Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, August 30, 2018

ہم وزیر اعظم کے خیر خواہ ہیں


اس واقعے کو معمہ بنانے کی آخر کیا ضرورت ہے! 

اگر یہ معمہ ہے تو اسے حل کرنے کے لیے کسی شرلک ہومز کو قبر سے اٹھ کر آنے کی ضرورت ہے نہ کسی راکٹ سائنس کی۔ ایک کنجی ہے اس کنجی کو دروازے پر لگائیے۔ معمہ حل ہو جائے گا۔ مگر اس کنجی سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان بھی ڈر رہے ہیں اور سزا سنانے والے پولیس کے اعلیٰ حکام بھی!! ہر مسئلے کا ایک حل ہوتا ہے۔ ہر بند دروازے کی ایک کنجی ہوتی ہے۔ ہر معمے کو کھولنے کا ایک فارمولا ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہی تو ہے کہ جب معمہ حل نہیں ہو رہا تھا تو ایک شخص نے کنجی پیش کی کہ اگر کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہے تو عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے اور اگر کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور وہ سچا ہے!! 

کنجی یہ ہے کہ تین سوالوں کے جواب دیے جائیں۔ اقرار نہیں تو انکار کر دیا جائے۔ یہ انکار خواہ پنجاب حکومت کا ترجمان کر دے یا پولیس کے اعلیٰ حکام۔ 

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پولیس افسر سے کہا گیا کہ وہ بااثر شخصیت کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگے۔؟ 

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پولیس افسروں کو وزیر اعلیٰ کے دفتر میں طلب کیا گیا؟ 

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعلیٰ کے دفتر میں وہ غیر متعلقہ شخص موجود تھا جس کا نام 92ٹی وی چینل کے پروگرام میں دو معروف صحافیوں نے لیا ہے؟ 

یہ ہیں وہ تین سوال جن کا جواب اعلیٰ پولیس حکام کو دینا چاہیے یا پنجاب حکومت کو تاکہ وہ طوفان جو برپا ہے ختم ہو جائے۔ 

جن لوگوں نے عمریں سول سروس میں کھپا دیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سرکاری وضاحتی بیان کیسے ہوتے ہیں۔ پنجاب پولیس کے اعلیٰ حکام نے جو وضاحت جاری کی‘ وہ ایک
Typical
بیان ہے جس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔

نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اس امر کی تردید نہیں کی گئی کہ ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کا کہا گیا۔ اس بات کی بھی تردید نہیں کی گئی کہ پولیس افسروں کو وزیر اعلیٰ کے دفتر میں بلایا گیا۔ جب صوبائی وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ اس معاملے کا پنجاب حکومت سے کوئی تعلق نہیں تو انہیں یہ بھی کھل کر بتانا چاہیے کہ کیا پولیس افسروں کو وزیر اعلیٰ کے دفتر (یا گھر) بلایا گیا یا نہیں! 

اب اگر اس کنجی کو دروازے پر لگائیں تو ان تینوں باتوں سے پنجاب پولیس کے مدارالمہام انکار کر رہے ہیں نہ وزیر اعلیٰ کے ذرائع۔ خاموشی نیم رضا!یا تو کھل کر صاف انکار کیا جائے کہ ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کا نہیں کہا گیا نہ ہی وزیر اعلیٰ نے پولیس افسروں کو طلب کیا۔ اس صورت حال میں اور کوئی چارہ نہیں سوائے یہ تسلیم کرنے کے کہ پولیس افسر کو ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کا کہا گیا۔ وزیر اعلیٰ اس سارے معاملے میں پڑے اور ان کے ہاں غیر متعلقہ شخص بھی موجود تھا! ایسا نہ ہوتا تو صاف انکار کر دیا جاتا۔ 

اور یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پولیس افسر کے خلاف انکوائری کا حکم دیا گیا اور انکوائری رپورٹ آنے سے پہلے ہی اس کا تبادلہ کر دیا گیا؟ اتنی جلدی کیا تھی؟ کیا دیگر معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ انکوائری کا نتیجہ آنے سے پہلے ایکشن لے لیا جائے؟ 

ایک معروف اور ثقہ صحافی نے خبر دی ہے کہ اس معاملے میں ’’وزیر اعظم کے پرسنل سیکرٹری نے کلیم امام سے رابطہ ضرور کیا‘‘ اگرچہ محترم صحافی نے یہ بات اس حوالے سے کی کہ ’’بشریٰ بی بی اور عمران خان نے تو کسی سے بات ہی نہیں کی‘‘ تاہم ہر وہ شخص جسے اعلیٰ سطح پر سرکاری طریق کار کا ذرہ برابر بھی علم ہے اچھی طرح جانتا ہے کہ وزراء اعظم خود بات نہیں کرتے ان کے پرسنل یا پرنسپل سیکرٹری ہی بات کرتے ہیں ۔اگر وزیر اعظم کے سیکرٹری نے آئی جی سے بات کی تو کیا اپنے طور پر کی؟ یا وزیر اعظم کی ہدایت پر؟اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ وزیر اعظم کا سیکرٹری اتنے بڑے معاملے میں خود اپنے طور پر پڑے۔ پرسنل سیکرٹری جو کام کرتا ہے وزیر اعظم کے حکم پر ان کی طرف سے کرتا ہے بہر طور اس معاملے میں وزیر اعظم کے دفتر نے مداخلت کی!! 

اب ایک آخری کنجی رہ گئی ہے آئیے! اسے بھی دروازے میں لگاتے ہیں یہ ون ملین ڈالر سوال ہے اس پر غور کیجیے۔ اگر بااثر شخص کے بجائے کسی اور کو‘ کسی عام شہری کو‘ ناکے پر روکا جاتا جس کے ساتھ کم از کم ایک محافظ ضرور رائفل لہرا رہا تھا تو کیا تب بھی: 

1۔ پولیس افسر کو وزیر اعلیٰ کے ہاں طلب کیا جاتا؟ 

2۔ اسے ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کا کہا جاتا؟ 

3۔ انکوائری آرڈر کرنے کے فوراً بعد تبادلہ کر دیا جاتا۔ 

وہ جو عربی میں کہتے ہیں کہ فافہم فتدبر ! کہ غور کر اور بات سمجھ! تو غور کرنے اور سمجھنے کی بات ہے! 

اب آئیے وزیر اعظم کے ان نادان دوستوں کی طرف جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی تو صرف نو دن ہی ہوئے ہیں اگر نو دن بعد کوئی یہ کہے کہ ترقی نہیں ہو رہی معاشی مسئلہ حل نہیں ہو رہا جرائم کا گراف نیچے نہیں جا رہا؟ تو جواب میں بالکل معترض کو ہم یہ باور کرائیں گے کہ ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں مگر ایک خاص واقعہ جس میں وزیر اعظم کا سیکرٹری بھی دخل انداز ہوا ہے اور سابقہ حکومتیں جو کچھ ان مواقع پر کرتی تھیں بعینہ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے‘ تو اس میں نو دن یا نوے دن کی بات کرنا عذر لنگ ہے! سابق وزیر اعلیٰ ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کا کہے تو غلط! یہی کچھ اب ہو تو درست کیونکر قرار دیا جائے؟؟ 

یہی تو موقع تھا اس حکومت کو گزشتہ حکومتوں سے بہتر اور مختلف ثابت کرنے کا!! تصور کیجیے وزیر اعلیٰ براہ راست معاملے میں پڑ رہے ہیں۔ ضلعی سطح کے پولیس افسروں سے براہ راست ڈیل کر رہے ہیں ۔آئی جی کو درمیان سے نکال رہے ہیں یہی تو شہباز شریف کا وہ طریق کار تھا جس پر تنقید کی جاتی تھی! بات تو تب تھی اگر وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کا پرسنل سیکرٹری کہتے ہمارا اس میں کیا عمل دخل! پولیس کے صوبائی سربراہ کا دائرہ کار ہے! 

کیا عوام سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ پولیس کے کام میں پہلے دو ہفتے یا پہلے نو دن مداخلت ہو گی‘ اس کے بعد مداخلت بند ہو گی؟ 

ہم وزیر اعظم کی سرخروئی چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کسی کو ہوا میں زہر بکھیرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ یہ تاثر ہی کیوں عام ہو کہ کاروبار مملکت میں وزیر اعظم کے علاوہ کوئی اور بھی دخیل ہے؟ ایسا سوراخ نہ چھوڑا جائے جسے مخالفین کھلا کر کے پورا کمرہ بنالیں!!کیا یہ کوئی اچھی بات ہے کہ خلق خدا ‘ سابقہ فیملی کے حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں بول رہی ہے! جو کچھ بھی ہوا درست نہیں ہوا۔ غلط دفاع کرنے والے بھی جانتے ہیں۔ معاملے کو صحیح انداز میں ہینڈل نہیں کیا گیا! 

خدا کرے وزیر اعظم ایسی تمام آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ باہر نکلیں ! اور عوام کو یقین ہو جائے کہ اب کوئی بااثر شخصیت‘ جتنی بھی اعلیٰ کیوں نہ ہو‘ خصوصی سلوک کی مستحق نہیں ہو گی!


Tuesday, August 28, 2018

چمن تک آ گئی دیوار زنداں!ہم نہ کہتے تھے؟



عزیز گرامی سلیم صافی نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ 

’’فوری طور پر میڈیا کے احتساب کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جو میدان صحافت میں موجود کالی بھیڑوں کے چہروں سے نقاب اٹھا دے۔ یہ کمیشن آغاز ہم اینکروں سے کرے اور پہلی فرصت میں میرا معاملہ اس کمیشن کے سپرد کیا جائے۔ یہ کمیشن میرا اور میرے تمام خاندان کے تمام افراد کے اکائونٹس اور اثاثوں کی تحقیقات کرے بلکہ سادہ طریقہ یہ ہے کہ مجھ سے شروع کر کے تمام اینکرز اور معروف صحافیوں کے اثاثے سامنے لائے جائیں۔ اور پھر ہر ایک سے کہا جائے کہ وہ ثابت کرے کہ یہ اثاثے کہاں سے آئے ہیں؟ اس طرح وہ یہ معاملات بھی دیکھے کہ کس صحافی نے کس حکومت‘ پارٹی بزنس یا ٹائیکون سے کس شکل میں کیا فائدہ لیاہے؟ اگر کسی اینکر یا صحافی پر کسی بھی پارٹی‘ کسی بھی حکومت کسی بھی ایجنسی یا کسی بھی اہم فرد سے کسی قسم کا فائدہ لینے کا الزام ثابت ہو جائے یا وہ اپنے اثاثوں کو جسٹی فائی نہ کر سکے تو نہ صرف اس کی صحافت پر پابندی لگا دی جائے بلکہ اسے سخت سے سخت سزا بھی دی جائے۔ یہ حقائق بھی سامنے لائے کہ کون کون سا صحافی غیر ملکی سفارت خانوں میں جا کر ایک بوتل کے عوض اپنے اور ملک کی عزت بیچتا ہے۔‘‘ 

سلیم صافی ایک وضع دار نوجوان ہے۔ اپنے سے بڑوں کا احترام قبائلی روایات کا لازمی جزو ہے اور سلیم اسے التزام سے نبھاتا ہے۔ اس کے سیاسی میلانات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور مجھے بھی ہے مگر پیشہ ورانہ امور میں اکثر و بیشتر وہ کہنہ مشق اور پختہ نظر آیا ہے۔ ذاتی تعلقات کے باوجود کچھ عرصہ پہلے اس نے مولانا فضل الرحمن کا جو انٹرویو لیا، وہ خاصے کی چیز تھا۔ ایسے کڑے اور کھرے سوالات کئے کہ مولانا محترم کے لیے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ تھا۔ 

وزیر اعظم سے مطالبہ بجا۔ مگر میڈیا تو خود سب سے بڑا محتسب ہے! وہ نیب کا احتساب کرتا ہے۔ سیاست دانوں کا کچا چٹھا سامنے لاتا ہے۔ جرنیلوں کو نہیں معاف کرتا۔ بیورو کریسی کو ملنے والی گاڑیوں اور پلاٹوں کی تفصیل‘ مع نام‘ بیان کرتا ہے۔ وکیلوں اور ڈاکٹروں کو پکڑتا ہے تو اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کے بارے میں کیوں صمٌ بکمٌ ہو جاتا ہے؟ اپنے ایک گزشتہ کالم میں اس کالم نگار نے اس حوالے سے مرثیہ خوانی کی جو ظاہر ہے صدا بصحراثابت ہوئی۔ زہرِ مکرّر کے طور پر۔ 

’’افسوس صد افسوس! یہ اینکر پرسن‘ یہ صحافی اپنے پیٹی بند بھائیوں کا احتساب نہیں کرتے۔یہ بھی تو دولت کے انبار اکٹھے کر چکے ہیں۔ یہ انبار کہاں سے آئے ہیں؟ ان کے بھی محلات ہیں۔ بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔ اکائونٹس ہیں۔ مگر ان کے سارے گناہوں پر پردہ پڑا ہے اس لیے کہ سب کا احتساب یہ کرتے ہیں۔ اپنا نہیں کرتے۔ 

ایک بڑے ٹائیکون کے حوالے سے ایک فہرست وائرل ہوتی رہی۔ جس میں ایک ایک تفصیل درج تھی۔ کس کو اس ٹائیکون نے کتنی رقم دی کتنے ہوائی ٹکٹ دیے۔ کتنے مکان کتنے پلاٹ دیے۔ کہاں کہاں دیے، گاڑیاں کون کون سی دیں۔ یہاں تک کہ بینک اکائونٹ بھی نمبر وار بتا دیے گئے۔ نام بھی سب کو معلوم ہیں مگر یہ اینکر حضرات یہ فہرست اور ایسی کتنی فہرستیں پی گئے۔ کھا گئے ڈکار تک نہ لیا۔ 

