Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, September 30, 2015

بے شرمی کا تاج اور ڈھٹائی کا تخت

یہ بحری جہاز کی سب سے نچلی منزل تھی۔ لنگوٹیاں باندھے ہوئے مرد اور نیم برہنہ عورتیں زنجیروں سے بندھی تھیں۔ ایک ایک زنجیر کئی افراد کو باندھنے کے لیے استعمال ہوئی تھی۔ یہیں وہ پاخانہ پیشاب کرتے تھے۔ یہیں قے کرتے تھے۔ کئی دن کے بعد ان میں سے کچھ کو کھولا جاتا اور صفائی کرائی جاتی۔ خوراک صرف اتنی ملتی کہ وہ مر نہ جائیں۔ پانی نپا تُلاہوتا۔
افریقہ کے ساحلوں سے یہ جہاز چلتے، مہینوں بعد امریکہ پہنچتے۔ وہاں منڈیاں لگتیں‘ نیلامیاں ہوتیں۔ عورتوں کو گاہک ٹٹول ٹٹول کر دیکھتے۔ مردوں کے بازو اور مَسل جانچے جاتے۔ پھر یہ غلام بڑے بڑے زمینداروں کی جاگیروں پر پہنچائے جاتے۔ کپاس‘ گنے اور تمباکو کے میلوں پر پھیلے کھیت! پو پھٹے سے اندھیرا چھا جانے تک یہ غلام سر جھکائے کام کرتے۔ سفید فام سپروائزر ہاتھوں میں کوڑے لیے ان کی نگرانی کرتے۔ دو غلام آپس میں بات کرتے پائے جاتے تو کوڑا ہوا میں لہراتا اور پشت پر گوشت تک اُدھڑ جاتا۔ غلام مرد اور غلام عورتیں آپس میں شادیاں کرتے۔ بچے ہو جاتے۔ پھر ایک دن شوہر فروخت کردیا جاتا اور سینکڑوں میل دور چلا جاتا۔ مرنے تک میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکتے۔ کالی عورتوں کا مالکوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھنا عام تھا۔ اتنا عام کہ اس کا ذکر تک کرنا ضروری نہیں تھا۔ جو بھاگنے کی کوشش کرتے، کتے انہیں سونگھ کر پکڑوا دیتے۔ پائوں کاٹ دیے جاتے یا کوڑوں کی سزا دوسرے غلاموں کے سامنے دی جاتی۔ یوں کہ اس کے بعد ساری زندگی وہ شخص چلنے کے قابل نہ رہتا۔
بحری جہازوں میں بھر کر لانے‘ منڈیوں میں بیچنے‘ کوڑے
 مارنے اور پائوں کاٹنے سے لے کر… بارک اوباما کے صدر بننے تک امریکی کالوں پر کئی دورگزرے۔ حالات آہستہ آہستہ بہتر ہوتے گئے۔ وہ زمانہ بھی تھا جب سکول‘ کالج‘ پارک‘ ریستوران‘ بسیں اور ٹرینیں‘ کالوں اور سفید فاموں کے لیے الگ الگ تھیں، یہاں تک کہ چرچ بھی رنگ کے اعتبار سے مخصوص تھے۔ مگر امریکی معاشرے کی حرکت پذیری دیکھیے کہ صرف 233 سال بعد زنجیروں میں بندھے‘ قے کرتے‘ کوڑے کھاتے‘ پائوں کٹواتے سیاہ فام افریقیوں کا بیٹا امریکہ کا صدر بن گیا! اگر دو سو سال پہلے کپاس کے کھیت میں کام کرتے کسی افریقی کو کوئی کہتا کہ تمہاری نسل سے ایک لڑکا اس ملک کا صدر بنے گا تو اس کا ردِعمل زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ ’’تمہارا دماغ خراب ہے۔ مجھے تو اگر صرف یہ گارنٹی مل جائے کہ مجھے یا میری بیوی کو یا میرے کسی بچے کو فروخت نہیں کیا جائے گا تو میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھوں گا!‘‘
انہونی ہو کر رہی۔ سلام ہے امریکی معاشرے کو کہ سیاہ فام شخص کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے صدارت کی مسند پر بٹھایا۔ ایک بار نہیں، دو بار!
