Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, April 29, 2018

حلوے کا نوالہ یا کانٹا؟


اب یہ یاد نہیں کہ ٹرین قرطبہ سے چلی تھی اور بارسلونا جارہی تھی یا بارسلونا سے چلی تھی اور رو م جارہی تھی۔ بہرحال جس ڈبے میٰں سفر کررہا تھا اس میں سامنے والی لمبی سی سیٹ پر ایک لڑکی اور تین لڑکے بیٹھے تھے۔ چونکہ رات تھی اس لیے شب بسری کا ماحول تھی۔ لڑکی اور تینوں لڑکے کالج یا یونیورسٹی کے طالب علم لگ رہے تھے۔ گپ شپ مار رہے تھے۔ دھول دھپا بھی کررہے تھے قہقہے بھی لگا رہے تھے۔ اور ان میں سے ایک تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد گیت کی تان بھی لگا رہا تھا۔ زبان وہ ہسپانوی بول رہے تھے، چھ ماہ اٹلی گزارنے کی وجہ سے میں اطالوی سمجھ لیتا تھا ۔اطالوی اور ہسپانوی زبانیں آپس میں بہنیں ہیں ۔ پرتگالی ان کی تیسری بہن ہے۔ ہمارے ساتھ جو بیوروکریٹ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی ملکوں سے تھے وہ لیکچر سننے کے دوران انگریزی ترجمے سے بے نیاز تھے۔ اطالوی میں سنتے تھے امتحان میں پرچے وہ ہسپانوی میں دیتے تھے۔ اطالوی استاد ان ہسپانوی پرچوں کو براہ راست چیک کرتے تھے۔ جو ہسپانوی ان چار بے فکروں کی میری سمجھ میں آرہی تھی اس سے پتہ چلتا تھاکہ وہ کرسمس کی تعطیلات گزارنے سپین سے فرانس جارہے تھے 
لڑکی نے اپنے بیگ سے بڑی سی چاکلیٹ نکالی ۔اس کا کاغذ اتارا اور کھانا شروع کردی۔ ایک لڑکے نے مانگی۔لڑکی نے قہقہ لگایا اور دینے سے انکار کردیا۔ دوسرے لڑکے نے مانگی لڑکی نے پھر انکار کردیا۔ اور مزے لے لے کر کھاتی رہی لڑکوں نے اس سے چھیننا چاہی یہ منظر میرے لیے دلچسپ تھا اور سبق آموز !” جغرافیائی فائدہ “ اس لڑائی میں لڑکی کو یہ تھا کہ وہ سیٹ کے کنارے پر تھی اور تینوں لڑکے ایک طرف بیٹھے تھے۔ جتنی دیر وہ چاکلیٹ کھاتی رہی تینوں لڑکے اس سے چھیننے کی جدو جہد کرتے رہے۔ آنکھوں نے یہ ناقابل یقین منظر دیکھا کہ اس نے ایک ہاتھ سے تین اپنے ہم عمر لڑکوں کو روک رکھا تھا اور دووسرے ہاتھ سے چاکلیٹ کھا رہی تھی۔ چاکلیٹ ختم ہوگئی تو چاروں نے زور زور سے قہقہے لگائے۔

ہم مغرب میں رات دن کیڑے نکالتے ہیں اور یہ بات کہ بجلی سے لے کر ٹیلی ویژن تک انٹر نیٹ سے لے کر موبائل فون تک دل کی سرجری سے  ہزاروں لائف سیونگ ادویات تک مغرب کے نقال ہیں ۔ دریوزہ گر ہیں اور طفیلی ہیں ! آج جذباتی عوام سے واہ واہ کرانے کے لیے ہم نعرہ لگاتے ہیں کہ مغرب نے عورت کو “شمع محفل” بنادیا ہے مگر بھول جاتے ہیں کہ مشرق میں تو عورت فراعنہ مصر کے زمانے ہی سے شمع محفل تھی۔عباسیوں سے لے کر عثمانی خلفا تک سلاطین دہلی سے لے کر مغل شہنشاہوں تک عورت کو جس “احترام “اور “پردے” میں رکھا جاتا تھا کسی سے پوشیدہ نہیں ۔عباسیوں کے عہد میں تو باپ بیٹے کا ایک ہی کنیز پر دل آجانا کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی۔ کس  مشرقی حکمران کے دربار میں رقاصائیں اور گانے والیاں نہیں تھیں ؟الناس علی دین ملو کہم عوام اپنے حکمرانوں کی تقلید کرتے تھے۔ یہ ثقافت ،یہ کلچر، یہ سب کچھ صرف درباروں میں نہیں تھا ہر نواب ہر وزیر یہی کچھ کرتا تھا اور شہر شہر قریہ قریہ   یہی کچھ ہوتا تھا۔ مینا بازار کا موجد کوئی یورپی یاامریکی نہیں تھا۔ جہانگیر کے زمانے میں یہ شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ جہانگیر کے زمانے کے لکھے ہوئے تذکرے پڑھ لیجیے۔ وہ مینا بازار کا دورہ کرتا تھا اور جس سٹال پر گھوڑے یا پالکی سے اتر کر جاتا اس کا مطلب تھا سٹال والی پسند آگئی ہے۔

یہ ایک طویل داستان ہے جو لوگ یہ سمجھ اور سمجھا رہے ہیں کہ مغرب میں ہر عورت  فاحشہ ہے اور خاندانی نظام منہدم ہوچکا ہے ،جا کر ،رہ کر، دیکھ لیں کہ ایسا نہیں ہے اور ہر گز نہیں ہے۔ یہ لوگ بھی ماں باپ کی ایسی   ہی خدمت کرتے ہیں جیسے ہم کرتے ہیں ۔ ہمیں مغرب کے ہزاروں اولڈ ہوم تو نظر آجاتے ہیں اور بوڑھے اور بوڑھیاں اپنے ہاں کی دکھائی نہیں دیتیں جنہیں ان کے بیٹو ں اور بہوؤں نے یا بیٹوں نے بیویوں کے کہنے پر گھرو ں سے نکال دیا ہے۔ اولڈ ہوم اب کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں  بھی بن رہے ہیں اور چل رہے ہیں ۔فرق یہ ہے کہ یہاں بوڑھوں کو مارا پیٹا جاتا ہے جب کہ مغرب کے اولڈ ہومز میں ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں ! یہ کالم نگار لڑکپن میں تھا جب سنا کہ گاؤں میں ایک بڑھیا کو اس کے بیٹے نے گھرسے نکال دیا ۔میرے دادا اور دادی اسے اپنے گھر لے آئے۔ اس کا دوسرا بیٹا  شہر میں آڑھتی تھا اور امیر۔ اس نے بھی رقم تو بھیجی مگر ما ں کو پاس نہ رکھا۔ جن ملکوں کو ہم نے دشنام طرازی کی دھار پر رکھا ہوا ہے اور دن رات ان کی غیبت کرتے ہیں ان ملکوں میں اپنی آنکھو ں  سے دیکھا کہ بوڑھوں کے گھروں میں رضا  کار جاتے ہیں صفائی کرتے ہیں سودا سلف لاتے ہیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں ۔ ایک چینی خاتون آسٹریلیا میں اپنی والدہ سے ملوانے اولڈ ہوم لے گئی ،والدہ کی عمر نوے سے اوپر تھی ۔ہر روز اس کے کمرے اور غسل خانے کی صفائی ہوتی تھی۔ وقت پر دوا دی جاتی تھی ۔ہر ضرورت کا خیال رکھا جاتا تھا ۔خاتون سے پوچھا تم اسے اپنے گھر کیوں نہیں رکھتیں کہنے لگی پہلے گھر ہی میں تھی ۔میں شام کو نوکری سے آتی ہوں ہر روز صفائی نہیں کرسکتی ۔د ن بھر اکیلی ہوتی تھی۔ یہاں سارا دن ٹی وی روم میں اپنی ہم عمر عورتوں کے ساتھ گپ شپ کرتی ہے۔

بات دور نکل گئی! جس لڑکی  کا واقعہ دیکھا اور لکھا ہے  اسے بچپن سے یہ تربیت نہیں دی گئی تھی کہ تم نے اکیلے گھر سےباہر نہیں نکلنا۔ بھائیوں کے سامنے بولنا نہیں ، وہاں لڑکیوں کو جسمانی طور پر چاق و چوبند بنایا جاتا ہے۔ کھیلوں میں حصہ لیتی ہیں ۔بازار سے سودا سف لاتی ہیں۔اکڑ کر، ڈٹ کر، بلا جھجھک بے خوف ،بات کرسکتی ہیں ،پھر انہیں ہراساں کوئی نہیں کرسکتا۔ جسمانی طور پر نہ جنسی حوالے سے!

ایسا نہیں کہ وہاں ہراساں کسی کو نہیں کیا جاتا۔ وہاں بھی نوکری کی مجبوریاں ہیں  اور بلیک میلنگ بھی ہوگی مگر نسبت تناسب دیکھیں تو ہماری ہاں کی نسبت بہت کم!!

یہاں  بھی جو لڑکیاں گھونگھٹ سے آزاد ہیں جنہیں اپاہج بنا کر چھوئی موئی کی طرح نہیں پالا جاتا۔ انہیں کوئی ہراساں نہیں کرسکتا ۔آپ کا کیا خیال ہے جو لڑکیاں  جوڈو کراٹے سیکھتی ہیں ہاکی اور کرکٹ کھیلتی ہیں جسمانی فٹ نس کا خیال رکھتی ہیں انہیں ہراساں کرنے کے کتنے معاملات ہوتے ہوں گے ؟ اسی ملک کا واقعہ ہے اور آج کا نہیں ربع صدی پیشتر کا ہے۔ ایک افسر جو ہراساں کرنے کے لیے معروف   تھا اور اچھا خاصا اس حوالے سے  بدنام  تھا نیا نیا ایک وزارت میں تعینات ہوا ایک خاتون جونئیر افسر تھی اور اس کی ماتحت تھی اس کے کمرے میں آئی ۔فائل د ی۔ ضروری بات کی اور چلنے لگی۔ افسر نے چائے کے لیے بیٹھنے کی دعوت دی۔ خاتون نے معذرت کی اور بتایا کہ وہ چائے اپنے کمرے میں ہی پیتی ہے کمرے میں موجود نائب قاصد کی (جو اگر کمرے کےاندر نہیں بھی تھا تو دیکھ رہا تھا )روایت یہ ہے کہ غالباً صاحب نے خاتون کو بازو سے پکڑ کر کرسی پر بٹھانے کی کوشش کی پھر اس کے بعد نہ جانے کیا ہوا کہ ایک ثانیے سے بھی کم وقت میں صاحب فرش پر چت پڑے تھے۔ اس لیے کہ خاتون پنجاب یونیورسٹی سے صرف ایم اے نہیں تھی۔کراٹے میں بلیک بیلٹ بھی تھی۔