سیاست دانوں کے لیے میڈیا نے لوٹے کی اصطلاح تراشی۔ انہیں گھوڑے کہا گیا۔ یہی کچھ اینکروں اور صحافیوں نے کیا۔ کل جس کے مشیر تھے آج اس کے خلاف زمین و آسمان کی شہادتیں جمع کر کر کے دکھا رہے ہیں۔ کل جس کے دفاع میں دو جمع دو کو پانچ ثابت کر رہے تھے آج اس کے پرخچے اڑا رہے ہیں۔ کل دست سوال جاتی امرا کے سامنے دراز تھا آج بنی گالا کے سامنے پھیلا ہوا ہے ۔ کل جن سے مناصب لیے‘ طشت میں سجی ہوئی سربراہیاں وصول کیں۔ خلعتیں پہنیں‘ آج ان کے بدن سے کپڑے کیا‘ کھال تک اتار رہے ہیں۔ یہی کام سیاست دان کرتے ہیں تو زن بچہ ان کا کولہو میں پس جاتا ہے مگر اینکر حضرات اپنے بہن بھائیوں کا نام تک نہیں لیتے۔ کتنا ظلم ہے، کتنی بڑی ناانصافی ہے، کھلم کھلا طرف داری! کیسی زنجیر ہے جو دوسروں کے معاملے میں تو آپ فریادی بن کر کھینچیں مگر جب آپ کی اپنی باری آئے تو آپ جہانگیر بن بیٹھیں۔‘‘ 

ٹائیکون کی فہرست آج بھی انٹرنیٹ پر چیخ رہی ہے۔ ایک معروف اور معتبر ٹی وی چینل کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ اس ٹائیکون کے ’’کارپوریٹ ہیڈ آفس راولپنڈی اسلام آباد‘‘ کے لیٹر ہیڈ پر تفصیلات درج ہیں۔ جن کے نام درج ہیں وہ کیوں نہیں عدالت میں جاتے؟ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے؟؟ مولانا فضل الرحمن سے انٹرویو میں مشکل ترین سوالات پوچھے جا سکتے ہیں تو ان اینکروں کو بلا کر ان کے انٹرویو کیوں نہیں لیے جاتے؟ ایک معروف انگریزی روزنامے کی ویب سائٹ پر 14جون 2012ء کی چھپی ہوئی شہر یار پوپلزئی کی وہ رپورٹ آج بھی مسکرا رہی ہے جس میں ’’پلانٹڈ شو‘‘ اور ’’ویڈیو لیک‘‘ کے عنوان سے’’پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے سکینڈل‘‘ کی تفصیلات موجود ہیں اور اینکروں کی گفتگو تک درج ہے! کیا اینکر حضرات نے ان لوگوں کو اپنے پروگراموں میں ایکسپوز کیا؟ کیا ان کا بائی کاٹ کیا؟ ایسا کیا جاتا تو آج سلیم صافی جیسے بے گناہوں پر الزام نہ لگتے۔ ع 

چمن تک آ گئی دیوارِ زنداں ہم نہ کہتے تھے

اگر کوئی اپنی پیشہ ورانہ دیانت بروئے کار لاتے ہوئے جی ایچ کیو کی دی ہوئی زمینوں کی خبر تفصیل سے دے سکتا ہے اور یہودیوں کا ایجنٹ کہلوانے کی قربانی بھی دے سکتا ہے تو اپنے ہم پیشہ اینکروں اور صحافیوں کے بارے میں خبریں دیتے ہوئے اس کی دیانت اس کے قلم کی باگ کھینچ کیوں لیتی ہے؟ 

سرکاری خرچ پر حج کے ضمن میں اینکروں اور صحافیوں نے کسی حکمران‘ کسی وزیر کو معاف نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق سے لے کر سابق وزیر مذہبی امور اعجاز الحق صاحب تک اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف تک اس حوالے سے میڈیا نے سب کو رگیدا اور لتاڑا مگر ہم پیشہ اینکر جب اعتراف بھی کرتی ہے کہ سرکاری خرچ پر اس نے اور اس کے شریک حیات نے حج کیا اور یہ بھی مانتی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اور یہ بھی فرماتی ہیں کہ وہ افورڈ کر سکتی ہیں تو یہ اینکر‘ یہ صحافی‘ یہ میڈیا کے خدا کیوں نہیں مطالبہ کرتے کہ افورڈ کر سکتی ہیں تو بسم اللہ! رقم قومی خزانے میں جمع کرائیے!مگر کبھی نہیں کہیں گے۔ اپنے بہن بھائیوں کی چیرہ دستیوں پر پروگرام کبھی نہیں کریں گے! احتساب وہ اصل احتساب ہے جو دوسروں کا ہو!! میڈیا کے خداؤں کا کرنا ہو تو وزیر اعظم کریں۔ مولوی صاحب وعظ میں فرما رہے تھے کہ پل صراط تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہو گا اور پار کرنا ہو گا تو ایک کسان اُٹھا اور کہنے لگا میاں جی! پھر صاف کہیں کہ گزرنا ممکن ہی نہیں! کس وزیر اعظم کی ہمت ہے کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالے۔ آپ سب کا احتساب کرتے ہیں۔ سب کو برہنہ کرتے ہیں۔ اپنی صفوں میں سے کالی بھیڑوں کو خود سکرین پر لائیے!! 

کون کون کس کس دورے پر حکمرانوں کے ساتھ گیا؟ کتنی بار گیا؟ کہاں کہاں گیا؟ عہدے کس کس کو ملے؟ کن کن بیروزگاروں اور
Career-less
دریوزہ گروں کے کشکول میں بناسپتی قسم کے اداروں کی رکنیت ڈالی گئی۔ اثاثے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اینکر حضرات کو سب معلوم ہے! اللہ کا نام لیجیے۔ دوست نوازی اور کرونی ازم پر لات ماریے۔ ایک ایک پر پروگرام کیجیے۔ ریٹنگ بھی ٹاپ پر جائے گی اور عوام بھی آپ کے شکر گزار ہوں گے!












Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Sunday, August 26, 2018

چارہ تو بکریوں کو بھی مل جا تا ہے


بازار کا نام یاد نہیں‘ مگر کوئٹہ میں ایک چھوٹی سی دکان تھی جہاں سے صوفی تبسم کی کتاب’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ ہاتھ آئ

ان دنوں بچے چھوٹے تھے اور بچوں کا باپ جوان! جہالت اور کم فہمی کے باوجود ایک بات معلوم تھی اور اچھی طرح معلوم تھی کہ جو ماحول آگے نظر آ رہا ہے اس میں بچوں کو وہ کتابیں پڑھنے کو نہیں ملیں گی جو انہیں پڑھنی چاہئیں۔ انہیں سانتا کلاز کا تو بتایا جائے گا‘ اپنے پس منظر سے آگاہ نہیں کیا جائے گا۔ 

مگر کتابیں ملتی نہیں تھیں۔ اب تو ٹوٹ بٹوٹ‘بازار میں میسر ہے ان دنوں نایاب تھی۔ اب تو حالات ابتر ہیں۔ گزشتہ سال ٹوٹ بٹوٹ کا ایک ایسا ایڈیشن دیکھا جس پر پبلشرز کا نام تھا مگر صوفی تبسم کا نہیں تھا۔ پبلشرز کی اکثریت بددیانتی کرتے کرتے پاگل پن کی آخری حد کو پہنچ گئی ہے۔ 

پاکستان میں اگر کوئی حساب کتاب ہوتا‘ کوئی نسبت تناسب ہوتی‘ مصنفین کے ساتھ انصاف ہوتا، درست طریقے سے پروجیکشن ہوتی تو صوفی تبسم کی کتاب’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ بچوں کے عالمی ادب میں سرفہرست ہوتی۔ کیا نظمیں لکھی ہیں۔ صوفی صاحب مرحوم نے!بظاہر سادہ مگر اتنی زبردست کہ ان جیسا ماہر فن ہی لکھ سکتا تھا۔ یہ نظمیں آج کل کے بچوں کے لیے اس پُل کا کام دیتی ہیں جس سے گزر کر وہ اپنی قدروں اور اپنے کلچر کے منتشر گم شدہ اجزا کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان انتہائی آسان اور غنایت اور موسیقی سے بھر پور نظموں میں بے شمار ایسے الفاظ ہیں جن سے آج کل کے بچے صرف اپنی نظموں کے ذریعے شناسا ہو سکتے ہیں۔ 

دستار‘ سبزی منڈی‘ سوڈا واٹر‘ ڈانگ‘ سیانی‘ کنجڑا‘ اکنی‘ دونی‘ دسترخوان ‘ پنساری ‘ حلوائی‘ یکا‘ ریڑھا‘ چوری‘ تائی‘ اچکن‘ چورن‘ پیسہ دھیلا۔ 

یہ ساری چیزیں موجود ہیں مگر ان میں سے کچھ کے نام بدل گئے ہیں اور کچھ کے انگریزی میں ہو گئے ہیں۔ ایک آٹھویں جماعت کی بچی سے پوچھا کہ گڈریا کسے کہتے ہیں۔ کہنے لگی معلوم نہیں۔ پوچھا 
Shepherd
کیا ہوتا ہے۔ فوراً بتا دیا کہ بھیڑ بکریاں چرانے والا ۔اس لاعلمی کی قصور وار بچی نہیں‘ بچی کے ماں باپ ہیں۔ اسے یاد ہی وہ نظمیں کرائی گئی ہیں جن میں سانتا کلاز ہے اور 
Shepherd
۔ یہ بہر طور معلوم تھا کہ کون کون سی کتابیں بچوں نے آغاز میں پڑھنی ہیں۔ ابصار عبدالعلی اور قیوم نظر کی نظمیں لا کر دیں۔ اسماعیل میرٹھی کی چند نظمیں کتابچوں کی شکل میں ملیں مگر تلاش ان کی کلیات کی تھی۔ وہ مل نہیں رہی تھی۔ اب یاد نہیں برادرم ناصر زیدی تھے یا بزرگوارم سرور انبالوی‘ انہی میں سے ایک کے پاس یہ کلیات موجود تھی، لے کر فوٹو کاپی کروائی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسماعیل میرٹھی کو پڑھے بغیر بچوں میں اردو زبان کا ذوق پیدا ہو جائے گا‘ تو وہ اپنی اردو دانی کا علاج کرائے۔ 

پھر نظیر اکبر آبادی کی ان نظموں کی تلاش شروع کی جو بچوں کے لیے ان کے بھاری بھرکم پانچ سیر وزنی کلیات سے نکالی گئی تھیں۔خوش قسمتی سے وہ مل گئیں۔ پھر یاد آیا کہ حفیظ جالندھری کی نظمیں بچوں کے پاس ضرور ہونی چاہئیں۔ ان کی دستیابی کا سوال ہی نہیں تھا ایک گرم دوپہر تھی۔ پرانی انارکلی کی ایک گلی کی ایک گودام نما دکان میں کتابوں کے انبار دھرے تھے۔ گھنٹوں کیا‘ پہروں وہاں چھانتا رہا۔ بالآخر حفیظ جالندھری کی نظموں کا مجموعہ ہاتھ آ گیا۔ اسی میں ان کی شہرہ آفاق نظم ’’دم دم دڑم‘‘ شامل تھی۔ جس میں گیدڑ ‘ اونٹ کے نچلے ہونٹ کے گرنے کے انتظار میں دن رات ایک کر دیتا ہے۔ 

بچے ذرا بڑے ہوئے تو نظمیں سنا سنا کر یاد کروانے کا سٹیج بھی گزر گیا اب پڑھانے کا وقت تھا۔ سکول سے انہیں ہوم ورک بھی مل رہا تھا۔ اس کی ذمہ داری بچوں کی ماں نے اٹھائی۔ اس کالم نگار نے بچوں کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اس کے ساتھ والد گرامی مرحوم نے کیا تھا۔ فرماتے تھے میں سکول کے ہوم ورک کا ذمہ دار نہیں۔ میرا اپنا نصاب ہے جو پڑھانا ہے۔ گرما کی وہ طویل‘ پسینے سے بھری رات نہیں بھولتی جو آدھی ہو چکی تھی اور والد صاحب اس کالم نگار کو اور اس کی بڑی بہن کو فارسی پڑھا رہے تھے اور کیا پڑھا رہے تھے؟ ایک نظم جس میں ایک سطر بار بار آتی تھی ع 

شبِ کوتاہ و قصّہ طولانی 

ہم نے کہا ابا جی!شب کوتاہ وقصّہ طولانی‘ ایک لمحے کو ہنسے اور کہا ہاں۔ جبھی تو پڑھ رہے ہیں۔ تعطیلات میں گائوں گیا تو دادی جان سے شکایت کی کہ اباجی آدھی آدھی رات تک پڑھاتے ہیں اس پر بھی کچھ خاص داد رسی نہ ہوئی!! 

بچوں کو سب سے پہلے مسدس حالی کے منتخب حصے پڑھائے۔ صرف ویک اینڈ پر قابو آتے تھے۔ یا جب انہیں سکول سے چھٹیاں ہوتیں‘ پھر بال جبریل اور بانگ درا کی چیدہ چیدہ نظمیں! ابوالعلیٰ معرّی والی نظم اور کچھ اور‘ انہیں زبانی یاد ہو گئیں۔ ڈاکٹر اسرار ان دنوں شاید چوتھی یا پانچویں میں پڑھتے تھے۔ گائوں جانا ہوا‘ ایک بزرگ نے ‘ جو ہمارے عزیز تھے اور استاد رہے تھے، اسرار سے یہ نظم سنی اور مفاجات کا مطلب پوچھا جو اس نے بتا دیا۔ ہمارے قارئین میں سے کتنوں کو اور کتنوں کے بچوں کو مفاجات کا معنی معلوم ہے؟ مرگ مفاجات کے الفاظ سب استعمال کرتے ہیں۔ مطلب کیا ہے؟ ایک دعا کی بھی تو تعلیم دی گئی ہے۔ اللھم انی اعوذ بک من موت الفجأ ۃ!! 

