Saturday, October 31, 2015
Friday, October 30, 2015
Wednesday, October 28, 2015
زمیں جاگی تو اس کی ایک انگڑائی بہت ہے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رخصت ہوئے 79 برس ہو چکے تھے۔ پومپی آئی ایک ہنستا بستا شہر تھا۔ سمندر کے کنارے آباد! بیس ہزار کی آبادی تھی۔ پانی ہر گھر میں ایک مربوط نظام کے تحت پہنچتا تھا۔ شہر میں تھیٹر بھی تھا اور جمنیزیم بھی۔ بندرگاہ مصروف رہتی تھی۔ دور دور سے سیاح آتے تھے۔ امرا تعطیلات یہیں گزارتے تھے۔
اگست کی ایک دوپہر تھی جب لوگوں نے ایک عجیب و غریب، کالے رنگ کے بادل کو افق سے اٹھتے اور آسمان کو ڈھانپتے دیکھا۔ شہر کے پڑوس میں جو پہاڑ تھا، اس کی چوٹی پھٹ گئی تھی۔ ٹنوں کے حساب سے گرم، ابلتا لاوا اچھل اچھل کر، کوسوں دور تک لوہے کے گرم ٹکڑوں کی طرح، ہر طرف گر رہا تھا۔ گندھک بھری گیس ہوا میں پھیل رہی تھی۔ لوگوں کے دم گھٹ رہے تھے۔ ایک عینی شاہد نے اس زمانے میں کسی کو خط لکھا جو بعد میں ملا۔ کوئی ماں باپ کو پکار رہا تھا، کوئی بچوں کو اور کوئی بیوی کو! پھر مکان گرنے لگے اور گلیاں ملبے سے اٹ گئیں۔ ایک ہزار سات سو سال شہر مٹی کے نیچے دفن رہا، یہاں تک کہ 1748ء میں اس کی کھدائی شروع ہوئی۔ گزشتہ پونے تین سو برس سے یہ عبرت سرائے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ پچیس لاکھ افراد ہر سال یہاں آتے ہیں۔
آج کا مشہور اطالوی شہر نیپلز اسی جگہ آباد ہے۔ نومبر 1980ء میں یہاں ایک اور بڑا زلزلہ آیا۔ اس وقت یہ کالم نگار نیپلز ہی میں تھا۔ ہم شام کا کھانا کھا رہے تھے جب نویں منزل پر واقع ہمارے اپارٹمنٹ کے فرش پر جیسے گڑھا سا بن گیا۔ سیڑھیاں اترتے، کلمہ پڑھتے، نیچے، ایک بڑے میدان میں پہنچے تو وہ لوگوں سے بھر چکا تھا۔ وہ رات ہم نے وہیں گزاری، ہم میں اور مقامی لوگوں میں ایک فرق تو یہ تھا کہ جھٹکا آنے پر زمین کے اوپر اٹھنے اور پھر نیچے آنے پر ہم کلمہ پڑھتے اور وہ آپس میں باتیں کرتے۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ چند گھنٹوں کے بعد ہم ایشیائی، عرب اور افریقی، زمین پر بیٹھ گئے جب کہ وہ ساری رات کھڑے رہے اور آگ جلا جلا کر میدان کو گرم کرتے رہے۔ ہمارا ایک سوڈانی دوست، جو اپنی تھائی گرل فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھنے گیا ہوا تھا۔ آدھی رات کو پیدل واپس پہنچا کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم منہدم ہو چکا تھا۔ جب بھی زور کا آفٹر شاک آتا اور ہم کلمہ پڑھتے، وہ غصے سے اونچی آواز میں کہتا
Very bad. I have not come here to die.
اور ہم ہنس پڑتے۔
صرف تین دن بعد وہ وسیع و عریض میدان متاثرین کی آباد کاری سے پُر ہو چکا تھا۔ پکنک پر جاتے وقت گاڑیوں کے پیچھے جو ڈبہ نما گھر بندھے ہوئے ہیں اور جنہیں ’’کاروان‘‘ کہا جاتا ہے، میدان میں ترتیب سے رکھ دیئے گئے تھے۔ ہر کاروان میں ایک خاندان کو آباد کیا گیا تھا۔ ساتھ باتھ روم بنائے گئے۔ ایک چھوٹا سا بازار بھی وجود میں آ گیا۔ جب تک ان متاثرین کے مکان دوبارہ نہ بن گئے، یہ یہیں رہے اور اپنی ملازمتیں اور کاروبار معمول کے مطابق کرتے رہے۔ تمام متاثرہ شہروں اور قصبوں میں ایسا ہی ہوا۔
سب سے زیادہ زلزلے غالباً جاپان میں آتے ہیں۔ جاپانی گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، کارخانوں کی تعمیر زلزلوں کے خطرات کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ عمارت کی بنیاد اس طرح رکھی جاتی ہے کہ عمارت میں لچک ہو اور زلزلے کا جھٹکا آنے پر وہ جھول سکے۔ ہر جاپانی سکول میں زلزلے کا سامنا کرنے کے لئے ہر ماہ مشقیں کی جاتی ہیں۔ الا رم بجتے ہیں، بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ میز کے نیچے بیٹھتے وقت سر پہلے اندر لے جانا ہے اور ٹانگیں بعد میں۔ میدان سے پناہ گاہ کو جاتے وقت بچے قطاروں میں جاتے ہیں۔ زلزلے کے بعد بچے سکول کے احاطے ہی میں رہتے ہیں تاوقتیکہ کوئی بڑا آ کر انہیں ان کے گھروں میں لے جائے۔ اگر ان کے ماں باپ نہ مل رہے ہوں تو ایک ایک بچے کو کسی قریبی رشتہ دار کی تحویل میں دیا جاتا ہے۔ جاپان میں 1995ء میں جو زلزلہ آیا، اس میں ساڑھے چھ ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ اس زلزلے کے بعد جاپانیوں نے ایک تفصیلی پروگرام بنایا۔ پوری قوم نے مشق کی۔ پھر جب 2011ء میں ایک اور قیامت خیز
زلزلہ آیا جس کی بغل میں تباہی مچانے والا سونامی بھی تھا تو جاپانی قوم نے ڈسپلن کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ 72 گھنٹوں کے اندر اندر جاپانی حکومت نے ہزاروں تربیت یافتہ افراد، ملبہ ہٹانے اور لوگوں کو بچانے کے لیے مامور کئے۔ تمام سرکاری ادارے اور محکمے ایک دوسرے سے مربوط ہو گئے۔ فنڈ جاری کر دیئے گئے۔ عوام کا حکومت پر بے پناہ اعتماد تھا۔ حکومت بھی اس اعتماد پر پوری اتری۔ دنیا نے دیکھا کہ بھوکے پیاسے متاثرین قطاروں میں کھڑے اپنا نہیں، دوسروں کا خیال رکھ رہے تھے۔ کسی نے کھانا یا امدادی سامان حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی کا مظاہرہ کیا، نہ قطار توڑی!
اس قسم کی تربیت مشق اور ایثار کا ہمارے ہاں بدقسمتی سے کوئی تصور نہیں! 2005ء کے زلزلے میں ایسی خبریں عام سنی اور پڑھی گئیں کہ ٹرکوں کے ٹرک امدادی سامان سے بھرے ہوئے فلاں نے اپنے گائوں بھیج دیئے اور فلاں نے غائب کر دیئے۔ اس میں شک نہیں کہ کراچی سے گلگت تک پوری قوم رضاکارانہ طور پر حرکت میں آ گئی مگر تربیت کی کمی، ناخواندگی، لالچ، کرپشن اور سب سے بڑھ کر بد انتظامی نے قوم کے جذبے کو کسی منزل پر نہ پہنچنے دیا۔ یہ کالم نگار اس صورت حال کا عینی شاہد ہے۔ زلزلہ زدگان کو مدد بہم پہنچانے کے لیے ’’ایرا‘‘ کا ادارہ بنایا گیا۔ اس ادارے نے اپنے ملازمین کو بھاری الائونس دیئے۔ گاڑیاں خریدنے پر بھرپور توجہ دی گئی۔ من پسند افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بھاری تنخواہوں پر رکھا گیا۔ مگر کرنے کا کام کم ہی ہوا۔ ہمارے گھر میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والا ایک پرانا خدمت گار رہتا تھا۔ اس کا مکان زلزلے سے گر گیا۔ امداد کی پہلی قسط اسے 75 ہزار روپے کی ملی۔ دوسری قسط کے لیے بہت دوڑ دھوپ کی۔ میں اسے لے کر کئی بار ایرا کے دفتر گیا۔ ایک دو بڑے افسروں سے اچھی خاصی جان پہچان تھی، مگر برس گزرتے رہے، اسے دوسری قسط نہ ملی! دروغ بر گردنِ راوی، اس کا کہنا یہ تھا اور وہ وثوق سے اور اصرار سے کہتا تھا کہ کام مٹھی گرم کرنے سے ہوتا ہے!
کل جب زلزلہ آیا تو ٹیلی ویژن پر برادرم رئوف کلاسرا رونا رو رہے تھے کہ زیادہ اموات مکانات گرنے سے ہوتی ہیں! یہی حقیقت ہے۔ ہماری قومی بدقسمتی یہ ہے کہ مکان بناتے وقت عقل اور اعتدال سے ہر شخص پرہیز کرتا ہے۔ ایک تو مکان کا نقشہ بناتے وقت یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ پوتے اور نواسے بھی اسی میں رہیں گے۔ بے شمار کمرے جن کے سائز احمقانہ طور پر بڑے ہوتے ہیں اور جو سردیوں میں گرم ہو سکتے ہیں نہ گرمیوں میں ٹھنڈے۔ دنیا کے عقل مند ملکوں میں گھر بناتے وقت 14x12 کا کمرہ ایک معقول مناسب کمرہ سمجھا جاتا ہے، مگر یہاں نامناسب حد تک بڑے بیڈ روم کو امارت اور شان و شوکت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک، ہر جگہ اینٹوں، سیمنٹ اور لوہے کے بجائے لکڑی اور کم وزن والے میٹیریل پر زور دیا جاتا ہے۔ چار سے چھ ماہ تک کے عرصہ میں ایک گھر تیار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ عرصہ ڈیڑھ سال سے کم نہیں! اس ڈیڑھ سال کے دوران مکان بنانے والے بدبخت کو شوگر، ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ بھی نصف درجن عارضے لاحق ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا ہوتا ہے کہ ملک میں ہر شخص بددیانت، جھوٹا اور وعدہ خلاف ہے! پھر وہ قرضے کی قسطیں ادا کرنے لگ پڑتا ہے۔ بچے کہیں اور، دوسرے شہر، یا دوسرے ملک میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ اتنے بڑے گھر کے درو دیوار کو وہ دیکھتا ہے، کبھی روتا ہے اور کبھی ہنستا ہے۔ زلزلہ آئے تو ہزاروں من سریا، کنکریٹ اور اینٹیں تباہی کا پیغام بن کر سر پر گرتی ہیں!
ہر سال سیلاب آتا ہے۔ ابھی تک ہم اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ہر سال جو کچھ ہوتا ہے، دنیا اس پر ہنستی ہے! کیا ہر دس سال بعد آنے والے زلزلے کا سامنا کرنے کے لیے ہم اپنے آپ کو منظم کر سکیں گے؟ ہمارا اب تک کا ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے کہ جھٹکا آنے پر ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور پھر جلد ہی سو جاتے ہیں! شاعر نے جیسے ہمارے ہی لیے کہا تھا ؎
ذرا سو لیں، ثمود و عاد بھی سوئے تھے آخر
زمیں جاگی تو اس کی ایک انگڑائی بہت ہے
اگست کی ایک دوپہر تھی جب لوگوں نے ایک عجیب و غریب، کالے رنگ کے بادل کو افق سے اٹھتے اور آسمان کو ڈھانپتے دیکھا۔ شہر کے پڑوس میں جو پہاڑ تھا، اس کی چوٹی پھٹ گئی تھی۔ ٹنوں کے حساب سے گرم، ابلتا لاوا اچھل اچھل کر، کوسوں دور تک لوہے کے گرم ٹکڑوں کی طرح، ہر طرف گر رہا تھا۔ گندھک بھری گیس ہوا میں پھیل رہی تھی۔ لوگوں کے دم گھٹ رہے تھے۔ ایک عینی شاہد نے اس زمانے میں کسی کو خط لکھا جو بعد میں ملا۔ کوئی ماں باپ کو پکار رہا تھا، کوئی بچوں کو اور کوئی بیوی کو! پھر مکان گرنے لگے اور گلیاں ملبے سے اٹ گئیں۔ ایک ہزار سات سو سال شہر مٹی کے نیچے دفن رہا، یہاں تک کہ 1748ء میں اس کی کھدائی شروع ہوئی۔ گزشتہ پونے تین سو برس سے یہ عبرت سرائے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ پچیس لاکھ افراد ہر سال یہاں آتے ہیں۔
آج کا مشہور اطالوی شہر نیپلز اسی جگہ آباد ہے۔ نومبر 1980ء میں یہاں ایک اور بڑا زلزلہ آیا۔ اس وقت یہ کالم نگار نیپلز ہی میں تھا۔ ہم شام کا کھانا کھا رہے تھے جب نویں منزل پر واقع ہمارے اپارٹمنٹ کے فرش پر جیسے گڑھا سا بن گیا۔ سیڑھیاں اترتے، کلمہ پڑھتے، نیچے، ایک بڑے میدان میں پہنچے تو وہ لوگوں سے بھر چکا تھا۔ وہ رات ہم نے وہیں گزاری، ہم میں اور مقامی لوگوں میں ایک فرق تو یہ تھا کہ جھٹکا آنے پر زمین کے اوپر اٹھنے اور پھر نیچے آنے پر ہم کلمہ پڑھتے اور وہ آپس میں باتیں کرتے۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ چند گھنٹوں کے بعد ہم ایشیائی، عرب اور افریقی، زمین پر بیٹھ گئے جب کہ وہ ساری رات کھڑے رہے اور آگ جلا جلا کر میدان کو گرم کرتے رہے۔ ہمارا ایک سوڈانی دوست، جو اپنی تھائی گرل فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھنے گیا ہوا تھا۔ آدھی رات کو پیدل واپس پہنچا کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم منہدم ہو چکا تھا۔ جب بھی زور کا آفٹر شاک آتا اور ہم کلمہ پڑھتے، وہ غصے سے اونچی آواز میں کہتا
Very bad. I have not come here to die.