عورت نے اگر ہراساں ہونے سے بچنا ہے تو اسے چھوئی موئی بننے یا بنانے کی پالیسی سے بچنا ہوگا اور اسے سیلف ڈیفنس سیکھنا ہوگا۔ اسے کڑک کر بے خوفی سے بات کرنا ہوگی۔ جیسے کہ فرمایا گیا کہ آواز میں ملائمت نہ پیدا کرو کہ کسی کو غلط فہمی ہی نہ ہو۔ جن زمانوں کو ہم قابل تقلید سمجھتے اور بتاتے ہیں ان زمانوں میں خواتین تمام رائج ورزشوں کھیلوں اور جسمانی فٹ نس کے میدان میں درجہ کمال کو پہنچتی تھیں ۔
گھوڑ سواری کرتی تھیں ،شمشیر زنی میں طاق تھیں ، نیزہ بازی میں مہارت حاصل کرتی تھیں ، شاید ہی ان حقائق سے کوئی انکار کرسکتا ہو، آج کی عورت کویہ بھی بتانا ہوگا کہ ہراساں کی جائے تو اسے بولنا ہے ہاتھ چلانا ہے ہتھیار آزمانا ہے تھپڑ مارنا ہے اور اس کے دور اندیش عقل مند ماں  باپ نے کراٹے یا کشتی سکھانے کا انتظام کیا تھا تو ہراساں کرنے والے کے چہرے پر لات بھی رسید کرنی ہے۔ تاکہ وہ چاروں شانے چت گرے۔ عورت کو حلوے کا نوالہ بننے کے بجائے ایسا کانٹا ثابت ہونا چاہیے کہ ہڑپ کرنے والے کے گلے میں جاں کنی کا پیغام بن  کر اٹک جائے۔

ہاکر حضرات کی خدمات میں بارِ دگر۔

پرتھ سے اور ماٹر یال سے اور نیویارک سے اور سڈنی سے اور جاپان سے اور نیوزی لینڈ سے اخبار بین پاکستانیوں کے فون آرہے ہیں اور ای میلیں بھی !غیر ممالک میں بسنے والے ان پاکستانیوں سے کالم نگاری کے حوالے سے ایک تعلق ہے اور محبت کا رشتہ ہے۔ یہ ہمارے کالم پڑھتے ہیں کبھی پسند کرتے ہیں ،کبھی تنقید ۔جھگڑتے بھی ہیں اور پیار بھی کرتے ہیں ۔ یہ جو فیصلہ کیا گیا ہے کہ دن کے گیارہ بجے تک پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات کو انٹر نیٹ پر منتقل نہیں کیا جائے گا اس فیصلے سے یہ پاکستانی بری طرح متاثر ہوئے ہیں !ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور وہ اپنےوطن کا احوال جاننے سے گویا محروم کیے جارہے ہیں ۔ ان کے فراغت کے اوقات لگے بندھے ہیں ۔ ان ملکوں میں ہمارے ہاں کی طرح کھلی چھٹی نہیں ہے کہ یہ ڈیوٹی کے اوقات میں اخبارات کا مطالعہ کرسکیں !ان کے ٹائم  ٹیبل تہس نہس ہوگئے ہیں ! ہاکر حضرات کی تنظیم سے بالخصوص ان کے مرکزی رہنما جواں ہمت ٹکہ خان سے گزارش ہے کہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور اگر اندرون ملک پاکستانیوں کی تکلیف کا نہیں تو بیرون ملک رہنے والے کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات کو کچھ اہمیت دیں ۔

کچھ تارکین وطن نے یہ تجویز دی ہے کہ پہلے کی طرح اخبارات  صبح صبح ہی انٹر نیٹ پر چڑھا دیے جائیں مگر یوں کہ صرف بیرون ملک پاکستانی اس تک رسائی حاصل کرسکیں اندرون ملک بے شک گیارہ بجے کے بعد رسائی ہو۔ اگر تکنیکی طور پر ممکن ہے تو ایسا ضرور کرنا چاہیے۔ ہاکروں  کی تنظیم کو ہمارا مشورہ ہے کہ اس معاملے میں سختی سے کام نہ لے  اور لچکدار رویے کا مظاہرہ کرے۔

یوں بھی زمانے کی رفتار کے آگے بند باندھنا لاحاصل ہے ۔یوٹیوب بند کی گئی تو اس کا فوراً توڑ نکال لیا گیا ۔اگر یہ بندش ،یہ سختی اور یہ یک طرفہ پابندی جاری رہی تو انٹر نیٹ کی دنیا اس کا بھی حل نکال لے گی۔ کاروبار کی ایک نئی قسم ایجاد ہوگی ۔جس پر اخباری اداروں کا کنٹرول ہوگا نہ کسی یونین کا!

ہم نیک بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں

مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے!


Thursday, April 26, 2018

تخت خالی نہیں رہا کرتا


یہ 2014 ء کا سال تھا او راپریل کا چودھواں دن، سینیٹ کا اجلاس ہورہا تھا ۔نماز مغرب کے وقفے کے بعد ایم کیو ایم کے طاہر حسین مشہدی نے ایک تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ اس تحریک کا نفس مضمون  یہ تھا کہ وزیراعظم سینیٹ کے اجلاس میں تشریف لایا کریں ۔پاکستانی “جمہوریت” کی بدقسمتی کہ سیاسی جماعتوں کے ارکان “مالک “ کے ذاتی ملازموں کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ذاتی ملازم قرار دینا بھی ملازمت پیشہ لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ وفادار کہنا زیادہ مناسب ہے!اس تحریک کی بھی وفاداروں نے بھرپور مخالفت کی !ایک سینیٹر دور کی کوڑی لایا کہ وزیراعظم مختلف بحرانوں سے نمٹنے میں مصروف ہیں ان کے پاس وقت نہیں ۔تلخی اس قدر بڑھی کہ پیپلز پارٹی ،اے این پی اور مسلم لیگ قاف کے ارکان واک آؤٹ کرگئے انہیں منا کر لایا گیا۔ جنرل ضیا الحق کے اوپننگ بیٹس مین راجہ ظفر الحق نے ایک اور چال چلی ۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ “تحریک کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے” ( تاکہ بلا وقتی طور پر ٹلے) اپوزیشن ڈٹی رہی۔بالآخر تحریک اکثریت سے منظور کرلی گئی۔ اس تحریک کی رو سے وزیراعظم سینیٹ کے اجلاس کے دوران ہفتے میں ایک روز لازماً  حاضر ہوں گے اور ارکان کے سوالوں کے جواب دیں گے! تحریک پیش کرنے کی اجازت دینے پر ڈپٹی چئیرمین سینیٹ صابر علی بلوچ کو بھی طعنوں کا ہدف بننا پڑا ایک حکومتی سینیٹر نے الزام لگایا  کہ آپ ملک کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں ۔
یہ اپریل  تھا!تحریک پیش کرنے والوں کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جون 2013ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تحریک پیش کرنے کے وقت تک  (یعنی اپریل 2014ء تک)دس ماہ کے عرصہ میں وزیراعظم ایک بار بھی سینیٹ نہیں آئے۔
وزیراعظم کا رویہ اس کے بعد بھی یہی رہا۔ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی وہ کبھی کبھار ہی آئے ان کے بھائی نے پنجاب اسمبلی کے ساتھ یہی قبائلی سرداروں والا رویہ روا رکھا۔
وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں اور وزراء کی صوبائی اسمبلیوں میں حاضری پارلیمانی جمہوریت کا لازمی جزو ہے! برطانوی ہاوس آف کامنز میں وزیراعظم ہر بدھ کو ارکان کے سوالوں کا جواب خود دیتا ہے! پاکستان میں یوسف رضا گیلانی باقاعدگی سے پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں حاضر ہوتے تھے ۔سندھ کے وزیراعلیٰ صوبائی اسمبلی میں باقائدگی سے آتے ہیں ۔
آمریت اور جمہوریت میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ آمریت میں سوال نہیں پوچھا جاسکتا! آمر جوچاہے کرے۔اس سے اس کی وجوہات نہیں پوچھی جاسکتیں !غؤر کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ شریف برادران کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں آمریت کا یہ نشان پوری آب و تاب سے چمکتا رہا ہے۔ اور اب بھی چمک رہا ہے !بے شمار سوالوں کے جواب نہیں مل رہے !وزیراعظم پارلیمنٹ میں آتے اور ارکان کے جسموں میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو کچھ سوال ضرور پوچھے جاتے ،مثلاً
وزیراعظم مہینوں علاج کے لیے لندن مقیم رہے تو ان  کی عدم موجودگی میں ان کی دختر نیک اختر کس رُؤل کے تحت غیر ملکی سفیروں کو شرفِ ملاقات  بخشتی رہیں اور کاروبارِ حکومت چلاتی رہیں ۔
وزیراعظم اپنے چار سالہ عہد اقتدار میں کتنی بار لندن گئے؟
ان کے چھوٹے بھائی نے کس ضابطے کی رو سے   وفاقی معاملات میں مداخلت کی بلکہ وفاقی امور طے کیے مثلاً قطر سے گیس کا معاہدہ؟
وزیراعظم نے اکنامک کو آرڈی نیشن کمیٹی ( ای سی سی) کے کسی ایک اجلاس کی صدارت نہیں کی۔ کیوں ؟ 1993ء کے بعد اس کی صدارت مستقل طور پر وزیراعظم کو سونپ دی گئی تھی!
وزیراعلی پنجاب سے اگر صوبائی اسمبلی کا حساب کتاب لینے کی  پوزیشن ہوتی تو آج عدالت عظمی کو سارے کام خود نہ کرنے پڑتے۔ وزیراعلٰی پنجاب نےآج تک کسی اسمبلی میں کابینہ کے کسی اجلاس میں کسی پریس کانفرنس میں کسی ایسے سوالات کا جواب نہیں دیا جس سے ان کی آمریت پر حرف آتا ہو ،مثلاً ان کے صاحبزادے کس قانون کے تحت صوبے کےسیاہ و سفید کے مالک ہیں ؟اور تعیناتیوں سے لے کر دیگر امور تک ۔ہر معاملے میں دخیل ہیں !
وہ کئی کئی ماہ اور کئی کئی سال تک یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کے مستقل سربراہ کیوں نہیں تعینات کرتے ؟
پنجاب میں کتنے ہسپتال اور کتنے تعلیمی ادارے نواز شریف اور شہباز شریف کے نام پر ہیں ؟
2008
ء سے لے کر اب تک وزیراعلی کتنی بار لندن گئے؟
آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر وزیراعلی کا طبی معائنہ پاکستان کے کسی ہسپتال میں نہیں ہوسکتا ؟
ْ اسمبلیاں ‘کیا وفاقی اور کیا صوبائی، حکمرانوں سے کسی سوال کا جواب نہیں حاصل کرسکتیں ،مگر صحافت کا کردار بھی اس ضمن میں عجیب و غریب رہا ہے۔ فوائد اٹھانے والوں 
Beneficiaries
 کیمجبوریاں  مضحکہ خیز ہیں ۔انہیں یہ  دکھ تو ہے کہ فلاں وائس چانسلر نے بیرون ملک سے فلاں ڈگری   لی ہوئی ہے تو اسے کیوں فارغ کیا گیا مگر وہ یہ سوال کبھی نہیں اٹھائیں گے کہ اڑھائی برس سے مستقل وائس چانسلر کیوں نہیں تعینات کیا گیا۔ کیا جمہوریت میں اس سوال کا جواب حاصل کرنا گناہ ہے؟اور اگر گناہ نہیں تو جواب کیوں نہیں دیا جاتا؟
فوائد اٹھانے والے اور فوائد نہ اٹھانے والے صحافیوں  کا فرق روشن دن کی طرح واضح ہے۔روزنامہ 92 نیوز کے کالم نگار محمد عامر خاکوانی نے جرات کے ساتھ پنجاب کے وزیراعلی کے فلسفہ حکمرانی کو واضح کیاہے۔ملاحظہ کیجئے

 ،دراصل یہ میاں شہباز شریف کا مخصوص سٹائل ہے کہ کسی اہل اور دیانت دار شخص کو میرٹ پر تعینات کرنے کے بجائے اس سیٹ پر جونئیر' کم صلاحیت رکھنے والا افسر قائم مقام کی حیثیت سے لگا دیتے ہیں جو برسوں تک وہیں پر کام کرتا رہتا ہے اور صلہ میں خادم پنجاب سے ذاتی وفاداری نبھاتا ہے یہ وہ حربے اور تکنیکس ہیں جن کی وجہ سے نون لیگی قیادت پر سیاسی مافیا ہونے کا الزام لگتا ہے۔تب نون لیگی وفادار لکھاری اور ان کے پُر جوش حامی برہم ہوتے ہیں ۔ غصہ کرنے کے بجائے انہیں اپنی قیادت پر اخلاقی دباؤ ڈالنا 
چاہیے کہ وہ قوانین کی پابندی کرتے ہوئے  پرفارم کریں۔
روزنامہ 92 ہی کے کالم نگار آصف محمود نے ان اداروں کے نام گنوائے ہیں جن پر ان حکمرانوں نے اپنے اور اپنے اقربا کے ناموں کی تختیاں لگادی ہیں ۔آصف محمود لکھتے ہیں
“کبھی حساب لگا لیجئے اس ملک میں قائداعظم ‘اقبال اور مادرِ ملت کے نام سے کتنے ادارے ہیں اور شریفوں اور بھٹوؤں کے نام سے کتنے ادارے ہیں ؟ یہ ملک ایک امانت ہے یا ان دو خاندانوں کی چراہ گاہ؟
جب منتخب اسمبلیاں گونگی بہری ہوجاتی ہیں تو پھر عدلیہ کو اور فوائد نہ اٹھانے والے صحافیوں کو حکمرانوں سے سوالوں کے جواب مانگنے پڑتے ہیں ۔مثلاً پارلیمنٹ کو وزیراعظم سے پوچھنا چاہیے تھا کہ وہ لندن جاکر کن لوگوں سے ملتے رہے؟ جب پارلیمنٹ اس معاملے میں صم بکم ثابت ہوئی تو صحافت نے اپنا کردار ادا کیا ،ارشاد عارف لکھا
احتساب عدالت سے مفرور حسن نواز کے دفتر میں حاضری عدالت عظمی سے نااہل نواز شریف اور دو دیگر اشتہاری حسین نواز اور اسحاق ڈار سے مشاورت کرکے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ثابت کہا کہ
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے 
امریکی ائیر پورٹ پر جو ہوا ٹھیک ہوا
صحافت کے بعد عدلیہ کو بھی کہنا پڑا کہ “وزیراعظم بیرو ن ملک مفرور ملزم سے ملتے ہیں ۔ شاید انہیں قانون کا پتا نہیں “جب اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے جسموں سے ریڑھ کی ہڈیاں غائب ہوجائیں اور جب کاروں پر جھنڈے لہرانے والے کابینہ کے ارکان خاموش رہنے لگیں تو عدلیہ اور صحافت اپنا کردار ادا کرتی ہے تخت صرف حکمرانی کا نہیں ہوتا !ایک تخت وہ بھی ہے جس پر سچائی بیٹھتی ہے۔یہی تخت باقی رہتا ہے عدلیہ اور صحافت آج اسی تخت پر بیٹھی ہوئی ہے منیر نیازی نے کہا تھا
ایک وار ث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتا
پس نوشت ،دن کے گیارہ بجے تک انٹر نیٹ پر اخبارات  نہ ملے تو ادھر ادھر سے پوچھا معلوم ہوا کہ ہاکر حضرات کی تنظیم نے یہ فیصلہ کرایا ہے کہ گیارہ بجے سے پہلے اخبارات انٹر نیٹ پر نہ چڑھائے جائیں ۔ہاکر حضرات کا مطالبہ اپنی جگہ مگر پورے احترام سے ان کی خدمت میں دو گزارشات پیش ہیں ۔ اول جو لوگ انٹر نیٹ پر اخبارات پڑھنے کے عادی ہیں وہ ہر حال میں انٹر نیٹ ہی پر پڑھیں گے خواہ گیارہ بجے تک انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے اس لیے کہ وہ اب ہارڈ کاپی پڑھنے کی عادت سے محروم ہوچکے ہیں دوم بیرون ملک بیٹھے ہوئے کروڑوں اخبار بینوں کے ساتھ یہ صریحاً ظلم ہے امید ہے ہاکر حضرات ان گزارشات پر غور فرمائیں گے


Saturday, April 21, 2018

یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی


پہلا منظر: وہ سب ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں ۔ایک  دوسرے کو تھپڑ رسید کرہے ہیں  ۔ایک نے دوسرے کو بالوں سے پکڑ رکھا ہے جس کے بال پکڑے ہوئے ہیں  وہ پکڑنے والے کے سینے پر مکے برسا رہا ہے۔ جس کی چھاتی پر مکے پڑ رہے ہیں  وہ لاتیں  چلا رہا ہے، کچھ کھڑے  تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ کچھ دونوں فریقوں  کے ساتھ مل کر لڑائی کا دائرہ بڑھا رہے ہیں ۔اب تین تین چار چار افراد نہیں بلکہ  پانچ پانچ چھ چھ دست و گریباں  ہیں ۔کچھ سامان پر گر رہے ہیں ۔ سامان دور دور تک بکھرا  پڑا ہے۔ اب لڑنے والوں کی عورتیں  بھی میدا ن میں  آگئی ہیں ، وہ ایک دوسرے کے بال نوچ رہی ہیں  ۔کانوں  میں پڑے بندے اور بالیاں  کھینچ رہی ہیں ۔ ایک جوان عورت نے ایک بوڑھی عورت کو  مکہ ایسا کھینچ  کر مارا ہے کہ بوڑھی عورت دہری ہوگئی ہے۔ چھڑانے والے اور شہ دینے والے الگ الگ پہچانے نہیں جارہے۔ سب ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہیں ۔ پورا ڈیپارچر لاؤنج میدا ن جنگ بنا ہوا ہے۔ اہلکار غائب ہیں  ،کچھ تماشا دیکھ رہے ہیں  اور کچھ بے بس نظر آرہے ہیں ۔

دوسرا منظر:جہاز لینڈ کرتا ہے۔ جہازی سائز ہی کی ایک کار  ائیر پورٹ  بلڈنگ سے فراٹے بھرتی نکلتی ہے اور سیدھی جہاز کے  پاس  آکر رکتی ہے۔ جہاز سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اترتے ہیں  جہاز سے  اترتے وقت آخری سیڑھی پر یہ دونوں پاؤں  رکھتے ہیں اور وہاں سے براہ راست کار میں بیٹھتے ہیں ۔مشکل سے ایک یا دو قدم زمین پر پڑتے ہیں ۔ کسی لاؤنج سے ان کا گزر نہیں ہوتا  ۔جاتے وقت بھی کوئی تلاشی نہیں ہوتی ۔کسی سکیننگ دروازے سے نہیں گزرتے ۔کوئی قانون، کوئی ضابطہ، کوئی ڈرل کوئی ایس او پی ان پر لاگو نہیں ہوتی۔

 تیسرا منظر: یہ کینیڈا ہے ۔مسافر قطار میں  کھڑے ہیں ۔ اپنی اپنی باری پر پاسپورٹ  دکھاتے ہیں  ۔ٹکٹ پیش کرتے ہیں  ۔ سامان جمع کراتے ہیں اور بورڈنگ کارڈ لے کر اندر جانے والے رستے پر ہو لیتے ہیں ۔ اس قطار میں  کینیڈا کا  وزیراعظم بھی کھڑا اپنی باری کا انتظار کررہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک عام شہری کھڑا ہے جسے کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے ۔اسی قطار میں خاکروب بھی کھڑا ہے ۔کابینہ کا وزیر بھی کھڑا  ہےاور  پارلیمنٹ  کا رکن بھی  ٹکٹ ہاتھ میں  لیے اپنی باری کا  انتظار کررہا ہے۔

 آپ کینیڈا  ،برطانیہ ،امریکہ ،آسٹریلیا ،ڈنمارک ،سوئٹزرلینڈ کے ایک ایک  ائیر پورٹ  کا معائنہ  کر لیجئے۔ ایک بار نہیں سو سو بار جائزہ لیجئے،فلمیں  بنا لیجئے، آپ کو کوئی شخص قطار کی بے حرمتی کرتا  نظر نہیں آئے گا، پہلے منظر میں  جس خوفناک جنگ کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ جنگ اسلام آباد ائیر پورٹ  پر تین دن پہلے دیکھی گئی ہے۔ یہ پہلی جنگ نہیں ۔ آخری بھی نہیں ،کیوں ؟ یہ آپ اپنے آپ سے پوچھیے !ان لڑائیوں کا  کیا سبب ہے؟

اس طبقاتی تقسیم کا لازمی نتیجہ ہے  جو پاکستان  جیسے ملکوں  میں جاری و ساری ہے۔ جس   میں کچھ لوگوں  کے لیے کاریں  ہوائی جہازوں تک  جاتی ہوں  اور باقی عوام کو بھیڑ بکریوں  کی طرح چھوڑ دیا جائے،وہاں  یہی کچھ ہوتا ہے ۔وہاں لوگ بازاروں میں ،بسوں کے اڈوں پر ،ائیرپورٹوں پر ،بینکوں کے سامنے بل جمع کرواتے وقت، دکانوں کے کاؤنٹر پر قطار یں توڑتے ہیں ۔ کوئی اعتراض کرے تو قطار توڑنے والے اس پر پل پڑتے ہیں ۔

 یہ لڑائیاں  ،یہ جھگڑے ،یہ گالم گلوچ ،غلام قوموں کی نشانی ہے۔غلامی صرف یہ نہیں کہ  سفید فارم گروہ کالوں  پر حکومت کرے  یا عرب افریقیوں  پر حکمرانی کریں یا برطانیہ ہندوستان پر قبضہ کرلے یا امریکہ فلپائن کو محکوم کرلے یا ہانگ  کانگ پر ملکہ الزبتھ راج کرے۔ یہ تو غلامی کی آسان ترین شکل ہے۔اس لیے کہ  اس میں کوئی ابہام نہیں ! کوئی شک و شبہ نہیں  ،حاکم  اور محکوم کے رنگ الگ الگ ہیں ۔ زبانیں  اپنی اپنی ہیں ۔ حاکموں  کا ہوم کنٹری برطانیہ یا امریکہ ہے۔یہ غلامی عارضی ہوتی ہے۔ ایک نہ ایک دن کوئی قائداعظم ،کوئی  نیلسن منڈیلا کوئی سوئیکارنو اٹھتا ہے اور انگریزوں  کو اور ولندیزیوں  کو اپنے ملک سے نکال باہر کرتا ہے۔

غلامی  کی بدترین شکل وہ ہے جس میں  حاکم و محکوم کا رنگ ایک ہے ۔زبان ایک بولتے ہیں  مگر دنیائیں  الگ الگ  ہیں۔ آپ نے  سنا ہوگا  جب انگریز حکمران تھے تو ٹرینوں  کے ڈبوں  پر ،ریستورانوں  پر،کلبوں  پر،لکھا  ہوتا تھا کہ مقامی افراد کا داخلہ منع ہے۔ مگر پاکستانی آج جس بدترین غلامی سے گزر رہے ہیں  اس پر ایسا  کہیں بھی لکھا  ہوا نہیں مگر ہر ڈبہ، ہر ریستوران، ہر  سکول،ہر ہسپتال الگ ہے۔ کیا آپ نے میاں نواز شریف کو ،آصف زرداری کو، بلاول اور بختاور کو ،مریم نواز کو ،اسحاق ڈار کو، مولانا فضل الرحمن کو، کسی بازار  سے سودا سلف خریدتے دیکھا ہے؟ کسی سرکاری ہسپتال میں قطار میں کھڑے  ہوکر پرچی بنواتے دیکھا ہے؟ کسی ائیر پورٹ  پر لائن میں کھڑے  ہوکر اپنا سامان تلواتے اور بورڈنگ کارڈ وصول کرتے دیکھا ہے؟ نہیں ،کبھی نہیں  ،اس لیے کہ ان کی دنیا الگ ہے۔  ان کے جہاز الگ ہیں ، ان کے شاپنگ سینٹرز الگ ہیں ، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ میاں  شہباز شریف سال میں  کتنی مرتبہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لندن جاتے ہیں  ؟ان حضرات کی عام خریداری بھی لندن کے سپر سٹور وں  میں ہوتی ہے۔ یہ چائے پینے لندن کے ریستورانوں میں جاتے ہیں ۔ کیا ان میں  سے کسی کو آپ نے فورٹرس سٹیڈیم یا آپ  پارہ یا جناح مارکیٹ  میں  چائے پیتے یا شاپنگ کرتے  دیکھا ہے؟ اگر آپ نے آج تک نوٹ  نہیں کیا تو آئندہ نوٹ کیجئے  کہ جب ان حکمرانوں  کی سواری گزرتی ہے اور جب روٹ  لگتا ہے اور جب ٹریفک بند کردی جاتی ہے تو جو گاڑی جو موٹر سائیکل جو بس جو ویگن جو سوزوکی ڈبہ جو ٹرک جہاں ہوتا ہے ،وہیں جام ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد جب ٹریفک کھلتی ہے تو آج کے بعد نوٹ کیجئے کہ جو ہڑبونگ  اور افراتفری برپا ہوتی ہے    اسے دیکھ کر یوں  لگتا ہے کہ بھیڑیں  باڑے سے باہر نکلی ہیں  ۔پھر  ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے او رتاخیر کی تلافی کے لیے، یہ مجبور،یہ مقہور، یہ مظلوم، یہ مغضوب عوام گتھم گتھا ہوجاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے بال نوچتے ہیں ،ایک دوسرے کو زمین پر گرا کر لاتوں ، مکوں ، ٹھڈوں  کی بارش برساتے ہیں ۔ حکمرانوں  کی سواری اسی  اثناء میں میلوں دور پہنچ  چکی ہوتی ہے۔ جہاں پھر سے روٹ  لگایا جاتا ہے اور یہ کہانی اپنے آپ کو دہر ارہی ہوتی ہے۔ 

کوئی مانے یا نہ مانے ،زمینی حقیقت یہی ہے ۔ سیاست دان ،اپوزیشن کے ہیں  یا حزب اقتدار کے ،ایک ہی کلب کے رکن ہیں ۔ کابینہ کے ارکان ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں  کے ارکان، لاڑکانہ رائے ونڈ، گجرات، ڈیرہ اسماعیل  خان  اور کوئٹہ کے حکمران خاندان سب ایک دوسرے سے ایک غیر مرئی مگر مضبوط رشتے میں بندھے ہیں ۔تازہ ترین کتاب جو چوہدری شجاعت حسین کی بازار میں دستیاب ہے،پڑھ لیجئے ۔ چوہدری برادران نے ہر موقع پر شریف خاندان کی مدد کی اور حمایت کی ۔آج مخالف  ہیں مگر کل پھر اکٹھے ہوجائیں گے، اس بڑے کلب میں  ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا معمول کی کارروائی ہے۔ مشاہدحسین سید کل بھی اسی کلب کے رکن تھے، آج بھی اسی طاقت ور کلب کے رکن ہیں ، فردوس عاشق اعوان ،نذر گوندل، عمر ایوب خان، ندیم افضل چن، چوہدری نثار علی خان کل بھی حکمران تھے ،آج بھی حکمران  ہیں اور کل بھی حکمران رہیں گے۔

 جس روز نواز شریف ،مریم نواز ،بلاول زرداری، آصف زرداری ،بختاور ،حمزہ شہباز، مولانا فضل الرحمن، اسحاق ڈار اور دوسرے حکمران  عوام کے ساتھ قطاروں میں  کھڑے ہوں گے ،یہ کالم نگار اس  پروردگار کی ،جس نے کل حشر کے  میدان میں  سب کو ایک قطار میں کھڑے کرنا ہے ،قسم کھا کر  کہتا ہے کہ یہ لڑائیاں ختم ہوجائیں  گی۔جس دن ائیر پورٹ  پر یا ریستوران میں ،یا سپر سٹور  پر  سودا سلف خریدتے  وقت یا ہسپتال میں پرچی بنواتے وقت،آپ کے آگے نواز شریف اور آپ کے پیچھے  بلاول زرداری کھڑے ہوں گے ،کوئی قطار توڑے گا نہ  کوئی ایک دوسرے کے بال نوچے گا نہ کوئی سامان کے اوپر گرے گا نہ کوئی گالی سنائی دے گی۔
 وہ رُت  اے ہم نفس جانے کب آئے گی
 وہ فصل دیر رس جانے کب آئے گی
 یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی!



Thursday, April 19, 2018

وہ تقریر جو مجھے سیمینار میں کرنا تھی



بہت محنت  کرکے  میں نے تقریر تیار کی جو سیمینار میں کرنا تھی۔مگر افسوس! میاں نواز شریف صاحب نے اپنے معرکہ آرا ء سیمینار میں مجھے مدعو  ہی نہیں کیا۔ اس عظیم الشان سیمینار کا موضوع “ووٹ کو عزت دو” تھا۔

مجھے یقین تھا کہ میاں صاحب اس سیمینار میں مجھے ضرور بلائیں گے ۔نہیں بلایا تو قلق ہوا۔ مگر جب سیمینار کی روداد میڈیا میں پڑھی تو افاقہ ہوا اور ڈھارس بندھی! اس لیے کہ ان کے معروف جاں  نثاروں جناب دانیال عزیز، جناب زاہد حامد ،جناب امیر مقام اور محترمہ ماروی میمن کو بھی سیمینار میں تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ انہیں تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔میاں  نواز شریف نے اپنی تقریر میں یہ بھی اعلان کردیا کہ انہیں ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔

میاں صاحب نے جمہوریت کی اصل روح کو دریافت کرتے ہوئے پارٹی بدلنے والوں کو ٹکٹ نہ دینے کا اعلان کیا ۔اس کا واضح مطلب ہے کہ جو صاحبان پارٹی بدل کر ان کے ساتھ آ شامل ہوئے ،میاں صاحب نے ان کی اصلیت کو بلآخر پہچان لیا ہے۔ پارٹی بدلنے والوں میں تازہ ترین نام جناب مشاہد حسین سید کا ہے۔ قوم میاں صاحب کے اس عزم کی بھرپور تائید کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ وہ اپنے اس اعلان کے مطابق ان حضرات کو ٹکٹ نہیں دیں گے جو جنرل مشرف کے ساتھ رہے ، جو قاف لیگ میں نہ تھے اور پھر پارٹی بدل کر نون لیگ میں آدھمکے۔

یہاں  مجھے میاں نواز شریف اور عظیم فاتح چنگیز خان میں ایک زبردست مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ چنگیز خان کوئی شہر فتح کرتا تھا تو سب سے پہلے ان غداروں کو سزائے موت دیتا تھا جنہوں نے اپنی حکومت سے بے وفائی کرکے چنگیز خان کی مدد کی تھی! چنگیز خان کی دلیل یہ تھی کہ جب وہ اپنوں کے ساتھ وفا نہ کرسکے تو اس کا ساتھ کیا وفا کریں گے۔ چنانچہ میاں نواز شریف صاحب  نے بھی اسی روایت کے تحت کہا ہے کہ وہ پارٹی بدلنے والوں کو ٹکٹ نہیں دیں گے۔ بلکہ اپنے اس اعلان کے مطابق مشاہد حسین سید کی سینیٹ کی سیٹ پر بھی نظر ثانی کریں گے!

عام رواج یہ ہے کہ ایسے سیمیناروں میں دانشوروں اور لکھاریوں کو بلایا جاتا ہے مگر میاں صاحب نے اس سیمینار میں کسی ادیب دانشور کو مدعو نہیں کیا، حالانکہ اس وقت بہت سے دانشور صحافی اور کالم نگار میاں صاحب کی حمایت میں بول رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں ۔ ان کے بجائے میاں صاحب کے ساتھ دائیں  بائیں اس سیمینار میں مولانا فضل الرحمن ،محمود اچکزئی اور میر حاصل بزنجو بیٹھے تھے۔

بہر طور اس سیمینار میں جو تقریر مجھے  کرنا تھی ،قارئین کے افادہ کے لیے اسے یہاں  نقل کیا جاتا ہے۔ خواتین و حضرات !میں ناچیز ‘میاں صاحب کو اس عظیم الشان سیمینار کے انعقاد پر مبارکباد دیتا ہوں اور اس امر پر مزید مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن ،جناب محمود اچکزئی اور جناب حاصل بزنجو جیسے محب وطن پاکستانیوں کو اپنے ساتھ بٹھایا ہے! پاکستان کے قیام   میں ان حضرات کے بزرگوں کا کردار لاثانی اور لافانی ہے۔ جناب محمود اچکزئی کے والد گرامی کانگریس کے ساتھ تھے۔ انہیں بلوچی گاندھی بھی کہا جاتا تھا ،پاکستان  کی سالمیت کے لیے محمود اچکزئی نے بھی بے مثال قربانیاں دیں ہیں ۔ جون 2016ء ہی میں اچکزئی صاحب نے اعلان کیا کہ خیبر پختون خوا کا صوبہ افغانوں کا ہے۔افغانستان ٹائمز نے اچکزئی صاحب کا یہ انٹر ویو نمایاں طور پر چھاپا ۔ خوش آئند امر یہ تھا کہ مسلم لیگ نون کے کسی رکن نے کسی وزیر نے یہاں تک کہ خود اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اچکزئی کےاس بیان کی تردید نہیں کی !گویا “خاموشی نیم رضا”کے اصول کے مطابق مسلم لیگ نون نے بھی تسلیم کرلیا کہ کے پی، افغانوں کا ہے!یہاں میں ایک اور پُر مسرت خبر’ اس سیمینار کی وساطت سے  جناب میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کو یاد دلانا چاہتا ہوں ۔یہ خبر 6 جولائی 2016ء کو انگریزی روزنامہ دی نیشن میں چھپی تھی۔ اس خبر  کی رُو سے محمود خان اچکزئی نے ایرانی خفیہ ایجنسی کے کارندے رمضان نورزئی سے دس لاکھ ڈالر وصول کیے۔نورزئی کا تعلق افغانستان کے صوبے ہلمند سے تھا۔ اسے استعمال کرنے والے ایرانی کرنل کا نام سردار دہقان تھا! افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ جنرل عبدالرزاق کا بھی محمود اچکزئی سے گہرا تعلق ہے ۔جنرل عبدالرزاق پاکستان دشمنی کے لیے مشہور ہے۔

میں میاں نواز شریف کو اس بات پر بھی مبارکباد  پیش کرتا ہوں کہ سیمینار میں ان کے ساتھ تشریف فرما مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے پاکستان کی تحریک میں قیام پاکستان کے لیے  انتھک”کام “ کیا ان کے بزرگ تحریک پاکستان کے ”ہر اول” دستے میں شامل تھے!!

میں  میاں   نواز شریف کے  اس فیصلے کی تحسین  بھی ضروری   سمجھتا ہوں کہ اس تاریخی سیمینار میں انہوں نے پیپلز پارٹی جماعت اسلامی ،تحریک انصاف، ایم کیو ایم ،پاک سرزمین پارٹی سمیت کسی پارٹی کو نہیں بلایا۔ یہ سب پارٹیاں مل کر بھی حب الوطنی کے اس دریا کا مقابلہ نہیں کرسکتیں جو مولانا فضل الرحمن اور محمود خان چکزئی کے دلوں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔

اس سیمینار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ افواہیں بھی میاں صاحب کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔” زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو “ کی رُو سے ان افواہوں کو سچ سمجھنے ہی میں مصلحت ہے۔

پہلی افواہ یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی نے اپنے چودہ قریبی رشتہ داروں کو سرکاری عہدوں پر بٹھانے پر شدید احتجاج کیا ہے اور مسلم لیگ نون کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان رشتہ داروں کو ہٹایا جائے تاکہ اچکزئی صاحب پر اقربا پروری کا الزام نہ لگے۔

دوسری افواہ جو ملک کے طول و عرض میں گردش کررہی ہے یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن جو شیخ الہند کا نفرنس منانے کے لیے مشہور ہیں ‘اب کے میاں نواز شریف کے کہنے پر “ قائداعظم کانفرنس” کا انعقاد کررہے ہیں ۔ جس میں تحریک پاکستان کے حوالے سے زبردست نعرے لگیں گے اور تقریریں ہوں گی۔

خواتین و حضرات !اب اس سیمینار کی اصل روح کی طرف آتا ہوں یعنی” ووٹ کو عزت دو” !میں حاضرین کو بتانا چاہتا ہوں کہ “ووٹ کو عزت دو” میاں صاحب کا محض نعرہ نہیں ‘انہوں نے اس پر عمل کرکے بھی دکھا یا ہے۔ چار سالہ عہدِ حکومت میں انہوں نے ووٹ کو عزت دینے کی ایسی ایسی درخشندہ مثالیں چھوڑی ہیں کہ آفرین کہنے کو دل کرتا ہے۔ مہینوں وہ قومی اسمبلی نہیں آتے تھے۔انہوں نے آج تک قومی اسمبلی کے کسی اجلاس میں کسی رکن کے سوال کا جواب خود نہیں دیا ۔ اپریل 2014 میں سینیٹ  میں قرار دار پیش کی گئی جس کی رُو  سے وزیراعظم کا ہفتہ میں ایک بار سینیٹ آنا لازمی قرار پایا۔ اس قراردار کے بعد بھی وزیراعظم سینیٹ میں ہفتہ وار بلکہ مہینہ وار بھی نہ گئے۔
ووٹ کو عزت دینے کے لیے میاں صاحب نے چھ چھ آٹھ آٹھ مہینے کابینہ کا اجلاس نہ بلایا۔
پھر جب وزیراعظم علاج کے لیے کئی ماہ لندن مقیم رہے تو یہ ووٹ کی عزت ہی تھی، جس کی رُوسے کاروبارِ مملکت ان کی بیٹی نے سنبھالے۔ وہ اگرچہ ووٹ لے کر نہیں آئی تھیں ۔ مگر یہ حقیقت کہ وزیر اعظم ان کے والد تھے ،لاکھوں کروڑوں ووٹوں پر حاوی تھی۔ غیر ملکی سفیر بھی اسی اثنا میں انہی کو ملتے آتے تھے۔ ووٹ کو عزت دینے کے لیے میاں صاحب نے فنڈز اپنے داماد کے سپرد کردیے کہ جس ایم این اے کو چاہیں نوازیں !

ووٹ کا دوسرا نام شریف فیملی ہےاس لیے ووٹ کو عزت دینے کے لیے وہ پارٹی کی سربراہی خاندان سے باہر نہیں جانے دیتے۔ ان کے بعد مسلم لیگ نون کی سربراہی ان کے بھائی کے حصے میں آئی ہے۔ بھائی کو نہ ملتی تو بیگم یا صاحبزادی اس منصب کی سزاوار ہوتیں ! یہ ووٹ کی عزت ہی تو ہے جس کی بنیاد پر ان کا بھتیجا صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ اس کا شاہانہ پروٹوکول ووٹ کی عزت سے  ہی تو نکلا ہے۔

میاں صاحب نے تقریر میں آمریت کا نوحہ بھی پڑھا ہے۔ فرمایا کہ چار فوجی آمر وں کا عرصہ اقتدار 32 برسوں پر محیط ہے۔ یہاں وہ جنرل ضیا الحق کے زمانے کو غلطی سے آمریت میں شامل کر گئے۔ ضیا الحق کے زمانہ ء آمریت کے  دوران ہی   تو گورنر غلام جیلانی نے’ جو جرنیل تھے،شریف خاندان کو دریافت کیا۔ یہ جو میاں صاحب آج وزیراعظم کو نکالے جانے پر اعزاداری کررہے ہیں تو اصل میں وہ یہ بھول گئے کہ جنرل ضیا الحق کے پورے عہدِ اقتدار میں،اور پھر اس کے بعد ،ایک بار بھی میاں صاحب نے منتخب وزیر اعظم کے پھانسی چڑھنے کا ذکر نہیں  کیا۔ ووٹ کی عزت کی خاطر ہی تو انہوں نے محمد خان جونیجو  کےنیچے سے کرسی کھینچی اور خود اس پر بیٹھ گئے۔ انہیں تو طوالت ِ عمری کی دعا بھی ایک امر ہی نے یہ کہہ کردی تھی کہ یہ زندگی ان کی اپنی ہے یا یا وہ ٹکڑا ہے جو جنرل ضیا الحق نے عطیہ کیا تھا۔
شب وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا

آخر میں مَیں میاں صاحب کو اس کامیاب سیمینار کے انعقاد پر ہدیہ ء تبریک پیش کرتا ہوں امید ہے وہ اپنے اعلان پر ثابت قدم رہتے ہوئے ان افراد کو ٹکٹ نہیں دیں گے جو اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر میاں صاحب سے آملے ہیں ! دو معصوم سی فرمائشیں بھی قوم کی طرف سے کردوں کہ  ایک تو جب مولانا فضل الرحمن “قائد اعظم “کانفرنس منعقد کریں گے تو اس کی صدارت میاں صاحب ہی کریں۔ اور دوسری فرمائش یہ ہے کہ ایسا سیمینار کراچی میں بھی منعقد کریں اور سیمینار کی طرف جاتے ہوئے مولانا  فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کی معیت میں قائداعظم کے مزار  پر فاتحہ خوانی ضرور کریں  ۔ پاکستان زندہ باد ۔شریف خاندان پائندہ باد!


Tuesday, April 17, 2018

عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں سعدی


میاں نواز شریف اور محمود خان اچکزئی کے درمیان قائم مقدس اتحاد کے بارے میں پہلی  بار پارٹی کے اندر سے تحفظات کا اظہار ہوا ہے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ “میں شاید اس مسلم لیگ کے ساتھ نہ چل سکوں جو مسلم لیگ محمود اچکزئی گروپ ہے۔کہاں اچکزئی نظریہ کہاں  مسلم لیگ کا نظریہ 'کہاں ان کی سوچ کہاں ہماری سوچ، اگر مسلم لیگ کو اچکزئی کے افکار اور سوچ کے ساتھ مدغم کیا جائے گا تو مجھے شدید تحفظات ہیں “۔
یہاں دو سوالیہ نشان ہیں ۔ پہلا یہ کہ کیا یہ آواز واقعی مسلم لیگ نون کے اندرسے اٹھی ہے؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان پارٹی کے باہر نہیں تو اس وقت اندر بھی نہیں ،کیا ا س نعرہ پر ‘جو انہوں نے لگایا ہے ‘اقبال کے اس شعر کا اطلاق ہوتا ہے؟
ز برون در گز شتم ز درون خانہ گفتم
سخنی نگفتہ را چہ قلندرانہ گفتم
کہ میں باہر کے دروازے سے گزرتا ہوں اور گھر کے  اندر سے بات کہہ دی ہے ۔ناگفتہ بات کو قلندرانہ انداز میں واشگاف کردیا ہے۔ دوسرا سوالیہ نشان یہ ہے کہ جب 2 دسمبر 2017 کو میاں نواز شریف نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں اعلان کیا تھا کہ
“ محمود اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے ۔نظریہ مجھے ہمیشہ عزیز رہا ہے جس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔میری سیاست اسی نظریے  پر چلے گی۔خان عبدالصمد اچکزئی نے نظریے کی جنگ لڑی ۔ہم نےان کے نظریے پر عمل کیا ہے۔”
تو اس وقت چوہدری نثار علی خان کیوں خاموش رہے؟ اب چار ماہ کے بعد ہی یہ نظریاتی مفاہمت انہیں قابل اعتراض کیوں محسوس ہوئی۔؟

سچی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف ایک سیدھے سادہ کاروباری شخصیت ہیں ۔ آج تک انہوں نے سیاست کو کاروبار کی طرح چلایا۔ فلاں کو خرید لو۔ فلاں سے پوچھو کیا چاہتاہے ،فلاں کو یوں کردو۔اب یہ سیدھی سادی کاروباری شخصیت خیر خواہوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ کوئی کچھ کہتا ہے،کوئی کچھ کہتا ہے، فلاں بیانیہ  میاں صاحب کا ہے۔ کوئی کہتا ہے فلاں نظریہ !مالٹے بیچنے والے سے ایک عالم نے پوچھا عدداً فروخت کررہے ہو یاوزناً؟ کہنے لگا، صاحب غریب آدمی ہوں عدداً بھی نہیں فروخت کررہا ،وزناً بھی نہیں ۔ صرف مالٹے بیچ رہا ہوں ۔ میاں نواز شریف صرف کاروبار کرتے ہیں ۔ خواہ اپنا بزنس ہو یا ملکی حکومت یا جماعتی سیاست ۔ایک ستم ان کے چھوٹے بھائی نے ان پر حال ہی میں کیا اور اعلان کیا کہ  نواز شریف ایک فرد کا نہیں ایک فلسفے اور نظریے کا نام ہے۔ میاں شہباز شریف صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے  کوئی سوال جواب کوئی مکالمہ نہیں ہوسکتا ۔ اپنی راجدھانی میں بھی وہ جب پریس کانفرنس کرتے ہیں تو تین چار سوالوں کے بعد جب ڈھنگ کا سوال پوچھا جاتا ہے تو سیماب یا وزیراعلی اٹھتے ہیں اور چھلاوے کی طرح یہ جا وہ جا! روایت  ہے نجانے غلط یا درست ‘ کہ جن تین چار سوالوں کے جوابات دیتے ہیں وہ بھی انہی کے مامور کردہ صحافیوں کے ہوتے ہیں ۔ دو دن پہلے وہ کراچی میں تھے وہاں انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بھی بلایا  مگر حسب ِ معمول سوالوں کے جواب نہیں دئیے۔ میاں نواز شریف کے بیانیے کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ جو آپ چاہ رہے ہیں وہ میں نہیں کہوں گا۔ اب ان سے کون پوچھے کہ نواز شریف اگر نظریے کا نام ہے تو یہ نظریہ کیا ہے۔اس سوال کی تشریح اگر خود میاں نواز شریف کے اپنے بیانات کی روشنی میں کی جائے  تو ان کا نظریہ وہی ہے جو محمود خان اچکزئی کا ہے اور جو اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی کا تھا۔ عبدالصمد اچکزئی کانگریس کے ہم نواتھے، انہیں بلوچی گاندھی کہاجاتا تھا۔ رہے محمود خان اچکزئی تو ان کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ وہ کیا ہیں اور کہاں سے لائن لیتے ہیں ۔ابھی دسمبر میں اچکزئی نے کہا پاکستان پارلیمنٹ کو فاٹا پر کوئی اختیار نہیں۔ افغانستان کے جانے پہچانے پاکستان دشمن انٹیلی جنس جرنیل سے ان کے مراسم ڈھکے چھپے نہیں ۔ ان مراسم میں لین دین بھی باقائدہ شامل ہے۔

