Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, June 28, 2014

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

’’ اسلام وہاں ہے اور مسلمان یہاں ہیں‘‘۔
یہ جملہ ہم بارہا سنتے ہیں۔ ہمارا کوئی عزیز برطانیہ ، کینیڈا، نیوزی لینڈ یا سنگاپور رہ کر آتا ہے‘ آکر حیرتوں کے جہان کھولتا ہے۔ سچائی، دیانت داری اور ایفائے عہد کے واقعات سناتا ہے، پھر اپنے ملک کے حالات کا تجزیہ کرتا ہے‘ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور آخر میں ایک ہی بات کہتا ہے ’’ اسلام وہاں ہے اور مسلمان یہاں ہیں‘‘۔
پہلے تو یہ فقط ایک تاثرتھا۔ چاچوں، ماموں ، بھائیوں ، بھتیجوں، ماسیوں ، پھپھیوں کے اظہار حیرت کا اسلوب تھا۔ لیکن اب یہ تاثر سائنسی حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے دو مسلمان محققین نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اعدادو شمار سے ثابت کیا ہے کہ کون سے ملک عمل کے لحاظ سے اسلامی ہیں؟ کتنے اسلامی ہیں ؟ اور کون سے ایسے ہیں جن کی پالیسیوں کا ‘طرز حیات کا اور بودوباش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں! ایرانی نژاد پروفیسر حسین عسکری جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی بزنس اور بین الاقوامی معاملات کے استاد ہیں۔ ڈاکٹر شہزادہ رحمن بھی اسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ان ریسرچ سکالرز نے قرآنی تعلیمات کا مختلف ممالک کے معاشروں پر اطلاق کیا۔ یہ اعدادو شمار کا مسئلہ تھا۔ اس میں تعصب تھا نہ جانب داری۔ نتیجہ افسوسناک نکلا۔ مسلمان ممالک پیچھے رہ گئے۔ پہلے دس میں آئرلینڈ ، ڈنمارک، سویڈن، برطانیہ، نیوزی لینڈ، سنگاپور ، فن لینڈ، ناروے اور بلجیم آئے۔ مسلمان ملکوں میں کوئی بھی پہلے تیس نمبروں میں شامل نہ ہوسکا ۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کا سیدھا سادا عام لفظوں میں معیار یہ تھا کہ اگر کوئی ملک ، کوئی معاشرہ، ایسی سماجی‘ قانونی اور حکومتی بیماریوں میں مبتلا ہے جو قرآن پاک اور تعلیماتِ نبوی کے فیصلے کے مطابق مسلمانوں کے شایان شان نہیں ہیں تو وہ معاشرہ اسلامی نہیں ہوسکتا۔ اگر حکمران غیر منتخب ، ظالم، اقربا پرور اور دولت جمع کرنے کے حریص ہیں ، اگر قانون کی نظر میں سب لوگ برابر نہیں ہیں‘ اگر ترقی کے مواقع سب کے لیے یکساں نہیں ہیں ، اگر امرا کے شفاخانے ، تعلیمی ادارے ، شاپنگ سنٹر اور کھیل کے میدان الگ ہیں‘ اگر جھگڑے اور اختلافات بات چیت کے بجائے طاقت کے استعمال سے نمٹائے جاتے ہیں اور اگر کسی بھی قسم کی ناانصافی کا دور دورہ ہے تو وہ معاشرہ بے شک مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا پھرے، قرآنی تعلیمات کی رُو سے اسلامی نہیں ہوسکتا!
تفصیل اس اجمال کی اس طرح ہے کہ ان محققین نے ایک انڈیکس ترتیب دیا جس کی رو سے اس امر کی پیمائش ہوسکتی ہے کہ ایک ملک کس قدر اسلامی ہے۔ اس انڈیکس کو چار حصوں میں منقسم کیاگیا۔
اول‘ اقتصادی حوالے سے۔
دوم‘ گورننس اور قانون کے اعتبار سے۔
سوم‘ انسانی اور سیاسی حقوق کے لحاظ سے۔
چہارم‘ بین الاقوامی تعلقات کی رو سے۔
پھر ان چاروں شعبوں کو تفصیل سے جانچا گیا۔ اقتصادی حوالے سے مندرجہ ذیل عوامل کا جائزہ لیاگیا:
کیا عوام کو بلا تخصیص معاشی مواقع میسر ہیں ؟
کیا اقتصادی مساوات موجود ہے؟
کیا معاہدوں پر عمل پیرا ہوا جاتا ہے؟
کیا روزگار کے مواقع سب کے لیے یکساں ہیں اور کیا سفارش اور رشوت کے بغیر روزگار مہیا ہوجاتا ہے؟
کیا تعلیم کے مواقع سب کے لیے یکساں ہیں ؟
کیا ریاست خوراک، رہائش اور علاج کی بنیادی سہولیات فراہم کررہی ہے؟ کیا ٹیکس سے اکٹھی کی گئی رقم معاشرے کی فلاح پر خرچ کی جارہی ہے؟ کیا قدرتی وسائل سے پوری آبادی فائدہ اٹھا رہی ہے؟کیا اقتصادی کرپشن کرنے والے مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں دی جارہی ہیں؟… اور اہم ترین سوال … کیا ریاست عوامی خوشحالی لانے کے لیے موثر کردار ادا کررہی ہے؟
قانون اور گورننس کے اعتبار سے مندرجہ ذیل عوامل جانچے گئے:
سیاسی استحکام۔
کرپشن کی روک تھام۔
عدلیہ کی آزادی اور حکومت اور سیاسی جماعتوں کی عدم مداخلت۔
کیا نجی شعبہ حکومتی ظلم کے خلاف عدالتوں میں جاسکتا ہے؟
عدلیہ کی غیر جانب داری کی ضمانت۔
مسلح افواج رول آف لا اور سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت تو نہیں کررہیں؟
انسانی اور سیاسی حقوق کے میدان میں مندرجہ ذیل انڈیکس دیکھا گیا:
کیا شہری اور سیاسی حقوق بلاامتیاز حاصل ہیں؟
کیا پارلیمنٹ میں خواتین کی نشستیں آبادی کے اعتبار سے پوری ہیں؟
کیا عورتیں آزادی سے ووٹ ڈال سکتی ہیں؟
کیا حکومتی شعبوں اور وزارتوں میں خواتین شریک کار ہیں؟
کیا کسی خاص گروہ کی رنگ ،نسل یا عقیدے کی بنیاد پر، نسل کُشی تو نہیں ہورہی ؟
بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں انڈیکس کو اس طرح جانچا گیا:
ماحولیات کی صفائی۔
آکسیجن کی کوائلٹی۔
پانی کی فراہمی۔
توانائی کے ذرائع ۔
بین الاقوامی اطلاعات کا عوام تک پہنچایا جانا۔
دفاع پر، قومی آمدنی کا کتنے فیصد خرچ کیاجارہا ہے۔
 مجموعی طور پر ملک بین الاقوامی لحاظ سے کتنا معزز اور قابل اعتبار ہے؟
یہ ایک ٹیکنیکل سروے ہے اور اقتصادی اصلاحات سے اٹا پڑا ہے۔ اس میں ریاضی اور Econometrics (اقتصادیات کی ریاضی) کا عمل دخل ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ آسان زبان میں تحقیقاتی رپورٹ کی روح قارئین تک پہنچائیں۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی یہ رپورٹ پوری دنیا میں سنجیدگی سے پڑھی جارہی ہے ۔ اوپر دیے گئے عوامل (انڈیکس) کی رو سے ملکوں کی ریٹنگ اس طرح نکلی ہے۔
1۔نیوزی لینڈ‘2۔ لگزمبرگ‘3۔ آئرلینڈ‘4۔ آئس لینڈ‘5۔ فن لینڈ‘6۔ڈنمارک‘7۔ کینیڈا‘8۔ برطانیہ‘9۔ آسٹریلیا‘ 10۔ہالینڈ‘ 11۔ آسٹریا‘ 12۔ ناروے‘ 13۔ سوئٹزرلینڈ‘ 14۔ بلجیم‘15۔ سویڈن۔
مسلمان ملکوں کی ریٹنگ یوں ہے۔
ملائشیا38نمبر پر‘ کویت 48نمبر پر‘ بحرین 64‘ برونائی 65‘ متحدہ عرب امارات 66‘ اردن77‘ تیونس 83‘ سعودی عرب 131‘مراکش 119‘ پاکستان147‘ بنگلہ دیش 152‘ مصر153‘ افغانستان 169‘ سب سے آخر میں صومالیہ کا نمبر ہے 206۔اس سے نیچے صرف دو ممالک ہیں۔
ملائشیا کے ایک سکالر نے اس رپورٹ پر اور ملائشیا کی ریٹنگ پر اعتراض کیا ہے لیکن اس نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ مجموعی طور پر رپورٹ درست ہے اور یہ کہ صفائی کے اعتبار سے مسلمان ممالک بہت پیچھے ہیں۔ کسی ایک مسلمان ملک میں بھی بیت الخلا اس معیار پر پورے نہیں اترتے جو اسلام کو مطلوب ہے۔

ہم اس رپورٹ سے اپنے گریبان میں جھانکیں یا حسب معمول اسے یہود و ہنود کی سازش قرار دیں‘ ہمارا ردعمل جو بھی ہو، اس سے تحقیق کرنے والوں پر اور تحقیقاتی رپورٹوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ایک اور بین الاقوامی سروے نے حال ہی میں بتایا ہے کہ مسلمان اپنے ملکوں میں ناخوش ہیں۔ وہ پاکستان میں ، مصر میں ، سعودی عرب میں ، بنگلہ دیش میں، لیبیا میں ، افغانستان ، صومالیہ ، سوڈان ، ایران اور لبنان میں آلام و مصائب و الی زندگی گزار رہے ہیں۔ قانون سب کے لیے برابر نہیں، مال و جان اور عزت غیر محفوظ ہے۔ اقتصادی اور تعلیمی مواقع غیر یکساں ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو مسلمان برطانیہ، امریکہ، کینیڈا ، جرمنی، فرانس ، آسٹریلیا اور جاپان وغیرہ میں رہ رہے ہیں وہ آسودہ اور مطمئن ہیں۔ لیکن معمہ جو حل نہیں ہورہا یہ ہے کہ وہ اپنی ناآسودگی اور ناخوشی کا ذمہ دار ان ملکوں کوقرار دیتے ہیں جہاں وہ مطمئن ہیں اور اس کا حل یہ تجویز کرتے ہیں کہ جن ملکوں میں وہ خوش ہیں، انہیں ان ملکوں کی طرح کردیں جہاں سے وہ ہجرت کرکے آئے ہیں!!

