Monday, March 30, 2015
Saturday, March 28, 2015
ہاں! ہم محبت کرتے ہیں!
اسد اللہ خان غالب اور اسد اللہ غالب میں فرق یہ ہے کہ وہ خان تھے اور یہ خان نہیں! وہ شہرِ سبز سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ قصور سے ہیں۔ لیکن فرق کے ساتھ ساتھ ایک وجہِ افتخار بھی ہے جو دونوں میں مشترک ہے۔ اسد اللہ خان غالب پیشۂ آبا کا ذکر فخر سے کرتے تھے۔ یہ پیشہ سپہ گری تھا ؎
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
اسد اللہ غالب اپنی سپاہ پر فخر کرتے ہیں‘ اور اسی لیے مجھے عزیز ہیں۔ ان کا اور میرا محبوب ایک ہے۔ یہ محبوب مسلح افواج ہیں۔ جن دنوں محبت محبت تھی‘ اس میں آلودگی اور غرض شامل نہیں ہوئی تھی اور عاشق کے لیے پوری دنیا محبوب ہی سے عبارت تھی‘ ان دنوں عشّاق چاند کو دیکھ کر آہیں بھرتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ چاند چمکتا تھا یا اس میں بڑھیا تھی۔ چاند اس لیے پیارا لگتا تھا کہ دور‘ کہیں دور‘ محبوب بھی اسی چاند کو دیکھ رہا ہوتا تھا! اسد اللہ غالب بھی اس لیے عزیز ہیں کہ وہ اسی پاک فوج سے محبت کرتے ہیں جس کی محبت میرے دل میں موجزن ہے! ع
آ کہ وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے
کسی کو اچھا لگے یا اس ذکر سے کسی کا چہرہ سیاہ ہو جائے‘ سچی بات یہ ہے کہ جس طرح یہ ملک اللہ کی نشانیوں میں سے ہے‘ اسی طرح اس ملک کی مسلح افواج بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ عالمِ اسلام کی سب سے عالی شان‘ سب سے زیادہ باوقار اور طاقتور ترین فوج یہی ہے۔ عالم اسلام سے ہٹ کر‘ پوری دنیا کی افواج کی فہرست بنے تو اس میں بھی اس کا مقام قابل رشک ہے۔ پوری دنیا میں اس کی عزت ہے اور یہ عزت ہی بہت سے ایسے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے جو اُس تھالی میں چھید کرتے ہیں جس سے کھاتے ہیں! حیرت ہوئی ہے اُن لوگوں پر جو ابھی تک‘ جہاں بھی انہیں موقع ملے‘ ایٹمی دھماکے پر اپنے دل کا کالا دھواں لفظوں کی صورت میں باہر نکال کر فضا آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے کچھ مقررین اور کچھ خامہ فرسائی کرنے والوں سے یہ بات سنی ہوگی کہ قومیں ایٹم بم سے ترقی نہیں کرتیں! ان تیرہ بختوں سے کوئی پوچھے کیا کبھی کسی نے یہ طعنہ دیا ہے کہ دو وقت روٹی کھانے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں؟ پانی پینے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں؟ ترقی کرنے کے لیے زندہ رہنا ضروری ہے۔ دو وقت کی روٹی کھا کر‘ پانی پی کر زندہ رہیں گے تو ترقی کریں گے۔ ایٹم بم اس لیے بنانا پڑا کہ زندہ رہنے کا سوال تھا۔ بھارت نے ایٹم بم کا دھماکہ کیا تو اُس وقت سے لے کر پاکستان کے دھماکہ کرنے تک‘ بھارتی نیتائوں کے لہجے کے غرور پر کوئی غور کرے تو اس کے ذہن سے شبہات دور ہو جائیں! اسی طرح ’’دانش‘‘ وروں نے تکیۂ کلام یہ بنایا ہوا ہے کہ سارا بجٹ دفاع پر چلا جاتا ہے۔ اوّل تو اعداد و شمار اس یاوہ گوئی کی تکذیب کرتے ہیں‘ دوسرے‘ مسلح افواج کی ضروریات پوری کرنا ملک پر فرض ہے اس لیے کہ مسلح افواج بھی وسائل کی موجودگی ہی میں اپنا فرض کماحقہ‘ ادا کر سکتی ہیں۔ ایک اور بات زور و شور سے کہی جاتی ہے کہ دفاع کا بجٹ ’’ون لائن‘‘ بجٹ ہوتا ہے۔ یہ ایک مفروضہ ہے اور مکمل لاعلمی پر مبنی ہے۔ دفاع کا بجٹ بھی وہ ساری تفصیل لیے ہوئے ہوتا ہے جو کسی بھی دوسرے شعبے کے بجٹ میں موجود ہوتی ہیں۔ ایک حقیقت جس کا علم کم ہی لوگوں کو ہے‘ اور بوجوہ‘ مسلح افواج بھی اس کی تفصیل نہیں بتاتیں‘ یہ ہے کہ مسلح افواج کا انٹرنل (اندرونی) آڈٹ‘ کسی بھی دوسرے حکومتی شعبے سے زیادہ مؤثر ہے۔ ایک بہت بڑا محکمہ ہے‘ جس کے ایک سو سے زیادہ افسر‘ اور سینکڑوں اہلکار‘ رات دن تینوں مسلح افواج کا اور ان سے وابستہ اداروں کا آڈٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس انٹرنل آڈٹ کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں روپے کی وصولیاں مسلح افواج‘ سرکاری خزانے میں جمع کراتی ہیں۔
بات دور نکل گئی۔ اسد اللہ غالب نے حال ہی میں اپنی تحریروں کے دو مجموعے شائع کیے ہیں۔ پاک فوج کو یہ ایک خوبصورت خراجِ تحسین ہے جو نہ صرف صوری اعتبار سے دیدہ زیب ہے بلکہ معنوی اعتبار سے بھی قابلِ رشک ہے! غالب کا اپنا اسلوب ہے جس میں سلاست‘ سادگی روانی اور تاثیر ہے۔ اس اسلوب کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے اپنی حب الوطنی کا ثبوت تو دیا ہی ہے‘ بہت سے ذہنوں کو جھنجھوڑا بھی ہے۔ غالب لکھتے ہیں:
’’بدر کے میدان میں عضب پہلی مرتبہ لہرائی تھی۔ آج اس کے سائے میں شمالی وزیرستان میں افواج پاکستان ملکی اور قومی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ حضور اکرمﷺ کے جری اور دلیر ہاتھوں میں ضربِ عضب نے دشمنانِ اسلام کو شکست فاش دی۔ عضب کے لیے پہلا میدان کارزار کوئی آسان نہ تھا۔ آج ہم بھی اپنی تاریخ کے سنگین ترین معرکے سے دوچار ہیں۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ یہ مسلمانانِ عالم کی آرزوئوں کا مظہر ہے۔ اور خطے میں کمزور اقوام کے لیے بہت بڑا سہارا بھی کہ اس کی افواج دنیا کی مانی ہوئی اور پیشہ ور طاقت ہے۔ یہ فوج شہادتوں کی امانت دار ہے۔ یہ قرونِ اولیٰ کے غازیوں کی طرح صرف آگے بڑھنا جانتی ہے۔ یہ طارق بن زیاد کی رسم پر عمل پیرا ہو کر کشتیاں جلا دیتی ہے اور پسپائی کے راستے مسدود کر دیتی ہے۔ یہ سلطانِ میسور کے قول کی پابند ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ حیدر کرارؓ کی طرح کشتوں کے پشتے لگا دیتی ہے اور اگر کربلا کا سامنا ہو تو رسمِ شبیری ادا کرتے ہوئے شہادت کے گل و گلزار مہکا دیتی ہے۔ ہمارے شیر جوان سیدنا امیر حمزہؓ کی للکار ہیں۔ اور خالد بن ولیدؓ کی طرح دشمن پر بجلی بن کر گرتے ہیں‘‘۔
’’ضربِ عضب‘‘ اور ’’اے وطن کے سجیلے جوانو!‘‘ دونوں کتابیں ہر اُس شخص کو ضرور پڑھنی چاہئیں جو ضربِ عضب اور دوسرے آپریشنوں کی تفصیلات سے آگاہ نہیں۔ اس لیے کہ غالب نے صرف لفاظی نہیں کی‘ حقائق کی تفصیلات بھی دی ہیں اور اعدادو شمار بھی پیش کیے ہیں‘ جب ’’روشن خیال‘‘ لکھاری منقار زیرپر ہو جائیں اور مصلحتیں‘ حب الوطنی پر حاوی ہو جائیں تو ایسے ہی جنونی‘ ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر‘ مادرِ وطن کا حق ادا کرتے ہیں!
اوپر اسد اللہ خان غالب اور اسد اللہ غالب کے درمیان ’’خان‘‘ ہونے اور نہ ہونے کے فرق کی بات ہوئی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ خان نہ ہونا خان ہونے سے بہتر ہوتا ہے۔ عمران خان دنیا میں بطور ’’خان‘‘ جانے جاتے ہیں لیکن مسلح افواج کا ایکشن ہو تو ان کا ردعمل حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ وہ قبائلی علاقوں کے خود ساختہ سرپرست بنے ہوئے ہیں اور مسلح افواج کو وہاں جانے سے روکتے رہے ہیں۔ اسد اللہ غالب نے اس پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور خوب لیا۔ کچھ سیاسی جماعتیں جو اصولی طور پر مرفوع القلم ہونی چاہئیں اور جو کسی نہ کسی صورت میں مسلح افواج کے خلاف اپنے اندر کی سیاہی باہر نکالتی رہتی ہیں‘ غالب نے انہیں بھی راہِ ہدایت دکھانے کی سعی کی ہے۔ خدا کرے یہ سعی بارآور ثابت ہو‘ اگرچہ امکان کم ہی ہے۔
میں لاہور کے ایک نوجوان بزنس مین کو جانتا ہوں جسے دھمکیاں ملتی تھیں اور بھاری رقم کے تقاضے کیے جاتے تھے۔ اس نے بلند سطح پر… جی ہاں… بہت ہی بلند سطح پر… فریاد کی اور حفاظت مانگی جو اس کا حق تھا۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ اسے بیرون ملک بھی پناہ گیر ہونا پڑا۔ کراچی میں آرمی ایکشن شروع ہوا تو اس کے بعد ہی دھمکیوں اور استحصال کا مکروہ سلسلہ بند ہوا۔ ایسی کئی مثالیں اور کئی واقعات ہیں‘ جن لوگوں کے دلوں میں مسلح افواج اور ان کی جاں نثاری کے حوالے سے سیاہ دھبے پڑے ہوئے ہیں اور یہ دھبے پھیلتے جاتے ہیں‘ اب بھی انہیں سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے کی توفیق نہ ہو تو ان کے لیے ایک اور ہی دعا کرنی چاہیے!
اسد اللہ غالب نے ہم سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔
Friday, March 27, 2015
کوئی مہاتیر‘ کوئی لی
بریڈ کیلی فورنیا میں پیدا ہوا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وہیں وکالت کرتا رہا۔ امریکہ سے باہر کا بریڈ کا سارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ وہ چند سال کمبوڈیا میں انسانی حقوق کی تنظیم میں کام کرتا رہا۔ ایشیائی ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ سفید چمڑی والے ’’ماہرین‘‘ ان کی چمڑی سے چمٹے رہتے ہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران مطالعاتی دورے پر سلہٹ جانا ہوا تو ایک امریکی سے ملاقات ہوئی جو وہاں کھاد کی فیکٹریاں لگانے کے عمل میں بطور ’’ماہر‘‘ کام کر رہا تھا۔ یہ کھاد کی صنعت کا ملک میں آغاز تھا۔ ہم ڈھاکہ یونیورسٹی کے تین طلبہ نے سب سے پہلے اس سے پوچھا کہ وہ معاوضہ کتنا لے رہا ہے۔ چالاک گورا مسکرایا۔ سلیم احمد نے کہا تھا ؎
کھال چکنی ہو تو دھندے ہیں ہزار
گیدڑی نے کب کوئی دوہا سنا
مقدار بتانے سے گریز کرتے ہوئے اس نے صرف اتنا کہا کہ ڈالروں میں ملنے والا معاوضہ اتنا ہے کہ بطور ’’مشیر‘‘ تین سالہ قیام کے بعد اسے ایک طویل عرصہ کسی کام کی ضرورت نہیں پڑے گی!
بریڈ بھی‘ جس کا پورا نام بریڈ ایڈیمز ہے‘ ایشیائی ملکوں کے امور کا ’’ماہر‘‘ ہے۔ گزشتہ سال کے آخری مہینے میں پاکستان میں سزائے موت پر‘ جو کچھ سالوں سے معطل تھی‘ دوبارہ عمل درآمد شروع ہوا تو مغربی ملکوں سے صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ انسانی حقوق کی تنظیم (ہیومن رائٹس واچ) کے ایشیائی ڈائریکٹر کی حیثیت سے بریڈ نے ایک بیان جاری کیا۔ ’’حکومت پاکستان کو چاہیے کہ سرکاری سطح پر فوراً سزائے موت کے خاتمے کا اعلان کرے۔ اور یوں اُس بین الاقوامی رجحان کا حصہ بن جائے جو سزائے موت کے خلاف دنیا میں پیدا ہو رہا ہے‘‘۔
اگر بریڈ سے پوچھا جائے کہ بھائی جان! آپ کو پاکستان کے حالات کا کس قدر علم ہے‘ یہاں کے مسائل‘ جرائم اور جرائم کی بیخ کنی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں تو وہ بغلیں جھانکنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔ بس یہی تھا سنگاپور کے آنجہانی رہنما لی کوآن ییو کا نقطۂ نظر… کہ مغرب کے ماہرین مغرب کے ماہرین ہیں‘ ایشیائی ملکوں کے مسائل سے وہ ناواقف ہیں۔ ان کے نظریات‘ ان کی تھیوریاں‘ ان کے اپنے لیے مفید ہوں گی۔ نقل بغیر عقل ایشیائی ملکوں کے لیے خودکشی کا راستہ ہے۔ سنگاپور میں قتل کی سزا تو سزائے موت ہے ہی‘ دوسرے جرائم کی بیخ کنی بھی سزائے موت سے کی گئی ہے۔ جھوٹی گواہی کا‘ جس کے نتیجے میں ایک بے گناہ آدمی پھانسی پر چڑھا دیا گیا ہو‘ جب بھی علم ہوگا‘ اس کی سزا پھانسی ہے۔ منشیات کی نقل و حمل‘ اغوا برائے قتل‘ آبرو ریزی اور اسلحہ سے فائر کرنا‘ خواہ اس سے کوئی زخمی بھی نہ ہو‘ ان سب جرائم کی سزا موت ہے۔ آج برطانیہ پر زور دیا جا رہا ہے کہ پاکستان سزائے موت معطل نہ کرے تو اس کی امداد بند کردی جائے۔ سوال یہ ہے کہ ان ممالک نے سنگاپور کا بائی کاٹ کیوں نہ کیا؟ ہو سکتا ہے کچھ لوگ اس سوال کا جواب یہ دیں کہ سنگاپور مسلمان ملک نہ تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ لی نے سنگاپور کو اقتصادی ترقی کے اُس مقام پر پہنچا دیا تھا جہاں بائیکاٹ کرنے والے کا اپنا نقصان زیادہ ہوتا۔ تمام بڑی بین الاقوامی (ملٹی نیشنل) کمپنیوں کے ہیڈ آفس سنگاپور میں تھے۔ ان کمپنیوں کا اپنا مفاد اس میں تھا کہ وہ سنگاپور کی اہمیت اور محل وقوع کو اپنی ترویج و ترقی کے لیے استعمال کریں۔
لی کا اعتراض مغربی جمہوریت پر یہ تھا کہ اس میں مادرپدر آزادی ہے۔ اس کا فلسفہ تھا کہ اچھی حکومت یعنی گڈگورننس‘ خاندانی بندھن کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ فرد پر جو پابندیاں اس کے ماں باپ‘ بیوی بچے اور خاندان عائد کرتے ہیں‘ وہ ڈسپلن کے لیے ضروری ہیں۔ سولہ سال کا بچہ ماں باپ سے بے نیاز اور ’’آزاد‘‘ ہو جاتا ہے‘ اس کا نتیجہ وہ خاندانی انتشار ہے جس کے نتائج مغرب بھگت رہا ہے مگر ایشیائی ملک اس سے بچے ہوئے ہیں۔ لی کا دوسرا اعتراض مغربی… بالخصوص امریکی جمہوریت پر یہ تھا کہ گولی (گن کلچر) اور منشیات کا استعمال وہاں عام ہے۔ وہ ہنستا تھا کہ امریکہ اپنے ہاں منشیات استعمال کرنے اور بیچنے والے کو سزا دینے کے لیے تیار نہیں لیکن ساری دنیا میں منشیات تیار کرنے والوں کے پیچھے پڑا ہے۔ اس کا آسان علاج سنگاپور نے یہ کیا کہ ایک اونس یا اونس سے زیادہ منشّی شے جس سے بھی برآمد ہوئی‘ اُسے موت کی سزا دی گئی۔ ساری دنیا کو درست کرنے کے بجائے سنگاپور نے اپنے آپ کو درست کیا۔ یہی علاج گَن کلچر ختم کرنے کے لیے آزمایا گیا۔
لی نے پریس پر پابندیاں لگائیں۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک ملک کی حفاظت‘ میڈیا کی آزادی سے زیادہ ضروری تھی۔ مغربی سرمایہ دارانہ نظام پر لی کا اعتراض یہ تھا کہ حکومت فرد کو کاروبار کی اتنی زیادہ آزادی دے دیتی ہے کہ فرد اور خاندان کو نقصان پہنچتا ہے اور معاشرہ نفع کمانے والوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کا علاج لی نے یہ کیا کہ سنگاپور کے حالات کے مطابق جمہوریت اور سرمایہ د ارانہ نظام دونوں کو تبدیل کردیا۔ آزاد منڈی میں حکومت کا عمل دخل بڑھایا‘ جیسے ہائوسنگ سیکٹر کو حکومت نے خود چلایا۔ جب تک ہر شہری اپنی رہائش گاہ کا مالک نہ ہو جائے‘ کسی کو ایک سے زیادہ مکان کی اجازت نہ دی گئی۔ ماں باپ کے گھر کے قریب رہنے کے لیے خصوصی مراعات دی گئیں تاکہ خاندانی نظام بچا رہے۔
حکومت کا عمل دخل زیادہ ہو تو سرکاری اہلکار کرپشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے لی نے اس کا تدارک کیا۔ حکومتی سیکٹر میں تنخواہوں کی سطح اتنی بلند کردی کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کے برابر آ گئیں۔ ہارورڈ سے جو ایم بی اے کر کے آتا‘ اُسے جتنی تنخواہ کوئی بین الاقوامی کمپنی پیش کرتی‘ اتنی ہی تنخواہ سنگاپور کی حکومت بھی پیش کرتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بہترین افرادی قوت حکومت کے شعبوں کو میسر آ گئی۔ تنخواہیں بڑھانے کے بعد لی نے عدلیہ سے صاف صاف کہا کہ اب ہم کرپشن کرنے والوں کو پکڑ کر آپ کے حوالے کریں گے‘ آپ ان کو سزا اس طرح دیجیے کہ وہ عبرت کا نشان بن جائیں۔ ایک انٹرویو میں لی نے کہا کہ مغربی جمہوریت بنیادی طور پر ہم نے اپنائی ہے لیکن اپنے حالات کے مطابق ہم اس میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں مثلاً ون مین ون ووٹ (ایک فرد‘ ایک ووٹ) کا فارمولا حرفِ آخر نہیں۔ چالیس اور ساٹھ سال کی عمر کے دوران ایک شخص کو دو ووٹ کا حق بھی دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس عمر میں وہ اپنے بچوں کا مستقبل مستحکم کر رہا ہوتا ہے اور ایک ووٹ اُن کا بھی استعمال کر سکتا ہے!!
