Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 29, 2014

تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ ؑ؟

ایک بے نام سا درد تھا جو دائیں پائوں کے انگوٹھے سے آغاز ہوا۔ پھر بڑھتا گیا‘ یہاں تک کہ چلنے میں دقت محسوس ہونا شروع ہو گئی۔ طبیب نے یورک ایسڈ ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا۔ لیبارٹری سے واپس آ رہے تھے۔ معاذ ڈرائیو کر رہے تھے۔ راستے میں اِمتلا کی لہر اٹھی۔ سروس سٹیشن پر گاڑی روک کر وہ بسکٹ لینے گئے۔ ابھی لوٹے نہ تھے کہ ایک زوردار قے آئی۔ گھر پہنچے تو گاڑی سے اترا نہیں جا رہا تھا۔ کمر کے بائیں طرف درد تھا جو بائیں ٹانگ تک شدید لہر مارتا تھا۔ چلنا دوبھر ہو رہا تھا۔ جوں توں کر کے بستر تک پہنچا۔ تین دن تین رات یہ کیفیت رہی کہ اُٹھ کر بیٹھنا محال تھا۔ اٹھنے کے بعد آگے یا پیچھے ہونا کارے دارد تھا۔ معاذیا حسان اٹھا کر تکیے کے ساتھ بٹھاتے تھے۔ طبیب کا خیال تھا کہ پٹھے کھنچ گئے ہیں۔ نرم ہو کر واپس آنے میں وقت لگے گا۔ وقت لگا۔ چوتھے دن وہ جانکاہ شدت تو نہ رہی لیکن درد کو مکمل ختم ہونے میں دو ہفتے لگ گئے۔ 
اس کیفیت میں سب سے زیادہ دلداری اور غم خواری کس نے کی؟ خانم لاہور گئی ہوئی تھیں۔ تفصیل معلوم ہوئی تو پروگرام کٹ شارٹ کر کے فوراً واپس آ گئیں۔ معاذ اور حسان ہمہ وقت حاضر اور چوکس رہے۔ حرا نے جو بظاہر بہو ہیں لیکن سعادت اور وارفتگی میں بیٹی‘ چائے کی لامتناہی رسد کا انتظام کیے رکھا۔ لاہور سے مَہ وَش اور ڈاکٹر عمار فون پر فون کرتے رہے۔ میلبورن سے ڈاکٹر اسرار نے فیس ٹائم پر پائوں کے انگوٹھے کا خود معائنہ کیا اور رائے دی ۔اگرچہ پاکستانی ڈاکٹروں اور ترقی یافتہ ملکوں کے ڈاکٹروں کے رجحانات اور طریقِ علاج میں فرق واضح ہے۔ سب خدمت میں مصروف رہے۔ لیکن جس نے سب سے زیادہ دلداری اور غم خواری کی‘ جس نے سب سے زیادہ سہارا دیا‘ جو اس وقت بھی گرنے سے بچاتا رہا‘ جب باتھ روم میں اور کوئی بھی ساتھ نہ تھا‘ جو رات بھر چارپائی کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا اور پلک تک نہ جھپکی وہ لکڑی کا عصا تھا۔ تین فٹ لمبائی تھی‘ لیکن دست گیری میں آسمان تک جاتا تھا! 
یہ عصا جو والد مرحوم کے استعمال میں تھا‘ پہلے زیادہ لمبا تھا۔ ڈاکٹر اسرار ان دنوں آسٹریلیا کے ایک ایسے ہسپتال میں کام کر رہے تھے جو صرف معمر مریضوں کے لیے مخصوص تھا۔ آئے تو عصا کو اپنی بالشت سے ماپا اور پھر نیچے سے کاٹ دیا۔ اب یہ ان کے دادا کے لیے زیادہ ممد ہو گیا۔ ان کی رحلت کے بعد اسے اس دوسرے عصا کے ساتھ رکھ دیا گیا جو لکھنے والے کی دادی جان استعمال کرتی رہیں۔ باقیات اور آثار! جو وقت گزرنے کے ساتھ منظر عام سے ہٹتے جاتے ہیں۔ کیا ہم اور کیا ہمارے عصا! عصا تو وہ تھا جو موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں تھا اور اس کتاب میں جگہ پا گیا جس سے لفظ تو کیا‘ حرف تو کیا‘ اعراب کی حرکت تک نہیں نکالی جا سکتی! ’’اور اے موسیٰ ؑ! تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے…؟‘‘… ’’کہایہ میرا عصا ہے! اس پر ٹیک لگاتا ہوں! اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور میرے لیے اس میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں‘‘۔ ؎ 
گہ ٹیک لگاتے ہیں عصا پر 
پتے گہے اس سے جھاڑتے ہیں 
یہ جو حضرت موسیٰؑ نے ’’مآرب اُخریٰ‘‘ یعنی اور کئی فوائد‘ کہا تو امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ عربی ادب میں عصا پر بہت کچھ لکھا گیا۔ حسن بصری نے کہا کہ عصا انبیا کی سنت ہے۔ صالحین کی زینت ہے‘ دشمنوں پر ہتھیار ہے‘ ضعیفوں کے لیے امداد ہے! اور منافقین اس سے گھبراتے ہیں‘ حجاج نے ایک بدو سے پوچھا تمہارے ہاتھ میں کیا ہے۔ بدو نے کہا عصا‘ پھر بہت سے استعمال بتائے کہ اس سے چیزوں کو شمار کرتا ہوں۔ ریوڑ ہانکتا ہوں‘ سفر میں کام آتا ہے۔ اس کی مدد سے دریا پار کرتا ہوں۔ اسے گاڑ کر اس پر کپڑا لٹکا دیتا ہوں تو دھوپ سے بچ جاتا ہوں‘ اس سے دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں۔ کتوں سے بچتا ہوں اور آخر میں کمال کا نکتہ بتایا ’’اسے میں نے باپ سے ورثے میں پایا اور اپنے بعد بیٹے کے حوالے کر جائوں گا!‘‘ 
بین الاقوامی طور پر نابینائوں کے لیے سفید عصا مخصوص ہو گیا ہے۔ وائٹ کین یا سفید چھڑی! انگلستان کے قصبے برسٹل سے تعلق رکھنے والا فوٹوگرافر جیمز بِگ‘ وہ پہلا شخص تھا جس نے 1921ء میں سفید چھڑی استعمال کی۔ وہ ایک حادثے میں بینائی کھو بیٹھا۔ ٹریفک کے ہنگامے میں اپنے آپ کو ممیز کرنے کے لیے اس نے اپنی چھڑی پر سفید پینٹ مل دیا تاکہ لوگ دور ہی سے پہچان لیں۔ دس سال بعد فرانس نے یہ رنگ اپنا لیا۔ پانچ ہزار سفید چھڑیاں ان فوجیوں میں تقسیم کی گئیں جنہوں نے جنگ عظیم اول میں لڑتے ہوئے اپنی آنکھیں ضائع کی تھیں۔ سفید چھڑی کا اصل فائدہ شاید ہم پاکستانیوں کو پسند نہ آئے۔ ٹریفک کے ہنگامے میں سفید چھڑی والے کا حق فائق ہے۔ جب تک وہ گزر نہیں جائے گا‘ ٹریفک رُکی رہے گی! روٹ لگا ہو اور سفید چھڑی والا نابینا سڑک پر آ جائے تو ہٹو بچو والے سپاہی اُس سے جس ’’خوش اخلاقی‘‘ کے ساتھ پیش آئیں گے‘ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں! کیا وزیراعظم یا صدر سفید چھڑی کے لیے اپنا قافلہ روک لیں گے؟ 
ایک عصا اور بھی ہے! فوجی افسر کا عصا۔ بید کی یہ چھوٹی سی چھڑی‘ بظاہر تو چھڑی ہے لیکن دراصل ایک علامت ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے فوج کی کمان چھوڑتے وقت چھڑی اپنے جانشین کو دی تھی تو موصوف کا رنگ اُڑا اُڑا تھا‘ کہا کرتے تھے کہ وردی میری کھال ہے۔ کھال اتار کر انہوں نے اپنے آپ کو عناصر کی بے مہریوں کے سامنے برہنہ کردیا اور آج داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی شمع کی طرح خاموش ہیں! 
فوجی افسر میس کی طعام گاہ میں داخل ہوتے ہیں تو ٹوپی اور چھڑی باہر رکھ جاتے ہیں۔ یہ عسکری ثقافت ہے لیکن مسلم لیگ نون کی حکومت کو شاید معلوم نہیں کہ اسلام آباد میں تین ماہ کے لیے عسکری افسر آئے تو ٹوپیاں اور چھڑیاں بیرکوں میں رکھ کر نہیں آئیں گے‘ ساتھ لائیں گے! ذوالفقار علی بھٹو نے بھی عساکر کو اپنی پشت پناہی کے لیے طلب کیا تھا! لیکن ہوا کیا سب کو معلوم ہے ! آئین کا آرٹیکل 245 اصل میں فوج کا عصا ہے! 
تین ماہ کے لیے دارالحکومت فوج کی تحویل میں رہے گا۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ جن عبقریوں اور نابغوں نے جنرل پرویز مشرف کے دورۂ سری لنکا کے دوران قیمتی مشورے دیے تھے‘ آج بھی وہی وزیراعظم کے تختِ رواں کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو فوجی افسر کی چھڑی نظر نہیں آ رہی تو اس کا مطلب ہے اُسے سفید چھڑی کی ضرورت ہے!!

Sunday, July 27, 2014

سچ کہتا تھا افضل خان


اس وقت سول سروس کی مشترکہ (کامن) تربیت کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سول سروس اصلاحات نے ابھی پٹرول پمپوں پر کام کرنے والے جیالوں کو سول سرونٹ نہیں بنایا تھا۔ والٹن جو آج مشترکہ تربیت (کامن ٹریننگ) کی اکیڈمی ہے، اس وقت صرف مالیات کے شعبوں کی تربیت کے لیے مختص تھی۔ یہاں پاکستان ملٹری اکائونٹس سروس‘ پاکستان آڈٹ اینڈ اکائونٹ سروس‘ پاکستان کسٹمز اینڈ ٹیکسائز سروس اور پاکستان ٹیکس سروس کے افسروں کو تربیت دی جاتی تھی۔ الطاف گوہر معتوب ہوئے تو انہیں اس فنانس سروسز اکیڈمی کا سربراہ بنا کر بھیجا گیا۔ الطاف گوہر آئیڈیاز کے بادشاہ تھے انہوں نے اکیڈمی کو چار چاند لگا دیئے۔ بہت سی مثبت تبدیلیاں لے کر آئے۔ ان کا منصوبہ یہ بھی تھا کہ پاکستانی مالیات کے ان سول سرونٹس کو ورلڈ بینک بھیج کر بھی ٹریننگ دلوائی جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ جلد ہی الطاف گوہر کو یہاں سے بھی فارغ کردیا گیا۔ 
سول سروس کے عروج کا زمانہ تھا۔ ابھی کسی رائو سکندر نے کسی ایس پی اوکاڑہ کو تھپڑ مارنے کی جرأت نہیں کی تھی ۔غلط تھا یا صحیح‘ فنانس سروسز اکیڈمی والٹن کے افسروں کو برطانوی زمانے کے خطوط پر تیار کیا جاتا تھا۔ خادم علی الصبح جرابوں کو اس طرح تیار کر رکھتے تھے کہ صرف پنجہ اندر ڈالنا ہوتا تھا اور ذرا سا اوپر کرنے سے جراب پہن لی جاتی تھی۔ کوٹ اس طرح پہنایا جاتا تھا جیسے برطانوی ہائی سوسائٹی میں لارڈز اپنی بیگمات کو پہناتے تھے۔ ٹینس اور تیراکی شام کے مشاغل کا جزو لاینفک تھی۔ 
یہ سب تمہید تھی ۔جو واقعہ بتانا مقصود ہے وہ اور ہے۔ ایک صبح یہ نوخیز افسر ناشتہ کر رہے تھے۔ خدام دست بستہ کرسیوں کے پیچھے ایستادہ تھے۔ اچانک ایک صاحب بگڑے اور باورچی پر بری طرح گرجے‘ فرائی انڈے کی زردی پھٹ گئی تھی جو صاحب کے نازک مزاج پر گراں گزری۔ خدام پر برسنا شروع ہوئے تو چپ کرنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ اگر اس لکھنے والے کی یادداشت غلطی نہیں کر رہی تو غالباً یہ چکوال سے تعلق رکھنے والے طویل قامت اور نڈر احسان الٰہی طارق تھے (بعد میں کمشنر اور ریجنل کمشنر انکم ٹیکس ہوئے) جو بولے۔ انہوں نے گرجتے برستے صاحب کو مخاطب کیا۔ 
’’اگر تمہارے گھر میں کبھی انڈا فرائی ہوتا تو تمہیں پتہ ہوتا کہ یہ بدبخت زردی ٹوٹ بھی جاتی ہے اور ٹوٹی ہوئی زردی کو بھی کھا لیا جاتا ہے‘‘۔ 
بھارتی شیوسینا کے جن ارکان نے دلی میں روزہ دار مسلمان سپروائزر ’’ارشد زبیر‘‘ کے منہ میں زبردستی روٹی ٹھونس کر اس کا روزہ ناپاک کرنے کی غلیظ حرکت کی، اگر ان کے گھروں میں روٹیاں پکتیں تو انہیں معلوم ہوتا کہ روٹی خراب بھی ہو جاتی ہے۔ جل بھی جاتی ہے اور جنہوں نے گھروں میں بچپن سے ملازم دیکھے ہوں انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ذرا ذرا سی باتوں پر انسان شیطان کا روپ نہیں دھار لیتے۔ 
نہرو اور گاندھی ساری اسلام دشمنی کے باوجود ایسی گری ہوئی حرکت نہ کرتے۔ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن پٹیل بھی شاید ایسا نہ کرتا۔ یہ وہ لوگ تھے جو کھاتے پیتے گھروں سے تھے۔ سیاسی اختلافات سے قطع نظر یہ ہندوئوں کی رکھ رکھائو والی نسل تھی۔ انہوں نے نوکر بھی دیکھے تھے‘ سائیس اور کوچوان بھی دیکھے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ باورچی سے روٹی جل بھی جاتی ہے۔ بھارت پر جو گروہ اب حکمران ہے، یہ وہ گنجے ہیں جنہیں قسّامِ ازل کی بے نیازی نے ناخن دے دیئے ہیں۔ ان لوگوں کے خاندان نیچ‘ فیملی بیک گرائونڈ گھٹیا اور قوتِ برداشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مہاراشٹر کے یہ گیارہ مرہٹے ارکانِ پارلیمنٹ نسلوں سے بھوکے تھے‘ اس قدر کہ خراب روٹی دیکھ کر خارش زدہ جانوروں کی طرح کچن میں گھُس گئے۔ برتن توڑ ڈالے‘ قابیں اور ڈونگے ہوا میں اچھالنے شروع کردیئے۔ کچن کا سپروائزر مسلمان تھا۔ اس کے سینے پر اس کے نام کی پلیٹ آویزاں تھی۔ جس پر ارشد زبیر لکھا ہوا صاف نظر آ رہا تھا۔ پھر جب ان رذیلوں نے اس کے منہ میں جلی ہوئی روٹی ٹھونسنا شروع کی تو اس نے بار بار بتایا کہ میں روزے سے ہوں لیکن سعدی نے صحیح کہا تھا کہ گرگ زادہ گرگ ہی رہتا ہے‘ مرہٹے کو حکومت بھی مل جائے تو وہ ڈاکو ہی رہتا ہے اور اس کی سرشست وہی رہتی ہے جسے اورنگ زیب نے سمجھ لیا تھا اور درست سمجھا تھا۔ مکار‘ دھوکے باز اور جھوٹے شیوا جی کو اورنگ زیب نے موشِ کوہستانی (پہاڑی چوہے) کا خطاب دیا تھا۔ یہ وہی شیوا جی تھا جس نے اورنگ زیب کے طویل قامت جرنیل افضل خان کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنایا اور جب وہ اس پستہ قد پہاڑی چوہے سے گلے مل رہا تھا تو قتل کردیا۔ ضمیر جعفری نے لکھا تھا: 
سچ کہتا تھا افضل خان 
تری پورہ تا راجستھان
مر گیا ہندو میں انسان 
مغلوں کو زوال آیا تو یہ ڈاکو دلی تک پہنچ گئے اور ’’چوتھ‘‘ کے نام سے بھتہ گیری شروع کردی۔ شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو بلایا۔ اس نے ان میں سے بہت سوں کے گلے کاٹے۔پانی پت کا میدان مرہٹوں کی لاشوں سے سنڈاس میں تبدیل ہو گیا لیکن سیماب پا احمد شاہ ابدالی مغرب کی طرف واپس لوٹ گیا۔ 
عید کے چاند پر جھگڑا کرنے والوں اور پگڑیوں کے رنگوں سے اپنے اپنے گروہوں کی شناخت کرنے والے پاکستانیوں کو اس حقیقت کا احساس ہی نہیں کہ ریلوے سٹیشن پر چائے بیچنے والا بھارت میں وزیراعظم بن چکا ہے۔ اس کا فیملی بیک گرائونڈ گاندھی اور نہرو کے فیملی بیک گرائونڈ سے مختلف ہے۔ بچھو‘ بچھو ہی رہتا ہے اور اس کچھوے کو بھی ڈنگ مار کر رہتاہے جس کی پیٹھ پر سوار ہو کر دریا پار کر رہا ہوتا ہے۔ مہاراشٹر کے ڈاکو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں براجمان ہو چکے ہیں۔ آج نہیں تو کل یہ پاکستان سے ضرور نبردآزما ہوں گے۔ ارشد زبیر کے روزے کی توہین وہ پہلی اینٹ ہے جو جنوب کے ہندو ڈاکوئوں نے رکھ دی ہے۔ اس بنیاد پر جو عمارت وہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس کا نقشہ ہر پاکستانی کو سمجھ میں آ جانا چاہیے۔ بھارتی ڈاکوئوں کے عزائم سے آگاہ کرنا صرف حافظ سعید کا فرض نہیں ہے، یہ ان سیاسی اور مذہبی راہنمائوں کا بھی فرض ہے‘ جو تجوریاں بھرنے کے بعد اب جیبیں بھر رہے ہیں اور اپنا مستقبل پاکستان کے بجائے دبئی‘ لندن اور نیویارک سے وابستہ کر چکے ہیں۔ 
بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ ابھی تک شیوسینا اور اس کے حکومتی اتحادی بی جے پی نے اپنی غلطی تسلیم کی ہے نہ ارشد زبیر سے اور دوسرے مسلمانوں سے معافی مانگی ہے۔ 
لوک سبھا میں جب اپوزیشن اس واقعے پر احتجاج کر رہی تھی تو دہلی سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے چیخ کر ایک مسلمان رکن پارلیمنٹ کو کہا کہ تم پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے۔ 
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان اس واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف تلنگانہ صوبے نے ثانیہ مرزا کو اعزاز دیا ہے تو اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ثانیہ تو پاکستان کی بہو ہے۔ ثانیہ مرزا کو یہ تک کہنا پڑا کہ وہ کب تک بھارتی ہونے کا یقین دلاتی رہے گی! 
پس نوشت۔ گجرات میں جس بچے کے بازو کاٹ دیئے گئے، اس کی عیادت کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب نے جو ریمارک دیئے اور جس صورتحال کا انہیں سامنا کرنا پڑا‘ اس کا ایک اور صرف ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ کئی عشرے اقتدار میں رہنے کے باوجود موجودہ حکمران سسٹم نہیں بنا سکے اور اب بھی سارا نظام ’’مَیں‘‘ کے اردگرد گھوم رہا ہے۔ پرچہ درج کرنے میں تاخیر اور بچے کے علاج میں کوتاہی پر وزیراعلیٰ نے ایم ایس کو عہدے سے ہٹا دیا جبکہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کردیا۔ ایک فقرہ وزیراعلیٰ نے ایسا کہا کہ موجودہ بدانتظامی کا اعتراف اس سے بہتر طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعلیٰ نے کہا ’’غریب کے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر بروقت قانون حرکت میں کیوں نہیں آیا؟‘‘ جناب عالی! حکمران اعلیٰ آپ ہیں۔ یہ سوال تو آپ کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ زمیندار کو پکڑ لیا تو مقدمہ درج کرنے کی توفیق کیوں نہ ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے ایک اور بات کی جو کل کا مورخ ان کی حکومت پر اور ان کے اسلوب حکومت پر رائے دیتے ہوئے لکھے گا ’’مقدمہ اس وقت درج ہوتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا ہے‘‘! 
وزیراعلیٰ غمزدہ ہوئے۔ ان کا اندر کا کرب ان کے خلوص کو ظاہر کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک شہباز شریف کس کس ضلع کے کس کس تھانے میں پہنچے گا؟ کس کس ہسپتال کے ایم ایس کو معطل کرے گا؟ اور کس کس ایس ایچ او کی سطح پر نیچے اترے گا؟ حضور! اپنے کرب کو کسی سسٹم میں ڈھال دیتے تو آج آپ کو ہر جگہ پہنچ کر وہ کام بنفس نفیس نہ کرنے پڑتے جو نظام میں خودبخود ہو جاتے ہیں۔ نظام کو بنانے اور بروئے کار لانے کے لیے عمرِ نوح ملتی ہے نہ درکار ہے۔ اگر جناب کے حواریوں میں کوئی پڑھا لکھا ہے تو اسے حکم دیجیے کہ علائوالدین خلجی اور شیر شاہ سوری کی سوانح حیات آپ کی خدمت میں پیش کرے!!