اب ایک اور انہونی ہونے جا رہی ہے۔ امریکی ریاست منی سوٹا میں رہنے والے ایک بارہ سالہ امریکی مسلمان لڑکے یوسف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ امریکہ کا پہلا مسلمان صدر ہوگا۔ اس نے یہ دعویٰ بن کارسن کے جواب میں کیا۔ بن کارسن‘ جو ایک ریٹائرڈ نیوروسرجن ہے‘ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار ہے۔ بن کارسن نے پریس میں بیان دیا کہ وہ کسی مسلمان کو امریکی صدر بنانے کے حق میں نہیں ہے۔ بارہ سالہ یوسف نے بن کارسن کو چیلنج کیا‘ یوسف کی ویڈیو آناً فاناً پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اس نے بن کارسن کو مخاطب کرکے کہا کہ میں بچپن سے امریکی صدر بننے کا عزم رکھتا ہوں، مگر تم نے میرے خواب کو کرچی کرچی کرنے کی کوشش کی ہے۔ تمہیں اگر کہا جائے کہ تم سیاہ فام ہونے کی وجہ سے صدر نہیں بن سکتے تو تمہارا ردِعمل کیا ہوگا؟ یوسف نے کہا کہ ’’وہ سیاہ فام ہے اور مسلمان ہے۔ اگر سیاہ فام ہونے کی رکاوٹ ٹوٹ سکتی ہے تو مسلمان ہونے کی رکاوٹ بھی پاش پاش ہو سکتی ہے!‘‘
امریکی تاریخ پر غور کیا جائے تو یوسف کے دعویٰ کو مجذوب کی بڑ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یوسف یا کوئی اور مسلمان صدر بن جائے گا۔ مگر یوسف کا دعویٰ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں۔ ہم من حیث القوم اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہمارا ملک اسلام کا قلعہ ہے۔ دنیا میں اسلام کی نمائندگی کا مسئلہ کھڑا ہو تو ہم اپنے آپ کو سب سے آگے تصور کرتے ہیں‘ مگر کیا ہمارے ملک میں کسی ہاری‘ کسی موچی‘ کسی مزدور کا بیٹا وہی دعویٰ کر سکتا ہے جو یوسف نے کیا ہے؟
ہماری اصلیت کیا ہے؟ پولیس کے ریٹائرڈ اعلیٰ افسر ذوالفقار چیمہ نے چند ہفتے پہلے لکھا ہے: ’’دور سے ایک خوبصورت عمارت نظر آئی، ڈرائیور نے بتایا ڈیرہ بگٹی آگیا ہے اور یہ ڈگری کالج کی نئی عمارت ہے۔ چوکیدار گیٹ کے قریب بکریاں چراتا ہوا مل گیا۔ میں نے کہا: پرنسپل صاحب سے ملنا ہے‘ کہنے لگا: وہ تو کوئٹہ میں رہتے ہیں‘ کوئی اور ٹیچر ہوگا؟ کہنے لگا: سب اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا میں طلبہ سے ملنا چاہوں گا۔ اس نے کہا کہ یہاں کوئی طالب علم نہیں ہے۔ تو یہاں کیا ہے؟ کہنے لگا اس عمارت کے کلاس روموں میں نواب صاحب کا غلہ ذخیرہ ہوتا ہے اور ٹیچروں کو ان کے گھروں پر تنخواہیں پہنچ جاتی ہیں‘‘۔
آگے چل کر ذوالفقار چیمہ لکھتے ہیں: ’’ایک بار نواب بگٹی کے والد صاحب نئی رائفل چیک کرنے کے لیے حویلی کی چھت پر بیٹھے تھے تو انہوں نے اس کام کے لیے سب سے پہلے نظر آنے والے راہگیر کو منتخب فرمایا اور اس کے سر کو ٹارگٹ بننے کا اعزاز بخشا۔ مقتول کے ورثاء خاموش رہنے کے سوا کچھ بھی نہ کر سکے‘‘۔
