Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, March 06, 2017

یہ لوگ تھے اس سے پہلے خوشحال

           چوری نہ جانے کس نے کی تھی لیکن شک ملازمہ پر تھا۔ بیگم صاحبہ نے ماضی میں بھی کئی بار ملازمہ پر چوری کا الزام لگایا تھا۔ ایک بار انگوٹھی گم ہوئی، ملازمہ سے خوب پوچھ گچھ ہوئی اور یہ طے کر لیا گیا کہ وہی چور ہے، یہ اور بات کہ تین ماہ بعد انگوٹھی الماری میں رکھے کپڑوں سے ملی۔
اب کے معاملہ زیادہ گمبھیر تھا۔ سونے کا پورا سیٹ غائب تھا۔ بیگم صاحبہ کا ایک بیٹا ہیروئن کے نرغے میں تھا۔ اس پر کسی نے شک نہیں کیا! تھانے والے آئے‘ گھر کا رائونڈ لیا اور ملازمہ کو لے گئے۔ اس کے ایک کمرے والے گھر کی کئی بار تلاشی لی گئی۔ وہاں ہوتا تو ملتا۔ پولیس نے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ رات کو سونے دیا جاتا نہ دن کو روشنی نصیب ہوتی۔ کبھی کبھی بس پانی کے دو گھونٹ اور مٹی والے آٹے کی روٹی کے چند نوالے۔
اُس دن صبح صبح اُسے تھانے کی ڈیوڑھی میں بٹھا دیا گیا۔ تھانے والوں کا خیال تھا کہ کھلی ہوا میں شاید اس کی چیخ و پکار کم ہو جائے۔ اُسی وقت مولوی صاحب تھانیدار کو ملنے آ گئے۔ ہاتھ میں تسبیح‘ سر پر دستار‘ شلوار ٹخنوں سے اونچی۔ اس قدر کہ پنڈلیاں آدھی کھلی ہوئیں۔ ملازمہ ان کے راستے میں بیٹھی تھی۔ چہرہ زخموں سے بدحال‘ صورت مسخ‘ آنکھوں کے اردگرد نیل‘ ناک سے اُس وقت بھی خون بہہ رہا تھا۔ شاید ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔ سلگتے سگریٹ سے داغی ہوئی ہتھیلیوں کی پشت سے کھال اُدھڑی اُدھڑی سی لگ رہی تھی۔ مولوی صاحب نے دیکھا‘ دیکھتے ہی ان کی پیشانی شکنوں سے اٹ گئی۔ لاحول ولا قوۃ۔ اس کے پاس آئے ’’بدبخت! سر تمہارا ننگا ہے۔ تمہیں آخرت کا کچھ خیال نہیں‘ معلوم ہے ننگے سر بیٹھنا کتنا سخت گناہ ہے؟ شیطان حاوی ہو جاتا ہے‘ فرشتے دور ہو جاتے ہیں‘‘۔ ملازمہ کی چیتھڑا نما اوڑھنی خون میں لت پت ہو چکی تھی۔
اس واقعہ کا مرکزی خیال نجم حسین سید کے ایک پنجابی ڈرامے کا موضوع ہے۔ مولوی صاحب کو اس سے کیا غرض کہ مظلوم پر کیا بیت رہی ہے۔ مذہب کے حوالے سے ان کا سارا فہم اوڑھنی سے شروع ہوتا تھا اور ننگے سر پر ختم ہو جاتا تھا۔
ایسا ہی ایک واقعہ کسی زمانے میں حرم کعبہ میں پیش آیا۔ ایک کوفی حالت احرام میں تھا۔ اُس سے ایک مچھر مر گیا۔ مفتی صاحب کے پاس حاضر ہوا اور مسئلہ پوچھا۔ مفتی صاحب نے فرمایا‘ خدا تمہیں ہدایت دے۔ تم کوفیوں نے سبط رسولؐ کو شہید کر دیا۔ اُس وقت شریعت کا خیال نہ آیا، مچھر مرنے پر تمہارا اسلام بیدار ہو گیا ہے!
شاید اسی سے وہ محاورہ بنا۔۔۔۔ مچھروں کو چھاننا اور اونٹوں کو نگلنا! ایک بادشاہ ان دنوں انڈونیشیا کے دورے پر ہیں۔ انڈونیشیا مسلمان ملک ہے مگر اس کے جزیرہ بالی میں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ بالی ایک خوبصورت‘ سحر آگیں‘ دلکش جزیرہ ہے۔ دنیا بھر کے سیاح یہاں آتے ہیں اور سیر کرتے ہیں۔ میڈ مانگ کُو پاستیکا جزیرے کا منتخب گورنر ہے۔ بادشاہ سلامت نے ایک ہفتہ بالی میں گزارنا ہے۔ ان کا سامان پانچ سو ٹن پر مشتمل ہے۔ ساتھ وزیروں اور شاہی خاندان کے افراد پر مشتمل پندرہ سوکا وفد ہے۔ بالی کے خوبصورت ترین اور گراں ترین حصے میں قیام کے لیے پانچ لگژری ہوٹل بُک کیے گئے ہیں۔ جہاز سے اترنے اور چڑھنے کے لیے سیڑھی ساتھ لائی گئی ہے جو سنہری رنگ کی ہے۔ دو ہوائی جہاز صرف سامان ڈھونے کے لیے مختص ہیں۔ کراکری‘ قالین اور صوفے ساتھ ہیں۔ دو بلٹ پروف مرسڈیز ہمراہ ہیں۔ اسّی انچ سکرین کا ٹیلی ویژن سیٹ ساتھ لائے ہیں۔ دوران قیام تین سو ساٹھ گاڑیاں استعمال میں رہیں گی۔ سارے قافلے اور سامان کو جکارتہ پہنچانے کے لیے ستائیس پروازیں اڑیں گی اور نو ہوائی جہاز بالی پہنچانے کے لیے استعمال ہوں گے۔
اس طرز زندگی کے بارے میں اسلام کا رویہ کیا ہے؟ اسلامی احکام کیا ہیں؟ یہ ساری دولت اگر ملکی وسائل سے آئی ہے تو کیا اسلام ایک فرد کو یا اس کے خاندان کو ان کے عیاشانہ استعمال کی اجازت دیتا ہے؟ کیا زمین سے نکلنے والی معدنیات (سونا، چاندی، تیل) ایک فرد‘ ایک خاندان کی ملکیت ہوں گی یا ریاست کے ذریعے تمام باشندوں کا ان پر حق ہو گا؟ کیا بادشاہ سلامت کی مُتعیِّشانہ طرز زندگی تبذیر کے احکام میں آئے گی؟ اسلامی فقہ میں ایک قانون‘ قانون تحدید (Limitation)
 بھی ہے جس کی رُو سے ریاست ملکیت کی حد مقرر کر سکتی ہے۔ پھر دولت کا بے تحاشا استعمال عام افراد کی نفسیات پر حوصلہ شکن اثرات ڈالے تو ریاست اس پر قبضہ بھی کر سکتی ہے۔ فقہ میں ایک قانون حجر بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے انسانوں کو اُن کا اپنا مال خرچ کرنے سے اُس وقت روک دینا جب سوسائٹی کو نقصان ہو رہا ہو۔ فقہ کی معروف کتاب ’ہدایہ‘ کے شارح سید جلال الدین خوارزمی نے ’’اُڑنے والے کبوتروں کو بھاری قیمت دے کر خریدنے‘‘ کو بھی سفہ میں شامل کیا ہے۔ سفہ کا مطلب ’’مالی فساد‘‘ ہے (آج کل جیسے مشرق وسطیٰ میں باز اور عقاب کی خریداری ہے۔) مالکی فقہ کی رُو سے اگر مالدار تبذیر پر اتر آئے تو اس پر حجر کیا جا سکتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ یعنی اسے اپنا مال خرچ کرنے سے منع کیا جا سکتا ہے۔ اپنے مال کو غلط استعمال کرنے والا سفیہہ اور اور مُفسد قرار دیا جائے گا۔ اس کے خرید و فروخت اور انتقال ملکیت کے حق پر پابندی عائد کی جائے گی۔ چاروں فقہی مکاتب اس پر متفق ہیں۔ امیر المومنین عمر فاروقؓ نے کوفہ بستے وقت حکم دیا کہ کوئی ایک فرد تین سے زیادہ مکان تعمیر نہ کرے۔
حد سے زیادہ تبذیر کی فکر تو کسی کو نہ ہوئی مگر یہ فرمائش کی گئی کہ بالی کے گلی کوچوں، شاہراہوں اور چورستوں پر جو مجسمے اور بُت نصب ہیں‘ انہیں ڈھانپ دیا جائے! جب اونٹ نگلے جا رہے ہوں تو مچھروں کو چھاننا ضروری ہو جاتا ہے! آخر تقویٰ بھی کوئی شے ہے یا نہیں! مگر۔۔۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! بالی کے گورنر یاستیکا نے یہ ’’فرمائش‘‘ ماننے سے انکار کر دیا۔ 
’’بالی اس لیے مشہور ہے کہ یہاں آرام میسر ہے‘ محفوظ ہے اور یہاں برداشت پائی جاتی ہے! چنانچہ ہم مجسموں کو نہیں ڈھانکیں گے‘‘ گورنر نے بیان جاری کیا۔
بعض لوگ  یہ نتیجہ ہرگز نہ نکالیں کہ ہم مجسموں کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ مجسموں اور بتوں کے حوالے سے اسلام کے اپنے احکام ہیں جن پر ضرور عمل پیرا ہونا چاہیے۔ تاہم یہاں جس پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ یہ ہے کہ ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھُو‘‘ کی پالیسی کو اسلام بلکہ کوئی مذہب بھی برداشت نہیں کرتا۔ اسلام نے تو واضح طور پر کہہ دیا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو۔ مجسمے ناجائز ہیں مگر تبذیر اور حد سے زیادہ اسراف بھی تو ناجائز ہیں۔ ایسا معیار زندگی جسے دیکھ کر لوگوں کو دُکھ ہو‘ وہ بھی ریاست کے وسائل سے! عوام کے مال سے! ایسے معیار زندگی کا کیا جواز ہے؟
’’اور بائیں بازو والے! بائیں بازو والوں کی بدنصیبی کا کیا پوچھنا! تیز بھاپ میں‘ اور جلتے پانی میں‘ اور دھوئیں کے سائے میں! جو ٹھنڈا ہو گا نہ آرام دہ! یہ لوگ تھے اس سے پہلے خوشحال!!‘‘

Saturday, March 04, 2017

لکڑی کا پاؤں سخت بے وقعت ہوتا ہے


تو پھر کرکٹ کا میچ بھی نہ ہو کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے!

دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا عوام ذمہ دار ہیں؟ اسّی ہزار غیر ملکی۔۔۔۔ مسلّح غیر ملکی۔۔۔۔ صوبائی دارالحکومت میں بس گئے۔ حکومت دیکھتی رہی۔ تو پھر کیا عوام اس لیے کرکٹ کو طلاق دے دیں کہ حکومت اپنے فرائض سرانجام نہیں دے رہی؟
فیروز والہ منشیات کا مرکز بن چکا ہے۔ حکومت بے خبر ہے۔ تو پھر سزا عوام کاٹیں؟
دہشت گردی اس وقت تک رہے گی جب تک انحصار فوجی ایکشن پر ہے اور سول ادارے نااہلی اور کرپشن کا گڑھ ہیں۔ یہ دہشت گردی پانچ سال بھی رہ سکتی ہے اور یہی لچھن رہے تو خدانخواستہ بیس برس بھی رہ سکتی ہے تو پھر کیا بیس برس کرکٹ کے میچ نہیں ہوں گے؟
اس سے بڑھ کر حکومتوں کی نااہلی کیا ہو گی کہ ہزاروں نہیں لاکھوں غیر ملکی ملک کے اطراف و اکناف میں جائدادیں خرید کر اور کاروبار پھیلا کر بے خوف و خطر بیٹھے ہیں اور حکومت کو ہوش ہی نہیں! لاکھوں تعلیمی اداروں کی اقامت گاہوں میں حکومت کا نہ ہی ریاست کا عمل دخل ہے کہ راتوں کو وہاں کون قیام کرتا ہے۔ جس حکومت کے بس میں اتنا نہ ہو کہ وہ یونیورسٹیوں کے کیمپوں اور ہوسٹلوں کو سیاسی پارٹیوں کا مرکز نہ بننے دے‘ وہ حکومت دہشت گردی سے کیا لڑے گی؟ تو پھر کیا اس لامتناہی نااہلیت کا جرم عوام بھگتتے رہیں گے؟