Saturday, July 26, 2014

سنتا جا شرماتا جا

سنگاپور میں تین قومیتیں بستی ہیں، چینی، جو اکثریت میں ہیں۔ ملے ،جو ملائیشیا، انڈونیشیا اور برونائی کے مسلمانوں کی طرح مقامی ہیں۔ ہندوستانی نژاد، جو سیاہ فام تامل ہیں۔ دو ہفتے قبل ایک خبر سنگاپورکے بارے میں پڑھ کر حیرت ہوئی۔ پولیس نے دواشتہاری ملزموں کوپکڑا، لیکن ایک ممبر پارلیمنٹ نے پچاس ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے تھانے پر حملہ کردیا اوراشتہاری ملزم چھڑوا کر ساتھ لے گیا۔ تشدد کی وجہ سے ایک پولیس افسر کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ تھانے کی عمارت اور فرنیچر جس طرح تہس نہس ہوا وہ الگ قصہ ہے۔
ورطۂ حیرت میں ابھی میں غوطے کھا ہی رہا تھا کہ ایک اوروحشت اثر خبر بجلی بن کر گری۔ یہ خبرمتحدہ عرب امارات کی تھی۔ دوبدمعاشوں نے ایک 21 سالہ لڑکی کو اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایا۔ درندے ساتھ فلم بھی بناتے رہے۔ اس پر ان انسان نما جانوروں کو پولیس نے گرفتارکرلیا، لیکن پارلیمنٹ کا مقامی ممبر اپنے دوستوں کے ساتھ پولیس افسر کے پاس آیا اور ملزموں کو چھوڑنے کیلئے دبائو ڈالتا رہا۔ ایک ملزم کا بھائی وکیل برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ وکیل بھی اکٹھے ہوگئے۔ ممبر پارلیمنٹ اور وکلاء نے پولیس افسر پر اس قدر جسمانی تشدد کیا کہ وہ زخمی ہوگیا۔
ابھی جبیں سے پسینہ بھی نہیں پونچھا تھا کہ مقبوضہ فلسطین سے ایک دردناک خبر موصول ہوئی۔ ایک بے رحم لینڈ لارڈ نے ایک غریب فلسطینی بچے کے دونوں بازو جسم سے کاٹ کر الگ کردیئے۔
آپ حیران ہو رہے ہیں۔ کنفیوزڈ ہیں۔ اس لئے نہیں کہ تھانے پر حملے ہوئے یا بچے کے بازو کاٹ دیئے گئے۔ ان خبروں کے جو حصے آپ کو ہضم نہیں ہورہے وہ اور ہیں! آپ حیران ہیں کہ سنگاپور میں تھانے پر حملہ اوروہ بھی پچاس افراد کا… یہ کس طرح ممکن ہے؟ پھر یو اے ای میں۔ اول تو اجتماعی زیادتی کی کسی کی جرأت ہی نہیں ہوتی۔ اس پر مستزاد یہ حیرت انگیز خبر ہے کہ ممبر پارلیمنٹ اوراس کے جتھے نے پولیس افسر کو مارا پیٹا۔ یہ اس یو اے ای میںکس طرح ممکن ہے جہاں شاہی خاندان کا فرد بھی غلط پارکنگ کرے تو پولیس والا کھڑے کھڑے وہیںچالان کر دیتا ہے۔ کوئی فون آتا ہے نہ کسی کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔ نہ ہی چالان کرنے والے کو نوکری بچانے کیلئے ہاتھ جوڑ کر پائوں پکڑ کر معافی مانگنا پڑتی ہے۔
آپ کی حیرت بجا ہے۔ یہ دونوںواقعات سنگاپور میں ہوئے نہ یو اے ای میں۔ یہ تو پاکستان میں رونما ہوئے۔ پہلا فیصل آباد میں، دوسرا قصور میں۔ لیکن پوچھا جانا چاہیے کہ لکھنے والے نے آئو دیکھا نہ تائو، ان دو بے قصور ملکوں کو خواہ مخواہ کیوں رگڑڈالا؟
اس لئے کہ دونوں ہمارے جیسے ہیں۔ سنگاپور ہماری طرح کا ایشیائی ملک ہے۔ وہاں گوروں کی آبادی ہے نہ انگریزوں کی حکومت! ابھی کچھ عرصے پہلے تک وہاںکا صدر ایک سیاہ فام تامل ہندو تھا! چند عشرے قبل سنگاپور ایک ساحلی گائوں تھا۔ گندا اور پسماندہ! گلیاں کیچڑ سے بھری ہوئی! مدقوق چینی عورتیں ، قلی بن کر سر پر سامان اٹھائے پھرتی تھیں۔ سائیکل رکشے ٹرانسپورٹ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔
یو اے ای ہماری طرح مسلمان ہیں۔ کوٹ پتلون پہنتے ہیں نہ ٹائی لگاتے ہیں۔ قبا نما لمبی قمیض اور سر پر رومال۔ نمازیں پڑھتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں، عمرے اور حج ادا کرتے ہیں۔ مرنے والے کا جنازہ پڑھتے ہیں اور نوزائیدہ کے کان میں اذان کہتے ہیں۔
تو پھر یہ کیوں ہے کہ اس طرح کے ’’واقعات‘‘ سنگاپور یا یو اے ای کے حوالے سے کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں؟ اس کی وجہ لکھنے والا بھی جانتا ہے اورپڑھنے والے بھی۔ اور تو اور اس کی وجہ حکمران بھی جانتے ہیں۔ لیکن جاننا اور بات ہے، ماننا اور!
اگر یہ واقعہ سنگاپور یا یو اے ای میں ہوتا تو کیا وہ ایم پی اے صاحب اب تک زنداں سے باہر ہوتے؟ نہیں! اور یہ ہے فرق پاکستان اور سنگاپور میں۔ اور پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں! امریکہ اور سوئٹزرلینڈ کی تو ہم بات ہی نہیں کرتے۔
یہ واقعہ رونما ہوا تو پہلے تو پنجاب کے حکمران اعلیٰ نے کمیٹی بنائی کہ انکوائری کرے گی تو کیا ان معاملات میںبھی انکوائری کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں جہاں ایم پی اے ملوث نہ ہو؟ پھر کمیٹی نے رپورٹ میںکنفرم کیا کہ ایم پی اے ملوث ہے تو حکمران اعلیٰ نے گرفتاری کا ’’حکم‘‘ دیا۔ تو کیا ہر ضلع کے ہر پولیس سٹیشن کے معاملات میں حکمران اعلیٰ خود گرفتاری کے احکام دیتا ہے؟ پھر ایف آئی اے میں’’ایک سیاست دان‘‘ کا نام لیا گیا یعنی آج تک ایف آئی آرمیں متعلقہ فرد کانام ہی شامل نہیں! تادم تحریر وہ گرفتار نہیں ہوا۔ کیا کوئی ذی عقل پاکستانی یہ بات مان سکتا ہے کہ پنجاب پولیس کسی کوگرفتار کرنے پر تل جائے اوروہ گرفتار نہ ہو؟ یہی صاحب فروری 2013ء میں اسی پولیس سٹیشن پر حملہ کرنے اور ایک پولیس افسر کو زدوکوب کرنے کے مجرم نکلے۔ آرٹیکل 65 کے تحت مقدمہ قائم ہوا لیکن اس سے پہلے کے پولیس ایکشن لیتی، آپ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔ اور اسمبلی کا ممبرگرفتارنہیں ہوسکتا۔!! ہوسکتا تو وزیراعلیٰ انکوائری کمیٹی بناتے نہ ذاتی طور پر خود احکام دیتے پھرتے! جوکچھ قصور میں ہوا، یعنی ایم پی اے اور وکیل برادری نے پولیس افسر پر اخباری اطلاعات کے مطابق حملہ کیا۔ تشدد کے مرتکب ہوئے تو کیا ملزم گرفتار ہوئے؟
روزنامہ دنیا کی خبر کے مطابق ’’ایس ایچ او نے میڈیکل حاصل کرکے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی کوشش کی تو ڈی پی او نے ایس ایچ او صدر کومقدمہ درج کرنے سے روک دیا‘‘۔
اس خبر کے ساتھ حبیب جالب فیم حکمران اعلیٰ کا یہ بیان ملاحظہ کیجیے۔’’سہل پسند افسر مجھ سے رعایت کی امید نہ رکھیں…!‘‘
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سہل پسند افسر سے مراد وہ افسر ہوگا جو کسی ایم پی اے یا ایم این اے کو گرفتار کرنے کی جرأت کرے گا! ایسے افسر کسی رعایت کی امید نہ رکھیں۔
رہی یہ خبر کے اسرائیل میں ایک فلسطینی دس سالہ بچے کے دونوں بازو کاٹ دیئے گئے ہیں تو یہ واقعہ اسرائیل میں یقینا نہیں ہوا۔ اگرایسا ہوتا تو… عمران خان سے لے کر سراج الحق تک اور منور حسن سے لے کر وحدت المسلمین کے رہنمائوں تک سب مذمت کرچکے ہوئے۔ یہ واقعہ پاکستان میں ہوا۔ اوروہ بھی وسطی پنجاب میں جو حکومتی پارٹی کی لائف لائن ہے۔ معصوم بچے کے دونوں بازو جان بوجھ کر، کاٹے گئے اور آسمان ٹوٹا نہ زمین دھنسی۔ یہ خبر ہمارے رہنمائوں کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اعتزاز احسن سے لے کر رضا ربانی تک، مولانا فضل الرحمن سے لے کر الطاف حسین تک سب چپ ہیں۔ اس لئے کہ یہ بچہ پاکستانی ہے۔ اور پاکستانی صرف اس لئے ہیں کہ ان کے جسموں کے ٹکڑے کر دیئے جائیں۔ اگر یہ بچہ چیچنیا کا ہوتا یا فلسطین کا تو بیانات سے لے کر جلوسوں تک…ایک ہنگامہ برپا ہو چکا ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ ملزم ، اگرایم پی اے نہیںہے تو گرفتار کرلیا گیاہو لیکن تادم تحریرمظلوم خاندان ایف آئی آر کٹوانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اگر حکمرانوں کو وقت میسر آ گیا تو انکوائری کمیٹی بٹھائی جائے گی اور پھرجرم ’’ثابت‘‘ ہونے پر حکمران بہ نفسِ نفیس حکم دیں گے کہ ایف آئی آر کاٹی جائے۔
تازہ خبر بھی سنتے جائیے کہ کئی ممالک کے ارکان پارلیمنٹ جو قانون سے مبرا نہیں اور پولیس انہیں کسی کے ’’خاص حکم‘‘ کے بغیر ہی پکڑ سکتی ہے، کوشش کر رہے ہیںکہ پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبربن جائیں۔ یہ بھی خبر بھی گرم ہے کہ ظالم اسرائیلی جو فلسطینی بچوںکے بازو کاٹنے کے خواہشمند ہیں اور ایسا نہیں کرپا رہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں شور برپا ہو جائے گا، پاکستانی بچوںکودرآمد کرنے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ اگر پاکستانی بچوں کے بازو کاٹ کر پھینک دیئے جائیں۔ تو شور کیا برپا ہوگا، پتہ تک نہیں ہلے گا!

