Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, April 30, 2017

ناشائستگی کا دوسرا نام

Friday, April 28, 2017

اسلام کے قلعہ میں انسانی جان کی قدر و قیمت

یہ ایک احاطہ تھا۔ تین اطراف میں دکانیں تھیں۔ ایک طرف سے باہر آنے 
جانے کا راستہ تھا۔ صفدر ایک سٹور سے خریداری کر کے نکلا اور اپنی گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھنے لگا۔ اچانک اُسے پیچھے سے کمر پر دھکا لگا۔ مڑ کر دیکھا تو ایک صاحب گاڑی ریورس کر رہے تھے۔ ریورس کرتے کرتے انہوں نے گاڑی کے عقبی حصے کو صفدر کی کمر کے ساتھ جا لگایا تھا۔ درد تو ہوا مگر کچھ ہی دیر میں صفدر کو محسوس ہوا کہ درد غائب ہو چکا ہے۔ اتنی دیر میں گاڑی والا شخص، سفید فام امریکی، گاڑی سے اُتر کر صفدر کے پاس پہنچ چکا تھا اور اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کر رہا تھا۔ صفدر نے خوش دلی سے بتایا کہ کوئی بات نہیں۔ بس معمولی سا دھکا لگا ہے۔ سفید فام شخص ہاتھ ملا کر رخصت ہو گیا۔ صفدر نے غیر شعوری طور پر نوٹ کیا کہ وہ اُسی سٹور میں داخل ہو گیا جہاں سے ابھی صفدر خریداری کر کے نکلا تھا۔
صبح بیدار ہوا تو صفدر کی کمر میں شدید درد تھا۔ حرکت بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ٹیسٹ ہوئے، معلوم ہوا کہ مسئلہ ٹیڑھا ہے اور علاج میں وقت لگے گا۔ اخراجات کا معلوم ہوا تو صفدر پریشان ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اخراجات اُس شخص کو ادا کرنے چاہئیں جس کی غیر محتاط ڈرائیونگ سے یہ سب کچھ ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اُس شخص کو کیسے تلاش کیا جائے۔ نام معلوم تھا نہ پتہ۔ صفدر اُس سٹور میں گیا۔ اس شخص کا حلیہ بتایا تو معلوم ہوا ان کا پرانا گاہک ہے۔ نام معلوم ہو گیا۔ پتہ بھی، اُس نے علاج کے اخراجات ادا کر دیئے۔ نہ کرتا تو مقدمہ چلتا اور ہر حال میں ادا کرنے پڑتے۔ یہ بھاری اخراجات اُس کی انشورنس کمپنی نے ادا کیے۔
یہ واقعہ صفدر نے، جب میں کچھ عرصہ قبل واشنگٹن ڈی سی میں اس کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا، خود سنایا۔
کفار کے اِن ملکوں میں انسانی جان کی قدر وقیمت کیا ہے؟ اس کا اندازہ اُس مشہور واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں 79سالہ معمر خاتون، سٹیلا، پر میکڈانلڈ کی گرم کافی گری تھی اور اس کے جسم کے کچھ حصے جل گئے تھے۔ سٹیلا کو علاج پر بیس ہزار ڈالر خرچ کرنے پڑے۔ اس نے میکڈانلڈ سے یہ رقم مانگی۔ میکڈانلڈ نے انکار کر دیا، کمپنی کا مؤقف تھا گاہک کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کافی گرم تھی۔ سٹیلا عدالت چلی گئی۔ اس کے وکیل نے ثابت کیا کہ عام طور پر کافی جب گھر میں بنائی جاتی ہے تو وہ 140ڈگری تک گرم ہوتی ہے۔ مگر یہ فاسٹ فوڈ کمپنی(میکڈانلڈ) اپنی کافی کو 185ڈگری پر رکھ کر فروخت کرتی ہے تا کہ خاص ذائقہ برقرار رہے۔ اس درجہ کی گرم کافی انسانی استعمال کے لیے فِٹ ہی نہیں ہے کیوں کہ اس سے ہونٹ جل جاتے ہیں اور گرنے سے جلد بچ ہی نہیں سکتی۔ قصہ مختصر، عدالت نے کمپنی کو حکم دیا کہ متاثرہ خاتون گاہک کو دو لاکھ ڈالر دے۔ ہرجانے میں اس کے علاوہ بھی پونے پانچ لاکھ ڈالر دینے کا حکم ہوا۔ ججوں نے کمپنی کو لاپرواہ اور سخت دل قرار دیا۔ بعد میں کمپنی نے سٹیلا سے عدالت سے باہر سمجھوتہ کیا جس کی تفصیلات کسی کو معلوم نہ ہوئیں مگر یہ واضح ہے کہ امریکی نظامِ انصاف نے خود سر اور متکبر کمپنی کے کس بل نکال دیئے۔
