Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, April 29, 2014

پانی کے چند گھونٹ اور

                                             

ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ( ٹی ڈی اے پی ) میں کی 
جانے والی کرپشن کا منصوبہ یوسف رضا گیلانی کے جیل کے ساتھی کے ساتھ مل کر تیار کیا۔ کرپشن کی 65 فیصد رقم سابق وزیراعظم اور وفاقی وزیرکے گروہوں میں تقسیم ہوتی تھی اور باقی 35 فیصد ٹی ڈی اے پی کے افسروں میں۔ 2008ء میں سابق وزیراعظم کے جیل کے ساتھی نے بتایا کہ جیل میں اس کی ملاقات یوسف رضا گیلانی سے ہوئی اور یہ کہ دونوں کے درمیان اچھے مراسم ہیں۔ پھر گیلانی وزیراعظم بن گئے تو ان کے جیل کے ساتھی نے مجھے کہا کہ کوئی کام بتائو۔ میں نے بتایا کہ 2002-03ء کی فریٹ سبسڈی سکیم کے کچھ کلیم تعطل کا شکار ہیں ، اگر وزیراعظم رقوم ریلیزکر دیں تو برآمد کنندگان سے کمیشن کی مد میں اچھی خاصی رقم مل سکتی ہے۔ جیل کے ساتھی نے وعدہ کیا لیکن یہ بھی بتایا کہ پہلی قسط کے طور پر وزیراعظم کو کچھ رقم دینا ہوگی۔ میں نے 50 لاکھ روپے جمع کیے اور وزیراعظم کے جیل کے ساتھی کے ہمراہ وزیراعظم ہائوس گیا جہاں 50 لاکھ کی ادائیگی کی۔ وزیراعظم ہائوس میں یوسف رضا گیلانی سے ملاقات بھی ہوئی۔ دوسری ملاقات کے بعد وزیراعظم ہائوس کی ہدایت پر 43کروڑ ساٹھ لاکھ روپے فریٹ سبسڈی کی مد میں جاری ہوئے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کے جیل کے ساتھی نے اُس وقت کے ٹی ڈی اے پی کے چیف ایگزیکٹو سید محب اللہ شاہ سے بھی ملاقات کی، فنڈز جاری ہونے کے بعد کاغذی ایکسپورٹ کمپنیوں کے جعلی کلیم داخل کیے اور فریٹ سبسڈی کی 90 فیصد رقم کاغذی کمپنیوں کو جاری کی گئی۔ باقی دس فیصد سے حقیقی کلیم بھگتائے گئے۔ فریٹ سبسڈی کے حوالے سے کی جانے والی لوٹ مار دو گروہوں میں تقسیم کی جاتی تھی۔ ان میں ایک گروہ وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم کا تھا جبکہ دوسرا گروہ یوسف رضا گیلانی کا تھا۔ رقوم کی تقسیم اوپر بیان کیے گئے فارمولے کے مطابق کی جاتی تھی۔ پھر جب ٹی ڈی اے پی کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر طارق اقبال پوری تعینات ہوئے تو کرپشن کے معاملات ان کے بھائی کے گھر پر طے ہوتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب وزیراعظم اور وفاقی وزیر کا حصہ 65 فیصد سے بڑھا کر ستر فیصد کر دیا گیا تھا‘‘۔
یہ اقبالی بیان اس بھیانک سکینڈل میں ملوث ایک اہم فرد کا ہے۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا بیان نہیں ، قومی پریس میں شائع ہوا ہے۔ خبر کا دلچسپ ترین حصہ یہ ہے کہ ایف آئی اے حکام نے یوسف رضا گیلانی اور مخدوم امین فہیم کو بھی نوٹس جاری کیے ہیں لیکن دونوں سیاسی لیڈر تادمِ تحریر تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
یہ دونوں سیاست دان ایک سیاسی جماعت کے سرکردہ رہنما ہیں اور وفاق کی سطح پر وزیراعظم اور وفاقی وزیرکے مناصب پر فائز رہے ہیں ،اس سے پہلے بھی یہ کم اہم عہدوں پر کبھی نہیں رہے۔ پریس میں ان دونوں صاحبان کے حوالے سے ایک عرصہ سے قسم قسم کی خبریں آتی رہی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ کا پورا دور بھیانک سکینڈلوں سے بھرا پڑا ہے جن میں ان کے اپنے نام کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد کے نام بھی مسلسل آتے رہے ہیں۔ یہی حال وزیر صاحب کا ہے۔کبھی قوم کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا نیشنل ٹیکس نمبر ہی نہیں۔کبھی بتایا جاتا ہے کہ چارکروڑکی رقم ان کے اکائونٹ میں گئی اور پھر واپس کی گئی یا نکال لی گئی۔ ان حضرات کے خلاف ایکشن ہونا تو دورکی بات ہے‘ ان کے خاندان کے دوسرے افراد بھی ملک کی تقد یر سے کھیل رہے ہیں۔ ان وزیر صاحب کی صاحبزادی مقابلے کے امتحان میں شرکت کیے بغیر فارن سروس کا عہدہ لینے میں کامیاب رہی۔ تھر کے حالیہ قحط کے حوالے سے وزیر صاحب کے صاحبزادوں کے نام بھی مشہور ہوئے۔
حیرت ہوتی ہے کہ جب اعتزازاحسن اور رضا ربانی جیسے دانش ور تقریریں کرتے وقت دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو اپنی جماعت کے ارباب بست وکشاد سے کرپٹ ارکان کے متعلق کبھی معاملات طے نہیں کرتے یا کراتے ۔ جب پارٹی سے وابستگی ہی سب کچھ ہو تو جناب فرحت اللہ بابر جیسا نیک نام شخص بھی سب کچھ دیکھتے ہوئے کچھ نہیں دیکھتا اور ایک ایسے شخص کا دست راست بنا رہتا ہے جس کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے ، سوائے اس کے کہ   ؎
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
مقام عبرت ہے کہ حج سکینڈل سے لے کر ٹی ڈی اے پی سکینڈل تک کئی سکینڈلوں کے مرکزی کردار یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے تقریباً ایک سال سے اغوا کاروں کی تحویل میں ہیں ۔ دو دن پیشتر ان کی ایک مبینہ وڈیو منظر عام پر آئی ہے ، اس میں وہ زنجیروں میں جکڑے دکھائی دیتے ہیں اور پیغام دے رہے ہیں کہ اگر پچاس کروڑکا تاوان نہ دیا گیا تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ وڈیو میں وہ شکوہ کناں ہیں کہ ان کے اہل خانہ انہیں رہا کرانے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
کسی کو تاوان کے لیے اغوا کرنا ایسا قبیح فعل ہے جس کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگرکوئی شخص جناب یوسف رضا گیلانی سے ایک لاکھ درجہ زیادہ خراب شہرت رکھتا ہو‘ تب بھی اسے یا اس کے خاندان کے کسی فردکو اغوا کرنے کا کوئی جوازپیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شہریوں کو اغوا کاروں سے رہائی دلوانا ریاستی اداروں کا اولین فرض ہے‘ وہی ریاست جس کے انتظامی ڈھانچے کی سربراہی پانچ سال تک خود یوسف رضا گیلانی کے پاس رہی ۔ تاہم اس المیے میں سبق بھی پوشیدہ ہے۔اس بادشاہ کا واقعہ یاد آ رہا ہے جس سے کسی عقل مند نے پوچھا تھا کہ اگر صحرا میں شدید پیاس لگی ہواورجس شخص کے قبضے میں پانی ہو وہ آدھی سلطنت کا تقاضاکر رہا ہو تو آپ کیا کریں گے۔ بادشاہ نے جواب دیا ‘ زندگی بچانے کے لیے آدھی سلطنت دے دوں گا۔ عقل مند نے دوبارہ پوچھا کہ پھر آپ کا پیشاب بند ہو جائے اور آپ شدت درد سے لوٹ رہے ہوں اور جس شخص کے پاس اس ویرانے میں پیشاب جاری کرنے کی دوا ہواور وہ باقی آدھی سلطنت کا مطالبہ کر رہا ہو ؟ بادشاہ نے ایک لحظہ توقف کیے بغیر کہا کہ بقیہ آدھی بھی دے دوں گا۔ اس پر عقل مند نے کہا کہ بادشاہ سلامت ! اگر  اتنی بڑی سلطنت کی قیمت پانی کے چندگھونٹ اور پیشاب کے چند قطرے ہیں تو پھر اس پر نازوغرورکیا کرنا !
کچھ لوگ دولت کے لیے عزت تک نیلام کر دیتے ہیں لیکن دولت ہے کہ پھر بھی کام نہیں آتی۔ عبرت پکڑو اے آنکھوں والو !!

Sunday, April 27, 2014

سول وار


دنیا کی سب سے بڑی خانہ جنگی جاری ہے۔ آپ بھی آیئے‘ اس میں حصہ لیجیے۔ 
اس خانہ جنگی‘ اس سول وار میں حصہ لینے کے لیے کسی خاص مذہب کا ہیرو ہونا ضروری نہیں۔ آپ مسلمان ہیں یا نصرانی‘ ہندو ہیں یا یہودی‘ بدھ ہیں یا لامذہب‘ آتش پرست ہیں یا سکھ‘ جو کچھ بھی ہیں‘ حصہ لے سکتے ہیں۔ بس آیئے‘ سول وار میں شامل ہو جایئے‘ انسانوں کو قتل کرتے جایئے۔ 
مسلک کی قید بھی کوئی نہیں۔ آپ شیعہ ہیں یا سنی‘ دیوبندی ہیں یا بریلوی‘ سلفی ہیں یا آغا خانی‘ امام ابوحنیفہؒ کے مقلد ہیں یا امام شافعیؒ کے پیروکار‘ امام مالکؒ کے عقیدت مند ہیں یا حنبلی ہیں یا امام جعفر صادقؒ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں‘ آپ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ آیئے اور خون بہانے کا شوق پورا فرمایئے۔ 
آپ اگر یہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی علاقائی‘ صوبائی یا لسانی مسئلہ اس سول وار کی تہہ میں ہے تو معاف کیجیے گا آپ غلط ہیں۔ یہ خانہ جنگی صرف اور صرف آپ کی اس قابلیت پر مبنی ہے کہ آپ کتنے لوگوں کو دنیائے فانی سے نجات دلا سکتے ہیں۔ بس اس کے علاوہ اگر کوئی اور معیار ہو تو جو چور کی سزا وہ اس لکھنے والے کو دیجیے۔ میرے بھائی! میری بہن! اس ملک میں یہ وہ واحد کام ہے جس میں علاقائیت کا زہر کارفرما نہیں۔ آپ پنجاب سے ہیں یا سندھی بولتے ہیں‘ پشتو آپ کی زبان ہے یا آپ کی والدہ ماجدہ جمنا کنارے کی خوبصورت اردو بولتی تھیں‘ آپ بلوچی ہیں یا بروہی‘ کشمیری ہیں یا چترالی‘ بلتی بولتے ہیں یا شیِنا‘ ہندکو میں گفتگو فرماتے ہیں یا سرائیکی کی میٹھی بولی آپ کے تالو سے لگ لگ کر باہر نکلتی ہے‘ بس زبان اور علاقے کی تخصیص کو بالائے طاق رکھیے اور کم از کم اس خانہ جنگی کے لیے اقبال کی وہ مشہور زمانہ رباعی سامنے رکھیے   ؎  
نہ افغانیم و نی ترک و تتاریم 
چمن زادیم و از یک شاخساریم 
تمیزِ رنگ و بو بر ما حرام است 
کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم 
یہ خانہ جنگی پان اسلام ازم کا‘ اتحادِ امہ کا وہ واحد مظہر ہے‘ جو نظر آ رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد امت آج تک کسی مسئلے پر‘ کسی فورم پر اکٹھی نہیں ہوئی سوائے اس خانہ جنگی کے۔ اس خانہ جنگی کو دیکھ کر دل فرطِ مسرت سے جھوم اٹھتا ہے اور رقت ایسی طاری ہوتی ہے کہ آنکھیں چھلک چھلک اٹھتی ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں جنہیں امت کے اتحاد کا یہ بے مثل منظر دیکھنے کو ملا۔ تیرہ سو سال مسلمان اس منظر کو دیکھنے کے لیے دعائیں مانگتے رہے‘ روتے رہے‘ ترستے رہے‘ خواب دیکھتے رہے۔ زمانے کی گردش نے یہ تاج ہمارے سر پر رکھنا تھا… الحمدللہ‘ ثم الحمد للہ‘ اس خانہ جنگی میں پاکستان اتحادِ امت کی وہ تصویر پیش کر رہا ہے جس پر پچاس سے زیادہ دوسرے مسلمان ممالک صرف رشک کر سکتے ہیں۔ مسلک‘ عقیدے‘ لباس‘ زبان کی قید سے بالاتر ہو کر سب ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔ 
اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ طبقاتی تفریق کا شاخسانہ بھی نہیں۔ یہ امیر اور غریب کی لڑائی بھی نہیں۔ یہ سیاسی اختلافات کا بکھیڑا بھی نہیں۔ کروڑ پتی کیا اور قلّاش کیا‘ کار والا کیا اور سائیکل سوار کیا‘ پیدل کیا اور ٹیکسی والا کیا‘ ہر شخص حصہ لے سکتا ہے اور ماشاء اللہ لے رہا ہے۔ مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ ایم کیو ایم‘ ساری سیاسی جماعتیں‘ قومی ہیں یا علاقائی‘ خانہ جنگی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں۔ مقصد سب کا ایک ہے۔ قتلِ عام! 
حضرات! یہ خانہ جنگی‘ دنیا کی یہ عظیم ترین سول وار‘ پاکستان کی شاہراہوں پر لڑی جا رہی ہے۔ 
سڑک دو شہروں کے درمیان ہے یا شہر کے اندر‘دیہاتی علاقے میں ہے یا لاہور‘ کراچی جیسے شہر میں‘انسانی کو قتل کرنے کا کام ہر جگہ جاری ہے۔کوئی روک ٹوک نہیں۔آپ بس چلا رہے ہیں تو کار کو ٹکر ماریے ‘پانچ کار سوار فوراً مر جائیں گے۔آپ بس سے اتریے اور ادھر ادھر ہو جایئے‘ پولیس میں کوئی مائی کا لعل ابھی تک ایسا پیدا ہی نہیں ہوا کہ پکڑ سکے۔کار چلا رہے ہیں تو بیلٹ نہ باندھیے‘ساتھ ساتھ موبائل فون کان سے لگا کر سنیے‘گود میں بچہ بٹھا کر ڈرائیونگ کا کرتب دکھایے‘سب چلتا ہے۔موٹر سائیکل کو گرایئے۔ ایک مر جائے گا‘دوسرے کی دونوں ٹانگیں فریکچر ہو جائیں گی۔ آپ اطمینان سے سفر جاری رکھیے۔خود ہی بھگتیں گے۔اگر آپ ویگن ڈرائیور ہیں تو آپ بادشاہ ہیں۔
کندھے پر چادر رکھیے‘منہ میں جلتا ہوا سگریٹ دبایئے‘ویگن کو اوورلوڈ کیجیے۔مالک نے آپ کو ٹارگٹ دے رکھا ہے کہ اتنا فاصلہ اتنے منٹ میں طے کرنا ہے ورنہ سواریاں دوسری ویگنوں والے اٹھا لے جائیں گے۔آپ نے ہر حال میں ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔دائیں چلایئے یا درمیان‘ بے شک بائیں طرف سے اوورٹیک کیجیے‘ہارن پر ہارن دیجیے ‘سڑک کے درمیان رکیے۔ کاروں ‘رکشوں پیدل چلنے والوں کو الو کے پٹھے سمجھیے‘کوئی گرتا ہے یا مرتا ہے آپ کی بلا سے‘ سُوٹا لگایے‘گانا سنیے‘کنڈیکٹر کو ماں بہن کی گالی دیجیے اور فل سپیڈ پر ویگن چلایئے‘قانون آپ کے پیچھے دم ہلاتا آئے گا۔مالک کی پہنچ دور تک ہے!
اگر آپ ٹرک ڈرائیور ہیں تو آپ بادشاہوں کے بادشاہ ہیں اور جلادوں کے سردار ہیں۔سامنے سے کار آئے یا بس‘آپ نے سڑک چھوٹ کر کچے پر نہیں اترنا!
وہ کیا کر لے گا!مجبوراً کچے پر اتارے گا‘ اور کوئی چارہ ہی نہیں‘مزے کی بات یہ ہے کہ آپ کے قریب سے گزرتے وقت آپ کو غصے سے دیکھنے کی کوشش کرے گا تو منہ کی کھائے گا۔ٹرک ڈرائیور اتنا بلند ہوتا ہے کہ کار سوار کو نظر ہی نہیں آ سکتا‘اور پھر ٹرک کے پیچھے تویہ بھی لکھا ہے کہ جلنے والے کا منہ کالا‘یہ کون پوچھے کہ بھائی کسی کو ٹرک ڈرائیور سے جلنے کی کیا ضرورت ہے؟مانسہرہ سے کراچی ٹرک لے جانے والے کی زندگی میں کون سی خوبی ہے کہ کوئی جلے گا۔یہ تک تو اسے معلوم نہیں کہ پیچھے اس کے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ کھانا اسے وقت پر نصیب نہیں ہوتا‘ گاڑیاں چلانے والے لاکھوں انسان اس سے 
نفرت کرتے ہیں اور بددعائیں دیتے ہیں۔
اگر آپ موٹر سائیکل پر ہیں تو یہ نہ سوچیے موٹر سائیکل کے نیچے آ کر ایک آدھ بندہ ہی ہلاک ہو سکتا ہے اپنی طاقت کا کم اندازہ نہ لگائیے۔زگ زیگ چلائیے کبھی دائیں کبھی بائیں‘درمیان میں ذرا سی جگہ ہو تب بھی شوں کر کے گزریئے‘ ویلنگ کا موقع ہو تو وہ بھی کیجیے‘اگر آپ کے اس وحشیانہ انداز سے کار بس یا ویگن حادثہ کا شکار ہوتی ہے تو مرنے والوں کی تعداد درجنوں میں بھی ہو سکتی ہے یوں آپ کا حصہ بقدر جثہ نہیں‘بلکہ بہت زیادہ ہو گا۔
رہی یہ صورت کہ آپ پیدل ہیں تو گھبرائیے نہیں‘خانہ جنگی میں حصہ پھر بھی لیا جا سکتا ہے۔آپ ایک مصروف شاہراہ اس طرح عبور کیجیے کہ گاڑیاں چلانے والوں کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ کار دور ہے تو انتظار کیجیے ‘کھڑے رہیے‘نزدیک آئے تو سڑک عبور کیجیے‘ کار چلانے والے کا دماغ ایسا گھومے گا کہ حادثہ کر بیٹھے گا۔ یہ ہے قتل عام میں آپ کا حصہ!اگر حکومت نے سڑک پار کرنے کے لیے پل بنایا ہے تو سیڑھیاں چڑھنے کی زحمت نہ کیجیے۔تھکاوٹ ہو جائے گی۔ تو کل کیجیے‘سڑک پر پائوں رکھیے اور پار اتر جائیے ‘خود ہی بریکیں لگاتے رہیں گے۔خدانخواستہ آپ کار کے نیچے آ بھی گئے تو مطمئن رہیے‘بپھرا ہوا ہجوم آپ کو شہید قرار دے گا اور کار چلانے والے کو مار مار کرموا نہیں تو ادھ موا ضرور کرڈالے گا۔
اس خانہ جنگی کا ذمہ دار کون ہے؟اس پر گفتگو پھر کبھی۔بس اتنا جان لیجیے کہ پولیس ذمہ دار ہے۔اگر موٹر وے پر قانون کی حکمرانی کاکریڈٹ پولیس کو جاتا ہے تو لاقانونیت کا سہرا بھی پولیس کے سر ہے۔ اس لیے کہ پولیس سیاست زدہ (Politicized) ہے اور یہ کارنامہ سیاست دانوں کا ہے!!

