اشاعتیں

جولائی, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ ؑ؟

ایک بے نام سا درد تھا جو دائیں پائوں کے انگوٹھے سے آغاز ہوا۔ پھر بڑھتا گیا‘ یہاں تک کہ چلنے میں دقت محسوس ہونا شروع ہو گئی۔ طبیب نے یورک ایسڈ ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا۔ لیبارٹری سے واپس آ رہے تھے۔ معاذ ڈرائیو کر رہے تھے۔ راستے میں اِمتلا کی لہر اٹھی۔ سروس سٹیشن پر گاڑی روک کر وہ بسکٹ لینے گئے۔ ابھی لوٹے نہ تھے کہ ایک زوردار قے آئی۔ گھر پہنچے تو گاڑی سے اترا نہیں جا رہا تھا۔ کمر کے بائیں طرف درد تھا جو بائیں ٹانگ تک شدید لہر مارتا تھا۔ چلنا دوبھر ہو رہا تھا۔ جوں توں کر کے بستر تک پہنچا۔ تین دن تین رات یہ کیفیت رہی کہ اُٹھ کر بیٹھنا محال تھا۔ اٹھنے کے بعد آگے یا پیچھے ہونا کارے دارد تھا۔ معاذیا حسان اٹھا کر تکیے کے ساتھ بٹھاتے تھے۔ طبیب کا خیال تھا کہ پٹھے کھنچ گئے ہیں۔ نرم ہو کر واپس آنے میں وقت لگے گا۔ وقت لگا۔ چوتھے دن وہ جانکاہ شدت تو نہ رہی لیکن درد کو مکمل ختم ہونے میں دو ہفتے لگ گئے۔  اس کیفیت میں سب سے زیادہ دلداری اور غم خواری کس نے کی؟ خانم لاہور گئی ہوئی تھیں۔ تفصیل معلوم ہوئی تو پروگرام کٹ شارٹ کر کے فوراً واپس آ گئیں۔ معاذ اور حسان ہمہ وقت حاضر اور چوکس رہے۔ حرا نے...

سچ کہتا تھا افضل خان

اس وقت سول سروس کی مشترکہ (کامن) تربیت کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سول سروس اصلاحات نے ابھی پٹرول پمپوں پر کام کرنے والے جیالوں کو سول سرونٹ نہیں بنایا تھا۔ والٹن جو آج مشترکہ تربیت (کامن ٹریننگ) کی اکیڈمی ہے، اس وقت صرف مالیات کے شعبوں کی تربیت کے لیے مختص تھی۔ یہاں پاکستان ملٹری اکائونٹس سروس‘ پاکستان آڈٹ اینڈ اکائونٹ سروس‘ پاکستان کسٹمز اینڈ ٹیکسائز سروس اور پاکستان ٹیکس سروس کے افسروں کو تربیت دی جاتی تھی۔ الطاف گوہر معتوب ہوئے تو انہیں اس فنانس سروسز اکیڈمی کا سربراہ بنا کر بھیجا گیا۔ الطاف گوہر آئیڈیاز کے بادشاہ تھے انہوں نے اکیڈمی کو چار چاند لگا دیئے۔ بہت سی مثبت تبدیلیاں لے کر آئے۔ ان کا منصوبہ یہ بھی تھا کہ پاکستانی مالیات کے ان سول سرونٹس کو ورلڈ بینک بھیج کر بھی ٹریننگ دلوائی جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ جلد ہی الطاف گوہر کو یہاں سے بھی فارغ کردیا گیا۔  سول سروس کے عروج کا زمانہ تھا۔ ابھی کسی رائو سکندر نے کسی ایس پی اوکاڑہ کو تھپڑ مارنے کی جرأت نہیں کی تھی ۔غلط تھا یا صحیح‘ فنانس سروسز اکیڈمی والٹن کے افسروں کو برطانوی زمانے کے خطوط پر تیا...