اور ہم ہنس پڑتے۔
صرف تین دن بعد وہ وسیع و عریض میدان متاثرین کی آباد کاری سے پُر ہو چکا تھا۔ پکنک پر جاتے وقت گاڑیوں کے پیچھے جو ڈبہ نما گھر بندھے ہوئے ہیں اور جنہیں ’’کاروان‘‘ کہا جاتا ہے، میدان میں ترتیب سے رکھ دیئے گئے تھے۔ ہر کاروان میں ایک خاندان کو آباد کیا گیا تھا۔ ساتھ باتھ روم بنائے گئے۔ ایک چھوٹا سا بازار بھی وجود میں آ گیا۔ جب تک ان متاثرین کے مکان دوبارہ نہ بن گئے، یہ یہیں رہے اور اپنی ملازمتیں اور کاروبار معمول کے مطابق کرتے رہے۔ تمام متاثرہ شہروں اور قصبوں میں ایسا ہی ہوا۔
سب سے زیادہ زلزلے غالباً جاپان میں آتے ہیں۔ جاپانی گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، کارخانوں کی تعمیر زلزلوں کے خطرات کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ عمارت کی بنیاد اس طرح رکھی جاتی ہے کہ عمارت میں لچک ہو اور زلزلے کا جھٹکا آنے پر وہ جھول سکے۔ ہر جاپانی سکول میں زلزلے کا سامنا کرنے کے لئے ہر ماہ مشقیں کی جاتی ہیں۔ الا رم بجتے ہیں، بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ میز کے نیچے بیٹھتے وقت سر پہلے اندر لے جانا ہے اور ٹانگیں بعد میں۔ میدان سے پناہ گاہ کو جاتے وقت بچے قطاروں میں جاتے ہیں۔ زلزلے کے بعد بچے سکول کے احاطے ہی میں رہتے ہیں تاوقتیکہ کوئی بڑا آ کر انہیں ان کے گھروں میں لے جائے۔ اگر ان کے ماں باپ نہ مل رہے ہوں تو ایک ایک بچے کو کسی قریبی رشتہ دار کی تحویل میں دیا جاتا ہے۔ جاپان میں 1995ء میں جو زلزلہ آیا، اس میں ساڑھے چھ ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ اس زلزلے کے بعد جاپانیوں نے ایک تفصیلی پروگرام بنایا۔ پوری قوم نے مشق کی۔ پھر جب 2011ء میں ایک اور قیامت خیز
زلزلہ آیا جس کی بغل میں تباہی مچانے والا سونامی بھی تھا تو جاپانی قوم نے ڈسپلن کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ 72 گھنٹوں کے اندر اندر جاپانی حکومت نے ہزاروں تربیت یافتہ افراد، ملبہ ہٹانے اور لوگوں کو بچانے کے لیے مامور کئے۔ تمام سرکاری ادارے اور محکمے ایک دوسرے سے مربوط ہو گئے۔ فنڈ جاری کر دیئے گئے۔ عوام کا حکومت پر بے پناہ اعتماد تھا۔ حکومت بھی اس اعتماد پر پوری اتری۔ دنیا نے دیکھا کہ بھوکے پیاسے متاثرین قطاروں میں کھڑے اپنا نہیں، دوسروں کا خیال رکھ رہے تھے۔ کسی نے کھانا یا امدادی سامان حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی کا مظاہرہ کیا، نہ قطار توڑی!
اس قسم کی تربیت مشق اور ایثار کا ہمارے ہاں بدقسمتی سے کوئی تصور نہیں! 2005ء کے زلزلے میں ایسی خبریں عام سنی اور پڑھی گئیں کہ ٹرکوں کے ٹرک امدادی سامان سے بھرے ہوئے فلاں نے اپنے گائوں بھیج دیئے اور فلاں نے غائب کر دیئے۔ اس میں شک نہیں کہ کراچی سے گلگت تک پوری قوم رضاکارانہ طور پر حرکت میں آ گئی مگر تربیت کی کمی، ناخواندگی، لالچ، کرپشن اور سب سے بڑھ کر بد انتظامی نے قوم کے جذبے کو کسی منزل پر نہ پہنچنے دیا۔ یہ کالم نگار اس صورت حال کا عینی شاہد ہے۔ زلزلہ زدگان کو مدد بہم پہنچانے کے لیے ’’ایرا‘‘ کا ادارہ بنایا گیا۔ اس ادارے نے اپنے ملازمین کو بھاری الائونس دیئے۔ گاڑیاں خریدنے پر بھرپور توجہ دی گئی۔ من پسند افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بھاری تنخواہوں پر رکھا گیا۔ مگر کرنے کا کام کم ہی ہوا۔ ہمارے گھر میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والا ایک پرانا خدمت گار رہتا تھا۔ اس کا مکان زلزلے سے گر گیا۔ امداد کی پہلی قسط اسے 75 ہزار روپے کی ملی۔ دوسری قسط کے لیے بہت دوڑ دھوپ کی۔ میں اسے لے کر کئی بار ایرا کے دفتر گیا۔ ایک دو بڑے افسروں سے اچھی خاصی جان پہچان تھی، مگر برس گزرتے رہے، اسے دوسری قسط نہ ملی! دروغ بر گردنِ راوی، اس کا کہنا یہ تھا اور وہ وثوق سے اور اصرار سے کہتا تھا کہ کام مٹھی گرم کرنے سے ہوتا ہے!
کل جب زلزلہ آیا تو ٹیلی ویژن پر برادرم رئوف کلاسرا رونا رو رہے تھے کہ زیادہ اموات مکانات گرنے سے ہوتی ہیں! یہی حقیقت ہے۔ ہماری قومی بدقسمتی یہ ہے کہ مکان بناتے وقت عقل اور اعتدال سے ہر شخص پرہیز کرتا ہے۔ ایک تو مکان کا نقشہ بناتے وقت یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ پوتے اور نواسے بھی اسی میں رہیں گے۔ بے شمار کمرے جن کے سائز احمقانہ طور پر بڑے ہوتے ہیں اور جو سردیوں میں گرم ہو سکتے ہیں نہ گرمیوں میں ٹھنڈے۔ دنیا کے عقل مند ملکوں میں گھر بناتے وقت 14x12 کا کمرہ ایک معقول مناسب کمرہ سمجھا جاتا ہے، مگر یہاں نامناسب حد تک بڑے بیڈ روم کو امارت اور شان و شوکت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک، ہر جگہ اینٹوں، سیمنٹ اور لوہے کے بجائے لکڑی اور کم وزن والے میٹیریل پر زور دیا جاتا ہے۔ چار سے چھ ماہ تک کے عرصہ میں ایک گھر تیار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ عرصہ ڈیڑھ سال سے کم نہیں! اس ڈیڑھ سال کے دوران مکان بنانے والے بدبخت کو شوگر، ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ بھی نصف درجن عارضے لاحق ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا ہوتا ہے کہ ملک میں ہر شخص بددیانت، جھوٹا اور وعدہ خلاف ہے! پھر وہ قرضے کی قسطیں ادا کرنے لگ پڑتا ہے۔ بچے کہیں اور، دوسرے شہر، یا دوسرے ملک میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ اتنے بڑے گھر کے درو دیوار کو وہ دیکھتا ہے، کبھی روتا ہے اور کبھی ہنستا ہے۔ زلزلہ آئے تو ہزاروں من سریا، کنکریٹ اور اینٹیں تباہی کا پیغام بن کر سر پر گرتی ہیں!
ہر سال سیلاب آتا ہے۔ ابھی تک ہم اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ہر سال جو کچھ ہوتا ہے، دنیا اس پر ہنستی ہے! کیا ہر دس سال بعد آنے والے زلزلے کا سامنا کرنے کے لیے ہم اپنے آپ کو منظم کر سکیں گے؟ ہمارا اب تک کا ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے کہ جھٹکا آنے پر ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور پھر جلد ہی سو جاتے ہیں! شاعر نے جیسے ہمارے ہی لیے کہا تھا ؎
ذرا سو لیں، ثمود و عاد بھی سوئے تھے آخر
زمیں جاگی تو اس کی ایک انگڑائی بہت ہے
Monday, October 26, 2015
Friday, October 23, 2015
ڈھلوان کا سفر
’’زوال ہمیں زندگی کے تمام شعبوں ہی میں آیا ہے مگر جو حال ہم نے مذہبی رواداری کا کیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں! جس زمانے میں ہم بڑے ہو رہے تھے، مذہبی عدم برداشت کا وجود ہی نہ تھا۔ میں ایک کرسچین سکول میں پڑھتا تھا۔ وہاں بائبل پڑھائی جاتی تھی۔ میرے والدین نے اسے کبھی مسئلہ نہ بنایا۔ ہمارے گھر قرآن پاک پڑھانے جو قاری صاحب آتے تھے۔ وہ سنی تھے۔ انہوں نے ہمیں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا سکھائی۔ ابا جان کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ ہم ہمیشہ سے سنیوں کی محبت میں مبتلا رہے۔ ابا جان نے سنی خاتون سے شادی کی۔ پھر میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ میرے خیال میں تو ابا جان’’ شُنی ‘‘تھے (یعنی شیعہ اور سنی کا مجموعہ!) ۔ ابا جان محرم کی مجلس میں کبھی نہیں گئے۔ امی جان ضرور جاتی تھیں۔ اب میری بیگم اور بیٹیاں جاتی ہیں۔ اگرچہ میں کبھی نہیں گیا۔ محرم کے دنوں میں ہمارے محلے میں سبیلوں کا اہتمام سنی حضرات کیا کرتے۔ کرسچین سکول میں ہمارے عربی کے استاد مولوی عبدالعزیز تھے۔ کٹر سنی! بہت پارسا تھے۔ حد درجہ محتاط! ان کے عقیدت مندوں کی تعداد کثیر تھی۔ تعویذ دیتے تھے مگر معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ مجھ پر بہت مہربان تھے۔ ان کے تعویذوں کی نقول میں تیار کیا کرتا۔ فٹ بال کے پیریڈ میں جب سب کھیل رہے ہوتے، میں تعویذ لکھا کرتا۔ پھرایک دن انہوں نے بتایا کہ چونکہ میں سید ہوں اس لئے وہ مجھے بابرکت سمجھتے تھے۔ میرا شیعہ ہونا ان کے لئے کوئی مسئلہ نہ تھا! پھر وہ دن بھی آئے کہ یہ مسئلہ بن گیا! ہمارا وطن اس نعرے سے لبالب بھر گیا جو ’’ک‘‘ سے شروع ہوتا تھا! جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں میں اسلام آباد میںرہتا تھا۔ گھر کے سامنے مسجد تھی۔ ہم شیعہ تھے نہ سنی۔ بلکہ شُنی تھے اور معیار صرف یہ تھا کہ نزدیک ترین مسجد میںجانا ہے خواہ سنیوں کی ہو یا شیعہ حضرات کی! مولوی صاحب سے اچھی خاصی گپ شپ تھی۔ حالات نے پلٹا کھایا اور وہ ایک کٹر تنظیم کے سرگرم رکن ثابت ہوئے۔ اب وہ لائوڈ سپیکر پر کھلم کھلا ’’ک‘‘ والا لفظ استعمال کرتے تھے۔ مگر میں نماز انہی کے ہاں پڑھتا رہا! ہر عید پر شیرخرما بھی ہم انہیں باقاعدگی سے بھیجتے رہے!
میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا ہم وقت کے پہیے کو الٹا گھما کر جنرل ضیاء الحق سے پہلے والے زمانے کو واپس لا سکتے ہیں؟ وہ زمانہ مذہبی رواداری کا اور ایک دوسرے کو محبت سے برداشت کرنے کا تھا!‘‘
یہ تحریر ہیوسٹن (امریکہ) سے ایک دردمند پاکستانی خالد رضوی صاحب نے بھیجی ہے! ہم میں سے اکثر کا بچپن اور لڑکپن اسی ماحول میں گزرا۔ ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر سید فدا حسین شاہ شیعہ تھے۔(ان کے صاحبزادے سید ریاض نقوی فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین رہے) اس کالم نگار کے والد گرامی اسی سکول میں عربی اور فارسی کے استاد تھے اور شہر کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ فی سبیل اللہ دیتے تھے۔ آدھا شہر نمازجمعہ ان کی اقتدا میں پڑھتا تھا۔ سید فدا حسین شاہ صاحب کے ہاں ہم لوگوں کا،اور ان کے کنبے کا ہمارے ہاں آنا جانا یوں تھا۔ جیسے ایک ہی گھر ہو۔ شاہ صاحب کے سارے قریبی دوست سنی تھے۔ کبھی کسی نے شیعہ سنی کا مسئلہ نہ اٹھایا۔ شہر کے سارے سنی علماء سے ان کا یارانہ تھا!
ہمارے علاقے تحصیل فتح جنگ میں سردار زمان خان دُھلیال زمیندار تھے اور شیعہ عالم بھی! اس کالم نگار کے جدامجد سے، جو فقہ اور فارسی ادب کے مانے ہوئے استاد تھے، ان کی دوستی تھی! وہ گھوڑے پر سوار آتے، کئی دن قیام فرماتے، بحث مباحثے ہوتے، دعوتیں ہوتیں، پھر وہ سواری بھیجتے اور دادا جان کو بلاتے۔ یہ وہاں کئی دن ٹھہرتے، مسائل پر گفتگو ہوتی۔ کھانے کھائے جاتے، نمازیں اکٹھی پڑھتے۔ سردار زمان خان دُھلیال کے پوتے سردار تاج خان سول سروس میں انکم ٹیکس کے اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہوئے۔ ایک بار ان کے گھر ہم سب دوست جمع تھے۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوا۔ دوستوں نے پکڑ کر مجھے آگے کھڑا کردیا۔ سلام پھیر کر رخ پیچھے کی طرف کیا تو دیکھا کہ سردار صاحب نے بھی نماز ہم سب کے ساتھ پڑھی تھی! ایک زمانے تک مسجدیں مشترک تھیں۔ سنی اساتذہ شیعہ بچوں کو ان کے طریقے کے مطابق نماز سکھاتے۔
ہم سکول سے کالج میں پہنچے ،بخدا ہمارے ذہنوں کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی یہ خیال کبھی نہ آیا کہ کون سنی ہے اور کون شیعہ۔ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں کھاتے پیتے۔ ہماری مائیں ہم سب دوستوں کو اپنے بچوں کی طرح چاہتیں، پیار کرتیں اور کھانے کھلاتیں۔ ہم نے کبھی محرم کے احترام میں فرق دیکھا نہ کبھی کسی صحابی رسولؐ کے بارے میں کوئی قابل اعتراض بات سنی!
پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب میری بیٹی نے، جو پرائمری میں پڑھتی تھی، ایک دن معمول کی گپ شپ میں بتایا کہ اس کی جماعت میں فلاں لڑکی فلاں مسلک کی ہے۔ میں دوسرے دن ہیڈ مسٹریس صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تشویش کا اظہار کیا۔ میرا نکتہ یہ تھا کہ جب ہمیں اپنے سکول کالج کے زمانے میں یہ نہیں معلوم تھا کہ کون کیا ہے، تو اب ان بچیوں کے ذہن میں یہ ’’معلومات‘‘کیوں ڈالی جا رہی ہیں۔ ہیڈ مسٹریس نے بے بسی میں دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور کہا کہ یہ سب کچھ سکول میں نہیں بتایا جا رہا۔ گھروں سے سن کر آتی ہیں یا ماحول پر چھائے ہوئے غبار کا اثر ہے۔
یہ آغاز تھا! یہ فرقہ واریت کی ابتدا تھی۔ اس کے بعد سارا سفر ڈھلوان کا تھا۔ ابھی تک ہم نشیب کی طرف ہی جا رہے ہیں، نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں! بگٹٹ بھاگے جا رہے ہیں۔ عقیدے سینوں کے اندر سے باہر نکل آئے ہیں اور دیواروں پر، مسجدوں کی پیشانیوں پر، گھروں کی چھتوں پر اور گاڑیوں کے عقبی شیشوں پر منتقل ہوگئے ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو سینوں میں نہیں ہیں! افسوس! سینے ان خالی مکانوں کی طرح ہوگئے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ خانۂ خالی را دیو می گیرد! خالی دماغ میں کوئی بھی بلا گھس سکتی ہے! ہم بلائوں کے نرغے میں ہیں! بلائوں کو دعوت بھی خود دیتے ہیں اور پھر واویلا بھی برپا کرتے ہیں!