Wednesday, July 23, 2014

ہم اپنے عہد کے وہ مطمئن منافق…


بس ساری رات چلتی رہی۔ ڈرائیور کبھی موسیقی لگاتا اور کبھی کچھ مذہبی شاعری۔ سونا مشکل تھا۔ دو دفعہ بس رکی۔ مسافروں کو عام اور ڈرائیور کو الگ کمرے میں خاص چائے دی گئی۔ صبح آٹھ بجے جب وہ دارالحکومت کے بڑے بس سٹاپ پر اترا تو اس کا انجر پنجر ہلا ہوا تھا۔ دس بجے انٹرویو تھا، لیکن جب وہ وزارت کے دفتر سے باہر نکلا تو دو بج رہے تھے۔ رات بھر کا سفر ، صبح کے بعد دوڑ دھوپ، دو اڑھائی گھنٹے ویٹنگ روم میں وہ انتظار جس کی تعریف اشد من القتل کی گئی ہے۔ آنتیں قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ اس دن درجہ حرارت چالیس سے ذرا ہی کم تھا۔ ٹیکسی لی اور سب سے بڑے بازار پہنچا۔ وہ پہلی بار اس شہر میں آیا تھا لیکن کامن سینس اسے کہہ رہا تھا کہ جس شہر میں ساری دنیا کے ملکوں کے سفارت خانے ہیں، بین الاقوامی کمپنیاں ہیں، وفاق کی بیسیوں وزارتیں ہیں، ان گنت محکمے ہیں، وہاں ہر روز لاکھ نہیں تو ہزاروں مسافر یقینا آتے ہوں گے۔ انہیں اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھیں۔ یہ اجازت کسی دنیاوی قانون یا ریاستی آئین نے نہیں دی۔ یہ اسی طاقت نے اپنے کلام میں مرحمت کی جس نے روزہ فرض کیا ہے۔ وہ پورے بازار میں ،بازار کے اندر کی گلیوں میں پھر پچھواڑے ، ہر جگہ پھرا، لیکن اسے کوئی ٹوٹا پھوٹا گیا گزرا ریستوران بھی کھلا نہ ملا جہاں وہ دو چپاتیاں ، ایک پلیٹ دال اور ایک پیالی چائے حاصل کرسکتا۔ ایک ہوٹل نظر پڑا، رات تو گزارنا تھی۔ کمرہ لے کر سب سے پہلے اس نے کھانے کا پوچھا لیکن ریسیپشن پر بیٹھے شخص نے ایک ادائے بے نیازی سے بتایا کہ رمضان میں ہوٹل کا کچن دن کو بند رہتا ہے۔
’’مگر آپ کا تو کاروبار ہی مسافروں کی وجہ سے چل رہا ہے اور مسافروں کوروزے کی رخصت ہے۔‘‘
ریسیپشن والے نے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور ایک اور گاہک کے ساتھ مصروف ہوگیا۔ہمت جواب دے چکی تھی۔ اس قدر کہ اب وہ کسی بیکری کی تلاش میں مزید خوار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے گرم پانی پیا اور بستر پر دراز ہوگیا۔ ’’افطاری‘‘ کے لیے ہوٹل کے ریستوران میں پہنچا تو اس کے قدم ، بلا مبالغہ ، لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ روزہ داروں کے ساتھ سائرن بجنے کا انتظار کرنے لگا۔
لیکن اس شخص کی حالت تو اور بھی ابتر تھی جو اپنا ایکسرے اٹھائے ہسپتال کے وسیع و عریض برآمدوں میں پھررہا تھا۔ رپورٹ بتا رہی تھی کہ شوگر کنٹرول نہ ہونے سے گردے ڈھلنا شروع ہوگئے ہیں ۔ یہ اس کا تیسرا چکر تھا لیکن ماہر امراض گردہ صاحب ’’ میٹنگ‘‘ میں تھے۔ رمضان سے پہلے آتا تو بتایا جاتا کہ ڈاکٹر صاحب چائے پینے گئے ہیں۔ رمضان میں یہی کام ، یعنی مریضوں کو ذلیل کرنے والا، میٹنگ پر جاکر کیا جارہا تھا۔ امتلا کا دورہ پڑا اور وہ ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ ڈاکٹر چار گھنٹے انتظار کرائے گا۔ بیوی کو کہہ کر آیا تھا کہ کھانے کے وقت تک آجائے گا لیکن ابھی تو مزید انتظار کرنا تھا۔ شوگر کے مریض کو وقت پر کھانا نہ ملے تو جو نتیجہ نکلتا ہے وہ شوگر کا مریض ہی جانتا ہے۔ دوسرے محض اندازہ کرسکتے ہیں اور اندازہ ، اندازہ ہوتا ہے۔ اس نے ہسپتال کے ایک ملازم سے پوچھا کہ کینٹین کہاں ہے ؟
’’ بھائی میاں ! کینٹین بند ہے۔ رمضان ہے‘‘
’’ لیکن میری طبیعت بگڑ رہی ہے۔ کھانا نہ ملا تو میں بے ہوش ہوسکتا ہوں۔‘‘
ہسپتال کے ملازم نے کندھے اچکائے اور اس طرف چل دیا جہاں اسے جانا تھا۔
پائوں گھسیٹتا ایک کھوکھے تک پہنچا۔ بسکٹ کا ڈبہ لیا لیکن یہ میٹھے بسکٹ تھے۔ اس نے نمکین بسکٹوں کا پوچھا۔ کھوکھے والے نے کہا کہ نمکین بسکٹ نہیں ہیں۔ اس نے پانی کی بوتل خریدی، واپس ڈاکٹر کے کمرے تک جاتے ہوئے امتلا کا ایک اور دورہ پڑا۔ قدم لڑکھڑائے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔
لیکن ان میاں بیوی کی حال تو کئی درجے زیادہ قابل رحم تھی جو محلے میں کریانہ سٹور کے سامنے والی گلی کے آخری گھر میں رہتے تھے۔ میاں اسّی کے لگ بھگ کا تھا اور عورت کچھ کم۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو ٹریفک کے حادثے میں مدتوں پہلے جاں بحق ہوگیا تھا۔ پنشن اتنی ہی تھی کہ بس قوت لایموت والا گزارا مشکل سے ہو رہا تھا۔ ملازم رکھنا بس سے باہر تھا۔ دور کی ایک رشتہ دار عورت آٹھ دس دن بعد آکر گھر کی چھوٹی موٹی صفائی کردیتی تھی۔ بڑے میاں گرتے پڑتے ،اٹھتے بیٹھتے ساتھ والی گلی کے ریستوران تک جاتے اور دوپہر اور شام کا کھانا لے آتے ۔ ریستوران کیا تھا بس دال روٹی والا تنور ہی تھا۔ مالک کا بڑے میاں سے انس بھی تھا۔ کام کرنے والا لڑکا صبح اور پھر عصر کے وقت چائے کے دو مگ بڑے میاں کوگھر دینے آجاتا۔ دونوں ڈبے سے رس نکالتے اور ’’ ناشتہ ‘‘کرلیتے۔ رمضان شروع ہوا تو زندگی اذیت کا ایسا درخت بن گئی جس کے کانٹوں بھرے سائے میں ان کے لیے کرب کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ریستوران بند ہوگیا۔ بڑے میاں کے لیے بازار سے سودا لانا اور بڑھیا کے لیے کھانا پکانا ایک جانکاہ عمل تھا۔ ریاست کا وجود ہی نہ تھا۔ حکومت کو خبر نہ تھی کہ ساری زندگی تنخواہ سے ٹیکس کٹوانے والا قانون پسند شہری اب حکومت کا محتاج تھا۔ بابا رینگتا رینگتا سبزی والی دکان پر پہنچتا۔ واپسی پر دروازوں کے سامنے بنے چبوتروں پر سستاتا، لاٹھی پٹکتا، گھنٹوں بعد گھر پہنچتا۔ پھر بڑھیا کی آزمائش شروع ہوجاتی۔ بسترسے اٹھنا، آٹا گوندھنا، روٹی پکانا، سبزی کاٹنا، پھر برتن دھونا… شام تک بے حال ہوجاتی۔ بے سدھ ہوکر بستر پر گر پڑتی۔ بابا اس کی کمر سہلاتا پنڈلیاں دباتا اور پھر خود بستر پر گر پڑتا۔ صبح تک بے جان لاشوں کی طرح دونوں پڑے رہتے۔
سنا ہے کہ اس دیار میں ایک زمانہ وہ بھی تھا جب رمضان میں ریستوران کھلے رہتے تھے۔ دروازوں پر پردے ڈال دیے جاتے۔ مسافر، بیمار، بوڑھے پیٹ کی آگ بجھالیتے۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ وعدہ خلافی کا ارتکاب نہیں کرتے تھے۔ حرام نہیں کھاتے تھے۔ اکا دکا کوئی کھاتا تو چھپتا پھرتا۔ غذا میں ملاوٹ کم تھی۔ جعلی دوائوں کا رواج نہ تھا۔ ماپ تول پورا ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک کا سابق وزیراعظم (چودھری محمد علی) بیرون ملک علاج کے لیے اٹھارہ (یا غالباً اٹھائیس )ہزارروپے ریاست سے ادھار لیتا اور پھر قسطوں میں ایک ایک پائی واپس کرتا۔ جب سرکاری ملازم، سرکاری گاڑیاں پرائیویٹ کام کے لیے استعمال کرتے تو فی میل کرائے کی رقم خزانے میں جمع کراتے۔ جب قانون کسی کام کی اجازت نہ دیتا تو بڑے سے بڑا حکمران بھی اس قانون میں ترمیم نہیں کرسکتا تھا۔ تب دعائیں قبول ہوتی تھیں۔
پھر ایک ایسا شخص اس ملک پر حکمران بنا جس کا فہمِ دین اس شخص کے فہمِ دین سے زیادہ نہ تھا جسے نیم خواندہ ملا کہا جاتا ہے۔ رمضان میں ریستوران بند ہوگئے۔ مسافر، بیمار اور بوڑھے ایڑیاں رگڑنے لگے۔ جان بوجھ کر روزہ نہ رکھنے والے مشٹنڈوں کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ ایک دوسرے کے گھروں میں دوپہر کو ڈٹ کر کھانے کھاتے ہیں۔ ہاں یہ ہوا کہ اوپر سے نیک نظر آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ ساتھ ہی ملاوٹ کا کاروبار عروج پر ہے۔ معصوم بچوں کا دودھ اور لائف سیونگ دوائیں جعلی ہیں۔ حرام کھانے والے دندناتے پھررہے ہیں اور معزز کہلواتے ہیں۔ سرکاری خزانہ شیر مادر ہے۔ اب دعائیں نہیں قبول ہوتیں۔ رئوف امیر مرحوم نے کہا تھا ؎
شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے
ایک پتہ بھی ہلتا نہیں ہے مگر
یہ سنا ہے کہ پہلے کسی شخص نے
صرف کلمہ پڑھا اور ہوا چل پڑی
نوجوان فقیر علی زریون نے اس لیے ماتم کیا ہے ؎
ہم اپنے عہد کے وہ مطمئن منافق ہیں
جو اپنے آپ کو ترتیب سے گنوا رہے ہیں
ہوائے عصر! کوئی تعزیت تو کر ہم سے
ہم اپنے ملک میں ہجرت کا دکھ اٹھا رہے ہیں
دُکھا ہوا ہوں میں اُن سب سے جو علی زریون

خدا کے نام پہ خلق خدا مٹا رہے ہیں

Monday, July 21, 2014

ہم کب بیدارہوں گے؟


مرکنڈے کاتجو
(Katju)
1946ء میں لکھنؤ میں پیداہوا۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے ایل ایل بی امتحان میں اول آیا۔ الٰہ آباد سے قانون کی پریکٹس کا آغاز لیبر لاء اورٹیکس لاء سے کیا۔ پھر امیٹھی یونیورسٹی سے قانون ہی میں ڈاکٹریٹ کیا۔ مختلف اوقات میں الٰہ آباد ہائیکورٹ، مدراس ہائیکورٹ اور دہلی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا۔ پھرسپریم کورٹ میں تعینات ہوا۔ پھرریٹائرمنٹ کے بعد اسے پریس کونسل آف انڈیا کا چیئرمین مقررکیا گیا۔ پریس کونسل آف انڈیا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ آج اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ ادارہ اس قدر طاقتور ہے کہ اس کے کسی اقدام کو صرف اس وقت چیلنج کیا جا سکتا ہے جب بھارتی آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہو اور یہ خلاف ورزی ثابت بھی کی جاسکے۔
جسٹس مرکنڈے کاتجو ہمیشہ اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے خبروں میں نمایاں رہا۔ ایک باراس نے کہا کہ نوے فیصد بھارتی احمق ہیں۔ اس پر لکھنؤ کے دو طلبہ نے اسے قانونی نوٹس بھیجا کہ وہ اپنے بیان پر معذرت کرے۔ کاتجو نے معذرت تو کی لیکن اپنے بیان کی توضیح بھی کی۔ اس نے کہا کہ نوے فیصد بھارتی ووٹ میرٹ کی بنیاد پر نہیں دیتے، بلکہ برادری، ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ ایک وجہ اس نے یہ بھی بتائی کہ بھارتیوں کی بھاری اکثریت نجومیوں اور ستاروں پر اعتقاد رکھتی ہے۔ ایک بار اس نے یہ بیان دیا کہ اسی فیصد ہندواور اسی فیصد مسلمان… فرقہ واریت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس نے سلمان رشدی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کی ناروا تعریف و توصیف کی جا رہی ہے۔
کاتجو نے اس وقت بھی بھارتی پریس میں غلغلہ برپا کیا جب سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے الہ آباد ہائیکورٹ کے ایک فیصلے پر اس نے رائے زنی کی۔ اس نے وہ فقرہ دہرایا جو شیکسپیئر نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامے ہیملٹ میں ڈنمارک کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’ڈنمارک کی ریاست میںکوئی شے ضرور گلی سڑی ہے‘‘ کاتجو نے اس حوالے سے کہا کہ الٰہ آباد ہائیکورٹ میں بھی کوئی شے ضرور گلی سڑی ہے۔ الٰہ آباد ہائیکورٹ نے اس پر سخت احتجاج کیا لیکن سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس حذف کرنے سے انکارکردیا۔ حکومت نے بھی سپریم کورٹ کا ساتھ دیا۔
کاتجو کی ایک وجہ شہرت اس کی پاکستان کی بارے میں ہرزہ سرائیاں ہیں۔ یہ اس قدرغلط اور غیر فطری ہیں کہ ہندو قوم پرست انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے نظریاتی سرپرست پرمیس وارن جی نے بھی، جو کیرالہ سے ہے، کاتجو کی مکمل حمایت نہیںکی اور کہا کہ اس کے سارے نظریات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہرمیس وارن جی نے، جو کٹر ہندو ہے، یہ بھی کہا کہ جو کاتجو کہتا پھرتا ہے کہ بھارت باہر سے آئے ہوئوں کا ملک ہے اور اکبراعظم نے اور پھرنہرو نے اسے وحدت میں پرویا، ،یہ بھی غلط ہے۔ کاتجو پاکستان کو تسلیم کرتا ہے نہ ہی دو قومی نظریے کو۔
 یہ ساری تمہید تھی۔ اس تمہیدکا مقصد مرکنڈے کاتجو کی اس تقریر کی طرف پاکستانیوں کی توجہ دلانا ہے جو اس نے کچھ عرصہ قبل کیرالہ کے دارالحکومت میں کی۔ اس نے حسب معمول بڑماری کہ بھارت ایک ہو جائے گا۔ اکھنڈ بھارت مضبوط ملک ہو کرابھرے گا۔ اس نے قائداعظم کے بارے میں یہ یاوہ گوئی کی کہ وہ بقول اس کے برطانوی ایجنٹ تھے۔ کاتجو کے یہ ریمارکس نئے نہیں۔ یہ ہرزہ سرائی وہ ایک عرصہ سے کررہا ہے۔ لیکن اس تقریر میں اس نے ایک دلیل نئی دی کہ پاکستان کے طول و عرض میں جو بم دھماکے ہو رہے ہیں، انہوں نے اس ملک کو جراسک پارک میں تبدیل کردیا ہے اور میڈہائوس بنا کر رکھ دیا ہے۔
جہاں تک اکھنڈ بھارت کے ’’ظہور‘‘ کا تعلق ہے تو اس تصور سے اب خود بھارتی کترا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوںکو پہلے ہی بوجھ سمجھتے ہیں۔ بیس کروڑ پاکستانی مسلمانوں اور لگ بھگ اتنے ہی بنگلہ دیشی مسلمانوں کو وہ کیسے برداشت کریں گے؟ یہی رائے ہمارے ایک سابق سفیر کی بھی ہے جو اب بھی بھارت جاتے رہتے ہیں۔
ایک اور صاحب… اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حددرجہ تجربہ کار…ابھی ابھی چھ ہفتے بھارت میں رہ کر آئے ہیں۔ ان کا مشاہدہ یہ ہے کہ ترقی کی رفتار وہاں تیز ہے اور اب ’’متحدہ‘‘ بھارت کی بات کوئی بھی نہیں کرتا! وہ لوگ سمجھتے ہیںکہ پاکستان ان کی اقتصادی ترقی کیلئے ایک مسئلہ بن جائے گا۔
اکھنڈ بھارت کے خلاف یہ دلائل بھارتیوںکے ہیں۔ ہمارے دلائل مختلف ہیں۔ ظاہر ہے پاکستان ترنوالہ نہیںکہ بھارت اسے منہ میں ڈال لے اور چلتا بنے۔ انڈیا کے جواب میں ایٹمی دھماکے پاکستان نے محض دکھاوے اور شوشا کے لیے نہیں کیے تھے ۔ نہ ہی ہماری ایٹمی قابلیت پودینے کے کھیت سرسبز و شاداب کرنے کیلئے ہے۔ پاکستان خوب سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا۔ مذہبی آزادی تو اکھنڈ بھارت میں بھی حاصل ہوسکتی تھی۔ اصل مسئلہ اقتصادی آزادی کا تھا۔ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیںکرتے۔ہندو ذہنیت یہ ہے کہ خلائی تحقیق کا سربراہ خلا میں سیارہ بھیجنے سے پہلے مندر میں حاضری دیتا ہے۔ یہ ذہنیت، انتخابات میں مسلمان امیدواروں کو کیسے ووٹ دیتی؟ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار وہ چمگاڈر ہی کرسکتی ہے جسے دن کی روشنی دکھائی نہیں دیتی!
لیکن ہمارے لئے لمحہ فکریہ کاتجو کے بیان کا یہ حصہ ہونا چاہیے جس میں اس نے پاکستان کے طول و عرض میں دھماکوں کا ذکر کیا ہے۔ اور قائداعظم کے خلاف ایک بار پھر ایسی ہرزہ سرائی کی ہے جس کا تاریخی صداقتوں سے دور کا واسطہ بھی نہیں! نکتہ یہاں یہ ہے کہ خود پاکستان میں ایک اچھی خاص تعداد ان لوگوں کی ہے جو قائداعظم کے بارے میں وہی خیالات رکھتے ہیں جو بھارتیوں میں، خاص کر کاتجو جیسے متعصب ہندوئوں میں پائے جاتے ہیں۔ کون نہیںجانتا کہ دہشت گردوں کے نظریاتی حامی کہاں ہیں؟ سب کو معلوم ہے کہ یہ لوگ کن اداروں میں تعلیم پاتے ہیں۔ ان کی اکثریت کا ذریعہ معاش کیا ہے اور یہ کس طرح ہمارے جذباتی عوام کومشتعل کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ آپ ان لوگوں کی زبان سے قائداعظم کا نام کبھی نہیں سنیں گے۔ مجبوراً کہیں گے بھی تو ’’جناح صاحب‘‘ کہہ دیں گے۔ یہ ایک دردناک امرمحال (Paradox) ہے کہ ایک طرف لبادہ پاکستانی ہے، دوسری طرف نظریات وہ ہیں جو بھارت کے ہندو انتہاء پسندوں کے ہیں۔ اب یہ نکتہ ذہن میں رکھ کر حافظ سعید صاحب کے کل کے بیان پر غورکیجیے۔ حافظ صاحب نے کہا اور برملا کہا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کوجذباتی بنا کر جہاد کے نام پرسرگرم کردیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کو اندرونی طور پر غیرمستحکم کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ حافظ صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ آپریشن بھارتی حواریوںکے خلاف ہو رہا ہے۔ اور شمالی وزیرستان میں تاجک ، ازبک اور دوسرے جنگ جو بھارت کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ حافظ صاحب نے مزیدکہا کہ ہر کافر کے خلاف لڑنا درست نہیں۔ جو کافر مسلمانوںکے علاقے پر قبضہ کر رہے ہیں ان کے خلاف دفاع میں لڑنا جہاد ہے جبکہ پرامن لوگوں کیلئے دین کی دعوت دینا اوراصلاح کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
حافظ صاحب کے کئی نظریات اور طریق کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہبی طبقے میں وہ واحد نمایاں شخصیت ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے حوالے سے مسلح افواج کی ہمیشہ حمایت کی ہے اورڈٹ کر کی ہے اور اس ضمن میں وہ کسی قسم کے معذرت خواہانہ رویے کے قائل نہیں۔ افسوس! صدافسوس! ایک طبقہ دہشت گردی کے حوالے سے اب تک گومگو کے عالم میں ہے۔ مجموعی طورپر دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے اور مسلح افواج کی کھل کر حمایت نہیں کر رہا۔

کیا ہمیں احساس ہے کہ کچھ مرکنڈے کاتجو ہماری صفوں میں بھی ہیں؟ہم کب بیدار ہوں گے؟

Wednesday, July 16, 2014

اہلِ لاہور کا امتحان

شہزادہ تیراندازی کی مشق کررہا تھا۔ جب بھی تیر چلاتا، تیر ہدف کے دائیں یا بائیں نکل جاتا۔ کوئی ایک نشانہ بھی درست نہیں بیٹھ رہا تھا۔ درباری مسخرہ ساتھ تھا۔ آگے بڑھا اور ہدف کے سامنے کھڑا ہوگیا۔’’محفوظ ترین جگہ یہی ہے!‘‘ اس نے کہا۔
گزرے وقتوں کی یہ سبق آموز حکایت یوں یاد آتی کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے بنوں میں آئی ڈی پیز کے ساتھ مصروف دن گزارا اور شمالی وزیرستان میں ہسپتال اور کالج بنانے کااعلان کیا۔ پنجاب حکومت ہر خاندان کو سات ہزار روپے نقد دے رہی ہے۔ خاندانوں کی کثیر تعداد دیکھی جائے تو یہ ایک خطیر رقم بنتی ہے۔ قبائلی عمائدین نے ایک شکایت بہرطورکی کہ تقریب دو بجے شروع ہوئی ہے لیکن انہیں صبح سات بجے ہی بٹھا دیاگیا تھا! وزیراعلیٰ نے ایک معنی خیز اعلان یہ کیا کہ وہ یہاں پنجاب کے نہیں پاکستان کے نمائندے کے طور پر آئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ چینی وزیر خارجہ سے بھی چین جاکر ملے۔ یہ نہیں معلوم کہ وہ ملاقات انہوں نے پنجاب کے نمائندے کی حیثیت میں کی یا پاکستان کا نمائندہ بن کر! تمنائوں کی پرورش ہر شخص کا حق ہے۔ آرزو کے پودے کو پانی دینا کوئی جرم نہیں ! اس سے پہلے پرویز الٰہی وزیراعظم بنتے بنتے رہ گئے۔ جعفر برمکی یاد آرہا ہے۔ بغداد کے مشرقی حصے کا نام شماسیہ تھا۔ برامکہ یہیں آباد تھے۔ ان کے محلات اس درجہ عالی شان تھے کہ سیاح جو بغداد آتے ان محلات کو دیکھنے ضرور آتے۔یحییٰ برمکی اور فضل برمکی نے الگ الگ محلات تعمیر کرائے لیکن آخر میں جعفر برمکی نے جو عمارت بنوائی وہ ان سب کو پیچھے چھوڑ گئی۔ اس زمانے میں دو کروڑ درہم لاگت آئی۔ اس وقت کی دنیا میں شاید ہی اس کی نظیر ہو۔ جب محل تیار ہوگیا تو جعفر نے نجومی جمع کیے اور پوچھا کہ کس ساعت سعید میں نقل مکانی کی جائے۔ زائچے بنائے گئے اور طے یہ ہوا کہ نصف شب کو مکان میں منتقل ہوا جائے۔ جب جعفر منتقل ہورہا تھا تو رات کا سناٹا تھا۔ لوگ گھروں میں سورہے تھے لیکن ایک شخص گلی کے کونے میں کھڑا ہوکر کہہ رہا تھا:
تدبر بالنجوم ولست تدری و رب النجم یفعل مایشاء تم ستاروں کی مدد سے تدبیریں کررہے ہو حالانکہ تم کچھ جانتے ہی نہیں۔ ستاروں کا پروردگار جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
کچھ عرصہ بعد جو کچھ جعفر کے ساتھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور یہ تو ہمارے سامنے کی تاریخ ہے۔ حسنی مبارک کا بیٹا جمال مبارک، حکمران پارٹی کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھا اور ’’ پالیسی کمیٹی‘‘ کا سربراہ ‘ لیکن تخت پر نہ بیٹھ سکا۔ شاہ ایران کے بیٹے کو تخت ملا نہ قذافی کے فرزند کو۔
و رب النجم یفعل مایشاء ، ستاروں کا خدا جو چاہے کرے!
تاہم ایک اور بات بھی ہے اور وہ انصاف کی ہے! پنجاب کے وزیراعلیٰ سے اختلافات اپنی جگہ ، سوال یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ بھی تو آئی ڈی پیز کا دکھ بانٹنے بنوں آسکتے تھے۔ انہیں کسی نے منع تو نہیں کیا۔ وہ آتے اور جوپروٹوکول پنجاب کے وزیراعلیٰ کو ملا، انہیں نہ ملتا تو گلہ کرتے ! کل کے روزنامہ دنیا میں سابق صدر جناب آصف زرداری کا بیان چھپا ہے کہ آئی ڈی پیز کے ساتھ حکومت کا سلوک بے رحمانہ اور مجرمانہ ہے۔  ایسے موقع پر انگریز کہا کرتے ہیں Look! Who is Talking!پانچ سالہ دور صدارت میں موصوف خود قصر سے نکل کر کراچی کے علاوہ شاید ہی کہیں تشریف لے گئے ہوں۔ فوجی جوان شہید ہوتے رہے، دھماکوں سے عوام کی چیتھڑے اڑتے رہے۔ زمین ہل کر رہ گئی لیکن آپ اپنی جگہ سے نہ ہلے!
واپس چلتے ہیں۔ شہزادہ تیر اندازی کی مشق کررہا ہے اور محفوظ ترین جگہ ہدف ہے! ہمارے وزیراعلیٰ چین سے لے کر بنوں تک ہر جگہ موجود ہیں۔ دیکھنے والے ان کی شبانہ روز نقل و حرکت پر حیران بھی ہورہے ہیں‘ عش عش بھی کررہے ہیں! لیکن لاہور ہاتھوں سے پھسلا جارہا ہے۔ ایک معاصر میں ایک خاتون کا درد ناک مضمون دو دن پیشتر شائع ہوا ہے۔  لاہور میں رہنے والی خاتون لکھتی ہے کہ سڑک کے درمیان کھڑی گاڑی کو اس نے ہارن دیا تو گاڑی سے ایک شخص نکل آیا جس نے بندوق تانی ہوئی تھی! پھر وہ نوحہ خوانی کرتی ہے کہ بھتہ گیری، اغوا اور قتل و غارت جس کا بازاروں اور مارکیٹوں سے آغاز ہوا اب لاہور کے کھاتے پیتے پوش رہائشی علاقوں میں پہنچ چکا ہے!
انسان ورطۂ حیرت میں گم ہوجاتا ہے ! یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حکمران خاندان ذہانت سے محروم ہے۔ نہیں !ایسا ہرگز نہیں! کاروبار کو آسمانوں تک لے جانے والے غیر ذہین کیسے ہوسکتے ہیں ! تو پھر کیا وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ میگا پروجیکٹ، سکیورٹی کا مسئلہ خود ہی حل کردیں گے ؟ بسیں ، ٹرینیں ، پل، انڈر پاس ، اغوا کاروں ، قاتلوں اور بھتہ خوروں کو نگل جائیں گے؟ انسان ورطۂ حیرت میں گم ہوجاتا ہے۔ گھر ، گاڑیاں اور سب سے بڑھ کر جانیں محفوظ نہیں تو میگا پروجیکٹ کس کام کے !
آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے۔ معجزے کا امکان بھی نہیں نظر آرہا کہ معجزات انبیا کے ساتھ مخصوص ہیں! ایک شے… صرف ایک شے … امن وامان کی ضمانت دے سکتی ہے۔ پولیس کی خود مختاری ، عدم مداخلت، سیاست زدگی کا خاتمہ۔ آج پاکستان میں یو اے ای اور سعودی عرب کے امن وامان کی مثال عام دی جاتی ہے! کیا وہاں کا کوئی شہزادہ ، کوئی وزیر ، یہاں تک کہ بادشاہ ، پولیس کے کام میں مداخلت کرتا ہے؟ سنگا پور کے وزیراعظم کے فرزند نے ٹریفک کا قانون توڑا تو جیل میں ڈال دیاگیا۔ ماں نے عام شہری کی حیثیت سے مقدمہ لڑا۔ پاکستان کا ہر اخبار نویس برطانوی وزیراعظم کے اس بیان پر حسرت بھرا تبصرہ کرچکا ہے جو انہوں نے پاکستان میں دیا تھا کہ برطانوی حکومت وہاں کی پولیس کے امور میں مداخلت نہیں کرسکتی !
پاکستانی پولیس استعدادِ کار میں اور عقل و دانش میں دنیا کی کسی پولیس فورس سے پیچھے نہیں ۔ اسے کام کرنے کی آزادی میسر ہو تو زمین کی تہہ سے مجرم ڈھونڈ نکالتی ہے لیکن آزادی میسر ہوتو تب ! اور یہ آزادی تاحال ناممکنات میں سے ہے۔ موجودہ حکومت کا اس ضمن میں رویہ گزشتہ حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی مسلم لیگ قاف … سب یہی کچھ کرتی رہیں۔ آج پولیس افسر تعینات ہوا، چند مہینوں بعد ہٹا دیاگیا۔ کیریئر پلاننگ، یکسر مفقود ہے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کسی ایک پولیس افسر کا بھی ’’کیریئر چارٹ ‘‘ دکھا سکتی ہے‘ جس میں اس نے سروس کے دوران تین تین سال کا عرصہ مکمل کیا ہو ؟ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو تو اتنی بھی آزادی نہیں، جتنی ڈاکخانے کے کلرک کو حاصل ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تو خود ایک ڈاکخانہ ہے۔ وزیراعظم آفس سے ٹیلی فون آتا ہے اور کیریئر پلاننگ کی ایسی تیسی ہوجاتی ہے! فلاں کو لگادو ، فلاں کو ہٹا دو ! کون ہے جو کہے کہ ’’نہیں ! ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ ہمارا کام ہے، ہمیں ہی کرنے دیجیے‘‘ پھر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے ریٹائرمنٹ کے بعد مزید تین سال کی ملازمت مانگنی ہو تو کیسے انکار کردے گا۔ دروغ برگردن راوی ! ایک سابق سیکرٹری یہ دعویٰ کرتے ہوئے سنے گئے کہ یہ جو سول سروس کے تربیتی اداروں میں فوجی افسر لگائے گئے تھے تو انہی کی تجویز پر لگائے گئے تھے  ع   
چہ دلاور است دُزدے کہ بکف چراغ دارد!
اس ملک میں اس سے بڑے بڑے اعترافات کرنے والے بھی محلات میں رہ رہے ہیں !!