سنتا جا شرماتا جا

سنگاپور میں تین قومیتیں بستی ہیں، چینی، جو اکثریت میں ہیں۔ ملے ،جو ملائیشیا، انڈونیشیا اور برونائی کے مسلمانوں کی طرح مقامی ہیں۔ ہندوستانی نژاد، جو سیاہ فام تامل ہیں۔ دو ہفتے قبل ایک خبر سنگاپورکے بارے میں پڑھ کر حیرت ہوئی۔ پولیس نے دواشتہاری ملزموں کوپکڑا، لیکن ایک ممبر پارلیمنٹ نے پچاس ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے تھانے پر حملہ کردیا اوراشتہاری ملزم چھڑوا کر ساتھ لے گیا۔ تشدد کی وجہ سے ایک پولیس افسر کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ تھانے کی عمارت اور فرنیچر جس طرح تہس نہس ہوا وہ الگ قصہ ہے۔ ورطۂ حیرت میں ابھی میں غوطے کھا ہی رہا تھا کہ ایک اوروحشت اثر خبر بجلی بن کر گری۔ یہ خبرمتحدہ عرب امارات کی تھی۔ دوبدمعاشوں نے ایک 21 سالہ لڑکی کو اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایا۔ درندے ساتھ فلم بھی بناتے رہے۔ اس پر ان انسان نما جانوروں کو پولیس نے گرفتارکرلیا، لیکن پارلیمنٹ کا مقامی ممبر اپنے دوستوں کے ساتھ پولیس افسر کے پاس آیا اور ملزموں کو چھوڑنے کیلئے دبائو ڈالتا رہا۔ ایک ملزم کا بھائی وکیل برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ وکیل بھی اکٹھے ہوگئے۔ ممبر پارلیمنٹ اور وکلاء نے پولیس افسر پر اس قدر جسمانی تشدد کیا کہ و...

ہم اپنے عہد کے وہ مطمئن منافق…

بس ساری رات چلتی رہی۔ ڈرائیور کبھی موسیقی لگاتا اور کبھی کچھ مذہبی شاعری۔ سونا مشکل تھا۔ دو دفعہ بس رکی۔ مسافروں کو عام اور ڈرائیور کو الگ کمرے میں خاص چائے دی گئی۔ صبح آٹھ بجے جب وہ دارالحکومت کے بڑے بس سٹاپ پر اترا تو اس کا انجر پنجر ہلا ہوا تھا۔ دس بجے انٹرویو تھا، لیکن جب وہ وزارت کے دفتر سے باہر نکلا تو دو بج رہے تھے۔ رات بھر کا سفر ، صبح کے بعد دوڑ دھوپ، دو اڑھائی گھنٹے ویٹنگ روم میں وہ انتظار جس کی تعریف اشد من القتل کی گئی ہے۔ آنتیں قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ اس دن درجہ حرارت چالیس سے ذرا ہی کم تھا۔ ٹیکسی لی اور سب سے بڑے بازار پہنچا۔ وہ پہلی بار اس شہر میں آیا تھا لیکن کامن سینس اسے کہہ رہا تھا کہ جس شہر میں ساری دنیا کے ملکوں کے سفارت خانے ہیں، بین الاقوامی کمپنیاں ہیں، وفاق کی بیسیوں وزارتیں ہیں، ان گنت محکمے ہیں، وہاں ہر روز لاکھ نہیں تو ہزاروں مسافر یقینا آتے ہوں گے۔ انہیں اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھیں۔ یہ اجازت کسی دنیاوی قانون یا ریاستی آئین نے نہیں دی۔ یہ اسی طاقت نے اپنے کلام میں مرحمت کی جس نے روزہ فرض کیا ہے۔ وہ پورے بازار میں ،بازار کے اندر کی گلیوں میں پھر پچھوا...

