Monday, June 29, 2015
Friday, June 26, 2015
Wednesday, June 24, 2015
چراغ تلے
یہ کوالالمپور تھا۔ پوری دنیا سے ممتاز سکالر آئے ہوئے تھے۔ لندن سے لے کر قاہرہ تک‘ اردن سے لے کر مراکش تک اور برونائی سے لے کر ریاض اور خرطوم تک کے علوم و فنون کے ماہرین جمع تھے۔ تقریب کا مقصد سوشل سائنسز‘ میڈیکل کے علوم اور سائنس اور ٹیکنالوجی کو اسلامی دنیا کے حوالے سے زیر بحث لانا تھا۔ اس حوالے سے یہ پہلی بین الاقوامی کانگرس تھی۔ میزبانی کا شرف ملائیشیا کو ملا تھا۔
اس انتہائی اہم عالمی فورم میں کلیدی خطاب کرنے کی دعوت جس سکالر کو دی گئی تھی اس کا تعلق پاکستان سے تھا۔ یہ اور بات اہل پاکستان میں سے کم‘ بہت ہی کم‘ افراد کو معلوم ہوگا کہ یہ اعزاز ان کے ملک کو ملا ہے۔
محمد اکرم خان اقتصادیات کے شعبے میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے عالم ہیں۔ چار عشروں سے مستقل مزاجی کے ساتھ اس میدان میں کام کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مغربی دنیا کے سکالر ان کے نام سے بخوبی آشنا ہیں اور اقتصادیات پر اسلامی حوالے سے جہاں بھی کوئی مباحثہ ہو یا کانفرنس‘ اکرم خان کو ضرور مدعو کیا جاتا ہے۔ چراغ تلے اندھیرا‘ گھر میں یہ مرغی دال برابر ہے۔ ہمارے ہاں‘ یوں بھی انتھک اور بے غرض محنت‘ بالخصوص تخلیقی میدان میں کام کرنے والوں کی پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بقول شاعر ؎
اے رے چراغ پہ جھکنے والے! یوں ماتھا نہ جلا اپنا
یہ وہ عہد ہے جس میں کسی کو دادِ ہُنر معلوم نہیں
ہاں‘ وہ حضرات جو پی آر کے ماہر ہیں‘ وہ اور ان کے مربی کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ امرِ محال (Paradox)
یہ ہے کہ ایک سنجیدہ اور متین سکالر کو پی آر میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ پی آر کا خمیر اور اخلاص سے کام کرنے کا مادہ… دونوں ایک انسان میں یکجا ہو بھی نہیں سکتے!
سول سروس کے ایک اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہو کر اکرم خان اقوامِ متحدہ میں چلے گئے اور کئی ملکوں میں فرائض سرانجام دیتے رہے۔ مگر افتادِ طبع اور پائی تھی ؎
بہائو کی سمت آبجو کے اسی کنارے
اک اور تصویر راستہ میرا تک رہی تھی
چار عشروں سے اقتصادیات میں تخلیقی اور تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ 35 تصانیف برطانیہ‘ کویت‘ سعودی عرب اور پاکستان سے شائع ہو چکی ہیں۔ سو سے زیادہ مقالات‘ انسائیکلو پیڈیا آف اسلامک اکنامکس لندن‘ امریکن جرنل آف سوشل سائنسز اور دیگر بین الاقوامی جرائد میں چھپ کر اہلِ علم سے داد وصول کر چکے ہیں۔ اسلامی اقتصادیات کو اس معیار کی سوشل سائنس ثابت کرنے میں انہوں نے بے پناہ محنت کی جس معیار پر سوشل سائنس کی دوسری شاخوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر اکرم خان کا اصل کارنامہ اُن کی تازہ ترین تصنیف ہے جس نے ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے سمندر میں غضب کا ارتعاش پیدا کیا ہے۔ اس معرکہ آرا کتاب کا عنوان ہے
What is wrong with Islamic economics?
اسے برطانیہ کے ممتاز اشاعتی ادارے ایڈورڈ ایلگر نے شائع کیا ہے۔ تصنیف کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے میدان میں کہاں کہاں ٹھوکر کھائی گئی ہے اور کیا وجہ ہے کہ یہ موضوع اب تک تسلیم شدہ مقام نہیں حاصل کر سکا۔ مثلاً اسلامی فلسفہ اور اسلامی قانون‘ علوم کی وہ شاخیں ہیں جو مغرب و مشرق میں اپنی آزاد اور الگ حیثیت منوا چکی ہیں۔ ایسا ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے ساتھ نہ ہو سکا۔ یہ تصنیف اکرم خان کے فکری ارتقا کا کارنامہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں… ’’یہ کتاب اپنے محاسبے اور اپنے آپ پر تنقید کی کوشش ہے۔ میں گزشتہ چار عشروں سے ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کو علم کی ایک الگ شاخ منوانے کے لیے سوچتا رہا ہوں‘ لکھتا رہا ہوں اور وکالت کرتا رہا ہوں؛ تاہم گزشتہ ایک دہائی سے میری سوچ‘ آہستہ آہستہ‘ تبدیل ہوتی گئی‘‘۔ آگے چل کر وہ مزید وضاحت کرتے ہیں… ’’میرا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے طور پر جتنا کام کیا گیا ہے وہ حرفِ غلط ہے۔ میری تنقید کا ہدف یہ ہے کہ ہم ایک مخصوص دائرے سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں تاکہ اقتصادیات کے بارے میں اسلام کا پیغام ہم عصر معیشت دانوں کی زیادہ بڑی تعداد تک پہنچ سکے‘‘۔
اکرم خان نقطۂ آغاز کے طور پر بتاتے ہیں کہ بدلتے ہوئے حالات‘ بالخصوص غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد پہنچنے کی وجہ سے‘ مسلم دانشور اور علماء صدیوں سے قائم مذہبی‘ فقہی اور ثقافتی نظریات پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مثلاً اب تک قانون یہ ہے کہ ایک غیر مسلم عورت اگر اسلام قبول کرے تو اس کا غیر مسلم شوہر سے تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ مگر ’’یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ‘‘ نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا ہے کہ ایسا کرنے سے اُن عورتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جو اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں۔ اس بات کا کافی امکان ہوتا ہے کہ مسلمان ہو جانے والی عورت کا شوہر بھی کچھ عرصہ بعد اسلام قبول کر لے مگر فوری طور پر علیحدہ ہو جانے سے ایسے شوہر بھی اسلام سے دور ہی رہیں گے۔ مشہور سوڈانی عالم دین حسن ترابی‘ جنہوں نے اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پورے عالم اسلام میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اس مسئلے میں یورپی کونسل آف فتویٰ کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں!