ہمارے ہاں یہ بحث عام ہے کہ مغربی جمہوریت کفر ہے! کفر ہے یا نہیں‘ سوال یہ ہے کہ آپ کو کس نے مجبور کیا ہے کہ اُس جمہوریت کو بغیر سوچے سمجھے اندھا دھند استعمال کریں! آپ اپنے حالات کے مطابق اس کی جہات کا تعین ازسرِ نو کر سکتے ہیں۔ جمہوریت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ حاکم کو تہہ تیغ نہیں کرنا پڑتا۔ وہ ایک معینہ مدت کے بعد خود ہی دست بردار ہو جاتا ہے۔ بھائیوں کو قتل نہیں کرنا پڑتا‘ نہ ہی اسّی اسّی سال کے شہزادوں کو ان کا ’’حق‘‘ دینا پڑتا ہے نہ کوئی قذافی یا کوئی حافظ الاسد چار چار عشروں کے لیے گردنوں پر بیٹھ سکتا ہے۔ یہ بنیادی فائدہ اٹھانے کے بعد جمہوریت کو ہر ملک اپنے معروضی حالات کے مطابق تبدیل کر سکتا ہے۔ مثلاً پاکستان میں ان سوالوں کے جواب دینے ضروری ہیں کہ کیا ایک ہاری یا مزارع کو ووٹ کا حق دیا جائے؟ جب تک زرعی اصلاحات کے ذریعے فیوڈلزم کے دانت نکال نہیں دیے جاتے‘ ہاری اگر حویلی سے اپنی بیوی یا بیٹی کو نہیں آزاد کرا سکتا تو ووٹ اپنی مرضی سے کیسے دے سکتا ہے؟ اور کیا ایک خاندان سے تین تین افراد کو سینیٹ کا رکن بنایا جائے؟ خاندانی اور پشتینی اجارہ داریاں ختم کرنے کے لیے پاکستان اپنے معاشرتی مسائل کے پیش نظر جمہوریت میں تبدیلیاں لا سکتا ہے۔
اسی طرح پریس کی آزادی کو معروضی حالات کے مطابق دیکھنا ہوگا نہ کہ قطعی
(Absolute)
انداز میں۔ کسی بیان یا دھمکی کو نشر کرنا ملکی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے تو میڈیا پر قدغن لگانا ہوگی۔ اس کی صرف ایک مثال دیکھیے۔ حال ہی میں جب دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کا عمل شروع کیا گیا تو اس سال کے آغاز میں آٹھ جنوری کو ایک سیاسی مذہبی پارٹی کے لیڈر نے حکومت پر الزام لگایا کہ مغرب کو خوش کرنے کے لیے اسلام پسندوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ اس پر ایک معروف معاصر نے اداریہ لکھا اور پوچھا کہ ’’اگر یہ اسلام پسند ہیں تو بتائیں پھر اسلام‘ پاکستان اور انسان دشمن کون ہیں؟‘‘ سوشل میڈیا پر اس بیان کا جو ردعمل ہوا وہ سخت اور جارحانہ تھا۔ گریبان پکڑ کر پوچھنے کی باتیں عام ہوئیں۔ کیا ایسے بیانات میڈیا پر نشر ہونے چاہئیں یا کسی نہ کسی جگہ ایک کٹ آف لائن لگانا ہوگی؟
امریکی‘ برطانوی‘ شامی یا ترکی‘ کوئی بھی ماڈل پاکستان پر من و عن نہیں تھونپا جا سکتا۔ خود لی نے تیس سال کی شبانہ روز محنت کے بعد جو ماڈل سنگاپور کے لیے وضع کیا‘ اس کا اطلاق بھی آنکھیں بند کر کے نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے لیے جمہوریت اور گورننس کی جو بھی شکل ہوگی‘ پاکستان کے تقاضوں کے مطابق ہوگی‘ لیکن یہ ماڈل بنانے کے لیے صرف اُس لیڈرشپ کو اجازت دی جائے گی جو بے لوث ہو اور مکمل بے غرض ہو۔ وہ مہاتیر یا لی تو ہو سکتے ہیں‘ پاکستان کے شاہی خانوادوں کے افراد نہیں ہو سکتے۔
Wednesday, March 25, 2015
نخلستان تراشنے والا شخص
مائیکل فے امریکہ میں پیدا ہوا۔ باپ کا نام جارج تھا۔ آٹھ سال کا تھا کہ اس کے ماں باپ میں علیحدگی ہو گئی۔ کچھ عرصہ باپ کے پاس رہا مگر پھر سنگاپور چلا گیا جہاں اس کی ماں دوسری شادی کے بعد قیام پذیر تھی۔ مائیکل فے کا سوتیلا باپ ایک چینی تھا۔ یہاں اسے امریکی سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہ اکتوبر 1993ء کی بات ہے۔ سنگاپور کے سب سے بڑے انگریزی روزنامہ ’’دی سٹریٹس ٹائمز‘‘ نے ایک رپورٹ شائع کی کہ سنگاپور میں کاروں کو نقصان پہنچانے کی وارداتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ گھروں کے باہر کھڑی کی گئی کاروں پر ڈنڈے مارے جاتے ہیں۔ رنگ کھرچ دیا جاتا ہے۔ ان پر پینٹ گرایا جاتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور روتے تھے کہ کوئی ٹائروں کو پھاڑ جاتا ہے۔ سٹی سنٹر میں کھڑی ہوئی کاروں پر خراشیں ڈال دی جاتیں اور ڈینٹ پڑے ہوئے ہوتے۔ کچھ شہریوں نے بتایا کہ چھ ماہ میں انہیں چھ بار کار کی مرمت کرانا پڑی۔
سنگاپور کی پولیس‘ جو مستعد ہونے میں کسی بھی ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں‘ خفیہ تفتیش میں لگ گئی اور آخرکار امریکی سکول کے غیر ملکی طالب علموں کو جا پکڑا۔ پچاس سے زیادہ وارداتوں میں اسی سکول کے لڑکے ملوث تھے۔ انہی میں مائیکل فے بھی تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ کاروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ‘ شاہراہوں پر لگائے گئے ٹریفک کے نشانات والے بورڈ بھی وہی چراتا رہا۔ سنگاپور کے قانون کے مطابق مائیکل فے کو عدالت نے چار ماہ کی قید‘ ساڑھے تین ہزار ڈالر جرمانے اور چھ بید کی سزا سنائی۔ سنگاپور میں ملزموں کو بید مارے جاتے ہیں۔ مقامی لڑکوں کو بھی اسی قسم کی سزائیں سنائی گئیں۔
ایک امریکی لڑکے کو بید مارنے کی سزا؟ خبر نشر ہوئی تو امریکہ میں تہلکہ برپا ہو گیا۔ سنگاپور میں تعینات امریکی سفیر نے احتجاج کیا کہ کاروں کو پہنچایا گیا نقصان عارضی تھا جب کہ ’’بچے‘‘ کی جلد پر مستقل نشان پڑ جائیں گے۔ امریکی پارلیمنٹ کے دو درجن ارکان نے سنگاپور حکومت کو نظرثانی کی درخواست بھیجی۔ اس وقت امریکہ میں کلنٹن صدر تھا۔ اس نے سنگاپور حکومت سے خود رابطہ کیا اور بید مارنے کی سزا معاف کرنے کی درخواست کی۔ سنگاپور حکومت کا موقف واضح تھا۔ سنگاپور کے شہریوں کو بھی اس جرم کی سزا یہی دی جاتی تھی۔ اس سزا ہی کا ثمر تھا کہ سنگاپور میں املاک کو نقصان کوئی نہیں پہنچاتا۔ سنگاپور کے میڈیا نے حیرت کا اظہار کیا کہ امریکی صدر انتہائی اہم امور چھوڑ کر اس معاملے میں ذاتی مداخلت کر رہا ہے۔ تو کیا اس کے پاس اتنا فالتو وقت ہے۔ صرف یہ کیا گیا کہ کلنٹن کی ذاتی مداخلت کا بھرم رکھنے کے لیے سنگاپور کے صدر نے چھ بید کی سزا کم کر کے چار بید کردی۔
مئی 1994ء کو مائیکل فے کو چار بید مارے گئے۔ بید مارنے سے پہلے اس کے کپڑے اتار دیے گئے۔ اسے لکڑی کے فریم پر اس طرح باندھ دیا گیا کہ وہ آگے کو جھکا ہوا تھا۔ گُردوں والی جگہ پر پیڈ باندھ دیے گئے تاکہ وہاں ضرب نہ لگے۔ ہر مجرم کے ساتھ اسی طرح کیا جاتا ہے!
اب آپ فرض کیجیے کہ سنگاپور کے بجائے یہ واقعہ پاکستان میں پیش آتا ہے۔ پاکستانی قانون کی رو سے امریکی مجرم کو بید مارنے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ دو درجن امریکی ارکان پارلیمنٹ مراسلہ لکھتے ہیں۔ امریکی صدر‘ پاکستانی وزیراعظم سے ذاتی طور پر معافی کی درخواست کرتا ہے۔ پھر نقشے پر پاکستان کو دیکھیے اور سنگاپور کو بھی۔ پورا سنگاپور لاہور جتنا ہوگا یا اس سے بھی کم! محل وقوع بھی بین الاقوامی سیاست میں چنداں اہمیت کا حامل نہیں! ایٹمی طاقت تو کجا‘ روایتی عسکری قوت بھی کوئی خاص نہیں۔ امریکہ کو تو چھوڑیے‘ ملائیشیا یا انڈونیشیا ہی چند گھنٹوں میں قبضہ کر سکتے ہیں! تو پھر آپ کا کیا خیال ہے کہ پاکستان بھی سنگاپور کی طرح ڈٹ جائے گا؟
اس سوال کا جواب آپ کو معلوم ہے‘ مجھے بھی اور پانچویں جماعت کے بچے کو بھی! امریکی صدر؟ ہاہاہا! امریکہ کا تو سیکشن افسر ہی اس معاملے کو ٹھپ کرانے کے لیے کافی ہوگا! وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ سنگاپور کے پاس ایٹم بم تھا نہ فوج‘ نہ جغرافیائی اہمیت‘ لیکن اُس کے پاس لی تھا! لی کوآن ییو! وہ تیس سال سنگاپور کا وزیراعظم رہا! تیس سال میں اس نے اپنی جائداد میں اضافہ کیا نہ بھائی کو نہ بھتیجے کو نہ صاحبزادی کو اور نہ داماد کو سرکاری امور میں مداخلت کی اجازت دی۔ اس نے کوئی ذاتی کارخانہ لگایا نہ ملک سے باہر سرمایہ لے گیا۔ اس کے پاس جدہ میں محل تھا نہ انگلستان میں‘ فرانس میں نہ امریکہ میں! وہ بڑی سے بڑی دعوت میں بھی نوڈل کی ایک پلیٹ یا پیالے میں تھوڑے سے چاول لے کر کھا لیتا! اس کا ایک ہی شوق تھا‘ زندگی کا ایک ہی مقصد تھا‘ ایک ہی دھن تھی! کہ سنگاپور کو دنیا کے لیے قابلِ رشک ملک بنا دے۔ وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گیا! افسوس! صد افسوس! ہیہات! ہیہات! ہماری قسمت میں کوئی لی نہیں! ہوتا تو ہم بھی امریکہ کے سامنے ڈٹ جاتے!!
تین دن پہلے پیر کے دن‘ صبح تین بج کر اٹھارہ منٹ پر 91 سالہ لی وفات پا گیا۔ پاکستانی اخبارات کے ایک گوشے میں چھپنے والی یہ خبر کسی اہمیت کی حامل نہ تھی! مگر یہ بات کہ لی نے سنگاپور کو سنگاپور کس طرح بنایا‘ ہمارے ملک کے لیے بہت اہم ہے! ہمارے لیے اس میں کئی سبق ہیں!
لی وزیراعظم بنا تو اس وقت سنگاپور مچھروں سے بھری ہوئی ایک ساحلی بستی تھی۔ جس میں مچھیرے تھے‘ مزدور تھے اور کھوکھے اور ریڑھیاں تھیں! مدقوق‘ لاغر چینی عورتیں ٹرالیاں دھکیلتی تھیں۔ گندی پیالیوں میں یہ لوگ دن بھر چائے سڑکتے رہتے تھے! چینی‘ انڈین اور ملے (ملائیشیا کے اصل باشندے) آپس میں نسلی فسادات کر کے ایک دوسرے کو مارتے رہتے تھے۔ تعلیم برائے نام تھی۔ گلیوں میں پانی کھڑا رہتا تھا۔ لی نے اسے ایک صاف ستھرا‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ملک بنا دیا اور ایشیا کے سب سے بڑے مالیاتی مرکز میں تبدیل کردیا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ میں تیسری دنیا کے صحرا کے درمیان‘ پہلی دنیا (فرسٹ ورلڈ) کا ایک نخلستان تراش رہا ہوں! اُس کے وژن کا اندازہ لگایئے کہ اس نے رہائشی بلاکوں میں چینیوں‘ ہندوستانیوں اور ملے باشندوں کے گھروں کی تعداد متعین کردی! ’’ہم نسلی بنیادوں پر الگ الگ آبادیوں کو برداشت نہیں کر سکتے‘‘ چینی کا پڑوسی انڈین تھا اور انڈین کا پڑوسی ملے! آج سنگاپور میں نسلی اضطراب کا نشان تک نہیں! وہ سنگاپور کو بہت جلد ہانگ کانگ کے مقابلے میں لے آیا۔ قوانین پر اتنی سختی سے عملدرآمد ہوتا کہ سڑک غلط جگہ سے پار کرنے اور بیت الخلا میں فلش کی ٹنکی کا بٹن دبا کر کموڈ صاف نہ کرنے پر بھی بھاری جرمانہ ہوتا۔ ملک میں چیونگ گم کھانے کی اجازت نہ تھی! ایک برطانوی صحافی نے اعتراض کیا کہ چیونگ گم چبانے سے سوچنے میں مدد ملتی ہے۔ لی نے جواب دیا کہ اگر چبائے بغیر سوچنا مشکل ہے تو کیلا ٹرائی کرو! صرف تین عشروں میں اس نے سنگاپور کو ایشیا کا ٹائیگر… کاغذی ٹائیگر نہیں… اصلی ٹائیگر بنا دیا۔ کل قومی پیداوار فی کس کے اعتبار سے سنگاپور دنیا میں تیسرے نمبر پر آ گیا۔ شہر صاف ستھرا ہو گیا۔ مذہبی جھگڑے رہے نہ نسلی! جب اعتراض ہوا کہ قوانین سخت ہیں تو لی کا جواب تھا کہ سنگاپور جیسے ملک میں جہاں مختلف نسلوں کے لوگ رہتے ہوں‘ سخت قوانین لازم ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا ’’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مجھے قابو کر لے گا تو میں لوہے کا پنجہ پہن کر تنگ گلی میں اسے پکڑ لوں گا۔ چینی معاشرے کو کنٹرول کرنے کا یہی طریقہ ہے‘‘۔ لی نے آزاد تجارت کی پالیسی اپنائی۔ تاجروں کی سرپرستی کی۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ شہر میں اصلاحات نافذ کیں۔ گندی آبادیوں پر بُل ڈوزر پھروا دیے۔ اس نے مجرموں کو جیل میں رکھنے کے لیے سخت قوانین پاس کروائے۔ ’’زبان کا اور مذہب کا تعصب پھیلانے والوں کو ہم کھلا نہیں چھوڑ سکتے‘‘۔ اس نے واضح پالیسی بتا دی۔ ’’ایسے انتہا پسندوں کے ساتھ سختی نہ کی تو ملک تباہ ہو جائے گا!‘‘
آپ حیران ہوں گے کہ سنگاپور میں بندوق یا ریوالور کی گولی چلا کر جرم کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا! ایک اونس سے زیادہ منشیات لانے یا لے جانے پر موت کی سزا ہے۔ جرم کرتے وقت اگر گولی چلائی جائے تو کسی شخص کو گولی لگے یا نہ لگے‘ محض گولی چلانے کی سزا موت ہے! لی کے وژن کی ایک اور مثال دیکھیے۔ ایشیائی مرد‘ فطرتاً ایسی بیوی پسند نہیں کرتا جو اُسی جتنی تعلیم یافتہ ہو یا اُس سے زیادہ لائق ہو۔ سنگاپور میں جب اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں سے شادیاں کرنے والوں کی تعداد کم ہوئی تو لی نے دنیا میں پہلا سرکاری میرج بیورو قائم کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں سے بچے زیادہ پیدا ہونے چاہئیں کیونکہ تعلیم یافتہ ماں اور دوسری ماں کی اولاد میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس کا قول تھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مائوں سے بچے نہ پیدا ہوئے تو یہ معاشرہ احمقوں کا معاشرہ بن جائے گا!
تیس سال بعد 1990ء میں لی نے وزارت عظمیٰ خود ہی چھوڑ دی مگر اگلے بیس سال اس کی رہنمائی سنگاپور کو حاصل رہی۔ وہ سینئر وزیر رہا۔ پھر اس کا بیٹا منتخب ہو کر وزیراعظم بنا۔ یوں پالیسیوں کا تسلسل… جو ایک نعمت سے کم نہیں… سنگاپور کو ترقی کے بلند سے بلند تر زینے پر لے جاتا رہا!
لی نے مغربی جمہوریت اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو ایشیائی ملکوں کے لیے غیر موزوں قرار دیا۔ اس نے عملاً ان تصورات کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے! کسی تنقید کی پروا کی نہ کسی معترض کی۔ اسے کسی قسم کے احساس کمتری کا عارضہ لاحق نہ تھا! لی نے جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کو اپنے ملک کے حالات کے مطابق کس طرح تبدیل کیا؟ ہم لی کے تجربوں سے پاکستان میں کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ ہمیں اس ضمن میں کیا کرنا ہوگا؟
ان سوالوں کے جواب ہم اگلی نشست میں پیش کریں گے!
Monday, March 23, 2015
سنگ باری کا موسم
ٹرین چل رہی تھی۔ ڈبے میں بیٹھے ہوئے ایک معتبر شخص نے سامنے بیٹھے ہوئے مسافر کو بتایا ’’میں حفیظ ہوں‘‘۔ مسافر نے سُن کر کوئی خاص تاثر نہ دیا۔ معتبر شخص نے پھر بتایا ’’میں شاہ نامہ اسلام کا مصنف ہوں‘‘۔ اس پر بھی سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے کوئی توجہ نہ دی۔ معتبر شخص نے ایک کوشش اور کی۔ ’’ارے بھئی! میں حفیظ ہوں۔ قومی ترانے کا خالق‘‘۔ مسافر کا چہرہ سپاٹ ہی رہا۔ اس نے ایک بے رنگ سی ’ہوں‘ کی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ معتبر شخص نے زچ ہو کر کہا ’’بھئی! میں حفیظ ہوں۔ حفیظ جالندھری‘‘ اب مسافر کا چہرہ فرطِ مسرت سے تمتما اٹھا۔ وہ جوش میں اٹھا۔ حفیظ صاحب سے بغل گیر ہوا اور صدقے واری ہو کر کہنے لگا ’’اوہ! آپ بھی جالندھر کے ہیں‘‘!
یہ لطیفہ سچا واقعہ ہے یا محض اختراع‘ نہیں معلوم! مگر اس سے ایک بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ ایک شہر‘ ایک علاقے اور ایک قومیت کا ہونا یا ہم زبان ہونا انسانی جذبات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہاں! جب یہ اہمیت ایک خاص حد سے بڑھ جائے اور تعصب یا عصبیت کی شکل اختیار کر لے تو معاشرتی بیماری (سوشل ایول) بن جاتی ہے!