رہی یہ دلیل کہ کرفیو لگا کر تو شام اور عراق میں بھی میچ کھیلا جا سکتا ہے تو یہ ایک بودی دلیل ہے    ؎
پائے استدلالیاں چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود
دلیلیں لانے والوں کا پائوں لکڑی کا ہوتا ہے اور لکڑی کا پائوں سخت کمزور اور بے وقعت ہوتا ہے۔
میچ کی مخالفت کر کے آپ ایک بار پھر ان کی ہم نوائی کر رہے ہیں جنہوں نے مذاکرات میں آپ کو اپنا نمائندہ نامزد کیا تھا‘ جن کے خلاف سوات میں آرمی ایکشن ہوا‘ تو آپ نے مخالفت کی اور جنہیں آپ اپنے صوبے میں دفاتر مہیا کرنے چاہتے تھے۔ کوئی برا مانے یا پائوں زور سے زمین پر مارے، سچ یہ ہے کہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کے بارے میں عمران خان کے تصورات 
(Concepts)
 ابہام کا شکار ہیں۔ وہ سخت لاعلمی میں گھرے ہیں۔ تیس کروڑ روپے ایسے مدرسہ کو دیے جس کے سربراہ بابائے طالبان کہلاتے ہیں  اور لکڑی کی دلیل یہ دی گئی کہ مدارس کو مین سٹریم میں لائیں گے۔ آج تک خان صاحب اس سوال کا جواب نہیں دے سکے کہ مین سٹریم سے ان کی کیا مراد ہے؟ اس کی تعریف ہی کر دیتے! اور پھر ایک خاص مدرسہ کا انتخاب! ایک خاص مسلک کے مدرسہ کا انتخاب! کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں آپ؟ عوام تو بننے سے رہے!
یہی تو دہشت گرد چاہتے ہیں کہ عوام نفسیاتی طور پر ٹوٹ جائیں۔ شکست و ریخت کا شکار ہو جائیں۔ یاس کی چادر پورے ملک پر تن جائے اور قائد اعظم کو آج بھی جناح صاحب کہنے والوں کی باچھیں کِھل جائیں! ’’مین سٹریم‘‘ کی تسبیح کرنے والے عمران خان صاحب صرف اتنا ہی کر دکھائیں کہ جس تعلیمی ادارے کو تیس کروڑ کی خطیر رقم عوام کے خون پسینے کی کمائی سے مہیا کی ہے‘ وہاں کے نصاب میں ایک باب قائد اعظم کے حالات پر شامل کرا دیں! کبھی نہیں کرا سکیں گے!
اس سے پہلے بسنت پر پابندی لگا دی گئی۔ اس لیے کہ لوگوں کے گلے کٹتے ہیں۔ تو پھر گاڑیوں پر پابندی لگا دیجیے کہ حادثات ہوتے ہیں! ہسپتالوں کو ختم کر دیجیے کہ یہاں مریض مر جاتے ہیں۔ ہوائی سفر کرنے والے کو حوالہ زنداں کر دیجیے کہ جہاز تو گر پڑتے ہیں! ارے بھائی! گلے کٹتے ہیں تو حکومت کا کیا کردار ہے؟ پولیس کے ہزاروں نوجوانوں کو شاہی محلات کی حفاظت سے ہٹا کر یہ ڈیوٹی دیجیے کہ وہ قاتل ڈور تیار کرنے والوں کو پکڑیں۔ ٹوپی چھوٹی ہو تو سر کاٹ کر چھوٹا نہیں کرتے بلکہ ٹوپی کو بڑا کرتے ہیں۔
شام اور عراق سے تشبیہ دنیا ہی غلط ہے۔ الحمد للہ پاکستان کے پاس جو مسلح افواج ہیں‘ ان کا شام اور عراق میں تصوّر ہی نہیں! ہاں اگر یہ بات مان لی جائے کہ فوج کوئی ایکشن نہ کرے اور اگر ایک خاص قبیل کے باقی تعلیمی اداروں کو بھی تیس تیس کروڑ دیے جائیں تو پھر میرے منہ میں خاک۔۔۔۔ شام اور عراق بننے میں دیر نہیں لگے گی!