ہم کب بیدارہوں گے؟

مرکنڈے کاتجو (Katju) 1946 ء میں لکھنؤ میں پیداہوا۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے ایل ایل بی امتحان میں اول آیا۔ الٰہ آباد سے قانون کی پریکٹس کا آغاز لیبر لاء اورٹیکس لاء سے کیا۔ پھر امیٹھی یونیورسٹی سے قانون ہی میں ڈاکٹریٹ کیا۔ مختلف اوقات میں الٰہ آباد ہائیکورٹ، مدراس ہائیکورٹ اور دہلی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا۔ پھرسپریم کورٹ میں تعینات ہوا۔ پھرریٹائرمنٹ کے بعد اسے پریس کونسل آف انڈیا کا چیئرمین مقررکیا گیا۔ پریس کونسل آف انڈیا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ آج اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ ادارہ اس قدر طاقتور ہے کہ اس کے کسی اقدام کو صرف اس وقت چیلنج کیا جا سکتا ہے جب بھارتی آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہو اور یہ خلاف ورزی ثابت بھی کی جاسکے۔ جسٹس مرکنڈے کاتجو ہمیشہ اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے خبروں میں نمایاں رہا۔ ایک باراس نے کہا کہ نوے فیصد بھارتی احمق ہیں۔ اس پر لکھنؤ کے دو طلبہ نے اسے قانونی نوٹس بھیجا کہ وہ اپنے بیان پر معذرت کرے۔ کاتجو نے معذرت تو کی لیکن اپنے بیان کی توضیح بھی کی۔ اس نے کہا کہ نوے فیصد بھارتی ووٹ میرٹ کی بنیاد پر نہیں دیتے، بلکہ برادری...

ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں

تصویر

اہلِ لاہور کا امتحان

شہزادہ تیراندازی کی مشق کررہا تھا۔ جب بھی تیر چلاتا، تیر ہدف کے دائیں یا بائیں نکل جاتا۔ کوئی ایک نشانہ بھی درست نہیں بیٹھ رہا تھا۔ درباری مسخرہ ساتھ تھا۔ آگے بڑھا اور ہدف کے سامنے کھڑا ہوگیا۔’’محفوظ ترین جگہ یہی ہے!‘‘ اس نے کہا۔ گزرے وقتوں کی یہ سبق آموز حکایت یوں یاد آتی کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے بنوں میں آئی ڈی پیز کے ساتھ مصروف دن گزارا اور شمالی وزیرستان میں ہسپتال اور کالج بنانے کااعلان کیا۔ پنجاب حکومت ہر خاندان کو سات ہزار روپے نقد دے رہی ہے۔ خاندانوں کی کثیر تعداد دیکھی جائے تو یہ ایک خطیر رقم بنتی ہے۔ قبائلی عمائدین نے ایک شکایت بہرطورکی کہ تقریب دو بجے شروع ہوئی ہے لیکن انہیں صبح سات بجے ہی بٹھا دیاگیا تھا! وزیراعلیٰ نے ایک معنی خیز اعلان یہ کیا کہ وہ یہاں پنجاب کے نہیں پاکستان کے نمائندے کے طور پر آئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ چینی وزیر خارجہ سے بھی چین جاکر ملے۔ یہ نہیں معلوم کہ وہ ملاقات انہوں نے پنجاب کے نمائندے کی حیثیت میں کی یا پاکستان کا نمائندہ بن کر! تمنائوں کی پرورش ہر شخص کا حق ہے۔ آرزو کے پودے کو پانی دینا کوئی جرم نہیں ! اس سے پہلے پرویز الٰہی وزیراعظم بنتے ب...

ایک بے اثر مکالمہ

تیاری وہ پوری کرکے گیا تھا۔ جیسے ہی موذن نے لائوڈ سپیکر کا بٹن آن کیا، وہ اس کے پاس پہنچ گیا۔ ’’کیا کررہے ہیں؟‘‘ ’’ اذان دینے لگا ہوں۔‘‘ موذن نے حیرت اور پریشانی سے جواب دیا۔’’ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘ ’’ یہ میں بعد میں بتائوں گا کیوں پوچھ رہا ہوں۔ آپ پہلے بتائیے کہ کس وقت کی اذان دینے لگے ہیں۔‘‘ ’’ ظہر کی‘‘ ’’کیسے معلوم ہوا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا ہے؟‘‘ موذن اب حیرت کے ساتھ غصے میں بھی تھا۔ ’’ بھائی!سامنے دیوار پر کیلنڈر لگا ہے۔ اس میں پورے سال کی نمازوں کے اوقات درج ہیں۔‘‘ پھر موذن دیوارکے پاس گیا۔ اس نے باریک چھپے ہوئے گنجان کیلنڈر پر ایک جگہ انگلی رکھی۔ ’’ یہ دیکھو، آج کی تاریخ اور ظہر کا وقت! اور پھر گھڑی کی طرف دیکھو!‘‘ ’’ کیا فقہ کی کتابوں میں اس کیلنڈر اور گھڑی کا ذکر ہے؟‘‘ اس احمقانہ سوال کا موذن کیا جواب دیتا۔ موذن نے مائک ایڈجسٹ کیا اور اذان دینے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ لیکن اس نے پھرتی سے لائوڈ سپیکر والا سوئچ آف کردیا۔ ’’ میں اذان نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ اس کی آواز خوفناک ہوگئی تھی۔’’ تم نے اذان دینے کی کوشش کی تو میں مار مار کر تمہارا بھرکس نکال دوں گا‘‘ م...