یہ صدیوں پہلے نہیں‘ حال کا تذکرہ ہے۔ یہ صرف بلوچستان کی بات نہیں‘ پورے ملک میں بااثر افراد کے ڈیرے ہیں۔ ان میں سیاست دان بھی ہیں‘ جاگیردار بھی اور بڑے شہروں میں صنعت کار بھی اسی کلچر کو‘ ذرا رد و بدل کے ساتھ‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کسی ظالم کے خلاف عام شہری عدالت جائے تو اس کی سات نسلیں کانوں کو ہاتھ لگاتی ہیں۔ یہ عام شہری‘ وزیراعظم یا صدر بننے کا خواب تو دور کی بات ہے‘ مقامی کونسل کا انتخاب لڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
ہم لوگ یا تو ذہنی توازن سے محروم ہیں یا پرلے درجے کے بے شرم ہیں! پوری دنیا کو حقارت سے دیکھتے ہیں! ایک عام‘ نیم تعلیم یافتہ پاکستانی بھی‘ خارجہ امور پر اس قدر ’’خوداعتمادی‘‘ سے بات کرتا ہے اور دوسرے ملکوں پر اس طرح تنقید کرتا ہے جیسے وہ پوری دنیا کا ٹھیکیدار ہے! خوابوں‘ بشارتوں اور ضعیف روایتوں کا تانا بانا وسیع پیمانے پر بُن کر‘ پھر اسے پھیلا کر‘ پوری دنیا کو فتح کرنے کا خواب ہم دن رات دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ جذباتیت ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ بنیادی حقائق اور اعداد و شمار اپنے ملک کے بارے میں تو کیا اپنے صوبے کے بارے میں بھی معلوم نہیں! مردم شماری مدتوں سے نہیں ہوئی‘ سوئی اٹھارہ کروڑ پر اٹکی ہوئی ہے جس پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ لاکھوں نہیں‘ کروڑوں بچے بچیاں پرائمری سکول تک سے محروم ہیں۔ تحقیقی اور سائنسی ادارے خود اپنی حکومت کے آگے ہاتھ جوڑ رہے ہیں کہ ہماری زمین ہم سے چھین کر ہائوسنگ سوسائٹی کی نذر نہ کرو! اسمبلیوں کی نشستیں خاندانوں کے لیے مخصوص ہیں! یہ سارے شہتیر ہماری آنکھ کے ہیں مگر ہم بے شرمی کا تاج اوڑھے‘ ڈھٹائی کے تخت پر بیٹھے‘ دنیا بھر پر اپنی برتری کا رعب جھاڑتے ہیں!
مزدور کی بیٹی سعیدہ وارثی برطانیہ میں وزیر بن گئی۔ یوسف بھی امریکہ کا صدر بن جائے گا۔ مگر ہم؟

Wednesday, September 23, 2015

مٹی

دبئی میں مزدوری کرتے‘ شفٹیں بھگتاتے عمر ہی گزر گئی۔ روکھا ملا تو وہ کھا لیا۔ کبھی کچھ بھی نہ کھایا اور سو رہے۔ چارپائی بھی وہ جس پر کمرے میں رہنے والے دو افراد سوتے۔ جس کی ڈیوٹی نہ ہوتی سو جاتا۔ کبھی کفیل کی جھڑکیں سننا پڑتیں کبھی سیٹھ کی۔ یوں ایک عمر گزر گئی۔ خواب یہ تھا کہ اس ساری مشقت‘ اس لمبے بن باس کا بدلہ ملے گا۔ بچے پڑھ لکھ جائیں گے۔ ملک کے قابل فخر شہری بنیں گے۔ باپ کا نام روشن کریں گے۔ قوم کی خدمت کریں گے۔ یوں طویل مشقت کا میٹھا پھل ملے گا۔ بڑھاپا آرام سے کٹے گا اور اطمینان سے بھی! 
مگر آہ! خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا! ساری محنت مزدوری بیکار گئی۔ پردیس میں گزاری عمر کا پھل ملا مگر کڑوا۔ بیوی نے روپے کی ریل پیل دیکھی تو اللے تلوں پر خرچ کرنے لگی۔ زیورات اور ملبوسات پر اور کوٹھی کی پہلے تعمیر اور پھر آرائش پر بے تحاشا پیسہ خرچ کیا۔ بچوں کی تربیت و تعلیم اس بی بی کی ترجیحات میں ہی شامل نہ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچے لڑکپن میں آوارہ ہو گئے۔ نوجوانی آئی تو ساتھ خودسری لائی‘ اوباش دوست گھیرے رکھتے۔ دس گیارہ جماعتوں سے آگے ایک لڑکا بھی بڑھ نہ پایا۔ آہستہ آہستہ‘ مرحلہ وار‘ نشہ کرنا شروع کردیا۔ پھر جوئے کی باری آئی اور اس کے بعد وہ سب کچھ جو اس قسم کے نوجوان کرتے ہیں! 
وہ یہ سب کچھ دیکھتا مگر کیا کر سکتا تھا! آنسو کبھی نکل کر جھریوں بھرے رخساروں پر بہتے‘ کبھی اندر ہی اندر دل میں جذب ہو جاتے۔ ہاں ایک بات کا اُسے علم تھا اور اس پر پختہ یقین تھا کہ قدرت اسی کا ساتھ دے گی۔ ایک نہ ایک دن اس بے راہروی کا‘ اس ناشکری کا اس ناخلف اولاد کو حساب دینا ہوگا! 
شہید اسفند یار کی عظیم قربانی دیکھ کر بار بار اُس بوڑھے شخص کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے جو کئی سال پہلے جہاز میں ساتھ والی نشست پر بیٹھا اپنی زندگی کی وہ داستان سنا رہا تھا جو اوپر رقم ہوئی ہے۔ کچھ بقایاجات اور واجبات وصول کرنے وہ ایک بار پھر دبئی جا رہا تھا۔ ناخلف اولاد کا ذکر کر کے وہ رو بھی پڑا۔ مجھے دبئی سے دوسرے جہاز میں سوار ہو کر‘ کہیں اور جانا تھا۔ نہ جانے دل پر کیا سایہ سا لہرایا کہ مصافحہ کرنے کے بجائے رخصت ہوتے وقت اسے گلے سے لگا لیا اور عمر میں چھوٹا ہونے کے باوجود نصیحت نما فقرہ کہا کہ آپ کی محنت کی قدر نہ کرنے والے ایک نہ ایک دن نقصان اٹھائیں گے! 
اس ملک کی خاطر شہید ہونے والا ہر نوجوان‘ اس ملک کو آکسیجن کا ایک نیا سلنڈر عطا کرتا ہے۔ زندگی کی ایک نئی لِیز ملتی ہے۔ جو اسفند یار بھی اس مٹی کو لہو دیتا ہے‘ مٹی کو مزید زرخیز کر جاتا ہے۔ مگر کیا ہم اپنے اسفند یاروں کی قربانی کی قدر کر رہے ہیں؟ نہیں معلوم اس قسم کی کوئی روایت‘ کوئی سند ہے یا نہیں‘ مگر یوں لگتا ہے اسفند یار‘ جہاں بھی ہے‘ برزخ کے باغ میں ہے یا بہشت کے چمن زار میں‘ یا فرشتوں کے حصار میں‘ اپنے وطن کو دیکھ رہا ہے اور پریشان ہو رہا ہے کہ کیا اُس نے قربانی اس لیے دی تھی کہ وہ سب کچھ ہو‘ جو ہو رہا ہے؟ 