Friday, April 25, 2014

خنک پانیوں کا چشمہ


گجرات سے بارہا گزر ہوا ہوگا۔ اس شہر کا نام آتے ہی ذہن صنعت اور سیاست کی طرف چلا جاتا ہے۔ پنکھا سازی میں یہاں کے لوگوں نے شہرت حاصل کی۔ فرنیچر یہاں کا دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ کفش سازی ایسی کامیاب ہوئی کہ ملک بھر میں آئوٹ لیٹ ہیں۔ سیاسی خاندانوں کی پارٹیوں پر اجارہ داری نے بھی اس شہر کو مشہور کیا لیکن اب کے جو گجرات دیکھا‘ وہ نیا ہی تھا۔ گجرات یونیورسٹی کا کیمپس دیکھ کر شکیب جلالی کا شعر یاد آ رہا تھا   ؎ 
ادھر سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی 
کہ زیرِ سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا 
کیمپس کی وسعت‘ عمارتوں کا پھیلائو اور خوبصورتی اور طلبہ و طالبات کی چہل پہل دیکھ کر بے پایاں مسرت ہوئی۔ اس مسرت کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کی ترجیحِ اول دولت نہیں ہوتی! کیمپس میں اگرچہ درختوں کی کمی ہے اور ہریالی کم ہے لیکن یہ ایک دل نشین قریہ ہے جو دولت کمانے والوں اور اقتدار سے محبت کرنے والوں کے شہر کی بغل میں بسایا گیا ہے اور خوب بسایا گیا ہے۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا   ؎ 
کوئی رومی، کوئی غالب، کوئی اقبال پیدا کر 
کہ شہروں کی بڑائی اس کے میناروں سے ہوتی ہے 
وہ جو اقبال نے رونا رویا تھا کہ   ع  
قوتِ افرنگ از علم و فن است 
تو ہم یہ بات آج تک سمجھ نہیں پائے کہ جو لوگ آج کرۂ ارض پر حکمرانی کر رہے ہیں‘ جن کے تصرف میں ہوائیں اور فضائیں ہیں اور جن کے بحری بیڑوں کے لیے عظیم الشان سمندر جھیلوں کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں‘ وہ اس مقام پر دو چیزوں کے طفیل پہنچے۔ یونیورسٹیاں اور لائبریریاں‘ آکسفورڈ یونیورسٹی 1167ء سے پہلے بنی۔ کیمبرج یونیورسٹی 1209ء میں وجود میں آئی۔ گلاسگو یونیورسٹی 1451ء میں بن چکی تھی۔ ایڈنبرا یونیورسٹی میں 1583ء میں کلاسیں شروع ہو چکی تھیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب مشرق میں مغل‘ ازبک اور عثمانی سلطنتیں ایک طرف تھیں اور ا یران کے صفوی حکمران دوسری طرف تھے۔ قندھار پر قبضہ کے لیے ایران اور ہندوستان ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے تھے۔ جہانگیر نے افیون کے تبادلے میں سلطنت کے امور نور جہان کے حوالے کر دیے تھے۔ افسوس! استنبول میں کوئی یونیورسٹی بنی نہ اصفہان میں‘ نہ آگرہ میں۔ 
برطانیہ کے پاس تاج محل ہے نہ شاہی قلعہ لیکن ان کے پاس ایسی یونیورسٹیاں ہیں جن میں قدم دھرنے کے لیے کئی سو سال سے ذہین و فطین طلبہ میں مقابلے ہو رہے ہیں۔ الازہر یونیورسٹی زمانے کا ساتھ نہ دے سکی۔ اسلامی اور غیر اسلامی علوم کی تقسیم نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کردیا۔ جس امت کو بتایا گیا تھا کہ علم جہاں بھی ہو مسلمان کی میراث ہے‘ اس امت نے بالعموم اور اس کے علما نے بالخصوص علوم و فنون کو ’’غیر مذہبی‘‘ کہہ کر طلاق دے دی اور چند کلیوں پر قناعت کر کے حجرہ نشین ہو گئے۔ اس لکھنے والے نے مراکش کے قدیم شہر فاس (FEZ) میں عالی شان عمارتیں دیکھیں جن میں کبھی یونیورسٹیاں تھیں‘ یہ یونیورسٹیاں کوتاہ نظری اور ضد کی بدولت ’’مدرسوں‘‘ میں تبدیل ہو گئیں اور دنیا نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ 
’’گو امریکہ گو‘‘ اور ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کہنا آسان ہے اور یہ سمجھنا مشکل کہ ہارورڈ یونیورسٹی 1636ء میں بن چکی تھی۔ 1701ء میں ییل یونیورسٹی‘ 1746ء میں پرنسٹن یونیورسٹی اور 1754ء میں کولمبیا یونیورسٹی میں کلاسیں ہو رہی تھیں۔ ان حکومتوں اور عوام نے یونیورسٹیوں کو ایک خاص ماحول دیا جن میں مار دھاڑ تو دور کی بات ہے‘ سیاست اور تفرقہ بازی کی گنجائش ہی نہ تھی۔ برٹرنڈ رسل اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے کہ اس نے یونیورسٹی میں دیکھا کہ کینز (KEYNES) سائیکل پر سوار جا رہا تھا۔ یہ ماحول ہمارے ہاں بھی آیا مگر کسی اور کے طفیل۔ محمد حسین آزاد گھوڑے پر سوار اورینٹل کالج آتے تھے یا کالج سے جاتے تھے تو دائیں بائیں طلبہ کتابیں اٹھائے ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔ کچھ نے کتابیں کھولی ہوتی تھیں‘ آزاد چلتے چلتے پڑھاتے جاتے تھے۔ اس ماحول کا آج کے ماحول سے موازنہ کیجیے جب یونیورسٹیوں میں اساتذہ جانیں بچانے کے لیے کونوں کھدروں میں دبک جاتے ہیں۔ طلبہ ڈنڈے اور لاٹھیاں اٹھائے ان کی مرمت کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ مُفسد جو اساتذہ کے گائون پہن لیتے ہیں‘ طلبہ کو اُکسا رہے ہوتے ہیں۔ جس ملک میں سیاسی مذہبی جماعت کا رہنما ٹیلی ویژن پر آ کر بے باکی سے اعتراف کرے کہ ہم نے اسّی فیصد ہوسٹل تو خالی کر ہی دیے ہیں‘ اس ملک میں تعلیم کی حالت پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ع 
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو! 
سیاسی جماعتوں کے ایامِ تاسیس یونیورسٹیوں کے اندر منائے جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر علم دشمنی کیا ہو سکتی ہے! 
اتنا وقت نہیں تھا کہ گجرات یونیورسٹی کی لائبریری دیکھتے۔ اقبال کے حوالے سے تقریب تھی۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پروفیسر فتح محمد ملک‘ ڈاکٹر خالد مسعود اور خورشید ندیم جیسے سکالر موجود تھے۔ راقم بھی مدعو تھا۔ اقبال کے حوالے سے باتیں ہوئیں اور کھل کر ہوئیں۔ کچھ باتیں ایسی بھی تھیں جو اس ملک میں یونیورسٹی سے باہر شاید کی ہی نہ جا سکیں۔ امید ہے یہ باتیں مدرسہ تک نہیں پہنچائی گئی ہوں گی کہ شاعر کو جب بتایا گیا تھا کہ تمہارے شعروں کی وجہ سے اہلِ مدرسہ تمہیں کافر کہہ رہے ہیں تو اس کا جواب یہ تھا کہ شعرِ من بمدرسہ کہ بُرد؟ میرے اشعار کو مدرسہ میں لے کر گیا کون ہے؟ 
اسلامی فقہ کی تدوینِ نو‘ سیاسیاتِ حاضرہ کے حوالے سے اقبال کی نظم و نثر کا مطالعہ‘ عالمِ اسلام میں موجود دو متحارب نظریاتی گروہ غرض بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ آخر میں وائس چانسلر صاحب نے طلبہ کو مقررین سے سوالات کرنے کی اجازت دی۔ ایک سوال بہت ہی دلچسپ اور عبرت ناک تھا۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ ساری باتیں تو کی گئی ہیں لیکن یہ کسی نے بتایا ہی نہیں کہ اقبال ولایت کے کس منصب پر فائز تھے؟ اس کا جواب ان سطور کے لکھنے والے نے دیا کہ ولایت کا منصب کسی سرکاری عہدے کی طرح نہیں جس کا گزٹ نوٹیفیکیشن کیا جائے۔ اولیاء اللہ اعلان اور تشہیر نہیں کرتے۔ انہیں تو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ رہے اقبال‘ تو انہوں نے اپنے آپ کو قلندر کہلانا پسند کیا تھا    ؎ 
بیا بہ مجلسِ اقبال و یک دو ساغر کش 
اگرچہ سر نہ تراشد‘ قلندری داند 
تجسس تھا کہ کیا اس خوبصورت یونیورسٹی میں بھی سیاسی جماعتوں کی ’’پراکسی وار‘‘ ہو رہی ہے یا تاحال بچی ہوئی ہے؟ یہ سطور لکھتے وقت یونیورسٹی کے فوکل پرسن پروفیسر شیخ عبدالرشید سے معلومات اخذ کرنے کے لیے رابطہ کیا مگر وہ ایک تقریب میں گرفتار تھے۔ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ یونیورسٹی نام نہاد سٹوڈنٹس پالیٹکس سے محفوظ رہے اور کسی رنگ کے جھنڈے کا بھی یہاں دخل نہ ہو۔ 
ضربِ کلیم میں اقبال نے ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ’’تعلیم و تربیت‘‘ رکھا ہے۔ یہ باب اس قابل ہے کہ ہر یونیورسٹی‘ ہر کالج اور ہر مدرسہ کے طلبہ کو پڑھایا جائے۔ اس میں اقبال جہاں کہتے ہیں کہ   ؎   
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب 
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف 
وہاں یہ دہائی بھی دیتے ہیں کہ   ؎ 
شیخِ مکتب کے طریقوں سے کشادِ دل کہاں 
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ! 
(کبریت ماچس کو کہتے ہیں)
خنک پانیوں کا چشمہ
گجرات سے بارہا گزر ہوا ہوگا۔ اس شہر کا نام آتے ہی ذہن صنعت اور سیاست کی طرف چلا جاتا ہے۔ پنکھا سازی میں یہاں کے لوگوں نے شہرت حاصل کی۔ فرنیچر یہاں کا دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ کفش سازی ایسی کامیاب ہوئی کہ ملک بھر میں آئوٹ لیٹ ہیں۔ سیاسی خاندانوں کی پارٹیوں پر اجارہ داری نے بھی اس شہر کو مشہور کیا لیکن اب کے جو گجرات دیکھا‘ وہ نیا ہی تھا۔ گجرات یونیورسٹی کا کیمپس دیکھ کر شکیب جلالی کا شعر یاد آ رہا تھا   ؎ 
ادھر سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی 
کہ زیرِ سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا 
کیمپس کی وسعت‘ عمارتوں کا پھیلائو اور خوبصورتی اور طلبہ و طالبات کی چہل پہل دیکھ کر بے پایاں مسرت ہوئی۔ اس مسرت کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کی ترجیحِ اول دولت نہیں ہوتی! کیمپس میں اگرچہ درختوں کی کمی ہے اور ہریالی کم ہے لیکن یہ ایک دل نشین قریہ ہے جو دولت کمانے والوں اور اقتدار سے محبت کرنے والوں کے شہر کی بغل میں بسایا گیا ہے اور خوب بسایا گیا ہے۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا   ؎ 
کوئی رومی، کوئی غالب، کوئی اقبال پیدا کر 
کہ شہروں کی بڑائی اس کے میناروں سے ہوتی ہے 
وہ جو اقبال نے رونا رویا تھا کہ   ع  
قوتِ افرنگ از علم و فن است 
تو ہم یہ بات آج تک سمجھ نہیں پائے کہ جو لوگ آج کرۂ ارض پر حکمرانی کر رہے ہیں‘ جن کے تصرف میں ہوائیں اور فضائیں ہیں اور جن کے بحری بیڑوں کے لیے عظیم الشان سمندر جھیلوں کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں‘ وہ اس مقام پر دو چیزوں کے طفیل پہنچے۔ یونیورسٹیاں اور لائبریریاں‘ آکسفورڈ یونیورسٹی 1167ء سے پہلے بنی۔ کیمبرج یونیورسٹی 1209ء میں وجود میں آئی۔ گلاسگو یونیورسٹی 1451ء میں بن چکی تھی۔ ایڈنبرا یونیورسٹی میں 1583ء میں کلاسیں شروع ہو چکی تھیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب مشرق میں مغل‘ ازبک اور عثمانی سلطنتیں ایک طرف تھیں اور ا یران کے صفوی حکمران دوسری طرف تھے۔ قندھار پر قبضہ کے لیے ایران اور ہندوستان ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے تھے۔ جہانگیر نے افیون کے تبادلے میں سلطنت کے امور نور جہان کے حوالے کر دیے تھے۔ افسوس! استنبول میں کوئی یونیورسٹی بنی نہ اصفہان میں‘ نہ آگرہ میں۔ 
برطانیہ کے پاس تاج محل ہے نہ شاہی قلعہ لیکن ان کے پاس ایسی یونیورسٹیاں ہیں جن میں قدم دھرنے کے لیے کئی سو سال سے ذہین و فطین طلبہ میں مقابلے ہو رہے ہیں۔ الازہر یونیورسٹی زمانے کا ساتھ نہ دے سکی۔ اسلامی اور غیر اسلامی علوم کی تقسیم نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کردیا۔ جس امت کو بتایا گیا تھا کہ علم جہاں بھی ہو مسلمان کی میراث ہے‘ اس امت نے بالعموم اور اس کے علما نے بالخصوص علوم و فنون کو ’’غیر مذہبی‘‘ کہہ کر طلاق دے دی اور چند کلیوں پر قناعت کر کے حجرہ نشین ہو گئے۔ اس لکھنے والے نے مراکش کے قدیم شہر فاس (FEZ) میں عالی شان عمارتیں دیکھیں جن میں کبھی یونیورسٹیاں تھیں‘ یہ یونیورسٹیاں کوتاہ نظری اور ضد کی بدولت ’’مدرسوں‘‘ میں تبدیل ہو گئیں اور دنیا نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ 
’’گو امریکہ گو‘‘ اور ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کہنا آسان ہے اور یہ سمجھنا مشکل کہ ہارورڈ یونیورسٹی 1636ء میں بن چکی تھی۔ 1701ء میں ییل یونیورسٹی‘ 1746ء میں پرنسٹن یونیورسٹی اور 1754ء میں کولمبیا یونیورسٹی میں کلاسیں ہو رہی تھیں۔ ان حکومتوں اور عوام نے یونیورسٹیوں کو ایک خاص ماحول دیا جن میں مار دھاڑ تو دور کی بات ہے‘ سیاست اور تفرقہ بازی کی گنجائش ہی نہ تھی۔ برٹرنڈ رسل اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے کہ اس نے یونیورسٹی میں دیکھا کہ کینز (KEYNES) سائیکل پر سوار جا رہا تھا۔ یہ ماحول ہمارے ہاں بھی آیا مگر کسی اور کے طفیل۔ محمد حسین آزاد گھوڑے پر سوار اورینٹل کالج آتے تھے یا کالج سے جاتے تھے تو دائیں بائیں طلبہ کتابیں اٹھائے ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔ کچھ نے کتابیں کھولی ہوتی تھیں‘ آزاد چلتے چلتے پڑھاتے جاتے تھے۔ اس ماحول کا آج کے ماحول سے موازنہ کیجیے جب یونیورسٹیوں میں اساتذہ جانیں بچانے کے لیے کونوں کھدروں میں دبک جاتے ہیں۔ طلبہ ڈنڈے اور لاٹھیاں اٹھائے ان کی مرمت کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ مُفسد جو اساتذہ کے گائون پہن لیتے ہیں‘ طلبہ کو اُکسا رہے ہوتے ہیں۔ جس ملک میں سیاسی مذہبی جماعت کا رہنما ٹیلی ویژن پر آ کر بے باکی سے اعتراف کرے کہ ہم نے اسّی فیصد ہوسٹل تو خالی کر ہی دیے ہیں‘ اس ملک میں تعلیم کی حالت پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ع 
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو! 
سیاسی جماعتوں کے ایامِ تاسیس یونیورسٹیوں کے اندر منائے جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر علم دشمنی کیا ہو سکتی ہے! 
اتنا وقت نہیں تھا کہ گجرات یونیورسٹی کی لائبریری دیکھتے۔ اقبال کے حوالے سے تقریب تھی۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پروفیسر فتح محمد ملک‘ ڈاکٹر خالد مسعود اور خورشید ندیم جیسے سکالر موجود تھے۔ راقم بھی مدعو تھا۔ اقبال کے حوالے سے باتیں ہوئیں اور کھل کر ہوئیں۔ کچھ باتیں ایسی بھی تھیں جو اس ملک میں یونیورسٹی سے باہر شاید کی ہی نہ جا سکیں۔ امید ہے یہ باتیں مدرسہ تک نہیں پہنچائی گئی ہوں گی کہ شاعر کو جب بتایا گیا تھا کہ تمہارے شعروں کی وجہ سے اہلِ مدرسہ تمہیں کافر کہہ رہے ہیں تو اس کا جواب یہ تھا کہ شعرِ من بمدرسہ کہ بُرد؟ میرے اشعار کو مدرسہ میں لے کر گیا کون ہے؟ 
اسلامی فقہ کی تدوینِ نو‘ سیاسیاتِ حاضرہ کے حوالے سے اقبال کی نظم و نثر کا مطالعہ‘ عالمِ اسلام میں موجود دو متحارب نظریاتی گروہ غرض بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ آخر میں وائس چانسلر صاحب نے طلبہ کو مقررین سے سوالات کرنے کی اجازت دی۔ ایک سوال بہت ہی دلچسپ اور عبرت ناک تھا۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ ساری باتیں تو کی گئی ہیں لیکن یہ کسی نے بتایا ہی نہیں کہ اقبال ولایت کے کس منصب پر فائز تھے؟ اس کا جواب ان سطور کے لکھنے والے نے دیا کہ ولایت کا منصب کسی سرکاری عہدے کی طرح نہیں جس کا گزٹ نوٹیفیکیشن کیا جائے۔ اولیاء اللہ اعلان اور تشہیر نہیں کرتے۔ انہیں تو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ رہے اقبال‘ تو انہوں نے اپنے آپ کو قلندر کہلانا پسند کیا تھا    ؎ 
بیا بہ مجلسِ اقبال و یک دو ساغر کش 
اگرچہ سر نہ تراشد‘ قلندری داند 
تجسس تھا کہ کیا اس خوبصورت یونیورسٹی میں بھی سیاسی جماعتوں کی ’’پراکسی وار‘‘ ہو رہی ہے یا تاحال بچی ہوئی ہے؟ یہ سطور لکھتے وقت یونیورسٹی کے فوکل پرسن پروفیسر شیخ عبدالرشید سے معلومات اخذ کرنے کے لیے رابطہ کیا مگر وہ ایک تقریب میں گرفتار تھے۔ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ یونیورسٹی نام نہاد سٹوڈنٹس پالیٹکس سے محفوظ رہے اور کسی رنگ کے جھنڈے کا بھی یہاں دخل نہ ہو۔ 
ضربِ کلیم میں اقبال نے ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ’’تعلیم و تربیت‘‘ رکھا ہے۔ یہ باب اس قابل ہے کہ ہر یونیورسٹی‘ ہر کالج اور ہر مدرسہ کے طلبہ کو پڑھایا جائے۔ اس میں اقبال جہاں کہتے ہیں کہ   ؎   
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب 
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف 
وہاں یہ دہائی بھی دیتے ہیں کہ   ؎ 
شیخِ مکتب کے طریقوں سے کشادِ دل کہاں 
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ! 
(کبریت ماچس کو کہتے ہیں)

