Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, May 30, 2016

جدائی بُن کے بچھالی ہے فرش پر اظہار


ایک ماہ اور اس سے اوپر اٹھائیس دن کا عرصہ پلک جھپکنے میں گزر گیا!
سنہری نیند میں چاندی جیسا خواب! خواب میں آہستہ آہستہ کھُلتا خوبصورت دریچہ! مگر یہ کیا! آنکھ کھلی تو دریچہ نظر نہیں آرہا! سامنے دیوار ہے! سپاٹ سفید دیوار! جس کے پار آنکھیں کچھ نہیں دیکھ پا رہیں! 
ایک مہینہ اور اس سے اوپر اٹھائیس دن! سائبیریا سے آئی ہوئی کونجیں جھیلوں پر اتری ہوئی تھیں! کنارے آباد تھے۔ پروں کو پھڑ پھڑاتی تھیں تو جیسے فرشتوں کے پر ساتھ پھڑ پھڑاتے تھے۔ حدِ نگاہ تک۔ افق سے افق تک۔ کسی نے سونے کا پانی چھڑک دیا تھا! شفق تھی مست کر دینے والے رنگوں کے ساتھ! دھنک آسمان کے ایک طرف نہیں، دو طرف تھی! رنگ ہی رنگ! پھوار! ہلکی پھوار! تازگی بھری رطوبت دل کے اندر تک پہنچاتی پھوار!
مگر کونجیں جھیلوں کے کناروں کو ویران کر کے اُڑ گئیں! کوہِ قاف سے آئے رنگین طلسمی پرندے اپنے پرستانوں کی طرف واپس چلے گئے۔ حمزہ اور زہرا میلبورن کو پرواز کر گئے!
رات پونے بارہ بجے ہوائی اڈے سے خالی ہاتھ پلٹے تو عجیب کیفیت تھی۔ ساڑھے پانچ سالہ حمزہ اور ساڑھے تین سالہ زہرا کے بغیر گھر سُونا تھا! کہاں چہل پہل، چیخ و پکار، چلتے بھاگتے کھلونوں کی آوازیں، ایک کے رونے تو دوسرے کے ہنسنے کی چہکار! صوفے پر کھڑا ہو کر چھلانگ لگاتا اور میری پشت پر سوار ہو جاتا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی زہرا بھی یہی کرنے کی کوشش کرتی۔ نہ کر سکتی تو رونا شروع کر دیتی! اب گھر پر ویرانی کا راج تھا   ؎
افسانہ در افسانہ تھی مڑتی ہوئی سیڑھی
اشعار در اشعار تھا ہر دَر اِسی گھر میں
پڑھنے کی کوشش کی مگر جو کتاب کھولتا، کچھ نظر نہ آتا۔ ایک کونے میں ننھی منی پشاوری چپل نظر آئی۔ اسے اٹھایا، کپڑے سے چمکایا، پھر کافی دیر دیکھتا رہا۔ پھر الماری میں حفاظت سے رکھ دیا۔ کیسی حفاظت؟ جہاں پہلے پڑی تھی، وہاں کون سا خطرہ تھا؟ مگر نفسیاتی کیفیت عجیب ہوتی ہے۔
میلبورن میں جب حمزہ نے چلنا شروع کیا تو ہم وہیں تھے۔ سفر اس کی گھٹی میں پڑا تھا۔ ماں باپ، طبّی کانفرنسوں میں شرکت کرنے، لیکچر دینے، لیکچر سننے، آئے دن پا بہ رکاب ہوتے۔ یہ ٹرالی بیگوں کا عاشق نکلا۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ایئرپورٹوں پر ٹرالی بیگ چلاتا پھرتا۔ بعض اوقات دوسرے مسافروں کے بھی! ایک دن ہم میاں بیوی نے سوچا کہ آخر چھوٹے سائزکے کھلونا نما ٹرالی بیگ بھی تو ہوتے ہوں گے۔کیوں نہ وہ لیا جائے! میلبورن کے بازاروں میں ہم ڈھونڈتے پھرے۔
 Southern Cross
 کے شاپنگ سنٹر میں ایک ملا مگر سرخ رنگ کا تھا۔ بچے اور بچی کے لیے رنگوں کی تخصیص اُس معاشرے میں کڑی ہے۔ پھر کہیں سے نیلا مل گیا۔ اُس وقت ڈیڑھ یا دو سال کا تھا۔ اپنا سارا کاٹھ کباڑ ٹرالی بیگ میں ڈالا اور ہر وقت ساتھ رکھنا شروع کر دیا۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جاتا تو ٹرالی بیگ کے پہیے لڑھکاتا ہوا۔ رات دیر تک ہمارے کمرے میں ہوتا۔ کہانی سنتا، پھر کہتا ممی کے پاس سونا ہے۔ ٹرالی بیگ چلاتا ہی ممّی اور ابّا کے کمرے میں جاتا!
سیر کے لیے ساتھ والے پارک میں لے جاتا۔ واپسی پر تھک جاتا تو کندھوں پر یوں بیٹھتا کہ میرے سر کو پکڑے رہتا۔ یاد آتا کہ گاؤں میں پوتے اور نواسے اسی طرح دادوں اور نانوں کے کندھوں پر بیٹھتے کوسوں کا سفر کرتے!
یکم اپریل کو پاکستان پہنچے تو حمزہ کو باپ نے فوراً سکول میں د اخل کرا دیا۔ ڈیڑھ ماہ کے لیے کہ اردو سیکھے! ماں کے ساتھ آسٹریلوی انگریزی بولتا ہے۔ نانا نانی کی چینی سمجھ ساری لیتا ہے مگر جواب انگریزی میں دیتا ہے۔ اور باپ دادا، دادای، چاچوں، پھپھیوں کے ساتھ فتح جنگ کی پنجابی روانی سے!! اِس روایت کو خاندان میں قائم ہوئے دوسری نسل ہے! حمزہ کے باپ نے جب بولنا شروع کیا تو اس کالم نگار نے بیگم سے کہا کہ بچے گھر میں وہی زبان بولیں گے جو بولی جاتی ہے یعنی فتح جنگ (گھیبی) کی ٹھیٹھ ہندکو نما پنجابی! نیک دل عفیفہ نے رضامندی دے دی! وہ اپنی لاہور کی پنجابی بولتی رہی۔ ددھیال والے اپنی! نتیجہ یہ نکلا کہ اب دونوں میں رواں ہیں! اطہر شاہ خان (جیدی) جب بھی ملتے تو حمزہ کی دادی کو ضرور کہتے کہ بھابھی! آپ کو کیا پڑی تھی کہ فتح جنگ کے اِس جنگلی سے شادی کرلی! مستنصرحسین تارڑ نے ہمیشہ تعریف کی کہ بچوں سے اپنی زبان میں بولتے ہو۔ تاسف کا اظہار کیا کہ انہوں نے بچوں سے پنجابی نہ بولی! بچے چھوٹے تھے جب پنجابی زبان کے نامور عالمی شہرت یافتہ نثر نگار اور شاعر جناب نجم حسین سید غریب خانے پر تشریف لائے۔ بچوں سے پنجابی بولتے سنا تو خوش ہوئے اور حوصلہ افزائی کی! عرض کیا کہ ہماری اٹک، میانوالی، چکوال کی پنجابی کو آپ لوگ پنجابی سمجھتے ہی کہاں ہیں؟ کہنے لگے، ایسی بات نہیں! اصل پنجابی یہی ہے! اس بات کی تصدیق برسوں بعد اُس وقت ہوتی محسوس ہوئی جب امرتا پریتم کا شعری مجموعہ ’’کاغذ تے کینوس‘‘ پڑھا۔ بے شمار ایسے الفاظ ملے جو وسطی پنجاب میں نہیں سنائی دیتے مگر مغربی اضلاع میں عام استعمال ہوتے ہیں!
حمزہ کی دادی کی طرح حمزہ کی ماں نے بھی ایثار کا مظاہرہ کیا۔ اس نے خوش دلی سے ددھیال کے ساتھ بچوں کا پنجابی بولنا قبول کیا۔ مگر اب ایک اور مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ پاکستان میں گھرکے اندر بچوںکے ساتھ پنجابی یا سندھی یا پشتو بولی جائے تو باہر اُردو، خود بخود آ جاتی ہے۔ یوں دونوں کام ہو جاتے ہیں۔ دیارِ غیر میں ایسا ممکن نہیں! گھر میں پنجابی بولیں گے اور باہر انگریزی تو اُردو کا کیا بنے گا؟ اس کا حل اسرار نے یہ نکالا کہ کوشش کرتا ہے سال میں ایک بار اور کبھی دو بار ڈیڑھ دو ماہ کے لیے کنبے کو پاکستان لائے۔ خاندان کے دوسرے بچوں کے ساتھ اُردو سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اب کے ڈیڑھ ماہ حمزہ سکول بھی جاتا رہا۔ سکول میں دوست بھی بنے۔ ابتدا میں اس نے ان کے ساتھ انگریزی بولی مگر وہ جلد ہی اسے اردو پر لے آئے۔ یوں اچھا خاصا روانی سے بولنے لگ گیا! اب انشاء اللہ پھر آئیں گے تو زہرا بھی سکول جانے کے قابل ہو چکی ہوگی!
بہن کو حمزہ کبھی کبھی 
Copy Cat
 کہتا ہے کیونکہ زہرا وہی کچھ کرتی ہے جو وہ کرتا ہے۔ وہ دادا پر سواری کرے گا تو وہ بھی کرے گی۔ گود میں بیٹھے گا تو دوڑ کر آئے گی ’’میں بھی بیٹھساں!‘‘ خاتون ہونے کے ناتے نرم دل ہے۔ بات مان لیتی ہے۔ اپنی شے بھائی کو دے دیتی ہے۔ وہ اپنے کھلونے جلد توڑتا ہے، پھر اس کے کھلونوں کی طرف آتا ہے۔ موڈ اچھا ہو تو بی بی شیئر کر لیتی ہے، ورنہ صاف کہہ دیتی ہے’’اے مینڈا وے!‘‘ اکثر و بیشتر آپس میں دونوں بہن بھائی انگریزی بولتے ہیں۔ امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک بے شمار پاکستانی اور انڈین خاندانوں میں دیکھا کہ ماں باپ کے ساتھ اُردو یا کوئی بھی اپنی زبان بولنے والے بچے، بہن بھائیوں کے ساتھ انگریزی ہی میں گفتگو کرتے ہیں۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ہر سال ایک ماہ، ڈیڑھ ماہ یا دو ماہ، وطن واپس آ کر رہنے ہی سے بچے اپنی زبان، اپنے کلچر اور اپنے ماحول کے عادی ہوںگے۔ پھریہ ان پر منحصر ہے کہ وہ خود اپنی اگلی نسل کے ساتھ اس اہتمام کا التزام کرتے ہیں یا نہیں! ڈھاکہ یونیورسٹی میں سنگاپور کا ایک طالب علم (شمس اس کا نام تھا) ہمارے ساتھ پڑھتا تھا۔ پیدائش سنگاپورکی تھی مگر پنجابی روانی سے بولتا تھا اس لیے کہ سو سال سے سنگاپور، گھر میں پنجابی بولی جا رہی تھی!
گھر میں سناٹا ہے! نقرئی قہقہے کہیں اور گونج رہے ہوںگے! ایئرپورٹ روانہ ہونے تک یہی رٹ لگائے رکھی کہ ابّو (دادا ابو) کے ساتھ رہنا ہے۔ مگر دادا ابّو کون سا اپنے دادا اور دادی کے ساتھ رہ پائے تھے! لوہے کا اڑن کھٹولا کتنا ظالم ہے۔ ہمارے پیاروںکو اپنی آغوش میں بھر کر ہزاروں کوس دور لے جا کر، دوسری سر زمینوں میں انڈیل دیتا ہے۔ فراق! فراق!! فراق سے بڑی سچائی دنیا میں کیا ہو گی! آنکھ سے بہتے خاموش آنسو اور دل سے اٹھتی بے آواز ہوک کچھ کام نہیں آتے!     ؎
جدائی بُن کے بچھالی ہے فرش پر اظہاؔر
اسی پہ بیٹھ کے روتا اسی پہ سوتا ہوں

Saturday, May 28, 2016

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں


ڈیڑھ ٹن کا ایئرکنڈیشنر مسلسل چل رہا ہے۔ کھڑکیوں پر دبیز پردے پڑے ہیں۔ کمرے میں ہلکی ہلکی‘ نرم‘ رومان بھری روشنی ہے۔ آبنوس کی دیدہ زیب میز پر خشک میوے پڑے ہیں۔ ایک طرف دودھ‘ شہد اور مصفّیٰ پانی سے بھری ٹھنڈی بوتلیں رکھی ہیں۔ دوسری طرف خوان دھرے ہیں جن میں اشتہا انگیز پکوان پڑے ہیں۔ تخیل کہتا ہے کہ اس خنک آرام گاہ کے باہر‘ آسمان پر بادلوں کی چھتری تنی ہے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسموں کو ترو تازگی بخش رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑتی ہے تو آسودگی کا احساس دوچند ہو جاتا ہے۔ ذرا اس طرف آسمان پر دھنک اپنے سارے رنگوں کے ساتھ نظروں میں طرب بھر رہی ہے۔ درخت جھوم جھوم کر بہار دکھلا رہے ہیں۔ پھولوں پر تتلیاں اڑ رہی ہیں۔ نہروں میں پانی اٹھکیلیاں کر رہا ہے۔ دنیا کشمیر جنت نظیر بنی ہوئی ہے یا کوہ قاف کا پرستان۔ بہشت ایسا ہو گا    ؎
بہشت آنجا کہ آزاری نہ باشد
کسی را با کسی کاری نہ باشد
کسی سے جھگڑا نہ تعرّض‘ نہ کوئی دل آزادی!
مگر آہ ! ایسا نہیں ہے۔ یہ محض خنک آرام گاہ میں تشریف فرما حضرات کی پرواز تخیل ہے۔ ایئرکنڈیشنر سے ٹھنڈے کیے کمرے میں‘ دبیز پردوں کے سائے میں‘ خشک میوئوں اور خوش ذائقہ خنک مشروبات سے حظ اٹھاتے ہوئے محسوس یہی ہوتا ہے کہ باہر بھی سماں ایسا ہی ہو گا مگر زمینی حقیقت اور ہے۔ باہر گرم لُو کے تھپیڑے چل رہے ہیں۔ گرمی ہے اور ایسی گرمی کہ مٹکوں میں پانی جل رہا ہے۔ چیل انڈہ چھوڑ رہی ہے۔ کڑی دوپہر میں درختوں کے سائے بھی سمٹ کر درختوں کے تنوں کے ساتھ چمٹ رہے ہیں! پیاس ہے کہ بجھتی نہیں! سورج آگ برسا رہا ہے۔ گلیوں میں سناٹا ہے۔ دکاندار بھی شٹر گرا کر کونوں میں لیٹے پنکھوں کی گرم ہوا میں پناہ لیے ہیں!
یہ ہے وہ صورت حال جس کا ہم مسلمان‘ ہم پاکستانی‘ ان دنوں سامنا کر رہے ہیں۔ ہم امت مسلمہ کے دیوانے ہیں۔’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ کا نعرہ ہمارے خون میں رواں ہے۔ خواہش ہماری یہ ہے کہ مسلم دنیا ایک ہو جائے۔ افواج ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں۔ سرحدیں معدوم ہو جائیں۔ پاسپورٹ اورویزے ختم ہو جائیں۔ مسلمان لاہور سے چلے تو مراکش کے اس ساحل تک‘ جو اٹلانٹک کو چھو رہا ہے‘ کوئی اسے روکنے والا نہ ہو۔ مگر یہ وہ خواب ہے جو ہمارے دانشور ڈرائنگ روموں میں سجے بلّور کو سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں!
حقیقت کیا ہے؟ بہت خوفناک اور عبرت انگیز! ایران اور افغانستان بھارت سے مصافحہ نہیں‘ معانقہ کر رہے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کا گوادر کا منصوبہ ناکام بنا دینے کی تیاریاں ہیں! لاکھوں افغان آج بھی پاکستان کی ہوا‘ چاندنی ‘پانی اور گندم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ‘کاروبار کر رہے ہیں۔ دوسری نسل یہاں کی غذا کھا کر جوان ہونے کو ہے مگر افغان صدر نے پاکستان کے یہ سارے احسانات یکسر فراموش کر دیے‘ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں‘ یہ بھی نہ سوچا کہ گوادر کا فائدہ صرف پاکستان کو نہیں‘ افغانستان سمیت پورے وسط ایشیا کی مسلمان ریاستوں کو پہنچے گا۔ افغان صدر نے مودی کی شرر فشاں آواز پر لبیک کہا۔ امت مسلمہ کے اتحاد کے خواب کی تعبیر دیکھیے۔ ایران اور افغانستان کے سربراہ مودی کے دائیں بائیں بیٹھے عالم اسلام کی یگانگت کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ ٹریجڈی کا منحوس ترین حصہ یہ ہے کہ ایسا کرتے وقت ان کے چہروں پر مسکراہٹیں ہیں!
صرف یہی نہیں! افغانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) تربیت یافتہ دہشت گردوں کو مسلسل پاکستان بھیج رہی ہے جو دھماکے اور قتل و غارت کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی نے کل دنیا کو بتایا ہے کہ چھ افغان دہشت گرد پکڑے گئے ہیں جنہوں نے چالیس سے زائد پاکستانیوں کے قتل اور متعدد بم دھماکوں کا اعتراف کیا ہے۔ افغان حکومت یعنی این ڈی ایس‘ ان دہشت گردوں کو ایک ٹارگٹ کلنگ کے لیے اسی ہزار روپے اور ایک بم دھماکے کے لیے اڑھائی لاکھ روپے’’معاوضہ‘‘ ادا کرتی ہے۔ یہ ہے مہمان نوازی کا افغان صلہ! جن کی نسلوں کی پرورش پاکستان نے کی‘ وہ پاکستان کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں ۔کیا یہی وہ افغان بہادری اور وہ افغان غیرت ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے؟ کیا محسن کُشی ان لوگوں کی سرشت میں داخل ہے؟ اگر میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ہم مزید ان مہاجرین کی مہمان نوازی نہیں کر سکتے‘ یہ واپس جائیں ورنہ بلوچ اور پشتون عوام انہیں دھکے دے کر واپس بھیجیں گے تو اور کیا کہتے؟ درست ہے کہ یہ شدتِ جذبات کا اثر ہے ۔ ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا مگر اس ذہنی اذیت کا اندازہ لگانا چاہیے جس میں یہ الفاظ کہے گئے! بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے بدلے کیا ہم افغانوں کو پھولوں کے ہار پہنائیں اور مہاجرین کے آگے دست بستہ کھڑے ہو جائیں کہ حضور! آپ یہیں قیام فرمائیے اور پاکستان کی جڑوں پر کلہاڑا مسلسل مارتے رہیے؟
جو حقیقت ہم فراموش کر دیتے ہیں یہ ہے کہ امت مسلمہ کا تصور روحانی ہے‘ سیاسی نہیں! امت مسلمہ کا یہ روحانی تصور حج کے موقع پر پوری طرح ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ہر رنگ ‘ نسل زبان‘ قامت کے مرد عورتیں اکٹھے کر بارگاہ ایزدی میں جھکتے ہیں اور خاک مدینہ کی زیارت کرتے ہیں! امت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آپ دنیا کے جس گوشے میں جائیں مسجد یا اسلامک سنٹر آپ کے لیے آغوش وا کیے ہے۔ آپ مسلمان بھائیوں سے ملتے ہیں۔ پھر ان کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ در د میں شریک ہوتے ہیں! اتحادِ امت کا تیسرا پہلو حرمین کی حفاظت ہے جس کے لیے دنیا کا ہر مسلمان جان قربان کرنے کو تیار ہے۔
تاہم سیاسی حوالے سے پوری تاریخ میں امت ایک انتظامی اکائی نہیں بنی‘ نہ ہی یہ مطلوب ہے‘ اس لیے کہ ممکن نہیں۔ خلافت راشدہ کا دور آغاز کا دور تھا۔ اس وقت عالم اسلام‘ جتنا بھی تھا ایک اکائی تھی۔ مگر بدلتے ہوئے حالات اور پھیلتے علاقوں میں ایسا ممکن نہ تھا۔
اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک کنبے میں پرورش پانے والے بچے جوان ہو کر شادیاں کر لیتے ہیں تو پھر ضروری نہیں کہ ایک ہی گھر میں رہیں۔ اکثر و بیشتر ایسا ممکن بھی نہیں ہوتا۔ اب الگ الگ فیملی یونٹ بن جاتے ہیں۔ ہر بھائی الگ گھر میں رہتا ہے۔ وہ اب بھی مصیبت کے وقت ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں مگر یہ مطالبہ کہ سب ایک گھر میں رہیں اور ایک ہی باورچی خانے میں کھانا پکے‘ ایک غیر ضروری اور ناممکن العقل مطالبہ ہے!
مسلمانوں کی فتوحات میں‘ علاقوں میں اور آبادی میں اضافہ ہوتا گیا تو الگ الگ حکومتیں بننے لگیں۔ اندلس میں الگ حکومت بنی۔ عباسیوں کے زمانے میں بھی دوسری مسلمان حکومتیں موجود تھیں۔ سلطنت عثمانیہ بھی مسلم حکومتوں میں سے ایک حکومت ہی تھی۔ اس میں ایران شامل تھا نہ وسط ایشیا‘ نہ مشرقی ترکستان نہ ہندوستان!
سیاسی حقیقتیں ہمیشہ مختلف رہیں۔ تیمور نے سلطنت عثمانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ صفوی ایران اور عثمانی سلطنت تو شیعہ سنی تھے مگر تیمور اور عثمانی ترکوں کا تو مسلک بھی ایک تھا۔ بابر اور ابراہیم لودھی دونوں سنّی تھے!
تو پھر ہم کیا کریں؟ کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں کہ اتحاد امت ناممکن ہے؟ نہیں! پہلا اقدام تو یہ کرنا چاہیے کہ مسلمان ممالک‘ انفرادی طور پر استحکام حاصل کریں۔ ہر مسلمان ملک الگ اکائی کے طور پر معاشی سیاسی اور سماجی ترقی کرے۔ مسلمان ممالک جس قدر انفرادی طور پر مضبوط‘ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہوں گے‘ امت کے روحانی تصور کو بالواسطہ ارتقا نصیب ہو گا!
اس ضمن میں یورپی یونین کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یورپ کے ممالک نے پہلے مرحلے میں انفرادی حیثیت سے اقتصادی استحکام حاصل کیا۔ جنگی طاقت بنے اور خواندگی اور تعلیم کی چوٹی تک پہنچے۔ جرمنی پہلے جرمنی بنا! ٹیکنالوجی کا سردار! فرانس نے دنیا میں اپنی حیثیت منوائی۔ پھر معاشرتی ارتقا حاصل کیا گیا۔ تعلیم عام ہوئی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں عروج پر پہنچے۔ سوک سنس عام ہوا۔ یہاں تک کہ شاید ہی کوئی تھوکتا‘ ناک میں انگلی مارتا یا بلند کھردری آواز میں بولتا دکھائی دے۔ ہر ملک کے پاس اپنے سائنسدان اور ماہرین اقتصادیات ہیں۔ جبھی اتحاد بنا اور کامیابی سے چل رہا ہے۔ بھوکے ننگے ملکوں کا جو آمریت یا نام نہاد جمہوری ڈھکوسلوں میں سسک سسک کر جی رہے ہیں‘ کیا اتحاد بنے گا؟    ؎
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی 
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