شیر شاہ سوری نے جب قانون بنایا تھا کہ جس علاقے میں قتل ہوا ، قاتل کا سراغ نہ لگا تو علاقے کا انچارج پھانسی پر لٹکایا جائے گا، تو علاقے کے انچارج کو یہ نہیں کہا گیا تھا کہ فلاں فلاں خاندانوں کو تفتیش سے باہر رکھنا ہے اور فلاں فلاں رسوائے زمانہ پولیس افسر فلاں فلاں شہر ہی میں رہیں گے ! اس کے کام میں بادشاہ مداخلت کرسکتا تھا نہ کوئی وزیر نہ کوئی شہزادہ ! آپ لاہور کو کسی بے داغ شہرت والے پولیس افسر کے سپرد کیجیے، اسے اپنی مرضی کے افسر ، اہلکار اور سٹاف منتخب کرنے دیجیے، اپنے وزیروں کو لگام دیجیے، اس کے کام میں کوئی ’’ شہزادہ ‘‘ بھی مداخلت نہ کرے ! اسے چھ ماہ کا عرصہ اس آزادی اور اختیار کے ساتھ اور وارننگ کے ساتھ دیجیے اور پھر نتیجہ دیکھیے ! لیکن ایسا نہ جانے کب ہوگا! نذیر ناجی صاحب نے لکھا ہے کہ وہ لوگوں کا کئی کئی سال امتحان لیتے ہیں۔ دیکھیے! اہل لاہور کا امتحان کب ختم ہوتا ہے!!

Monday, July 14, 2014

ایک بے اثر مکالمہ


تیاری وہ پوری کرکے گیا تھا۔ جیسے ہی موذن نے لائوڈ سپیکر کا بٹن آن کیا، وہ اس کے پاس پہنچ گیا۔
’’کیا کررہے ہیں؟‘‘
’’ اذان دینے لگا ہوں۔‘‘ موذن نے حیرت اور پریشانی سے جواب دیا۔’’ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
’’ یہ میں بعد میں بتائوں گا کیوں پوچھ رہا ہوں۔ آپ پہلے بتائیے کہ کس وقت کی اذان دینے لگے ہیں۔‘‘
’’ ظہر کی‘‘
’’کیسے معلوم ہوا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا ہے؟‘‘
موذن اب حیرت کے ساتھ غصے میں بھی تھا۔
’’ بھائی!سامنے دیوار پر کیلنڈر لگا ہے۔ اس میں پورے سال کی نمازوں کے اوقات درج ہیں۔‘‘
پھر موذن دیوارکے پاس گیا۔ اس نے باریک چھپے ہوئے گنجان کیلنڈر پر ایک جگہ انگلی رکھی۔
’’ یہ دیکھو، آج کی تاریخ اور ظہر کا وقت! اور پھر گھڑی کی طرف دیکھو!‘‘
’’ کیا فقہ کی کتابوں میں اس کیلنڈر اور گھڑی کا ذکر ہے؟‘‘
اس احمقانہ سوال کا موذن کیا جواب دیتا۔ موذن نے مائک ایڈجسٹ کیا اور اذان دینے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ لیکن اس نے پھرتی سے لائوڈ سپیکر والا سوئچ آف کردیا۔
’’ میں اذان نہیں ہونے دوں گا۔‘‘
اس کی آواز خوفناک ہوگئی تھی۔’’ تم نے اذان دینے کی کوشش کی تو میں مار مار کر تمہارا بھرکس نکال دوں گا‘‘
موذن عمر رسیدہ تھا اور نسبتاً نحیف بھی۔اس نے موٹے تازے مشٹنڈے کی طرف دیکھا اور دل میں فیصلہ کرلیا کہ جب تک میں مسجد کے ہال میں اکیلا ہوں اذان نہیں دوں گا۔ یہ شخص پاگل ہے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ 
لیکن اذان تو دینا تھی۔ وہ نمازیوں کو اور مولوی صاحب کو کیا جواب دیتا۔ اس نے مناسب سمجھا کہ مولوی صاحب کو بتادے۔ حجرے پر دستک دی۔ مولوی صاحب نکلے تو بتایا کہ ایک جنونی آڑے آرہا ہے۔ 
مولوی صاحب نے اس سے پوچھا کہ بھائی تمہارا مسئلہ کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ آپ شریعت کی کسی کتاب میں کیلنڈر یا گھڑی کا ذکر دکھا دیجیے۔
مولوی صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’بھائی ! ہم اس مسجد میں کوئی انوکھا کام تو نہیں کررہے۔ پورے ملک میں یہی سسٹم ہے بلکہ پورے عالم اسلام میں نماز کے اوقات کا تعین کیلنڈر اور گھڑیوں ہی سے ہورہا ہے۔‘‘
اس نے تھیلے سے فقہ کی کتاب نکالی اور مولوی صاحب سے کہا …مولانا! سنیے، ظہر کی نماز کے تعین کا شرعی طریقہ۔ پھر اس نے پڑھنا شروع کیا:
’’ نماز کا وقت معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کھلی اور ہموار زمین میں زوال سے پہلے ایک لکڑی گاڑ دی جائے۔ اس لکڑی کا سایہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ زوال کے وقت کم سے کم رہ جائے گا۔ اس سائے کو ناپ لیاجائے جب یہ سایہ بڑھنا شروع ہوتو وہ اس بات کی علامت ہوگا کہ زوال ہوگیا۔ پھر جب یہ سایہ اس قدر بڑھ جائے کہ لکڑی کے برابر ہوجائے(زوال کے وقت لکڑی کا اپنا سایہ اس سے وضع کرنے کے بعد) تو ایک مثل وقت ہوجائے گا اور جب دوگنا ہوجائے تو دو مثل وقت ہوجائے ۔‘‘
پھر اس نے تھیلے سے لکڑی نکالی مولوی صاحب کو دی اور کہا …’’ حضرت ! اسے زمین میں گاڑیے اور اس کا سایہ ناپیے!‘‘
مولوی صاحب قدر ے نرم پڑگئے۔ اس کے کندھے پر دست شفقت رکھا…’’ نوجوان! بات تمہاری صحیح ہے۔ لیکن سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ یہ اوقات جو کیلنڈر میں پورے سال کے دیے گئے ہیں ، یہ اسی شرعی طریقے کی مناسبت سے دیے گئے ہیں۔ اگر ہم لکڑی گاڑ کر وقت کا تعین کریں تو نتیجہ وہی نکلے گا جو کیلنڈر میں پہلے سے پورے سال کی نمازوں کے حوالے سے درج کردیاگیا ہے۔‘‘
اس نے مولوی صاحب کی بات سے اتفاق کیا۔ اذان ہوئی، نماز پڑھی اور چلاآیا۔
اس واقعہ کے چند ہفتے بعد رمضان المبارک کا مہینہ آگیا۔ ایک دن اس نے سحری جلدی جلدی کھائی اور مسجد پہنچ گیا۔ وہاں اور کوئی بھی نہ تھا۔ سحری کا وقت ختم ہوگیا۔ موذن مسجد کے ہال میں داخل ہوا اور ادھر ادھر دیکھے بغیر ، جلد جلد قدم اٹھاتا، لائوڈ سپیکر کا سوئچ آن کرکے مائک ایڈجسٹ کرہی رہا تھا کہ وہ کونے سے اٹھا اور سوئچ آف کردیا۔ موذن نے اسے دیکھا اور پہلے ٹھٹکا لیکن پھر پہچان گیا… ’’ تم پھر آگئے‘‘!
’’ ہاں ! میں پھر آگیا ہوں۔ تاکہ تم لوگوں کے روزے نہ خراب کرتے پھرو۔ اذان نہیں دینے دوں گا۔‘‘
اس بار موذن نے اس سے کچھ حیل و حجت نہ کی۔ سیدھا حجرے کا رخ کیا۔ دستک دی۔ مولوی صاحب خلال کرتے نکلے اور اسے دیکھتے ہی کہنے لگے
’’ اذان ابھی تک نہیں دی۔ دو منٹ اوپر ہوگئے ہیں‘‘
موذن نے روداد سنائی۔ مولوی صاحب منہ ہی منہ میں کچھ کہتے اس کے ساتھ چل دیے۔ نوجوان سے کہا …’’ ہاں ! بھائی ، اب کیا مسئلہ ہے ؟‘‘
’’ حضرت ! آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے؟‘‘
مولوی صاحب نے تنک کر کہا ’’میں تمہیں جواب دینے کا پابند نہیں ہوں۔ تمہارا ذہنی توازن خراب لگ رہا ہے۔ وہ سامنے رمضان کے پورے مہینے کا نظام الاوقات لگا ہے‘ اس پر آج کی تاریخ کا وقت دیکھ لو  اور پھر گھڑی دیکھو !…‘‘
’’ مولانا !فقہ کی کس کتاب میں اس نظام الاوقات کا ذکر ہے؟ کیا آپ نے کلام پاک میں دیے گئے طریقے پر عمل کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ کی آیت 187میں ارشاد فرمایا … ’’ تم کھائو اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے رات کے سیاہ دھاگے سے صبح کا سفید دھاگا نمایاں ہوجائے ‘‘۔بجائے اس کے کہ آپ چھت پر جاکر مشرقی افق کو دیکھتے کہ سفیدی اور سیاہی الگ الگ ہوئی ہیں یا نہیں، آپ حجرے میں بیٹھے خلال کررہے ہیں اور اذان دلوا رہے ہیں۔ آپ میں خدا کا خوف نہیں !‘‘
آخری بات سن کر مولوی صاحب غصے میں آگئے، ’’ تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو، میں ہمیشہ صحیح وقت پر سحری ختم ہونے کااعلان کرتا ہوں اور یہ جو تم چھت پر جاکر سفیدی اور سیاہی دیکھنے کی بات کررہے ہو تو بے وقوف ! رمضان کا یہ نظام الاوقات جو سامنے دیوار پر لگا ہے، اسی سفیدی کے نمایاں ہونے کے مطابق بنایاگیا ہے۔ کون ہے جو اس زمانے میں چھت پر چڑھ کر افق کی سفیدی دیکھ کر ، سحری بند کرتا ہے۔‘‘
’’مولانا ! اگر آپ پورے رمضان کا پہلے سے تیار شدہ نظام الاوقات دیکھ کر روزہ افطار بھی کرسکتے ہیں اور بند بھی کرسکتے ہیں اگر آپ دھوپ میں لکڑی گاڑ کر اس کا سایہ ناپنے کے بجائے اپنے ٹھنڈے حجرے میں بیٹھے بیٹھے پورے سال کا پہلے سے تیار کردہ نظام الاوقات دیکھ کر نمازیں بھی پڑھا رہے ہیں تو یہ نظام الاوقات ، یہ کیلنڈر، عید کے دن کا تعین کرنے کے لیے کیوں نہیں بروئے کار لاتے ؟ آپ نماز کا وقت معلوم کرنے کے لیے زمین میں لکڑی نہیں گاڑتے ، آپ روزہ بند کرنے کے لیے چھت پر چڑھ کر افق کو نہیں دیکھتے لیکن آپ عید کا چاند دیکھنے کے لیے چھت پر چڑھ جاتے ہیں، دور بینیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر خلق خدا کو کنفیوژ کرتے ہیں۔ دس علما کہتے ہیں کہ آج عید ہے اور دس علما فتویٰ دیتے ہیں کہ آج روزہ ہے۔حضرت ! آپ اس امت کے ساتھ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ پونے چھ سو سال پہلے جب ایک جرمن شہری عثمانی خلیفہ کے دربار میں پرنٹنگ پریس لایا تو آپ نے اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا کہ اس سے تو تصویریں بھی شائع ہوسکتی ہیں۔ آج آپ اسی پریس سے چھپے ہوئے کلام پاک کے نسخے اور مذہبی کتابیں پڑھ پڑھا رہے ہیں اور اسی پریس سے نکلے ہوئے نظام الاوقات مسجد کی مقدس دیواروں پر لٹکا رکھے ہیں۔ تین سو سال پہلے جب گھڑیاں اور کلاک آئے تو آپ نے ان کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا۔ ڈیڑھ سو سال پہلے آپ نے فتویٰ دیا کہ قرآن پاک کا ترجمہ کسی اور  زبان میں نہیں کیاجاسکتا۔ سو سال پہلے آپ نے فتویٰ دیا کہ نمازوں کا نظام الاوقات پیشگی نہیں بنایا جاسکتا۔ ساٹھ سال پہلے آپ نے فتویٰ دیا کہ لائوڈ سپیکر کا استعمال مسجد میں حرام ہے۔ پچاس برس پہلے آپ نے فتویٰ  دیا کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے تصویر بنوانی جائز نہیں ہے۔ آج یہ سب چیزیں حلال ہیں۔ آپ استعمال کررہے ہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ ساری ایجادات علما نے پہلے حرام قرار دی تھیں۔ اب گزشتہ تیس چالیس سال سے آپ کہہ رہے ہیں کہ پہلے سے تیار کردہ نظام الاوقات کے مطابق عید نہیں منائی جاسکتی۔ امریکہ کے بے شمار مسلمان کیلنڈر دیکھ کر عید منارہے ہیں۔ فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ نے 2011ء میں 2015ء تک کے رمضان اور عیدین کی تاریخوں کا تعین کردیا ہے۔دس یا بیس سال بعد جب کوئی مجھ سا پاگل پوچھے گا کہ چھت پر چڑھ کر چاند دیکھے بغیر آپ نے عید کااعلان کیسے کردیا تو آپ اسے بے وقوف قرار دیتے ہوئے اس کے علم میں اضافہ کریں گے کہ عید کی تاریخ کا یہ پیشگی تعین اسلامی اصولوں کے مطابق ہی کیاگیا ہے!‘‘
وہ بوجھل قدموں سے باہر آگیا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ مکالمہ بے اثر ثابت ہوگا۔

