اشاعتیں
مارچ, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
کالم
ہاں! ہم محبت کرتے ہیں!
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
اسد اللہ خان غالب اور اسد اللہ غالب میں فرق یہ ہے کہ وہ خان تھے اور یہ خان نہیں! وہ شہرِ سبز سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ قصور سے ہیں۔ لیکن فرق کے ساتھ ساتھ ایک وجہِ افتخار بھی ہے جو دونوں میں مشترک ہے۔ اسد اللہ خان غالب پیشۂ آبا کا ذکر فخر سے کرتے تھے۔ یہ پیشہ سپہ گری تھا ؎ سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے اسد اللہ غالب اپنی سپاہ پر فخر کرتے ہیں‘ اور اسی لیے مجھے عزیز ہیں۔ ان کا اور میرا محبوب ایک ہے۔ یہ محبوب مسلح افواج ہیں۔ جن دنوں محبت محبت تھی‘ اس میں آلودگی اور غرض شامل نہیں ہوئی تھی اور عاشق کے لیے پوری دنیا محبوب ہی سے عبارت تھی‘ ان دنوں عشّاق چاند کو دیکھ کر آہیں بھرتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ چاند چمکتا تھا یا اس میں بڑھیا تھی۔ چاند اس لیے پیارا لگتا تھا کہ دور‘ کہیں دور‘ محبوب بھی اسی چاند کو دیکھ رہا ہوتا تھا! اسد اللہ غالب بھی اس لیے عزیز ہیں کہ وہ اسی پاک فوج سے محبت کرتے ہیں جس کی محبت میرے دل میں موجزن ہے! ع آ کہ وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے کسی کو اچھا لگے یا اس ذکر سے کسی کا چہرہ سیاہ ہو جا...
کوئی مہاتیر‘ کوئی لی
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
بریڈ کیلی فورنیا میں پیدا ہوا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وہیں وکالت کرتا رہا۔ امریکہ سے باہر کا بریڈ کا سارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ وہ چند سال کمبوڈیا میں انسانی حقوق کی تنظیم میں کام کرتا رہا۔ ایشیائی ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ سفید چمڑی والے ’’ماہرین‘‘ ان کی چمڑی سے چمٹے رہتے ہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران مطالعاتی دورے پر سلہٹ جانا ہوا تو ایک امریکی سے ملاقات ہوئی جو وہاں کھاد کی فیکٹریاں لگانے کے عمل میں بطور ’’ماہر‘‘ کام کر رہا تھا۔ یہ کھاد کی صنعت کا ملک میں آغاز تھا۔ ہم ڈھاکہ یونیورسٹی کے تین طلبہ نے سب سے پہلے اس سے پوچھا کہ وہ معاوضہ کتنا لے رہا ہے۔ چالاک گورا مسکرایا۔ سلیم احمد نے کہا تھا ؎ کھال چکنی ہو تو دھندے ہیں ہزار گیدڑی نے کب کوئی دوہا سنا مقدار بتانے سے گریز کرتے ہوئے اس نے صرف اتنا کہا کہ ڈالروں میں ملنے والا معاوضہ اتنا ہے کہ بطور ’’مشیر‘‘ تین سالہ قیام کے بعد اسے ایک طویل عرصہ کسی کام کی ضرورت نہیں پڑے گی! بریڈ بھی‘ جس کا پورا نام بریڈ ایڈیمز ہے‘ ایشیائی ملکوں کے امور کا ’’ماہر‘‘ ہے...