Thursday, April 24, 2014

دلیل اور غلیل


شیخ رشید کے بہت سے رویوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ خاص کر اُن کی اس خواہش سے کہ وہ ہر وقت پردۂ سیمیں پر رہیں اور مسلسل ایسی باتیں کرتے رہیں جنہیں سننے والا چار پر تقسیم کرتا رہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا   ؎ 
کم نما ہم بھی ہیں بہت پیارے 
خود نما تجھ سا پر کہاں دیکھا 
لیکن راولپنڈی اسلام آباد کے جڑواں شہروں کی سکیورٹی کے متعلق جب وہ خطرات کی نشان دہی کریں تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے شہر اور شہریوں سے شیخ صاحب کی وفاداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ گراس روٹ سے اٹھنے والے سیاست دان اور اوپر سے آ کر یک دم رہنما بن جانے والے شخص میں یہی فرق ہوتا ہے جو شیخ رشید اور عمران خان میں ہے۔ شیخ رشید نے دو دن پہلے ٹیلی ویژن پر آ کر وارننگ دی کہ روات سے بارہ کہو تک (انہوں نے درمیان میں واقع ایک علاقے کا نام بھی لیا) کوئی حکومت ہے نہ گورننس۔ وزیراعظم‘ عمران خان سے ملنے گئے تو انہوں نے پارک پر قبضہ گروپ کے تسلط کا ذکر کیا حالانکہ اُن کے گھر سے بچہ بھی کنکر پھینکے تو اس آبادی پر آ گرے جو ان کے وسیع و عریض مکان کی بالکل پشت پر ہے اور جہاں کچھ عرصہ پہلے حقانی گروپ کا ایک اہم شخص قتل ہوا اور جو غیر ملکیوں سے بھری پڑی ہے۔ 
نااہلی‘ نااہلی اور نااہلی… اس کے علاوہ کوئی اور لفظ سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ نااہلی کا سب سے بڑا ثبوت ترجیحات کا عجیب و غریب ہونا ہے۔ جڑیں گل رہی ہوں اور شاخوں پر پیوندکاری کی جا رہی ہو تو اسے نااہلی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت بالخصوص اور پنجاب بالعموم غیر ملکیوں اور دوسرے صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں آنے والوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ کل کے روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں سات لاکھ افراد دوسرے صوبے سے پنجاب منتقل ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے معتبر لوگ ایک موجودہ وفاقی وزیر کی موجودگی میں کہہ چکے ہیں کہ لاہور غیر ملکیوں کے محاصرے میں ہے۔ حیرت ہے کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں کسی نے نہ پوچھا کہ یہ غیر ملکی کیوں بسے ہیں اور حکومت کی اس سلسلے میں کیا پالیسی ہے؟ یہ ہمارا قومی شعار بن چکا ہے کہ غیر قانونی بستیاں متعلقہ اداروں کی ناک تلے آباد ہوتی ہیں اور برسوں بعد یہ ادارے دہائی دینے لگ جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پرسوں کہا ہے کہ… ’’سی ڈی اے کی مہربانی سے غیر قانونی ہائوسنگ سکیمیں بنیں…‘‘ کسی اور ملک میں سب سے بڑی عدالت یہ کہتی تو طوفان برپا ہو جاتا۔ اب ایک دن وہ بھی آئے گا جب پانی سر سے گزرے گا اور پھر کوئی عدالت ریمارک دے گی کہ ’’غیر ملکی اور دوسرے صوبوں سے آنے والے مسلح اشخاص وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی آنکھوں کے سامنے آ آ کر آباد ہوتے رہے‘‘ اس میں شک نہیں کہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں آ کر آباد ہونا ہر شہری کا حق ہے لیکن یہ حق کہیں نہیں دیا جا سکتا کہ ساتھ اسلحہ کے انبار بھی آئیں اور دشمنیاں بھی ساتھ ہی منتقل ہوں۔ کسی خوفِ تردید کے بغیر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وفاق اور سب سے بڑے صوبے کے حکمرانوں کے پاس اعدادو شمار ہی نہیں کہ باہر سے آ کر منتقل ہونے والوں کی تعداد کیا ہے؟ سالانہ یا ماہانہ شرح کیا ہے؟ کیا کسی پالیسی ساز ادارے نے اس ضمن میں کوئی پالیسی وضع کی ہے؟ کیا اس امر کا انتظام کیا جا رہا ہے کہ یہ آبادکار مخصوص علاقوں میں اکثریت نہ حاصل کریں؟ اگر بڑی بڑی تنخواہوں پر پلنے والے ان میں سے کسی سوال کا جواب دے دیں تو خوشی میں بکرے ذبح کیے جائیں گے۔ لیکن چونکہ ان امور پر عوام کی سلامتی کا دارومدار ہے اس لیے یہ غیر ضروری ہیں۔ سلامتی صرف ریڈ زون کی مطلوب ہے! 
نااہلی کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ سائیکل کی ہر شے بجتی ہے سوائے گھنٹی کے۔ ہر وزیر ہر معاملے پر بیان دیتا ہے سوائے اپنے دائرہ کار کے۔ یہ جو طوفان اٹھا ہے تو سوال یہ ہے کہ ریلوے کا جنرل پرویز مشرف کے معاملے سے کیا تعلق تھا؟ آخر ریلوے کے وزیر کو کیا ضرورت تھی کہ پبلک میں بیان بازی کریں۔ وہ اپنے جذبات اور تحفظات کا اظہار پارٹی میٹنگ میں بھی کر سکتے تھے اور کابینہ اجلاس میں بھی! اب ایک وزیر صاحب نے کہا ہے کہ ریاست دلیل سے بات کرنے والوں کے ساتھ ہے‘ ان کے ساتھ نہیں جو غلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں  ع 
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیے کہ ہاں کیوں ہو؟ 
وہ بھول رہے ہیں کہ غلیل کے ساتھ بات کرنے والوں کے ساتھ کون کھڑا ہے؟ خیبرپختون خوا میں سرکاری اہلکاروں اور تنصیبات پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ پانچ پانچ اہلکاروں کی نماز جنازہ اکٹھی ادا کی جا رہی ہے اور یہاں اعلان ہو رہے ہیں کہ ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں‘ دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ گویا دہشت گرد لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے دلیل استعمال کر رہے ہیں؟ 
بے باک صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ باعثِ تشویش ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ حامد میر جیسا صحافی قوم کے لیے اثاثہ ہوتا ہے۔ جس پر حملہ کیا جائے اور وہ بھی قاتلانہ‘ اس کے اہل و عیال کے بیانات کی اور بات ہے لیکن یہ حضرات کون ہیں جو سٹیپ ڈائون  کی تجویزیں دے رہے تھے؟ یہ وہی انتہا پسند ہیں جو کل مذاکرات کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں آتشیں بیانات دے رہے تھے کہ مذاکرات کی مخالفت وہ لوگ کر رہے ہیں جو شراب پیتے ہیں‘ قادیانیوں کے حامی ہیں اور ڈالر وصول کرتے ہیں۔ کیا کوئی صحیح الدماغ شخص ایسے الزامات لگا سکتا ہے؟ ان عناصر کو کل لگام دی جاتی تو آج وہ قومی اداروں پر نہ جھپٹتے! 
یہ لکھنے والا اس سے پہلے بھی یہ نکتہ بیان کر چکا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج وہ واحد رکاوٹ ہیں جس نے بھارت کی توسیع پسندی کو روک رکھا ہے۔ ورنہ آج پورا شرقِ اوسط بھارتی چراگاہ ہوتا؛ تاہم اپنے خاندانوں کو پوری قوم اور اپنے شہروں کو پورا ملک سمجھنے والوں کو ان حساس حقیقتوں کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر‘ لیکن وژن کی گنجائش نہ ہو تو وژن نہیں آ سکتا۔ وژن ہو تو برادریوں کے زور پر قبائلی انداز میں جمہوری ملک نہیں چلائے جاتے!