Saturday, July 12, 2014

قالین کے اوپر ڈانس


کیا آپ نے کبھی سٹک ڈانس دیکھا ہے؟ اسے ڈنڈیا ڈانس بھی کہتے ہیں۔ یہ پورے برصغیر میں یکساں مقبول ہے۔ مرد بھی کھیلتے ہیں عورتیں بھی، الگ الگ بھی اور مرد اور عورتیں مل کر بھی۔ دونوں ہاتھوں میں ڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ مختلف طریقوں سے اچھل کود ہوتی ہے۔ کبھی ایک اپنی ڈنڈی کو دوسرے کی ڈنڈی پر مارتا ہے اور کبھی اپنے ہی دونوں ہاتھوں میں پکڑی ڈنڈیوں کو ایک دوسرے پر مارتے ہیں۔ ڈنڈی دوسری ڈنڈی پر پڑتی ہے تو ایک خفیف سی ، لطیف سی، آواز پیدا ہوتی ہے جو رقص کرتے اعضا کی حرکت کو اور نغمے کے زیرو بم کو اور بھی سرور انگیز کرتی ہے۔ یہ رقص، یہ اچھل کود، گھنٹوں جاری رہتی ہے۔ اس قصے کو اب ہم یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
بنوامیہ کی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو عباسیوں نے طرح طرح کے اچھوتے طریقوں سے انتقام کی آگ ٹھنڈی کی۔ اس ضمن میں دو روایات دلچسپ ہیں۔ ایک ایرانی جرنیل عبداللہ نے بنوامیہ کے اسی سرکردہ افراد کو دعوت پر بلایا۔ ان سب کو قتل کردیاگیا۔ عبداللہ نے ان کی لاشوں کے سامنے مزے سے کھانا کھایا۔ عبداللہ کو زعم ہوگیا ۔ اس نے خلیفہ بننے کی کوشش کی۔ عباسی حکمران نے اسے قید کردیا۔ سات سال بعد رہا کرکے اسے یقین دلایا گیا کہ وہ تو ہیرو اور محسن ہے۔ جلوس کی صورت میں اسے ایک محل میں لایاگیا جو خصوصی طور پر اس کے لیے تعمیر کیاگیا تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ محل کی بنیادیں نمک کی تھیں۔ جب بھی بارش ہوتی، تھوڑی سی گل جاتیں۔ یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ ایک دن محل زمیں بوس ہوکر اس کا مقبرہ بن گیا۔ دوسری روایات کے مطابق پہلے عباسی خلیفہ ابو العباس السفاح نے بنوامیہ کے چیدہ چیدہ عمائدین کو کھانے پر بلایا۔ جب وہ بیٹھے ہوئے تھے تو خراسانی سپاہیوں اور خدام نے ان پر لاٹھیوں سے حملہ کردیا۔ ان میں سے اکثر منہ کے بل گر پڑے ۔ انہیں اس قدر مارا پیٹا گیا کہ ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ کچھ مرگئے ۔ کچھ تڑپنے لگے۔ ابو العباس نے ان کے اوپر قالین بچھانے کا حکم دیا۔ پھر اس قالین کے اوپر بیٹھ کر اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اطمینان سے سیر ہوکر کھانا کھایا۔ قالین کے نیچے سے آہوں اور کراہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ابو العباس السفاح کا کہنا تھا کہ اس نے ساری زندگی اس قدر مزیدار کھانا نہیں کھایا۔ اس قصے کو ہم یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
شدید اور ظالم موسم گرما عروج پر ہے۔ ساتھ رمضان بھی ہے۔ وزیرستان کے بنجر میدانوں اور سیاہ خوفناک پہاڑوں میں ہمارے عساکر اپنی زندگیاں ہتھیلیوں پر رکھے، ہماری زندگیوں کو محفوظ کررہے ہیں۔ ہمارے خوبرو سپاہی‘ ہمارے ذی وقار افسر دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ان دہشت گردوں کی لغت میں نرمی اور رحم کے الفاظ مفقود ہیں۔ ہمارے ہزاروں فوجی پہلے ہی ان کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔ وہ وفادار بیویاں جنہوں نے اپنے مجاہد شوہروں کا سامان اپنے ہاتھوں اٹیچی کیسوں میں بند کرکے انہیں پرنم آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا تھا دروازوں پر دستک کی آواز سن کر دوڑ پڑتی ہیں لیکن ایک پیغام بر سلیوٹ کرکے شہادت کی خبر دیتا ہے۔ ہمارے شہید فوجیوں کے ننھے منے پھول سے بچے باپ کی ٹانگوں سے لپٹنے کی حسرت میں بڑے ہوجاتے ہیں۔ ہمارے بوڑھے اپنے نوجوان بیٹوں کے جنازے پڑھ رہے ہیں۔ سفید سروں والی باوضو مائیں یتیم پوتوں پوتیوں کو دیکھ دیکھ کر اندر اندر ہی کڑھتی ہیں۔ آنسوئوں کی بارش رخساروں پر نہیں، دلوں پر گرتی ہے۔ ہمارے فوجیوں نے کہاں کہاں خون کے نذرانے نہیں دیے۔ کارگل سے لاشیں آئیں۔ سیاچن سے تابوت اترے۔ سوات سے جنازے اٹھے ۔ پاکستان کا کوئی فوجی آج تک میدان سے نہیں بھاگا۔ یہ پیٹھ پر نہیں، سینوں پر گولیاں کھانے والے سپوت ہیں۔
یہ خون کے دریا کس لیے بہے؟ یہ جنازے، یہ تابوت، یہ کفن پوش میتیں، یہ قربانیاں تھیں تو عوام کی خاطر لیکن افسوس ! صد افسوس! ان سے فائدہ ہمارے رہنمائوں نے اٹھایا۔ رہنما وہی ہیں، فقط ان کے لبادے تبدیل ہوتے ہیں۔ کبھی نون، کبھی قاف، کبھی پ۔
لیکن ہمارے شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ جو کچھ اب ہورہا ہے کبھی نہیں ہواتھا۔ ان لاشوں کے اوپر قالین بچھا کر ڈنڈیا ناچ کیاجارہا ہے۔ ڈنڈیا ناچ کرنے والو ںمیں تین سیاسی جماعتیں نمایاں نظر آرہی ہیں۔ آپ ’’ امداد باہمی‘‘ کی بدترین (یا بہترین) مثال دیکھیے۔ یوسف رضا گیلانی پر بدعنوانی کے بارہ مقدمات دائر ہیں۔ عدالت نے ان کی ضمانت منظور کی تو ایف آئی اے نے حسب قواعد ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست پیش کی‘ لیکن وفاقی حکومت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو خصوصی طور پر عدالت بھیجا تاکہ ایف آئی اے کی مخالفت کی جائے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ ایف آئی اے نے متعلقہ حکام سے منظوری نہیں لی لہٰذا اس درخواست کو قبول نہ کیاجائے( جیسے ایف آئی اے کو قواعد کا علم ہی نہ تھا اور یہ تاریخ میں پہلی درخواست تھی جو ایف آئی اے نے دائر کی تھی !!) مخدوم امین فہیم بھی ایک درجن مقدموں میں ماخوذ ہیں۔ ان کی گرفتاری بھی رک گئی ہے۔ ضمانت میں توسیع ہوگئی ہے۔
دوسری طرف سید خورشید شاہ نے مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ہے۔ دونوں میں اس امر پر ’’اتفاق ‘‘ ہوا کہ موجودہ جمہوری ’’ نظام‘‘ کو کمزور کرنے کی ممکنہ کوششوں کو ناکام بنایا جائے گا اور کسی کو بھی ملک کے ’’مستقبل‘‘ سے کھیلنے اور سیاسی اور پارلیمانی ’’ نظام‘‘ کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس گفتگو میں اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ سید خورشید شاہ اور مولانا فضل الرحمن اس سلسلے میں اپنا ’’ اثرورسوخ ‘‘ استعمال کریں گے۔
آپ ڈنڈیا ناچ کا نقطہ عروج دیکھیے اور گیت کی آہنگ کے ساتھ رقص کا زیرو بم ملاحظہ کیجیے کہ دو سو ڈاکٹروں کوفارغ کردیاگیا ہے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ ہڑتال کے دوران انہیں ایڈہاک پر تعینات کیاگیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہسپتالوں میں میڈیکل افسروں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ بائیس مزید ڈاکٹر راولپنڈی کے ہسپتالوں میں ملازمت کی منسوخی کا شکار ہونے والے ہیں، جبکہ دوسری طرف ایک اعلیٰ شخصیت کے ذاتی وفادار ریٹائرڈ بیورو کریٹ کو ، جس کی عمر پچھتر سال سے کم کیا ہوگی اور جس کی ہمیشہ پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہا ہے‘ ایک بڑے ادارے کا چیئرمین لگادیاگیا ہے جہاں مراعات کی ریل پیل ہے۔ آپ ماشاء اللہ پہلے ہی ایک گیس اینڈ آئل کمپنی کے سربراہ ہیں۔ایک اور خبر کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور پیر مظہرالحق کی ’’اہم‘‘ ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں ان کے فرزندان گرامی کو ’’ اہم ذمہ داریاں ‘‘ دینے کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ یہ وہ اصحاب ہیں جو کبھی ’’ایڈہاک‘‘ پر نہیں ہوتے۔ انہیں کبھی باہر نہیں نکالا جاتا ۔ والد اور والدہ اقتدار کے دائرے سے ایک انچ ہی باہر ہوتے ہیں کہ فرزندان گرامی کو ذمہ داریاں سونپنے پر غور شروع ہوجاتا ہے۔ دوسو ڈاکٹروں کو فارغ کرکے دوسو گھرانوں کے چولہے اس لیے بجھائے گئے کہ ان غریب اور روابط نہ رکھنے والے ڈاکٹروں کے ماں باپ بڑے لوگ نہیں ورنہ وہ بھی کسی وزیراعلیٰ سے ملتے۔ انہیں بھی پروٹوکول ملتا اور پھر ان ڈاکٹروں کو بھی وفاق یا کسی صوبے میں ’’ اہم ذمہ داریاں ‘‘ سونپ دی جاتیں!
گرما کا موسم عروج پر ہے۔ ہمارے فوجی روزے رکھ کر بارودی سرنگوں کا سامنا کررہے ہیں۔ اسلحہ بنانے کی شیطانی، ملک دشمن، فیکٹریاں تباہ کررہے ہیں۔ ہمارے غازیوں کے بچے گھروں میں ان کی کامیابی کے لیے چھوٹے چھوٹے نازک ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگ رہے ہیں۔ کیوں ؟ عوام کے لیے ؟ قانون کی حکمرانی کی خاطر ؟ ان کے دلوں میں تو یہی جذبہ موجرن ہے لیکن یہاں تو اور ہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ایک خاندان کی واری ختم ہوتی ہے تو دوسرے کی شروع ہوجاتی ہے۔ پہلے بہنیں تھیں‘ ایامِ اسیری کے رفقا تھے اور آکسفورڈ پلٹ صاحبزادہ تھا۔ اب بھائی ہے، بھتیجا ہے اور صاحبزادی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی صوبے کا حکمران کسی دوسرے ملک میں جاکر وہاں کے وزیر خارجہ سے مل کر وفاق کی نمائندگی کررہا ہو اور تین دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ گھگھوئوں کی طرح چپ بیٹھے ہوں۔ جیسے سب کچھ آئین کے مطابق ہورہا ہو! ایک صوبائی حکمران چین کے وزیر خارجہ سے دو دن پیشتر ملا ہے اور گوادر منصوبے پر بات کی ہے جس کا اس کے صوبے سے کوئی تعلق ہی نہیں! وزیراعلیٰ ’’ملک‘‘ کے حوالے سے شمسی توانائی ، کراچی اور اقتصادی پیکج کے وفاقی اور دوسرے صوبوں کے معاملات بھی دوسرے ملک کے وزیر خارجہ سے ڈسکس کرتے ہیں!

آپ نے اپنی زندگی میں کئی قسم کے رقص دیکھے ہوں گے۔ بھنگڑا بھی اور لڈی بھی۔ خٹک ڈانس بھی۔ تیرہ تالی بھی! لیکن قالین کے اوپر اچھل کود کے ساتھ جو ڈنڈیا ناچ ہورہا ہے۔ اس سے لطف اندوز ہونا نہ بھولیے گا۔

