گر یہ ممکن ہے کہ سورج رات کو نکلنا شروع ہو جائے اور دن بھر کے کام چاند کی روشنی میں ہونے لگیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی ختم ہو جائے۔ اس گھر کا تصور کیجئے جس کی حفاظت کیلئے چھت پر بندوقچی مورچہ زن ہوں۔ صدر دروازے سے لے کر داخلی دروازوں تک ہر جگہ مسلح پہریدار کھڑے ہوں لیکن دشمن گھر کے اندر ایک کمرے میں آرام سے رہ رہا ہو اور چوکیداروں سے کوئی نہ پوچھے کہ تمہاری موجودگی کے باوجود یہ اندر کیسے آ گیا ہے؟ طرفہ تماشا یہ کہ گھر کے مالک کو صورتحال سے آگاہی بھی ہو! اسے معلوم ہو کہ گھر کے اندر، ایک کمرے میں دشمن رہ رہا ہے! گرم پانی، نرم بستر، کھانا، آرام و استراحت کے سارے اسباب گھر ہی کے استعمال کر رہا ہے لیکن مالک کو فکر ہے نہ پروا! اس پہلو کو تو رہنے ہی دیجئے کہ ملک کی بھاری اکثریت کا مائنڈ سیٹ کیا ہو گیا ہے۔ اس بات کو بھی چھوڑ دیجئے کہ ہاتھوں میں ٹوکے پکڑ کر جو واعظین شعلہ بیانیاں کرتے ہیں، ان کے سامنے لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے! اس حقیقت سے بھی در گزر کیجئے کہ ٹیکس بچانے والے تاجر ہوں یا مشکل سے گزر اوقات کرنے والے سفید پوش، دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ ان سب باتوں کو چھوڑ دیجئے، اس لئے کہ یہ تو گہرائی مانگتی ہیں اور سنجیدہ علمی اور تحقیقی تجزیئے کی متقاضی ہیں! آیئے وہ حقیقتیں دیکھتے ہیں جو برہنہ ہیں، صاف نظر آ رہی ہیں اور جن سے کسی کو انکار نہیں! نہ ہی انہیں سمجھنے کیلئے گہرے فکر و دانش کی ضرورت ہے! جس ملک کو دہشت گردی نے زخم زخم کر رکھا ہے جس کی ہر پور سے، نہیں، پور تو بڑی شے ہے، ہر مسام سے خون رس رہا ہے۔ اس ملک میں دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے 67 (سڑسٹھ) لاکھ افراد غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ ان میں دس لاکھ افغان بھی شامل ہیں جو رجسٹرڈ ہی نہیں! ان 67 لاکھ کو غیر قانونی غیرملکیوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کے چہرے کے نقوش، رنگت اور جسمانی ساخت ایک دس سالہ بچے کو بھی صاف بتا دے کہ یہ پاکستانی نہیں! ان کا تعلق نائیجیریا، صومالیہ سوڈان کینیا، ازبکستان تاجکستان آذربائی جان ، برما اور بنگلہ دیش سے ہے! فرض کیجئے، پاک فوج قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب کامیابی سے ختم کر کے دہشت گردوں کا صفایا کردیتی ہے، اس کے بعد کیا ضمانت ہے کہ نصف کروڑ سے زائد ان غیر ملکیوں میں، جو شہروں قصبوں اور قریوں میں بکھرے ہوئے ہیں، کوئی دہشت گرد نہ ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ وزارت داخلہ، وزارت خارجہ، ریاستی اور سرحدی امور کی وزارتیں، ایف آئی اے، امیگریشن اور کسٹم کے قوی ہیکل محکمے، درجنوں خفیہ ایجنسیاں.... سب کیا کرتی رہیں؟ کیا یہ غیر ملکی بارش کے قطروں کے ساتھ بادلوں سے اترے؟ یا زمین سے پھوٹے؟ انہیں دستاویزات کے بغیر....یا جعلی دستاویزات کے ساتھ جن اہلکاروں نے آنے دیا، وہ اہلکار اس وقت کہاں ہیں؟ یہ بحث لاحاصل ہے کہ ریاست ناکام ہو گئی ہے یا ناکام نہیں ہوئی؟ اصل بات جو غور طلب ہے کہ کیا ریاست موجود ہے؟ اگر ریاست موجود ہے تو 67 لاکھ (یہ وہ تعداد ہے جو میڈیا نے بیان کی ہے) غیر ملکی کیسے داخل ہوئے اور کیسے رہ رہے ہیں؟ ملاّ نصیر الدین ایک کلو گرام گوشت خرید کر لایا اور بیوی سے پکانے کی فرمائش کر کے گھر سے باہر چلا گیا۔ بیوی نے گوشت بھونا اور سارا چٹ کر گئی۔ ملاّ نے آ کر کھانا مانگا تو جواب ملا کہ گوشت بلی کھا گئی ہے۔ ملاّ نے بلی کو ترازو میں رکھ کر تولا تو بلی ایک کلوگرام نکلی۔ ملاّ کا سوال جائز تھا۔ اگر بلی ایک کلوگرام ہے تو گوشت کہاں گیا؟ اور اگر یہ وزن گوشت کا ہے تو بلی کہاں ہے؟ کوئی ہے جو ان 67لاکھ 63ہزار8 سو سے زائد غیر قانونی غیر ملکیوں کو ترازو میں رکھ کر پوچھے کہ ریاست کہاں ہے؟ لیکن ٹھہریئے! یہ غیر ملکی تو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ صرف دار الحکومت کی بات کرتے ہیں دار الحکومت .....