Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, October 30, 2017

واہ !سردار مہتاب عباسی صاحب ،واہ!


یہ صبح ساڑھے تین بجے کا وقت تھا،ابو ظہبی کے ائیر پورٹ پر پاکستان کی قومی ائیر لائن کا  جہاز پشاور  جانے کے لیے پر تول رہا تھا،غالب تعداد ان پاکستانیوں کی تھی جو محنت مزدوری کرنے آئے تھے،ان کا تعلق خیبر پختونخوا کی بستیوں اور قریوں سے تھا۔۔

ساڑھے سات بجے جہاز پشاور کی سرزمین پر اترا ،مسافر باہر نکلے  ،جنگلے  کے اس طرف ان کے  ماں باپ بیوی بچے دوست  احباب  بے تابی سے انتظار کررہے تھے، گھومتی ہوئی پٹی پر سامان آجارہا تھا۔،لوگ اپنا اپنا آئٹم پہچانتے اور ،بیگ اس  صندوق  اٹیچی کیس  یا کسی  بھی اور شکل میں ، اٹھاتے ،ٹرالی پر رکھتے اور باہر کا رخ کرتے۔
پھر پٹی چلنی بند ہوگئی، سامان ختم ہوگیا، تاہم تقریباً  اٹھارہ بیس  مسافر اب بھی  اپنے سامان کا انتظار کررہے تھے، وہ کھڑے رہے، ایک دوسرے  سے پوچھتے رہے، سول ایوی ایشن کے کچھ  ورکر نظر آرہے تھے ،ان سے پوچھا مگر وہ کیا بتاتے، پھر ان میں سےایک  دو نے ہمت کی،پی آئی اے  کے ایک اہلکار سے پوچھا ،اس نے نہایت اطمینان  سے جواب دیا، بھائی یہ جہاز چھوٹا ہے،ہم اٹھارہ بیس مسافروں کا سامان  ابو ظہبی میں چھوڑ آئے ہیں ، وہ بعد میں آئے گا، پوچھا گیا کب آئے گا۔  پی آئی اے کے اہلکار نے ایک ادائے بے نیازی سے ،جس میں  تغافل بھی تھا اور  حقارت بھی، جواب دیا کہ یہ کچھ  نہیں کہا جاسکتا،آج یا کل یا کچھ دنوں بعد۔

 آپ کا کیا خیال ہے ان مسافروں کی حالت اس وقت کیا ہوگی؟۔۔۔۔ یہ مزدور تھے، اپنے وطن سے دور رہ کر کفیل سسٹم کے ظلم و ستم سہہ کر انہوں نے  جسمانی مشقت برداشت کی،سامان اٹھایا ،چوکیداریاں کرتے رہے، مشینیں چلائیں ،ریستورانوں میں برتن مانجھے، خود بھوکے رہے،بچت کرکے گھر والوں کے لیے کچھ نہ کچھ خریداری کی، کسی کی جوان بہن انتظار کررہی تھی کہ بھائی کچھ لائے گا، اس کے جہیز کے لیے، کسی کی بیوی جدائیاں  برداشت کرکے منتظر تھی کہ  میاں  آئے گا تو گھر  کےاستعمال کی فلاں فلاں  شئے لیتا آئے گا،بوڑھے ماں باپ انتظار کرہے تھے،بیٹے نے ان کے لیے کچھ تحفے خریدے تھے، بچے اپنے کھلونوں اور چاکلیٹوں کے منتظر تھے،یہ سب سامان پی آئی اے والے ابوظہبی میں چھوڑ آئے تھے،انہیں کسی کی کچھ پروانہ تھی۔

سردار مہتاب عباسی سول ایوی ایشن کے مشیر ہیں ، ان کا رتبہ  عہدہ اور مراعات  وفاقی وزیر کے برابر ہیں ، کیا انہیں معلوم ہے کہ یہ پشاور میں پہلی بار نہیں ہوا، ان بیس مسافروں میں دو تین  پاکستانی ایسے بھی تھے جو یورپ امیریکہ سے آئے تھے، اور ابوظہبی سے فلائیٹ بدلی تھی، عام طور پر اتحاد ائیر لائن والے ابو ظہبی پہنچ کر اپنے مسافر پی آئی اے والوں کے حؤالے کردیتے ہیں ، جہاں تک پشاور کا تعلق ہے، پی آئی اے کا معمول ہے کہ  سامان چھوڑ آتے ہیں ، مزدور قسم کے سادہ لوح  پاکستانی احتجاج  کرتے ہیں نہ شکایت،

پشاو رپی آئی اے کے ایک  سینٹر عہدیدار  نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر  تفصیل سے آگاہ کیا  کہ یہ ظلم  ایک عرصہ سے پشاور  اور ارد گرد  کے علاقوں میں ہورہا ہے، جہاز چھوٹے ہیں ، کرایہ کی لالچ میں مسافر بٹھا لیے جاتے ہیں ، ان کا سامان  جان بوجھ کر  ایک پالیسی کے تحت چھوڑ دیا جاتا ہے، چونکہ مسافر  زیادہ تر  مزدور ، ان پڑھ  نیم خؤاندہ ہوتے ہیں ، وہ تحریری احتجاج تو کر ہی نہیں سکتے۔ زبانی احتجاج  کرتے ہیں مگر  اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے، پی آئی اے والے ہنس کر  ،کبھی خاموشی  رہ کر ،کبھی ڈانٹ ڈپٹ کرکے  ان لوگوں کو چپ کروا دیتے ہیں ۔

پشاور کے اسٹیشن منیجر  ایاز خان  سے جو پورے  ہوائی اڈے  کے سب سے بڑے افسر ہیں ، ان کے فون نمبر  0333-9462411پر بات ہوئی، تعجب کی  انتہا یہ تھی کہ  سٹیشن منیجر کو بقول ان کے  اس پورے واقعے کا بلکہ المیے کا علم ہی نہیں تھا۔ ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے یہ پریکٹس ایک عرصہ سے چل رہی ہے، اور صرف پشاور میں ایسا ہو رہا ہے، انہوں نے ایسے لہجے میں ،جس کا  مطلب تھا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں ہے،جواب دیا کہ  ہاں ہوجاتا ہے، ان سے پوچھا  کہ کیا  آپ کو معلوم ہے کہ  یہ لوگ  جو مزدوری کرکے واپس آتے ہیں  تین تین چار چار سال  بعد وطن واپس آتے ہیں ، ان کی بہنیں  ،بیوی بچے، ماں باپ، اپنے تحائف  کے منتظر ہوتے ہیں ، ایاز خان کے بقول  وہ اس قسم کے کسی  المیے سے  بے خبر تھے۔

اگر سٹیشن منیجر کی بات سچ تھی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ  ائیر پورٹ کے  نچلے درجے کے ملازمیں  او ر اہلکار  سٹیشن منیجر کو اصل صورتحال سے بے خبر رکھے ہوئے ہیں ،  مگر سٹیشن منیجر کی کارکردگی اور استعداد کار کا اندازہ لگائیے کہ جو کچھ اس کی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے ،اسے اس کا  پتہ ہی نہیں ، تو پھر کیا عجب کہ پی آتی اے دنیا کی ناکام ترین  ائیر لائنوں میں سے ہے۔

چیئر مین  پی آئ اے عرفان الہی صاحب سے  کمنٹ لینے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کے معاون  مسٹر اویس  نے کہا کہ انہیں  فون نمبر دینے کی اجازت نہیں ۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ چیئرمین جو سول ایوی ایشن ڈویژن کے  سیکرٹری ہیں  ،پبلک سرونٹ بھی ہیں ، عوام کا حق ہے کہ ان تک رسائی ہو۔ تاکہ وہ انہیں صورتحال سے آگاہ کرسکیں ، مگر ان کا ہر بار ایک ہی جواب تھا  کہ عرفان صاحب کا حکم ہے کہ  ان کا فون نمبر کسی کو نہ دیا جائے،  سوال یہ ہے کہ کیا ان کا موبائل فون سرکاری نہیں ہے؟ کیا  اس کا بل حکومت کے خزانے سے ادا نہیں ہورہا ؟  پھر وہ اسے پردہ اخفاء میں کیسے اور کیوں رکھے ہوئے ہیں ۔

مگر اصل  ذمہ داری سردار مہتاب عباسی صاحب کی ہے جو مشیر  بمرتبہ وزیر ہیں ۔، وہ سیاستدان ہیں  ،بیوروکریٹ نہیں ، کیا انہیں معلوم نہیں کہ اہلِ پشاور کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ؟ اب وہ بدعائیں سنیے جو اپنی حق حلال کی کمائی سے ،اپنے خؤن پسینے سے ۔خریدے ہوئے سامان سے محروم  ہونے والے دے رہے تھے 

اس کالم نگار کو بدقسمتی سے پشتو نہیں آتی،(یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے صوبوں میں دوسرے صوبے کی زبان پڑھائی اور نہ ہی سکھائی جارہی ہے۔) کچھ لوگ جو وہاں موجود تھے،ان کی محبت کہ ترجمہ کرکے بتاتے رہے۔۔۔

 خدا اس ائیر لائن کا بیڑہ غرق کرے،

 ان اہلکاروں کا ستیا ناس ہو،

 ان کے بیوی بچے بھی اسی طرح سامان کو ترسیں جیسے ہمارے ترسائے جارہے ہیں ،۔

یہ حرام خؤر کرایہ پورا لیتے ہیں ، مگر اپنا فرض  نہیں سر انجام دیتے۔

ایک نسبتاً پڑھے لکھے شخص  سے بات ہوئی جو دو سال  بعد  مشرقِ وسطیٰ سے واپس آرہا تھا۔ وہ اپنے بیمار ماں باپ کے لیے کچھ دوائیں  بھی لایا تھا، اس کا کہنا تھا کہ  اگر اس کے پاس آپشن ہوتا تو وہ کبھی اس نام نہاد ائیر لائن سے سفر نہ کرتا ۔
ان لوگوں میں ایک صاحب مشرق بعید سے آئے ہوئے تھے ،انہوں نے بتایا کہ تین چار سال پہلے بھی پشاور ائیر پورٹ   پر ان کے ساتھ یہی ڈرامہ کھیلا گیا تھا، اور سامان  انہیں کئی  دن بعد ملا تھا۔

سوال یہ ہے  کہ  سردار مہتاب عباسی صاحب اس  بدترین مذاق کو ختم کرسکتے  ہیں ؟اور کیا وہ چیئر مین صاحب  اور سیکٹری کو باور کراسکتے ہیں کہ وہ سات پردوں میں  چھپنے کی بجائے ان لوگوں کا سامنا کریں  جنہیں ان کی ائیر لائن زہر کے ساتھ ڈس رہی ہے۔ جن کی جیبوں  سے لاکھوں روپے نکال کر انہیں سامان کے بغیر بے یار و مدد گار  چھوڑدیا جاتا ہے۔ ؟

اگر سردار  صاحب اتنا  بھی نہیں کرسکتے تو  پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ  واہ ! سردار مہتاب عباسی صاحب۔  واہ!    


Friday, October 27, 2017

ہم کس عہد میں جی رہے ہیں !


دکھ کی بات تھی  اور دل میں خؤشی بھی انگڑائی لے رہی تھی، خؤشی اس لیے کہ  دوست گرامی رؤف کلاسرہ کا پرسوں والا کالم پڑھ کر  بے اختیار  اقبال کا شعر یاد  آگیا۔۔۔

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں !

پنجاب حکومت جس طرح  ٹامک ٹوئیاں  مار رہی  ہے،اس کی  وارننگ پہلی بار  اس کالم نگار نے اس وقت دی تھی  جب صوبے  کے حکمران اعلیٰ نے قصور ہسپتال  کا "معائنہ" کیا تھا۔ کچھ کو معطل  کیا،کچھ کو  جھڑکیاں دیں ، پھر کچھ عرصہ  بعد ایک  بار پھر "معائنہ "کیا ۔ مگر نتیجہ صفر نکلا۔ 13 اگست  2016 کو  ایک معروف  و مشہور انگریزی  معاصر  نے شہ سرخی جمائی۔

"قصور  ڈسٹرکٹ  ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ،چیف منسٹر کے  معائنوں  کے باوجود  کوئی تبدیلی نہ آئی"

 ملازموں نے بتایا کہ سٹاف مریضوں کو  پرائیویٹ ہسپتال جانے کا  مشورہ دیتا ہے،ٹریفک پولیس تک کے  مریض  کو اٹنڈ نہ کیا گیا، ڈاکٹر غائب رہتے ہیں ،محکمہ صحت  کے ای ڈی  او نے  خود  کہا کہ بھارت کی طرح  یہاں بھی نجی پریکٹس  ڈاکٹروں  کی ممنوع ہونی چاہیے،لیکن بھارت میں ایسا کرنے سے پہلے ڈاکٹروں کی تنخواہیں بڑھائی گئیں ، "معائنوں  "کے باوجود  ناکامی کی یہ ایک انتہائی مختصر داستان ہے، ورنہ  صفحوں  کے صفحے  بھر جائیں ۔

یہ سب اس لیے کہ وزیر اعلیٰ  کا طرزِحکومت شخصی  اور قبائلی ہے، وزیر سیکرٹری ساتھ ہوتے  اور معائنہ کے دوران  ذمہ داری  ان پر ڈالی جاتی ،سرزنش کی جاتی تو نتیجہ مختلف نکلتا ، سارے مسئلے کا لبِ لباب  کیا ہے؟

اصل معاملہ کیا ہے؟ وہ جسے انگریزی میں  
crux of the  matter


کہتے ہیں ۔

کیا ہے؟

 صرف اور صرف  یہ کہ وزیر اعلیٰ  صوبائی اسمبلی  کو کسی قابل نہیں سمجھتے  کابینہ عضوِ معطل ہے، پہاڑ سے لے کر رائی تک ہر فیصلہ خؤد کرتے ہیں اور ہاتھی سے لے کر چونٹی تک ہر ذی روح  صرف ان کے اشاروں کا محتاج ہے۔

مگر رؤف کلاسرہ نے کمال خؤبصورتی او جامعیت سے پنجاب  حکومت کی طرزِ بادشاہی کو بیان کیا ہے، اور بتایا ہے کہ بیوروکریسی کا ہر کل پرزہ  منتظر رہتا ہے، کہ وزیر اعلیٰ  "نوٹس" لیں تو  وہ حرکت کرے۔انگریزی  سے اردو صحافت میں آنے والے  رؤف کلاسرہ نے دکھا دیاہے کہ بغل میں ٹھوس مواد  ۔حقائق  اور دلائل ہوں تو لچھے  دار الفاظ اور مرصع  مرقع زبان  کے بغیر  سلیس اردو  میں بھی دلوں  کے اندر اترا جاسکتا ہے۔

92ٹی وی چینل پر اس شخص کو سن کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح  جرات و بے خؤفی سے  اور کس طرح قومی خزانے  کی تاخت و تاراج  کو کلاسرہ پبلک کی آنکھوں  کے سامنے یوں رکھ دیتا ہے، کہ اشتباہ کی گنجائش نہیں رہتی۔

اس پر آشوب  دور میں  جب بڑے بڑے ستون دیمک  زدہ ہوگئے، اور کرنسی  اور مراعات  کا ٹڈی  دل بڑے بڑے  دماغ چاٹ  گیا۔ رؤف کلاسرہ جیسے صحافیوں کا  وجود نعمت سے کم نہیں ، یہ انگلیوں  پر گنے جا سکنے والے افراد  ساری کمیونٹی کی طرف  سے فرض  کفایہ ادا کرہے ہیں ۔

 خؤشی کا ذکر تو ہوگیا۔ دکھ کیوں ہوا؟۔۔۔ اس لیے کہ اصل معاملہ دکھ کا ہی ہے۔ یہ طرزِ حکومت یہ جمہوریت کی عملی نفی ۔،یہ قبائلی سٹائل، یہ دکھ کی ہی بات ہے،

چھپن نام نہاد  کمپنیوں کی ناکامی  کا سکینڈل سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ حکم صادر ہوا  کہ "تھرڈ پارٹی جائزہ" لیا جائے۔ اور ناکام کمپنیوں کو بند کردیا جائے، مگر اسی ارب روپے سے زائد  کی بے ظابطگیاں  جو  ہوچکی ہیں ،ان کی ذمہ داری کون قبول کرے گا، صاف پانی کمپنی نے کتنے لوگوں کو  صاف پانی مہیا کیا؟۔۔۔ اصل کمپنیوں کو سونپے گئے کام  بلدیاتی اداروں نے کرنے تھے،  ایک طرف بلدیاتی ادروں کو فدنڈز نہ دے کر عدم  فعا ل رکھا گیا دوسری طرف  پسندیدہ افراد کو  لاکھوں کروڑوں روپے سے نوازا گیا۔ بورڈ آف  گورنرز  میں سیاست  دان تک شامل کرلیے گئے ،
صرف ایک مثال سے ان کمپنیوں  کی شفافیت کا اندازہ لگائیے ۔کہ ؛لاہور پارکنگ  کمپنی کا ٹھیکہ ایک ایسی فرم کو دیا گیا۔ جو بلیک لسٹ  تھی۔ حکومت کو ماہانہ پانچ کروڑ  کا نقصآن ہوتا رہا۔
 چودھویں صدی کے حکمران محمد تغلق  اور  پنجاب  حکومت میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔محمد  تغلق نے بڑے بڑے منصوبے شروع  کیے اور  کرائے۔ مگر مشورہ  کسی سے نہ کرتا  تھا۔ مثلاً ایک منصوبہ بنایا کہ بنجر زمینوں   کو قابلِ کاشت بنایا جائے اور کسانوں  کو مجبور کیا جائے کہ عام فصلوں کے بجائے "قیمتی" فصلیں بوئی جائیں ۔ حکم ہوا کہ  باجرے  کے بجائے گندم بوئی جائے، گندم جہاں بوئی  جاتی ہے وہاں گنا بویا جائے۔اور جہاں گنا بویا جارہا تھا ،وہاں انگور اور  کھجور کاشت کی جائے ۔

یہ منصوبہ جن افراد کو  سونپا گیا  وہ اسی قبیل کے تھے جنہیں ان چھپن کمپنیوں  کی بارشاہی  عطا کی گئی ہے۔ کچھ نے بادشاہ سے وعدہ کیا کہ ایک لاکھ بیگھہ  زمین کو آباد کرکے دکھائیں گے، کچھ نے کہا کہ ہزاروں گھڑسوار ان زمینوں کی آمدنی سے تیارکریں گے۔ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا  امدادی رقوم  جن افسروں نے کسانوں میں تقسیم کرنا تھیں وہ بددیانت نکلے۔ دو سال کے عرصہ میں  ستر لاکھ ٹکا خزانے سے جاری ہوا مگر  اس کا ہزارواں حصہ بھی کسانوں تک نہ پہنچا۔

پھر محمد تغلق کے دماغ نے ایک  اور جھر جھری لی، لگان کو نیلام کردیا۔ یعنی جو زیادہ بولی  دے گا کہ میں فلاں علاقے سے اتنا لگان اکٹھا کرکے خزانے میں جمع  کراؤں گا   اسے وہ علاقہ  سونپ دیا گیا۔ یہ بولیاں  دینے والے ناتجربہ کار تھے، انہوں نے کسانوں کو لوٹنا شروع کردیا ، پھر بھی مطلوبہ رقوم اکٹھی نہ ہوئیں ۔ بادشاہ نے ان کے بازو مروڑے تو بغاوت ہوگئی، سکیم بری طرح ناکام ہوگئی۔

 پھر ایک اور سکیم آئی  چاندی کے سکوں  کی جگہ تانبے اور  پیتل کے سکے جاری کئے گئے ،سکیم  ناکام ہوگئی ،معیشت تباہ ہوگئی۔، پھر بادشاہ  نے اعلان کیاکہ لوگ پیتل کے سکے خزانے میں جمع  کرا کر سونے اور چاندی  کے سکے واپس لیں ۔

دارالحکومت میں پیتل کے سکون کے پہاڑ جمع ہو گئے ،رہا سہا خزانہ خالی ہوگیا۔ پھر بادشاہ  نے دارالحکومت دہلی سے دیواگری (موجودہ  مہاراشٹر صوبے میں ) منتقل کرنے کا حکم دیا۔ دیواگری کا  نام دولت آباد رکھا گیا۔ یہ دہلی سے تقریباً ایک ہزار کلو میٹر  دور تھا۔ فوائد ضرور تھے مگر  یہ منصوبہ  اس بری طرح ناکام ہوا کہ  محمد تغلق  کو تاریخ نے پڑھا  لکھا بے وقوف  کا خطاب دیا۔

وجہ یہ تھی کہ  یہ فیصلہ  اچانک کیا اور صرف بادشاہ  کا اپنا  فیصلہ تھا، کسی سے  مشورہ لیا نہ  منصوبے کے مختلف  پہلوؤں پر غؤر کیا گیا۔ ممکنہ نقصانات کا سوچا ہی نہ گیا۔ پھر حکم دہا کہ دہلی کی ساری کی ساری آبادی دولت نگر منتقل ہو۔ لوگ راضی نہ ہورہے تھے۔ صدیوں سے یہ خاندان  دہلی میں مقیم تھے۔ کیسے جاتے۔۔۔بادشاہ نے  سفر کے دوران  بھاری مراعات  کا اعلان کیا پھر بھی  لوگ راضی نہ ہوئے۔
پھر محمد تغلق نے شہر میں منادی  کرادی کہ تین  راتوں کے بعد شہر  میں کوئی نہ دکھائی دے۔ بہت سے لوگ چل پڑے ،کچھ چھپ گئے۔ شہر کی تلاشی لینے  کا حکم ہوا، ایک گلی میں ایک اندھا  اور ایک اپاہج ملا، اپاہج کے بارے حکم ہواکہ اسے  منجنیق میں ڈال کر اس طرح پھینکا جائے جیسے  پتھر پھینکتے ہیں ، اندھے کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ اسے دہلی سے دولت آباد تک گھسیٹ کر لیجایا جائے۔، یہ فاصلہ چالیس دن کا تھا۔ اندھا بیچارہ جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ دولت آباد اس کی صرف ایک ٹانگ ہی پہنچ پائی، ظفر اقبال نے شاید اسی کے بارے میں لکھا تھا۔۔۔

میں نے کب دعویٰ کیا ہے،سربسر باقی ہوں میں

پیش خڈمت ہوں تمھارے،جس قدر باقی ہوں میں !

اس سے دہشت اس قدر پھیلی کہ چھپے ہوئے لوگ بھی دولت آباد روانہ ہوگئے، بہت سے بیمار ہوکر راستے میں مرکھپ گئے، بہت سے نئی زمین،نئی آب و  ہوا ،نئی زبان  اور نئے ماحؤل سے سمجھوتہ نہ کرسکے ،ذہنی بیماریاں لاحق ہوگئیں ۔ آٹھ سال گزرے تھے کہ بادشاہ کو یہ ساری سکیم ناکام اور حماقت آمیز نظر آئی۔ اب حکم ہوا کہ سب واپس چلو۔ دہلی کو دوبارہ دارالحکومت قرار دے دیا گیا،اور رہی سہی کسر واپسی کے سفر نے پوری کردی۔

حکومت پنجاب  کی کچھ سکیموں  کے تو اب نام ہی سننے میں نہیں آتے۔ سستی روٹی، دانش سکول، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم ۔صرف دانش سکولوں کا معاملہ چھان کر دیکھ لیجئے، اربوں روپے ان پر لگ گئے، دوسری طرف سرکاری سکولوں میں  63 ہزار  اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں ، تیرہ سو سکولوں میں بیت الخلا کوئی نہیں ، پونے پانچ ہزار سکولوں کی عمارتیں مخدوش حالت میں ہیں ، ساڑھے پانچ ہزار سکولوں میں پینے کاپانی مفقود ہے۔ پونے تین ہزار سکولوں میں بچوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں  اور ڈیسک موجود نہیں ۔

اور اب چھپن کمپنیوں  کی سکیم  کی ناکامی، ہر طرف احتجاج کا شور اور مقدمہ بازی  ،ان کمپنیوں کے نام پڑھ کر انسان  فرطِ حیرت سے انگشت بدنداں  رہ جاتا ہے۔

اے ارض سیہ روز  !کوئی اور ہی سورج

 شاید کہ بد ل جائیں یہ ایام ہمارے!


Wednesday, October 25, 2017

میری کسی سے دشمنی ہے نہ رشتے داری۔



میری شرجیل میمن  صاحب سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے، میں نے تو انہیں  دیکھا تک نہیںِ،میرا اور زرداری صاحب کا کیا مقابلہ، مگر میں جب کائرہ صاحب اور فرحت اللہ بابر جیسے   نسبتاً صاف ستھرے حضرات کو آنکھیں  بند کرکے مدافعت کرتے دیکھتا ہوں تو  افسوس ہوتا ہے کہ  ،کیا ایک پارٹی کی رکنیت  کا یہ مطلب  ہے کہ سفید کو سفید اور سیاہ کوسیاہ نہ کہا جائے؟۔

میرا مریم صفدر صاحبہ سے کوئی جھگڑا نہیں ۔ہماری رشتہ داری ہے نہ مشترکہ  جائیداد  کا تنازع۔ہمارے کھیت بھی ایک جگہ نہیں ، کہ درمیان میں پڑنے والی  پگڈنڈی  کا مسئلہ عدالت میں جائے۔ہماری حویلیاں ایک دوسرے سے متصل نہیں  کہ میرے پرنالے  کا پانی ان کے صحن میں یا ان کے پرنالے کا پانے   میرے آنگن میں گر رہا ہو۔ میرا ایسا کوئی  ارادہ  نہیں کہ  میاں نواز شریف  صاحب کے بعد پارٹی  کی زمام  سنبھال لوں یا وزیر اعظم  بننے کی کوشش کروں ۔

میں تو صرف یہ چاہتا ہوں  کہ وہ پاکستان  کا  بڑا بننے کی کوشش نہ کریں ، وہ جب نصیحت  کرتی ہیں کہ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے تو  میں صرف یہ  پوچھنا چاہتا ہوں کہ  وہ یہ نصیحت اداروں کو کس حیثیت سے کررہی ہیں ؟ وہ پارٹی میں کس عہدے پر ہیں ؟۔ وہ تاحال  منتخب نمائندہ بھی نہیں ، پھر کیا وہ خود حدود کی خلاف ورزی نہیں کر رہیں ،؟  وزیراعظم  کا عہدہ  اور وزیراعظم  کا دفتر بھی  ایک ادارہ ہے۔ جب وہ وزیراعظم کی عدم موجودگی میں    کئی  ماہ حکومت  چلاتی رہیں ،غیرملکی سفیروں کو  ملتی رہیں ،وزراء کو احکام دیتی رہیں ،  تو کیا وہ خؤد  حدود کراس نہیں کررہی تھیں ۔ ؟

کیا سرکاری پروٹوکول  لینا حدود کی خلاف ورزی  نہیں ؟ آخر انہیں کیا حق  پہنچتا ہے  کہ جو وزرا  میرے ٹیکس سے تنخواہ  لیتے ہیں ، اور جو  پولیس و سرکاری  عہدیدار عوام کے دیے ہوئے  ٹیکسوں سے مشاہرے پارہے ہیں ۔، اور جو گاڑیاں  ان کی اپنی نہیں ، ریاست کی ملکیت  ہیں ، ان سب کو وہ  اپنے لیے استعمال  کریں ؟

کیا یہ سینہ زوری  ،یہ دھاندلی  ،دیکھ کر میرا دل نہیں کڑھتا ، ؟َکیا میں اس ملک کا شہری نہیں ؟۔ کیا میرےجذبات نہیں کھول سکتے؟تو کیا میں  ان سب معاملات سے لاتعلق ہوجاؤں ؟

 میں نے تو آج تک مریم صفدر صاحبہ اور ان کے  والد محترم  میاں محمد نواز شریف  صاحب کے منہ  سے  اس ملک کے مسائل  پر  کوئی  گفتگو نہیں سنیَ۔۔۔ انہوں نے  زرعی اصلاحات  پر اور تعلیمی  نظام کی فرسودگی پر کوئی بات نہیں کی کبھی،   آج تک معزول  وزیراعظم  نے اس بات پر تشویش  کا اظہار  نہیں کیا کہ  ٹیکس چوری  ہورہا یے اور  قرضے  بے تحاشا  بڑھ رہے ہیں ،

مریم صفدر صاحبہ کا موضؤع صرف اور صرف اپنے والدِ گرامی کی ذات ہے۔ وہ سوائے  اس کے کوئی بات ہی نہیں کرتیں ، کہ میاں صاحب  اب بھی دلوں پر حکمرانی  کرتے ہیں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی  ،ان کے ساتھ یہ ہوا، وہ ہوا۔۔۔ کیاکسی نے  اس کے علاوہ ان کے منہ سے کوئی بات سنی ہے؟۔۔۔

آپ اس ملک کی بدبختی دیکھیے  کہ وزیر اعظم  خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ  نواز شریف کےخلاف فیصلہ  عوام نے قبول نہیں کیا ،گویا  خود حکومت  کا سربراہ  عدلیہ کے خلاف ہے۔،تو پھر کیاعدالتیں بند کردی جائیں ؟۔۔۔۔

وزیر اعظم بتائیں  کہ آخر  عدالت کو کیا کرنا چاہیے تھا ؟۔۔ تو پھر کیا  ہر وہ شخص  یا فریق  جس کے خلاف  عدالت  فیصلہ  کرے۔یہی  موقف اپنائے  کہ فیصلہ  عوام قبول کریں گے تو مانا جائے گا۔؟تو پھر آئین  میں یہ لکھ دیجئے کہ  عدالتیں  فیصلے کرنے سے پہلے اس کے بارے  میں عوام سے رائے لیا کریں ۔

سیاست دانوں  کا مائنڈ سیٹ  ملاحظہ فرمائیے  کہ سینٹ  چیئرمین وزیر تعلیم  کو حکم دے رہے ہیں ، کہ قائداعظم  یونیورسٹی کے  گرفتار  طلبہ  کو فوراً رہا  کیا جائے۔ چیئرمین یہ پوچھنے کا تکلف نہیں  فرماتے کہ  گرفتاری کا سبب کیا  ہے؟۔۔۔

یونیورسٹی میں  "سابق  طلبہ  "کا کیا کام ؟اور سینٹ  کے ایک رکن طلبا کے احتجاجی جلوس میں کیا کررہے تھے۔

یونیورسٹی کے چانسلر صدر مملکت ہیں ، ان کےمحل سے  یونیورسٹی  کا فاصلہ  تین چار کلو میٹر  سے زیادہ  نہ ہوگا، مگر غالباً  کام کی "زیادتی
"کے باعث  انہیں یہ جاننے  کا موقع نہ ملا کہ  جس یونیورسٹی  کے وہ چانسلر  ہیں اس میں کیا ہورہا ہے؟۔۔۔

ایک تعلیمی ادارے میں نسلی اور لسانی  بنیادوں  پر گروہوں  کو منظم  کرنے کی کیا منطق  ہے،؟کیا پہلے کراچی  یونیورسٹی  میں یہ سب کھیل تماشے  ہم بھگت  نہیں  چکے؟

کیا پنجاب یونیورسٹی طلبہ کی سیاست کی وجہ سے  اصطبل نہیں بن چکی؟۔ ٹی وی پروگرام میں  ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) کے سربراہ  سے پوچھا  گیا  کہ یہ ہڑبونگ ،یہ ہڑتالیں ،یہ لسانی گروہ  بندی، یہ کلاسوں کا تعطل یہ سب کچھ پرائیویٹ  یونیورسٹیوں  میں کیوں  نہیں ہورہا  ؟تو جواب ملاحظہ فرمائیے

 فرمایا کہ  پرائیویٹ یونیورسٹیاں  تو اتنی بھاری  فیسیں لیتی ہیں ،یعنی ماروں گھٹنا ،پھوٹے آنکھ۔۔

 ارے بھائی فیسوں کی مقدار کا اس سے کیا تعلق،  اور پھر  پرائیویٹ  یونیورسٹیاں  ،سرکاری یونیورسٹیوں کی طرح قومی خزانے پر بوجھ  تو نہیں،جس سیاسی جماعت  نے مذہب  کے نام پر  پنجاب کی سب سے بڑی  سرکاری  یونیورسٹی  کو یرغمال بنا رکھا ہے، اس جماعت  کے اپنے  نجی تعلیمی  اداروں میں ایسی سرگرمیوں  کی اجازت ہی نہیں ۔  پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں کسی  کسی استاد کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ  طلبہ کوشہ دے رہا ہے، تو شام سے پہلے اسے نکال دیاجاتاہے۔

 مگر قائداعظم یونیورسٹی ،کراچی یونیورسٹی، اور پنجاب یونیورسٹی میں براجمان اساتذہ یا نام نہاد  اساتذہ کو معلوم  ہے کہ انہیں کوئی  نہیں نکالے گا۔ اس لیے وہ اپنے اپنے سیاسی ،مذہبی،اور مسلکی  نکتہ نظر  سے ہمیشہ طلبا کی حوصلی افزائی کرتے ہیں ، اور ڈٹ کر کرتے ہیں ، اور یہ خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

 بات یونیورسٹیوں کی طرف چلی گئی، سیاست دانوں  کاتذکرہ  ہورہاتھا، اس ضمن  میں  ایک اور وضاحت یہ کرنی ہے ،کہ عمران خان سے بھی کوئی  رشتہ داری نہیں ،ہم ایک علاقے  سے ہیں ، نہ قبیلہ  ذات برادری کا تعلق ہے۔مجھ سے تو وہ  متعارف  تک نہیں ۔

 مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ  کے پی کے  کی پولیس  میں سیاسی  مداخلت  نہ ہونے کے برابر ہے، روایت ہے کہ اے ڈی خواجہ صاحب  نے کہا کہ  انہیں اہنے  صوبے میں  کے پی کے کا پولیس سسٹم چاہیے ،اگر  یہ روایت صحیح ہے تو  کیا یہ امر  قابل  تعریف  نہیں ؟

کرپشن کیخلاف ابھی تک اس کے علاوہ کس نے محاذ بنایا،اور پھر ڈٹ کر کھڑا ہوگیا؟۔۔۔ وہ فرشتہ نہیں ،غلطیوں کا پتلا ہے۔ انسان ہے۔ ولی نہیں ،نہ صوفی۔

جب اس نے ایک مخصوص  مدرسہ کو تیس کروڑ روپے دیے تو میں نے تنقید کی،شدید تنقید۔

کئی اور معاملات میں اختلاف  کیا،مگر اور کس سےامید رکھی جائے  ؟مولانا فضل الرحمن سے؟ اسفند یار ولی سے؟نواز شریف  صاحب سے؟۔زرداری صاحب سے،اچکزئی صاحب سے؟

میں تو اس ملک کا عام باشندہ ہوں ،میری وفاداری اس ملک کی مٹی سے ہے، میرے لیے وطن کی سرحدیں مقدس ہیں ،مجھے اس سے کیا غرض کہ سرحد پار کون آلو گوشت کھاتا ہے ،یا نہیں ؟۔۔۔۔۔میری وفاداریاں افغانستان سے ہیں نہ ایران سے، نہ سعودی

عرب سے،نہ کسی اور ملک سے۔ مجھے تو کسی خاندان سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ، میں اس غم میں اپنے آپ کو کیوں دبلا کروں کہ  کہیں بادشاہت نواز یا زرداری خاندان سے نکل نہ جائے۔،

میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ  تمام صوبوں کو  اور تمام نسلوں کو اور ساری قومیتوں کو  برابری کی سطح پر  رکھاجائے۔

ایسا نہ ہو کہ  کچھ تو چھینک آنے پر لندن کا رخ  کریں او ر کچھ بچے  جنم دیں تو بچے کا بچھونا  زمین کا  فرش ہو۔

کچھ ملزم جرم ثابت ہوئے بغیر ،ساری زندگی جیل میں  گزار دیں  اور کچھ عدالت  میں پیش  ہوتے وقت  چالیس چالیس  گاڑیوں  کے جلوس میں بادشاہوں  کی طرح آئیں ۔مجھے انڈر پاسوں ،پلو ں، شاہراہوں ،میٹرو بسوں،اور ٹرینوں سے کیا  لینا دینا ۔جب میری  بستیوں اور قریوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ میرے بچے سکوکوں میں بیٹھنے کے بجائے مویشی  چرا رہے ہیں ، ریستورانوں میں برتن مانجھ  رہے ہیں ، دوسروں کے گھروں میں جسمانی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں ،اور ورکشاپوں میں کپڑے اور ہاتھ کالے کرکے چند سکے شام کو گھر لاتے ہیں ،

میرا مسئلہ تو وہ ہزاروں  سکول ہیں جن کی چھتیں نہیں اور نہ ہی چار دیواری۔جن میں سے بہت سے گودام اور بھینسوں کے باڑوں میں  تبدیل ہوچکے ہیں ،

بھائی میری کسی سے کوئی  کشمنی نہیں ، خاندانی  نہ مذہبی،نہ مسلکی نہ سیاسی، لیکن مجھے کوئی ان لوگوں سےتو نجات دلوا دے  جو اپنے  بچوں کو  شہزادے اور دوسروں کو رعایا سمجھتے ہیں س اور جن کے ہوم کنٹری برطانیہ اور یو اے ای ہیں ۔


Monday, October 23, 2017

بے نشانوں کا نشاں!


لاہور جب بھی جانا ہو،مین بلیوارڈ پر واقع کتابوں کی ایک دکان میں کچھ وقت ضرور بسر ہوتا ہے ۔، اس کی ایک بڑی وجہ،نواسی زینب خان اور اس کے دونوں چھوٹے  بھائیوں ہاشم خان اور  قاسم خان کی طرف سے شدید انتظار بھی ہوتا ہے کہ نانا ابو آئیں گے تو بک شاپ پر لے کر جائیں گے۔ یہ بچے وہاں گھنٹوں کتابیں پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں ، ہر بار  انہیں ایک ایک یا دو دو کتابیں نانا ابو کی طرف سے خرید کر دی جاتی ہیں ، یہ آٹھ آٹھ دس دس  کتابیں منتخب کرتے ہیں ، جن میں سے نانا ابو  تین کتابیں چنتے ہیں ، ایک اضافی  کشش بک شاپ میں واقع اس چھوٹے سے کافی ہاؤس کی وجہ سے بھی ہے، جہاں سے کتابوں کے ان ننھے شائقین کو  چپس کے پیکٹ  اور جوس کے ڈبے  لے کر دیے جاتے ہیں، انہیں وہاں سے نکال کر واپس لے آنا بڑآ مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ان کا بس چلے تو رات وہیں کتابوں کے بیچ گزار دیں ۔

گزشتہ مئی جانا ہوا تو وہاں ایک کتاب پر نظرپڑی"بے نشانوں کا نشاں "۔۔۔ مصنف کا نام  دیکھا تو  مظہر محمود شیرانی، تھا۔ کتاب کو الٹا پلٹا تو معلوم ہوا کہ مشہور محقق  حافظ  محمود شیرانی  کے پوتے ہیں ، بیاسی سالہ یہ بزرگ  شیخؤپورہ  میں رہتے ہیں ، غالباً وہیں  سےے بطور  پروفیسر ریٹائر ہوئے   - پروفیسر ڈاکٹر معین  نظامی سے بات ہوئی تو کچھ معلومات  انہوں نے  بھی بہم پہنچائیں ، معروف  شاعر شاہین  عباس سے  ،جو شیخؤپورہ  کے ہیں اور وہیں  رہتے ہیں ، بات  ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ  مظہر شیرانی  زیادہ  وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں ، شاہین عباس  کو بتایا  ہے کہ کالم نگار وہاں  آکر مظہر  صاحب کی زیارت  کرنا چاہتا ہے۔

حافظ محمود شیرانی  کے نام سے اردو  زبان و ادب  کا ہر طالب  علم بخؤبی  آگاہ ہے۔ ان کی معرکہ آرا کتاب"پنجاب میں اردو" ایک تاریخ  ساز تصنیف  ہے۔انہوں نے ثابت کیا کہ  اردو کی جنم بھومی  پنجاب تھا ۔ اس تھیوری  کے بعد اردو کے علما  اور محققین  میں بحث کا ایک  طویل سلسلہ  چلا۔موافقت  اور مخآلفت  میں بہت کچھ  لکھا گیا۔
 پٹھانوں  کا یہ قبیلہ  محمود غزنوی  کے ساتھ  برصغیر میں آیا اور پھر یہیں  کا ہو رہا۔ حآفظ محمود خآن  شیرانی  کے فرزند اختر  شیرانی  اردو  کے مشہور  رومانی  شاعر  ہیں ۔"اے عشق کہیں لے چل" اور "اودیس سے آنے والے بتا" ان کی بہت  ہی مقبول نظموں  میں  سے چند ایک ہیں ۔ مظہر محمود شیرانی  اختر شیرانی  کے فرزند ہیں ، اپنے دادا  پر انہو ںنے  وسیع  اور وقیع  کام کیا ہے۔ مقالات حافظ  محمود شیرای  دس جلدوں مین مرتب کیے ہیں ۔

 دو جلدوں میں  "حافظ محمود شیرانی  کی علمی اور ادبی خدمات "محفوظ کی ہیں ، مکاتیب بھی  جمع  کرکے چھاپے ہیں 
اس تحریر کا اصل مقصد مظہر  صاحب کی کتاب" بے نشانوں کے نشاں"ہے جو خاکوں کا مجموعہ ہے یہ خاکے  مشاہیر کے نہیں بلکہ زندگی  کے  ان عام کرداروں کے ہیں ،جن کے ساتھ روزمرہ زندگی میں سابقہ  پڑتا ہے۔ یوں تو  تمام خاکے  انتہائی موثر اور عمدہ قوت  تحریر کے دلکش نمونے  ہیں ،اور  مصنف  کی باکمال قوت مشاہدہ کا ثبوت ہے۔ مگر وہ خاکے ایسے ہیں  جو دل لہو  سے بھر  دیتے ہیں ، ایک کا عنوان  "چک نمبر 17 کا شریفا" اس کے آخری دو پیرا گراف  یوں ہیں ۔۔۔ 
 "میں نے  دیکھا کہ حویلی کے آگے  چھوٹے  بڑے کتوں  کی ایک غیر معمولی  تعداد موجود تھی، میں نے ہنستے ہوئے کہا  کہ  یہ تم نے کتوں کا فارم کب سے بنا لیا ، ؟وہ چلم  میں آگ رکھتے ہوئے بولا ، ارد گرد کی بستیوں  سے دھتکارے ہوئے  خود ہی چلے آتے ہیں ، پھر جانے کا نا م نہیں لیتے ،اب انہیں مارنے سے تو رہا۔ اللہ کی مخلوق  ہے،صبح  روٹی کا  ٹکڑا ڈآل دیتا ہوں ، ابھی پرسوں یہ چتکبری کتیا  آٹھ پلے  لے کر اس ٹھسے  سے آئی جیسے میکے آرہی ہو ۔

میں نے کہا  بھی کہ تو سارا خانوادہ  لے کر کیوں  چلی آئی تو  وہ میرے پاؤں پر  لوٹنے لگی/۔ پڑے رہو، میرا کیا لیتے ہیں “


،مجھے شریفا اس دور کا دیو جانس قلبی نظر آیا،

 بس یہ ہماری اس سے  آخری ملاقات تھی، پھر ہم ایک دوسرے کو کبھی نہ دیکھ پائے۔، اور اس کی سناؤنی  آ گئی۔

شریفے کا  جنازہ جب قبرستان کی طرف چلا تو  اس کے پیچھے پیچھے ایک چتکبری کتیا بھی چل رہی تھی، تدفین کے بعد  سب واپس ہوگئے۔ لیکن کتیا قبر پر سر رکھ کر بیٹھ گئی، اگلے دن گھر والے  قبر پر آئے تو   وہ اسی طرح  بیٹھی  ہوئی تھی ، اسےپکڑ کر  واپس لایا گیا، روٹی ڈالی  اس نے سونگھی  تک نہیں اور پھر بھاگ کر  قبرستان پہنچ گئی، آخر تیسرے روز جب  اس کا بھوک سے برا حال ہوا  اور مرنے کا ندیشہ ہوا تو  اسے لاکر زنجیر  سے  باندھ دیا گیا۔ میں یہ فیصلہ شاید کبھی نہ کرسکوں  کہ وہ کتیا  شریفے کی زیادہ قدردان تھی یا  میں ؟۔”۔۔۔

 دوسرے خآکے  کا عنوان "بے نام " ہے۔مظہر  صاحب گھر میں بیٹھے  کھانا کھا رہے تھے، کہ گلی میں  کسی فقیر کی آواز  ابھری وہ گا رہا تھا ۔،

ذات بے پروا ہے  مولا تجھ کو  پرواہی نہیں ۔۔۔

 آواز اس قدر گمبھیر  تھی اور دردناک  اور لہجہ  اس قدر پراسرار اور غیر معمولی  کہ مظہر صاحب کا  لقمہ جو ہاتھ میں تھا منہ تک نہ جاسکا۔

جو صاحب ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، ان سے مظہر  صاحب نے کہا  "یہ شخص  ہندوستان  کی کسی مسلمان  رہاست  سے تعلق رکھتا ہے” وہ صاحب  بجلی کی سی تیزی سے اٹھے او رباہر جاکر  فقیر سے پوچھا  ،اس  نے بتایا کہ وہ رام پور سے تھا ۔اگلی جمعرات  کو پھر  آیا،مظہر صاحب  نے جاکر  کچھ رقم اسے دی پھر  اس کا جائزہ لیا ۔، لکھتے ہیں ۔۔۔

 "کپڑے سادہ   مگر صاف  ستھرے، قمیض پر کالے  رنگ کی  پرانی صدری، نیچے چوخانے  دار تہہ بند۔ پاؤں میں خستہ  گرگابی  ،سر پر دوپٹے کا پھینٹا  ،ہاتھ  میں چھڑی  ،سانولی رنگت ،چہرے پر بچپن  میں نکلی ہوئی  چیچک  کے مدھم نشانات، نظر خاصی کمزور۔” 

 وہ ہرجمعرات کو آتا،مظہر صاحب ہر بار سوچتے کہ "اس سے  اس کے ماضی  کی سرگزشت سنیں ،لیکن خواہش  زبان تک نہ آنے پاتی،” اس کی آواز پر وہ غور  کرتے رہے اور اس نتیجے  پر پہنچے کہ وہ  "ہر نظم  کو کسی نہ کسی راگ کی آروہی امروہی  میں چست  کرکے  استھائی  انترے کی صحت کے ساتھ پڑھتا  تھا اور ساتھ ساتھ  وقت کی مناسبت  بھی ملحوظ رکھتا  تھا"

 جھونپڑی  فقیر کی   قبرستان  کے ایک کونے میں تھی،مظہر  صاحب سوچتے رہے کہ  "یہاں آکر باتیں کرنا زیادہ مناسب  ہوگا"۔

پھر اس  نے جمعرات کا پھیرا  لگانا چھوڑ دیا، مظہر صاحب  مکان کی تعمیر  میں پھنس گئے اور  خواہش  کے باوجود  اس کا پتہ نہ کرسکے  ۔جب  گئے تو  وہ جھونپڑی کے باہر بیٹھا تھا ،  اس کی بینائی ختم ہوچکی تھی،   مظہر صاحب اسے ماہرامراض چشم کے پاس لے گئے۔ اس نے معائنہ کرکے بتایا کہ کچھ نہیں ہوسکتا ۔۔۔

مظہر صاحب ہر دوسرے چوتھے دن  مغرب کے بعد  کھانے کی  کوئی چیز لے جانے لگے۔ ،مگر  دے کر چپ چاپ چلے آتے،  ان کےایک اور ہمکار  بھی کچھ  نہ کچھ  پہنچانے لگے۔، ایک دن  انہوں نے کہا کہ یار  تمہارا وہ فقیر  عجیب آدمی ہے۔

زردہ لے کر گیا  ،کہا چاول ہیں ۔۔ فقیر نے پوچھا  چاول تو ہیں مگر ہے کیا ؟۔۔۔ کیا سفیدہ ہے  ؟قبولی ہے  ؟َطاہری  ہے ؟َچلاؤ ہے؟پلاؤہے؟زردہ ہے؟مزعفر ہے؟بریانی ہے؟  متنجن ہے؟۔۔۔آخر ہے کیا؟۔۔۔

بتایا گیا زردہ ہے۔


یہ سن کر مظہر صاحب کو یقین ہو گیا  کہ اس فقیر نے ضرور  اچھے دن دیکھے ہیں ،  اس کے حالات جاننے کی خؤاہش شدید تر ہوگئی۔

ایک دن  گئے تو  وہ موڈ میں تھا ۔ نعت سنائی  

کھنچا کچھ اس نرالی شان  سے نقشہ محمد کا

 کہ نقاش ِ ازل  خود  ہوگیا  شیدا محمد کا ۔

 مظہر صاحب لکھتے ہیں  

"نجانے  اس نے کتنے شعر  پڑھے اور  کتنی دیر  پڑھے۔ میں مبہوت تھا۔ وقت کی نبض  رک سی گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں کسی اور دنیا میں پہنچ گیا ہوں ، جب اس نے نعت  ختم کی تو میں اس سحر زدہ  کیفیت سے نکلا۔”

 اب کچھ کہنے سننے کی گنجائش  نہ تھی۔، میں گھر کی طرف چل دیا۔  راستے میں میں نے مصمم ارادہ کیا کہ اب جس دن  اس کے پاس آؤں گا  اس کے ماضی کا قصہ ضرور چھیڑوں گا ۔ اطمینان سے بیٹھ کر،کرید کرید کر سوال پوچھو ں گا ،نامعلوم کسیے کیسے انکشافات ہوں گے ،اس سے کچھ  میرے اشتیاق ہی کی تسکین نہیں  ہوگی ،اپنا دکھڑا سنا کر  اس کے دل کا  بوجھ بھی ہلکا ہوجائے گا۔

 پھر موسم  گرما کی تعطیلات  آگئیں ۔ مظہر صاحب  اپنے اہل خآنہ  کے ہمراہ  تفریحی  ٹرپ  پر  سوات چلے گئے، واپس آئے تو یکم کو تنخواہ ملی،کچھ رقم  لے کر اس کے پاس گئے، آخری احوال مظہر صاحب ہی کے الفاظ میں بتایا جاسکتا ہے۔۔۔

“ تیسرے پہر طارق روڈ  پہنچا تو  میرے تعجب کی انتہا نہ رہی  ،جھونپڑی کا نام نشان تک نہ تھا ، یاالہی یہ کیا ماجرا ہے؟۔۔۔۔

آخر ہمت کرکے  سامنے  کی دکانوں  پر گیا۔ ایک بھلا سا آدمی  دیکھ کر دریافت کیا ۔۔یہ بابا کہاں گیا؟۔

 آپ کو پتا نہیں ؟۔۔۔اسے تو مرے ہوئے ایک مہینہ ہونے کو آیا۔۔

مگر کیا ہوا تھا۔۔۔؟
 ہونا کیا تھا ؟۔۔۔فقیر تھا !آگے پیچھے کوئی تھا نہیں ،ایک دن صبح  سے شام تک  دروازہ بند رہا،شام کو کسی نے روٹی دینے کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا، تو جواب ندارد۔۔۔

ہمیں شک پڑا  ،دروازے کی بساط ہی کیا تھی، توڑا تو بستر پر مرا پڑا تھا ۔ رات ہی کو دفنا دیا۔ اور کیا جی؟۔۔۔رات بھر اس کے پاس کون بیٹھتا۔۔۔۔۔

"محلے کے لوگ جھونپڑی اور اس کے آگے کی جگہ پر قبضہ جمانے کی فکرمیں تھے۔ دنگے فساد  تک نوبت  پہنچی  آخر کچھ بھلے مانسوں  نے بیچ میں پڑ کر  فیصلہ کروایا، کہ یہ رقبہ قبرستان کا ہے، چنانچہ  جھونپڑی صاف کرکے قبرستان  میں شامل کردی گئی۔

اس کی بات ختم ہوتے ہوتے  ادھر ادھر سے  کچھ لوگ  ہمارے گرد جمع  ہوگئے تھے ،ان کی  نگاہوں سے شک  جھانک رہا تھا ۔، شاید وہ  مجھے بھی اس جگہ کے طلبگاروں میں سے  ایک سمجھ رہے تھے۔  میں ان کی نظروں  کی تاب نہ لاسکا۔ اور کھسک جانا ہی مناسب سمجھا۔

 اس کی قبر کا نشان بھی نہ پوچھ سکا کہ دعا کے لیے ہاتھ ہی اٹھا لیتا۔ گھر آتے ہوئے  غالب کی غزل کا آخری  شعر  ذہن میں گردش  کررہا تھا

داغ ِ فراق  صحبتِ  شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی  خموش ہے۔!


Sunday, October 22, 2017

پنجاب : ناکامی کے اسباب!


پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف جس المناک  صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں ،اس کاسنجیدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے،نہ کہ ان کی بھد اڑانے کی ۔ یہ صورتحال المناک ہونے کے ساتھ ساتھ عبرتناک بھی ہے،پہلےرائے ونڈ  کے ہسپتال  میں ایک حاملہ  عورت نے بچے کو جنم دیا، اور پہلا بچھونا  جو اس نے  دنیائے آب و رنگ  میں  اس نومولود  کو نصیب ہوا  فرش خاک کا تھا، ابھی "پنجاب سپیڈ" کے  اس نمونے  کی گونج فضآ میں تھی  کہ گنگا رام ہسپتال میں ایک اور نومولود  ماں کے جسم  سے الگ ہوا اور راہداری  میں ہسپتال کے سربراہ کے دفتر کے عین سامنے  زمین پر  لیٹ  گیا۔

اس کے ساتھ ہی ترکی کی طرز پر بنائی گئی  "کمپنیوں " کی کارکردگی  کا سکینڈل  منظر عام پر آگیا، اور وزیر اعلیٰ  نے ان کمپنیوں  کے کئی  سربراہوں کو یکے بعد دیگرے  معطل کردیا ۔

وزیر اعلیٰ کی مثال اس عورت کی سی ہے جو ہنڈیا چولہے پر چڑھاتی ہے، نیچے آگ  جلاتی ہے اور چمچ ہلانے لگ جاتی ہے، کافی دیر کے بعد  جب وہ ہنڈیا نیچے اتارتی ہے تو  نتیجہ  کچھ نہیں نکلتا ،اس لیے کہ ہنڈیا میں تو صرف اور صرف پانی تھا ، اس میں گوشت اور دال  ،سبزی ،نمک ،مرچ کچھ نہ تھا۔

وزیر اعلیٰ آٹھ سال سے محنت کررہے ہیں ،مسلسل ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہیں ، کبھی ہیٹ اوڑھ کر،کبھی لمبے بوٹ پہن کر، کہا جاتا ہے کہ  وہ اعلیٰ الصبح "کام"شروع کرتے ہیں ،اور رات گئے تک"مصروف"رہتے ہیں ۔ افسروں کی سرزنش کرتے ہیں ، اداروں کے سربراہوں کو معطل کرتے ہیں ،کبھی قصور جارہے ہیں ، کبھی شیخوپورہ کا دورہ کررہے ہیں ، آٹھ سال کی اس "محنتِ شاقہ" کا نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے علاقوں کو تو چھوڑ ہی دیجئے،خؤد لاہور اور نواحِ لاہور میں پے در پے ایسے واقعات ہورہے ہیں  جو عبرتناک اورافسوسناک ہیں ،اور مضحکہ خیز  ہونے کے علاوہ سبق آموز بھی۔

اس صورتحال کی سب سے بڑی وجہ  اس جدید دور میں  شہباز شریف صاحب کا طرزِ  حکومت ہے، جو قدیم زمانوں  میں تو کامیاب  ہوسکتا تھا مگر  اب میڈیا کے  زمانے میں یہ شخصی  طرزِ حکومت  ناکامی اور شرمندگی  کے علاوہ کچھ  نہیں پیدا کرسکتا ۔ دو ادارے  اسی لیے  جمہوریت  کا جزو  لاینفک  ہیں ۔ ایک منتخب اسمبلی اور دوسرے کابینہ ۔۔۔یہ دونوں ادارے مل کر  ،بحث کرتے ،سوچ سمجھ کر  ،پالیسیاں بناتے ہیں اور  نافذ کرتے ہیں ۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے ان دونوں اداروں کو مکمل طور پر غیر فعال کرکے رکھ دیا ۔صوبائی اسمبلی میں وہ شاید صرف اس دن آتے ہیں  جب بجٹ پیش  ہوتا ہے۔ کابینہ ہے بھی او رنہیں بھی۔وہ کابینہ کو خاطر میں نیہں لاتے۔رانا ثنا اللہ  صاحب کے علاوہ کسی صوبائی وزیر کا نام  شاید ہی سنا ہوگا،وزیر اعلیٰ جب قصور کے ہسپتال میں دو بار گئے،اور شیخؤپورہ میں  بھی، تو ان کے ہمراہ  وزیر صحت تھے نہ سیکرٹری صحت،عملی طور پر وہ ہسپتالوں کے سربراہوں کے ساتھ  براہ راست پیش آرہے تھے۔ اس کے بجائے اگر وہ متعلقہ وزیر کو وارننگ دیتے کہ  اگر کسی ہسپتال میں خرابی نظر آئی تو قلمدان تم سے لے لیا جائے گا ، اور کابینہ  سے آؤٹ ہوجاؤ گے تو  وزیر  چوبیس  گھنٹے کام  کرنے پر مجبور ہوگا ، لیکن کابینہ  کے اجلاسوں  میں تو وزراء  کی کارکردگی  کا جائزہ  وزیراعلیٰ  کی کتاب  میں سرے ہی سے مفقود ہے۔

صوبے کی ترجیحات  وہ خود طے  کرتے ہیں ، اس میں اسمبلی  اور کابینہ  کی اجتماعی  عقل و دانش  سے فائدہ  اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،۔ ان کا سارا زور  ان "ترقیاتی "منصوبوں  پر ہے  جو بنیادی  طور پر انفراسٹرکچر  سے  تعلق رکھتے ہیں ، جیسے پل،انڈر پاس، شاہراہیں ، یا میٹرو  اور اورنج  ٹرین  ،

انہیں اس حقیقت کا قطعاً ادراک نہیں کہ  سوشل سیکٹرز ترقی کے لیے ریڑھ  کی ہڈی  کی حیثیت رکھتے ہیں ۔   ۔اس ضمن  میں کوئی پالیسی  ہی نہ بن سکی۔ 

 وزیراعلیٰ  کی شخصی  اور آمرانہ  طرزِ حکومت  کا ایک منفی  نتیجہ یہ نکلا  کہ بیورو  کریسی میں  جو عناصر  منہ پر سچی بات  کہہ سکتے  تھے،وہ پس منظر  میں چلے  گئے۔ وزیر اعلیٰ  کی پسند ناپسند  شدید ہے۔ انہیں صرف  ان افسروں  کی موجودگی راس  آتی ہے جو گونگے بہرے  ہوکر آمنا صدقنا  کہتے ہوں ،درست  مشورہ  دینے والے کو  برداشت ہی نہیں کرتے ۔ بد انتظامی کی ایک اور مثال دیکھیے۔



صحت کے ایک سےزیادہ سیکرٹری ہیں ،مگر کارکردگی اتنی شرمناک ہے کہ ایک اسامی پر دو دو تعیناتیاں ہو رہی ہیں ، راولپنڈی میں مصر یال روڈ کے ہسپتال میں دو لیڈی ڈاکٹر  تقرری نامہ لے کر پہنچ گئیں ، ایک کی شنوائی ہوئی نہ دوسری کی ۔

یہی نہیں معلوم کہ  کون سے سیکرٹری  کا محکمہ  اس بدانتظامی  اور نااہلی کا ذمہ دار ہے ،اگر کابینہ  کے اجلاس  باقاعدگی  سے ہوں  اور ان اجلاسوں  میں وزیروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کون وزیر ہے جو  رات  دن  محنت کرکے حالات  کو درست  نہیں کرے گا ، مگر جب کوئی  فورم ہی نہیں  جس پر وزیر  صاحب کو ایکسپوز یا شرمندہ  کیا جائے تو  وزیر کو کیا پڑی ہے، کہ محنت کرے۔

یوں بھی وزیر اعلیٰ ہر  محکمے کو براہ راست  ڈیل کرنے کے عادی ہوں تو  پھر ذمہ داری  بھی وزیر  کی نہیں  ،وزیر اعلیٰ  کی اپنی بنتی ہے۔



پنجاب کے وزیر  اعلیٰ کی  مثال محمد  تغلق  کی سی ہے۔ جو اپنی ذاتی پسند کے فیصلے  کرتا تھا ۔اور  ناکامی  سے دوچار ہوتا تھا ۔

ترکی وزیر اعلیٰ کے اعصاب پر سوار  ہے۔ دودن پہلے کی خبر ہے  کہ ترکی کی کمپنیوں کو  مہنگے ٹھیکے دیے گئے ہیں ۔

پھر پنجاب  حکومت  میں ایک اور بیماری شروع  ہوئی۔ ہر کام کے لیے  کمپنی  بنائی  گئی۔

غالباً یہ بھی ترکی  کی نقالی میں کیا گیا ہے۔

صاف پانی  کمپنی ،پارکنگ  کمپنی، ماڈل بازار۔ ہر شہر میں ویسٹ مینجمنٹ کمپنی، محکموں کی نسبت  ان کمپنیوں  میں افرادی  قوت زیادہ تھی۔ منظورِ نظر افراد بھرتی ہوئے، تنخواہیں لاکھوں میں ، پے در پے غیر ملکی دورے، لاہور پارکنگ کمپپنی نے ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیا ، جو بلیک لسٹ تھی۔

ماہانہ پانچ کروڑ کا نقصان ہوا، صاف پانی کمپنی  مشکل سے  ہدف چوتھائی  حصہ ہی حاصل کرپائی۔



 56 کمپنیوں  میں سے 48 ایسی ہیں  جن کا ریکارڈ غائب ہے، اس  کے بعد اب معطلی کا پرانا کھیل کھیلا گیا ، کچھ  کمپنیوں  کے سربراہوں  کو معطل کردیا گیا ۔ اگر آٹھ سالوں کا حساب  لگایا جائے کہ وزیراعلیٰ  نے کتنے افسروں کو معطل کیا ہے تو  یہ تعداد حیران کن  حد تک کثیر ہوگی۔

 معطلی کے دوران تنخواہ پوری ملتی ہے۔ تفتیش انکوائری وغیرہ ہوتی ہے، جس کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ قصور وار ہے تو سزا ملتی ہے، بے قصور ہے تو بری ہوجاتا ہے، اور معطلی  ختم ہوجاتی ہے، مگر یہاں کسی معطلی کا فائنل نتیجہ شاید ہی کبھی منظرِ عام پر آیا ہو۔

صدر مملکت  نے بھی کہا  ہے کہ "چار  سال میں نہ ڈیم بنے  نہ ہسپتال اور یہ عوام  پوچھیں کہ  14 ہزار  آٹھ سو ارب  کا قرضہ کہاں گیا، "سندھ اور بلوچستان  میں بھی حالات  خراب ہیں مگر فرق  یہ ہے کہ س پنجاب کے  وزیراعلیٰ  کے متعلق یہ تاثر بھرپور دیا گیا کہ حد درجہ فعال ہیں ۔ رات دن کام کرتے ہیں ، عجیب بات یہ ہے کہ تعریف پنجاب حکومت کی بہت کم اور وزیر اعلیٰ کی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ طرزِ حکومت شخصی ہے۔ جمہوری یا اجتماعی نہیں ۔

وزیر اعلیٰ کی نیت پر کسی کو شبہ نہیں کرنا چاہیے، انہوں نے سب کچھ یقیناً نیک نیتی سے کیا ہوگا ، تاہم انہیں یہ باور کروانے کی اشد ضرورت ہے  کہ کابینہ  جیسے مفید  اور لازمی  ادارے کو  ساتھ لے کر چلیں ، صوبائی  اسمبلی کو  جس طرح  عملی طور پر وہ حقیر سمجھے ہوئے ہیں ، وہ ہرگز درست رویہ نہیں ہے۔ اسمبلی کا اپنا استحقاق ہے،جسے وہ مجروح کرتے رہے ہیں ،اور کررہے ہیں ، وہ اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہیں ، ان کی عدم موجودگی  میں ان کے  وزرا اسمبلی کو کس طرح اہمیت  دے سکتے ہیں ،

وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ اسمبلی کے سامنے اعتراف  کریں کہ  ان کی پالیسیاں  ،خاص طور پر صحت اور تعلیم  کے میدانوںمیں  اور بہت سی کمپنیاں بنانے میں  ،ناکام ثابت ہوئی ہیں ، نئی پالیسیاں اسمبلی اور کابینہ کی مشاورت سے بننی چاہییں ۔   


Friday, October 20, 2017

‫نیک نیتی سے پیش کی جانے والی ایک تجویز!‬

‫ ‬
‎‫رضا شاہ ماژندران کے ایک ضلع "سوادِ کوہ"میں پیدا ہوا ،ماں جارجیا کی مسلمان مہاجر تھی، باپ کا نام عباس علی خآن تھا جو فوج میں میجر تھا ۔ اس کا انتقال ہوا تو رضا شاہ مشکل سے آٹھ ماہ کا تھا، بیوہ ماں اپنے بھائی کے گھر تہران منتقل ہوگئی جلد ہی اس نے دوسری شادی کرلی اور بچے کو اس کے ماموں کے حوالے کردیا ۔ماموں نے بچے کو ایک دوست کے ہاں بھیج دیا جو فوج میں افسر تھا ۔ رضا شاہ سولہ سال کا ہوا تو فوج میں بھرتی ہوگیا۔‬
‫ ‬
‎‫ ایران پر اس وقت خاندان قاچار کی بادشاہت تھی، رضا خان نے مشین گن چلانے کی خصوصی مہارت حاصل کرلی۔ پہلے کپتان اور پھر کرنل ہوا۔پھر بریگیڈئر بنا دیا گیا۔قسمت رضا خان کا ساتھ دے رہی تھی ۔1917 کا بالشویک انقلاب آیا تو روسیوں کی نظر تہران پر تھی، ادھر برطانیہ کو فکر تھی کہ روسی جنوب کی طرف آئے تو ہندوستان خطرے میں گِھر جائے گا ۔رضا خا ن نے برطانیہ کی شہہ پر چار ہزار فوجیوں کے ساتھ تہران پر قبضہ کرلیا ، نئی حکومت بنی تو رضا خآن کمانڈر ان چیف بھی بنا اور وزیر جنگ بھی بنا۔برطانوی اسے اسلحہ دے رہے تھے،تہران سے برطانوی سفارت خانہ اس کے بارے میں مثبت رپوٹیں بھیج رہا تھا ۔‬
‎‫1923 میں وہ وزیر اعظم بن گیا ،اور خاندان قاچار کا آخری چشم و چراغ احمد شاہ یورپ بھاگ گیا ۔س جہا ں سے وہ کبھی واپس نہ‬
‎‫آسکا۔"مجلس"(پارلیمنٹ )میں رضا خان کی مٹھی میں تھی۔دسمبر 1925 میں مجلس نے اسے ایران کا بادشاہ قرار دے دیا ۔یوں پہلوی خاندان کی بنیاد پڑی۔اس کے بیٹے محمد رضا نے1941 میں باپ کی جگہ بادشاہت سنبھالی۔اور 1979 تک بادشاہت کرتا رہا ۔باپ بیٹے دونوں کی بادشاہت کا عرصہ تقریباً 54 برس بنتا ہے ۔‬
‫ ‬
‎‫غور کیجئے یہ نصف صدی کا عرصہ ایران کے استحکام کا عرصہ تھا ، دونوں بارشاہوں نے ملک کے امن و امان کو مضبوط کیا ۔اس کے مقابلے میں ہم جو ایران کے پڑوسی ہیں ،ستر سال سے عدم استحکام کا شکار ہیں ۔چار تو ہم نے عسکری آمر بھگتائے،جمہوری حکومت جب بھی بنتی ہے تو مخالف سیاسی جماعتیں اس کے درپے ہوجاتی ہیں، بے نظیر کی ہر حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کیا گیا ،یوسف رضا گیلانی کو عدلیہ نے معزول کیا ۔ تو مسلم لیگ نون نے اطمینان کا اظہار کیا ۔سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف آج بھی عدالتوں میں حاضریاں دے رہے ہیں ،میاں محمد نواز شریف جب بھی آئے ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں ۔پہلے جنرل پرویز مشرف نے انہیں اقتدار سے ہٹایا ۔اب کے عدلیہ سے نااہل قرار پاکر وزارتِ اعظمیٰ سے الگ ہوگئے ہیں ۔‬
‫ ‬
‎‫دوسرا رخ معاملے کا دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وفاق میں ،بالخصوص پنجاب میں ادارے ،بیوروکریسی اور پولیس شریف خاندان کے وفادار ہیں ۔کسی دوسری جماعت کے لیے پنجاب سے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔چنانچہ تصویر جو بنتی ہے یہ ہے کہ پنجاب کا صوبہ مسلم لیگ ن کے پاس ہی رہے گا ۔حکومت وہی بنائے گی،اور اس کے بعد پھر وہی میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوجائے گا۔ یعنی حکومت ختم کرنے کے لیے تحریکیں ،دھرنے،الزامات ،مقدمے عدالتیں ،نیب،پیشیاں ، اور ہر پیشی کے بعد فریقین کی دھواں دھار تقریریں، یوں ملک عدم استحکام کا ہی شکار رہے گا۔‬
‫ ‬
‎‫اس صورتحال سے جو جنگل کی طرح بے سمت اور خار دار ہے ،نکلنے کا راستہ کیا ہے،اگر ہم جذبات کو ایک طرف رکھ دیں تو اس مصیبت سے نکلنے کی صورت یہ ہے کہ ہم ایک کڑوا گھونٹ بھر یں ،اور 1925 کی ایرانی مجلس کی طرح میاں نواز شریف کو پاکستان کا شہنشاہ ڈکلیئر کردیں ،جس طرح 1925 کی ایرانی مجلس رضا شاہ کے قبضے میں تھی۔بالکل اسی طرح آج کی پاکستانی قومی اسمبلی بھی مسلم لیگ نون کی مٹھی میں ہے،اس کا ثبوت اس ترمیم کی صورت میں ہم دیکھ چکے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں میاں صاحب نااہل ہونے کے باوجود پارٹی کے صدر بننے میں کامیاب ہوگئے۔اسمبلی میں ان کی اکثریت ہے،اتحادی ان کی پشت پر کھڑے ہیں ، رہی سہی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملانا چندں مشکل نہیں ، ابھی کل کی ہی بات ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک معروف مذہبی جماعت نے مسلم لیگ نون کا ساتھ دیا ۔جس دن ترمیم کے لیے ووٹنگ تھی۔اس دن بھی مذہبی رہنما دوسرے کاموں میں مصروف تھے۔یوں ایک ووٹ سے حکومت جیت گئی،اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلم لیگ نون جو چاہے ،اسمبلی سے منظور کروا سکتی ہے۔چنانچہ ملک کو استحکام بخشنے کے لیے میاں صاحب کو شہنشاہ قرار دیا جائے ،تاکہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کا ایجنڈا آگے بڑھا سکیں ،اگر اگلے پانچ برس میں وہ پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیں اور سی پیک بھی منزل مقصود کی طرف فاصلہ طے کرلے تو ملک میں واقعی تبدیلی رونما ہوجائے گی ۔میاں صاحب کو قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ سوشل سیکٹرز یعنی تعلیم و صحت کی طرف بھی توجہ دیں ، اور زراعت کی ترقی کے لیے بھی انقلابی قدم اٹھائیں ۔شہنشاہ بننے کے بعد میں یقیناً ان میں مثبت تندیلیاں رو نما ہوں گی اور وہ اپنے اندر تعمیری سوچ پیدا کرلیں گے۔‬
‫ ‬
‎‫مستقبل کے خلفشار سے بچنے کے لیے ان کی دختر نیک اختر مریم صفدر کو ان کا ولی عہد مقرر کیا جائے اس کے لیے آئین میں مناسب ترمیم کی جائے ۔اب رہا صوبوں کا معاملہ تو مزید استحکام کی خاطر انتظامی ڈھانچہ وہاں بھی تبدیل کرنا ہوگا ،ہم سب اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ الیکشن ہونے کی صورت میں بھی میاں شہباز شریف ہی پنجاب کے والی بنیں گے ،چنانچہ صوبے کے گورنر کو "شاہ" کا لقب دے کر موروثی کردیا جائے ۔حمزہ شہباز کو ولی عہد مقرر کردیا جائے۔ رہا وزیر اعلیٰ کا عہدہ تو اس کا تقرر صوبے کے شاہ کی صوابدید ہو کہ جسے مناسب سمجھے ،مقرر کرے ۔ سندھ میں زرداری صاحب کو صوبے کا شاہ مقرر کیا جائے ۔ انہیں معلوم ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں ان کی پارٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس لیے وہ یہ منصب قبول کرلیں گے/۔ اب بھی عملی طور پر وہ سندھ کے شاہ ہی ہیں ۔ بلاول زرداری ان کے ولی عہد ہیں ، سیاسی ہم آہینگی پیدا کرنے کے لیے وہ لازماً وزیر اعلیٰ ایم کیو ایم سے لیں گے ،ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے کچھ اختیارات شاہ کو منتقل کردیے جائیں ،دوسرے صوبے میں معاملات طے کرنے کے لیے دیکھنا ہوگا کہ وہاں میاں صاحب کے اتحادی برسرِ اقتدار ہوں تاکہ مرکز اور صوبوں کے درمیان چپقلش کی لعنت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔بلوچستان میں شاہ ہمیشہ اچکزئی خاندان کا ہو۔ اس طرح قبائلی نظام بھی جاری و ساری رہے گا ،اور کچھ بدبخت ،کوتاہ نظر ۔جو قبائلی نظام کو فرسودگی کی علامت سمجھتے ہیں ۔اپنی اوقات میں رہیں گے۔‬
‫ ‬
‎‫رہا خیبر پختونخوا ،تو وہاں میاں صاحب کے دو اتحادی ہیں،اور دونوں مضبوط ہیں ،اسفند ولی یار اور مولانا فضل الرحمٰن ،مولانا دیکھنے میں ایک بارعب شخصیت لگتے ہیں ،قدرت نے سیاسی جوڑ توڑ کا ایک خاص ملکہ انہیں فیاض سے عطا کیا ہے۔ انہیں "کے پی کے "کا "شاہ"مقرر کیا جائے۔یہ منصب ان کے خاندان میں موروثی ہو ،اسے آئین کی پشتبانی حاصل ہوتاکہ کوئی طالع آزما خلل اندازی نہ کرسکے ۔ صوبے کا استحکام اور ترقی کی خاطر یہ اصول طے کیا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ ہمیشہ باچا خان کے خاندان سے ہو۔‬
‫ ‬
‎‫انہی خطوط پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے صوبوں میں آئینی اقدامات اٹھائے جائیں ۔اس وقت ان دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شریف خاندان کے وفادار ہیں ۔ان صوبوں کی شاہی ،اپنےخاندانوں میں موروثی قرار دی جاسکتی ہے۔ یاجس طرح شہنشاہ مناسب سمجھیں ۔‬
‫ ‬
‎‫ رہ گیا مسئلہ کباب میں ہڈی بن کر مزہ کرکرا کرنے والے عمران خآن کا ،جو شریف خاندان کے دوامی اقتدار کا دشمن ہے۔ تو حالات جس نہج پر جارہے ہیں، اس سے تو قوی امید ہے کہ وہ نااہل قرار دے دیا جائے گا ،اور گرفتار بھی کرلیا جائے گا ۔امید ہے کہ اس کے بعد اس کی پارٹی شدید خلفشار کا نشانہ بنے گی۔اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو ۔کے مطابق پارٹی کے عقلمند اور دوراندیش عناصر خؤد ہی شاہی خاندانوں سے وانستہ ہوجائیں گے۔‬
‫ ‬
‎‫برصغیر کے مسلمان خاندانی بادشاہتوں کے یوں بھی عادی ہیں ،خلجی خاندان تغلق خاندان،لودھی خاندان، خاندانِ غلاماں، مغلیہ سلطنت کا مالک تیموری خاندان ، ماضی میں ان خاندانوں نے ملک و قوم کی بے پایاں خدمت کی،آج اگر نواز شریف خاندان اور باچا خان خآندان ہم ہر حکومت کرتا ہے تو تاریخی تسلسل بھی جاری رہے گا ۔ سیاسی استحکام بھی نصیب ہوگا ،‬
‎‫اور میا ں صاحب کے ذہن میں ترقی کا جو تصور ہے وہ بھی عملی جامہ پہن سکے گا۔‬
‫ ‬
‎‫ آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس تجویز کی تہہ میں کالم نگار کا کوئی ذاتی خاندانی یا سیاسی مفاد ہرگز پوشیدہ نہیں ، مقصد صرف اور صرف ملک اور قوم کی ترقی اور استحکام ہے۔ ‬

Wednesday, October 18, 2017

خوراک کا عالمی دن


یہ واشنگٹن کا ایک ریستوران تھا گاہک آجارہے تھے -کچھ کھانے میں مصروف تھے،ایک کونے میں پاکستان سے آئے ہوئے اعلیٰ سطح کے وفد کو عشائیہ دیا جارہا تھا ،عشائیہ کیا تھا؟پہلے سب کو ایک ایک پلیٹ میں سلاد پیش کیا گیا ،اس کے بعد مچھلی،اصل کھانا یہی تھا ، آخر می میٹھا تھا ، ہر مہمان کو اختیار تھا کہ چاکلیٹ لے یا پنیر کا کیک،
آپ کا کیا خیا ل ہے،واشنگٹن سے وفد آئے تو پاکستان میں اس کا عشائیہ اسی طرح کا ہوگا؟
ہم میں سے اکثر کو معلوم ہے کہ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (ایف اے وا)اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے، جو عالمی خوراک سے متعلق ہے۔ 1979میں ایف اے او نے فیصلہ کیا کہ سولہ اکتوبر کا دن عالمی یومِ خوراک کے طور پر منایا جائے گا ۔ہر سال اندازہ لگایا جاتا ہے کہ زیادہ ضرورت کس پہلو کی ہے، اس خاص پہلو کو سامنے رکھ کر اس سال کا مرکزی خیال یا موضوع چنا جاتا ہے۔پھر اس کی تشہیر کی جاتی ہے ،اور اس سال کا عالمی یوم خوراک اسی حوالے سے منایا جاتا ہے،
کچھ برسوں کے موضوعات یا مرکزی خیال دیکھیے۔۔۔
2001،غربت کم کرنے کے لیے بھوک کم کیجئے!
2002،پانی،خوراک کا ذریعہ پانی ہے!
2003،بھوک کا مقابلہ عالمی اتحاد سے!
2005،ذراعت کی ترقی کے لیے بین الثقافتی مکالمہ!
2007،خؤراک ہر شخص کا بنیادی حق ہے!
2016،آب و ہوا بدل رہی ہے،ذراعت بھی بدلو!
2017،ہجرت کا مستقبل بدلو،دیہات کو ترقی دو تاکہ لوگ شہر کا رخ نہ کریں ۔
پوری دنیا میں خوراک کا ضیاع عام ہے،مگر جس طرح خوراک مسلم ملکوں میں ضائع کی جاتی ہے،اسکی مثال غیر مسلم ملکوں میں شایدہی ملے۔
مسلمان ملکوں کے بادشاہ بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں تو جہاز سےاترنے کے لیے سونے کی سیڑھیاں ساتھ ہوتی ہیں،پندرہ پندرہ پھیروں میں جہاز سامان پہنچاتے ہیں ،پورے پورے ساحل ،پورے پورے ہوٹل بک کرائے جاتے ہیں ،خوراک کا انتظام بھی اسی سے قیاس کیجئے!۔
یہ لوگ کتنا کھانا پکواتے ہیں ،تصور سے ہی ماورا ہے،جدہ میں ایک بار مشاعرہ میں شرکت کی،عمرہ کے بعد مدینہ منورہ لے جائے گئے،چائے پینے کے لیے ایک ہوٹل میں داخل ہوئے،ایک میز کے گرد فرش پر چاول ہی چاول تھے،بتایا گیا کہ ابھی کچھ مقامی حضرات کھانا تناول فرما کر نکلے ہیں ،ایک اور ملک کے بارے میں ایک صاحب نے آنکھوں دیکھا حال بتایا کہ وہاں روٹیوں کی ایک قسم اتنی پتلی ہے کہ جیسے کاغذ، اسے وہا ں کے لوگ ہاتھ پونچھنے کے لیے بھی استعمال کرجاتے ہیں ،اور ہاتھ پونچھ کر ٹشو پیپر کی طرح پھینک بھی دیتے ہیں ،
فارسی میں کہا جاتا ہے،خورد ن برائے زیستن است ، نہ زیستن برائے خوردن،
خؤراک کا مقصد زندہ رہنا ہے، نہ یہ کہ زندگی کا مقصد بس کھاتے رہنا ہے ۔
کون بھول سکتا ہےکہ عمران کے دھرنے کے وقت جب نواز شریف گہرے پانیوں میں تھے تو مدد کے لیے آواز لگائی،یا آصف زرداری !
چنانچہ آصف زرداری پہنچے،74 اقسا م کے کھانے ان کئ دعوت میں حاضر کیے گئے۔
جس قوم کے رہنماؤں کی ذہنی سطح یہ ہوگی،اس قوم کی پستی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ،کراچی میں دھماکہ ہوا ،کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ۔اس دوپہر کو میاں نواز شریف ظہرانے میں مدعو تھے، (جہاں تک یاد پڑتا ہے یہ ظہرانہ کراچی چیمبر آف کامرس کی طرف سے تھا )اس موقع پر میا ں صاحب نے ظہرانہ کمزور ہونے کی شکایت کی!
رمضان کے مہینے میں مسلم دنیا میں اربوں کھربوں ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے،افطار کا اہتمام اس طرح کیا جاتا ہے،جیسے یہ زندگی کا آخری افطار ہے، کسی کی شرافت اور انسانیت کا اندازہ لگانا ہو تو شادی کی دعوت پر اس کا رویہ دیکھیے،بڑے بڑے شرفا کو نشست ایسی جگہ سنبھالتے دیکھا ہے جہاں سے کھانا قریب پڑے، گویا باقاعدہ مورچہ بندی کی جاتی ہے ، پھر کھانے کے اعلان پر جس طرح میمنہ اور میسرہ آگے بڑھتے ہیں ،جس حرص کے ساتھ پلیٹیں بھری جاتی ہیں ، کہنیاں ماری جاتی ہیں ،کھانا جس وحشت اور جنون کے ساتھ کھایا جاتا ہے،یہ سب کچھ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ صدیوں کی بھوک ہے،نہ جانے پسلیوں سے او رآنکھوں سے کیسے نکلے گی،
ہم نے زندگی کا مقصد کھانا پینا قرار دیا ۔
دوسرو ں نے عمل سے ثابت کیا کہ نہیں ،کھانا پینا صرف اتنا ہی کافی ہے کہ انسان زندہ رہے، ریستورانوں میں گوشت جس مقدار میں کھایا جاتا ہے اس سے بیماریاں نہیں بڑھیں گی تو کیا ہوگا ؟۔۔۔پوچھیے سبزی میں کیا ہے؟۔۔۔ہر بار ،ہر جگہ ایک ہی جواب ملے گا"مکس سبزی"۔(اس میں آلو مٹر ہوتے ہیں )۔دال کا پوچھیے تو ماش کی دال ملے گی۔کسی ریستوران میں کریلے ،کدو،ٹینڈے،بھنڈی توری،شلجم،کچالو یا دوسری سبزیاں نہیں ملیں گی۔
اندازہ لگائیے ذوق کی اڑان کا !
تکے بوٹی،چرغہ،کڑاہی،بالٹی،ٹکاٹک،نہاری،پائے،ہریسہ،ستم بالائے ستم یہ کہ پیزا جو اٹلی سے چلا تھا ،اور نہائیت معصوم تھا ۔ یہاں پہنچ کر گوشت کی لپیٹ میں آگیا۔پورے پورے تکے پیزے کے اندر سے نکلتے ہیں ،اور تو اور نوڈلز میں گوشت پڑنا شروع ہوگیا،چینیوں نے نوڈلز ایجاد کیے،صدیوں کھائے،کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ان میں گوشت پڑے گا ،۔ ہماری ایک رشتے کی بھابھی نے گاؤں سے آئے ہوئے سونبے جیسے سرسوں کے ساگ میں مرغی کا گوشت ڈال کر نیا ریکارڈ قائم کیا ۔سفاکی اور بربریت کا اندازہ لگائیے کہ اچار تک میں گوشت پڑنے لگا ہے۔
آسمان کو چھوتی اس طلب کو پورا کرنے کے لیے گدھے،کتے اور کوے بروئے کار لائے جارہے ہیں ،دارالحکومت کے ضلعی ہیلتھ آفیسر نے گزشتہ ہفتے سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ چوٹی کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں مردہ جانوروں کا گوشت پکایا اور کھلایا جارہا ہے ،قصاب کی دکان پر آؤ بھگت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو پورا پورا بکرا خریدتے ہیں ،ایک دو کلو والو ں کے ساتھ قصاب وہی سلوک کرتا ہے ،جو انگریز افسر مقامی نوکروں کے ساتھ کرتے تھے۔
اس بے انتہا گوشت خؤری کا نتیجہ یہ ہے کہ جسم پر چربی کی تہیں چڑھ گئ ہیں ۔مگر دماغ لاغر ہوگئے ہیں ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہورہی ہیں ۔ریستورانوں کی تعداد میں لامتناہی اضافہ ہورہا ہے ،کتابوں کی دکانیں ختم ہورہی ہیں ،لائبریریوں کا وجود عنقا ہورہا ہے۔
اب دوسری انتہا دیکھیے ،پندرہ ہزار ماہانہ کمانے والے ڈرائیور یا باورچی یا گھریلو ملازم کے گھر میں گوشت کتنی بار پک سکتا ہے ؟۔۔۔۔ٹی وی پر ایک عورت کا انٹر ویو سننے کا اتفاق ہوا ،اس کا ایک ہی بیٹا کماؤ تھا ،چند برس پہلے کی بات ہے تنخواہ اس کی دس ہزار روپے تھی،عورت کا کہنا تھا کہ صرف عید تہوار کے دن ہی گھر میں بڑا گوشت پکتا ہے ،عید الاضحیٰ آتی ہے تو ایسے مفلوک الحال گھروں میں کچھ دن دستر خوان پر گوشت نظر آتا ہے،سینکڑوں ہزاروں گاؤں ایسے ہیں ،جہاں قصاب کی دکان نہیں ہے ،بیمار گائے یا بھینس ذبح کرنی پڑے تو گوشت میسر آتا ہے،مرغیاں ،انڈے شہروں سے آنے والے بیوپاری لے جاتے ہیں ،ایک زمانہ تھا کہ کسان کی جیب میں چند سکے ہوتے تھے ،اس کے بعد بجلی آئی پھر موبائل فون آگیا،اب گیس بھی آرہی ہے،یہ سب وہ سہولتیں ہیں جو کسان کی کیش کو کھا جاتی ہیں ،گوشت کیسے لے سکتا ہے،جو کسر رہ جاتی ہے وہ بچوں کی شادیوں پر پوری ہوجاتی ہے۔
کھانوں کا کلچر عہدِ زوال سے شروع ہوا،مغلوں کو زوال آیا تو سلطنت کا کاروبار انگریزوں کے ہاتھ میں چلا گیا،دہلی تھا ،یا لکھنو یا حیدرآباد،ہر دربار میں انگریز ریزیڈنٹ تعینات تھا ،جو اصل حکمران تھا ،ظلِ الٰہی کے پاس فراغت ہی فراغت تھی۔چنانچہ توجہ دستر خوان پر مرکوز ہوگئی۔حد یہ ہے کہ ان بادشاہوں اور نوابوں کے درمیان چپقلش کی وجہ باورچی بنتے تھے ۔ماش کی دال پکانے والا باورچی ،نظام سے ہتھیانے کے لیے اودھ کے بادشاہ کو کئی پاپڑ بیلنے پڑے ،نواب واحد علی شاہ کے خاصےمیں جو پلاؤ ہوتا تھا ،بتیس سیر گوشت کی یخنی سے تیار ہوتا تھا ۔ناشتے میں ہر روز دو سیر دیسی گھی،(اس وقت صرف دیسی گھی ہوتا تھا)خرچ ہوتا تھا،دستر خوان پر نئی نئی اختراعات برؤئے کار لائی جاتی تھیں ،ایک نواب صاحب نے اپنے حریف کو کھانے پر بلایا ،مہمان نے کوفتے کھائے تو وہ مٹھائی نکلی،کباب چکھا تو وہ مٹھائی تھی،یہ صناعی اس لیے دکھائی گئی کہ حریف کو زچ کیا جاسکے،عروج کے زمانے میں شیر شاہ سوری اور بابر، تیمور کو کھانا کھانے کا وقت ہی مشکل سے ملتا تھا ،کہتے ہیں بہت سی جنگیں مسلمانوں نے روزہ رکھ کر لڑیں ،
کچھ سر پھرے ہوں جو اس ضمن میں تحریک چلائیں ،مہمان ایک ہو یا بہت سوں کی ضیافت ہو،ایک ڈش ہو،ایک سالن،روٹی ،زیادہ سے زیادہ ساتھ چاول اور سلاد،
شادیوں پر ون ڈش کی کوشش کی گئی مگر مہم کامیاب نہ ہوئی ،احساس کمتری ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں بھرا ہے،عزت اور بڑائ پکوانوں کی تعداد پر منحصر ہے!