پھر گلستان سعدی اوربوستان سعدی کی کچھ حکایتیں پڑھائیں۔ بڑے اور منجھلے بیٹے نے ہمت کی اور کچھ اسباق اپنے دادا جان سے پڑھ لیے۔ یہ نسبت بھی بہت ہے کہ ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ انہیں دنوں ایک لطیفہ ہو گیا۔ معاذ ’’او‘‘ لیول کے طالب علم تھے۔ ایک دن کالم نگار نے انہیں’’ہوم ورک‘‘ دیا کہ والد کو فارسی میں خط لکھو جس کا مدعا یہ ہو۔ سکول میں خالی پیریڈ تھا۔ وہ کلاس روم میں بیٹھ کر لکھنے لگ گئے۔ ان کے ہم جماعت بچوں نے دیکھ لیا اور مشہور کر دیا کہ یہ لڑکا نہ جانے کہاں کا ہے اور کون سی زبان لکھتا رہتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب انگریزی جاننا کمال سمجھا جاتا تھا۔ کوئی بی اے بھی کر لیتا تو اپنے نام کے ساتھ بی اے یا بی کام مستقلاً لکھتا۔ اب وہ زمانہ ہے کہ انگریزی مرغوں اورکبوتروں کو بھی آتی ہے اس لیے کہ روزگار اور روٹی کی زبان ہے۔ بچے آغاز ہی سیٹون سن کی 

Treasure island 

اور 

Jonathan swift

کی گلیورز ٹریولز سے کرتے ہیں۔ ہر بچے کے بیگ میں ’’ٹیلز فرام شیکسپئر‘‘ 

Tales from Shakespear

کا نسخہ رکھا ہوتا ہے۔ اب کمال ماں باپ کا یہ نہیں کہ بچوں کو انگریزی میں طاق کریں۔ وہ تو سکہ رائج الوقت ہے۔ جیب میں موجود ہی ہے۔ اب ہمت ماں باپ کی یہ ہے کہ انہیں ان کتابوں سے روشناس کرائیں جو انہیں اپنے تہذیبی پس منظر اور ثقافتی بنیادوں سے آشنا کریں۔ سب کچھ صرف روزگار نہیں! روٹی کمانے کے علاوہ بھی انسان کے لیے کچھ کرنے کے کام ہیں۔ چارہ تو بکریوں کو بھی مل جاتا ہے۔ زیادہ نہیں تو گزشتہ ڈیڑھ دو سو برس ہی کے نامور مصنفین اور عہد ساز کتابوں سے آشنا ہو جائیں !!





Saturday, August 25, 2018

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے


اس رہائش گاہ میں چار کمرے تھے۔ ایک معزول بادشاہ کے استعمال میں تھا۔ دوسرا شہزادے اور اس کی بیگم کے لیے مخصوص کیا گیا۔ تیسرا ملکہ کے لیے تھا اور چوتھے میں چھوٹا شہزادہ اپنی ماں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ 

بالائی منزل پر ایک برآمدہ تھا۔ یہاں معزول بادشاہ اور اس کے دونوں بیٹے بیٹھ جاتے اور سمندر سے آنے والی ہوا سے لطف اندوز ہوتے۔ کبھی جہازوں کو آتا جاتا دیکھتے۔ دن کو دو سنتری پہرے پر ہوتے۔ رات کو ان کی تعداد تین ہو جاتی۔ خدمت گاروں میں ایک چپڑاسی تھا جو سودا سلف لاتا۔ یہ حکمرانوں کا جاسوس بھی تھا۔ اس کے علاوہ ایک بہشتی تھا۔ ایک دھوبی اور ایک خاکروب۔ 

ملکہ کو ایک غم یہ کھائے جا رہا تھا کہ اس کا ذاتی خزانہ اور زیورات بھی چھین لیے گئے تھے۔ کل مالیت ان کی دو لاکھ روپے بتاتی تھی۔ بہرحال یہ سب کچھ ضبط ہوگیا اور کچھ واپس نہ ملا۔ 

یہ احوال آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا ہے۔ ملکہ زینت محل تھی۔ شہزادہ جواں بخت تھا۔ اس کی پندرہ سالہ بیگم شاہ زمانی بیگم تھی۔ چھوٹے شہزادے کا نام مرزا شاہ عباس تھا۔ وہ مبارک النساء بیگم کا بیٹا تھا جو رتبے میں ملکہ زینت محل سے کم تر تھی۔ 

مغل خاندان کے تاجدار کو معزول کرنے والے لندن سے آئے تھے۔ معزول کرنے والوں کا برصغیر سے کوئی تعلق نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ بحری جہازوں پر سوار ہو کر دکانداری کرنے آئے تھے اور حاکم بن بیٹھے۔ تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ شریف خاندان کا تاجدار جسے معزول کیا گیا، لندن سے ہے اور اسے معزول کرنے والے، عدلیہ ہے یا دوسرے، مقامی ہیں۔ مماثلت کی کڑیاں عجیب و غریب ہیں۔ یہ تاجدار بنیادی طور پر دکاندار خاندان سے تھا۔ حکمران بنا تو لندن منتقل ہوگیا۔ اب اس کا خاندان اس کی اولاد لندن میں تھی۔ جائیداد، کاروبار، رہائش گاہیں سب کچھ لندن میں تھا۔ حکمرانی کے دوران وہ کتنی بار لندن گیا؟ لاتعداد بار!! جس ملک میں بھی جاتا، آتے جاتے لندن ٹھہرتا۔ لندن اپنا گھر تھا۔ لندن اپنا وطن تھا۔ اپنے وطن کو، اپنی مٹی کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔ 

مماثلت پر غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے۔ دوبارہ سوچیے۔ مغل تاجدار کو معزول کرنے والے دکاندار تھے جو بادشاہ بن بیٹھے تھے۔ لندن سے آئے تھے۔ شریف خاندان کا بادشاہ خود دکانداری سے ترقی کرتے کرتے بادشاہ بنا اور لندن چلا گیا۔ 

بہادر شاہ ظفر سے، اس کی ملکہ سے، شہزادوں سے سب کچھ چھین گیا۔ شریف تاجدار کی دولت اور پراپرٹی محفوظ ہے۔ لال قلعہ چھن گیا۔ زینت محل کا خزانہ اور زیورات لے لیے گئے۔ رہائش گاہ ان کی عبرت ناک تھی۔ وطن سے دور تھے۔ برسوں بعد زینت محل نے عرضی دی کہ واپس وطن جانے دیا جائے۔ نامنظور ہوگئی۔ شریف خاندان کے معزول بادشاہ اور شہزادی کی رہائش گاہ ایئرکنڈیشنڈ ہے۔ رشتہ دار دوست احباب، سابق ماتحتوں میں سے جو ابھی تک وفادار ہیں، آ کر ملاقات کرتے ہیں، بھائی اور بھتیجے کی سیاسی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں۔ دو شہزادے لندن میں بدستور رہ رہے ہیں۔ اربوں کھربوں میں کھیلتے ہیں۔ 

مماثلتوں کے ساتھ ساتھ کچھ فرق بھی ہے۔ انگریز حکمرانوں نے جو لندن سے آئے تھے، ہندوستان کو بہت حد تک قبول کرلیا۔ 1800ء تک سفید فام حکمرانوں اور گندمی رنگ کے محکوموں کے درمیان وہ لکیر نہ تھی جو ولزلے نے آ کر کھینچی۔ انگریز مقامی عورتوں سے شادیاں کرتے۔ گھل مل کر رہتے۔ ویلزلے 1798ء میں گورنر جنرل بنا۔ ایک سال بعد مرہٹوں اور نظام دکن کی مدد سے سلطان ٹیپو کا قصہ تمام کیا۔ 1805ء تک رہا اور حکمرانوں کو باور کرا گیا کہ تم سفید فام ہو، حاکم ہو۔ برتر ہو۔ مقامی لوگ محکوم ہیں۔ نیچ ہیں۔ اس کے بعد دونوں طبقے مکمل طور پر الگ الگ ہو گئے۔ 

مگر اس کے باوجود انگریزوں نے یہاں جینا مرنا قبول کیا۔ کرسمس ایسٹر سب یہاں مناتے۔ شریف خاندان کے بادشاہ نے ایسا نہیں کیا۔ لندن کو بھلا نہ سکا۔ حکمرانی یہاں تھی۔ ہر عید پر خاندان کے ہمراہ لندن جاتا۔ عید کی نماز وہیں پڑھتا۔ وہیں سویاں پکتیں۔ تہوار ختم ہوتا تو خاندان واپس برصغیر کا رخ کرتا۔ آکر حکمرانی کا عصا پھر سنبھال لیتا۔ 

ایک اور فرق بھی واضح ہے اور دلچسپ بھی۔ بہادر شاہ ظفر نے دہلی کا اقتدار عملاً انگریز کے سپرد کردیا۔ شریف تاجدار نے اقتدار عملاً اپنی صاحبزادی کو سونپ دیا۔ وزیر تھے یا سفیر، سب اس کے حضور حاضری دیتے۔ وزارت اطلاعات اس کی غلام تھی۔ سب سے بڑے صوبے پر برائے نام اقتدار بھائی کا تھا مگر اصل حکمرانی بھتیجے کے ہاتھ میں تھی۔ پروٹوکول بھتیجے کا لارڈ ویلزلے اور لارڈ کارنوالس سے کم نہ تھا۔ درجنوں گاڑیاں بھتیجے کے آگے پیچھے ہوتیں۔ صوبے کے وزیر اس کے سامنے یوں سرنگوں ہوتے جیسے برسات میں بیر بہوٹیاں زمین پر رینگتی ہیں۔ کیا تھانے، کیا تھانیدار۔ کیا افسر شاہی، کیا مرغ و ماہی، سب بھتیجے کے آگے دست بستہ کھڑے ہوتے۔ سرکاری اجلاسوں میں وہ موجود تھا۔ عدالت نے جب بعد میں اس کے والد سے پوچھا کہ چھپن کمپنیوں کے اجلاسوں میں صاحبزادہ کس حیثیت سے شرکت کرتا تھا تو ذہین باپ نے کیا خوبصورت جواب دیا۔ جمہوریت کی تاریخ میں یہ جواب سونے کے پانی سے لکھا جانا چاہیے۔ جواب اس مفہوم کا تھا کہ بیٹا پارٹی کا کارکن تھا، مشورہ دینے اجلاس میں بیٹھ جاتا۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ! پارٹی کے سارے کارکنوں میں اور کسی کا دماغ نہ تھا۔ ہائے ہائے، مغل خاندان کے بعد شریف خاندان کی تاجداری اور تخت شاہی پر بیٹھنے کا فلسفہ و حکمت، بھتیجا صوبائی اسمبلی کا رکن نہ تھا مگر سرکاری اجلاسوں میں تابانی اور درخشندگی اسی کی ہوتی۔ مرزاا جواں بخت اور مرزا شاہ عباس تو لال قلعے میں بھی بھتیجے کے مقابلے میںگھسیاروں سے زیادہ نہ تھے۔ 

ایک فرق مغل خاندان اور شریف خاندان میں یہ بھی تھا کہ مغل بادشاہ اپنے اخراجات قومی خزانے سے پورا کرتے تھے۔ شریف خاندان کا فرماں رواں سب کچھ اپنی جیب سے ادا کرتا تھا۔ اس فرماں روا کا تعلق فرقہ ملامتیہ سے تھا۔ یعنی لوگوں سے اپنی نیکیاں چھپاتا تھا۔ وزیراعلیٰ روزانہ کا خرچ ذاتی جیب سے ادا کرتا تھا مگر لوگوں کو دکھانے کے لیے اٹھائیس لاکھ روپے روزانہ قومی بجٹ سے نکالے جاتے تھے جس ہیلی کاپٹر میں کھانا مری جاتا تھا اس کا پٹرول کا خرچ جیب سے دیتا۔ جب نواسی کے نکاح کے لیے قومی ایئرلائن کے جہاز کا رخ موڑ کر سعودی عرب کیا گیا تو قومی ایئرلائن کو ادائیگی کی۔ شہزادی اپنے میڈیا سیل کا مالی بوجھ خود اٹھاتی۔ جاتی امرا کے محلات کے گرد حصار کھینچا گیا تو کروڑوں روپے بادشاہ نے ذاتی جیب سے دیئے اور تو اور، کم بارکر کے لیے آئی فون بھی خود خریدا۔ 

بادشاہ اور شہزادی نے یہ پہلی عید ہے جو وطن سے ہزاروں میل دور، دیار غیر میں منائی ہے۔ موجودہ حکومت کو خدا کا خوف کرنا چاہیے۔ انگریز حکومت نہ رہی تو اور کون سی حکومت ہمیشہ رہے گی؟ عید بقر عید کے موقع پر شریف خاندان کے تاجدار کو لندن جانے دیا جائے۔ کہیں معزول بادشاہ یہ نہ گنگنانے لگ جائے ع 

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے


Tuesday, August 21, 2018

ڈاکٹر عشرت حسین ؟؟نہیں وزیر اعظم عمران خان! نہیں!!