اسفند یار کا خاندان حکمران تھا نہ سرمایہ دار‘ کارخانہ دار‘ تھانہ جاگیردار‘ سیاسی تھانہ مذہب کے نام پر کاروبار کرنے والا۔ مگر جب وطن کی مٹی نے پکارا تو کسی حکمران کا خون بہا نہ کوئی صنعت کار آگے آیا‘ کسی جاگیردار نے اپنے بچے کا سینہ گولیوں کے سامنے رکھا نہ کسی سیاست دان نے قربانی دی نہ عوام سے مذہب کے نام پر روپے اکٹھے کر کے پرتعیش زندگی گزارنے والے کسی مولانا ہی نے مٹی کی پکار پر لبیک کہی۔ مڈل کلاس کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فیملی نے وطن کی پکار پر لبیک کہا اور اپنا لخت جگر پیش کردیا   ؎ 
کامل اس فرقۂ زُہّاد سے اٹھا نہ کوئی 
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے 
مگر اسفند یار جب بہشت کے دریچے سے نیچے جھانکتا ہے تو اپنے آنسو روک نہیں سکتا! کیا قربانی اس لیے دی تھی کہ لوٹ مار کا بازار گرم رہے؟ اخلاق و دیانت کی دھجیاں اڑیں؟ اور خلقِ خدا 
ناامیدی میں آسمان کی طرف دیکھے؟ یہ کیسا ملک ہے۔ کافر اپنی کرسمس پر اشیا کے نرخ اتنے کم کر دیتے ہیں کہ لوگ خریداری کے لیے پورا سال کرسمس کا انتظار کرتے ہیں۔ یہاں یہ حال ہے کہ جو قصاب گھر آ کر بکرے کو ذبح کرنے کے پانچ سو روپے لیتا تھا اب عید پر تین ہزار کا مطالبہ کر رہا ہے اور وہ بھی گاہک کو اپنے ہاں بلا کر! خدا کے نام پر قربانی کے موقع کو‘ کیا جانوروں کے بیوپاری اور کیا قصاب‘ سب تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں! اگر جانور عید کے دوسرے دن آدھی قیمت پر مل جاتا ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ عید سے پہلے ناجائز منافع خوری کے لیے قیمت کو بڑھایا گیا تھا جب کہ عید کے دوسرے تیسرے دن اُس سے آدھی قیمت پر بیچ کر بھی بیوپاری کو نقصان نہیں ہوا‘ فائدہ ہی ہوا! 
جس وطن کی مٹی کو اسفند یار۔ آہ وہ نوجوان خوش شکل اسفند یار۔ جس کی منگیتر نے تین ماہ بعد عروسی کا جوڑا پہننا تھا۔ جس کے گھر میں ڈھولک بجنا تھی‘ جس نے بھائیوں اور دوستوں کے جلو میں‘ پیلی چادر تلے‘ آہستہ آہستہ قدم رکھ کر‘ مہندی کی تقریب کو سجانا تھا‘ جس نے شملے والی پگ پہننا تھی‘ جس نے بچپن کے دوستوں کے ساتھ اپنے ولیمے کا کھانا کھانا تھا‘ جس نے عروسی کی شب اپنی دلہن کا گھونگھٹ الٹ کر اسے ایک مجاہد کا تابناک چہرہ دکھانا تھا‘ جس نے رونمائی میں اپنی چاند سی بیوی کو خوبصورت تحفہ دینا تھا‘ جس نے اپنے باپ کے سینے سے لگنا تھا۔ جس نے چمکتے رخسار پر ماں کا بوسہ لینا تھا… ہاں جس وطن کی مٹی کو اسی اسفند یار نے اپنے گرم‘ تازہ اور بے حد سرخ خون سے زرخیز کیا ہے‘ کیا اُس وطن کی مٹی اس قابل بھی نہیں کہ اُس پر سیاسی جماعتوں کے اجلاس ہو سکیں۔ کیا المیہ ہے کہ اسفند یار تو وطن پر قربان ہو رہے ہیں اور ہمارے سیاست دان اور حکمران‘ دوسرے ملکوں کو وطن بنا رہے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں۔ ہم نے آزادی حاصل کی تھی اس لیے کہ ہماری قسمت کے فیصلے لندن نہ ہوں مگر اب دبئی ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے سابق حکمران‘ اپنے وطن کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ اس میں رہیں۔ وہ اپنے نئے وطن کے شہزادے کی وفات کی تعزیت اپنے نئے وطن کے بادشاہ سے کرتے ہیں۔ کاش ہمارے سابق حکمران ایک دو نہیں‘ سارے سابق حکمران‘ اسفند یار کے گھر آ کر یہاں بھی تعزیت کرتے اس لیے کہ جو بے تحاشا مراعات یہ حضرات سابق حکمرانوں کی حیثیت میں حاصل کر رہے ہیں‘ وہ اسفند یاروں ہی کی مرہون منت ہیں۔ اگر اس سرخ مٹی پر اسفند یاروں کا لہو نہ گرے تو کون سی مراعات اور کون سا وطن؟ 
یہ شکوہ صرف سابق حکمرانوں سے نہیں‘ شہیدوں کی روح حاضر حکمرانوں کو بھی پکار پکار کر وارننگ دے رہی ہے کہ اپنے کاروبار لندن اور جدہ سے واپس لے آئو‘ یہی مٹی‘ تمہاری اپنی مٹی ہے جو کچھ ہے‘ اسی پر لگائو۔ یاد رکھو‘ پرائی مٹی پر دولت چھوڑ‘ اپنا آپ بھی قربان کر دو پھر بھی وہ تمہاری نہیں بنے گی! تمہاری مٹی یہی ہے! نوجوانوں کے خون جذب کرتی مٹی! سرخ مٹی! اپنی مٹی!

Monday, September 21, 2015

آئیے! اپنے آپ پر ہنسیں!


بڈھ بیر پر دہشت گردوںکے حملے نے ایک بارپھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ جنگ وہ روایتی جنگ نہیں جس میں قوم صرف اپنی فوج پر انحصار کرتی ہے۔ اس جنگ میں طبل جنگ ہے نہ میدان جنگ۔ اس جنگ کی کوئی سمت ہے نہ جہت! یہ مغرب مشرق شمال جنوب اوپر نیچے چھ جہتوں پر پھیلی ہوئی ہے۔
دہشت گردی کو روکنے کیلئے ہماری ’’منصوبہ بندی‘‘ پر دشمن تو دشمن دوست بھی ہنستے ہوں گے۔ اس شخص کی حماقت کا اندازہ لگائیے جس کے گھر پر حملے کا خطرہ ہے۔ اس نے چھت پر بھی بندوقچی بٹھائے ہوئے ہیں اور دروازے پر بھی پہریدار مامور کیا ہے مگر پشت پر چاردیواری کا ایک کونہ ٹوٹا ہوا ہے۔ یوں کہ اس سے ہر راہگیر اندرداخل ہوسکتا ہے۔ پھر اس شخص کی مزید حماقت دیکھیے۔ اس کے گھر کے اندر،ایک کمرے میں کچھ لوگ رہ رہے ہیں جو حملہ آوروں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ چاردیواری کے شکستہ حصے سے اندر آنے والے حملہ آور اس کمرے میں جب تک چاہیں چھپے رہ سکتے ہیں۔