ان دنوں بہار کا موسم ہے۔ وحشت جوبن پر ہے۔ فانی بدایونی نے کہا تھا ؎
فصلِ گُل آئی یا اجل آئی کیوں درِ زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
بہار آئے اور وحشتیں بڑھ جائیں تو دیوانوں پر سنگ باری شروع ہو جاتی ہے۔ پتھر مارنے والے ہاتھوں نے دستانے پہنے ہوئے ہوں تو سنگ باری کا اور ہی مزہ ہے! عطاء اللہ شاہ بخاری جیسا انصاف کون کرے! کہنے لگے‘ کسی کی ماں بہن دیکھی تو فوراً اپنی ماں بہن کا خیال آیا‘ پھر غالب کا شعر پڑھا اور کیا خوب اس شعر کا اطلاق کیا ؎
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا!
لیکن اب کے جو سنگ باری ہو رہی ہے‘ اس میں سنگ اٹھانے والے اور پتھر مارنے والے اپنے سر سے غافل ہیں! ایم کیو ایم کی آغوش سے جرائم پیشہ عناصر کو پکڑ کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے اور حق بھی! ایم کیو ایم سمیت کسی سیاسی جماعت کو عسکری ونگ پالنے کا کوئی حق نہیں! اس بات میں بہت وزن ہے کہ کل جس صولت مرزا کو بچانے کی کوشش ہو رہی تھی آج اس پر جھوٹ اور نااعتباری کے لیبل لگائے جا رہے ہیں۔ کسی رہنما کو ملک سے باہر بیٹھ کر غیر متوازن بیانات دینے اور اشتعال انگیز تقریریں کرنے کی آزادی بھی نہیں دی جا سکتی۔ ٹارگٹ کلرز کو پکڑنا‘ یرغمال شہر کو رہا کرانا‘ ساری باتیں درست ہیں۔ جو صورتِ حال درپیش ہے‘ یقینا المناک ہے اور قابلِ مذمت بھی! مگر سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا اس المناک اور قابلِ مذمت صورتِ حال کی ساری ذمہ داری ایم کیو ایم پر ڈالنا درست ہے؟ اللہ کے بندو! یہ ہے وہ سخن گسترانہ بات جو مقطع میں آ پڑی ہے۔ انصاف! انصاف! انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جو حصہ قیصر کا ہے‘ قیصر کو دینا ہوگا اور جو کلیسا کا ہے‘ اس سے کلیسا کو محروم کرنا قرینِ انصاف نہ ہوگا!
یہ کالم نگار کراچی کا ہے نہ لاہور کا! پختون ہے نہ بلوچی نہ مہاجر! پنجاب کا آخری مغربی ضلع بھی عجیب قسمت رکھتا ہے! وسطی پنجاب جائیں تو استقبال یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ ’’اچھا! پنجاب آئے او!‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ الزام اسی حد تک لگانا چاہیے جس حد تک انصاف اجازت دے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ تیسری نسل کو مہاجر کہلانے کا کیا حق ہے‘ ہجرت تو پہلی نسل نے کی تھی‘ یہ تو یہیں پیدا ہوئے تو کہتے وقت یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ مہاجر کہلوانے کی نوبت ہی کیوں آئی؟ ایم کیو ایم کی تشکیل کے پیچھے محرکات و عوامل کیا تھے؟
ایک بات جو تواتر کے ساتھ کہی جاتی ہے یہ ہے کہ ضیاء الحق نے ایک مذہبی سیاسی جماعت کا کراچی میں زور توڑنے کے لیے ایم کیو ایم بنوائی۔ ایک سابق جرنیل نے بھی یہ بات وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مذہبی سیاسی جماعت ضیاء الحق کے سارے دور میں اس کے ساتھ یک جان دو قالب رہی! یہاں تک کہ اس جماعت کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے مقدمے میں گواہوں سے بھی ملتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق کو کیا ضرورت تھی کہ اپنی حامی پارٹی کا توڑ کرے؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سندھی قوم پرستوں کا زور توڑنے کے لیے ایم کیو ایم بنوائی گئی۔ گویا ایم کیو ایم بنانے والے سارے موم کے پُتلے تھے۔ ان میں عقل تھا‘ نہ شعور! جو کسی نے کہا‘ انہوں نے کر ڈالا! جب کہ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مشرقی پاکستان کو چھوڑ کر‘ سیاسی شعور سب سے زیادہ اہلِ کراچی میں تھا۔ یہ کراچی ہی تھا جہاں سے آمریت کے زمانۂ عروج میں مادر ملت فاطمہ جناح انتخابات جیتی تھیں!
زبان اور قومیت کی بنیاد پر سیاست کا آغاز کراچی کے مہاجروں نے نہیں کیا۔ کبھی نہیں! اس کارِ خیر کا آغاز دوسروں نے کیا اور آغاز کے بعد اسے ’’کمال‘‘ تک بھی دوسروں ہی نے پہنچایا۔ جئے سندھ محاذ ستر کے عشرے کی ابتدا ہی میں بن گیا تھا۔ اس سے بھی پہلے گوہرایوب خان صاحب اپنے محترم والد کی ’’فتح‘‘ کا جشن کراچی میں منا چکے تھے اور لالوکھیت کے علاقے پر حملہ کیا جا چکا تھا۔ تاریخ میں یہ واقعہ محفوظ ہے کہ کس کے گلے میں تختی لٹکا کر‘ اس پر مادرِ ملت لکھ کر جلوس نکالا گیا تھا! ایک روایت تو یہ بھی ہے کہ گلے میں تختی نہیں‘ جوتا لٹکایا گیا تھا! یہ سب کرنے والے ایک مخصوص زبان اور ایک قومیت سے تعلق رکھتے تھے!
1972ء میں سندھ اسمبلی میں سندھی زبان کے نفاذ کا بل پیش کیا گیا۔ اس بل کی شق نمبر چھ یہ تھی:
Government may make arrangements for progressive use of sindhi language in offices and departments of Government including courts and assembly.
یعنی ’’حکومت کے دفتروں اور محکموں‘ بشمول عدلیہ اور اسمبلی‘ سندھی زبان کے بتدریج نفاذ کے لیے انتظامات کیے جائیں‘‘۔ حزبِ اختلاف نے‘ جس میں اردو بولنے والے بھی تھے‘ ترمیم پیش کی کہ سندھی کا استعمال ’’قومی زبان کے علاوہ‘‘ ہوگا۔ مقصد یہ تھا کہ اردو اور سندھی دونوں کا استعمال ہوگا۔ سپیکر نے ترامیم نامنظور کردیں۔ حزبِ اختلاف نے واک آئوٹ کیا اور اس کی غیر حاضری میں بل پاس کردیا گیا۔ اس کے بعد زبان کی بنیاد پر رسوائے زمانہ فسادات نے کراچی اور حیدرآباد کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا!
ایم کیو ایم سے بہت پہلے اے این پی قومیت اور زبان کی بنیاد پر سیاست میں داخل تھی۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بھی قومیت کے اردگرد گھومتی تھیں۔ جب ہر کوئی پاکستانی بننے کے بجائے سندھی‘ پنجابی‘ پٹھان‘ بلوچی اور کشمیری بن گیا تو اردو بولنے والے کہاں جاتے؟ کیا کرتے؟ یہاں تو جو ہندو‘ عیسائی یا اور کوئی اور غیر مسلم‘ اسلام بھی قبول کر لے تو اسے معاشرتی سطح پر کبھی قبول نہیں کیا جاتا نہ رشتہ دیا جاتا ہے‘ مہاجروں کو کون سندھی تسلیم کرتا؟ کبھی تلیر کہہ کر پکارا جاتا‘ کبھی لکڑ! یہ سب رعونت اور تکبر کے مظاہر تھے۔ سندھی اور بلوچی وڈیرے دو دو سو بندوق بردار محافظوں کے جلو میں‘ تلوار نما مونچھوں کو تائو دیتے‘ کراچی کو اپنی جاگیر سمجھتے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اردو بولنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا۔ پھر کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا۔ مقابلے کے امتحان میں فیل ہونے والوں کو گھروں سے بُلا بُلا کر تعیناتی کے خطوط دیے گئے۔ ’’آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن‘‘
(APMSO)
اسی کوٹہ سسٹم کے ردعمل میں وجود میں آئی۔ کراچی یونیورسٹی میں اس تنظیم سے پہلے زبان اور قومیت کی بنیاد پر کم از کم دس طلبہ تنظیمیں موجود تھیں! پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن‘ بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن‘ پنجابی سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن‘ پنجابی میڈیکو آرگنائزیشن‘ سندھی میڈیکو آرگنائزیشن‘ جئے سندھ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن‘ سندھی سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی‘ سرائیکی سٹوڈنٹ
آرگنائزیشن‘ کشمیری سٹوڈنٹ فیڈریشن‘ یہ سب مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن سے پہلے موجود تھیں!! فروری 1981ء میں ایک مذہبی طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی میں داخلے کے ایام میں مہاجر طلبہ تنظیم پر حملہ کیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مہاجر تنظیم کے طالب علم رہنمائوں کو اس کے بعد طویل عرصہ تک یونیورسٹی میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا۔
پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کچھ نہ کیا ہو! تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے! اردو بولنے والوں نے زبان اور قومیت کی بنیاد پر تنظیم سب سے آخر میں بنائی اور بہت سے دوسروں کو دیکھ کر بنائی… ردعمل شدید ہوتا ہے اور انتہا پسندانہ ہوتا ہے۔ ردعمل میں ایم کیو ایم سے فاش غلطیاں ہوئیں جن کا نتیجہ وہ آج دیکھ رہی ہے۔ سب سے پہلی غلطی ان سے یہ ہوئی کہ ان کی صفوں میں دانشور اور اہلِ حکمت نہ تھے۔ صورتِ حال کا مقابلہ ان حضرات نے بندوق اور ماردھاڑ سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ مطالعہ اس کے رہنمائوں کا سطحی تھا اور گہرائی عنقا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بقول جون ایلیا‘ جن لوگوں میں شبلی نعمانی‘ سلیمان ندوی‘ محمد علی جوہر‘ سرسید احمد خان‘ حکیم اجمل خان اور لیاقت علی خان جیسے مشاہیر پیدا ہو رہے تھے‘ وہاں اب جاوید لنگڑا‘ فلاں کمانڈر‘ فلاں موٹا اور فلاں پہاڑی پیدا ہونے لگے۔ یہ نعرہ کہ ٹیلی ویژن اور وی سی آر بیچ کر کلاشنکوف خریدو‘ کوتاہ اندیشی اور کور چشمی پر مبنی تھا۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ایک پورا ملک جو جاگیرداروں اور پشتینی نسل در نسل قیادت سے تنگ آیا ہوا تھا‘ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے دوسرے رہنمائوں کو نظر ہی نہ آیا! نام انہوں نے مڈل کلاس کا لیا لیکن عملی طور پر کراچی اور حیدرآباد سے باہر نہ نکلے۔ تاریخ کا سنہری موقع ضائع کیا۔ اگر یہ حضرات پورے ملک کے متوسط طبقے کو ساتھ لے کر چلتے تو صورتِ حال یکسر مختلف ہوتی۔ زہر کا علاج انہوں نے تریاق سے نہیں‘ زہر سے کیا۔ زبان اور قومیت کی بنیاد پر جو سیاست ہو رہی تھی اس کا مقابلہ زبان اور قومیت سے کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بجائے‘ پاکستانیت سے مقابلہ کرتے تو آج پورا پاکستان ان کے ساتھ ہوتا!
ایم کیو ایم ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت! الزام اتنا ہی لگانا چاہیے جتنا درست ہو! توازن ضروری ہے! آج ہم جو کاٹ رہے ہیں‘ اُسے بونے میں ہم سب شریک تھے!
Saturday, March 21, 2015
کواکب
معلوم نہیں غالبؔ ولی تھا یا نہیں! ایک بات طے ہے کہ خود اس نے اپنی ولایت کا اقرار کیا نہ انکار۔ بس ایک مشروط سے شعر میں اپنی ولایت کے بارے میں مشکوک انداز میں بات کردی ؎
یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
تاہم ڈیڑھ سو سال پہلے آج کے پاکستان کے متعلق ایسی ایسی پیشگوئیاں کر گیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً یہ جو شعر ہے ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
تو یہ ہمارے رہنمائوں کے بارے ہی میں تو ہے۔ جنرل پرویز مشرف ہی کا معاملہ لے لیجیے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان کے اور ہمارے وزیراعظم جناب میاں محمد نوازشریف کے درمیان نہ صرف یہ کہ تعلقات منقطع ہیں بلکہ مخاصمت بھی ہے‘ مگر غالب بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے دھوکا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کواکب کوکب کی جمع ہے۔ کوکب ستارے کو کہتے ہیں۔ یہ دونوں محترم حضرات ہمارے آسمانِ سیاست کے روشن ستارے ہیں۔ روشنی سے انکار کس کافر کو ہے! مگر غالب ایک اور زاویے سے متنبہ کرتے ہیں کہ جو کچھ اوپر سے نظر آتا ہے اصل میں وہ نہیں‘ آخر وزیراعظم کو جنرل صاحب بھائے تھے‘ جبھی تو انہیں سپہ سالار مقرر کیا تھا۔ ورنہ سینیارٹی کے حوالے سے تو باری ایک اور جرنیل کی تھی۔ وہی تعلقات اب بھی نبھائے جا رہے ہیں۔ اس میں کچھ کمال جنرل صاحب کا بھی ہے۔ وہ اپنے دوستوں کو فراموش نہیں کرتے اور ان کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ جناب طارق عظیم نے اقتدار کے مشکل اور پُرصعوبت ایام میں جنرل صاحب کا ساتھ دیا۔ ٹیلی ویژن پر ان کا دفاع کرتے رہے۔ سالہا سال تک مخالفین کے اعتراضات کے جواب دیتے رہے۔ جنرل صاحب نے ان احسانات کا بدلہ اس طرح اتارا کہ دو دن پہلے جناب طارق عظیم کو کینیڈا میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کروا دیا۔ اگر اب بھی جناب وزیراعظم اور جنرل صاحب کے باہمی خوشگوار تعلقات کے بارے میں کسی کو شک ہے تو پھر شک اور وہم کا علاج تو بقراط حکیم کے پاس بھی نہ تھا۔ جناب طارق عظیم فارن سروس سے نہیں۔ فارن سروس آف پاکستان کے آزمودہ کار اور جہاندیدہ افسروں کی کمی بھی نہیں‘ مگر جنرل صاحب کے دوست کو جناب وزیراعظم کس طرح محرومِ توجہ رکھ سکتے تھے!
ایک اور مثال دیکھیے۔ محترمہ ماروی میمن برسوں مسلم لیگ قاف کی رکن رہیں اور یوں جنرل صاحب کے سایۂ عاطفت میں تھیں۔ والدِ گرامی بھی جنرل صاحب کی کابینہ میں وزیر رہے۔ اب وہ موجودہ حکومت میں ایک اہم مالی ادارے کی سربراہ ہیں۔ سٹیٹس ان کا بمنزلہ وزیر کے ہے۔ اسے بھی ریٹائرڈ جنرل صاحب کی کرامت ہی سمجھیے کہ جناب وزیراعظم سے اپنے خوشگوار تعلقات کو (جو بظاہر غیر خوشگوار ہیں) بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ایک دیرینہ وفادار کارکن کو بلند منصب پر فائز کرا دیا۔ یہی کرم گستری جنرل صاحب نے جناب زاہد حامد سے بھی کی۔ آپ جنرل صاحب کے عہدِ اقتدار میں وزیر تھے۔ جنرل صاحب نے اقتدار سے رخصت ہونے کے فوراً بعد انہیں مسلم لیگ نون میں داخل کرا دیا!
اب ایک اور کوکب دیکھیے۔ یہ عمران خان ہیں۔ بظاہر ایک دنیادار سیاستدان۔ مگر ان کی اصل صلاحیتوں سے پردہ حال ہی میں ایک وفاقی وزیر نے اٹھایا۔ یہ محترم وزیر ایک انتہائی اہم قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ یوحنا آباد کے سانحہ کے فوراً بعد انہوں نے عمران خان کی حقیقت کو واشگاف کرتے ہوئے قوم کو اعتماد میں لیا اور بتایا کہ عمران خان کے 126 دن کے دھرنے نے عوام کو جلائو گھیرائو‘ زندہ جلانا‘ راہ چلتی خواتین پر حملہ اور پولیس پر تشدد کرنا سکھایا جس کا عملی مظاہرہ یوحنا آباد میں ہوا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لوگوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے اور زندہ جلانے کی راہ دھرنے نے دکھائی۔ راہ چلتی خواتین پر حملہ کرنا بھی دھرنے نے سکھایا اور پولیس پر تشدد کا طریقہ بھی دھرنے نے سکھایا۔
اب اگر آپ ٹیلی ویژن کا مقبولِ خاص و عام مزاحیہ سلسلہ ’’بلبلے‘‘ دیکھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حنا دلپذیر ایسے مواقع پر ’’ہَیش شاباشے‘‘ کہتی ہیں! عمران خان بھی چھپے رستم نکلے۔ بظاہر کنٹینر میں ٹھہرے رہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ کسی خفیہ مقام پر انہوں نے اکیڈمی کھولی اور اس میں زندہ جلانے‘ پولیس پر تشدد کرنے‘ لوگوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے اور راہ چلتی خواتین پر حملہ کرنے کی کلاسیں لیتے رہے۔ عوام کو‘ جن کی تعداد اٹھارہ بیس کروڑ ہے‘ عمران خان نے 126 دن میں ان سارے فنون میں طاق کردیا! جس دن محترم وفاقی وزیر نے عمران خان کی یہ اصلیت فاش کی اُسی دن یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ ایک شادی شدہ حاملہ خاتون سے اجتماعی زیادتی کی گئی جس میں حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والا ایک منتخب عوامی نمائندہ بھی ملوث تھا۔ پولیس نے اسے پکڑا اور پھر چھوڑ دیا۔ چھوڑنے والی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن پکڑنا سراسر زیادتی تھی۔ خواتین پر حملہ کرنے کی کلاسیں تو دھرنے کے دوران ہوتی رہیں! کسی اور کو ملوث کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
حکومتی نمائندے نے عمران خان کے بارے میں جو اہم بات نہیں بتائی وہ یہ ہے کہ عمران خان کی صلاحیتیں زمان و مکان سے بھی ماورا ہیں‘ جو کچھ یوحنا آباد میں ہوا‘ اس کی ذمہ داری تو یقینا عمران خان پر ہے کیونکہ یہ واقعہ دھرنے کے بعد کا ہے۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ جلائو گھیرائو اور تشدد کے واقعات جو دھرنے سے پہلے ماضی میں ہوئے‘ ان کا بھی اصل سبب 126 دن کا دھرنا ہی ہے۔ مثلاً 2010ء میں سیالکوٹ میں دو بھائیوں مغیث اور منیب کو جس طرح ہجوم نے جلائو گھیرائو سے ہلاک کیا‘ وہ بھی اُس دھرنے ہی کا نتیجہ تھا جو 2014ء میں عمران خان نے دیا۔ اس سے بھی ایک سال پہلے 2009ء میں گوجرہ میں چالیس گھروں کو جلایا گیا جس میں مکین زندہ خاکستر کر دیے گئے‘ اس کی بھی اصل ذمہ داری عمران خان ہی پر پڑنی چاہیے۔ غرض لب لباب وہی ہے جو غالب کہہ گئیع
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ!
ہمارے ایک اور رہنما جناب آصف علی زرداری ہیں۔ آج کل ایم کیو ایم کا ستارہ گردش میں ہے۔ جناب آصف زرداری نے کہا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو مشکل میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اب بظاہر زرداری صاحب یہی تاثر دیتے ہیں کہ وہ محض جوڑ توڑ کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ صدارت کی مدت پوری کرنی ہو یا سینیٹ میں نشستیں حاصل کرنی ہوں‘ وہ اپنا ٹارگٹ پورا کر لیتے ہیں‘ دوستوں سے وفاداری بشرط استواری پر بھی ان کا ایمان ہے خواہ دوستوں نے جرم یا جرائم ہی کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو۔ مگر اصل میں ایسا نہیں! ایم کیو ایم سے اصل رشتہ جناب زرداری کا خالص نظریاتی بنیادوں پر استوار ہے۔ ایم کیو ایم مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے اور جاگیرداری کے خلاف ہے۔ لوگوں کو معلوم نہیں کہ جناب زرداری بھی مڈل کلاس کے بہت بڑے طرف دار ہیں اور جاگیرداری اور فیوڈلزم کے سخت خلاف ہیں۔ اپنے عہدِ صدارت میں وہ انقلابی کارنامے سرانجام دینا چاہتے تھے۔ مثلاً زرعی اصلاحات نافذ کر کے فیوڈلزم کی کمر توڑ دینے کا ارادہ تھا۔ نظامِ تعلیم پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ تعلیمی اصلاحات پر انہوں نے بہت سا کام کر رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت بڑے سوشل ریفارمر ہیں۔ بس مصیبت یہ آن پڑی کہ عہدِ صدارت مختصر تھا۔ عزائم ان کے طویل و عریض تھے۔ بقول احمد ندیم قاسمی ؎
مجھے تسلیم ہے مجھ سے محبت تو نے کی ہو گی
زمانے نے مگر اظہار کی مہلت نہ دی گی ہو گی
اب یہ ارمان وہ مڈل کلاس کی دلدادہ جماعت ایم کیو ایم کے ذریعے پورے کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم سے ان کی محبت کا اور کوئی سبب نہیں!
Thursday, March 19, 2015
اشکال
ایک بار پھر وہی مخمصہ‘ وہی پراگندہ خیالی! وہی گومگو کی کیفیت! وہی مشکل سوال جس کا جواب نہیں ملتا!
ایک معتبر بین الاقوامی تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستانی اوّل نمبر پر ہیں۔ عام طور پر یہ نمایاں مقام ہمیں کرپشن وغیرہ میں حاصل ہوتا ہے لیکن اب کے عزت رہ گئی ہے۔ یہ سروے مذہب کو زندگی میں اہم‘ زیادہ اہم اور غیر اہم سمجھنے کے بارے میں تھا۔ رپورٹ کے مطابق چین میں مذہب کو سب سے زیادہ کم اہم سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں صرف 54 فیصد لوگ مذہب کو انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو لیا جائے تو ترکی میں 70 فیصد افراد‘ مصر میں 82 فیصد‘ انڈونیشیا میں 94 فیصد‘ سینیگال میں 97 فیصد… اور پاکستان میں 98 فیصد افراد کے لیے مذہب زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
یہ دعویٰ جو پاکستانیوں نے کیا ہے‘ غلط نہیں کیا۔ اس کے بے شمار مظاہر ہیں۔ دعویٰ کی ٹھوس بنیادیں نظر آ رہی ہیں۔ پاکستان میں اسلامی مدارس کی تعداد کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ ہے۔ انڈونیشیا ہے یا ملائیشیا‘ ترکی ہے یا بنگلہ دیش‘ دینی علوم کے شائقین سیدھا پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں نہیں‘ مثلاً امریکہ یا یورپی ممالک‘ وہاں سے بھی مسلمان اپنے بچوں کو دینی علوم و فنون میں طاق کرنے کے لیے پاکستانی مدارس میں بھیجتے ہیں۔ خود پاکستانی طالب علم لاکھوں کی تعداد میں ان مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔
خیرات و صدقات کے ضمن میں پاکستانی سرفہرست ہیں۔ رمضان میں ایک بار کچھ دن مدینۃ النبیؐ میں قیام کا اتفاق ہوا۔ زائرین جانتے ہیں کہ وہاں افطار کا اہتمام کس ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے اور اجنبی مہمانوں کو کس طرح اصرار کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ لوگوں نے وہاں بتایا کہ پاکستان سے کثیر تعداد میں اس کارِ خیر کے لیے بھاری رقوم ارسال کی جاتی ہیں۔ یہ رقوم بیس بیس‘ تیس تیس اور پچاس پچاس لاکھ میں بھی ہوتی ہیں! مدارس جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں‘ مخیر حضرات کی لگن ہی سے چل رہے ہیں۔ جب عوام کو اعتماد ہو تو وہ کچھ بھی نچھاور کر سکتے ہیں۔ خواتین اپنے کانوں‘ گلوں اور بازوئوں سے زیورات اتار کر عبدالستار ایدھی اور عمران خان جیسی قابلِ اعتماد شخصیات کے حوالے کردیتی ہیں۔
جب بھی کوئی ناگہانی افتاد آتی ہے‘ جیسے زلزلہ یا سیلاب‘ پاکستانیوں کا جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شاید ہی دنیا میں اتنے بے لوث‘ انتھک اور بے غرض لوگ کہیں اور ہیں۔ کراچی سے قافلے چلتے ہیں اور کشمیر کے دور افتادہ پہاڑوں میں ہفتوں رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں مسجدیں نماز کے اوقات میں نمازیوں سے چھلکنے لگتی ہیں۔ پچیس تیس سال قبل یہ تعداد کم تھی۔ اب صورت احوال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ پھر ظاہری شکل و صورت میں بھی شعائرِ اسلام کی پابندی زیادہ سے زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ کبھی کبھی تو یوں نظر آتا ہے کہ ہر تیسرا یا چوتھا مرد متشرع ہے اور خا تون باپردہ ہے۔ حرمین شریفین‘ نجف‘ کربلا اور دیگر مقدس مقامات کی زیارت کے لیے لاکھوں افراد ہمہ وقت پابہ رکاب ہیں۔ ایک قافلہ واپس پہنچتا ہے تو تین روانہ ہو رہے ہوتے ہیں۔ رمضان میں ریستوران مکمل طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ سحری اور افطار کے دوران یہ کاروبار کرے۔ یہی صورت حال جہاد کی ہے۔ چیچنیا سے لے کر بوسنیا تک اور عراق سے لے کر فلسطین تک پاکستانی نوجوان ہر جگہ سربکف پہنچتے ہیں۔ پھر ترقی یافتہ ممالک میں‘ جہاں مسلمان تارکین وطن آباد ہیں‘ خواہ جاپان ہے یا آسٹریلیا۔ شمالی امریکہ ہے یا یورپ‘ دوسروں کی نسبت پاکستانی ہی سب سے زیادہ مذہب کی طرف مائل نظر آتے ہیں!
حج کے بعد مسلمانانِ عالم کا سب سے بڑا اجتماع بھی پاکستان ہی میں ہر سال ہوتا ہے۔ جماعتوں کی جماعتیں تشکیل پاتی ہیں اور مبلغین کے قافلے جوق در جوق کرۂ ارض کے اطراف و اکناف میں پھیل جاتے ہیں۔ اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے کا یہ سلسلہ اتنا وسیع‘ بھرپور اور ہمہ گیر ہے کہ پوری تاریخِ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی! اس پورے سلسلے کا اعصابی مرکز پاکستان میں واقع ہے۔
یہ تمام حقائق وہ ہیں جو کسی اشتباہ یا ابہام سے بالاتر ہیں۔ ہر شخص ان حقائق سے آگاہ ہے اور شاید ہی کوئی کوتاہ نظر پاکستانیوں کی ان دینی خصوصیات سے انکار کرے!
اب اس سے آگے مخمصہ ہے اور پراگندہ خیالی! گومگو کی کیفیت ہے اور اشکال! اشکال بھی ایسا جس کا جواب نہیں ملتا۔ اس اشکال کو حل کرنے کی بات کی جائے تو لوگ تقریر تو طویل شروع کردیتے ہیں لیکن عین کیل کے سر پر کسی کا ہتھوڑا لگتے نہیں دیکھا!
تو پھر کیا وجہ ہے کہ استنبول سے لے کر سعودی عرب تک‘ اہلِ پاکستان کی آبادیوں کی نشان دہی کرتے وقت لوگ طنزاً مسکرا پڑتے ہیں! سعودی عرب سے لے کر یو اے ای تک… شُرطہ سب سے زیادہ ’’توجہ‘‘ ہم پاکستانیوں پر دیتا ہے۔ ہر ایئرپورٹ پر ہماری تلاشی دوسروں کی نسبت زیادہ اہتمام اور التزام سے لی جاتی ہے۔ یہ قلم کار 1992ء سے وسط ایشیا جا رہا ہے۔ تاشقند کی ’’انڈر ورلڈ‘‘ احساسِ تشکر کے ساتھ بتاتی ہے کہ ستر سال بعد سوویت یونین سے رہائی ملی تو وہ جھوٹ اور جعل سازی سے ناآشنا تھے۔ جعلی پاسپورٹ بنانے کا فن انہیں پاکستانیوں نے سکھایا۔
کیا وجہ ہے کہ ہم میں سے اکثر مہینے کے تیس دن‘ ہفتے کے سات روز اور دن رات کے چوبیس گھنٹے جھوٹ بولتے ہیں اور مسلسل جھوٹ بولتے ہیں۔ کیا اس میں کسی کو کلام ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص جھوٹ بولتا ہے؟ دکاندار گاہک سے‘ گاہک تاجر سے‘ میاں بیوی سے‘ بیوی میاں سے‘ والدین اولاد سے‘ اولاد والدین سے‘ آجر مزدور سے‘ ماتحت سینئر سے‘ سیاست دان عوام سے اور عوام سرکار سے غرض سب ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ کوئی کسی پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی وعدے کا پابند نہیں۔ وقت طے کر کے اس کی پابندی کوئی نہیں کرتا۔ اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ایک دو نہیں‘ سینکڑوں دعوت ناموں پر جو وقت باقاعدہ چھپا ہوا ہوتا ہے‘ کمپوز کرنے والے سے لے کر‘ پرنٹ کرنے والے تک‘ لفافے میں ڈالنے والے سے لے کر تقسیم کرنے والے تک سب گواہی دیتے ہیں کہ کھانا نو بجے ملے گا لیکن بارہ ایک بجے ملتا ہے۔ یہاں تک کہ رات کو دو بجے بھی اکثر و بیشتر ملتے دیکھا جاتا ہے۔ وزیراعظم سے لے کر نائب قاصد تک‘ کروڑ پتی سے لے کر خاکروب تک… کوئی وقت کا پابند نہیں اور جو وقت طے کرتا ہے‘ ڈنکے کی چوٹ پر اُسے پامال کرتا ہے۔
مذہب ہم میں سے 98 فیصد کی زندگیوں میں انتہائی اہم ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان گنتی کے اُن چند ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں تاجر اور دکاندار (اِلا ماشاء اللہ) اکلِ حلال سے بے نیاز ہیں۔ ایسے ایسے عیوب ہیں جن کی شریعت کے علاوہ قانون‘ اخلاق اور انسانیت‘ کوئی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اوّل‘ ملاوٹ عام ہے۔ اشیائے خورونوش سے لے کر ادویات تک‘ یہاں تک کہ معصوم بچوں کے دودھ تک‘ ہر شے میں ملاوٹ کثرت کے ساتھ ہے۔ دوم‘ ٹیکس چوری عام ہے۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس اہلکاروں کو رشوت دینے کے علاوہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور رجسٹر‘ کاغذات‘ وائوچر‘ جعلی اور دُہرے دُہرے تیار کیے جاتے ہیں۔ سوم‘ غالب اکثریت تاجر حضرات کی شے کا نقص نہیں بتاتی۔ اس کے بارے میں اللہ کے رسولؐ کی وعید موجود ہے اور سب کو معلوم ہے۔ چہارم‘ ناجائز تجاوزات کی لعنت ملک میں ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ سڑکیں‘ گلیاں‘ راستے‘ فٹ پاتھ‘ پارک‘ سب کچھ اس کی زد میں ہے۔ ناجائز زمین پر دکانداری کرنے والوں سے سرکاری ادارے رشوت اور خود سامنے والے تاجر بھتہ لیتے ہیں۔ اصل دکان کی نسبت زیادہ رقبے پر دکاندار دھاندلی سے قابض ہے اور کسی صورت چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ پنجم‘ تجارت میں دروغ گوئی عام ہے۔ ’’کوئی شکایت آج تک نہیں آئی‘‘، ’’ہمیں اتنے میں پڑ رہی ہے‘‘، ’’نقص ہو تو واپس لے آئیں‘‘، یہ اور اس قسم کے جھوٹ پورے اعتماد سے بولے جاتے ہیں۔ ششم‘ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں کیا جاتا۔ یہ گاہک کے حق پر ایسا ڈاکہ ہے جو دن دہاڑے مارا جاتا ہے۔ ہفتم‘ ماپ تول میں کمی عام ہے۔
پھر سرکاری دفاتر کا حال دیکھ لیجیے‘ اہلکار متشرع اور پابندِ صوم و صلوٰۃ ہیں یا آزاد مشرب‘ کم ہی ہیں جو وقت پر آتے ہیں۔ کم‘ بہت ہی کم! سائل پھیرے پر پھیرے ڈالتا ہے۔ رشوت عام ہے۔ اقربا پروری اور سفارش زوروں پر ہے۔ اگر چھٹی کا وقت چار بجے ہے تو تین بجے دفتر خالی ہو جاتے ہیں۔ کھانے اور عبادت کے حوالے سے کئی کئی گھنٹوں کی غیر حاضریاں کی جاتی ہیں۔ یہ سب وہ حرکات ہیں جو شرعی اعتبار سے آمدنی کو مشکوک بناتی ہیں۔ ہمیں بتایا یہ گیا ہے کہ جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا‘ اس میں ایمان ہی نہیں‘ لیکن ہماری ریاست کا سربراہ بھی بلاکھٹکے کہہ دیتا ہے کہ وعدہ کوئی قرآن یا حدیث نہیں کہ پورا کیا جائے۔
اگر اٹھانوے فیصد افراد کے لیے مذہب بہت ہی اہم ہے تو پھر یہ سب کچھ کیا ہے؟
Wednesday, March 18, 2015
ستاروں کا پروردگار
بادشاہت کا سلسلہ خاندان کے اندر ہی رکھنے کے سارے انتظامات ہو رہے ہیں۔
کیا آپ غور نہیں کرتے کہ گاڑیوں پر پرچم لہرا رہے ہیں۔ ان گاڑیوں میں کشوروں اور اقلیموں کے سفیر بیٹھے ہیں۔ یہ گاڑیاں موٹروے پر رواں ہیں۔ اُس شہر کی طرف جو اقتدار کا مرکز ہے ؎
اسی جانب رواں ہیں قافلے عشاق کے سب
کہ اب اک مہ لقا کا رُخ بخارا کی طرف ہے
ایک زمانہ تھا جب مشرق و مغرب سے ولایتوں کے ایلچی قسطنطنیہ کا رُخ کرتے تھے۔ سراجیوو برباد ہوا تو شاعر نے نوحہ لکھا ؎
سراجیوو! تو نے سفیروں کو دیکھا
جو ہاتھوں کو سینوں پہ رکھے
خراج اور مکاتیب زربفت کی بقچیوں میں اٹھائے ہوئے
’’بابِ عالی‘‘ کی جانب رواں تھے!
لیکن بابِ عالی کا پرچم تو زمانوں پر لہرا رہا تھا!!
بادشاہت کا سلسلہ خاندان کے اندر رکھنے کے سارے انتظامات ہو رہے ہیں۔ ایک ہی شجر ہے جس کی شاخوں پر بور ہے اور وہ میووں کے بوجھ سے جھک رہی ہیں۔ اس قدر کہ زمین کو چھونے کے قریب ہیں۔ منتخب نمائندوں میں تقسیم ہونے والی رقوم بھی اسی شجر کی ایک ٹہنی پر رکھی ہیں۔ سالہا سال گزر گئے‘ صوبے کے کسی وزیر کا نام کبھی سامنے نہیں آیا۔ طاقت ایک نقطے پر مرتکز ہے۔ صوبے کا انتظام بحیثیت مجموعی جس نہالِ تازہ کے ہاتھ میں ہے وہ بھی خاندان ہی کا چشم و چراغ ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ وفاق کے امور جن ہاتھوں سے گزار کر اُن ہاتھوں کو تجربہ عطا کیا جا رہا ہے‘ انہیں قانونی لحاظ سے یہ حق حاصل نہیں! کبھی محسوس ہوتا ہے وزارتِ خارجہ کے امور سکھائے جا رہے ہیں۔ ملکوں ملکوں قدم رنجہ فرمایا جا رہا ہے۔ معاہدے قلم بند ہو رہے ہیں۔ کبھی توانائی کا وفاقی شعبہ سر جھکائے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ دارالحکومت کے ذرائع آمدورفت اور ان کی تعمیر و تنظیم بھی صوبے ہی کے اختیار میں ہے۔ مستقبل کا نقشہ جو نظر آتا ہے‘ دھندلا نہیں‘ واضح ہے! صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وفاق کس کو سونپنے کا ارادہ ہے اور صوبے کی حکومت کے لیے کس کو تیار کیا جا رہا ہے مگر آہ! یہاں پہنچ کر جعفر برمکی یاد آ جاتا ہے!
بغداد کے مشرقی حصے کا نام شماسیہ تھا۔ برامکہ یہیں آباد تھے۔ سب سے پہلے خالد برمکی نے یہاں عالی شان محل بنوایا۔ اس کی وفات پر یحییٰ نے ایک اور بے مثال عمارت بنوا ڈالی لیکن جب جعفر برمکی نے محل بنوایا تو اُس زمانے کے دو کروڑ درہم لگ گئے۔ جو زعما مکان دیکھنے آتے جعفر ان سے کہتا کہ خامیوں کی نشاندہی کریں۔ پھر وہ خامیاں دور کی جاتیں۔ جب جعفر کا والد یحییٰ برمکی محل دیکھنے آیا تو جعفر نے اس سے بھی خامیوں کا پوچھا۔ یحییٰ نے کہا کہ ایک ہی خامی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے پڑوسیوں کو تکلیف ہوگی! قصر تیار ہوا تو سیاحوں کے لیے ایک قابلِ دید مقام بن گیا۔ نجومیوں سے پوچھا گیا کہ منتقل ہونے کے لیے کون سی ساعت سعید ہوگی۔ زائچے بنے۔ لکیریں کھینچیں۔ ستاروں اور برجوں کے مشاہدے غور سے ہوئے۔ مشورہ دیا گیا کہ رات کے وقت منتقل ہوں۔ رات تھی اور جعفر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اس نئے آراستہ پیراستہ عدیم النظیر قصر کی طرف جا رہا تھا۔ شوکت اور احتشام عروج پر تھا۔ لوگ سو رہے تھے۔ سناٹا تھا۔ ایک آواز گونجی۔ کوئی شخص کہیں کھڑا شعر پڑھ رہا تھا ؎
تُدَبِّرُ بِالنّجوْمِ وَ لَسْتَ تَدْرِیْ
و رَبُّ النَّجْمِ یَفْعَلُ ما یَشَاء
ستاروں پر اپنی تدبیر قائم کرتے ہو حالانکہ تم کچھ جانتے ہی نہیں! ستاروں کا پروردگار تو جو چاہتا ہے کرتا ہے!