نخلستان تراشنے والا شخص
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
مائیکل فے امریکہ میں پیدا ہوا۔ باپ کا نام جارج تھا۔ آٹھ سال کا تھا کہ اس کے ماں باپ میں علیحدگی ہو گئی۔ کچھ عرصہ باپ کے پاس رہا مگر پھر سنگاپور چلا گیا جہاں اس کی ماں دوسری شادی کے بعد قیام پذیر تھی۔ مائیکل فے کا سوتیلا باپ ایک چینی تھا۔ یہاں اسے امریکی سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہ اکتوبر 1993ء کی بات ہے۔ سنگاپور کے سب سے بڑے انگریزی روزنامہ ’’دی سٹریٹس ٹائمز‘‘ نے ایک رپورٹ شائع کی کہ سنگاپور میں کاروں کو نقصان پہنچانے کی وارداتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ گھروں کے باہر کھڑی کی گئی کاروں پر ڈنڈے مارے جاتے ہیں۔ رنگ کھرچ دیا جاتا ہے۔ ان پر پینٹ گرایا جاتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور روتے تھے کہ کوئی ٹائروں کو پھاڑ جاتا ہے۔ سٹی سنٹر میں کھڑی ہوئی کاروں پر خراشیں ڈال دی جاتیں اور ڈینٹ پڑے ہوئے ہوتے۔ کچھ شہریوں نے بتایا کہ چھ ماہ میں انہیں چھ بار کار کی مرمت کرانا پڑی۔ سنگاپور کی پولیس‘ جو مستعد ہونے میں کسی بھی ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں‘ خفیہ تفتیش میں لگ گئی اور آخرکار امریکی سکول کے غیر ملکی طالب علموں کو جا پکڑا۔ پچاس سے زیادہ وارداتوں میں اسی سکول کے لڑکے ملوث تھے۔ انہی میں ما...
سنگ باری کا موسم
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ٹرین چل رہی تھی۔ ڈبے میں بیٹھے ہوئے ایک معتبر شخص نے سامنے بیٹھے ہوئے مسافر کو بتایا ’’میں حفیظ ہوں‘‘۔ مسافر نے سُن کر کوئی خاص تاثر نہ دیا۔ معتبر شخص نے پھر بتایا ’’میں شاہ نامہ اسلام کا مصنف ہوں‘‘۔ اس پر بھی سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے کوئی توجہ نہ دی۔ معتبر شخص نے ایک کوشش اور کی۔ ’’ارے بھئی! میں حفیظ ہوں۔ قومی ترانے کا خالق‘‘۔ مسافر کا چہرہ سپاٹ ہی رہا۔ اس نے ایک بے رنگ سی ’ہوں‘ کی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ معتبر شخص نے زچ ہو کر کہا ’’بھئی! میں حفیظ ہوں۔ حفیظ جالندھری‘‘ اب مسافر کا چہرہ فرطِ مسرت سے تمتما اٹھا۔ وہ جوش میں اٹھا۔ حفیظ صاحب سے بغل گیر ہوا اور صدقے واری ہو کر کہنے لگا ’’اوہ! آپ بھی جالندھر کے ہیں‘‘! یہ لطیفہ سچا واقعہ ہے یا محض اختراع‘ نہیں معلوم! مگر اس سے ایک بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ ایک شہر‘ ایک علاقے اور ایک قومیت کا ہونا یا ہم زبان ہونا انسانی جذبات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہاں! جب یہ اہمیت ایک خاص حد سے بڑھ جائے اور تعصب یا عصبیت کی شکل اختیار کر لے تو معاشرتی بیماری (سوشل ایول) بن جاتی ہے! ان دنوں بہار کا موسم ہے۔ وحشت جوبن پر ہے۔ فانی ب...
کواکب
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
معلوم نہیں غالبؔ ولی تھا یا نہیں! ایک بات طے ہے کہ خود اس نے اپنی ولایت کا اقرار کیا نہ انکار۔ بس ایک مشروط سے شعر میں اپنی ولایت کے بارے میں مشکوک انداز میں بات کردی ؎ یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالبؔ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا تاہم ڈیڑھ سو سال پہلے آج کے پاکستان کے متعلق ایسی ایسی پیشگوئیاں کر گیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً یہ جو شعر ہے ؎ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا تو یہ ہمارے رہنمائوں کے بارے ہی میں تو ہے۔ جنرل پرویز مشرف ہی کا معاملہ لے لیجیے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان کے اور ہمارے وزیراعظم جناب میاں محمد نوازشریف کے درمیان نہ صرف یہ کہ تعلقات منقطع ہیں بلکہ مخاصمت بھی ہے‘ مگر غالب بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے دھوکا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کواکب کوکب کی جمع ہے۔ کوکب ستارے کو کہتے ہیں۔ یہ دونوں محترم حضرات ہمارے آسمانِ سیاست کے روشن ستارے ہیں۔ روشنی سے انکار کس کافر کو ہے! مگر غالب ایک اور زاویے سے متنبہ کرتے ہیں کہ جو کچھ اوپر سے نظر آتا ہے اصل می...