آپ نائن الیون کو دیکھ لیجیے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے سب سے پہلے سرحدوں کو کنٹرول کیا اور یوں کنٹرول کیا کہ آج اگر وہ اعلان کریں کہ مکھی کا پر اندر نہیں آ سکے گا تو وہ ایسا کرکے دکھادیں گے اور مکھی کا پر جہاں سے بھی اندر لے جانے کی کوشش ہوگی ناکام ہو جائے گی۔ امریکیوں نے یہاں تک کیا کہ امریکہ کیلئے پرواز جس ملک سے اڑتی ہے، اس ملک میں ہی ساری چھان بین کرلیتے ہیں اور مسافروں کو جہاز پر سوار ہونے سے پہلے ہی سکیورٹی کے امریکی انتظامات کا ہدف ہونا پڑتا ہے۔ یہ اس چھان بین کے علاوہ ہے جو امریکہ میں اترنے پر ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکہ میں بہت واویلا کیا کہ جس قسم کا ڈیٹا امریکی شہریوں کے بارے میں اکٹھا کیا جا رہا ہے، اس سے پرائیویسی پر زد پڑ رہی ہےمگر امریکی ریاست نے اولین ترجیح اپنے شہریوں کی حفاظت کو دی۔ باہر سے آنے والا کسی ملک کا جرنیل تھا یا وزیر، کسی کو تلاشی سے استثنیٰ نہیں دیا۔ امریکہ کو بارہا دوسرے ملکوں سے اس ضمن میں معافیاں بھی مانگنا پڑیں مگر طے شدہ طریق کار سے انحراف نہیں ہوا۔
دو حقیقتیں ایسی ہیں جن سے ہم آنکھیں چُرا رہے ہیں اور انتہائی درجے کی لاپروائی کایاحماقت کاارتکاب کیے جا رہے ہیں۔ پہلی حقیقت افغان بارڈر ہے۔ افغان بارڈر وہ پیدائشی نقص ہے جوپاکستان بننے کے بعد پہلے دن سے چمٹا ہوا ہے۔ قیام پاکستان کا سب سے بڑا فائدہ جو بھارت کو ہوا، افغان بارڈر سے نجات تھی! ہم روزاول سے مغربی سرحد کی حد سے زیادہ پیچیدگی کا شکار ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اس حسرت کا اظہار کیا کہ کاش دونوں ملکوں کے درمیان ایک دیوار بن جائے۔ تین ہفتے پیشتر سپریم کورٹ آف پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ صرف طورخم بارڈر سے بیس ہزار افراد ہر روز قانونی کاغذات کے بغیر آ جا رہے ہیں۔ ایک معروف صحافی نے، جن کا اپنا تعلق بھی قبائلی علاقے سے ہے دو دن پہلے یہ تعداد تیس سے پچاس ہزار روزانہ بتائی ہے۔ چمن بارڈر اس کے علاوہ ہے مگر اصل مسئلہ سینکڑوں میل کی وہ بے چہرہ اوربے ہنگم سرحد ہے جو چترال سے لے کر جنوبی وزیرستان تک ہماری مغربی سمت کو خطرناک کیے ہوئے ہے۔ افغانستان میں برسراقتدار حکومت پاکستان کی دوست ہو یا دشمن، وہاں شمالی اتحاد کا راج ہو یا طالبان کاسرحد منظم ہونی چاہیے۔ یوں کہ قانونی دستاویزات کے بغیر کسی ایک فرد کا اندر آنا بھی ناممکن ہو۔ اگر افغان بارڈر اسی طرح رہا تو ہم اپنی آئندہ نسلوں کیلئے ایک غیرمحفوظ پاکستان چھوڑ کر جائیں گے۔ اس سرحد کو کس طرح قابو
(TAME) 
کیا جائے، یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ دیوار بنے یا خاردار تاریں لگیں یا بارود سے پہاڑ توڑے جائیں یا خندق کھودی جائے، اس کا فیصلہ ماہرین کریں گے۔ مگر اصولی طور پر پہلے مرحلے میں یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس بارڈر کو کنٹرول کرنا ہی ہوگاورنہ ہمارے اسفندیار شہید ہوتے رہیں گے اور ہم جنازے پڑھتے ہی رہیں گے!