جعفر نے سنا اور ٹھٹھک گیا۔ قدم جہاں تھے وہیں رک گئے۔ کہنے والے سے پوچھا‘ تمہارا مطلب کیا ہے۔ اس نے کہا‘ کچھ نہیں! بس یونہی شعر یاد آ گیا تو پڑھ دیا۔ مگر جعفر سمجھ چکا تھا! اس کے بعد وہی ہوا جو ستاروں کے پروردگار نے چاہا!!
طاقت! اتنی کہ شمار ہے نہ حد! خون پانی کی طرح ارزاں نظر آتا ہے! انسان کیڑے مکوڑے لگتے ہیں! ماڈل ٹائون میں ایک نہیں‘ دو نہیں‘ تین نہیں‘ چودہ افراد مار دیے گئے۔ چودہ کنبے متاثر ہوئے۔ پھر ہر کنبے سے کتنے خاندان وابستہ ہیں‘ کتنے گھروندوں کے روزی کمانے والے زمین کے نیچے دفن کردیے گئے لیکن کیا بے نیازی ہے اور کیا شاہانہ تغافل ہے… ’’واقعے میں ملوث اہلکاروں کو اسی روز عہدوں سے ہٹا دیا تھا‘‘! کیا خوب سزا ہے قتلِ عام کی۔ تاریخ میں یہ واقعہ Massacre کے نام کے ساتھ لکھا جا رہا ہے! قتلِ عام! تو اگر چودہ افراد کے قتل کی اور ایک سو کے زخمی ہونے کی سزا عہدوں سے ہٹایا جانا ہے اور یہی انصاف ہے تو ایک ایک قتل کرنے والوں کو پھانسی اور عمر بھر قید کی سزا کون سا انصاف ہے؟ پھر جیلوں‘ عدالتوں اور پھانسی گھروں کو ختم کر دینا چاہیے! اسی قبیل کے ’’غم‘‘ پر مجید امجد نے کہا تھا ؎
قالینوں پر بیٹھ کے عظمت والے سوگ میں جب روئے
دیمک لگے ضمیر اس عزتِ غم پر کیا اِترائے تھے!
تاریخ منصوبہ بندیوں سے اٹی پڑی ہے۔ کیسے کیسے سلسلے تھے جن کی آج کڑی تک نہیں ملتی۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ جنوب کے ساحلی شہر میں ایسا بھی ہوگا! جس شہر میں پتا ہلنا تو درکنار‘ دیدے گھما کر اپنی مرضی سے دیکھ بھی کوئی نہیں سکتا تھا‘ جہاں جسموں میں سوراخ کیے جاتے تھے جیسے پتھر کی بنی دیواروں میں کیے جاتے ہیں اور کہیں شنوائی نہیں تھی اس لیے کہ اقتدار کی چوٹی خود وہاں جھک رہی تھی! فوجی آمر جب بھی شہر میں وارد ہوتا‘ شاہراہیں سربمہر ہو جاتیں۔ گاڑیاں رُک جاتیں۔ چشمِ فلک نے ایک دن ایسا بھی دیکھا کہ معصوم بچے سکولوں سے رات گئے گھر پہنچے۔ ماں باپ کے کلیجے حلق تک آ گئے تھے۔ جب بھی ورود ہوتا‘ اموات واقع ہوتیں۔ کبھی دل کے مریضوں کی‘ کبھی حاملہ عورتوں کی جو شفاخانوں تک گھنٹوں کیا‘ پہروں نہ پہنچ پاتیں۔ لیکن مجال ہے کہ شہر کے ٹھیکیداروں نے چوں بھی کی ہو! شہر کے باشندے عذاب سے گزرتے اور اُف تک نہ کر سکتے اس لیے کہ چرواہے‘ بھیڑوں کے نہیں‘ کسی اور کے طرفدار تھے! ایک آواز پر شہر کیا‘ شہر سے گزرتا وقت تک تھم جاتا! آج وہی شہر ہے جس میں انہونی واقع ہو چکی ہے۔ واقعے کا وقوع ہو چکا۔ ایسا وقوع جسے جھٹلانے والا کوئی نہیں! ستاروں کے پروردگار نے وہ کچھ کیا جسے تصور کی آنکھ بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔
تاریخ سے ایک سبق سب نے سیکھا ہے کہ تاریخ سے کچھ نہ سیکھا جائے! جب انتظامات ہر اعتبار سے مکمل لگتے ہیں‘ کہیں کوئی رخنہ نہیں نظر آتا۔ رکاوٹیں دور ہو چکی ہوتی ہیں۔ دشمن ٹھکانے لگ چکے ہوتے ہیں۔ راستے حدِ نظر تک روشن لگتے ہیں تو اچانک بساط الٹ جاتی ہے۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جس طرف سے مداخلت ہوئی ہے اُدھر سے تو دور دور تک امکان ہی نہ تھا ؎
کوئی سواری نہ آئے اب دل کے راستے سے
کہ اس طرف سے بلند دیوار کر چکے ہیں
مگر بلند دیواریں‘ فصیلیں‘ اونچے برج‘ پہریداروں کے غول‘ پکے انتظامات‘ برسوں کی منصوبہ بندی‘ شطرنج کی گہری چالیں۔ کچھ بھی کام نہیں آتا۔
ابراہیم لودھی سے زیادہ پکے انتظامات کس نے کیے ہوں گے؟ تخت نشین ہوا تو ایسا جشن برپا کیا کہ سلاطینِ دہلی کی تین سو سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہ تھی۔ تخت کو بھائیوں سے خطرہ ہو سکتا تھا۔ چار بھائیوں کو ہانسی کے قلعے میں قید کردیا۔ پانچویں کو‘ جس کا نام جلال تھا‘ مروا دیا۔ اب تخت کا دعویدار ہی کوئی نہیں تھا! رعایا کے اضطراب سے بغاوت کا خطرہ ہوتا ہے۔ قدرت ابراہیم لودھی پر اس قدر مہربان تھی کہ خوشحالی امڈ کر آئی۔ بارشیں وقت پر ہوئیں‘ اتنی جتنی درکار تھیں۔ ضرورت سے زیادہ نہ کم! فصلیں وافر ہوئیں۔ علائوالدین خلجی کے زمانے کو چھوڑ کر‘ اتنی آسودگی کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ خلجی نے خوشحالی سخت قوانین کے ذریعے حاصل کی تھی۔ ابراہیم لودھی کو قدرت نے اس کے بغیر ہی عطا کردی! فتوحات کا یہ عالم تھا کہ گوالیار کا قلعہ فتح کر لیا جو کسی کے قابو ہی میں نہ آتا تھا۔ رہے امرا اور عمائدین تو جن سے خطرہ تھا‘ ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑا۔ 23 ایک بار قتل کرائے۔ کچھ جن پر اعتبار نہ تھا‘ ایک عمارت میں جمع تھے‘ عمارت کو بارود سے اڑا دیا! وفادار ساتھی قدرت نے بے تحاشہ دیے تھے۔ اعظم ہمایوں کو لوگوں نے متنبہ کیا کہ بادشاہ کے ارادے نیک نہیں‘ جان بچا کر بھاگ جائو۔ اس نے کہا نہیں! میں وفادار رہوں گا‘ منہ کالا نہیں کروں گا‘ جو بادشاہ کی مرضی! غرض ہر طرف سے اطمینان تھا! سلطنت کو خطرہ تھا نہ جان کو… مگر ستاروں کا پروردگار کچھ اور چاہتا تھا۔ پنجاب کے گورنر دولت خان لودھی کو بادشاہ سے خطرہ محسوس ہوا۔ اس نے اپنے فرزند کو کابل بابر کے پاس بھیجا۔ ابراہیم کی بدقسمتی کہ ٹھیک اسی زمانے میں بابر کو ازبکوں نے زچ کر رکھا تھا۔ پنجاب سے آئے ہوئے پیغام کو اس نے غنیمت سمجھا۔
یہ بھی نہیں کہ ابراہیم بہادر نہیں تھا۔ پانی پت کے میدان میں جب بابر کا پلہ بھاری ہوا تو جاں نثاروں نے لودھی کی منت کی کہ جان بچا کر نکل جائے۔ ’’ہم دوبارہ فوج اکٹھی کر کے مقابلہ کریں گے‘‘۔ مگر لودھی کا جواب تھا ’’میرے ساتھیوں کے خون سے میرا گھوڑا‘ ٹانگوں تک نہیں‘ چھاتی تک سرخ ہو چکا ہے۔ بادشاہوں کے لیے میدان سے بھاگنا ننگ ہے‘‘۔ ابراہیم لودھی دہلی کا پہلا اور آخری بادشاہ تھا جو میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے مارا گیا!
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ سلطنت کا دعویدار سینکڑوں کوس دور کے پہاڑوں سے آن ٹپکے گا؟
ستاروں کے پروردگار سے ڈرو۔ خاندان کی نہیں‘ خلقِ خدا کی فکر کرو!!
Saturday, March 14, 2015
کون سا غم کھا گیا تمہیں؟
آخر پارلیمنٹ کو کس کی یلغار کا ڈر ہے؟
سینیٹ کے نومنتخب چیئرمین نے متنبہ کیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی طرف کوئی یلغار کرنے کی کوشش کرے گا تو دونوں ایوان مل کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے اور پارلیمنٹ کا دفاع کریں گے۔
اس یلغار کا اشارہ یقینا مارشل لاء کی طرف نہیں ہے۔ ان ایوانوں میں جو حضرات تشریف فرما ہیں‘ ان میں سے بہت سے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے رفقا میں شامل تھے۔ بعض تو آمریت ہی کی دریافت ہیں۔ بعض کی سیاسی پرورش فوجی ڈکٹیٹروں نے کی۔
اس یلغار کا اشارہ بھارتی فوج کی طرف بھی نہیں ہو سکتا۔ بھارتی فوج کی یلغار تو افواجِ پاکستان روکتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ایسا روزِ بد آیا تو وہی آگے بڑھیں گی۔
پارلیمنٹ کی طرف فیوڈل بھی نہیں بڑھ سکتے۔ نہ کارخانہ دار۔ ان کے مفادات کو کبھی وہاں چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔
یلغار کا ڈر صرف عوام سے ہے۔ پارلیمنٹ کی تاریخ شاہد ہے کہ پارلیمنٹ چند ہی مواقع پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ہے۔ جب ان کی اپنی مراعات میں اضافے کا کوئی بل پیش ہوتا ہے تو اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ جب ایک خاص طبقے پر ٹیکس لگانے کی بات ہوتی ہے تب متحد ہو جاتے ہیں۔ جب عوام نے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا جس میں غالب اکثریت مڈل کلاس اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی تھی‘ پارلیمنٹ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر عوام کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی۔
معروف پولیٹیکل سائنٹسٹ اور معیشت دان ڈاکٹر فرح سلیم کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے 27 ملین خاندانوں میں سے صرف دو ہزار سات سو خاندان گزشتہ دس انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ صرف یہی خاندان سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی ایک ہزار سے زائد نشستوں پر قابض ہیں۔
پاکستانی عوام کے مقابلے میں یہ چنیدہ حضرات قانون سے‘ کم و بیش‘ ماورا ہیں۔ انکم ٹیکس کا معاملہ ہو یا اسلحہ کا قانون‘ ان پر کم ہی نافذ ہوتا ہے۔
پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندے‘ عوام کے ساتھ کبھی نظر نہیں آئے۔ کسی موقع پر انہوں نے عوام کا ساتھ نہیں دیا۔ سی این جی گیس کے لیے عوام مہینوں میلوں لمبی قطاروں میں کھڑے رہے۔ کوئی عوامی نمائندہ کبھی کسی قطار میں نہ دکھائی دیا۔ جن سکولوں میں عوام کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ ان کے بچے ان سکولوں کے نزدیک سے بھی نہیں گزرتے۔ کیا آپ نے کسی سرکاری ہسپتال میں کسی عوامی نمائندے کو ڈاکٹر سے ملنے یا دوائی حاصل کرنے کے لیے عوام کے ساتھ قطار میں کھڑے دیکھا ہے؟ ان میں سے کتنے ہیں جو عوام کے ساتھ بسوں میں سفر کرتے ہیں؟ ٹیکسی یا رکشے میں بیٹھتے ہیں؟ ان میں سے کتنے ریل کے عام ڈبوں میں سفر کرتے دیکھے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ایئرپورٹوں پر ان کی انتظار گاہیں بھی الگ ہیں۔ ان کے لیے وی آئی پی لائونج بنے ہوئے ہیں جب کہ عوام کو ان سے الگ‘ عام برآمدہ نما انتظارگاہوں میں بٹھایا جاتا ہے۔ ان کے لیے پروازوں کے اوقات بدل دیے جاتے ہیں۔ ایک ایک عوامی نمائندے کے لیے کئی کئی سو مسافروں کو انتظار کرایا جاتا ہے۔ عوام بینکوں سے لیے ہوئے قرضے نہ ادا کریں تو ان کی جائدادیں قرقی کر لی جاتی ہیں مگر معززین کے اربوں کے قرضے بیک جنبشِ قلم کالعدم قرار دے دیے جاتے ہیں۔
رہے اہم قومی مسائل تو ان کی گونج کم ہی پارلیمنٹ میں سنائی دیتی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ زرعی اصلاحات ہیں۔ بھارت میں یہ اصلاحات تقسیم کے چار سال بعد نافذ کردی گئی تھیں۔ ریاستیں‘ ریاستوں کے راجوں اور نوابوں کو دی جانے والی خصوصی ادائیگیاں‘ جاگیریں سب ختم ہو گئیں۔ کیا کبھی پاکستانی پارلیمنٹ میں ملک کے زرعی نظام پر بحث کی گئی اور کیا کبھی اصلاحات پر غور کیا گیا؟
ملک کا نظامِ تعلیم ازکار رفتہ اور جدید تقاضوں سے کوسوں دور ہے۔ بیک وقت کئی نظام رائج ہیں۔ اکثریت سرکاری سکولوں میں دھکے کھا رہی ہے جن کی دیواریں ہیں نہ چھتیں‘ میز کرسیاں ہیں نہ پینے کا صاف پانی‘ نہ اساتذہ کی تعداد ہی پوری ہے۔ پھر لاکھوں مدارس ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں اور آٹھ سال کے بعد فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو سوائے مسجد کی امامت کے کوئی کام نہیں کر سکتے۔ کیا کبھی پارلیمنٹ میں ان تمام پہلوئوں پر بحث ہوئی؟ کیا کبھی اصلاحات تجویز کی گئیں؟ خواندگی کا تناسب بڑھانے کے لیے آج تک پارلیمنٹ میں کل کتنے گھنٹے بحث کے لیے وقف کیے گئے؟
ملک کی آبادی کا دس فیصد سے کم حصہ ٹیکس ادا کر رہا ہے؟ کیا پارلیمنٹ نے اس موضوع پر کبھی کوئی پالیسی بنا کر قوم کو سونپی ہے؟ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا گواہ ہے کہ ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ کی اکثریت خود ٹیکس ادا نہیں کرتی یا مروجہ قوانین کے مطابق نہیں دیتی!
دہشت گردی کو لے لیجیے۔ کیا جب مذاکرات کے لیے کمیٹی بنی تھی تو پارلیمنٹ نے اپنا کردار ادا کیا تھا؟ کمیٹی کے ارکان میں تو ان کی نمائندگی ہی نہیں تھی!
پھر خارجہ امور کی بات کر لیجیے۔ دوسرے ملکوں کی پارلیمنٹ میں جزئیات تک زیرِ بحث آتی ہیں۔ پورا قومی پریس سفیروں کی تعیناتی کے مسئلے پر حکومت کی جانبداری کو ہائی لائٹ کر چکا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں ایک ایسے افسر کو تعینات کیا گیا جس کا تعلق ٹریڈ سے تھا نہ خارجہ امور سے‘ اسی طرح حال ہی میں کینیڈا جیسے بڑے اور اہم ملک میں تعیناتی شخصی بنیادوں پر کی گئی ہے۔ کیا پارلیمنٹ نے یا اس کی خارجہ امور کی کمیٹی نے ان شکایات کا نوٹس لیا ہے؟ کیا آج تک پارلیمنٹ نے نشان دہی کی ہے کہ ملک وزیر خارجہ کے بغیر چل رہا ہے؟ اور تو اور‘ چھوٹے صوبوں کے کسی ایک نمائندے نے بھی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا ہے کہ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ چین‘ ترکی‘ قطر اور دوسرے ملکوں میں جا کر خارجہ امور کو کس قانون کے تحت نمٹا رہا ہے؟ دوسرے ملکوں کے سفیر‘ وفاقی دارالحکومت سے جوق در جوق ایک صوبائی دارالحکومت کی طرف کیوں رواں ہیں؟ وہ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی جا کر وہاں کے وزرائے اعلیٰ سے کیوں نہیں ملتے؟ کیا ان سب حالات سے پارلیمنٹ بے خبر ہے؟
کسی بھی ملک میں مواصلات‘ ذرائع رسل و رسائل اور نقل و حمل ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا نئی شاہراہیں بنانے کی حکمت عملی پارلیمنٹ میں زیر غور آئی؟ کیا دارالحکومت میں زیر زمین ریلوے کے بجائے میٹرو بس چلانے کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کیا؟ کیا کراچی اور لاہور کے درمیان موٹروے بنانے اور اس کا راستہ متعین کرنے کا مسئلہ پارلیمنٹ نے طے کیا؟ چین سے گوادر روٹ کا مسئلہ ملک پر چھایا رہا۔ میڈیا نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں چند وزرا نے پریس کانفرنسیں کیں۔ کیا یہ مسئلہ اتنا غیر اہم تھا کہ پارلیمنٹ نے اس پر کوئی بحث نہیں کی؟
کیا آج تک پارلیمنٹ نے پوچھا ہے کہ وفاقی پبلک سروس کمیشن میں ارکان کی تعیناتیاں کون کرتا ہے؟ کیا معیار ہے؟ صرف ریٹائرڈ بیوروکریٹ… وہ جو روابط رکھتے ہیں‘ کیوں نامزد ہوتے ہیں؟ آخر پروفیسر‘ ڈاکٹر اور معاشرے کے دوسرے طبقات سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہلِ دانش کیوں ان تعیناتیوں کے قابل نہیں سمجھے جاتے؟ آخر وفاقی پبلک سروس کمیشن ہی وہ ادارہ ہے جو مستقبل کے بیوروکریٹ منتخب کر کے قوم کے حوالے کرتا ہے۔
ہاں! تحاریکِ استحقاق ہماری پارلیمنٹ میں باقاعدگی سے پیش ہوتی ہیں۔ کسی معزز رکن کو کوئی افسر فون کرنے میں تاخیر کردے تو استحقاق مجروح ہو جاتا ہے۔ یہ استحقاق‘ حسنِ اتفاق سے اُن عوام کو حاصل نہیں جن کے خون پسینے کی کمائی سے افسر بھی پرورش پاتا ہے اور معزز رکن بھی مراعات حاصل کرتا ہے!