کیا ڈاکٹر عشرت بیورو کریسی میں اصلاحات لا سکیں گے؟ کیا وہ اس کے اہل ہیں؟ 

تین عوامل ایسے ہیں جو انہیں ایک مخصوص دائرہ فکر سے نکلنے نہیں دیں گے یہ ان کی شخصیت کا حصہ بن چکے ہیں ۔اول وہ سول سروس کے ’’مشہور‘‘ زمانہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ(ڈی ایم جی) سے ہیں اور اس بیچ سے ہیں جو کچھ زیادہ ہی مشہور ہوا۔ یعنی 1964ء بیچ ‘سابق صدر فاروق لغاری بھی اسی بیچ سے تھے ان کے نزدیک ہر ریفارم کا تقاضا یہ ہے کہ اس گروپ (ڈی ایم جی) کی برتری کو نقصان نہ پہنچے اور اگر پہنچا ہے تو یہ برتری بحال ہو جائے۔ 

اگر اس کالم نگار کا حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی وہ ریفارم کمیشن کے سربراہ بنائے گئے۔ انہیں ہر موقع پر ’’اِن‘‘ ہونے کا فن خوب آتا ہے۔ ڈی ایم جی ان کے اعصاب پر اور لاشعور پر اس قدر چھایا ہوا ہے کہ ایک اجلاس میں انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو دوبارہ ایگزیکٹو مجسٹریٹ بنانے کی تجویز پیش کی۔ خوش قسمتی سے جنرل پرویز نے اس سے اختلاف کیا۔ 

اس امر کا وسیع القلبی سے اعتراف کرنا چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف نے ڈپٹی کمشنر کا سامراجی ادارہ ختم کر کے ضلع ناظم کا جمہوری اور عوامی ادارہ قائم کیا آخر ایک ڈپٹی کمشنر کا ضلع کی ترقی سے کیا جذباتی تعلق ہو سکتا ہے؟ تبادلہ ہو جانے کے بعد اس نے یہاں کبھی آنا ہی نہیں! اس کی اولین ترجیح کمشنر اور وزیر اعلیٰ کو خوش رکھنا ہے اور اپنی آئندہ تعیناتی اور ترقی کی راہ ہموار کرنا۔ ضلع ناظم کو اس کے مقابلے میں اسی ضلع میں رہنا ہے ۔اس کے مخالفین اور حمایتی وہیں کے ہیں۔ اس نے آئندہ بھی عوام سے ووٹ لینے ہیں اس لیے وہ عدم دلچسپی اور نااہلی کا خطرہ مول ہی نہیں لے سکتا! 

ڈاکٹر عشرت حسین نے جنرل پرویز مشرف کو ایک اور حد سے زیادہ کائونٹر پیداواری تجویز پیش کی جو ترقی معکوس کے مترادف تھی‘ وہ یہ کہ جتنے وفاقی سیکرٹری ہیں وہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہو جائیں۔ یعنی بیورو کریسی کے سرخ فیتے میں ایک اور فیتے کا اضافہ ہو جائے۔ اس پر وہاں بیٹھے ہوئے وفاقی سیکرٹریوں نے اعتراض کیا۔ مثلاً سیکرٹری خزانہ کی دلیل یہ تھی کہ اس کے پاس ملکی مالیات کی ایسی معلومات ہیں جو وہ سوائے وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کے کسی کو نہیں بتا سکتا۔ یہی صورت حال دفاع کی ہوئی تھی۔ یعنی وزارت دفاع کا سیکرٹری ‘ سیکرٹری کابینہ ڈویژن کا ماتحت ہو جائے پھر تو دفاع کی تمام خفیہ اطلاعات تک سیکرٹری کابینہ کی رسائی ہو جائے گی۔ یہ تجویز بھی رد کر دی گئی۔ 

جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے‘ وہ جان لیں کہ ڈاکٹر عشرت حسین کی ہر ’’ریفارم‘‘ میں ڈی ایم جی کا غلبہ اور ایگزیکٹو مجسٹریسی کا احیا ضرور شامل ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو! اور خدا کرے کہ ایسا نہ ہو! 

دوم وہ امریکہ سے ڈگریاں لے کر ورلڈ بنک کے ملازم ہو گئے ورلڈ بنک کا ملازم‘ وہاں سے فارغ یا ریٹائر ہو کر بھی ذہنی طور پر ورلڈ بنک ہی کا نمائندہ رہتا ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کے مسائل امریکی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل بابوئوں نے اور ورلڈ بینک کے نمائندوں ہی نے تو الجھائے ہیں۔ ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف‘یہ ایسا جال پھیلاتے ہیں کہ غریب ملک اس جال سے کبھی باہر نہیں آ سکتے یہاں اعداد و شمار کا وہ گورکھ دھندا ہے کہ الامان والحفیظ! چند دن پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں ایسے ہی ایک بابو سے واسطہ پڑا جو شہباز شریف کے عہدِ ہمایونی میں تعلیمی’’ترقی‘‘ کا کرتا دھرتا بنا رہا۔ اس نے اعداد و شمار پیش کیے جن کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان تعلیم کے میدان میں آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ پوچھا کہ شہباز شریف نے کسی سرکاری سکول کا معائنہ کیا؟ جواب سُن کر حیرت ہوئی اور رحم بھی آیا۔ فرمانے لگے دانش سکول سرکاری سکول ہی تو ہیں! پھر انہیں چیلنج کیا کہ کسی ایک سرکاری سکول میں بھی وزیر اعلیٰ نہیں گئے۔ 

الغرض ان بابوئوں نے ساری عمر کسی گائوں یا کسی قصبے کی شکل نہیں دیکھی ہوتی۔ یہ انگریزوں اور امریکنوں کی لکھی ہوئی معاشیات کی کتابیں پڑھتے ہیں ایسے مضامین اور رپورٹیں لکھتے ہیں جن سے کچھ بھی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے مثلاً کیا عشرت حسین صاحب کو اندازہ ہے کہ گائوں کے لوگوں کو فرد یا لٹھا نکلوانے میں کتنی دقت ہوتی ہے؟پٹواری اور تحصیل دار کے مناصب کس درجہ اذیت رساں اور فرسودہ ہو چکے ہیں؟کیا ساری زندگی میں انہوں نے کسی کچہری میں انتقال زمین یا انتقال جائیداد کا کوئی کام کرایا ہے؟ 

سوم وہ 2016ء سے ’’وُڈ رو ولسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز

Woodrow Wilson International Centre for Scholars 

کے پالیسی فیلو ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اس سنٹر کا مشن ہی ایک امریکی صدر وڈ رو ولسن کے تصورات اور فلسفے کو زندہ رکھنا ہے۔ یہ ایک تھنک ٹینک ہے جو سر سے پائوں تک امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس کے اخراجات کا ایک تہائی حصہ امریکی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نہیں معلوم ڈاکٹر عشرت حسین اس سے کوئی مالی معاوضہ وصول کرتے ہیں یا نہیں‘مگر اس کی فیلو شپ سے ان کی ترجیحات ان کے انداز فکر اور ان کے ذہنی رجحانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے! 

بیورو کریسی کی اصلاحات میں اولین ترجیح تحریک انصاف کی حکومت کی یہ ہونی چاہیے کہ ضلعی حکومتوں کا احیا ہو۔ ڈپٹی کمشنر کا سامراجی ورثہ اپنے انجام تک پہنچے۔ ڈپٹی کمشنر یا ڈی سی او کی موجودگی میں مقامی حکومت کبھی پنپ نہیں سکتی۔ ضلعی ناظم کو ڈی ایم جی گروپ اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ پھر وفاقی اور صوبائی سیکرٹریٹ پر اس گروپ کی اجارہ داری ختم کرنی ازحد ضروری ہے۔ ہر سروس گروپ کو سیکرٹریٹ سے حصہ بقدر جثہ ملنا چاہیے!کچہریوں میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس کا ذمہ دار یہ ڈی ایم جی گروپ ہی ہے۔ یہ کالم نگار ایسے ڈپٹی کمشنروں کو جانتا ہے جن کا ضلع سے تبادلہ ہو جاتا تھا پھر بھی ’’منتھلی‘‘ وہاں سے آتی رہتی تھی۔ 

کیا کبھی ڈپٹی کمشنر نے یا کمشنر نے سوچا کہ کچہری سے رشوت ختم کرنی چاہیے؟ ان افسروں نے پٹواریوں اور تحصیلداروں کو سیاست دانوں کی خدمت کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا۔ عوام چلاتے رہے۔ باپ نے مکان اپنے سگے بیٹے کے نام کرانا ہو تب بھی یہ بھیڑیے بیس پچیس ہزار روپے رشوت لے کر یہ کام کرتے ہیں۔ ڈی ایم جی کے بابو کی ناک کے عین نیچے یہ حرام کاری ہو رہی ہوتی ہے اور اب عمران خان نے عہد قدیم کے ایک ڈی ایم جی بابو کو ریفارمز کا مشیر بنا دیا ہے! عربی کا محاورہ ہے کہ غبار چھٹے گا تو تجھے معلوم ہو گا کہ تو گھوڑے پر سوار ہے یا کسی’’اور‘‘ جانور پر!! 

ریفارمز کا کام کسی ایسے تعلیم یافتہ سیاستدان کو سونپنا چاہیے جس کے لاشعور میں سول سروس کی غلامی کا نشہ نہ رچا ہو۔ وہ گائوں اور قصبے کی زندگی سے واقف ہو۔ بابو نہ ہو‘ بلکہ اوپر سے نیچے تک اندر سے باہر تک ہر لحاظ سے پاکستانی ہو۔ ورلڈ بنک کے بابو اور امریکی تھنک ٹینکوں کے ممبر پاکستانی عوام کے دکھوں میں اضافہ تو کر سکتے ہیں‘ مداوا نہیں کر سکتے! 

کیا تحریک انصاف میں کوئی ایسا رجل رشید ہے جو عمران خان کو یہ نکتہ سمجھا سکے؟؟؟








Sunday, August 19, 2018

الیس الصبح بقریب



(1)

چوں چراغ لالہ سوزم درخیابان شما
اے جوانان عجم! جانِ من و جانِ شما

اے جوانان عجم! اپنی اور تمہاری جان کی قسم! میں تمہارے باغ میں گل لالہ کے چراغ کی طرح جل رہا ہوں۔

مہرومہ دیدم‘ نگاہم برتراز پروین گزشت
ریختم طرحِ حرم درکافرستانِ شما

سورج اور چاند کو دیکھا۔ پھر میری نظر ستاروں کے جھرمٹ سے آگے گئی۔ یوں میں نے تمہارے کفرستان میں حرم کی بنیاد رکھی۔

فکر رنگینم کند نذر تہی دستان شرق
پارۂ لعلی کہ دارم از بدخشانِ شما

تمہارے بدخشان سے جو لعل کا ٹکڑا میرے پاس ہے اسے میری رنگین سوچ مشرق کے مفلسوں کی نذر کر رہی ہے۔

می رسد مردے کہ زنجیر غلاماں بشکند
دیدام از روزن دیوار زندان شما

وہ شخص آ رہا ہے جو غلاموں کی زنجیریں توڑے گا ۔میں نے تمہارے زنداں کی دیوار میں بنے ہوئے سوراخ سے دیکھ لیا ہے۔

حلقہ گرد من زیند اے پیکران آب و گل
آتشے درسینہ دارم از نیاگان شما

اے مٹی اور پانی سے بنے ہوئے لوگو!میرے اردگرد حلقہ بنا لو! میرے سینے میں جو آگ جل رہی ہے وہ میں نے تمہارے ہی اجداد سے حاصل کی۔

(2)

پھر گرد نے لی ہے انگڑائی کوئی آئے گا
پھر دل میں جیسے دھمک پڑی کوئی آئے گا
کوئی آئے گا بادل کی شکل بتاتی ہے
کہتی ہے پرندے کی بولی کوئی آئے گا
کوئی رخصت ہو گا گہری شام کی بارش میں
پھر صبح سے جھانکے گی تتلی کوئی آئے گا
کوئی آئے گا اور سب کچھ بدل کے رکھ دے گا
یہ خلقت بھی یہ سورج بھی کوئی آئے گا
کوئی آئے گا اور غربت اطلس پہنے گی
بیچارگی کرنیں اوڑھے گی کوئی آئے گا
جو مٹی پائوں کے نیچے آتی رہتی ہے
کبھی ہو گی اس کی داد رسی کوئی آئے گا
جو کہیں نہیں وہ آوازیں بھی سنتا ہوں
مجھے دور سے ہے یہ خبر آئی کوئی آئے گا
مجھے دی ہے سنو!ترمز کی خاک نے خوشخبری
مجھے مرو سے کہتی ہے مٹی کوئی آئے گا
مجھے خوشبو آئی ہے انجیر کے پکنے کی
مجھے روکے گیہوں کی مستی کوئی آئے گا
مرے چشمے کا ہے شور عجب‘ کچھ سمجھو تو
مرے شیشم کی ہے چھائوں نئی‘ کوئی آئے گا
مرے کیکر لد گئے سونے جیسے پھولوں سے
مرے سپنوں میں سرسوں پھولی کوئی آئے گا
میری چھت سے بیل انگور کی اٹھ اٹھ دیکھتی ہے
مرے توت پہ بیٹھی ہے قمری کوئی آئے گا
مرے شہد کا چھتہ چھلک رہا ہے پُھلا ہی پر
مرا دودھ امانت مہماں کی کوئی آئے گا
مرے رخساروں پر پھول کھلائے ان دیکھے
مرے ہونٹوں کو دی شیرینی کوئی آئے گا
مری نیندیں قرض کی ہیں واپس ہو جائیں گی
مرے خواب مسافر کی پونجی کوئی آئے گا
مری آنکھیں مُند مُند جاتی ہیں کوئی بات تو ہے
مرے خون میں کیوں ہے لرزش سی‘ کوئی آئے گا
مرے جگنو‘ گھاس اور شبنم استقبال کریں
مری مٹی یوں ہی نہیں بکھری کوئی آئے گا
مری خوشیوں کا کیا پوچھتے ہو تم دیکھو گے
میری آنکھوں پر اس کی ایڑی کوئی آئے گا
ہر سمت سے وقت رواں ہے میری ہی جانب
دیکھو تو یہ پیغام بری‘ کوئی آئے گا
کہیں دور سے اڑ کر اک غالیچہ آتا ہے
یا شہزادہ پا لال پری کوئی آئے گا
یہ فرغل آنکھیں کات کے میں نے بنایاہے
پھر اس پر ٹانکی اپنی ہنسی!کوئی آئے گا

(3)

یہی مٹی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہے
یہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی میں ہم بیج کی صورت جائیں گے
ہمیں اپنے اندر رکھتی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی سے ہم پھوٹیں گے کونپل بن کر
یہی مٹی ماں ہمیں جنتی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی نے ہمیں دودھ پلایا‘ بڑے ہوئے
ہمیں پائوں پائوں چلاتی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی میں اجداد کی مٹی شامل ہے
یہی خون رگوں میں بنتی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی نے ہمیں بادل اور ہوائیں دیں
یہی چُھو کے فلک کو آتی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی نے ہمیں شربت شہد شرابیں دیں
یہی ہونٹوں کی شیرینی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی سے زیتون کے باغ اگائیں گے
یہی غرناطہ یہی سسلی ہے جیسی بھی ہے