Tuesday, April 22, 2014

کھڑکی جو آخر کار کھل رہی ہے


’’ حکمرانوں کی کرپشن ملک کے لیے بھارت سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔ ملک میں غربت اور بے روزگاری کیوں ہے ؟55لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ بچہ بچہ ورلڈ بینک کا مقروض کیوں ہے؟ انسان نے چاند پر قدم رکھ دیا ہے مگر پھول جیسے لاکھوں بچے غربت کی وجہ سے سائیکلوں کی دکانوں پر پنکچر لگارہے ہیں۔ ہمارے پاس پانچ دریا ہیں پھر بھی ملک میں اندھیرا اور لوڈشیڈنگ ہے۔ ملک میں سونا موجود ہے تو غربت کیوں ہے ؟ بجلی کا بل ادا نہ کرنے پر میٹر اتارکر لے جاتے ہیں مگر کارخانہ دار اور مل مالکان کروڑوں روپے کے بل ادا نہ کریں تو واپڈا کچھ نہیں کہتا۔ ہم امیر غریب کے لیے ایک نظام چاہتے ہیں۔ اس وقت پانچ فیصد اشرافیہ 95فیصد وسائل پر قبضہ کیے ہوئے ہے جو عوام کو مزارع اور غلام سمجھتی ہے اور ان سے کیڑے مکوڑوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ اشرافیہ نے انگریز کی حکومت کی خدمت کے عوض بڑی بڑی جاگیریں لیں اور محنت کے بغیر بڑی سیٹوں پر قبضہ کیا اور پھر اثرورسوخ سے بنکوں سے اربوں کے قرضے لے کر بیرون ملک منتقل کردیے۔ ہم حیران ہیں کہ ڈالر اوپر جائے تو ان کے وارے نیارے اور کمی آئے تو بھی ان کے وارے نیارے ۔ پھر کہتے ہیں کہ مزید کم نہ کریں سرخ بتی کا احترام صرف عوام کے لیے ہے ، حکمرانوں کے لیے نہیں!‘‘
آپ کا کیال خیال ہے کہ یہ باتیں کس نے کہی ہوں گی؟
کسی سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر نے؟ کسی مزدور رہنما نے ؟ لیبر یونین کے کسی عہدیدار نے؟نہیں ! ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ گفتگو جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر سراج الحق صاحب نے کی ہے۔ یوں لگتا ہے جماعت کے بند دروازوں پر حالات جو دستک دے رہے تھے ، سراج الحق صاحب نے اگر پورا دروازہ نہیں بھی کھولا تو کم از کم کھڑکی ضرور کھولی ہے۔آدھی کھڑکی سہی ، لیکن سرباہر نکال کر دستک دینے والوں سے بات تو کی ہے!جماعت کس المیہ سے دو چار رہی، اس کا کیا ذکر کیا جائے اور کتنا کیاجائے! جتنا کم ہو، اتنا ہی بہتر ہے۔ جن لوگوں کو ماہر نفسیات کے کلینک کی انتظار گاہ میں بیٹھنا چاہیے، کبھی کبھی تاریخ کی ستم ظریفی انہیں مسندوں پر بٹھا دیتی ہے۔  ع 
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
موصوف امریکہ تشریف لے گئے تو وہاں کیا ہوا اور پزیرائی کرنے والے کس درجہ بددل ہوئے ، یہ داستان پھر کبھی سہی۔
مذہب کو سیاست میں لانے کی مخالفت جب کی جاتی ہے تواس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ سیاست کو مذہبی چولا پہنا کر مذموم مقاصد کی تکمیل کی جاتی ہے۔ مراعات یافتہ طبقات کوتحفظ دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال ہماری حالیہ تاریخ میں موجود ہے۔ زرعی اصلاحات کی بات چلی تو نواب زادہ نصراللہ خان اور ان کے ساتھی جاگیرداروں نے ’’ تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ‘‘ قسم کی تنظیم بنالی! ماضی بعیدکی تاریخ میں مذہب کو سیاست میں گھسیٹ کر بالائی طبقات کی خدمت تو عام سی بات تھی! جو بادشاہ جتنا ظالم ہوتا تھا، عباسی خلیفہ کی اشیرباد لینا اتنا ہی ضروری سمجھتا تھا۔ دین الٰہی کی پشت پر وہ علما ہی تو تھے جو سیاست کررہے تھے ۔ بادشاہ کو سجدہ کرنے کا جواز پیش کرنے والے بھی وہی علما تھے جو مذہب کے نام پر سیاست کررہے تھے۔ دین کی خدمت تو وہ کررہے تھے جو سیاست سے دور، روکھی سوکھی کھا کر ، چٹائیوں پر بیٹھ کر قال اللہ اور قال الرسول کہہ رہے تھے ۔ اقبال نے انہی کے بارے میں کہا ہے    ؎
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
علمائے حق جب بھی سیاست میں آئے ، غریب کی آواز بن کر آئے۔ مناظر احسن گیلانی نے کمال کی کتاب لکھی ہے۔ ’’ امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘۔ انسان ورطۂ حیرت میں گم ہوتا ہے۔ ریشم کی تجارت کرنے والے امیر کبیر ابو حنیفہ ؒ، چھپ کر سادات کی تحریک کی مالی خدمت کرتے تھے ؛تاکہ امویوں اور پھر عباسیوں کی بادشاہت سے نجات ملے۔ یہی تو اصل غصہ تھا جو بنو عباس کے ظالم بادشاہوں نے (تعجب ہے انہیں خلیفہ کہا جاتا ہے!) امام ابو حنیفہؒ پر اتارا، انہیں زہر دیاگیا، کوڑے مارے گئے یہاں تک کے انہوں نے جان زنداں ہی میں اللہ کے سپرد کردی۔ بظاہر یہ کہا گیا کہ چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہیں کررہے !
کوئی نہ مانے تو اور بات ہے مگر سورج سے زیادہ چمکدار حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عوام ان علما سے نفرت اور شدید نفرت کرتے ہیں جو مذہب کو سیاست میں مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ بھلا ان مذہبی رہنمائوں کی عزت کون کرسکتا ہے جو مخصوص وزارتوں کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے ہیں، پروٹوکول کے بھوکے ہیں اورسرکاری ہیلی کاپٹروں پر سفر کرنا جن کے لیے عزت کی معراج ہے۔
سراج الحق صاحب نے جو باتیں کی ہیں وہ اس ناکامی کا ازالہ کرسکتی ہیں جو جماعت کو انتخابات میں درپیش آرہی ہے۔ جماعت یہ بھول گئی تھی کہ    ؎
شب جو عقدِ نماز می بندم
چہ خورد بامداد فرزندم
رات کو تہجد پڑھتے وقت یہ فکر لاحق ہونا کہ صبح بچے کیا کھائیں گے، فطری ہے۔ اسلام عوام کی بتوں ، قبروں ، راہبوں جوگیوں ، پنڈتوں ، جوتشیوں اور پیروں کی غلامی ہی سے نہیں ، اقتصادی فرعونوں سے بھی نجات دلانے کے لیے آیا ہے! آخر جاگیرداری اور سرداری کی اسلام میں کیا گنجائش ہوسکتی ہے اور اسلامی ریاست سرمایہ داروں کو شتربے مہار ہونے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے! بہت کم لوگوں کو معلوم ہے اور اکثر کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ 1967ء میں جماعت کی مجلس شوریٰ نے ایک اقتصادی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی تیار کردہ رپورٹ جماعت کے شعبہ نشرو اشاعت نے 1969ء میں شائع کی تھی۔ جماعت اگر اس الماری کو کسی طرح کھولے جسے مقفل کرکے چابی وزیرستان کے پہاڑوں میں پھینک دی گئی ہے تو یہ رپورٹ کسی گرد آلود شیلف میں ضرور مل جائے گی۔ اس رپورٹ میں ارتکاز دولت کو روکنے کے یے اصول تحدید (Limitization)تک پیش کردیا گیا تھا جس کی رو سے ’’ اسلام میں ہر ملکیت محدود ہے‘‘۔
اس رپورٹ میں مکانوں کا سائز مقرر کرنے کی بات کی گئی۔ املاک کی مناسب تحدید (یعنی حد مقرر کرنا) تجویز کی گئی۔ منافع کی حد بھی مقرر کرنے کی بات کی گئی تاکہ منافع خوری بے لگام نہ ہو۔ اس رپورٹ میں لکھا گیا ’’ افراد کو بڑی بڑی زمینیں خرید کر ایک طرح اجارہ دارانہ مقام حاصل نہ کرنے دیا جائے بلکہ مفاد عامہ کے لیے زرعی املاک حاصل کرنے کی تحدید (Limit) کردی جائے۔‘‘
قانون تحدید کے ساتھ ساتھ اس رپورٹ میں ’’ قانون حجر‘‘ کی وکالت بھی کی گئی۔ فقہ میں اس قانون کا مطلب ہے کہ مالک اگر اپنے مال میں ایسے تصرفات کرے جوتبذیر اور اسراف کے تحت آتے ہوں یا مال کو ضائع کرنے کے مترادف ہوں تو ریاست اس کے مالکانہ تصرفات پر پابندی عاید کرسکتی ہے۔ یہی وہ قوانین ہیں جن کی رو سے حضرت عمر فاروق ؓ نے کوفہ بساتے وقت پابندی لگادی کہ کوئی شخص تین سے زیادہ مکانات تعمیر نہ کرے۔ شاہ ولی اللہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’ اگر تاجروں کی طرف سے علانیہ ظلم معلوم ہو جو ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا ہوتو اس کو بدلنا جائز ہے۔ کیوں کہ اس میں ملک کی بربادی ہے۔‘‘
سراج الحق صاحب اگر اپنی قیادت میں جماعت کو (جسے بدقسمتی سے ایک مخصوص مسلک کا اٹیچی کیس بنا دیاگیا ہے) عوام کی خوشحالی اور سرمایہ دارانہ نظام کی بیخ کنی کا نیا منشور دیں تو اس میں سب کا بھلا ہوگا۔ ان کا یہ اعلان کہ ’’ ہم نے افغانستان ،عراق ، کشمیر ،ایران، سوڈان کا ساتھ دینا ہے لیکن اس سے پہلے اپنے ملک کے عوام کو ظلم سے نجات دلانی ہے۔‘‘ایک خوش آئند ، منطقی طور پر درست اورعادلانہ فیصلہ ہے۔ ماں اپنی گلی میں بھیک مانگ رہی ہو اور بیٹا بازاروں میں گھوڑوں کی خریداری کرتا پھر رہا ہو تو لوگ تو ہنسیں گے ہی ، ماں کی بددعا بھی لگے گی!

Monday, April 21, 2014

اصل چہرہ

                                                                                  بس چل رہی تھی۔ شکاری اپنی بہادری کے واقعات سنا رہا تھا۔ سننے والے دم بخود تھے۔ ’’میں رات بھر مچان پر بیٹھا رہا۔ جنگل سائیں سائیں کر رہا تھا۔ خوف نام کی کسی شے کو میں جانتا ہی نہیں‘ جیسے ہی شیر سامنے آیا‘ میں نے گولی چلا دی۔ ایک بار میں چیتے سے بھِڑ گیا۔ ایک دفعہ آدم خور بھیڑیے کے نزدیک پہنچ کر‘ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور تلوار سونت لی‘‘۔ بس کے مسافروں کو اس کی بہادری میں کوئی شک نہ رہا۔ اتنے میں شکاری کے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نے خربوزہ کاٹنے کے لیے چاقو نکال کر کھولا۔ شکاری کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ اس نے چاقو والے بھائی سے کہا‘ یار‘ ذرا اِسے دور ہی رکھنا‘ مجھے ڈر لگ رہا ہے‘‘۔ 
یہ کہانی شفیق الرحمن نے لکھی ہے جسے اس وقت لکھنے والے نے اپنے الفاظ میں دہرایا ہے۔ 
بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کو چھوڑ دیجیے‘ کشمیر کو بھی تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیجیے‘ دہشت گردی کو بھی بھول جایئے‘ طالبان کیا کرتے ہیں‘ کیا نہیں کرتے‘ فوج اور سیاسی رہنما کس نتیجے پر پہنچتے ہیں‘ ایک صفحے پر ہیں یا ورق پر‘ درآمدات زیادہ ہیں یا برآمدات‘ ڈالر کدھر کا رُخ کر رہا ہے‘ یونیورسٹیاں کتنی ہیں‘ پی ایچ ڈی ہر سال کتنے پیدا ہو رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی حالتِ زار کیا ہے‘ میٹرو کیسے بن رہی ہے؟ زیر زمین ریلوے کب بنے گی؟ حکومت کیا کر رہی ہے‘ ریاست کس حال میں ہے‘ سب باتیں‘ سارے خیال‘ ذہن سے جھٹک دیجیے۔ یہ سب دور کی باتیں ہیں۔ 
بے شرمی‘ بے غیرتی‘ غلاظت‘ بے حسی اور ذہنی کینسر کا جو مظاہرہ دو دن پیشتر اس بدقسمت لکھنے والے نے دیکھا‘ اسے سامنے رکھا جائے تو اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ یہ قوم عزتِ نفس مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ اسلام کے نام پر پاکستانی قوم ایک ایسا بدنما داغ ہے جس کی مثال پورے عالمِ اسلام میں مشکل سے ملے گی۔ اس لکھنے والے نے بیسیوں مسلمان ملک دیکھے ہیں۔ ترکی اور ملائیشیا کی کیا بات ہے۔ لیکن بخدا یہ منظر صومالیہ کے دارالحکومت موگادیشو میں بھی جو غربت اور پس ماندگی کے لحاظ سے ضرب المثل بن چکا ہے‘ نہیں دیکھا۔ پہلے دلوں پر مُہر لگتی ہے پھر قسمت پر مُہر ثبت ہوتی ہے۔ پاکستانیوں کے دلوں پر مُہر لگ چکی ہے۔ ان کے بخت کا ستارہ غروب ہو چکا ہے۔ ان کے مقدر کی پیشانی سکڑ گئی ہے۔ ان کی صورتیں بدل چکی ہیں۔ آسمان کا جو ٹکڑا ان کے سر پر تھا‘ سیاہ ہو چکا ہے۔ جس گڑھے میں یہ گر چکے ہیں وہاں سے دنیا کی کوئی طاقت انہیں نہیں نکال سکتی اس لیے کہ کائنات کی کوئی قوت اللہ کی سنت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ 
گاڑی نیشنل بینک آف پاکستان کی بڑی بلڈنگ کے سامنے کھڑی کی اور میلوڈی مارکیٹ کے اندر ایک کام سے گیا۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک کے دارالحکومت سے جو لوگ واقف نہیں‘ ان کی اطلاع کے لیے یہ بتانا مناسب ہوگا کہ یہ جگہ اسلام آباد کا دل ہے۔ ایوان صدر‘ سپریم کورٹ‘ پارلیمنٹ‘ یہاں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہیں۔ ایک طرف ہوٹل ہالی ڈے اِن ہے۔ دوسری طرف مشہور و معروف فوڈ پارک ہے‘ تیسری طرف مسجد ہے۔ فوڈ پارک کے درمیان کھڑے ہو کر مغرب کا رُخ کریں تو بائیں ہاتھ پر نیشنل بینک کی قوی ہیکل عمارت ہے۔ آپ مغرب کی طرف چلنا شروع کریں‘ جہاں نیشنل بینک کی عمارت ختم ہوتی ہے‘ بائیں طرف مڑ جائیں‘ اب آپ ایک وسیع و عریض احاطے میں ہیں‘ عرفِ عام میں اسے ہی میلوڈی مارکیٹ کہتے ہیں۔ اس احاطے کے تقریباً تین طرف ریستوران اور دکانیں ہیں۔ 
اس احاطے کو اگر دنیا کی غلیظ ترین جگہ قرار دیا جائے تو کوئی بڑے سے بڑا کھڑپینچ بھی اس اعلان کی تردید کرنے کا حوصلہ نہیں رکھے گا ہاں‘ بے شرمی کی اور بات ہے۔ ریستورانوں کے آگے کرسیاں اور میز دھرے ہیں۔ ہر کرسی اور ہر میز پر مٹی کی تہیں جمی ہیں۔ ہر دکان کے سامنے کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہے اور پانی کھڑا ہے۔ درختوں کے نیچے اور دیواروں کے ساتھ ساتھ‘ گلے سڑے پتوں کے انبار پڑے ہیں۔ ہر طرف ہڈیاں ہیں اور بچے کھچے کھانوں کے آثار‘ یہ دیکھیے‘ یہاں پلازے کی چھت سے پانی گر رہا ہے‘ یہ پانی بارش کا نہیں‘ گٹر سے یا غسل خانوں سے آ رہا ہے‘ جہاں غلیظ پانی گر رہا ہے‘ اس سے چند فٹ کے فاصلے پر مٹھائی‘ سموسے اور جلیبیاں بِک رہی ہیں۔ دکاندار اپنی اپنی دکانوں میں جہاں سارا دن بیٹھتے ہیں‘ یہ پانی اس کے مرکز میں ہے اور سب کے سامنے ہے‘ اس احاطے میں آپ کو ہر وہ شے افراط سے نظر آ رہی ہے جسے گند کہا جاتا ہے‘ اڑتے ہوئے شاپنگ بیگ‘ ردی کاغذ‘ پھلوں کے چھلکے‘ سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے‘ بدبودار پتے اور ہر قسم کا کوڑا! گائوں سے باہر کھیت میں ایک ڈھیر ہوتا ہے۔ گائوں کے لوگ گھر کا کوڑا کرکٹ‘ باہر جا کر‘ اس ڈھیر پر پھینکتے ہیں۔ یہ ڈھیر پہاڑی کی طرح اونچا ہوتا جاتا ہے‘ غلاظت کھانے والے کیڑے یہیں پیدا ہوتے‘ یہیں زندگی گزارتے اور یہیں مرتے ہیں‘ یہ ڈھیر‘ آخر کار فصل کے لیے کھاد بن جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس مارکیٹ سے‘ جو واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے دارالحکومت کے قلب میں واقع ہے‘ درجنوں ایسے ڈھیر نکل سکتے ہیں تو رمق بھر مبالغہ نہ ہوگا۔ 
مان لیا کہ حکومت نااہل ہے‘ ترقیاتی ادارے کا میونسپلٹی کا محکمہ ہڈحرام اور رشوت خور ہے‘ پبلک سیکٹر قبرستان بن چکا ہے‘ سرکاری ادارے وہ لاشے ہیں جو تدفین کے بغیر پڑے ہیں۔ مان لیا کہ ریاست کا وجود بے معنی ہو کر رہ گیا ہے‘ لیکن گوشت پوست کے بنے ہوئے وہ زندہ انسان جو اس مارکیٹ میں ہفتے کے چھ دن‘ دن کے چودہ گھنٹے گزارتے ہیں؟ اس احاطے میں دن بھر چلتے پھرتے ہیں؟ یہاں کھاتے پیتے ہیں؟ کیا یہ اس قدر بے حس ہیں کہ چند روپے فی کس جمع کر کے صفائی نہیں کرا سکتے؟ یہ سب مسلمان ہیں۔ نمازی ہیں۔ کچھ کی وضع قطع بھی متشرع ہے۔ ساتھ مسجد ہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہ لوگ نمازیں آدھے ایمان کے ساتھ ادا کر رہے ہیں؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جس رسولؐ کے یہ نام لیوا ہیں‘ وہ اس قدر حساس تھے کہ پیاز کی بُو بھی برداشت نہیں فرماتے تھے؟ 
یہ لوگ قلاش بھی نہیں‘ یہ دن رات تجوریاں بھر رہے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں‘ خیراتیں کرتے ہیں‘ دیگیں چڑھاتے ہیں لیکن یہ رہتے غلاظت میں ہیں‘ غلاظت میں کھاتے پیتے ہیں اور غلاظت میں وضو کرتے ہیں۔ 
یہ لوگ پوری قوم میں انوکھے اور اجنبی نہیں۔ یہ جس قوم کا حصہ ہیں‘ وہ ساری ہی ایسی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسلام آباد میں غلاظت ہے اور باقی ملک ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کا مکمل نمونہ ہے! اگر دارالحکومت کا یہ حال ہے تو دوسرے شہروں‘ قصبوں‘ قریوں‘ بستیوں کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ محاورہ ہے کہ کُتا بھی بیٹھنے سے پہلے دُم سے جگہ صاف کر لیتا ہے۔ ہائے افسوس! ہم اس سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔ 
یہ ہے اس قوم کا اصل چہرہ جو تکبر اور نخوت سے دنیا بھر کو کافر قرار دیتی ہے۔ جو ہر مذہبی مسئلے پر ایک دوسرے کا گلا گھونٹنے کے لیے تیار ہے۔ جو اپنے ملک کو اسلام کا قلعہ اور اپنے آپ کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھتی ہے۔ 
عمان میں گزرا ہوا ایک ہفتہ نہیں بھولتا۔ پورے شہر میں کاغذ کا ٹکڑا اور گھاس کا تنکا کسی گلی میں نظر نہیں آیا۔ طنجہ رباط اور فاس شیشے کی طرح صاف ہیں۔ دوحہ ہر وقت دُھلا دُھلایا لگتا ہے۔ کوالالمپور کی گئی گزری پچھواڑے کی گلیاں بھی اچھی بھلی ہیں۔ 
ہم پاکستانی اس شکاری کی طرح ہیں جو ہر وقت اپنی بہادری کے قصے سناتا ہے لیکن پھل کاٹنے والا چاقو دیکھ کر کانپنے لگتا ہے۔ ہم پوری دنیا پر فتوئوں کے آرے چلاتے ہیں لیکن اپنے ایمان کا ہوش نہیں۔ ہم اس عجیب و غریب شخص کی طرح ہیں جو سڑک کے کنارے زمین پر دراز تھا۔ اس کی چھاتی پر بیر پڑا تھا۔ سڑک سے گھڑ سوار گزرا تو اس نے اسے کہا ذرا گھوڑے سے اتر کر یہ بیر تو میرے منہ میں ڈالتے جائو‘ گھڑ سوار نے اُسے تعجب سے دیکھا اور آگے گزر گیا۔ لیٹے ہوئے شخص نے نفرت سے کہا: 
’’کس قدر سست الوجود ہیں یہ بدبخت‘‘۔

Saturday, April 19, 2014

تقسیم کی لکیر

لال مسجد کے جامعہ حفصہ کی لائبریری کو اسامہ بن لادن سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ 
کوئی پسند کرے یا نہ کرے‘ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اس فیصلے کو سراہے گا۔ مولانا عبدالعزیز‘ سید منور حسن اور کئی اور بزرگ‘ کسی جزیرے میں نہیں رہ رہے، وہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں، ہمارے درمیان ہی چلتے پھرتے ہیں۔ ان کے ہزاروں لاکھوں متفقین ہیں، پیروکار ہیں جو ان کے نظریات کو اہمیت دیتے ہیں۔ 
ہم میں سے جو لوگ ان حضرات کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے‘ وہ اپنی دنیا میں رہتے ہیں۔ تسلیم نہ کرنے کے رویے سے تکبر کا اظہار ہوتا ہے یا یکسر لاعلمی کا۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ معاشرہ دو عمودی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ عمودی اس لیے کہ اگر آپ کاغذ پر ایک مربع یا مستطیل شکل بنائیں تو معاشرے کو سمجھنے کے لیے اس کے درمیان لکیر یوں کھینچیں جو اوپر سے نیچے آ رہی ہو، دائیں سے بائیں نہ جا رہی ہو۔ مستطیل یا مربع دو برابر کے متوازی حصوں میں بٹ جائے گا۔ یہ دونوں حصے برابر ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ جو حصہ اسامہ بن لادن کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے وہ سماجی لحاظ سے کم تر ہے یا طاقت کے لحاظ سے دوسرے حصے کا ہم سر نہیں۔ آبادی کے اس حصے میں مدارس سے وابستہ لاکھوں لوگوں کے علاوہ ہر طبقے کے لوگ موجود ہیں۔۔۔ تاجر‘ وکیل‘ ڈاکٹر‘ یونیورسٹیوں کے طلبہ‘ اساتذہ‘ سرکاری ملازم‘ حساس اداروں میں کام کرنے والے‘ صحافی ـ سب اس نقطہ نظر سے اتفاق کرنے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ سب اس ملک کے شہری ہیں۔ اس ملک سے اپنے انداز میں محبت کرتے ہیں۔ محب وطن ہیں‘ پھر یہ کہ اپنے نظریات پر سختی سے قائم ہیں اور قائم رہنا جانتے بھی ہیں۔ یہ ہے وہ حقیقت جس سے آنکھیں چرانا حماقت ہے۔ 
معاملہ اتنا آسان نہیں کہ تقسیم صرف اسامہ بن لادن کو ہیرو ماننے یا نہ ماننے کی ہے۔ یہ تقسیم‘ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا‘ اوپر سے نیچے تک ہے اور مکمل ہے۔ آبادی کے یہ دو طبقے ہر اعتبار سے الگ الگ ہیں۔ ان کے لباس اور ظاہری صورتیں مختلف ہیں‘ ان کے اخبارات‘ دورانِ تعلیم مضامین‘ پسندیدہ لٹریچر‘ سب کچھ الگ الگ ہے۔ ان کی ثقافتی دلچسپیاں یکسر مختلف اور متضاد ہیں، یہاں تک کہ عمومی طور پر یہ دونوں طبقے ایک دوسرے میں شادیاں کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اختلاف اتنا شدید ہے کہ نشست گاہوں کے انداز تک مختلف ہیں۔ آپ کسی مدرسہ کے مہتمم یا ناظم کے پاس جائیں، وہاں قالینی فرش ہو گا، گائو تکیے ہوں گے اور چوکیاں دھری ہوں گی۔ جوتے باہر اتار کر اندر جانا ہو گا۔ کالج کے پرنسپل سے ملنے جائیں‘ وہاں کرسیاں اور صوفے ہوں گے‘ قالین پر جوتوں سمیت چلنا ہو گا۔ 
اس تقسیم کا سبب صرف مدارس کو قرار دینا آدھا سچ ہے۔ آدھا سچ کہیں اور ہے جس سے ہم یا تو آگاہ ہی نہیں یا تجاہلِ عارفانہ برتتے ہیں۔ مدارس کا رُخ دو قسم کے طلبہ کرتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو اپنی مرضی سے وہاں تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ مرضی نظریاتی بنیادوں پر ہے۔ اس گروہ میں خوشحال گھرانوں کے فرزند بھی شامل ہیں۔ اکثریت دوسرے گروہ سے ہے۔ یہ معاشرے کا سماجی اور مالی اعتبار سے اسفل ترین طبقہ ہے۔۔۔ جس کے دس بچے ہیں‘ زمین تھوڑی ہے‘ روزگار غیر مستحکم ہے‘ وہ بچوں کو مدرسہ کے حوالے کر دیتا ہے۔ وہاں رہائش مفت ہے‘ کتابیں بھی مہیا کی جاتی ہیں‘ تین وقت کا کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ 
یہ اسفل ترین طبقہ ہمارے پالیسی سازوں کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ صرف قبائلی علاقوں کی مثال لیجیے۔ اندھے کو بھی معلوم تھا کہ برطانوی سامراج کو قبائلی علاقوں کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ان علاقوں کو صرف افغانستان اور ہندوستان کے درمیان ایک کُشن (تکیے) کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ اس کی بلا سے وہاں کے بچے غلیل سے کھیلیں یا کتابیں پڑھیں۔ نااہلی اور کم نظری کی انتہا یہ ہے کہ یہ پالیسی پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہی۔ وہاں کالج بنے نہ یونیورسٹیاں‘ کارخانے لگے نہ بازار کھلے۔ ہماری حکومتوں میں دوراندیشی ہوتی تو آج وزیرستان‘ سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں درجنوں یونیورسٹیاں اور پیشہ ورانہ کالج اور انسٹی ٹیوٹ ہوتے، صنعتیں ہوتیں‘ زراعت جدید خطوط پر متعارف کرائی جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو وہاں کے نوجوان اُس آگ میں ایندھن کے طور پر استعمال نہ ہوتے جس کے شعلے آج آسمان تک پہنچ رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے منتخب نمائندوں کو چاہیے کہ حکومت سے پوچھیں تو سہی‘ گزشتہ 67 برسوں میں کن کن خانوں‘ کن کن مَلکوں کو کس کس پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے کتنی کتنی ادائیگیاں کی گئیں۔ یہ اعداد و شمار جاننا قوم کا عمومی اور ان نمائندوں کا خصوصی حق ہے۔ یہ رقوم اربوں کھربوں تک ہوں گی۔ ان کا عشرِ عشیر بھی عام قبائلی تک نہیں پہنچا۔ 
اور یہ جو بلوچستان سے مذہبی پارٹیاں انتخابات جیتتی ہیں‘ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا اس پر کبھی غور ہوا ہے؟ اس کی وجہ مدارس کی کثرت اور تعلیم کی کمی ہے۔ سرداری نظام اس صوبے میں ایسا ہے جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ سرداروں کو کیا پڑی ہے کہ تعلیم پھیلنے دیں اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے پھریں۔ ایک بلوچی دانش ور نے بتایا کہ قبیلے کا ایک لڑکا کراچی گیا اور پڑھ لکھ گیا۔ واپس آیا تو باپ سے کہا کہ قبیلے کے سردارکو ازراہِ نیازمندی ملتے ہیں۔ وہ خوش ہو گا کہ اس کے قبیلے کا ایک نوجوان پڑھ لکھ گیا ہے۔ سردار نے دیکھا کہ لڑکے نے ڈھنگ کا لباس پہنا ہوا ہے اور بات چیت میں خوداعتمادی ہے۔ جاگیردارانہ ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نوجوان کو اٹھا لیا گیا۔ اس کے پورے جسم پر شہد ملا گیا اور ایسی غار میں بند کر دیا گیا جو چیونٹیوں کا ٹھکانہ تھی۔ اس واقعہ میں رمق بھر مبالغہ نہیں۔ لیکن مدرسے سینکڑوں کھلتے رہیں‘ سرداروں کو کوئی اعتراض نہیں۔ 
یہی صورت حال جنوبی پنجاب میں ہے۔ فیوڈلزم نے لوگوں کو جکڑ رکھا ہے۔ مدرسہ وہ واحد دروازہ ہے جو لوگوں کو ایک لمبی اونچی دیوار میں نظر آتا ہے۔ ان مدرسوں سے سال بہ سال ہزاروں نوجوان ایک خاص مائنڈ سیٹ لے کر نکلتے ہیں اور اس طبقے کو مزید طاقت ور بناتے جاتے ہیں جو اسامہ بن لادن کو ہیرو سمجھتا ہے۔ 
کیا صورت حال بدلے گی؟ نہیں! بدلنے کا کوئی امکان نہیں۔ پالیسی سازحلقوںکو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ معاشرہ دو متضاد‘ متحارب حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ادراک ہی نہیں تو علاج کون کرے گا؟ کم ہی ایسے ارکان پارلیمنٹ میں ہیں جن کا ذہن گہرے تجزیے کی تاب رکھتا ہے۔ رہے کابینہ کے ارکان اور انہیں راستہ دکھانے والے بیوروکریٹ تو یہ وہ بالائی طبقہ ہے جس کی بقا ہی اس میں ہے کہ معاشرہ تقسیم ہو کر لڑتا جھگڑتا رہے۔ 
معاشرے کے اجزائے ترکیبی بدلنے کے لیے دانش‘ ادراک‘ گہرائی اور وژن درکار ہے۔ جو قوم ایک ہوائی اڈہ بنانے پر ایک عشرہ لگا دیتی ہے وہ اپنے معاشرے کو بدل لے‘ یہ ناممکنات میں سے ہے۔