جہاں وزارت داخلہ بنفس نفیس موجود ہے۔ جہاں کیپیٹل ایڈمنسٹریشن کی الگ وزارت ..... مکمل وزارت ..... پائی جاتی ہے! جہاں دار الحکومت کا عظیم الجثہ، دیو پیکر ترقیاتی ادارہ ’’کام‘‘ کر رہا ہے جس کی تنخواہوں کا بل ہی کروڑوں اربوں میں ہے۔ جہاں ان سب اداروں سے الگ چیف کمشنر بھی دفتر سجا کر گھومنے والی کرسی پر جلوہ افروز ہے! اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاں وزیر اعظم ان کی کابینہ اور پارلیمنٹ کا مستقل پڑائو ہے ..... جی ہاں! اسی دار الحکومت میں چار سو چھیالیس (نصف جس کے دو سو تیئس بنتے ہیں) غیر قانونی مدارس سرکاری اراضی پر غیر قانونی قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مدارس نے گرین بیلٹ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے مالیت کی اراضی ان غیر رجسٹرڈ مدارس کے قبضہ میں ہے۔ اکثر پوش علاقوں میں ہیں۔ ترقیاتی ادارے کا ایک محکمہ ’’انفورسمنٹ ڈویژن‘‘ ہے جس کا کام ہی غیر قانونی قبضے کو روکنا۔ اور اگر ہو جائے تو اسے ختم کرنا ہے! عجیب بات یہ ہوئی کہ اس محکمے کو ان غیر قانونی مدارس کے قیام کا علم نہیں ہوا! اگر ہوا تو اس نے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیئے! اس سوال کے جواب کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ جس ملک کے دار الحکومت میں سرکاری گرین بیلٹ کاٹ کاٹ کر..... ایک نہیں، درجن نہیں، پچاس نہیں، سو نہیں، چار سو چھیالیس مدرسے کسی اجازت، کسی رجسٹریشن، ضابطے کی کسی کارروائی کے بغیر بن گئے اور قائم ہیں، جن میں بائیس ہزار طلبہ کو تعلیم دی جا رہی ہے جن کی اکثریت کا دار الحکومت سے کوئی تعلق نہیں! اس ملک سے شدت پسندی اور شدت پسندی کی ’’ترقی یافتہ‘‘ شکل..... دہشت گردی، کیسے ختم ہو گی؟ مگر جن قوموں نے زندہ رہنے کا مصمم ارادہ کیا ہو وہ ایسی بدترین صورتحال میں بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں! وزیر عظم نے اعلان کیا ہے کہ دہشت گردی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ دہشت گردوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی اور مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ وزیر اعظم پر لازم ہے کہ ان دو معاملات کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں۔ یہ مدارس جب سرکاری اراضی پر غیر قانونی قبضہ کر رہے تھے تو اس وقت ترقیاتی ادارے، چیف کمشنری اور دیگر متعلقہ محکموں میں براجمان افسروں اور اہلکاروں کے نام ریکارڈ پر لائے جائیں۔ ان سے باز پرس کی جائے۔ انہیں قرار واقعی سز ا دی جائے۔ اسی طرح 67 لاکھ غیر قانونی غیر ملکی جن سرحدوں، جن ہوائی اڈوں جن بندرگاہوں سے داخل ہوئے، وہاں ڈیوٹی پر موجود سرکاری افراد کے ناموں کا تعین کیا جائے! اور اگر ہمیشہ کی طرح ان خطرات سے اب بھی چشم پوشی ہی برتی جانی ہے اور ذمہ دار افراد سے تعرض نہیں کیا جانا تو پھر قوم کو وعدوں کے لولی پوپ دینے کا سلسلہ بند کر دیا جائے! عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ پاکستانی فوجی و قبائلی علاقوں میں اور افغان بارڈر پر جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ اسکولوں میں معصوم بچوں کے سروں پر گولیاں ماری جا رہی ہیں اور ملک کے طول و عرض میں دس لاکھ افغان سمیت 67 لاکھ غیر ملکی دندناتے پھرتے ہیں۔ وزیر اعظم کے ایوان سے چند منٹ کی مسافت پر سینکڑوں غیر قانونی چار دیواریاں قائم ہیں، جن کے اندر کسی کو معلوم نہیں کیا ہو رہا ہے جبکہ درجنوں ادارے وفاقی دار الحکومت کے نام پر ہر ماہ کرڑوں اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکال کر اپنے اوپر خرچ کئے جا رہے ہیں اور عزم یہ ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا! فانی بدایونی بھی کہاں یاد آ گیا دعویٰ یہ ہے کہ دوریٔ معشوق ہے محال مطلب یہ ہے کہ قرب نہیں اختیار میں | |
Print Version Back |
Sunday, December 28, 2014
وزیر اعظم کے لیے ٹیسٹ کیس
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment