گر یہ ممکن ہے کہ سورج رات کو نکلنا شروع ہو جائے اور دن بھر کے کام چاند کی روشنی میں ہونے لگیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی ختم ہو جائے۔ اس گھر کا تصور کیجئے جس کی حفاظت کیلئے چھت پر بندوقچی مورچہ زن ہوں۔ صدر دروازے سے لے کر داخلی دروازوں تک ہر جگہ مسلح پہریدار کھڑے ہوں لیکن دشمن گھر کے اندر ایک کمرے میں آرام سے رہ رہا ہو اور چوکیداروں سے کوئی نہ پوچھے کہ تمہاری موجودگی کے باوجود یہ اندر کیسے آ گیا ہے؟ طرفہ تماشا یہ کہ گھر کے مالک کو صورتحال سے آگاہی بھی ہو! اسے معلوم ہو کہ گھر کے اندر، ایک کمرے میں دشمن رہ رہا ہے! گرم پانی، نرم بستر، کھانا، آرام و استراحت کے سارے اسباب گھر ہی کے استعمال کر رہا ہے لیکن مالک کو فکر ہے نہ پروا! اس پہلو کو تو رہنے ہی دیجئے کہ ملک کی بھاری اکثریت کا مائنڈ سیٹ کیا ہو گیا ہے۔ اس بات کو بھی چھوڑ دیجئے کہ ہاتھوں میں ٹوکے پکڑ کر جو واعظین شعلہ بیانیاں کرتے ہیں، ان کے سامنے لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے! اس حقیقت سے بھی در گزر کیجئے کہ ٹیکس بچانے والے تاجر ہوں یا مشکل سے گزر اوقات کرنے والے سفید پوش، دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ ان سب باتوں کو چھوڑ دیجئے، اس لئے کہ یہ تو گہرائی مانگتی ہیں اور سنجیدہ علمی اور تحقیقی تجزیئے کی متقاضی ہیں! آیئے وہ حقیقتیں دیکھتے ہیں جو برہنہ ہیں، صاف نظر آ رہی ہیں اور جن سے کسی کو انکار نہیں! نہ ہی انہیں سمجھنے کیلئے گہرے فکر و دانش کی ضرورت ہے! جس ملک کو دہشت گردی نے زخم زخم کر رکھا ہے جس کی ہر پور سے، نہیں، پور تو بڑی شے ہے، ہر مسام سے خون رس رہا ہے۔ اس ملک میں دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے 67 (سڑسٹھ) لاکھ افراد غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ ان میں دس لاکھ افغان بھی شامل ہیں جو رجسٹرڈ ہی نہیں! ان 67 لاکھ کو غیر قانونی غیرملکیوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کے چہرے کے نقوش، رنگت اور جسمانی ساخت ایک دس سالہ بچے کو بھی صاف بتا دے کہ یہ پاکستانی نہیں! ان کا تعلق نائیجیریا، صومالیہ سوڈان کینیا، ازبکستان تاجکستان آذربائی جان ، برما اور بنگلہ دیش سے ہے! فرض کیجئے، پاک فوج قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب کامیابی سے ختم کر کے دہشت گردوں کا صفایا کردیتی ہے، اس کے بعد کیا ضمانت ہے کہ نصف کروڑ سے زائد ان غیر ملکیوں میں، جو شہروں قصبوں اور قریوں میں بکھرے ہوئے ہیں، کوئی دہشت گرد نہ ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ وزارت داخلہ، وزارت خارجہ، ریاستی اور سرحدی امور کی وزارتیں، ایف آئی اے، امیگریشن اور کسٹم کے قوی ہیکل محکمے، درجنوں خفیہ ایجنسیاں.... سب کیا کرتی رہیں؟ کیا یہ غیر ملکی بارش کے قطروں کے ساتھ بادلوں سے اترے؟ یا زمین سے پھوٹے؟ انہیں دستاویزات کے بغیر....یا جعلی دستاویزات کے ساتھ جن اہلکاروں نے آنے دیا، وہ اہلکار اس وقت کہاں ہیں؟ یہ بحث لاحاصل ہے کہ ریاست ناکام ہو گئی ہے یا ناکام نہیں ہوئی؟ اصل بات جو غور طلب ہے کہ کیا ریاست موجود ہے؟ اگر ریاست موجود ہے تو 67 لاکھ (یہ وہ تعداد ہے جو میڈیا نے بیان کی ہے) غیر ملکی کیسے داخل ہوئے اور کیسے رہ رہے ہیں؟ ملاّ نصیر الدین ایک کلو گرام گوشت خرید کر لایا اور بیوی سے پکانے کی فرمائش کر کے گھر سے باہر چلا گیا۔ بیوی نے گوشت بھونا اور سارا چٹ کر گئی۔ ملاّ نے آ کر کھانا مانگا تو جواب ملا کہ گوشت بلی کھا گئی ہے۔ ملاّ نے بلی کو ترازو میں رکھ کر تولا تو بلی ایک کلوگرام نکلی۔ ملاّ کا سوال جائز تھا۔ اگر بلی ایک کلوگرام ہے تو گوشت کہاں گیا؟ اور اگر یہ وزن گوشت کا ہے تو بلی کہاں ہے؟ کوئی ہے جو ان 67لاکھ 63ہزار8 سو سے زائد غیر قانونی غیر ملکیوں کو ترازو میں رکھ کر پوچھے کہ ریاست کہاں ہے؟ لیکن ٹھہریئے! یہ غیر ملکی تو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ صرف دار الحکومت کی بات کرتے ہیں دار الحکومت .....جہاں وزارت داخلہ بنفس نفیس موجود ہے۔ جہاں کیپیٹل ایڈمنسٹریشن کی الگ وزارت ..... مکمل وزارت ..... پائی جاتی ہے! جہاں دار الحکومت کا عظیم الجثہ، دیو پیکر ترقیاتی ادارہ ’’کام‘‘ کر رہا ہے جس کی تنخواہوں کا بل ہی کروڑوں اربوں میں ہے۔ جہاں ان سب اداروں سے الگ چیف کمشنر بھی دفتر سجا کر گھومنے والی کرسی پر جلوہ افروز ہے! اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاں وزیر اعظم ان کی کابینہ اور پارلیمنٹ کا مستقل پڑائو ہے ..... جی ہاں! اسی دار الحکومت میں چار سو چھیالیس (نصف جس کے دو سو تیئس بنتے ہیں) غیر قانونی مدارس سرکاری اراضی پر غیر قانونی قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مدارس نے گرین بیلٹ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے مالیت کی اراضی ان غیر رجسٹرڈ مدارس کے قبضہ میں ہے۔ اکثر پوش علاقوں میں ہیں۔ ترقیاتی ادارے کا ایک محکمہ ’’انفورسمنٹ ڈویژن‘‘ ہے جس کا کام ہی غیر قانونی قبضے کو روکنا۔ اور اگر ہو جائے تو اسے ختم کرنا ہے! عجیب بات یہ ہوئی کہ اس محکمے کو ان غیر قانونی مدارس کے قیام کا علم نہیں ہوا! اگر ہوا تو اس نے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیئے! اس سوال کے جواب کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ جس ملک کے دار الحکومت میں سرکاری گرین بیلٹ کاٹ کاٹ کر..... ایک نہیں، درجن نہیں، پچاس نہیں، سو نہیں، چار سو چھیالیس مدرسے کسی اجازت، کسی رجسٹریشن، ضابطے کی کسی کارروائی کے بغیر بن گئے اور قائم ہیں، جن میں بائیس ہزار طلبہ کو تعلیم دی جا رہی ہے جن کی اکثریت کا دار الحکومت سے کوئی تعلق نہیں! اس ملک سے شدت پسندی اور شدت پسندی کی ’’ترقی یافتہ‘‘ شکل..... دہشت گردی، کیسے ختم ہو گی؟ مگر جن قوموں نے زندہ رہنے کا مصمم ارادہ کیا ہو وہ ایسی بدترین صورتحال میں بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں! وزیر عظم نے اعلان کیا ہے کہ دہشت گردی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ دہشت گردوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی اور مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ وزیر اعظم پر لازم ہے کہ ان دو معاملات کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں۔ یہ مدارس جب سرکاری اراضی پر غیر قانونی قبضہ کر رہے تھے تو اس وقت ترقیاتی ادارے، چیف کمشنری اور دیگر متعلقہ محکموں میں براجمان افسروں اور اہلکاروں کے نام ریکارڈ پر لائے جائیں۔ ان سے باز پرس کی جائے۔ انہیں قرار واقعی سز ا دی جائے۔ اسی طرح 67 لاکھ غیر قانونی غیر ملکی جن سرحدوں، جن ہوائی اڈوں جن بندرگاہوں سے داخل ہوئے، وہاں ڈیوٹی پر موجود سرکاری افراد کے ناموں کا تعین کیا جائے! اور اگر ہمیشہ کی طرح ان خطرات سے اب بھی چشم پوشی ہی برتی جانی ہے اور ذمہ دار افراد سے تعرض نہیں کیا جانا تو پھر قوم کو وعدوں کے لولی پوپ دینے کا سلسلہ بند کر دیا جائے! عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ پاکستانی فوجی و قبائلی علاقوں میں اور افغان بارڈر پر جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ اسکولوں میں معصوم بچوں کے سروں پر گولیاں ماری جا رہی ہیں اور ملک کے طول و عرض میں دس لاکھ افغان سمیت 67 لاکھ غیر ملکی دندناتے پھرتے ہیں۔ وزیر اعظم کے ایوان سے چند منٹ کی مسافت پر سینکڑوں غیر قانونی چار دیواریاں قائم ہیں، جن کے اندر کسی کو معلوم نہیں کیا ہو رہا ہے جبکہ درجنوں ادارے وفاقی دار الحکومت کے نام پر ہر ماہ کرڑوں اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکال کر اپنے اوپر خرچ کئے جا رہے ہیں اور عزم یہ ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا! فانی بدایونی بھی کہاں یاد آ گیا دعویٰ یہ ہے کہ دوریٔ معشوق ہے محال مطلب یہ ہے کہ قرب نہیں اختیار میں | |
Print Version Back |
Sunday, December 28, 2014
وزیر اعظم کے لیے ٹیسٹ کیس
Thursday, December 25, 2014
خواب اور حسرت