اشکال
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ایک بار پھر وہی مخمصہ‘ وہی پراگندہ خیالی! وہی گومگو کی کیفیت! وہی مشکل سوال جس کا جواب نہیں ملتا! ایک معتبر بین الاقوامی تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستانی اوّل نمبر پر ہیں۔ عام طور پر یہ نمایاں مقام ہمیں کرپشن وغیرہ میں حاصل ہوتا ہے لیکن اب کے عزت رہ گئی ہے۔ یہ سروے مذہب کو زندگی میں اہم‘ زیادہ اہم اور غیر اہم سمجھنے کے بارے میں تھا۔ رپورٹ کے مطابق چین میں مذہب کو سب سے زیادہ کم اہم سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں صرف 54 فیصد لوگ مذہب کو انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو لیا جائے تو ترکی میں 70 فیصد افراد‘ مصر میں 82 فیصد‘ انڈونیشیا میں 94 فیصد‘ سینیگال میں 97 فیصد… اور پاکستان میں 98 فیصد افراد کے لیے مذہب زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دعویٰ جو پاکستانیوں نے کیا ہے‘ غلط نہیں کیا۔ اس کے بے شمار مظاہر ہیں۔ دعویٰ کی ٹھوس بنیادیں نظر آ رہی ہیں۔ پاکستان میں اسلامی مدارس کی تعداد کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ ہے۔ انڈونیشیا ہے یا ملائیشیا‘ ترکی ہے یا بنگلہ دیش‘ دینی علوم کے شائقین سیدھا پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں نہی...
ستاروں کا پروردگار
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
بادشاہت کا سلسلہ خاندان کے اندر ہی رکھنے کے سارے انتظامات ہو رہے ہیں۔ کیا آپ غور نہیں کرتے کہ گاڑیوں پر پرچم لہرا رہے ہیں۔ ان گاڑیوں میں کشوروں اور اقلیموں کے سفیر بیٹھے ہیں۔ یہ گاڑیاں موٹروے پر رواں ہیں۔ اُس شہر کی طرف جو اقتدار کا مرکز ہے ؎ اسی جانب رواں ہیں قافلے عشاق کے سب کہ اب اک مہ لقا کا رُخ بخارا کی طرف ہے ایک زمانہ تھا جب مشرق و مغرب سے ولایتوں کے ایلچی قسطنطنیہ کا رُخ کرتے تھے۔ سراجیوو برباد ہوا تو شاعر نے نوحہ لکھا ؎ سراجیوو! تو نے سفیروں کو دیکھا جو ہاتھوں کو سینوں پہ رکھے خراج اور مکاتیب زربفت کی بقچیوں میں اٹھائے ہوئے ’’بابِ عالی‘‘ کی جانب رواں تھے! لیکن بابِ عالی کا پرچم تو زمانوں پر لہرا رہا تھا!! بادشاہت کا سلسلہ خاندان کے اندر رکھنے کے سارے انتظامات ہو رہے ہیں۔ ایک ہی شجر ہے جس کی شاخوں پر بور ہے اور وہ میووں کے بوجھ سے جھک رہی ہیں۔ اس قدر کہ زمین کو چھونے کے قریب ہیں۔ منتخب نمائندوں میں تقسیم ہونے والی رقوم بھی اسی شجر کی ایک ٹہنی پر رکھی ہیں۔ سالہا سال گزر گئے‘...
کون سا غم کھا گیا تمہیں؟
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
آخر پارلیمنٹ کو کس کی یلغار کا ڈر ہے؟ سینیٹ کے نومنتخب چیئرمین نے متنبہ کیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی طرف کوئی یلغار کرنے کی کوشش کرے گا تو دونوں ایوان مل کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے اور پارلیمنٹ کا دفاع کریں گے۔ اس یلغار کا اشارہ یقینا مارشل لاء کی طرف نہیں ہے۔ ان ایوانوں میں جو حضرات تشریف فرما ہیں‘ ان میں سے بہت سے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے رفقا میں شامل تھے۔ بعض تو آمریت ہی کی دریافت ہیں۔ بعض کی سیاسی پرورش فوجی ڈکٹیٹروں نے کی۔ اس یلغار کا اشارہ بھارتی فوج کی طرف بھی نہیں ہو سکتا۔ بھارتی فوج کی یلغار تو افواجِ پاکستان روکتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ایسا روزِ بد آیا تو وہی آگے بڑھیں گی۔ پارلیمنٹ کی طرف فیوڈل بھی نہیں بڑھ سکتے۔ نہ کارخانہ دار۔ ان کے مفادات کو کبھی وہاں چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔ یلغار کا ڈر صرف عوام سے ہے۔ پارلیمنٹ کی تاریخ شاہد ہے کہ پارلیمنٹ چند ہی مواقع پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ہے۔ جب ان کی اپنی مراعات میں اضافے کا کوئی بل پیش ہوتا ہے تو اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ جب ایک خاص طبقے پر ٹی...
تہمتِ بے جا
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
امریکی سفیر کے دائیں رخسار پر ساڑھے چار انچ لمبا گہرا زخم تھا۔ SLASH کا لفظ جب انسانی جسم کے حوالے سے استعمال ہو تو اس کا مفہوم سوچتے ہی بدن میں جھرجھری اٹھتی ہے۔ وسطی زمانوں میں آنکھیں نکالنے کی سزا عام تھی۔ خاص کر ان افراد کے لیے جو تخت و تاج کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے تھے۔ ہندوستانی مورخ آنکھیں نکالنے کے عمل کو تربوز کی پھانک کاٹنے سے تشبیہہ دیتے ہیں‘ جیسے آج کل تربوز کو خریدنے سے پہلے ٹک لگواتے ہیں! جنوبی کوریا میں متعین امریکی سفیر کو پچپن سالہ کِم نے‘ جو جنوبی کوریا ہی کا باشندہ ہے، چاقو سے SLASH کیا۔ بازو بھی زخمی ہوا۔ سفیر کو کئی دن ہسپتال رہنا پڑا جہاں مجموعی طور پر اسے اسّی ٹانکے لگے۔ یہ گزشتہ ہفتے کا واقعہ ہے۔ حملہ آور کا طویل سیاسی بیک گرائونڈ ہے۔1985ء میں اس نے امریکی جھنڈا جلایا۔ پھرجاپان کے خلاف احتجاج کرتا رہا۔2010ء میں اس نے جاپانی سفیر پر سیمنٹ کا بنا ہوا بڑا سا پتھریلا ٹکڑا پھینکا۔ اس پر موصوف کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اب کے امریکی سفیر کو زخمی کرنے کے بعد اسے پکڑا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ دس دن سے اس حملے کی منصوبہ...
مجھے کُبڑا نہ سمجھو
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
میں دُہرا ہو رہا ہوں؟ دیکھنے والو مجھے کُبڑا نہ سمجھو! ہماری حکومت نے داعش کو روکنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے! سینیٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی کے سامنے سیکرٹری وزارتِ خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ داعش پاکستان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے؛ چنانچہ روک تھام کے لیے باقاعدہ پروگرام وضع کیا گیا ہے۔ سات نکاتی منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے اور چوٹی کی سکیورٹی ایجنسیوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اس ابھرتے ہوئے خطرے کا انسداد کریں تاکہ مقامی دہشت گرد تنظیمیں داعش سے تعلقات نہ قائم کر سکیں۔ امیگریشن حکام کو حکم دیا گیا ہے کہ پاکستان سے اس ضمن میں کوئی باہر نہ جا سکے۔ سکیورٹی ایجنسیاں مذہبی اداروں کی نگرانی کریں گی تاکہ داعش کے ہمدرد وہاں نفوذ نہ کر سکیں۔ وزارت خارجہ کے سیکرٹری نے سینیٹ کمیٹی میں متعلقہ ممالک کے ساتھ سفارتی روابط بڑھانے پر زور دیا۔ بالخصوص شرق اوسط کے ملکوں کے ساتھ۔ تاکہ انتہا پسند گروہوں کے بارے میں اطلاعات کا تبادلہ کیا جا سکے۔ ’’ہم پاکستان کے دہشت پسند گروپوں کی داعش کے ساتھ مبینہ وابستگی کا انکار کرتے ہیں‘‘ سیکرٹری صاحب کا کہنا تھا! میں یہ سب سنتا ہوں اور دُہرا ...