( 4 )




زمیں کی تہہ میں نادیدہ جہاں روشن ہوئے ہیں
کوئی آتا ہے دیکھو آسماں روشن ہوئے ہیں
بتائو اب کہ مفلس کون ہے اور کون زردار
نئے انداز سے سودوزیاں روشن ہوئے ہیں
سمندر میں کسی نے مشعلیں پھینکی ہیں شاید
اندھیری کشتیوں کے بادباں روشن ہوئے ہیں
یہ آگ اب بجھ نہ پائے گی کسی عالی نسب سے
ہماری بے نشانی کے نشاں روشن ہوئے ہیں


(5)

بہت ترتیب سے سارے جہاں گرنے لگے ہیں
کہ ہفت اقلیم پر ہفت آسماں گرنے لگے ہیں
خزانے یا زمیں کے راز اوپر آ رہے ہیں
ستارے یا فلک سے شمعداں گرنے لگے ہیں
فرشتے کس کے سر پر آ کے پر پھیلائیں دیکھو
شجر اڑنے لگے ہیں سائباں گرنے لگے ہیں
زمیں ظاہر نہ ہو گا تجھ پہ اب کوئی بھی موسم
ہمیشہ کے لیے ابر و خزاں گرنے لگے ہیں
یہ ساعت نور کی ہو گی کنارہ دیکھ لینا
ہم اب گرداب میں آتش بجاں گرنے لگے ہیں
یہ کھیل اب منطقی انجام کو پہنچے گا اظہارؔ
ذرا اک صبر !عزت کے نشاں گرنے لگے ہیں

(6)

اب میں بھلا تیری کیا مدد کر سکتا ہوں ٭٭٭٭٭


تجھے یاد ہے جس دن تو گراں ترین پوشاک پہنے محفل خورد و نوش میں شرکت کرنے آیا تھا اور میں نے سلام کیا تھا
تو نے کس قدر رعونت سے اپنے سر کو ذرا سی جنبش دی تھی۔ ٭٭٭٭٭


پھر جس دن میں نے اپنے بیٹے کی قمیض سے گاڑی کا شیشہ صاف کرنا چاہا تھا تونے جھڑک دیا تھا
اس دن فاقے کا تیسرا دن تھا ٭٭٭٭٭


تونے کبھی اُن دنوں حساب لگایا تھا
کہ تیری بیگم ایک سال میں کتنے ملبوسات بنواتی تھی
اور تیرے بچوں کے پاس کتنے کھلونے تھے
اور تیرے کھانے میں کتنے کورس اور تیرے ناشتے میں کتنے آئٹم ہوتے تھے
اور تیرے ڈرائنگ روم میں کتنا کرسٹل تھا
اور تیری پینٹری میں کبھی نہ استعمال ہونے والے کتنے ڈنر سیٹ تھے
ہم تیرے دیے ہوئے کوارٹر سے دیکھا کرتے تھے
میرے کسی بچے نے کبھی پورا انڈا اور پورا سیب نہیں کھایا تھا ٭٭٭٭٭

تجھے یاد ہے جب میں عرضی لے کر تیرے سامنے پیش ہوا تھا
تونے شفاف ماتھے پر سلوٹیں ڈال کر بتایا تھا
کہ انتظامی وجوہ کی بنا پر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے
اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے باہر چلے جانے کے لیے کہا تھا
تجھے برج پر جانے کی جلدی تھی۔ ٭٭٭٭٭

گالف کلب میں گیندیں جمع کرنے والے کیڈی نے
کموڈ صاف کرنے والے بھنگی نے
بچوں کے جوتے پالش کرنے والے نوکر نے
گھوڑے کے آگے آگے چلنے والے مصلی کے بیٹے نے
فطرانے کی آس رکھنے والے محلے کے موذن نے
حرام سے بنے ہوئے محل میں قرآن خوانی کرنے والے یتیم بچوں نے
اور بیئر کو برف میں رکھنے والے خانہ زاد ملازم نے
تیری دولت سے کتنا حصہ پایا تھا۔ ٭٭٭٭٭

اب میں بھلا تیری کیا مدد کر سکتا ہوں
ذق انک انت العزیز الکریم
چکھ۔
بہت ہی عزت دار ہے تو۔















Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Saturday, August 18, 2018

فکری شجرہء نسب



احتساب کرنے والوں کا احتساب کون کرے گا؟ 

نیب کو کوئی چیک کر رہا ہے یا نہیں؟ 

ایف آئی اے کے اوپر کون ہے؟ 

آڈیٹر جنرل کا آڈٹ وزارت خزانہ نے کرنا ہوتا تھا۔ آخری مرتبہ کب ہوا؟ 2000ء کے ایکٹ کے بعد وزارت خزانہ یوں بھی اس کام سے فارغ ہو چکی۔

پولیس کے تھانوں میں کبھی کسی نے جا کر پڑتال کی ہے کہ کتنی شکایتیں، کتنی فریادیں، کتنی ایف آئی آر درج ہوئیں، ان پر کیا کام ہوا، ان کا کیا انجام ہوا۔ اتنے عرصہ میں کتنے سائل آئے؟ 

ایک ادارہ ایسا بھی ہے جو ان سب سے اوپر ہے۔ یہ آل اِ ن ون ہے۔ یہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ ہے صحافت اور الیکٹرانک میڈیا۔ یہ ہیں کالم نگار اور اینکر پرسن۔ یہ نیب کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ پولیس گردی کا محاسبہ بھی کرتے ہیں۔ ایف آئی اے کا تیا پانچہ بھی کرتے ہیں اور آڈیٹر جنرل کا کچا چٹھہ بھی کھولتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ان صحافیوں کا، ان کالم نگاروں کا، ان اینکر حضرات اور اینکر خواتین کا حساب کتاب کون کرتا ہے؟ 

اس ملک میں سب کا تعاقب کیا گیا۔ سب کے پیچھے ڈھول باندھا گیا۔ سیاست دان سب سے زیادہ چھانے اور ٹٹولے گئے۔ جرنیلوں کے خلاف ایکشن ہوا یا نہیں، حساب کتاب سب کا کھول کر رکھ دیا گیا۔ ٹیلی ویژن سکرین پر وہ ان سارے مقدموں کی تفصیل دکھائی جا رہی تھی جو نیب نے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر گول کردیئے۔ بیوروکریٹ بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اثاثوں کی ایک ایک تفصیل شائع ہو چکی ہے۔ تاجروں کو بھی پکڑا جا رہا ہے۔ مگر اینکر حضرات کی، کالم نگاروں کی اور صحافیوں کی چھان بین کوئی نہیں کرتا؟ ان کے اثاثوں اور آمدنی کے نسبت تناسب کو آخر کون ظاہر کرے گا؟ 

افسوس! صد افسوس! یہ اینکر پرسن، یہ صحافی، اپنے پیٹی بند بھائیوں کا احتساب نہیں کرتے۔ یہ بھی تو دولت کے انبار اکٹھے کر چکے ہیں؟ یہ انبار کہاں سے آئے ہیں، ان کے بھی محلات ہیں۔ بیرون ملک جائیدادیں ہیں، بینک اکائونٹس ہیں مگر ان کے سارے گناہوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اس لیے کہ سب کا احتساب ہوتا ہے، ان کا نہیں ہوتا۔ ایک بڑے بزنس ٹائیکون کے حوالے سے ایک فہرست وائرل ہوتی رہی جس میں ایک ایک تفصیل درج تھی۔ یہ آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ دیکھی جا سکتی ہے۔ کس کو اس ٹائیکون نے کتنی رقم دی۔ کتنے ہوائی ٹکٹ دیئے۔ کتنے مکان کتنے پلاٹ دیئے، کہاں کہاں دیئے، گاڑیاں کون کون سی دیں، یہاں تک کہ بینک اکائونٹس بھی نمبر وار بتا دیئے گئے۔ نام بھی سب کو معلوم ہیں مگر یہ اینکر حضرات اتنے ’’دیانت دار‘‘ ہیں کہ یہ فہرست اور ایسی کئی فہرستیں پی گئے۔ کھا گئے، ڈکار تک نہیں لیا۔ نہ کسی نے تردید کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ 

خلق خدا کو معلوم ہے کون کون فروخت ہوا۔ کب فروخت ہوا۔ کس منڈی میں بولی لگی۔ کوئی شروع میں، کوئی درمیان میں، کوئی آخر میں کھیت ہوا۔ عمران خان کے دھرنے کے دوران اینکر شپ کے بڑے بڑے عالی شان برج دھڑام سے گرے اور گرتے ہی گئے۔ آج لوگ انہیں سنتے ضرور ہیں مگر سنتے ہوئے ناک سکوڑتے ہیں، زیرلب بڑ بڑاتے ہیں۔ دشنام طرازی کرتے ہیں۔ بددعائیں دیتے ہیں۔ 

سیاست دانوں کے لیے لوٹے کی اصطلاح تراشی گئی۔ انہیں گھوڑے کہا گیا۔ یہی کچھ اینکروں اور صحافیوں نے کیا۔ کل جس کے مشیر تھے، آج اس کے خلاف زمین آسمان کی شہادتیں جمع کر کے دکھا رہے ہیں۔ کل جس کے دفاع میں دو جمع دو کو پانچ ثابت کر رہے تھے، آج اس کے پرخچے اڑا رہے ہیں۔ کل دست سوال جاتی امرا کے سامنے دراز تھا، آج بنی گالا کے دروازے پر پھیلا ہے۔ کل جن سے مناصب لیے، سربراہیاں طشت میں سجی ہوئی، وصول کیں، خلعتیں پہنیں، آج ان کے بدن سے کپڑے کیا، کھال تک اتار رہے ہیں۔ یہی کام سیاست دان کرتے ہیں تو ان کازن بچہ کولہو میں پس جاتا ہے مگر اینکر حضرات اپنے بہن بھائیوں کا نام تک نہیں لیتے۔ کتنی بڑی ناانصافی ہے، کتنا ظلم ہے، کھلم کھلا طرف داری، کاں، کاواں دے، تے بھرا بھراواں دے۔ کوّے کوّوں کے ساتھی اور بھائی بھائیوں کے۔ اینکر اینکروں کے، کالم نگار کالم نگاروں کے اور صحافی صحافیوں کے۔ واہ، کیا عدل ہے۔ کیسی زنجیر ہے جو دوسروں کے معاملے میں تو آپ فریادی بن کر کھینچیں مگر جب آپ کی اپنی باری آئے تو آپ جہانگیر بن بیٹھیں۔ 

حالی نے مسلمانوں کی حالت زار پر گریہ کیا تھا ؎ 

کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر 

جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر 

کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر 

جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر 

مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں 

پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں 

نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے 

نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے 

یہی حالت میڈیا کے ناخدائوں کی ہوگئی ہے۔ سیاست دان مال بنائے تو کرپٹ۔ وفاداری بدلے تو لوٹا، بیوروکریٹ، جرنیل، تاجر، ڈاکٹر، وکیل، جج، سب اپنے محاسبے کے لیے تیار ہیں، یہ محاسبہ کون کرے گا؟ میڈیا! اور میڈیا کا محاسبہ؟ کوئی نہیں۔ کس میں اتنی جرأت ہے کہ چوں بھی کرے۔ 

ویسے میڈیا اور کالم نگاری کے ان نابغوں کو بھی داد دینی چاہیے جو کسی نہ کسی شاہی خاندان سے وابستہ ہیں یا رہے ہیں۔ کرپشن یا رول آف لا کی ساری زندگی بات نہیں کی۔ بس یہ حساب کتاب کرتے رہے کہ بلاول کی حکمرانی کتنی دور ہے۔ مریم نواز کے علاوہ اور کوئی جوہر قابل موجود ہی نہیں۔ حمزہ شہبازکو اب اقتدار مل جانا چاہیے۔ عدلیہ نے کچھ لٹیروں پر ہاتھ ڈالا تو خاندانوں کے ان غلاموں نے عدالتی مارشل کی دہائی دینا شروع کی اور وہ شور مچایا کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ 

رول آف لاء اور کرپشن۔ یوں بھی اس کا فرض کفایہ رئوف کلاسرہ اور عامر متین ہی ادا کر رہے ہیں۔ کوہ قاف سے اڑ کر آنے والے طلسمی طائر منقار زیر پر ہیں۔ کچھ اس فکر میں ہیں کہ باڑ کس طرح اور کب پھلانگیں۔ مسلم لیگ نون کی قصیدہ خوانیوں کا باب بند کر رہے ہیں اور سامنے، باڑ کے اس پار، تحریک انصاف کی ہری بھری چراگاہوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ جس طرح ایک شے فکری دیانتداری
(Intellectual Honesty) 
ہے اور فکری بددیانتی۔ اسی طرح فکری شجرہ نسب بھی ہوتا ہے، ضرورت پڑے تو تبدیل کرلیتے ہیں۔




Thursday, August 16, 2018

وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ



بہت ملک دیکھے۔

بہت سمندر پار کئے۔ 

جزیروں سے لطف اٹھایا۔ 

کیا کیا ولایتیں ہیں جو بحرالکاہل اور اوقیانوس کے کناروں پر آباد ہیں۔ 

بحیرۂ روم کے ساحلوں پر بہشت کے ٹکڑے یوں پڑے ہیں جیسے شال پر ستارے ٹانکے گئے ہیں۔ 

اور کیسے کیسے شہر۔ 

چھلکتے بازار۔ 

کوچے جیسے الف لیلیٰ کی داستانوں میں پھیلی گلیاں! 