قالین کے اوپر ڈانس

کیا آپ نے کبھی سٹک ڈانس دیکھا ہے؟ اسے ڈنڈیا ڈانس بھی کہتے ہیں۔ یہ پورے برصغیر میں یکساں مقبول ہے۔ مرد بھی کھیلتے ہیں عورتیں بھی، الگ الگ بھی اور مرد اور عورتیں مل کر بھی۔ دونوں ہاتھوں میں ڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ مختلف طریقوں سے اچھل کود ہوتی ہے۔ کبھی ایک اپنی ڈنڈی کو دوسرے کی ڈنڈی پر مارتا ہے اور کبھی اپنے ہی دونوں ہاتھوں میں پکڑی ڈنڈیوں کو ایک دوسرے پر مارتے ہیں۔ ڈنڈی دوسری ڈنڈی پر پڑتی ہے تو ایک خفیف سی ، لطیف سی، آواز پیدا ہوتی ہے جو رقص کرتے اعضا کی حرکت کو اور نغمے کے زیرو بم کو اور بھی سرور انگیز کرتی ہے۔ یہ رقص، یہ اچھل کود، گھنٹوں جاری رہتی ہے۔ اس قصے کو اب ہم یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ بنوامیہ کی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو عباسیوں نے طرح طرح کے اچھوتے طریقوں سے انتقام کی آگ ٹھنڈی کی۔ اس ضمن میں دو روایات دلچسپ ہیں۔ ایک ایرانی جرنیل عبداللہ نے بنوامیہ کے اسی سرکردہ افراد کو دعوت پر بلایا۔ ان سب کو قتل کردیاگیا۔ عبداللہ نے ان کی لاشوں کے سامنے مزے سے کھانا کھایا۔ عبداللہ کو زعم ہوگیا ۔ اس نے خلیفہ بننے کی کوشش کی۔ عباسی حکمران نے اسے قید کردیا۔ سات سال بعد رہا کرکے اسے یقین دلایا گیا کہ و...

جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

یہ واقعہ کئی سال پہلے دارالحکومت میں پیش آیا۔ موسلادھار بارش ہوئی۔ جل تھل ایک ہو گیا۔ گلیاں نالوں میں تبدیل ہو گئیں۔ ان گلیوں میں سے ایک سٹریٹ میں ایک بہت بڑے سرکاری افسر کا گھر تھا۔ سٹریٹ میں جگہ نہ رہی تو پانی نے اِدھر اُدھر کا رُخ کیا اور بڑے سرکاری افسر کے تہہ خانے میں جمع ہونے لگا۔ بیسمنٹ میں کئی کمرے تھے۔ خوابگاہیں بھی اور کتب خانہ بھی۔ بسترو بالیں پانی میں ڈوب گئے۔ کتابیں تیرنے لگیں۔ محکمے سے اہلکار بھاگے بھاگے گئے۔ جو ہو سکا‘ کیا۔ نقصان بہت زیادہ ہوا تھا۔ ترقیاں ادارے کے پلاننگ اور انجینئرنگ شعبے کی غلطیاں بھی تھیں جن کی وجہ سے پانی گھروں میں گھسا تھا۔ ترقیاتی ادارے کا ایک درمیانی درجے کا افسر پیش کیا گیا۔ صاحب نے اُسے گھر کا حالِ زار دکھایا۔ اس نے آگے سے کوئی ایسا عذرِ لنگ پیش کیا کہ صاحب کو جو پہلے ہی ذہنی اذیت میں تھا‘ طیش آ گیا۔ اس نے ہاتھ اٹھایا کہ ایک کڑاکے کا تھپڑ افسرِ مذکور کو رسید کرے لیکن اس کے پیچھے کھڑے ہوئے ایک دانش مند ماتحت نے اٹھا ہوا بازو پکڑ لیا: ’’نہیں! سر! نہیں! ہاتھ نہیں اٹھانا۔ یہ آپ کے شایانِ شان نہیں! اور پھر اس سے ہمارا کیس بگڑ جائے گا۔ ادارے کی ...