Friday, July 11, 2014

جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا


یہ واقعہ کئی سال پہلے دارالحکومت میں پیش آیا۔ موسلادھار بارش ہوئی۔ جل تھل ایک ہو گیا۔ گلیاں نالوں میں تبدیل ہو گئیں۔ ان گلیوں میں سے ایک سٹریٹ میں ایک بہت بڑے سرکاری افسر کا گھر تھا۔ سٹریٹ میں جگہ نہ رہی تو پانی نے اِدھر اُدھر کا رُخ کیا اور بڑے سرکاری افسر کے تہہ خانے میں جمع ہونے لگا۔ بیسمنٹ میں کئی کمرے تھے۔ خوابگاہیں بھی اور کتب خانہ بھی۔ بسترو بالیں پانی میں ڈوب گئے۔ کتابیں تیرنے لگیں۔ محکمے سے اہلکار بھاگے بھاگے گئے۔ جو ہو سکا‘ کیا۔ نقصان بہت زیادہ ہوا تھا۔ ترقیاں ادارے کے پلاننگ اور انجینئرنگ شعبے کی غلطیاں بھی تھیں جن کی وجہ سے پانی گھروں میں گھسا تھا۔ ترقیاتی ادارے کا ایک درمیانی درجے کا افسر پیش کیا گیا۔ صاحب نے اُسے گھر کا حالِ زار دکھایا۔ اس نے آگے سے کوئی ایسا عذرِ لنگ پیش کیا کہ صاحب کو جو پہلے ہی ذہنی اذیت میں تھا‘ طیش آ گیا۔ اس نے ہاتھ اٹھایا کہ ایک کڑاکے کا تھپڑ افسرِ مذکور کو رسید کرے لیکن اس کے پیچھے کھڑے ہوئے ایک دانش مند ماتحت نے اٹھا ہوا بازو پکڑ لیا: ’’نہیں! سر! نہیں! ہاتھ نہیں اٹھانا۔ یہ آپ کے شایانِ شان نہیں! اور پھر اس سے ہمارا کیس بگڑ جائے گا۔ ادارے کی غلطی پس منظر میں چلی جائے گی۔ آپ کا تھپڑ مسئلہ بن جائے گا‘‘۔ 
کاش! کوئی ایسا دانش مند ماتحت‘ کوئی ایسا عقل مند ساتھی عمران خان کو بھی میسر آتا ،جو ان کے بار بار اٹھتے ہاتھ کوپکڑ کر بتاتا کہ حضور! جس سطح کے لیڈر آپ بننا چاہتے ہیں‘ اُس سطح کے لیڈر یوں نہیں کیا کرتے۔ انہیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے‘ بہت مواقع پر چشم پوشی سے کام لینا ہوتا ہے۔ کبھی انہیں خاموشی کو زیور کی طرح پہننا پڑتا ہے۔ کبھی ع 
ز جاہل گریزندہ چون تیر باش 
زریں اصول کو سامنے رکھ کر اِدھر اُدھر کے مناظر کو دیکھے بغیر گزر جانا ہوتا ہے‘ کبھی قرآنی ہدایت و اذا مرّوا باللغو مرّوا کراما‘ پر عمل پیرا ہو کر متانت و وقار کے ساتھ چلتے رہنا ہوتا ہے۔ کبھی و اذا سمعوا اللغو اعرضوا عنہ کے مطابق اغماض کرنا پڑتا ہے۔ 
لیکن ایسا نہ ہوا۔ کسی نے ہاتھ نہ پکڑا۔ برات میں جیسے کوئی عمر رسیدہ شخص شامل ہی نہ ہو‘ جیسے گرگ ہائے باراں دیدہ تو گروہ میں بہت ہوں‘ سرد و گرم چشیدہ ہی کوئی نہ ہو! ایک دوست کے لیے رشتہ مانگنے کچھ نوجوان دوسرے گائوں کو جا رہے تھے۔ کسی نے مشورہ دیا تم سارے لڑکے بالے ہو‘ کسی معمر شخص کو‘ کسی چِٹ داڑھیے کو بھی ساتھ لیتے جائو۔ سفر میں واقعات پیش آتے ہیں اور مہمات میں امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے نصیحت پر عمل کیا اور گائوں کے ایک بوڑھے سیانے کو ساتھ لے لیا۔ منزل پر پہنچے اور لڑکی والوں سے مدعا بیان کیا تو انہوں نے ایک عجیب شرط لگائی۔ پندرہ بھُنے ہوئے بکرے کھا دکھائو تو رشتہ منظور ہے۔ نوجوان تھے ہی پندرہ بیس ،شش و پنج میں پڑ گئے۔ بڑے میاں کی طرف دیکھا۔ وہ مسکرایا اور کہا… ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تم جوابی شرط رکھو کہ منظور ہے بشرطیکہ بکرے ایک ساتھ نہ دسترخوان پر رکھے جائیں۔ تازہ بھنا ہوا ایک وقت میں ایک بکرا لایا جائے۔ ہم سب اسے کھائیں گے۔ جب کھا چکیں تو تب دوسرا پیش کیا جائے‘‘۔ یہ وہی اصول تھا کہ گرم چپاتی ایک ایک کر کے آئے تو زیادہ کھائی جاتی ہیں۔ نوجوان شرط جیت گئے۔ 
جس سطح کی سیاست عمران خان کا مطمحِ نظر تھی‘ اس کے تقاضوں کو انہوں نے درخورِ اعتنا ہی نہ گردانا۔ کبھی ایم کیو ایم پر چڑھائی کی۔ لندن پہنچے‘ سارا ہنگامہ باسی کڑھی کا ابال ثابت ہوا۔ گجرات کے چودھریوں پر بھی تیراندازی کی لیکن کوئی تیر ہدف پر نہ لگا۔ اب ایک میڈیا گروپ کے سربراہ کا نام لے لے کر جلسہ ہائے عام میں اعلانات کیے کہ میں چھوڑوں گا نہیں! پھر اپنے ہاتھ سے پھانسیاں دینے کا عزم کیا۔ پھر ارسلان افتخار سے سینگ پھنسا لیے۔ بالآخر گھوڑے نے بم کو لات مار دی۔ لگتا ہے ارسلان افتخار 365 ویں گُر کے ساتھ اکھاڑے میں اترے ہیں۔ کیلی فورنیا کی عدالت کا فیصلہ انہوں نے ڈنڈے پر لٹکایا ہے اور ڈنڈے کو جھنڈا بنا لیا ہے۔ 
اس سارے بکھیڑے میں کچھ اور معاملات بھی آشکار ہوگئے ۔ جسٹس افتخار چودھری جب عدلیہ میں مسند پر بیٹھے ہوئے تھے اس وقت بھی صاحبزادے کا ڈاکٹری کے شعبے سے ایف آئی اے میں لایا جانا باعثِ عزت نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے میڈیکل کالج میں داخلہ لیتے وقت ان کے نمبر 639 تھے جب کہ 750 سے کم نمبر لینے والوں کا داخلہ ممکن ہی نہ تھا! پھر جو کچھ ارسلان افتخار کے حوالے سے عدالت عالیہ میں ہوا‘ زبانوں کو مزید لمبا ہونے کا خوب خوب موقع ملا۔ تاریخ سے ایک ہی سبق سیکھا گیا ہے کہ کوئی سبق نہ سیکھا جائے۔ سبق سیکھا ہوتا تو بلوچستان کے بہت بڑے منصب پر صاحبزادے کو تعینات نہ کرایا جاتا‘ یا ہونے نہ دیتے یا پھر اعصاب اس قدر فولادی تھے کہ ’’جو ہوگا دیکھا جائے گا‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگایا اور بچے کو مسند پر بٹھا دیا کہ رام بھلی کرے گا! پسر پروری کی اس ملک میں یوں بھی روایت مضبوط ہے اور دیرینہ بھی۔اس حوالے سے بہت سے لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ،حکما ء نے پسر پروری کو اقربا پروری کی بدترین قسم قرار دیا ہے۔ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا اور بات ہے لیکن یہ کہنا کہ سفارش کی بنیاد پر‘ قواعد و ضوابط کی دھجیاں اُڑا کر بیٹے کو فائدہ نہیں پہنچائوں گا‘ اور بات ہے۔ یہی تو اصل اسلام ہے اور یہی مشکل ہے۔ نعیم صدیقی کا شعر ہے ؎ 
یہ لا الٰہ خوانیاں جائے نماز پر!! 
سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے 
دانش کے جن ذخیروں کو آج ہم نے پسِ پشت ڈالا ہوا ہے ان میں ’’ضربِ کلیم‘‘ نمایاں ہے۔ اس میں ایک باب اقبال نے تعلیم و تربیت کے عنوان سے باندھا ہے۔ اس کے آخر میں جاوید کو خطاب کر کے تین غزل نما نظمیں کہی ہیں۔ اس کالم نگار کا بس چلتا تو یہ تین زر پارے ہر سطح کے طلبہ کے لیے لازمی قرار دیتا! فرماتے ہیں کہ شہرت و عزت باپ کی وجہ سے نہیں ملا کرتی۔ خود کچھ کرنا پڑتا ہے تب قدرت ودیعت کرتی ہے۔ 
غیرت ہے طریقتِ حقیقی 
غیرت سے ہے فقر کی تمامی 
اے جانِ پدر نہیں ہے ممکن 
شاہیں سے تدرو کی غلامی 
اللہ کی دین ہے جسے دے 
میراث نہیں بلند نامی! 
اپنے نورِ نظر سے کیا خوب 
فرماتے ہیں حضرتِ نظامی 
جائی کہ بزرگ بایدت بُود 
فرزندیٔ من نداردت سُود! 
نظامی گنجوی نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا کہ میاں! جہاں تمہیں بڑا بننا ہوگا وہاں میری فرزندی کام نہیں آئے گی! 
لیکن کوئی جسٹس ہو یا حکمران یا جرنیل‘ اقبال اور نظامی جیسے فقیروں سے کیا تعلق۔ احمد جاوید یاد آ گیا ؎ 
اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر 
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے 
اور یہ کہنا تو بہت ہی دشوار ہے ؎ 
دنیا مرے پڑوس میں آباد ہے مگر 
میری دعا سلام نہیں اس ذلیل سے 
خدا جب عقل پر پردہ ڈال دے تو انسان ایسی ہی کھوکھلی اور اُتھلی باتیں کرنے لگتا ہے جیسی توجیہات وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نے اپنے ہم پیشہ بھائی ڈاکٹر ارسلان افتخار کی متنازع تعیناتی کے جواز میں پیش کیں۔ 
’’یہ تعیناتی سابق چیف جسٹس کی اُن خدمات کی وجہ سے کی گئی جو انہوں نے بلوچ عوام کے لیے سرانجام دیں‘‘۔ 
اگر ایک لمحے کے لیے مان بھی لیں کہ خدمات سرانجام دیں تو کیا ان خدمات کا صلہ میرٹ کا قتل کر کے دیا جائے گا؟ یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ صوبے بھر میں ارسلان ہی اہل ترین ہیں؟ پھر ایک اور مضحکہ خیز اور وزن میں ازحد ہلکی بات کہ ’’جسٹس صاحب کا تعلق بلوچستان سے قائم رکھنے کے لیے ان کے صاحبزادے کو لگایا ہے‘‘۔ چلیے اس تعیناتی سے ایک ضمنی فائدہ یہ تو ہوا کہ وزیراعلیٰ صاحب کی ذہنی سطح معلوم ہو گئی! یوں ہی تو نگاہِ انتخاب اُن پر نہیں پڑی! 
استعفیٰ دیا نہیں‘ لیا گیا ہے۔ ارسلان افتخار اس وقت طیش میں ہیں۔ غیظ و غضب ان پر طاری ہے ؎ 
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا 
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا 
ان کے لیے پندِ سود مند یہ ہے کہ قومی جرائم اور بیت المال میں خیانت اور بات ہے لیکن کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ خاندانی لوگوں کو معلوم ہو جائیں تو پردہ پوشی کرتے ہیں‘ اچھالتے نہیں! کچھ معاملات بندے اور اس کے پروردگار کے درمیان ہوتے ہیں۔ توبہ کی توفیق کسی کو بھی ہو سکتی ہے اور کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ یوں بھی کون ہے جو پارسائی کا دعویٰ کرے ؎ 
نہ روزنوں سے کسی نے دیکھا نہ ہم ہی مانے 
وگرنہ سرزد ہوئے تو ہوں گے گناہ سارے

Tuesday, July 08, 2014

آہ!بیچارہ رچرڈ


پہاڑوں میں گھرا ہوا یہ شہر نیوزی لینڈ کا سردترین مقام تھا۔درجہ حرارت صفر سے نیچے‘رگوں میں خون منجمد کرنے والی تیز ہوا‘بارش طویل ہوتے ہوتے جھڑی بن جاتی تھی۔ سورج کئی کئی دن روپوش رہتا تھا۔یہ تھی وہ جگہ جہاں رچرڈ رہتا تھا۔ملائشیا کے ایک مسلمان سے اس کی دوستی کا آغاز دفتر میں ہوا ۔دوستی گہری ہوتی گئی ۔گھر میں آنا جانا شروع ہو گیا۔افطار کی دعوت میں رچرڈ کو بھی بلایا گیا۔ایک خاص وقت پر افطار‘پھر نمازباجماعت پھر جس طرح ملائشیا کا دوست اپنے ضعیف والد کا خیال رکھتا تھا ‘ ان سب مشاہدات نے تجسس پیدا کیا۔ جوں جوں وہ مطالعہ کرتا گیا اور اپنے دوست سے رہنمائی لیتا گیا‘روشنی بڑھتی گئی۔پھر وہ دن بھی آیا کہ اس نے اسلام قبول کیا۔مشکل ترین کام شراب نوشی کو خیر باد کہنا تھا۔شراب‘لوگوں کے خیال میں‘شدید سردی کا توڑ تھی۔اس نے چھوڑی تو پھر ہاتھ نہ لگایا۔کبائر کو ترک کیا۔فرائض کی سرانجام دہی اخلاص سے شروع کی۔شعائر کا احترام کرنا سیکھا، حقوق کی ادائیگی میں سرگرم ہو گیا۔زندگی کو تبدیل کر لیا۔
مشکل کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک پاکستانی بھائی نے اعتراض کیا کہ یہ پتلون ،یہ جیکٹ ،غیر اسلامی لباس ہے ۔رچرڈ کے پوچھنے پر پاکستانی بھائی نے بتایا کہ پاکستانیوں کی مسجد کے امام صاحب شلوار قمیض زیب تن کرتے ہیں، وہی پہننا چاہیے۔رچرڈ نے اپنے ملائشین دوست سے ذکر کیا۔اس نے کہا ،ہم اپنے امام صاحب کے پاس جائیں گے جن کا تعلق کوالالمپور سے ہے۔وہ ایک اور لباس پہنے تھے جو پاکستانی لباس سے یکسر مختلف تھا۔رچرڈ کنفیوز ہو گیا۔دو یکسر مختلف لباس۔آخر ان میں کون سا اسلامی تھا؟ایک شام وہ ایک اور مسجد میں گیا ۔ اس کے امام کا تعلق بوسنیا سے تھا۔ان کا لباس بالکل مختلف تھا۔ترکی ٹوپی کے اوپر انہوں نے سفید کپڑا لپیٹا ہوا تھا۔
ایک ہفتہ رچرڈ پریشان رہا۔سفید فام جب کسی مسئلہ کو ہاتھ لگاتا ہے تو تہہ تک پہنچتا ہے ۔اس نے دس دن کی رخصت لی اور قریب ترین بڑے شہر‘آسٹریلیا کے سڈنی کا رخ کیا۔لکمبا سڈنی کا ایسا محلہ ہے جو قاہرہ یا بیروت لگتا ہے۔عرب امام سے بات ہوئی تو اس نے کہا‘یہ لباس جومیں نے پہنا ہوا ہے‘یہی اسلامی ہے۔پھر وہ بنگالیوں کی مسجد میں گیا ۔اکثر یت نے کھلا لمبا کرتا اور نسبتاً تنگ پاجامہ پہنا ہوا تھا۔مسقط کے مسلمان سر پر رومال باندھتے تھے۔کویت‘سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات والوں کا لباس اور سر ڈھانکنے کا انداز جدا تھا۔کیرالہ کے مسلمان سفید تہمد اور برما کے مسلمان چار خانے والی لنگی باندھتے تھے۔ایک امام صاحب کا تعلق لکھنو سے تھا۔انگرکھے کے نیچے چوڑی دار پاجامہ پہنے تھے، سر پر سفید دوپلی ٹوپی بہار دکھا رہی تھی۔ترکوں کی مسجد میں نماز پڑھی تو سب نے پتلونیں پہن رکھی تھیں۔ان کا دعویٰ تھا کہ پتلون اور نکٹائی کا آغاز ترکوں نے کیا تھا۔ہم نے یورپ کی نقل نہیں کی۔ یہ تو یورپ تھا جس نے ترکوں کی نقالی کی۔یہ ترک نہیں تھے جنہوں نے ’’تشبہ بالکفار‘‘کیا ۔یہ تو یورپ کے غیر مسلم تھے جنہوں نے ’’تشبہ بالمسلمین‘‘ کیا ۔غرض رچرڈ جہاں بھی گیا مختلف ہی لباس دیکھا۔ ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ اسی کا لباس اسلامی ہے۔
چھٹی کے دو دن رہتے تھے ۔آٹھ دنوں میں کئی مسلمانوں سے دوستی ہو چکی تھی۔یہ کراچی کا ایک پاکستانی مسلمان تھا جس نے اسی شام اسے افطار پر مدعو کیا تھا۔مہمان ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔میزبان نے رچرڈ کو روک لیا ’’آج ہوٹل کے بجائے میرے ہاں قیام کر لو۔‘‘رات ڈھلتی گئی۔ بات سے بات نکلتی رہی،اسے یوں لگا جیسے اس رات قدرت نے یہاں ٹھہرایا تھا۔لباس کا موضوع چھڑا تو میزبان نے وہ بات کی جس سے شرح صدر ہوا۔
’’یہ سارے لباس جو تم نے دیکھے اور جو مختلف علاقوں کے مسلمانوں نے پہن رکھے ہیں ‘یہ سارے اسلامی ہیں،اس لیے کہ اسلام نے کسی خاص لباس کا تعین نہیں کیا ۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی خاص غذا اسلامی نہیں ہے اور سارے ماکولات اور مشروبات اسلامی کہے جا سکتے ہیں سوائے ان چیزوں کے جو شریعت نے حرام قرار دی ہیں۔اسلام نے حلال بھی واضح کر دیا اور حرام بھی۔اب مصری اپنے طریقے سے پکاتے ہیں اور بنگالی اپنے انداز میں ۔بالکل اسی طرح اسلام نے ستر کی حدودواضح کر دیں۔مردوں کے لیے بھی اور خواتین کے لیے بھی۔ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ‘مقامی ثقافت کے مطابق کوئی سالباس بھی پہنا جا سکتا ہے۔جس طرح کوئی کھانا اسلامی کھانا نہیں اور تمام حلال کھانے مسلمانوں کے لیے روا ہیں،اسی طرح کسی مخصوص لباس کو اسلامی اور دوسرے کو غیر اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔ستر کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے جو لباس بھی پہنا جائے گا‘جائز ہو گا۔‘‘
میزبان نے اپنی مختصر لائبریری سے ایک کتاب نکالی۔یہ ’’معارف الحدیث‘‘تھی برصغیر کے نامور عالم دین مولانا منظور نعمانی نے ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے جو تحریر فرمایا‘میزبان نے پڑھ کر سنایا اور ساتھ ساتھ ترجمہ کرتا گیا۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لباس کے بارے میں ان حدود و احکام کی پابندی کے ساتھ جو مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں اسی طرح کے کپڑے پہنتے تھے جس طرح اور جس وضع کے کپڑوں کا اس زمانے میں آپ کے علاقے اور آپ کی قوم میں رواج تھا۔آپ تہمد باندھتے تھے۔چادر اوڑھتے تھے ۔کرتا پہنتے تھے۔ عمامہ اور ٹوپی بھی زیب سر فرماتے تھے اور یہ کپڑے اکثر و بیشتر معمولی سوتی قسم کے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے ایسے بڑھیا کپڑے بھی پہن لیتے تھے جن پر ریشمی حاشیہ یا نقش و نگار بنے ہوتے تھے ۔اسی طرح کبھی کبھی بہت خوش نما یمنی چادریں بھی زیب تن فرماتے تھے ۔جو اس زمانے کے خوش پوشوں کا لباس تھا۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ زبانی ارشادات و ہدایات کے علاوہ آپ نے امت کو اپنے طرز عمل سے بھی یہی تعلیم دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے بارے میں بھی وسعت ہے۔ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ ہر طرح کا معمولی یا قیمتی لباس پہنا جا سکتا ہے اور یہ کہ ہر علاقے اور ہر زمانے کے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود و احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا علاقائی و قومی پسندیدہ لباس استعمال کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امت کے ان اصحاب صلاح و تقویٰ نے بھی، جن کی زندگی میں اتباع سنت کا حد درجہ اہتمام تھا ،یہ ضروری نہیں سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استعمال فرماتے تھے۔دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمدن کے ارتقاکے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔اسی طرح علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس یکساں ہو یا کسی قوم یا کسی علاقے کا لباس ہمیشہ ایک ہی رہے اس لیے شریعت نے کسی خاص قسم اور خاص وضع کے لباس کاپابندی نہیں کیا ہے۔ہاں‘ایسے اصولی احکام دیے گئے ہیں جن کی ہر زمانے میں ہر جگہ بسہولت پابندی کی جا سکتی ہے۔’’(معارف الحدیث حصہ ششم صفحہ424)‘‘
یہ تشریح مولانا منظور نعمانی نے جن احادیث کے ضمن میں کی ان احادیث کے موضوعات یہ تھے ’’عورتوں کے لیے زیادہ باریک لباس کی ممانعت ‘لباس میں تفاخر اور نمائش کی ممانعت ۔مردوں کے لیے ریشم اور سونے کی اور شوخ سرخ رنگ کی ممانعت‘مردوں کو زنانہ اور عورتوں کو مردانہ لباس کی ممانعت‘‘
پھر میزبان نے ایک اور حدیث سنائی۔حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھیں۔’’حضرت اسما سے روایت ہے انہوں نے طیلسان کا بنا ہوا ایک کسروانی جبہ نکال کر دکھایا۔اس کا گریبان ریشمی دیباج سے بنوایا گیا تھا اور دونوں چاکوں کے کناروں پر بھی دیباج لگا ہوا تھا۔حضرت اسما نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ مبارک ہے ۔ یہ میری بہن عائشہ صدیقہ کے پاس تھا جب ان کا انتقال ہوا تو میں نے لے لیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ اور اب ہم اس کو مریضوں کے لیے دھوتے ہیں اور اس سے شفا حاصل کرتے ہیں۔‘‘
رچرڈ کو نیوزی لینڈ واپس جاتے ہوئے اطمینان قلب اور شرح صدر تھا۔اسلام نے اسے کسی خاص لباس کے لیے پابند نہیں کیا تھا۔اسے ستر کی حدود اور وقار کا خیال رکھنا تھا۔اس کی بیوی کو پردے کے احکام پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی مرضی کے لباس کی آزادی تھی۔
رچرڈ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جس دن اس کا جہاز نیوزی لینڈ کی طرف پرواز کر رہا تھا اسی دن‘ہزاروں میل دور‘امریکی شہر سینٹ لوئی میں پاکستانی ڈرائیور نے ڈرائیوروں کے لیے مخصوص وردی کو پہننے سے انکار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کے خلاف مقدمہ دائرکر دیا تھا۔اس کا اصرار تھا کہ شلوار قمیص اور سوراخوں والی کپڑے کی ٹوپی میرے مذہب کا حصہ ہے ۔اس کی دلیل یہ تھی کہ ڈیوٹی اوقات میں یہ لباس نہ پہننے سے وہ اپنے مذہب کی حدود سے خارج ہو جائے گا۔اس نے میڈیا کو بتایا
"Should i stay with my religion or should i leave it ? I am determined to stay with my religion.