Friday, June 27, 2014

نہیں !ہرگز نہیں!

برصغیر کے مسلمان اپنی نہاد میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ ان کی انٹرٹینمنٹ بھی مذہب کے حوالے سے ہوتی ہے۔ احراری مقرروں کی سحرانگیز تقریریں رات رات بھر سنتے تھے‘ لیکن غیر سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ ووٹ کسی اور کو دیتے تھے۔ ایک عامل یہ بھی تھا کہ اس وقت ٹیلی ویژن تھا نہ انٹرنیٹ۔ کتابیں ہوتی تھیں یا جلسے جلوس۔ انٹرٹینمنٹ کا ایک ذریعہ مذہبی مناظرے بھی ہوتے تھے۔ سٹیج سجتے تھے۔ دونوں طرف سے مولانا حضرات ، کتابوں کے انبار سامنے رکھ کر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے تھے۔ سامعین میں کچھ تو غیر جانب دار ہوتے تھے اور کچھ کسی ایک فریق کے ہم نوا۔ ان دنوں کچھ مصرعے اور کچھ اشعار مناظروں کے دم سے زبان زد خاص و عام تھے جیسے عاب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئیایک اور شعر بہت مشہور ہوا تھا ؎نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سےیہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیںآج یہ شعر یوں یاد آیا کہ ڈاکٹرطاہرالقادری، چودھری برادران اور شیخ رشید کے اتحاد ثلاثہ کی خبر سارے پرنٹ میڈیا کے صفحہ اول پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ مناظرے کا ایک فریق ہے۔ دوسرا فریق حکومت وقت ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس اتحاد کی خبر سن کر فریق ثانی کے ساتھ ساتھ عوام بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ تو آزمائے ہوئے بازو ہیں۔ ان سے خنجر اٹھے گا نہ تلوار ! ایک میدان میں نٹ کرتب دکھا رہے تھے۔ تنی ہوئی رسی پرنٹ الٹا لٹکا ہوا تھا۔ نیچے سے اس کا ساتھی پوچھ رہا تھا۔ کہاں ہو ؟ ’’رسی پر الٹا لٹکا ہوا ہوں۔‘‘اس نے جواب دیا۔’’تکلیف میں ہو؟‘‘
’’ہاں تکلیف میں ہوں۔‘‘
’’ سخت تکلیف میں ہو؟‘‘
’’ ہاں سخت تکلیف میں ہوں، لیکن دو بیویوں کے شوہر کی نسبت پھر بھی آرام میں ہوں۔‘‘
پاکستان کے عوام شیخ رشید اور چودھری صاحبان کے زمانۂ اقتدار …بلکہ… زمانہ ہائے اقتدار کا مزا چکھ چکے ہیں۔ یہ تنی ہوئی رسی کا زمانہ تھا جس پر عام پاکستانی الٹا لٹکا ہوا تھا۔ آج بھی اس کا وہی عالم ہے۔ ایک رسی شریف خاندان کی ہے۔ دوسری طرف وہ سیاست دان بلارہے ہیں جن کی رسیوں سے ایک دنیا واقف ہے۔ پوری دنیا میں ان کے کارخانے، کاروبار اور ہوٹل پھیلے ہوئے ہیں۔ چند دن پہلے ایک سفرنامہ ’’سیرِجہاں‘‘ موصول ہوا۔ اس کے مصنف فقیر اللہ خان ہیں۔ کہیں کہیں دلچسپ معلومات ہیں۔ بارسلونا کے حوالے سے لکھا ہے:
’’چوک سے گزرتے ہوئے ایک چودہ منزلہ گول سی عمارت پر نظر پڑی۔ معلوم ہوا یہ ایک ہوٹل ہے۔ ہوٹل کے دروازے پر ایک لمبے تڑنگے اور مونچھوں کو بل دیے سردار جی بھی دربان کھڑے تھے ۔ان سے پوچھا کہ سردار جی یہاں قرب و جوار میں کوئی مسجد ہے۔ پہلے تو سردار جی نے ہمیں اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا اور پھر پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ پاکستان سے۔ سردار جی گویا ہوئے کہ جس بلڈنگ کے دروازے پر آپ کھڑے ہیں‘ اس ہوٹل کا مالک بھی ایک پاکستانی ہے۔ ہم نے پوچھا‘ وہ کون سا پاکستانی ہے جس کا یہ چودہ منزلہ ہوٹل ہے؟جواب میں سردار جی نے ایک مشہور و معروف پاکستانی سیاست دان کا نام لیا!‘‘
رہے ڈاکٹر طاہرالقادری ! تو ان کا انقلاب بدلتی رت کی طرح آتا جاتا رہتا ہے؛ تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کی ریت اس ملک میں کب نہیں تھی؟ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی اور اس کی متعدد شاخیں،نظام اسلام پارٹی، پوری تاریخ مذہب کے غلط استعمال سے اٹی پڑی ہے۔ مدرسوں کی چٹائیوں میں وہ لطف کہاں جو پجاروگاڑیوں ، منسٹر کالونی کے محلات اور مفت کے غیر ملکی دوروں میں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج تک ایک خاص مکتب فکر کے علم بردار مذہب کے نام پر سیاست کرتے رہے، طاہرالقادری کا تعلق دوسرے مکتب فکر سے ہے۔ اکثریت ملک میں اسی مکتب فکر کی ہے۔ منطق کہتی ہے کہ ایک فرقہ … یا ایک مکتب فکر‘ سالہا سال سے مذہب کے نام پر سیاست کررہا ہے تو دوسرے مکاتب فکر کا، دوسرے فرقوں کا بھی حق ہے۔ گویا طاہرالقادری زبان حال سے اپنے حریفوں کو وہی بات کہہ رہے ہیں جو اقبال کی زبانی مسولینی نے اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے کہی تھی:
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم؟بے محل بگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاجمیں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوںہیں سبھی تہذیب کے اوزار تو چھلنی، میں چھاجمیرے سودائے ملوکیت کے ٹھکرائے ہو تم؟تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاجتم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیامتم نے لوٹی کشت دہقاں، تم نے لوٹے تخت و تاجپردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کشیکل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج برصغیر کا مسلمان مذہب کے پھندے میں یوں پھنستا ہے جیسے چوہا پنیر کے ٹکڑے کے لیے کڑکی میں پھنستا ہے۔ تین طبقے ایسے ہیں جو مذہب کے نام پر کروڑوں میں نہیں اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں۔ سیاسی علماء، گدی نشین اور تاجر۔ سوشل میڈیا میں وہ تصویر کروڑوں لوگ دیکھ رہے ہیں جس میں ملتان کا ایک معروف سیاستدان ، آبائی گدی پر بیٹھا، دستار پہنے ، مریدوں سے نوٹوں کا پلندا وصول کررہا ہے‘ جب کہ ایک اور تصویر میں ایک مغربی ملک کی سفید فام وزیر خارجہ کے ساتھ ریشہ خطمی ہورہا ہے! اقبال نے جس نظم کا عنوان ’’پنجابی مسلمان‘‘ باندھا تھا۔ اس کا عنوان ’’پاکستانی مسلمان‘‘ ہونا چاہیے:
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتاہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلدتاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دےیہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلدتاجروں کا گروہ ان دونوں طبقوں کو مات کرتا ہے۔ پنجابی کا معروف محاورہ یاد آرہا ہے۔ بصد معذرت! شکل مومناں کرتوت کافراں۔ ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی، ٹیکس چوری، ناروا تجاوزات لیکن ظاہر سے کچھ اور۔ دیگیں اور خیرات، عمرے اور زیارتیں، گاہک سودا خرید کر غلطی سے رسید مانگ بیٹھے تو غصے سے چہرے کا رنگ سیاہ پڑ جاتا ہے!
نہیں! ہرگز نہیں ۔ شریف برادران، نہ چودھری برادران… نہیں ہرگز نہیں۔ شیخ رشید، نہ ڈاکٹر طاہرالقادری ۔ ان میں سے کوئی اس ملک کا نجات دہندہ نہیں ہوسکتا! یہ سب چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ یہ وہ خول ہیں جن کے اندر کچھ نہیں ! یہ محض چھلکے ہیں۔ بعض پھوک! اس ملک کا نجات دہندہ وہ ہوگا جو ایک عام گھر میں رہے گا‘ جو اپنا سودا بازار سے خود خریدے گا‘ جس کا کھانا اس کی بیوی پکائے گی‘ جس کے بیٹے ، بھتیجے ، سمدھی، داماد، بھانجے ، بھائی، کاروبار حکومت سے کوسوں دور ہوں گے‘ جو اپنا اور اپنے بچوں کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں کرائے گا‘ جو فیصلے کچن کابینہ میں نہیں ، کابینہ میں کرے گا‘ جو پارلیمنٹ سے یوں ڈرے گا جیسے پرندہ تیر سے ڈرتا ہے‘ جس کے بیرون ملک ہوٹل ہوں گے نہ کارخانے۔ محلات‘ نہ گراں بہا اپارٹمنٹ ! ؎فلک کو بار بار اہل زمیں یوں دیکھتے ہیںکہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے

Wednesday, June 25, 2014

جناب وزیراعظم!