سچ پوچھیں تو تاج محمد کی زندگی سراسر خسارے کی زندگی ہے! جن دو طبقوں کا پاکستان میں راج ہے ،جن کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ ان دونوں کا تاج محمد سے دور دور کا تعلق نہیں۔ وہ کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھا، وکالت کی نہ سیاست، کسی پارٹی میں شامل نہ ہوا، کوئی وزارت نہ سنبھالی، انسانی حقوق کے نام پر سزائے موت کی مخالفت کی نہ غریبوں کی زندگی بدل ڈالنے کے لئے کوئی این جی او بنائی۔ اس قلاش شخص کا اتنا بخت کہاں کہ یہ بیرون ملک سرمایہ کاری کرتا۔ جدہ میں فیکٹری لگانا تو دور کی بات ہے اس نے جدہ دیکھا تک نہیں۔ فرانس میں چار سو سالہ پرانا محل خریدنا کجا، اسے یہی نہیں معلوم کہ فرانس کس براعظم میں ہے نہ اسے پتہ ہے کہ بر اعظم کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ لندن میں پراپرٹی کا کاروبار کرنے یا نیویارک میں بیش بہا اپارٹمنٹ خریدنے کا امکان اس کی آئندہ نسلوں کے بھی دائرہ تصور سے خارج ہے۔ تاج محمد نے برانڈڈ یا ڈیزائنر سوٹ تو کیا پہننا ہے اس نے پتلون اور کوٹ کو کبھی جسم کے قریب تک نہیں کیا۔ اس کی ملکیت میں کوئی جائیداد ہے نہ مربع، زرعی فارم ہے نہ کارخانہ، دارالحکومت کے امیر سیکٹر میں اپارٹمنٹ بنانے کا کاروبار ہے نہ ایفی ڈرین کے ذریعے اس نے دولت کمانے ہی کا کبھی سوچا۔ تاج محمد نے کسی مدرسہ کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ آٹھ سال لگا کر اس نے فقہ پڑھی نہ منطق، نہ اسے یہ معلوم ہے کہ فرقے کون کون سے ہیں ،کون کون سے دائرہ اسلام کے اندر ہیں اور کون کون سے باہر ہیں۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ کس امام کے پیچھے نماز ہوتی ہے اور کس کے پیچھے نہیں ہوتی۔ وہ مدرسہ کے لئے مالی وسائل اکٹھا کرنے کی غرض سے کبھی امریکہ گیا نہ برطانیہ نہ ہی امریکی حکومت نے اسے کبھی اپنا مہمان بنایا۔ وہ اتنا سادہ لوح ہے کہ اسے مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے کا مطلب ہی نہیں معلوم۔ وہ تصور تک نہیں کرسکتا کہ کس طرح ہمیشہ پروٹوکول کے جلو میں رہنا ہے کس طرح وزارتی مراعات لینی ہیں، کس طرح ہر ہفتے وزیر اعظم سے ملنا ہے اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے کس طرح اس طبقے کو اپنی اطاعت کے اندررکھنا ہے جس پر انتخابات جیتنے کا دارومدار ہے۔ تاج محمد ان پڑھ شخص ہے، وہ علم سے اورمنطق سے اور خطابت سے نا آشنا ہے، وہ لکڑی کی کھڑائوں پہنے ایڑی پر گھوم ہی نہیں سکتا کہ دہشت گردوں کو دہشت گردی سے بری الذمہ قرار دے کر معصومیت سے پوچھے کہ کیا خبر، ان کی پشت پر کون ہے؟ اس کا چہرہ خضاب زدہ بھی نہیں کہ اس پر اطمینان اور شکم سیری کی لہر دوڑتی پھرے اور وہ مقتولین کے لئے محلات کی خوش خبری دیتا پھرے ،مگر قاتلوں کا ذکر تک نہ کرے۔ تاج محمد ان ساری امتیازی خصوصیات سے محروم ہے۔ کوٹھی،کار، وزارت، امارت، جاگیر، مدرسہ، عمامہ، عبا، تھری پیس سوٹ اس کے خواب و خیال میں بھی کبھی نہیں آئے۔ وحید احمد کی شہرہ آفاق نظم خانہ بدوش کا ایک بند تاج محمد کی غربت اور گمنامی پر صادق آتا ہے؎ نہ الکھ جگا سنسار میں جب ماں کی کھوکھ ہٹی نہ پستک کھولی باپ نے جب میری ناف کٹی نہ عمل کیا رمال نے نہ دھن خیرات بٹی نہ بڑوں نے منتر تان کے کوئی پاک زبان رٹی نہ مشت میں میری مشتری نہ پائوں میں نیلو فر نہ زہرہ میری جیب میں نہ ہما اڑے اوپر لیکن اے اہل وطن! کیا تمہیں معلوم ہے کہ تاج محمد سب سے بازی لے گیا؟اس نے وہ کام کردکھایا جو امراء سے ہوا نہ وزراء سے اور نہ علماء سے۔سانحہ پشاور کے شہید بچوں کی میتیں قبرستان آنے لگیں تو گورکن تاج محمد، جو اس سخت دل پیشے میں کبھی نہ رویا تھا، آنسو ضبط نہ کرسکا اور رونے لگ گیا۔ کیا ستارہ چمکا ہے تاج محمد کی پیشانی پر، کیا کرنیں اتری ہیں اس کے بخت پر، اس نے شہید معصوم بچوں کو وہ نذرانہ پیش کیا جو آصف علی زرداری سے لے کر میاں نواز شریف تک، عاصمہ جہانگیر سے لے کر آصفہ، بختاور اور مریم نواز تک، اسفندر یار ولی سے لے کر مولانا فضل الرحمٰن تک، مولانا عبدالعزیز سے لے کر سید منور حسن تک، مولانا طارق جمیل سے لے کر مولانا سمیع الحق تک کوئی بھی نہ پیش کرسکا، ہوسکتا ہے دلوں میں درد کی لہریں اٹھی ہوں، ہوسکتا ہے روحوں میں کرب کے کانٹے چبھے ہوں مگر پلکوں پر ستارے کسی نے نہ دیکھے، کہ بقول ا حمدندیم قاسمی مجھے تسلیم ہے تم نے محبت مجھ سے کی ہوگی زمانے نے مگر اظہار کی مہلت نہ دی ہوگی تاج محمد خوش قسمت ہے کہ ان غلاموں میں شامل ہوگیا جنہوں نے بچوں پر ظلم ہوتا دیکھا اور سنا تو آقائے نامدارؐ کی سنت پر عمل پیراہوئے۔ ایک شقی القلب شخص آپؐ کو روداد سنا رہا تھا کہ کس طرح اس نے اپنی بیٹی کے لئے قبر کھودی، کس طرح بیٹی قبر کھودنے میں اس کی مدد کرتی رہی، کس طرح بیٹی کو قبر میں پھینکا ،کس طرح وہ اس حال میں بھی کہہ رہی تھی کہ بابا جان! کچھ مٹی آپ کے کپڑوں اور داڑھی میں پڑگئی ہے، کس طرح وہ ہاتھ بڑھا کر اس مٹی کو صاف کرتی تھی اور پھر کس طرح اس نے اسے دفن کردیا، تو آپ ؐ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ شدید غربت اور سخت ضرور ت کے باوجود تاج محمد نے بچوں کی قبریں کھودنے کا معاوضہ نہیں لیا اس کا کہنا تھا’’مجھے یوں لگا جیسے میں اپنے بچوں کو دفنا رہا ہوں، کیا میں اپنے بچوں کی قبروں کا معاوضہ لے سکتا ہوں؟‘‘ اقتدار اور دولت سے محروم تاج محمد نے سانحہ پشاور پر کوئی کمیٹی قائم کی نہConsultationکے دام میں آیا۔ اس نے وہ دو بہترین کام کئے جن کے سامنے تمام دعوے اور تمام وعدے ہیچ ہیں۔ وہ رویا اور اس نے معاوضہ لینے سے انکار کردیا۔ ہماری اتنی قسمت کہاں کہ ہم صبح سویرے شہر کے دروازے پر جمع ہوجائیں اور یہ فیصلہ کریں کہ پہلا شخص جو شہر میں وارد ہوگا، ہمارا بادشاہ ہوگا اور پہلا شخص جو شہر میں وارد ہو، وہ تاج محمد ہو۔ وہ ہمارا حکمران بنے، ہمارے دکھوں پر روئے، ہمارے حال زار پر آنسو بہائے، ہم سے حکمرانی کا معاوضہ نہ لے ،ہم سے ہمارے خرچ پر محلات اور پروٹوکول کی گاڑیاں اور بیرونی دوروں کے لئے جہاز اور تزک و احتشام کے لئے کروڑوں اربوں روپے نہ ہتھیائے۔ ہماری سڑکوں پر روٹ نہ لگوائے،ہمیں نارسائی کے اچھوت فاصلے پر نہ کھڑا کرے لیکن ہماری اتنی قسمت کہاں!ہم تو بس خواب دیکھ سکتے ہیں، ہم تو بس حسرت کرسکتے ہیں کہ کوئی تاج محمد ہمارے مقدر میں ہو!! | |
Print Version Back |
Sunday, December 21, 2014
تو پھر یہ لیں
ذوالفقار چیمہ سے میری پہلی ملاقات علائوالدین خلجی کے دربار سے باہر ڈیوڑھی میں ہوئی۔ علائوالدین خلجی نے گرانی اور ذخیرہ اندوزنی کے خلاف ایک نظام وضع کیا، غلے کی رسد کو یقینی بنایا اور ٹوپی سے لے کر جوتے تک ،کنگھی سے لے کر سوئی تک اور خادمہ سے لے کر گھریلو ملازم تک۔ ہر شے کے نرخ مقرر کردئیے۔ اس نظام کو کامیابی سے چلانے کے لئے اسے ایک ایسے پولیس افسر کی ضرورت تھی جو نڈر ہو اور لالچی نہ ہو۔سلطان کے جاسوسی کے نیٹ ورک نے جو اپنے زمانے کا عجوبہ تھا ذوالفقار چیمہ کا نام تجویز کیا۔ چیمہ جب دربار میں حاضر ہونے کے لئے ڈیوڑھی میں اترا ہے تو میں اس وقت محترم شاہ صاحب سے بات کررہا تھا۔ شاہ صاحب دربار سے واپس آکر ڈیوڑھی میں کھڑے تھے اور پریشان تھے۔ میری صحافتی حس بتاتی تھی کہ بادشاہ ان کے ساتھ سرد مہری سے پیش آیا ہے۔ ان کی ذرہ نوازی کہ مجھے اعتماد میں لیا ،وہ سلطان کو معاملے کی اونچ نیچ سمجھانے آئےتھے۔ کراچی کے تجارتی حلقوں میں اضطراب پھیلا ہوا تھا، لیاری اور سہراب گوٹھ کے کچھ گروہ ذوالفقار چیمہ کی تعیناتی سے ناراض ہوسکتے تھے اور یہ ناراضگی شاہ صاحب کے لئے خطرناک تھی، تاہم دربار میں پہنچ کر شاہ صاحب نے جو منظر دیکھا اس کے بعد انہیں جہاں پناہ کے سامنے عرض مدعا کا حوصلہ ہی نہ ہوا۔ شاہ صاحب کی موجودگی میں کچھ تاجروں کو بادشاہ کے حضور لایا گیا، انہوں نے سودا کم تولا تھا، جتنا کم تولا گیا تھا، اتنے ہی وزن کے برابر ان کی پنڈلیوں سے گوشت کاٹ لیا گیا۔ سلطان علائوالدین خلجی نے ذوالفقار چیمہ کو کنٹرولر آف مارکیٹس مقرر کیا۔ دربار پر اس وقت سناٹا چھاگیا جب چیمہ عرض گزار ہوا کہ جہاں پناہ! غلام کی شرط یہ ہے کہ سلطان یا کوئی وزیر میرے کام میں مداخلت نہیں کرے گا، پھر دنیا نے دیکھا کہ خلجی کا بیس سالہ عہد ازرانی کا دور تھا اور استحکام کا۔ خوشحالی کے سارے رنگ نمایاں تھے۔ ذوالفقار چیمہ سے میری دوسری ملاقات شیر شاہ سوری کے دارالحکومت میں ہوئی۔ شیر شاہ سوری نے دو فیصلے کئے تھے۔ قاتل کوئی نہیں بچ پائے گا اور کسی شہری پر ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان فیصلوں کے نفاذ کے لئے اسے ایک ایماندار اور بے خوف پولیس افسر کی ضرورت تھی۔ اس نے چیمہ کو اختیارات دئیے کہ ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنائے۔ چھوٹے میاں صاحب نے بہت کوشش کی کہ یہ تعیناتی کسی طرح ٹل جائے۔ چیمہ میں دو نقص تھے، ایک تو اس کا تعلق ایک خاص برادری سے نہیں تھا۔ دوسرے وہ ایک مشہور بڑے شہر سے نہیں تھا، مگر شیر شاہ سوری نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس کے بعد شیر شاہ کے عہد میں جو امن و انصاف قائم ہوا اس کی مثال پورے مغل عہد میں نہیں ملتی۔ذوالفقار چیمہ سے میری تیسری ملاقات 1830ء میں کلکتہ میں ہوئی۔ اسے گورنر جنرل سرولیم بنٹنگ نے طلب کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وسطی ہندوستان ٹھگوں کے رحم و کرم پر تھا۔ گروہوں کی شکل میں ٹھگ قافلوں میں شامل ہو کر مسافروں کو قتل کرتے اور سامان لوٹ لیتے۔چیمہ نے گورنر جنرل کوایک ہی شرط پیش کی کہ کسی مقامی راجے یا نواب کی سفارش نہیںمانی جائے گی، اگلے پانچ سال میں ٹھگی کا انسداد ہوگیا۔ خواتین و حضرات !اب تک جو کچھ میں نے عرض کیاہے اس سے آپ یہ مطلب ہرگز نہ نکالئے گا کہ ذوالفقار چیمہ کوئی مافوق الفطرت مخلوق ہے جو ہر زمان ہر مکان حاضر ناظر ہے۔ عرض گزاری صرف اتنی ہے کہ ذوالفقار چیمہ ایک سمبل ہے ایک علامت ہے، اس حقیقت کی کہ پولیس افسر صرف اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب داخل میں وہ ایماندار اور بے خوف ہو اور خارج میں وہ کسی قسم کی سیاسی اور انتظامی مداخلت کا شکار نہ ہو۔ تاریخ میں کچھ حکمرانوں نے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں، جرائم کی بیخ کنی کی، خلق خدا کو امن و آسودگی فراہم کی ،یہ اصل میں اس بیوروکریسی کا کارنامہ تھا جسے انہوں نے فری ہینڈ دیا۔ ہاں! یہ ضرور کیا کہ معاملات صرف ان بیوروکریٹس کو سونپے جن کی دیانت مسلمہ تھی۔دوسرے لفظوں میں ذوالفقار چیمہ ایکPhenomenonہے جو ہمارے آج کے پیش منظر پر نمایاں ہے، آج ہم جس پاتال میں گر چکے ہیں اس کی بہت سی وجوہ ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ذوالفقار چیمہ جیسے افسروں کو برداشت نہیں کیا جاتا اور وہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے بغیر پیش منظر سے پس منظر میں چلے جاتے ہیں گویا زبان حال سے کہہ رہے ہوں زمین ہم شہسواروں کے لئے ہے تنگ اظہارؔ جبینوں پر ستارے رائیگاں روشن ہوئے آپ اس ملک کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے جب پاسپورٹ جاری کرنے والا محکمہ کرپشن، بدانتظامی اور نااہلی سے اٹ گیا اور شاید ان افراد کو بھی پاسپورٹ جاری کردئیے گئے جنہوں نے ابھی پیدا ہونا تھا تو ذوالفقار چیمہ کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ اس نے رات دن محنت کی، بھیس بدل بدل کر صوبائی اور ضلعی شاخوں میں گیا، عام شہریوں کی طرح قطاروں میں کھڑا ہو کر صورتحال کو جانچا اور پھر چند ماہ میں ناقابل یقین حد تک صورتحال کو تبدیل کردکھایا لیکن پھر اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ کیوں؟ یہ کوئی برمودا ٹرائینگل جیسی مسٹری نہیں ہے۔ وجہ آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی معلوم ہے اور ا س کا نتیجہ وہ گہری خندق ہے جس میں آج ہم بے یارومددگار پڑے ہیں۔ پولیس سروس کی معراج آئی جی کا منصب ہوتا ہے۔ چیمہ کو آئی جی لگایا گیا مگر موٹر وے کا! اس لئے کہ اس سے زیادہ’’بے ضرر‘‘ منصب خردبین سے ڈھونڈنے کے باوجود نہ ملا اور اس لئے کہ یہاں سیاستدانوں کو’’کام‘‘ نہیں پڑے! مگر چیمہ نے یہاں بھی پیتل کو سونا کر دکھایا اور شعبے کو زمین سے آسمان تک لے گیا۔ اسے سندھ کا آئی جی نہ لگایا گیا اس لئے کہ لگایا جاتا تو سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم نہ بھی ہوتے تو غیر فعال ضرور ہوجاتے۔ لیاری سے سہراب گوٹھ تک صورتحال تبدیل ہوجاتی اور بھتہ لینے والے معززین کے اسماء گرامی اور فوٹو میڈیا میں سب کے سامنے آجاتے۔ اسے پنجاب کا آئی جی نہیں لگایا گیا ،لگایا جاتا تو وہ غیر ملکی پکڑے جاتے جنہوں نے صوبے کے بڑے شہر کو عملی طور پر محصور کر رکھا ہے، اغواء برائے تاوان کا عظیم الجثہ طاقتور نیٹ ورک ٹوٹ جاتا ۔بھتہ خوروں پر قیامت گزر جاتی، اس غیر دانش مند شخص نے کسی برادری کو رعایت نہیں دینا تھی نہ سفارش ماننا تھی اور ایلیٹ فورس کے ہزاروں اہلکار اعلیٰ شخصیات اور ان کے اقرباء کے محلات سے واپس بلالینے تھے اور یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ ذوالفقار چیمہ کو وفاقی دارالحکومت کا آئی جی نہیں لگایا گیا، لگادیا جاتا تو تین بڑے نقصانات برداشت کرنے پڑتے، پہلا نقصان یہ ہوتا کہ ڈاکے ختم ہوجاتے، وہ ڈاکے جو اسلام آباد کے سیکٹروں میں روزانہ کی بنیاد پر ڈالے جارہے ہیں۔ میڈیا نے یہاں تک رپورٹ کیا ہے کہ ہر سیکٹر کے الگ الگ یعنیSpecialisedڈاکو ہیں، میں ایک سابق سفیر کو جانتا ہوں جس کے گھر میں ڈاکوئوں نے دن دیہاڑے گھس کر اسے اور اس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیگم کو رسیوں سے باندھ دیا ،کئی معروف اینکر پرستوں اور صحافیوں کے گھروں سے گاڑیاں چوری ہوئیں۔ دوسرا نقصان یہ ہوتا کہ وفاقی دارالحکومت کے وسط میں سیکٹر جی، بارہ کے نام سے جو ناسور قائم ہے اور جرائم اور مافیا کا جو ناقابل عبور جنگل ہے وہ صاف ہوجاتا۔ تیسرا نقصان یہ ہوتا کہ دارالحکومت کی ایک بغل میں ترنول کی، جسے منی وزیرستان کہا جانے لگا ہے اور دوسری بغل میں بارہ کہو کی جو تیزی سے سہراب گوٹھ بن رہا ہے، تطہیر ہوجاتی ، اس کے علاوہ بھی بہت سے نقصانات ہوتے کیونکہ ذوالفقار چیمہ مفادات کے دھندے کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتا۔رہی اس کی کتاب’’دو ٹوک باتیں‘‘ جس کی رونمائی کی یہ تقریب ہے تو میرے ساڑھے تین سالہ نواسے ہاشم نے اپنے ماموں سے کہا کہ کہانی سنائیں، ماموں کو نیند آئی ہوئی تھی۔ اس نے ٹال دیا، ساتھ ہی قالین پر ماموں کا لیپ ٹاپ پڑا تھا۔ ہاشم ا ٹھا ایک وزنی شے مشکل سے اٹھا کر لیپ ٹاپ کے اوپر رکھی اور ماموں سے کہا...’’تو پھر یہ لیں‘‘ ذوالفقار چیمہ نے یہ کتاب لکھ کر ایک بہت ہی وزنی شے ارباب اختیار کے ضمیروں پر رکھ دی ہے اور ساتھ ہی کہا ہے ’’تو پھر یہ لیں‘‘! بیوروکریسی کو سیاسی اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے والی طاقت ور شخصیات تاریخ کے غبار میں روپوش ہوجائیں گی مگر ذوالفقار چیمہ کا لکھا ہوا حرف باقی رہے گا۔ (’’دوٹوک باتیں‘‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا‘‘) | |
Print Version Back |
Thursday, December 18, 2014
شہید ہونے والے بچو ہماری مجبوریاں سمجحو
ہم نے تمہاری لاشیں اٹھائیں، تمہارے خون آلود پارہ پارہ جسموں کو غسل دیا، تمہارے جنازے پڑھے، تمہاری قبروں سے لپٹ کر روئے، ہم نے سینوں پر دو ہتھڑ مارے، مائوں اور بہنوں نے بال کھول ڈالے اور وہ ماتم کیا کہ آسمان لرز اٹھا، زمین کانپ گئی، ستارے ڈولنے لگے۔ ہم روئے، گریہ وزاری کی، ہمارے دلوںمیں صدمے کی شدت سے چھید پڑگئے ہیں، ہمارے کلیجے شق ہوگئے ہیں۔ قریب ہے کہ بینائی مسلسل روتی ہوئی آنکھیں سے رخصت ہوجائے۔ کیا عجب درختوں پھولوں اور پتوں سے ہمارے نوحوں کی آواز آنے لگے۔ کیا عجب چاندنی سسکیاں لے اور سسکیوں کی آواز پوری دنیا سنے ستارے سسکیاں لیتے ہیں، اوس روتی ہے فسانۂ جگر لخت لخت ایسا ہے ہمارے غم اور کرب میں شک ہی کیا ہے لیکن اے شہد ہونے والے بچو! تم یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ہماری گریہ وزاری، ہمارے ماتم، ہماری چیخوں اور ہماری سینہ کوبی کا یہ مطلب ہے کہ ہم تمہارے ان دوستوں کو جو زندہ ہیں، دہشت گردوں کے نشانے سے بچا سکیں گے! شہید ہونے والے بچو! جگر کے ٹکڑو! آنکھوں کی روشنیوں! ہماری مجبوریاں سمجھو! ہم عورتوں کی طرح آہ وزاری تو کرسکتے ہیں، مردوں کی طرح ایکشن نہیں لے سکتے۔ ہماری مصلحتوں نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھتے ہیں۔ ہمارے مفادات نے ہماری آنکھوں پر دبیز پردے ڈالے ہوئے ہیں۔ ہماری ترجیحات اور ہیں۔ ہماری نااہلی ان سب مجبوریوں سے بڑھ کر ایک بڑی مجبوری ہے! شہید ہونے والے پھولو! سمجھنے کی کوشش کرو! ہمیں معلوم ہے تمہارے قاتل کون ہیں! ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری آبادی کا ایک اچھا خاصا حصہ ان قاتلوں سے ہمدردی رکھتا ہے، ہمیں ان کے با رے میں سب کچھ معلوم ہے! ہم جانتے ہیں کن تعلیمی اداروں میں کس کو امیر المومنین کہا اور سمجھا جاتا ہے! ہمیں ان کمیں گاہوں کا پتہ ہے جہاں عسکریت پسند پناہ لیتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی واہگہ میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی، ایک ایک خاندان سے دس دس جنازے اٹھے۔ میڈیا نے بتایا کہ دہشت گردوں نے کہاں پناہ لے رکھی تھی، مگر ہم ان پناہ گاہوں کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔ ابھی ایک ہفتہ پیشتر ملک کے دارالحکومت سے داعش کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے اور ابوبکر بغدادی سے ا پیل کی گئی ہے کہ آکر بدلہ لے۔ ہمیں معلوم ہے یہ حمایت کس نے کی ہے اور یہ اپیل کس کی ہے۔حکومت کو بھی معلوم ہے لیکن آہ! شہید بچو! ہم کچھ نہیں کرسکتے !ہائے افسوس! ہم کچھ نہیں کرسکتے! معصوم فرشتو! تمہارے ملک کے جو جانباز سپاہی سر ہتھیلی پر رکھ کر تمہیں اور تمہارے دوستوں کو بچاتے ہیں اور وطن کی خاک پر اپنا لہو گرا کر شہادت کا ساغر پیتے ہیں، انہیں شہید کہتے ہوئے جن کی زبانوں پر آبلے پڑتے ہیں، وہ ہمارے درمیان ہی رہ رہے ہیں! وطن کے یہ غدار، اسی وطن کا میٹھا پانی پیتے ہیں، اسی سرزمین سے اگنے والی گندم کھاتے ہیں، اسی دھرتی کی دھوپ اور چاندنی سے حظ اٹھاتے ہیں، مگر افسوس! ہم ان کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے، قتال کوتمام مسائل کا حل بتانے والے ہمارے درمیان دندناتے پھرتے ہیں لیکن ہم تمہاری لاشوں سے لپٹ کر رو تو سکتے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے۔ جب قبریں اکھاڑ کر لاشیں نکالی گئیں اور چوراہوں پر لٹکائی گئیں تو کچھ زبانیں ایسی تھیں جو گنگ ہی رہیں۔ بازاروں ،مزاروں اور مسجدوں میں بے گناہوں کے جسم پرخچوں کی طرح اڑے، جنہوں نے مذمت نہ کی انہیں سب جانتے ہیں! سروں سے فٹ بال کھیلے گئے ،تو ان کے ہمنوا خاموش رہے، علم کے ان سمندروں سے ٹی وی پر خود کش دھماکوں کے بارے میں استفسار کیا گیا تو جواب تھا کہ فتنوں کا زمانہ ہے، سو خاموشی بہتر ہے، مگر جب ان بازاروں میں دھماکے ہوئے جہاں تجارتی مفادات تھے تو خاموشی کو طاق پر رکھ کر چیختی گونجتی پریس کانفرنسوں میں احتجاج کا شور برپا ہوا۔ افسوس! تم شہیدوں پر ماتم کرنے کے لئے تو قوم متحد ہے لیکن جنہوں نے تمہیں شہید کیاان کی مذمت پر قوم متحد نہیں ہے! مقتولوں پر بین سب کررہے ہیں، قاتلوں کا نام لیتے ہوئے بہت سے ہونٹ سر بمہر ہوجاتے ہیں! تاریخ میں ایک بھی مثال ایسی نہیں کہ دہشت گردی طاقت سے ختم نہ ہوئی ہو مگر ہمارا عوامی لیڈر ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہے کہ میں وزیر اعظم ہوتا تو قبائلی علاقوں میں فوج نہ بھیجتا۔ اس قلم کار نے مجموعی طور پر ہمیشہ حمایت کی لیکن ننھیال کے ساتھ جذباتی اور غیر حقیقت پسندانہ وابستگی کا بوجھ قوم کی گردن پر کیوں ڈالا جارہا ہے؟ ہمارا عوامی لیڈر اس بات پر کبھی افسوس کا اظہار نہیں کرتا کہ 67 برسوں میں قبائلی علاقوں میں ایک یونیورسٹی نہ بنی، ایک کارخانہ نہ لگا، مگر فوج کے وہاں جانے پر اعتراض کرتا ہے! بچوں کی شہادت پر افسوس بجا لیکن شہید کرنے والوں کی مذمت کیوں نہیں؟ مائوں کی گودیں خالی کرکے اسکول سے سیدھا جنت سدھارنے والے بچو! ہم تمہیں بچا نہ سکے کہ ہماری ترجیحات اور ہیں! ہم نے چودہ اگست 2013ء کو شیخ چلی کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ ایک نیشنل کاونٹر ٹیررازم پالیسی مشتہر ہوئی۔ بتایا گیا کہ چھ ماہ میں’’جوائنٹ انٹیلی جنس سیکرٹریٹ‘‘ بنے گا۔ ایک سریع الحرکت فورس وجود میں آئے گی جس کی ابتدائی تعداد پانچ سو اور بعد میں دو ہزار ہوگی۔ یہ منٹوں سیکنڈوں میں کارروائی کرے گی۔ اس اعلان کو سولہ ماہ گزر چکے ہیں، یعنی چونسٹھ ہفتے یعنی چار سو اسی دن، مگر ابھی تک سیکرٹریٹ بنا نہ سریع الحرکت فورس، نیکٹا بورڈ کا اجلاس ہر تین ماہ میں ہونا تھا لیکن ایک بھی نہ ہوا۔ اکتوبر2014ء کا اٹھائیسواں دن تھا جب یہ سب کچھ نہ ہونے کا سبب یہ بتایا گیا کہ مالی اسباب کی کمی ہے! شہید ہونے والے بچو! ہمارے پاس اربوں روپے میٹرو بسوں، پلوں، جنگلوں اور شاہراہوں کے لئے تو ہیں، ہم موٹر وے کی آرائش اور تزئین نو پر اربوں روپے صرف کرسکتے ہیں، ہم کھربوں روپے بیرون ملک دوروں پر لگا سکتے ہیں، ہم کروڑوں روپے وزیر اعظم، صدر ، گورنروں، وزراء اعلیٰ اور وزیروں کے محلات کی خوبصورتی پر اور باغوں پر اور باغبانوں پر خرچ کرسکتے ہیں۔ ہمیں ایک ایک عوامی نمائندہ کروڑوں میں پڑرہا ہے۔ ہم ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے ’’نیک نام‘‘ پیران فرتوت کو چو دہ چودہ کروڑ کی عیدی بخش سکتے ہیں، ہم آئینی منصب پر برا جمان اسی سالہ، از کار رفتہ بیوروکریٹ کو، جو کرسی چھوڑنے کا تصور تک نہیں کرسکتا، ہر ماہ اب بھی ایوان صدر سے تین لاکھ روپے، بغیر کسی وجہ کے اضافی دے سکتے ہیں اور دئیے جارہے ہیں، ہم ایک ایک اعلیٰ شخصیت کی نقل و حرکت کے لئے کروڑوں کا پٹرول، اربوں کی گاڑیاں اور کھربوں کی افرادی قوت بہم پہنچا سکتے ہیں، ہم ایک ایک صوبائی حاکم کے چار چار محلات کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے کر کروڑوں روپے کے سرکاری پہریدار فراہم کرسکتے ہیں لیکن افسوس! ہیہات !نیکٹا کو فعال کرنے کے لئے ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ سریع الحرکت فورس کو وجود میں لانے کے لئے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ جوائنٹ سیکرٹریٹ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہم قلاش ہوگئے ہیں! ہائے افسوس! زندگیاں بچاتے وقت ہم مفلس ہیں، پارٹی کے اجلاس ہم دبئی میں کرتے ہیں اور چھینک آجائے تو علاج کرانے لندن جاتے ہیں!! شہید ہونے والے بچو! تمہارے جو دوست بچ گئے ہیں، ان کی زندگیوں کے لئے دعا کرو! اور ہماری مجبوریاں سمجھنے کی کوشش کرو! | |
Print Version Back |
Sunday, December 14, 2014
مکافات
آج چودہ دسمبر ہے، دو دن بعد سقوط ڈھاکہ کی برسی ہے۔ کیا ان دو دنوں میں ہم یہ تسلیم کرلیں گے کہ اس سقوط کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہم خود یعنی موجودہ پاکستان ہے؟ نہیں! اگر 43سال میں ایسا نہیں ہوسکا تو ان دو دنوں میں کیسے ہو سکتا ہے! 43 سال؟ 43سالوں کی کیا حیثیت ہے۔ ہم توڈھائی سو برسوں میں یہ نہیں مان سکے کہ برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کی ذمہ داری برصغیر کے لوگوں پر بھی ہے! آج تک اس کا سبب انگریزوں کی مکاری بتایا جا رہا ہے۔ یہی لکھا جا رہا ہے اور یہی پڑھایا جا رہا ہے۔ یہ کوئی نہیںبتاتا کہ مکاری سے ایک آدھ یا چند ریاستوں پر کچھ عرصہ کے لئے قبضہ کیا جاسکتا ہے، پورے برصغیر کو دو سوبرس تک مٹھی میں کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ سکندر مرزاکے فرزند ہمایوں مرزا نے اپنی مشہور تصنیف ’’فرام پلاسی ٹو پاکستان‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ہندوستانی حکمران بالعموم اور مسلمان حکمران بالخصوص کس طرح زندگی بسر کرتے تھے اور سات سمندر پار سے آنے والوں کا طرز حکومت کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے محکمہ مالیات کی اجازت کے بغیر ایک پیسہ نہیں خرچ کرسکتی تھی جبکہ برصغیر کے اکثر جانشین عیاشی سے بھرپور زندگی کے طفیل تیس بتیس برس سے زیادہ زندہ نہیں رہتے تھے! بہت سے کام ہیں جن سے ہم برصغیر کے مسلمان پرہیز کرتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ پرہیز اپنے گریبان میں جھانکنے سے ہے۔ میجر ہڈسن نے مغل شہزادوں کو مارا۔ پھر ان کے سر خوان پوش سے ڈھانپ کر بہادر شاہ ظفر کو بھجوائے۔ برا کیا۔ کون کہتا ہے کہ یہ ظلم نہیں! مگر محمد تغلق کی صرف فتوحات اور نماز روزے کی پابندی کا تذکرہ ہوتا ہے یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جب اس کے والد کے سگے بھانجے بہائوالدین گرشسپ نے بغاوت کی اور شکست کھائی تو محمد تغلق نے پہلے اس کی کھال اتروائی اس حالت میں کہ وہ زندہ تھا۔ پھر اس کے بدن کے ٹکڑے کرکے اس کے گوشت میں پلائو پکایا گیا۔ پھر یہ پلائو اس کی بیوی اور بچوں کو ’’پیش‘‘ کیا گیا۔ اپنے گریبان میں جھانکنے سے پرہیز کا یہ عالم ہے کہ نصف صدی ہونے کو ہے، ابھی تک اصرار ہے کہ سقوط ڈھاکہ مشرقی پاکستان کے ہندوئوں کی سازش تھی جو تھوڑی سی ذمہ داری بچ جاتی ہے وہ دشمن ملک پر ڈال دی جاتی ہے۔ یہ ڈھول بھی بجایا جا رہا ہے کہ الگ ہو کر بنگالیوں کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا ہے تو ان کی عورتیں بھارت میں قحبہ گری کر رہی ہیں اور مرد پاکستان میں آ کر نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں۔ گویا قحبہ گری کا ہمارے ملک میں تو وجود ہی نہیں اور لاکھوں پاکستانی شرق اوسط کے ’’کفیل‘‘ کی غلامی میں جو زندگی گزار رہے ہیں وہ ہمارے لئے باعث فحر ہے۔ وسط ایشیا سےسوویت یونین رخصت ہوا تو وسط ایشائی عورتوں سے نہ صرف پاکستان بلکہ مشرق وسطیٰ کے ہوٹل چھلکنے لگ گئے تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ سوویت یونین سے چھٹکارا پانا غلط حرکت تھی؟دانش کی انتہادیکھئے کہ ایک طرف اب بھی کہا جارہاہے کہ اردو کو ملک کی واحد سرکاری زبان قرار دینا اوربنگالی کو درخوراعتنا نہ گرداننا درست فیصلہ تھا۔ دوسری طرف پاکستان میں اردو ابھی تک کاسہ اٹھائے دہلیزز پر بیٹھی ہے۔ بجلی ، ٹیلی فون اور گیس کے بل تک انگریزی میں ہیں۔ حقیقت پسندی کا یہ عالم ہے کہ ایک ثقہ بزرگ یہ کہتے کہتے دنیا ہی سے رخصت ہوگئے کہ بنگلہ دیش پاکستان سے پھر آ ملے گا۔ یہ قلم کار انیس برس کا تھا جب شہرِ سبزہ وگل ڈھاکہ میں اترا۔ اڑھائی برس ڈھاکہ یونیورسٹی کے اس شعبہ اقتصادیات کا طالب علم رہا جہاں چھ نکات سوچے اور پیش کیے گئے۔ وہ چھ نکات جو اس تذلیل سے بدرجہا بہتر تھے جو مسلمانوں کی پوری تاریخ میں پیش نہیں آئی تھی۔ ہولناک خانہ جنگی اور نوے ہزار افراد کا دشمن کے تصرف میں آ جانا!! سلہٹ میں بھارتی سرحد سے لیکر کاکسس بازار کے طویل سحر آگیں ساحل تک۔ کپتائی کی خوبصورت جھیل سے لے کر رانگامتی کی پہاڑیوں اور چکمہ قبیلے کی جھونپڑیوں تک۔ میمن سنگھ کے گھنے جنگلوں سے لے کر جگنی مورا کے کنول بھرے تالابوں تک ایک ایک قریہ گھوما۔ بقول سعدی ؎ تمتع ز ہر گوشۂ یافتم ز ہر خرمنی خوشۂ یافتم دانش وروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ساتھی طلبہ اور یونیورسٹی کے اساتذہ سے بحث مباحثوں میں کتنی ہی راتیں گزریں۔ کہیں وہ اسباب بلکہ ان کے آثار تک نہ دکھائی دیئے جو یہاں آج تک حقیقتوں کو مسخ کرکے پیش کئے جا رہے ہیں! جن ’’دانش وروں‘‘ نے پوری زندگی کسی بنگلہ دیشی سے مکالمہ کیا نہ وہاں گئے نہ وہاں کی تاریخ سے آگاہی حاصل کی، وہ ہندوئوں کی کارستانی اور سازش پر لیکچر دیتے نظر آتے ہیں۔ اس دست قدرت کی قسم جس نے خلیج بنگال کے ساحلوں کی ریت کو سونے سے زیادہ چمکدار بنایا اور جس نے مشرقی بنگال کو آج بھی مغربی بنگال سے الگ پاکستان کے مسلمان ہندوئوں کے اثر میں تھے۔ اس سے بدتر ہذیان کوئی نہیں کہ مشرقی پاکستانی محب وطن نہیں تھے اور علیحدگی چاہتے تھے۔ ان کی حالت تو وہ تھی جو حافظ شیرازی نے بیان کی ہے ؎ درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای باز می گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش دریا کی لہروں کے درمیان باندھ کر پھینک دیا اور اب یہ مطالبہ ہے کہ دامن تک گیلا نہ ہو۔ مشرقی پاکستانیوں نے ہندوئوں کے زیر اثر ہونا ہوتا تو وہاں کے سو فیصد مسلمان قیام پاکستان کے حامی کیوں ہوتے؟ وہاں تو پاکستان کی مخالفت کرنے والی کوئی ایک جماعت بھی وجود میں نہ آئی۔ احرار نہ خاکسار، نہ جمعیت علما ہند، مہاجرین آئے تو مشرقی پاکستانیوں نے ان کے لئے یوں بازو وا کئے کہ مغربی پاکستان میں اس سپردگی اور وارفتگی کا تصور تک محال تھا۔ ریلوے اور پوسٹ آفس کے پورے محکمے مہاجرین کے تصرف میں آگئے۔ مشرقی پاکستانیوں کے اس اعتراض کا جواب اس وقت تھا نہ آج ہے کہ جب دس دس سال مارشل لا رہنا ہے تو بنگالی جو آبادی کا چھپن فیصد ہیں،کبھی بھی سربراہ مملکت نہیں بن سکتے۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ برطانوی استعمار کے خلاف مدافعت اور مزاحمت کہاں کہاں ہوئی؟ تین علاقے تھے جو انگریزوں سے لڑے۔ بنگال، یوپی، اور سندھ۔ ان علاقوں کے باشندوں کو فوج کیلئے ’’ان فٹ‘‘ قرار دیاگیا اور جہاں جہاں ٹوڈیوں اور غداروں کی کثرت تھی وہاں سے خوب خوب بھرتیاں کی گئیں۔ بلندی پر کھڑے بھیڑیے نے میمنے سے کہا کہ تم دریا کا پانی گندا کر رہے ہو، جب میمنے نے جواب دیا کہ جہاں پناہ! پانی تو آپ کی طرف سے آرہا ہے، میں تو نشیب میں کھڑا ہوں، تو بھیڑیےنے میمنے کو گستاخانہ جواب کی جو سزا دی وہ پوری دنیا کو معلوم ہے! پہلے تو آپ نے کمال ’’حکمت‘‘ اور ’’دانائی‘‘سے ون یونٹ بنایا اور مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت کو نام نہاد برابری کی نذر کردیا۔پھر آپ نے قومی انتخابات کے نتائج ماننے سے اس لئے انکار کردیا کہ ان کی حکومت نہ بنے۔ تو کیا آپ یہ توقع کر رہے تھے کہ آپ الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے، ان کی واضح اکثریت کو حکومت بنانے کا حق نہیں دیں گے، اسمبلی میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ اور بنگالی آمنا و صدقنا کہہ کر سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک جائیں گے؟ اور کہیں گے جو آپ چاہیں مہاراج؟؟انہوں نےایسا نہ کیا۔ اپنا حق مانگا۔ آپ کے پاس دلیل کوئی نہیں تھی۔ آسان ترین جواب یہ تھا کہ تم ہندوئوں کے زیر اثر ہو۔تم دشمن کے ایجنٹ ہو، تم محب وطن نہیں ہو! اور آج 43 برس بعد بھی آپ یہی رٹا رٹایا آموختہ دہرائے جا رہے ہیں! مکافات عمل بھی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے! کل جنہیں مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کا عام لائسنس دیا گیا تھا، ان کے مونہہ کو خون کی ایسی چاٹ لگی ہے کہ وہ آج باقی پاکستان میں مسائل کا حل جمہوریت کو نہیں ’’قتال‘‘ کو قرار دے رہے ہیں! کل بنگالیوں کواس لئے حکومت نہیں کرنے دی گئی کہ وہ صرف ایک صوبے میں جیتے تھے۔ آج جس پارٹی کی حکومت ہے وہ ایک صوبے میں نہیں، ایک صوبے کی وسطی بیلٹ میں جیتی ہے لیکن حکومت پورے ملک پر کررہی ہے، کل چٹاگانگ سے لے کر بوگرہ اور راجشاہی تک سینکڑوں شہروں اور قریوں میں جیتنے والے قابل قبول نہیں تھے! آج پورے ملک پر ایک شہر کا راج ہے۔ ایک مخصوص برادری چھائی ہوئی ہے، ایک خاندان سارے فیصلے کر رہا ہے! آج اس ملک کے تنزل کا یہ عالم ہے کہ بیس کروڑ کی آبادی میں وزیر خارجہ نہیں مل رہا۔ سو، مجبوراً وزارت خارجہ کا بوجھ ایک صوبائی حاکم اعلیٰ کے کندھوں پر پڑ گیا ہے! | |
Print Version Back |
Thursday, December 11, 2014
نیکر پتلون کیسے بنی
عبدالحق کے ہاتھ میں ایک سرکاری خط تھا۔ یہ رہائی کا پروانہ تھا، عبدالحق جلد از جلد یہ خط متعلقہ حکام کو پہنچانا چاہتا تھا تاکہ اس کے والد کو رہا کردیا جائے۔وہ 13 فروری 1861ء کو پورٹ بلیئر پہنچا۔ کشتی سے اتر کر جزیرے میں پائوں رکھا ہی تھا کہ سامنے جنازہ دیکھا۔پوچھا کس کا ہے؟ جواب ملا، فضل حق خیر آبادی کا، جو اس کے والدتھے! مولانا فضل حق خیر آبادی جزائر انڈیمان کے واحد قیدی نہیں تھے۔1857ءکا محشر تھما تو درختوں کی شاخیں مجاہدین کی گردنوں کے لئے کم پڑگئیں۔انگریزوں کے پاس جغرافیے کا علم بھی تھا اور جہازرانی کے وسائل بھی۔ انہوں نے جزائر انڈیمان کو قید خانہ قرار دیا اور سزایافتگان کو جہازوں میں لاد کر لے گئے۔ہندوستانیوں نے جزائر انڈیمان کا نام کالا پانی رکھا۔ اس وقت تک سرکاری احکام بڑی حد تک فارسی میں لکھے جاتے تھے جسے کالے پانی بھیجا جاتا اس کے نام آگے’’بعبور دریائے شور‘‘ لکھا جاتا! سزا یافتگان کو انگریزوں نے آسٹریلیا بھی بھیجالیکن وہ سفید فام تھے اگر کالے پانی کے قیدی ہندوستانی نہ ہوتے، سفید فام ہوتے تو کیا عجب انڈیمان کے جزائر بھی آج آسٹریلیا کی طرح ترقی یافتہ ملک ہوتے۔ انڈیمان کے جزائر دراصل 572جزیروں کا مجموعہ ہیں۔ یہ خلیج بنگال میں واقع ہیں۔ اس طرح کہ ان کے شمال اور مشرق میں برما پڑتا ہے اور مغرب میں ہندوستان۔ ان 572جزیروں میں ایک جزیرہ شمالی سینٹینیل ہے۔ یہ وہ جزیرہ ہے جہاں کوئی جاتا ہے نہ وہاں سے آتا ہے۔ کل250کے لگ بھگ افراد یہاں رہتے ہیں، ان 250افراد کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں نہ ہی یہ کسی قسم کا تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔بہت کوششیں ہوئیں کچھ لوگ تحائف لے کر گئے، کچھ ماہی گیر بن کر ،کچھ صحافیوں کے روپ میں، کچھ کے جہاز تباہ ہوگئے تو گرتے پڑتے ڈوبتے پڑتے جزیرے میں پہنچ گئے لیکن جزیرے کے باشندوں نے کسی کو قبول نہ کیا۔ بھالوں اور تیروں سے استقبال ہوا، جو بھاگ آئے بچ گئے ،باقی مارے گئے۔2004ء میں سونامی آیا تو جزائر انڈیمان بھی اس کے راستے میں پڑے۔ بھارتی حکومت نے جس کی ملکیت میں یہ جزائر ہیں ،امدادی سامان دے کر ہیلی کاپٹر بھیجا۔ ایک ہی مقامی شخص دکھائی دیا جس نے ہیلی کاپٹر پر تیروں کی بوچھاڑ کردی۔ ماہی گیری اور جانوروں کے گوشت پر گزارا کرنے والے یہ لوگ کھیتی باڑی سے بھی ناواقف ہیں۔ جو بحری جہاز، جزیرے کی ساحلی چٹانوں سے ٹکرا کر ناکارہ ہوگئے ان سے یہ لوگ لوہا اکھاڑ کر لے گئے اور یوں لوہا، وہ واحد جدید عنصر ہے جس سے یہ مخلوق آشنا ہے۔ رہا وہ سب کچھ جو دنیا میں ہورہا ہے انٹرنیٹ یا خلا میں تیرتے مصنوعی سیارے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ ہم پاکستانی اپنی فطرت میں...اورقسمت میں بھی ...اس جزیرے کی آبادی کی طرح ہیں۔ دنیا سے لاتعلق! اپنی ماہی گیری اور شکار میں مگن! ہم وہ گھنا جزیرہ ہیں جہاں ایک دوسرے سے پیوست درخت سورج کی کرن زمین پر نہیں پڑنے دیتے۔ آپ بنیادی حقوق کی اس روشنی کو تو رہنے دیجئے جس میں آج کی ترقی یافتہ دنیا نہارہی ہے اس المیے پر غور کیجئے کہ چودہ سو سال پہلے جو آفتاب عالم تاب نکلا تھا ، جس کے نور سے آج کی مہذب دنیا مہذب کہلاتی ہے، اس کی کرنیں بھی ہمارے جزیرے پر نہیں پڑیں!ہم جس اندھیرے میں، جس کیچڑ میں، جس غلاظت میں، حشرات الارض کی جس بھرمار میں رہ رہے ہیں اس کی صرف ایک مثال کافی ہے۔ موٹر سائیکل کی چوری کے شبہ میں پنچائیت نے ملزم کو بے گناہی ثابت کرنے کے لئے دہکتے انگاروں پر چلنے کا حکم سنایا۔ یہ حکم صرف سنانے تک محدود نہ تھا۔ اس پر عمل بھی کیا گیا ہے، ملزم دہکتے انگاروں سے گزرا اور پھر....دل تھام کر پڑھیئے، مولوی یار محمد بگٹی نے ملزم کے پیروں کا معائنہ کیا، چونکہ جلنے کے آثار موجود نہ تھے اس لئے بے گناہی کا اعلان کردیا گیا۔ بارہ فٹ لمبا، دو فٹ چوڑا اور دو فٹ گہرا گڑھا کھود کر اس میں چار پانچ سو سیر خشک لکڑیاں ،تین چار گھنٹے تک جلائی جاتی ہیں پھر اس پر ملزم کو چلایا جاتا ہے۔ بگٹی قبیلے سے شروع ہونے والا یہ عدالتی نظام اب دوسرے بلوچ قبیلوں تک پھیل چکا ہے۔ کئی بلوچ قبائل اسے اپنی روایات کا حصہ سمجھتے ہیں مگر جو بھی چیز انسانی حقوق کے خلاف ہو وہ اچھی روایت کیسے ہوسکتی ہے؟ تین دن پہلے کا یہ واقعہ ڈیرہ غازی خان کا ہے جو پنجاب کا دروازہ ہے۔ اگلے کچھ عرصہ میں کیا عجب یہ نظام لاہور سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچ جائے۔ کیا ہوا اگر ہم نے ستر پتوں سے نہیں ڈھانکا ہوا اور ہاتھوں میں تیر اور بھالے نہیں پکڑے ہوئے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر ہمارے حکمران صبح دبئی میں تو دوپہر لندن میں اور شام نیویارک میں گزارتے ہیں۔ کیا ہوا اگر میٹرو بسیں چلائی جارہی ہیں اور ہوائی اڈے تعمیر ہورہے ہیں۔ ہماری زندگی کے وطیرے تو جنگلی قبائل کے سے ہیں۔ شاید اس سے بھی بدتر! کم از کم جزائر انڈیمان کے وحشیوں میں اتنی عقل ضرور ہوگی کہ وہ چور کے خلاف شہادتیں طلب کریں اور پھر اسے مجرم یا بے گناہ قرار دیں۔ زرداریوں ،شریفوں، چودھریوں، لغاریوں اور کھوسوں کو تو یہ صورتحال راس آتی ہے کہ ایسے ہی عوام کالانعام کی بدولت چمڑے کے دام دوام حاصل کرتے جارہے ہیں مگر سول سوسائٹی کہاں ہے؟ کتوں اور مرغوں کے مقابلے ختم کرنے کے لئے آئے دن جلوس نکالنے والے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر مردانہ آواز میں تقریریں کرنے والیاں کہاں ہیں؟ کیا اس لئے چپ ہیں کہ یہ وحشیانہ ’’عدالتیں‘‘ان کے دمکتے شہروں سے دور ہیں؟ ہرگز نہیں!یہی لیل و نہار رہےتو مولوی لال محمد بگٹی بہت جلد ان کے سروں پر بھی کھڑا ہوگا! اور کہاں ہیں وہ علم برداران دین جو دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ وہ شریعت محمدیہ کے محافظ ہیں؟ جنہیں ہر آنکھ میں مشکوک جانور کا بال نظر آتا ہے اور جنہیں پورے ملک میں فحاشی کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ کیا یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں؟ کیا پیغمبرؐ نے اور ان کے بعد خلفائے راشدین نےاور ان کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے اور ان کے بعد عباسیوں نے اور عثمانی ترکوں نے اور اندلسی امویوں نے خندقیںکھدوائی تھیں اور ان میں آگ بھر کر عدالتی فیصلے کئے تھے؟ اب تو یہ علم برداران دین، براہ راست امریکہ کے دورے کررہے ہیں۔ اب تو درمیان والے ذرائع کا احتیاج بھی ختم ہوگیا۔ نام اور شواہد موجود ہیں! بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا ،پیچ و خم نکلے اور کہاں ہیں وہ محترم اور مقدس ادارے جنہیں اپنے احاطوں میں لٹکے ہوئے کپڑے تو نظر آجاتے ہیں، ظالمانہ فیصلے کرنے والے جرگے اور پنچائتیں نہیں دکھائی دیتیں کیا یہ ملک اس لئے بنا تھا کہ جہلا پر مشتمل پنچائتیں بنیں، پھر وہ پنچائتیں زندہ درگور بوڑھوں کی شادیاں نوخیز دوشیزائوں سے کریں، کبھی انہیں درختوں سے باندھا جائے اور کبھی کوچوں میں برہنہ پھرایا جائے۔ آخر یہ حکم جاری کیوں نہیں کیا جاتا کہ کل سے متوازی عدالت ،خواہ اسے پنچائیت یا جرگے ہی کیوں نہ کہا جائے قائم کرنیوالے کی گردن ماردی جائے گی؟ لیکن جہاں اولین ترجیح یہ ہو کہ حکومت خاندان کی اگلی نسل میں کیسے منتقل کی جائے گی، وہاں یہی کچھ ہوتا ہے مگر ٹھہرئیے! سوچ کے پیڑ تلے ایک لمحہ رکیئے!شرق اوسط میں جہاں موروثی بادشاہتیں مضبوط جڑوں کے ساتھ کھڑی ہیں، وہاں بھی بادشاہ ،بھائی بھتیجے یا بیٹے کو ذمہ داری تفویض کرتے وقت کوئی قاعدہ کوئی قانون دیکھ لیتا ہے اوراگر یہ تفویض ناروا ہو تو کونسل یا خاندانی کمیٹی، جو بھی ہو...بادشاہ کو اس کے منہ پر بتاتی ہے کہ یہ غلط ہے۔ شرق اوسط کے بادشاہوں کو بھی چھوڑ دیجئے، شمالی سینٹی نیل کے 250افراد پر مشتمل قبیلے کے سربراہ کو بتائیے کہ پرسوں وزیر اعظم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی کا توانائی کے با رے میںجو اجلاس منعقد ہوا جس میں اہم فیصلے کئے گئے۔ اس میں وزیر پٹرولیم، وزیر منصوبہ بندی ،وزیر ریلوے، وزیر پانی و بجلی اور وفاقی مشیروں کے ساتھ ایک صوبائی وزیر اعلیٰ بھی بیٹھے ہوئے تھے تو قبیلے کا سربراہ سر پر اڑسا ہوا پر سیدھا کرے گا اور جسم پر لپٹے ہوئے پتوں پر ہاتھ پھیر کر زور سے ہنسے گا ، اتنے زور سے کہ کمان کندھے سے گر پڑے گی! سوال اس کا ایک ہی ہوگا کیا باقی تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ گھگھو ہیں جو اس خاندانی خود سری پر ،اس من مانی پر احتجاج کی چوں بھی نہیں کرتے؟ آخر ایک وفاقی مسئلے پر ایک وفاقی اجلاس میں ایک صوبائی حاکم کا کیا کام؟ اور اگر یہ برادرپروری کرناہی ہے تو اللہ کے بندو! اشک شوئی ہی کے لئے، محض دکھاوے ہی کے لئے، دوسرے وزراء اعلیٰ کو بھی بٹھالیتے! لیکن قدرت کی مہربانیوں کا کیا کہنا! درد و غم کے اس عالم میں بھی، پراگندہ خاطری کے اس گرداب میں بھی، ہماری تفنن طبع کے سامان مہیا کرتی ہے، ہنسی کا اس سے بہتر موقع کیا ہوگا؟ راجہ پرویز اشرف فرماتے ہیں کہ ان کی پارٹی نے مشکل حالات میں بہتر حکومت کی! ان کی پارٹی کی حکومت بہتر تھی یا رواں پیش منظر میں وہ بہتر دکھائی دینے لگی ہے؟ ایک شخص نیکر پہنے تھا، جن آیا اور پیشکش کی کہ جو مانگو گے، حاضر کروں گا، اس نے کہا میری نیکر کو پتلون کردو، جن نے اس کی دونوں ٹانگیں گھٹنوں کے نیچے سے کاٹ دیں۔ راجہ صاحب حکومت پتلون نہیں تھی، نیکر تھی۔ وہ تو گھٹنوں کے نیچے سے ٹانگیں غائب ہوگئی ہیں اس لئے پتلون لگ رہی ہے۔ یہ تو دور کی کوڑی ہے کہ تحریک انصاف حکومت میں آئی تو ن لیگ والے معقول نظر آنے لگیں گے جو اس وقت میسر ہے اس سے لطف اٹھائیے اور راجہ پرویز اشرف کے بخت پر رشک کیجئے! پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو پایاب ہے جو موج، گزر جائے گی سر سے | |
Print Version Back |
Sunday, December 07, 2014
شہرت یا روشن چہرہ
براہام ایرالی معروف مورخ ہیں۔ کیرالہ میں پیدا ہوئے ،کئی بھارتی اور امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔ اب چنائی(مدراس) میں رہتے ہیں۔ سلاطین دہلی اور مغل عہد پر کئی کتابیں لکھیں چونکہ ہندو نہیں ہیں اس لئے کئی بھارتی تجزیہ نگار انہیں’’اینٹی ہندو‘‘ اور متعصب‘‘ بھی قرار دیتے ہیں۔جن دنوں ابراہام ایرالی سلاطین کے عہد پر تحقیق کررہے تھے ان کی ایک کلاس فیلو انہیں چالیس برس بعد ملی۔ اب وہ بیرون ملک ایک کامیاب اور قابل رشک کاروباری شخصیت تھی۔ ایک شام دونوں سیر کررہے تھے کہ ا چانک ان کی دوست نے پوچھا تحقیق کے دوران ایسا کون سا واقعہ ملا جس نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہو۔ ایرالی نے بتایا کہ مراکش سے آنے والا ابن بطوطہ سلطان محمد تغلق کے دربار میں اعلیٰ مقام پر فائز تھا۔ یہ چودھویں صدی عیسوی کے وسط کا زمانہ تھا۔ بادشاہ نے اسے اپنا سفیر بنا کر چین بھیجا۔ چین جاتے ہوئے کچھ عرصہ ابن بطوطہ مالدیپ میں ٹھہرا۔ وہاں ایک چھوٹے سے جزیرے میںجانے کا اتفاق ہوا ،پورے جزیرے میں صرف ایک جھونپڑا تھا۔ گارے اور درختوں کی شاخوں سے بنا ہوا، وہاں اسے وہ شخص ملا جو اس جزیرے کا واحد باشندہ تھا۔ اس کی بیوی بچے بھی ساتھ رہتے تھے۔ پام کے کچھ پودے ، کچھ کیلوں کے درخت اور ایک کشتی جس کی مدد سے وہ کھانے کے لئے مچھلیاں حاصل کرتا تھا۔ بس یہ تھی اس کی کل ملکیت! ابن بطوطہ قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس شخص پر رشک آیا۔اس نے خواہش کی کہ کاش! یہ جزیرہ اس کا ہوتا اور وہ وہیں رہتا۔ یہاں تک کہ اس کا آخری وقت آپہنچتا! ایرالی جب اپنا حاصل مطالعہ سنا چکے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی دوست کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ کچھ دیر تک دونوں خاموشی سے چلتے رہے، خلیج بنگال کی لہریں تھیں اور پانڈی چری کا مسحور کن ساحل، پھر خاموشی کا قفل ٹوٹا۔ خاتون نے بتایا کہ ظفر یابی اور شہرت کے لئے اس نے کیا کیا قربانیاں دیں! اپنے زمانے میں ابن بطوطہ شہرت کے بام عروج پر تھا جس ملک میں بھی گیا دولت اور منصب کو منتظر پایا۔ (طنجہ شہر کے پرانے حصے میں جہاں گلیاں خوبصورت پتھروں کے فرش کی تھیں، اس قلم کار نے ابن بطوطہ کے مزار پر حاضری دی۔ افسوس !کمرہ مقفل تھا اور کلید بردار کسی کام سے بازار گیا ہوا تھا)۔ آپ کا کیا خیال ہے ابن بطوطہ کو کس شے نے رشک میں مبتلا کیا؟ جزیرے کی خوبصورتی اور پام کے پودوں نے؟ نہیں بام شہرت پر کھڑے اس شخص کو جزیرے میں رہنے والے کی گمنامی پر رشک آیا!آپ اپنے ارد گرددیکھئے مشہور ترین شخصیات بلند نامی کی جس فضا میں زندگی بسر کررہی ہیں، اس پر غور کیجئے آپ اگر گمنام ہیں تو غیر اختیاری طور پر خدا کا شکر ادا کرنے لگیں گے۔ آپ جناب آصف زرداری کو دیکھ لیجئے، گلف نیوز سے لے کر گارڈین اور نیویارک ٹائمز تک ہر جگہ ان کا ذکر ملے گا۔ یو اے ای، چین، برطانیہ اور امریکہ ا ن کے محلے کے گلی کوچے لگتے ہیں، ان کے اشارہ ابرو پر پاکستان کے ہر گوشے سے پارٹی کے زعماء دبئی کی طرف چل پڑتے ہیں لیکن انسان ان کے بیانات پڑھتا ہے ، ان کے خیالات جانچتا ہے، ان کے مبلغ علم اور اس محدود دنیا کو دیکھتا ہے جس سے وہ باہر نہیں نکل سکتے تو ورطۂ حیرت میں گم ہوجاتا ہے۔ تازہ ترین بیان میں انہوں نے اسلام آباد کو سومنات بنایا یا نہیں، عمران خان کو محمود غزنوی ضرور بنادیا ہے۔ سیاست کا ذکر ہمیشہ اس طرح کرتے ہیں جیسے یہ تجارت یا زراعت کی طرح ایک پیشہ ہو۔ ’’سیاسی سوچ‘‘ ان کا پسندیدہ کلام ہے، وہ اکثر و بیشتر دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی سوچ سیاسی ہے جبکہ دوسرے اس سے محروم ہیں۔ پاکستان کی ہم عصر تاریخ کا ادنیٰ ترین طالبعلم بھی جانتا ہے کہ‘‘سیاست‘‘ سے جناب زرداری کی مراد’’مفاہمت‘‘ اور حکومت کو بچانا رہا ہے۔ دوست نوازی کی داستانیں جیل کے حوالے سے لے کر آئینی مناصب پر’’اہل‘‘ حضرات کو بٹھانے تک زبان زد عام ہیں۔ قاعدے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے کا عالم یہ ہے کہ میڈیاچیخ چیخ کر بتارہا ہے کہ چودہ کروڑ روپے ان کے عہد ہمایونی میں پسندیدہ افسروں میں عیدی کے طور پر بانٹ دئیے گئے لیکن’’سیاسی سوچ‘‘ وضاحت کی توفیق ہی نہیں دیتی۔ افسر اور جوان شہید ہوتے رہے ،تباہی مچاتے رہے لیکن’’سپریم کمانڈر‘‘ کبھی کسی موقع پر ، کسی جائے واقعہ پر نہ پہنچے۔ اعتزاز احسن اور رضا ربانی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین شخصیات کی موجودگی میں پست ترین ذہنی سطح کے حاملین کو اقتدار کی باگ سونپی یہاں تک کہ دہلی کے رسوائے زمانہ بادشاہ گروں’’سید برادران‘‘ کی یاد تازہ ہوگئی۔ حج کی وزارت سے لے کر گوجر خان تک ہر جگہ اسیکنڈل ہی اسیکنڈل، رسوائی ہی رسوائی، جس ’’سیاسی سوچ‘‘ کی دھوم مچائی جاتی ہے اس میں کسی سنجیدہ مسئلے اور اس کے حل کا تصور تک نہیں!زرعی اصلاحات ، نظام تعلیم کی مہلک خرابیاں ،ناخواندگی، بلوچستان میں رائج کرۂ ارض کا فرسودہ ترین سرداری سسٹم، روز افزوں زوال پذیر قومی ادارے، ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کی ہولناک تعداد۔ کیا آج تک’’سیاسی سوچ‘‘ نے ان مسائل کا سرسری طور پر بھی ذکر کیا؟شہرت کے ساتویں آسمان پر چمکنے کے باوجود ایک پڑھا لکھا اوسط پاکستانی اپنے ذہن میں انہیں کیا مقام دیتا ہے؟ اور ان کے بارے میں کیا خیالات رکھتا ہے؟ ایک مشہور گلوکار جو اب مذہبی پروگراموں کے اینکر بن گئے ہیں ،کی مثال لے لیجئے ،رواں پیش منظر میں شاید ہی کسی شخص کو اتنی شہرت ملی ہو۔ موسیقی کے اسرار و رموز جاننے میں انہوں نے ایک مدت محنت کی لیکن دین کا علم حاصل کئے بغیر، واعظ اور مبلغ کی حیثیت سے وہ وہاں پہنچ گئے جہاں علوم اسلامی میں پوری پوری عمریں کھپانے والے نہ پہنچ سکے، کہا تو یہ گیا تھا کہ عمرہا باید کہ تایک سنگ خارہ زآفتاب دربدخشاں لعل گردد یا عقیق اندر یمن پتھر کو لعل بدخشاں یا عقیق یمنی بننے میں عمریں درکار ہوتی ہیں۔ وہ شہرت کے گھوڑے کو مسلسل مہمیز لگاتے رہے، باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کسی چینل پر وہ نظر نہ آئیں۔ کاش! تحصیل علم میں گوشہ نشین ہوجاتے اور پھر علوم اسلامی کی گہرائی اور گیرائی لئے ہوئے ظاہر ہوتے اور متانت اور کم نمائی ان کا اثاثہ ہوتا۔ اسکرین پر بگٹٹ بھاگتے اب منہ کے بل گر پڑے ہیں جنہوں نے فارغ التحصیل کیے بغیر دستار بندی کی تھی، انہوں نے فوراً لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ فاعتبرو یااولی الابصار!! ایک محترم وفاقی وزیر کو دیکھ لیجئے اس وقت میڈیا ان کے حضور دست بستہ کھڑا ہے۔ کوئی لفظ ایسا نہیں جو ان کے نطق سے نکلے اور پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا اسے ہائی لائٹ نہ کرے۔ شخصیت جاذب نظر ہے اور خوشگوار!حاضر جواب ہیں اور گفتگو کے فن سے آشنا ،لیکن ماہ شب چہاردہم کو خود ہی سیاہ رنگ ابر پاروں سے ڈھانپ دیتے ہیں۔ کیا ضرورت تھی عمران خان کو جنرل اروڑہ سے تشبیہ دینے کی؟ ایک لکیر ایک حد ہوتی ہے جہاں پہنچ کر رک جانا عقل مندی ہوتی ہے۔ قومی سطح کے رہنمائوں پر ہم جس قدر بھی تنقید کریں، ملک دشمنی کا الزام نہیں لگا سکتے۔ جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک۔ سابق صدر آصف زرداری سے لے کر میاں نواز شریف تک۔ چوہدری شجاعت سے لے کر اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان تک۔ کسی کی حب ا لوطنی کو چیلنج کرنا مضحکہ خیز حرکت ہے۔ ان سب جرنیلوں اور سیاستدانوں پر ہر قسم کی تنقید کی جاسکتی ہے، ایک ایک خامی کو اچھالا جاسکتا ہے لیکن کسی کو وطن دشمن لوگوں سے جاملانا بازی باریش بابا ہم بازی والی بات ہے، اگر کوئی بداندیش میاں نواز شریف کے بارے میں ایسی بات کرے تو اس کی بھی مذمت کرنی چاہئے۔ وزیر اعظم بھارت گئے اور صاحبزادہ کی معیت میں ایک بزنس مین کے گھر جاپہنچے۔ زیادہ سے زیادہ اسے ایک غیر دانشمندانہ اقدام کہا جاسکتا ہے۔ ایک تقریب میں بار بار انہوں نے کہا کہ ہمارا کلچر اورHeritageایک ہے اور یہ تو درمیان میں ایک لکیر آگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس تقریر کو کروڑوں لو گ سن رہے ہیں۔ ساتھ ہی قائد اعظم کی تقریر ہے جس میں وہ اپنی گرجدار آواز میں کہہ رہے ہیں کہ ہمارا کلچر اور دوسری چیزیں مختلف ہیں۔ اب کیا اسے وطن دشمنی کا نام دیا جائے؟ نہیں اسے زیادہ سے زیادہ کم علمی یا سطحیت کا شاخسانہ کہا جائے گا! یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ میاں صاحب کے نزدیک تقسیم روا نہیں تھی۔ ہاں!انہیں سمجھایا جاسکتا ہے کہ کلچر صرف آلو گوشت یالاہور سویٹ مارٹ یا بمبئی کلاتھ سٹور کا نام نہیں اور بھی بہت کچھ ہے۔بات شہرت سے چلی تھی،فائدہ اس شہرت کا جس کے ساتھ سوالیہ نشان لگا ہو!اسی لئے تو عقل مندوں نے ایسے لوگوں پر رشک کیا ہے جو کسی مجلس میں موجود ہوں تو کوئی انہیں اہمیت نہ دے اور اٹھ کر چلے جائیں تو کمی نہ محسوس ہوا،مجید امجد نے ایسے ہی گمنا م کرداروں کا ذکر کیا تھا گھاس کی گٹھڑی کے نیچے وہ روشن روشن چہرہ روپ جو شاہی ایوانوں کے پھولوں کو شرمائے راہ گزر پر سوکھے پتے چننے والی بانہیں بانہیں جن کو دیکھ کے موج کوثر بل کھا جائے بیلوں کے چھکڑوںکے پیچھے چلتے زخمی پائوں پائوں جن کی آہٹ سوئی تقدیروں کو جگائے سوال یہ ہے کہ مطلوب کیا ہونا چاہئے؟شہرت؟ یا روشن چہرہ؟ | |
Print Version Back |
Thursday, December 04, 2014
بات کر تجھ پر گماں ۔۔۔۔۔۔۔
فیض صاحب بڑے شاعر ہونے کے ساتھ بڑے انسان بھی تھے۔ مخالفین نے بے شمار اعتراضات کیلئے پینترے بدل بدل کر حملے کئے جو دائیں طرف تھے انہوں نے بے دین کے الزامات لگائے۔ جو بائیں طرف تھے وہ الگ ناخوش تھے۔ سازشی سے لے کر وطن دشمن تک ہر خطاب سے نوازا گیا لیکن فیض صاحب کی شائستگی کا یہ عالم تھا کہ کبھی ردعمل نہ ظاہر کیا۔ کبھی کسی کے خلاف بات کی نہ بیان دیا۔ نہ ہی وضاحت کے چکر میں پڑے سنا تو مسکرا دیے۔ اس لحاظ سے وہ مظلوم تھے۔ مظلوم اس لحاظ سے بھی تھے کہ کیا پسماندگان اور کیا دوسرے، ان کی شاعری کو ایک خاص فلسفے سے وابستہ کر کے ان پر ایک چھاپ لگا دی گئی اور پھر فوائد اکٹھے کئے گئے لیکن یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ مولانا مودودی دوسرے مظلوم تھے جن پر اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ روایتی علما کو اعتراض تھا کہ وہ کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل نہیں۔ بائیں سمت والے کہتے تھے کہ امریکہ سے حساب کتاب ہے۔ انتہائی دائیں طرف والے تجدید اورتجدد کا الزام لگاتے تھے۔ لیکن مولانا کسی الزام کا جواب نہیں دیتے تھے۔ علمی حوالے سے بھی ایک ہی بار وضاحت کرتے۔ زیادہ بہتان لگے تو اتنا کہا کہ کچھ لوگ اپنے سارے نماز روزے اور نیک اعمال آخرت میں میری (یعنی مودودی صاحب) کی طرف منتقل کرا دینا چاہتے ہیں۔ تیسرے مظلوم وزیراعظم میاں نوازشریف ہیں۔ حریف اعتراضات بھی کررہے ہیں۔ الزامات بھی لگا رہے ہیں۔ کبھی رخ بدل کر حملے کررہے ہیں کبھی ہتھیار بدل کر۔ لیکن وزیراعظم ہیں کہ صبر کا پیکر بنے بیٹھے ہیں۔ اعتراض سنتے ہیں اور معترض کو دعا دیتے ہیں۔ الزامات لگتے ہیں تو مسکرا دیتے ہیں۔ تردید نہ تصدیق! لیکن یہاں مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑی ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے،حالات نے مختلف روپ دھار لیا ہے، کردار مختلف ہیں، فیض صاحب کو ؎ واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں والا رویہ راس آسکتا تھا اس لئے کہ وہ سیاست دان نہیں تھے۔ ابوالاعلیٰ مودودی سب کچھ سن کر منہ دوسری طرف کرسکتے تھے کہ سیاست میں تو تھے، وزیراعظم نہیں تھے۔ میاں نوازشریف سیاست دان بھی ہیں، پارٹی کے سربراہ بھی ہیں، پارٹی بھی وہ جس کی نسبت قائداعظم سے ہے اور قیام پاکستان سے اور پھر سربراہ حکومت کی حیثیت سے وزارت عظمیٰ کی عالی مرتبت مسند پر بھی فائز ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں معاملہ خاموشی نیم رضا والا ہو جائے۔ وزیراعظم پر اعتراضات اور الزامات تین حوالوں سے کئے جارہے ہیں۔ اول یہ کہ ان کا طرز حکومت قبائلی ہے۔ اس طرز حکومت میں خاندان قبیلہ ذات برادری پر تکیہ کیا جاتا ہے۔ معترضین کہتے ہیں کہ کاروبار مملکت کسی قانون کسی دستور کسی قاعدے ضابطے کے مطابق نہیں بلکہ ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کے تحت چلایا جارہا ہے۔ وزیراعظم کا برادر زادہ جس اسمبلی کا رکن ہے وہ وفاق میں واقع ہے لیکن وہ صوبے کے امور پر مامور ہے۔ کسی صوبائی وزیر کا نام پیش منظر پر آتا ہی نہیں! کچن کیبنٹ یعنی بااثر اور فیصلے صادر کرنے کرانے والا حلقہ، ایک خاص جغرافیائی پٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ پٹی فیصل آباد سے شروع ہوتی ہے ا ور رائے ونڈ لاہور اور گوجرانوالہ کے نواح سے ہوتی ہوئی سیالکوٹ پہنچتی ہے اور وہاں ختم ہو جاتی ہے۔ ارباب قضا و قدر جتنے بھی ہیں کیا عابد شیر علی، کیا ڈار صاحب کیا گروہ خواجگان، سب اسی پٹی کے چشم و چراغ ہیں۔ ایک استثنیٰ چودھری نثار علی ہیں جو کبھی ناراض اور کبھی راضی اور اکثر راضی بہ رضا ہیں۔ خدمات ان کی پارٹی کے حوالے سے مسلمہ ہیں۔ لیکن پٹی اور برادری کے حوالے سے میرؔ بھی خاموش نہیں اور اکثر اپنا مشہور مصرع پڑھتے ہیں ؎ مگر ایک میرؔ شکستہ پا ترے باغ تازہ میں خار تھا عمائدین، مشیران کرام اور حلقہ بگوش جتنے بھی ہیں کم و بیش ایک ہی برادری سے ہیں اور ایک ہی شہر سے ہیں۔ کوئی وزیراعظم کے دفتر میں بیٹھا بیوروکریسی کے انجر پنجر ہلا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاملات عدالتوں میں جارہے ہیں اور کوئی سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کا چیئرمین بنایا جارہا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ ایک گیس کمپنی کی ایڈوائزری کونسل کا پہلے ہی چیئرمین ہے۔ حافظ نے کہا تھا؎ چو با حبیب نشینی و بادہ پیمائی بہ یاد دار محبان باد پیما را یعنی جب دوست کے ساتھ بیٹھ کر خوش وقتی کررہے ہو تو ان محبت کرنے والوں کو نہ بھولو جو آوارہ پھر رہے ہیں۔ بعض تو یہاں ’’محبان‘‘ کے بجائے ’’حریفان باد پیما‘‘ لکھتے ہیں۔ اب یہ جو بادپیمائی ہے، ہوا کو ماپنا یعنی مسافرت جس میں غریب الوطنی کا ذائقہ بھی ہوتا ہے، تو فیضی نے ماں کا مرثیہ کہا تو بادپیمائی کے حوالے سے ایسا شعر کہا کہ دل چھلنی کردیتا ہے مگر اس کے بیان کا یہ موقع نہیں! یہاں تو ذکر اس الزام کا ہے کہ وزیراعظم جب بھی امور مملکت کے حوالے سے بیرون ملک تشریف لے جاتے ہیں تو پیش منظر پر ہمیشہ ان کے بھائی چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ حریفوں کا اعتراض یہ ہے کہ چین جانا ہو یا ترکی یا سابق آقائوں کے حضور انگلش چینل کے اس پار، سندھ کے وزیراعلیٰ نظر آتے ہیں نہ بلوچستان کے نہ کے پی کے، ٹی وی پر ایک معروف دانش ور نے کہ بین الاقوامی امور پر نظر گہری رکھتے ہیں یہ تک کہا کہ وزرائے خارجہ (وزیر خارجہ نہیں) ہمارے تین ہیں اور نمایاں ان میں ایک وزیراعلیٰ ہیں اس اعتراض کو کمال تب حاصل ہوا جب افغانستان کے نئے صدر تشریف لائےاور ان سے معاملات طے صوبائی حاکم اعلی نے کئے۔ یہاں تک بھی گوارا ہوتا مگر جب ایک صوبائی حکمران نے یہ اعلان کیا کہ ’’پنجاب اور کابل کے درمیان تجارت سروسز تعلیم صحت اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کی گنجائش موجود ہے‘‘ اور پھر افغان صدر نے وزیراعلیٰ کو کابل کے دورے کی دعوت دی (جو دینا ہی تھی کہ وہی جلوہ فرما تھے) جو قبول کر لی گئی اور اعلان ہوا کہ جلد پنجاب سے تجارتی وفد کے ہمراہ کابل کا دورہ کریں گے، تو بین الاقوامی امور اور علاقائی تعلقات کے ماہرین انگشت بدنداں رہ گئے اور یہ تو کل کی خبر ہے کہ آپ قطر میں بیک وقت وزیر خارجہ اور وزیر توانائی کی حیثیت سے دیکھے گئے ہیں۔ متعلقہ وفاقی وزارتوں کا کوئی سیکرٹری یا اہلکار دور و نزدیک نہیں دکھائی دیا۔ دوسرا اعتراض جسے سن سن کر وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے ساتھ ساتھ عوام کے کان بھی پک گئے ہیں، لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے ضمن میں ہے۔ اس حوالے سے کچھ وڈیو مناظر عام ہیں جن میں کچھ تقریریں ہیں ان میں برسراقتدار آکر لوٹی ہوئی دولت دساور سے واپس لانے کے عہدوپیمان ہیں اور کچھ دھمکیاں ہیں جن میں گھسیٹنے کے فعل کو مستقبل کے حوالے سے خوب خوب استعمال کیا گیا ہے۔ رہا تیسرا اعتراض تو وہ اثاثے ظاہر کرنے کے بارے میں ہیں۔ لڑکی نے صبح اٹھ کر ماںکو بتایا کہ وہ آج سکول نہیں جائے گی۔ اس لئے کہ اساتذہ اور شاگرد سب اس سے خائف ہیں، اور وہ بور ہوتی ہے۔ ماں نے کہا تجھے جانا ہوگا۔ لڑکی نے کہا اچھا تین وجوہ بیان کرو کہ مجھے کیوں جانا ہوگا۔ ماں نے کہا اول کہ غیر حاضری بری بات ہے۔ دوم کہ پڑھائی کا نقصان ہوگا اور سوم کہ تم ہیڈمسٹریس ہو۔ فیض صاحب اور مولانا مودودی تو خاموش رہ کر گزارہ کر گئے کہ وزیراعظم نہیں تھے اور کبھی حکومت میں رہے بھی نہیں تھے۔ وزیراعظم تو وزیراعظم ہیں۔ انہیں چاہئے کہ ان الزامات اور اعتراضات کے غبارے سے ہوا نکال دیں۔ قوم کو اصل حقیقت بتا دیں کہ خواجہ سندھ سے ہوتے ہیں اور ڈار بلوچستان سے۔ عابد شیر علی سرحد سے ہیں۔ رہے برادر اور برادر زادہ تو یہ بتانے میں کیا مضائقہ ہے کہ میں ایک کو صوبے اور دوسرےکو وفاق کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے منع کرتا ہوں لیکن وہ مانتے ہی نہیں! اورہاں وہ وڈیوز جعلی بھی تو ہوسکتی ہیں۔ دعویٰ کرنے میں کیا حرج ہے! بہرطور جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں، آگ لگانے والے معترضین کو جواب ضرور دیں کہ بقول فراز منتظر کب سے تحیرّ ہے تری تقریر کا بات کر! تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا |
Subscribe to:
Posts (Atom)