اب آئیے، انسانی جان کی قدروقیمت اُس ملک میں دیکھتے ہیں جو اسلام کے نام پر بنا۔ اس اسلام کے نام پر جس نے ایک طرف تو یہ کہا کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور دوسری طرف یہ اصول طے کیا کہ قصاص در اصل زندگی ہے! گزشتہ ہفتے دارالحکومت میں ایک سرکاری ادارے نے کتاب میلہ منعقد کیا۔ اس میں ادیبوں، شاعروں، وزیروں اور سرکاری عمائدین کو مدعو کیا گیا۔ اس سہ روزہ میلے میں کیا کچھ ہوا، کیا کچھ نہیں ہوا، اور جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ سوشل میڈیا پر تفصیلات آ چکی ہیں۔ یہاں تو فقط اِس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ انسانی جان کی حرمت اسلام کے اس قلعہ میں کتنی ہے۔ تقریب میں مرکزی سٹیج، روایات کی رُو سے، بارہ فٹ بلند تھا۔ حاضرین کی نشستوں اور سٹیج کے درمیان ایک خندق نما نشیب تھا جس کی گہرائی نو فٹ بتائی جا رہی ہے۔ کچھ کہتے 
ہیں یہ وہ پِٹ
(PIT)
ہے جو مغربی ملکوں میں آرکسٹرا بجانے والوں کے لیے بنائی(یا کھودی) جاتی ہے۔ کچھ بتاتے ہیں کہ یہ سکیورٹی کے نکتۂ نظر سے بنائی گئی تھی کہ سٹیج کے عمائدین اور حاضرینِ محفل کے درمیان فاصلہ رکھے اور حاضرین سٹیج کی طرف نہ جا سکیں۔ بہر طور جو کچھ بھی تھا بہت لوگ اِس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ماضی میں بھی اِس خندق کی وجہ سے حادثے ہوتے رہے ہیں اور اگرچہ جان سے کوئی نہیں گیا؛تاہم بازو وغیرہ ٹوٹے ہیں۔
غالباً آخری دن تھا، یا تقاریب میں سے آخری تقریب تھی۔ سٹیج پر بہت لوگ تھے۔ ان میں ایک نوجوان شاعرہ فرزانہ ناز بھی تھی۔ وہ بارہ فٹ بلند سٹیج سے خندق میں سر کے بل گری۔ گردن اور کمر پر شدید چوٹیں آئیں۔ ہسپتال لے جائی گئی۔ دو دن موت و حیات کی کشمکش میں 
رہی اور بالآخر، حیران، مبہوت، دہشت زدہ میاں اور دو چھوٹے چھوٹے بچوں 
کو چھوڑ کر اُس عدالت میں حاضر ہو گئی جہاں پی آر کام آتی ہے نہ وزیروں کی کاسہ لیسی!
آپ کا کیا خیال ہے ایسا واقعہ اگر کسی ایسے ملک میں رونما ہوتا جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی تو کیا اِس عمارت کے بنانے والے، عمارت کی دیکھ بھال کرنے والے اور اِس مہلک عمارت میں میلے سجانے والے، آ زاد پھر رہے ہوتے؟ نہیں! کبھی نہیں! پہلے تو اُن افراد کو قانون کی حراست میں لیا جاتا جنہوں نے حادثے رونما ہونے کے باوجود اس خندق کو، یا ڈیزائن کے اس نقص کو دور نہیں کیا۔ پھر میلہ سجانے والے محکمے اور اس کے بڑوں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھا جاتا کہ اِس قاتل عمارت میں یہ تقریب کیوں منعقد کی؟ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں، لیکن اگر فرزانہ ناز کسی ایسے معاشرے کی فرد ہوتی جس میں پی آر اور خود نمائی کے بجائے قانون کا دور دورہ ہوتا تو ذمہ دار، عدالت کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے اور فرزانہ کے پس ماندگان کو کروڑوں روپے ہر جانے میں ادا کرتے۔