آخر پارلیمنٹ کو کس کی یلغار کا ڈر ہے؟ انور شعور یاد آ گئے ؎
میں نے تو کوئی دُکھ تمہیں ہرگز نہیں دیا
پھر دو جہاں کا کون سا غم کھا گیا تمہیں؟
Friday, March 13, 2015
تہمتِ بے جا
امریکی سفیر کے دائیں رخسار پر ساڑھے چار انچ لمبا گہرا زخم تھا۔
SLASH
کا لفظ جب انسانی جسم کے حوالے سے استعمال ہو تو اس کا مفہوم سوچتے ہی بدن میں جھرجھری اٹھتی ہے۔ وسطی زمانوں میں آنکھیں نکالنے کی سزا عام تھی۔ خاص کر ان افراد کے لیے جو تخت و تاج کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے تھے۔ ہندوستانی مورخ آنکھیں نکالنے کے عمل کو تربوز کی پھانک کاٹنے سے تشبیہہ دیتے ہیں‘ جیسے آج کل تربوز کو خریدنے سے پہلے ٹک لگواتے ہیں! جنوبی کوریا میں متعین امریکی سفیر کو پچپن سالہ کِم نے‘ جو جنوبی کوریا ہی کا باشندہ ہے، چاقو سے
SLASH
کیا۔ بازو بھی زخمی ہوا۔ سفیر کو کئی دن ہسپتال رہنا پڑا جہاں مجموعی طور پر اسے اسّی ٹانکے لگے۔ یہ گزشتہ ہفتے کا واقعہ ہے۔
حملہ آور کا طویل سیاسی بیک گرائونڈ ہے۔1985ء میں اس نے امریکی جھنڈا جلایا۔ پھرجاپان کے خلاف احتجاج کرتا رہا۔2010ء میں اس نے جاپانی سفیر پر سیمنٹ کا بنا ہوا بڑا سا پتھریلا ٹکڑا پھینکا۔ اس پر موصوف کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اب کے امریکی سفیر کو زخمی کرنے کے بعد اسے پکڑا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ دس دن سے اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ مقصد امریکی اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں کو روکنا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس قبیل کی سرگرمیوں سے جنوبی اور شمالی کوریاکے متحد ہونے کے امکانات معدوم ہوسکتے ہیں۔
کِم نے اس سے پہلے جاپانی سفیر پر کیوں حملہ کیا تھا؟ امریکہ کی طرح جاپان کے خلاف بھی ایک عام کوریائی باشندے کے دل میں نفرت ہے۔ اس کا طویل پس منظر ہے۔ سولہویں صدی کے اواخر میں جاپان نے کوریا پر حملہ کیا تو سفاکی کی ایک نئی مثال قائم کی۔ یوں تو وسطی زمانوں میںمجرموں کو، بالخصوص جنگ ہارنے والوں کو رونگٹے کھڑے کردینے والی سزائیں دینا ایک معمول تھا مگر جاپانیوں نے ریکارڈ توڑ ڈالا۔ انہوں نے بیس ہزار کوریائی باشندوں کے ناک اور کان کاٹ کر اکٹھے کیے۔ انہیں جاپان لے گئے اور ان سے مقبرہ نما مینار بنائے۔ پھر 1910ء سے 1945ء تک کوریا پر جاپان کا قبضہ رہا۔ اس عرصہ میں کوریا کی ثقافت‘ خاص طور پر زبان اور ادب کو پوری طرح دبانے کی پالیسی اپنائی گئی، تاہم اصل سبب جاپان کے خلاف نفرت کا یہ ہے کہ ہزاروں عورتیں جاپانی سپاہیوں کی عیاشی کیلئے زبردستی پکڑ کر لے جائی گئیں۔ جاپانیوں نے ان کا نام آرام پہنچانے والی (کمفرٹ) خواتین رکھا۔
رہا کوریا میں امریکہ کے خلاف نفرت کا سبب تو بڑا سبب‘ تو وہی شکوہ ہے جو اسامہ بن لادن کو اپنے ملک کی حکومت سے تھا یعنی امریکی افواج کی موجودگی! امریکہ کے سیاست دان، میڈیا کے افراد اور دانشور… سب اکثر وبیشتر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا ان کے خلاف کیوں ہے؟ مگر وہ اسباب پر غور ہی نہیں کرنا چاہتے۔ دنیا امریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے تنگ آ چکی ہے۔ کوریا کی گردن پر امریکہ پیر تسمہ پاکی طرح سوار ہے۔ جب تک امریکی فوجیں جنوبی کوریا میں موجود ہیں، کوریا کے دونوں حصوں کا دوبارہ متحد ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے!
امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی پالیسیاں ہمیشہ دو رخی ہوتی ہیں۔ اس کے دانت دکھانے کے اور، اور کھانے کے اور ہیں۔ اس نے دوسرے ملکوں کو ہمیشہ فریب دیا۔ پھر اس کی خفیہ حرکتیں جب سامنے آتی ہیں تو امریکی ایسی ایسی تشریحات اور توجیہات کرتے ہیں کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ کوریا کو بھی امریکہ نے ایسا ہی دھوکا دیا۔1905ء میں امریکی وزیرجنگ ایک صاحب تھے‘ جن کا نام ٹافٹ تھا۔ اس وقت جاپانی وزیراعظم کا نام کت سُورۃتھا۔ ان دونوں نے ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کا نام ’’ٹافٹ اور کت سُورہ معاہدہ‘‘ ہے۔ اس کی روسے امریکہ نے کوریا پر جاپان کا قبضہ تسلیم کرلیا۔ اس کے بدلے میں جاپان نے فلپائن پر امریکی قبضہ تسلیم کیا۔ گویا بقول اقبال ؎
من ازین بیش ندانم کہ کفن دزداں چند
بہرِتقسیمِ قبور انجمنی ساختہ اند
یعنی کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹ لیا۔ انیس سال تک اس معاہدے کی کسی کو ہوا تک نہ لگنے دی گئی۔ مگر تاریخ سب کچھ اسی طرح اگل دیتی ہے جس طرح قیامت آئے گی تو زمین سب کچھ باہر نکال دے گی۔ انیس سال بعد 1924ء میں اس معاہدے کے کاغذات کسی نہ کسی طرح منظر عام پر آ گئے۔ نفرت کی ایک لہر کوریا پر چادر کی طرح تن گئی‘ مگر امریکیوں نے یہ کہا کہ یہ تو محض بات چیت تھی۔ ٹافٹ نے جو دلیل دی وہ انتہائی مضحکہ خیز تھی۔ اس نے کہا کہ میں وزیرخارجہ تو نہیں تھا۔ یہ تو میرا ذاتی نقطہ نظر تھا۔ حالانکہ وہ اس وقت وزیرجنگ تھا یعنی امریکی حکومت کا ایک معتبر نمائندہ!
دوسری عالمگیر جنگ میں جاپان کو شکست ہوئی۔ سوویت یونین اور امریکہ دونوں فاتح ٹھہرے۔ کوریا کے شمالی حصے پر سوویت یونین بیٹھ گئی اور جنوب میں امریکہ۔ امریکہ نے اپنی مرضی کے الیکشن کرائے، جاگیرداروں اور ٹوڈیوں کی سرپرستی کی اور یوں نفرت کی بنیادیں زیادہ گہری ہوتی گئیں۔1950 ء میںدونوں کوریائوں میں جنگ چھڑ گئی۔ اقوامِ متحدہ، خاص طور پر ، امریکہ نے جنوبی کوریا کی مدد کی۔ جنگ ختم ہوئی تو شمال اور جنوب کے درمیان حائل دشمنی کی خلیج وسیع تر ہوچکی تھی۔ تب سے امریکی افواج جنوبی کوریا میں ٹھہری ہوئی ہیں۔ جنوبی کوریا کے عوام امریکی فوجیوں کے قیام کو شدید ناپسند کرتے ہیں۔ 1992ء میں ایک شراب خانے کی ملازمہ ، جو کوریائی تھی‘ مردہ حالت میں ملی۔اس کی لاش کی ناقابل بیان حد تک بے حرمتی کی گئی تھی۔ ایک امریکی فوجی نے شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتل سے اس کے چہرے کو مسخ کر دیا تھا۔ 2002 ء میں دو چودہ سالہ لڑکیوں کو امریکی فوجی گاڑی نے کچل دیا۔ جب ملزم امریکی کو امریکہ واپس بھیجا گیا تو لاکھوں کوریائی سڑکوں پر نکل آئے اور امریکی فوج کی موجودگی کے خلاف احتجاج کیا۔
پاکستان کے برعکس جنوبی کوریا اقتصادی حوالے سے اس پوزیشن میں ہے کہ امریکہ کی دوستی کو لات مار سکے۔ اقتصادی ترقی کے لحاظ سے دنیا میں اس کا چودھواں نمبر ہے۔ ہانگ کانگ، سنگاپور اور تائیوان کے ساتھ جنوبی کوریا بھی ایشیا کا ٹائیگر کہلاتا ہے۔ 2013ء میں جنوبی کوریا دنیا کا آٹھواں بڑا برآمد کنندہ ملک تھا!90 کے عشرے میں جب ایشیائی ملکوں کی معیشت کو زبردست جھٹکا لگا تو جنوبی کوریا جلد روبصحت ہونے والوں میں سرفہرست تھا۔ اس نے بہت جلد اپنی مجموعی قومی آمدنی کو تین گنا بڑھا لیا۔ کوریا کی بڑی بڑی صنعتی کمپنیاں اس کی طاقت عالمی شہرت اور عزت کا راز ہیں۔ سیم سنگ
(Samsung)
کے نام سے کون ناواقف ہے۔ 2013ء میں اس نے 27245 ملین ڈالر منافع کمایا۔ ایل جی، ہونڈائی، کیا
(KIA)
اور دیگر اداروں کی کارکردگی بھی طلسمی ہے۔ ڈائیوو ایک پوری سلطنت ہے ‘جو الیکٹرانک پیداوار سے لے کر تعمیر، جہاز رانی اور ٹیکنالوجی کی کئی اقسام تک پھیلی ہوئی ہے۔ کوریا نے ایسا روبوٹ ایجاد کیا ہے جو ہاتھ کی پانچ انگلیوں کے اشاروں سے بات کو سمجھا سکتا ہے۔ اور کنڈرگارٹن کے بچوںکو پڑھاتا بھی ہے۔
اس مستحکم اور آزاد معیشت کے ساتھ کل اگر جنوبی کوریا کی کوئی حکومت امریکی ’’دوستی‘‘ کو خداحافظ کہتے ہوئے اپنا راستہ جدا کر بھی لے تو امریکہ یا امریکہ کے گماشتے، مثلاً آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، جنوبی کوریا کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔ لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم ایسا کرپائیں گے؟ قرضوں کا بوجھ ہر نئے سال کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ کشکول توڑنے کا دعویٰ کرتے کرتے، ہم نے کشکول کا سائز بڑا کرلیا ہے۔ اب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمیںدبئی میں طلب کرتے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں آئے دن اضافہ انہی کے ایما پر ہوتا ہے۔ ٹیکس آبادی کا صرف آٹھ فیصد حصہ ادا کر رہا ہے۔ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں روز افزوں ہیں۔ صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی کابینہ، صوبائی گورنر اور وزرائے اعلیٰ ‘صوبائی وزراء کی لمبی چوڑی افواج قاہرہ، وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے معززین ان سب حضرات پر اٹھنے والے سرکاری اخراجات کا بوجھ پر اس قدر زیادہ ہے کہ سانس رک رک جاتی ہے۔ کرپشن سے ہر ادارہ ادھ موا ہو چکا ہے۔ جنوبی کوریا نے اقتصادی پگڈنڈی پر سفر ہمارے بعد شروع کیا تھا۔ پاکستان ہی کے پنج سالہ اقتصادی منصوبے سے انہوں نے یہ سفر آغاز کیا تھا۔ آج جنوبی کوریا دنیا کی چوٹی پر پہنچ چکا ہے۔ ہم تہمت بے جا کے سوا کچھ بھی نہیں!
اگر امریکہ اور امریکی گماشتوں کے چنگل سے نکلنا ہے تو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنا ہوگا۔
Wednesday, March 11, 2015
مجھے کُبڑا نہ سمجھو
میں دُہرا ہو رہا ہوں؟ دیکھنے والو مجھے کُبڑا نہ سمجھو! ہماری حکومت نے داعش کو روکنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے!
سینیٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی کے سامنے سیکرٹری وزارتِ خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ داعش پاکستان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے؛ چنانچہ روک تھام کے لیے باقاعدہ پروگرام وضع کیا گیا ہے۔ سات نکاتی منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے اور چوٹی کی سکیورٹی ایجنسیوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اس ابھرتے ہوئے خطرے کا انسداد کریں تاکہ مقامی دہشت گرد تنظیمیں داعش سے تعلقات نہ قائم کر سکیں۔ امیگریشن حکام کو حکم دیا گیا ہے کہ پاکستان سے اس ضمن میں کوئی باہر نہ جا سکے۔ سکیورٹی ایجنسیاں مذہبی اداروں کی نگرانی کریں گی تاکہ داعش کے ہمدرد وہاں نفوذ نہ کر سکیں۔
وزارت خارجہ کے سیکرٹری نے سینیٹ کمیٹی میں متعلقہ ممالک کے ساتھ سفارتی روابط بڑھانے پر زور دیا۔ بالخصوص شرق اوسط کے ملکوں کے ساتھ۔ تاکہ انتہا پسند گروہوں کے بارے میں اطلاعات کا تبادلہ کیا جا سکے۔ ’’ہم پاکستان کے دہشت پسند گروپوں کی داعش کے ساتھ مبینہ وابستگی کا انکار کرتے ہیں‘‘ سیکرٹری صاحب کا کہنا تھا!
میں یہ سب سنتا ہوں اور دُہرا ہو جاتا ہوں۔ لیکن دیکھنے والو! مجھے کُبڑا نہ سمجھو۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ دارالحکومت کی بغل میں واقع صرف تحصیل گوجر خان میں دو لاکھ غیر ملکی آباد ہیں۔ ان کی کوئی شناخت نہیں۔ کاروبار کر رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کا بزنس ہے۔ کچھ تو زمینداری کا شوق بھی پورا کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم گوجر خان کے راجہ پرویز اشرف نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں ان لوگوں کا ریکارڈ مرتب نہ کرا سکے۔ ہزاروں غیر ملکیوں نے سٹال لگائے ہوئے ہیں مگر ان کی شناخت کوئی نہیں! ایس ایس پی کھلی کچہری منعقد کرتا ہے۔ بنفس نفیس وہاں موجود ہے۔ کچہری کی کارروائی کے دوران ایک شخص اٹھتا ہے اور ویڈیو بنانا شروع کردیتا ہے۔ اسے پوری تقریب میں کوئی نہیں جانتا! میڈیا والے اس کا نام پوچھتے ہیں۔ میں دُہرا ہو جاتا ہوں!
خبر دوبارہ سنتا ہوں۔ امیگریشن حکام کو خبردار رہنے کا حکم ملا ہے تاکہ داعش میں شامل ہونے کے لیے کوئی ملک سے باہر جا ہی نہ سکے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت غیر ملکیوں کی جو جانچ پڑتال حال ہی میں کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا ہے کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین تو سولہ لاکھ ہیں ہی‘ غیر رجسٹرڈ کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ دس لاکھ غیر ملکی جو غیر قانونی طور پر مطلوبہ دستاویزات کے بغیر رہ رہے ہیں‘ امیگریشن حکام کی موجودگی ہی میں تو سرحدوں سے اندر داخل ہوئے ہیں! دو روز قبل سترہ افغانی نوجوان‘ جن کے پاس دستاویزات نہیں تھیں اٹک روڈ پر پکڑے گئے۔ جس گاڑی میں وہ سوار تھے اس کی نمبر پلیٹ بھی جعلی تھی۔ یہ افغان سرحد سے چلے۔ پورا صوبہ کے پی کراس کیا۔ دریائے سندھ کا پُل عبور کیا۔ آپ کا کیا خیال ہے انہیں امیگریشن والوں نے پکڑا؟ یا پولیس نے؟ نہیں! انہیں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے عملہ نے پکڑا! ان کے شناختی کارڈ جعلی نکلے۔ صوبائی سرحدوں اور قومی بارڈر کی حرمت کا اندازہ لگایئے۔ امیگریشن والے داعش کی روک تھام کریں گے! میں دُہرا ہو جاتا ہوں۔ دارالحکومت کے ایئرپورٹ پر پاکستانی افسر برطانوی بزنس مین کو فراخ دلانہ پیشکش کرتا ہے کہ دس پونڈ مرحمت فرما دیجیے‘ آپ کا سامان چیک نہیں کروں گا۔ داعش کی روک تھام! ہا ہاہا! میں دُہرا ہو جاتا ہوں!
بیسیوں ایجنسیاں ملک کے اطراف و اکناف میں دندناتی پھر رہی ہیں۔ ہر تیسری چوتھی گاڑی کسی نہ کسی ایجنسی کی ہے۔ امیگریشن ہے‘ پولیس ہے‘ اربوں روپے ان پر صرف ہو رہے ہیں۔ ان کی موجودگی میں لاکھوں غیر ملکی غیر قانونی طور پر ہر شہر ہر قصبے یہاں تک کہ ہر گائوں میں موجود ہیں۔ اٹک چکوال اور ملحقہ علاقوں میں مونگ پھلی کی فصل تیار ہوتی ہے تو کھیت‘ شاہراہیں‘ کھلیان‘ پگڈنڈیاں غیر ملکی ’’مزدوروں‘‘ سے چھلکنے لگتی ہیں۔ پولیس چوکیاں جگہ جگہ موجود ہیں‘ تھانوں کا جال بچھا ہے‘ پولیس والے ان کے درمیان اور یہ پولیس والوں کے درمیان گھومتے پھرتے ہیں۔ کسی کے پاس شناخت ہے نہ کوئی دستاویز! ان سارے محکموں کی موجودگی میں واہگہ سے لے کر پشاور تک اور کراچی سے لے کر اسلام آباد تک دھماکے ہوئے۔ عوام کے پرخچے اڑ گئے۔ اغوا برائے تاوان کی صنعت اس وقت ملک کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نفع آور انڈسٹری ہے۔ ڈاکٹر جو ریٹائرڈ جرنیل ہیں‘ ایک ایک کروڑ روپے بھتہ دے چکے ہیں۔ اور یہ خفیہ اطلاع نہیں‘ قومی اخبارات کے پہلے صفحوں پر یہ خبریں شائع ہوئی ہیں۔ کوئی جرم رُکا نہ انسداد ہوا۔ پرائیویٹ محافظ (گارڈ) سپلائی کرنے کا ’’بزنس‘‘ اربوں روپے کا کاروبار کر رہا ہے! اور قوم کو خوشخبری دی جا رہی ہے کہ داعش کی روک تھام ہوگی! میں پھر دُہرا ہو جاتا ہوں!
ویسے داعش کے آ جانے سے ایک عام پاکستانی کا کیا بگڑ جائے گا؟ اُس کے بچے کو تو اب بھی ملازمت نہیں مل رہی اس لیے کہ اس کے پاس سفارش نہیں ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے اس کی کمر پہلے ہی توڑی ہوئی ہے۔ لوڈشیڈنگ کی اندھی اندھیری صعوبتیں الگ ہیں۔ گرانی کا یہ عالم ہے کہ ماہانہ سودا لے کر وہ سٹور سے نکلتا ہے تو کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہوتا ہے۔ اس کا موٹر سائیکل یا آٹھ سو سی سی کی کار چوری ہوتی ہے تو ملنے کا دور دور تک امکان نہیں ہوتا۔ چوروں‘ ڈاکوئوں سے اسے بچانے والا کوئی نہیں! کچہری میں باپ بیٹے کا مکان یا بیٹا باپ کی زمین اپنے نام کرانے جائے تو بھیڑیوں کے غول اُسے چیر پھاڑ دیتے ہیں۔
پاکستان کی کچہریوں میں‘ بالخصوص زمین یا مکان کے انتقال میں… ننانوے فیصد معاملات میں رشوت لی جاتی ہے۔ نرخ متعین ہیں۔ اگر داعش والے آ کر یہ لعنت ختم کردیں تو؟ اگر داعش والوں کے آنے سے غریب پاکستانی کی‘ ایک عام پاکستانی کی زندگی تھوڑی سی باعزت ہو جائے تو؟ نہیں معلوم وہ آئے تو ان کا کیا طرزِ حکمرانی ہوگا مگر فرض کیجیے‘ ان کے آنے سے ہٹو بچو والا رُوٹ لگنا بند ہو جائے اور عوام کو حکمرانوں کے شاہانہ جلوس گزرتے وقت غلاموں کی طرح شاہراہوں پر بند کرنا موقوف کردیا جائے تو؟
داعش کے آنے سے خطرہ انہیں ہے جن کے پورے پورے خاندان ’’منتخب‘‘ اداروں میں متمکن ہیں‘ جنہیں اپنی جاگیروں کی حدود معلوم ہیں نہ تجوریوں کی تعداد! اور جن کے ایک ایک مہینے کے اخراجات ایک ایک خلیفہ کے ذمے ہیں!