آج ہم جس پاتال میں رہ رہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران چالیس سے زیادہ علماء کو حراست میں لینا پڑا۔ 1160، علماء کرام کو یہ تنبیہہ کرنا پڑی کہ وہ فلاں فلاں شہر میں تشریف نہ لے جائیں۔ ان میں شیعہ، دیوبندی، اہلحدیث، بریلوی سب شامل ہیں۔ 640 آگ اگلنے والے مقررین پر الگ پابندی لگانا پڑی اور جھگڑے کیا ہیں؟ جلوس کے راستے، اوقات، لائوڈ سپیکر کا ناروا استعمال ، نفرت انگیز مواد کی تقسیم، دیواروں پر نعروں کا لکھا جانا! ہوائی فائرنگ، ہتھیاروں کی نمائش! صوبے کی پولیس نے تقریباً نوے حضرات کے خلاف قانون شکنی کے مقدمے درج کیے ہیں۔ لاہور، فیصل آباد، سرگودھا، ساہیوال، ملتان، گوجرانوالہ، جھنگ، رحیم یار خان، چنیوٹ اور راولپنڈی کو حساس شہروں میں شمار کیا گیا ہے! فوج سے 75 کمپنیاں اور رینجر سے 12 دستے منگوانا پڑے ہیں۔ چالیس ہزار مرد اور خواتین رضاکار امن و امان قائم کرنے کے لئے متعین کیے گئے ہیں! 39 ڈرون کیمرے لگائے گئے ہیں۔ پولیس کے جوانوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ہو کرتقریروں کی ویڈیو ریکارڈنگ کریں!
یہ ایک صوبے کا حال ہے۔ پورا ملک حالت جنگ میں ہے! بھارت نے حملہ کیا ہے نہ افغانستان سے دراندازی ہوئی ہے! ہم خود ہی ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہیں۔ ہم خود ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں! یہ فوجی کمپنیاں یہ رینجر کے دستے جو دشمن کے لئے بنے تھے، ہماری اپنی ضرورت بن گئے ہیں! پولیس جو چوروں، ڈاکوئوں کے لئے تیار کی گئی تھی، پڑھے لکھے’’رہنمائوں‘‘ کو کنٹرول کرنے میں صرف ہو رہی ہے! یہ جو ہم یہودوہنود کی دہائی دن رات دیتے ہیں تو یہودوہنود کو کیا پڑی ہے کہ اپنا وقت ضائع کریں! جو کام انہوں نے کرنا تھا، وہ ہم خود کر رہے ہیں اور شاید ان سے کہیں بہتر کر رہے ہیں!
آخر میں شاعر خوش نوا علی زریون کی ایک مختصر مگر درد مند تحریر…’’جی ہاں! درست کہا آپ نے! میری محبت اور میں ناقص ہوں! مگر میں علیؓ کی محبت میں عمرؓ کو برا کسی صورت بھی نہیں کہہ سکتا! میں عمر کی محبت میں علی سے انکار نہیں کرسکتا۔ یہ مجھ سے کسی بھی صورت کسی بھی جنم میں نہیں ہوگا! یہ میری روح ہی کے خلاف ہے۔ ایسی کوئی محبت محبت نہیں! یہ سیدھا سیدھا میرے محمدؐ کے خلاف ہے۔ جی ہاں! میرے محمدؐ جو میرے بہت اپنے ہیں! بہت زیادہ اپنے! جو مجھے بہت پیارے ہیں۔ مجھ سے یہ نہیں ہوگا! لکھوا لیجیے مجھ سے! گولی مار دیجیے مجھے، مگر مجھ سے یہ تفریق نہیں ہوتی۔ یہ نام میرے لئے محض چند ہستیوں کے اسماء نہیں ہیں۔ یہ تمام راستے ہیں۔ یہ تمام نسبتیں ہیں۔ روشن نسبتیں! آپ کا عقیدہ کچھ بھی ہو مجھے کوئی اعتراض نہیں! مجھے فرقوں میں نہیں الجھنا، مجھے جینے دیجئے۔ میرا علی ؓمیرا عمر ؓمیرا عثمان ؓمیرا صدیق ؓمجھ سے مت چھینیے۔ اب بس ہو جانی چاہیے۔ یقین کیجیے۔ اب بہت ہوگیا ہے۔ بہت سر کٹ چکے۔ بہت خون بہہ چکا۔ بہت کچھ برباد ہو چکا۔ یہ محبتیں بچا لیجیے۔ ہمارے پاس بچانے کو اور ہے بھی کیا۔ ؎
یہ بارگاہ عشق ہے بے خوف ہو کے آ
مسلک کی نفرتوں سے یہ دالان پاک ہے‘‘
Wednesday, October 21, 2015
ہنری کسنجر کیا ہے؟ طفلِ مکتب!!
رشتے کے لیے پیغام بھیجا تو لڑکی والوں کا پہلا سوال تھا: لڑکا برسرِروزگار ہے یا نہیں؟
لیکن یہ پہلا سوال تھا، آخری نہیں تھا! جب بتایا گیا کہ لڑکا ماشاء اللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور معقول ملازمت کر رہا ہے تو انہوں نے والد کا پیشہ پوچھا، پھر دادا کا، پھر خاندان کی مجموعی لحاظ سے مالی حیثیت کا پتا کیا، شہر کے کس حصے میں رہتے ہیں؟ گھر کیسا ہے؟ رشتہ دار کون کون ہیں؟ پھر اللہ کے بندوں نے یہ تفتیش بھی کرائی کہ لڑکے کے خاندان کی عمومی شہرت کیا ہے؟ جہاں رہ رہے ہیں، وہاں کے لوگوں کا ان کے بارے میں کیا تاثر ہے؟ کیا انہیں شریف، نجیب اور بھلے مانس سمجھا جاتا ہے؟ یا اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ فراڈ قسم کا خاندان ہے، چھچھورے ہیں، نمود و نمائش میں لگے رہتے ہیں، شیخی باز ہیں، ناقابل اعتماد ہیں، قرض مانگ کر غائب ہو جاتے ہیں، ان کے بوڑھے دوسروں سے الجھتے رہتے ہیں!
کون بے وقوف ہو گا جو اپنی بیٹی کا رشتہ، یہ سب کچھ معلوم کیے اور کرائے بغیر دے دے؟ دُنیا بہت سیانی ہو چکی ہے۔ لوگ دیوار کے پار بھی دیکھنا سیکھ گئے ہیں۔ ذرائع مواصلات، الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ نے علم اور عقل دونوں میں اضافہ کر دیا ہے! اب اڑتی چڑیا کے پر ہی نہیں، اس کی نسل بھی جانچ لی جاتی ہے!
یہی حال کسی حکومت(یا ریاست) کے سربراہ کے بیرونی دورے کا ہے! آپ کے ملک کا سربراہ اگر کسی بڑے، ہوشیار اور ترقی یافتہ ملک کے دورے پر جا رہا ہے تو بس یوں سمجھیے کہ میزبان ملک وہ سارے پہلو جانچے گا جو لڑکی والے رشتہ قبول کرنے سے پہلے دیکھتے ہیں۔ اور پھر امریکہ! ہم امریکہ کو جتنی گالیاں دے لیں جتنا چاہیں برا بھلا کہہ لیں، جلوس نکال لیں، تقریروں میں اس کے پرخچے اڑا دیں، اس کے صدر کے پتلے جلا دیں، حقیقت یہی ہے کہ وہ بڑا ملک ہے۔ حد درجہ چست و چالاک، الرٹ! چوکنا! معیشت، سیاست مالیات، بین الاقوامی تعلقات، دفاع ہر پہلو سے پوری دنیا پر برتری رکھنے والا!
امریکہ، جیسے ملک میں کسی حکومت کا سربراہ سرکاری دورے پر جائے تو اس دورے کی کامیابی کا انحصار کم از کم چار عوامل پر ہے! اول دورہ کرنے والی شخصیت کے ملک کی اقتصادی حالت کیسی ہے؟ کیا یہ ملک اپنی معیشت الل ٹپ طریقے سے چلا رہا ہے یا کسی مضبوط اور ٹھوس سسٹم کے تحت! کیا یہ عالمی اداروں کا دست نگر ہے یا خود کفیل ہے؟ اس کی برآمدات اور درآمدات کا تناسب کیسا ہے؟ بین الاقوامی منڈی میں اس کا مقام کیا ہے، ساکھ کیا ہے اور شہرت کیسی ہے؟ ترقی کی شرح کیا ہے؟ قرضوں کا اور قومی آمدنی کا تناسب کیا ہے؟دوم، ملک کا سیاسی استحکام کس درجے کا ہے؟ کیا آئے دن جرنیل تختے الٹتے ہیں یا جمہوری تسلسل موجود ہے؟ کیا سول حکومت پالیسیاں بناتے وقت آزاد ہے یا کہیں اور دیکھتی ہے؟ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت موجود ہے یا خاندانی قبضے ہیں؟ کیا جمہوریت کی جڑیں عوام تک جارہی ہیں یا چند خاندان پشتینی نشستیں سنبھالے ہاریوں اور مزارعوں سے پرچیوں پر ٹھپے لگواتے ہیں؟ کیا جمہوری نظام تازہ خون کی پذیرائی کر رہا ہے یا پرانی سوکھی مڈیاں(لکڑی کے بے جان ٹکڑے) ہی اوپر آتے ہیں۔ سوم، نظام حکومت کیسا ہے؟ کیا میرٹ کا بول بالا ہے؟ یا ادارے شخصی بنیادوں پر چل رہے ہیں؟ کیا بیورو کریسی خصوصاً پولیس آزاد ہے یا سیاسی مداخلت کا شکار؟ بیرون ملک تعیناتیاں کیسے ہوتی ہیں؟۔ چہارم، دورہ کرنے والی شخصیت کی تعلیم کتنی ہے؟ آئی کیو کتنا ہے؟ کتنا ذہین ہے؟ کتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہے؟ اجلاس کے دوران بحث ہو تو کتنی گہرائی تک جا سکتا ہے؟ کیا فائلوں کو غور سے پڑھ کر ان پر تفصیلی رائے دیتا ہے؟ کیا اپنے نوٹس(Notes) خود تیار کرتا ہے؟ بین الاقوامی سیاست کا کتنا علم اور کتنا شعور رکھتا ہے؟ اقتصادیات پر کتنا عبور ہے؟ زبان پر کتنی دسترس ہے؟ کیا اپنا مافی الضمیر مؤثر اور با عزت طریقے سے ادا کر سکتا ہے؟ یا اجلاسوں میں اس کی کارکردگی قابل رشک نہیں؟
یہ چار وہ بنیادی سوال ہیں جن کے جواب میزبان ملک تیار کرتا ہے۔ آج زمانہ وہ آ گیا ہے کہ ایک اوسط درجے کی کمپنی کے سربراہ سے ملنے جائیں تو وہ اپنے سٹاف کو حکم دے گا کہ ملاقات کے لیے آنے والے صاحب کے بارے میں جو معلومات میسر آ سکتی ہیں، پیش کی جائیں! آپ کے جانے سے پہلے ایک فائل اسے دی جا چکی ہو گی جس میں آپ کی تعلیم، کیریئر، خاندانی پس منظر اور عمومی شہرت کے بارے میں ضروری معلومات درج ہوں گی! آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکی صدر، امریکی حکام اور امریکی کانگریس کے ارکان سے ملنے والے کے متعلق مکمل معلومات جمع نہ کی جاتی ہوں گی؟ آپ کا کیا خیال ہے، امریکی صدر اور کانگریس کے ارکان پاکستانی حکومت کے سربراہ کو اتنی ہی اہمیت دیں گے جتنی وہ بھارت، جاپان یا جرمنی کے سربراہ کو دیتے ہیں؟
امریکیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان ایک ’’کیلا ریاست‘‘ (Banana Republic) ہے۔ یہاں کوئی نظام ہے نہ ضابطہ، پارلیمنٹ بے جان پتلوں کا عجائب گھر ہے۔ حکومت کا سربراہ سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ جو چاہے کرے۔ چاہے تو اپنی جماعت کے لیڈر کے تین بھائیوں کو نیویارک، لندن اور پیرس تعینات کر دے۔ چاہے تو اپنے بھائی کے پسندیدہ افسر کو بین الاقوامی تجارت کے ادارے میں بیک جنبشِ قلم سفیر مقرر کر دے۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ پاکستان اتنا گائودی اور احمق ملک ہے کہ خسارے میں چلنے والی حکومتی ایئر لائن میں قانونی مشیر چوبیس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کر سکتا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ یہ ملک اتنا نالائق اور منصوبہ بندی میں اتنا بے جان ہے کہ پچاس سال میں دارالحکومت کے مرکزی ہسپتال کی توسیع نہیں ہو سکی اور عملی طور پر اس کا کثیر حصہ کھوکھوں، کوٹھریوں اور چھپروں پر مشتمل ہے۔ عشرے گزر گئے، یہ طے نہیں ہو رہا کہ ارجنٹائن پارک اس ہسپتال کو ملے گا یا نہیں؟ وزارتیں، محکمے، سٹیئرنگ کمیٹیاں سالہا سال سے سر جوڑے بیٹھی ہیں اور کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ تین سال میں شاہراہوں کا ٹول ٹیکس 290 روپے سے بڑھا کر 510 روپے کر دیا گیا اور کوئی چوں تک نہیں کرتا!
امریکیوں کو نہیں معلوم تو اور کسے معلوم ہے کہ ہماری حکومت کے معزز سربراہ خود فائلیں نہیں پڑھتے؟ ان کا کوئی پسندیدہ ااہلکار فائلیں سامنے رکھ کر ان سے "Discuss" کرتا ہے اور واپس اپنے کمرے میں جا کر احکام جاری کر دیتا ہے۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ آج تک صاحب نے تین صفحے کسی فائل پر نہیں لکھے۔ انہیں معلوم ہے کہ جوہری توانائی پر، بھارت کے ساتھ تعلقات پر، افغانستان پر، غرض کسی مسئلے پر آپ دس پندرہ منٹ تو کیا، پانچ منٹ کی مؤثر، قائل کرنے والی، متاثر کرنے والی گفتگو نہیں کر سکتے! امریکیوں کو معلوم ہے کہ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں اس ملک کو وزیر خارجہ نہیں مل رہا! امریکیوں کو یہ بھی پتا ہے کہ بھارتی افواج کے سربراہ، وزیر دفاع سے وقت لے کر حاضر ہوتے ہیں اور سیکرٹری دفاع اصل میں بھی سیکرٹری دفاع ہوتا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے مقابل پاکستان میں کیا ہوتا ہے؟ امریکیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کے بارڈر کھلے ہیں۔ لاکھوں افغان پاکستانی پاسپورٹوں پر ساری دنیا میں نقل و حرکت کر رہے ہیں۔ کراچی غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں سے اٹا پڑا ہے۔ امریکی جانتے ہیں کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لئے پاکستان کھربوں ڈالر لے لے تب بھی وہ نرسریاں پاکستانی حکومت کے کنٹرول سے سراسر باہر ہیں جن میں رات دن دہشت گردی کے نئے پودے پھل پھول رہے ہیں اور جہاں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں!
کیا ہمیں نہیں معلوم کہ امریکی صدر بننے والا شخص کتنی بھٹیوں سے گزرنے کے بعد کندن بن کر نکلتا ہے! اُسے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ وہ لا تعداد مباحثوں کے بعد امیدوار بنایا جاتا ہے۔ اسے قوم کے سامنے اپنے مخالف امیدوار سے مناظرہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ راتوں کو جاگ کر کتابیں پڑھتا ہے، فائلیں دیکھتا ہے۔ اُسے جو بریف دیئے جاتے ہیں انہیں وہ صرف ازبر نہیں کرتا، ان میں غلطیاں بھی نکالتا ہے اور ان کے بارے میں اپنے معاونین سے بحث بھی کرتا ہے۔ اس سے کوئی اہلکار من مانا فیصلہ نہیں کرا سکتا۔ اسے اُلّو بنانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا انسان کے لیے اُلّو تخلیق کرنا مشکل ہے۔ کانگریس کا ایک ایک رکن اپنی پشت پر تحقیقی ادارہ رکھتا ہے۔ ہر موضوع پر اسے تازہ ترین معلومات ہر وقت میسر ہیں اور ملاقات اور مذاکرات کرتے وقت وہ با خبر ترین فرد ہوتا ہے!
ہم سب نے وہ تصویر دیکھی ہے جس میں صدر ایوب خان امریکی صدر کے گال تھپتھپا رہے ہیں جیسے کسی بچے کے گال تھپتھپائے جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بین الاقوامی لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے تھے، اس لیے کہ وہ لوگ فائلوں کا مطالعہ کرتے تھے، یوں کہ نکات ان کی انگلیوں کی پوروں پر ہوتے تھے۔ زبان و بیان پر قدرت تھی۔ ان کے ما تحت فائل بھیجتے وقت چار مرتبہ پڑھتے اور دس بار سوچتے تھے۔ امریکی صدر ایک نکتہ نکالتا تھا تو وہ آگے سے چار جواب دیتے تھے۔ شافی جواب!
پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ وزیر اعظم کا دورہ کامیاب ہو گا۔ واپس تشریف لائیں گے تو مبارک بادوں کے انبار لگ جائیں گے۔ استقبال کرنے والے ثابت کر دکھائیں گے کہ ہنری کسنجر ان کے سامنے طفلِ مکتب ہے! چشمِ بد دور!
Monday, October 19, 2015
شرم کی باریک سی جھِلّی
یہ کیسے لوگ ہیں! ان کی حاملہ عورتیں بھوک سے نڈھال ہیں! ان کے بچوں کی پسلیاں دور سے گِنی جا سکتی ہیں! مگر ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گائے کا گوشت کوئی نہ کھائے! شرم کی باریک سی جھلی چہرے سے ایک بار اتر جائے تو دوبارہ نہیں چڑھتی۔ پھر بے شرمی کا کوئی کنارہ نہیں نظر آتا۔ ہریانہ کا وزیر اعلیٰ منوہر لال کہتا ہے کہ مسلمانوں کو بھارت میں رہنا ہے تو گائے کا گوشت نہ کھائیں۔ بھارت جیسے جاگیر ہے جو منوہر لال کو اس کے باپ نے وراثت میں دی ہے۔ منوہر لال کو چاہیے کہ جب تک بھارت اُن تمام ملکوں سے سفارتی تعلقات ختم نہیں کر دیتا جہاں جہاں گائے کا گوشت کھایا جاتا ہے، مرن برت رکھے اور اس دُکھوں بھری دنیا سے کوچ کر جائے! آہ! یہ دُکھوں بھری دنیا! جہاں جاپان سے لے کر چلی تک اور سائبیریا سے لے کر نیوزی لینڈ تک ہر جگہ ظالم لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہیں!
ایک امریکی یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق بھارت کے 39 فیصد بچے کم خوراکی کا شکار ہیں۔ لیکن بھارت کے بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں تحقیق کرنا، اعداد و شمار حاصل کرنا ممکن ہی نہیں! گویا یہ 39 فیصد کا ہندسہ حقیقت سے بہت کم ہے۔ بھارت کے کچھ علاقے تو پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔
POLYANDRY
(یعنی ایک عورت کا کئی شوہروں کے ساتھ زندگی گزارنا) یا تو افریقہ کے جنگلوں میں ملے گی یا بھارت کے قبائل میں! ہاں نیپال کے کچھ حصوں میں بھی! ایسے میں 39 فیصد کا ہندسہ عجیب لگتا ہے! بیس کروڑ کے صوبے اتر پردیش میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی بھاری اکثریت فاقہ کشی کا شکار ہے اور اس کی مثال افریقہ میں سوائے برنڈی کے کہیں نہیں ملتی۔ اس عمر میں کم خوراکی کا مطلب یہ ہے کہ ساری زندگی دماغ کمزور رہے۔ یہ بچے ذہین نہیں ہو سکتے۔ سائنسدانوں نے بچوں کے دماغوں کو سکین کر کے دیکھا ہے۔ کم خوراکی کا شکار رہنے والے بچے سکول کی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے اور درمیان میں چھوڑ جاتے ہیں۔ بیالیس فیصد بھارتی عورتوں کا حاملہ ہونے سے پہلے ہی وزن کم ہوتا ہے۔ حمل کے دوران وزن آدھے سے کم رہ جاتا ہے۔ امریکی نیشنل اکیڈیمی آف سائنس کی تحقیق کی رو سے اتنی خطرناک صورتِ حال افریقہ کے صحرائی علاقوں میں بھی نہیں ملتی۔ چنانچہ بچوں کی بھاری اکثریت مائوں کے پیٹ ہی میں نحیف ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بھارتیوں کی اکثریت گھروں میں بیت الخلاء نہیں رکھتی۔ باہر کھلے میں بول و براز کرنے سے کیڑے اور بکٹیریا چمٹ جاتے ہیں اور کئی قسم کے انفیکشن ہو جاتے ہیں۔ یوں انتڑیاں کم زور ہو جاتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ(یونی سیف) بتاتی ہے کہ ایک لاکھ سترہ ہزار بھارتی بچے ہر سال پیچش سے مرتے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں۔ بھارتی مسلمانوں میں بچوں کی شرحِ اموات، ہندوئوں سے کم ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ مسلمان امیر ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمان دیہات میں بھی، گھروں میں بیت الخلاء بناتے اور استعمال کرتے ہیں جب کہ ہندو بیت الخلاء کی موجودگی میں بھی اس کا استعمال کم کرتے ہیں۔
اس صورت حال میں بھی بھارتیوں کو گائے کی فکر زیادہ ہے۔ ہاں! لڑاکا جہاز اور ٹینک جمع کرنے کا شوق بھی بہت ہے۔ گھر میں بیت الخلا نہ ہو، نہ سہی، موبائل فون ضرور ہونا چاہئے! مذہبی تعصب کتنا اندھا کر دیتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مدھیا پردیش کی ریاست میں فلاحی تنظیموں نے بچوں کی خوراک کو بہتر کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ اس میں بچوں کو انڈے کھلانا بھی شامل تھا! مگر ریاست کی حکومت نے انتہا پسند ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے انڈے کھلانے کی تجویز مسترد کر دی کیونکہ کٹر ہندو، گوشت کے ساتھ انڈے سے بھی اجتناب کرتے ہیں!
اب جان ہاپکن یونیورسٹی کے ’’سکول آف پبلک ہیلتھ‘‘ کی رپورٹ ملاحظہ کیجیے۔ یہ لوگ شمالی بھارت کے ایک گائوں میں گئے۔ یہاں معاشی حالات تسلی بخش تھے۔ ایک گھر میں چھ بکریاں تھیں۔ بھینس کا تازہ دودھ بھی میسر تھا۔ ایک کمرہ غلے اور آلوئوں سے بھرا تھا۔ گائوں میں بجلی بھی تھی۔ خوراک تسلی بخش تھی مگر بچے پھر بھی نحیف و نزار تھے، جیسے انہیں دق کی بیماری ہو! اس لیے کہ گائوں کے کسی گھر میں بیت الخلا نہ تھا! اب بھارتی معیشت دان سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ اقتصادی اعداد و شمار بہتری دکھا رہے ہیں مگر بچوں کی شرحِ اموات وہی ہے! اب وہ ہندو مذہب کا کیا مقابلہ کریں۔ قدیم ہندو مذہبی کتابیں کہتی ہیں کہ بول و براز کے لیے گھروں سے باہر جائو! چینی آبادی کا ایک فیصد اس مقصد کے لیے گھروں سے باہر جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں تین فیصد اور بھارت میں پچاس فیصد! جی ہاں پوری آبادی کا نصف!!
بھارت اس وقت خوراک اور روزگار پر 26 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے اور سینیٹری پر صرف چالیس کروڑ! یہ نسبت ساٹھ اور ایک کی ہے! ہونا الٹ چاہیے۔ یعنی بیت الخلا اور نالیوں کی تعمیر پر 26 ارب اور خوراک اور روزگار پر چالیس کروڑ! لیکن اس کے لیے عقل درکار ہے۔ گوبر کو مقدس سمجھنا، گائے کو والدہ محترمہ کا درجہ دینا، جسم اور چہرے پر گارا تھوپنا! کوئی برتن کو چھو بھی دے تو اسے توڑ دینا! اپنے جیسے انسانوں کے سائے سے بھی بچ کر چلنا! کسی تبصرے کی ضرورت نہیں!ع
قیاس کن ز گلستانِ من بہارِ مرا
باغ کو دیکھ کر بہار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں!
سٹینفرڈ(STANFORD)
یونیورسٹی ان دنوں بنگلہ دیش، کینیا اور زمبابوے میں اس امر پر تحقیق کر رہی ہے کہ لاغر ہونے کا کتنا تعلق صفائی اور حفظان صحت کے انتظامات سے ہے؟ یہ تحقیق 2016ء میں مکمل ہو گی مگر یہ تعلق پچاس فیصد سے کم نہ ہو گا! ایک اندازہ ہے کہ نوے فیصد بھی ہو سکتا ہے! مغربی ملکوں میں حفاظتی ٹیکے اور اینٹی بیاٹک ادویات بعد میں ایجاد ہوئیں۔ اس سے پہلے 1800ء کے لگ بھگ صفائی، نالیوں اور بیت الخلاء کا نظام جدید خطوط پر تعمیر ہو چکا تھا۔ اس سے صحت پر مثبت اثرات پڑے۔ سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کی زندگی اور بڑوں کا قد و قامت، دونوں کا تعلق ماحول کی صفائی سے ہے۔ ایک اور تحقیقی رپورٹ نے مسلمان بچوں کی کم شرح اموات پر مزید روشنی ڈالی ہے۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کو عملی طور پر الگ آبادیوں میں محصور کر دیا ہے۔ع
عدو شرّی برانگیزد کہ خیرِ ما، در آن باشد
دشمن شر انگیزی کرتا ہے اور قدرت اس میں سے بھلائی نکال لاتی ہے۔
مسلمان غریب ہیں مگر اپنی ثقافت اور پردہ داری کے لحاظ سے، گھروں میں بیت الخلاء تعمیر کرتے ہیں اور پھر استعمال بھی کرتے ہیں۔ ساتھ والا گھر بھی مسلمان کا ہے۔ وہاں بھی یہی انتظام ہے۔ اس سے جراثیم اور بکٹیریا کی تعداد ان کی پوری آبادی میں کم ہو جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہندو آبادیوں میں، جہاں بول و براز کے علاوہ غسل بھی باہر کرنے کا رواج ہے، فضلہ اور غلاظت ماحول پر چھائے رہتے ہیں۔ چنانچہ مسلمان شیر خوار بچوں کے زندہ رہنے کا امکان، ہندو بچوں کی نسبت سترہ فیصد زیادہ ہے۔
بھارت کے کسی شہر میں فضلے اور غلاظت سے نمٹنے کے خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں، مگر ہندوئوں کے مقدس شہر بنارس کی حالت بدترین ہے۔ کروڑوں ہندو گنگا کے گھاٹ پر نہاتے ہیں۔ یوں 75 ملین لٹر گندگی ہر روز، دریا میں شامل ہوتی ہے۔ یہیں، اکثریت، باہر کھڑے ہو کر دانت بھی صاف کرتی ہے! شہر کا سیوریج پلانٹ صرف بیس فیصد فضلے سے نمٹ سکتا ہے، باقی گنگا میں جاتا ہے یا اردگرد کے ندی نالوں اور تالابوں میں۔ بنارس کی آبادی کا کثیر حصہ پانی بھی اس دریا کا پیتا ہے۔ آدھا بھارت گندا پانی پی رہا ہے!!
ذات کا تیلی ہونا کوئی برائی نہیں۔ ہم مسلمان ذات پات پر یقین نہیں رکھتے مگر ایک مخصوص ذہنیت کو بروئے کار لا کر، پورے بھارت کو گجرات بنانے کی کوشش یقینا بد ذاتی ہے۔ جب سے مودی صاحب تخت نشین ہوئے ہیں، منوہر لال جیسوں کو شہ مل رہی ہے۔ مسلمانوں کا جینا حرام کیا جا رہا ہے۔ ارے بھائی! ایڑیاں رگڑتی، دم توڑتی حاملہ عورتوں اور بھوک سے بلکتے بچوں کی فکر کرو، تمہیں گئو ماتا کی پڑی ہے! اور پھر باپ کو یعنی بیل کو مارتے ہو! کیا بدتمیزی ہے! ماں کی پرستش اور باپ کو مار پیٹ!
Saturday, October 17, 2015
محرم! اے محرم!
امیرالمومنین بازار گشت کو نکلے۔ راستے میں ابولولوء ملا۔ یہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کا نصرانی غلام تھا۔ ایرانی تھا۔ جنگ نہاوند میں قیدی بنا اور اس زمانے میں جو رسم و رواج تھا، اس کے مطابق حضرت مغیرہ کی غلامی میں آ گیا۔ امیرالمومنین سے کہنے لگا، مغیرہ مجھ سے بہت زیادہ خراج لیتے ہیں، میری مدد کیجئے۔ امیر المومنین نے پوچھا، تم کتنا خراج ادا کر رہے ہو۔ اس نے بتایا دو درہم روزانہ۔ ’’اورکام کیا کرتے ہو؟‘‘ ’’لوہار ہوں‘ بڑھئی بھی ہوں اور نقاشی بھی کرتا ہوں‘‘۔ ’’تمہارے پیشوں کو دیکھا جائے تو خراج کی رقم زیادہ نہیں لگتی۔ میں نے سنا ہے تم ہوا سے چلنے والی چکی بنا سکتے ہو‘‘۔ ابولولوء نے جواب میں کہا‘ ہاں بنا سکتا ہوں۔ فرمایا تو پھر مجھے ایک چکی بنادو۔ ابولولوء نے بہت پُراسرار جواب دیا:’’اگر میں زندہ رہا تو آپ کے لئے ایسی چکی بنائوں گا جس کا چرچا مشرق سے مغرب تک ہوگا‘‘۔ پھر وہ چلا گیا۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے کہاـ: ’’یہ غلام مجھے دھمکی دے کر گیا ہے‘‘۔
فجر کی نماز کھڑی ہو رہی تھی۔ جب ابولولوء سامنے سے آیا اور اس خنجر سے جس کے درمیان دستہ تھا اور دونوں طرف تیز دھار پھل، امیر المومنین پر مسلسل وار کیے۔ یکم محرم کو تاریخ کا اور بے مثال انتظامِ سلطنت کا اور حیرت انگیز فتوحات کا اور حسن اجتہاد کا یہ عظیم باب بند ہوگیا!
محرم آ گیا ہے۔ زخم کھل اٹھے ہیں۔ خون رسنے لگا ہے! عمر فاروقؓ کی شہادت کا زخم! سبط رسولؐ کی شہادت کا زخم! آپ کے اہل و عیال اور آپ کے ساتھیوں کی قربانی کے وہ پھول مہکنے لگے ہیں جن سے آج بھی خوشبو آ رہی ہے! خون میں ڈوبی ہوئی خوشبو! جس مقدس جسم کو سواری کے لئے نبوت کے پاک کندھے میسر آتے تھے، وہ صحرا کی ریت پر گر پڑا۔ جو رخسار، رسالت مآبؐ کے خوبصورت رخساروں کو مس کرتے تھے، وہ لہو میں ڈوب گئے۔ بنت نبیؐ کے جگر گوشے ظلم کی نذر ہوگئے۔ خانوادئہ نبوت کی جن مقدس خواتین کو چشم فلک بھی نہیں دیکھ پاتی تھی۔ بے پردہ ہوگئیں۔ ہماری زندگیاں ان کی حرمت پر قربان ہوں! سانحہ اور ایسا سانحہ جس کی نظیر تاریخ کے کانوں نے نہیں سنی تھی : ؎
بہت سے راستوں میں تو نے جو رستہ چنا تھا
فرشتے آج تک حیرت میں ہیں کیسا چنا تھا
بہت سے شہر رہنے کے لئے حاضر تھے لیکن
ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے صحرا چنا تھا
جہاں میں کون تھا دوشِ نبیؐ تھا جس کا مرکب
اسی خاطر برہنہ پائی نے تجھ سا چنا تھا
جو پیچھے آ رہے تھے ان سے تو غافل نہیں تھا
کہ تو نے راستے کا ایک اک کانٹا چنا تھا
محرم آ گیا ہے۔ زخم کھل اٹھے ہیں۔ درد کے پھول مہکنے لگے ہیں۔ خون میں نہائی خوشبو ہر طرف پھیل گئی ہے۔ افسوس! صد افسوس! ایسے میں ہماری منافقت بھی کمین گاہ سے باہر نکل آئی ہے! ہمارے چہروں پر دوغلے پن کے ماسک بھی چڑھ گئے ہیں۔ ہمارے سینوں میں دہکتا بُغض بھی چنگاریوں کی شکل میں باہر نکلنے لگ گیا ہے۔
انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک کون سا مسلمان فرمانروا فاروق اعظمؓ کے نقش قدم پر چل رہا ہے؟ ذرا جکارتہ، دارالسلام، کراچی، لاہور، دبئی، دوحہ، جدہ ، ریاض ، قاہرہ اور رباط کی بے زبان زمینوں پر پھیلے ہوئے محلات پر نگاہ دوڑائیے۔ ساحلوں پر ایسی ایسی تعیش گاہیں بنی ہیں کہ امریکی اور یورپی ارب پتیوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ فرانس میں کچھ ہفتے پہلے بادشاہ سلامت کے اعزاز میں میلوں لمبا ساحل (بیچ) خلقِ خدا کے لئے بند کر دیا گیا تو دس لاکھ لوگوں نے درخواست پر دستخط کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ جزیروں کے جزیرے ان کی ملکیت ہیں۔ مکانوں کے تالے، چابیاں، کنڈے، گُچھے، ٹونٹیاں، ہینڈل خالص سونے کے ہیں۔ اڑھائی اڑھائی کروڑ کی گھڑیاں مٹی سے بنی ہوئی فانی کلائیوں پر باندھ کر یہ منتخب ایوانوں میں آتے ہیں۔ جہازوں کو
خلقِ خدا کے نیچے سے نکال کر ایک ایک حکمران کے لئے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔ ہوا میں چند ساعتیں اڑنے کے دوران انہیں ڈرائنگ روم اور خواب گاہوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ تزک و احتشام، یہ جاہ و تکبر، یہ طمطراق اور گردن بلندی، یہ رعونت اور گراں بہا چیزوں کے استعمال کا پاگل پن کی حد تک اشتیاق! یہ اسی فاروق اعظمؓ کے نام لیوا ہیں جوسر کے نیچے اینٹ رکھ کر سوتے تھے اور غلام کو سوار کرکے مہار پکڑے اس کی سواری کے آگے چلتے تھے! یہ حکمران اپنی رعایا کو لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں جھونک کر، پورے پورے شہر کی بجلی اپنے دیوان اور ایوان کے لئے الگ
کرلیتے ہیں۔ ان کے دسترخوانوں پر ستر ستر کھانے ہیں۔ یہ اتنے پست ذہن، نیچ، فرومایہ اور احساس کمتری کے مارے ہوئے ہیں کہ قحط زدہ علاقے کا دورہ کرتے ہیں تو کروفر کے ساتھ، سواریوں کے جلوس اور ماتحتوں کے دستوں کے جلو میں آتے ہیں اور لاشوں کی تدفین اور سسکتے بلکتے بچوں کے منہ میں پانی کے قطرے ٹپکانے دسترخوان بچھاتے ہیں اور جانوروں کی طرح پیٹ کے تنور بھرنے لگ پڑتے ہیں۔ انہیں غور سے دیکھئے، یہ اس عمر فاروقؓ کے جانشین ہیں جنہوں نے قحط کے دوران قسم کھائی تھی کہ جب تک لوگ قحط میں مبتلا ہیں‘ وہ گوشت اورگھی کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے۔ غلام نے ایک بار کہا:’’ اللہ نے آپ کی قسم پوری کی۔ بازار میں دودھ اور گھی بکنے لگا ہے، میں چالیس درہم میں خرید لایا‘‘۔ فرمایا’’ تم نے بہت مہنگا خریدا۔ اسے خیرات کردو۔ میں فضول خرچی کا روادار نہیں‘‘۔ پھرآپ نے کثرت سے فاقے کرنے شروع کر دیئے یہاں تک کہ بعد میں لوگوں نے کہا! اگر اللہ قحط دور نہ کرتا تو عمر مسلمانوں کے غم میں جان ہی دے دیتے! آج ہمیں فاروق اعظمؓ پر لمبی لمبی تقریریں کرتے اورمضامین لکھتے اور چھپواتے ہوئے ایک لمحے کے لئے بھی خیال نہیں آتا کہ ہمارا ان سے تعلق ہی کیا ہے! کہاں وہ! اور کہاں ہم اور ہمارے حکمران! لیکن نگاہوں میں شرم نہ رہے تو ہر طرف ہرا نظر آتا ہے۔ جو لوگ پوری پوری زندگی بازار سے خود تیل، آٹا، ہلدی، آلو اور دودھ نہ خریدیں وہ مرتی رعایا کی ٹوٹی ہوئی گردنوں پر قالین بچھا کر ہمیشہ یہی کہیں گے کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔
پھر ہم غم حسینؓ میں عزاداری کرتے ہیں۔ سینہ کوبی کرتے ہیں۔ نوحہ خوانی کرتے ہیں مگر اپنی منافقت کا سامنا نہیں کرتے! مجلسیں، سوزو درد سے پڑھتے ہیں پھر کرنسی کے کھڑکھڑاتے نوٹ گن کر جیبوں میں ڈالتے ہیں، جیبیں جوکبھی بھی سیر نہیں ہوتیں! مگر ہمارا چلن کیا ہے؟ کیا ہم امام مظلومؓ کی طرح حاکم وقت کے سامنے انکار کرسکتے ہیں؟ نہیں! ہم تو ہر آمر کے جوتے میں کوکاکولا ڈال کر پیتے ہیں۔ اس کی وردی استری کرتے ہیں۔ پھر پارٹی تبدیل کرکے کسی اور کی خوشنودی کے لئے کسی اور کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ ہمارے حکمران کی خالہ بھی دفن ہونے لگے تو ہم قبر میں خود لیٹ جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور پھر اسی حکمران کو، اس کے جانے کے بعد ، سربازار کھڑے ہوکر بے نقط سناتے ہیں‘ اس حال میں کہ ہم ضمیر کو مار کرگندے نالے میں پھینک دیتے ہیں۔عزت نفس کو زمین پر ڈال کر اس پر خوشامد کی چادر بچھاتے ہیں پھر ہاتھ باندھ کر ایک طرف کھڑے ہو جاتے ہیں! ہم ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ ہم اپنے سفید سروں، سفید داڑھیوں اور سفید بھووں کی پروا کیے بغیر ہر نوجوان بلاول، ہر نوجوان حمزہ شہباز اورہر نوجوان مونس الٰہی کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تُف ہے ہماری ذہنیت پر کہ پھربھی ہم اپنے آپ کو حسینؓ کی خیمہ گاہ میں گنتے ہیں حالانکہ ہمارا ہر عمل قاتلانِ حسین کی اتباع میں ہے!
محرم! اے محرم! کبھی اسی طرح بھی آ کہ تو ہمیں دیکھ کر شرمندہ نہ ہو! ہمارے حکمران عمر فاروقؓ کے سچے پیروکار بن جائیں! ہم میں اس جرأت کا کم از کم دسواں حصہ ہی پیدا ہو جائے جس کا مظاہرہ جری اور بہادر نواسئہ رسولؐ نے کیا تھا!
Friday, October 16, 2015
ہوا کے حاکم اور موم کے گواہ
میری اگر کوئی فیکٹری ہو تو میں اس میں ایک منیجنگ ڈائریکٹر رکھوں گا۔ اس کے نیچے ایک منیجر بھی ہوگا۔ یہ دونوں تنخواہ لیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ فیکٹری کے احاطے میں ان کے لئے معقول رہائش گاہوں کا بھی بندوبست کرنا پڑے۔ بصورت دیگر یہ کرائے کی مد میں علیحدہ الائونس لیں گے۔ تنخواہ اورمراعات کے بدلے میں یہ میری فیکٹری کو چلائیں گے۔ مزدوروں اور سپروائزروں کی نگرانی کریں گے اور ان کے مسائل سے بخیروخوبی نمٹیں گے۔
فرض کیجئے ایک شام مجھے اطلاع ملتی ہے کہ فیکٹری میں کوئی مسئلہ درپیش ہے، جا کر دیکھتا ہوں تو حالات دگرگوں نظر آتے ہیں۔ مشینیں بند پڑی ہیں۔ مزدور غیر حاضر ہیں۔ سپروائزر حضرات چائے پی رہے ہیں اور سیاست پر بحث کر رہے ہیں۔ صفائی کا انتظام کلی طور پر ناقص ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے مجھے کیا ایکشن لینا چاہیے؟ کیا یہ عقل مندی ہے کہ میں مزدوروں کو نکال دوں۔ سپروائزروں کو ڈانٹ پلا دوں اور پھر گھر واپس آ جائوں؟ یا میں ایم ڈی کو بلا کر وارننگ دوں کہ تین دن کے اندر اندر معاملات سوفیصد درست ہونے چاہئیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو چوتھے دن تم فارغ ہو اوراسی دن دوپہر تک رہائش گاہ خالی ہونی چاہئے!
یہ ہے وہ نکتہ جو ہمارے حکمران سمجھ نہیں پا رہے، یا سمجھتے ہیںمگر حکومت چلاتے وقت اس دیانت کو بروئے کار نہیں لاتے جو اپنی فیکٹریاں چلاتے وقت ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ ڈسٹرکٹ ہسپتال قصور کا دورہ کرتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ صفائی کا حال برا ہے، بیت الخلا غلیظ ہیں۔ پانی میسر ہے نہ روشنی ہی کا انتظام ہے۔ بستروں کی چادریں گندی ہیں۔ ادویات عدم دستیاب ہیں۔ وزیراعلیٰ اس پر ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کرتے ہیں اور پھر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں ایک اور دعویٰ کرتے ہیں کہ دکھی انسانیت کی خدمت نہ کرنے والوں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔
صوبے میں کوئی نہ کوئی صاحب وزیر صحت کی ذمہ داریاںسنبھالے ہوئے ہوں گے۔ ان کے نیچے ایک بیورو کریٹ سیکرٹری صحت کے منصب پر فائز ہوگا۔ ایک عالی شان بنگلہ وزیر کے تصرف میں ہوگا۔ بہترین سواری حکومت نے دی ہوئی ہوگی۔ ڈرائیوروں کی بٹالین اور پٹرول کا ماہانہ بل اس کے علاوہ ہوگا۔ جی او آر میں کئی کنال پر مشتمل برطانوی زمانے کی یاد دلانے والی کوٹھی سیکرٹری صاحب کو بھی حکومت نے دی ہوئی ہوگی۔ ان کی سواری کا بندوبست اطمینان بخش طریقے سے سرکار الگ کر رہی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہسپتال انتظامیہ کی’’سرزنش‘‘ سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ وزیراعلیٰ نے ہسپتال کا معائنہ کرکے جس صورتحال کا سامنا کیا، کیا اس کا تقاضا یہ نہ تھا کہ متعلقہ وزیر کو دو دن کا نوٹس ملتا اور سیکرٹری کو فارغ کرکے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جانے والی بس میں بٹھا دیا جاتا؟
فرض کیجئے !آج وزیراعلیٰ ، اپنے وزیر صحت کو طلب کرتے ہیںاور نوٹس دیتے ہیں کہ پندرہ دن کے بعد آزاد میڈیا کے ارکان صوبے کے ہسپتالوں کا دورہ کریں گے۔ اگر ان کی رپورٹ تسلی بخش نہ ہوئی تو آپ کو فارغ کر دیا جائے گا۔ کیا آپ کو اس بات میں رمق بھر بھی شک ہے کہ وزیر صاحب پندرہ دن میں اتنا کام کریں گے جتنا انہوں نے ساری زندگی نہیں کیا؟
آپ عوامی کوچ سے قصور تشریف لے گئے۔ قابل تحسین! مگر آپ اگر سرکاری امور سے اس انداز میں نہیں نمٹتے جس انداز میں اپنا ذاتی کاروبار چلاتے ہیں تو عوامی کوچ کیا، پیدل تشریف لے جانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں! حکومت چلانا اور سرکاری اداروں کی کارکردگی درست کرنا ایک سائنس ہے یہ ایک جدید علم ہے۔ اس سائنس کے اس جدید علم کے آپ ماہر ہیں۔ جبھی تو ذاتی کاروبار کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ اس کا اطلاق سرکاری امور پر نہیں ہوتا۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ پارٹی کے ارکان کو خوش رکھنا ہے۔ بیورو کریسی میں کچھ ’’اپنے‘‘ ہیں کچھ ’’پرائے‘‘ ہیں۔ نتیجہ وہی ہے جوقصور کے ہسپتال میں نظر آیا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قصور ہسپتال کی حالت محض اتفاق تھی اور صوبے کے دوسرے ہسپتالوں میں حالات بہتر ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ اپنے آپ کو فریب دینے والی بات ہے!
اب وہ ہولناک واقعہ دیکھئے! مظفرگڑھ میں تھانے کے بالکل سامنے نوجوان لڑکی نے اپنے آپ کو نذر آتش کر دیا اور اس عدالت میں جا پہنچی۔ جہاں چالان پولیس والوں نے نہیں، فرشتوں نے پیش کرنا ہے! حوا کی اس بیٹی کو، خود پولیس والوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ تھانے کے چکر لگاتی رہی۔ انصاف نہ ملا تو خودسوزی کرلی! ایک ہیلی کاپٹر فضا میں پروں کو پھڑپھڑاتا بلند ہوا۔ع
ہوا میں تخت اڑتا آ رہا ہے، اس پری رو کا
صوبے کے حکمران اعلیٰ لڑکی کے گھر پہنچے اور بدقسمت والدہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’تہانوں میں خود انصاف دلاساں‘‘! دو’’سخت‘‘ اقدامات تو اسی وقت اٹھا لئے گئے۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر کی ’’سخت سرزنش‘‘ کی گئی اور متعلقہ ڈی ایس پی کو ’’معطل‘‘ کردیا گیا۔ یاد رہے کہ معطلی کے دوران تنخواہ پوری ملتی ہے۔ اور آپ کا کیا خیال ہے ،پولیس والے اپنے ڈی ایس پی بھِرا سے معطلی کے دوران گاڑیاں ، کوٹھی اور کوٹھی پر مامور ملازمین کی فوج واپس لے لیں گے؟
اب اس دعوے کا کہ ’’تہانوں میں خود انصاف دلاساں‘‘ حال بھی سن لیجئے۔ کل رات ایک معروف ٹیلی ویژن چینل پر ایک جانے پہچانے اینکر، اپنے سامنے دستاویزات رکھے اعدادوشمار کی دہائی دے رہے تھے کہ اس قسم کے ماضی کے سارے معاملات میں، جہاں جہاں حاکم اعلیٰ نے انصاف کا وعدہ کیا، کسی ایک پولیس والے کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ اینکر نے حکومتی پارٹی کی ایک خاتون رہنما سے پوچھا تو موصوفہ کا لگا بندھا جواب تھا کہ سزا تو عدالتوں نے دینی ہے! جب اینکر پرسن نے دلیل دی کہ عدالتوں کو ثبوت پولیس والوں نے دینے ہیں تو وہ خاموش ہوگئیں! پولیس والوں کے ہاتھوں آج تک سینکڑوں (ہوسکتا ہے ہزاروں) شہری موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ابھی کچھ عرصہ ہوا۔ دو وکیلوں کو گولی مار کرہلاک کردیا گیا۔ آج تک کوئی ایک قاتل بھی اس وردی پوش گروہ سے تختہ دار پر نہیں لٹکا اس لئے کہ ؎
لگا ہے دربار، شمع بردار سنگ کے ہیں
ہوا کے حاکم ہیں، موم کے ہیں گواہ سارے
صرف پنجاب کو مطعون کرنا قرین انصاف بھی نہیں! دوسرے صوبوں میں حالات ابتر ہیں۔ پیپلزپارٹی کی ایک خاتون رہنما ٹیلی ویژن پر بتا رہی تھیں کہ ڈی این اے ٹیسٹوں کے باوجود سندھ میں مجرم چھوٹ گئے۔ اندرون سندھ میں، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں عورت کا سماجی مقام پنجاب کی عورت سے کہیں نیچے ہے۔ کہیں سوارہ کی لعنت اس زمانے میں بھی رائج ہے، کہیں ونی ہے اور کہیں کاروکاری۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پنچایت جب کسی ساٹھ ستر سالہ بوڑھے اور دس سالہ بچی کے نکاح کا حکم دیتی ہے تو عالم دین بھی اس کارخیر کیلئے فوراً میسر آ جاتا ہے۔ ہمارے مذہبی رہنما ہمیں آئے دن تلقین کرتے ہیں کہ مظلوم مسلمان کی مدد کرنا لازم ہے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو! مگر منبرومحراب سے ان سینکڑوں مظلوم عورتوں کے لئے کبھی آواز بلند نہ ہوئی جو اپنے وطن ہی میں مردانہ فسطائیت کا شکار ہیں اور جن کا مذہب کی غلط اور خودساختہ تعبیر کی بنیاد پر استحصال ہو رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک عورت اگر دہائی دیتی ہے کہ اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا ہے تو اس سے چار گواہ مانگے جاتے ہیں۔ چار گواہ وہ لا نہیں سکتی تو ’’اعتراف جرم‘‘ میں اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
رہی یہ بات کہ کوئی پولیس والا سزا نہیں پاتا۔ تویہ کالم نگار اپنی تھیوری پھر دہراتا ہے کہ اس ملک میں پولیس اور اہل اقتدار کے درمیان ایک خاموش غیر تحریری معاہدہ کارفرما ہے! پولیس ہرصاحب اقتدار گروہ کے لئے ذاتی ملازم کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے بدلے میں اسے مکمل آزادی حاصل ہے۔ جسے چاہے مقابلے میں ماردے، دوران تفتیش ہلاک کر دے۔ خودسوزی یا خودکشی تک لے جائے۔ کسی کا ماڈل ٹائون کردے، کسی کوسیالکوٹ بنادے۔ع
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
Wednesday, October 14, 2015
فکرِ ہر کس…
لاہور کے عوام اگر شعور سے محروم ہوتے تو حکومتی امیدوار کو ڈیڑھ لاکھ یا سوا لاکھ ووٹ ملتے!
اس میں کیا شک ہے کہ شریف برادران کی حکومت نے لاہور شہر کو خوبصورت بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اسے آرام دہ بھی بنا دیا ہے۔ آدھے سے زیادہ شہر سگنل فری ہو گیا ہے۔ پلوں، انڈرپاسوں اور معیاری شاہرائوں کا جال بچھ گیا ہے۔ ابھی بہت کچھ ہو رہا ہے جو پایہ تکمیل کو پہنچا تو شہر کی حالت اور بھی بدل جائے گی!یہ خدمت کئی عشروں سے ہو رہی ہے۔ سالہا سال کی ریاضت ہے جو جاری ہے۔ مگر اہل لاہور کو تحفظات ہیں۔ لاہور کے تعلیم یافتہ طبقات کے ذہنوں میں اعتراضات ہیں۔ وہ موم کے پتلے نہیں۔ وہ جنوبی پنجاب کے مزارع ہیں نہ اندرون سندھ کے ہاری! اہل لاہور اہل لاہور ہیں! وہ ہر بات پر آمنّا و صدّقنا نہیں کہتے۔ اگر ایسا ہوتا تو نتیجہ وہ نہ ہوتا جو نکلا ہے۔
پاکستانی عوام عام طور پر اور لاہور کے لوگ خاص طور پر۔ آمریت کی کس شکل کو نہیں مانتے نہ ہی فریب کھانے کے لئے تیار ہیں! جنرل ضیاء الحق ٹیلی ویژن پر آ کر غریبوں کے غم میں روہانسے ہو گئے تھے۔ اسلام بظاہر ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ سائیکل پر سوار ہو کر دکھایا، نمازیں پڑھیں، پڑھوائیں، سیاست دانوں اور نوکر شاہی دونوں نے انگریزی سوٹ کوٹھریوں کے اندر پھینک دیئے اور واسکٹیں زیب تن کر لیں، سب کچھ ہوا مگر جنرل صاحب اپنے جانے کی بات نہیں کرتے تھے۔ الٹا اعلان کر دیا(وزارت خزانہ میں ایک اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے) کہ میرا جانے کا کوئی ارادہ نہیں! بس یہ بات لوگوں کو ناپسند تھی۔ پاکستانیوں کا مزاج ایران یا مشرق وسطیٰ کے عوام سے یکسر مختلف ہے یہ ملک جمہوریت کی بنیاد سے اٹھا۔ آمریت عسکری ہو یا خاندانی، اس کے لئے قابل قبول نہیں!
مسلم لیگ نون کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی محبت لاہور کے لئے بجا! وزیر اعظم کے عہدِ اقتدار کا حساب کیا جائے تو نصف سے زیادہ کیا عجب لاہور میں گزرا ہو۔ افسر شاہی میں بھی لاہور گروپ کا نام ہی بار بار سننے میں آتا ہے مگر لگتا ہے خاندانی اثر و رسوخ اہل لاہور نے پسند نہیں کیا۔ لاہوریوں کو خدمت کے پردے میں ایک خاندان کی اجارہ داری منظور نہیں! بہتر ہزار ووٹ جو مسلم لیگ نون کو نہیں پڑے، معمولی تعداد نہیں! یہ بہتر ہزار بھی تو پلوں، انڈر پاسوں، شاہراہوں اور نئی نویلی بسوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں مگر وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ وفاقی اسمبلی کے رکن حمزہ شہباز کس اعتبار سے ہر گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے نظر آتے ہیں؟ ان کے پاس پنجاب حکومت کا عہدہ ہے نہ پارٹی کا۔ بطور پارٹی لیڈر کیا ان عمر رسیدہ رہنمائوں کا مقام اس نوجوان سے بلند تر نہیں جنہوں نے ساری عمر سیاست میں اور پارٹی کی خدمت میں گزار دی! کیا اہل لاہور چپ چاپ ان کے ہاتھ پر اس لئے بیعت کر لیں کہ وہ حاکم اعلیٰ کے فرزند ہیں؟
اہل لاہور کو یقینا اس طرز حکومت پر بھی اعتراض ہو گا کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ وفاق کے ہر معاملے میں دخل انداز ہیں! کبھی وہ غیر ملکی دورے کرتے ہیں جیسے وزیر خارجہ ہوں! کبھی چین کی بنوائی ہوئی تجارتی راہداری کے انچارج نظر آتے ہیں جیسے وزیر تجارت ہوں اور کبھی توانائی کے وفاقی وزیر کے فرائض سرانجام دیتے نظر آتے ہیں! یہ اسلوبِ حکومت لاہور کے پڑھے لکھے عوام کے دلوں میں جگہ نہ بنا سکا! اسے اتفاق کہیے یا بدقسمتی کہ لاہور میں رہنے والے لوگ سارے کے سارے ڈار ،خواجہ ،وائیں یا وانی نہیں! لاہور پورے صوبے کی کیا، پورے ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ لاہور کو منی پاکستان کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا! اس میں پشاور اور گلگت سے لے کر کوئٹہ اور کراچی تک کے لوگ رہتے ہیں۔ وہ بھی اسی طرح لاہوری ہیں جیسے کوئی بھی لاہوری ہو سکتا ہے! وہ اپنے شہر سے محبت کرتے ہیں! لیکن وہ چاہتے ہیں کہ حکمران اپنے آپ کو ایک شہر کا، ایک شہر کے ایک حصے کا، ایک برادری کا نمائندہ نہ سمجھیں۔ اپنے ذہن کو فراخی دیں۔ تنگ حصار سے باہر نکلیں اور حکومت کو خاندانی معاملہ نہ قرار دیں!
اس الیکشن کے نتیجہ سے مسلم لیگ اور تحریک انصاف دونوں کو اپنے اپنے سبق اخذ کرنے چاہئیں۔ دونوں کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ وہ جو فراز نے کہا تھا: تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا! دونوں جماعتیں انسانوں پر مشتمل ہیں، دونوں خوبیوں اور خامیوں سے بنی ہیں۔ مسلم لیگ اور حکومت پر تو اعتراضات ہر کوئی کرتا ہے اور کر رہا ہے، عمران خان کے نوجوان فدائیوں کو بھی بہت کچھ سوچنے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اب تو اس حقیقت پر کم و بیش میڈیا کا اجماع ہو چکا کہ خان صاحب جوش اختلاف میں توازن کا دامن چھوڑ دیتے ہیں!
پوپ کو ایک بار غصہ آیا اور اس نے اعلان کر دیا کہ اٹلی میں رہنے والے مسلمان یا تو عیسائیت قبول کر لیں یا اٹلی سے نکل جائیں! مسلمانوں نے بھی جوابی سرگرمی دکھائی اور مقابلہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ بالآخر طے ہوا کہ پوپ مسلمانوں کے نمائندے سے مناظرہ کرے گا۔ مسلمانوں نے میٹنگ بلائی اور خوب سوچ سمجھ کر ایک مفتی صاحب کو مناظرے کے لئے منتخب کیا۔ اب مسئلہ یہ آن پڑا کہ پوپ کو عربی زبان نہیں آتی تھی اور مفتی صاحب انگریزی اور اطالوی سے نابلد تھے۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ مناظرہ اشاروں کی زبان میں ہو گا۔ مقررہ وقت پر مناظرہ شروع ہوا۔ پوپ اور مفتی صاحب آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ پوپ نے ہاتھ اٹھایا اور فضا میں تین انگلیاں لہرائیں۔ مفتی صاحب نے مجمع پر ایک نظر ڈالی اور فضا میں انگشت شہادت بلند کی۔ اس کے بعد پوپ نے اپنی انگلی اپنے سر کے ارد گرد گھمائی۔ مفتی صاحب نے انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کیا جہاں وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد پوپ نے ایک بسکٹ اور شراب کا ساغر نکالا۔ مفتی صاحب نے اپنے بیگ میں سے سیب نکال لیا۔ اس پر پوپ ہاتھ جھاڑتا اٹھا اور اعلان کیا کہ مسلمانوں کے مفتی صاحب مناظرہ جیت گئے ہیں۔ وہ ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ مسلمان اٹلی میں جہاں چاہیں رہیں! دونوں طرف کے تماشائیوں میں کھلبلی مچ گئی۔ پوپ کے ساتھیوں نے تفصیل پوچھی۔ پوپ نے بتایا کہ میں نے تین انگلیاں لہرا کرتثلیث(تین خدائوں کے عقیدہ) کا اعلان کیا۔ مسلمانوں کے مفتی نے جواب میں انگشتِ شہادت دکھائی جس کا مطلب تھا کہ خدا ایک اور وحدہُ لا شریک ہے! پھر میں نے انگلی سر کے گرد گھما کر بتایا کہ خدا ہمارے ہر طرف موجود ہے۔ مفتی صاحب نے زمین کی طرف اشارہ کیا کہ یہاں ہمارے ساتھ بھی موجود ہے۔ پھر میں نے بسکٹ اور شراب دکھائے جس کا مطلب تھا کہ خدا نے ہمارے سارے گناہ معاف کر دیئے ہیں۔ اس پر مفتی صاحب نے سیب نکالا جس کا مطلب تھا کہ آدم سے گناہ سرزد ہوا تھا۔ مفتی نے میری ہر دلیل کا ایسا جچا تلا ٹھوک بجا کر جواب دیا کہ میں تو عاجز آ گیا اور اپنی شکست تسلیم کر لی۔
دوسری طرف مسلمانوں نے مفتی صاحب سے روداد پوچھی۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کیا ہوا اور ہم کیسے فتح مند ہوئے۔ اس نے فضا میں تین انگلیاں لہرائیں جس کا مطلب تھا کہ مسلمان تین دنوں کے اندر اندر اٹلی چھوڑ دیں۔ میں نے ایک انگلی دکھائی کہ ایک مسلمان بھی یہاں سے نہیں جانے والا۔ پھر اس نے اپنے سر کے گرد انگلی گھما کر بتایا کہ ملک مسلمانوں سے خالی کرا لیا جائے گا۔ میں نے زمین کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ہم یہیں ٹھہریں گے اور یہیں رہیں گے۔ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ایک مسلمان نے بے تابی سے پوچھا۔ ’’پھر اس نے اپنا کھانا نکالا جواب میں میں نے بھی اپنا لنچ نکال لیا۔
مسلم لیگ او رتحریک انصاف والے لاہور کے ضمنی الیکشن سے کیا کیا سبق حاصل کرتے ہیں، اس کا انحصار ان کی سمجھ بوجھ پر ہے! اکبر الٰہ آبادی نے اسی نکتے کو ایک اور پیرائے میں بیان کیا ؎
کہا فرعون نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا بوزنا ہوں میں
ہنس کے کہنے لگے مرے اک دوست
فکرِ ہرکس بقدرِ ہمتِ اوست
Monday, October 12, 2015
فارغ! مکمل طور پر فارغ!