مگر یہ پاکستان ہے۔ یہاں خندقیں اسی طرح رہیں گی۔ میلوں پر ٹیکس دہندگان کے کروڑوں اربوں اسی طرح بے دردی سے لٹا کر نوکریاں پکی ہوتی رہیں گی۔ لوگ اپاہج ہوتے رہیں گے۔ مرتے رہیں گے۔ اور سب کچھ تقدیر کے کھاتے میں ڈالا جاتا رہے گا۔
حال ہی میں ایشیائی ترقیاتی بنک نے پاکستان کے ٹرانسپورٹ نظام کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔ بنک کی رپورٹ کے مطابق ٹرانسپورٹ کا یہ گلا سڑا نظام سالانہ تیس(30) ہزار اموات کا باعث بن رہا ہے۔ یہ شاہراہوں پر ہونے والے حادثات اور اموات کے وہ اعداد و شمار ہیں جو حساب کتاب میں آ گئے، ورنہ اصل تعداد اس سے دو گنا ضرور ہو گی۔
آج اگر شاہی سواریوں کے گزرتے وقت رُوٹ لگنے بند ہو جائیں اور حکمران، عام ٹریفک میں سفر کریں تو یہ مہلک نظام، دیکھتے ہی دیکھتے درست ہو جائے۔ مگر چونکہ تکبر مآب حکمران، سڑکوں سے گزرتے وقت، عوام کو جانور سمجھتے ہوئے، جہاں ہیں، جیسے ہیں کی بنیاد پر کھڑا کر دیتے ہیں، اس لیے ٹرانسپورٹ کے نظام کی انہیں خبر ہے نہ پرواہ! کس قدر شرم کی بات ہے کہ میٹروبسوں اور ٹرینوں کے احسانات قوم کو ہروقت جتانے والے حکمرانوں پر، بین الاقوامی بنک کی یہ رپورٹ کوڑے کی طرح ضرب لگا رہی ہے۔مگر جلد موٹی ہو تو کوڑا بھی کچھ نہیں کرتا۔
عوام کو قتل ہونے کے لیے 
شاہراہوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ چند ماہ پہلے بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اردو ادب کے صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر منیر کی گاڑی ایک ڈمپر کے نیچے آ کر کچلی گئی۔ طیب منیر اگر رِنگ روڈ بنانے والا ٹھیکیدار ہوتا تو بڑے لوگ تعزیت کے لیے اس کے گھر جاتے اور ڈمپر چلانے والا قاتل بھی پکڑ لیا جاتا مگر وہ تو ایک پروفیسر تھا۔ دو ماہ پہلے ریکارڈ قائم کرنے والی قومی سطح کی اتھلیٹ خاتون نادیہ نذیر ساہیوال کے نزدیک ایک ٹریکٹر ٹرالی کی ٹکر سے جاں بحق ہو گئی۔ پانچ سالہ بچہ بھی چل بسا۔ حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ لاکھوں ٹرالیاں، ٹریکٹر، ڈمپر، وحشیوں کی طرح شاہراہوں پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ ہزاروں شہری ان وحشیوں کی نذر ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں مگر ٹریفک بند کر کے گزرنے والے حکمرانوں کو ادراک ہی نہیں کہ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے اور اسے حل بھی کیا جا سکتا ہے۔ کیا اِن مقتولوں کے پس ماندگان گڑ گڑا کر دعائیں نہ کرتے ہوں گے کہ کاش، کوئی ڈمپر، کوئی ٹرالی، کوئی ٹریکٹر، حکمرانوں کی برق رفتار سواریوں سے بھی ٹکرائے۔
نہ جانے کتنی نادیہ نذیر، کتنے طیب منیر اس جنگل میں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ نہ جانے کتنی فرزانہ ناز مجرمانہ نا اہلی کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ انسانی جان کی قدر و قیمت کفار کے ملکوں میں تو ہے، اسلام کے قلعہ میں نہیں ہے ؎
نہ مدعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا

Monday, April 24, 2017

تو پھر شہزادی بھی ہم پر حکومت کرکے دیکھ لے !!


2000
ء تک واضح ہو چکا تھا کہ جمال مبارک اپنے باپ کا جانشین ہو گا۔ نائب صدر کا عہدہ موجود ہی نہیں تھا۔ عملاً جمال ہی نائب صدر تھا۔ سرکاری جماعت نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی55 کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل وہی تھا اور پالیسی کمیٹی55 کا طاقت ور منصب بھی اُسی کی جیب میں تھا۔ حُسنی مبارک نے ربڑ نما پارلیمنٹ سے آئین میں ترمیم بھی کروائی کہ جمال کا راستہ صاف ہو جائے اور وہ اگلا حکمران بنے۔ مگر ساری ترکیبیں، سارے منصوبے دھرے رہ گئے۔ تختہ الٹ دیا گیا۔ پھر کرپشن کے الزامات لگے۔ جیل کی سلاخیں، فوٹو گرافروں کے چبھتے کیمرے، دنیا بھر کے میڈیا میں تذلیل ! کوئی ہے جو عبرت پکڑے۔ کہاں ہے حسنی مبارک اور کہاں ہے ولی عہد جمال مبارک ؟؟
2012ء کا موسم گرما قذافی کے بیٹے محمد قذافی نے لندن کی خنک ہوائوں میں گزارنا تھا مگر بھاگ کر الجزائر میں چھپنا پڑا۔ سیف الاسلام ، قذافی کے دوسرے بیٹے کو جیل جانا پڑا۔ تیسرے بیٹے موسیٰ کو نائجر میں پناہ لینا پڑی۔ نائجر، جہاں اس کے جانور بھی رہنا پسند نہ کرتے۔ ہنی بال، ایک اور بیٹا، جو پیرس کی شاہراہوں پر نشے میں دھند کاریں چلاتا تھا آج کسی کو نہیں معلوم ، نہ پرواہ ہے، کہ کہاں ہے؟
یہ مثالیں، ہمارے سامنے مثالیں کیا بتاتی ہیں؟ یہ واقعات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ جانشینی کے خواب بکھر جایا کرتے ہیں۔ ملکوں کو جاگیر اور رعایا کو غلام سمجھنے والے، ایک نہ ایک دن ضرور مٹی چاٹتے ہیں! جس خاک کو وہ پیروں تلے پامال کرنے کے عادی ہوتے ہیں، وہی خاک لوہا بن کر ان کی کلائیوں کے لئے ہتھکڑی ہو جاتی ہے۔
ایک گروہ اگر یہ سمجھ رہا ہے کہ بادشاہ کے بعد شہزادی اقتدار سنبھالے گی تو وہ اُن طاقتوں سے آگاہ نہیں، جو مستقبل میں پوشیدہ ہیں! کسی کو نہیں معلوم کہ شہزادی، جو سارے مقدمے کا مرکزی کردار تھی، محفوظ کیسے قرار دے دی گئی!اور اب اس منصوبے پر کام شروع ہو گیا ہے کہ تخت کی وارث وہ ہو گی!
نہیں ! ایسا نہیں ہو گا! جس خاندان کے سربراہ کو دو منصفوں نے نااہل اور دروغ گو قرار دیا ہے اور تین منصفوں نے عدم اطمینان کا اظہار کرکے مزید تفتیش کا حکم دیا ہے، اس خاندان کے دوسرے افراد کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط ہونے کا حق نہیں دیا جاسکتا! اگر ایسا ہو گیا تو یہ قائد اعظم کے بنائے ہوئے ملک کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ پناہ مانگنی چاہئے خدا کی ! وہ یہ دن کبھی نہ دکھائے!
نہیں! یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں! شاہی خاندان کا جانا ٹھہر گیا ہے! صبح گیا یا شام گیا! یہ تو غیر ملکی ہیں جو کلائیو، کرزن اور ولزلے کی طرح باہر سے ہم پر حکومت کرنے آتے ہیں! ان کا اس وطن سے، اس وطن کی مٹی سے، اس وطن کی کچی گلیوں میں اڑتی گرد سے، تعلق ہی کیا ہے! انہوں نے تو اپنے محلات کے جھنڈ کا نام تک بھارت کی اس بستی کے نام پر رکھا ہے جسے یہ چھوڑ آئے مگر چھوڑ نہیں سکتے!
حجاز میں رہنے والے ہر پاکستانی کو معلوم ہے اور سب گواہی دیتے ہیں کہ وہاں ان کے کارخانوں میں ترجیح کس ملک کے باشندوں کو دی جاتی ہے اور پاکستانیوں کو درخور اعتنا نہیں گردانا جاتا! آصف زرداری، دولت جمع کرنے میں، اس خاندان سے ذرا سا ہی آگے پیچھے ہو گا مگر ایک معاملے میں وہ جاتی امرا کے حکمرانوں سے بازی لے گیا۔چند دن پہلے اُس نے بلوچستان کے عوام کو بھارت کا اصل چہرہ دکھایا۔55جو بلوچ بھائی بھارتی بہکاوے میں آکر آزادی کی باتیں کر رہے ہیں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ انٹرنیٹ پر بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار دیکھ لیں۔ وہاں گائے ذبح کرنے پر پھانسی دی جاتی ہے۔ کیا ہم نے بھی بیل کاٹنے پر پھانسی چڑھنا ہے؟ بنیا کہتا ہے پانی بند کردوں گا! بنیے کو کہتا ہوں تم ہمارا پانی بند نہیں کر سکتے۔
بحرالکاہل سکڑ کر ایک جوہڑ تو بن سکتا ہے، مائونٹ ایورسٹ، عرب کے صحرا میں تو منتقل ہو سکتی ہے مگر جاتی امرا کے بادشاہ، بھارت کے بارے میں ایسی بات کبھی نہیں کر سکتے! انہیں تو اس بات پر فخر ہے کہ بھارتی پنجاب میں بھی آلو گوشت کھایا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی !! سبحان اللہ ! کیا فلسفہ ہے جو اشیائے خورد و نوش کے گرد ہی گھومتا ہے!