دوسری حقیقت جو ہمارا منہ چڑا رہی ہے، دہشت گردوں کو ملک کے اندرملنے والی پناہ گاہوں سے متعلق ہے۔ یہاںنظریاتی حوالے سے بات نہیں ہو رہی، صرف ٹھوس اور برہنہ حقائق کی بات کی جا رہی ہے! گزشتہ سال جب واہگہ پر خودکش حملہ ہوا تو پریس میں یہ خبر کروڑوں پاکستانیوں نے پڑھیاور جو آج بھی ریکارڈ پر ہے کہ حملہ آوروں میں سے ایک یا ایک سے زیادہ رات کو کہاں ٹھہرے تھے!! نو ماہ ہوئے، وزیراعظم کے دفتر کی بغل سے، دارالحکومت کے وسط سے، داعش کو مدد کے لئے پکارا گیا۔ پاکستان کے طول و عرض میں ایسی لاکھوں چاردیواریاں ہیںجن پر حکومت کا کنٹرول ہےنہ وہاں پولیس ہی کا عمل دخل ہے۔ ان چاردیواریوں میں دہشت گردوں کے ہمدرد موجود ہیں۔ یہاں رہنے والوں کی وفاداریاں ایسے لیڈروں سے وابستہ ہیں  جن کے ڈانڈے منفی عناصر سے جا ملتے ہیں۔ ریاست کو بھی معلوم ہے، حکومت کو بھی، حکومتی محکموں کو بھی، حساس اداروں کو بھی، اور عوام کو بھی کہ دہشت گرد ملک کے اندر کہاں پناہ لیتے ہیں، کہاں چھپتے ہیں۔
جنرل عاصم باجوہ نے بڈھ بیر دہشت گردی پر تبصرہ کرتے ہوئے برملا کہا ہے کہ افغان مہاجرین ہمارے لئے سکیورٹی  رسک ہیں۔ دوسری طرف حیرت انگیز بات ہے کہ ان مہاجرین کو حال ہی میںدو سال مزید قیام کی توسیع بھی دے دی گئی ہے۔ یہ مہاجرین پاکستانی شناختی کارڈ اٹھائے پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں، بزنس کر رہے ہیں یہاںتک کہ لمبی چوڑی جائیدادیں خریدتے پھر رہے ہیں۔ یہ بازاروں ، منڈیوں، مارکیٹوں میںمقامی دکانداروں کو، اکثرو بیشتر، قتل کر دیتے ہیں۔ ایسے علاقے ملک کے طول و عرض میں، کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ جہاں افغانوں کی نہ صرف اکثریت ہے بلکہ مقامی آبادی کا وہاں گزربسر تک نہیں!
یہ عجیب ملک ہے جہاں فوج کے افسر اور نوجوان ہر روزشہید ہو رہے ہیں، سول آبادی دہشت گردی کا نشانہ بن رہی ہے مگر بارڈر کھلے ہیں، غیر ملکی کسی روک ٹوک کے بغیر کراچی سے گلگت تک آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں اور لاکھوں چاردیواریاں ایسی ہیں جہاں کوئی بھی پناہ لے سکتا ہے!
ہماری عقل مندی کے کیا کہنے! ہم وہ پودے کاٹ رہے ہیںجو پولن الرجی پھیلانے کا سبب بنتے ہیںمگر وہ نرسریاں بدستورقائم ہیںاور پھل پھول رہی ہیں جہاں سے یہ پودے نکل رہے ہیں، ہم بازاروں سے وہ اشیاء پکڑ رہے ہیں جو مہلک ہیں مگر وہ فیکٹریاں جن میں یہ اشیاء تیار ہو رہی ہیں، برابر چل رہی ہیں۔ رات دن چل رہی ہیں۔ اور ان فیکٹریوں کے علمبردار نہ صرف معززین میں شمار ہوتے ہیں، حکمران ان سے ہنس ہنس کر معانقے اور مصافحے بھی کرتے ہیں۔ حفیظ جالندھری نے شاید اسی صورت حال پر کہا تھا:
شیروں کو آزادی ہے
آزادی کے پابند رہیں
جس کو چاہیں چیریں پھاڑیں
کھائیں پئیں آنند رہیں
سانپوں کو آزادی ہے
ہر بستے گھر میں بسنے کی
ان کے سر میں زہر بھی ہے
اور عادت بھی ہے ڈسنے کی
شاہیں کو آزادی ہے
آزادی سے پرواز کرے
ننھی منی چڑیوں پر
جب چاہے مشق ناز کرے
پانی میں آزادی ہے
گھڑیالوں اور نہنگوں کو
جیسے چاہیں پالیں پوسیں

اپنی تند امنگوں کو!
 

powered by worldwanders.com