بلا کا رش تھا۔ ٹریفک اندھادھند تھی اور بے ہنگم گاڑیوں کا دھواں‘ پیں پیں کی آوازیں‘ چلتی رکتی بسوں کے کنڈکٹروں کی مسافروں کو بلاتی صدائیں‘ پیدل چلنے والوں کا ازدحام‘ سب کچھ بھیڑ میں اضافہ کرنے والا تھا۔ گاڑیاں اِنچوںکے حساب سے رینگ رہی تھیں۔ ایسے میں زور کی دھماکہ نما آواز آئی۔ ہماری گاڑی کو پچھلی گاڑی نے ٹکر ماری تھی۔ میں نے گاڑی ایک طرف کرلی۔ پیچھے والی گاڑی بھی ایک طرف ہو کر رک گئی۔ جتنی دیر میں‘ میں گاڑی سے نکل کر چند قدم پیچھے کی طرف چلا اور جتنی دیر میں پچھلی گاڑی کا ڈرائیور باہر نکل کر چند قدم آگے کی طرف چلا کم از کم چھ افراد جمع ہو چکے تھے۔ ابھی میں نے اور پچھلی گاڑی والے نے آپس میں کوئی بات ہی نہیں کی تھی کہ یہ تعداد چھ سے آٹھ اور پھر بارہ ہوگئی۔ دو سفید ریش اشخاص بار بار کہے جا رہے تھے: ’’چھوڑیں جی‘ جانے دیں‘‘۔ ایک نوجوان بلند آواز سے بولا: ’’غلطی پچھلی گاڑی کی ہے‘‘۔ ایک اور آواز آئی: ’’اگلی گاڑی والے نے بھی تو کچھ کیا ہی ہوگا نا‘‘۔ خوش قسمی سے پچھلی گاڑی والا شریف آدمی تھا۔ اس نے اپنا کارڈ مجھے دیا اور کہا کہ غلطی اُس کی تھی۔ گاڑی کی مرمت پر جتنا خرچ آئے گا‘ وہ ادا کرے گا۔ قیامت کے ہنگامے میں ایسا شریف انسان نعمت سے کم نہ تھا۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ لیکن جمع ہو جانے والے آدمیوں کے (جن کی تعداد اب بیس سے کیا کم ہوگی) چہروں پر جو ناامیدی تھی‘ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ جس تماشے کی امید میں وہ دوڑ کر آئے تھے‘ ہوا ہی نہیں! ہم نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے‘ نہ چیخے‘ نہ گالیاں دیں‘ نہ گریباں پکڑے‘ نہ پولیس آئی نہ ٹریفک بلاک ہوئی!
یہ وہ منظر ہے جو ہم اور آپ ہر روز دیکھتے ہیں‘ جیسے ہی دو گاڑیاں ٹکراتی ہیں۔ جیسے ہی دو افراد میں توتو میں میں کی ابتدا ہوتی ہے‘ ایک ’’سرگرمی‘‘ شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی ویگن چلا رہا ہے یا کار‘ گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کرتا ہے اور پھر بھاگ کر جائے واردات پر پہنچتا ہے۔ نوٹ کرنے کی خصوصی بات یہ ہے کہ بھاگ کر پہنچ جانے کے بعد اُس نے وہاں صرف کھڑا ہونا ہے۔ نزدیک سے نزدیک کھڑا ہونے کی کوشش کرنی ہے اور پھر دیکھنا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر آپ دو گھنٹوں کے بعد بھی وہاں سے گزریں گے تو منظر یہی ہوگا۔
اس صورتِ حال کی وجہ کیا ہے؟ فراغت اور صرف فراغت! فراغت ایک جامع لفظ ہے جس کا گھیرا وسیع ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اِن لوگوں کے پاس کام کوئی نہیں۔ اس کا مطلب بے روزگاری بھی نہیں! اس کا مطلب یہ رویہّ ہے۔ ایسا رویہ جس میں ڈیوٹی کا احساس ہے نہ ذمہ داری کا۔ جس شخص نے حادثہ یا لڑائی دیکھ کر ویگن یا کار ایک طرف کھڑی کردی اور دوڑ کر جائے حادثہ پر پہنچا‘ ایسا نہیں کہ وہ بے کار ہے۔ اُس نے ایک جگہ پہنچنا ہے‘ مگر اُسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ تاخیر کا مرتکب ہو رہا ہے اور کہیں کوئی اس کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ جتنی دیر چاہے گا‘ ’’تماشے‘‘ سے لطف اندوز ہوگا۔ پھر وہ اپنی مرضی سے‘ جب بھی دل اکتا جائے گا‘ گاڑی میں بیٹھ کر منزل کا رُخ کرے گا۔ دو یا تین گھنٹے کی تاخیر ہمارے ملک میں کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں! انتظار کرنے والے پوچھیں گے نہ تاخیر سے پہنچنے والے کو کچھ بتانے کی یا معذرت کرنے کی ضرورت ہے! یہی فراغت ہے!
ہمارے پاس فراغت ہی فراغت ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم ایک فارغ قوم ہیں! سب کچھ اپنی رفتار سے چل رہا ہے۔ فکر کرنے کی ضرورت ہے نہ کسی کی پروا! دکان نو بجے کھلنی ہے تو دس بجے کھلے گی۔ دفتر آٹھ بجے لگنا ہے تو ساڑھے نو پہنچیں گے۔ اور تو اور پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس وقت پر نہیں شروع ہو سکتے۔ ڈاک خانے میں جس بابو نے آپ کے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کرنی ہے‘ وہ کھڑکی پر ہاتھ سے لکھا ہوا اعلان لٹکا گیا ہے: ’’وقفہ نماز ڈیڑھ بجے‘‘۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ وقفہ جو ڈیڑھ بجے شروع ہوا‘ ختم کب ہوگا۔ تین بجنے کو ہیں‘ کھڑکی کے سامنے لوگ جمع ہیں‘ جب بابو آ کر کھڑکی کھولے گا‘ اُس سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا۔ اگر کسی سر پھرے نے پوچھ بھی لیا تو اُسی کے ساتھ کھڑا شخص اُسے سمجھانے لگے گا کہ چھوڑو بھائی! کام کرائو اور چلتے بنو!
فراغت کا مضحکہ خیز مظاہرہ شادیوں کی تقاریب میں آئے دن کیا جاتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ مظاہرے مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ دردناک بھی ہیں۔ ولیمے کی تقریب ہے۔ بہترین ملبوسات زیب تن کیے‘ خوشبوئوں میں لپٹے معزز مہمان چار گھنٹوں سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ کیوں؟ ایک پلیٹ چاول‘ آدھے نان اور گوشت کے چند ٹکڑوں کی خاطر! دیر کس بات کی ہے؟ لڑکی والے ابھی نہیں پہنچے‘ پہنچیں گے تو کھانا شروع ہوگا! لڑکی والے کب پہنچیں گے؟ اس آسمان کے نیچے اور اس زمین کے اوپر کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کب پہنچیں گے! وقت کے تعین کا کوئی عمل دخل اس سارے کھیل میں کہیں ہے ہی نہیں!
سرکاری تقاریب کا بھی یہی عالم ہے۔ کہیں وزیر صاحب کا انتظار ہو رہا ہے تو کہیں وزیراعظم کا اور کہیں صدر صاحب کا! چند دن پہلے کراچی کی ایک تقریب میں سینیٹ کے چیئرمین تاخیر سے پہنچے۔ اُس وقت ایک نوجوان تقریر کر رہا تھا‘ اس کی تقریر میں آمد اور استقبال کی وجہ سے رخنہ ڈالا گیا تو اس نے احتجاج بھی کیا! لیکن ایسے احتجاج کرنے والے اس معاشرے میں پاگل کہلاتے ہیں اور انہیں اس پاگل پن کی باقاعدہ سزا دی جاتی ہے!
کسی دفتر چلے جائیے۔ جاڑا ہے تو ملازمین گروہوں میں کھڑے دھوپ سینکتے پائے جائیں گے‘ گرمی کا موسم ہو تو درختوں کے سائے میں کھڑے ہوں گے۔ کینٹین بھری ہوئی اور ڈیوٹی والے کمرے خالی ہوں گے۔ کالجوں میں اساتذہ کی اکثریت کے نزدیک پیریڈ نہ پڑھانا کوئی بڑی بات نہیں! ہسپتالوں میں مریض گھنٹوں نہیں پہروں انتظار کرتے ہیں‘ ڈاکٹر کے بارے میں اُس کے نائب قاصد سمیت کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا! وفاقی دارالحکومت میں ایک اہم وزارت کے انچارج وزیر صاحب صرف بدھ کے دن دفتر تشریف لاتے ہیں! جہاں پوری قوم فارغ ہو‘ وہاں یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں! یہ کوئی سنگاپور یا ہالینڈ تھوڑی ہی ہے کہ وزیراعظم سمیت سارے وزرا مقررہ وقت پر دفتروں میں پہنچیں۔ پورا ملک قبائلی طرز پر چل رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں ہوتے ہوئے بھی یہ ملک نویں دسویں صدی میں زندہ ہے۔ ہر شخص قبیلے کا سردار ہے۔ وزیر ہے یا افسر‘ دکاندار ہے یا اہلکار‘ ٹرین چلانے والا ہے یا جہاز اڑانے والا‘ کالج کا استاد ہے یا منتخب ایوان کا رکن! اس پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا! بالکل اس طرح جیسے قبائلی سردار پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا! وہ چاہے تو دربار لگائے‘ چاہے تو شکار کو نکل جائے‘ چاہے تو حویلی سے باہر ہی نہ آئے!
قومیں منصوبہ بندی ڈویژن یا آئی ایم ایف کے عطا کردہ اعدادوشمار سے ترقی نہیں پاتیں‘ نہ سر بفلک عمارتوں‘ ایئرپورٹوں اور ٹرینوں اور بسوں کے منصوبوں سے! ہمارے وزیراعظم ایک نہیں‘ چار جہاز لے کر ہزاروں ساتھیوں سمیت امریکہ کا دورہ کرلیں‘ ہم پھر بھی ترقی یافتہ کہلائیں گے نہ مہذب! مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کے جہازوں میں سونے چاندی کے پلنگ نصب ہیں‘ پھر بھی ان کے ملک ترقی یافتہ ملکوں میں شمار نہیں ہوتے‘ اس لیے کہ ترقی کا دارومدار رویے پر ہے۔ خواہ وہ دکاندار کا رویہ ہے یا دفتری کلرک کا یا وزیر کا یا حکمرانِ اعلیٰ کا! دکاندار یا دفتری ملازم حکومت سے کیا شکوہ کر سکتا ہے! کیا وہ خود اپنے دائرے کا کام کر رہا ہے؟
شفیق الرحمن نے ایک جگہ ایک واقعاتی لطیفہ لکھا ہے۔ ایک شخص مصروف شاہراہ کے کنارے کھڑا ہوگیا اور اُوپر بالکونی کو دیکھنے لگ گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک اور صاحب بھی اس کے ساتھ آ کھڑے ہوئے‘ پھر ایک اور‘ پھر ایک اور۔ تھوڑی دیر میں اچھا خاصا مجمع اُوپر بالکونی کو دیکھ رہا تھا۔ بالکونی میں کھڑے صاحب نیچے دیکھ رہے تھے کہ کیا بات ہے؟ اصل بات یہ تھی کہ سب فارغ تھے!
ہم ایک فارغ قوم ہیں۔ مکمل طور پر فارغ۔ سب کھڑے ہیں
اوراوپر بالکونی کو دیکھے جا رہے ہیں ا
Saturday, October 10, 2015
ایک درخواست
کرزن، لارنس، میکالے، ریڈنگ، ویول، مائونٹ بیٹن ہمارے حکمران تھے۔ ہم ان کی رعایا تھے۔ ان کی اپنی دنیا تھا۔ ہماری دنیا الگ تھی۔ دونوں دنیائیں کسی مقام پر ایک دوسرے سے ملتی نہیں تھیں‘ نہ کراس کرتی تھیں۔ ان کے کلب اپنے تھے۔ ریستوران الگ تھے۔ ریل میں ڈبلے الگ الگ تھے۔ جن بازاروں میں عبدالکریم‘ رشید احمد لاجپت رائے اورمیٹھا سنگھ دال‘ چاول‘ گھی‘ ہلدی اور مرچ خریدتے تھے ان بازاروں میں کرزن‘ لارنس اور ریڈنگ کا کبھی گزر نہیں ہوتا تھا۔ جن سکولوں میں رعیت کے بچے تعلیم پاتے تھے‘ حکمرانوں کے بچے اور پوتے ان کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے۔
جن ہسپتالوں میں عام لوگ علاج کے لئے جاتے تھے، وہاں حکمران نہیں جاتے تھے۔ حکمرانوں کے ڈاکٹر، شفاخانے، سب کچھ الگ تھا۔ یہاں تک کہ قبرستان بھی الگ الگ تھے۔ آپ نے اکثر شہروں میں ’’گورا قبرستان‘‘ دیکھے ہوں گے۔ یہاں حکمران اور ان کے ہم پایہ لوگ دفن ہوتے تھے۔ رعایا کے قبرستان الگ تھے۔
آج آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، چودھری شجاعت حسین، مولانا فضل الرحمن، سید خورشید شاہ، سید قائم علی شاہ، اعتزاز احسن، الطاف حسین، ڈاکٹر فاروق ستار ہمارے حکمران ہیں۔ ہم ان کی رعایا ہیں۔ رعایا اور حکمرانوں کی دنیائیں الگ الگ ہیں۔ دو متوازی لکیریں، دور تک الگ الگ جاتی ہوئی! کہیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں نہ کراس ہوتی ہیں۔ تعلیمی ادارے الگ الگ ہیں۔ ان کے بچوں ، پوتوں اور نواسوںکے الگ سکول ہیں‘ رعایا کے الگ ہیں۔ کسی حکمران کا بچہ عام سکول میں نہیں پایا جاتا۔ کسی عام شہری کا بچہ اس سکول کے نزدیک جانے کا بھی حوصلہ نہیں کر سکتا‘ جہاں حکمرانوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ یہی حال ہسپتالوں میں ہے۔ کیا آپ نے تحصیل ہسپتال فتح جنگ، مانسہرہ، گوجرخان، لاڑکانہ میں کسی وزیر‘ کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو اپنایا اپنے اہل و عیال کا علاج کراتے دیکھا ہے؟ کیا کسی شخص نے آصف علی زرداری ، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، سیدخورشید شاہ، سید قائم علی شاہ اور جناب اعتزاز احسن کو کبھی کسی بازار میں آٹا، چاول، دال، گوشت، بیسن، سبزی خریدتے دیکھا ہے؟ کیا ان میں سے کسی نے کبھی آپ کے ساتھ بس میں یا ویگن میں یا ریل میں سفرکیا ہے؟ جن دنوںآپ سی این جی کے لئے پہروں قطار میں کھڑے ہوتے تھے، کیا کسی حکمران کو وہاں دیکھا؟ پھر آپ پٹرول کے لئے لائنیں بنا کر گھنٹوں کھڑے رہے، کیا ان میں سے کسی کو وہاں پایا؟
ان کا بس نہیں چلتاورنہ یہ شاہراہیں بھی الگ کرلیتے۔لیکن جب یہ شاہراہوں سے گزر رہے ہوں تو رعایا کو شاہراہوں سے ہٹا دیا جاتا ہے‘ کوئی مر رہا ہے، یا کوئی عورت بچہ جن رہی ہے یا کسی پردل کا دورہ پڑا ہوا ہے‘ اسے شاہراہ سے ہٹا کرایک طرف کھڑا کردیا جاتا ہے۔ یہ شاہراہیں رعایا استعمال کرسکتی ہے‘ مگر صرف اس وقت جب حکمران وہاں سے نہ گزر رہے ہوں۔ ایک بار کسی حکمران کا موٹرکیڈ یا جلوس شاہراہ پرچڑھ گیا تو رعایا کا حق وہیں، اسی وقت سلب ہوگیا۔ کوئی طاقت‘ کوئی عدالت، کوئی ہائی کورٹ‘ کوئی سپریم کورٹ رعایا کا یہ حق آج تک واگزار نہیں کراسکی!