اکرم خان کی یہ تصنیف اپنے موضوع پر ایک جامع اور بے مثال تحقیق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ اس حوالے سے علم کا خزانہ ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ مصنف بغیر کسی تعصب کے‘ بغیر کسی طے شدہ نتیجہ کے‘ اسلامی اکنامکس‘ رِبا‘ اسلامی بینکنگ‘ اسلامی مالیات‘ زکوٰۃ اور دوسرے متعلقات پر بے لاگ محاکمہ کرتے جاتے ہیں۔ وہ نہ روایتی علما کے نکتۂ نظر سے مطمئن ہیں اور نہ ہی رِبا کی ’’مقبولِ عام‘‘ تشریح کرنے والے جدت پسندوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ سچ کی تلاش میں وہ اپنے شائع شدہ نظریات پر بھی بے رحم تنقید کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ وہ مثالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلامی اقتصادیات پر زیادہ تر کام ’’دینیات‘‘ سے مماثل ہے اور سائنسی بنیادوں پر نہیں کیا جا سکا۔ اصل سوال جو وہ اٹھاتے ہیں یہ ہے کہ ’’رِبا‘‘ کو صرف قرض تک محدود کیوں نہیں رکھا جا رہا؟ یہاں وہ قرض اور سرمایہ کاری میں فرق کرتے ہیں۔ قرض دینے والے کو جو اضافی رقم دی جائے گی وہ یقینا رِبا ہے۔ لیکن کاروبار کرنے والا شخص اگر کسی سے رقم سرمایہ کاری کے طور پر لیتا ہے تو اس سرمایہ کاری کے ساتھ قرض والا سلوک کیسے روا رکھا جا سکتا ہے؟ قرض اور سرمایہ کاری کے درمیان اور قرض اور فنانسنگ کے درمیان جو بعدالمشرقین ہے اکرم خان اُس پر دلائل اور ا عداد و شمار کے ساتھ طویل بحث کرتے ہیں اور جدید معیشتوں سے مثالیں بھی دیتے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بینکاری نے روایتی بینکاری ہی کو برقرار رکھا ہے اور صرف نام بدل دیے ہیں۔ مکان خریدنے کے لیے جو شخص عام بینک سے قرض لیتا ہے وہ سود ادا کرتا ہے مگر جو اسلامی بینک سے قرض لیتا ہے وہ سود سے بھی زیادہ ادائیگی کر رہا ہے مگر اس کا نام سود ہے نہ رِبا نہ انٹرسٹ بلکہ ’’کرایہ میں شرکت‘‘ ہے۔ اسلامی بینکوں سے جو افراد قرضہ لیتے ہیں ان سے کاغذات کے ایک بے پایاں انبار پر دستخط کروائے جاتے ہیں جنہیں پڑھنا اور سمجھنا ننانوے فیصد سائلین کے لیے ناممکن ہے۔ جب ادائیگی کا وقت آتا ہے تو یہ خبر دی جاتی ہے کہ آپ فلاں شرط بھی مان چکے ہیں اور فلاں ادائیگی کے وعدے پر بھی دستخط کر چکے ہیں! گویا بوتل میں پانی وہی ہے۔ صرف لیبل مختلف ہے۔ سود کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مقروض کی کھال اتر جاتی ہے۔ اسلامی بینکاری میں بھی مقروض سے کم و بیش یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ روایتی علما کا یہ اصرار کہ نظام بالکل وہ ہو جو ابتدائے اسلام میں تھا‘ اسلام کے حق میں نہیں جاتا۔ اس لیے کہ آج کے تقاضے‘ آج کے حالات اور آج کی حقیقتیں یکسر مختلف ہیں۔ آج بنیادی اصول وہی رہیں گے جو اسلام نے نافذ کیے ہیں مگر جدید معاشرے کی ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے گا!
اسی کتاب کا دنیا بھر کے ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے سنجیدہ طالب علم مطالعہ کر رہے ہیں۔ اس پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ریویو شائع ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا اردو زبان میں ترجمہ کیا جائے تاکہ سنجیدہ پاکستانی علما اور سکالر بھی اس تک رسائی حاصل کر سکیں اور مصنف سے اتفاق یا اختلاف کر سکیں۔ یاد رہے کہ اس قبیل کے مسائل میں اختلاف ناگزیر ہے اور آگے بڑھنے کے لیے اختلاف رکاوٹ نہیں بنتا‘ سیڑھی کا کام دیتا ہے۔
Monday, June 22, 2015
Saturday, June 20, 2015
حدود کا تعین
تم آئے ہو۔ اہلاً و سہلاً ۔ میری خوش بختی ہے کہ ایک بار پھر تمہارا استقبال کر رہا ہوں۔ تمہاری تشریف آوری میرے لیے برکت‘ سعادت اور اعزاز کا باعث ہے۔
تمہاری آمد پر میں نے اپنے شب و روز کا سارا نظام تبدیل کر لیا ہے۔ صرف میں ہی نہیں‘ میری بیوی بچے‘ میرے ملازم‘ میرے ملاقاتی‘ سب کا اٹھنا بیٹھنا‘ سونا جاگنا‘ کھانا پینا‘ تمہارے گرد گھوم رہا ہے۔ تمہارے آنے کی خوشی میں ہم صبح صادق سے پہلے اٹھ بیٹھتے ہیں۔ نوافل ادا کرتے ہیں پھر سحری کھاتے ہیں۔ صبح کی نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ پھر ہم سب گھر والے کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ میرا ایک بچہ تو اس قدر خوش الحانی سے مقدس آیات کی تلاوت کرتا ہے کہ سننے والوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
جب تک تمہارا قیام ہے‘ ہم اشراق اور چاشت کے نوافل بھی ادا کر رہے ہیں۔ ظہر کے وقت میں اپنا کارخانہ بند کر دیتا ہوں۔ فیکٹری کی مسجد نمازیوں سے چھلک اٹھتی ہے۔ غریب خانے سے ہر شام چالیس پچاس روزہ داروں کے لیے افطاری محلے کے مسجد میں بھیجی جاتی ہے۔ پورا گھرانہ تراویح کی نماز باجماعت ادا کرتا ہے۔ مہینے کے آخر میں جب ختم قرآن کی تقریب ہوتی ہے‘ تو حافظ صاحب اور سامع کے لیے نئے ملبوسات اور بہت مناسب اعزازیہ میری طرف ہی سے پیش کیاجاتا ہے۔ آخری تین دنوں میں شبینہ کا انتظام میں ہی کرتا ہوں۔ دور و اطراف سے قاری حضرات تشریف لاتے ہیں اور تین راتوں میں ایک اور ختم کلام پاک کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔
میں اور میرے اہل خانہ تمہاری آمد پرہر سال کوشش کرتے ہیں کہ عمرہ پر جائیں۔ اگر کسی سال مصروفیات کی وجہ سے ہم خود نہ جا سکیں تو کسی مستحق جوڑے کو اپنی جگہ بھیجتے ہیں اور اس کے تمام اخراجات ادا کرتے ہیں۔ ہر جمعرات کو پلائو‘ قورمے ‘ زردے کی دیگیں پکوا کر مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں۔ علمائے کرام کی خدمت بھی ہم اپنا شرف سمجھتے ہیں۔ بڑے بڑے نامی گرامی علمائے کرام میرے گھر قیام فرماتے ہیں۔ ان کے لیے ہمارے ریفریجریٹر کوکا کولا‘ سیون اپ اور دیگر مشروبات سے بھرے رہتے ہیں۔ ہم انہیں بہترین کھانے پیش کرتے ہیں۔ لگژری گاڑیاں‘ ڈرائیوروں کے ساتھ ان کے استعمال کے لیے مختص کر دیتے ہیں ۔ جب وہ رخصت ہوتے ہیں تو بیش قیمت تحائف ان کے اہل و عیال کے لیے ساتھ کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ جو میں نے گنوایا ہے‘ اس لیے نہیں گنوایا کہ احسان جتائوں۔ واللہ! باللہ! ایسا کوئی شائبہ تک میرے ذہن میں نہیں ! میں تو یہ سب تحدیث نعمت کے لیے بیان کر رہا ہوں۔ الحمد للہ ! ماشاء اللہ ! یہ میری اور میرے اہل خانہ کی سعادت مندی ہے کہ تمہاری آمد پر ہر سال میں اپنے نامہ اعمال میں کچھ نہ کچھ لکھو ا لیتا ہوں۔