مہینہ مارچ کا تھا۔ تاریخ 23تھی۔ سال 1973ء تھا۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں نیشنل عوامی پارٹی کا جلسہ تھا۔ بھٹو صاحب کی ایجاد کردہ ’’فیڈرل سکیورٹی فورس‘‘ نے جلسے پر فائر کھول دیا۔ آناً فاناً ایک درجن نہتے افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ قتل ہونے والے تقریباً سارے ہی خیبر پختونخوا سے تھے۔ ولی خان نے کمال صبر و ضبط دکھایا۔ بارہ لاشیں لیں اور دریائے سندھ عبور کیا۔ پارٹی میں اشتعال زور پر تھا۔ ورکر چاہتے تھے کہ لاشوں کو پشاور کی گلیوں میں پھرایا جائے۔ ولی خان نے منع کیا اور خاموشی سے تدفین کردی۔ فیڈرل سکیورٹی فورس کا ’’کام‘‘ تاہم ختم نہیں ہوا تھا وہ مسلسل نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمائوں کا تعاقب کرتی رہی یہاں تک کہ بہت سے ملک چھوڑ گئے۔ انہی میں اجمل خٹک بھی تھے جو کابل جا بیٹھے۔
ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے عروج پر تھے۔ کہاں سات پردوں کے پیچھے محفوظ ذوالفقار علی بھٹو اور کہاں خاک و خون میں لتھڑی بارہ لاشیں۔ اور کہاں بارہ لاشوں کے پس ماندگان! یہ پس ماندگان اُلٹے بھی لٹک جاتے تو بھٹو صاحب کے محل کے نزدیک نہیں پھٹک سکتے تھے۔ کرسی مضبوط تھی۔ محلات پر پہرے تھے۔ فوج ماتحت تھی۔ پولیس غلام تھی۔ فیڈرل سکیورٹی فورس زرخرید باندی تھی۔ مسعود محمود جیسے کئی خوش لباس‘ سرکشیدہ‘ گردن بلند افسر بھٹو صاحب کی انگشت ِشہادت نہیں‘ بھٹو صاحب کی چیچی (سب سے چھوٹی اُنگلی) کے ایک خفیف سے اشارے پر بھاگے چلے آتے تھے۔ بنکاک کے سلے ہوئے سفاری سوٹ تھے۔ ریشمی نکٹائیاں تھیں۔ ایک ایک فٹ لمبے سگار تھے۔ سینڈوچ اور کافی تھی۔ ظہرانے اور عصرانے تھے۔ راتیں جاگتی ناچتی اور تھرکتی تھیں۔ بھٹو صاحب فارسی سے نابلد تھے لیکن بیگم صاحبہ کی تو مادری زبان ہی فارسی تھی۔ بیگم صاحبہ نے بابرؔ کی شاعری پڑھی ہوتی تو محل کے ماتھے پر یہ مصرع ضرور کھدواتیں   ع
بابرؔ بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کیا دردناک حقیقت ہے کہ عالم دوبارہ نیست! لیکن ایک حقیقت اس سے بھی زیادہ دردناک ہے جو بابرؔ کی نگاہوں سے اوجھل رہی اور بھٹو صاحب ساری زیرکی‘ ذہانت اور علم و دانش کے باوجود اس حقیقت کو نہ پا سکے۔ عالم دوبارہ نہیں ہے۔ درست۔ لیکن اسی ایک عالم میں کئی عالم پنہاں ہیں۔ عالم کروٹ لیتا ہے! عالم نے کروٹ لی! جو تھا وہ خواب و خیال ہو گیا جو خواب و خیال تھا وہ حقیقت بن کر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جس ضیاء الحق کو اوپر لانے کے لیے انصاف کا خون کیا تھا‘ اسی نے آ کر دبوچ لیا۔
سفاری تھے یا تھری پیس۔ سب سوٹ غائب ہو گئے۔ افسر جو بلانے پر تیرتے چلے آتے تھے‘ وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ محلات اور پہرے دار سب کچھ چھن گیا۔ کاغذ قلم تک کے لالے پڑ گئے۔ گھروالے ملنے آتے تو کبھی کبھار سینڈوچ لے آتے۔ ایک چھوٹا سا کمرہ‘ سانس بھی لیں تو اگلے ریکارڈ کر لیں۔ رہے نام اللہ کا!
سوائے خدا کے اور سوائے بھٹو صاحب کے‘ کوئی نہیں بتا سکتا کہ زنداں کی تنہائی میں انہیں کبھی اُن بارہ لاشوں کا خیال آیا یا نہیں‘ جو ان کے حکم سے لیاقت باغ میں گرائی گئی تھیں اور جنہیں جلو میں لیے‘ آنسو پیتا ولی خان اٹک پار لے گیا تھا! وہ بارہ لاشیں‘ بارہ لاشیں نہیں تھیں۔ بارہ جہان تھے۔ بارہ کائناتیں تھیں۔ ان پر ماتم کرنے والی وہ عورتیں تھیں جنہیں کبھی ہوا اورگھٹا نے بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ پردہ دار تھیں‘ بچے تھے جو یتیم ہو گئے۔ سفید ریش بوڑھے تھے جن کے سہارے چھن گئے۔ مصلوں پر بیٹھی مائیں تھیں جو بھٹو صاحب کا نام لے لے کر آسمان کو دیکھتی تھیں    ؎
میں دیکھتا ہوں شتر سواروں کے قافلے کو
پھر آسماں کو، پھر اپنا اسباب دیکھتا ہوں
جنرل ضیاء الحق…؟؟ خدا کے بندو! وہ تو ایک اوزار تھا۔ ایک ٹُول تھا۔ اسے تو اس کام پر مامور کیا گیا تھا۔ وہ نہ ہوتا تو کیا قسّامِ ازل اُن لاشوں کا انتقام نہ لیتا؟ بارہ لاشوں کا بدلہ تو بارہ پھانسیاں ہیں‘ اب یہ قدرت ہی کو معلوم ہے کہ یہ پھانسی کس لاش کے بدلے میں تھی اور کل حشر کے دن باقی پس ماندگان کیا حشر اٹھاتے ہیں۔
میاں صاحبان بھی آج اقتدار کے عروج پر ہیں۔ کوئی نہیں جو انہیں چیلنج کرے۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست! ہے کوئی ہمارے جیسا؟ فوج خاندان کی حفاظت پر مامور ہے۔ پولیس مٹھی میں یوں بند ہے جیسے گلیور کی مٹھی میں لِلی پُٹ کے بونے بند ہو جاتے تھے۔ ایلیٹ فورس کے سر کے بال جوتوں تلے ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر جاں نثار۔ رانا ثناء اللہ وقتی طور پر پس منظر میں چلے گئے تو کیا غم۔ اکیلے خواجہ سعد رفیق‘ ہزار پہلوانوں کے برابر ہیں۔ جہاز کا رُخ موڑنا تو کھیل ہے‘ طاقت کا یہ حال ہے کہ چاہیں تو سمندروں کے رُخ موڑ دیں۔ چولستان میں پہاڑ کھڑے کردیں‘ چترال میں صحرا لے جائیں‘ محلات ہیں اور پہریدار‘ غلام قطار اندر قطار۔ درجنوں تو ریٹائرڈ افسران ہیں جن کا جوہرِ ادراک خرید لیا گیا ہے! میاں صاحبان تو اقتدار کی اس چوٹی پر ہیں جس کی طرف دیکھیں تو ٹوپی سر سے گر جاتی ہے‘ ان کے بھتیجے‘ بھانجے اور سمدھی کی طرف بھی دیکھنا اپنے آپ کو اندھا کرنے کے مترادف ہے!   ؎
تمتماتے ہیں سلگتے ہوئے رخسار ترے
آنکھ بھر کر کوئی دیکھے گا تو جل جائے گا
لیکن اس عالم میں ایک اور عالم بھی پنہاں ہے‘ کیا خبر کل کیا ہو جائے۔ آج لاہور میں گرنے والی گیارہ لاشوں کے پس ماندگان بے بس ہیں۔ بے کس ہیں‘ مظلوم اور مقہور ہیں۔ لیکن یہ بے کسی کسی وقت بھی اختیار میں ڈھل سکتی ہے!
بڑے میاں صاحب‘ جناب وزیراعظم‘ پکے مسلمان ہیں۔ ان کا آخرت پر پختہ یقین ہے اور آخرت کے حساب کتاب پر بھی۔ ان سے دست بستہ گزارش ہے‘ نہایت احترام کے ساتھ استدعا ہے کہ آخرت کا انتظار کریں نہ اسی عالم میں ایک اور عالم کے ظہور کا! سربراہِ حکومت کے طور پر وہ ان لاشوں کے جواب دہ ہیں۔ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور درجن بے گناہوں کا قتل؟ میاں صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کل خواجہ سعد رفیق ان کے کام آئیں گے نہ ان کے بھائی جن کی حکومت میں یہ سب کچھ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے ان کے اقتدار کا تختہ الٹا تھا تو پریس میں ہر شخص نے پڑھا تھا کہ حسین نواز خوش الحانی سے کلامِ پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ ہاں! اسی کلامِ پاک میں یہ بھی لکھا ہے کہ
’’اُس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے‘‘۔ سورہ عبس :34-36

جناب وزیراعظم! گولی چلانے کا حکم آپ نے یقینا نہیں دیا تھا لیکن جو قتل کیے گئے‘ وہ آپ کی ذمہ داری میں تھے۔ ان کی پوچھ گچھ آپ سے ہوگی۔ اس دن خواجہ اور رانا تو دور کی بات ہے‘ آپ کا حقیقی بھائی آپ سے دور بھاگے گا! جب ان میں سے کوئی بھی آپ کے کام نہیں آئے گا تو آپ کسی کا گناہ اپنے سر کیوں لیتے ہیں؟ آخر گولی چلانے کا فیصلہ کسی نے تو کیا تھا؟ آخر کسی نے تو ’’بزن‘‘ کا حکم دیا تھا! حشر کے دن تو مہلت نہیں ملے گی! آج مہلت ہے اور اختیار بھی! حکم دینے والا جو بھی تھا‘ اسے باہر نکلنے کا حکم دیجیے‘ سزا دیجیے اور اٹھارہ کروڑ گواہوں کو اپنے حق میں کر لیجیے!

Tuesday, June 24, 2014

آرمی پروموشن سسٹم…سول میں؟؟

 ’’گرم‘‘ موضوعات تو اور تھے لیکن ایک ایسی خبر پڑھی جس سے یہ یقین پختہ ہو گیا کہ سطحیت کے وارے نیارے ہیں، گہرائی عنقا ہے‘ سنجیدگی نہ صرف یہ کہ رخصت ہو گئی‘ اس کی واپسی کے بھی راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔
عام پاکستانی یہ خبر پڑھ کر بہت متاثر ہو گا کہ سول بیورو کریسی میں آرمی پروموشن سسٹم لایا جا رہا ہے اور یہ کہ جس طرح آرمی میں زیادہ تر افسر میجر یا کرنل کے منصب سے ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں اور صرف غیر معمولی کارکردگی والے افسران ٹاپ پر پہنچتے ہیں اسی طرح سول میں بھی صرف ازحد لائق افسر اوپر کے گریڈوں میں پہنچ پائیں گے۔ آرمی کا پروموشن سسٹم‘ سول میں متعارف کرنے کے لئے وزیراعظم نے دو کمیٹیاں بنا دی ہیں۔ ایک کے سربراہ وزیر خزانہ ہیں، دوسری وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے تحت کام کرے گی؟ اس تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ منسٹر صاحبان آرمی کے پروموشن سسٹم سے کس قدر آگاہی رکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عام پاکستانی ایسی خبروں پر واہ واہ تو کرتا ہے لیکن اسے اس حقیقت کا اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا نتیجہ صفر نکلے گا۔
پاکستان آرمی کا پروموشن سسٹم سول بیورو کریسی میں…؟؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے گلگت اور ہنزہ میں آم کے باغات لگائے جائیں۔ ملتان میں آڑو، سیب اور  اخروٹ  اگائے جائیں اور کوئٹہ کی جھیل حنا کے اردگرد ناریل اور انناس کے پودے لگائے جائیں۔ جنرل پرویز مشرف نے جنرل یوسف کی سربراہی میں ایک کمیٹی سول بیورو کریسی کو تبدیل کرنے کے لئے بنائی تھی نتیجہ وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘
اگر وزیراعظم اجازت دیں تو ادب کے ساتھ اُن سے پوچھا جائے کہ جس طرح آرمی پروموشن سسٹم میں حکومت کی اور سیاست دانوں کی  مداخلت نہیں ہوتی‘ کیا وہ سول میں ایسا کر سکیں گے؟ کیا جی ایچ کیو میں قائم ’’ملٹری سیکرٹری برانچ‘‘ کو جو آزادی میسر ہے‘ وہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو فراہم کی جائے گی؟ جس طرح فوج میں دو یا تین سال مکمل ہونے سے پہلے کسی کا تبادلہ نہیں ہوتا‘ کیا سول میں ایسا کیا جائے گا؟ جب یہ سب سول میں ناممکن ہے تو کمیٹیاں بنانے کا کیا مقصد ہے؟
سول بیوروکریسی کو جس طرح حکومت نے زرخرید لونڈی بنا کر رکھا ہوا ہے ،اس کی ایک جھلک کل کے اخبار میں دیکھی جا سکتی ہے۔
’’لاہور میں سی پی او اور ڈی آئی جی کے عہدوں پر جونیئر اور معیار پر پورا نہ اترنے والے افسران تعینات تھے جنہیں میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے ان عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ لاہور کے ایک ایم پی اے کے بھائی گریڈ 20 کے افسر تھے لیکن انہیں گریڈ 21 کی سی پی او کی پوسٹ پر لگا دیا گیا۔ اسی طرح گریڈ 19 کے ایس پی کو گریڈ 20(ڈی آئی جی) کے عہدے پر لگا دیا گیا۔ ان کا شمار بھی مسلم لیگ نون کے پسندیدہ افسروں میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے سینئر پولیس افسران میرٹ کی خلاف ورزی کو چیلنج کرنے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبے بھر میں پولیس اور سول بیورو کریسی میں ایسے ہی منظور نظر افراد تعینات ہیں۔سابق آئی جی اس سلسلے میں بالکل بے بس تھے اور تمام تعیناتیاں وزیراعلیٰ پنجاب نے خود کی تھیں‘‘۔
ایک اور گواہی دیکھیے…ایک معروف صحافی نے دو دن پہلے لگی لپٹی رکھے بغیر لکھا کہ :
’’یہ خاندان کے بعد جن لوگوں کو توجہ کے قابل سمجھتے ہیں ان کا کشمیری ہونا ،بٹ ہونا ،خواجہ ہونا یا لاہوری ہونا ضروری ہے۔ آپ کتنے ہی اہل کیوں نہ ہوں۔ آپ اگر بٹ یا لاہوری نہیں ہیں تو آپ کے ساٹھ فیصد نمبر کٹ  جائیں گے‘‘
اس صورتحال میں حکومت کا یہ اعلان کہ سول بیورو کریسی میں آرمی پروموشن سسٹم لایا جائے گا‘ ایک دردناک مذاق سے کم نہیں!
جن دنوں یہ کالم نگار جی ایچ کیو میں تعینات تھا‘ فوجی افسر حیرت سے پوچھا کرتے تھے کہ بغیر کسی وجہ کے سول کے افسروں کو چند ماہ بعد کیوں تبدیل کر دیا جاتا ہے؟ فوج کے پروموشن سسٹم میں چار ایسے پہلو ہیں جو کم از کم موجودہ حکومت کو راس نہیں آ سکتے۔ اول‘ ملٹری سیکرٹری برانچ میں ہر افسر کا پورا کیرئیر کمپیوٹر پر محفوظ ہے۔ کمپیوٹر بتاتا ہے کہ فلاں افسر فلاں مقام پر کتنا عرصہ تعینات رہا۔ اگر وہ شمال میں رہا تو اب جنوب جانے کی باری ہے۔ اس میں کسی کی مداخلت کارآمد ہو سکتی ہے نہ سفارش…! اس کے مقابلے میں جو کچھ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں ہوتا ہے‘ وہ ایک مچھلی منڈی میں تو ہو سکتا ہے‘ فوج میں نہیں ہو سکتا ‘ تعیناتیاں اور  تبادلے وزیراعظم کے دفتر سے آئے ہوئے ٹیلی فونوں کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ دوم ،وارننگ دی جاتی ہے۔ پھر اسے لکھ کر آگاہ کیا جاتا ہے کہ تمہارا طرزعمل درست نہیں۔ سول میں ایسی کوئی روایت نہیں۔ آپ اپنے ماتحت سے ناخوش ہیں تو بغیر ثبوت کے کچھ بھی اس کے خلاف لکھ دیجئے۔ خود ہی صفائیاں دیتا پھرے گا۔ سوم ، میجر سے کرنل سطح کی ترقیوں کیلئے ڈویژن اور کور کی سطح پر پروموشن بورڈ بنتے ہیں‘ سب کچھ سائنسی بنیادوں پر طے کیا جاتا ہے۔ سینئر عہدوں کیلئے سینئر کمانڈر بیٹھتے ہیں۔ صدارت چیف آف آرمی سٹاف کرتا ہے۔ کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی‘ یہ بھی نہیں ہوتا کہ سمریاں مہینوں لٹکتی رہیں۔ چہارم، فوج میں تعیناتیاں اور ترقیاں اس بنیاد پر نہیں ہوتیں کہ کون بٹ ہے ،کون خواجہ ہے اور کون لاہوری ہے۔ جی ایچ کیو میں کوئی ریٹائرڈ خواجہ ظہیر کاٹھ کی ہنڈیا میں چمچہ نہیں ہلا سکتا! ۔
وزیراعظم اگر مخلص ہیں تو برطانیہ ،سنگاپور یا انڈیا کی طرز پر سول بیورو کریسی کو کیوں نہیں ڈھالتے؟ چند ہفتے پہلے برطانوی وزیر پاکستان میں یہ اعلان کر  کے گئے ہیں کہ الطاف حسین کے معاملے میں برطانوی حکومت کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ پولیس مکمل طور پر خودمختار ہے۔ پاکستان میں پولیس کی خودمختاری گلوبٹ جیسے کرداروں سے مزّین اور معطر ہے۔
کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں ممبروں کو کس بنیاد پر لگایا جاتا ہے؟ اور کیا مسلح افواج میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے؟
ہاں! ایک کام حکومت آسانی سے کر سکتی ہے۔ سول بیورو کریسی کا پروموشن سسٹم آرمی میں متعارف کر دے! وزیروں اور منتخب عوامی نمائندوں کو آرمی کے پروموشن بورڈوں میں بٹھا دیجئے۔ جس طرح وزیر اور ایم این اے ایک معین تعداد میں پٹواری اور تحصیل دار بھرتی کروا سکتے ہیں اور استانیوں اور تھانیداروں کے تبادلے کروا سکتے ہیں‘ انہی خطوط پر انہیں کوٹہ دے دیا جائے کہ اتنے میجر اور اتنے کرنل پروموٹ کرا سکتے ہیں۔ رہا آرمی کا اعلیٰ ترین پروموشن بورڈ‘ تو اس میں کمانڈروں اور چیف کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے‘ یہ کام جناب فواد حسن فواد‘ جناب خواجہ ظہیر اور جناب سعید مہدی کے سپرد کر دیا جائے۔ کوروں کے نام بھی بدل دیئے جائیں۔ بٹ کور‘ خواجہ کور‘ ڈار ڈویژن‘ شب دیگ بریگیڈ‘ ماڈل ٹائون بٹالین‘ اللہ دے اور بندہ لے…طالبان بھی خوش‘ بھارت بھی مطمئن…اسرائیل میں بھی گھی کے چراغ جل اٹھیں!
سول بیورو کریسی بھٹو صاحب کی 1973ء کی ’’اصلاحات‘‘ کے بعد سے لولی‘ لنگڑی ‘ اندھی‘ بہری‘ اپاہج‘ بانجھ‘ کوڑھی چلی آ رہی ہے لیکن جو پاتال اُسے موجودہ حکومت کے عہد ہمایونی میں نصیب ہوا ہے‘ اس کی مثال ماضی تو کیا‘ مستقبل میں بھی نہیں مل سکے گی! …
بہر تقسیم قبور انجمنی سماختہ اند!!

وہ تو بس نہیں چل رہا ورنہ مقابلے کا امتحان رائے ونڈ میں منعقد ہو‘ پرچے ماڈل ٹائون میں بنیں‘ اور امتحان صرف وہ دے جو ’’ہماری برادری‘‘ سے ہو!!!

Saturday, June 21, 2014

قومی نشاں ہمارا

گھوڑا ترکوں کی ثقافت میں بہت اہم علامت تھا۔ گھوڑے کی دُم بھی اہم تھی۔ عثمانی ترکوں کا سب سے بڑا اعزاز پاشا تھا (جو اصل میں باشی تھا)۔ یہ اعزاز‘ یوں سمجھیے لارڈ کا ہم مرتبہ تھا۔ چیدہ چیدہ گورنروں‘ جرنیلوں‘ صوبوں کے والیوں اور غیر ملکی شخصیات کو یہ اعزاز سلطان کی طرف سے عطا کیا جاتا تھا۔ پاشا کے تین درجے تھے۔ سب سے بڑے درجے کے پاشا کو اجازت تھی کہ اُس کے جھنڈے میں گھوڑوں کی تین دُمیں ہوں۔ اس سے کم درجے کے پاشا کے پرچم میں دو دُمیں اور کم ترین پاشا صرف ایک دُم والا جھنڈا لہرا سکتا تھا۔ سلطان کے خیمے کے سامنے جو جھنڈا لہراتا‘ اس میں چار دُمیں ہوتیں کیونکہ وہ سپریم کمانڈر بھی تھا۔ جھنڈے کے ستون کے اوپر ہلال ہوتا۔ یہ ہلال اور یہ ایال… منگول اور ترک ثقافت کے امتزاج کی پیداوار تھے۔ ہلال اور گھوڑے کے بال دونوں انتہائی اہم علامتیں تھیں۔ گھوڑا ترکوں کی بہادری‘ پیش قدمی اور فتح یابی کا نشان تھا۔ یہ سخت جانی اور مشقت پسندی کی علامت تھا۔ وسط ایشیا کے میدانوں سے لے کر انا طولیہ‘ اور قسطنطنیہ تک اور پھر مشرقی یورپ کی آخری سرحدوں تک گھوڑا ہی ترکوں کا رفیقِ سفر رہا۔ یورپ آج تک نہیں بھولا کہ عثمانی ترکوں کے پراسرار‘ سایہ آسا‘ جَو پھانکتے نوجوان‘ ہلال اور ایال سے بنے ہوئے جھنڈے اٹھائے‘ کس طرح ڈان اور ڈنیوب کی وادیوں میں اُتر آئے تھے۔ پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ ان سواروں کے چرمی لباسوں کی ضَو ویانا کی دیواروں پر پڑ رہی تھی۔ کرۂ ارض کی سلطنتوں کے سفیر زربفت کی بقچیوں میں خراج باندھے‘ ہاتھ سینے پر رکھے ’’بابِ عالی‘‘ کی طرف رواں تھے۔ ہلال اور ایال والا پرچم آدھے یورپ پر لہرا رہا تھا۔
مغل ہندوستان آئے تو گھوڑے کے ساتھ ہاتھی اور تختِ رواں بھی ان کے تزک و احتشام کی علامت قرار پائے۔ فرانسیسی ڈاکٹر برنیئر جو شاہجہان کے دربار میں رہا‘ لکھتا ہے کہ عام طور پر مغل جنوب کی طرف سفر کرتے تو رَتھ پر سوار ہوتے۔ شمال کو نکلتے تو تختِ رواں پر ہوتے۔ مشرق کی طرف جانا ہوتا تو ہاتھی پر اور مغرب کی طرف گھوڑے پر۔ یہ سب ان کی سلطنت کی وسعت و جلال کی علامتیں تھیں۔ جنوب میں ہندو دیومالا کے مراکز تھے اور رتھ کی اہمیت تھی۔ مشرق میں اڑیسہ‘ بنگال اور آسام کے جنگل تھے جہاں ہاتھی بہتات میں تھے۔ مغرب کی طرف شاہراہیں افغانستان‘ ایران اور وسط ایشیا کو جاتی تھیں جہاں گھوڑا تیز رفتاری کا نشان تھا۔ شمال میں کشمیر کی جھیلیں‘ پہاڑ اور وادیاں تھیں اور تختِ رواں ان سے مناسبت رکھتا تھا۔
انگریز اپنے چھوٹے سے جزیرے سے نکلے تو بحری جہاز ہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔ یہ جو‘ ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا تو اس بے مثال عروج کی پشت پر بحری جہاز ہی تھا۔ کہاں نیوزی لینڈ… دنیا کا جنوب مشرقی کنارا اور کہاں کینیڈا کا صوبہ برٹش کولمبیا جو انتہائی مغرب میں واقع تھا۔ اس زمانے میں طیارہ تو دور کی بات ہے‘ موٹر سائیکل تک وجود میں نہیں آیا تھا۔ ذرا اُن کی سول سروس کی تعیناتیاں اور تبادلوں پر غور کیجیے۔ نائیجیریا سے آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ سے کینیڈا۔ جنوبی افریقہ سے ہندوستان… باپ آسٹریلیا کا گورنر تھا تو بیٹا دہلی میں وائسرائے بنا۔ چنانچہ آج بھی انگریزی ادب میں بحری جہاز برطانیہ کے گم شدہ جاہ و جلال کی علامت ہے!
ہمارے جاہ و جلال‘ تزک و احتشام‘ شان و شوکت‘ سطوت و شکوہ کا نشان کیا ہے؟ گھوڑا؟ بحری جہاز؟ ٹرین؟ کتاب؟ قلم؟ نہیں! ہمارے کلچر‘ ہماری ثقافت‘ ہمارے مائنڈ سیٹ‘ ہمارے طرزِ فکر کو بیان کرنا ہو تو ایک لفظ کافی ہے۔ صرف ایک لفظ گلو بٹ!
معاف کیجیے گا۔ گلو بٹ کو کسی ایک سیاسی جماعت سے وابستہ کرنا سخت غیر حقیقت پسندانہ حرکت ہوگی! مسلم لیگ نون آسمان سے نہیں اُتری‘ نہ کسی الگ تھلگ جزیرے میں رہتی ہے۔ گلو بٹ ہم سب کی مشترکہ میراث ہے۔ ہم پیپلز پارٹی ہیں یا مسلم لیگ‘ ہم ایم کیو ایم ہیں یا جے یو آئی یا اے این پی! ہم سب ایک مشترکہ ثقافت رکھتے ہیں‘ ہمارا طرزِ فکر ایک ہے اور اس طرزِ فکر کا نشان گلو بٹ ہے۔
ہم کس طرح سیاست کرتے ہیں۔ ہم حکومت کیسے چلاتے ہیں۔ ہم سودا کیسے تولتے ہیں۔ ہم وعدہ کس طرح پورا کرتے ہیں۔ ہم سچ کتنا بولتے ہیں۔ ہم ٹیکس کس طرح دیتے ہیں۔ ہماری ٹریفک کس معیار کی ہے۔ ہم صفائی پسند کتنے ہیں۔ ہماری پولیس کیا چیز ہے۔ ہماری سول سروس کس نہج پر سوچتی ہے۔ ہم مذہب کا کس طرح استعمال یا استحصال کر رہے ہیں۔ ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب بنتا ہے۔ گلو بٹ!
گلو بٹ کے مختلف روپ ہیں۔ کہیں اسے سیکٹر کمانڈر کہتے ہیں۔ کہیں وہ جیالا کہلاتا ہے۔ کہیں اس نے کاندھے پر چار خانے والا رومال ڈال کر سر پر پگڑی باندھی ہوئی ہے۔ کہیں وہ لُڈی‘ ہے جمالو گا رہا ہے۔ کہیں نعرہ لگاتا ہے ہُن میاں دے نعرے وجن گے۔ کہیں اس نے کسی یونیورسٹی پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہوسٹل خالی کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ کہیں وہ مرید ہے۔ کہیں کسی مخصوص رنگ کی ٹوپی پہنے ڈیم نہیں بننے دیتا۔ لیکن وہ جہاں بھی ہے‘ اس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ اس کا دلیل سے‘ گفت و شنید سے‘ قانون سے‘ متانت و تہذیب سے کوئی علاقہ نہیں!

ہم خوش نصیب ہیں کہ تاریخ میں ہمارا نام گلو بٹ کے حوالے سے آئے گا۔ اگر گلو بٹ ترکوں کو یا انگریزوں کو مل جاتا تو تاریخِ عالم کتنی مختلف ہوتی!

Thursday, June 19, 2014

ہم اُس کے وہ ہور کسی کا

دنیا ٹی وی کے کامران شاہد نے وفاقی وزیر کو ایک گوشے میں محصور کر رکھا تھا۔ اُس دن کی تازہ ترین خبر یہ تھی کہ وزیراعلیٰ نے فوج سے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کے لیے بات کی تھی۔ کامران پوچھ رہا تھا کہ اپنی ہی پولیس پر بے اعتباری! عوام کے مورال کا کیا ہو گا! وفاقی وزیر آخر اس کا کیا جواب دیتے! کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ آپا نثار فاطمہ کے فرزند اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بات کو طول دے کر شائستگی سے طرح دے گئے۔ پولیس ایک ادارہ ہے۔ یہ ادارہ منہدم ہو چکا ہے۔ اس انہدام کا ذمہ دار کسی ایک حکومت کو ٹھہرانا ناانصافی ہو گا۔ حسبِ توفیق سب نے حصہ لیا۔ موجودہ حکمران، سارے دعووں کے باوجود، تھانہ کلچر بدل نہ سکے۔ ہاں وہ کام انہوں نے ضرور کیے جس سے تھانہ کلچر نہ صرف جاری رہا بلکہ مزید تباہی کی طرف رواں ہوا۔ایک اوسط درجے کا دماغ رکھنے والے پاکستانی کو بھی معلوم ہے کہ پولیس اگر آج وزیراعلیٰ کی حفاظت نہیں کر سکتی اور وزیراعلیٰ کو چھائونی کی طرف دیکھنا پڑا ہے تو اس عبرت ناک زوال کے اسباب کیا ہیں؟ اس کا سب سے بڑا سبب پولیس کی سیاست زدگی ہے۔ یہ ادارہ سیاست دانوں کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہے۔ تعیناتیاں ہیں یا ترقیاں، کوئی کام ترتیب سے نہیں ہوتا۔ ضابطہ ہے نہ قاعدہ قانون! Tenureکا کوئی تصور ہی نہیں! صرف ایک مثال۔ گزشتہ حکومت نے پاسپورٹ کے نظام کو تہس نہس کر دیا تھا۔ نیک نام پولیس افسر ذوالفقار چیمہ کو سربراہ بنایا گیا۔ اس نے رات دن ایک کر کے، بھیس بدل بدل کر خود صورتِ احوال کا جائزہ لے لے کر سرپٹ بھاگتی بدنظمی کو کنٹرول کیا۔ ہزاروں کا بینک لاگ نکالا۔ موجودہ حکومت آئی تو ذوالفقار چیمہ کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ کیوں؟ مدت(Tenure) پوری نہیں ہوئی تھی۔ ترقی بھی نہیں ہو رہی تھی۔ اس کے خلاف شکایت بھی کوئی نہیں تھی۔ صرف اس لیے کہ سسٹم کوئی نہیں۔ بادشاہت ہے۔ اعلیٰ شخصیت یا شخصیات کے منہ سے نکلا ہوا لفظ آئین کا درجہ رکھتا ہے۔ بھرتیاں میرٹ پر نہیں ہوتیں۔ پورا ملک ڈاکوئوں کے قبضے میں ہے۔ پرانے وقتوں میں نیرو بانسری بجایا کرتا تھا۔ آج حکمران حبیب جالب کے اشعار گاتے پھرتے ہیں، شاہراہیں محفوظ ہیں نہ گھر، بینک نہ سرکاری دفاتر۔ جو تم نے بویا ہے، وہی کاٹ رہے ہو۔ پوری دنیا ٹیلی ویژن پر دیکھ اور سُن رہی ہے کہ وزیراعلیٰ حفاظت کے لیے پولیس کی طرف نہیں، چھائونی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اگر احساس زندہ ہو تو بہت بڑی شرمندگی ہے۔ بہت بڑی ناکامی! ہاں احساس جاتا رہے تو اور بات ہے۔ کسی نے دوسرے کو شرمندہ کرنے کے لیے کہا کہ تمہاری پیٹھ پر درخت اُگ آیا ہے۔ احساس سے عاری شخص نے جواب دیا کہ اچھا ہے ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھیں گے۔ تمہیں کیا!مسلح افواج کو چھوڑ کر سارے ادارے منہدم ہو چکے ہیں۔ افواج اس لیے بچی ہوئی ہیں کہ بھرتیاں، تعیناتیاں اور ترقیاں عوامی نمائندوں اور سیاست دانوں کے دندانِ آز سے دور ہیں۔ آج انہیں موقع ملے تو وہ تیرہ تالی کھیلیں کہ زمین سے گرد اُٹھ کر آسمان کو ڈھانپ لے۔ لاکھوں غیر ملکیوں کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ اور ڈومی سائل سرٹیفکیٹ ہیں۔ متعلقہ اداروں کی تباہی کا اور کیا ثبوت چاہیے! صحت ایک محکمہ ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں قینچیاں ہیں نہ دوائی۔ تحصیل سطح کے ہسپتال، خدا جھوٹ نہ بلوائے، مرگھٹ لگتے ہیں۔ تعلیم ایک الگ ادارہ ہے۔ لاکھوں سکول چھتوں کے بغیر ہیں۔ بیٹھنے کے لیے بچے ٹاٹ کے ٹکڑے گھروں سے لاتے ہیں۔ پینے کا پانی تو دور کی بات ہے، استاد ہی نہیں ہیں۔قریوں قصبوں صوبوں کو بھی چھوڑیے، وفاقی دارالحکومت کے اداروں کی تباہی دیکھیے۔ ایک بہت بڑا ادارہ چیف کمشنر اسلام آباد ہے۔ضلعی انتظامیہ اور پولیس اس کی تحویل میں ہے  اس کی بغل میں عظیم الجثہ و ترقیاتی ادارہ(سی ڈی اے) ہے۔ ہر ٹیلی ویژن چینل اور ہر روزنامہ چیخ چیخ کر، گلا پھاڑ پھاڑ کر بتا چکا ہے کہ وفاقی دارالحکومت محاصرے میں ہے۔ ترنول اور بارہ کہو افغانستان بن چکے ہیں۔ روات سے لے کر سوہان تک۔ پوری پٹی منی وزیرستان بن چکی ہے۔ کیا چیف کمشنر اور سی ڈی اے کے سربراہ ان علاقوں میں بنفس نفیس گئے؟ کیا انہیں ترنول اور بارہ کہو کی آبادی کے اعداد و شمار معلوم ہیں؟ محاصرے کو بھی جانے دیجیے۔ وفاقی دارالحکومت کے وسط میں ایک پورا سیکٹر ’’جی بارہ‘‘ کچی آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ ایک ناسور ہے جو شہر کے ماتھے پر نمایاں ہے۔ نام کی اس کچی آبادی کے اندر محلات، کوٹھیاں اور حویلیاں ہیں۔ کیا کوئی بتائے گا کہ اس میں غیر ملکی کتنے ہیں؟ پاکستانی کتنے ہیں؟ اسلحہ کن کن کے پاس ہے؟ آبادی کتنی ہے؟ کس کس پیشے سے کتنے کتنے لوگ منسلک ہیں؟ رات کو کون لوگ آتے ہیں اور یہاں سے رات کے اندھیروں میں نکلنے والے کہاں جاتے ہیں؟فوج کا جوان اور افسر وزیرستان کے تپتے سلگتے پہاڑوں اور دغا دینے والی گھاٹیوں میں برسرِ پیکار ہے۔ دشمن وہاں سے بھاگتا ہے اور ہمارے شہروں میں مقیم ہو جاتا ہے یوں جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان!سول ادارے اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ مکمل غافل۔ مجرمانہ حد تک غافل۔ ہر طرف مدرسوں کے جال بچھے ہیں۔ کیا علما بتا سکتے ہیں کے ان کے شہر کے کس مدرسہ میں کتنے کتنے طالب علم غیر ملکی ہیں اور باقی ملک کے کس کس علاقے سے ہیں، کیا پس منظر رکھتے ہیں، کن کن رووں میں بہہ رہے ہیں؟ اور ان کے پاس آنے جانے والے کون ہیں؟یہ جنگ دہشت گردوں سے نہیں ہے۔ یہ جنگ انتہا پسندوں سے ہے۔ آبادی کے اُس حصے سے ہے جو عقیدے کی بنیاد پر گردن مارنا جائز سمجھتا ہے۔ جو جمہوریت کو کفر گردانتا ہے۔ جو اختلافِ رائے کو زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ جو ہر دوسرے شخص کا حساب کتاب روزِ حشر کے بجائے دنیا ہی میں کرنا چاہتا ہے۔ جو قرآن جیسی مقدس کتاب کو ملکی آئین کی سطح پر لانا چاہتا ہے۔ قرآن پاک آخرت کی ابدی فلاح کا نسخہ ہے۔ آئین میں صوبوں اور وفاق کے اختیارات کی تقسیم، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے فرائض اور آڈیٹر جنرل کا دائرہ کار درج ہے۔ یہ جنگ اُس ذہنیت سے ہے جو قرآن پاک ہاتھ میں لے کر لہراتا ہے لیکن خود اُس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنے آپ کو کسی بھی قسم کے محاسبے سے ماورا سمجھتا ہے۔ اگر کوئی اس خوشی فہمی میں ہے کہ یہ جنگ صرف توپ اور ہوائی جہاز سے لڑی جائے گی تو وہ ایک افسوسناک غلط فہمی کے شکنجے میں جکڑا ہے۔ یہ جنگ سول انتظامیہ کے کندھوں پر اتر چکی ہے اور اس سوال کا جواب ہم سب کو معلوم ہے۔جو بیورو کریسی، گلو بٹ کو گلے سے لگا لگا کر شاباش دے اُس کی قابلیت کیا ہو گی اور کیا حرمت؟   ؎جس آب رُود کی اوقات چند قطرے ہوتو اس میں تیرنا کیا‘ اُس میں پائوں دھرنا کیاقومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اگلی نشستوں پر بیٹھنے والے وفاقی وزیر کو وزیراعظم کا رشتہ دار پچھلی نشستوں پر بلواتا ہے۔ اُسے ڈکٹیشن دیتا ہے۔’’ وفاقی وزیر اُن کے سامنے مودب کھڑے اُن کی بات سنتے رہے…‘‘ یہ لوگ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ یہ جمہوریت نہیں، جمہوریت کی خاک ہے جو اُڑ اُڑ کر عوام کے منہ میں جا رہی ہے۔!
پس نوشت۔ آخر عقدہ کھُل گیا کہ اصلی شیر کون ہے۔ جس شخصیت کو لوگ شیر کہتے ہیں وہ کسی اور کو شیرِ پنجاب کہتی ہے۔ بقول ظفر اقبال     ؎ہم اُس کے‘ وہ ہور کسی کا‘ پکّی پختہ ڈوریاپنا دل‘ اپنا مذہب‘ کیا جھگڑا چوں چناں کا