یہ ملک ہمارا ہے! انہیں کیا معلوم اس ملک کی سرحد کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں تک جاتی ہے۔ پانچ اضلاع سے باہر نہ نکلنے والوں کو کیا معلوم کہ سندھ کے صحرائوں میں کیا ہو رہا ہے اور بولان کے باسی کس حال میں ہیں، انہیں تو یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ وزیرستان سے لے کر باجوڑ تک خلق خدا کس طرح رہ رہی ہے!
یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم نے کراچی کے ساحلوں سے لے کر خنجراب کے پتھروں تک اسے اپنایا ہے۔ ہم اس وطن کے رہنے والے ہیں۔ ہماری دولت جدہ میں نہیں پڑی ہوئی۔ہماری جائیدادیں لندن میں نہیں بکھری ہوئیں! ہماری کلائیوں پر تین تین کروڑ کی گھڑیاں ہیں نہ ہمارے پینے کا پانی فرانس کے چشموں سے آتا ہے۔ ہمارے جسموں پر اسی وطن کی دھول ہے۔ ہم اس کے کھیتوں میں چلتے ہیں۔ ہم وہ نہیں جو اقتدار ختم ہو تو کلائیو، کرزن اور ولزلی کی طرح جہاز پر بیٹھ کر اپنے اصلی 55 وطن کو لوٹ جاتے ہیں!
کیا اس ملک میں کبھی کوئی پختون وزیر اعظم نہیں بنے گا؟ کیا یہاں سندھی وزیر اعظم پھانسیوں پر لٹکتے رہیں گے، گولیاں کھا کر گرتے رہیں گے اور پنجابی وزیر اعظم ہمیشہ انصاف کی بارگاہوں سے ریلیف پاتے رہیں گے؟ کیا اقتدار پر صرف ایک مخصوص پٹی کے مخصوص خاندان کی اجارہ داری رہے گی؟ کیا کراچی اور بلوچستان، کیا گلگت بلتستان سے کبھی کوئی حکمران نہیں بنے گا؟
کیا اس ملک میں قہقہے ہمیشہ محلات سے بلند ہوں گے؟ کیا محنت کشوں کے خون سے بھرے ہوئے ساغر چند خاندان ہی نوش کرتے رہیں گے؟ یہ نازک کلائیاں کب تک بچیں گی؟ یہ سر سے لے کر گردن تک اور ہاتھ سے لے کر پائوں تک زیورات میں لدی شہزادیاں کب تک اپنی وراثت کی دھونس جماتی رہیں گی؟ آخر ہماری ہڈیاں کب تک ان کے محلات کی بنیادوں میں اینٹوں کا کام دیں گی؟
اَلَیْسُ الصبح بقریب ؟ کیا صبح قریب نہیں آچکی!کیا سوہار تو کا خاندان، جو سارے کا سارا حکمران تھا، تاریخ کے کوڑے دان میں نہیں پھینک دیا گیا۔ کیا تیس برس کا عرصہ ایک خاندان کے کلی اقتدار کے لئے کم ہوتا ہے؟ کیا کم و بیش اتنا ہی عرصہ نہیں تھا جس کے بعد قذافی، حسنی مبارک کئی اور غروب ہو گئے! کیا رومانیہ کاچی شسکو تاحیات صدر رہ سکا!
مجید امجد نے کہا تھا ؎
سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
قصرو کلاہ و تخت کے سب سلسلے گئے
غرور و تکبر سے لتھڑے ہوئے خاندان دائمی اقتدار کے منصوبے باندھتے ہیں مگر ہوا اپنا رخ تبدیل کر لیتی 
ہے سب کچھ دھرا رہ جاتا ہے۔ وہ تدبیریں کرتے ہیں اور اللہ بھی تدبیریں کرتا ہے اور اللہ کی تدبیریں، ان کی تدبیروں پر حاوی ہو جاتی ہے!
اس قوم نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا کہ اسے ایسے حکمران کبھی نہ ملیں جو دولت سمیٹنے کی خواہش نہیں رکھتے! بھارتی صدر عبدالکلام جن دو ٹرالی بیگوں کے ساتھ ایوان صدر میں داخل ہوا تھا انہی کے ساتھ نکلا۔ سنگاپور کالیؔ قرا تو وصیت کر گیا کہ اس کا مکان، جو اس کا واحد اثاثہ تھا، منہدم کر دیا جائے تاکہ اس کی نگہداشت پر قوم کا خزانہ نہ خرچ ہو۔ من موہنی سنگھ وزارت عظمیٰ سے ہٹتا ہے تو اس کی الماری سے کپڑوں کے دو جوڑے برآمد ہوتے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم اپنی بیوی کے لئے پرانی گاڑی خریدتا ہے اور ٹیکس ، ڈاکخانے کی کھڑکی میں خود کھڑا ہو کر ادا کرتا ہے۔ وزارت عظمیٰ ختم ہوتی ہے تو اپنا سامان خود پیک کرتا ہے۔ اوبامہ قطار میں کھڑا ہو کر برگر خریدتا ہے(جی ہاں! کچھ حکمران ایسے بھی اس کرہ ارض پر پائے جاتے ہیں جو کھانے میں صرف ایک برگر یا اتنی ہی مقدار کی کوئی اور شے کھانے پر اکتفا کرتے ہیں!)