کھڑکیوں پر ریشمی پردے۔ 

پردوں کے پیچھے پریاں۔ 

مگر جہاں گیا، اجنبی ٹھہرا۔ کہیں پوچھا گیا، پاسپورٹ کہاں ہے؟ کہیں ویزا چیک کیا گیا۔ کہیں سوال کیا گیا، کہاں کے ہو؟ جوتے اتروائے گئے۔ کہیں بازو پھیلانے کو کہا گیا

۔ اس کرۂ ارض پر‘ اس سیارے پر‘صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں میں اجنبی نہیں۔ جہاں میں لاکھوں کروڑوں لوگوں میں الگ الگ، وکھرا وکھرا، نظر نہیں آتا۔ جہاں مجھ سے کوئی نہیں پوچھتا کہاں سے آئے ہو، ویزا کب تک ہے؟ جہاں مجھے جیب میں پاسپورٹ نہیں رکھنا پڑتا۔

پاکستان میرا ملک ہے۔ میرا گھر ہے۔ اس کی مٹی میری اپنی مٹی ہے۔ اس کی ہوائوں میں میں نے پرورش پائی ہے۔ اس کی دھوپ اور چاندی نے مجھے نشوونما بخشی ہے ۔اس کے ستاروں کی ضیا نے میرے اندر توانائی بھری ہے۔ اس کی روئیدگی نے مجھے پالا ہے۔ اس کے پانی نے مجھے بڑا کیا ہے۔ 

شباب کے سبزے نے چہرے پر ہالہ بنایا تو قسم قسم کے خناس ذہن میں جاگزین ہوئے۔ نوجوانی کا غرہ! ہم چوما دیگری نیست !!ایک خناس یہ بھی تھا کہ تاریخ اور فلسفہ تاریخ ہم سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا۔ تقسیم غلط ہوئی۔ متحدہ ہندوستان بہتر تھا۔ مباحثہ کرنے میں جواب نہ تھا۔ کراچی سے ٹرین میں بیٹھے۔ راولپنڈی تک ایک کرنل صاحب سے، جو ڈاکٹر تھے مباحثہ جاری رہا۔ سیالکوٹ کے تھے، ایبٹ آباد میں مقیم تھے۔ پورا اسم گرامی یاد نہیں آرہا، قبیلے کی شناخت ’’پال‘‘ نام کے آخر میں لکھتے تھے۔ ایبٹ آباد جانا ہوا تو انہوں نے دعوت پر بلالیا۔ مباحثہ جاری رہا۔ ماننا انہوں نے کیا تھا، کہنے لگے تمہیں وکالت میں جانا چاہیے تھا۔

مگر زمانے نے ٹھوکروں پر رکھا تو اونچ نیچ سب سمجھ میں آ گئی۔ خناس رفع ہو گئے۔ پتہ چل گیا کہ سو میں بیس کتنے ہوتے ہیں۔ مثالیت کا نشہ ہوا ہوگیا۔ پہلا آئینہ ان پاکستانیوں نے دکھایا جو متحدہ عرب امارات میں رہتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے والے پاکستانیوں نے بتایا کہ تقسیم سے پہلے کا ہندوئوں کا رویہ دیکھنا ہو تو یو اے ای میں آ کر، رہ کر، دیکھو کس طرح ہر جگہ پاکستانیوں کا پتہ کاٹتے ہیں۔ 

پھر دنیا بھر میں جانا ہوا۔ بھارتی سول سرونٹس سے گفت و شنید ہوئی۔ خود وہاں جا کر سول سروس کا حال دیکھا۔ مسلمان آٹے میں نمک سے بھی کم۔ آبادی کا تناسب بہت زیادہ۔ پھر بیرون ملک قیام رہا۔ بھارتیوں سے ملنا جلنا ہوا۔ ایک ایک کر کے ساری خوش فہمیاں دور ہوگئیں۔ کیا اس سے زیادہ تعصب بھی ہوسکتا ہے کہ کرناٹک کی ریاست نے بھارتی یوم آزادی کے جشن کے دوران ٹیپو سلطان کا مجسمہ جلوس میں رکھا۔ پورا بھارت درد زہ میں مبتلا ہوگیا۔ کراہنے کی آوازیں ہر طرف سے آنے لگیں۔ 

جس تھالی میں کھاتے ہیں اس میں چھید کرنے والے جان لیں کہ محلات، گاڑیاں، حکمرانیاں، عیاشیاں سب پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں ہوتے تو سکینڈ کلاس شہری ہوتے۔ اقلیت کا نشان ماتھے پر کھدا ہوتا۔ جہلم کے لوگ بتا رہے تھے کہ پورے بازار میں صرف ایک دکان مسلمان کی تھی۔ یہی حال ان تمام مقامات پر تھا جہاں مسلمان اقلیت میں نہیں، اکثریت میں تھے۔ 

پاکستان ایک ہرا بھرا، سبز پتوں سے لدا شجر ہے جس پر ہمارے گھونسلے ہیں۔ پاکستان ہارا مان ہے، ہمارا دل ہے۔ ہماری جان ہے۔ ہمارے جسم کی رگوں اور وریدوں میں جو خون ہے اس کا ایک ایک قطرہ، ہمارے گوشت کے نیچے جو ہڈیاں ہیں اور ہڈیوں میں جوگودا ہے، اس کا ایک ایک ذرہ پاکستان کا مرہون احسان ہے۔ یہ ہماری شناخت ہے، شناخت کتنی اہم ہے، جائے پناہ کتنی ضروری ہے، اپنا ٹھیا کتنی بڑی دولت ہے۔ روہنگیا کے مہاجروں اور فلسطین کے پناہ گزینوں سے پوچھو۔ آسٹریلیا کے ایبوریجنز
(Aborigines) 
سے، امریکہ کے ریڈ انڈینز کو دیکھو۔ پھر اے ناشکرو‘ اے کفران نعمت کا ارتکاب کرنے والو‘ سجدہ شکر ادا کرو۔ مالک نے تم پر احسان کیا۔ تمہیں ایک الگ خطہ خاک سے‘ اس ارض پاک سے نوازا۔ 

بجا کہ ہم اس سے انصاف نہیں کرسکے۔ ہم وہ فرزند ثابت ہوئے جو ماں کو خورسند نہ رکھ سکے۔ ہم نے اسے لوٹا کھسوٹا۔ اسے ظلم سے بھر دیا ‘یہاں تک کہ ناانصافی چھلک کر پیالے سے باہر گرنے لگی۔ یہاں تک کہ فرشتہ پکار اٹھا ؎ 

اور اب اسے ایک غیب کا ہاتھ انڈیل دے گا 

کہ صبر کی انتہاسے بستی چھلک رہی ہے 

مگر شاید ہماے نامہ اعمال میں کوئی بھولی بسری کوئی چھوٹی موٹی نیکی تھی جو کام آ گئی۔ ہماری غار کے منہ سے قدرت نے پتھر سرکا دیا۔ ہم نے لٹیروں، ڈاکوئوں، غاصبوں اٹھائی گیروں کو پہچان لیا، ہمیں ایک ایسا لیڈر مل گیا جس کی ملک سے باہر جائیداد ہے نہ فیکٹریاں، محلات نہ گراں بہا اپارٹمنٹ۔ نہ پینٹ ہائوس، نہ دبئی میں عالی شان قصر۔ نہ دنیا کے اطراف و اکناف میں لوٹی ہوئی ملکی دولت کے انبار۔ خدا کی سنت ہمارے شامل حال ہوئی۔ ہم پر نصرت کے دروازے کھلے۔ یہ دن ہیں جو لوگوں کے درمیان پھیرے جاتے ہیں۔ حافظ ظہورالحق ظہور نے کہا تھا ؎ 

خدا ہر ایک کو دیتا ہے موقع کام کرنے کا 

اسی خاطر زمانے میں ہمیشہ انقلاب آیا 

رت بدلتی ہے۔ دن پھرتے ہیں۔ جاڑا آتا ہے۔ پھر بہار۔ کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ شجر نیا لباس زیب تن کرتے ہیں۔ حجر حمد و ثنا کر کے رت بدلنے والے کو یاد کرتے ہیں۔ پھر تابستان آتا ہے۔ سورج کی کرنیں تیر کی طرح چبھتی ہیں۔ ایسے میں درخت پتوں کو ہلا کر سائے کا قالین بنتے ہیں اور ہمارے لیے فرش خاک پر بچھاتے ہیں۔ پھر خزاں ہر طرف چھا جاتی ہے۔ سدا بہار پودے اس خزاں میں بھی سرسبزو شاداب رہتے ہیں۔ 

اس ملک نے بھی موسموں کا الٹ پھیر دیکھا۔ ہم نے خزاں کے ایسے ادوار بھگتے جو بہار کے موسموں کو ہڑپ کرتے رہے۔ ہمارے درخت ٹنڈ منڈ رہے، زرد، خشک، کھڑکھڑاتے پتوں سے ہمارے صحن بھر گئے۔ مگر ہم پرامید رہے۔ پھر غالیچے فضا میں اڑتے ہوئے آئے۔ بادلوں نے ہمارے سروں پر رحمت کی شال تان دی ؎ 

شکر نعمت ہائی تو چندانکہ نعمت ہائی تو 

عذر تقصیرات ما چندانکہ تقصیرات ما

جتنے ہمارے گناہ۔ اس سے کہیں زیادہ اس کی نعمتیں اور رحمتیں۔ سبحان اللہ وبحمدہ۔ 


ہماری نئی قیادت اگر ثابت قدم رہی، اگر اس نے اپنے آپ کو اقتدار کے نشے سے بچائے رکھا، اگر غلطیاں سرزد کرنے والوں کو اپنی صفوں میں وہ پہچانتی رہی، اگر ان سے باز پرس کرتی رہی، اگر بے غرض، بے لوث رہی، اگر مال و زر سے بے نیاز رہی تو یہ ملک اقوام عالم میں یوں ابھرے گا جیسے بادلوں کے پیچھے سے چاند نکلتا ہے جسے پوری دنیا دیکھتی ہے ؎ 

وادی قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ 
سربکف ہوکے جوانان وطن نکلیں گے


Tuesday, August 14, 2018

مولانا کے دفاع میں


مولانا فضل الرحمن پر مخالفین منافقت کا بہتان تراشتے ہیں۔ 

مخالفت کا حق کسی سے بھی چھینا نہیں جا سکتا۔ مگر منافقت کا الزام لگانا ناانصافی ہے۔ مولانا کا ماضی اس حقیقت پر شاہد ہے کہ انہوں نے منافقت سے کام کبھی نہیں کیا۔ 

سب جانتے ہیں کہ مولانا کا اور ان کے بزرگوں کا تعلق ایک ایسی مذہبی جماعت سے تھا جو قیام پاکستان کی مخالف تھی۔ مسلم لیگ کے مقابلے میں ان کے بزرگوں کی جماعت نے کانگرس کا ساتھ دیا تھا۔ مولانا اسی پاکستان کی قومی اسمبلی میں کئی برس رکن رہے، ان کے بزرگوں نے جس کی مخالفت کی تھی۔ اسی پاکستان سے انواع و اقسام کی مراعات حاصل کیں۔ کشمیر کمیٹی کے صدر رہے۔ وفاقی وزیر کے برابر ان کا عہدہ تھا۔ اسی پاکستان کی حکومت سے سرکاری رہائش گاہ لی اور سالہا سال اس میں ایک آرام دہ زندگی گزاری۔ کالم نگار آصف محمود دس اگست کے روزنامہ 92 نیوز میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ مولانا کے قریبی اعزہ نے کس طرح اس ریاست سے بھرپور فوائد اٹھائے۔ اپنے قریبی ساتھیوں میں سے کسی کو سینیٹ کا ڈپٹی چیئرمین منتخب کرایا اور کسی کو اسلامی نظریاتی کونسل کے صدارتی منصب پر متمکن کرایا۔ جس پاکستان کی مخالفت کی، اسی پاکستان کے حکمرانوں سے قریبی تعلقات رکھے۔ زرداری صاحب ہوں یا جنرل مشرف، بے نظیر بھٹو ہوں یا میاں نوازشریف، ان کی ہر ایک سے گاڑھی چھنتی رہی۔ 

مگر اس سارے عرصہ میں انہوں نے قائداعظم کو کبھی قائداعظم نہ کہا۔ ان کے منہ سے بانی پاکستان کا کبھی نام نہ نکلا۔ ان کے مزار پر فاتح خوانی کے لیے وہ کبھی نہ گئے۔ اگر ان میں منافقت ہوتی تو پاکستانی عوام کو خوش کرنے کے لیے وہ اپنے اور اپنے بزرگوں کے ماضی سے برات کا اظہار کرتے۔ قائداعظم کی خدمات کوتسلیم کرتے، سراہتے اور مانتے کہ تقسیم کا فیصلہ درست تھا، ان کے مزار پر جاتے۔ 23 مارچ اور 14 اگست کے دن مناتے بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے گزشتہ سال اپنے بزرگوں کی جماعت (جمعیۃ علمائے ہند) کا سوسالہ جشن منایا۔ چنانچہ مولانا کے مخالفین جو الزام بھی لگانا چاہیں شوق سے لگائیں مگر منافقت کا الزام جچتا نہیں۔ نظریاتی حوالے سے وہ کانگرس کے موقف پر آج بھی قائم ہیں۔ 

یہ ایک بین حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا جمعیت علمائے ہند اور کانگرس کے موقف پر آج بھی قائم ہیں۔ اس سارے عرصہ میں تحریک پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کبھی کچھ نہ کہا۔ مولانا ایک بلند پایہ مقرر ہیں۔ فن تقریر میں انہیں کمال حاصل ہے۔ اگر ان کے سیاسی موقف میں تبدیلی رونما ہوئی ہوتی تو یوم پاکستان اور یوم آزادی پر وہ پاکستان کے حق میں، تحریک پاکستان کی تعریف میں اور قائداعظم کی خدمات کے سلسلے میں عالی شان تقریریں کرتے مگر انہوں نے پاکستان، بطور ریاست، کے حق میں شاید ہی کبھی کچھ کہا ہو۔ اس سارے عرصہ میں بھارت کے مسلمانوں پر مصیبتوں کے بڑے بڑے پہاڑ ٹوٹے۔ بابری مسجد شہید کی گئی۔ گجرات میں مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی گئی۔ ان تمام مواقع پر سوچنے سمجھنے والے پاکستانی کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ لاکھ لاکھ شکر ہے خدا کا کہ پاکستان بنا ورنہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان اسی طرح اقلیت ہوتے جس طرح آج کے بھارت میں اقلیت ہیں اور ان پر اسی طرح ہندو اکثریت نے ظلم ڈھانے تھے جیسے آج بھارت کے مسلمان پر ڈھا رہی ہے مگر کشمیر کمیٹی کے صدر نے کبھی ایسے جذبات کا اظہار نہ کیا بلکہ انہوں نے اس کے برعکس کام کیا۔ بھارت گئے تو کہا کہ ایک عدد گول میز کانفرنس بلا کر پاک بھارت سرحد ختم کی جا سکتی ہے۔ جناب ہارون الرشید کئی بار لکھ چکے ہیں کہ قاضی حسین احمد نے مولانا کے اس ’’بھارتی‘‘ بیان کو تاویل کے پردے میں چھپانا چاہا مگر منور حسن نہ مانے۔ مولانا نے یا ان کے کسی ترجمان نے کبھی اس بیان کی تردید نہیں کی۔ 

مولانا کے کسی ساتھی، ان کی جماعت کے کسی قابل ذکر رکن نے بھی کبھی قائداعظم کا یا تحریک پاکستان کا ذکر نہیں کیا۔ یہی حال ان کے زیر اثر مدارس کا ہے۔ ان مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے طلبہ اور اساتذہ بھی قائداعظم کے رول سے اور تحریک پاکستان سے مکمل بے نیاز بلکہ مخالف ہیں۔ یہ تمام حضرات قائداعظم کو جناح صاحب کہتے ہیں۔ اگر آپ ان کی نجی گفت گوئیں سنیں تو آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ کتنا شدید معاندانہ رویہ ہے ان کا قائداعظم اور تحریک پاکستان کے ساتھ۔ گاندھی نہرو اور پٹیل کے بارے میں ان حضرات نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ 

مولانا کا کشمیر کمیٹی کا صدر بننا پھر اتنے برس اس صدارت پر فائز رہنا او ربے تحاشا مراعات سے فیض یاب ہونا پاکستانی تاریخ کا ایک درد ناک Paradox ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے بنگلہ دیشی حکومت بنگلہ دیش اور پاکستان کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے کمیٹی بناتی اور شیخ مجیب الرحمن یا حسینہ واجد کو اس کمیٹی کا سربراہ بناتی۔ یا پاکستانی حکومت بھارت کے ساتھ ثقافتی یا تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے کمیٹی بنائے اور اس کی ذمہ دار حافظ سعید کو سونپ دے یا تقسیم سے پہلے کے مذاکرات میں مسلم لیگ اپنی نمائندگی کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد کو منتخب کرتی۔ یعنی جن حضرات نے برملا کہا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے، ان کے سپرد کشمیر کی آزادی کا کام کردیا گیا۔ تاریخ میں شاید ہی اتنا مضحکہ خیز واقعہ کہیں پیش آیا ہو اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے زخموں پر اس سے بدتر نمک شاید ہی چھڑکا جا سکے۔ 

2017ء میں جب مولانا نے جمعیت علماء اسلام کی صد سالہ تقریبات منانے کا اعلان کیا تو تاریخ پاکستان کے معروف محقق جناب منیر احمد منیر نے ایک تفصیلی مضمون لکھ کر اس مجوزہ صد سالہ تقریب کی حقیقت کو واشگاف کیا۔ منیر صاحب لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے بارے میں ہندوئوں کے شدید متعصبانہ رویے سے تنگ آ کر 1937ء کے انتخابات کے لیے مسلم لیگ، احرار اور جمعیت علماء ہند نے مشترکہ پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا۔ مولانا حسین احمد مدنی مسلم لیگ کے حق میں بیانات دیتے رہے اور یہاں تک کہا کہ جو مسلمان مسلم لیگ کے نمائندے کو رائے نہیں دے گا۔ دونوں جہانوں میں روسیاہ ہو گا۔ مگر پھر مولانا آزاد کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور جمعیت علماء ہند کانگرس کے ساتھ مل گئی۔ وہی جمعیت اب مسلم لیگ کے خلاف بیانات دینے لگ گئی۔ اس پر مولانا شبیر احمد عثمانی نے لکھا کہ ’’جو چیز 1937ء میں جنت تھی، اب 1945ء میں جہنم کس طرح بن گئی۔‘‘ 

جمعیت علماء ہند کے مقابلے میں تحریک پاکستان کے حامی علما کرام نے جمعیت علماء اسلام قائم کی۔ 1945ء میں مولانا عثمانی کی قیادت میں کلکتہ میں اس کی تشکیل ہوئی۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاری نے مولانا شبیر احمد عثمانی سے شکوہ کیا کہ ’’جمعیت علماء اسلام محض ہماری جمعیت کے مقابلے میں اس کو توڑنے کے لیے قائم کی گئی۔‘‘ دارالعلوم دیوبند کے طلبہ مولانا مدنی کے زیر اثر تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے خود بتایا کہ ان طلبہ نے ان کے قتل تک کے حلف اٹھائے۔ 

اس نو تشکیل شدہ جمعیت علماء اسلام نے تحریک پاکستان کے لیے کام کیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع نے مولانا اشرف علی تھانوی کی قیادت میں تحریک پاکستان کے لیے انتھک محنت کی۔ آج اگر جمعیت علماء اسلام کا کوئی وارث ہو سکتا ہے تو وہ مفتی محمد شفیع کے فرزند مفتی رفیع عثمانی اور مولانا تقی عثمانی ہیں جو اب بھی، آج بھی، تحریک پاکستان کا ہرفورم پر دفاع کرتے ہیں اور قائداعظم کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جمعیت علماء ہند کے وارث۔ جمعیت علماء اسلام میں کس طرح شامل ہو گئے؟ یہ ایک معمہ ہے ؎ 

یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چرا لیتے ہیں لوگ 

قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ 

منیر صاحب کے بقول جب ان حضرات نے جمعیت علماء اسلام تلے پناہ ڈھونڈی تو مفتی محمد شفیع صاحب نے برملا لکھا کہ ’’اس کے شرکا عموماً وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے نظریہ سے ہمیشہ مختلف رہے اور جمعیت علماء اسلام کے خلاف جمعیت علماء ہند سے وابستہ رہے۔‘‘ 

یہ ہائی جیکنگ کس طرح ہوئی اور جمعیت علماء اسلام۔ مولانا مدنی کے سیاسی جانشینوں کے ہتھے کس طرح چڑھ گئی؟ ہماری التماس ہے کہ محترم مفتی رفیع عثمانی اس موضوع پر قلم اٹھائیں تاکہ تاریخ پاکستان کے طلبہ استفادہ کرسکیں۔ 

آج اگر مولانا فضل الرحمن نے چودہ اگست نہ منانے کا اعلان کیا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اقتدار سے محرومی کے بعد ان کا پہلا ہدف یوم آزادی بننا ہی بننا تھا۔ مولانا نے اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔


Saturday, August 11, 2018

سیاست میں انسانیت ڈھونڈنے کا ہنر


اکتا جاتے ہیں۔سیاست کے موضوع پر کالم پڑھ پڑھ کر پڑھنے والوں کی ناک میں دم آ جاتا ہے۔

مان لیا، سیاسی موضوعات پر سب اپنے اپنے اسلوب سے لکھتے ہیں۔ کچھ کے اسالیب بہت مقبول ہیں مگر موضوع تو وہی رہتے ہیں۔ وہی عمران خان، وہی زرداری، وہ انگلی لہراتی ہوئی، وہی ہیٹ، وہی شہزادی، وہی اس کا بے وقعت میاں جس نے شناخت سسرال میں گم کردی۔ فنا فی السسرال ہوگیا۔ تاریخ میں نام اور مقام بنا گیا۔

جب بھی دوسرے موضوعات پر کالم لکھا فیڈ بیک، کئی گنا زیادہ آیا۔ بچے، بچوں کی معصومیت، سماجی رشتے جو مدہم ہوتے ہوئے غائب ہورہے ہیں، دیہی زندگی کے دھندلائے ہوئے مناظر۔ ادب آداب جو افق پار چھپتے جا رہے ہیں۔ پڑھنے والے پڑھتے ہیں اور روتے ہیں۔ بحراوقیانوس کے اس پار سے نامے آتے ہیں کہ صبح سے پڑھ رہا ہوں، رو رہا ہوں، تم نے اپنی نہیں، میری داستان لکھی ہے۔ میرا بچپن بھی یہی تھا

پڑھنے والے تاریخ اور ادب کے پیاسے ہیں ۔ ادبی پرچوں کا سنہری دور لد چکا۔ فنون، اوراق، نقوش، شمس الرحمن فاروقی کا شب خون۔ اب وہ ادبی جریدے کہاں! ’’فنون‘‘ نکل رہا ہے مگر

؎ شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بھلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گرد سفر گیا وہ

پھر بھی قاسمی صاحب کی دختر نیک اختر اور ان کے نواسے کی ہمت ہے کہ کشتی ان بپھرے پانیوں میں کھیتے جا رہے ہیں۔ اوراق کا کوئی بھی وارث نہ ہوا۔ ’’سویرا‘‘ شائع ہوتا ہے مگر مارکیٹ میں آتا ہی نہیں۔ لگتا ہے سو دو سو کی تعداد میں چھپتا ہے۔ مبین مرزا اپنا پرچہ ’’مکالمہ‘‘ ہر ماہ باقاعدگی سے چھاپ رہے ہیں۔ ہمت ہے۔ داد کے مستحق ہیں۔ نصیر احمد ناصر تسطیر نکال رہے ہیں۔ ممتاز شیخ ’’لوح‘‘ کی ادارت کرتے ہیں۔ بھارت کے ادبی پرچوں کا عزیزم علی اکبر ناطق کے ذریعے علم رہتا ہے۔ سننے میں آتے ہیں، پڑھنے میں نہیں۔

علی اکبر ناطق کی نظمیں اپنا رنگ لیے ہیں۔ وحید احمد نظم کی اپنی سلطنت رکھتا ہے۔ معین نظامی کی جاگیر الگ ہے۔ یہ وہ جواں مرد ہیں جنہوں نے اردو نظم کو نیا پیرہن عطا کیا اور اس روح کو نئے نئے قالب عطا کئے ہیں۔ مگر ایک نظم گو اور ہے جو گوشہ گیر ہے۔ بینکاری کے گوشواروں وائوچروں ڈبل انٹری کی پیچیدگیوں میں کھویا، اعداد و شمار کے پتھر کاندھے پر اٹھا کر دن کو رات کرتا ہے۔ پھر ایسی نظمیں کہتا ہے کہ پڑھنے والے کو حیرت کے دشت میں لے جا کر وہ وہ مناظر دکھاتا ہے کہ جان بدن سے نکلنے لگتی ہے۔ فرح یار نے کیا کیا کمال کی نظمیں کہیں۔

ہم تو بس پیشی بھگتانے آئے ہیں۔

اور

’’چین سے چائے کی پتیاں آ گئیں سہ پہر سج گئی۔‘‘

مگر یہ کچھ تازہ نظمیں پڑھیے

یہ پانی کہاں تک چلے

بے ربط قصّے میں
سندھو نشانی ہے
جیون کی گاگر میں
تھوڑا سا پانی ہے
پانی کہاں تک چلے
ہم کالی راتوں کو
بس جیسے تیسے
بسنتی چنریا
سے دل باندھ لیں گے
کہ ست جگ میں
تم ہی بھلے
تم ہی بھلے
پر ذرا راہ کی بھیڑ میں
رفتگاں سے لپٹتی ہوئی
شام ہے بھربھری نیند ہے
آئینوں کے تلے
بھربھری نیند میں
ایک مُکھ بھائو میں
دھیرے دھیرے سلگتا ہوا آسماں
نے بجھے نے جلے
تم بتائو یہ پانی کہاں تک چلے ٭٭٭٭٭

شہر کی سیڑھیوں پر

بدن کے مضافات کو/ بے قراری کی بیلوں نے گھیرا ہوا تھا /جنم پھیر کی خود کلامی کے اندر/ ہمہ وقت بے چین آنکھوں میں مستی کا سرمہ لگا تو /عراقِ عجم کے پلوں سے گزر کر /دمشق اور کوفہ کی خونی دلیلوں سبیلوں سے بچتا بچاتا /زمانوں کی دوری پہ دریا کے اس پار آباد /باغوں بھرے شہر کی سیڑھیوں پر /دمکتے ہوئے نقش کو بند کر کے /کئی سال سے اب /خراسان کے دستکاروں کی شوریٰ میں /بیٹھا ہوا ہوں /
سواروں کے جتھے /اترتے گزرتے چلے آ رہے ہیں/ سواروں کی شکلوں پہ شب کی لکیریں/ ملامت کی کالی سیہ چادریں اوڑھ کر / ان کا ہونا /کسی ناگہانی میں بھٹکا ہوا ہے /ہوا رک گئی ہے /مگر میرا دل /جیسے راول کی پنڈی میں اٹکا ہوا ہے /وہ راول کی پنڈی /جسے خلق نے گرد اور خشک جاڑے سے نکلی ہوئی /دھند کے بیچ تھالی میں رکھا/ کہاں سب کو ملنا تھی/ پلکوں کی چھایا/ کہاں سب پہ کھلنا تھا کار تمنا /محلوں فصیلوں دکانوں کے پہلو میں بہتے /زمانوں کے اندر لرزتی دھڑکتی ہوئی زندگی آخری متن تک /خط کشیدہ عبارت میں لکھی ہوئی تھی/ وہ راول کی پنڈی کہ جس میں /زمین کو بدلنے کا سپنا سناتے ہوئے قصہ خواں /موسموں کی نہایت سے بچ کر /پرانے مکانوں کی جانب پلٹتے رہے /اور اب نارسائی کے مجہول کوٹوں میں /ان قصہ خوانوں کو نیند آ گئی ہے /مرادوں کی بھٹی میں/ اس سال بھی /اپنی مرضی کے چاند اور ستارے نہیں ڈھل سکیں گے /خبر، بے خبر بھیڑ کو چیرتی جا رہی ہے/ سخن خشک سالی کی شاخوں سے لٹکا ہوا ہے /مگر میرا دل… ٭٭٭٭٭ 