Monday, June 16, 2014

شہر کا والی

ہتھیلی پر بال اگ سکتے ہیں۔کبوتری انڈوں کے بجائے براہ راست بچے دے سکتی ہے۔ مائونٹ ایورسٹ پانی میں ڈوب سکتی ہے۔ بحرالکاہل جھیل میں ضم ہوسکتا ہے۔ افغان بُزدل ہوسکتا ہے۔ پاکستانی قطار بناسکتا ہے، حاجی صاحب ملاوٹ اور ٹیکس چوری سے باز آسکتے ہیں۔ مولوی صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرے بعد مسجد میرے فرزند کے حوالے نہ کرو، کوئی اہل شخص ڈھونڈو… یہاں تک کہ شاعر محبوبہ سے کہہ سکتا ہے     ؎
ترا حُسن سحر تھا، ممکنات کی حد نہ تھی
کفِ دست پر ترے خار اگا تھا کہ پھول تھا
سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن مزاج سے شہنشاہی نہیں جاسکتی ! گم شدہ شاعر شبیرشاہد نے کہا تھا    ؎
بہے اسی میں جہاں پناہی، دماغِ شاہی
بہے سلیماں، بہے سکندر بہے نہ ساگر
عمریں ختم ہوجاتی ہیں۔ بادشاہی نہیں جاتی۔ ہسپانیہ کا ایک بادشاہ شدید سردی میں بیٹھا ٹھٹھرتا رہا۔ ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرگیا لیکن آتش دان نہ جلایا کہ خادم آکر جلائے  گا۔ ایک جہان نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے کہ سارا اقتدار ایک محدود دائرے کے اندر ہے۔ بھائی، بھتیجا ، سمدھی، داماد، بھانجا۔ اس کے بعد ایک خاص شہر کی مخصوص برادری۔ آہ وفغاں کا مداوا جناب وزیراعظم نے یہ کیا ہے کہ صاحبزادی کی مسند سیکرٹریوں اور وزراء کی کرسیوں سے بلند تر کردی ہے۔ نوجوان حسان بن اظہار جو اب بچ بچ کر چلنے کی مشقت کررہا ہے، بچہ تھا تو ہمدرد کے حکیم عابدی صاحب مرحوم کے پاس لے جایاگیا۔ بخار تھا یا کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ ۔ حکیم صاحب نے ڈبل روٹی کھانے سے منع کیا۔ انہوں نے ازراہ شفقت اپنے کمرے ہی میں بٹھا رکھا تھا۔ حسان میاں نے کہ نہار منہ آئے تھے حکیم صاحب کی توجہ سے فارغ ہوئے تو پیکٹ کھولا اور ان کے سامنے ہی ڈبل روٹی کے ٹوسٹ کھانے شروع کردیے۔ تھوڑی دیر ہکا بکا ہوکر دیکھتے رہے ، پھر حکیم صاحب نے خود کلامی کی… ’’ یہ تو بہت مشکل ہے بھائی !‘‘
پوری قوم ہکا بکا ہوکر دیکھ رہی ہے۔ چارہ کار ہی کیا ہے سوائے اس خود کلامی کے کہ یہ تو بہت مشکل ہے بھائی ! صاحبزادی سیکرٹری ہائوسنگ اینڈ ورکس سے بریفنگ لیتی ہیں اور ہائوسنگ اینڈ ورکس کے وزیر کو اسی بریفنگ کی اطلاع اگلے روز اخبارات کے ذریعے ملتی ہے! ’عزیزہ‘ کا وزارت سے کیا تعلق ہے؟ اگر وہ وزیر سے بالاتر ہیں تو منصب کا نام کیا ہے۔ وزیر صاحب کی ’’ بہادری ‘‘ دیکھیے کہ یہ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے کہ میری وزارت کے بارے میں بریفنگ وزیراعظم کی صاحبزادی کس ’’ رول آف بزنس ‘‘ کے تحت لے رہی ہیں۔ سیکرٹری میمنا ہے جو نشیب میں کھڑا ہے ،پانی اوپر سے میمنے کی طرف آرہا ہے۔ وزیر نے کہا تو یہ کہا کہ … وفاقی سیکرٹری حال ہی میں ہائوسنگ کی وزارت میں آئے ہیں۔ انہیں ’’ اپنا گھر سکیم ‘‘ کے بارے میں معلومات نہیں جس کی وجہ سے انہوں نے بریفنگ میں غلط بیانی کی‘‘… یہ بالکل وہی بات ہے کہ مظلوم عورت تھانے میں برہنہ سر بیٹھی رو رہی تھی۔ مولوی صاحب وہاں سے گزرے تو سرزنش کی کہ سر کیوں نہیں ڈھانپا۔
مسلم لیگ کا کیا ذکر کہ پیپلزپارٹی کے وزراء بھی شاہی خاندان کے افراد کے سامنے دست بستہ رہتے تھے۔ برفِ پیری سے جن عمائدین کے سر کیا، ابرو بھی سفید ہو چکے ہیں شہزادہ بلاول کے سامنے مودب کھڑے ہیں    ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
بادشاہت کے کلچر کا جزو لاینفک راجواڑے ہیں یہ بھی قانون سے بالاتر ہیں۔ دو دن پہلے ایک بے محکمہ وفاقی وزیر دارالحکومت میں ٹریفک پولیس سے الجھ پڑے ۔ سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی تھی۔ مائنڈ سیٹ کی ’’ نفاست ‘‘ ملاحظہ کیجیے۔ قانون کے خیال ہی سے ان حضرات کو گھن آتی ہے۔ دھمکی دی کہ چالان ہوا تو اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں گے۔ ٹریفک وارڈن نے اپنا فرض ادا کیا اور چالان کیا ۔رقم جس کی تین سو روپے ہے۔ خدا ہی کو معلوم ہے اس ٹریفک وارڈن کے ساتھ اب کیا ہوگا۔ ماضی کی روایت تو یہ ہے کہ جو بھی فرض ادا کرے اسے سزا ملتی ہے اور معافی بھی مانگنا پڑتی  ہے۔ ایک اور وفاقی وزیر جو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سکینڈل میں گرفتار کیے جانے تھے ، بیرون ملک روانہ ہوگئے ہیں۔ روزنامہ ’’دنیا ‘‘نے کل ہی لکھا ہے کہ امریکہ میں رہنے والے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیکنو کریٹ کو جو پاکستان میں محض اس مقصد کے لیے آئے تھے کہ یونیورسٹیوں میں رضا کارانہ طور پر پڑھائیں، ایئرپورٹ پر جس طرح روکا گیا اور واپس جانے کے لیے جہاز پر جس طرح بیٹھنے نہ دیاگیا اور اب جس طرح ملزم وزیر کو جانے دیاگیا اس سے بآسانی معلوم ہورہا ہے کہ رخ کس سمت کو ہے اور انجام کیا ہوگا!
ٹیکس دینے والے شہریوں کے پیسے سے صرف حکومتی اراکین بیرون ملک نہیں جاتے ، گداگر بھی جانے لگے ہیں۔ لاہور کے گداگر ہر سال قرعہ اندازی کے ذریعے اپنے ایک ساتھی کو بیرون ملک سیر کے لیے بھیجتے ہیں۔ دونوں کا ذریعہ آمدنی ایک ہی ہے۔ دونوں عام پاکستانی کی جیب سے روپیہ نکالتے ہیں اور اپنے مصرف میں لاتے ہیں۔ اقبال نے ’’گدائی‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی جو اصلاً انوری سے ماخوذ ہے۔ لاہور کے گداگروں نے کمال کیا ہے کہ شاعر مشرق کے تصور کوعملی جامہ پہنایا ہے۔ چلیے، بھکاری ہی سہی، کسی نے تو اس قومی فرض کی طرف توجہ دی   ؎
میکدے میں ایک دن ایک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے
کس کی عریانی نے بخشی ہے اسے زریں قبا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے؟ مرد غریب و بے  نوا
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میروسلطاں سب گدا
کیا ستم ظریفی ہے کہ مالک دربدربھٹک رہے ہیں۔ گھروں میں بجلی نہیں، سی این جی سٹیشنوں پر میلوں لمبی قطاریں ہیں۔ ڈاکو راج شہروں سے لے کرقریوں تک پھیل گیا ہے۔ کوئی گاڑی محفوظ ہے نہ موٹرسائیکل۔ اغوا برائے تاوان صنعت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بھتہ کلچر کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ مالک کو ہسپتال میں کوئی پوچھتا ہے نہ ریلوے سٹیشن پر لیکن اس کے پیسے پر گداگر بھی عیاشی کررہے ہیں اور حکمران بھی اور ساتھ سینہ زوری بھی کرتے ہیں۔

رولز آف بزنس، قانون، ضابطہ ، کسی نے اسرائیلی لیڈر موشے دیان کا بتایا ہے کہ اس کے خیال میں جس دن عرب قطار بنانا سیکھ لیں گے ان کی دنیا بدل جائے گی۔ کسی اسرائیلی سے پوچھا گیا کہ سرحد پر نشانی تو کہیں نہیں ہے ،کیسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیل کی زمین ہے یا ساتھ والے ملک کی۔ اس نے جواب دیا کہ ہری بھری آباد زمین ہماری ہوگی اور غیر آباد بنجر عربوں کی۔ جس دن فیڈرل سیکرٹری نے کہہ دیا کہ مادام ! آپ قابل احترام ہیں، ہمارے وزیراعظم کی دختر نیک اختر ہیں، پوری قوم کے لیے باعث عزت و افتخار ہیں لیکن قانون اجازت نہیں دیتا کہ آپ کو بریفنگ دوں۔ جس دن وزیر نے وزیراعظم سے کہہ دیا کہ اگر آپ کے افراد خاندان نے میرے فرائض میں مداخلت کرنی ہے تو یہ لیجیے میرا استعفیٰ ،جس دن ایم این اے اور وزیر نے ٹریفک پولیس کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے اپنے آپ کو چالان کے لیے بہ رضا ورغبت پیش کردیا اور جس دن ایئرپورٹوں پر مخدوموں کو روک لیاگیا تو سمجھیے ہم ناقابل تسخیر ہوگئے۔

Saturday, June 14, 2014

بچوں یا پرندوں کی حکومت

ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو کا چرچا ہے جس میں سال ڈیڑھ سال کا ایک بچہ بار بار ہنستا ہے اور آخر میں ہنس ہنس کر اتنا بے حال ہوتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے گر جاتا ہے۔ ویڈیو میں وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ’’ہمیں وہ پاکستان چاہیے جو غربت سے آزاد ہو‘‘۔ یہ سن کر بچہ قہقہہ لگاتا ہے! پھر وزیر اعظم کہتے ہیں (اس وقت وہ وزیر اعظم نہیں تھے) ’’ اللہ نے ہمیں حکومت عطا فرمائی تو میں نے وہاں نہیں بیٹھنا‘ اسلام آباد میں‘‘۔ اس پر بچہ پھر ایک زوردار اور نسبتاً طویل قہقہہ لگاتا ہے۔ پھر وزیر اعظم کہتے ہیں: ’’انشاء اللہ اگر ایسا موقع آیا تو مجھے اور شہباز شریف کو آپ اس شہر میں، پاکستان میں، بازاروں میں، گلیوں میں، دیہاتوں میں اپنے کندھوں کے ساتھ کندھا ملاتے ہوئے دیکھیں گے‘‘۔ بچہ پھر زور سے ہنستا ہے۔ آخری جملہ وزیر اعظم کا یہ ہے: ’’اگر خدمت کرنی ہے پاکستان کی تو پھر ایسے ہی کرنی ہے‘‘۔ یہ سن کر بچہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتا اور بیٹھے بیٹھے گر جاتا ہے۔
اس بچے کی ان دنوں پاکستان کو شدید ضرورت ہے تاکہ وہ لوگوں کو بتا سکے کہ کون کون سی باتوں پر ہنسنا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔
طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے کہا ہے کہ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کر کے ہم نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا، ابھی ابتدا ہے، مزید حملے کریں گے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بارہ طیارے تباہ کیے گئے ہیں۔ اب مولانا سمیع الحق کی بات سنیے۔ انہوں نے اسلام آباد کی ایک مسجد میں ’’انتخابی‘‘ مرحلہ مکمل ہونے پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کراچی کے واقعے میں طالبان کا کوئی بھی گروپ ملوث ہے تو اسے بے نقاب کیا جائے۔ یہ وہ موقع ہے جس پر بچہ پاکستان کے عوام کو بتائے گا کہ ہنسنا ہے اور زور سے ہنسنا ہے۔ پھر مولانا کہتے ہیں: ’’میرے نزدیک تحریک طالبان پاکستان اب بھی مذاکرات کا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ بچہ ہنستا ہے اور پوچھتا ہے کہ اگر انتظار کے عالم میں یہ حال ہے کہ وہ ایئرپورٹ تباہ کرنا چاہتے تھے تو اُس وقت کیا ہو گا جب وہ انتظار کے عالم میں نہیں ہوں گے!
جناب طارق عظیم، جنرل پرویز مشرف کے عہد ہمایونی میں ان کے نفس ناطقہ تھے۔ ٹیلی ویژن پر آتے تھے تو اپنے بے رنگ‘ سپاٹ اور یکسانیت سے بھرے ہوئے لہجے میں جنرل صاحب کے ہر اقدام کی مدافعت کرتے تھے۔ ہر سانس کی توضیح کرتے تھے اور ہر ارشاد کی تفسیر کرتے تھے۔ اتار چڑھائو سے پاک یہ مشین تقریباً ہر چینل پر یہ فرائض اس وقت تک سرانجام دیتی رہی جب تک اقتدار کا ہُما جنرل صاحب کے سر پر بیٹھا رہا اور اس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کا اثر طارق عظیم صاحب پر پڑتا رہا۔
بچہ ہنس رہا ہے کہ پرویز مشرف صاحب تو موجودہ حکومت کے نشانے پر ہیں لیکن میڈیا میں ان کے سپہ سالار جناب طارق عظیم اب حکومت کے لشکر میں ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اگلی صف میں آ جائیں۔ بچہ جناب طارق عظیم کے سپاٹ لہجے پر تو ہنس ہی رہا ہے، ان کے دلائل کی ’’مضبوطی‘‘ اور ’’گہرائی‘‘ پر بھی ہنستے ہنستے گر پڑتا ہے۔ بچے کو بھی معلوم ہے کہ وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ وزیر داخلہ بجٹ تقریر میں نہیں تھے اور کابینہ کے اجلاس سے بھی غائب تھے۔ اب طارق عظیم صاحب کی وضاحت ملاحظہ کیجیے: ’’معاملات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات وزیر اعظم اور وزراء کو بھی غیر حاضر ہونا پڑتا ہے‘‘۔ پھر کہتے ہیں: ’’چودھری نثار کسی اورکام میں مصروف ہوں گے اس سے کوئی دوسرا نتیجہ نکالنا مناسب نہیں ہو گا‘‘۔
بچہ ہنستے ہنستے دہرا ہو جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ استدلال کی یہی قوت پرویز مشرف صاحب کو لے ڈوبی تھی!
بچہ ہی ہنسے گا اور رونے کا کام بھی بچہ ہی کرے گا، قوم سنگدل ہو چکی ہے۔ حکومت، وفاقی ہے یا صوبائی، بے حس ہے۔ سرکاری اہلکار، شہریوں کی موت پر فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں کہ ہم نے کراچی ایئرپورٹ کو پروازوں کے لیے کھول دیا ہے؎
لگا ہے دربار، شمع بردار سنگ کے ہیں
ہوا کے حاکم ہیں، موم کے ہیں گواہ سارے
مرحوم مظلوموں کے پس ماندگان جن لوگوں پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں وہی جج بنے بیٹھے ہیں۔ کمیٹی بنا کر جس سفاک لہجے میں اس کے دائرہ کار کو بیان کیا جا رہا ہے، وہ ملاحظہ کیجیے: ’’یہ ایک تاثر (impression) ہے کہ نصف درجن سے زیادہ افراد ایک Facility میں پھنس گئے تھے۔۔۔۔‘‘
سات افراد مدد کے لیے پکارتے رہے، ان کے لواحقین احتجاج کرتے رہے، کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ یہاں تک کہ احتجاج کرنے والوں نے ٹارگٹ پر مظاہرہ کیا لیکن سول ایوی ایشن کے حکام کے نزدیک معاملہ محض ’’تاثر‘‘ کا ہے!
اور اب وزیر داخلہ اور سندھ کی صوبائی حکومت کے درمیان جنگ برپا ہے۔ وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ کراچی ایئرپورٹ بھارت میں تو نہیں کہ سندھ حکومت ذمہ دار نہ ہو۔ شرجیل میمن جواب دیتے ہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے کبھی طالبان کا نام لے کر ان کی مذمت نہیں کی اور یہ کہ طالبان کے ساتھ دوستیاں نبھائی جا رہی ہیں۔
یہ وہ غلاظت بھرے کپڑے ہیں جو سب کے سامنے دھوئے جا رہے ہیں۔ کرکٹ کے میچ کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے والی قوم اگر یہ سمجھنے سے عاری ہے کہ بھارت ہم پر کس طرح ہنس رہا ہو گا تو تعجب ہی کیا ہے۔ جہاں ڈوم اور میراثی ہیرو ہوں، جہاں نیم خواندہ کھلاڑی نوجوانوں کے آئیڈیل ہوں اور جہاں ان پڑھ فنکار اینکر پرسن بنے پھرتے ہوں وہاں عزت نفس کا یہی عالم ہوتا ہے۔ علمائے کرام کے پاس عام آدمی کے لیے وقت نہیں لیکن فنکاروں، اداکاروں اور کھلاڑیوں کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں، ہائے پبلسٹی! ہائے خود نمائی! اور ہائے ناصر کاظمی ؎
سادگی سے تم نہ سمجھے ترک دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیادار بھی
میچ ہارنے کے بعد کھلاڑی واپس آئیں تو ہوائی اڈوں پر چپکے سے اترتے ہیں اور چھپ کر گھروں میں پہنچتے ہیں اس لیے کہ ’’غیور‘‘ عوام ان کی بوٹیاں نوچنے کو تیار کھڑے ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف ملک کا حساس ترین ایئرپورٹ دہشت گردوں کی شکارگاہ بنتا ہے، جہازوں کوگولیاں لگتی ہیں، بے گناہ معصوم ورکر مارے جاتے ہیں، طرفہ تماشا یہ کہ دوسرے تیسرے دن دہشت گرد دوبارہ آ کر حملہ کرتے ہیں لیکن جو ادارے، جو اہلکار ایئرپورٹ کی حفاظت نہ کر سکنے کے ذمہ دار ہیں، وہ کھلے عام پھر رہے ہیں، بیانات دے رہے ہیں اور تحقیقاتی کمیٹیاں بناتے پھرتے ہیں۔ انہیں عوام سے کوئی خطرہ نہیں! انہوں نے کرکٹ میچ تھوڑی ہارا ہے کہ عوام کا ڈر ہو۔ ایئرپورٹ ہی تو دہشت گردوں کا تر نوالہ بنا ہے، کئی دن پروازیں ہی تو معطل رہی ہیں، سات پاکستانی ہی تو کولڈ سٹوریج میں ہلاک ہوئے ہیں، بھارت ہی تو ہماری سکیورٹی ’’قابلیت‘‘ پر ہنس رہا ہے، یہ تو ایسے جرائم نہیں کہ ذمہ دار افراد چھپتے پھریں!
بچے سے بات شروع ہوئی تھی۔ اس ملک کو بچانا ہے تو حکومت بچوں کے سپرد کر دو۔ خدا کی قسم! تاجروں کے اس گروہ سے بہتر ملک چلائیں گے۔ میرٹ پر فیصلے کریں گے۔ لندن، جدہ اور پیرس سے قومی دولت واپس لائیں گے، ایئرپورٹوں کی حفاظت کریں گے اور اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ وزیر خزانہ وہ ہو جس نے بازار سے آٹا دال گزشتہ دس سال میں کم از کم ایک بار خود خریدا ہو؎
ملے اک بار بچوں یا پرندوں کو حکومت

کوئی ایسا طریقہ شہر ہوں خوشحال سارے
 

powered by worldwanders.com