Friday, May 27, 2016

ظرف بڑا کیجیے

سچی بات یہ ہے کہ میرزا طاہر بیگ کے دادا نیک اور دیانت دار شخص تھے۔ وعدہ پورا کرتے۔ تاجر تھے مگر ایسے کہ لین دین میں ننگی تلوار کی طرح صاف گو اور کھرے۔ بتا دیتے کہ یہ شے جو بیچ رہا ہوں، زیادہ اچھی نہیں! میرزا کے والد نے بھی یہ روایت قائم رکھی مگر یہ داستان ماضی کی تھی۔ میرزا تک معاملہ پہنچا تو بات بدل چکی تھی۔ میرزا ایسے تھے جیسے ان کے اردگرد سارا معاشرہ! جہاں موقع ملتا، جھوٹ بول جاتے۔ وعدہ کبھی پورا کرتے کبھی نہ کرتے! دیانت داری کی شہرت اب ایک اور خاندان میں منتقل ہو گئی۔ یہ چودھری تھے! چوٹی کے بزنس مین! کروڑوں کا لین دین! مگر ہر شخص کو معلوم تھا کہ ایک پیسے کا ہیر پھیر نہیں کریں گے۔ یہی وجہ تھی کہ لاکھوں کی نقد رقم بغیر رسید لیے بیوپاری ان کے حوالے کر دیتے۔ صاف گوئی اور شفافیت اس خاندان کی ضرب المثل ہو چکی تھی۔
میرزا طاہر بیگ ہر روز مغرب کے بعد اپنے بچوں کو پاس بٹھاتے اور باپ دادا کی دیانت کی کہانیاں سناتے۔ جب بچے پوچھتے کہ کیا ایسے دیانت دار لوگ آج کے زمانے میں نہیں پائے جاتے؟ تو عجیب بات تھی کہ میرزا کے منہ کو قفل لگ جاتا! ظرف چھوٹا تھا۔ اس چھوٹے ظرف کے اوپر حسد نے جالا تنا ہؤا تھا۔ جانتے تھے کہ چودھری ایسے ہی دیانت دار ہیں جیسے میرزا کے آبائو اجداد تھے مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کا ذکر نہ کیا! ہمیشہ یہی تاثر دیا کہ وہ دیانت، وہ سچائی، وہ کھراپن جو میرزا کے بزرگوں میں تھی، اب مفقود ہے اور صرف داستانوں میں پائی جاتی ہے!
میرزا طاہر بیگ کون ہے؟ ہم ہیں! ہم مسلمان! ہم پاکستانی! ہم اپنے بچوں کو ، اپنے طلبہ کو، اپنے مقتدیوں مریدوں کو،عقیدت مندوں کو اپنے متعلقین کواور اپنی اگلی نسل کو اپنے قابلِ فخر ماضی کی داستانیں سناتے تھکتے نہیں! قاضی نے طلب کیا تو خلیفۂ وقت عدالت میں حاضر ہؤا! ایک اور خلیفہ ذاتی کام کرتے وقت سرکاری چراغ بجھا دیا کرتے! رعایا میں سے ایک نے پوچھا کہ سب کو اتنا اتنا کپڑا ملا تو آپ نے اتنے کم کپڑے سے کرتا کیسے بنا لیا؟ اس پر امیر المؤمنین نے باقاعدہ صفائی پیش کی! بادشاہ کو بتایا گیا کہ اس کا بھانجا ایک شہری کے گھر میں جا کر زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ بادشاہ موقع پر گیا۔ آنکھیں بند کر کے مجرم کا سر قلم کیا پھر مجرم کا چہرہ دیکھ کر الحمدللہ کہا کہ مجرم اس کا بھانجا نہیں تھا۔ راتوں کو حکمران بھیس بدل کر رعایا کی خبر گیری کرتے۔ عام سواری پر بیٹھتے یوں کہ لوگوں کو معلوم ہی نہ ہوتا کہ یہ حکمرانِ اعلیٰ ہے۔
ماضی کی یہ مثالیں ہم فخر سے پیش کرتے ہیں۔ سننے والے حیران ہوتے ہیں کہ کیا زمانہ تھا اور کیسے حکمران تھے! پھر وہ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو صورتِ حال کو یکسر مختلف پاتے ہیں۔ رباط سے لے کر عمان تک، جدہ سے لے کر ریاض تک، قاہرہ سے لے کر دمشق تک، کراچی سے لے کر لاہور تک، اسلام آباد سے لے کر تاشقند تک۔ ہر جگہ محلات اور بیش بہا کاریں اور بجرے اور جزیرے ہیں! آج کے مسلمان حکمرانوں نے ساحل کے ساحل خرید لیے۔ ہسپانیہ، یونان اور اٹلی کے تفریحی جزیروں میں محلات کھڑے کر لیے۔ لندن میں سٹور خرید لیے، اربوں روپوں کے اپارٹمنٹ لے لیے۔ فرانس میں تین تین سو سالہ قدیم تاریخی شاہی حویلیاں اپنے نام کرالیں۔ بیٹے اور بیٹیاں ان کی امور سلطنت میں دخیل ہیں۔ خاندان ان کے قانون سے بالاتر ہیں!
ہماری مسجدوں میں وعظ پر سر دھننے والے، ہمارے سکولوں کالجوں میں عہد گزشتہ کی دیانت کی کہانیاں پڑھنے والے اور اجداد کے کارنامے سن کر عش عش کر اٹھنے والے بچے، اِس بات پر یقینِ کامل رکھتے ہیں کہ اب یہ دیانت، یہ احتساب یہ شفافیت صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتی ہے! مگر افسوس ایسا نہیں!
گزشتہ ہفتے برطانیہ کے وزیراعظم نے اپنی بیوی کے لیے کار خریدی! آپ کا کیا خیال ہے یہ کار کون سی ہو گی؟ مرسڈیز؟ بی ایم ڈبلیو؟ رولز رائس؟ فراری؟ نہیں! یہ ایک پرانی سیکنڈ ہینڈ کار ہے جو وزیراعظم نے خود بنفسِ نفیس آکر، ڈیلر سے خریدی! یہ ایک نسان کار ہے۔ 2004ء کا ماڈل! یعنی بارہ سال پرانی! بانوے ہزار کلومیٹر چلی ہوئی۔ واحد شرط کار دیکھتے وقت ’’خریدار‘‘ نے یہ لگائی کہ کار برطانیہ کی بنی ہوئی ہو! وزیراعظم نے کار پسند کی۔ پھر طے کیا کہ دوسرے دن آکر رقم ادا کرے گا۔ باقی بات کار بیچنے والے ڈیلر کی زبانی سنیے:
’’وہ اگلی صبح دس بجے کے بعد آیا۔ میں نے کوئی ڈسکاؤنٹ نہیں دیا۔ اس نے رقم ادا کی بالکل اتنی جتنی سکرین پر لکھی ہوئی تھی۔ وزیراعظم ڈاکخانہ گیا، ٹیکس ادا کیا اور رخصت ہو گیا! اُس کے سیکورٹی والے سوچتے ہوں گے کہ میں نے اُس کے ساتھ بالکل وہی سلوک کیا جو میں عام گاہکوں کے ساتھ کرتا ہوں! مگر اس نے کون سی بیس ہزار پاؤنڈ والی کار خریدی جو میں خصوصی برتاؤ کرتا!‘‘
برطانیہ کے وزیراعظم نے یہ کار 1495 پاؤنڈ (آج کے حساب سے 2لاکھ 30 ہزار 240 پاکستانی روپے)میں خریدی! جو وہاں کے معیار کی رُو سے ایک عام خریداری ہے!
یہ صرف ایک مثال ہے! مغربی دنیا کے جمہوری ملکوں میں آج وہ ساری مثالیں موجود ہیں جو ہمارے ماضی کی داستانوں میں ہیں اور جو ہم فخر سے گا گا کر، لہک لہک کر سناتے ہیں۔ وزرائے اعظم آج بھی بھیس بدل کر ٹیکسیاں چلا رہے ہیں تا کہ عوام کے خیالات اور حالات سے براہِ راست آگاہی حاصل کر سکیں! ملکہ سبزی خود خرید رہی ہے۔ وزیراعظم ٹرین میں کھڑا ہو کر اخبار پڑھ رہا ہے اور اس کی طرف کوئی دیکھ تک نہیں رہا۔ صدر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہے اور مقدمے کی لمحہ لمحہ تفصیل انٹرنیٹ پر ساری دنیا دیکھ اور سن رہی ہے! نیو ساؤتھ ویلز کا وزیراعلیٰ تحفے میں شراب کی بوتل لیتا ہے، خبر پھیلتی ہے، صفائیاں پیش کرتا ہے اُس گفتگو کی ریکارڈنگ میڈیا میں چلتی ہے جو اس نے کی تھی! پھر اُسے استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔ ایک اور وزیر سرکاری لیٹر پیڈ پر کسی کی سفارش کے لیے خط لکھتا ہے، اسے وزارت سے نکال دیا جاتا ہے! حکمران آج کے زمانے میں بھی سائیکلوں پر، بسوں میں، زیرزمین ریلوں میں بیٹھ کر دفتروں میں آتے ہیں۔ عوام کی شکایات پر مشتمل ڈاک وزیروں کے دفتروں میں میڈیا پہلے کھولتا ہے، وزیر بعد میں پڑھتے ہیں!
مگر یہ سب کچھ بتاتے ہوئے ہمارے پیٹ میں قولنج کا درد پڑ جاتا ہے! ہمارے واعظ یہاں پہنچ کر گونگے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے مدرس موضوع بدل لیتے ہیں! ہماری درسی کتابوں میں یہ سب کچھ نہیں لکھا جاتا تا کہ طلبہ موجودہ حکمرانوں کی عیاشیوں پر اعتراض نہ کر بیٹھیں!
حافظ سعید وہ واحد مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے کسی احساسِ کمتری کے بغیر عدالت میں کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں کو برطانیہ کے وزیراعظم سے سبق سیکھنا چاہیے! حافظ صاحب 2012ء کی جولائی میں عدالت گئے۔ افسوس! اس مقدمے کے بارے میں کوئی خبر بعد میں نہ آئی۔ کاش وہ اسے منطقی انجام تک پہنچاتے۔ دیکھیے، مشہور برطانوی روزنامہ ’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے کیا لکھا۔ ’’لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست میں حافظ سعید نے لکھا کہ ہمارے افسران بادشاہوں کی طرح بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں جب کہ برطانوی وزیراعظم سترھویں صدی کے بنے ہوئے ایک عام چاربیڈ روم والے گھر میں رہائش پذیر ہے۔ جب سورج سلطنت برطانیہ پر غروب نہیں ہوتا تھا اس وقت بھی برطانیہ کا چیف ایگزیکٹو اسی، چند مرلے کے گھر میں رہتا تھا۔ حافظ سعید صاحب نے درخواست میں لکھا کہ ’’یہ اصل میں اسلامی طرز ہے! یہ سنتِ رسول کی ابتاع والی بات ہے‘‘ حافظ صاحب نے مزید بتایا کہ ’’صدر زرداری برطانیہ خصوصی طیارے میں سوار ہو کر گئے جس کے لیے ریاست نے بے پناہ خرچ کیا جب کہ لندن کا مئیر سائیکل پر سوار ہو کر آتا ہے اور کیمرون بھی وزیراعظم بننے سے پہلے سائیکل استعمال کر رہا تھا۔‘‘
آپ کا کیا خیال ہے مراکش کا یا سعودی عرب کا یا اردن کا بادشاہ یا پاکستان کا وزیراعظم اپنی اہلیہ کے لیے بانوے ہزار کلومیٹر چلی ہوئی سیکنڈ ہینڈ کار، خود ڈیلر کے پاس جا کر خریدے گا؟، خود ڈاکخانے کی کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو کر ٹیکس ادا کرے گا؟
ہاں! ہمارے خلفا ایسا ہی کرتے تھے، مگر ہمیں اپنے ظرف اتنے تو بڑے کرنے چاہئیںکہ لوگوں کو بتا سکیں آج بھی ایسا ہو رہا ہے! مگر مسلمان ملکوں میں نہیں!!

Wednesday, May 25, 2016

کھوٹے سکے، اندھے سنار

پہلا منظر
بھارت ایران اور افغانستان کے درمیان چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک زبردست سفارتی اور 
Strategic
 شکست ہے۔ تین ہمسایہ ملکوں نے اسے مکمل بائی پاس کرتے ہوئے آپس میں ہاتھ ملا لیے ہیں اور کھلم کھلا گوادر منصوبے کو نا کام کرنے کا عزم کر لیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ عزم کر لیا ہے بلکہ موثر اور منظم طور پر قدم بھی اٹھا رہے ہیں۔ ایران اور انڈیا کے درمیان اس موقع پر بارہ معاہدے ہوئے ہیں جن کا دامن ثقافت سے لے کر ٹیکنالوجی تک پھیلا ہوا ہے۔ بھارت چاہ بہار منصوبے کے لیے پچاس کروڑ ڈالر مہیا کرے گا۔ تینوں سربراہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں ایرانی صدر نے کہا کہ یہ معاہدہ ’’دو عظیم ملکوں‘‘ کے درمیان تعاون کی بہت بڑی علامت ہے۔ بھارتی میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان بائی پاس ہو جائے گا اور افغانستان کو تجارت کے لیے ایک ایسا راستہ ملے گا جس میں وہ پاکستان سے مکمل طور پر بے نیاز ہو جائے گا۔ اہم ترین عنصر اس سارے پیش منظر کا یہ ہے کہ ایرانی صدر نے اس معاہدے کو نہ صرف اقتصادی بلکہ ’’سیاسی‘‘ اور ’’علاقائی‘‘ بھی قرار دیا ہے!
دوسرا منظر
وزیر اعظم نواز شریف نے سنٹرل لندن میں آکسفورڈ سٹریٹ پر واقع مارکس اینڈ سپنسر ریستوران میں کھانا کھایا۔ وزیراعظم طبی معائنہ کے لیے پانچ روزہ دورے پر لندن میں ہیں جہاں وہ گزشتہ روز اہلیہ کلثوم نواز اور صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے ہمراہ آکسفورڈ سٹریٹ پہنچے۔ وزیراعظم اور ان کے اہلِ خانہ نے کھانا کھانے کے علاوہ سٹور میں شاپنگ بھی کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ملبوسات کے عالمی برانڈز کے آؤٹ لیٹ سے خریداری کی۔ 
پہلا منظر
پاکستان نے امریکہ سے ڈرون حملے کی ممیاتے ہوئے جو وضاحت ’’مانگی‘‘ تھی اور حملے کو جس طرح ’’خودمختاری‘‘ پر حملہ قرار دیا تھا، اس کے جواب میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر خود سامنے آیا ہے، اس نے برملا اعلان کیا ہے کہ ڈرون حملے جاری رہیں گے!
’’پاکستان سمیت جہاں بھی امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو کارروائی کریں گے اور پاکستان کو ان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے‘‘۔
دوسری طرف پاکستانی عوام کو ان کی اپنی حکومت نے عجیب و غریب کنفیوژن میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ طالبان نئے امیر کے لیے اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔ امریکہ اور افغانستان دونوں دنیا کو یہی باور کرا رہے ہیں کہ یہ طالبان لیڈر تھا جو ہلاک ہوا، مگر ’جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے‘ والا معاملہ اسے معمہ بنا کر پیش کر رہا ہے۔ ہلاک ہونے والا شخص ولی محمد تھا یا ملا منصور؟ پاکستان حکومت اس پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر رہی!
دوسرا منظر
وزیراعظم کے ’’معاونِ خصوصی‘‘ (سابق سرکاری ملازم) نے وزیراعظم سے لندن میں ٹیلی فونک ’’رابطہ‘‘ کیا ہے اور ملا منصور واقعہ کے بارے میں وزیراعظم سے ’’تبادلۂ خیالات‘‘ کیا ہے۔ اس گفتگو کے بعد دفتر خارجہ میں مشاورتی اجلاس ہوا! اس مشاورتی اجلاس کا کیا نتیجہ نکلا یہ تو نہیں معلوم مگر ایک وفاقی وزیر اور حکومتی پارٹی کے رہنما نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے ڈرون حملے کو پاکستان کی سلامتی پر حملہ قرار دیا ہے۔۔۔۔ اور یہ بیان ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی ہے! رہنما نے کہا کہ ’’کسی بھی ملک کو ڈرون حملے کی اجازت نہیں دی جائے گی!‘‘
پہلا منظر
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ اورنج لائن منصوبے پر تنقید کرنے والے دراصل عام آدمی کی فلاح و بہبود کے دشمن ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ عام آدمی کی حالت بہتر ہو! یہ عوام کے خیر خواہ نہیں!
دوسرا منظر
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا، ہم ایک عرصہ سے چیخ رہے ہیں اور رو رہے ہیں کہ آخر ملک میں گڈ گورننس کب آئے گی؟ بد عنوانی، جانب داری، اقربا پروری، لاقانونیت اور محرومیوں کا خاتمہ کب ہو گا؟
اگر ان مناظر سے آپ کی آنکھوں کو اتنی ٹھنڈک نہیں پہنچی جتنی ایک وسیع، خنک سبزہ زار کو دیکھنے سے پہنچتی ہے تو ایک لوک داستان سنیے۔ امید قوی ہے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں آسانی ہو گی!
اُس پار سے دو بھیڑیے اُترے۔ چالاک اور خونخوار۔ ایک لنڈورا، دوسرے کی دُم ہی نہیں! جس کی دُم نہیں وہ تین دریاؤں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان میں سے دو دریا خشک ہیں۔ ایک میں پانی نہیں! جس دریا میں پانی نہیں، اس کے کنارے تین شہر آباد ہیں۔ دو اجڑے ہوئے ہیں۔ ایک آباد نہیں! جو شہر آباد نہیں، اس میں تین کمہار رہتے ہیں۔ دو کبڑے ہیں، ایک سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا۔ جو کمہار سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا اُس نے تین ہانڈیاں بنائی ہیں۔ دو ٹوٹی ہوئی ہیں، ایک کا پیندہ نہیں! جو ہانڈی پیندے کے بغیر ہے، اس میں چاول کے تین دانے پکائے گئے۔ دو سخت ہیں، ایک نرم نہیں ہوا۔ جو چاول نرم نہ ہو سکا اُسے تناول کرنے کے لیے تین مہمان تشریف فرما ہوئے۔ دو بھوکے رہے، ایک سیر نہ ہوا۔ وہ جو سیر نہ ہوا اس کے پاس تین گائیں ہیں۔ دو بانجھ ہیں، تیسری دودھ نہیں دیتی۔ جوگائے دودھ نہیں دیتی، اُسے ہم نے بیچ ڈالا۔ قیمت میں تین روپے ملے۔ دو روپے جعلی نکلے، تیسرے کو کوئی لینے کو تیار نہیں! جس روپے کو کوئی قبول نہیں کرتا، اسے جانچنے کے لیے تین سنار بلائے گئے۔ شومئی قسمت کہ دو ان میں سے اندھے تھے، تیسرے کو کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جس سنار کو دکھائی کچھ نہیں دیتا تھا، اس نے سونے کی تین چوڑیاں بنائیں۔ دو تنگ نکلیں، تیسری کلائی پر چڑھتی نہیں۔ دوشیزہ یہ چوڑی لینا چاہتی تھی مگر اُس کے عاشق نے لینے نہیں دی!
ہماری قسمت میں خشک دریا، اجاڑ شہر، کبڑے کمہار، بے پیندے کی ہنڈیا، کچے چاول، کبھی سیر نہ ہونے والے مہمان، بانجھ گائیں، 
کھوٹے سِکے، اندھے سنار اور تنگ چوڑیاں ہیں! ہم کیا کریں! ہم کہاں جائیں! بھارت ہمارے سر کے اوپر سے ہوتا دونوں پڑوسی ملکوں کے سربراہوںکو اپنی بغل میں لیے بیٹھا ہے۔ مودی رانوں پر ہاتھ مار کر ’’بھِڑ کوڈی، بھڑ کوڈی‘‘ للکار رہا ہے! صدر روحانی برملا کہہ رہے ہیں کہ یہ معاہدہ اقتصادی ہی نہیں، سیاسی اور علاقائی بھی ہے! گویا علاقے میں پاکستان کا وجود ہے نہ حیثیت! جیسے بستاہی نہیں! افغانستان کا صدر آنکھیں ماتھے پر رکھے، پاکستان کے طویل، لامتناہی احسانات یکسر فراموش کرکے اس اتحادِ تلاثہ میں شریک ہوگیا ہے! دوسری طرف صدر اوباما بنفس نفیس خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے ہیںکہ ڈرون حملے ہوتے رہیںگے۔ ایسے میں ہمارے وزیرخارجہ، جو وزیراعظم بھی ہیں، آکسفورڈ سٹریٹ میں اہلِ خانہ کے ساتھ کھانے کھا رہے ہیں اور بین الاقوامی برانڈوںکے ملبوسات اکٹھے کر رہے ہیں۔ ڈرون حملے سالمیت کو نگل رہے ہیں۔ دنیا طعنے دے رہی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی جنت ہے۔ چاہ بہار میں ہمارے لیے کنواں کھودا جا رہا ہے! اندھا کنواں! واحد سرگرمی جو اس سارے معاملے میں ہماری وزارت خارجہ دکھاتی ہے، یہ ہے کہ ’’معاون خصوصی‘‘ وزیراعظم کو فون کرکے ان کی لندن کی سرگرمیوں میں مخل ہونے کی جرأت کرتے ہیں۔ پھر وزارتِ خارجہ میں ایک اجلاس ہوتا ہے! حکومتی پارٹی کے لیڈر و وزیراعظم کے اِکا دُکا جملوںکو ’’خارجہ پالیسی‘‘ قرار دے رہے ہیں! ملک کی بلند ترین عدالت کا قاضی دہائی دیتا ہے کہ ملک میں گورننس ہے نہ دیانت۔ ہر طرف جانبداری ہے اور اقرباپروری اور محرومیاں اور لاقانونیت! 
کوئی ہے جو ثابت کرے کہ ایسا نہیں ہے؟

Monday, May 23, 2016

لب دوزی

بابا جی نے چائے کا گھونٹ بھرا۔ پھر ایک لمبی آہ بھری!
عمامہ ان کا سفید تھا۔ تہمد بھی سفید کھدرکا تھا۔ داڑھی مہندی اور خضاب کے آمیزے سے رنگی ہوئی تھی۔ چٹائی پر نیم دراز تھے۔ شاگرد دم بخود تھے کہ آہ کیوں بھری ہے؟
’’آج چائے میں لطف نہیں آ رہا!‘‘ بابا جی نے کہا۔ 
پھر انہوں نے چائے کی صفات بتائیں۔
’’لازم ہے کہ چائے میں تین خواص ہوں تا کہ لطف اندوز ہوا جا سکے!
اوّل: لبریز ہو! یعنی فنجان (پیالہ) لبالب بھرا ہو!
دوم: لب سوز ہو! اتنی گرم کہ ہونٹ جیسے جل اٹھیں گے!
سوم: لب دوز ہو! یعنی شیرینی اس میں اس قدر ہو کہ حلاوت کے زور سے ہونٹ آپس میں جُڑ جائیں!
بابا جی کو دنیا سے کوچ کیے نصف صدی بیت چکی ہے۔ اس اثنا میں چائے پر کئی دورگزر گئے! اُس زمانے کا دودھ خواب و خیال ہوا! شکر دو چمچ سے ڈیڑھ ہوئی۔ پھر ایک اور اب نصف! 
رہی لب سوزی! تو بہت لوگ اب خاصی ٹھنڈی کر کے پیتے ہیں جیسے چائے نہ ہو، شربت ہو! پوچھیے کہ ٹھنڈی چائے کا کیا فائدہ؟ تو آگے سے سوال داغیںگے کہ گرم چائے پینے میں کتنا ثواب ہے؟
اب تک آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ لب دوزی سے مراد ہونٹوں کا سِی دینا ہے! آپ کئی اور الفاظ ذہن میں لا سکتے ہیں! کفش دوز۔۔۔ جُوتے سینے یعنی گانٹھنے والا۔ زرہ دوزی بھی ایک زمانے میں فن تھا! درزی کو جامہ دوز بھی کہتے تھے۔ ایک کفن دوز بھی ہوتا ہے جسے ہم بھلائے رکھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ دن آتا ہے جب ہمارے لواحقین سفید کپڑا لیے کفن دوز کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں کہ آخری بار اِس دنیا کا بُنا ہوا اور اِس دنیا کا سیا ہوا لباس ہمیں پہنا سکیں! کنالی سوٹ کی قیمت ایک لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے مگر آہ! یہ سوٹ ہمیں کفن دوزکی محتاجی سے نہیں بچا سکتا!
لب دوزی کی طرف واپس آتے ہیں! آپ کا کیا خیال ہے، گرم چائے نہ ہو تو ہونٹ نہیں سیے جا سکتے؟ ہونٹ سینے کا ایک تو سیدھا سادا روایتی طریقہ ہے، سوئی دھاگہ لیجیے اور ہونٹ سی دیجیے، جیسے حال ہی میں شہباز تاثیر نے اپنی کہانی سنائی ہے کہ قید کے دوران ان کے ہونٹ سی دیے گئے۔ مغلوں کے زمانے میں یہ رواج عام تھا۔ قیاس کہتا ہے کہ مغل یہ رواج وسط ایشیا سے لائے ہوں گے، جبھی تو ازبکوں نے شہباز تاثیر کے ہونٹ سی دیے۔ مگر ہونٹ سینے کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔ یہ طریقہ کیا ہے؟ باقاعدہ ہنر ہے! اس ہنر میں اہلِ اقتدار طاق ہوتے ہیں! یہ ہنر عجیب ہنر ہے۔ اس میں سوئی کی ضرورت ہے نہ دھاگے کی! نہ درزی کی! بس پیٹ بھرا جاتا ہے۔ پھر منہ نہیں کھُلتا!
یہ ہنر قدیم زمانے سے رائج ہے۔ اُس وقت کمیٹیاں تھیں نہ وفاقی وزیر کے برابر مراعات! نہ ہی ولایت تک کے ہوائی ٹکٹ مہیا کرنے پڑتے تھے! عباسی خلیفہ مہدی نے اپنے وقت کے مشہور عالم اور فقیہ قاضی شریک کو طلب کیا۔ اُن کے سامنے تین باتیں رکھیں کہ ایک کو قبول کرنا ہوگا۔ یا تو جسٹس کا عہدہ قبول کیجیے یا شہزادوں کو تعلیم دینے کی ذمہ داری سنبھالیے۔ یہ دونوں باتیں منظور نہ ہوں تو ایک بار، صرف ایک بار میرے ہاں کا کھانا تناول فرمائیے۔ قاضی صاحب کو تیسری بات آسان لگی کہ ایک بار کھانا کھا کر جان چھوٹ جائے گی! مہدی نے باورچی کو حکم دیا کہ اپنے فن کو پوری طرح بروئے کار لائے۔ انواع و اقسام کی ڈشیں تھیں۔ خلیفہ نے خاص طور پر فرمائش کی کہ انڈے کی زردی کا حلوہ ضرور ہو جس میں اُس زمانے کی اعلیٰ ترین شکر (جسے طبرزَد کہا جاتا تھا) اور شہد پڑتا تھا! قاضی صاحب دعوت کھا کر رخصت ہوئے تو باورچی خانے کے ناظم نے خلیفہ سے کہا: ’’جہاں پناہ! ممکن ہی نہیں کہ اب شیخ اپنے عزائم میں کامیاب ہوں! یہی ہؤا۔ قاضی صاحب نے سپر ڈال دی۔ قضا کا عہدہ قبول کیا، شہزادوں کو تعلیم دینے پر بھی راضی ہوئے۔ تاریخ اس سلسلے کا عجیب واقعہ بیان کرتی ہے۔ پہلی تنخواہ لینے لگے تو خزانے کا داروغہ (جو زیادہ تر یہودی ہوتے تھے) کم دینے لگا۔ قاضی صاحب نے جھگڑا کیا۔ آخر داروغہ نے کہا تم کس شے کا معاوضہ مانگ رہے ہو؟ کیا تم نے کپڑا فروخت کیا ہے؟ جواب میں قاضی صاحب نے بذلہ سنجی سے کہا کہ بھائی! میں نے تو کپڑے سے بھی زیادہ قیمتی شے فروخت کی ہے! میں نے تو اپنا دین بیچا ہے! اس بذلہ سنجی میں اُن کے ضمیر کی کسک موجود تھی!
حکومتی امور سے بے توجہی اور کھانے پینے میں حد درجہ مصروفیت۔۔۔! آج کی بات نہیں! ہماری تاریخ کے روشن صفحات شکم پروری کے ذکر سے بھرے ہیں! آج لوگ حیرت کا اظہار کیوں کرتے ہیں کہ باورچی جدّہ لے جایا جا رہا ہے یا لندن! مشہور حاکم ابن ہبیرہ جس نے امام ابو حنیفہؒ کو جیل میں کوڑے مارے یا مروائے تھے، صبح بیدار ہونے کے بعد ایک بڑے پیالے میں دودھ اور شہد کا مرکب پیتا تھا۔ پھر ناشتے میں دو بھُنی ہوئی مرغیاں، دو بھُنے ہوئے کبوتر اور دیگر غذائیں کھاتا۔ دوپہر کے کھانے پر پھر دستر خوان بھرا ہوتا! عصر کے بعد تخت بچھایا جاتا۔ اس پر ابن ہبیرہ بیٹھتا، مصاحبین کے لیے کرسیاں ہوتیں۔ پہلے دودھ، شہد، شکر اور قند کے ساتھ شربت پیش کیے جاتے، پھر مغرب تک کھانوں کا سلسلہ جاری رہتا! ایک خلیفہ نے ایک منہ چڑھے مصاحب سے پوچھا کہ تم ہمیشہ دستر خوان ہی پر کیوں اپنی ضرورتیں پیش کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا حضور کا موڈ اِس وقت بہت ہی اچھا ہوتا ہے! منصور تخت نشین ہوا تو لوگوں نے پیش گوئی کی کہ پیٹ کی تکلیف ہی سے مرے گا! ایک ہندوستانی طبیب نے ہاضمے کی پھکی بنا کر دی۔ اس سے بسیار خوری میں اضافہ ہو گیا! حضرت محمد نفس ذکیہ کے بھائی حضرت ابراہیم سے اُس وقت مقابلہ ہو رہا تھا۔ ہڈیوں کے مغزکا حلوہ، جو خاص غذا تھی، باورچی نے پیش خدمت کیا تو کہنے لگا: ’’ابراہیم چاہتا ہے اس حلوے سے اور دیگر مزیدار کھانوں سے مجھے محروم کر دے‘‘!
حجاج کے زمانے میں ’’لب دوزی‘‘ کا باقاعدہ ’’نظام‘‘ تھا۔ جن کے ہونٹ سینے ہوتے تھے انہیں دستر خوان پر ساتھ بٹھایا جاتا تھا۔ کہتے ہیں عراق میں ایسے درویشوں کا گروہ تھا جن کی دعائیں قبول ہوتی تھیں! وہ گورنر کو بد دعا دیتے۔ وہ مر جاتا یا معزول کر دیا جاتا۔ حجاج نے انہیں گورنر ہاؤس بلایا اور کھانا کھلایا۔ پھر مسکرا کر کہا اب ان کے پیٹ میں حرام کا لقمہ داخل ہو گیا ہے، ان کی دعائیں بے اثر جائیںگی۔ طرفہ تماشا ہے کہ عوام کو یہ قصّہ صبح و شام پڑھ کر سنانے والے خود کبھی مری کے سرکاری مہمانوں خانے میں قیام فرما ہوتے ہیں کبھی قطر کے شاہی محل میں دستر خوان پر تشریف رکھتے ہیں! ٹیکس بچانے والے اور عمروں پر عمرے کرنے والے ’’دیندار‘‘ تاجر اپنے پسندیدہ علما کو اپنے ہاں کئی کئی دن مہمان رکھتے ہیں! عینی شاہد بتاتے ہیں کہ ’’بزرگ‘‘ جتنے دن قیام فرما ہوتے ہیں، ریفریجریٹر مشروبات سے بھرے رہتے ہیں اور دسترخوان مغل بادشاہوں کی یاد تازہ کرتے ہیں! اسی لیے تو اِن ’’دیندار‘‘ تاجروں کو ملکی قوانین پر عمل پیرا ہونے کی نصیحت نہیں کی جاتی! یہی لب دوزی ہے! بلکہ یہاں تک فرمایا جاتا ہے کہ سمگلنگ میں کیا برائی ہے؟ تجارت ہی تو ہے! واہ رے لب دوزی! تیرے بھی کیا کیا کمالات ہیں!
آج اگر حکمرانوں کے پاس امور خارجہ اور دہشت گردی کے مسائل کے لیے وقت نہیں، آج اگر کابینہ کے اجلاس سات سات ماہ بعد ہوتے ہیں، آج اگر وزرا حاضری کا وقت حاصل کرنے کے لیے مہینوں انتظار کرتے ہیں، آج اگر منتخب ایوان میں ورُود، تہوار کی طرح منایا جاتا ہے تو یہی وہ ’’مصروفیات‘‘ تھیں جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے راستہ صاف کیا۔ اودھ کے نواب اور دکن کے نظام میں باورچیوں پر جھگڑا رہتا تھا۔ دونوں سلطنتوں میں امورِ حکومت انگریز ریزیڈنٹ نمٹاتے تھے۔ نواب واجد علی شاہ کے خاصے کا پلاؤ چونتیس سیر گوشت کی یخنی ہیں پکتا تھا۔ ناشتے میں ہر روز دوسیر گھی خرچ ہوتا تھا۔ معلوم نہیں، اُس وقت باقر خانیوں کا الگ باورچی ہوتا تھا یا نہیں! مگر ماش کی دال کے لیے باورچی خاص ہوتا تھا۔ حکمران ان باورچیوں کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ معاوضہ پیش کر کے ’’حریف‘‘ کو نیچا دکھاتے تھے! تو پھر یہ روایت بھی سچ ہی ہو گی کہ صاحبزادہ یعقوب خان امور خارجہ پر بریفنگ دینے کے لیے رضاکارانہ طور پر حاضر ہوئے۔ کچھ دیر بات سنی گئی پھر طبیعت اچاٹ ہو گئی اور فرمایا: ’’چھوڑیے صاحبزادہ صاحب! آئیے ناشتہ کرتے ہیں!‘‘
ہو سکتا ہے یہ بے پر کی اڑائی گئی ہو! رَو چل پڑے تو لوگ اپنی طرف سے بہت کچھ گھڑ لیتے ہیں! مگر ہماری تاریخ تو یہی کچھ بتا رہی ہے! تو پھر تعجب کیا ہے اگر قطار میں کھڑا ہو کر سینڈوچ یا ایک برگر خرید کر لنچ کرنے والا اوباما ہم پر حکمران ہے!!