Thursday, April 17, 2014

سطح

ایک عذاب تھا جس سے یہ لوگ گزر رہے تھے۔ 
کچہری چوک سے ہارلے سٹریٹ جاتے ہوئے یہ مشہور اور تزک و احتشام والا تعلیمی ادارہ راستے میں پڑا۔ ایک زمانے میں وزیراعظم کی بیٹی یہاں پڑھتی تھی۔ بعد میں وہ خود بھی وزیراعظم بنی۔ 
ایک عذاب تھا جس سے لوگ گزر رہے تھے۔ گیٹ بند تھا۔ گیٹ کے سامنے لوگ ایک دوسرے کے یوں لگتا تھا اوپر چڑھے ہوئے تھے۔ سڑک پر ٹریفک معطل تھی۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکل گیٹ کے اردگرد‘ نزدیک اور دور ہر طرف ہر جگہ کسی ترکیب کسی قاعدے کے بغیر پارک کیے گئے تھے۔ گیٹ کے سامنے ہجوم اس قدر تھا کہ ڈرائیور اور رشتہ دار ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے کہ ان کا بچہ باہر نکلا ہے یا نہیں۔ سڑک اور گیٹ کے درمیان جو تنگ سی جگہ تھی‘ اس پر حشر برپا تھا۔ یہ حشر سڑک کے اوپر تک آ گیا تھا‘ جبھی تو ٹریفک رُک گئی تھی۔ اس عذاب میں دو فریق شامل تھے۔ ایک وہ جو گیٹ کے باہر تھا۔ اسے قاعدے قانون‘ قطار بندی‘ پارکنگ کے طور طریقے کی کچھ پروا نہ تھی۔ دوسرا فریق گیٹ کے اندر تھا۔ اُسے باہر سے کچھ غرض نہ تھی۔ پولیس یا انتظامیہ بھی ایک فریق تھی‘ لیکن غائب تھی۔ اس عذاب سے نمٹنے کے بلکہ چھٹکارا پانے کے کئی طریقے تھے اور سب آسان تھے‘ لیکن وہ طریقے سمجھانے کالم کی حدود سے فی الحال باہر ہیں۔ 
روحانی رہنما نے گھر میں خزانے کی اطلاع دی۔ نوجوان دو سال سے گھر میں سرنگیں کھود رہا تھا۔ اہل و عیال معاون تھے۔ ایک دن سرنگیں بیٹھ گئیں‘ طویل جدوجہد کے بعد پولیس اور اہلِ محلہ نے خزانے کے متلاشی کی لاش باہر نکالی۔ 
ایک اور منظرنامے میں پیر صاحب کے کہنے پر ایک نوجوان نے تین بھانجوں کو یوں ذبح کیا جیسے بکرے ذبح کیے جاتے ہیں۔ ایک بچہ بچ نکلا۔ نوجوان غائب ہو گیا ہے۔ سب کچھ تقدیر کے ذمے ڈال دیا گیا ہے۔ 
یہ ہے عوام کی ذہنی سطح جو اس ملک کے حکمرانوں کو راس آ رہی ہے۔ حکمران طبقے کی بقا اس میں ہے کہ یہ ذہنی سطح تبدیل نہ ہو۔ لوگ آپس میں لڑتے مرتے رہیں۔ شادیوں پر فائرنگ کر کے خوشی مناتے رہیں۔ کچہریوں میں پیشی کے موقع پر ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں۔ بسوں کی چھتوں پر سفر کر کے سالانہ عرسوں اور مذہبی اجتماعات میں مصروف رہیں ایسے اجتماعات جن میں حقوق کا تذکرہ ہو نہ زندگی گزارنے کے بنیادی لوازمات کا۔ 
عوام کی اس ذہنی سطح ہی کا کرشمہ ہے کہ کروڑوں روپے قومی خزانے کے اور اربوں روپے عوام کے کھانے والے آج بھی ڈیزائنر سوٹ پہن کر سرکاری خرچ پر ہونے والی دعوتوں میں ٹھاٹھ سے اور ٹھسے سے شریک ہیں اور قانون کسی کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ سپیکر صاحب سابق سپیکروں کا ’’گٹ ٹو گیدر‘‘ Get together منعقد کرتے ہیں اور حاجیوں کی جیبوں سے مال نکالنے والے اور ایم بی بی ایس (میاں بیوی بچے سب) کی شہرت رکھنے والے سابق حکمران یوں شریک ہوتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ 
عوام کی اس ذہنی سطح ہی کا شاخسانہ ہے کہ سسٹم ناپید ہے۔ نظام وجود ہی نہیں رکھتا۔ حوا کی بیٹی جہاں بھی درندگی کا شکار ہوتی ہے‘ حکمران وہاں پہنچ کر اعلان کرتے ہیں کہ ’’ظالموں اور بدمعاشوں کو ان کے انجام تک پہنچائیں گے‘‘، ’’ہمارے دور میں ایسا نہیں ہوگا‘‘، ’’اندھیرے ختم کردیں گے‘‘ اور ’’آئی جی صاحب! غریب کی عزت سے کھیلنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیں‘‘ 
کچھ عرصہ بعد ایک اور بیٹی جانوروں کے ہتھے چڑھتی ہے اور یہ سارے بیانات‘ یہ ساری بڑھکیں دہرائی جاتی ہیں! 
تقریباً چالیس سال پہلے ایک سیاسی لیڈر نے دوسرے سے کہا تھا… ’’میرے ساتھ شامل ہو جائو‘ ہم ان لوگوں پر بیس سال حکومت کریں گے‘‘۔ چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ وہ لیڈر نہ سہی‘ اس کی اولاد‘ اس کے طبقہ کے مراعات یافتہ ارکان‘ کیا لاڑکانہ سے اور کیا لاہور سے‘ کیا گجرات سے اور کیا پشاور سے اور کیا ملتان سے‘ عوام پر مسلسل حکومت کر رہے ہیں۔ سسکتے ہوئے‘ عوام۔ تار تار لباس والے عوام… لیکن حد درجہ سادہ لوح عوام اور حد سے گزری ہوئی پست ذہنی سطح رکھنے والے عوام!! 
اس ذہنی سطح پر کس قسم کے لوگ حکومت کر رہے ہیں غور کیا جائے تو ہنسی آتی ہے اور رونا بھی! وزیر داخلہ کہتے ہیں فوج کے ساتھ تعلقات میں تنائو ہے‘ ختم کریں گے۔ ان کا یہ بیان پورے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر شہ سرخیوں سے نشر ہوا اور شائع کیا گیا۔ ٹھیک دو دن بعد‘ وزیر داخلہ ہی کی پارٹی کی ایک خاتون رہنما‘ الیکٹرانک میڈیا پر اعلان کرتی ہے کہ فوج اور حکومت میں کوئی تنائو نہیں‘ یہ تو صرف میڈیا نے ایشو بنایا ہے۔ میڈیا غریب کی جورو ہے۔ تھر میں کچھ نہیں ہوا‘ میڈیا نے بیکار میں شور برپا کیا۔ دہشت گردی بھی کہاں ہوئی‘ یہ تو سب میڈیا کا کیا دھرا ہے۔ مارنے والے خود اعلان کر رہے ہیں کہ بے گناہوں کو مارنا شریعت کے خلاف ہے تو میڈیا کیوں بے گناہوں کی موت کی خبریں شائع کرتا ہے؟ 
عوام کالانعام کی ذہنی سطح 67 سال سے یہی چلی آ رہی ہے۔ مصلحت اس میں ہے کہ یہی سطح برقرار رہے۔ اس ذہنی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے تعلیم اور صحت سے پرہیز لازم ہے۔ کالاباغ کا نواب ایک زمانے میں اپنے علاقے میں سکول نہیں بننے دیتا تھا۔ اب وہی رویہ ایک اور شکل میں موجود ہے۔ دانش سکولوں پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے لیکن لاکھوں سرکاری سکول چھتوں‘ دیواروں‘ ٹاٹوں یہاں تک کہ پڑھانے والوں کے بغیر ہیں۔ چار پانچ شہروں کی بات نہیں‘ اندرونِ ملک‘ جہاں اکثر و بیشتر مقامات پر حکمرانوں کے قدموں کے نشانات کبھی نہیں پائے جاتے‘ ہزاروں لاکھوں سکول‘ پتھر کے زمانے کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ یہی وہ فضا ہے جس میں چندوں پر چلنے والے مدرسے پھولتے پھلتے ہیں۔ رہا صحت کا شعبہ تو ملک میں ضلع اور تحصیل سطح کے ہسپتالوں کا کبھی سروے ہو تو معلوم ہو کہ یہ شفاخانے نہیں‘ مرگھٹ ہیں۔ یہ وہ مردہ خانے ہیں جہاں جراح ہیں نہ طبیب‘ جہاں روئی اور قینچی تک نہیں‘ جہاں مضروب کے زخم کی گہرائی ماپی نہیں‘ سکّوں سے تولی جاتی ہے‘ جہاں کبھی کوئی حکمران‘ کبھی کوئی سیاسی رہنما‘ کبھی کوئی پالیسی ساز علاج کے لیے نہیں جاتا نہ ہی اس کے متعلقین جاتے ہیں‘ زیادہ سے زیادہ ان ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹر سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کے محلات میں سٹیتھو سکوپ سمیت طلب کیے جاتے ہیں۔ 
عباس تابش نے کہا تھا ع 
سلسلہ چلتا رہے حُسن کی دلداری کا 
یہ ذہنی سطح یوں ہی برقرار رہے۔ یہ وہ لاٹری ہے جو حکمرانوں کے لیے نکلتی رہے۔ بھائی‘ بیٹے‘ بیٹیاں‘ داماد‘ بھتیجے‘ سگے اور سوتیلے رشتہ دار فرماں روائی کرتے رہیں۔ یہی ذہنی سطح ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دبئی ہمارا دوسرا دارالحکومت ہے اور تیزی سے پہلے دارالحکومت کا روپ دھار رہا ہے۔ ابھی تو صرف سندھ حکومت کے عمائدین ہفتہ وار وہاں حاضر ہوتے ہیں‘ آگے آگے دیکھیے‘ کیا ہوتا ہے۔ 
جہاں عوام کی ذہنی سطح پست نہیں ہوتی وہاں دارالحکومت لندن ہی رہتا ہے‘ پیرس نہیں بنتا‘ اٹاوہ ہی رہتا ہے‘ نیویارک نہیں بنتا‘ کراچی ہی رہتا ہے‘ دبئی اور لندن نہیں بنتا۔

Tuesday, April 15, 2014

قہرِ الٰہی کی شکل


مالٹے کے چھلکے کی کترنیں تو اس میں تھیں لیکن اس کے ساتھ جو کچھ تھا، ایک لیس دار جیلی نما مادہ، اس لائق نہیں تھا کہ کھایا جائے لیکن یہ سوچ کر کہ یہی کچھ تو کھاتے آئے ہیں، جو وقت باہر گزرتا ہے، وہ تو سمندر میں ایک چھوٹے سے ٹاپو سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ٹوسٹ پرلیس دار جیلی نما مادہ پھیلایا۔ پورے ٹوسٹ کے حصے میں چھلکے کی صرف ایک کترن تھی، کھایا، چائے کا گھونٹ بھرا اور اُن کارخانے داروں کی ہدایت کے لیے دعا کی جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مار ملیڈ اور جام خوش نیتی سے بنایا جائے تو کیسا ہو گا!
صرف مار ملیڈ، جام اور ڈبل روٹی کی کوالٹی کا رونا نہیں، خوراک کے ہر آئٹم کا آگا پیچھا مشکوک ہے۔ پرائمری جماعت سے پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس زرعی ملک میں ہر زرعی پراڈکٹ اپنے آگے سوالیہ نشان رکھتی ہے۔ شہد کی دکان پر ’’اسلامی‘‘ کا بورڈ ہو گا مگر مصنوعی ہو گا۔ دودھ کے ساتھ جو کچھ گوالے کر رہے ہیں لگتا ہے کہ حالیؔ نے غلط کہا تھا۔’’جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے ‘‘کی جگہ ہونا چاہیے جہنم کو ہمارے گوالے بھریں گے۔ یہ لکھنے والا ایک معمولی درجے کا کسان ہے، گندم اپنی میسر آ رہی ہے، الحمد للہ، لیکن جب شہر سے پسوائی جاتی ہے تو چکی والا بدل کررکھ دیتا ہے۔ مرچ مصالحے، نمک ،دہی ،بیسن، ہر شے تو اپنی مہیا نہیں کی جا سکتی۔ رمضان کے مقدس مہینے میں بیسن سپلائی کرنے والے پس پردہ جو کچھ کرتے ہیں، رمضان ہی اس کی گواہی دے گا۔ جس معاشرے میں مالٹے کو ٹیکے لگائے جاتے ہوں، اس کے بارے میں بقول ظفر اقبال اور کیا کہا جا سکتا ہے   ؎
جس آب رود کی اوقات چند قطرے ہوں
پھر اس میں تیرنا کیا‘ اس میں پائوں دھرنا کیا
بہت سال پہلے کا قصہ ہے۔ دارالحکومت کے ایک’’وی آئی پی‘‘ سیکٹر میں گھر کے ساتھ بازار تھا۔ شور اٹھا، معلوم ہوا ایک معروف فوڈ چین میں گاہک نے شور مچایا کہ حلیم یا نہاری میں ٹشو پیپر کی کثیر مقدار تھی۔ دکان کے کارندوں نے گاہک کی خوب دھنائی کی۔ اب یہ طے ہے کہ پاکستانی کھانا اگر بے کھٹکے، اطمینانِ قلب کے ساتھ کھانا ہے تو ملک سے باہر ایسا ممکن ہے۔ یو اے ای یا سعودی عرب میں ملاوٹ کا تصور ہی نہیں، لیکن نہاری، بریانی حلیم اور کباب جو برطانیہ اور آسٹریلیا کے ریستورانوں میں مل رہے ہیں، کراچی اور لاہور والے اس کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ میلبورن کی مشہور زمانہ سڈنی روڈ پر ایک پاکستانی ’’آسی ڈیرا‘‘ کے نام سے ریستوران چلا رہا ہے (آسٹریلوی اپنے آپ کو’’آسی‘‘ کہتے ہیں)، حلیم کیا بناتا ہے، قاب میں جادو رکھ دیتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہاتھوں کا یہ کمال وطن میں ممکن نہیں، بلاشبہ ممکن ہے مگر اجزا خالص کہاں سے آئیں گے؟
مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم لطیفہ سنایا کرتے تھے، مسجد میں ایک شخص سو رہا تھا۔ پاس ہی اس کی چادر رکھی تھی۔ ایک شخص آیا اور چادر اٹھا کر جا ہی رہا تھا کہ سونے والا اٹھا اور آواز دی، حاجی صاحب! چادر رکھ دیجیے، حاجی صاحب نے چادر رکھی اور کہا، تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں حاجی ہوں، جواب دیا، اس لیے کہ چادر چرا رہے ہو۔ ماشاء اللہ وطن عزیز میں تجارت کا معتدبہ حصہ حاجی صاحبان کے قبضے میں ہے۔غذا اور غذا کے اجزا خالص کیسے دستیاب ہوں گے؟ اقبال نے کہا تھا  ع
اسلام ہے محبوس‘ مسلمان ہے آزاد
صبح کی نماز کے بعد اسلام کو ہدایت دی جاتی ہے کہ بھائی جان! آپ نے دن بھر یہیں مسجد میں رہنا ہے، ہم ظہر کی نماز کے لیے آئیں گے تو معانقہ کریں گے کیونکہ ہم نے جو کچھ بازار، منڈی،تھانے ،کچہری ،کارخانے اور دفتر میں کرنا ہے، اس کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ ساٹھ ستر فی صد حصہ جو حقوق العباد کا تھا، کھو چکا ہے۔ نماز سے لے کر روزے تک پر عبادت کے فضائل پڑھے اور سنائے جاتے ہیں لیکن وہ حقوق جو صرف بندے معاف کر سکیں گے ان کا ذکر کہیں نہیں۔ خدا کے بندوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے اور خدا ہی کا ڈر کہیں نہیں    ؎
دلوں کو کھا گئے اندیشہ ہائے دور و دراز
خدا کا خوف ضمیروں پہ حکمراں نہ رہا 
لوگوں نے اپنے اوپر نیکی کے خول چڑھا لیے ہیںاپنے آپ کو عقلِ کل سمجھ لیا ہے اور اسلام کی صرف اُس تعبیر پر اصرار کر رہے ہیں جسے وہ خود درست اور فائنل سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں میڈیا کو خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔ لکھاریوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قارئین کو غیر جانب دار ہو کر صورتِ حال بتائیں اور میڈیا کو اپنے ذاتی مشن کے لیے استعمال نہ کریں لیکن کچھ لکھنے والے ایسے بھی ہیں جو میڈیا کو اپنی ذات کی تشہیر اور ذاتی خیالات کے پرچار کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور خوب استعمال کر رہے ہیں۔ کبھی اپنی نمازوں کا ذکر کرتے ہیں، کبھی اپنی قرآن شناسی کا اعلان کرتے ہیں، کبھی قارئین کو یہ بتاتے ہیں کہ فلاں وزیر سے بات ہوئی، کبھی نوبت بجاتے ہیں کہ فلاں حکمران سے ملاقات ہوئی اور یہ ہدایت دی اور وہ تجویز پیش کی۔ ان کا اصرار ہے کہ کسی کو سزاد دینی ہے یا کسی کو معاف کرنا ہے یا کسی کو غدار قرار دینا ہے یا کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینا ہے تو یہ سارے امور ان کی فہم کے مطابق طے کیے جائیں کیونکہ ان کا فرمایا ہوا مستند ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ میڈیا کے گروپوں کو ان ڈھنڈوروں اور ان ڈگڈگیوں کا علم ہے یا نہیں، یا وہ سب کچھ جانتے ہیں اور تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں اور اس میں نیم رضا شامل ہے!
تھا تو لطیفہ لیکن اب عملاً یہی صورت حال ہو چکی ہے جس کا معاشرہ سامنا کر رہا ہے۔ ایک غریب عورت کو تھانے والے کسی قصور کے بغیر، کسی چودھری کی شکایت پر، پکڑ کر لے آئے، مولوی صاحب گزر رہے تھے، پریشانی میں مظلوم عورت کا دوپٹہ سر سے ڈھلک گیا، مولوی صاحب نے اسے ڈانٹ پلائی اور اس ’’حرکت‘‘ پر جہنم کی وعید بھی سنا دی۔ ہمارا اب یہ وتیرہ بن گیا ہے۔ کوئی بچی ٹرائوزر یا پاجامہ پہن لے تو فحاشی کا فتویٰ فی الفور لگ جاتا ہے لیکن سال بہ سال عمرے کرنے اور کرانے والے، لاکھوں کروڑوں روپے ماہانہ کے تجاوزات پر قابض ہیں۔ جعلی دوائوں سے معصوم شہریوں کو قتل کر رہے ہیںاورخلقِ خدا کو جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے ’’لا ایمان لمن لا عہد لہ‘‘ اور آیۃ المنافق ثلاث، اذاحدث کذب… جیسی احادیث کو نعوذ بااللہ خاطر میں نہیں لاتے۔ ان پر کوئی نفرین بھیجتا ہے نہ منع کرتا ہے۔ ان کے عمامے بلند ہیں اور لبادے اجلے ہیں۔ اب شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جیسا ولی کہاں سے آئے جس نے روپوں سے بھری گٹھڑیاں زمین پر رگڑی تھیں تو ان سے خون بہنے لگا تھا!
ملک کا نام یاد نہیں لیکن اُس کے شعبۂ تجارت نے ایک عجائب گھر بنا رکھا ہے۔ اس عجائب گھر میں مختلف ملکوں سے درآمد شدہ اشیائے تجارت کے نمونے رکھے ہیں۔ ہر ملک کا نام لکھا ہے اور ساتھ وہاں سے آئی ہوئی شے رکھی ہے، کہیں کپڑا، کہیں کوئی جراحی کا آلہ، کہیں جوتا، کہیں فرنیچر کا دیدہ زیب آئٹم۔ پاکستان کے نام کے ساتھ روئی(کاٹن) کا لفظ لکھا اور شیشے میں بند روئی کا جو نمونہ پڑا ہے وہ اینٹ کا ٹکڑا ہے!    ؎
اِن ظالموں پہ قہرِ الہٰی کی شکل میں 
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم

Monday, April 14, 2014

کھُر کُو

                                                           جارج آر ویل کا شہرۂ آفاق ناول و اینیمل فارم، 1945ء میں شائع ہوا۔ یہ بنیادی طور پر سوویت یونین کی نام نہاد اشتراکیت پر چوٹ تھی۔ وہ اشتراکیت جو نام مزدوروں کا لیتی تھی لیکن اصل میں چند مراعات یافتہ لوگوں کی بادشاہی تھی، تاہم یہ ناول اور اس کے محاورے ہر صورتِ حال میں لکھنے والوں کے کام آتے ہیں۔’ اینیمل فارم‘ کے جانوروں کو شروع میں یہ بتایا گیا تھا کہ ’’سب جانور برابر ہیں‘‘۔ مگر بعد میں مراعات یافتہ جانوروں کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہونے لگا، اُس کے جواز میں، اس محاورے میں ترمیم کر دی گئی۔ ترمیم شدہ محاورہ یوں تھا۔’’ سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور، دوسرے جانوروں کے مقابلے میں زیادہ برابر ہیں‘‘۔
اینیمل فارم کی تازہ ترین یاد ایک بہادر اور جری وفاقی وزیر کا تازہ ترین بیان پڑھ کر آئی۔ وزیر صاحب نے کہا ہے کہ انہیں آمریت پر تنقید کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور یہ کہ انہوں نے ہر دور میں آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ آبائو اجداد 67سال سے آمریت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ بھی اس مشن کو جاری رکھیں گے۔ 
’اینیمل فارم‘ میں جانوروں کو برابری کا جو تصور دیا گیا تھا، آمریت اور جمہوریت کے تصورات بھی بالکل اُسی کی طرح ہیں یعنی تمام آمریتیں بُری ہیں لیکن کچھ آمریتیں، دوسری آمریتوں کی نسبت زیادہ بُری ہیں اور کچھ دوسری آمریتوں سے بہتر ہیں۔ جنرل ضیاء الحق بھی فوجی آمر تھے۔ جنرل غلام جیلانی ان کے تعینات کردہ گورنر تھے لیکن جنرل ضیاالحق بہتر آمر تھے اور جنرل غلام جیلانی بہتر جرنیل اور بہتر گورنر تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ آمریت کے خلاف لکھنے اور بولنے والوں نے کبھی بھی جنرل ضیاالحق کی آمریت پر تنقید نہیں کی۔ ایک معروف صحافی نے کل ہی لکھا ہے کہ جدہ میں میاں صاحب نے کسی سے یہ کہا بھی تھا کہ جنرل ضیاالحق کو دوسرے جرنیلوں کے ساتھ بُرا بھلا کہنا درست نہیں۔ جنرل ضیاالحق نے قومی اداروں کو تہس نہس کر دیا۔ آج یہ ملک مسائل کے جن مگر مچھوں کا سامنا کر رہا ہے، اُن مگر مچھوں کی پرورش ضیاالحق ہی کے دور میں ہوئی تھی لیکن چونکہ کچھ آمریتیں بہتر ہوتی ہیں اس لیے دلدادگانِ جمہوریت، پاکستان کی اس بدترین آمریت کے متعلق دلوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
تو پھر یہ طے ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی آمریت بدترین تھی۔ سوائے مارچ 2008ء کے آخری دن کے، جب اس آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی پہلی کابینہ سے حلف لیا تھا۔ آمر پرویز مشرف سے حلف لینے والوں میں چوہدری نثار علی خان تھے جوسینئر وزیر تھے۔ اسحاق ڈار تھے جو وزیر خزانہ بنے تھے۔ خواجہ سعد رفیق نوجوانوں کے امور کے وزیر بنے تھے۔ احسن اقبال نے وزارت تعلیم سنبھالی تھی۔ خواجہ آصف پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر بنے تھے۔ شاہد خاقان عباسی، تہمینہ دولتانہ، رانا تنویر حسین، ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے، سب اُسی زلف کے اسیر ہوئے۔ سب نے آمر کے کہے ہوئے الفاظ دہرائے تھے اور حلف اٹھایا تھا۔ چائے کا بائی کاٹ کیا گیا، بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھی گئیں، پہروں کھڑے رہے تا کہ آمر ہال میں داخل ہو تو اٹھنا نہ پڑے مگر لیلائے وزارت قبول کرلی گئی۔
پھر جب مسلم لیگ نون کا حالیہ دور اقتدار شروع ہوا تو آمر اور اس کے ساتھ وابستہ ہر شخص ہر شے بری تھی، مگر کچھ لوگ کم برے تھے۔ ان کم بروں کے لیے مسلم لیگ کی آغوش وا ہوئی اور انہیںگلے سے لگا لیا گیا۔ کسی کو وزیر قانون بنا دیا گیا‘ کسی کو کچھ اور اعزاز پیش کیا گیا۔
یہی حال جمہوریت کا ہے‘ فوجی صدر کا اقتدار آمریت کا مظہر ہوتا ہے لیکن سیاسی پارٹی پر ایک خاندان کا قبضہ ہو تو وہ آمریت نہیں ہوتی۔ میراسی جوا کھیل رہا تھا جو کچھ جیب میں تھا اور جو کچھ گھر میں تھا‘ سب ہار گیا۔ کچھ نہ بچا تو بیوی کو دائو پر لگا دیا۔ بیوی نے کہا۔ بدبخت! ہار جائو گے تو وہ مجھے لے جائیں گے۔ میراسی نے جواب دیا‘ نیک بخت! کیسے لے جائیں گے؟ میں ہار مانوں گا تو وہ لے کر جائیں گے‘ مانوں گا ہی نہیں تو کیا کرلیں گے؟ سو‘ ہماری مرضی ہے ہم کسے آمریت قرار دیں اور کسے جمہوریت قرار دیں۔ 67 سال سے آمریت کا مقابلہ کرنے والے بہادر اور جری وزیر پارٹی کے اجلاس میں اٹھ کر یہ نہیں کہتے کہ یہ خاندانی آمریت نہیں چل سکتی۔ پارٹی کے اندر انتخابات کرائے جائیں‘ لیکن اس کی ضرورت ہی نہیں۔ جمہوریت وہ نہیں جو برطانیہ، امریکہ اور دوسرے ملکوں میں رائج ہے، جمہوریت وہ ہے جو ہماری سیاسی جماعتوں کو پسند ہے۔ ابھی کل کی بات ہے ایک ’’ممبر قومی اسمبلی‘‘ نے راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی اور چیک تقسیم کیے۔ ایم این اے کے استقبال کے لیے مسلم لیگ کے ایم این اے‘ ایم پی اے اور ضلعی انتظامیہ کے بڑے بڑے افسر موجود تھے۔ 6-7 سال تک آمریت کا مقابلہ کرنے والے جواں مردوں کو جمہوریت کی یہی ادائیں پسند ہیں۔ آخر ساڑھے تین سو ایم این اے اور بھی تو ہیں، ان میں سے ایک خاص ایم این اے کیوں چیک تقسیم کر رہا ہے؟ اس لیے کہ وہ شاہی خاندانی کا فرد ہے۔ کل کو یہی نوجوان پارٹی کا سربراہ بنے گا تو آمریت کا مقابلہ کرنے والے بہادر اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں گے کہ یہ بھی جمہوریت ہی کی ایک ادا ہے۔ یہ نوجوان جس کا پنجاب حکومت سے دور کا بھی سرکاری یا جمہوری تعلق نہیں‘ عملی طور پر پنجاب کی حکومت کا سربراہ ہے، لیکن اس کا نوٹس تو جمہوریت کے دلدادگان تب لیں جب آمریت کی نشانیوں کو مٹا لیں۔
جمہوریت کی کس کس ادا کا تذکرہ کیا جائے۔ ایک صوبہ‘ وفاقی حکومت کو مکمل طور پر پس پشت ڈال کر بیرونی ملکوں سے تجارتی ‘ صنعتی اور ترقیاتی معاہدے کر رہا ہے اور مسلسل کر رہا ہے۔ وزارت خارجہ اعتراض کر سکتی ہے نہ دوسری متعلقہ وفاقی وزارتیں چوں چرا کرنے کی تاب رکھتی ہیں۔ یہی کام اگر کوئی دوسرا صوبہ کرے تو غداری کا اور وفاق کو کمزور کرنے کا الزام لگے اور جینا دوبھر کردیا جائے۔ جب بھی وزیراعظم بیرونی دوروں پر جاتے ہیں‘ ایک ہی صوبے کا حکمران ان کے ہمراہ ہوتا ہے۔ جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والوں کو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بری تھی لیکن اس کی باقیات پیاری لگتی ہیں۔ تقریباً نصف کروڑ روپیہ‘ غریبوں کے لیے مختص فنڈ سے عیدی کے نام پر لے کر جیب میں ڈالنے والا پیپلز پارٹی کی آنکھ کا تارا افسر‘ آج بھی وفاق کے عظیم الشان منصب پر فائز ہے لیکن جمہوریت کی ایک ادا یہ بھی تو ہے کہ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو۔ یعنی تمہاری پیٹھ کھجانے کے لیے میں کھُرکُو بنوں گا اور میری پیٹھ کھجانے کے لیے تم کھُرکُو بنو۔ آمریت دوسروں کی ہو تو بری ہے لیکن ہماری اپنی ہو تو نہ صرف بری نہیں‘ بلکہ اصل جمہوریت ہے۔ واہ۔ جناب۔ واہ   ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