Tuesday, October 17, 2017

ککی اور میں


جنوری 2013 کی ایک ٹھٹھرتی شام تھی،جب ڈین شمالی فرانس سے جنوبی فرانس کے ساحلی شہر گراسے پہنچی،اسکے ساتھ اس کا بہترین دوست دس ماہ کا بلا ککی تھا ۔
ڈین شاعرہ تھی اور آرٹسٹ ،جہاں کام مل جاتا وہاں چلی جاتی ۔مستقل قیام نارمنڈی میں تھا جو فرانس کا شمالی علاقہ ہے۔اگر نقشہ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اسے جنوب مشرق سے اور نارمنڈی شمال مغرب میں یعنی دونوں مقامات کے درمیان جتنا زیادہ سے زیادہ فاصلہ فرانس کے طول و عرض کے حساب سے ممکن ہے۔اتنا ضرور ہے۔
گر اسے میں ڈین نے تین ماہ کے لیے ہوٹل میں کمرہ لے لیا ، ککی کا زیادہ وقت کمرے ہی میں مالکن کی معیت میں گزرتا تھا۔بہت دنوں بعد ایک دن ڈین کو خیال آیا کہ ہر وقت کمرے میں بند رہ رہ کر ککی بور ہو رہا ہوگا چنانچہ اس نے اسے باہر نکالا اور باہر چھوٹے سے صحن میں چھوڑ دیا ۔ بدقسمتی انتظار کررہی تھی،ککی وہاں سے گم ہوگیا ،یہ مارچ کا ساتواں دن تھا ۔
ڈین پر قیامت گزر گئی،روتی اور ککی کو ڈھونڈتی تھی،مقامیڈ اخبارات میں اشتہارات دیے ، گلی گلی پوسٹر لگائے۔ بینر نصب کرائے ۔ ہوٹل والوں نے بھی پوری ہمدردی کا اظہار کیا ، مگر ککی نے نہ ملنا تھا،نہ ملا ۔اب ڈین کا قیام اختتام پذیر ہورہا تھا۔ اس نے رختِ سفر باندھا او ر شکستہ دل اور بوجھل قدموں سے واپس شمالی فرانس کی طرف روانہ ہوئی۔دکھ بہت تھا۔ جب سوچتی کہ جانے دس ماہ کا ککی کہاں ہوگا ،کھانا ملا ہوگا کہ نہیں ،تو اس کا دل جیسے پگھل جاتا ، پھر اس نے دپ پر پتھر رکھ لیا ۔ نارمنڈی پہنچ کر دنیا کے دھندوں میں مصروف ہوگئی۔کوئی بلا یا بلی نظر آتی تو دل اداس ہوجاتا۔
ڈیڑھ سال گزر گیا ایک دن حیوانات کے ایک ڈاکٹر کی طرف سے اسے فون موصول ہوا ،ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ایک بلا علاج کے لیے لایا گیا ہے،اس پرمائیکرو چپ لگی ہے،جو آپ کے نام کی طرف رہنمائی کرتی ہے،ڈین بھاگم بھاگ پہنچی،اسے یقین نہ آتا ،مگر سامنے ککی تھا ۔ ازحد لاغر حالت میں بال جھڑ چکے تھے ،نحیف اتنا کہ ہڈیاں نظر آرہی تھیں ،کھڑا مشکل سے ہوپاتا ،گر کہا جائے کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا تو غلط نہ ہوگا،حیوانات کے ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک عورت علاج کے لیے اسے لائی،ڈاکٹر نے مائکرو چپ دیکھی تو جیساا س کا اخلاقی اور قانونی فریضہ تھا ،اس نے اصل مالکن کو بلا لیا۔جو عورت ڈاکٹر کے پاس لائی تھی،وہ دینا نہیں چاہتی تھی،ڈین نے پولیس سے مدد مانگی،پولیس نے اس عورت سے بات کی اور سمجھایا کہ اصل مالکن کا ملکیت کا دعویٰ مائکرو چپ سے تصدیق شدہ ہوچکا ہے ۔ڈین کو بلا واپس مل گیا ۔
آپ کا کیا خیال ہے ککی نے گراسے سے نارمنڈی تک کتنا فاصلہ طے کیا ہوگا؟۔۔سو دو سو میل؟۔۔نہیں ۔۔۔۔سات سو میل!پورے سات سو میل،کلو میٹر جس کے ایک ہزار ایک سو چھبیس بنتے ہیں ،ککی نے یہ فاصلہ ڈیڑھ سال میں طے کیا ،وہ چلتا رہا، اس جبلت کی رہنمائی میں ،جو قدرت نے اس کے اندر رکھی تھی،چلتا رہا،اس مخلوق کے ماہرین کا کہنا تھا کہ وہ راتوں کو سفر کرتا اور دن کو کہیں چھپ کر سو جاتا،اٹھارہ ماہ بعد جب وہ اپنے شہر پہنچا، اور اپنی مالکن کے گھر کی طرف جارہا تھا ،تو اس کی حالت نا گفتہ بہ تھی ،ازحد نحیف،یوں چل رہا تھا جیسے اپنے آپ کو گھسیٹ رہا ہو ، عورت نے دیکھا تو لاوارث سمجھا - پکڑ کر اپنے گھر لے گئی، اور پھر باہر نہ جانے دیا ۔ یہ بھی اسے فکر تھی کہ اس کا علاج ہونا چاہیے۔ڈاکٹر کے پاس گئی تو معاملہ اور نکلا۔
بلے بلیوں کے علاوہ ہنس بھی راتوں کو اڑتے ہیں اور دن میں شکاریوں کے خؤف سے چھپے رہتے ہیں مگر ہنس اور بلے میں فرق ہے ،ہنس عام طور پر ڈار کی صورت میں اڑان بھرتے ہیں ،جبکہ ککی نے گیارہ سو کلو میٹر کا فاصلہ تن تنہا طے کیا ۔
میں نے ککی کا موازنہ اپنے آپ سے کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ میں وفاداری اور محبت کے حوالے سے ککی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔حالانکہ کی ککی کی مالکن ڈین کے جو احسانات ککی پر تھے ،میرے مالک کے احسانات مجھ پر کئی گنا زیادہ ہیں ۔
پہلے یہی دیکھیے کہ ککی ڈین نے نہیں بنایا ،وہ اسے بنا بنایا ملا،دوسری طرف میرا وجود ہی نہ تھا، میرے مالک نے مجھے مٹی اور پانی سے بنایا۔پہلے میں لوتھڑا تھا ۔پھر اس نے مجھےشکل اور جسم میں تبدیل کیا ،پھر مجھ میں جان ڈالی،پیدا ہونے کے بعد اس نے مجھے ایک مرد اور ایک عورت کے سپر دکیا ، جو ہمہ وقتی میری دیکھ بھال کرتے تھے۔میں اس دیکھ بھال کے بدلے ایک پائی تک اس مرد اور عورت کو ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا ۔ وہ راتوں کو جاگتے ،میں تواپنے جسم پر بیٹھی مکھی تک نہ ہٹا سکتا ۔خاتون نے مجھے دودھ پلایا، میرا بو ل و براز صاف کیا ۔اس مرد نے میری ساری ضروریات کا ،نشو و نما کا تعلیم کا ،علاج کا ، شادی کا ،مالی اور سماجی بوجھ اٹھایا۔
غؤر کیجئے ،کہ ککی کے اندر جو مشینری نصب تھی جس کی مدد سے وہ کھاتا ،کھانا ہضم کرتا ۔،سانس لیتا ،حرکت کرتا ،چلتا ،سوتا ۔اس مشینری کا کوئی ایک پرزہ بھی ڈین کا عطا کردہ نہیں تھا ۔جبکہ میرے اندر جو مشینری ہے اس کا ایک ایک پرزہ ایک ایک کل، ایک ایک رگ، ایک ایک آرٹری ۔خون کا ایک ایک قطرہ،اندر جاتی اور باہر آتی سانس کی ایک ایک رمق، سب کچھ میرے مالک نے مجھ میں فکس کیا ہے۔ سات عشروں سے میں چل رہا ہوں ،کھانا کھا رہا ہو ں ،سانس لے رہا ہوں ،یہ مشینری مسلسل کام کر رہی ہے۔ان سات دہائیوں میں دل کی مشین نے ایک ثانیے کے لیے بھی چلنا بند نہ کیا ،آنکھیں دیکھ رہی ہیں ،پاؤں چل رہے ہیں ،ہاتھ ڈھیر سارے کام کررہے ہیں ،دماغ سوچ رہا ہے ،یہ سب کچھ میرا مالک کررہا ہے اور کیے جارہا ہے،اور میری نافرمانی دیکھیے کہ ککی ایک بے زبان جانور ہوتے ہوئے ،ایک معمولی بے حد چھوٹے سائز کا حیوان ہوتے ہوئے،گیارہ سو کلو میٹر چل کر اپنی مالکن کے پاس پہنچا،دوسری طرف میرا مالک کہیں زیادہ نزدیک ہے،
آپ کا کیا خیال ہے۔۔کتنا نزدیک ہوگا ؟۔۔پانچ سو کلو میٹر؟نہیں !دوسو کلو میٹر؟نہیں ! ،چند گز دور؟،میرے گھر کے باہر گیٹ کے پاس ؟،گھر کے اندر بالائی منزل پر؟نہیں ،گراؤنڈ فلور پر،میرے اپنے کمرے میں ،نہیں ! وہ میرے دل سے بھی زیادہ قریب ہے۔اس کی موجودگی میری شہہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔وہ میرے اور میرے دل کےدرمیان حائل ہے۔پھر بھی میں اس کی طرف نہیں جاتا ،ہر رات صبح کاذب سے پہلے ایک فرشتہ پکارتا ہے،ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا ؟۔۔مگر میری سنگدلی کا یہ عالم ہے کہ میں سویا رہتا ہوں ،اس نرم بستر پر جو اسی نے مہیا کیا ہے۔حالانکہ ککی کی نسبت میری صحت کہیں زیادہ بہتر ہے،وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔،نحیف و نزار ہوگیا ،پھر بھی اپنی مالکن کی طرف چلتا رہا ،چلتا رہا۔۔۔
دوسری طرف میں تندرست ہوں ،مالک نے ہر آسائش عطا کی ہے مگر میں اس کی طرف چلنے کے بجائے دوسرے دھندوں میں گرفتار ہوں ، کوئی انسان مجھ پر ذرا احسان کردے تو میں اس کے گھر جا پہنچتا ہوں ، ہاتھ میں تحائف لیے اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،وعدہ کرتا ہوں کہ اس کو کوئی کام پڑے گا تو جان لڑا دوں کا مگر مالک ، جس کے احسانات کا شمار نہیں ، مجھے یاد نہیں آتا وہ کوئی تحفہ بھی نہیں مانگتا ۔اسے اپنے کسی کام کے لیے میری ضرورت بھی نہیں اس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ میں اس کی طرف بڑھوں،اس کی طرف بڑھنے کے لیے مجھے ایک قدم بھی نہیں چلنا ،اپنی شہہ رگ کی طرف کیسے چلوں گا؟۔۔
۔مجھے تو بس یاد کرنا ہے،نام لینا ہے ،اس کا ذکر کرنا ہے،شکر کرنا ہے۔اسکی تعریف ،تسبیح ،تحمید کرنی ہے۔اس کا یہ مطالبہ بھی نہیں کہ سارے کام چھوڑ دوں اور بس تعریف ،تسبیح ،تحمید اور تہلیل کے لیے بیٹھ جاؤں ،اس نے تو یہاں تک اجازت دی ہے کہ دنیا کے سارے کام کرتا رہوں ،بس دل میں اسے یاد کروں ،یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی غلط کام نہ کروں ،اپنے بچوں کے لیے روزی کماؤں ،غلط طریقے سے نہیں ،حلال اور جائز طریقے سے،تو یہ بھی اس کے ذکر میں شمار ہوگا ۔وقت پر دفتر جاؤں ،دیانتداری سے کام کروں ،اپنی ڈیوٹی کا وقت کسی اور کو نہ دوں ،تعجب یہ ہے کہ اسکا معاوضہ ملے گا،مگر ساتھ ہی یہ نیکی میں شمار ہوگا ،اس لیے کہ مالک کے احکام کے مطابق دیانتداری سے کام کرتا ہوں ،یہ بھی ذکر میں شمار ہوگا ۔
آپ دیکھیے کہ ککی کی نسبت میرا کام کس قدر آسان ہے، کہاں سینکڑوں کلومیٹر کا سفر اور کہاں شہہ رگ سے بھی قریب،او تقاضا کیا ہے؟۔۔۔صرف اتناکہ کوئی غلط کام نہ کروں ،کسی کو دھوکہ نہ دوں ،کسی سے وعدہ خلافی نہ کروں ،دفتر کارخانےمیں وہ کام جس کا معاوضہ لینا ہے پورا پورا کروں ،تاجر ہو ں تو ملاوٹ نہ کروں ،جھوٹ نہ بولوں ،فروخت کرتے وقت شئے کا نقص نہ چھپاؤں ،رشتہ دار ہوں تو صلہ رحمی کروں ،باپ ہوں تو اولاد کو دنیا اور آخرت دونوں کے لیے تیار کروں ،مزے کی بات یہ ہے کہ مالک سے بے خبر رہوں تب بھی یہ کام تو کرنے ہیں ،کرتے وقت مالک کی ہدایات پر عمل کروں تو مالک خوش، اور انعامات اس قدر دے کہ سنبھالے نہ سنبھلیں ،
افسوس ! میں ککی سے بھی بدتر ہوں ،حالانکہ وہ چوپایہ ہے،اور میں اشرف المخلوقات انسان۔کاش میں ککی سے ہی کچھ سبق سیکھ لوں !


Sunday, October 15, 2017

‎وسیلے غیب کے لیکن ہمارے ہاتھ میں ہیں


‎وزیر اعلیٰ اگر برا نہ مانیں اور کسی اچھے ماہر نفسیات کے پاس جائیں تو کیا عجب اس اذیت سے چھٹکارا پا لیں، جس میں وہ مبتلا ہیں،گرسنگی سے تنگ آئے ہوئے قلاش نےچاند ستارو ں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
‎بابا مجھے تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں۔۔ 
‎وزیر اعلیٰ کے اعصاب پر عمران خان سوار ہیں۔ لگتا ہے عمران خان کی لیڈری کی چمک دمک قائم ہی اسی لیے ہے کہ شہباز شریف صاحب اسے ہمیشہ خبروں میں رکھتے ہیں۔
‎"جو پشاور میں کچھ نہ کرسکے،ہمارے منصوبوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں "
‎"منافقت چھوڑو،اشتہار بازی سے قوم کو گمراہ نہ کرو"
‎ "مخالفین کو ڈر ہے اورنج ٹرین بن گئی تو انہیں لاہور سے ووٹ نہیں ملیں گے"
‎"نیازی صاحب کو جھوٹے الزامات کا جواب دینا پڑے گا"
‎"اپنے صو بے میں صحت عامہ ٹھیک کر سکے نہ میٹرو ٹرین"
‎یہ سرخیاں تو پرنٹ میڈیا کی ہیں،عارضے کا اصل رنگ دیکھنا ہو تو ٹی وی پر بولتے سنیے،تین چار دن پہلے ایک اینکر پرسن انٹرویو لے رہا تھا ،بیچارہ بار بار کوشش کرتا کہ وزیر اعلیٰ اس کے سوالوں کے جواب دیں مگر سوئی تھی کہ نیازی صاحب پر اٹکی ہوئی تھی، بالآخر اس نے کہا کہ عمران خان کا الگ انٹر ویو لیا ہے یا شاید یہ کہا کہ لیں گے، مگر وہ اپنے پسندیدہ موضوع سے ہٹنے کو تیار ہی نہ تھے۔ 
‎دماغی امراض کے شفا خانے میں ایک مریض کے اعصاب پر غلیل چھائی ہوئی تھی،، اس سے پوچھتے باہر جا کر کیا کرو گے؟ جواب دیتا غلیل بنا کر نشانہ بازی کروں گا۔ڈاکٹر نے ٹارگٹ مقرر کیا کہ جس دن اس کا جواب مختلف ہوگا اس کو نارمل قرار دے کر فارغ کردیں گے، سال گزر گیا ۔سال کے بعد بلایا گیا، پوچھا باہر جاکر کیا کرو گے،جناب نئی سائیکل خریدوں گا۔ ڈاکٹر کے چہرے پر رونق آگئی،ما شا اللہ،سائیکل پر سوار ہو کر کہاں جاؤ گے؟۔۔۔جی جانا کہیں نہیں،اس کی ٹیوب کاٹ کر غلیل بناؤں گا،
‎ایک سال گزر گیا،پھر انٹر ویو ہوا،باہر جا کر کیا کرو گے؟۔۔کسی اچھے برانڈ کا امپورٹڈ سوٹ خریدوں گا،نکٹائی اورانڈر وئیر کے ساتھ،ڈاکٹر کو یقین تھا کہ آثار صحت کے ہیں،پہن کر کہا ں جاؤ گے؟۔۔۔ جی پہننا کیا ہے،انڈر وئیر سے الاسٹک نکال کر غلیل بناؤں گا۔
‎چلیے آپ نے میٹرو بنا لی،موازنہ صرف کے پی سے کیوں کرتے ہیں،سندھ والوں سے بھی تو کہیے نا کہ ہماری حکومت ہوتی تو چار جگہوں پر میٹرو چلا دیتے۔ مگر کے پی کا ذکر اس لیے بار بار کرتے ہیں کہ خطرہ مراد علی شاہ یا زہری سے نہیں بلکہ عمران خان سے ہے۔کیا پتہ نیند میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہوں کہ عمران خان آرہا ہے۔
‎سیاستدانوں میں حلم ہوتا ہے نہ متانت،شائستگی ہوتی ہے نہ صبر و ضبط،الا ماشااللہ،مولانا مودودی اور فیض صاحب نے عمر بھر مخالفین کے خلاف کچھ نہ کہا، ذکر تک نہ کرتے، لوگ توجہ دلاتے، لقمے دیتے،کوشش کرتے کہ کچھ کہیں، بات بڑھے اور آگ پر ہاتھ سینکے جائیں،مگر اشتعال دلوانے والے کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ کیا لوگ تھے،اس آیت کی عملی تفسیر کہ جب بھی لغو کے پاس سے گزرو تو بس متانت سے گزر جاؤ۔
‎اہل ِ سیاست میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اپنے پروگرام،اپنے نصب العین،اپنے منشور کے بارے میں بات کرے۔یوں لگتا ہے سامنے دستر خوان بچھا ہے،اس پر مخالف کی ہڈیاں اور گوشت پڑا ہے ۔گوشت کھا رہے ہیں، اور ہڈیاں چچوڑ رہے ہیں،چچوڑ نے کے وزن پر لفظ تو ایک اور بھی ہے مگر چلیے،جانے دیجئے۔۔۔ اس کا 
‎استعما ل نہیں کرتے۔
‎پرسوں وزیر اعظم نے دارالحکومت سے جنوب مغرب کی طرف 83کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں میں تیل اور گیس کے سب سے بڑے ذخیرے کا افتتاح کیا،تصویر میں ان کے ساتھ وزیر اعلیٰ بھی کھڑے ہیں،قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ وہی گاؤں ہے جس کے لیے دس سال پہلے میجر طاہر صادق کی ضلعی حکومت نے ڈسپنسری منظور کی تھی، گاؤں والوں نے زمین ناصرف دی بلکہ ضلعی ہیڈ کوارٹر جاکر حکومت کے نام بھی کردی، اس کے فوراً بعد لاہور کا شاہی خاندان برسرِ اقتدار آگیا۔ وہ دن اور آج کا دن خادمِ اعلی کی حکومت نے اس ڈسپنسری کے فنڈ جاری نہیں کیے۔ڈی سی او نے کیس بھیجا،گاؤں کے مکینوں نے اخبارات کے ذریعے دہائی دی،مگر بیس لاکھ روپے ریلیز نہ ہوئے۔شاید اس لیے کہ ضلعی حکومت سیاسی مخالف تھی۔یا شاید اس لیے کہ ایک کالم نگار جو راس نہیں آتا ا،اس گاؤں سے تھا۔
‎یہ جو خلق خدا تخت لاہور سے نفرت کرتی ہے توبے سبب نہیں، آپ اندازہ لگائیے وسطی پنجاب کے کسی دور افتادہ گاؤں میں کچھ ہوجائے تو بیوروکریٹس کو غلاموں کی طرح ساتھ لیے فوٹو گرافروں کی فوج ظفر موج کے ساتھ حضرت پہنچتے ہیں مگر راولپنڈی میں کچھ سال پہلے محرم کے موقع پر اتنا بڑا سانحہ ہوا،قیامت گزر گئی، مگر وہاں نہ آئے۔
‎ان کی کچن کابینہ ہو یا نوکر شاہی ان میں عدم تحفظ کا احساس اتنا شدید ہے کہ وسطی پنجاب کی ایک چھوٹی سی تنگ سی پٹی کے باہر دیکھ ہی نہیں سکتے۔ان کے قریب ترین ساتھی دیکھ لیجئے، جناب عابد شیر علی ،جناب خواجہ سعد رفیق،محمد آصف صاحب، اسحاق ڈار،خرم دستگیر،احسن اقبال،رانا ثنا اللہ،طلال چوہدری،دانیال عزیز،سب اسی پٹی سے ہیں۔باقی سارے پنجاب سے ایک دو،اندرون سندھ سے کوئی نہیں،کراچی سے ایک آدھ،کے پی سے ایک آدھ یا زیادہ سے زیادہ دو۔
‎1999میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اس کے فوراً بعد ایک معروف انگریزی معاصر نے پے در پے خبریں شائع کیں کہ کس قدر کوتاہ نظری اور تنگ دلی کے ساتھ امورِ مملکت چلائے جارہے تھے،چالیس سے زیادہ کلیدی اسامیوں پر بیٹھے ہوئے بڑے بڑے بیوروکریٹ ایک خاص علاقے ایک خاص برادری سے تھے،وزیر اعظم نے تیس افراد ایف سی آئی میں رکھوائے، جن میں سے ستائیس اٹھائیس ایک خاص برادری اور علاقے کے تھے۔
‎صدر ایوب نے دارالحکومت کراچی سے شمال منتقل کیا تو ایک دل جلے نے(شاید ان کا نام حسن اے شیخ تھا)کہا تھا کہ ہاں،سمندر بھی اٹھا کر اسلام آباد لے جاؤ۔خدا کی قسم ان کا بس نہیں چلتا،ورنہ یہ تیل بھی رائے ونڈ کے نواح میں نکالتے۔ان کی بینائی اتنی ضعیف ہے کہ اپنے شہر سے پرے دھند اور خلا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا،انصاف ہوتا تو سب سے پہلے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان انڈر گراؤنڈ ریلوے کی تعمیر ہوتی۔اورنج ٹرین سے لے کر پلوں،شاہراہوں اور انڈر پاسسز تک ہر تعمیراتی کام صرف ایک شہر میں ہوا۔؎
‎وفاقی دارالحکومت میں ایک مجبور و مقہور شاہراہ ہے جسے ایکسپریس ہائی وے کہتے ہیں،اس پر ائیر پورٹ چوک سے لے کر روات والے چوک(جی ٹی روڈ)تک سفر کریں تو اذیت کرب اور ذہنی دباؤ کے سبب عوام کا بھیجا جسم سے باہر نکلنے کو ہوتا ہے۔چند کلو میٹر کا یہ فاصلہ گھنٹو ں میں طے ہوتا ہے۔سڑک کا یہ ٹکڑا لاہور میں ہوتا تو برسوں پہلے اس مسئلے کا حل ہوچکا ہوتا۔
‎مگر قدرت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان دور افتادہ محروم توجہ علاقوں کے بہت سے پہلو قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھےہیں - انہی میں معدنیات بھی ہے،واہ رے قدرت!جس بستی میں دس سال سے حقیر رقم نہیں دی جارہی وہاں صوبے کے حکمران اعلیٰ کو بنفس نفیس آکر،وزیر اعظم کے استقبال کے لیے کھڑا ہونا پڑا۔
‎میں کوچہ ء رقیب میں بھی سَر کے بَل گیا!
‎یہ علاقے جو اس شاہی خاندان کو نظر ہی نہیں آتے،جنوبی پنجاب،بہاولپور،اٹک،میانوالی اور کچھ اور ، یہاں کے غریبوں کو قدرت نے ایسا ایسا ٹیلنٹ عطا کیا ہے کہ بقول ایک مشہور و معروف کالم نگار ان کے بدشکلے،بد عقلے بچے اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔یوں بھی سرکاری وسائل سے جمع شدہ پروٹوکول کے سوا ان کے پلے کیا ہے؟ہزاروں پہریداروں،ایلیٹ فورس،پولیس،سرکاری گاڑیاں، خوشامدیوں کے غول،بے پناہ حکومتی وسائل، یہ نہ ہو تو انہیں کوئی فیکٹری میں فورمین اور اپنے ادارے میں کلرک بھی نہ رکھے۔
‎یہ چند نہیں،ہزار بیش بہا اپارٹمنٹ،دنیا کے عظیم الشان شہروں میں خرید لیں،کارخانے لگا لیں،سونے کی بنی ہوئی بی ایم ڈبلیو گاڑیا ں سواری کے لیے لے لیں،انہیں آکسفورڈ،کیمبرج اور ہاورڈ کے دروازوں کے قریب بھی نہ جانا نصیب ہوگا۔اس لیے کہ ذہانت،عقل ٹیلنٹ قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔اس کائنات کا پروردگار ایسے لوگوں کو دولت بے پناہ دیتا ہے اور اقتدار بھی، مگر ذہانت اور ٹیلنٹ نہیں دیتا،تاکہ یہ ایکسپوز ہوں۔ان کی قلعی کھل جائے۔
‎تین بار وزیر اعظم رہنے والے جہاں پناہ سے کہیے کہ تین منٹ،صرف تین منٹ،پاکستان کے تعلیمی نظام پر، یا پاکستان میں مطلوب زرعی اصلاحات پر،یا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بات کرکے دکھا دیں، یا یہ پوچھ لیجئے کہ ان کے ذہن میں پولیس کا یا بیورو کریسی کا نیا نظام کیا ہے۔؟
‎تمھارے جاہ و ثروت سے ہمیں انکار کب ہے
‎وسیلے غیب کے لیکن ہمارے ہاتھ میں ہیں!


Friday, October 13, 2017

جناب جسٹس جاوید اقبال !


‎سرسبز و شاداب رہیے،
‎ہریالی آپ کے گرد بادِ نسیم کے جھونکو ں سی رقص کرے، 
‎جہاں جائیں جھومتی شاخیں، خوشبو چھڑکتے پھول استقبال کریں، 
‎دعا کا یہی برگِ سبز تحفہ درویش ہے،اور ذرا سی عرضگزاری بھی جو مسندِ انصاف کے سامنے جہاں آپ تشریف رکھتے فرما ہیں،دست بستہ کھڑے ہو کر،کرنی ہے۔۔
‎اس تنگدلی پر تاسف کا اظہار بھی کرنا ہے جو اہلِ دانش نے اور اربابِ نشر و اشاعت نے دکھائی ہے، ان کا کہنا کہ آپ نے ماضی میں کوئی طوفان انگیز یا حشر برپا کردینے والا فیصلہ نہیں کیا، قرین انصاف نہیں، معاملے کا اصل پہلو یہ ہے کہ آپ نے کوئی ایسا فیصلہ بھی صادر نہیں کیا جس سے آج ندامت ہو اور جس کا دفاع کرنا پڑے،تیس عشرو ں سے زیادہ مدت پر محیط ایک باعزت عرصہ کارکردگی آپ نے بسر کیا ہے، اس میں کیا شک ہے کہ نشیب و فراز زندگی کا جزو لاینفک ہیں،ہمیشہ ایک معیار پر تو اقطاب اور بطال بھی قائم نہ رہ سکے، جیسا کہ سعدی نے فرمایا۔۔۔
‎یکی پرسید آن گم کردہ فرزند
‎کہ ای روشن گہر پیرِ خرد
‎زمصرش بوئی پیراہن شنیدی
‎چرا در چاہ کنعانش ندیدی
‎بگفت احوال ِ ما برق ِ جہان است
‎دمی پیدا و دیگر رم نہان است
‎گہی برطارم اعلیٰ نشینم
‎گہی برپشت ِ پائی خود نبینیم
‎اس شخص سے جس کا فرزند گم ہوگیا تھا، کسی نے پوچھا کہ عالی جاہ ! مصر سے بیٹے کے کرتے کی خوشبو سونگھ لی،کنعان کے کنویں میں بھی جھانک لیتے، فرمایا ہمارا حال برق جیسا ہے،ابھی چمکی اور ابھی غائب، ہم لوگ کبھی تو بلندی پر ہوتے ہیں جہاں سے سب کچھ نظر آتا ہے، اور کبھی اپنے پاؤں کی پشت بھی دکھائی نہیں دیتی۔
‎یہ تو تھی تمہید۔۔۔۔۔
‎حفیظ جالندھری نے کہا تھا
‎تمنا مختصر سی ہے مگر تمہیدطولانی
‎آمدم برسرِ مطلب!جسٹس صاحب!ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر کے دشت ِ خیال پر اندر کی نظر دوڑائیے،جو منصب آپ کو ملا ہے،سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پورے پاکستان میں اس کی ہمسری ناممکن ہے۔ تخت پر تو صدر اور وزیر اعظم متمکن ہیں مگر زنجیرِ عدل کا سرا آپ کے محل میں ہے،آپ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں،اس طرف نظر دوڑائیے،روغنِ قاز مَلنے کے ماہر ،خوشامدی ہاتھوں میں پھول لیے دورویہ کھڑے ہیں،ترغیب ہے اور تحریص،حکمرانوں کی قربت ہے اور لاتعداد منافع اور مواقع،مگر جسٹس صاحب اس راہ پر پھول ہوں یا درہم و دینار کے انبار، یا حکومت کا جاہ وجلال جو کچھ بھی ہے اس راہ کے آخر میں ایک لق و دق صحرا پڑے گا، جہاں ٹوٹی ہوئی طنابیں،اور بکھری ہوئی ہڈیاں ہیں، آپ وہاں اکیلے ہوں گے، تن تنہا!آپ کے ارد گرد آپ کے پاؤں پکڑ کر رکاب میں ڈالنے والے خوشامدی پیادے سب غائب ہوں گے۔
‎دوسری طرف ایک کٹھن راستہ ہے، اس راستے پر آپ کا ضمیر آ پ کی رہنمائی کررہا ہے، اس راستے پر دھونس بھی ہے اور دھاندلی بھی ،کوئی بھی آپ کو پسند نہیں کرے گا، بعض تو دماغی حالت پر شکر کریں گے۔ کہ بڑا آیا عمر بن عبدالعزیزبننے کا شائق! مگر اس راہ کے آخر میں ایک باغ ہے جہا ں آپ کا استقبال کیا جائے۔باغ میں چشمے ہین جن میں آب ِ شیریں بہہ رہا ہے ٹھنڈی چھاؤں ہے اور ابدی کا میابی!
‎وہ دیکھیے،قائداعظم کھڑے ہیں۔اور آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، قائداعظم جنہو ں نے خوشامد ،دولت،دھونس،دھاندلی سازش سب کو شکست دی۔گاندھی کی منافقت پارہ پارہ کردی ۔وہی قائداعظم آپ سے کہہ رہے ہیں جاوید !! اس موقع کی ضائع نہ کرنا،اس ملک کی قسمت تمھارے ہاتھ میں آئی ہے،اسے ایسا بناؤجیسا میں چاہتا تھا زبردست کو نہ چھوڑو او ر زیرِ دست کو نہ جھڑکو!گردن بلندوں کو قانون کے شکنجے میں کسو، جو فرعون بنے پھرتے ہیں انہیں قانون کے کڑ کڑاتے کوڑوں سے درست کرو،اس مملکت میں کوئی شہزادی ہو نہ شہزادہ، نیب بلائے اور کوئی نہ آئے،تو اسے زنجیروں میں باندھ کر بلواؤ،کوئی استثنا مانگے تواسے کہوپہلے سانس لینے میں استثنا مانگے۔مسند اور بوریا کا فرق مٹا ڈالو!۔
‎جسٹس صاحب!کچھ لوگ تاریخ کے پیچھے بھاگتے ہیں اور تاریخ انہیں پکڑائی نہیں دیتی،آپ خو ش بخت ہیں،کواڑ کھول کر باہر دیکھیے،تاریک آپ کی دہلیز پر کھڑی ہے،اس کے ہاتھ میں قلم ہے اور قرطاس،کہہ رہی ہے،جاوید اقبال،جو چاہو گے لکھوں گی،انصاف کرو گے تو منصف قرار دوں گی، جانبداری کرو گے تو ظالم کا خطاب دوں گی، ملک کا خزانہ بھرو گے تو عادل کہلاؤ گے،خزانہ لوٹنے والوں کے لیے نرم گوشہ رکھو گے تو سارا صفحہ ہی سیاہ کردوں گی۔،ایسی سیاہی جو کھرچی نہ جا سکے گی،ہمیشہ رہنے والی سیاہی۔
‎جسٹس صاحب آپ اس شہر میں یقیناً گئے ہوں گے جس کی مٹی اڑاتی گلیوں میں امام مالک برہنہ پا پھر اکرتے تھے،اور درس دیتے وقت نام نہیں لیتے تھے،فقط اس طر ح فرماتے تھے کہ اس قبر میں استراحت فرمانے واے نے یہ فرمایا،اس شہر پر سبز گنبد ہے،گنبد پر آسمانی پرندے ہیں زمین پر بہشت سے اترے ہوئے کنکر ہیں،اب کے جائیں تو سنبھل کر،اب کے معاملہ پہلے والا نہ ہوگا۔ اب کے پوچھا جائے گا جاوید اقبال!میں نے تو یہ کہا تھا کہ میری لخت جگر فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو ہاتھ کاٹ دوں گا،تم نے کہیں کسی حکمران کی اولاد کو تو نہیں چھوڑ دیا،جسٹس صاحب یہ سوال قیامت ڈھائے گااس سوال کا جوا ب دینے کے لیے اپنے آپ کو ضرور تیار کیجئے،اس سوال سے مفر نہیں!آپ اس زندگی میں ،یہ منصب سنبھالنے کے بعد وہاں نہ بھی گئے تو یہ سوال حوضِ کوثر کے کنارے پوچھا جائے گا،
‎اب اس سوال سے بچنے کی کوئی صورت نہیں!آپ یہ سوال اپنے گلے میں ڈال چکے ہیں،آپ انصاف کی میزان ہاتھ میں پکڑ چکے ہیں آپ نے اس وادیء پُر خار کا سفر اپنی مرضی سے اختیار کیا ہے، اب سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔
‎جسٹس صاحب! آپ کے بچے پوتے،پوتیاں،نواسیاں سلامت رہیں، آپ ان سے پھولوں تتلیوں ،خوش رنگ طائروں سے جی بھر کر کھیلیں،ذرا ذہن میں رکھیے گا کہ ان پوتوں،نواسوں اور ان کی اولادوں کا سر فخر سے بلند کرنے یا ندامت سے جھکانے کا انتخاب آپ کی مٹھی میں ہے،آپ کی مٹھی میں !!!
‎ستر سال سے ہم بھٹک رہے ہیں، دشت و بیاباں کی خاک چھان رہے ہیں،کبھی ایک پہاڑپر چڑھتے ہیں کبھی دوسرے سے چھلانگ لگاتے ہیں،منزل کاسراغ ہے نہ راہ میں کوئی سنگ میل،ہم عزیزبلوچوں ،عیان علیوں،کو پکڑتے ہیں مگر انہیں نہیں پکڑتے جن کے یہ کارندے ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے ٹیکسوں سے دولت کے انبار کھڑے کرنے والے بددیانت حکمران سمندر پار اپنے ٹھکانے بنا چکے،محلات جائیدادیں گراں بہا اپارٹمنٹ خرید چکے،ان کی عیدیں،ان کے تہوار،ان کے علاج معالجے،ان کی قومیتیں،سب دساور کی ہیں،ہم بے بس ہیں،ہم پر ان کے بچے،ان کی بیٹیاں،یہاں تک کہ ان کے داماد حکومت کررہے ہیں،پورا ملک مزارع بن چکا ہے، پوری قوم ہاریوں کی صورت اختیار کرچکی ہے، مگر کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا،ایک عامی حکم سے سرتابی کرے تو نیب اسے مدتوں پسِ زنداں رکھتی ہے،مگر یہ حکمراں،یہ امرا،یہ عمائدین، یہ طبقہ بالا کے خود سر ،خود نگر، اور خود پسند نمائندے،
‎افسوس! ان پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا،یہ ملزم بن کر پیش ہوں تب بھی سینکڑوں پہریداروں اور بیسیوں لیموزینوں کے ساتھ شاہانہ کروفر میں سر سے پا تک ڈوبے ہوئے پیش ہوتے ہیں، گردیں ان کی اکڑی ہوئی ہیں، جبینیں ان کی شکنو ں سے بھری ہوئی ہیں پاؤں ان کے زمین پر یوں پڑتے ہیں جیسے زمین کو پھاڑ ہی تو دیں گے، ریاست کے ملازموں کو یہ ذاتی غلام سمجھتے ہیں اور اپنے کروفر کو دوبالا کرتے ہیں،عدالتوں کی تضحیک کرتے ہیں،قانون ان کے لیے وہ قالین ہے جس پر بوٹوں سمیت چلتے ہیں،آئین ان کے لیے وہ گیند ہے جسے ہوا میں اچھا ل کر یہ لطف اندوز ہوتے ہیں،
‎جسٹس صاحب! قوم آپ کی خدمت میں ہاتھ باندھ کر،ادب سے التماس کرتی ہے ،کہ ان سے رہائی دلوائیں، مصر کے گورنر کے بیٹے نے ایک شہری کو مارا،مارتے وقت کہتا رہا " میں بڑوں کی اولاد ہوں "اس مظلوم کے ہاتھ میں حضرت عمرؓ نے درہ دیا اور کہا کہ اسے مار ،وہ مارتا جاتا اورآپ کہتے جاتے، اسے مار،یہ بڑوں کی اولاد ہے۔
‎جسٹس صاحب ،بڑوں کی اولاد کو جوا اس قوم کے نحیف کندھوں سے اتار پھینکئے آپ کے پاس اختیار ہے،موقع بھی اور وقت بھی۔
‎خیری کن ان فلاں و غنیمت شمار عمر
‎زاں پیشتر کہ بانگ برآں فلاں نماند
‎یہ وقت جو ملا ہے اسے غنیمت جانیے اس سے پہلے کہ لہور گوں میں سرد ہوجائے اور آواز دینے والا آواز دے کہ معاملہ ختم ہوچکا!


 

powered by worldwanders.com