Saturday, May 21, 2016

کوفہ سے پاکستان تک

بازار سے گزرتا یہ شخص مسلسل اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ کبھی دائیں طرف دکانوں کو دیکھتا کبھی بائیں طرف بلند و بالا مکانوں! عجیب بات تھی کہ اُس کی بائیں آستین پر بیسیوں مکھیاں بیٹھی تھیں اتنی ہی ساتھ ساتھ اُڑتی جا رہی تھیں اور بھنبِھنا رہی تھیں۔ اچانک اس کی نظر اُس وسیع و عریض مسجد پر پڑی جو بازار کے وسط میں واقع تھی۔ مسجد کے لمبے چوڑے صحن میں ایک طرف نوجوان طلبہ حلقہ زن تھے تو دوسرے گوشے میں چھوٹے بچے سبق پڑھ رہے تھے۔ اُس کی نظریں بچوں پر پڑیں اور وہیں ٹھہر گئیں۔ وہ دیر تک انہیں دیکھتا رہا۔
صحن کے جس حصے میں طلبہ حلقہ باندھے‘ محو درس تھے‘ وہاں ایک بزرگ تشریف فرما تھے جو ان طلبہ کے استاد تھے۔ انہوں نے اُس شخص کی حرکات و سکنات دیکھیں اور پھر اپنے شاگردوں کو بتایا کہ یہ شخص اس شہر کا نہیں ہے۔ اس کے بائیں ہاتھ میں کوئی شیرینی ہے اور یہ پیشے کے لحاظ سے بچوں کا مدرس ہے۔ ایک شاگرد اُٹھا اور جا کر اُس شخص سے اِن باتوں کی تصدیق چاہی۔ تینوں باتیں درست نکلیں شاگردوں کے پوچھنے پر استاد گرامی نے بتایا کہ یہ شخص جس طرح مسلسل اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا‘ اُس سے صاف ظاہر تھا کہ اجنبی تھا۔ مقامی شہری کو کیا پڑی ہے کہ ہر روز جہاں سے گزرتا ہے وہاں کے یمین لیسار کو غور سے دیکھے۔ بائیں ہاتھ میں شیرینی ہونے کی وجہ سے وہاں مکھیوں کا ہجوم تھا جو دائیں ہاتھ اور دائیں آستین کے اردگرد نہیں تھیں۔ رہی تیسری بات تو وہ صرف بچوں کو غور سے دیکھ رہا تھا اور بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ 
یہ واقعہ امام ابوحنیفہؒ سے منسوب ہے۔ مسجد کوفہ کی تھی۔ حوالہ نہیں یاد آ رہا۔ اگر یادداشت دھوکہ نہیں دے رہی تو مناظر احسن گیلانی کی تصنیف ’’امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘ میں پڑھا تھا!
ایسا ہی واقعہ چند ماہ پہلے پاکستان میں پیش آیا۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی فیکٹری کے کچھ حصے خراب ہو گئے۔ ایسی ہی ایک فیکٹری اس کمپنی کی مشرق وسطیٰ میں بھی تھی۔ وہاں تعینات ایک انجینئر کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ (غالباً حطار میں واقع) اُس فیکٹری کی مرمت کرے‘ یہ جہاں دیدہ اور سرد و گرم چشیدہ انجینئر کئی ہفتے یہاں رہا۔ پہلے اُس نے مرمت کا کام کیا۔ پھر وہ عرصہ جو مرمت شدہ حصوں کی کارکردگی چیک کرنے کے لیے لازم تھا‘ یہاں گزارا ان سارے ایام میں ایک مقامی شخص جو پڑھا لکھا تھا اور اُسی کمپنی کا ملازم تھا‘ اُس کے معاون کے طور پر اُس سے وابستہ رہا‘ یہ مہمان نوازی کا بھی انچارج تھا اور عمومی دیکھ بھال کا بھی! اسے پروٹوکول افسر کہہ لیجئے۔ صبحدم مہمان کی قیام گاہ پر حاضر ہوتا پھر دن بھر اس کے ساتھ ہی رہتا۔ مہمان کئی دوسرے شہروں میں بھی گیا۔
رخصتی کا وقت آیا تو پروٹوکول افسر نے کہا کہ وہ ماضی میں کئی غیر ملکی مہمانوں کا‘ اور وفود کا بھی‘ پروٹوکول افسر رہا۔ سب پاکستان کے بارے میں سوالات پوچھتے ہیں۔ یہاں کی سیاست کے متعلق‘ عوام کی اقتصادی اور سماجی حالت کے بارے میں‘ اُن کے معاشرتی رویوں کے بارے میں‘ مگر آپ نے طویل قیام کے دوران کچھ نہ پوچھا۔ پروٹوکول افسر نے مہمان کو بتایا کہ یہ سوال اُس کے ذہن میں بلبلے کی طرح اٹھتا۔ پھر ٹوٹ جاتا اور اس بلبلے میں دوبارہ ہوا بھر جاتی!
میزبان مسکرایا۔ کہنے لگا ’’میں جو کچھ جاننا چاہتا تھا‘ پوچھے بغیر ہی جان گیا ہوں۔ دنیا دیکھی ہوئی ہے۔ نبض پر ہاتھ رکھتا ہوں تو تشخیص کر لیتا ہوں۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں! سوالات نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں بے نیاز 
(INDIFFERENT)
 تھا۔ یا یہاں آنے سے پہلے ہی یہاں کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا! میں نے مشاہدہ کیا نبض پر ہاتھ رکھا اور جو جاننا چاہتا تھا‘ پوچھے بغیر معلوم کر لیا۔
’’تو ازراہ کرم یہ تو بتاتے جائیے کہ میرے ملک کے بارے میں آپ کا علم کیا کہتا ہے‘‘؟ 
’’غور سے مشاہدہ کرنے پر میں نے تین نتائج اخذ کئے ہیں۔ اوّل‘ یہاں کے حکمران کرپٹ ہیں۔ دوم‘ یہاں افرادی قوت پر اور 
Human Development
 پر توجہ نہیں دی جا رہی! بجٹ کا ازحد معمولی حصہ اسی مد میں صرف کیا جاتا ہے جو قابل مذمت ہے۔ سوم‘ عوام شہری شعور (سوک سنس) سے عاری ہیں! تم تعلیم یافتہ نوجوان ہو۔ اب ان نتائج کی پشت پر جو مشاہدات کارفرما ہیں‘ اُن کا بھی پوچھو گے۔ تو بتائے دیتا ہوں!
میں نے شاہراہوں کی حالت یکسر خراب دیکھی ہے۔ شاید ہی کوئی سڑک بین الاقوامی معیار پر پوری اترتی ہو۔ کہیں ٹوٹی ہوئی ہیں‘ کہیں ان کے کئی کئی حصے نیم پختہ ہیں! کہیں پھوڑوں اور آبلوں کی صورت درمیان سے اُوپر اٹھی ہوئی ہیں یوں کہ ان پر گاڑی چلائی ہی نہیں جا سکتی! یہ صورتحال وہاں ہوتی ہے جہاں حکمران کرپٹ ہوں۔ اس لیے کہ جہاں حکمران کرپٹ ہوں‘ وہاں عمّال بھی کرپٹ ہوتے ہیں۔ وہاں انجینئر اور ٹھیکیدار بھی کرپٹ ہوتے ہیں۔ یہ کرشن ہر جگہ نفوذ کر جاتی ہے۔ یونیورسٹیوں کے امتحانی نتائج میں‘ بیورو کریسی کی ترقیوں اور تعیناتیوں میں‘ پُلوں میں اور سرکاری عمارتوں میں‘ مگر یہ سب مقامات ہیں جو چھپتے ہیں نہ چھپائے جا سکتے ہیں! ہر شخص امیر ہو یا غریب انہیں دیکھتا ہے۔ سیّاح ملک کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے سڑکوں کو دیکھتے ہیں۔ جو ممالک شفافیت میں سرفہرست ہیں جیسے نیوزی لینڈ‘ ڈنمارک‘ سوئٹرزلینڈ‘ سنگاپور‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ وہاں کی شاہراہیں بہترین حالت میں ہیں!
پھر میں نے عوام کو غور سے دیکھا۔ سڑکوں کے اردگرد بس سٹاپوں پر کھڑے لوگوں کو دکانوں میں خریداری کرتے لوگوں کو‘ پُلوں سے گزرتے لوگوں کو‘ فیکٹریوں میں داخل ہوتے اور باہر نکلتے لوگوں کو! اکثریت کا ظاہر بھی قابل رحم ہے اور اندر سے بھی یہ کھوکھلے‘ سطحی اور کچے ہیں! اکثر کے لباس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اقتصادی ابتری کا شکار ہیں! اقتصادی ابتری اس امر کی علامت ہے کہ تعلیم کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے نہ بجٹ کافی ہے۔ صحت کے نکتہ نظر سے ناقابل رشک بریکٹ میں ہیں! بیماریاں عام ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت اصطبلوں سے بھی بدتر ہے۔ ڈاکٹر موجود ہیں تو آلات نہیں اور آلات حاضر ہیں تو ڈاکٹر نا موجود! لوگوں سے بات چیت کی جائے تو 
صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تربیت یافتہ نہیں! ہر بات انداز سے کریں گے اور اپنی رائے کو حتمی سمجھیں گے۔ میں نے ایک بظاہر تعلیم یافتہ شخص سے پوچھا کہ تمہاری نظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔ اس نے ایک لحظہ توقف کئے بغیر جواب دیا امریکہ! پوچھا کیسے؟ کہنے لگا ہمارے خلاف سازشیں کرتا ہے! میں نے پوچھا‘ کیا امریکہ نے تمہیں سکول اور ہسپتال بنانے سے روکا ہے اور کیا وہ کہتا ہے کہ فلاں کو ووٹ دو! اس پر وہ خاموش ہو گیا۔
رہا یہ نتیجہ کہ عوام شہری شعور سے عاری ہیں تو اس کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان کی ٹریفک ہے یہ دنیا کی بدترین ٹریفک ہے! ہر شخص ہر وقت قانون توڑ رہا ہے۔ چھوٹی کار والا بھی‘ مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو والا بھی۔ بس ڈرائیور بھی‘ سوزوکی والا بھی اور موٹر سائیکل والا بھی۔ یہاں تک کہ پیدل چلنے والا بھی۔ میں نے لاتعداد لوگوں کو دیکھا جو گاڑیاں‘ دوسری گاڑی کے عین پیچھے پارک کر رہے ہیں! پرسوں تم مجھے فلاں مارکیٹ لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ پارکنگ سے ایک گاڑی باہر گئی۔ ایک شخص پہلے سے جگہ خالی ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ ابھی وہ وہاں پارک کرنے کے لیے پر تول ہی رہا تھا کہ زُوں کر کے ایک اور گاڑی کہیں سے آئی اور اُسے کاٹتی ہوئی خالی جگہ پر پارک ہو گئی! میں ستر ممالک میں گیا ہوں۔ قیامت کا جو منظر یہاں موٹر سائیکلوں والے‘ بسوں اور ویگنوں والے اور بالخصوص ٹرکوں والے‘ برپا کر رہے ہیں‘ کسی ملک میں نہیں دیکھا!
پروٹوکول افسر سارا واقعہ سن چکا تو خاموش ہو گیا۔ ہم نے چائے پی! مگر ہم خاموش رہے! ہم نے کوئی بات کی نہ اِدھر اُدھر دیکھا‘ نہ ایک دوسرے ہی سے نظریں ملائیں!

Friday, May 20, 2016

دیکھتا کیا ہے مرے منہ کی طرف

وسطی بھارت کا کوئی شہر تھا۔ وزیراعظم مودی تقریر کر رہا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے مسلسل بدلتے چینل روک دیئے۔ ہاتھ جوڑ کر عوام سے درخواست کر رہا تھا کہ بھگوان کا واسطہ ہے، صفائی کا خیال رکھو،کوڑا ہر جگہ نہ پھینکو، وہاںپھینکو جہاں پھینکنے کی جگہ ہے۔ گلیاں صاف ہوں گی، شاہراہیں صاف ہوں گی تو شہر بھی صاف ستھرے ہوں گے۔
مہینوں گزر گئے یہ تقریر، یہ منت سماجت، عوام کے سامنے ہاتھ جوڑنا، عرض گزاری کرنا، بھولتا نہیں! مسلمانوں کا دشمن ہے پاکستان کا ویری ہے۔ گجرات میں ہزاروںکلمہ گوئوں کو شہید کرایا۔ گھر اُجڑ گئے، آر ایس ایس کا کٹر پیروکار ہے۔ مگر جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وژن رکھتا ہے۔ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ گجرات کی معاشی حوالے سے حالت بدل ڈالی۔ وزیراعظم بننے کے بعد جس تیزی سے ملک ملک گیا، بھارت کے معاملات پر بات چیت کی، دفاعی پیداوار کے منصوبوں میںدلچسپی لی، بیرون ملک بھارتیوں سے، دوروں کے درمیان رابطہ کیا اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سرگرم کار ہے اور کچھ کرکے دکھانا چاہتا ہے!
لیڈر کون ہوتا ہے؟ جو محض یہ جوڑ توڑ کر سکے کہ الیکشن کس طرح جیتنا ہے؟ ایوان صدرمیں یا وزیراعظم ہائوس میں اپنے قیام کو کیسے یقینی بنانا ہے؟ اپنے حواریوں کوسرسبز چراگاہوں میں کھلا کیسے چھوڑنا ہے؟ اپنے ذاتی اثاثوں میں کیوں کر اضافہ کرنا ہے؟ یا اسے معلوم ہو کہ ملک کی ترقی سے مراد کیا ہے؟
ملک کی ترقی چند مواصلاتی منصوبوں کا نام نہیں! یہ ان چند سرگرمیوں کا نام نہیں جو بچپن سے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہیں اور ہٹنے کا نام نہیں لیتیں! ملک کی ترقی میں اولین ترجیح افرادی قوت کی ہے! یعنی اس سرمایہ کاری کی جو عوام پر کی جاتی ہے۔ تعلیم صحت اور شہری شعور 
(Civic Sense) 
ہیومن کیپٹل میں سرفہرست ہیں! دوسرے نمبر پر خارجہ تعلقات ہیں۔ لیڈر کے لیے لازم ہے کہ اس میدان میں وسیع نہ سہی، بنیادی علم تو رکھے۔ دفاع اور بین الاقوامی تجارت کے ضمن میں  حقائق سے آگاہ ہو یا اس کے پاس ایسے ماہرین ہوں جن کی قابلیت اور خلوص دونوں قابل رشک ہوں۔ تیسرے نمبر پر مجموعی اقتصادی پیش رفت ہے جس کے تقاضوں سے وہ باخبر ہو! چوتھا اور اہم ترین عنصر لیڈر شپ کا یہ ہے کہ قانون پر ایک سو ایک فیصد عمل کرنے والا ہو۔ اپنا خاندان، اپنا بزنس، اپنا گروہ، اپنی قومیت، اپنی برادری، اپنا علاقہ اس قانون پسندی کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے!
فوجی حکمرانوں کے ادوار ہمارے قومی جسد پر رستے ہوئے وہ زخم ہیںجن سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔ مگر ایک بدقسمتی ہماری تاریخ میں اس سے بھی بدتر ہے! اور وہ ہے آصف زرداری اور میاں محمد نواز شریف جیسے لیڈروں کو زمام اقتدار ملنا! آپ تصور کیجیے، کوئی شخص زرداری صاحب سے یا وزیراعظم صاحب سے پوچھتا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ یا زرعی اصلاحات کا کیا نقشہ آپ کے ذہن میں ہے؟ یا تعلیم عام کرنے کے لیے آپ نے کیا سوچا ہے؟ یا بیورو کریسی کو موثر بنانے کے لیے اگر تین تجاویز لی جائیں تو آپ کیا کہیں گے؟ یا میرٹ کا اصول قومی سطح پر نافذ کرنے کے لیے فوری اقدام کیا ہوگا؟ آپ کا کیا خیال ہے آپ کی چشم تصور کیا دکھائے گی؟ زرداری صاحب کو تو بالکل ہی چھوڑ دیجیے کہ ان کے نزدیک اس زمین و آسمان کی تخلیق کا مقصد محض دولت کا حصول ہے اور ڈاکٹر عاصم اور 
ایان علی کی کشتیوںکو گرداب سے نکالنا! مگر وزیراعظم ان موضوعات پر کتنی دیر گفتگو کرسکیں گے؟
ایک سادہ سا ٹیسٹ لے لیجیے۔ کیا وزیراعظم صاحب کو معلوم ہے کہ پرویز مشرف کا لایا ہوا  
Devolution 
کیا فوائد رکھتا تھا اورضلعی حکومتوں کا قتل اور باڑ کے دونوں اطراف ہمیشہ پھدکتی بیوروکریسی کو انگریز کے زمانے کے اختیارات دوبارہ دے دینے سے ملک برسوں نہیں عشروں پیچھے چلا گیا ہے!
ایسے افراد کا لیڈر بن جانا‘ حکومتوں اورریاستوںکا سربراہ ہو جانا المیہ ہے! ایسا المیہ ایسی ٹریجڈی جس کے نتائج قوموں کو نسلوں تک بھگتنے ہوتے ہیں! اسی لیے عمران خان، اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود جب اسمبلی میں للکارتا ہے کہ وزیراعظم تو لکھی ہوئی تقریر بھی نہیں پڑھ سکتے تو سناٹا چھا جاتا ہے تو یہ سناٹا عوام کے ذہنوں پر گہرا نقش چھوڑتا ہے!
بنگلہ دیش کے رہنما مطیع الرحمن کی پھانسی کا واقعہ لے لیجیے۔ وزیرخارجہ کا تو وجود ہی نہیں! وزیراعظم کی اس معاملے میں مکمل خاموشی ان کے وژن کا پتہ دیتی ہے! وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ پاکستان نے اگر عالم اسلام کی رہنمائی کرنی ہے تو ان مواقع پر وزیراعظم کا ایک کردار ہے جس کی توقع نہ صرف پاکستانی بلکہ دنیا بھر کے مسلمان کرتے ہیں! اس کے مقابلے میں ترکی کے صدر طیب اردوان کا وژن دیکھیے! ان کی نظر سلطنت عثمانیہ کے عروج و زوال پر بھی ہے اور ہم عصر عالم اسلام کی تاریخ پر بھی! وہ نہ صرف بنگلہ دیش سے ترکی کے سفیر کو واپس بلاتے ہیں بلکہ یورپ کے رہنمائوں پر بھی کڑی تنقید کرتے ہیں! ٹیلی ویژن پر انہوں نے یورپ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ’’اگر تم سیاسی قتل کے خلاف ہو تومطیع الرحمن نظامی کے سیاسی قتل پر تمہیں سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟ اس سے پہلے صدر مرسی کو جب سزائے موت ملی اس وقت بھی صدر اردوان نے ترکی کا نقطۂ نظر موثر انداز میں پیش کیا!
وزارت خارجہ جس انداز میں چلائی جا رہی ہے صرف اس کو بیرومیٹر بنا کر صورت حال کو جانچا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم ملک کی حیثیت سے کہاں کھڑے ہیں! احسن اقبال ہی کو وزیرخارجہ بنا دیتے! اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ فائلیں خود پڑھتے ہیں۔ مافی الضمیر اردواور انگریزی دونوں زبانوں میںادا کرسکتے ہیں یا یونیورسٹی کے کسی پروفیسر کو، کسی اچھے سکالر کو سینٹ کا رکن بنوا کر وزارت خارجہ کی زمام
سونپ دیتے! کوئی سمت تو متعین ہوتی! کرسی پر کوئی بیٹھا تو ہوتا! مگر ترجیحات کا معاملہ
ہے  ۔
لاہور ایئرپورٹ کی مرمت 