چائے خانہ 

سنت سادھو نہیں کہ گلہ نہ کریں /جنگلوں میں رہیں /بادلوں پر چلیں /زندگی ہم ترے /جوڑ جھالے میں گم /عام انسان ہیں /جو پریشان ہیں /زندگی! یوں ہمیں بے دلی سے نہ مل /ہم اتر جائیں گے /انت کے رو برو گہرے پاتال میں /ہم بھٹک جائیں گے /دودھیا راستوں /پانیوں سے بھرے بادلوں میں کہیں/ سرمئی خاک کو بھربھرا چھوڑ دے /جو مکاں ہے اسے لا مکاں مت بنا /ہم زبانی کا خطِ بے زباں مت بنا /تیزی تکرار میں تیرے ہم راز ہیں /تیرے عشاق ہیں /تیرے جانباز ہیں /زندگی یوں ہمیں بے دلی سے نہ مل ٭٭٭٭٭

بے چینی 
سب سیدھا رکھنے کی خواہش میں/ کچھ الٹا ہو جائے تو/ ہم گھبرا کر /جیون گدلا کرلیتے ہیں /خوف میں لپٹے سناٹوں سے /بھر جاتے ہیں /ذرا ذرا زندہ رہتے ہیں /کافی سارا مر جاتے ہیں /
٭٭٭٭٭ 

مجھے نیند آنے لگی ہے 

زندگی! /اپنی منقار کو /میرے ہونٹوں پہ رکھ /میرے سانسوں کے برتن سے ٹپ ٹپ /کوئی چیز بہتی چلی جا رہی ہے /یہ آنکھوں کا روغن کہ جلتا رہے گا/ مجھے دودھیا پھڑ پھڑائے پروں پر اٹھا /نیلگوں وسعتوں میں میرا نام لکھ/ میرے خوابوں کی لو /تیز کر تیز کر //مجھ کو آواز دے /زندگی مجھ کو آواز دے /

فرح یار کی نظموں میں زندگی کے راز کھلتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے نظم کہی تھی ’’ریستوران‘‘ اور لکھا تھا ؎ 
ریستوران میں سجے ہوئے ہیں کیسے کیسے چہرے
فرح یار ایک قدم آگے بڑھا ہے۔ ’’چائے خانہ‘‘ میں زندگی کو سجھاتا ہے کہ ہانپتے ہوئے لوگوں کو، اس تیز رفتار بازار میں، دو گھڑی سکون بھی درکار ہے۔ سیاست کی گرم بازاری میں ادب اورتاریخ پڑھو کہ سیاست بھی مجھ میں آئے گی اور زندگی بھی۔ زندگی ہی سمجھ میں نہ آئی تو سیاست کس کام کی۔ یہ شاعر، ادیب اور مورخ ہیں جو سیاست میں انسانیت ڈھونڈنے کا ہنرسکھاتے ہیں۔ 

شاعروں، ادیبوں اور مورخوں پر دھیان دو کہ زندگی محض ووٹوں بیلٹ بکسوں اور اسمبلیوں کا نام نہیں۔

Thursday, August 09, 2018

لُوٹا ہوا پِزا اور سوئمبر



جو اپنے خریدے گئے پزا کی حفاظت نہ کرسکا، وہ ملک کی حفاظت خاک کرے گا؟

اول تو عمران خان کو ایسی حرکت کرنا نہیں چاہیے تھی۔ خدا کے بندے! تم ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہو۔ تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہو۔ عوام نے تم پر اعتماد کیا ہے۔ ووٹ ڈالے ہیں۔ تم متوقع وزیراعظم ہو۔ دنیا بھر کی نظریں تم پر ہیں۔ ایک ایک نقل و حرکت کا جائزہ لیا جارہا ہے اور حالت تمہاری یہ ہے کہ پزا لینے کے لیے رات گئے خود نکل کھڑے ہوئے۔ وہ بھی تن تنہا۔

پھر اگر عمران خان سے یہ حماقت سرزد ہو ہی گئی تھی تو کم از کم نقاب پوش ڈاکوئوں کو تو شرم آنی چاہیے تھی۔ ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ موٹرسائیکلوں پر سوار ڈاکوئوں کے اس گروہ نے عمران خان کو پہچانا نہیں۔ کون سا پاکستانی ہے جس نے عمران خان کی تصویر بارہا نہ دیکھی ہو۔ ان بدبختوں نے ہمارے متوقع وزیراعظم سے پزا چھینا اور فرار ہو گئے۔ عمران خان نے پیسے بھی خرچ کئے اور پزا بھی ہاتھ نہ آیا۔

ان ڈاکوئوں کو خود بنفس نفیس ملنا چاہتا تھا کہ شرم دلائوں مگر درمیان میں اور جھمیلے آن پڑے۔ خبر ملی کہ حمزہ شہبازشریف صاحب کو صوبے کا وزیراعلیٰ نامزد کردیا گیا ہے۔ اپنے نون لیگی دوستوں کو مبارکباد دینے میں مصروف ہوگیا۔ مٹھائیاں اور کیک خریدنے پڑے۔ خدا کا شکر ہے یہ فیصلہ میرٹ اور خالص میرٹ پر ہوا۔ نون لیگی دوستوں نے مٹھائیوں کے ٹوکرے اور کیک بھرے ڈبے وصول کرنے کے بعد تفصیل بتائی کہ مسلم لیگ نون کے اراکین خالص میرٹ سے ایک انچ نیچے اترنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ نامزد کرنے کے لیے آمادہ ہی نہ تھے۔ خود شہبازشریف اس نامزدگی کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بعد ان کے فرزند کا وزیراعلیٰ ہونا تقویٰ کے خلاف ہے۔ تقویٰ کو وہ بہت پسند کرتے ہیں مگر حادثہ یہ ہوا کہ میرٹ کی کسوٹی پر حمزہ شہباز کے علاوہ کوئی پورا ہی نہیں اتر رہا تھا۔

پنجاب میں بہت سے نون لیگی سیاست دان تھے۔ سفید سروں والے۔ پوری پوری زندگیاں سیاست میں لگا دیں۔ شریف خاندان کے لیے قربانیاں دیں، مدتوں ہاں میں ہاں ملائی۔ اسمبلیوں میں، جلسہ گاہوں میں، ہر جگہ ساتھ دیا۔ خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، احسن اقبال، خرم دستگیر، رانا ثناء اللہ، سائرہ تارڑ ایک سے ایک بڑھ کر تجربہ کار، منجھا ہوا پڑھا لکھا مگر وزیراعلیٰ کے لیے جو معیار مقرر کیا گیا تھا، اس پر کوئی بھی پورا نہ اتر سکا۔ بالآخر نوجوان حمزہ شہباز آگے بڑھا۔ میرٹ کا لباس اسے پہنایا گیا تو قدرت خدا کی یہ لباس اس کے متناسب بدن پر اس طرح فٹ ہوا گویا درزی نے اس کا ماپ لے کر سیا تھا۔ فراز کا شعر یاد آگیا ؎

سنا ہے اس نے سوئمبر کی رسم تازہ کی

فراز تو بھی مقدر کو آزمانے جا

جوان رعنا حمزہ شہباز اگر گزرے زمانوں میں ہوتا تو میرٹ پر سوئمبر کا مقابلہ بھی جیت جاتا۔


پرانے زمانے میں جب کوئی خوبصورت شہزادی جوان ہوتی تو اس سے شادی رچانے کے آرزو مند ایک سے زیادہ ہوتے۔ ان میں نشانہ بازی کا مقابلہ کرایا جاتا مگر یہ مقابلہ عام مقابلہ نہ ہوتا۔ ایک مچھلی اونچی جگہ پر لٹکائی جاتی۔ نیچے پانی رکھا جاتا۔ امیدوار کو کہا جاتا کہ مچھلی کو نشانہ بنانا ہے مگر مچھلی کی طرف دیکھ کر نہیں، بلکہ پانی میں مچھلی کا عکس دیکھ کر یا درخت کے ساتھ آئینہ باندھا جاتا اور امیدواروں کو کہا جاتا کہ ہدف کے آئینے میں دیکھ کر نشانہ باندھیں۔ جو تیرانداز پانی یا آئینے میں عکس دیکھ کر ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا وہ سوئمبر جیت جاتا۔ وزیراعلیٰ کی نامزدگی کا فیصلہ خالص اور خالص میرٹ پر کیا گیا۔ جناب حمزہ سوئمبر جیت گئے اور سارے سفید سر، چٹ داڑھیے، عمر رسیدہ، تجربہ کار سیاست دان میرٹ کے اس مقابلے میں ہار گئے۔

شہبازشریف کو یہ خبر ملی تو پہلے روئے، پھر ہنسے، خبر لانے والے ایلچی نے پوچھا اے سابق خادم اعلیٰ، اے تعدد ازدواج کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہیرو، اے لمبے بوٹوں اور ہیٹ کی شہرت رکھنے والے مرد عظیم، اس فقیر کو جلد بتا کہ تو پہلے رویا کیوں، پھر ہنسا کیوں، سابق خادم اعلیٰ نے چھپن کمپنیوں پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا، پھر احد چیمہ اور فواد حسن فواد کی یاد میں ایک لمبی آہ کھینچ کر کہا کہ اے نامعقول ناہنجار ایلچی، رویا میں اس لیے کہ تین دہائیوں کی محنت شاقہ کے باوجود پارٹی میں کوئی ایک رکن بھی اس قابل نہ نکلا کہ وزارت اعلیٰ کی پوسٹ کے لیے میرٹ پر کامیاب ہوتا، ساری محنت بے کار نکلی۔ یہ کہہ کر شہبازشریف دوبارہ زار و قطار رونے لگے۔ اس پر ایلچی نے کہا کہ اے انگلی لہرانے والے اور بار بار چیک اپ کے لیے لندن جانے والے عظیم رہنما، اب یہ بتا کہ تو ہنسا کیوں، یہ سن کر شہبازشریف نے ہیٹ اتارا، لمبے بوٹوں سے پائوں باہر نکالے، انگلی لہرائی، زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا نعرہ لگایا - وہ چھری دکھائی جس سے پیٹ پھاڑ کر اندر سے ساری دولت نکالنا تھی اور کہا کہ ہنسا میں اس لیے کہ الحمدللہ، آخر فرزند گرامی ہی اس سوئمبر میں کامیاب ہوا۔

عمران خان سے پزا چھیننے والے ڈاکوئوں سے ملاقات کرنے گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ ایک اور خبر موصول ہوئی۔ ایم ایم اے نے ڈپٹی سپیکر کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے مولانا فضل الرحمن کے فرزند ارجمند مولانا اسعد محمود کو نامزد کیا۔ قاصد نے بتایا کہ اس انتخاب کے لیے بھی سوئمبر کا مقابلہ ہوا۔ میاں انس نورانی، مولانا ساجد نقوی، لیاقت بلوچ سب بڑے بڑے جغادری ہار گئے۔ بڑی کوشش کی گئی کہ ان میں سے کوئی میرٹ پر پورا اتر جائے۔ اجلاس کی صدارت مولانا فضل الرحمن کر رہے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایم ایم اے والے ان کے فرزند گرامی کو اس منصب کے لیے نامزد کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تقویٰ کے بھی خلاف ہے اور جمہوری اصولوں سے بھی متحارب ہے۔ تقویٰ آپ کوبہت بہت پسند ہے مگر افسوس! میرٹ کے امتحان میں سب فیل ہو گئے۔ مولانا سراج الحق سے بھی بہت امیدیں وابستہ تھیں مگر سوئمبر میں وہ بھی کھیت رہے۔ آئینے میں ہدف کو تاکا، نشانہ باندھا مگر افسوس! ٹیڑھی ٹوپی نیچے گر گئی، نشانہ الگ چوک گیا۔ ٹیڑھی ٹوپی انہیں عزیز بہت ہے۔ ٹیڑھی ٹوپی پہننے والے کو کج کلاہ کہتے ہیں۔ عجز وانکسار کے باوجود (جو ان کا مشہور ہے) کج کلاہی کو بہت پسند فرماتے ہیں۔

مولانا اسعد محمود نے یہ مقابلہ خالص میرٹ پر جیت لیا۔ مولانا فضل الرحمن کو خبر پہنچی تو پہلے ہنسے پھر دوبارہ ہنسے۔ رونا انہوں نے سیاست میں سیکھا ہی نہیں۔ خبر لانے والے ایلچی نے استفسار کیا کہ اے سیاست کے بحر ظلمات میں غوطہ لگانے کے ماہر، آپ ہنسے کیوں اور دوبارہ کیوں ہنسے۔ فرمایا اس لیے ہنسا کہ میرٹ کے امتحان میں سب ناکام ہو گئے۔ دوبارہ اس لیے ہنسا کہ صرف فرزند گرامی یہ مقابلہ جیت سکا۔

فراغت ہوئی تو پھر ڈاکوئوں سے بات کرنے کا سوچا مگر معلوم ہوا کہ خبر ہی غلط تھی۔ یہ کوئی اور عمران خان تھا جو فیصل آبامیں پزا لے کر گھر جا رہا تھا کہ اقبال سٹیڈیم کے داخلی گیٹ کے سامنے موٹرسائیکل سوار نقاب پوش ڈاکوئوں نے پزا لوٹ لیا۔



 

powered by worldwanders.com