوں بھائی یہاں ساتھ ہیں تو وہاں بھی ساتھ ہی رہیے۔ 

اور ہاں آخری گزارش! جب آپ اپنی ارض موعود 
(Promised Land)
 میں جائیں تو ان ذات شریف کو بھی ساتھ لے جائیے جو آپ کے نظریہ کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں اور جنہوں نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں اعلان کیا تھا کہ

’’اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے۔ میری سیاست اسی نظریے پر چلے گی اور یہ کہ خان عبدالصمد اچکزئی نے نظریے کی جنگ لڑی۔‘‘ 

سوچیے! آپ اپنے پسندیدہ جنت نظیر ملک کو سدھار جائیں گے تو ان ذات شریف کا دل آپ کے بغیر کیسے لگے گا؟ ازراہ عنایت! انہیں ساتھ لے جائیے۔ انہیں بھی افغانستان کی شہریت دلوا دیجئے اور انہیں کہیے کہ لندن کی جائیدادیں فروخت کرکے وہیں، آپ کے ساتھ مقیم ہو جائیں۔



   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

 

powered by worldwanders.com