(Renovation) 
کے لیے بلائے گئے اجلاس کی صدارت وزیراعظم خود کرتے ہیں! روس سے واپس آتے ہی! جب ان کا مدمقابل مودی، منزلوں پر منزلیں مارتا وسط ایشیا کے دارالحکومتوں میں درجنوں دو طرفہ معاہدے کر رہا ہوتا ہے!
دنیا ٹی وی نے کل ہی بتایا ہے کہ گزشتہ برس سندھ کی حکومت نے ایک سو منصوبوں کے لیے پچھتر ارب روپے مختص کیے تھے، سال ختم ہونے کو ہے۔ ایک منصوبہ بھی شروع نہیں ہوا۔ سوال جوکسی بھی باشعور پاکستانی کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ اس معاملے میں وفاق نے کیا کیا ہے؟ لیکن وفاق اس وقت کچھ کرے جب اقتصادی ترقی، وفاق کا ہدف ہو! وفاق کا ہدف کیا ہے؟ صرف اور صرف یہ کہ اقتدار قائم رہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سے مفاہمت برقرار رہے۔ اس کے عوض سندھ کے معاملات سے وزیراعظم مکمل طور پر بے غرض  اور
 ( un-cocerned)
رہیں گے۔ فرض کیجیے، ان کی جگہ طیب اردوان ہوتے؟ مہاتیر ہوتا! یا چلیے مودی ہی ہوتا! اجلاس بلا کر قائم علی شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھتا۔ کیوں ایک منصوبہ بھی نہیں شروع ہوا؟ کراچی کے عوام نے کیا قصور کیا ہے؟ مگر جس وزیراعظم کے وفاقی وزیر ہفتہ بھر میں صرف ایک دن دفتر آئیں اور یہ ایک دن برملا مقرر کردیا جائے، اس وزیراعظم کی قومی معاملات میں تشویش کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے!!
ایک ہفتہ ہوا وزیراعظم تاجکستان کے دورے پر تشریف لے گئے۔ وزیرخارجہ کا خالی خانہ ’’معاون خصوصی برائے امور خارجہ‘‘ نے بھرا جو ایک سرکاری ملازم تھے اوروہیں سے ریٹائر ہوئے۔ ایک سیاست دان کے اور ایک سرکاری ملازم کے ذہن میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سیاست دان فائلوں، پی یو سی، اور 
Under Submission 
کے پس منظر سے آزاد ہو کر معاملات کو وسیع تناظر میںدیکھتا ہے اور نڈر ہو کر فیصلے کرتا ہے۔ چالیس سال یس سر کہنے والا سرکاری ملازم، خارجہ پالیسی کا سٹیئرنگ کیا سنبھالے گا! 
دیکھتا ہے کیا مرے منہ کی طرف
قائداعظم کا پاکستان دیکھ!

Wednesday, May 18, 2016

انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں برآمد کیجیے

ملک کی اِس وقت جو صورتِ حال ہے، اس کا بہترین حل وہی ہے جو قومی اسمبلی کے ایک معزز رکن نے تجویز کیا اور جسے متعلقہ وفاقی وزیر نے فوراً قابلِ غور قرار دیا!
خوش فہمی ایک ارزاں جنس ہے۔ خود رَو جھاڑی کی طرح۔ ایسے فاضل حضرات کی کمی نہیں جو پاناما لیکس کو سنہری موقع قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سنہری موقع سے فائدہ اُٹھا کر فلاں ادارہ صفائی کرے گا اور فلاں ادارہ صفائی کے اس عمل کے دوران فلاں ادارے کی پشت پر کھڑا ہو گا۔ کاش انہیں معلوم ہوتا کہ اتحادِ ثلاثہ اس قسم کی کسی خوش فہمی پر عمل کا غلاف نہیں چڑھنے دے گا!
یہ اتحادِ ثلاثہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ یوں تو کہنے کو اے این پی بھی حکومتی پارٹی کے ساتھ ہے مگر دماغ کے جو خلیے زرداری صاحب اور مولانا صاحب نے پائے ہیں، ان کا اے این پی والے سوچ بھی نہیں سکتے!
اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں اگر ایک طرف نوجوان بلاول وزیراعظم سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہا ہے، ’’مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو‘‘ کے نعرے بلند کر رہا ہے اور دوسری طرف نام نہاد اپوزیشن کے نام نہاد رہنما خورشید شاہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ میاں صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ استعفیٰ کا مطالبہ تو کسی نے کیا ہی نہیں! اس عرصہ میں یہ بھی سنا گیا کہ زرداری صاحب نے اعتزاز احسن کو حکم دیا کہ مولانا صاحب سے رابطہ قائم کیا جائے مگر اعتزاز احسن کو اس میں تامل ہے۔ کہاں بلاول بھٹو اور اعتزاز احسن اور کہاں زرداری صاحب کی کمانڈ، منصوبہ بندی اور دوراندیشی!
حکومتی پارٹی کی سب سے بڑی کامیابی لمحۂ موجود میں یہ ہے کہ عمران خان خورشید شاہ کی قیادت میں کھڑے ہیں اور ’’پیچھے اس امام کے‘‘ کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں کی لووں تک اٹھائے ہیں! جس پیپلز پارٹی کی صفوں میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری سے ہلچل مچی ہوئی ہے، جس پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو اور رحمن ملک کے اسمائے گرامی پاناما لیکس کی پہلی قسط ہی میں سامنے آگئے تھے وہ پیپلز پارٹی وزیراعظم کا احتساب کرنے اٹھی ہے اور عمران خان اس پارٹی کے پیچھے چل رہے ہیں!
زرداری صاحب دوستوں سے وفا نبھانے کے لیے مشہور ہیں! ڈاکٹر عاصم جیسے اصحاب کے ساتھ ان کی دوستی ہی تو ہے جو وہ نبھا رہے ہیں! روایت ہے کہ پنجاب حکومت کے سرکاری بینک میں جب فراڈ کا غلغلہ بلند ہؤا تھا تو ایک وفاقی سیکرٹری کی لاہور میں گرفتاری کا امکان تھا۔ یہ گرفتاری ’’بوجوہ‘‘ عمل میں نہ لائی جا سکی! ایک اجلاس میں جب یہ سیکرٹری صاحب زرداری صاحب کے سامنے آئے تو زرداری صاحب نے برملا کہا ’’ہم اپنے دوستوں کو مصیبت کے وقت چھوڑتے نہیں!‘‘
یہ روایت درست ہے یا غلط، مگر وزیراعظم سے زرداری صاحب کی مفاہمت ایک حقیقت ہے۔ اس مفاہمت کو دوستی کہیے یا سیاسی ضرورت! مگر زرداری صاحب نبھاتے ہیں اور خوب نبھاتے ہیں! وفاداری نبھانے کے اس عمل میں ملکی قوانین یا ملکی مفادات، تہس نہس تو ہو سکتے ہیں؛ وعدے، قدریں، آداب، اخلاق سب کچھ بُل ڈوز تو ہو سکتا ہے مگر وفاداری ہر حال میں استوار رہتی ہے۔ زرداری صاحب کے نزدیک یہی اصلِ ایمان ہے۔ چند ہفتوں یا چند مہینوں میں پیپلز پارٹی وزیراعظم کو ’’بیل آوٹ‘‘ کرا لے گی! بلاول بھٹو اور اعتزاز احسن اپنی لچھے دار تقریریں کرتے رہیں گے! 
خورشید شاہ صاحب کا اصل کردار وہی ہے جو انہوں نے عمران خان کے دھرنے کے دوران، حکومتی پارٹی کی پشت پناہی کر کے ادا کیا تھا۔ یہی کردار مستقبل قریب میں سامنے آئے گا ! عمران خان کے ہاتھ میں پشیمانی کے سوا کچھ نہیں آئے گا! یہ کوئی پیش گوئی یا پامسٹری کی پیش کش نہیں! یہ تو اندھے کو بھی نظر آرہا ہے اور بہرہ بھی سن رہا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی حکومت کے اور وزیراعظم کے احتساب میں سنجیدہ ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ خزاں کی مسموم ہوا پھول اگاتی ہے، پھر یہ بھی سچ ہے کہ صحراؤ میں ناگ پھنی نہیں، لالہ و گل اُگتے ہیں! پھر یہ بھی سچ ہے کہ شیشم کے چھتنار گملوں میں لگتے ہیں! پھر یہ بھی سچ ہے کہ ڈاکو منصف بنتے ہیں اور پھر یہ بھی سچ ہے کہ چور نمازیں پڑھاتے ہیں! جو کچھ صوبہ سندھ میں ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے، اسے دیکھنے سننے اور جاننے کے بعد اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی وزیراعظم کے معاملے کو منطقی انجام تک لے جائے گی تو اُسے دماغی امراض کے شفا خانے میں لے جانا چاہیے!
ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا ہے، دوسری طرف دکانیں کھلی ہیں اور کاروبار عروج پر ہے۔ ایسی ہی ایک کاروباری سرگرمی کے دوران عوامی نمائندوں نے اپنے بارے میں خود ہی سفارش کی ہے کہ ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں یعنی مزید بڑھائی جائیں۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ان ارکان کو بڑھائی گئی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ بجلی پانی کے الاؤنس میں اضافہ، ٹریولنگ الاؤنس میں اضافہ، پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کے لیے سپیشل کارڈ اور بے شمار ایئر ٹکٹ بھی دیے جائیں! یعنی ڈنکے کی چوٹ اعلان ہو رہا ہے کہ علاج سرکاری ہسپتالوں میں نہیں، پرائیویٹ شفا خانوں میں کرائیں گے! ایک دلیل یہ بھی دی گئی ہے کہ وفاقی سیکرٹریوں اور جرنیلوں کی تنخواہ عوامی نمائندوں کی تنخواہوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے! جہاں یہ کاروبار ہو رہا تھا اور بولیاں لگ رہی تھیں، وہاں کوئی یہ بھی پوچھتا کہ وفاقی سیکرٹری اور جرنیل یہ تنخواہ تیس پینتیس سال کی مشقت کے بعد وصل کرتے ہیں۔ صبح سے رات تک کام بھی کرتے ہیں۔ آپ کس مشقت کے عوض یہ سب کچھ لینا چاہتے ہیں؟ ترقیاتی فنڈ وصول کرنے اور ’’خرچ‘‘ کرنے کے عوض؟ سفارشیں کرنے کے عوض؟ اساتذہ اور استانیوں اور کلرکوں اور نائب قاصدوں کی تعیناتیاں کرانے کے عوض؟ یا استحقاق کے پردے میں ہر قسم کی قانون شکنی کے عوض؟ 
ایک اور منظر دیکھیے! کیا میدان ہے، کیا تماشا گاہ ہے اور کیا کردار ہیں!! ’’دینی‘‘ جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس ہو رہا ہے۔ مولانا سراج الحق فرماتے ہیں: ’’احتساب کے اس نعرے کو شور شرابے کی نذر نہیں کرنے دیں گے بلکہ اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔‘‘ اور مولانا سراج الحق کے دائیں طرف، کندھے سے کندھا ملائے پروفیسر ساجد میر تشریف فرما ہیں جو احتساب احتساب کے اس کھیل میں حکومت کے ساتھ ہیں! واہ رے پاکستانی عوام! کیا کیا تماشے ہیں جو تمہیں دکھائے جا رہے ہیں! اُن سادہ لوح لوگوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے جو مجمع بن کر ایندھن کا کام کرتے ہیں اور اِن رہنماؤں کی کانفرنسوں پر کامیابی کا رنگ و روغن کرتے ہیں!    ؎
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
 ورنہ یہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی 
کیا کیا تماشے ہو رہے ہیں! مراکش کے ایک شہر کا نام بھی مراکش ہے۔ مراکش یاد آرہا ہے۔ شام کو شہر کے باہر ایک وسیع میدان میں ہر روز میلے کا سماں ہوتا ہے۔ روایتی لباس پہنے سقّے مشکیزے اٹھائے پانی پلا رہے ہوتے ہیں۔ کہیں جڑی بوٹیوں والے علاج کر رہے ہیں، کہیں فال نکالنے والے بیٹھے ہیں! پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر یہی سماں ہے! اس صورتِ حال سے باہر نکلنے کے لیے وہی حل بہترین ہے جو قومی اسمبلی میں ایک معزز رکن نے تجویز کیا اور جسے وفاقی وزیر نے فوراً پذیرائی بخشی کہ ملک سے گدھے برآمد کیے جائیں! 
دعا یہ کیجیے کہ بھاؤ تاؤ کیے بغیر زیادہ سے زیادہ گدھے برآمد کر دیے جائیں! جب تک گدھے ملک میں موجود ہیں، صورتِ حال تبدیل نہیں ہو سکتی، مگر آہ!   ؎
ترا خر خواہم و گشتم پشیماں
کہ آن بیچارہ را بد نام کردم
تجھے گدھا تو میں کہہ بیٹھا مگر فوراً ہی پچھتایا کہ گدھے بیچارے کو مفت میں بد نام کر رہا ہوں!

