اشاعتیں

جون, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

’’ اسلام وہاں ہے اور مسلمان یہاں ہیں‘‘۔ یہ جملہ ہم بارہا سنتے ہیں۔ ہمارا کوئی عزیز برطانیہ ، کینیڈا، نیوزی لینڈ یا سنگاپور رہ کر آتا ہے‘ آکر حیرتوں کے جہان کھولتا ہے۔ سچائی، دیانت داری اور ایفائے عہد کے واقعات سناتا ہے، پھر اپنے ملک کے حالات کا تجزیہ کرتا ہے‘ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور آخر میں ایک ہی بات کہتا ہے ’’ اسلام وہاں ہے اور مسلمان یہاں ہیں‘‘۔ پہلے تو یہ فقط ایک تاثرتھا۔ چاچوں، ماموں ، بھائیوں ، بھتیجوں، ماسیوں ، پھپھیوں کے اظہار حیرت کا اسلوب تھا۔ لیکن اب یہ تاثر سائنسی حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے دو مسلمان محققین نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اعدادو شمار سے ثابت کیا ہے کہ کون سے ملک عمل کے لحاظ سے اسلامی ہیں؟ کتنے اسلامی ہیں ؟ اور کون سے ایسے ہیں جن کی پالیسیوں کا ‘طرز حیات کا اور بودوباش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں! ایرانی نژاد پروفیسر حسین عسکری جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی بزنس اور بین الاقوامی معاملات کے استاد ہیں۔ ڈاکٹر شہزادہ رحمن بھی اسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ان ریسرچ سکالرز نے قرآنی تعلیمات کا مختلف ممالک کے معاشروں پر اط...

نہیں !ہرگز نہیں!

برصغیر کے مسلمان اپنی نہاد میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ ان کی انٹرٹینمنٹ بھی مذہب کے حوالے سے ہوتی ہے۔ احراری مقرروں کی سحرانگیز تقریریں رات رات بھر سنتے تھے‘ لیکن غیر سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ ووٹ کسی اور کو دیتے تھے۔ ایک عامل یہ بھی تھا کہ اس وقت ٹیلی ویژن تھا نہ انٹرنیٹ۔ کتابیں ہوتی تھیں یا جلسے جلوس۔ انٹرٹینمنٹ کا ایک ذریعہ مذہبی مناظرے بھی ہوتے تھے۔ سٹیج سجتے تھے۔ دونوں طرف سے مولانا حضرات ، کتابوں کے انبار سامنے رکھ کر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے تھے۔ سامعین میں کچھ تو غیر جانب دار ہوتے تھے اور کچھ کسی ایک فریق کے ہم نوا۔ ان دنوں کچھ مصرعے اور کچھ اشعار مناظروں کے دم سے زبان زد خاص و عام تھے جیسے ع اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی ایک اور شعر بہت مشہور ہوا تھا ؎ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں آج یہ شعر یوں یاد آیا کہ ڈاکٹرطاہرالقادری، چودھری برادران اور شیخ رشید کے اتحاد ثلاثہ کی خبر سارے پرنٹ میڈیا کے صفحہ اول پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ مناظرے کا ایک فریق ہے۔ دوسرا فریق حکومت وقت ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس اتحاد کی خبر سن کر فریق ثانی کے ساتھ ...

جناب وزیراعظم!

مہینہ مارچ کا تھا۔ تاریخ 23تھی۔ سال 1973ء تھا۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں نیشنل عوامی پارٹی کا جلسہ تھا۔ بھٹو صاحب کی ایجاد کردہ ’’فیڈرل سکیورٹی فورس‘‘ نے جلسے پر فائر کھول دیا۔ آناً فاناً ایک درجن نہتے افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ قتل ہونے والے تقریباً سارے ہی خیبر پختونخوا سے تھے۔ ولی خان نے کمال صبر و ضبط دکھایا۔ بارہ لاشیں لیں اور دریائے سندھ عبور کیا۔ پارٹی میں اشتعال زور پر تھا۔ ورکر چاہتے تھے کہ لاشوں کو پشاور کی گلیوں میں پھرایا جائے۔ ولی خان نے منع کیا اور خاموشی سے تدفین کردی۔ فیڈرل سکیورٹی فورس کا ’’کام‘‘ تاہم ختم نہیں ہوا تھا وہ مسلسل نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمائوں کا تعاقب کرتی رہی یہاں تک کہ بہت سے ملک چھوڑ گئے۔ انہی میں اجمل خٹک بھی تھے جو کابل جا بیٹھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے عروج پر تھے۔ کہاں سات پردوں کے پیچھے محفوظ ذوالفقار علی بھٹو اور کہاں خاک و خون میں لتھڑی بارہ لاشیں۔ اور کہاں بارہ لاشوں کے پس ماندگان! یہ پس ماندگان اُلٹے بھی لٹک جاتے تو بھٹو صاحب کے محل کے نزدیک نہیں پھٹک سکتے تھے۔ کرسی مضبوط تھی۔ محلات پر پہرے تھے۔ فوج ماتحت تھی۔ پولیس غلام تھی۔ فیڈرل سکیور...

آرمی پروموشن سسٹم…سول میں؟؟

  ’’ گرم‘‘ موضوعات تو اور تھے لیکن ایک ایسی خبر پڑھی جس سے یہ یقین پختہ ہو گیا کہ سطحیت کے وارے نیارے ہیں، گہرائی عنقا ہے‘ سنجیدگی نہ صرف یہ کہ رخصت ہو گئی‘ اس کی واپسی کے بھی راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ عام پاکستانی یہ خبر پڑھ کر بہت متاثر ہو گا کہ سول بیورو کریسی میں آرمی پروموشن سسٹم لایا جا رہا ہے اور یہ کہ جس طرح آرمی میں زیادہ تر افسر میجر یا کرنل کے منصب سے ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں اور صرف غیر معمولی کارکردگی والے افسران ٹاپ پر پہنچتے ہیں اسی طرح سول میں بھی صرف ازحد لائق افسر اوپر کے گریڈوں میں پہنچ پائیں گے۔ آرمی کا پروموشن سسٹم‘ سول میں متعارف کرنے کے لئے وزیراعظم نے دو کمیٹیاں بنا دی ہیں۔ ایک کے سربراہ وزیر خزانہ ہیں، دوسری وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے تحت کام کرے گی؟ اس تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ منسٹر صاحبان آرمی کے پروموشن سسٹم سے کس قدر آگاہی رکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عام پاکستانی ایسی خبروں پر واہ واہ تو کرتا ہے لیکن اسے اس حقیقت کا اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا نتیجہ صفر نکلے گا۔ پاکستان آرمی کا پروموشن سسٹم سول بیورو کریسی میں…؟؟ یہ...

قومی نشاں ہمارا

گھوڑا ترکوں کی ثقافت میں بہت اہم علامت تھا۔ گھوڑے کی دُم بھی اہم تھی۔ عثمانی ترکوں کا سب سے بڑا اعزاز پاشا تھا (جو اصل میں باشی تھا)۔ یہ اعزاز‘ یوں سمجھیے لارڈ کا ہم مرتبہ تھا۔ چیدہ چیدہ گورنروں‘ جرنیلوں‘ صوبوں کے والیوں اور غیر ملکی شخصیات کو یہ اعزاز سلطان کی طرف سے عطا کیا جاتا تھا۔ پاشا کے تین درجے تھے۔ سب سے بڑے درجے کے پاشا کو اجازت تھی کہ اُس کے جھنڈے میں گھوڑوں کی تین دُمیں ہوں۔ اس سے کم درجے کے پاشا کے پرچم میں دو دُمیں اور کم ترین پاشا صرف ایک دُم والا جھنڈا لہرا سکتا تھا۔ سلطان کے خیمے کے سامنے جو جھنڈا لہراتا‘ اس میں چار دُمیں ہوتیں کیونکہ وہ سپریم کمانڈر بھی تھا۔ جھنڈے کے ستون کے اوپر ہلال ہوتا۔ یہ ہلال اور یہ ایال… منگول اور ترک ثقافت کے امتزاج کی پیداوار تھے۔ ہلال اور گھوڑے کے بال دونوں انتہائی اہم علامتیں تھیں۔ گھوڑا ترکوں کی بہادری‘ پیش قدمی اور فتح یابی کا نشان تھا۔ یہ سخت جانی اور مشقت پسندی کی علامت تھا۔ وسط ایشیا کے میدانوں سے لے کر انا طولیہ‘ اور قسطنطنیہ تک اور پھر مشرقی یورپ کی آخری سرحدوں تک گھوڑا ہی ترکوں کا رفیقِ سفر رہا۔ یورپ آج تک نہیں بھولا کہ عثمانی ت...

ہم اُس کے وہ ہور کسی کا

دنیا ٹی وی کے کامران شاہد نے وفاقی وزیر کو ایک گوشے میں محصور کر رکھا تھا۔ اُس دن کی تازہ ترین خبر یہ تھی کہ وزیراعلیٰ نے فوج سے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کے لیے بات کی تھی۔ کامران پوچھ رہا تھا کہ اپنی ہی پولیس پر بے اعتباری! عوام کے مورال کا کیا ہو گا! وفاقی وزیر آخر اس کا کیا جواب دیتے! کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ آپا نثار فاطمہ کے فرزند اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بات کو طول دے کر شائستگی سے طرح دے گئے۔ پولیس ایک ادارہ ہے۔ یہ ادارہ منہدم ہو چکا ہے۔ اس انہدام کا ذمہ دار کسی ایک حکومت کو ٹھہرانا ناانصافی ہو گا۔ حسبِ توفیق سب نے حصہ لیا۔ موجودہ حکمران، سارے دعووں کے باوجود، تھانہ کلچر بدل نہ سکے۔ ہاں وہ کام انہوں نے ضرور کیے جس سے تھانہ کلچر نہ صرف جاری رہا بلکہ مزید تباہی کی طرف رواں ہوا۔ایک اوسط درجے کا دماغ رکھنے والے پاکستانی کو بھی معلوم ہے کہ پولیس اگر آج وزیراعلیٰ کی حفاظت نہیں کر سکتی اور وزیراعلیٰ کو چھائونی کی طرف دیکھنا پڑا ہے تو اس عبرت ناک زوال کے اسباب کیا ہیں؟ اس کا سب سے بڑا سبب پولیس کی سیاست زدگی ہے۔ یہ ادارہ سیاست دانوں کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہے۔ تعیناتیاں...

شہر کا والی

ہتھیلی پر بال اگ سکتے ہیں۔کبوتری انڈوں کے بجائے براہ راست بچے دے سکتی ہے۔ مائونٹ ایورسٹ پانی میں ڈوب سکتی ہے۔ بحرالکاہل جھیل میں ضم ہوسکتا ہے۔ افغان بُزدل ہوسکتا ہے۔ پاکستانی قطار بناسکتا ہے، حاجی صاحب ملاوٹ اور ٹیکس چوری سے باز آسکتے ہیں۔ مولوی صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرے بعد مسجد میرے فرزند کے حوالے نہ کرو، کوئی اہل شخص ڈھونڈو… یہاں تک کہ شاعر محبوبہ سے کہہ سکتا ہے      ؎ ترا حُسن سحر تھا، ممکنات کی حد نہ تھی کفِ دست پر ترے خار اگا تھا کہ پھول تھا سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن مزاج سے شہنشاہی نہیں جاسکتی ! گم شدہ شاعر شبیرشاہد نے کہا تھا    ؎ بہے اسی میں جہاں پناہی، دماغِ شاہی بہے سلیماں، بہے سکندر بہے نہ ساگر عمریں ختم ہوجاتی ہیں۔ بادشاہی نہیں جاتی۔ ہسپانیہ کا ایک بادشاہ شدید سردی میں بیٹھا ٹھٹھرتا رہا۔ ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرگیا لیکن آتش دان نہ جلایا کہ خادم آکر جلائے  گا۔ ایک جہان نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے کہ سارا اقتدار ایک محدود دائرے کے اندر ہے۔ بھائی، بھتیجا ، سمدھی، داماد، بھانجا۔ اس کے بعد ایک خاص شہر کی مخصوص برادری۔ آہ وفغاں ک...

بچوں یا پرندوں کی حکومت

ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو کا چرچا ہے جس میں سال ڈیڑھ سال کا ایک بچہ بار بار ہنستا ہے اور آخر میں ہنس ہنس کر اتنا بے حال ہوتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے گر جاتا ہے۔ ویڈیو میں وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ’’ہمیں وہ پاکستان چاہیے جو غربت سے آزاد ہو‘‘۔ یہ سن کر بچہ قہقہہ لگاتا ہے! پھر وزیر اعظم کہتے ہیں (اس وقت وہ وزیر اعظم نہیں تھے) ’’ اللہ نے ہمیں حکومت عطا فرمائی تو میں نے وہاں نہیں بیٹھنا‘ اسلام آباد میں‘‘۔ اس پر بچہ پھر ایک زوردار اور نسبتاً طویل قہقہہ لگاتا ہے۔ پھر وزیر اعظم کہتے ہیں: ’’انشاء اللہ اگر ایسا موقع آیا تو مجھے اور شہباز شریف کو آپ اس شہر میں، پاکستان میں، بازاروں میں، گلیوں میں، دیہاتوں میں اپنے کندھوں کے ساتھ کندھا ملاتے ہوئے دیکھیں گے‘‘۔ بچہ پھر زور سے ہنستا ہے۔ آخری جملہ وزیر اعظم کا یہ ہے: ’’اگر خدمت کرنی ہے پاکستان کی تو پھر ایسے ہی کرنی ہے‘‘۔ یہ سن کر بچہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتا اور بیٹھے بیٹھے گر جاتا ہے۔ اس بچے کی ان دنوں پاکستان کو شدید ضرورت ہے تاکہ وہ لوگوں کو بتا سکے کہ کون کون سی باتوں پر ہنسنا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔ ...