اس کا رنگ کالا ہے۔سفید فام دنیا میں کہیں بھی چھپ نہیں سکتا۔ پھر مالک نے اپنی شناخت کے لیے اس کے ماتھے پر،رخساروں پر،اور ناک پر ،لوہے کی گرم سلاخوں سے خصوصی نشان بھی بنا رکھے ہیں ۔
بھاگنے کی کوشش کی تو کچھ ہفتوں بعد پکڑا گیا۔سزا کے طور پر ایک پاؤں کاٹ دیا گیا۔ پھر ایک دن ایک سوداگر آیا غلاموں کو خریدنے اور بیچنے والا سوداگر ۔۔اسے اس کی بیوی پسند آگئی ۔اس نے مالک کو رقم دےی ۔اس کی بیوی کو باندھا اور گھوڑا گاڑی کے عقبی حصے میں ڈال کر لے گیا۔ دونوں میاں بیوی چیختے ،چلاتے ،بلبلاتے ،ہچکیاں لیتے رہ گئے۔
یہ جسمانی غلامی تھی۔ اس غلامی میں ایک خصوصیت بہر حال تھی اور وہ یہ کہ یہ جسمانی غلام بھاگنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ آزادی کی ایک چنگاری ان کے نہاں خانہ دل میں کہیں نہ کہیں روشن ضرور رہتی تھی۔سیاہ فام امریکی غلاموں کی تاریخ ان چنگاریوں ،ان شعلوں اور ان روشنیوں سے جگمگا رہی ہے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جسمانی غلامی کے مقابلے میں ذہنی غلامی ہزار ردجہ بدتر ہے؟ اس لیے کہ ذہنی غلامی سراسر رضاکارانہ ہوتی ہے، اس میں زنجیر ہے نہ رخساروں پر گرم سلاخوں سے بنے ہوئےشناختی نشان،نہ پاؤں کاٹنے کی سزا ،خریدو فروخت نہ کوڑے۔
اس ذہنی غلامی کی ایک بدترین مثال چار دن پہلے میڈیا میں نظر آئی۔ ایک صوبے کے والی سے پوچھا گیا کہ آپ کے ہاں وزیراعظم کی تصویر کے بجائے یہ جو سابق”نااہل”وزیراعظم کی تصویر اب بھی لگی ہوئی ہےتو اس کا کیا سبب ہے۔اس پر حکمران نے جواب دیا کہ میرے وزیراعظم اب بھی وہی ہیں ۔
اب یہ کون پوچھے کہ کیا آپ کی فائلیں اب بھی انہی صاحب کے پاس جاتی ہیں ۔جو ملک کے نہیں ‘صرف آپ کے وزیراعظم ہیں ؟اور اگر آپ کے وزیراعظم اب بھی وہی ہیں اور سرکاری دستاویزات پر دستخط خاقان عباسی صاحب کے ہیں تو پھر تو یہ سلسلہ ہی غیر قانونی ہے۔احکام کسی اور سے’منظوری یا انکار کسی ور کا اور وزیرعظم کوئی اور ۔
اس ذہنی غلامی کو آپ مفادات کا شاخسانہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔وزیراعلی ہونے کے بعد اور کیا درکار ہے۔وزیراعظم بننے کا خواب تو خود بھی نہ دیکھا ہوگا۔نہیں ‘ مفادات کا کھیل نہیں۔یہ سراسر اور محض ذہنی غلامی ہے۔جس کا بت ذہن میں اور دل میں براجمان کردیا گیا ،اب اس کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ آجائے یا آسمان سے کوئی دلیل اتر آئے۔اس ذہنی غلامی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا - یہ بنیادی طور پر قبائلی طرز فکر ہے- قبیلہ ہر حال میں سردار کا وفادار رہتا ہے -اس ذہنی غلامی کا پھر بھی جواز ہے۔وہ جدید دنیا سے دور ہے۔ تعلیم نہیں،جمہوریت پارلیمنٹ،عدلیہ ،یہ سب وہاں مفقود ہیں مگر ایک صوبے کا پڑھا لکھا حکمران ذہنی غلامی میں مبتلا ہو، تو کوئی دلیل اس کے حق میں نہیں دی جاسکتی۔ہاں !ہمدردی کی جاسکتی ہےیا افسوس۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ذہنی غلام ‘اپنے آقا کی ہر غلطی کا دفاع یوں کرتے ہیں جیسے کفر و ایماں کا مسئلہ ہو۔ حال ہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جو شور مچایا ہے کہ وفاقی وزارتِ خزانہ نے 9 ارب روپے کی خطیر رقم داماد اول جناب کیپٹن صفدر کے حوالے کیوں کی’تو ذہنی غلام اس کے حق میں عجیب و غریب دلائل دیں گے۔مثلاً یہ کہ وہ آخر اسمبلی کے رکن ہیں ۔یا یہ کہ ساتھ ہی کمیٹی بھی تو بنا دی گئی ۔ کمیٹی کی کیا حیثیت تھی۔ فنڈز زیادہ تر ایک خاص علاقے میں گئے اور قانونی اور انتظامی تقاضے پورے کئے بغیر خرچ کئے گئے۔اب جو بیوروکریسی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سامنا کررہی ہے۔وہ فائلوں کا پیٹ بھرنے میں لگی ہوئی ہے۔یہ ہے عدل کا ایک نمونہ جس کی بحالی کے لیے تحریک چلانے کا اعلان ہوا ہے۔ذہنی غلامی صرف پیری مریدی میں نہیں ‘صرف آنکھیں بند کرکے کسی ایک مسلک پر عمل پیرا ہونے میں نہیں ‘ذہن کو بند کرکے ایک خاندانی پارٹی کے ساتھ وابستہ ہونا بھی ذہنی غلامی ہے۔
ہاں ! مفادات اس ذہنی غلامی کوکنٹرول ضرور کرتے ہیں ۔مثلا! ذہنی غلاموں کا جو گروہ جنرل پرویز مشرف کو میسر تھا اور عینی شاہدوں کے مطابق جس گروہ کے افراد جنرل صاحب کی خاکی قمیض سے خیالی دھبہ اپنی انگشت شہادت اورانگوٹھے سے دائرہ بنا کر جھاڑتے تھے’وہی گروہ اب موجودہ حکمران پارٹی کے خاندانی سربراہ کے ساتھ وابستہ ہے۔زمانہ جب بھی کروٹ لے گا اور اقتدار کے سنگھاسن پر کوئی آ کر بیٹھے گا تو یہ گروہ اسے اپنا نیا آقا بنانے میں دیر نہیں لگائے گا۔
اس ذہنی غلامی کی ایک مثال دیکھئے’ ایک وفاقی وزارت میں تعینات ایک منظور نظر افسر کو بیرون ملک آنکھوں کے علاج کے لیے دو کروڑ 37 لاکھ 95 ہزار روپے قومی خزانے سے عطا کئے گئے۔آڈٹ سے بچنے کے لیے اس بخشش کی توثیق وفاقی کابینہ سے کرانا ضروری تھی۔ پوری کابینہ میں سے کسی نے یہ نہ پوچھا کہ یہ کس قبیل کا علاج ہے جس کے لیے اتنی بھاری رقم دی جارہی ہے۔
یوں بھی غلاموں کا کام ہی کیا ہوتا ہے ؟ہاتھ کھڑا کردینا’ بغیر پوچھے انگوٹھا لگا دینا ‘کسی کے خلاف بیان جاری کردینا’کسی کی حمایت میں حد سے گزر جانا’بابے ظفر اقبال نے کیا خوب کہا ہے
سر اٹھایا نہیں میں نے کہ سلامت رہ جائے
عذر کیا ہے مجھے اب ہاتھ اٹھا دینے میں
یہاں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ چودھری صاحب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے ۔نوکر ٹانگیں دبا رہا تھا ۔سامنے سے میراثی آتا دکھائی دیا ۔نوکر کو حکم ہوا کہ میراثی قریب آئے تو اس پر بھونکو۔ نوکر حسبِ حکم اور حسبِ منشا بھونکا۔ میراثی کہاں چوکنے والا تھا ۔ کہنے لگا” پہلے اس لاش کو تو بھنبھوڑ لو جو تمھارے سامنے پڑی ہے”۔
