Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, June 20, 2015

حدود کا تعین

تم آئے ہو۔ اہلاً و سہلاً ۔ میری خوش بختی ہے کہ ایک بار پھر تمہارا استقبال کر رہا ہوں۔ تمہاری تشریف آوری میرے لیے برکت‘ سعادت اور اعزاز کا باعث ہے۔ 
تمہاری آمد پر میں نے اپنے شب و روز کا سارا نظام تبدیل کر لیا ہے۔ صرف میں ہی نہیں‘ میری بیوی بچے‘ میرے ملازم‘ میرے ملاقاتی‘ سب کا اٹھنا بیٹھنا‘ سونا جاگنا‘ کھانا پینا‘ تمہارے گرد گھوم رہا ہے۔ تمہارے آنے کی خوشی میں ہم صبح صادق سے پہلے اٹھ بیٹھتے ہیں۔ نوافل ادا کرتے ہیں پھر سحری کھاتے ہیں۔ صبح کی نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ پھر ہم سب گھر والے کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ میرا ایک بچہ تو اس قدر خوش الحانی سے مقدس آیات کی تلاوت کرتا ہے کہ سننے والوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
جب تک تمہارا قیام ہے‘ ہم اشراق اور چاشت کے نوافل بھی ادا کر رہے ہیں۔ ظہر کے وقت میں اپنا کارخانہ بند کر دیتا ہوں۔ فیکٹری کی مسجد نمازیوں سے چھلک اٹھتی ہے۔ غریب خانے سے ہر شام چالیس پچاس روزہ داروں کے لیے افطاری محلے کے مسجد میں بھیجی جاتی ہے۔ پورا گھرانہ تراویح کی نماز باجماعت ادا کرتا ہے۔ مہینے کے آخر میں جب ختم قرآن کی تقریب ہوتی ہے‘ تو حافظ صاحب اور سامع کے لیے نئے ملبوسات اور بہت مناسب اعزازیہ میری طرف ہی سے پیش کیاجاتا ہے۔ آخری تین دنوں میں شبینہ کا انتظام میں ہی کرتا ہوں۔ دور و اطراف سے قاری حضرات تشریف لاتے ہیں اور تین راتوں میں ایک اور ختم کلام پاک کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔
میں اور میرے اہل خانہ تمہاری آمد پرہر سال کوشش کرتے ہیں کہ عمرہ پر جائیں۔ اگر کسی سال مصروفیات کی وجہ سے ہم خود نہ جا سکیں تو کسی مستحق جوڑے کو اپنی جگہ بھیجتے ہیں اور اس کے تمام اخراجات ادا کرتے ہیں۔ ہر جمعرات کو پلائو‘ قورمے ‘ زردے کی دیگیں پکوا کر مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں۔ علمائے کرام کی خدمت بھی ہم اپنا شرف سمجھتے ہیں۔ بڑے بڑے نامی گرامی علمائے کرام میرے گھر قیام فرماتے ہیں۔ ان کے لیے ہمارے ریفریجریٹر کوکا کولا‘ سیون اپ اور دیگر مشروبات سے بھرے رہتے ہیں۔ ہم انہیں بہترین کھانے پیش کرتے ہیں۔ لگژری گاڑیاں‘ ڈرائیوروں کے ساتھ ان کے استعمال کے لیے مختص کر دیتے ہیں ۔ جب وہ رخصت ہوتے ہیں تو بیش قیمت تحائف ان کے اہل و عیال کے لیے ساتھ کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ جو میں نے گنوایا ہے‘ اس لیے نہیں گنوایا کہ احسان جتائوں۔ واللہ! باللہ! ایسا کوئی شائبہ تک میرے ذہن میں نہیں ! میں تو یہ سب تحدیث نعمت کے لیے بیان کر رہا ہوں۔ الحمد للہ ! ماشاء اللہ ! یہ میری اور میرے اہل خانہ کی سعادت مندی ہے کہ تمہاری آمد پر ہر سال میں اپنے نامہ اعمال میں کچھ نہ کچھ لکھو ا لیتا ہوں۔ 
مگر مہمان گرامی! یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مہمان جتنا بھی معزز ہو‘ آخر مہمان ہی ہوتا ہے۔ وہ گھر کا مالک نہیں بن جاتا۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ مندرجہ بالا مہمان نوازیوں اور خدمات کے باوجود تم خوش نہیں ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میری نمازوں‘ تراویح ‘ روزوں‘ افطاریوں‘ عمروں‘ دیگوں اور صدقات و خیرات سے تم مطمئن ہوتے‘ میری تعریف کرتے اور وعدہ کرتے کہ روز حشر میری خدمات کی گواہی دے کر میرے کام آئو گے مگر تم مجھ سے وہ کچھ کروانے کے درپے ہو‘ جو میں تمہاری تشریف آوری کے دائرے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری آمد پر مارکیٹ میں اشیائے ضروری کی قیمتوں میں اضافہ نہ کروں۔ معزز مہمان! یہ نہیں ہو سکتا! یہ کاروبار کا مسئلہ ہے اور تمہیں چاہیے کہ بزنس کی باریکیوں میں دخل نہ دو۔ تمہاری آمد پر عوام کے معمولات زندگی میں جو تبدیلی آتی ہے اس سے کچھ اشیاء کی خریداری ان کے لیے لازمی ہو جاتی ہے۔ سحری اور افطاری کا سامان انہوں نے خریدنا ہی خریدنا ہے۔ عید کے لیے بچوں کے ملبوسات اور جوتے لینے ہی لینے ہیں۔ اس سنہری موقع سے فائدہ نہ اٹھایا جائے تو مجھے بزنس مین کون کہے گا؟ یہی تو وہ مواقع ہیں جن سے لکھ پتی‘ کروڑ پتی اور کروڑ پتی‘ ارب پتی بن جاتے ہیں۔ معاف کرنا اس ضمن میں تمہارا کہا نہیں مان سکتا۔
تم کہتے ہو جھوٹ نہ بولوں۔ اب اگر گاہک جو بھی قیمت تجویز کرے‘ میں اس کے جواب میں یہ نہ کہوں کہ یہ تو میری خرید بھی نہیں‘ تو تم ہی بتائو‘ سودا کیسے بکے گا۔ اگر جھوٹی گارنٹی نہ دوں‘ اگر یہ دعویٰ نہ کروں کہ اس مال کی کوئی شکایت نہیں آئی تو ظاہر ہے سیل کم ہو جائے گی۔ تم کہتے ہو‘ وعدہ خلافی نہ کروں۔ لیکن تم یہ نہیں سمجھتے کہ یہ اچھی زندگی گزارنے کا بہترین فارمولا ہے۔ اگر کسی رقم کی ادائیگی کا وعدہ کل کاہے‘ تو چند دن‘ یا چند ہفتے‘ یا چند مہینے تاخیر کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر میں گھر یا دکان میں بیٹھ کر کسی کو کہتا ہوں کہ آ رہا ہوں‘ راستے میں ہوں‘ تو اس سے تمہاری صحت پر کیا فرق پڑتا ہے؟ تم کہتے ہو ٹیکس جتنا بنتا ہے اتنا ادا کروں۔ رشوت نہ دوں۔ دُہرے دُہرے رجسٹر اور کیش بُکیں نہ رکھوں‘ آلات جراحی اور ادویات فروخت کرنے کے لیے ہسپتال کے ہر نئے ڈاکٹر کو نئی گاڑی نہ پیش کروں۔ جہازوں کے ٹکٹ بیچنے کے لیے سفارت خانوں اور سرکاری دفاتر کے عملے کو شراب کی پارٹیاں نہ دوں۔ ٹینڈر کھولنے والے ارباب اختیار کی بیگمات کو شاپنگ نہ کرائوں‘ الیکشن کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے پارٹی کو رشوت ڈونیشن کی صورت میں نہ دوں‘ ممنوعہ سامان لانے پر کسٹم والوں کو ہدیے نہ پیش کروں‘ جعلی پاسپورٹ نہ بنوائوں‘ کاریں چوری کروا کر بھتے نہ لوں‘ اغوا برائے تاوان کا کاروبار چھوڑ دوں‘ متنازعہ زمینوں پر قبضے نہ کروں‘ بیرون ملک رہنے والوں کی جائیدادیں نہ ہتھیائوں‘ سرکاری اداروں کو غیر معیاری مال نہ سپلائی کروں۔ شاہراہیں تعمیر کرتے وقت اوپر حصے نہ پہنچائوں‘ سرکاری عمارتوں کی تعمیر میں وہی میٹریل استعمال کروں جو کاغذات میں درج ہوتا ہے۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے گھروں کے اخراجات نہ ادا کروں‘ تو یہ تمہارے سارے مطالبات دخل در معقولات کی تعریف میں آتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ۔ تم کہتے ہو کہ غیر مسلم ملکوں میں تمہاری ہدایات پر سارا سال عمل ہوتا ہے‘ تو پھر میری تجویز ہے کہ تم اپنا سالانہ پھیرا وہیں کا لگا لیا کرو۔ میں تو تمہارے لیے جو کچھ کر سکتا ہوں‘ کر رہا ہوں‘ اس سے زیادہ کر سکتا ہوں نہ میرے بس میں ہے اور اگر بزرگان دین کو اعتراض نہیں تو تم کیوں پریشان ہوتے ہو۔ اچھا باقی باتیں پھر ہوں گی۔ اذان ہو چکی ہے ۔ مسجد جانا ہے نماز باجماعت سے محروم نہ رہ جائوں۔

1 comment:

کوثر بیگ said...

واہ بہت عمدگی سے وہ ساری باتیں بتادی جن پر ہم عمل نہیں کرتے جو کہ روزہ کا اصل مقصد ہے ۔بہت اچھا انداز ہے لکھنے کا ۔اللہ جزائے خیر دے

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com