اشاعتیں

فروری, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

شہرزاد

تصویر

گنتی

تصویر

مجسم اٹیچی کیس

تصویر

خواب میں ہاتھ ملایا تھا کسی گل رو سے

تصویر

شترو گھن سنہا سے شرمیلا ٹیگور تک

تصویر
ظ

ملامتی

تصویر

Long Live مرزا یار

میرؔ کا شعر ہے   ؎ چھڑا جو قصہ کہیں رات ہیر رانجھے کا ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا ہیر رانجھے کے علاوہ بھی پنجاب کی عشقیہ روایات بہت ہیں۔ان میں سے ایک کہانی مرزا اور صاحباں کی ہے۔ اس حوالے سے پنجابی کے یہ اشعار تعارف کے محتاج نہیں   ؎ میں بکرا دیاں نیاز دا جے سر دا سائیں مرے ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے کُتی مرے فقیر دی جہیڑی چوئوں چوئوں نت کرے پنج ست مرن گواہنڈناں تے رہندیاں نوں تاپ چڑھے گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے مرزا یار کے راستے میں جتنی رکاوٹیں ہیں،اس کی محبوبہ انہیں ہٹانا چاہتی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کا شوہر ہے جو کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے۔ اگر وہ مر جائے تو شکرانے کے طور پر وہ بکرا ذبح کرے گی۔ پھر بنیے کی دکان ہے جو رات گئے تک کھلی رہتی ہے اور جہاں دیوا یعنی چراغ جلتا رہتا ہے۔ یہ دکان بھی نذرِ آتش ہو جائے تو کیا ہی کہنا! پھر کٹیا والے فقیر کی کتیا مرے جو ہر وقت بھونکتی یعنی پہرے پر رہتی ہے۔محبوب کے وصال میں حائل، ان سارے ’’دشمنوں‘‘ کا صفایا ہو بھی جائے تو پڑوسنوں کا کیا بنے گا؟ یہ بدبخت ہر وقت کان لگائے بیٹھی ہوتی ہیں کہ گلی میں کون...

ہوا بکھیر گئی موم بتیاں اور پھول

تصویر

لَٹھ

عزیز و اقارب اور حلقۂ احباب تو جانتے ہی ہیں، میں عوام الناس کو بھی اپنے بارے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھ میں نیکی پھیلانے اور برائی ختم کرنے کا جذبہ بہت زیادہ ہے۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم دینے سے ایک اضافی فائدہ یہ ہوا ہے کہ میرا لہجہ مستقل طور پر تحکمانہ ہو گیا ہے۔ یوں بھی اس میں شک ہی کیا ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ پارسا ہوں۔ معاشرے کی اصلاح کی بھاری ذمہ داری میرے مضبوط کاندھوں پر ہے، جسے میں احسن طریقے سے انجام دے رہا ہوں۔ برائی کو میں عام طور پر ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ برائی کو ہاتھ سے یعنی طاقت سے روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ان سے نمٹنا میں بخوبی جانتا ہوں۔ ہاں! کبھی کبھی اگر برائی کو زبان سے روکنا پڑے تو پورا محلہ جانتا ہے کہ میری زبان بھی ہاتھ سے کچھ کم نہیں! تیر، تفنگ، بھالا، تیزاب، کلہاڑی، چھری، سب میری زبان کے آگے ہیچ ہیں۔ چند دن پہلے کی بات ہے، محلے کی مسجد میں ایک لڑکا نیکر پہنے نماز پڑھ رہا تھا۔ اگرچہ نیکر اس کی گھنٹوں سے نیچے تھی مگر اس نابکار نے سر پرٹوپی بھی نہیں پہنی ہوئی تھی۔ میں نے مصلحتاً اِس برائی کو روکتے وقت ہاتھ کنٹرول میں رکھے مگر ز...