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ادھیڑ عمر شخص نے جوان بیٹے کو بلا کر پاس بٹھایا اور اپنا دل کھول کر سامنے رکھ دیا۔ دل میں قلق تھا اور رنج۔ جوان بیٹا سارا دن آوارہ گردی کرتا تھا۔ ماں سے جھگڑ کر پیسے مانگتا‘ اپنے جیسے بیکار دوستوں کے ساتھ گلچھرے اُڑا کر‘ رات گئے آتا‘ کبھی کبھی رات بھر غائب رہتا۔ امتحان میں فیل ہو ہو کر پڑھائی چھوڑ ہی دی۔ نوکری جو مل سکتی تھی‘ اُس پر طنز کرتا‘ جس کا نام لیتا وہ مل نہیں سکتی تھی کہ اہلیت ہی نہیں تھی۔ باپ نے ایک لمبا لیکچر دیا‘ سمجھایا‘ ڈانٹ پلائی‘ نرم گفتاری بھی دکھائی۔ ابھی یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ لڑکے کی ماں پھنکارتی ہوئی آئی۔ ’’تمہیں سارے نقص میرے بیٹے ہی میں نظر آتے ہیں۔ پڑوسیوں کا لڑکا اس سے بھی گیا گزرا ہے‘ اُسے کیوں نہیں ڈانٹتے‘‘۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کوئی عورت اپنے شوہر پر اس لیے برس سکتی ہے کہ ہمارا بیٹا نکما ہے تو پڑوسیوں کا بیٹا بھی ایسا ہی ہے‘ اسے سمجھائو‘ آپ کا جواب یقینا ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا! مگر افسوس! ایسا ہو رہا ہے‘ یہ انہونی ہو رہی ہے۔ اگرچہ اس کی شکل اور ہے اور سطح مختلف! ایک نوجوان نے حال ہی میں یورپ کا سفرنا...
پشاور! ہم تیرے مقروض ہیں
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
پشاور جب بھی جانا ہوتا ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے ایک دروازہ ہے جو مغرب کی طرف کھلا ہوا ہے اور شمال کی طرف۔ کیسی ہوائیں در آتی ہیں اور کیا منظر ہیں جو اس دروازے سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پشاور بکھری ہوئی تاریخ کو ایک نقطے پر مرتکز کرتا ہے۔ پھیلی ہوئی صدیوں کو ایک لمحے میں سمیٹتا ہے۔ برصغیر کو… پورے برصغیر کو شیشے کے ایک ٹکڑے میں منعکس کر کے دیکھتا ہے اور دکھاتا ہے۔ دکھاتا ہے بشرطیکہ دیکھنے والوں کو شعور ہو کہ پشاور فقط ایک شہر نہیں! طویل تاریخ کا نقطۂ ارتکاز ہے۔ زمانوں کا سکڑتا ہوا لمحہ ہے۔ پشاور شہر ہے لیکن شہروں میں ممتاز شہر! ہم جہاں سے بھی آئے‘ پشاور سے گزر کر آئے۔ ہم شہرِ سبز سے آئے‘ خوارزم اوررے سے آئے‘ ترمذ اور سمرقند سے آئے‘ بلخ اور ہرات سے آئے‘ نیشاپور اور اصفہان سے آئے‘ تبریز اور شیراز سے آئے‘ ہم جہاں سے بھی آئے‘ پشاور ہی وہ دروازہ تھا جس سے ہم گزرے۔ پشاور ہم پر کھلا اور ہم اندر داخل ہوئے۔ پشاور کھلا رہا‘ بند نہ ہوا‘ یہ اور بات ہم واپس نہ جا سکے۔ ہم پھیل گئے۔ دو آبے میں‘ گنگا اور جمنا کے میدانوں میں۔ چتوڑ اور مالوہ میں بس گئے۔ بختیار خلجی نے اٹھارہ شہس...