Sunday, July 06, 2014

ہم‘ ہمارا بخت اور ہمارے رہنما


’’میں صرف نیلے یا سرمئی رنگ کے سوٹ پہنتا ہوں۔ وقت ان معاملات پر ضائع نہیں کرتا کہ کھانا کیا ہے اور پہننا کیا ہے۔ بہت سے دوسرے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ فیصلہ کرنے کی قوت کو بچا کر رکھنا پڑتا ہے۔ معمولات کو اس طرح فِکس کرنا ہوتا ہے کہ توجہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف نہ بٹ جائے‘‘۔ 
یہ گفتگو بارک اوباما کی ہے۔ وہ سربراہِ ریاست ہے اور سربراہِ حکومت بھی۔ وہ امریکی مسلح افواج کا کمانڈر اِن چیف بھی ہے۔ جب آپ بہت سے معاملات کے فیصلے کرتے ہیں‘ خواہ وہ معاملات چھوٹے ہیں یا بڑے‘ آپ کی قوتِ فیصلہ کم ہو جاتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات نے اس کیفیت کو ’’فیصلوں کی تکان‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک جج نے اگر بازار جا کر گھر کا سودا سلف خریدا ہے اور اسی شام عدالت میں گیا ہے تو وہ اس تکان کا شکار ہو چکا ہے۔ اُس دن عدالت میں اُس کے دیے ہوئے فیصلے نسبتاً سخت اور کم منصفانہ ہوں گے۔ اسی لیے جن شخصیتوں نے اہم معاملات پر فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور دماغ کو قومی اور بین الاقوامی معاملات میں کھپانا ہوتا ہے‘ ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ عشائیوں اور ظہرانوں کے منیو ڈِسکس کرتے پھریں یا کپڑوں کے رنگوں‘ سوٹوں کے ڈیزائنوں‘ نکٹائیوں کی قسموں اور جوتوں کے نمونوں پر دماغ سوزی کرتے رہیں۔ ہم میں سے اکثر نے یہ واقع سنا ہوا ہے کہ پاکستان کے ایک مرحوم وزیراعظم نے ہنری کسنجر کی دعوت کرنا تھی۔ انہوں نے کئی اجلاس بلائے جن میں گھنٹوں اس بات پر مباحثے ہوتے رہے کہ کیا کیا پکوان تیار کرائے جائیں۔ بالآخر ’’فیصلہ‘‘ یہ ہوا کہ تیتر (یا اس قبیل کے کسی خاص پرندے کا) بھُنا ہوا گوشت پیش کیا جائے۔ یہ دعوت غالباً واشنگٹن یا نیویارک میں ہونا تھی۔ ایک خصوصی جہاز پاکستان بھیجا گیا جو سینکڑوں پرندے لایا۔ خصوصی باورچیوں کا انتظام کیا گیا لیکن ہوا یہ کہ ہنری کسنجر طعام گاہ میں داخل ہوا تو قریب ترین ڈِش سے کھانا پلیٹ میں ڈالا اور کھانے لگا۔ اُس نے اس بات پر وقت ضائع کیا نہ دماغ کہ میزوں پر کون کون سے پکوان ہیں اور اسے کیا کھانا چاہیے۔ کھانا کھانے کے دوران بھی وہ وزیراعظم سے انتہائی سنجیدہ امور پر گفتگو کرتا رہا اور پھر وہیں سے واپس چلا گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ لاکھوں روپوں (اُس وقت کے لاکھوں روپے) کے خرچ سے جو خصوصی پکوان اُس کی خاطر تیار کیا گیا تھا‘ اُسے اُس نے دیکھا نہ چکھا۔ اس ساری روایت کا کوئی حوالہ یا ثبوت نہیں‘ لیکن قیاس یہ ہے کہ اس قبیل کا کوئی واقعہ پیش ضرور آیا ہوگا کہ دھواں وہیں مرغولے بناتا ہے جہاں آگ ہو‘ تاریخی حوالے‘ بہرطور‘ موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ بڑے سیاسی رہنما فروعات پر وقت یا توانائی نہیں ضائع کرتے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اٹھارہ سال تک جوتوں کا ایک ہی جوڑا استعمال کیا۔ اس عرصہ میں ایک بار اس کے سول بدلوائے۔ 1997ء سے 2007ء تک‘ دس سالہ وزارتِ عظمیٰ کے دوران پارلیمنٹ میں ہر روز یہی جوڑا پہن کر آتے تھے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم بنے تو صدر عبدالکلام سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیتے وقت اُسی کرتے اور پاجامے میں ملبوس تھے جو ایک عرصہ سے پہن رہے تھے۔ ان کی بیوی گرچون کور سے جب صحافیوں نے پوچھا کہ کیا اس موقع کے لیے کوئی خصوصی ملبوس تیار کرایا گیا ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ نہیں‘ وہ معمول کے کپڑے پہنے ہیں جو کل پرسوں پہنے ہوئے تھے! آسٹریلوی وزیراعظم جولیا گلرڈ کے غیر فیشنی لباس پر پریس نے خوب خوب اعتراض کیے۔ کسی نے کہا کہ یوں لگتا ہے کسی سستے موٹل کی بیڈشیٹ اوڑھ کر آ گئی ہیں‘ کسی نے کہا عام سی دکان میں سیل لگی ہوئی تھی وہاں سے اٹھا لائی ہیں۔ کچھ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم کو ’’لباس الائونس‘‘ دیا جائے کیونکہ جو تنخواہ انہیں مل رہی ہے اس میں تو مناسب پوشاک وہ خرید ہی نہیں سکتیں۔ مناسبت کے لحاظ سے ملبوسات تجویز کرنے والی فرم کا کہنا تھا کہ شایانِ شان پوشاک خریدنے کے لیے وزیراعظم کو بارہ سو سے پندرہ سو ڈالر تک خرچ کرنے ہوں گے۔ اس ساری تنقید اور تضحیک کے جواب میں وزیراعظم کے ترجمان نے کہا تو صرف یہ کہا کہ وزیراعظم نے فیشن کے حوالے سے کسی سے مشورہ طلب کیا ہے نہ انہیں اس کی ضرورت ہے۔ ہاں‘ کسی کو اگر ان کا لباس پسند نہیں آیا تو وہ بے شک اپنی رائے دیتا پھرے۔ 
یہ وہ رہنما ہیں جن کے ذہنوں میں کلبلاتے سوال ان کی ذات کے بارے میں ہیں نہ ان کے خاندان کے متعلق۔ وہ تو ملکی معیشت کے بارے میں سوچتے ہیں یا بین الاقوامی معاملات کے بارے میں۔ اس کے برعکس ہمارے قد آور سیاسی رہنمائوں کے فکر کی اڑان دیکھیے۔ تین دن پہلے کی خبر ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے لیے پشاوری چپل کے سات جوڑے پشاور سے کراچی بھجوائے گئے ہیں۔ سابق صدر نے دو بڑے ڈیلروں کو آرڈر دیے تھے۔ سرخ‘ سیاہ اور برائون رنگ کی یہ چپلیں اعلیٰ ترین کوالٹی کی ہیں اور ایک چپل کی قیمت سات ہزار روپے سے زائد ہے۔ اس سے پہلے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بارے میں یہ خبر خلیج ٹائمز میں اور پھر ساری دنیا میں شائع ہوئی کہ گراں بہا ڈیزائنر ملبوسات کے چالیس کارٹن‘ چار ٹرکوں میں لدے ہوئے‘ ڈیفنس سوسائٹی لاہور والے گھر میں پہنچے۔ انہوں نے ایک بار یہ شیخی بھی بگھاری تھی کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے اپنے ملبوسات نیلام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میڈیا نے یہ خبر بھی دی تھی کہ وہ جو سوٹ ایک بار زیب تن کر لیں‘ دوسری بار نہیں پہنتے۔ 2013ء کے جون میں پاکستانی پارلیمنٹ میں ایک خاتون رکن نے انکشاف کیا کہ حکومتی پارٹی کے ایک صاحب چھیالیس لاکھ ڈالر کی گھڑی باندھے ہیں۔ سپیکر جناب سردار ایاز صادق نے استفسار کیا کہ چھیالیس لاکھ ڈالر یا چھیالیس لاکھ روپے؟ خاتون نے تصدیق کی کہ یہ قیمت ڈالر میں ہے۔ روپوں میں یہ قیمت 45 کروڑ بنتی تھی۔ اس پر سپیکر نے برجستہ کہا کہ پھر تو گھڑی کے مالک نے اس کی ٹھیک ٹھاک انشورنس کرائی ہوگی۔ بھارتی میڈیا نے اس خبر کی مزید وضاحت ٹوئٹر کے حوالوں سے کی کہ یہ گھڑی پہننے والی شخصیت وزیراعظم جناب نوازشریف کی تھی۔ گھڑی کا برانڈ بھی بتا دیا گیا۔ اس گھڑی میں چاند سے ملنے والے ٹکڑے اور خلا اور دوسرے سیاروں سے زمین پر گرنے والی دھاتوں اور پتھروں کے اجزا جَڑے جاتے ہیں۔ 
ان ڈیزائنر سوٹوں‘ پشاوری چپلوں اور بیش بہا گھڑیوں کی قیمت کو ایک طرف رکھ دیجیے‘ صرف اس بات پر غور کیجیے کہ ان خریداریوں کے فیصلے کرنے میں وقت اور دماغ کتنا خرچ ہوا ہوگا؟ اگر گھر کا سودا سلف خریدنے سے قوتِ فیصلہ متاثر ہوتی ہے تو کروڑوں کی گھڑیوں اور سوٹوں کی خریداری سے دماغی تکان کتنی ہوئی ہوگی؟ ان دماغوں میں قومی اور بین الاقوامی مسائل کے لیے کیا جگہ بچتی ہوگی؟ پھر اس خبر پر تعجب کیسا کہ ایک حکومتی سربراہ‘ متحدہ عرب امارات کے بازاروں میں گھڑیاں دیکھتے رہے اور امارات کے صدر سے اُن کی سرکاری ملاقات کا وقت گزر گیا! کتنے چھوٹے دماغ ہیں ہمارے لیڈروں کے! کیا ترجیحات ہیں ان کے ذہنوں میں! کیا سطح ہے ان کے فکر کی! آیئے! ہم اپنے بال کھول کر بکھیر لیں‘ کمر سے پٹکے باندھ لیں‘ سینوں پر دو ہتھڑ ماریں اور اپنی قسمت کا ماتم 
کریں! 

ان معاملات میں فیملی بیک گرائونڈ  بھی  کردار ادا کرتا ہے
کیا شاعر نے درست کہا تھا کہ ؎ 
یونہی تو کنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں 
خسروی شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے! 
مشرقی پاکستان کے عبدالمنعم خان‘ جو ایک اوسط درجے سے بھی کم وکیل تھے‘ صوبے کے گورنر بنے تو احساس کمتری کا اس قدر شکار ہوئے کہ اپنے رشتہ داروں کو گورنر ہائوس کے بستر کی چادریں دکھا دکھا کر داد طلب کرتے تھے۔ ایک صاحب اس کالم نگار کے ساتھ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ اُن دنوں تہمد باندھتے تھے اور ہنستے کھیلتے تھے۔ کچھ دن پہلے ملاقات ہوئی تو ساری گفتگو اس موضوع پر کی کہ ان کی ماہانہ آمد کتنی ہے۔ بینک میں کیا کچھ ہے۔ قومی بچت میں کتنا جمع ہے۔ بیٹا کتنا اچھا ’’سَیٹ‘‘ ہوا ہے۔ پھر اپنے شاندار مکان کا ’’دورہ‘‘ کرایا لیکن وہ ہمارا ساتھی جو تہمد باندھتا تھا‘ لطیفے سناتا تھا‘ ہنستا کھیلتا تھا‘ احساسِ کمتری کی گرد میں گم ہو چکا تھا۔ 
کیا ہمارے بخت میں احساسِ کمتری کے مارے ہوئے رہنما لکھے گئے ہیں؟

 

powered by worldwanders.com