میں پھر دُہرا ہو رہا ہوں! مگر آپ مجھے کبڑا تو نہ سمجھیں! صوبے کے حکمران اعلیٰ کے پاس نو ماہ یعنی آٹھ ماہ چھبیس دن تک صوبائی اسمبلی میں آنے کے لیے وقت نہ تھا۔ کیوں کہ انہوں نے غیر ملکی دوروں کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ خاتون کو ملاقات کا وقت دینا ہے اور اُن سفیروں کو بھی جو اسلام آباد سے بابِ عالی کی جانب رواں رہتے ہیں۔ بیلاروس کا سفیر صوبائی دارالحکومت میں حاضر ہوا۔ وفاقی دارالحکومت میں آخر دوسرے ملک کے سفیر کا کیا کام! ’’پاکستان میں… بالخصوص پنجاب میں زراعت‘ لائیوسٹاک‘ آئی ٹی‘ صنعت اور دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کے بہت مواقع ہیں‘‘! اس سے پہلے افغانستان کے صدر نے کابل اور پنجاب کے تعلقات بڑھانے کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ یہ سب کچھ اگر کوئی چھوٹا صوبہ کرتا تو اب تک علیحدگی پسندگی کے الزامات اس شوروغوغا کے ساتھ لگ چکے ہوتے کہ گرد آسمان کو ڈھانپ لیتی۔ میں دُہرا ہو رہا ہوں مگر… بقول ظفر اقبال ؎
مجھے کُبڑا نہ سمجھو‘ زندگی پر
میں ہنستے ہنستے دُہرا ہو گیا ہوں
پسِ تحریر: بھارتی صوبے مہاراشٹر کی حکومت نے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے مختص پانچ فیصد کوٹہ ختم کردیا ہے۔ مرہٹہ اکثریت کے مقابلے میں پسماندہ مسلمانوں کے لیے یہ پانچ فیصد کوٹہ پہلے ہی اونٹ کے منہ میں زیرہ تھا۔ اب وہ بھی ختم کردیا گیا۔ عوام کے خرچ پر عمرے ادا کرنے والے پاکستانی حکمرانوں کو وقت ملے تو بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بھی ایک دو حرف کہنے کی جسارت کر لیں۔ اگر مودی ناراض ہوئے تو آموں کے کریٹوں اور مٹھائی کے ٹوکروں سے راضی بھی ہو جائیں گے۔
Monday, March 09, 2015
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر
ادھیڑ عمر شخص نے جوان بیٹے کو بلا کر پاس بٹھایا اور اپنا دل کھول کر سامنے رکھ دیا۔ دل میں قلق تھا اور رنج۔ جوان بیٹا سارا دن آوارہ گردی کرتا تھا۔ ماں سے جھگڑ کر پیسے مانگتا‘ اپنے جیسے بیکار دوستوں کے ساتھ گلچھرے اُڑا کر‘ رات گئے آتا‘ کبھی کبھی رات بھر غائب رہتا۔ امتحان میں فیل ہو ہو کر پڑھائی چھوڑ ہی دی۔ نوکری جو مل سکتی تھی‘ اُس پر طنز کرتا‘ جس کا نام لیتا وہ مل نہیں سکتی تھی کہ اہلیت ہی نہیں تھی۔ باپ نے ایک لمبا لیکچر دیا‘ سمجھایا‘ ڈانٹ پلائی‘ نرم گفتاری بھی دکھائی۔ ابھی یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ لڑکے کی ماں پھنکارتی ہوئی آئی۔ ’’تمہیں سارے نقص میرے بیٹے ہی میں نظر آتے ہیں۔ پڑوسیوں کا لڑکا اس سے بھی گیا گزرا ہے‘ اُسے کیوں نہیں ڈانٹتے‘‘۔
آپ کا کیا خیال ہے‘ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کوئی عورت اپنے شوہر پر اس لیے برس سکتی ہے کہ ہمارا بیٹا نکما ہے تو پڑوسیوں کا بیٹا بھی ایسا ہی ہے‘ اسے سمجھائو‘ آپ کا جواب یقینا ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا!
مگر افسوس! ایسا ہو رہا ہے‘ یہ انہونی ہو رہی ہے۔ اگرچہ اس کی شکل اور ہے اور سطح مختلف! ایک نوجوان نے حال ہی میں یورپ کا سفرنامہ لکھا۔ وہ پہلی بار ان ملکوں میں گیا تھا۔ ایک عام پاکستانی شہری ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی سے پڑھا نہ ڈاکٹر مہدی حسن سے! مذہب سے وابستہ ہے اور سر سے پا تک اور دل سے دماغ تک پاکستانی۔ اس نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا‘ کاغذ پر منتقل کردیا۔ قصور صرف یہ تھا کہ دل میں درد تھا۔ ہر قدم پر سوچتا کہ اگر یہ سسٹم یورپ میں کام کر رہا ہے تو میرے ملک میں کیوں نہیں کر سکتا۔ لندن ایئرپورٹ پر ہر کام ترتیب اور تنظیم سے ہو رہا ہے تو لاہور ایئرپورٹ پر قطار کی بے حرمتی کیوں ہوتی ہے۔ یورپ میں ٹرینیں سیکنڈ کے لحاظ سے بروقت چلتی اور پہنچتی ہیں تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ اگر لندن کی زیر زمین ٹیوب‘ جس کے پونے تین سو سٹیشن ہیں‘ 1863ء میں بن گئی تھی تو ہمارے ہاں تو 1963ء بھی گزر گیا‘ ابھی تک آثار کیوں نہیں ہیں؟ اگر یورپ کے ہر چھوٹے سے قصبے میں بھی لائبریری موجود ہے تو ہمارے ہاں جو لائبریریاں تھیں‘ وہ بھی کیوں غائب ہو گئی ہیں؟ قیام یورپ کے دوران کسی شخص نے اس نوجوان کو تکلیف پہنچائی نہ دھوکا دیا‘ ہاں اگر زیادتی کی تو اس کے اپارٹمنٹ کے مالک نے جو اصلاً اس کا اپنا ہم وطن تھا‘ ایسا کیوں ہوا؟ جو کوئی معاملہ طے کرتا ہے‘ اسی کے مطابق کام کرتا ہے‘ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟
یہ وہ سوالات تھے جو نوجوان کے ذہن میں ابھرے اور اس نے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیے۔ لیکن اسے حیرت ہوئی جب کچھ دوستوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ شکوہ یہ تھا کہ اہلِ مغرب سے مرعوب ہو کر اپنے وطن کی برائیاں کرنے لگ گئے۔ برائیاں کرنی تھیں تو اُن کی کرتے! آپ نے دیکھا‘ جس صورتِ حال کو آپ ناممکن کہہ رہے تھے‘ وہ ہمارے ہاں موجود ہے۔ ماں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہی ہے کہ دوسروں کے بچوں کی برائیاں کرو‘ اپنے بچے کا ذکر کیوں کرتے ہو؟
بدقسمتی سے ہم دو حالتوں میں رہ رہے ہیں۔ ایک حالت تو حالتِ انکار ہے یعنی
"State Of Denial"
اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں پر سازش کا الزام لگاتے ہیں۔ چودہ سو سال کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ مسلمانوں نے مسلمانوں کا خون بہایا۔ تیمور نے دہلی پر حملہ کیا تو وہاں ہندو راجہ نہیں‘ ناصرالدین محمود شاہ حکمران تھا جو مسلمان تھا۔ نمازیں پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا۔ کئی دن تک دہلی لوٹی جاتی رہی۔ خون گلیوں میں پانی کی طرح بہا۔ ہزاروں مسلمان مارے گئے۔ بابر کی سپاہ نے ا براہیم لودھی کو غیر مسلم سمجھ کر نہیں‘ مسلمان ہی سمجھ کر قتل کیا۔ ترکوں کے ہاں تو دستور ہی بن گیا کہ جو ’’خلافت‘‘ سنبھالے‘ بھائیوں کو مروا دے۔ دکن کے مسلمان حکمران‘ بیجاپور‘ احمد نگر‘ گولکنڈہ اور برار کے سلاطین‘ ایک دوسرے پر سالہاسال تک چڑہائیاں کرتے رہے۔ دونوں طرف مسلمان ہی مرتے تھے۔ لیکن ہمارا تکیۂ کلام ہے کہ ’’مسلمان مسلمان کو نہیں مار سکتا۔ یہ جو دھماکے کر رہے ہیں‘ یہ کوئی اور ہی لوگ ہیں‘‘۔
"State Of Denial"
اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں پر سازش کا الزام لگاتے ہیں۔ چودہ سو سال کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ مسلمانوں نے مسلمانوں کا خون بہایا۔ تیمور نے دہلی پر حملہ کیا تو وہاں ہندو راجہ نہیں‘ ناصرالدین محمود شاہ حکمران تھا جو مسلمان تھا۔ نمازیں پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا۔ کئی دن تک دہلی لوٹی جاتی رہی۔ خون گلیوں میں پانی کی طرح بہا۔ ہزاروں مسلمان مارے گئے۔ بابر کی سپاہ نے ا براہیم لودھی کو غیر مسلم سمجھ کر نہیں‘ مسلمان ہی سمجھ کر قتل کیا۔ ترکوں کے ہاں تو دستور ہی بن گیا کہ جو ’’خلافت‘‘ سنبھالے‘ بھائیوں کو مروا دے۔ دکن کے مسلمان حکمران‘ بیجاپور‘ احمد نگر‘ گولکنڈہ اور برار کے سلاطین‘ ایک دوسرے پر سالہاسال تک چڑہائیاں کرتے رہے۔ دونوں طرف مسلمان ہی مرتے تھے۔ لیکن ہمارا تکیۂ کلام ہے کہ ’’مسلمان مسلمان کو نہیں مار سکتا۔ یہ جو دھماکے کر رہے ہیں‘ یہ کوئی اور ہی لوگ ہیں‘‘۔
دوسری حالت حالتِ نفاق ہے۔ یعنی اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنا‘ اور دوسروں کے عیوب اچھالنا! اس کالم نگار کو کبھی کبھی بیرون ملک سے سندیسے بھیجے جاتے ہیں کہ آپ امریکہ اور یورپ پر کیوں نہیں تنقید کرتے۔ اپنے ملک ہی پر کرتے ہیں‘ ایک صاحب سے‘ جو کئی ای میلیں بھیج کر مسلسل زجر و توبیخ کر رہے تھے‘ پوچھا کہ آپ اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر باہر کیوں آباد ہو گئے ہیں؟ آخر اپنے وطن میں کیا مسائل تھے؟ اس پر انہیں سانپ سونگھ گیا۔ سرسید احمد خان کے ساتھ یہی ہوا۔ قیامِ انگلستان کے دوران وہاں کے مشاہدات اوراپنے تاثرات واپس وطن بھیجے اور چھپوائے‘ بتایا کہ وہاں زندگی کا رنگ ڈھنگ کیا ہے‘ رویوں میں کیا فرق ہے اور زندگی کو دیکھنے کا زاویہ کون سا ہے۔ یہاں مشہور ہو گیا کہ سید احمد کرسٹان ہو گیا ہے چنانچہ مضامین کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے موقوف کردیا۔
کیا اس میں کوئی شک ہے کہ دروغ گوئی ہمارا طرزِ زندگی ہے اور وعدہ خلافی ہمارا شعار؟ دل پر ہاتھ رکھ کر‘ خدائے قہار کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھئے‘ ہم میں کتنے لوگ ہیں جو ہر حال میں سچ بولتے ہیں! اب تو جھوٹ کو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا! سیاہ نقطہ جو دل پر تھا‘ پھیلتے پھیلتے پورے قلب پر محیط ہو چکا ہے۔ ایک دن میں ہم کتنی وعدہ خلافیاں کرتے ہیں۔ ہم میں سے ننانوے فیصد وہ ہیں جو دوسرے کو یقین دلاتے ہیں کہ میں ابھی آپ کو فون کر کے مطلوبہ اطلاع فراہم کرتا ہوں‘ پھر یہ فون کبھی نہیں کیا جاتا! ہر شخص شادی کے دعوے نامے پر خصوصی طور پر چھپواتا ہے ’’بصورتِ معذرت‘‘ ساتھ فون نمبر دیا جاتا ہے‘ مگر ہم میں سے اکثریت اس تہذیب سے محروم ہے! وہ بھی جو کارڈ پڑھتا ہے اور وہ بھی جو ارسال کرتا ہے! ایک نوجوان سول سرونٹ بتا رہا تھا کہ ایک بڑے کاروباری ادارے پر چھاپہ مارا گیا۔ ٹیکس بچانے کے لیے ’’ترکیب نمبر دو‘‘ خوب خوب استعمال ہو رہی تھی۔ کمپنی کے ڈائریکٹر بلائے گئے۔ ظاہر میں مکمل متشرع‘ اذان ہوئی تو اضطراب کی حالت میں مسجد کی طرف لپکے لیکن جب پوچھا گیا کہ آپ کا سارا سلسلہ دروغ گوئی اور فریب کاری پر مشتمل ہے تو حیرت سے منہ دیکھنے لگے۔ سبب اس طرح کی حیرت کا یہ ہے کہ برائی کو برائی نہیں سمجھا جا رہا! اسے طے شدہ
(Taken for granted)
لیا جاتا ہے! ’’چھوڑیے‘ جناب‘ کس باریکی میں پڑ گئے‘ سب ایسا ہی کرتے ہیں‘ پورا معاشرہ خراب ہے‘ ایک میرے نہ کرنے سے کیا ہوگا‘‘، یہ عمومی رویہ ہے جو ہمارا سب سے بڑا دفاع
(Taken for granted)
لیا جاتا ہے! ’’چھوڑیے‘ جناب‘ کس باریکی میں پڑ گئے‘ سب ایسا ہی کرتے ہیں‘ پورا معاشرہ خراب ہے‘ ایک میرے نہ کرنے سے کیا ہوگا‘‘، یہ عمومی رویہ ہے جو ہمارا سب سے بڑا دفاع
ہے۔ منکرنکیر کا ذکر ہم بہت کرتے ہیں‘ انہیں کیا ہم یہی بتائیں گے کہ میں کیا کرتا‘ سبھی یہی کچھ کر رہے تھے!
حال ہی میں پشاور میں تجاوزات کے خلاف مہم شروع ہوئی۔ ایک ہزار دکانیں ایک ایکشن میں منہدم کی گئیں۔ سب غیر قانونی تھیں۔ احتجاج ہوا۔ دہائی دی گئی مگر غیر قانونی دکان تعمیر کرتے وقت‘ دل میں ایک بار بھی نہ چبھن ہوئی کہ ناجائز زمین پر جو دکان چلے گی‘ اس کی آمدنی حرام کی ہوگی! تجاوزات کی لعنت آج اس ملک کی بڑی لعنتوں میں سرفہرست ہے۔ اس میں رہائشی مکانات کم اور دکانیں‘ مارکیٹیں‘ کارخانے زیادہ ملوث ہیں۔ کچھ دن پہلے دارالحکومت کے سیکٹر جی ٹین کے مرکز میں جانا ہوا۔ پارکنگ ایریا میں کپڑا بیچنے والوں کا پورا بازار تھا۔ معلوم ہوا کہ ہر شخص سامنے والے دکاندار کو بھی نذرانہ دیتا ہے اور متعلقہ ادارے کے اہلکاروں کو بھی! اگر متعلقہ وزیر صاحب‘ ادارے کے سربراہ کو ساتھ لے کر دورہ کریں اور پوچھیں کہ کیا یہ ہولناک تجاوزات تمہیں نظر آ رہی ہیں؟ مگر ایسا کیوں اور کس طرح ہو؟ بھتہ صرف دہشت گرد نہیں لے رہا‘ اپنی دکان کے سامنے‘ سرکاری زمین پر‘ فٹ پاتھ ہے یا پارکنگ ایریا‘ ریڑھی والے سے یا سٹال لگانے والے سے جو رقم لے رہا ہے‘ وہ بھی بھتہ ہی ہے اور اگر دینے والا نہیں‘ تو لینے والا یقینا دہشت گردی ہی کی ایک قسم میں مبتلا ہے۔
شاید ہم نفسیاتی بیمار ہیں! پوری قوم بلبلا رہی ہے کہ ایوانِ بالا کے انتخابات میں کروڑوں کے بھائو تائو ہوئے ہیں‘ مگر اگر کوئی کہہ دے کہ دوسرے ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا تو فوراً غیرت مند بن جاتے ہیں کہ اپنی برائی کیوں کر رہے ہو‘ صرف دوسروں کے نقص گنو! ؎
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
مگر اپنی برائیوں پر کب نظر پڑے گی؟
Saturday, March 07, 2015
پشاور! ہم تیرے مقروض ہیں
پشاور جب بھی جانا ہوتا ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے ایک دروازہ ہے جو مغرب کی طرف کھلا ہوا ہے اور شمال کی طرف۔ کیسی ہوائیں در آتی ہیں اور کیا منظر ہیں جو اس دروازے سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
پشاور بکھری ہوئی تاریخ کو ایک نقطے پر مرتکز کرتا ہے۔ پھیلی ہوئی صدیوں کو ایک لمحے میں سمیٹتا ہے۔ برصغیر کو… پورے برصغیر کو شیشے کے ایک ٹکڑے میں منعکس کر کے دیکھتا ہے اور دکھاتا ہے۔ دکھاتا ہے بشرطیکہ دیکھنے والوں کو شعور ہو کہ پشاور فقط ایک شہر نہیں! طویل تاریخ کا نقطۂ ارتکاز ہے۔ زمانوں کا سکڑتا ہوا لمحہ ہے۔ پشاور شہر ہے لیکن شہروں میں ممتاز شہر!
ہم جہاں سے بھی آئے‘ پشاور سے گزر کر آئے۔ ہم شہرِ سبز سے آئے‘ خوارزم اوررے سے آئے‘ ترمذ اور سمرقند سے آئے‘ بلخ اور ہرات سے آئے‘ نیشاپور اور اصفہان سے آئے‘ تبریز اور شیراز سے آئے‘ ہم جہاں سے بھی آئے‘ پشاور ہی وہ دروازہ تھا جس سے ہم گزرے۔ پشاور ہم پر کھلا اور ہم اندر داخل ہوئے۔ پشاور کھلا رہا‘ بند نہ ہوا‘ یہ اور بات ہم واپس نہ جا سکے۔
ہم پھیل گئے۔ دو آبے میں‘ گنگا اور جمنا کے میدانوں میں۔ چتوڑ اور مالوہ میں بس گئے۔ بختیار خلجی نے اٹھارہ شہسواروں کے ہمراہ بنگال کو فتح کر لیا۔ خلجیوں کی فوج جنوبی ہند کے جزیرہ نما میں تامل بولنے والوں کے ہاں جا پہنچی۔ شیرشاہ سوری سہسرام میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان واپس نہ گیا۔ فیروز تغلق نے جونپوربسایا اور ترکستان نہ گیا۔ بیدل نے عظیم آباد کو مسکن بنا لیا۔ بابر آگرہ میں کابل سے آیا ہوا خربوزہ کاٹتے ہوئے رو پڑا مگر واپس چار کندھوں پر سوار فقط تدفین کے لیے گیا۔ سلجوقی ترکوں کا چشم و چراغ اسد اللہ خان غالب پیشۂ آباء پر فخر کرتا دہلی میں دفن ہو گیا۔ آج بنگال سے لے کر کراچی تک اور میسور سے لے کر ہمالیہ کی ترائیوں تک پھیلے ہوئے مسلمانوں کا اگر کوئی ایک سمبل ہے تو وہ پشاور ہے ،اس لیے کہ وہ سب پشاور ہی سے ہو کر گئے اور آج بھی پشاور ہی صرف وہ استعارہ ہے جو وسط ایشیا کے جہان ہم پر کھولتا ہے۔ پشاور ہی وہ کنایہ ہے جو افغانستان کے کوہساروں اور ایران کے مرغزاروں کی یاد دلاتا ہے۔ صرف پشاور میں ان ہوائوں کی لہر محسوس ہوتی ہے جس کے دوش پر بدخشاں اور ہرات کی خوشبو عطر بیز ہوتی ہے۔ قصہ خوانی بازار سے مسجد مہابت خان تک‘ چند قدموں کا فاصلہ ہے مگر قدموں سے صدیاں لپٹ لپٹ جاتی ہیں!
آج پشاور کے دریچوں سے ہم اپنے چھوڑے ہوئے جہان دیکھتے ہیں۔ اب پشاور ہی ہمارا بدخشان ہے‘ پشاور ہی ہمارا رے ہے , پشاور ہی ہمارا سمرقند ہے اور پشاور ہی ہمارا اصفہان نصف جہان ہے۔ پھر پشاور یہ سب کچھ ہوتے ہوئے پشاور بھی ہے۔ اس کی اپنی فضا ہے۔ اس کی اپنی خوشبوئیں ہیں۔ بازاروں اور کوچوں میں اس کی اپنی انفرادیت ہے۔ اس کے رہنے والوں میں مہمان نوازی ہے‘ دلبری ہے‘ اس کے باشندے محبت کے پیکر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مہمان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ان کی پیشانیاں کشادہ اور دل وسیع ہیں۔ یہ اوپر سے سخت بھی دکھائی دیں تو اندر سے نرم ہیں۔ ان کی دشمنیاں کھلی اور ان کی دوستیاں موت سے بے نیاز ہیں۔ وہ انسان ہیں۔ انسان خامیوں سے خالی نہیں ہوتا مگر ایک خامی ایسی ہے جس سے وہ پاک ہیں اور وہ خا می نفاق ہے۔
عزیز اعجاز کے نئے شعری مجموعے کی تقریبِ عروسی تھی جس کے لیے پشاور کے احباّ نے آواز دی اور حاضری کا شرف ملا۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎
کوئی رومی کوئی غالب کوئی اقبال پیدا کر
کہ شہروں کی بڑائی ان کے میناروں میں ہوتی ہے
ایک وقت تھا کہ فارغ بخاری‘ رضا ہمدانی‘ خاطر غزنوی‘ محسن احسان‘ غلام محمد قاصر اور احمد فراز اس شہر کے مینار تھے۔ کیا وضعداری اور نجابت تھی ان بڑے لوگوں میں! نیپا (NIPA) پشاور میں تربیتی کورس کے لیے قیام تھا۔ محسن احسان کو‘ کہ عمر‘ علم اور شاعری‘ ہر شے میں سینئر تھے ،فون کیا کہ ان کے ہاں حاضر ہونا تھا۔ شام کو اقامت گاہ کے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو محسن احسان کھڑے تھے۔ کتنی ہی سرمئی شامیں ان کے ہاں گزاریں اور ضیافتوں سے تمتع اٹھایا۔ خاطر غزنوی ملتے تھے تو سراپا محبت کے ساتھ۔ 2004ء کی بات ہے۔ ماہ وش کی شادی پر فراز صاحب کو بلایا۔ دوستوں نے متنبہ کیا کہ افتخار عارف آئے تو فراز صاحب نہیں آئیں گے۔ پوچھا تو کہنے لگے تمہاری بیٹی کی شادی ہے‘ کیسے ممکن ہے نہ آئوں۔ وہ بھی آئے اور افتخار عا رف بھی!
پشاور پر پشاور کے پروردگار کا آج بھی کرم ہے۔ آج سجاد بابر‘ ڈاکٹر نذیر تبسم‘ عزیز اعجاز‘ ناصر علی سید‘ بشریٰ فرخ اور حسام حُر اس شہر کے مینار ہیں۔ یہاں کی دانش و حکمت کے نشان ہیں! عزیز اعجاز کا یہ شعر تو اب ضرب المثل بن چکا ہے ؎
جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
معاملہ بندی کرتا ہے تو مومن یاد آ جاتے ہیں۔
خانہ فرہنگِ ایران کا امام خمینی ہال پشاور کی ادبی تقاریب کے لیے ہمیشہ دامنِ دل پھیلا دیتا ہے۔ یارِ دیرینہ ناصر علی سید کی نرماہٹ سے بھری دلکش نظامت تھی۔ آقائی علی یوسفی نے ایرانی لہجے میں عزیز اعجاز کے اشعار تحت اللفظ پڑھے، پھر بھی کیا غنائیت تھی اور کھنک تھی جو مترشح ہو رہی تھی! فارسی میں ان سے گفتگو کی تو معافی کا خواستگار ہوا کہ لہجہ دری ہے اور گرفت کمزور لیکن خوش ہوئے اور وعدہ کیا کہ اسلام آباد آئیں گے تو رابطہ کریں گے۔ کیا ہم اور کیا ہماری فارسی! یہ تو بس چند ریزے تھے جو والدِ گرامی کے دسترخوان کے اردگرد سے چُنے! اب کفِ افسوس رہ گئی ہے! کاش! اوک سے چند گھونٹ پینے کے بجائے اُس ٹھاٹھیں مارتے دریا سے بہت سا آبِ شیریں ذخیرہ کر لیتے!
تاریخ بھی عجیب ستم ظریف ہے۔ جس بابِ خیبر سے شہسوار فاتح آتے تھے‘ زمانے نے کروٹ بدلی تو گرے پڑے‘ زخموں سے چور مہاجرین اُس سے آئے۔ پشاور نے اپنی بے کنار وسعتوں میں انہیں سمیٹ لیا۔ وہ ہزاروں میں نہیں‘ لاکھوں میں تھے۔ ان میں شمالی افغانستان کے ‘کہ ترکستانِ صغیر کہلاتا ہے‘ ازبک بھی تھے‘ تاجک بھی تھے، ہزارہ بھی اور جنوبی اور مشرقی افغانستان کے پختون بھی! جلوزئی سے لے کر ریگی للما تک پناہ گاہیں کھل گئیں۔ پشاور نے بازاروں کے دروازے وا کردیے۔ کاروبار میں شرکت کے مواقع بہم پہنچائے۔ آج مہاجرین کی تیسری نسل ہے جو پشاور کے گلی کوچوں میں چل پھر رہی ہے۔ 1980ء میں جو بچہ پیدا ہوا تھا آج وہ پینتیس برس کا ہے اور اس کا بیٹا اس کی انگلی پکڑے ساتھ چل رہا ہے۔
انگریز سرکار نے پشاور میں ایڈورڈ کالج بنایا تھا۔ انہوں نے مہمند اور باجوڑ میں‘ میرن شاہ اور جنوبی وزیرستان میں کوئی سکول‘ کوئی کالج‘ کوئی یونیورسٹی نہ بنائی اس لیے کہ ان کا مقصد فلاح و بہبود نہ تھا‘ روسیوں کے راستے میں بند باندھنا تھا۔ وہ قبائلیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ مگر افسوس! قبائلی علاقوں کو ان کے نئے وطن نے بھی‘ جو ستر سال پرانا ہو چکا ہے‘ کوئی یونیورسٹی‘ کوئی کارخانہ نہ دیا۔ کروڑوں اربوں روپوں کی رقوم پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے مخصوص گماشتوں کو دی جاتی رہیں۔ قبائلی عوام تک کچھ نہ پہنچا۔ جن کے اپنے بچے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ کے بزنس میں کروڑوں سے کھیل رہے ہیں‘ وہ قبائلی بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں اور بندوقیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اگر یہی بہادری ہے تو وہ اپنے بچوں کو یہ بہادری کیوں نہیں سکھاتے؟
پشاور کے ہم مقروض ہیں۔ صدیوں کا قرض ہے! تب اترے گا جب پشاور کے نواح میں امن ہوگا‘ یونیورسٹیاں ہوں گی۔ کارخانے اور فیکٹریاں ہوں گی۔ شاپنگ مال ہوں گے۔ خوشحالی ہو گی اور قبائلی بچوں کے ہاتھوں میں بارود نہیں‘ کتاب اور لیپ ٹاپ ہوگا۔
پشاور بکھری ہوئی تاریخ کو ایک نقطے پر مرتکز کرتا ہے۔ پھیلی ہوئی صدیوں کو ایک لمحے میں سمیٹتا ہے۔ برصغیر کو… پورے برصغیر کو شیشے کے ایک ٹکڑے میں منعکس کر کے دیکھتا ہے اور دکھاتا ہے۔ دکھاتا ہے بشرطیکہ دیکھنے والوں کو شعور ہو کہ پشاور فقط ایک شہر نہیں! طویل تاریخ کا نقطۂ ارتکاز ہے۔ زمانوں کا سکڑتا ہوا لمحہ ہے۔ پشاور شہر ہے لیکن شہروں میں ممتاز شہر!
ہم جہاں سے بھی آئے‘ پشاور سے گزر کر آئے۔ ہم شہرِ سبز سے آئے‘ خوارزم اوررے سے آئے‘ ترمذ اور سمرقند سے آئے‘ بلخ اور ہرات سے آئے‘ نیشاپور اور اصفہان سے آئے‘ تبریز اور شیراز سے آئے‘ ہم جہاں سے بھی آئے‘ پشاور ہی وہ دروازہ تھا جس سے ہم گزرے۔ پشاور ہم پر کھلا اور ہم اندر داخل ہوئے۔ پشاور کھلا رہا‘ بند نہ ہوا‘ یہ اور بات ہم واپس نہ جا سکے۔
ہم پھیل گئے۔ دو آبے میں‘ گنگا اور جمنا کے میدانوں میں۔ چتوڑ اور مالوہ میں بس گئے۔ بختیار خلجی نے اٹھارہ شہسواروں کے ہمراہ بنگال کو فتح کر لیا۔ خلجیوں کی فوج جنوبی ہند کے جزیرہ نما میں تامل بولنے والوں کے ہاں جا پہنچی۔ شیرشاہ سوری سہسرام میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان واپس نہ گیا۔ فیروز تغلق نے جونپوربسایا اور ترکستان نہ گیا۔ بیدل نے عظیم آباد کو مسکن بنا لیا۔ بابر آگرہ میں کابل سے آیا ہوا خربوزہ کاٹتے ہوئے رو پڑا مگر واپس چار کندھوں پر سوار فقط تدفین کے لیے گیا۔ سلجوقی ترکوں کا چشم و چراغ اسد اللہ خان غالب پیشۂ آباء پر فخر کرتا دہلی میں دفن ہو گیا۔ آج بنگال سے لے کر کراچی تک اور میسور سے لے کر ہمالیہ کی ترائیوں تک پھیلے ہوئے مسلمانوں کا اگر کوئی ایک سمبل ہے تو وہ پشاور ہے ،اس لیے کہ وہ سب پشاور ہی سے ہو کر گئے اور آج بھی پشاور ہی صرف وہ استعارہ ہے جو وسط ایشیا کے جہان ہم پر کھولتا ہے۔ پشاور ہی وہ کنایہ ہے جو افغانستان کے کوہساروں اور ایران کے مرغزاروں کی یاد دلاتا ہے۔ صرف پشاور میں ان ہوائوں کی لہر محسوس ہوتی ہے جس کے دوش پر بدخشاں اور ہرات کی خوشبو عطر بیز ہوتی ہے۔ قصہ خوانی بازار سے مسجد مہابت خان تک‘ چند قدموں کا فاصلہ ہے مگر قدموں سے صدیاں لپٹ لپٹ جاتی ہیں!
آج پشاور کے دریچوں سے ہم اپنے چھوڑے ہوئے جہان دیکھتے ہیں۔ اب پشاور ہی ہمارا بدخشان ہے‘ پشاور ہی ہمارا رے ہے , پشاور ہی ہمارا سمرقند ہے اور پشاور ہی ہمارا اصفہان نصف جہان ہے۔ پھر پشاور یہ سب کچھ ہوتے ہوئے پشاور بھی ہے۔ اس کی اپنی فضا ہے۔ اس کی اپنی خوشبوئیں ہیں۔ بازاروں اور کوچوں میں اس کی اپنی انفرادیت ہے۔ اس کے رہنے والوں میں مہمان نوازی ہے‘ دلبری ہے‘ اس کے باشندے محبت کے پیکر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مہمان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ان کی پیشانیاں کشادہ اور دل وسیع ہیں۔ یہ اوپر سے سخت بھی دکھائی دیں تو اندر سے نرم ہیں۔ ان کی دشمنیاں کھلی اور ان کی دوستیاں موت سے بے نیاز ہیں۔ وہ انسان ہیں۔ انسان خامیوں سے خالی نہیں ہوتا مگر ایک خامی ایسی ہے جس سے وہ پاک ہیں اور وہ خا می نفاق ہے۔
عزیز اعجاز کے نئے شعری مجموعے کی تقریبِ عروسی تھی جس کے لیے پشاور کے احباّ نے آواز دی اور حاضری کا شرف ملا۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎
کوئی رومی کوئی غالب کوئی اقبال پیدا کر
کہ شہروں کی بڑائی ان کے میناروں میں ہوتی ہے
ایک وقت تھا کہ فارغ بخاری‘ رضا ہمدانی‘ خاطر غزنوی‘ محسن احسان‘ غلام محمد قاصر اور احمد فراز اس شہر کے مینار تھے۔ کیا وضعداری اور نجابت تھی ان بڑے لوگوں میں! نیپا (NIPA) پشاور میں تربیتی کورس کے لیے قیام تھا۔ محسن احسان کو‘ کہ عمر‘ علم اور شاعری‘ ہر شے میں سینئر تھے ،فون کیا کہ ان کے ہاں حاضر ہونا تھا۔ شام کو اقامت گاہ کے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو محسن احسان کھڑے تھے۔ کتنی ہی سرمئی شامیں ان کے ہاں گزاریں اور ضیافتوں سے تمتع اٹھایا۔ خاطر غزنوی ملتے تھے تو سراپا محبت کے ساتھ۔ 2004ء کی بات ہے۔ ماہ وش کی شادی پر فراز صاحب کو بلایا۔ دوستوں نے متنبہ کیا کہ افتخار عارف آئے تو فراز صاحب نہیں آئیں گے۔ پوچھا تو کہنے لگے تمہاری بیٹی کی شادی ہے‘ کیسے ممکن ہے نہ آئوں۔ وہ بھی آئے اور افتخار عا رف بھی!
پشاور پر پشاور کے پروردگار کا آج بھی کرم ہے۔ آج سجاد بابر‘ ڈاکٹر نذیر تبسم‘ عزیز اعجاز‘ ناصر علی سید‘ بشریٰ فرخ اور حسام حُر اس شہر کے مینار ہیں۔ یہاں کی دانش و حکمت کے نشان ہیں! عزیز اعجاز کا یہ شعر تو اب ضرب المثل بن چکا ہے ؎
جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
معاملہ بندی کرتا ہے تو مومن یاد آ جاتے ہیں۔
خانہ فرہنگِ ایران کا امام خمینی ہال پشاور کی ادبی تقاریب کے لیے ہمیشہ دامنِ دل پھیلا دیتا ہے۔ یارِ دیرینہ ناصر علی سید کی نرماہٹ سے بھری دلکش نظامت تھی۔ آقائی علی یوسفی نے ایرانی لہجے میں عزیز اعجاز کے اشعار تحت اللفظ پڑھے، پھر بھی کیا غنائیت تھی اور کھنک تھی جو مترشح ہو رہی تھی! فارسی میں ان سے گفتگو کی تو معافی کا خواستگار ہوا کہ لہجہ دری ہے اور گرفت کمزور لیکن خوش ہوئے اور وعدہ کیا کہ اسلام آباد آئیں گے تو رابطہ کریں گے۔ کیا ہم اور کیا ہماری فارسی! یہ تو بس چند ریزے تھے جو والدِ گرامی کے دسترخوان کے اردگرد سے چُنے! اب کفِ افسوس رہ گئی ہے! کاش! اوک سے چند گھونٹ پینے کے بجائے اُس ٹھاٹھیں مارتے دریا سے بہت سا آبِ شیریں ذخیرہ کر لیتے!
تاریخ بھی عجیب ستم ظریف ہے۔ جس بابِ خیبر سے شہسوار فاتح آتے تھے‘ زمانے نے کروٹ بدلی تو گرے پڑے‘ زخموں سے چور مہاجرین اُس سے آئے۔ پشاور نے اپنی بے کنار وسعتوں میں انہیں سمیٹ لیا۔ وہ ہزاروں میں نہیں‘ لاکھوں میں تھے۔ ان میں شمالی افغانستان کے ‘کہ ترکستانِ صغیر کہلاتا ہے‘ ازبک بھی تھے‘ تاجک بھی تھے، ہزارہ بھی اور جنوبی اور مشرقی افغانستان کے پختون بھی! جلوزئی سے لے کر ریگی للما تک پناہ گاہیں کھل گئیں۔ پشاور نے بازاروں کے دروازے وا کردیے۔ کاروبار میں شرکت کے مواقع بہم پہنچائے۔ آج مہاجرین کی تیسری نسل ہے جو پشاور کے گلی کوچوں میں چل پھر رہی ہے۔ 1980ء میں جو بچہ پیدا ہوا تھا آج وہ پینتیس برس کا ہے اور اس کا بیٹا اس کی انگلی پکڑے ساتھ چل رہا ہے۔
انگریز سرکار نے پشاور میں ایڈورڈ کالج بنایا تھا۔ انہوں نے مہمند اور باجوڑ میں‘ میرن شاہ اور جنوبی وزیرستان میں کوئی سکول‘ کوئی کالج‘ کوئی یونیورسٹی نہ بنائی اس لیے کہ ان کا مقصد فلاح و بہبود نہ تھا‘ روسیوں کے راستے میں بند باندھنا تھا۔ وہ قبائلیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ مگر افسوس! قبائلی علاقوں کو ان کے نئے وطن نے بھی‘ جو ستر سال پرانا ہو چکا ہے‘ کوئی یونیورسٹی‘ کوئی کارخانہ نہ دیا۔ کروڑوں اربوں روپوں کی رقوم پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے مخصوص گماشتوں کو دی جاتی رہیں۔ قبائلی عوام تک کچھ نہ پہنچا۔ جن کے اپنے بچے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ کے بزنس میں کروڑوں سے کھیل رہے ہیں‘ وہ قبائلی بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں اور بندوقیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اگر یہی بہادری ہے تو وہ اپنے بچوں کو یہ بہادری کیوں نہیں سکھاتے؟
پشاور کے ہم مقروض ہیں۔ صدیوں کا قرض ہے! تب اترے گا جب پشاور کے نواح میں امن ہوگا‘ یونیورسٹیاں ہوں گی۔ کارخانے اور فیکٹریاں ہوں گی۔ شاپنگ مال ہوں گے۔ خوشحالی ہو گی اور قبائلی بچوں کے ہاتھوں میں بارود نہیں‘ کتاب اور لیپ ٹاپ ہوگا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)