تو کیا پھر ہم میاں نواز شریف کے بارے میں یہ نتیجہ نکالیں کہ وہ پاکستان دشمن اچکزئی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں؟اگر وہ بھارت جاکر کہتے ہیں کہ ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور آپ  بھی توکیا وہ تقسیم کے خلاف ہیں ؟ نہیں ‘ایسا نہیں ،ہر گز نہیں ۔ یہاں  انہیں شک کا فائدہ دیں۔اس لیے کہ ان کی سوچ میں اتنی گہرائی ہی نہیں اور ان کی فکر میں اتنی استعداد ہی نہیں کہ وہ کسی نظریے یا فلسفے یا بیانیے کے جھنجھٹ میں پڑیں ۔ ان کی زندگی کے دو مقاصد ہیں ۔اول کاروبار، دوم اقتدار! وہ کاروبار کو اقتدار میں آنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اقتدار  کو کاروبار کے فروغ کے لیے کام میں لاتے ہیں۔ یہاں  وہ اپنے دریافت کنندہ اور اپنے موجد کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں ۔ جنرل ضیا کا اولیں نصب العین اقتدار کی بقا تھا۔ اس کے لیے وہ اسلام کو استعمال کرتے تھے۔ اس استعمال سے کاروبار الگ چمکتا ہے۔ اس میں دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہوتی ہے۔ اس کالم نگار کا دعویٰ کہ میاں نواز شریف کو کسی نظریے یا فلسفے یا بیانیے سے کوئی علاقہ نہیں ‘میاں صاحب کے طویل عرصہ اقتدار سے ثابت ہوتا ہے۔ میاں  صاحب کا نظریہ یا فلسفہ نہ ہوتا تو اپنے طویل عہد ہائے اقتدار میں وہ کبھی پاکستان کے نظام تعلیم پر ،کبھی زرعی اصلاحات پر، کبھی خواتین کی حالت زار پر، کبھی عوام کی ذہنی پسماندگی پر ، کبھی مذہی طبقات کی بلیک میلنگ پر بات کرتے ، سوچتے اور کسی اصلاح کی کوشش کرتے۔ آپ کا کیا خیا ل ہے کہ وہ نظام تعلیم پر کتنی دیر گفتگو کرلیں گے؟ اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ کے خیال میں پاکستان کے موجودہ ایجوکیشن سسٹم میں کیا خرابیاں ہیں اور کیسے دور ہوسکتی ہیں تو وہ کیا بتائیں گے؟ اور کتنی دیر اس موضو ع پر بات کرسکیں گے؟َ اسی طرح ان کے ذہن میں زرعی اصلاحات کاکوئی تصور نہیں ۔شاید انہیں معلوم ہی نہیں ہو بھارت نے یہ بھاری پتھر تقسیم کے چوتھے سال ہی اٹھا لیا تھا۔ اپنے طویل عہد ہائے حکومت میں میاں  صاحب نے کبھی ایک بار بھی نہ سوچا ہوگا کہ بلوچستان کا سرداری نظام ‘صدیوں پرانا نظام ہے اور جب تک یہ نظام باقی ہے صوبے میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ میاں صاحب کی “نظریاتی “صلاحیتوں کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ ان کے سامنے بھارتی وزیر اعظم نے خارجہ پالیسی کے میدان میں ملک پر ملک فتح کرلیے مگر ہمارے پاکستانی وزیراعظم کو پرواہ تھی نہ ادراک۔ مودی نے یو اے ای میں بے مثال پذیرائی حاصل  کی۔ کروڑوں روپے کے معاہدے کئے۔ جولائی 2015ء میں اوفا(روس) میں شنگھائی کو اپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس میں مودی شریک ہوئے اور میا ں نواز شریف بھی۔ مودی واپسی پر راستے میں رک گیا، اس نے ایک انتہائی سرگرم پروگرام کے تحت وسط ایشیا ئی ریاستوں کے دورے کئے، بھارت کے لیے لاتعداد رعایتیں حاصل کیں ۔میاں نوازشریف سیدھے  پاکستان واپس آئے اور لاہور ائیر پورٹ کی توسیع سے متعلق ایک اجلاس میں شرکت کی۔ مودی شعری ذوق رکھتا تو ضرور کہتا
تفاوت است میانِِ شنیدن من و تو
تو بستن در ومن فتح باب می شنوم
کہ تمہارے اور میرے سننے میں بہت فرق ہے تم دروازے کا بند ہونا سنتے ہو اور میں اس کا کھلنا۔

ابھی تین ہفتے پہلے دبئی کے سکیورٹی چیف جنرل ضاحی خلفان نےپاکستانیوں کے بارے میں ناقابلِ برداشت توہین آمیز  ریمارکس دئیے ۔اس کا کہنا ہے کہ پاکستانی خلیج کے لوگوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں ۔ اس لیے کہ وہ منشیات لاتے ہیں ۔ میاں صاحب کی پارٹی اب بھی ملک پر حکمران ہے۔آپ کا کیا خیال ہے اس بیان پر میاں صاحب نے تشویش کا اظہار کیا ہوگا ؟ ایسا ہوتا تو ان کی حکومت کا کوئی کار پردازاس مکروہ حملے کا جواب ضرور دیتا ۔،
جن لوگوں کا کوئی نظریہ یا  فلسفہ ہوتا ہے وہ کروڑوں روپوں کی گھڑی  نہیں پہنتے  ،وہ جیبوں میں دوسرے ملکوں کے ورک پرمٹ لے کر نہیں گھومتے۔ وہ اپنے محل کی چار دیواری پر اور ایک ایک غسل خانے پر کروڑوں روپے نہیں خرچ کرتے ۔وہ اپنی نواسی کا نکاح حرم کعبہ میں پڑھوانے کے موقع پر قومی ائیر لائن کے جہازوں کو ذاتی جائیداد کی طرح استعمال نہیں کرتے۔ حیرت ہے ان دانشوروں پر جو آج نواز شریف صاحب کو نظریے ‘فلسفے اور بیانیے کی ٹوپیاں پہنا رہے ہیں ۔ آج میاں نواز شریف صاحب کا “نظریہ” یہ ہے کہ عدالتیں ووٹ لینے والے حکمرانوں پر کوئی تصرف نہیں رکھتیں ۔ کل ان کا “نظریہ” یہ تھا کہ ووٹ لے کر آنے والا وزیراعظم (یوسف رضا گیلانی ) عدالت میں چلتے ہوئے مقدمے کی وجہ سے ‘فیصلہ آنے سے پہلے ہی  گھر چلا جائے ۔آج “نظریہ” یہ ہے کہ عدالت کو منتخب وزیراعظم پر کوئی اختیار نہیں ۔ آج ان کے بیانیے میں آئین،ووٹ اور پارلیمنٹ گھس آئے ہیں ۔ اقتدار میں تھے تو آئین ان کے جوتے کے نیچے آکر ہڈیاں تڑوا رہا تھا اور پارلیمنٹ اس قابل ہی نہ تھی کہ وہاں  آتے۔ وہ تو مہینوں پارلیمنٹ کا رخ نہ کرتے تھے۔ کتنی بار انہوں نے وزیراعظم کے طور پر قومی اسمبلی میں ارکان کے سوالوں کا سامنا کیا اور جواب دیا؟ اب اگر ان کا کوئی بیانیہ ہے تو عدالت عظمٰی کے فیصلے سے پہلے۔ اقتدار کےدوران ‘یہ بیانیہ کہاں تھا ؟

پست نوشت ۔ڈرامہ فیم وزیر اعلی میاں  شہباز شریف صاحب نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا معاملہ آٹھ سال سے مرکز میں ہے اور یہ کہ اس ضمن میں درخواست 2010ء میں مرکز  کو بھیجی تھی۔ وزیراعلٰی فرما رہے ہیں ۔ان کا مرکز کے  معاملات سے کیا تعلق ۔انہوں نے میٹرو بس کے حوالے سے پورے وفاقی  دارالحکومت کو کون سا اپنے صوبے کا حصہ سمجھا ،انہوں نے تو قطر جاکر گیس کا کوئی معاہدہ بھی نہیں کیا جو وفاقی  دائرہ کار میں آتا تھا ۔مرکز میں بیٹھے وزیراعظم کے ساتھ وہ تو کبھی سرکاری دوروں پر باہر بھی نہیں گئے۔ ان کا  مرکز کے معاملات سے کیا لینا دینا۔ یہ جو خواجہ آصف کابینہ کے اجلاس میں پھٹ پڑے تھے کہ ان کی وزارت میں مداخلت ہورہی ہےان کا اشارہ وزیراعلی کی طرف تھا۔ سچ کہا ہے، جنوبی پنجاب کےصوبے کا مسئلہ آٹھ برس سے مرکز میں پڑا ہے ۔مرکز سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ یہ وہی بات ہے جو کسی نے کہی تھی کہ حافظ شیرازی نے بانگ درا میں کیا خوب لکھا ہے
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں سعدی۔۔


Sunday, April 15, 2018

الگ صوبہ صرف جنوبی پنجاب ہی کا کیوں


گاؤں چھوٹا تھا۔ ذات کے وہ ترکھان تھے،کئی نسلوں سے کچے مکانوں میں بیٹھے لوگوں کا کام کررہے تھے۔کبھی معاوضہ سال میں دوبار ہاڑی ساونی کی شکل میں ملتا تھا۔اب کچھ نقد بھی  ملنے لگا تھا۔ حیثیت وہی تھی کہ ترکھان تھے۔کمی کہلاتے تھے ۔پہلے مکان بھی زمیندار کے دیے ہوئے تھے ‘پھر ان لوگوں نے آہستہ آہستہ جوں توں کرکے اپنی زمینیں خریدیں اورچار چار پانچ پانچ مرلے کے ملکیتی گھر بنا لیے۔

انہی کی ایک لڑکی تھی جو سکول میں داخل ہوئی۔ ماں باپ نے ہمت کی ۔پڑھاتے رہے۔ دسویں جماعت پاس کی۔ پھر گھر بیٹھ گئی۔ پڑھنے کا ،آگے بڑھنے کا شوق تھا۔ پرائیویٹ ایف اے کا داخلہ بھیج دیا ۔پاس ہوگئی ،پھر بی اےکرلیا۔ پھر ایم اے کرلیا ۔ اب وہ چاہتی ہے کہ کوئی نوکری مل جائے۔ کہیں استانی لگ جائے ‘کسی دفتر میں کلرک ہوجائے ،شادی ہوگئی۔ میاں  بھی ایک دفتر میں ملازمت کرتا تھا۔ اس نے بھی کوشش کی مگر کہیں کام نہ بنا۔

انہی دنوں میں گاؤں گیا۔ لڑکی کے سسر نے بتایا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور نے آسامیاں مشتہر کی ہیں ۔کیا کیا جائے؟ کہا اشتہار کے مطابق درخواست دےدو۔ یاد آیا کہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ،پنجاب پبلک سروس کمیشن میں ممبر تعینات ہے اور اچھا خاصا متعارف ہے۔اسے درخواست کی نقل بھیجی اور استدعا کی کہ جو مد دبھی روا ہوسکتی ہے ،بہم فرمائے اور احسان مند کرے۔ممبر نے کوئی جواب نہ دیا۔نہ ہوں ،نہ ہاں ۔

بعد میں نواز شریف حکومت نے ان صاحب کو ایک اور بڑے منصب پر تعینات کیا ،درخواست دہندہ لڑکی  کو بھی لاہور سے کوئی جواب،کوئی اقرار،یہاں تک کہ کوئی انکار بھی موصول نہ ہوا۔

یہ گاؤں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے سے کچھ کوس مزید مشرق کی طرف تھا ۔فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ غریب خاندان کے لیے لاہور آنا جانا، وہاں کے دفتروں کے چکر لگانا،وہاں واقفیت تلاش کرنا ،سفارش ڈھونڈنا ۔ناممکن تھا۔

رہا پنجاب پبلک سروس کمیشن جس کا کام صوبے کے عوام کو میرٹ پر ملازمتیں فراہم کرنا ہے تو اس میں جو ممبر تعینات ہوتے ہیں وہ خود  میرٹ پر تعینات نہیں ہوتے ‘تو عوام کو میرٹ پر کیا دیں گے۔ تعیناتی کا واحد معیار اوپر تک رسائی ہے۔ اکثریت کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے۔جنوبی پنجاب کی نمائندگی پھر بھی ہوجاتی ہے  مگر پنجاب کے مغربی اضلاع سے بس خال خال ہی ہوتی ہے!