لطیفے ہی لطیفے

بعض دن اتنے خوشگوار ہوتے ہیں کہ لطیفوں سے شروع ہوتے ہیں اور لطیفوں ہی پر ختم ہوتے ہیں۔ خوف اور بے یقینی کی اس فضا میں ایسے ایام غنیمت ہیں۔ یوں بھی کل کا دن بیزار گزرا۔ سارا دن بارش ہوتی رہی۔ دارالحکومت کے لوگ خوش تھے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر دس سال بعد برفباری ہوئی۔ لیکن برف باری سب کو تو پسند نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ ایک چمکدار دن پسند کرتے ہیں۔ سرما کی نرم دھوپ ! اور اگر سرد ہوا نہ چل رہی ہو تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے! ؎ اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں مگر اس سیر گہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے برف اور دھوپ کے موسموں کو چھوڑ کر اُن لطیفوں کی طرف آتے ہیں جن سے دن کا آغاز ہوا۔ دوحہ (قطر) میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ تین سال میں پاکستان بدل گیا ہے۔ حکومت وعدوں کی تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ اخبارات کے پہلے صفحات پر یہ تقریر شائع ہوئی مگر ساتھ ہی‘ اوپر نیچے‘ دائیں بائیں‘ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے ایسے بیانات بھی شائع ہو گئے جو اس ’’بدلے ہوئے پاکستان‘‘ کی چغلی کھا رہے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ حکومتیں خود ہی قبضہ گروپوں کو نقشے بنا ک...

جَٹ چڑھیا کچہری

شریف آدمی عمر رسیدہ اور پریشان تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔ زندگی کا کیا پتہ، رگِ جاں کس وقت کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائے۔ اس ملک میں ہر شریف آدمی کی یہی خواہش ہے کہ اس کے بچوں کو کچہری اور تھانے کے دھکے نہ کھانے پڑیں اور وہ اپنی زندگی ہی میں جو کچھ اس حوالے سے کر سکتا ہے،  کر جائے۔ یہ شریف عمر رسیدہ آدمی بھی کچہری پہنچا اور متعلقہ اہلکار سے درخواست کی کہ وہ اپنا مکان اپنے اکلوتے بیٹے کے نام کرانا چاہتا ہے۔ اہلکار نے اُسے دیکھا۔ دیکھا کیا، اس کا جائزہ لیا۔ کچہری کا اہلکار جائزہ لیتا ہے تو سائل کی مالی حیثیت کا اندازہ فوراً لگا لیتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ اہلکار پہنچے ہوئے بزرگوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں۔ سر سے لے کر پائوں تک دیکھنے کے بعد اس نے بتایا کہ پچیس ہزار روپے خرچ ہوں گے۔ عمر رسیدہ شخص حیران ہوا…’’مگر میں مکان خرید یا بیچ نہیں رہا۔ میرا اپنا مکان ہے اور کاغذات پر بیٹے کے نام منتقل کرنا چاہتا ہوں۔ پچیس ہزار روپے کیوں؟‘‘ اہلکار نے مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور دوسرے سائلوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ عمر رسیدہ شخص کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور پھر واپس آ گیا۔ ہمارے شہری دوس...

سینے پر رکھا بیر اور گھڑ سوار

دادا خان نوری غصے میں تھے۔ ’’آپ پاکستانی عجیب لوگ ہیں!‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کا سرخ سفید چہرہ مزید سرخ ہو گیا۔ میں ہنس پڑا۔ پہلی ملاقات دادا خان نوری سے تاشقند میں ہوئی۔ مختار حسن مرحوم نے ان کا پتہ دیا تھا۔ اُس وقت تاشقند میں پاکستانی سفارت خانہ تھا ‘نہ اسلام آباد میں ازبک سفارت خانہ! وسط ایشیا کی ریاستیں نئی نئی آزاد ہوئی تھیں۔ دادا خان نوری نے تاشقند یونیورسٹی میں ہندی پڑھی تھی۔ اس لیے اردو لکھ نہیں پاتے تھے مگر بول لیتے تھے۔ تاشقند میں وہ پاکستان کے چلتے پھرتے سفیر تھے۔ پاکستان کی محبت دل میں بسائے‘ کبھی سفارت خانے کے قیام کی کوشش کر رہے ہوتے‘ کبھی پاکستانی سیاحوں کی رہنمائی کر رہے ہوتے اور کبھی پاکستان کے سفر کی تیاری کر رہے ہوتے ۔کئی بار پاکستان آئے۔ متعدد بار غریب خانے پر قیام کیا۔ یہ لوگ پانی نہیں پیتے۔ مسلسل چائے پیتے ہیں جس میں میٹھا نہیں ہوتا۔ جب بھی تشریف لاتے، گھر والے ان کی چائے کا خاص خیال رکھتے۔ چینک ہر وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتی۔ اُس دن صبح صبح اُٹھ کر وہ سیر کے لیے باہر چلے گئے۔ واپس آئے تو غصے میں تھے۔ ’’آپ پاکستانی عجیب لوگ ہیں۔ ہر گھر کے ساتھ، اردگرد، خ...

مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اک بوری

مریض کو داخل کرانے کے تین چاردن بعد ہی معلوم ہوگیا تھا کہ ہسپتال کا معاملہ گڑبڑ ہے۔ ہسپتال کیا تھا، افراتفری کی منڈی تھا۔ بدانتظامی کا بدترین نمونہ! کوئی ڈاکٹر وقت پر نہیں آتا تھا۔ نرسیں آرام سے بیٹھی سویٹریں بنتی رہتیں۔ دوائیںجن دکانداروں سے خریدی جاتیں انہی کو آدھی قیمت پر واپس بیچ دی جاتیں۔ آپریشن تھیٹر ذبح خانوں کی طرح تھے، جہاںمریضوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح چیرا پھاڑا جاتا۔ وارڈ اتنے گندے کے ابکائی آتی! اس بدانتظامی میں مریض کیا خاک ٹھیک ہوتا۔ ایک ہی راستہ بچا تھا کہ ہم اپنے مریض کو یہاں سے اٹھائیں اور کسی ڈھنگ کے شفاخانے میں لے جائیں، خواہ وہ مہنگا ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اب ایک اور سیاپا پڑ گیا۔ مریض کے لواحقین دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ چاہتا تھا کہ مریض کو کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں۔ دوسرے گروہ کا موقف تھا کہ مریض یہیں رہے مگر ہسپتال کا نظام بہتر کیا جائے۔ سسٹم کی خرابیاں دور کی جائیں۔ ڈاکٹروں کو نظم و ضبط کا پابند کیا جائے۔ ادویات کی خورد برد کو کنٹرول کیا جائے۔ بدمزاج، نکمی نرسوں کو برطرف کرکے نیا عملہ بھرتی کیا جائے۔ آپریشن تھیٹر نئے بنائے جائیں۔ جب ہسپتال کی حالت...

بابے

عجیب عالم تھا۔ بیان نہیں کر سکتا۔ زمین… اگر وہ زمین تھی تو ‘ مختلف قسم کی تھی۔ آسمان تھا ہی نہیں! وزن ناپید تھا۔ قدم اٹھاتا تو سینکڑوں ہزاروں میل کی مسافت طے ہو جاتی! ستارے اِدھر اُدھر لڑھک رہے تھے۔ کہکشائیں‘ ایک دوسرے کو شاہراہوں کی طرح کاٹتیں‘ مختلف سمتوں کو رواں تھیں۔ کہیں پھل بوٹے تھے اور باغ چمنستان‘ کہیں پہاڑیاں تھیں‘ سیب اور انار کے درختوں سے ڈھکی ہوئی۔ کبھی صحرا نظر آتے مگر یوں کہ ان کے درمیان میں دریا رواں دواں تھے جن کے کناروں پر سبزہ زار تھے۔ طائروں کی اتنی اقسام تھیں کہ عقل دنگ تھی۔ بولیاں ان کی طرح طرح کی! معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ عالم یہ خواب کا تھا یا بیداری کا۔ اچانک ایک پردہ سا افق سے افق تک تن گیا۔ معلوم ہوا فرشتہ اڑ رہا ہے اور اس کے پروں نے پورے منظر کو جیسے ڈھانپ لیا ہے۔ اچانک دیکھا تو ایک قالین اڑتا چلا آ رہا ہے ۔ایک بزرگ تکیے سے ٹیک لگائے اُس پر نیم دراز بیٹھے ہیں اور کتاب پڑھ رہے ہیں۔ ایک طرف سے جُھک کر دیکھا تو کتاب کا نام نظر آیا… ’’باغ و بہار‘‘۔سوچنے لگا ان بزرگوار کو کہیں دیکھا ہے‘ ایک آواز آئی‘ یہ میر امن دہلوی ہیں اور فورٹ ولیم کالج کے لیے ایک ...

جونک

بات صرف ایک بھیگے ہوئے تولیے کی تھی۔ غالباً یہ سنگا پور ایئر لائن تھی جس نے سب سے پہلے پانی میں بھیگا ہوا (wet) تولیہ مسافروں کو دینا شروع کیا تا کہ وہ ہاتھ پونچھ سکیں اور چہرے پر مل کر تھکاوٹ کا احساس کم کر سکیں۔ ایک ایئر ہوسٹس نے یہ بھیگا تولیہ پرس میں رکھ لیا۔ ’’چوری‘‘ برآمد ہوئی اور اسے نکال دیا گیا! اس کے مقابلے میں پی آئی اے کی گزشتہ تیس چالیس برس کی تاریخ کھنگال کر دیکھ لیجیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پی آئی اے کے ملازمین کے گھر، پی آئی اے کی مصنوعات سے چلتے رہے تو اُس خدا کی قسم! جس نے انسان کو لوہے کے یہ پرندے، جنہیں ہوائی جہاز کہا جاتا ہے، بنانا سکھائے، اس میں کچھ مبالغہ نہ ہو گا۔ تولیہ؟ تولیہ کیا چیز ہے؟ پی آئی اے کے کمبل، پی آئی اے کی گدیاں، پی آئی اے کے کھانوں کے ڈبوں کے ڈبے، پی آئی اے کا ٹائلٹ کا سامان، پی آئی اے کے اخبارات اور رسالے، پی آئی اے کے مشروبات، ڈیوٹی فری اشیاء، پائلٹ سے لے کر ایئرہوسٹس تک۔ انجینئر سے لے کر نچلے درجے کے ٹیکنیشن تک، ہر شخص نے، ہر مرد اور ہر عورت نے پی آئی اے کو لوٹا۔ یقینا کچھ دیانت دار مرد اور عورتیں ہوں گی مگر آٹے میں نمک کے برابر،...

کباڑ خانہ

رچرڈ صاحب برطانوی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ وہاں قومی اسمبلی کو ہائوس آف کامنز ( دارالعوام) کہتے ہیں! ایک دن بیٹھے بٹھائے رچرڈ صاحب کا بلڈ پریشر شُوٹ اَپ کر گیا۔ ہو سکتا ہے ایک دو دن سے دوانہ کھا رہے ہوں۔ بے ہوش ہو گئے۔ ہسپتال پہنچائے گئے۔ ہسپتال تو پہنچا دیے گئے مگر اب ایک اور سیاپا پڑ گیا! ڈاکٹروں کو یہ کون بتائے کہ رچرڈ صاحب کا علاج کس طرح کرنا ہے؟ میڈیکل سپیشلسٹ سارے جمع تھے۔ کیا امراض قلب کے ڈاکٹر، کیا دماغ کے ماہرین، کیا بے ہوش کرنے والے، کیا آپریشن کرنے والے! نرسیں بھی حاضر تھیں۔ آپریشن تھیٹر بھی موجود تھا مگر برطانوی وزیر اعظم سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ کسی ضروری میٹنگ میں تھے۔ میٹنگ سے فارغ ہوئے تو غیر ملکی وفود سے ملنے لگ گئے۔ رچرڈ صاحب بے ہوش پڑے رہے۔ ڈاکٹروں کی ٹیمیں وزیر اعظم صاحب کی ہدایات کی منتظر رہیں۔ افسوس! رچرڈ صاحب کا اس سارے سیاپے میں انتقال ہو گیا!  آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ سب سچ ہے؟ کیا ایسا ہوا ہو گا؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ ہسپتال ایک الگ دنیا ہے۔اس میں تعینات ڈاکٹر، خواہ انتظامیہ کے ہوں، یا فزیشن ہوں یا سرجن ہوں، اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہوتے ہیں!...

جب وہ محفوظ ہوں گے؟؟

بال اس کے کھچڑی تھے۔ جُھریوں نے رخساروں پر کام شروع کر دیا تھا۔ ہم ریل کار کے اے سی پارلر میں اس میز کے گرد بیٹھے تھے جو درمیان میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ایک دس سال کی بچی۔ ایک چھ سال کا بچہ۔ وہ خود ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ دونوں بچے اپنی اپنی سٹوری بک میں محو تھے۔ میں اخبار چاٹ چکا تھا اور باہر دیکھ رہا تھا۔ کھیت مکان درخت مویشی نہریں گزرے جا رہے تھے۔ قدرت کے تخلیق کردہ۔ حسن کو انسان نے اپنی پیدا کردہ آلودگی کے ساتھ خوب مکس کیا تھا۔ لہلہاتے کھیت اور ساتھ ہی کوڑے کے ڈھیر۔ کیچڑ میں لپٹے ننگ دھڑنگ، نیم برہنہ بچے جن کے والدین اینٹوں کے بھٹوں پر نسل درنسل وہ مزدوری کر رہے تھے جسے غلامی بھی کہا جاسکتا ہے۔ اقبال نے پروردگار کو بڑے اعتماد سے کہا تھا: توشب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم کہ تو نے رات بنائی تو میں نے چراغ بنایا۔ تو نے مٹی بنائی، میں نے اس سے پیالہ تخلیق کیا۔ تو نے صحرا پہاڑی اور خارو خس بنائے۔ میں نے وہاں شاہراہیں اور باغات بناڈالے۔ مگر یہ دعوے پرانے ہو چکے ہیں۔ اب ہم زمین کے اس ح...