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ اس ملک میں، جہاں جمہوریت، خاندانوں کی کنیز ہے، وقت کے وزیر اعظم کو ایک نہیں ، دو جج معزول کرنے کا حکم دیں گے اور بآواز بلند کہیں گے کہ یہ صادق ہے نہ امین! 
تو اگر یہ ہو سکتا ہے تو پھر شہزادی بھی ہم پر حکومت کرکے دیکھ لے!! ؎
وادی قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ
سربکف ہو کے جوانانِ وطن نکلیں گے

Sunday, April 16, 2017

فراز! راحت جاں بھی وہی ہے! کیا کیجے



یورپی ملکوں کے سفیروں کو شاہ عباس صفوی کے دربار میں ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش 
تھا کہ وہ گھنٹوں، قالین پر، آلتی پالتی مار کر، نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ دربار میں سلطنت عثمانیہ کا سفیر بھی موجود تھا۔ اس نے ایرانی بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ قسطنطنیہ میں یورپی تاجروں کے گھروں میں جاتا رہتا ہے اور وہاں اس نے یہ نوٹ کیا ہے کہ انگریز سٹول پر بیٹھتے ہیں۔ بادشاہ نے یورپی سفیروں کو دربار میں سٹول پر بیٹھنے کی اجازت تو دے دی مگر ترک سفیر کی مداخلت اسے پسند نہ آئی۔ یوں بھی وہ ترک سفیر کے سامنے سلطنت عثمانیہ کی تضحیک کا کوئی موقع گنواتا نہ تھا۔ یورپی سفیروں کو جام صحت تجویز کرتے ہوئے اس نے کہا میں ایک نصرانی کے جوتے کی بھی بہترین ترک کی نسبت زیادہ عزت کرتا ہوں۔
شاہ عباس اول کا عہد حکومت ء سے ء تک رہا۔ یہ زمانہ ہندوستان میں اکبر اور جہاں گیر کا تھا۔ شاہ عباس تاریخ میں مضبوط عہد حکومت اور اصلاحات کی وجہ سے عباس اعظم (عباس بزرگ) کے طور پر جانا جاتا ہے مگر تین کام اس نے اور بھی کئے۔ اول۔ مسلک کو سرکاری طور پر اپنایا اور سنیوں کی کثیر تعداد کو اپنے مسلک پر، جیسے بھی، جس طرح بھی، لا کر رہا۔ دوم۔ مغرب میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف اور شمال میں ازبکوں کے خلاف مسلسل برسر پیکار رہا۔ قتدھار کی وجہ سے مغلوں سے بھی ان بن ہی رہی۔ یہ تینوں طاقتیں (ترک، ازبک اور مغل) سنی تھے! سوم۔ اس نے سالہا سال تک یورپی طاقتوں سے صرف اس مسئلے پر ایلچیوں کا تبادلہ کیا کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف اس کی مدد کریں۔ وہ اپنے سارے عہد اقتدار میں یہی خواب دیکھتا رہا کہ ہسپانیہ اور دوسری یورپی سلطنتیں مغرب سے ترکوں پر حملہ کریں تو ایران مشرق سے حملہ کر کے ترکوں کو نیست و نابود کردے۔
معروف پرتگالی پادری ڈی گُوو، یا  کئی بار پوپ کی طرف سے سفارت لے کر شاہ عباس کے پاس گیا۔ ہندوستان کے جنوب مغربی ساحل کے علاقے گوا پر اس وقت تک پرتگالی قابض ہو چکے تھے۔ گوا کے وائسرائے نے اس نامہ و پیام میں اور ترکوں کے خلاف ایران اور یورپ کے اتحاد میں اہم کردار ادا کیا۔ پرتگال اور ہسپانیہ کی طرف سے ایلچی گوا ہی سے جاتے تھے۔ شاہ عباس نے بے صبری میں یکے بعد دیگرے کئی ایلچی ہسپانیہ بھیج ڈالے۔ ڈی گوویا نے وجہ پوچھی تو شاہ عباس کا جواب تھا کہ وہ عیسائی بادشاہوں پر دبائو ڈالنا چاہتا ہے تاکہ وہ ترکوں پر جلد از جلد حملہ کریں۔ اس نے یورپی تاجروں اور سفیروں کو جید شیعہ علماء کی موجودگی میں شراب بھی پیش کروائی۔ علماء نے مخالفت کی مگر شاہ کے نزدیک یورپی عمائدین کو خوش کرنا اس لئے ضروری تھا کہ وہ ترکوں کے خلاف، شاہ کے حلیف ہیں۔ حالانکہ ان دنوں رمضان کا مہینہ بھی تھا۔ پھر اسی نے ڈی گوویا کو ہدایت کی کہ شاہ کی ان خدمات کا پوپ سے ضرور تذکرہ کیا جائے۔
شاہ عباس کا خصوصی سفیر زینل بیگ چھ سال تک یورپی بادشاہوں کے درباروں میں پھرتا رہا۔ آخر تنگ آ کر اس نے اپنے بادشاہ کو صاف صاف لکھ بھیجا کہ عیسائی طاقتیں ایرانی بادشاہ کو جھوٹے دلاسے دے رہی ہیں اور غیر سنجیدہ وعدے کر رہی ہیں۔ زینل بیگ نے یہ بھی بتایا کہ یورپی ملک چاہتے ہیں کہ ایرانی اور ترکی آپس میں لڑ کر تباہ ہو جائیں تاکہ مسلمانوں کا قصہ ہی تمام ہو جائے۔ مگر زینل بیگ کی اس صاف گوئی کا کوئی اثر شاہ عباس پر نہ پڑا۔ اس نے پوپ کو خط لکھا کہ وہ حلب پر حملہ کرے جو ترکوں کے پاس تھا۔ پوپ کا جوابی خط پڑھا گیا تو شاہ عباس نے سارے سفارتی آداب بالائے طاق رکھ کر سفیروں کے سامنے غیض و غضب کا اظہار کیا کہ پوپ صرف الفاظ کے تحفے بھیج رہا ہے اور ترکوں پر اس نے ابھی تک حملہ نہیں کیا۔ پھر اس نے پوپ پر ایک اور دانہ ڈالا تم ترکوں پر حملہ کرو تو میں بیت المقدس ان سے چھین کر تمہارے حوالے کردوں گا۔میں اس نے روس، پولینڈ اور اٹلی کے درباروں میں سفارتیں بھیجیں کہ وہ ترکوں پر حملہ کریں مگر اس کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا!
یہ ہے وہ پس منظر جس میں عزیر بلوچ کے معاملے پر غور کرنا چاہیے۔ حاجی ناصر نے عزیر بلوچ کی ایرانی حکام سے ملاقات کرائی تو انہوں نے عزیر کو ایرانی شہریت کی پیش کش کی بشرطیکہ عزیر ایرانی خفیہ ایجنسیوں کو کراچی کی سکیورٹی اور عسکری عہدیداروں کے حوالے سے اہم معلومات اور نقشے مہیا کرے۔ ہم پاکستانی یہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں کہ ایران ہمارا دوست ملک ہے۔ مگر کیا دوست ملک اس قسم کے خفیہ آپریشن، ایک دوست ملک کے خلاف کرتے ہیں؟؟
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہولیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو
کیا ہم تصور کرسکتے ہیں کہ ترکی، سعودی عرب یا چین ہمارے ساتھ یہ حسن سلوک کریں گے؟
کلبھوشن یادیو پکڑا گیا تو معلوم ہوا اس کا مستقر چاہ 
بہار تھا۔ ہم نے خوش گمانی کو غنیمت جانا کہ یہ سب کچھ ایرانی حکومت کے علم میں نہ 
ہوگا۔ مگر خوش گمانیاں کب تک؟ اگر ایک ملک ہماری سکیورٹی کی اطلاعات، خفیہ اور انتہائی ناجائز طریقے سے حاصل کرسکتا ہے تو وہ کلبھوشن جیسے جاسوسوں کی سرپرستی کیوں نہیں کرسکتا! مگر ہمیں چاہیے کہ ہم خوش گمانی کو اب بھی رد نہ کریں۔ خُدا کرے حقیقت یہی ہو کہ کلبھوشن کے معاملے کا ایرانی حکام کو علم نہ تھا!
جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب میں تعیناتی پر اسی حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ عزیز بلوچ کے انکشاف سے دو ہفتے پہلے ٹیلی ویژن پر جب یہ بحث چھڑی تو اس کالم نگار نے پوچھا کہ اگر ہم جنرل راحیل شریف کو اس تعیناتی پر نہ بھیجیں تو کیا ایران کا جھکائو بھارت کی طرف کم ہو جائے گا؟ مگر اس کے جواب میں وہی اسلامی اخوت والی کہانی سنائی گئی اور اس بات کی نفی کی گئی کہ ایران کا جھکائو بھارت کی طرف ہے۔ لاعلمی نعمت ہے اور کلفت کا باعث بھی ہے۔ کسی کوشک ہو تو دہلی میں ایرانی سفارت خانے کی مطبوعات دیکھے اور اندازہ لگائے کہ ایران اور بھارت کی قربت کس درجے کی ہے۔ ایرانی مطبوعات مغلوں کے کلچر، آرٹ، زبان اور تعمیرات کی جانشینی کا سہرا بھارت کے سرباندھتی ہیں، یہ اعزاز پاکستان کو نہیں دیتیں۔ بھارت، ہندوستان کے مسلم عہد کا کیسا جانشین ہے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے کہ دو سال پیشتر، بھارتی قوم جمہوریہ پر کرناٹک کے صوبے نے، اپنے فلوٹ پر سلطان ٹیپو شہید کا مجسمہ لگایا۔ اس پر وہ احتجاج ہوا کہ الامان والحفیظ! چند گھنٹوں میں سوشل میڈیا پر لاکھوں بھارتیوں نے احتجاج کیا حالانکہ کرناٹک کی حکومت ہندو ہے۔ چونکہ میسور اب کرناٹک کا حصہ ہے اس لئے انہوں نے ایک تاریخی حقیقت کا اعتراف کیا مگر ان کی اکثریت اسے گوارا نہ کرسکی۔
مسلمان ملکوں کی متحدہ سپاہ کا رخ اگر ایران یا کسی اور مسلمان ملک کی طرف ہو گا تو پاکستان ہرگز ہرگز اپنے کسی جرنیل کو اس سپاہ میں تعینات نہیں کرے گا۔ جنرل راحیل شریف ایک متوازن طاقت کا کردار ادا کریں گے۔ عربوں اور ایرانیوں کا باہمی فاصلہ کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایران کی خوشنودی کی خاطر پاکستان اپنے جرنیل کو اس سپاہ میں نہیں بھیجتا تو کیا ایران کشمیر کے معاملے میں ہمارا کھل کر ساتھ دے گا؟ اور کیا وہ بھارت کی طرف اپنا واضح جھکائو کم کرے گا؟
ایران سے ہمارا صدیوں کا رشتہ ہے۔ ہم ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ؎
بامن آویزشِ اُو الفت موج است و کنار
دمبدم بامن و ہرلحظہ گریزان از من
ہمارا اور ایران کا تعلق وہی ہے جو موج کا ساحل کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابھی گلے مل رہے ہیں اور ابھی دور دور ہیں! شاہ طہماسپ نے (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
ہمایوں کی میزبانی کی اور مدد بھی۔ مغل بادشاہوں کے دربار میں ملک الشعراء ہمیشہ ایرانی شاعر ہوتے تھے۔ نظیری نیشا پوری، ابو طالب کلیم، طالب آملی، صائب، یہ تو چند نام ہیں۔ پورے مغل عہد اور پھر سلطنت آصفیہ کے زمانے میں ایران سے شاعروں، ادیبوں، علماء، تاجروں اور جرنیلوں کا تانتا بندھا رہا۔ حیدر آباد دکن میں ایرانی گلی کے نام سے پورا محلہ ایرانیوں کا تھا! ہم ایران سے133 فارسی بولنے والے ایران سے133 دور کیسے ہو سکتے ہیں؟ افسوس! ہم آج خسرو، بیدل، نظیری، فیضی، ابوالفضل،غالب اور اقبال کے فارسی کلام سے ناآشنا ہیں۔ ان سب کو ایرانی سر آنکھوں پر رکھتا ہے۔ ہمیں ایران کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اپنی جس ادبی اور ثقافتی میراث سے ہم منہ موڑ چکے ہیں، ایران نے اسے سنبھالا ہوا ہے اور اس کی حفاظت کر رہا ہے ؎
فراز راحت جاں بھی وہی ہے کیا کیجئے
وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے
مگر ملکی سالمیت کے تقاضے اور ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایران رفتہ کو گزشتہ جان کر ہمارے ساتھ تجدید عہد کرے گا۔ یوں بھی ایران کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت کبھی بھی اس کا خیر اندیش نہیں ہو سکتا!
اور ہاں! یہ غلط فہمی بھی کسی کو نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستانی مسلک کی بنیاد پر اپنے ملک کے بجائے کسی اور کی طرف داری کریں گے۔ حاشا و کلاّ۔ پاکستانی، جس مسلک کا بھی ہو، اس کی اولین وفاداری اپنے ملک کے ساتھ ہے! کسی پڑوسی ملک کے ساتھ ہے نہ مشرق وسطیٰ کے کسی ملک کے ساتھ! پاکستانی بڑی سے بڑی غلطی کر سکتا ہے مگر اپنی مٹی سے بے وفائی نہیں کر سکتا!

 

powered by worldwanders.com