یہ مغربی اضلاع(میانوالی ،اٹک ،چکوال ،جہلم ،راولپنڈی  )لاہور سے نہ صرف دور ہیں ،بلکہ ثقافتی اور لسانی اعتبار سے بھی الگ ہیں اور اپنی ہی اکائی رکھتے ہیں ۔ آپ کا کیا خیال ہے مری ،حضر  و فتح جنگ، جنڈ،عیسیٰ خیل ،پنڈ دادنخان ،ٹمن اور لاوا کے لوگوں کے لیے لاہور جانا کتنا آسان ہے؟ ان علاقوں کا ترقیاتی بجٹ کٹ کٹ کر لاہور پر خرچ ہوتا رہا ۔ ایک دوست دلیل دے رہے تھے کہ بڑے شہر شان و شوکت کا سمبل ہوتے ہیں ۔ آخر پیرس اور لندن پر بھی تو خرچ ہوتا ہے۔! بجا فرمایا!بالکل ہوتا ہے، مگر دوسرے اضلاع اور تحصیلوں کا بجٹ نہیں ، صرف وہ بجٹ خرچ ہوتا ہے،جو پیرس اور لندن ہی کے لئے مختص ہوتا ہے۔ کوئی موازنہ کرکے دیکھ لے کہ میانوالی ،چکوال، جہلم، راولپنڈی، اوراٹک کے اضلاع میں کتنے ترقیاتی کام ہوئے اور لاہور قصور سیالکوٹ فیصل آباد او رگوجرانوالہ کے اضلاع میں کتنے ہوئے؟ پنجاب کے وزیر اعلی قصور، سیالکوٹ ،فیض  آباد گوجرانوالہ، اور شیخوپورہ میں کتنی بار دوروں پر گئے؟ اور اٹک،میانوالی، چکوال، جہلم اور راولپنڈی کے علاقوں میں کتنی بار آئے؟ اعدادو شمار سے واضح ہوجائے گا ۔مگر پنجاب حکومت اعداو شمار ان خطوط پر کبھی نہیں دے گی۔ پنجاب حکومت مغربی اضلاع کے عوام کو کبھی نہیں بتائے گی کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ممبران میں سے کون کس علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔سب کو معلوم ہے اور بچہ بھی جانتا ہے کہ کہاں کہاں کا غلبہ ہے !

الگ صوبہ صرف جنوبی پنجاب ہی کا نہیں’ان مغربی اضلاع کا بھی الگ صوبہ بننا چاہیے !کوئی آج مانے نہ مانے ‘مستقبل بعید میں میانوالی اٹک چکوال جہلم او رراولپنڈی کے اضلاع پر مشتمل الگ صوبہ بننا ہی بننا ہے۔ راولپنڈی اس صوبے کا صدر مقام ہوگا اور یہ علاقے دور افتادہ لاہو رکی گرفت سے آزاد ہوجائیں گے،وہ لاہور جہاں سے اٹک کے گاؤں  کی ڈسپنسری کے لیے بیس لاکھ روپے کا ملنا ناممکن ہے!!

جنوبی پنجاب خوش قسمت ہے ‘جسے رؤف کلاسرہ جیسا دبنگ ‘بلندآواز اور بےخوف صحافی ملا ہے۔ جو ہر فورم پر جنوبی   پنجاب کی محرومیوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے حقوق مانگتا ہے۔ فائٹ کرتا ہے ‘بہاولپور خوش قسمت ہے کہ ‘جسے محمد علی درانی جیسا سر گرم علمبردار ملا ہے۔ بہاولپور کےالگ صوبے کا قصہ ایک اور المناک داستان ہے۔ !پاکستان بنا تو بہاولپورایک ریاست تھی ،ایک امیر اور فیاض ریاست! پھر اسے  صوبہ بنایا گیا،ون یونٹ بنا تو یہ صوبہ  ختم ہوگیا۔ 1970ء میں ون یونٹ ٹو ٹا ۔صوبے بحال ہوگئے مگر بہاولپور کا صوبہ بحال نہ کیا گیا۔

انجم غریب شہر تھے اب تک اسیر ہیں

سارے ضمانتوں پہ رہا کردیے گئے!

2008ء میں محمد علی درانی نے پھر تحریک شروع کی کہ بہاولپور کو الگ صوبہ بنایا جائے، مئی 2012ء میں پنجاب اسمبلی نے متفقہ قرار دار پاس کی کہ جنوبی پنجاب  کا صوبہ تخلیق کیا جائے اور بہاولپور کا صوبہ بحال کیا جائے۔ یہ قرار دار رانا ثنا اللہ نے پیش کی۔ اس کے چنددن بعد پنجاب کے وزیر اعلی شہبا زشریف نے سرکٹ ہاؤس بہاولپور میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مسلم لیگ نون بہاولپور صوبہ بحال کرے گی۔ اگلے انتخابات میں مسلم لیگ نون کو وفاق کی عملداری بھی مل گئی، مگر وعدے ہوا میں اڑ گئے۔ چار سال وفاق او رپنجاب دونوں نے نئے صوبوں کا نام تک نہ لیا، یہاں تک کہ پانا مہ کی افتاد آن پڑی ‘میاں نواز شریف کی وزارت اعظمٰی ختم ہوگئی ،اگرچہ وفاق میں حکومت انہی کی پارٹی کی برقرار رہی!

دوسری طرف بھارت میں مسلسل نئے صوبے بنتے رہے۔ نہ صرف لسانی بنیادوں پر بلکہ انتظامی بنیادوں پر بھی! صرف 1956ء کے بعد کی صورت حال دیکھ لیجیے!

1960ء میں بمبئی    ریاست کو دو ریاستوں گجرات اور مہاراشٹر میں تقسیم کردیا گیا۔ (بھارت میں صوبوں کو ریاست کہا جاتا ہے)

1963ء میں ناگا لینڈ کی ریاست وجود میں آئی۔

1966ء میں پنجاب کو تین ریاستوں میں منقسم کردیا گیا ،ہریانہ ،ہماچل پردیش اور پنجاب!

1972ء میں مانی پور،میگا لایا اور تری پوری کی ریاستیں آسام ریاست سے نکالی گئیں ۔اندازہ لگائیے صرف دو اضلاع پر مشتمل ایک نئی ریاست میگا لایا بنا دی گئی کیوں کہ انتظامی ضرورت تھی۔ کسی نے اعتراض نہ کیا کہ صرف دو اضلاع سے ریاست کیسے بن سکتی ہے؟

1987 ء میں ارونا چل پردیش او رمیز ورام کی دو ریاستیں تشکیل ہوئیں ۔

2000ء میں تین نئی ریاستیں وجود میں آئیں مدھیا پردیش میں سے چھتیس گڑھ نکالی گئی۔ یو پی میں سے اتر کھنڈ نکلی اور بہار کے جنوبی اضلاع کو جھاڑ کھنڈ کے نام سےالگ ریاست بنا دیا گیا ۔

2014ء میں آندھرا پردیش (حیدر آباد دکن) کے ایک حصے کو الگ کرکے  تلنگانہ ریاست بنادی گئی۔

اس کے مقابلے میں مکروہ مفادات ہمارے ہاں  عوام کو ایک ہی تخت کے نیچے محکوم بنا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔مانسہرہ سے سائل بس میں بیٹھے اور پشاور جائے تب اس کا کام ہوگا ۔کیوں نہ اس کے صوبے  کا صدر مقام ایبٹ آباد ہو؟ بنوں اور ڈی آئی جی خان والا پشاور کیوں جائے؟ ٹانک اور لکی مروت سے پشاور جانا کیا ایک عام شہری کے لیے آسان ہے؟ کیوں نہ وہاں نیا صوبہ بنے؟ بنوں یا لکی مروت یا ڈیرہ اس کا ہیڈ کوارٹر ہو، سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو بھی ان خطوط پر سوچنا ہوگا۔

تاہم اصل مسئلہ پنجاب کا ہے۔ مسلم لیگ نون اس وقت صرف وسطی پنجاب کے اضلاع کی بنیاد پر  پورے پاکستان کی چودھری بنی ہوئی ہے۔ جب پنجاب کو رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ثابت  کرنا ہوتو بہاولپور سے لے کر اٹک میانوالی تک سارے اضلاع یاد آجاتے ہیں مگر جب جوتیوں میں دال بانٹنی ہو تو صرف وسطی پنجاب دکھائی ہے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت ضلع ناظم کے ادارے کو بھی  برداشت نہ کرسکی۔ اس لیے کہ  وہ سارے اختیارات لاہور اپنے قدموں میں حاضر رکھنا چاہتا ہے ،اصولی طور پر مغربی ( یاشمالی) پنجاب کا صوبہ انتظامی بنیادوں پر الگ ہونا چاہیے۔ مقامی حکومتوں کو مستحکم ہونا چاہیے۔ ضلع ناظم کے ادارے کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا اور اسے مالی اور انتظامی اختیارات دینے ہوں گے۔ پوری دنیا میں اختیارات کی مرکزیت توڑ کر اختیارات صوبہ ضلع اور تحصیل سطح تک لائے جارہے ہیں ۔ پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ضلع  ناظم ختم کرکے ہر ضلع میں غلام ڈپٹی کمشنر رکھ لیے گئے ‘ جو سانس لیتے وقت بھی لاہور سے اجازت لیتے ہیں ۔

آج نہیں تو کل،کل نہیں تو پرسوں ،ایک نہ ایک دن پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر کم از کم چار صوبوں میں بانٹنا ہوگا۔ وانتظر واانا منتظرون ۔تم بھی انتظار کرو !ہم بھی منتظر ہیں ۔