ویسے جناب شاہد خاقان عباسی کے بجائے کوئی دھڑلے والا وزیراعظم ہوتا تو فائلیں واپس کردیتا ۔فنڈز روک لیتا۔صرف یہ کہتا کہ مجھے تو آپ وزیراعظم تسلیم ہی نہیں کرتے’منظوری کیسے دے سکتا ہوں ؟مگر جو خود پابہ زنجیر ہو’ دوسرے کو آزادی کا سبق کیسے پڑھا سکتا ہے۔
ذہنی غلامی کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجئے۔اسے بدترین مثال کہہ سکتے ہیں ۔ پوری حکومتی پارٹی میں ‘فاٹا کے حوالے سے’کسی مرد “آزاد” کو یہ پوچھنے کی جرات نہ ہوئی کہ صرف دو افراد کی خاطر فاٹا کے انضمام میں کیوں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے جبکہ ان دونوں کا تعلق فاٹا سے نہیں ہے۔ مگر اسمبلی میں جو ذہنی غلام بیٹھے ہیں ‘ان کا کام صرف آنکھیں بند کرکے احکام کی تکمیل ہے۔جو اقبال نے کہا تھا کہ
شریک حکم غلاموں کو کرنہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک
تو ہمارے عہد کے غلاموں پر تو اس شعر کا اطلاق ہی نہیں ہوتا اس لیے کہ اس میں ادراک لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور انگوٹھا ثبت کرنے میں اور ہاتھ اٹھادینے میں کسی ادراک کی ضرورت نہیں رہتی۔غلامی کی انتہا یہ ہے کہ ایک شخص نے کھلم کھلا فاٹا کو افغانستان کا حصہ قرار دیا مگر حکومتی پارٹی کے کسی رکن کی پاکستانیت نے چوں نہیں کی۔ قومی اسمبلی میں فاٹا کے سابق پارلیمانی رہنما شاہ جی گل آفریدی ایم این اے نے جو بیان دیا ہےاس پر حکومتی پارٹی اراکین کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔شاہ جی نے کہا ہے
“محمود اچکزئی کا فاٹا میں سٹیک ہی نہیں پھر کس کے اشارں پر مخالفت کررہے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن کو قبائلیوں کا درد نہیں بلکہ مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔فاٹا اصلاحات پر عمل درآرمد میں سابق وزیراعظم خود رکاوٹ ہیں اگر نواز شریف کو ریاست اور بیس کروڑ عوام کی فکر ہوتی تو وہ اپنے اتحادیوں کو نہ دیکھتے ۔دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو اپنے علاقے کو علاقہ غیر کہے”
شاہ گل آفریدی نے درست کہا مگر ان کا یہ کہنا کہ اچکزئی کا فاٹا میں سٹیک ہی نہیں ‘محل نظر ہے۔ اچکزئی کا سٹیک فاٹا میں نہیں ‘سرحد پار ضرور ہے۔ان کے جو قابل مذمت روابط دوسرے ملک سے ہیں ان کی تفصیل ہم اس کالم میں بیان کرچکے ہیں جو بیس دسمبر کو شائع ہوا ہے۔ اور اب تو سابق وزیراعظم نے اچکزئی صاحب کو اپنا نظریاتی ساتھی بھی قرار دے دیا ہے۔ یہی تو نظریاتی سیاست ہے جس کے شروع کرنے کا اعلان انہوں نے نااہلی کے بعد کیا ہے ۔پورے ملک میں اچکزئی صاحب واحد خؤش قسمت ہیں جن کے ساتھ سابق وزیرعظم نے اپنے”نظریاتی تعلق” کا اعلان کیا ہے،سابق وزیراعظم کی نظریاتی سیاست یا تو اتنی گہری ہے کہ کوئی شناور اس تک پہنچ نہیں سکتا یا اس قدر اُتھلی ہے کہ اس پر ہنسا ہی جاسکتا ہے۔
ہم برصغیر کے مسلمان شاہی خاندان کے ساتھ وفاداری یا غداری کے لیے یوں بھی معروف ہیں ۔1208 ء میں قطب الدین ایبک دہلی کے تخت پر بیٹھا۔ تب سے لے کر 1857 ء تک کی تاریخ کھنگال لیجئے ‘بادشاہ مرتا یا قتل ہوتا تو دربار کے عمائدین اپنی اپنی پسند کے شہزادوں کو جانشین بنانے کےلیے متحارب گروہوں میں بٹ جاتے۔خاندان سے باہر کسی فرد کو بادشاہ بنانے کا وہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ہاں ! خود آگے بڑھ کر کوئی قبضہ کرلیتا تو اور بات تھی ۔وہی روایت مسلم لیگ نون نبھا رہی ہے۔ ذہنی طور پر پارٹی کے ارکان تیار ہیں کہ بھائی وزیراعظم بنے ‘اس کا بیٹا عملاً نائب وزیراعظم ہو’دختر نیک اختر پنجاب کی فرماں روا ہو۔ بس چلے تو باقی صوبوں پر بھی اپنے ہی خاندان کے افراد تعینات کئے جائیں ۔ پاکستانیوں کی اکثریت اسے برداشت کرلے گی۔ آخر پیپلز پارٹی کو بھی تو برداشت کیا ہی جارہا ہے۔
محمود خان اچکزئی ‘مولانا فضل الرحمن ‘اسفندیار ولی سبھی نے پارٹی کی سربراہی وراثت ہی میں تو پائی ہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے فرزند گرامی بھی جلوہ افروز ہو چکے ہیں ۔اگر احسن اقبال ‘صدیق الفاروق ‘رضا ربانی’اعتزازاحسن اور حافظ حسین احمد جیسے پڑھے لکھے دانشور سیاستدانوں کو خانوادہ پرستی پر اعتراض نہیں تو ہماشا کس کھیت کی مولی ہیں اس لیے کہ
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
چونکہ غلامی میں رہنا ہے اور غلاموں کے ساتھ رہنا ہے اس لیے “غلام” پر لغت کے حوالے سے بھی نظر ڈال لیں ۔غلام کی جمع غلمان ہے۔ بادشاہوں کے غلام کبھی کبھی خود بادشاہ بن جاتے تھے مگر اس کا تصور ہماری سیاسی جماعتوں میں نہیں ۔ جو افراد پوری پوری زندگی سیاسی جلسوں میں دریاں بچھاتے رہتے ہیں وہ کارکن کے کارکن ہی رہتے ہیں ۔
غلاموں کو مختلف ڈیوٹیاں سونپی جاتی تھیں مثلاً ساقی گری’ آبداری’ شربت داری’ جامہ داری’رکاب داری اور اسلحہ داری۔ دربار کا رواج یہ تھا کہ پہلے سال غلاموں کو سواری کی اجازت نہ تھی۔صرف پیدل چل سکتا تھا ‘ایک سال کے بعد حاجب(پروٹوکول وغیرہ کا انچارج)کی اجازت سے گھوڑا مل جاتا۔ تیسرے برس خنجر اپنی پوشاک کے ساتھ باندھ سکتا تھا۔چوتھے سال قبا اور گرز عطا کردئیے جاتے ۔غلام ترقی کرتے کرتے “حاجب” بھی بن جاتا۔ حاجب میں اگر ٹیلنت ہوتا تو پینتیس چالیس سال بعد” امیر”(بلند مرتبہ عہدیدار)بنا دیا جاتا ۔آخر کار ڈرتے ڈرتے چپکے چپکے یہ بھی سن لیجیے کہ ادبیات میں غلام کا معنی معشوق بھی لیا جاتا ہے۔