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے! پانچ سال بعد ہی سہی‘ یہ فیصلہ تو ہوا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے یہ فیصلہ کر کے تاریخ کا کم از کم ایک صفحہ اپنے لیے ضرور ریزرو کرا لیا ہے! دیر آید درست آید! یہ کام عشروں پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ قبائلی علاقوں کو الگ تھلگ‘اچھوت بنا کر رکھنا برطانوی استعمار کی ضرورت تھی اور مجبوری! بدقسمتی سے یہ استعمار‘ پولیٹیکل ایجنٹوں کی شکل میں تقسیم کے بعد بھی جاری رہا۔ یہ پولیٹیکل ایجنٹ چند چیدہ چیدہ ملکوں اور خانوں کی جیبوں میں رقوم ڈالتے تھے۔ کوئی حساب کتاب تھا نہ آڈٹ نہ اکائونٹنگ! عام قبائلی پستا ہی رہا۔ ضم ہونے کے بعد کم از کم صوبے کے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور دیگر سہولیات پر قبائلی عوام کا قانونی حق تو ہو گا۔
جو سیاسی قوتیں اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں‘ وہ کتنی ثقہ ہیں اور کتنے پانی میں ہیں؟ عوام اچھی طرح جانتے ہیں! مولانا نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ کر کے عوام سے دھوکا کیا گیا ہے۔ کیا دھوکا کیا گیا ہے؟ اس کی تفصیل ان کے پاس نہیں ہے۔ ان کا تو فاٹا سے تعلق ہی نہیں۔ فاٹا کے منتخب نمائندے اس فیصلے کے حق میں ہیں۔ فاٹا کے ان خود ساختہ خیر خواہوں نے آج تک فاٹا کی تعلیم‘ زراعت اور صنعت و حرفت کے لیے آواز نہیں بلند کی! یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ قبائل کے عوام پس ماندگی کے کنوئیں سے باہر نہ نکلیں اور ووٹ ان قوتوں ہی کو دیتی رہیں۔ ان قوتوں کا چراغ غربت، ناخواندگی اور معاشی پس ماندگی میں جلتا ہے۔ فاٹا میں کالج اور یونیورسٹیاں بن گئیں‘ کارخانے لگ گئے‘ ٹریکٹر اور مشینیں زراعت کو جدید کرنا شروع ہو گئیں‘ شاپنگ مال بن گئے، لائبریریاں قائم ہو گئیں تو مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب کو کون پوچھے گا؟
قبائلی عوام کا بہت استحصال ہوا ہے۔ معاشی استحصال‘ سیاسی استحصال ‘ نسلی استحصال‘ لسانی استحصال اور جذباتی استحصال! سینکڑوں برس ہو گئے، یہ استحصال ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پہلے انگریزوں نے ان تمام تبدیلیوں سے انہیں محروم رکھا جو برصغیر میں ہوئیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد بھی یہی پالیسیاں جاری رہیں۔ جنوبی وزیرستان سے لے کر باجوڑ تک ستر برسوں میں کوئی کالج، کوئی یونیورسٹی نہ بنی۔ کوئی صنعتی یونٹ نہ لگا۔ پشتون قومیت فروخت کرنے والے چادر پوشوں کو اس پسماندگی سے کوئی غرض نہیں ۔ یہ چادر پوش، یہ دستار پوش صرف اور صرف اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صرف دکانیں چمکانا چاہتے ہیں، یہ صرف پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنی پسندیدہ وزارتوں پر اپنے گماشتے نصب کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فقط مراعات کے طلب گار ہیں۔ یہ پروٹوکول کے بھوکے ہیں۔ یہ اقتدار کے برآمدوں میں طاقت کے کندھوں کے ساتھ اپنے کندھے رگڑنا چاہتے ہیں۔ یہ اپنے بھائیوں‘ برادر زادوں‘ اقربا اور اعزہ کو فائدے پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان سے تو عام پختون ہفتوں مہینوں کوشش کرتا رہے ملاقات تک نہیں کر سکتا۔
فاٹا کا انضمام اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن ہے۔ ہر بالغ نظر پاکستانی اس کا استقبال کرتا ہے۔

 

powered by worldwanders.com