Saturday, April 14, 2018

جب چینی صدر کا فون بار بار آرہا تھا


چوہدری شجاعت حسین کی کتاب”سچ تو یہ ہے “ میں کچھ واقعات دلچسپ ہیں اور  سبق آموز بھی۔ میاں نواز شریف نے کس بنیاد پر محمد رفیق تارڑ صاحب کو ملک کی صدارت کے لیے چنا ،سب کو معلوم ہے۔یہی وہ بنیاد تھی جس پر صدر ایوب خان نے ایک گمنام وکیل عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر تعینات کیا۔ سابق صدر محمد رفیق تارڑ نے صدارت کے لیے چنے جانے کا قصہ چوہدری شجاعت حسین کو “پُر جوش انداز” میں بتایا۔ چوہدری صاحب اسے یوں بیان کرتے ہیں (یہاں پنجابی سے اردو میں ترجمہ کرکے لکھا جارہا ہے)
“شجاعت !میں اپنی پنشن لینے نیشنل بینک لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں مجھے اچانک ایک ٹیلی فون آیا۔ میں نے فون اٹھایا تو فون کرنے والے نے بتایا کہ تارڑ صاحب !میں نواز شریف بول رہا ہوں ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو ملک کا صدر بنادیا جائے، مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس فون کا کیا مطلب ہے کیا یہ فون نواز شریف ہی کا ہے ۔یا کسی نے میرے ساتھ مذاق کیا ہے ؟ میں نے فون کرنے والے کو کہا کہ میں آپ کو گھر جاکر فون کرتا ہوں ۔ گھر پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ میں   کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ اس بات کی تصدیق  کرنے کے لیے میں نے اپنی ران کی چٹکی لی( میں اپنی ران تے چونڈی وڈی)
چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ نئے صدر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو  وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد کی سٹیٹ بینک بلڈنگ میں پانچ چھ شخصیات کو الگ الگ بلوایا اور ان کا ایک طرح کا انٹر ویو کیا۔ ان میں سرتاج عزیز اور مجید نظامی بھی شامل تھے ۔بھارت میں جن نامور اور بلند پایہ شخصیات کو منصب صدارت کے لیے چنا جاتا رہا ،سرتاج عزیز اور مجید نظامی ان کے مقابلے کے اور اسی سطح کے تھے۔ مگر ان سے خدشہ یہ تھا کہ موم کی ناک ثابت نہیں ہوں گے اور مجسم “آمنا و صدقنا” کا کردار نہیں ادا کریں گے۔
ممنون حسین صاحب کے انتخاب سے پہلے سرتاج عزیز کا نام پیش منظر پر چھایا ہوا تھا۔ انہیں صدارت کا منصب سونپا جاتا تو یہ انتخاب ملک کے لیے احترام اور افتخار کا باعث ہوتا ۔سرتاج عزیز اعلی تعلیم یافتہ ہیں ۔اقوام متحدہ میں مدتوں کام کیا۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ہر فورم پر اپنا مانی الضمیر اردو انگریزی میں انتہائی موثر انداز میں بیان کرسکتے ہیں ۔مگر خدشہ یہ تھا کہ وہ تو فائل پڑھیں گے ،سوالات اٹھائیں گے اور صرف “ہاں “نہیں بلکہ کبھی کبھی “نہیں “ بھی کردیں گے ۔ایسا صدر ،وزیراعظم صاحب کو راس نہیں آسکتا تھا۔
لال مسجد والوں نے جب چینیوں کو اغوا  کیا تو معاملہ کسی طرح چینی حکومت کی بلند ترین سطح تک پہنچا اس کا علم پہلی بار چوہدری شجاعت حسین ہی کے ذریعے ہورہا ہے۔ یہ اقتباس ذرا طویل ہے مگر دلچسپی کا حامل ہے۔ اس سے اندزہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہمارے ہا ں “فری فار آل ” کا کھیل کھیلا جارہا تھا ،دوسرے ملکوں میں کتنی بلند سطح پر ان کارروائیوں  کا نوٹس لیا جارہا تھا۔
“ایک روز علی الصبح ملازم نے مجھے جگایا اور کہا کہ چینی سفیر
 Luozhao Hui
آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ فوری طور پر آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ملازم نے بتایا کہ ہم نے انہیں کہا کہ چوہدری صاحب اس وقت آرام کررہے  ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ ان کافوری طور پر چوہدری صاحب سے ملنا ضروری ہے ۔ میں نے کہا اچھا انہیں اندر بٹھاؤ ،میں آتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد جب میں   ان سے ملنے کے لیے ڈرائنگ روم میں آیا تو میں نے محسوس کیا کہ چینی سفیر اور ان کے ساتھ آنے والا عملہ غیر معمولی طور پر مضطرب ہے ۔میں نے پوچھا خیریت تو ہے؟ کیا  بات ہے؟ آپ لوگ بہت گھبرائے ہوئے ہیں ۔چینی سفیر نے کہا ہم رات دو بجے سے مار ےمارے پھر رہے ہیں لیکن ابھی تک حکومت کے کسی ذمہ دار آدمی سے ہمارا رابطہ نہیں ہوسکا۔ ہم مجبور ہوکر آپ کے پاس آئے ہیں ۔ پھر چینی سفیر نے بتایا کہ چینی مساج سینٹر کے عملے کو لال مسجد کے لوگوں نے پہلے مارا پیٹا اور پھر اغوا کرلیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بڑے افسوس کی بات ہے۔کچھ کرتے ہیں ۔ابھی ہم یہ باتیں کرہی رہے تھےکہ چینی سفیر کو چین کے صدر کا فون آیا۔ چینی سفیر نے صدر سے بات مکمل کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ صدر صاحب پوچھ رہے ہیں ، کیا پیش رفت ہوئی ہے ۔ہم نے انہیں بتایا کہ یہاں آپ کے پاس بیٹھے ہیں اور کوشش کررہے ہیں ۔ دن نکل آیا تھا ،میں نے غازی عبدالرشید سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی ۔ آپریٹر کے پاس ان کا ڈائریکٹ نمبر نہیں تھا ۔اس لیے رابطہ نہیں ہورہا تھا۔ پھر میں نے صحافی حامد کو فون کرکے پوچھا کہ کیا ان کے پاس غازی عبدالرشید کا ڈائریکٹ نمبر ہے ۔حامد میر نے کہا میں ابھی آپ کی ان سے بات کرواتا ہوں ۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد غازی عبدالرشید کا فون آگیا۔ میں نے ان سے کہا کہ جامعہ حفصہ کے طلباء نے چینی مساج سینٹر کے چینی باشندوں کو مارنے پیٹنے کے بعد اغوا کرلیا ہے ۔چین ہمار ادوست ملک ہے۔ ہر مشکل اور نازک موقع پر اس نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ اگر چین جیسے دوست ملک کے باشندوں کے ساتھ یہاں  اس طرح کا سلوک ہوتا ہوگا تو ہمارے بارے میں وہ کیا سوچیں گے ۔غازی عبدالرشید نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ  انہوں نے طلبا کو اس طرح کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی وہ اپنے طور پر گئے ہوں گے۔ میں نے کہا یہ وقت ان باتوں کا نہیں آپ جامعہ حفصہ والوں سے کہیں کہ فوری طور پر چینی باشندوں کو رہا کردیں ۔میری اس بات  پر غازی عبدالرشید نے کہا ٹھیک ہے ۔کل تک چینی باشندے رہا ہوجائیں گے۔ میں نے کہا کل تک تو بہت دیر ہوجائے گی۔چینی باشندوں کی رہائی کے لیے جب غازی عبدالرشید سےیہ گفتگو کررہا تھا تو چینی سفیر کو دوسری بار فون آیا۔ انہوں نے چینی باشندوں کی خیریت دریافت کی ۔چینی سفیر کا کہنا تھا کہ صدر اس واقعہ پر سخت مضطرب ہیں ۔وہ جلد از جلد چینی باشندوں کی رہائی چاہتے ہیں ۔ میں نے دوبارہ رابطے شروع کئے۔ غازی عبدالرشید سے میں نے کہا چینی صدر کے نمائندے خود چل کر ہمارے پاس آئے ہیں ۔میری موجودگی میں دو مرتبہ چین کے صدر ان سے اس بارے میں پوچھ چکے ہیں ۔ بہر حال شام تک کسی نہ کسی طرح چینی باشندوں کو رہا کرانے میں کامیاب ہوگیا ۔ غازی عبدالرشید سے بات کرنے کے بعد اپنے سٹاف کو بھی چینی نمائندے کے ساتھ بھیجا کہ وہ ابھی چینی باشندوں کو لے کر آئیں ۔ چینی سفیر کا پاکستانی ڈرائیور چینی زبان جانتا تھا اس لیے اسے بھی ساتھ بھجوا دیا۔یہ لوگ چینی باشندوں کو باز یاب کرا کے سیدھے میرے پاس گھر لے آئے ،ان میں ایک مرد اور چار پانچ  عورتیں تھیں ۔ خواتین نے مجھے اپنے زخمی بازو دکھائے کہ کس طرح تشدد کیا گیا۔ چینی مرد نے زخموں کی وجہ سے اس وقت پینٹ بہت مشکل سے  پہن رکھی تھی۔ اس کی تکلیف کا اندازہ کرنا مشکل تھا ۔چینی عورتوں کے اغوا کے بعد حکومت کے پا س آپشن کا ایک جواز آگیا۔ کیونکہ ڈپلومیٹک انکیلو کا فاصلہ لال مسجد سے تقریباً  اڑھائی کلو میٹر تھا اور وہ غیر محفوظ ہورہا تھا”

یہ روداد پڑھنے کے بعد ایک اور سوال بھی ذہن میں اٹھتا ہے ۔اگر خدانخواستہ کہیں ،کسی ملک میں ،چار پانچ پاکستانی اغواہو جائیں تو کیا ہمارے وزیراعظم یا صدر، اپنے سفیر سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد براہ راست فون کرکے صورت حال پوچھیں گے؟
اقوام کی عزت کی ایک علامت یہ بھی ہے ؟ طاقتور ملک اپنے ایک باشندے کی حفاظت کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں ۔ سنگا پور میں جب ایک امریکی نوجوان کو کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی تو امریکی صدر نے سنگا پور کے صدر سے خود  بات کی۔ یہ کوڑے بھی نہیں تھے۔ ڈنڈے تھے اس سزا کو سنگا پور میں
 Caning 
کہا جاتا ہے۔یعنی چھڑی سے مارنا۔ ہزاروں پاکستانی بے یارومدد گار دوسرے ملکوں کے قید خانوں  میں  پڑے ہیں ۔خاص طور پر مشرق ِ وسطی کے ملکوں  میں ،کئی بے گناہ ہیں ،مگر حالت یہ ہے کہ پاکستانی سفارت خانے ،سب نہیں مگر اکثر ان کی دست گیری نہیں کرتے اور بے نیازی اور تغافل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔رہے ہمارے اعلی ترین سطح کے حکمران تو ان کی بلا سے ۔

 چند خواتین ارکان اسمبلی نے ان دنوں جامعہ حفصہ کا دورہ کیا ۔ان میں سے ایک نے واپسی پر بتایا۔
 گیٹ کے اندر سے ہمارااستقبال ایک نقاب پوش خاتون نے کیا ،جو ہمیں مسجد کے اندر لے گئیں ۔مختلف برآمدوں میں سے ہوتے ہوئے جب ہم مسجد کے بڑے صحن میں پہنچیں تو اوپر منزل پر نقاب پوش ڈنڈا بردار طالبابھی تھیں۔ صحن  میں موجود خواتین نے عام سادہ کپڑے پہن رکھے تھے۔ جنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی “انقلاب “اور انتقام” کے نعرے لگانے شروع کردئیے۔
آخر میں قارئین کی تفنن طبع کی خاطر چوہدری شجاعت حسین کی کتاب سے ایک اور اقتباس۔۔

"ایک مرتبہ  میں نے جنرل مشرف سے پوچھاآپ کو نواز شریف کے والد میاں  محمد شریف نے اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا اور آپ کی  بیگم بھی آپ کے ہمراہ تھیں ۔ اور کھانے کے بعد میاں شریف نےآپ سے کہا تھا کہ آپ میرے چوتھے بیٹے ہیں ؟ جنرل مشرف نے ہنستے ہوئے کہا ہاں! ایسے ہی ہوا تھا۔ میں نے کہا ، اس روز آپ کی ملاقات کے بعد جب میں اور پرویز الہی میاں شریف صاحب سے ملنے کے لیے گئے تو آ پ کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں  نے ہم سے کہا کہ میں نے نواز (وزیراعظم نواز شریف  سے کہا کہ اسے (جنرل پرویز مشرف) کو فوراً فارغ  کردو۔ میں نے اس کی آنکھیں دیکھی ہیں ۔بڑی خطرناک آنکھیں ہیں ۔”


 

powered by worldwanders.com