Monday, May 16, 2016

نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایتِ زمانہ

پینسٹھ سالہ شخص نے اپنے پوتے کو بتایا کہ جب اس کے دادا اس کی عمر کے تھے تو ان کے گھر میں ریفریجریٹر نہیں تھا۔ بچہ حیران ہوا۔ ریفریجریٹر اور گاڑی کے بغیر گھر کا تصور ہی اس کے ذہن میں نہیں تھا!
’’پھر آپ آئس کریم کہاں رکھتے تھے اور ٹھنڈے ٹھنڈے پانی کی بوتل کہاں ہوتی تھی؟‘‘
اب اُسے کیسے بتایا جاتا کہ آئس کریم اُس وقت تک پیدا ہی نہیں ہوئی تھی اور پانی گھڑے کا ہوتا تھا۔ پانی ٹھنڈا کرنا مقصود ہوتا تو اس میں برف ڈالی جاتی تھی۔ ہر محلے میں ایک برف فروش ہوتا تھا جو بڑے بڑے چٹان نما برف کے ٹکڑوں کو پٹ سن کی بوریوں سے لپیٹ کر رکھتا۔ برف خریدنے والوں کا ہجوم ہوتا۔
باقی اہل مشرق کا تو پتا نہیں‘ لیکن ہم پاکستانیوں نے ہر اُس سہولت کا خوب خوب غلط استعمال کیا جو اہل مغرب نے ایجاد کی!
ریفریجریٹر آنے سے گھروں میں تازہ خوراک کا سلسلہ کم و بیش منقطع ہی ہو گیا۔ اسی طرح گاڑیاں آنے سے لوگوں نے پیدل چلنا چھوڑ دیا۔
مغربی ملکوں میں بھی ہفتے بھر کا سودا سلف اکٹھا خریدا جاتا ہے مگر یہ جو جنون پورے پورے بکرے خرید کر فریزر بھر لینے کا ہمارے ہاں پایا جاتا ہے‘ اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ گوشت وہاں اسی مقدار میں استعمال ہوتا ہے جس مقدار میں سبزی‘ پھل اور سلاد کھائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں گوشت دستر خوان کا بادشاہ ہے۔ سبزیاں‘ پھل‘ سلاد وغیرہ اُس کے نوکر ہیں! عام طور پر انہیں کھایا نہیں جاتا محض چکھا جاتا ہے۔
آج تک یاد ہے‘ پنڈی گھیب ہمارے محلے کے حاجی فضل مرحوم صبح صبح ہر گھر سے گوشت کے پیسے لیتے تھے۔ کسی نے پائو گوشت منگوانا ہوتا تھا تو کسی نے ڈیڑھ پائو‘ حاجی صاحب کو حیرت انگیز طریقے سے ہر گھر کا حساب زبانی یاد ہوتا تھا۔ آج کے بچے کو یہ جان کر بھی تعجب ہو گا کہ حاجی صاحب اس روزانہ خدمت کے لیے کوئی اجرت ،کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے، یہ اُس عہد کا حُسن تھا! خودساختہ 
مصروفیات اس وقت نہیں تھیں۔ سکون تھا، فراغت تھی اور وقت کی پیمائش روپے پیسے سے نہیں ہوتی تھی۔ حاجی صاحب قصاب سے جب پورے محلے کا گوشت الگ الگ لیتے تو وہ سماں قابل دید ہوتا۔ ’’اچھا اب ڈیڑھ پائو رشید صاحب کے گھر کا تولو‘‘۔ حاجی صاحب ایک ایک بوٹی کے لیے قصاب سے جھگڑتے تھے۔ قصاب ہنستا رہتا تھا اور برابر اس کوشش میں ہوتا کہ اپنی مرضی کے ٹکڑے ڈالے۔ مگر حاجی صاحب اڑ جاتے تھے کہ یہ چھیچھڑا نکالو۔ نکلوا کر ہی دم لیتے تھے۔ پھر ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ گوشت پکڑاتے اور ساتھ ہی ایک ایک پیسے کا حساب سمجھاتے! یہ ایک پائو یا ڈیڑھ پائو گوشت مٹی کی ہانڈی میں پکتا۔ ایک تو تازہ گوشت اُسی دن کا کٹا ہوا‘ دوسرے مٹی کی ہانڈی‘ تیسرے گھی خالص (اُن دنوں گھی صرف ایک ہی قسم کا ہوتا تھا اس لیے اسے خالص گھی نہیں صرف گھی کہتے تھے!) چوتھے مصالحے بازار سے ریڈی میڈ نہیں خریدے جاتے تھے۔ ہر روز شام کو ہانڈی کے لیے مصالحہ گھر میں تیار ہوتا تھا۔ مرچیں‘ دھنیا‘ پودینہ‘ ہر چیز لنگری میں کُوٹی جاتی تھی۔ نمک کی چٹانیں خریدی جاتی تھیں پھر گھر میں توڑ کر باریک کر کے سفوف کی شکل دی جاتی‘ اُس ہانڈی کا ذائقہ خواب و خیال ہوا۔
مدتوں بعد ہائی بلڈ پریشر کے عارضہ میں مبتلا ہو کر ’’اے ایف آئی سی‘‘ داخل ہونا پڑا۔ وہاں ہسپتال کے عملہ میں ایک ماہر خوراک
 (Dietician)
 بھی تھا جو مریضوں کو کھانے پینے کے ضمن میں ہدایات دیتا تھا۔ ایک سیشن اس نے میرے ساتھ بھی مختص کیا۔ مثال اس نے عجیب دی۔ پوچھا‘ کبھی کسی گائوں گئے ہیں؟ جواب دیا‘ گائوں ہی میں تو پیدا ہوا اور پلا بڑھا! کہنے لگا‘ گائوں سے باہر کوڑے کے ڈھیر ہوتے ہیں۔ وہاں لوگ مٹی کی ٹوٹی ہوئی‘ بیکار ہانڈیاں پھینک دیتے ہیں۔ غور کیا ہوگا کہ دھوپ میں مٹی کی ان ٹوٹی ہوئی ہانڈیوں کے جسم سے روغن نما شے رستی رہتی ہے! ذرا ذرا سی جھاگ بھی بن جاتی ہے۔ یہ وہ چکنائی ہے جو سالن پکنے کے دوران مٹی کی ہانڈی میں جذب ہو جاتی ہے اور انسان اسے کھانے سے بچ جاتا ہے۔ پھر اس نے تلقین کی کہ اگر پورے گھر کا نہیں تو کم از کم اُن افراد کا سالن مٹی کی ہانڈی میں بننا چاہیے جو ہائی بلڈ پریشر میں یا دل کے امراض میں مبتلا ہیں! گھروں کی حالت عجیب ہے۔ کئی بار مٹی کی ہانڈی خریدی گئی‘ مٹی کے پیالے اور پلیٹیں بھی اکٹھی کی گئیں مگر اہتمام کا دوام اور التزام مشکل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وقت کا رُخ پیچھے کی طرف کرنا اور پھر اسے سرپٹ بھگانا ناممکنات میں سے ہے۔
مٹی کے برتنوں سے یاد آیا کہ رات کی پکی ہوئی مسور کی دال‘ صبح پراٹھے کے ساتھ کھانے کی اپنی ہی لذت تھی۔ مٹی کی پلیٹ میں پڑی مسور کی دال اور کھیر میں ٹھنڈک کے ساتھ ساتھ ایک خوشبو بھی ہوتی تھی!
کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ مرغی کا ایک حصہ یا کچھ گوشت بچ جاتا۔ گائوں میں دادی جان اُسے رات کو سوتے وقت صحن میں لگی تار کے ساتھ باندھ دیتیں اور پھر عین اُس کے نیچے چارپائی بچھا کر سوتیں۔ مگر اُس زمانے کی بلیاں بھی خالص غذا کھا کر جوان ہوتی تھیں۔ ایک بار آدھی رات کو بلی نے جست لگا کر تار سے لٹکے گوشت پر حملہ کیا، دادی جاگ اٹھیں لیکن اتنی دیر میں بلی گوشت نوچ کر لے جا چکی تھی! دادی جان نے آدھی رات کو بلی کی شان میں جو نامناسب کلمات کہے وہ آج بھی یاد آتے ہیں تو نوسٹیلجیا کی ہوک میں مسکراہٹ کی کسک شامل ہو جاتی ہے۔
رہی بات سواری کی سہولت کی! تو اہل مغرب نے اس کا خوب حل نکالا ہے۔ گاڑی پارک کرنے کی جگہیں مخصوص ہیں، قانون اس ضمن میں سخت ہے۔ اکثر مقامات پر پارکنگ کا معاوضہ لیا جاتا ہے۔ جہاں گاڑی پارک کرنے کا نشان نہیں بنا ہوا‘ وہاں پارک کرنے سے جرمانہ ہوتا ہے اور بھاری جرمانہ ہوتا ہے۔ ان پابندیوں اور سخت قوانین کا نتیجہ یہ ہے کہ پارک کرنے کے بعد دفتر بازار یا ہسپتال پہنچنے کے لیے اور پھر واپس آتے ہوئے اچھا خاصا پیدل چلنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ کار پارک کر کے مقامی ریلوے اسٹیشن پہنچتے ہیں۔ پھر ٹرین میں بیٹھ کر جائے ملازمت کو جاتے ہیں۔ ٹرین سے اتر کر بعض دفعہ ایک ایک دو دو کلومیٹر پیدل چلتے ہیں۔ یوں گاڑی کی ایجاد نے پیدل چلنے کے رواج کو ختم نہیں کیا۔ ہمارے ہاں پارکنگ کے چار اصول عنقا ہیں۔ قانون اس بارے میں گائودی ہے۔ گاڑی عین اُس دکان کے سامنے پارک کرنا لازم ہے جہاں جانا ہے۔ اس دُھن میں گاڑی فٹ پاتھ پر بھی پارک ہو سکتی ہے‘ راستہ بھی بند کیا جا سکتا ہے اور دوسری گاڑی کے عین پیچھے کھڑی کر کے اگلی گاڑی کی نقل و حرکت مسدود بھی کی جا سکتی ہے! پھر موٹر سائیکل والوں کا تو کیا ہی کہنا! اس کی اولین کوشش یہ ہے کہ وہ موٹر سائیکل کو دکان کے اندر ہی لے آئے یا دفتر میں اپنی کرسی کے ساتھ ہی باندھے!
صحت کے نکتہ نظر سے مغرب میں پیدل چلنا‘ کھیلنا اور سائیکل چلانا روزمرہ زندگی کا ضروری جزو ہے۔ ہم نے یہ کام چند افراد کے سپرد کر رکھے ہیں۔ وہی پورے معاشرے کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ جِم کا رواج بڑھ رہا ہے مگر رینگ رینگ کر‘ نئی رہائشی آبادیوں میں پیدل چلنے اور سیر کرنے کے لیے گرائونڈ اور ٹریک بنانے کا التزام کوئی نہیں کرتا۔ زمین کی بھوک (جوع الارض) دن بدن زیادہ ہو رہی ہے۔ قوم کی صحت کی نسبت پلاٹ سازی اور پلاٹ فروشی زیادہ پسندیدہ عمل ہے! یوں لگتا ہے ایک وقت آئے گا اور جلد آئے گا کہ مکانوں‘ دکانوں اور پلازوں کے وحشت ناک جنگل سے نکلنے کے لیے لمبے سفر طے کرنے ہوں گے!
پروفیسر لِز 
(Liz) 
یاد آ رہا ہے۔ نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والا لز میلبورن کی ایک یونیورسٹی میں چالیس سال پڑھاتا رہا۔ کتنوں ہی کو پی ایچ ڈی کرائی۔ پچھتر سالہ لِز اپنی بیگم کے ساتھ چالیس برس سے ایک ہی گھر میں قیام پذیر ہے۔ اُس کے دوستوں کا ایک گروپ ہے جو اُس کے ہم عمر ہیں۔ ستر پچھتر سالہ بوڑھوں کا یہ گروپ ہفتہ میں دو بار سائیکلوں پر سوار شہر سے نکلتا ہے۔ واپس آنے تک انہوں نے ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے۔ جہاں موڈ آ جائے راستے میں کافی پینے یا سینڈوچ کھانے رک جاتے ہیں۔ سنیچر اور اتوار اس ورزش کے لیے مخصوص ہیں۔ برسوں سے ناغہ نہیں ہوا۔ لِز اپنی کار خود دھوتا ہے۔ چھوٹے سے باغ کی دیکھ بھال خود کرتا ہے۔ کوڑے کرکٹ کے بِِن ہر منگل کو خود باہر رکھتا ہے۔ پھر خالی بِن خود اٹھا کر گھر لے جاتا ہے۔ باورچی کا محتاج نہ ملازم کا‘ نہ کسی مائی کا جو آ کر جھاڑو پونچھا کرے۔ ساتھ ساتھ رضاکارانہ طور پر یونیورسٹی جا کر پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ چہرہ جھریوں سے اٹ چکا ہے مگر جوانوں کی طرح چلتا ہے    ؎
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایتِ زمانہ

Saturday, May 14, 2016

واہ رے منافقت!

امانت خان کی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ چخ چخ اب روزمرہ کا معمول بن چکی تھی‘{ اور اُس دن تو میں بھی اپنے اس دوست کے گھر موجود تھا۔ 
نذیر شاہ کا گھرانہ یوں لگتا تھا امانت خان کا آئیڈیل بن گیا تھا۔ بات سے بات نکلتی تھی اور جیسے ہی نکلتی تھی‘ امانت خان‘ نذیر شاہ کے گھرانے کی تعریف شروع کر دیتا تھا۔ معلوم نہیں کئی پشتوں کا احساس کمتری تھا یا کوئی اور وجہ تھی!
اُس دن میں اُس کے گھر‘ لائونج میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور بھابھی کے ہاتھ کے بنے ہوئے گرم گرم خستہ پکوڑے کھا رہا تھا۔ اچانک کہنے لگا: ’’یار وہ سُنا تُم نے! نذیر شاہ صاحب کی بیگم کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھیں‘ اب فُل پروفیسر بن کر یونیورسٹی میں تعینات ہو گئی ہیں! کیا لائق فائق خاتون ہے! چند دن پہلے ایک سیمینار میں شرکت کرنے سنگاپور گئی ہوئی تھیں‘‘۔ میں نے دیکھا کہ مسکراتی ہوئی بھابھی کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ انہوں نے براہِ راست مجھے مخاطب کیا: ’’عجیب دوغلی شخصیت کا مالک ہے آپ کا یہ دوست بھی! کئی برسوں سے منتیں کر رہی ہوں کہ ملازمت کرنے دو۔ ایم بی اے کر کے گھر بیٹھی ہوں مگر اس کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ خاندان میں خواتین کے ملازمت کرنے کا رواج نہیں! دوسری طرف نذیر شاہ کی بیگم کی تعریف میں رطب اللسان ہے!‘‘
شکایت میں وزن تھا! میں نے امانت خان سے کہا: ’’اگر تُم کسی دوسرے کی بیگم کے کیریئر سے متاثر ہو‘ تو اپنے گھر میں بھی اسی اصول کا اطلاق کرو! بھابھی کو ملازمت کرنے کی اجازت دو‘‘۔
اب شکنیں اُس کے ماتھے پر آ چکی تھیں: ’’یار! تُم اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے کہ ہم خاندانی لوگ ہیں! ہماری کچھ روایات ہیں‘ بیگم ملازمت کریں گی تو رشتہ دار طعنے دیں گے کہ عورت کی کمائی کھا رہے ہیں۔ عجیب مرد ہیں! ‘‘۔
بات آئی گئی ہو گئی‘ مگر میں سوچتا رہا کہ دوسروں کی عورتوں سے متاثر ہونے والے امانت خان کی اپنی بیٹی بی اے میں کالج بھر میں اوّل آئی تھی‘ مگر ایم اے کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی اجازت نہ ملی!
یہ ہے وہ رویّہ جو ہم من حیث القوم اپنائے ہوئے ہیں! صادق خان لندن کا میئر منتخب ہوا تو ہمارے معاشرے کی منافقت ہمارے چہروں پر پوری طرح سیاہی پھیر گئی! کتنے بے شرم‘ بے حس اور دیدہ دلیر ہیں ہم لوگ۔ چوک پر کھڑی ہوئی گاڑیوں کے شیشوں پر دستک دے کر بھیک مانگنے والے مُشٹنڈوں سے بھی زیادہ بے شرم اور بے حس! خوش یوں ہو رہے ہیں جیسے طارق بن زیاد نے ایک اور ہسپانیہ فتح کر لیا ہے۔ جیسے یورپ پر عالم اسلام کا غلبہ ہو گیا ہے۔ جیسے لندن کی میئرشپ ہمارے قبضے میں آ گئی ہے! میڈیا سے لے کر نجی محفلوں تک ایک ہی چرچا ہے کہ بس ڈرائیور کا بیٹا کہاں سے چلا اورکہاں جا پہنچا! ہم میں سے کچھ اچھل اچھل کر قہقہے لگا رہے ہیں کہ اس نے ایک یہودی کو شکست دے دی! جیسے یہ اسلام اور یہودیت کے درمیان بپا ہونے والا معرکہ تھا۔ جیسے یہ ایک بھرپور مذہبی جنگ تھی جس میں ایک طرف پاکستان اور عرب دنیا تھی اور دوسری طرف اسرائیل تھا! مگر افسوس! صد افسوس! ہم امانت خان کی طرح ہیں! نذیر شاہ کی بیگم کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں اور اپنے گھر میں جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس کے بالکل اُلٹ ہے! 
پہلا نکتہ لے لیجئے! بس ڈرائیور کا بیٹا میئر بن گیا اور وہ بھی لندن کا! لندن ایک اعتبار سے دنیا کے شہروں میں سرفہرست ہے‘ کیونکہ لندن اُس وقت بھی لندن تھا جب نیو یارک اور واشنگٹن ابھی نیو یارک اور واشنگٹن نہیں بنے تھے! یہ بھی یاد رہے کہ روایت یہ رہی ہے کہ لندن کا میئر بننے والا سیاستدان ملک کا وزیر اعظم بھی بن سکتا ہے! اور وزیر اعظم بننے سے پہلے پارٹی کا سربراہ بھی بنتا ہے! یہ موقع اپنے گریبان میں جھانکنے کا تھا نہ کہ نذیر شاہ صاحب کی بیگم کی تعریف کرنے کا! کیا ہمارے ہاں بس ڈرائیور کا بیٹا کسی بڑے شہر کا میئر اور پھر پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے؟ کیا کہا؟ پارٹی کا سربراہ؟؟ جہاں سالہا سال تک گِھس گِھس کر سترے بہترے ہو جانے والے سیاستدان پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتے، وہاں بس ڈرائیور کا بیٹا کیسے بنے گا؟ بے نظیر بھٹو والد کی جانشین بنیں۔ پھر وہ 
رخصت ہوئیں تو ان کے میاں اور میاں کی بہن نے پارٹی پر قبضہ کر لیا۔ اب صاحبزادہ چیئرمین ہے۔ صادق خان کی جیت کی خوشی میں اچھلنا کودنا ہمیں تب زیب دیتا جب ایسی روایت ہمارے ہاں بھی ہوتی! بلاول بھٹو‘ کل کا لڑکا‘ پارٹی کا سربراہ بنا ہے اس لیے کہ یہ سربراہی وراثت میں ملی ہے۔ اعتزاز احسن سے لے کر رضا ربانی تک اور کائرہ صاحب سے لے کر شیری رحمن تک سب دست بستہ کھڑے ہیں۔ سورج مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے مگر حافظ حسین احمد‘ چوہدری نثار علی خان‘ مشاہد حسین یا خواجہ آصف اپنی پارٹی کی قیادت نہیں سنبھال سکتے۔ اس صورت حال پر ہمیں کوئی پریشانی یا تاسف بھی نہیں! مگر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں بس ڈرائیور میئر بن جائیں اور وزیر اعظم بھی!
دوسرا نکتہ لیجئے! اہل لندن کی خوش بختی ہے کہ وہاں سیاسی جماعتیں عقائد اور مسالک کی بنیاد پر وجود میں نہیں آسکتیں۔ وہاں میئر کا انتخاب مذہبی بنیادوں پر نہیں لڑا گیا۔ اللہ کے بندو! صادق خان لیبر پارٹی کا ورکر تھا! اسی بنیاد پر لڑا اور اسی بنیاد پر منتخب ہوا۔ اس لیے نہیں کہ وہ مسلمان تھا یا جنوبی ایشیا سے تھا! ایسا ہوتا تو اُسے یہودی‘ عیسائی‘ ہندو‘ سکھ اور پارسی ووٹ نہ دیتے!
جس بساطِ سیاست پر پروفیسر ساجد میر قیامت تک جے یو آئی کے رکن نہیں بن سکتے اور مولانا سمیع الحق جے یو پی کے سربراہ بننے کے اہل نہیں‘ اُس ملک کے مکین صادق خان کی فتح کو مسلمانوں کی فتح سمجھ کر بھنگڑے ڈالیں تو تعجب ہی کیا جا سکتا ہے! کل کو صادق خان وزیر اعظم بن گیا تو بھنگڑے کے ساتھ شہنائیاں بھی بجیں گی مگر ان حضرات سے اگر یہ پوچھا جائے کہ آپ کے ہاں کوئی ہندو‘ کوئی سکھ‘ کوئی پارسی‘ کوئی مسیحی ملک کا وزیر اعظم یا صوبے کا وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بنتا تو گلے کی رگیں سرخ ہو جائیں گی‘ منہ سے جھاگ  بہنے لگے گا‘ نظریہ پاکستان آڑے آ جائے گا! جھوٹ، وعدہ خلافی اور ہر شعبے میں ہر سطح پر بددیانتی سے نظریہ پاکستان پر کوئی آنچ نہیں آتی! قرارداد مقاصد آئین کی کتاب کا حصہ ہے تو عملی زندگی میں اسلام کی ضرورت ہی کیا ہے!
جو سسٹم ہمارے ہاں رائج ہے‘ ہم اُس پر مطمئن ہیں اور خوش بھی! سات ماہ بعد وزیر اعظم کو خیال آیا کہ ایک کابینہ بھی ہے! پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کی تشریف آوری کے بارے میں یوں اندازے لگائے جاتے ہیں اور یوں تاریخیں طے ہوتی اور بدلتی ہیں جیسے امریکی صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا ہو! آرمی چیف کے ساتھ وزیر اعظم کی میٹنگ ہو تو اس میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ موجود ہیں اس لیے کہ بھائی ہیں۔ کراچی میں آرمی ایکشن ہو رہا ہے‘ کے پی میں ضرب عضب برپا ہے مگر ان صوبوں کے سربراہ ایسے اجلاس کے نزدیک بھی نہیں پھٹک سکتے۔ ملک کے اُفق پر بلاول اور مریم نواز کے نام ابھرتے ہوئے ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں مگر تعریف ہم صادق خان کی کر رہے ہیں کہ بس ڈرائیور کا بیٹا ہے اور مسلمان ہے! اور امریکہ کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں کہ غلاموں کا بیٹا اوباما صدر بن گیا! واہ رے منافقت! پاکستان نہ ہوتا تو تُو کہاں سر چھپاتی؟