یہ حکمران، یہ وزیر، یہ ایم این اے‘ یہ ایم پی اے جب اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیںتو زیربحث آنے والے موضوع صرف وہ ہوتے ہیںجن میں ان کا اپنا مفاد ہو۔ یہ سب، کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف، صرف اور صرف اپنی دلچسپی کے مسائل پر بات چیت کرتے ہیں۔
نندی پور منصوبے کا تخمینہ چالیس ارب سے بڑھا کر ستاون ارب ہوگیا۔
ایل این جی کی قیمت طے نہیں ہوئی۔
اینگروکمپنی کو مراعات دی گئیں۔
سولرپارک منصوبہ سو میگا واٹ کا تھا۔
یہ ہیں ان کے موضوعات۔ یہ پارلیمنٹ میں ایان علی کی بات کرتے ہیں یا مارک سیگل کی یا میموگیٹ کی یا صدارتی انتخابات کی یا اعتزاز احسن کو ملنے والی ایل پی جی کوٹہ کی یا یہ کہ ڈاکٹر عاصم دو ارب نہیں، روزانہ صرف دو کروڑ لیتے تھے۔
کیا آپ نے کبھی سنا کہ پارلیمنٹ میں ان بازاروں کی بات ہوئی ہو جہاں سے آپ سوداسلف خریدتے ہیں، ان سکولوں پر بحث ہوئی ہو جہاں رعایا کے بچے پڑھتے ہیں‘ ان تحصیل یا ضلع ہسپتال
کے بارے میں کوئی قرارداد پیش ہوئی ہو۔ جہاں مریض اس لئے مر جاتے ہیں کہ روئی
(Cotton)
روٹی نہیں تھی یا آکسیجن نہیں تھی یا ڈاکٹر ہی نہیں تھا۔ ہمارے رپورٹر حسن رضا کی لائی ہوئی تازہ رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب میں پچھتر لاکھ سے زائد بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی باسٹھ ہزاراسامیاں خالی پڑی ہیں اور جانے کب سے خالی پڑی ہیں۔ ساڑھے چھ ہزار سکول بجلی سے محروم ہیں۔ تیرہ سو سکول ٹائلٹ کی سہولت کو ترس رہے ہیں۔ پونے پانچ ہزار عمارتیں گرنے کے قریب ہیں اور پھر بھی زیراستعمال ہیں۔ ہزاروں میں میز کرسیاں نہیں ہیں۔ ہزاروں کے گرد چاردیواریاں نہیں ہیں۔ پینے کا صاف پانی ایک خواب ہے۔ جنوبی پنجاب میں حالات شمالی پنجاب سے ابتر ہیں۔ سندھ میں پنجاب سے کئی گنا زیادہ خراب اوربلوچستان کی حالت سندھ سے بھی خراب تر! سینکڑوں سکولوںمیں مویشی بندھے ہیں۔ سرداروں نے تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو غلے کے گوداموں میں تبدیل کردیا ہے۔ لاکھوں اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ سینکڑوں ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں سے تنخواہیں لے کر، وہی وقت پرائیویٹ شفاخانوں میں لگا کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ بازاروں میں تجاوزات اتنے ہیں کہ پیدل چلنے کی جگہ نہیں۔ پچھلے دس یا پندرہ سالوں کے اخبارات کھول کر پورے چھ ماہ تحقیق کرلیجیے‘ کیا کسی وفاقی یا صوبائی اسمبلی میں ان میں سے کوئی مسئلہ کبھی زیربحث آیا ہے؟
دنیا میں جتنے ملک خوشحال ہیںاور جہاں جہاں بھی عوام کو حکمرانوں کے برابر حقوق حاصل ہیں‘ وہاں عوام اور حکمران ایک ہی بازار سے ساتھ ساتھ کھڑے ہوکرسودا سلف خریدتے ہیں۔ ایک ہی ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں۔ ریستورانوں کی قطار میں اکٹھے کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے ہسپتال اور سکول مشترک ہیں۔ ہماری منافقت کا یہ عالم ہے کہ ہم جمعہ کے ہر خطبہ میں اور ہر مضمون میں اور ہر تقریر میں فخر سے ذکر کرتے ہیں کہ فلاں خلیفہ راشد نے اپنی زرہ یہودی کے پاس گروی رکھی، فلاں نے بازار سے سودا سلف خریدا۔ فلاں نے ذاتی کام کرتے ہوئے سرکاری چراغ گل کردیا۔ فلاں نے سامان پیٹھ پر لاد کر ضرورت مند کو پہنچایا۔ فلاں نے غلام کے ساتھ باری باری اونٹ کی سواری کی مگر ہمیں پورا سچ بولنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ ہم یہ اعتراف نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ اب بھی کہیں اور ہورہا ہے۔ ڈنمارک کی ملکہ سبزی خریدنے دکان پر خود، بنفس نفیس آتی ہے۔ ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر سوار ہو کر دفتر آتا ہے۔ برطانیہ کا وزیراعظم ٹرین پر کھڑے ہوکر فاصلہ کاٹتا ہے اور سستی فلائٹ میں سفر کرتا ہے۔ جہاں سفر کے دوران کھانا ملتا ہے نہ چائے، چپس کا پیکٹ خود خریدناہوتا ہے۔ امریکی صدرکٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے اور ناروے کا وزیراعظم بھیس بدل کر ٹیکسی چلاتا ہے تاکہ عوام کے احساسات اور تاثرات کو براہ راست جان سکے۔
حکمرانوں کی خدمت میں ایک درخواست ہے کہ از راہ کرم اپنے قبرستان بھی الگ کر لیجیے۔ ملکہ برطانیہ سے گورا قبرستانوں میں دفن ہونے کی اجازت لیجیے یا کوئی اور بندوبست فرمائیے۔ جب زندگی میں رعایا سے کوئی تعلق نہیں تورعایا کے ساتھ دفن ہونے کی کیا تُک ہے؟
Wednesday, October 07, 2015
Saturday, October 03, 2015
مورا جوبن گروی رکھ لے
ہری پور سے ایبٹ آباد کا رُخ کریں تو شہر سے نکلتے ہی بائیں طرف شاہراہ کے کنارے وہ آدھی اجاڑ اور آدھی آباد خانقاہ تھی جس میں پُرنم الٰہ آبادی مقیم تھے۔
سب سے پہلے پروفیسر رئوف امیر نے بتایا آتشِ شوق بھڑکی اور میں خانقاہ میں حاضر ہوگیا۔ رئوف امیر ساتھ تھے اور پُرنم صاحب کو میرے بارے میں پہلے بتا چکے تھے۔ ایک چھپر نما برآمدہ تھا جہاں چٹائی بچھی تھی۔ شفقت سے ملے‘ مسرت کا اظہار کیا‘ ایک پلیٹ میں جلیبی رکھی تھی‘ جو شاید ہمارے لیے ہی انہوں نے منگوائی تھی۔ ہم نے کھائی‘ چائے پی‘ سارے چھپر میں عجیب خوشبو تھی۔ فضا میں سوندھا سوندھا تاثر تھا۔ کچی دیواریں‘ چھپر نما برآمدے میں چٹائی۔ غالباً چٹائی پر سفید چادر بچھی تھی۔ سازوسامان سے بے نیاز یعنی بے سروسامانی‘ پُرنم صاحب کے کھچڑی بال جو مانگ کے بغیر‘ سامنے سے پیچھے کی طرف جا رہے تھے۔ بہت ہی سادہ اور عام شلوار قمیض میں ملبوس! یوں لگتا تھا یہ شخص دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہے۔
اُس کے بعد معمول بن گیا۔ میں اسلام آباد سے نکلتا‘ راستے میں واہ سے پروفیسر رئوف امیر کو لیتا اور ہم خانقاہ میں پُرنم صاحب کے ہاں حاضر ہو جاتے‘ گھنٹوں بیٹھتے‘ انتہائی بے تکلفی میں بھی پُرنم صاحب نے کبھی کوئی بات متانت سے گری ہوئی نہ کی‘ قہقہہ بھی کبھی نہ لگایا۔ شاعری سنتے اور سناتے مگر بہت کم۔ ایک دفعہ انہوں نے خاص میرے لیے شب بیداری کا اہتمام کیا۔ موسیقی بھی تھی اور دعوت کا انتظام بھی تھا۔ عارف منصور اور یارِ دیرینہ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ بھی ہمارے ساتھ مہمانوں میں شامل تھے۔
پُرنم صاحب اپنے کسی استاد یا بزرگ کی رحلت کا ذکر کرتے تو ’’پردہ فرما گئے‘‘ کا محاورہ استعمال کرتے۔
خانقاہ چھوڑ کر چلے گئے تو رئوف امیر نے ظریفانہ انداز میں بتایا کہ پُرنم صاحب پردہ فرما گئے۔ کبھی پتہ چلتا وہ کراچی گئے ہیں‘ کبھی کوئی لاہور کا بتاتا۔
آج پُرنم صاحب دنیا میں نہیں ہیں۔ پروفیسر رئوف امیر قازقستان یونیورسٹی میں اردو چیئر پر تعینات تھے۔ وہیں جان‘ جان آفریں کے سپرد کی۔ عارف منصور‘ وفاقی سیکرٹری لگے‘ عمرہ کرنے گئے‘ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان خوفناک حادثہ پیش آیا اور میاں بیوی کے خاکی جسد لوٹ کر آئے!
پُرنم الٰہ آبادی کے نام سے کم ہی لوگ آشنا ہیں مگر ان کی لکھی ہوئی دو شہرۂ آفاق قوالیوں سے شاید ہی کوئی ناآشنا ہوگا۔ ’’تاجدارِ حرم ہو نگاہ کرم‘‘ اور ’’بھر دو جھولی میری یا محمدؐ!‘‘ پُرنم صاحب کا ذکر اس لیے کرنا پڑا کہ ’’تاجدارِ حرم‘‘ پر بات کرنا تھی۔ یہ قوالی صابری برادران نے مدتوں پہلے گائی‘ اور یوں گائی کہ مقبولِ خاص و عام ہوئی۔ آج یہ ہمارے ثقافتی منظرنامے کا جزولاینفک ہے۔ قوالی کے بول اور صابری برادران کے نام آپس میں یوں خلط ملط ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہے‘ مگر حال ہی میں نوجوان سنگر عاطف اسلم نے اس قوالی (تاجدار ِ حرم) کو‘ کور (COVER) کی صورت میں گایا اور فضا میں ارتعاش پیدا کردیا۔ کیا عاطف اسلم اس شہرۂ آفاق قوالی اور اس کے لیجنڈری فنکاروں‘ صابری برادران سے انصاف کر سکے؟ غالباً نہیں!
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ موسیقی کی دنیا میں کوَر سانگ کیا ہوتا ہے۔ کسی مشہور نغمے کو‘ کوئی نیا فنکار دوبارہ گائے تواسے کوَر سانگ یا محض کوَر کہا جاتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوَر سانگ اصل نغمے سے زیادہ مقبول ہو جاتا ہے۔ یہ نام کیسے پڑا؟ موسیقی کے بہت سے مورخ اس ضمن میں اُس زمانے کا ذکر کرتے ہیں جب امریکہ میں نسلی امتیاز عروج پر تھا۔ کالوں کے ریڈیو سٹیشن الگ تھے اور گوروں کے الگ۔ موسیقی میں کالوں کا جواب نہیں تھا۔ جب کالے ریڈیو سٹیشن سے کوئی گیت ہٹ ہوتا تو سفید فام نوجوان اسے اپنے یعنی گورے ریڈیو سٹیشن سے سننا چاہتے۔ یوں میوزک کمپنی اصل گیت کا ’’کور‘‘ تیار کرتی جو سفید فاموں کے ریڈیو سٹیشن سے نشر ہوتا۔ دعویٰ یہ کیا جاتا کہ اس کا اصل سے کوئی تعلق نہیں! یوں چربہ سازی کو کوَر کا نام دے دیا گیا۔
کوَر گیت گانے کی عام طور پر تین وجوہ ہوتی ہیں‘ یا تو کسی شہرۂ آفاق سنگر کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے نئے آنے والے اُس کے گیت دوبارہ گاتے ہیں یا نئے فنکاروں کو پرانے گیتوں کا سہارا اس لیے لینا پڑتا ہے کہ منڈی میں ان کی مانگ زیادہ ہوتی ہے اور لوگ انہی کو سننا پسند کرتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض نئے فنکار گم شدہ گیتوں کو اپنی ذاتی پسند اور جذبے کی وجہ سے دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں اور یوں حال کے سننے والوں کو ماضی سے آگاہ کرتے ہیں۔
عاطف اسلم کے پاس غالباً دوسری وجہ تھی۔ یعنی ایک مقبول عام قوالی کو انہوں نے اس لیے گایا کہ اس کی طلب وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ بات بنی نہیں! مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی! خود عاطف اسلم کہتے ہیں کہ بیس منٹ کی قوالی کو آٹھ منٹ میں دوبارہ متشکل کرنا تھا۔ یہ مشکل کام تھا۔ پھر نئے بول‘ پرانے بولوں کے مقابلے میں کم حیثیت ہیں!یہ اور بات کہ نوجوان عاطف اسلم نے کم عمری میں معرکے کے گیت گائے ہیں اور دنیا بھر میں دھوم مچائی ہے ۔
صابری خاندان کے موجودہ چشم و چراغ امجد فرید صابری ہیں جو غلام فرید صابری کے فرزند اور مقبول احمد صابری کے بھتیجے ہیں۔ اس قوالی کی نقل پیش کرنے سے پہلے متعلقہ میوزک کمپنی نے ان سے اجازت لی؛ تاہم امجد نے عدم اطمینان کا اظہار بہت محتاط انداز میں کیا۔ ’’عاطف کی کارکردگی بری نہیں تھی؛ تاہم اُسے اپنے ڈِکشن پر مزید کام کرنا چاہیے تھا۔‘‘ اصل اشعار کے بجائے جو اشعار عاطف نے پیش کیے امجد صابری ان پر بھی زیادہ خوش نہیں ہیں! مشہور بھارتی فلم بجرنگی بھائی جان میں عدنان سمیع نے صابری برادران کی قوالی ’’بھر دو جھولی‘‘ امجد صابری کی اجازت کے بغیر گائی۔ اس پر امجد نے احتجاج کیا‘ اس حوالے سے وہ عاطف اسلم کو دیانتدار قرار دیتے ہیں!
اسی میوزک کمپنی نے کچھ کوَر گیت معرکہ آرا بھی پیش کیے ہیں۔ امیر خسرو کا شہرۂ آفاق گیت ؎
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے
مورا جوبن گروی رکھ لے
حدیقہ کیانی نے اس کامیابی سے گایا ہے کہ اس بھولے بسرے نغمے کو پھر سے زندہ کردیا ہے؛ تاہم جو کامیابی نوجوان علی سیٹھی نے ’’عمراں لنگیاں پباں بھار‘‘ گا کر حاصل کی ہے وہ مثالی ہے اور تاریخی بھی! علی سیٹھی نے انگریزی میں کالم نگاری کی۔ پھر ناول لکھا‘ پھر میوزک میں در آیا اور سماں باندھ دیا۔ اس سے پہلے اُس نے محبوب خزاں کی مشہور غزل ؎
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
گائی اور اُن سب کو پیچھے چھوڑ گیا‘ جنہوں نے اس غزل کو گایا ’’عمراں لنگیاں‘‘ کے آخر میں ایک اور نوجوان سنگر نبیل شوکت آ کر گیت میں شریک ہوتا ہے۔ یہ حصہ بھی خاصے کی چیز ہے اور ایک قابلِ تحسین جوت ہے۔ نبیل شوکت کی پرفارمنس زبردست ہے مگر یہ سب کچھ اسے وراثت میں ملا ہے۔ تعجب علی سیٹھی کی صلاحیت پر ہوتا ہے جس کے خاندانی پس منظر کا (غالباً) موسیقی سے کوئی تعلق بھی نہیں!
Subscribe to:
Posts (Atom)