مگر مہمان گرامی! یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مہمان جتنا بھی معزز ہو‘ آخر مہمان ہی ہوتا ہے۔ وہ گھر کا مالک نہیں بن جاتا۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ مندرجہ بالا مہمان نوازیوں اور خدمات کے باوجود تم خوش نہیں ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میری نمازوں‘ تراویح ‘ روزوں‘ افطاریوں‘ عمروں‘ دیگوں اور صدقات و خیرات سے تم مطمئن ہوتے‘ میری تعریف کرتے اور وعدہ کرتے کہ روز حشر میری خدمات کی گواہی دے کر میرے کام آئو گے مگر تم مجھ سے وہ کچھ کروانے کے درپے ہو‘ جو میں تمہاری تشریف آوری کے دائرے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری آمد پر مارکیٹ میں اشیائے ضروری کی قیمتوں میں اضافہ نہ کروں۔ معزز مہمان! یہ نہیں ہو سکتا! یہ کاروبار کا مسئلہ ہے اور تمہیں چاہیے کہ بزنس کی باریکیوں میں دخل نہ دو۔ تمہاری آمد پر عوام کے معمولات زندگی میں جو تبدیلی آتی ہے اس سے کچھ اشیاء کی خریداری ان کے لیے لازمی ہو جاتی ہے۔ سحری اور افطاری کا سامان انہوں نے خریدنا ہی خریدنا ہے۔ عید کے لیے بچوں کے ملبوسات اور جوتے لینے ہی لینے ہیں۔ اس سنہری موقع سے فائدہ نہ اٹھایا جائے تو مجھے بزنس مین کون کہے گا؟ یہی تو وہ مواقع ہیں جن سے لکھ پتی‘ کروڑ پتی اور کروڑ پتی‘ ارب پتی بن جاتے ہیں۔ معاف کرنا اس ضمن میں تمہارا کہا نہیں مان سکتا۔
تم کہتے ہو جھوٹ نہ بولوں۔ اب اگر گاہک جو بھی قیمت تجویز کرے‘ میں اس کے جواب میں یہ نہ کہوں کہ یہ تو میری خرید بھی نہیں‘ تو تم ہی بتائو‘ سودا کیسے بکے گا۔ اگر جھوٹی گارنٹی نہ دوں‘ اگر یہ دعویٰ نہ کروں کہ اس مال کی کوئی شکایت نہیں آئی تو ظاہر ہے سیل کم ہو جائے گی۔ تم کہتے ہو‘ وعدہ خلافی نہ کروں۔ لیکن تم یہ نہیں سمجھتے کہ یہ اچھی زندگی گزارنے کا بہترین فارمولا ہے۔ اگر کسی رقم کی ادائیگی کا وعدہ کل کاہے‘ تو چند دن‘ یا چند ہفتے‘ یا چند مہینے تاخیر کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر میں گھر یا دکان میں بیٹھ کر کسی کو کہتا ہوں کہ آ رہا ہوں‘ راستے میں ہوں‘ تو اس سے تمہاری صحت پر کیا فرق پڑتا ہے؟ تم کہتے ہو ٹیکس جتنا بنتا ہے اتنا ادا کروں۔ رشوت نہ دوں۔ دُہرے دُہرے رجسٹر اور کیش بُکیں نہ رکھوں‘ آلات جراحی اور ادویات فروخت کرنے کے لیے ہسپتال کے ہر نئے ڈاکٹر کو نئی گاڑی نہ پیش کروں۔ جہازوں کے ٹکٹ بیچنے کے لیے سفارت خانوں اور سرکاری دفاتر کے عملے کو شراب کی پارٹیاں نہ دوں۔ ٹینڈر کھولنے والے ارباب اختیار کی بیگمات کو شاپنگ نہ کرائوں‘ الیکشن کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے پارٹی کو رشوت ڈونیشن کی صورت میں نہ دوں‘ ممنوعہ سامان لانے پر کسٹم والوں کو ہدیے نہ پیش کروں‘ جعلی پاسپورٹ نہ بنوائوں‘ کاریں چوری کروا کر بھتے نہ لوں‘ اغوا برائے تاوان کا کاروبار چھوڑ دوں‘ متنازعہ زمینوں پر قبضے نہ کروں‘ بیرون ملک رہنے والوں کی جائیدادیں نہ ہتھیائوں‘ سرکاری اداروں کو غیر معیاری مال نہ سپلائی کروں۔ شاہراہیں تعمیر کرتے وقت اوپر حصے نہ پہنچائوں‘ سرکاری عمارتوں کی تعمیر میں وہی میٹریل استعمال کروں جو کاغذات میں درج ہوتا ہے۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے گھروں کے اخراجات نہ ادا کروں‘ تو یہ تمہارے سارے مطالبات دخل در معقولات کی تعریف میں آتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ۔ تم کہتے ہو کہ غیر مسلم ملکوں میں تمہاری ہدایات پر سارا سال عمل ہوتا ہے‘ تو پھر میری تجویز ہے کہ تم اپنا سالانہ پھیرا وہیں کا لگا لیا کرو۔ میں تو تمہارے لیے جو کچھ کر سکتا ہوں‘ کر رہا ہوں‘ اس سے زیادہ کر سکتا ہوں نہ میرے بس میں ہے اور اگر بزرگان دین کو اعتراض نہیں تو تم کیوں پریشان ہوتے ہو۔ اچھا باقی باتیں پھر ہوں گی۔ اذان ہو چکی ہے ۔ مسجد جانا ہے نماز باجماعت سے محروم نہ رہ جائوں۔
Friday, June 19, 2015
دربارِ وطن میں جب اک دن
بڑھیا سُوٹ کی انٹی لیے آئی تو بازارِ مصر کے امرا نے طعنہ دیا کہ کیا اس سے اس سراپا حُسن کو خریدو گی جس کا نام یوسف ہے؟ بڑھیا نے جواب دیا تھا کہ جانتی ہوں‘ اس انٹی سے خرید نہیں سکتی مگر کل خریداروں میں نام تو شامل ہو گا!
مصر کا بازار ہے نہ یوسف کی خریداری مگر منظر کچھ کچھ وہی ہے۔ آٹھ سالہ یوسف معین کی کل بچت پانچ ہزار روپے تھی۔ اس سے ٹینک کا ایک چھوٹا سا پرزہ تک نہیں خریدا جا سکتا۔ مگر اُس کے پاس تو یہی کچھ تھا ۔ اس نے یہی اپنی قومی فوج کے حضور پیش کر دیا کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے کچھ گولیاں تو اس میں آ جائیں گی۔
ہمارے وطن کی بھی کیا قسمت ہے ! ایک طرف لاہور کا یوسف معین اپنی آٹھ سالہ عمر کی کل کمائی وطن پر نثار کر رہا ہے اور دوسری طرف ایسے ابنائے حرص ہیں جو وطن کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ بھنبھوڑ رہے ہیں۔ جہازوں کے جہاز ڈالروں سے بھر کر‘ دساور‘ خفیہ کمین گاہوں میں بھیج رہے ہیں‘ وطن ڈھانچہ بن کر رہ گیا ہے۔ ماس کھایا جا رہا ہے‘ گوشت کا ایک ایک ریشہ تنور ہائے شکم میں منتقل ہو چکا ہے مگر شکم ہیں کہ بھرتے نہیں‘ گندے ‘ زرد‘ دانت بدستور نکلے ہوئے ہیں‘ تاہم ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ کھرے سے کھوٹا اور سفید سے سیاہ الگ کر دیا جائے گا ؎
دربارِ وطن میں جب اک دن سارے جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے ‘ کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
سعدی نے ایک ’’عقل مند‘‘ کی حکایت بیان کی ہے ع
یکی برسرِ شاخ ‘بُن می بُرید
کہ ایک شخص ٹہنی پر بیٹھا‘ اسی ٹہنی کو کاٹ رہا تھا۔ آج جو لوگ اپنے ہی وطن کی محافظ فوج کو للکار رہے ہیں‘ یہ تو سوچیں کہ یہ فوج ان کی حفاظت نہ کرتی تو وہ کروڑوں اربوں کس طرح سمیٹتے۔چار دانگ عالم میں محلات کیسے خریدتے‘ شرق اوسط میں تعیش کے اڈے کیسے بناتے اور کراچی کو چراگاہ کی طرح کیسے استعمال کرتے؟ مجید امجد نے ’’سپاہی‘‘ کے عنوان سے جو عظیم المرتبت نظم کہی ہے‘ ملک کے ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جسے ملک کی حرمت کا ذرا سا بھی احساس ہے:
تم اس وقت کیا تھے
تمہارے محلکوں تمہارے گھروں میں تو سب کچھ تھا
آسائشیں بھی‘ وسیلے بھی
اس کبریائی کی ہر تمکنت بھی!
سبھی کچھ تمہارے تصرف میں تھا
زندگی کا ہر اک آسرا بھی
کڑے بام و در بھی
خزانے بھی ‘زر بھی
چمن بھی‘ ثمر بھی
مگر تم خود اس وقت کیا تھے
تمہاری نگاہوں میں دنیا دھوئیں کا بھنور تھی
جب اڑتی ہلاکت کے شہپر تمہارے سروں پر سے گزرے
اگر اس مقدس زمیں پر مرا خوں نہ بہتا
اگر دشمنوں کے گرانڈیل ٹینکوں کے نیچے
مری کڑ کڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتیں
تو دوزخ کے شعلے تمہارے معطر گھروندوں کی دہلیز پر تھے
تمہارے ہر اک بیش قیمت اثاثے کی قیمت
اسی سرخ مٹی سے ہے جس میں میرا لہو رچ گیا ہے
اپنے لیڈر کی ہاں میں ہاں ملانے والوں میں کیا کوئی ایسا بھلے مانس نہیں جو ضمیر رکھتا ہو اور ضمیر کی آواز سن کر‘ دبے لفظوں ہی میں سہی‘ اتنا تو پوچھے کہ حضور! کراچی کا شہر‘ جو عالم میں انتخاب تھا‘ اب سارے کا سارا ’’انڈر ورلڈ‘‘ میں بدل چکا ہے‘ آخر ذمہ دار کون ہے؟ الیس منکم رجل رشید‘ کیا ان میں کوئی رجلِ رشید نہیں؟ مگر جہاں باڑھ کھیت کو کھا رہی ہو‘ وہاں باڑھ سے کیا شکوہ کہ کھیت کی حفاظت نہیں کر رہی؟ جو حکومت کررہے ہیں‘ وہی شہر کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں جیسے ٹوکا گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔ جس سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی
(SBCA)
کے نام پر وفاق کی مداخلت کا ماتم کیا جا رہا ہے‘ کیا ملک کے ہر اخبار بین کو اور ہر ٹیلی ویژن دیکھنے والے کو نہیں معلوم کہ وہ کس کی جاگیر بنا ہوا ہے؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی یہ شکایت ریکارڈ پر ہے کہ اس ادارے کا سربراہ کراچی میں سب سے بڑا لینڈ مافیا چلا رہا ہے کہ اس نے گزشتہ آٹھ برس میں ایک مغربی ملک کے سینکڑوں سفر کیے ہیں اور جنوبی افریقہ سمیت بیرون ملک کئی مقامات پر جائیدادیں خریدی ہیں! اگر گلگت بلتستان سمیت ہر صوبے میں سوائے ایک کے‘ پارٹی کا صفایا ہوا ہے تو کیا جرائم چھپانے سے صورت حال بہتر ہو جائے گی؟ سچ سب کو معلوم ہو چکا ہے۔ کراچی کو کون کون بھون کر‘ تکے کبابوں کی طرح کھا رہا ہے‘ سب جان چکے ہیں ۔ ابراہام لنکن نے کہا تھا ۔
You Can Fool All the People Some of the Time, and Some of the People All the Time, But You Cannot Fool All the People All the Time.
تم کچھ وقت تک سب لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے ہو‘ اور کچھ لوگوں کو ہمیشہ بے وقوف بنا سکتے ہو مگر یہ ممکن نہیں کہ سب لوگوں کو ہمیشہ بے وقوف بناتے رہو!
جب بھی قانون حرکت میں آتا ہے‘ عساکر کی زمینوں اور پلاٹوں کے بارے میں پریس کانفرنسیں شروع ہو جاتی ہیں؎
این گناہسیت کہ درشہر شما نیز کنند
یہ 2006ء کاواقعہ ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس تھا ۔ کرنل(ر) غلام رسول ساہی کمیٹی کی صدارت کر رہے تھے۔ لیاقت بلوچ اور آسیہ عظیم کمیٹی کے ارکان میں شامل تھے۔ مقدمہ یہ تھا کہ 1993-94ء میں اس وقت کی خاتون وزیر اعظم نے فوجی افسروں کو ایک درجن سے زیادہ قیمتی رہائشی پلاٹ الاٹ کئے تھے۔ یہ الاٹ منٹ غیر قانونی تھی۔ فیض یاب ہونے والوں میں زیادہ تعداد ان جرنیلوں کی تھی جن کی خوشی مطلوب و مقصود تھی! قومی خزانے کو ڈیڑھ کروڑ کا نقصان ہوا۔ (یہ بائیس سال پہلے کا نقصان ہے! آج کے حساب سے پانچ سو مربع گز کا پلاٹ دارالحکومت میں تین چار کروڑ کا ہے اور ان غیر قانونی پلاٹوں میں سے کچھ ایک ہزار گز سے بھی بڑے سائز کے تھے!)
کمیٹی نے ترقیاتی ادارے کو حکم دیا کہ ایف آئی اے سے انکوائری کرائی جائے۔1997ء میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو ان الاٹ منٹوں کو منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ پھر جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے‘ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔
ان غلط بخشیوں پر کوئی پریس کانفرنس ہوتی ہے نہ احتجاج۔ مگر دوسروں پر اعتراض کرنے والے خود ہمیشہ وہی کچھ کرتے ہیں ؎
آپ کو کون تماشائی سمجھتا ہے یہاں
آپ تو آگ لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ایسا بھی تاریخ میں کم ہی ہوا ہو گا کہ ایک جماعت پوری کی پوری لوٹ مار کی علامت بن گئی ہو۔ مسلمہ‘ غیر متنازعہ علامت۔ مگر اس شہرت پر نادم ہونے کے بجائے فخر کیا جا رہا ہو!
Wednesday, June 17, 2015
پاندان کی فکر
سب سے پہلے حضرت عثمانؓ نے پہچانا
’’یہ سائب بن اقرع ہے‘‘۔ سوار قریب آیا تو مدینہ سے باہر انتظار کرنے والے امیر المومنین نے پوچھا ’’کیا خبر ہے؟‘‘ سائب نے فتح کی خوش خبری دی۔ ’’نعمان کا کیا حال ہے‘‘۔ ’’وہ شہید ہو گئے‘‘۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی ہچکی بندھ گئی۔
ایران کے شہنشاہ کسریٰ کے خلاف آخری فیصلہ کن معرکہ نہاوند میں لڑا گیا۔ اس میں مسلمانوں کو مالِ غنیمت بہت ملا کیونکہ ایرانی سب کچھ چھوڑ کر بھاگ لیے تھے۔ یہی وہ جنگ تھی جس کے بعد کسریٰ نے ایران چھوڑ دیا۔ غیر ملکیوں سے مدد مانگتے مانگتے دیارِ غیر ہی میں مرا۔ خزانے کا ایک خاص حصہ اس نے نہاوند میں آتش کدے کے مذہبی رہنما کے پاس رکھوا دیا تھا کہ کسی دن کام آئے گا۔ شکست فیصلہ کن ہوئی تو مذہبی رہنما نے زرو جواہر کے وہ خاص صندوق مسلمانوں کے حوالے کردیے۔ مسلمانوں نے انہیں امیر المومنین کے لیے مخصوص کردیا۔ سائب بن اقرع فتح کی نوید کے ساتھ یہ صندوق بھی مدینہ لائے تھے!
مدینہ پہنچ کر سائب نے خمس مسجد میں رکھ دیا۔ امیر المومنین نے اپنے رفقا کو پہرے پر بٹھایا اور حکم دیا کہ علی الصبح سارا مال مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے۔ پھر امیرالمومنین اٹھے اور اس بے سرو سامان کچے مکان کی طرف تشریف لے گئے جو ’’ایوانِ خلافت‘‘ تھا! سائب صندوق اٹھائے پیچھے پیچھے چلے۔ حضرت عمرؓ گھر میں داخل ہونے لگے تو بتایا کہ یہ خزانہ مسلمانوں نے فتح کے بعد جناب کی خدمت میں بھیجا ہے۔ ایک پریشانی تھی جو امیر المومنین پر طاری ہو گئی جیسے وہ ایک مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہوں۔ فرمایا… ’’کم از کم تمہیں ان کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا‘‘۔ پھر کہا… مجھے بچائو۔ مجھے بچائو۔ یہ صندوق فوراً یہاں سے لے جائو اور حذیفہؓ کو دو کہ تقسیم کردیں۔ سائب بن اقرع نے حکم کی تعمیل کی۔ حذیفہ نے اس خزانے کو چار لاکھ میں فروخت کیا اور ایک ایک پائی مسلمانوں میں تقسیم کی گئی۔
یہ کیا تھا؟ یہ سیر چشمی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی نظر میں خزانوں کی وقعت بکری کی چھینک سے زیادہ نہ تھی۔ فاقہ کش امیر المومنین یہ خزانہ رکھ لیتے تو کوئی بھی اعتراض نہ کرتا۔ مال غنیمت نے سب کو آسودہ حال کردیا تھا۔ آخر امیر المومنین کی قیادت ہی میں تو شرق و غرب فتح ہو رہے تھے!
امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ عید کے دن سوکھی روٹی تناول فرما رہے تھے۔ کیا خزانے اور مرغن کھانے اُن کی دسترس سے باہر تھے؟ نہیں! خدا کی قسم! نہیں! فاتحِ خیبر اشارہ فرماتے تو تعمیلِ حکم مسلمانوں کے لیے اعزاز ہوتی! مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ حضرات سیر چشم تھے۔
اور یہ تو قریب کے زمانے میں دنیا بھر نے دیکھا کہ گورنر جنرل ہو کر قائداعظم مہنگی جورابیں واپس کروا دیتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ باورچی منگوایا جاتا ہے تو واپس بھجوا دیتے ہیں۔ گاڑی خریدنے سے انکار کر دیا اور جہاز سے بھی۔ کہا میں کمرشل فلائٹ استعمال کروں گا یا ایئر فورس کا طیارہ! پھر جب ساتھیوں نے قائل کیا تو قیمت کی فکر لگ گئی۔ قطب الدین عزیز نے سارا احوال لکھا ہے۔ انسان ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ ایک ایک پائی کی فکر یوں دامن گیر ہے جیسے ذاتی جیب کی ہوتی ہے۔ کسی نے تفصیل جاننی ہو تو گورنر جنرل اور امریکہ میں پاکستانی سفیر ایم اے ایچ اصفہانی کے درمیان اس موضوع پر ہونے والی خط و کتابت دیکھ لے جسے معروف محقق جناب زوار حسین زیدی نے یکجا کیا ہے! کم تر کوالٹی کا جہاز خریدنے کا حکم دیا اس لیے کہ اس کی قیمت کم تھی۔ بسترِ مرگ پر لیٹے‘ جب اکثر و بیشتر افراد کو جان کی پڑی ہوتی ہے‘ قائداعظم قومی خزانے کو بچانے کے لیے ایک ایک کاغذ خود ملاحظہ کر رہے تھے!
اور اب…؟ یہ کون سی بداعمالیاں ہیں کہ جن کی پاداش میں اب ہم پر وہ لوگ مسلط ہو گئے ہیں بھوک جن کی آنکھوں سے نکلتی ہے نہ پسلیوں سے۔ جنہیں قومی خزانے کی تو کیا پروا ہوگی‘ اپنی عزت تک کی فکر نہیں! مگر بات یہ ہے کہ عزت کی تعریف کچھ لوگ اپنی خواہش کے مطابق کرتے ہیں۔ کسی نے غیرت دلانے کے لیے کہا تھا کہ تمہاری پیٹھ پر درخت اُگ آیا ہے‘ تو غیرت کرنے کے بجائے اگلے نے اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ اچھا ہوا‘ سائے میں بیٹھیں گے۔ محبوبؔ خزاں نے مشورہ دیا تھا ؎
کچھ لوگ جی رہے ہیں شرافت کو بیچ کر
تھوڑی بہت انہیں سے شرافت خریدیے
ایک سابق وزیراعظم کے زمانے میں سیلاب زدگان کے لیے ترکی کے صدر کی اہلیہ نے اپنا قیمتی ہار عطیہ کیا تھا۔ سیلاب زدگان کو تو وہ کیا ملتا‘ پچھلے دنوں اُس کی ڈھنڈیا پڑ گئی۔ معلوم ہوا کہ سابق وزیراعظم نے اسے اپنی ذاتی ’’تحویل‘‘ میں رکھا ہوا ہے۔ اب کہتے ہیں کہ ترکی جا کر واپس کردوں گا‘ جیسے وہ واپس لے ہی لیں گے!
زمانے سے پوچھیں یا آسمان سے؟ یا اس ملک کے اُس بخت سے جو سیاہ ہے‘ کہ ہمیں وہ رہنما کب میسر آئیں گے جو اس قبیل کی خفیف حرکتیں نہیں کریں گے‘ جو اپنی عزت کا اور قوم کی حرمت کا خیال رکھیں گے۔ جن کی اکھیاں اور وکھیاں خالی نہیں ہوں گی‘ بھری ہوئی ہوں گی۔ اس سے پہلے پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز ملک کو تین طلاقیں دے کر رخصت ہوئے تو سارے تحائف‘ جو توشہ خانے میں جانے تھے‘ سمیٹ کر گٹھڑی میں باندھے اور گٹھڑی سر پر رکھ کر بھاگ گئے۔ اب ساری دنیا میں‘ جہازوں پر سوار‘ پھر رہے ہیں اور مالیاتی مشورے دے رہے ہیں‘ صرف اپنا ملک پسند نہیں جہاں حکمرانی کی!
سرکاری حیثیت میں ملنے والے تحائف کے لیے ہر ملک میں قانون ہوتا ہے جس کے تحت ان کا حساب کتاب ہوتا ہے۔ امریکی صدر اوباما اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو ملنے والے تحائف کی تفصیل امریکی وزارت خارجہ دیتی ہے اس لیے کہ یہ تحائف شخصیات کے پاس نہیں رہ سکتے۔ سعودی بادشاہ نے ہلیری کلنٹن کو پانچ لاکھ ڈالر مالیت کے زیورات تحفے میں دیے۔ امریکی وزارت خارجہ ہر سال‘ حکومتی شخصیات کو ملنے والے تحائف کی فہرست افادۂ عام کے لیے شائع کرتی ہے۔ ایک خاص مالیت (تین یا ساڑھے تین سو ڈالر) تک کا تحفہ رکھا جا سکتا ہے۔ اس سے اوپر کے تمام تحائف سرکاری خزانے میں جمع ہوتے ہیں۔ جو تحائف اپنے پاس رکھے جاتے ہیں‘ ان پر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ ان ٹیکسوں کی تفصیل بھی امریکی عوام کے علم میں لائی جاتی ہے۔
مبینہ خبر یہ ہے کہ ہار کی قیمت دو لاکھ روپے تھی۔ لیڈر وہ نہیں ہوتا جو دو لاکھ کی مالیت کی امانت بھی اپنے پاس رکھ لے۔ یہ لیڈری نہیں! یہ دریوزہ گری ہے۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو کروڑوں اربوں کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ مگر جب لالچ‘ کرپشن اور ہل من مزید کا رویہ رگ رگ میں سما جائے‘ جب ایک ایک ورید میں خون کے بجائے مال کی ہوس دوڑ رہی ہو‘ جب ہڈیوں کے گودے میں بھوک ہی بھوک ہو‘ اور جب سیر ہونا نصیب ہی میں نہ ہو تو بے نیازی اور استغنا کہاں سے آئے گا؟ اس سے بڑھ کر عبرت کا اور کیا مقام ہوگا کہ نیویارک کے بیش بہا اپارٹمنٹوں سے لے کر شرق اوسط کے دمکتے چمکتے آنکھوں کو خیرہ کرتے محلات میں سے کچھ بھی کام نہ آئے اور کفن ایدھی کا پڑے!!