آہ!بیچارہ رچرڈ

پہاڑوں میں گھرا ہوا یہ شہر نیوزی لینڈ کا سردترین مقام تھا۔درجہ حرارت صفر سے نیچے‘رگوں میں خون منجمد کرنے والی تیز ہوا‘بارش طویل ہوتے ہوتے جھڑی بن جاتی تھی۔ سورج کئی کئی دن روپوش رہتا تھا۔یہ تھی وہ جگہ جہاں رچرڈ رہتا تھا۔ملائشیا کے ایک مسلمان سے اس کی دوستی کا آغاز دفتر میں ہوا ۔دوستی گہری ہوتی گئی ۔گھر میں آنا جانا شروع ہو گیا۔افطار کی دعوت میں رچرڈ کو بھی بلایا گیا۔ایک خاص وقت پر افطار‘پھر نمازباجماعت پھر جس طرح ملائشیا کا دوست اپنے ضعیف والد کا خیال رکھتا تھا ‘ ان سب مشاہدات نے تجسس پیدا کیا۔ جوں جوں وہ مطالعہ کرتا گیا اور اپنے دوست سے رہنمائی لیتا گیا‘روشنی بڑھتی گئی۔پھر وہ دن بھی آیا کہ اس نے اسلام قبول کیا۔مشکل ترین کام شراب نوشی کو خیر باد کہنا تھا۔شراب‘لوگوں کے خیال میں‘شدید سردی کا توڑ تھی۔اس نے چھوڑی تو پھر ہاتھ نہ لگایا۔کبائر کو ترک کیا۔فرائض کی سرانجام دہی اخلاص سے شروع کی۔شعائر کا احترام کرنا سیکھا، حقوق کی ادائیگی میں سرگرم ہو گیا۔زندگی کو تبدیل کر لیا۔ مشکل کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک پاکستانی بھائی نے اعتراض کیا کہ یہ پتلون ،یہ جیکٹ ،غیر اسلامی لباس ہے ۔رچرڈ کے پوچھ...

ہم‘ ہمارا بخت اور ہمارے رہنما

’’میں صرف نیلے یا سرمئی رنگ کے سوٹ پہنتا ہوں۔ وقت ان معاملات پر ضائع نہیں کرتا کہ کھانا کیا ہے اور پہننا کیا ہے۔ بہت سے دوسرے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ فیصلہ کرنے کی قوت کو بچا کر رکھنا پڑتا ہے۔ معمولات کو اس طرح فِکس کرنا ہوتا ہے کہ توجہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف نہ بٹ جائے‘‘۔  یہ گفتگو بارک اوباما کی ہے۔ وہ سربراہِ ریاست ہے اور سربراہِ حکومت بھی۔ وہ امریکی مسلح افواج کا کمانڈر اِن چیف بھی ہے۔ جب آپ بہت سے معاملات کے فیصلے کرتے ہیں‘ خواہ وہ معاملات چھوٹے ہیں یا بڑے‘ آپ کی قوتِ فیصلہ کم ہو جاتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات نے اس کیفیت کو ’’فیصلوں کی تکان‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک جج نے اگر بازار جا کر گھر کا سودا سلف خریدا ہے اور اسی شام عدالت میں گیا ہے تو وہ اس تکان کا شکار ہو چکا ہے۔ اُس دن عدالت میں اُس کے دیے ہوئے فیصلے نسبتاً سخت اور کم منصفانہ ہوں گے۔ اسی لیے جن شخصیتوں نے اہم معاملات پر فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور دماغ کو قومی اور بین الاقوامی معاملات میں کھپانا ہوتا ہے‘ ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ عشائیوں اور ظہرانوں کے منیو ڈِسکس کرتے پھریں یا کپڑوں کے رنگوں‘ سوٹو...