Friday, May 13, 2016

عزت؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟

انسان کو جرم کا ارتکاب کرنے سے کون سی چیز بچاتی ہے؟
خدا کا خوف اور آخرت کا ڈر! وہ جو کروڑوں کی پیش کش ٹھکرا دیتے ہیں اور مست جھومتے شباب کی ہمکتی دعوت دیتی گود سے منہ پھیر لیتے ہیں، انہیں دیکھنے والا اُس خدا کے سوا کون ہوتا ہے جو کسی کو نظر نہیں آتا اور جس کی موجودگی میں خلقِ خدا وہ سب کچھ کرتی ہے جو کسی دوسرے انسان کی موجودگی میں کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا! دنیا کی کوئی پولیس، کوئی ایف آئی اے، کوئی سی آئی اے، کوئی نیب اتنی طاقت ور نہیں جتنا آخرت کا دھیان ہے بشرطیکہ آخرت پر یقین رسمی، خاندانی یا ثقافتی نہ ہو، بلکہ اس طرح ہو جیسے سامنے پڑے ہوئے گلاس کے بارے میں ذرا سا شک بھی نہ ہو کِہ یہ گلاس تھے اور فرش پر گرنے کی صورت میں ٹوٹ جائے گا! قلاش ٹیکسی والا جب کرنسی نوٹوں سے بھرا ہوا تھیلا اصل مالک کو لوٹاتا ہے تو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ حالانکہ اسے پکڑا جا سکتا ہے نہ کوئی دعویٰ کر سکتا ہے!
یہ یقین تو دل میں راسخ ہے کہ کانچ یہ گلاس جو سامنے میز پر پڑا ہے، فرش پر گرا تو ٹوٹ جائے گا مگر یہ یقین دل میں راسخ نہیں کہ حشر کے دن حساب دینا ہے۔ اگر یہ یقین راسخ ہوتا تو حج اور عمرے کرنے والے اور نمازیں پڑھ پڑھ کر ماتھوں پر نشان بنا دینے والے زہاد اور صلحا دکانوں میں بیٹھ کر ملاوٹ کرتے نہ ٹیکس چوری کرتے نہ جھوٹ بولتے۔ ثابت ہوا کہ حشر کے دن کا یقین آسانی سے دل میں جڑ نہیں پکڑتا۔ ہم میں سے اکثر آخرت پر جس ایمان کا ذکر کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں، وہ محض ہمارے کلچر کا تقاضا ہے، یہ ہماری ثقافت کا حصّہ ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہم انشاء اللہ کہتے ہیں اور یہ لفظ کہتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم وعدہ ایفا نہیں کریں گے!
انسان کو جرم کا ارتکاب کرنے سے کون سی شے بچاتی ہے؟
ملکی قانون کا ڈر! ریاست کے اداروں کا خوف! پولیس پیچھے نہ پڑ جائے! نیب گھر کا راستہ نہ دیکھ لے، ایف آئی اے کے انسپکٹر دروازے پر دستک نہ دینے لگ جائیں، جیل میں نہ ڈال دیں! ہتھکڑی نہ لگ جائے!
مغربی معاشرے میں ملکی قانون اور ریاستی اداروں کا ڈر، لوگوں کو راہِ راست پر لانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نیویارک میں پندرہ منٹ برقی رو غائب ہو جانے کے دوران سینکڑوں ڈاکے نہ پڑتے اور بیسیوں عورتیں وحشت کا شکار نہ ہوتیں۔ سنگاپور کے شہری بارڈر پار کر کے، ملائشیا کی حدود میں داخل ہوتے ہی ٹریفک قانون کی ایسی تیسی نہ کرتے۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ قتل کا سراغ لگانے والے دس سال بھی تفتیش کا باب بند نہیں کریں گے اور جلد یا بدیر پکڑ لیں گے۔ ٹیکس کے قوانین اتنے سخت ہیں کہ ٹیکس چوری کرنا تقریباً نا ممکن بنا دیا گیا ہے۔ شہریوں کو معلوم ہے کہ اگر صدر کلنٹن کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے، اگر وزیراعظم کی بیوی کو عدالت میں لایا جا سکتا ہے، اگر چیف جسٹس کا فرزند شراب پی کر گاڑی چلانے کے جرم میں دھر لیا جاتا ہے اگر خاتون وزیر کو رات کے اندھیرے میں لال بتی کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑتا ہے تو پھر اور کون مائی کا لال ہے جو پکڑا نہیں جائے گا؟
انسان کو جرم کا ارتکاب کرنے سے کون سی چیز بچاتی ہے؟
عزت کا احساس! بے عزتی کا خوف! معاشرے میں آنکھیں نیچی ہونے کا ڈر! کہیں سسرال والے نہ سن لیں! کہیں داماد کو نہ معلوم ہو جائے! کہیں بیٹی کی زندگی جہنم نہ بن جائے، کہیں اولاد کو پتہ نہ چل جائے، کہیں بیوی تک خبر نہ پہنچ جائے، کہیں سمدھیوں تک بات سفر نہ طے کر لے۔ محلے میں کیسے چلوں گا؟ مسجد کس منہ سے جاؤں گا؟ خاندانی تقاریب میں رشتہ داروں کا کیسے سامنا کروں گا؟ شریک کیا کہیں گے؟ ان سب امکانات کا خوف انسان کے اُن قدموںکو روک لیتا ہے جو غلط راستے پر چلنے لگتے ہیں! داماد اور بیٹی کا خیال آتے ہی وہ شیطانی ارادوں کو سر سے جھٹک دیتا ہے!
انسانی علم میں ان تین رکاوٹوں کے علاوہ کوئی باڑ ایسی نہیں جو برائی سے جرم سے، حرام خوری سے، بددیانتی سے روک سکے۔ کوئی بے شک کہتا ہے میں بزدل ہوں اس لیے رشوت نہیں لے سکتا۔ اصل میں اُسے ان تین میں سے کسی ایک رکاوٹ کا خوف ہوتا ہے۔ 
کرپشن کرپشن کا جو ملک میں شور و غوغا برپا ہے اُسے اِن تین رکاوٹوں کے آئینے میں دیکھیے! صدر زرداری سے لے کر وزیراعظم نواز شریف تک، رحمن ملک سے لے کر ڈاکٹر عاصم تک، مولانا سے لے کر مسٹر تک۔ جتنے کردار کرپشن کے نام سے ہمارے ذہن میں آتے ہیں، وہ سب اِن تینوں بندھنوں سے آزاد ہیں! دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اگر خدا کا خوف دامن گیر ہو اور حشر کے دن حساب دینے پر پختہ یقین ہو تو کیا انسان دوسروں کو دعوتِ عام دے گا کہ فلاں پوسٹ پر تعینات کر دیتا ہوں، آگے خود بنا لو! کیا وہ نہیں سوچے گا کہ ریاست کا خزانہ صاحبزادی کے سٹاف پر خرچ کر رہا ہوں اور فلاں مد کی رقوم داماد کے سپرد کر رہا ہوں تو کیا کل یہ بچے امجھے بچا پائیں گے؟ نمازوں عمروں اور تلاوتوں کے باوجود اندر کوئی یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ ’’ایہہ جہان مِٹھا تے اگلا کِس ڈِٹھا؟‘‘ یا’’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست!‘‘
رہا ملکی اداروں کا ڈر۔ تو ان کے دانت تو نکال ہی دیے گئے ہیں۔ کسی بھی ملک میں کرپشن سمیت تمام جرائم اصلاً پولیس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ایف آئی اے بھی بنیادی طور پر پولیس ہی ہے۔ جن ملکوں میں ملکی قوانین اور ریاستی اداروں کا خوف جرائم سے روک لیتا ہے، وہاں ریاستی ادارے سیاسی دباؤ سے آزاد ہیں۔ اگر صوبے کا آئی جی صوبے کے وزیراعلیٰ کا ذاتی ملازم بن کر رہ جائے اور اپنے ماتحتوں کے تبادلے تک اپنی مرضی سے نہ کراسکے یا نہ رکوا سکے تو اُس پولیس سے کون خوف کھائے گا؟ انکوائری کے درمیان ایف آئی اے کے سربراہ کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جائے تو ایسی ایف آئی اے سے پٹواری بھی نہیں ڈرے گا۔ اونچی کرسیوں والے اسے کہاں خاطر میں لائیں گے؟
اور عزت کا احساس! یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ پرندہ کس سیارے میں رہتا ہے اور کِن فضاؤں میں اُڑتا ہے؟ عزت کا خیال انہیں ہوتا تھا جو جرم کر کے پکڑے جاتے تھے تو رشتہ داروں کو منہ دکھانے کے خوف سے خودکشی کر لیتے تھے۔ جائدادیں چھوڑ کر جنگلوں کو بھاگ جاتے تھے اور گمنامی میں مر جاتے تھے۔ ایک لمحے کے لیے غور کیجیے، اگر وزیراعظم کے خلاف اُٹھنے والا طوفان جھوٹا بھی ہے، اگر وہ بے گناہ بھی ہیں تو یہ کیوں نہیں سوچتے کہ تین حرف ایسے اقتدار پر جو میرے بیٹوں کو میری دخترِ نیک اختر کو اور اب میرے داماد کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے! سوچیے، اگر عزت کا احساس ہوتو انسان یہ تو ضرور سوچے گا کہ لوگ کیا کہیں گے، کل میں پرویز مشرف کا دفاع کر رہا تھا، آج کس کا کر رہا ہوں؟ کل کہاں رقص کر رہا تھا، آج کس کے لیے زبان وبیان کی ساری حدود پار کر رہا ہوں؟ کیا کوئی عزت دار انسان مسٹر ٹین پرسنٹ کہلا کر دنیا کا سامنا کر سکتا ہے؟ کیا کوئی عزت دار شخص ’’ایم بی بی ایس‘‘ کا تمسخر برداشت کر سکتا ہے؟ کیا عزتِ نفس رکھنے والا گوشت پوست سے بنا انسان دنیا کو بتا سکتا ہے کہ ہاں، غیر ملکی خاتون اوّل سے سیلاب کے لیے ملنے والا ہار میرے قبضے ہی میں ہے اور میں اسی کو واپس کروں گا جس نے دیا تھا!
اللہ کے بندو! اگر خدا کا خوف نہیں ہے اور اگر ریاستی ادارے تمہاری جیبوں میں ہیں تو کم از کم یہی سوچ لو کہ خلقِ خدا کیا کہہ رہی ہے؟ اور تاریخ کے صفحات پر کیا لکھا جا رہا ہے؟