جب بھی اصلاحات کا ذکر کیا جائے اور مفادات کو خطرہ لاحق ہو تو جمہوریت بچانے کا واویلا مچا دیا جاتا ہے۔ مگر دانش وروں کو کرپشن کبھی نظر نہیں آئی۔ دو دن پیشتر سینیٹ میں آہ وزاری کی گئی کہ وفاق صوبائی دارالحکومت میں اجلاس کر کے صوبائی خودمختاری میں مداخلت کر رہا ہے اور یہ کہ امن و امان صوبائی معاملہ ہے۔ جو کچھ کراچی میں ہو رہا تھا‘ اس پر کبھی پتھر کی آنکھ سے بھی آنسو نہ نکلا۔ شہر جنگل سے بدتر ہو چکا تھا۔ حکمران خاندان نے پوری پوری شاہراہیں مسدود کر رکھی تھیں۔ انسانی جان مکھی سے بھی زیادہ بے وقعت تھی۔ قربانی کے جانور کی کھال تک بھتے سے مستثنیٰ نہ تھی۔ مگر سبحان اللہ! سینیٹ کے ارباب اختیار کو تب سب ٹھیک نظر آ رہا تھا۔ یہ کالم نگار لاہور کے ایک نوجوان بزنس مین کو ذاتی طور پر جانتا ہے جسے بھتے کا نوٹس باقاعدگی سے آتا تھا۔ کراچی میں حالیہ ایکشن کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا یعنی شادی والے گھر پر ڈاکہ پڑے تو پاندان کی فکر لاحق ہو جائے۔ پورا شہر عبرت سرائے بن جائے‘ سب کچھ کھنڈر میں تبدیل ہو رہا ہو تو قبول ہے مگر جرائم کی بیخ کنی کی جائے تو صوبائی خودمختاری کا پاندان یاد آ جائے۔ یہ تو وہی بات ہے کہ دارالحکومت میں میٹرو نہ چلتی تو جملہ مسائل کسی کو یاد نہ آتے۔ اب میٹرو چلی ہے تو مسائل یاد آنے لگے کہ ان پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ اس کالم نگار نے وضاحت سے لکھا کہ میٹرو‘ پانچ میں سے صرف ایک روٹ پر فائدہ پہنچائے گی اور اصل حل زیر زمین ریلوے ہے‘ مگر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قیصر کو قیصر کا حق ملے اور کلیسا کو کلیسا کا۔ پنجاب حکومت کے طرز حکمرانی پر ہمیشہ کھل کر تنقید کی۔ اس قلم کار کے غریب اور مفلوک الحال گائوں میں منظور شدہ ڈسپنسری کا بجٹ دس سال سے رکا ہوا ہے۔ جانے کیا وجہ ہے! شاید اس لیے کہ منظوری قاف لیگ کے ضلع ناظم نے دی تھی۔ یا شاید اس لیے کہ کالم نگار کی تنقید بُری لگتی ہے یا شاید اس لیے کہ صوبائی مشینری کی نااہلی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود… ہمارے نزدیک میٹرو کا منصوبہ قابل تعریف ہے۔ ایک روٹ ہی پر سہی‘ عوام کو کچھ ملا تو ہے۔ آغاز تو ہوا ہے۔ آنے والے زمانوں کے لیے ایک نظیر ایک قابلِ تقلید مثال تو قائم ہوئی ہے! عوام کو سہولت بہم ہونے کے علاوہ بلند پایہ ذریعۂ آمدورفت کو استعمال کرنے کی تربیت بھی حاصل ہوگی!
بات وفاق کی مبینہ مداخلت کی ہو رہی تھی! اس مداخلت پر ضرور شور مچایئے ؎
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت
لیکن کبھی کرپشن پر بھی ایک آدھ آنسو بہا دیجے۔ کبھی اُس حرص کا بھی ذکر فرما دیجیے جو ہمارے رہنمائوں کی آنکھوں میں زمانوں سے بھری ہے اور کبھی جمہوریت کو اور انتخابات کو سیاسی پارٹیوں میں لانے کی فکر بھی کر لیجیے۔
Monday, June 15, 2015
Saturday, June 13, 2015
Wednesday, June 10, 2015
Saturday, June 06, 2015
Friday, June 05, 2015
سبحان اللہ! سبحان اللہ!
اُٹھو! غم کے مارو! اُٹھو‘ وہ دیکھو‘ بالآخر سویرا طلوع ہو رہا ہے‘ طویل رات ختم ہونے کو ہے!
ملامت کے تیروں سے تمہارے جسم چھلنی ہو چکے ہیں۔ کیا یار کیا اغیار! طعنہ زنوں نے نشتر چبھو چبھو کر تمہیں ہلکان کر دیا ہے‘ جمود تمہارا نشانِ امتیاز بن چکا ہے۔ پس ماندگی کو تمہارے نام کا حصہ قرار دیا جا چکا ہے۔ الزام یہ ہے کہ چھ صدیوں سے تم نے علم سے‘ سائنس سے‘ ٹیکنالوجی سے‘ روشن خیالی سے‘ رشتہ توڑ رکھا ہے۔ حریف ایک زہر خند کے ساتھ تمہیں بتاتے ہیں کہ دیکھو‘ دنیا مریخ پر پہنچ گئی ہے۔ سمندر فتح کیے جا چکے‘ خلا سرنگوں ہو چکا‘ کرۂ ارض سمٹ کر ’’ناسا‘‘ کے سامنے ایک ذرہ بے بضاعت بن چکا ہے۔ پہاڑوں جتنے گلیشئر‘ کھینچ کر‘ مطلوبہ مقام پر منتقل کیے جا چکے۔ قطبین پر پرچم لہرا دیے گئے۔ جزیروں کے جزیرے‘ ملکوں کے ملک‘ براعظموں کے براعظم‘ دوسروں نے دریافت کیے اور اپنی اقلیموں میں شامل کر لیے اور تم ہو کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہو۔ سیاسی غلامی‘ ذہنی غلامی‘ جذباتی غلامی‘ اقتصادی غلامی‘ غلامی کی جتنی شکلیں ہیں‘ تم پر طاری ہیں!
مگر نہیں! اب مزید نہیں! وقت کروٹ لے چکا ہے! تاریخ کا دھارا موڑ مڑ چکا ہے ؎
مجھ پہ ہنستے تو ہیں پر دیکھنا روئیں گے رقیب
لبِ خنداں کی قسم‘ دیدۂ گریاں کی قسم!
اس صبحِ نو کا آغاز مشرق سے ہی ہوا ہے۔ ملائیشیا نے مسلمانوں کے مردہ جسم میں نئی جان ڈال دی ہے۔ ملائیشیا کی عدالت نے وہ فیصلہ کر دیا ہے جس نے مسلمانوں پر ’’تحریکِ احیائے علوم‘‘
(Renaissance)
کے دروازے کھول دیے ہیں۔ چودہ سو سال سے مسلمانوں کے علماء‘ فقہا اور اہلِ دانش‘ جس راز کو نہ پا سکے‘ آج کے مسلمان نے اسے پا لیا ہے۔ غیر مسلموں کو ’’اللہ‘‘ کا نام لینے سے منع کردیا گیا ہے۔ وہ گاڈ کہیں یا جو مرضی کہیں‘ اللہ نہیں کہہ سکتے نہ لکھ سکتے ہیں۔
یہ سارا عرصہ جو گزرا‘ اللہ کے حبیبﷺ پر جب غارِ حرا میں پہلی وحی اتری‘ اُس وقت سے لے کر آج تک‘ یہ نکتہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ عرب دنیا میں بے شمار غیر مسلم ہیں‘ نصرانی‘ یہودی‘ آتش پرست‘ وہ اللہ ہی کہتے رہے ہیں۔ یہ شہادت مسلمانوں کی مقدس کتاب بھی دے رہی ہے کہ مشرکین سے پوچھا جائے کہ رزق کون دے رہا ہے اور کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بے جان کون پیدا کرتا ہے اور یدبر الامر کون ہے تو جھٹ کہیں گے اللہ!
عرب دنیا کے غیر مسلم اپنے بچوں کے نام عبداللہ رکھتے رہے ہیں۔ الحمدللہ‘ آج مسلمانوں کو معلوم ہو ہی گیا کہ ترقی کے راستے میں رکاوٹ یہی تو تھی۔ اب صدیوں اور برسوں کی بات نہیں‘ دنوں اور لمحوں کی بات ہے۔ مسلم دنیا کے غلبے کا آغاز ہو چکا ہے!
دوسرا انقلابی قدم اسلامی ملک ایران نے اٹھایا ہے اور مسلمانوں کے زوال کا ایک بہت بڑا سبب دور کردیا ہے۔ ترقی کے راستے میں سرِ راہ بنا ہوا ایک اور سنگِ گراں ہٹ گیا ہے۔ یہ اس سال کے آغاز کا واقعہ ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جنیوا میں مغربی طاقتوں کے ساتھ ایٹمی مسئلے پر مذاکرات کر رہے تھے۔ وقفہ ہوا تو ذہنی کوفت اور بے پناہ تکان دور کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ اور ایرانی وزیر خارجہ نے سڑک کے فٹ پاتھ پر پندرہ منٹ چہل قدمی کر لی۔ بے خبر ایرانی وزیر خارجہ اسلامی قوانین سے ناواقف تھا۔ اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ ایک ایسی حرکت ہے جسے ایک اسلامی ملک برداشت نہیں کر سکتا۔ ملک میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جمعہ کے خطبات میں خوب لعن طعن ہوئی۔ پارلیمنٹ کے اکیس ارکان نے ایک مطالبے پر دستخط کیے اور وزیر خارجہ کو پارلیمنٹ میں آ کر اس جرم کے بارے میں صفائی پیش کرنے کو کہا۔ یہ ’’قربت‘‘… شیطانِ بزرگ کے وزیر کے ساتھ ناقابل تصور تھی! اور سفارت کاری کے اسالیب سے مطابقت نہ رکھتی تھی۔ تہران واپس پہنچ کر وزیر نے صفائی پیش کی کہ مذاکرات کا دورانیہ طویل تھا اور تھکا دینے والا! وقفے کی ضرورت تھی! تاکہ دم لے کر بات چیت کا نیا دور شروع ہو۔ ہوٹل میں صحن تھا نہ باغ‘ نہ میدان‘ اردگرد کے کوچے متجسس صحافیوں سے اٹے ہوئے تھے۔ ایسے میں شاہراہ کے فٹ پاتھ کے علاوہ کوئی اور جگہ ہی نہ تھی جہاں ہم چل کر ٹانگیں سیدھی کرتے۔
افسوس! صدیاں‘ صدیوں کی صدیاں‘ لاعلمی میں گزر گئیں۔ اگر یہ سائنسی اصول پہلے حلقۂ عرفان میں آ جاتا تو آج مسلمان بھی کرۂ ارض کے فرماں روا ہوتے۔ بہرحال اب مسلمانوں پر یہ عقدہ وا ہو چکا ہے کہ کسی غیر مسلم کے ساتھ چہل قدمی حلال نہیں ہے!
تیسرا ’’انقلابی‘‘ قدم جس نے مسلمانوں کی اپنی الگ اور وکھری تحریک احیائے علوم
(Renaissance)
کا دروازہ کھول دیا ہے‘ یہ فتویٰ ہے کہ سنومَین بنانا فعلِ حرام ہے! شرق اوسط کے ایک ملک کا کچھ حصہ ایسا بھی ہے جہاں برف باری ہوتی ہے۔ وہاں بچے سیرو تفریح کے لیے آتے ہیں اور برف کے آدمی (سنو مین) بناتے ہیں۔ کئی اسلامی ملکوں میں برف باری ہوتی ہے اور یہ کھیل صدیوں سے جاری ہے۔ ترکستان اسلامی فقہا کا گڑھ رہا ہے۔ خجند سے لے کر خیوا تک اور فرغانہ کی وادی سے لے کر سمرقند بخارا‘ رَے اور باکو تک‘ شمالی ایران سے لے کر ترکی اور شام کی وادیوں تک چودہ سو سال سے برف پڑ رہی ہے اور بچے کھیلتے چلے آ رہے ہیں‘ امام بخاری سے لے کر امام ترمذی تک… ہدایہ کے مصنف امام برہان الدین مرغینانی سے لے کر فتاویٰ قاضی خان کے مصنف امام فخر الدین الفرغانی تک‘ سب کوہستانی اور برفانی علاقوں میں رہے۔ مگر یہ سنہری اصول کسی پر فاش نہ ہو سکا۔ یوں تو برف سے ایسا مجسمہ نہیں بن سکتا جسے تکنیکی اعتبار سے بت قرار دیا جائے۔ آنکھیں بن سکتی ہیں نہ رخسار۔ لپ سٹک لگ سکتی ہے نہ گالوں پر سرخی‘ سارا کھیل ذرا سی دیر کا ہوتا ہے۔ سورج کی کرنیں اترتی ہیں تو برف کی بادشاہی ختم ہونے لگتی ہے۔ سنومین گر پڑتا ہے اور گر کر برف کے لاتعداد ذروں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مگر نہیں! مسلمانوں کے غلبے کے لیے یہ فتویٰ لازم تھا۔ آخر مغرب کی بے پناہ طاقت کا مقابلہ بھی تو کرنا ہے۔
مسلمانوں کی جہالت اور پس ماندگی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا شرف ہمارے برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش کے حصے میں آیا ہے۔ امداد آکاش نے ایک شعر خوب کہا ہے ؎
اک پیچدار کیل تھا یہ سرِّ کائنات
میں نے اسے پکڑ کے گھمایا‘ نکل گیا
بنگلہ دیش کے ’’فقہا‘‘ نے نہ صرف اس سرِّ کائنات کے پیچ کو پکڑ کر گھمایا‘ بلکہ اس کے ساتھ ہی لٹک گئے! اسلامک فائونڈیشن نے جو وہاں کی وزارتِ مذہبی امور کے تحت کام کر رہی ہے‘ دو دن پہلے فتویٰ دیا ہے کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا ناجائز ہے! مفتی صاحب نے فرمایا ہے کہ نماز جائے نماز پر پڑھی جا سکتی ہے‘ کرسی پر نہیں۔ بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا ہے کہ معذور اور ضعیف فرش پر نہیں بیٹھ سکتے۔ بیٹھ جائیں تو اٹھ نہیں سکتے۔ اس کالم نگار کو جدہ کی وہ مسجد یاد آ رہی ہے جس کی پچھلی صف کے ساتھ باقاعدہ صوفے پڑے تھے۔ مگر بے خبر‘ ناواقف مسلمانوں کو آج تک پتہ ہی نہ چلا کہ لمحۂ موجود کا سب سے بڑا مسئلہ‘ نازک ترین معاملہ‘ زندگی اور موت کے درمیان حدِّ فاصل کھینچنے والا بکھیڑا‘ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ایشو ہی تو ہے! مسلمانو! جشن منائو کہ ہم نے طاقت کا راز پا لیا ہے‘ یہ سائنس یہ ٹیکنالوجی‘ یہ مغرب کا غلبہ‘ یہ سمندروں کے سینے پر تیرتے بڑے بڑے ایئرکرافٹ کیریئر‘ یہ غلامی میں جکڑے کشمیر اور فلسطین۔ یہ مسائل تو بے کار ہیں۔ ایشوز تو یہی ہیں جن سے پردے اب ایک ایک کر کے اُٹھ رہے ہیں۔ کیا انگڑائی لی ہے عالمِ اسلام نے! سبحان اللہ! سبحان اللہ!
Thursday, June 04, 2015
تیرے سب خاندان پر عاشق
چینی کھانے چین جا کر دیکھے اور کھائے‘ بلکہ کھانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا ہمارے ہاں جو چینی کھانوں کا غلغلہ ہے‘ اس کا چینی کھانوں سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ یہ چینی کھانوں کی مسخ شدہ شکل ہے۔ چین میں چاول‘ ضیافت کا غالب حصہ ہوتے ہی نہیں۔ کئی ڈشوں کے بعد پیالوں میں نیم سخت سے چاول دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح وہاں سوپ سے کھانے کا آغاز نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ہاں انگریزی لنچ یا ڈنر کا آغاز سوپ سے ہوتا تھا۔ یہی روایت چینی کھانے میں بھی پڑ گئی۔
ہر شے‘ درآمد کر کے‘ اس کا حلیہ بگاڑنے کی ایک اور مثال چینی نوڈل یا اطالوی سپے گتی کی بھی ہے۔ اگر چینی یا اطالوی اپنے نوڈل یا سپے گتی کا حشر دیکھیں جو گوشت مصالحے اور مرچیں ڈال کر کیا جاتا ہے تو کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ پلائو میں مرچوں کے انبار ڈال کر اسے بریانی کی شکل دے دی گئی اور اب وہ نہاری اور حلیم کی صف میں بیٹھی نظر آتی ہے۔ ایک زمانے میں نکٹائی کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا۔ سنا ہے چھیاسی ناولوں کے مصنف ایم اسلم شلوار قمیض پر کوٹ اور نکٹائی پہنتے تھے!
شکل مسخ کرنے کی یہ روایت برقرار رکھتے ہوئے جو سلوک یہاں جمہوریت کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے‘ اس پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ برونائی‘ مراکش اور مشرق وسطیٰ کی خاندانی بادشاہتیں جمہوریت کے پاکستانی ماڈل سے کئی درجے بہتر ہیں کہ کم از کم انہیں جمہوریت کا نام دے کر منافقت کو سلام تو نہیں کیا جاتا! جس جمہوریت کے چرچے صبح شام ہو رہے ہیں اور جس جمہوریت کو بچانے کے نام پر عوام کے حقوق کی بات کرنے والوں کا منہ بند کردیا جاتا ہے‘ اس پر غور کرنے کی فرصت ہی کسی کو نہیں۔ اٹھارہ‘ انیس کروڑ عوام کو اس جمہوریت کے نام پر ڈھور ڈنگر بنا دیا گیا ہے۔ بھیڑوں کا یہ ریوڑ ممیانے کے سوا کچھ نہیں کر رہا‘ نہ کچھ کر سکتا ہے۔ اس جمہوریت کا نظارہ پشاور سے دیکھنا شروع کیجیے۔ ساری جمہوریت دادا‘ والد‘ پھر ماں اور ماموں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ صوبے کا چیف منسٹر بھی رشتہ دار ہوتا ہے اور اگر کراچی میں آباد پختونوں کی قیادت کا مسئلہ ہو تو وہاں بھی یہ ’’ذمہ داری‘‘ اپنے بھانجے بھتیجے ہی کے سپرد کی جاتی ہے۔ پھر سینیٹ میں بھی اُسے ہی لایا جاتا ہے!
ڈیرہ اسماعیل خان کی جمہوریت بھی‘ جس نے مذہب کی عبا اوڑھ رکھی ہے‘ اپنے بھائیوں ہی کا طواف کر رہی ہے۔
جمہوریت کی تازہ ترین جھلک ملاحظہ فرمایئے:
’’پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو کراچی ایئرپورٹ سے بلاول ہائوس پہنچانے کے لیے مخصوص ہیلی کاپٹر کا انجن سٹارٹ نہ ہو سکا۔ سول ایوی ایشن کے ذرائع کے مطابق بلاول پیر کی صبح خصوصی پرواز پر دبئی سے کراچی پہنچے۔ انہیں ٹرمینل ون سے بلاول ہائوس پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا گیا تھا۔ وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھے تو اس کا انجن سٹارٹ نہ ہو سکا۔ وہ اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ پانچ منٹ تک ہیلی کاپٹر میں بیٹھے رہے۔ بعدازاں انہوں نے زمینی راستے سے جانے کا فیصلہ کیا اور تیار کھڑی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر سڑک کے راستے سخت سکیورٹی میں قافلے کے ساتھ روانہ ہوئے۔ سکیورٹی کے پیش نظر ایک ہی طرح کے دو قافلے وقفے وقفے سے ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے۔ بعدازاں ہیلی کاپٹر بھی سٹارٹ ہو گیا اور چکر لگاتا ہوا بلاول ہائوس تک آیا‘‘۔
جس ملک میں سینکڑوں ہزاروں لوگ آئے دن مکھیوں مچھروں کی طرح مر رہے ہیں‘ وہاں ایک ’’جمہوری‘‘ پارٹی کا یہ طرزِ عمل ہے۔ نوجوان کی واحد اہلیت یہ ہے کہ وہ فلاں کا فرزند اور فلاں کا نواسہ ہے۔ چھ ماہ ملک سے باہر رہا۔ اس سے پہلے یہاں تھا تو اپنی الگ کابینہ تھی۔ چِٹے سروں والے سیاست دان سامنے دست بستہ کھڑے رہتے تھے۔ ایک صاحب نے اکیسویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تو ندامت کے آنسو بہائے۔ دانشوروں کا جماعت میں اس کے علاوہ بھی کوئی قحط نہیں۔ پوری دنیا کو جو کرپشن نظر آتی ہے‘ ان دانش وروں کو‘ جمہوریت کے ان دل دادگان کو کہیں نہیں دکھائی دیتی۔ آنکھوں میں خاندانی غلامی کا موتیا اترا ہوا ہے ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
نوجوان نے پارٹی کا پارلیمانی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔ پانی کے بحران سے متعلق جس اہم اجلاس کی صدارت نوجوان نے چھ ماہ بعد واپس آ کر فوراً کی‘ اس میں ایم ڈی واٹر بورڈ‘
اعلیٰ حکام اور وزیراعلیٰ کے علاوہ خود آصف زرداری بھی شریک تھے! کیا جمہوریت ہے اور کیا حکومت ہے! سرکاری منصب ہے نہ پارٹی نے چُنا ہے‘ مگر سب سرنگوں کھڑے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ خلجیوں‘ تغلقوں اور مغلوں کے درباروں کے باہر ہاتھی کھڑے ہوتے تھے اور شاہ اور شہزادوں کے سامنے بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔ اب باہر گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اور اندر سب ایک میز کے گرد بیٹھے ہوتے ہیں۔ سامنے منرل واٹر کی بوتلیں پڑی ہوتی ہیں۔ دلوں میں ہیجان برپا ہوتا ہے کہ شہزادہ منصب سے برطرف نہ کردے۔ واحد آندھی جو ذہنوں میں چل رہی ہوتی ہے یہ ہوتی ہے کہ شاہی خاندان کی خوشنودی حاصل کس طرح ہو اور حاصل ہو جائے تو برقرار کیسے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملوں کا مالک بننے کے بعد حشر ذوالفقار مرزا جیسا ہو جائے!
اور پارٹی سے منتخب ہونا یا اسمبلیوں کے لیے منتخب ہونا کون سا مشکل کام ہے۔ جہاں خواتین نوجوان شہزادے کو دیکھ کر زار و قطار رونا شروع کردیں‘ جہاں فخر اس پر کیا جائے کہ ہم اتنی پشتوں سے فلاں کے وفادار ہیں‘ جہاں تعریف لیڈروں کی یوں کی جائے کہ انگریزی خوب بولتا ہے اور سوٹ اچھے پہنتا ہے‘ وہاں منتخب ہونا کون سا مشکل کام ہے!
پشاور اور کراچی سے ہو کر اب پنجاب کا منظر دیکھیے‘ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے رانا صاحب کے علاوہ پنجاب کابینہ کے کسی رکن کا نام آپ کو معلوم ہے؟ ڈمی وزیروں کی فوج مراعات اور تنخواہیں وصول کیے جا رہی ہے مگر یہ کہنے کی ہمت ہے نہ جرأت کہ حضور! صوبے میں کچھ شہر اور بھی ہیں اور وہ بھی آپ کی بادشاہت ہی کا حصہ ہیں۔ ایک نوجوان جو وفاقی ایوان کا حصہ ہے‘ صوبے کے امور چلاتا ہے۔ کئی ہفتوں سے سارا صوبہ‘ بشمول وفاقی دارالحکومت میٹرو کی افتتاحی تقریب کے لیے باقی سارے کام ایک طرف رکھے ہوئے ہے۔ راولپنڈی کا ڈی سی او اپنے دفتر میں بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ جہاں بھی ہو‘ بتایا یہی جاتا ہے کہ میٹرو کی تقریب کے لیے فلاں مقتدر ہستی نے طلب کیا ہوا ہے۔ افتتاحی تقریب ہے کہ منعقد ہی نہیں ہو رہی!
یہ سب کچھ جمہوریت ہے! اسی کا نام جمہوریت ہے۔ پوتے نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کر کے دادی سے پوچھا‘ یہ خوبصورت نوجوان کون ہے؟ دادی کی آنکھوں میں چمک آئی‘ بیٹے‘ یہ تمہارے دادا جان ہیں! پوتا کنفیوزڈ ہو گیا ’’اگر دادا جان یہ ہیں تو پھر گنجے سر اور ابھری ہوئی توند والا وہ بدنما بابا کون ہے جو شام کو بریف کیس اٹھائے روز آ جاتا ہے!‘‘ اگر جمہوریت یہ ہے تو پھر وہ کون سا نظام ہے جس میں کلنٹن کٹہرے میں کھڑا ہو جاتا ہے‘ برطانوی وزیراعظم ٹرین میں کھڑے ہو کر سفر کرتا ہے اور اس کی طرف کوئی دیکھتا تک نہیں‘ ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر سوار ہو کر دفتر آتا ہے۔ سکینڈے نیویا کے ایک ملک کی ملکہ سبزی خریدنے کے لیے دکان کے سامنے قطار میں کھڑی ہے۔
شفیق الرحمن نے تو مزاح میں لکھا تھا ؎
تیرے سب خاندان پر عاشق
میرا سب خاندان ہے پیارے
لیکن ہم نے اپنی جمہوریت کی پوری تاریخ اس ایک شعر میں سمو دی ہے!
Monday, June 01, 2015
Subscribe to:
Posts (Atom)