Wednesday, May 11, 2016

صرف تین گھنٹے کی مسافت پر

اس نے عنبرین کو بالوں سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا اس مکان تک لے گیا جہاںاور لوگ موجود تھے، مرکزی ملزم بھی وہیں بیٹھا تھا۔ گھر سے نکلتے ہی لڑکی کا دوپٹہ اس کے منہ پر باندھ دیا گیا تاکہ وہ شور شرابہ نہ کرسکے۔ لڑکی جب اس مکان میں پہنچی جہاں جرگے والے منصف بیٹھے تھے، تو اس پر تھپڑوں کی بارش کردی گئی۔ گرفتار ملزموں میں سے ایک کی شہادت یہ ہے کہ منہ اس کا بندھا ہوا تھا مگر ہاتھ جوڑ جوڑ کر منت سماجت کر رہی تھی اور بلک بلک کر رو رہی تھی۔ اس مار کٹائی میں دوپٹہ اس کے منہ سے ہٹ گیا۔ اب اس نے خدا اور رسول کے واسطے دیئے۔ وہ اپنا قصور پوچھتی تھی۔ اس موقع پر مرکزی ملزم نے حکم دیا کہ قصہ ختم کرو۔ دوپٹے سے گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔ مزاحمت پر پہلے سے لائے گئے نشہ آور انجکشن سے اسے بے ہوش کیا گیا۔ پھر گلا گھونٹا گیا۔ پھر لاش کو گاڑی کی سیٹ کے ساتھ باندھا گیا۔ پھر گاڑی کو جلا کر راکھ کیا گیا۔ پھر یہ جرگہ لڑکی کی ماں کے پاس گیا اور بتایا کہ اگر اس نے زبان کھولی تو اس کے بیٹے کو اور خاندان کے باقی افراد کو بھی اسی طرح نذر آتش کردیا جائے گا!
یہ واقعہ کسی دورافتادہ جنگل میں نہیں پیش آیا۔ جرگے نے جہاں یہ انصاف کیا، وہ  جگہ ملک کے دارالحکومت سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے اور اس شہر کے مضافات میں ہے جس نے آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ہزارہ صوبے کا صدر مقام بننا ہے!
مت بھولیے کہ یہ ہزارہ اور کوہستان ہی کا علاقہ ہے جہاں کے بچے پورے ملک کے مدارس میں تعلیم پانے کے لیے مشہور ہیں۔ یہ پورا خطہ ازحد مذہبی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے علماء پورے ملک میں پھیلے ہوئے مدارس میں پڑھاتے ہیں!
جو تصاویر اس جرگہ کے معزز ارکان کی میڈیا میں نظر آئی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تیس سال سے کم کوئی بھی نہیں! کچھ ارکان سفید ریش بھی ہیں! چلیے اوسط عمر چالیس سال فرض کرتے ہیں۔ یہ بھی ہمیںمعلوم ہے کہ گنہگار سے گنہگار اور بے عمل سے بے عمل پاکستانی بھی نماز جمعہ کا تارک نہیں! فرض کیجیے کہ سولہ سال کی عمرسے جرگہ کے ارکان جمعہ کے دن مولوی صاحبان کے خطبات و تقاریر سن رہے ہیں! سولہ سال سے چالیس سال تک کا عرصہ چوبیس سال پر مشتمل ہے۔ ایک سال میں جمعہ کا خطبہ باون بار ہوتا ہے۔ یوں چوبیس سال میں جرگہ کے ہر رکن نے 1248 بارجمعہ کی نماز پڑھی۔ فرض کیجیے! نصف جمعہ کی نمازیں انہوں نے اسی طرح پڑھیں کہ تاخیر سے پہنچنے کی بنا پر تقریر سننے سے محروم رہے اور صرف جماعت کی نماز پا سکے۔ پھر بھی 624 بار انہوں نے مولوی صاحبان کی تقریریں سنیں!
اب اس نکتے پر غور کیجیے کہ اگر مذہب ہماری زندگیوں میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر اٹھانوے فیصد پاکستانی قرآنی تعلیمات کا نفاذ چاہتے ہیں (جیسا کہ ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے) اور اگر اسلام کی نظر میں عورت کے حقوق وہی ہیں جو ہر زندہ انسان کے ہیں، تو پھر چھ سات سو وعظ سننے کے باوجود جرگہ کے کسی رکن نے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ ظلم یہ قتل خلاف اسلام ہے؟ اس بات پر بھی غور کیجیے کہ عنبرین کا جرم یہ تھا کہ اس نے صائمہ کو گھر سے بھاگ کر مرضی کی شادی کرنے میں مدد بہم پہنچائی۔ چنانچہ عنبرین کو مار کر جلا دیا گیا۔ مگر جس مرد نے مدد بہم پہنچائی، اسے مارا گیا نہ جلایا گیا۔ اسے صرف یہ سزا دی گئی کہ اس کی گاڑی کو جلایا گیا!
کوئی مانے نہ یا نہ مانے، حقیقت اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جاہلی ہے جہاں عورت محض ایک جنس ہے۔ آلو، گندم یا فرنیچر کی طرح ایک شے! اور اوپر سے مذہب کی پاکستانی تعبیر عورت کو مزید ذلیل کر رہی ہے! یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بل پیش کیا تو مذہبی طبقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ یہ سب خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے! جیسے عورت نے ان مذہبی لوگوں کو جنم دے کر غلطی کا ارتکاب کیا! خبر کے اس حصے پر بھی غور کیجیے کہ… واقعے کا پورے گائوںکو علم تھا مگر کسی نے پولیس کو اطلاع نہیںدی۔ اس گائوں میں یقینا مسجد بھی ہوگی، مدرسہ بھی اور مولوی صاحب بھی! اگر کوئی جھوٹی سچی افواہ پھیلتی تو مولوی صاحب نے آدھی رات کو لائوڈ سپیکر کھول کر لوگوں کو اتنا مشتعل کرنا تھا کہ بستیوں کی بستیاں راکھ ہو جانی تھیں۔ مگریہاں چونکہ حوا کی بیٹی ماری اور جلائی گئی اس لیے مولوی صاحب کے کان پر جوں تک نہ رینگی!
یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ ہمارے مذہبی حضرات عورت کے دشمن کیوں ہیں؟ یہ اکثر و بیشتر فرماتے ہیں ’’اسلام نے عورت کو بہت حقوق دیئے ہیں‘‘۔ یہ حقوق ان حضرات کو صرف اس وقت کیوں یاد آتے ہیں جب کسی اسمبلی میں عورتوں کے حقوق کا بل پیش یا پاس ہوتا ہے؟ جس اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کی تعلیمی استعداد پر یہ حضرات اپنی نجی محفلوں میں ہر روز شک کرتے ہیں، عورتوں کے بارے میں ہر بل اسی کونسل کو بھیجنے پر کیوںاصرار کرتے ہیں؟ آج تک جی ہاں… آج تک ان حضرات کی بھاری اکثریت عوام کو یہ بتانے سے کیوں قاصر رہی کہ عورت کی رضا کے بغیر اس کا نکاح زبردستی کرانا ناجائز ہے؟ عورت کے حقوق کا سنتے ہی ان حضرات کے تن بدن میں آگ کیوں بھڑک اٹھتی ہے۔ یہ درست ہے کہ برہنگی، نیم برہنگی اور بے حیائی وہ امور ہیں جن کی ہمارا دین ہمیں اجازت نہیں دیتا مگر دین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ عورتوں کو مارا جائے، جلایا جائے، پانچ سال کی بچی کا نکاح ستر سال کے بڈھے کھوسٹ سے کیا جائے۔ اس لیے کہ بچی کے باپ یا بھائی نے کسی جرم کا ارتکاب کیا تھا! گزشتہ پچاس برس کے اخبارات چھان مارے، کسی عالم دین کا کوئی بیان کاروکاری، ونی یا اسوارہ کی مذمت میں نہیں ملے گا! پہلی بار یہ ہوا ہے کہ علما کے ایک گروہ نے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں ایبٹ آباد کے حالیہ واقعہ کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ ’’اسلام میں نجی عدالتوں اور جرگوں کی کوئی گنجائش نہیں! مگر پیش منظر پر جو مکتب فکر جو مسلک چھایا ہوا ہے اس کی جانب سے خاموشی ہے!
بات بات پر عرب دنیا کا حوالہ دینے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ وہاں آج بھی عورت شادی کا پیغام مرد کو خود بھیج سکتی ہے اور بھیجتی ہے! سعودی عرب کا کثیرالاشاعت انگریزی اخبار یہ حدیث بیان کرسکتا ہے تو ہمارے ہاں کیوںنہیںبیان کی جاتی۔ ’’ایک عورت نے بارگاہ رسالت میں آ کر شکایت کی کہ اس کے والد نے اپنے رشتہ داروں میں اس کی شادی زبردستی کر دی ہے تاکہ اس بندھن سے والد کا سماجی مرتبہ بلند ہو جائے۔ آپﷺ نے شادی منسوخ فرمادی۔ شادی منسوخ ہونے کے بعد عورت نے کہا۔’’اب میں اس شادی پر راضی ہوتی ہوں۔ میں صرف یہ چاہتی تھی کہ عورتوں کو معلوم ہو جائے کہ ان کے معاملات میںمردکو اختیار نہیں!‘‘
یہ درست ہے کہ عورت کی شادی میں اس کے والد یا سرپرست کو موجود ہونا چاہیے مگر یہ کہاں لکھا ہے کہ زبردستی ایک مرد ساری زندگی کے لیے اس پر مسلط کر دیا جائے؟ اللہ کے بندو! بیٹی کو بھیڑ بکری نہ سمجھو! اسے چوائس دو۔ اگر وہ کسی مرد سے شادی نہیںکرنا چاہتی تو کیا وہ مرد دنیا میں آخری مرد ہے؟ تم اس کے لیے ایسا لڑکا بھی تو تلاش کرسکتے ہو جس پر تم بھی راضی ہو اور وہ بھی خوش ہو! اور اگر وہ شائستگی سے اشارہ دیتی ہے کہ وہ فلاں مرد سے شادی کا بندھن باندھنا چاہتی ہے تو اس پر مثبت رویہ اپنائو۔ ہمدردی سے غور کرو! یہ کہنا کہ شادی ہماری مرضی سے ہوگی، تمہاری مرضی سے نہیں! جہالت کے سوا کچھ نہیں! شادی کے لیے والدین کے علاوہ لڑکی کی رضامندی بھی لازم ہے۔ ہاں، جس لڑکے سے وہ شادی کرنا چاہتی ہے اگر وہ چوراچکا اٹھائی گیرا ہے، اگر اس کا خاندان ملک کی دولت لوٹ کر پاناما میں رکھ آیا ہے، یا اگر لڑکے کے دو سر ہیں چار ہاتھ ہیںاور اس کا چہرہ پیچھے کی طرف ہے تو پھر لڑکی کو بتا دو کہ یہ وجہ ہے جس کی وجہ سے غور کیے جانے کے باوجود شادی نہیں ہوسکتی!
لڑکیاںگھروں سے بھاگ کر شادیاںکیوں کرتی ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ اس معاملے میں ان کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ دادی سے لے کر تایا تک اور خالہ سے لے کر دور کی پھپھو تک سب سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ مگر لڑکی سے مشورہ کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں! یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی اسی جہالت کا دور دورہ ہے۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ وہ اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بلند منصب سے ریٹائرڈ، صاحب کے گھر گئے! لڑکی ڈاکٹر تھی! کئی ہفتے مہینے گزرگئے، سلسلہ جنبانی ہوتی رہی! بالآخر لڑکے کے باپ نے کہا کہ ’’حضرت !کچھ فیصلہ کیجیے! جواب ملا کہ ابھی لڑکی کی دادی اور لڑکی کے تایا بیرون ملک ہیں۔ آئیں گے تو فیصلہ ہوگا! آج وہ لڑکا، ایک بچے کا باپ بن چکا ہے اور وہ بے زبان ڈاکٹر لڑکی اسی طرح باپ کے گھر میں بیٹھی ہے! پطرس بخاری نے لکھا تھا کہ سائیکل کا ہر پرزہ بج رہا تھا، سوائے گھنٹی کے۔ خاندان کے ہر چھوٹے بڑے سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ اگر نہیں پوچھا جاتا تو اس لڑکی سے، جس نے لڑکے کے ساتھ، لڑکے کے خاندان میں زندگی بسر کرنی ہے!
ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ان سماجی رویوں کو، معاشرے کی ان برائیوں کو، پتھر کے زمانے کے اس رسم و رواج کو، مذہب کے کپڑے میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ صدیوںپرانی ان فرسودہ روایات پر اعتراض کوئی نہ کر سکے! سچ کہا جاتا ہے کہ افغانستان اورپاکستان میں اسلام  جو تعبیر بھگت رہا ہے، اس کی مثال باقی اسلامی دنیا میں
کہیں نہیں ملتی!

Monday, May 09, 2016

جوڑے

سیّد برادران نے پوری سلطنت کو مٹھی میں لے رکھا تھا!
آغاز ان کے اثر و رسوخ کا اورنگزیب کے زمانے ہی میں ہو چکا تھا۔ بڑا بھائی سید حسن علی خان شہنشاہ کی آخری مہمات میں اس کے ساتھ تھا۔ پھر اس کے جنازے میں شریک ہوا۔ چھوٹا بھائی سید حسین علی خان ذہانت میں تیز تر تھا۔ پہلے اجمیر پھر آگرے کا حاکم رہا۔
1707
ء میں اورنگزیب نے دنیا سے کوچ کیا۔ اس کے بعد بارہ سال میں سات مغل شہزادے یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے۔ میوزک چیئر کے اس کھیل میں سارا کنٹرول سید برادران کے ہاتھ میں رہا! اورنگزیب کا بیٹا معظم، بہادر شاہ اوّل کے لقب سے تخت پر بیٹھا تو سید برادران اس کی پشت پر تھے۔ پانچ سال بعد وہ مرا تو اس کے جانشین جہانداد شاہ کو سید برادران نے قتل کرا دیا۔ پھر فرخ سیر نے سلطنت سنبھالی تو اصل بادشاہت سید برادران کے ہاتھ میں رہی۔ فرخ سیر اُن کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچتا تھا۔ 1791ء میں ان دونوں بھائیوں نے بادشاہ کو قید کر لیا۔ پہلے اُسے بھوکا رکھا گیا۔ پھر سوئیوں سے آنکھیں نکال کر اندھا کیا گیا۔ پھر گلا گھونٹ کر مار دیا گیا۔ پھر اس طاقتور جوڑے نے رفیع الدرجات کو تاج پہنایا۔ پھر رفیع الدولہ کو اور پھر محمد شاہ کو!
محمد شاہ نے ایک سبق سیکھا کہ حکومت کرنی ہے تو ان بھائیوں سے جان چھڑائو۔ اس نے نظام الملک آصف جاہ کو ساتھ ملایا اور ان کا خاتمہ کیا۔ چھوٹے کو فتح پور سیکری میں قتل کر دیا گیا، بڑے کو زہر دیا گیا!
لیکن یہ واحد جوڑا نہ تھا جو برصغیر میں مشہور ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تھیلے سے بھی ایک جوڑا نکلا جو برصغیر پر چھا گیا۔ یہ مٹکاف برادران تھے۔ بڑے کا نام چارلس مٹکاف تھا۔ پیدائش کلکتہ کی تھی اسی لیے کہ باپ بنگال آرمی میں میجر کے عہدے پر فائز تھا!
چارلس مٹکاف 19 برس کی عمر میں اُس انگریز جرنیل کا پولیٹیکل اسسٹنٹ لگ گیا جو مرہٹوں کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ پھر اسے رنجیت سنگھ کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ پھر دہلی میں ریزیڈنٹ مقرر ہوا۔ یاد رہے کہ دہلی کا اصل اقتدار مغل بادشاہ کے ہاتھ میں نہیں‘ انگریز ریزیڈنٹ کے ہاتھ میں تھا۔
کچھ عرصہ کے لیے چارلس مٹکاف کو نظام کے دربار میں تعینات کیا گیا مگر دہلی میں پھر ضرورت آن پڑی! ایک وقت ایسا بھی آیا کہ چارلس بنگال کا قائم مقام گورنر جنرل بنا جو اُس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی میں بلند ترین منصب تھا۔ پھر لندن کی حکومت نے اُسے جمیکا کا والی بنا کر بھیجا۔ آخری اہم تعیناتی کینیڈا میں رہی جہاں وہ گورنر جنرل بنا کر بھیجا گیا۔ چھوٹا بھائی تھامس مٹکاف بڑے بھائی سے بھی زیادہ مشہور ہوا۔ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں دہلی وارد ہوا اور چالیس سال یہاں رہا۔ دہلی کے نواح میں اس نے اپنا محل ’’مٹکاف ہائوس‘‘ کے نام سے بنایا۔ مقامی ملازمین اسے ’’مٹکا کوٹھی‘‘ کہتے تھے۔ دہلی تعیناتی کے دوران اس نے مشہور ہندوستانی مصور مظہر علی خان سے دہلی کے تاریخی مقامات کی تصویریں بنوائیں۔ ان میں محلات‘ خانقاہیں‘ مزار اور دیگر یادگار عمارتیں شامل تھیں۔ آج ہم مظہر علی خان کا نام بھی نہیں جانتے۔ ان تصاویر کو کتابی شکل میں ڈھالا گیا، اسے دہلی بُک یا دہلی البم بھی کہا جاتا ہے۔ اصل میں تھامس نے اسے اپنی بیٹیوں کے لیے ترتیب دیا تھا۔ کئی عمارتیں جو 1857ء میں منہدم ہو گئیں اس البم کے اوراق میں اپنی اصل حالت میں محفوظ ہیں! 1853ء میں تھامس کو معدے کا مرض لاحق ہوا جو کنٹرول نہ کیا جا سکا۔ ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ اُس کی اپنی رائے بھی یہ تھی کہ اسے بہادر شاہ ظفر  کی ملکہ زینت محل نے زہر دیا تھا!
یوں تو امریکہ میں بھی جوڑے مشہور ہوئے (مثلاً بونی اور کلائیڈ! بونی عورت تھی اور کلائیڈ مرد! 1930ء کے عشرے میں انہوں نے خوب دہشت پھیلائی۔ لوٹ مار کے درمیان کئی پولیس افسروں کو قتل کیا) مگر ہم نہیں چاہتے کہ مشہور جوڑوں کا ذکر کرتے ہوئے ہم برصغیر سے باہر جا نکلیں!
اس وقت پیش منظر پر جو جوڑا چھایا ہوا ہے وہ میاں محمد نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ گزشتہ ہفتے مولانا کی دعوت پر وزیر اعظم بنوں تشریف لے گئے۔ وہاں بڑے بڑے بینروں پر دونوں رہنمائوں کی تصاویر آویزاں تھیں جن کے نیچے لکھا تھا ’’جوڑی سلامت رہے!‘‘ پھر جلسے کے اختتام پر جب مولانا اور وزیر اعظم نے باہم پیوست ہاتھ فضا میں بلند کیے تو اکرم درانی صاحب نے برجستہ کہا ’’جوڑی سلامت رہے‘‘! چوہدری شجاعت حسین بے پناہ ذہانت کے مالک ہیں۔ انہوں نے لقمہ دیا ہے کہ مولانا کو آگے سے یہ کہنا چاہیے تھا کہ ’’جوڑیاں سلامت‘ بھاگ لگے رہن! میاں صاحب دے ناں دی ویل!‘‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ شرارتی چوہدری صاحب نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا!
مگر اس جوڑے کو مذاق میں نہیں ٹال دینا چاہیے! اس وقت میاں نواز شریف کا دل اور مولانا کا ذہن اکٹھے ہو گئے ہیں! ایک کے سینے میں دل ہے اور دوسرے کے سر میں دماغ! اسے انگریزی میں 
Lethal Combination
 کہتے ہیں! اس میں کیا شک ہے کہ مولانا کو جو ذہانت اور فطانت قدرت نے ودیعت کی ہے‘ اس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملے گی! یہ ملت اسلامیہ کی بدقسمتی ہے کہ مولانا تاریخ کے اہم چوراہوں پر موجود نہ تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر جلال الدین خوارزم شاہ کے دربار میں مولانا ہوتے تو تاریخ مختلف نہ ہوتی؟ چنگیز خان کے ساتھ مذاکرات کے لیے انہیں بھیجا جاتا تو چنگیز خان چُپ کر کے منگولیا واپس چلا جاتا‘ یہ اور بات کہ مولانا کو اپنا مشیر مقرر کر کے ساتھ ہی لے جاتا! ابراہیم لودھی کی دسترس میں مولانا ہوتے تو بابر کا توپ خانہ بے کار جاتا اور آج تاریخ مختلف ہوتی! نادر شاہ درانی دہلی پر حملہ آور ہوا اور محمد شاہ رنگیلا سے تخت طائوس چھین کر ایران لے گیا۔ مولانا اُس وقت ہوتے تو تخت طائوس آج تک ڈی آئی خان میں ہوتا! مولانا ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس ہوتے تو برصغیر پر قبضہ کرنے کے لیے کمپنی کو جنگیں نہ لڑنا پڑتیں۔ اورنگزیب کے جانشین مولانا کی صبحت سے فیض یاب ہوتے تو مغل سلطنت آج بھی قائم و دائم ہوتی، یہ اور بات کہ دارالسلطنت دریائے سندھ کے کنارے ہوتا! 
ایئر مارشل اصغر خان کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں جوڑا بنانے کی دعوت دی تھی کہ بیس سال مل کر حکومت کریں گے! یہ جوڑا نہ بن سکا۔ اصغر خان نہ مانے! اب جو جوڑا بنا ہے میاں صاحب اور مولانا صاحب کا، تو بیس برس اس جوڑے کی صلاحیتوں کے لیے ایک لمحے سے بھی کم ہے! وزیر اعظم خوش بخت ہیں کہ اس مشکل وقت میں جب پیپلز پارٹی نے بھی آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں، انہیں مولانا صاحب کا ساتھ میسر ہے! عمران خان اور اعتزاز احسن برسوں بھی جدوجہد کرتے رہیں تو سراب کے سوا کچھ نہ پائیں گے! یہ طفلان مکتب کیا جانیں کہ زنبیل میں کیا کچھ ہے! غلام اسحاق خان نے مشہور شعر پڑھا تھا جو اس کے بعد اور مشہور ہو گیا تھا   ؎
گمان مبر کہ بہ پایان رسید کار مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است
اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ شراب خانے کا کام ٹھپ ہو گیا ہے‘ ابھی تو انگور کی بیل میں بہت شراب موجود ہے! آج جناب وزیر اعظم اور مولانا کا جوڑا یہی شعر متحدہ اپوزیشن کو سُنا سکتا ہے اور للکار کر سنا سکتا ہے!
مولانا کا نام نامی تو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہے ہی! جناب وزیر اعظم کے لیے بھی یہ کیا کم اعزاز ہے کہ تاریخ میں ان کا نام مولانا کے ساتھ جوڑے کی صورت میں زندہ رہے گا۔ جہاں سید برادران‘ مٹکاف برادران اور علی برادران کا نام زندہ ہے‘ وہاں میم برادران (میاں اور مولانا) کا نام بھی درخشندہ و تابندہ رہے گا! دونوں ایک دوسرے کے لیے ماشاء اللہ عزت افزائی کا سبب بنیں گے۔ قائد اعظم اوّل کے ساتھ لیاقت علی خان کا نام آئے گا۔ قائد اعظمؒ ثانی کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کا نام آئے گا! ستر سال بعد تاریخ نے کروٹ لی ہے! قوم کا مقدر بدلا ہے۔ اکرم درانی کے منہ میں گھی شکر جس نے ’’جوڑی سلامت رہے‘‘ کہہ کر قوم کو روشنی کی نئی کرن دکھائی ہے! کردار کی جو مضبوطی لیاقت علی خان میں تھی‘ حقیقت یہ ہے کہ مولانا میں اس سے بھی زیادہ پائی جاتی ہے! یہ جو مشرف عہد کی زمینوں کی بات کی جاتی ہے یا یہ جو سوشل میڈیا میں آئے دن اس قسم کی فضولیات سامنے آتی رہتی ہیں کہ ’’رقم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ یہ سب دروغ گوئی ہے اور حسد اور بغض کی علامات! کہ کُند ذہن لوگ ایک روشن دماغ کی صلاحیتوں سے خائف ہیں!
خدا اس جوڑے کو سلامت رکھے! نظر بد سے بچائے‘ پوری قوم سے درخواست ہے کہ چاروں قُل شریف پڑھ کر اس جوڑے کی تصویر پر پھونکیں!
غالب کی ایک فارسی غزل یاد آ رہی ہے۔ اس میں شاعر محبوب کو دعوت دیتا ہے کہ 
نہیم شرم بہ یکسو و باہم آویزیم
بہ شوخیٔ کہ رُخِ اختران بگردانیم
آئو‘ شرم کو ایک طرف رکھ دیں اور ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ جائیں۔ ایسی شوخی کے ساتھ کہ ستارے منہ دوسری طرف کر لیں!

 

powered by worldwanders.com