Thursday, April 10, 2014

پاکستان کے اصل سفیر


کیا رومی کا تصوف اور اس کے ’’مریدِ ہندی‘‘ اقبال کی شاعری مسلمانوں کے موجودہ عہدِ زوال میں راہِ نجات دکھا سکتی ہے؟ یا یہ تصوف وہ ہے جو جنگلوں‘ غاروں‘ خانقاہوں اور حجروں میں مقید کر دیتا ہے اور کارِ دنیا کے لیے نہ صرف یہ کہ رہنمائی نہیں کرتا بلکہ دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی تلقین کرتا ہے؟ 
یہ تھا وہ موضوع جس پر ہانگ کانگ کے ’’اناطولیہ کلچرل اینڈ ڈائیلاگ سنٹر‘‘ میں گفتگو کرنا تھی۔ یہ سنٹر جناب فتح اللہ گولن کے عالمی سیٹ اپ کا ایک حصہ ہے۔ فتح اللہ گولن کے سیٹ اپ کے زیر انتظام پوری دنیا میں تعلیمی اداروں کا سلسلہ کام کر رہا ہے۔ یہ تعلیمی ادارے ہانگ کانگ میں بھی مصروفِ جدوجہد ہیں۔ اقبال اکیڈمی ہانگ کانگ بھی اسی تقریب میں اناطولیہ سنٹر کی شریکِ کار تھی۔ اقبال اکیڈیمی کے متحرک نمائندے ڈاکٹر انوارالحق نے اس لکھنے والے سے اس وقت رابطہ قائم کیا جب آسٹریلیا سے روانگی کی تیاری تھی۔ ڈاکٹر انوارالحق نے چین سے ابلاغیات میں پی ایچ ڈی کی، انہوں نے اپنا تحقیقی مقالہ چینی زبان میں تحریر کیا تھا۔ 
مسلمانوں کے موجودہ عہدِ زوال کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو وہ ہے جو مسلمان ملکوں کے اندر رہتے ہوئے داخلی حوالے سے ہر دیدۂ بینا اور ہر دلِ حساس کو کرب میں مبتلا کرتا ہے۔ سب سے بڑا عفریت ناخواندگی کا ہے۔ عورتوں کی ناخواندگی کا تناسب بھیانک حد تک کم ہے۔ اسی حساب سے ان کے حقوق بھی غصب ہوتے ہیں۔ غربت اس ناخواندگی کا منطقی نتیجہ ہے۔ صحت کا گراف مستقلاً نیچے کی طرف ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں قانون کی حکمرانی ایک خواب لگتی ہے۔ پولیس مکمل طور پر سیاسی دبائو میں ہے۔ سول سروس کو اہلِ سیاست کنیز کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ کوئی ادارہ مکمل طور پر آزاد نہیں۔ خطرناک ترین پہلو مسلمان ملکوں میں داخلی حوالے سے مذہب کی بنیاد پر سادہ لوح مسلمانوں کا استحصال ہے۔ پیری مریدی انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ گدی نشینی طاقت ور حربہ ہے۔ سیاست اور تجارت، دونوں شعبوں میں مذہب کو خوب خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ ووٹ لیتے وقت مذہب کا واسطہ دیا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں عقائد اور فرقہ واریت کی بنیاد پر کام کر رہی ہیں۔ تجارت میں صورت حال دلچسپ ہے ، اس کی نوعیت سمجھنی ہو تو ایک مثال ہی کافی ہے۔ پوری دنیا میں نصرانی شہد‘ یہودی شہد یا ہندو شہد نہیں ملے گا لیکن پاکستان میں ’اسلامی شہد‘ فروخت ہوتا ہے۔ ایک عام جذباتی سادہ دل پاکستانی مسلمان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ ’اسلامی شہد‘ ، ’محمدی بیکری‘ ، ’مدینہ نہاری ‘ یا ’حرمین کلاتھ ڈپو‘ اور اس قبیل کے بے شمار دوسرے سائن بورڈوں پر توجہ نہ دے اور فرطِ عقیدت میں وہاں سے سودا نہ خریدے۔ اس پہلو کا دوسرا نام حقوق العباد سے غفلت ہے جس کی نوعیت اس قدر واضح ہے کہ تفصیل کی ضرورت ہی نہیں۔ 
خارجی حوالے سے صورت حال اور بھی زیادہ دردناک ہے۔ ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں جا کر ہر درد مند مسلمان سب سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اس قدر ترقی اور تنظیم مسلمان ملکوں میں کیوں ناپید ہے؟ وہ پریشان ہوتا ہے کہ چار کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ان ملکوں میں آ کر آباد ہو گئے ہیں اور کئی کروڑ مزید آنا چاہتے ہیں تو آخرکیا وجہ ہے کہ کسی ایک مسلمان ملک میں بھی آباد ہونا ممکن نہیں۔ معاشی وجہ کے بعد اس ہجرت کی بڑی وجہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے؛ جو شخصی‘ سیاسی اور مذہبی آزادی ان ملکوں میں مسلمانوں کو حاصل ہے وہ مسلمان ملکوں میں نہیں۔ 
اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمان دو گروہوں میں منقسم ہو گئے ہیں۔ ایک گروہ اسلامی تعلیمات ہی سے برگشتہ ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مغربی لباس‘ مغربی فیشن اور مغربی تفریحات ترقی کا زینہ ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز مغرب کے لباس اور فیشن میں نہیں‘ علوم و فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ہے۔ دوسرا گروہ سمجھتا ہے کہ دنیا سے الگ تھلگ رہ کر اسلام کے اس ایڈیشن سے وابستہ ہو جانا چاہیے جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوسوں دور ہے۔ 
اس عجیب و غریب صورتِ حال میں ہم رومی اور اُس کے مریدِ ہندی‘ اقبال سے رہنمائی مانگتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں کہ وہ ان دونوں گروہوں سے بیزار ہیں۔ بالِ جبریل میں ایک طویل نظم ’’پیرو مرید‘‘ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان ملک کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہو، لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ اس نظم میں اقبال رومی سے مختلف امور پر رہنمائی طلب کرتے ہیں‘ وہ پوچھتے ہیں کہ موجودہ علوم سے ہمارا دین کیوں پریشان ہے۔ رومی جواب دیتے ہیں کہ علم جسم کے لیے ہو تو سانپ اور دل کے لیے ہو تو دوست ہوتا ہے۔ پھر پوچھتے ہیں کہ اہل مشرق‘ اہلِ مغرب سے مرعوب ہیں ، اس کا علاج؟ رومی جواب میں چاندی کی مثال دیتے ہیں کہ چاندی سفید ہے لیکن ہاتھوں اور لباس کو سیاہ کر دیتی ہے۔ اس سوال و جواب کا معراج دیکھیے، مریدِ ہندی کہتا ہے  ؎ 
کاروبارِ خسروی یا راہبی؟ 
کیا ہے آخر غایتِ دینِ نبی؟ 
پیرِ رومی جواب میں فرماتے ہیں   ؎ 
مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ 
مصلحت در دینِ عیسیٰ غارو کوہ 
رہبانیت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ جاہ و جلال اور شکوہ و شوکت مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ اقبال نے دونوں گروہوں سے اختلاف کیا ہے۔ ایک گروہ کو ہدایت کی ہے کہ مغرب کے ظاہر کی تقلید غیر ضروری ہے ، دوسرے گروہ کو مشورہ دیا ہے کہ ان کی سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنائو۔ اسرار ورموز میں وہ اشعار جو ’’قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب‘‘ سے شروع ہوتے ہیں‘ ہر مسلمان ملک کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہیں۔ فرماتے ہیں کہ مغرب کی طاقت ان کی موسیقی کی وجہ سے ہے نہ رقص و سرود کی وجہ سے‘ برہنہ ٹانگوں سے ہے نہ بالوں کی آرائش و بریدگی سے‘ لادینی سے ہے نہ لاطینی رسم الخط سے۔ اللہ کے بندو‘ مغرب کی طاقت کا راز اس کے علوم و فنون ہیں۔ حکمت لباس کی قطع و برید سے نہیں‘ نہ ہی عمامہ سائنس کا دشمن ہے ، ترقی کے لیے ’’نگاہ‘‘ مطلوب ہے‘ ٹوپی یا عمامے کی اقسام مسئلہ نہیں ہیں! فکر اور طبعِ درّاکی مطلوب ہے۔ 
یہ تھا اس گفتگو کا ماحصل جو اس لکھنے والے نے اناطولیہ سنٹر آف کلچر اینڈ ڈائیلاگ میں کی۔ اجتماع میں چینی‘ ترک‘ ازبک اور انگریز بھی تھے۔ سوال و جواب کا حصہ فکرانگیز تھا! 
مختصر قیام کے دوران ہانگ کانگ کی ’’بزمِ شعرو سخن‘‘ نے بھی ایک ملاقات کا اہتمام کیا۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ان کاوشوں کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ کس طرح یہ حضرات اپنی جڑوں سے وابستہ رہنے اور رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ عابد علی بیگ ممتاز بینکار ہیں، کیپٹن شہزادہ سلیم جہاز رانی کے کولمبس ہیں، ساگر صاحب اور کے ایم ملک اپنے اپنے شعبوں میں نام کما رہے ہیں لیکن ان بے پناہ مصروفیات کے باوجود یہ پاکستانی اپنے دیگر دوستوں کی معیت میں پاکستانی ثقافت اور شعر و ادب کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے اصل سفیر یہی دردمند پاکستانی ہیں جو غریب الوطنی میں وطن سے وابستہ ہیں!

Monday, April 07, 2014

ترجیحات

                                                            لوگ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ دور دور تک آثار نہیں کہ کوئی اُن کی مدد کو پہنچے۔
ہانگ کانگ میں رہنے والے ہزاروں پاکستانی شکوہ کناں ہیں کہ پی آئی اے جیسی بھی تھی، ایمر جنسی میں میت تو مفت لے جاتی تھی۔ اب کسی پاکستانی کی وفات ہوتی ہے تو دوسری ائیر لائنیں اسّی نوے ہزار ہانگ کانگ ڈالر معاوضہ طلب کرتی ہیں‘ جس کا مطلب بارہ تیرہ لاکھ روپے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اکثریت کے لیے میت وطن واپس لانا ممکن ہی نہیں۔
بنکاک میں صورتِ حال اور بھی درد ناک ہے۔ لا تعداد پاکستانی بنکاک میں رہتے ہیں جنہیں آئے دن پاکستان روانہ ہونا ہوتا ہے یا پاکستان سے واپس تھائی لینڈ پہنچنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بنکاک ایک بہت بڑا جنکشن ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ، جاپان، برونائی، فلپائن، کوریا، ویت نام اور انڈونیشیا سنگاپور سے لاکھوں مسافر پاکستان آنے کے لیے بنکاک اترتے ہیں۔ یہ ہزاروں لاکھوں مسافر پی آئی اے میں سفر کیا کرتے تھے۔ چونکہ ہم دن بدن زیادہ ’’ترقی‘‘ کر رہے ہیںاس لیے بنکاک سے بھی پی آئی اے کی پروازیں بند ہو گئی ہیں۔ جب بند نہیں ہوئی تھیں، ہمیشہ تاخیر سے آتی جاتی تھیں، اذیت ہوتی تھی لیکن پھر بھی اکثریت پی آئی اے کو صرف اس وجہ سے ترجیح دیتی تھی کہ جیسی بھی ہے اپنی ہے۔ ہم وطن میں رہنے والے لوگ، اس محبت کا اور اس پاکستانیت کا تصور بھی نہیں کر سکتے جو تارکین وطن کے دلوں میں موجزن ہے۔ اس جذباتی رشتے سے قطع نظر، لاکھوں کروڑوں ڈالر کے اُس بزنس کا تصویر کیجیے جس سے بنکاک کی پروازیں ختم ہونے کی وجہ سے پی آئی اے محروم ہو رہی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا کبھی اس ملک میں کوئی ایسی عدالت لگے گی جس میں قومی جرائم کا ارتکاب کرنے والے معززین کٹہرے میں کھڑے ہوں گے؟ سالہا سال تک، عشروں پر محیط عرصے تک، پی آئی اے میں بھرتیوں کے لیے کوئی اشتہار نہیں چھپتا تھا۔ ساری تعیناتیاں، ترقیاں، تبادلے، سیاسی، شخصی اور عائلی بنیادوں پر ہوتے تھے۔ ان بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو ہتھکڑیاں کب لگیں گی؟
لوگ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ دور دور تک آثار نہیں کہ کوئی ان کی مدد کو پہنچے۔ یہاں ترجیحات ہی اور ہیں۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو نشانِ عبرت بنا کر انتقام کی آگ ٹھنڈی کی جائے۔ کیا ستم ظریقی ہے کہ سالہا سال تک جرنیل کا دست و بازو بننے والے کابینہ میں تشریف فرما ہیں۔ کچھ پس ماندگان اب تک پارلیمنٹ میں داخل ہو کر ’’لیٹ‘‘ نکال رہے ہیں، اور کٹہرے میں صرف ایک شخص کھڑا ہے۔ بھلا کبھی کوئی فوجی آمر، اہلِ سیاست کی اشیرباد کے بغیر حکومت کر سکا ہے؟ جنرل پرویز مشرف سے شدید مخاصمت رکھنے والے بھی اسے عدل نہیں قرار دے سکتے۔ دس دس بار وردی میں منتخب کرانے والے، اسے سید کہہ کر فرطِ ادب سے آنکھوں کو بند کر لینے والے، زرعی زمینیں الاٹ کرانے والے، کمیٹیوں، کانفرنسوں‘ سرکاری دوروں کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے، سب نہا دھو کر پوتّر ہو گئے اور جرنیل ان سب کا حساب دے رہا ہے۔ واہ جی واہ! انصاف ہو تو ایسا کہ نظر بھی آئے اور اس میں کیا شک ہے کہ نظر آ رہا ہے۔ انجم رومانی نے خوب کہا تھا   ؎
انجم غریب شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
ہماری ترجیحات اور ہیں۔ نصب العین یہ نہیں کہ ملک میں انفراسٹرکچر حقیقی معنوں میں تعمیر ہو، نصب العین یہ ہے کہ جو کچھ ہو، جلد ہوتا کہ واہ واہ ہو، دیر پا نہ ہو تو ہماری بلا سے۔ بچے کو بھی معلوم ہے کہ لاہور کراچی اور پنڈی اسلام آباد کی پبلک ٹرانسپورٹ کا واحد حل زیر زمین ریلوے کی تعمیر ہے۔ یہی مستقل اور دیر پا حل ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ دہلی گئے تو زیر زمین ریلوے کا مصروف ترین سٹیشن دیکھنے گئے۔ انہیں یقیناً بریفنگ دی گئی ہو گی۔ یہ بھی بتایا گیا ہو گا کہ دہلی زیر زمین ریلوے کا منصوبہ کم از کم وقت میں، ریکارڈ ٹائم میں، مکمل ہوا، یہ بھی بتایا گیا ہو گا کہ دہلی جو دُھند، Fogاور Smogمیں لپٹی رہتی تھی، زیر زمین ریلوے چلنے کے بعد کیسی صاف ستھری ہو گئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایسا منصوبہ حکمرانوں کو اپیل نہیں کرتا؟ اس کی وجہ آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے منصوبوں کے لیے جو ٹیمیں درکار ہوتی ہیں وہ میرٹ اور صرف میرٹ پر‘ اہلیت اور صرف اہلیت کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ اس بنیاد پر نہیں بنائی جاتیں کہ کون کس شہر سے ہے اور کون کس برادری سے تعلق رکھتا ہے! قومی سطح کا کوئی ایک اخبار بھی ایسا نہیں جو مسلسل یہ نہ لکھ رہا ہو کہ وفاقی دارالحکومت کی بیورو کریسی پر ایک مخصوص گروپ کا غلبہ ہے جو باقاعدہ منصوبہ بندی سے حاصل کیا گیا ہے۔ 
یہ دو سال پہلے کی بات ہے، اس لکھنے والے نے تجویز پیش کی تھی کہ زیر زمین ریلوے کی تعمیر ہماری سیاست زدہ بیورو کریسی کے بس کی بات نہیں۔ اس سیاست زدہ بیورو کریسی نے برادری کی چادر اوڑھی ہوئی ہے اور سفارش کا گھونگٹ نکالا ہوا ہے۔ اس لیے یہ منصوبہ بحریہ کے ملک ریاض جیسے نجی شعبہ کے کسی ایسے ٹائی کُون کے حوالے کریں جو نتیجہ دکھا سکے۔ اگر تعمیر مکمل ہونے کے بعد، تین یا پانچ سال کی آمدنی، دینی بھی پڑ جائے تو سودا برا نہیں‘ لیکن یہاں بڑے بڑوں کی آواز کوئی نہیں سنتا، ایک کالم نگار کی بات پر کون کان دھرے گا۔ 
ہماری ترجیحات مختلف ہیں۔ ہم ابھی کچھ ضروری امور میں مصروف ہیں۔ ہم ابھی قائداعظم کو اپنی مرضی کی شکل و صورت میں دوبارہ ڈھال رہے ہیں۔ ہم قائداعظم کو اُن مقدس لوگوں کی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں جنہوں نے قائداعظم کو ہمیشہ ’’جناح صاحب‘‘ کہا ہے۔ ہم قائداعظم کی کسی ایسی تقریر کی تلاش میں ہیں جس کی رُو سے پاکستان میں شریعت بذریعہ بندوق نافذ کی جا سکے۔ ہمیں ان کی وہ تقریر بھی ڈھونڈنی ہے جس میں انہوں نے اقلیتوں کی عبادت گاہیں جلانے اور کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیلنے کو شریعت کے مطابق قرار دیا تھا! ہمیں ابھی ان کی وہ گفتگو بھی تلاش کرنی ہے جس میں انہوں نے اس بات پر اظہار مسرت کیا تھا کہ لاکھوں مدارس میں تحریک پاکستان اور قائداعظم کے بارے میں کچھ نہ پڑھایا جائے اور ان مدرسوں میں پڑھنے اور پڑھانے والے انہیں کبھی قائداعظم نہ کہیں! قائداعظم ہی نے تو حکم دیا تھا کہ عدلیہ کے متوازی جرگے اور پنچائتیں بھی کام کریں اور ستر ستر سا ل کے بوڑھوں کی ملکیت میں ونی ا ور سوارہ کے ذریعے چھ چھ سال کی بچیاں دے دی جائیں اور یہ ظلم اُن تہجد گزاروں کو نظر نہ آئے جو تکبر کے ساتھ یہ فیصلے کرتے ہیں کہ کون شہید ہے اور کون شہید نہیں! بس ابھی اتنا سا کام رہ گیا ہے کہ قائداعظم کا یہ گم شدہ حکم تلاش کرنا ہے۔ 
اقتصادی ترقی، سماجی انصاف، تعلیم اور صحت بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہیں لیکن ابھی اُن کی باری نہیں آئی۔ آخر جلدی بھی کیا ہے!

Friday, April 04, 2014

تین نسلوں کی جدوجہد


پہلی جنگِ عظیم کو ختم ہوئے کچھ سال ہو چلے تھے۔ ہانگ کانگ کے انتہائی جنوبی گوشے میں جیل تعمیر ہو چکی تھی۔ زیادہ تر قیدی سمگلنگ کے مجرم ہوتے تھے۔ ہتھکڑیاں اُس زمانے میں لوہے کی نہیں‘ لکڑی کی ہوتی تھیں۔ انگریز سرکار چینی قیدیوں پر چینی گارڈ مامور کرنے میں متامل تھی۔ چینی شاید خوئے غلامی میں ہندوستانیوں جیسے پختہ نہیں تھے۔ ہو سکتا ہے چینی گارڈ رکھے گئے اور انہوں نے چینی قیدیوں سے بہت زیادہ رعایت برتی! بہرطور فیصلہ یہ ہوا کہ جیل کی حفاظت کے لیے ہندوستان سے گارڈ منگوائے جائیں۔ درآمد شدہ گارڈز کا گروہ سکھوں اور مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ جہاں آج سٹینلے جیل کی عمارت ہے اور اس کے افسروں اور سٹاف کے خوبصورت رہائشی فلک بوس اپارٹمنٹ ہیں‘ وہاں اس زمانے میں جنگل تھا اور ایک کچی پکی عمارت جیل کی تھی۔ 
مسلمان گارڈ زیادہ تر چکوال‘ گجرات اور جہلم کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ اپنی اپنی نماز‘ جہاں موقع ملتا‘ الگ الگ پڑھ لیتے۔ ایک دن انہوں نے باہمی مشورے کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ کو درخواست گزاری کہ نماز باجماعت کے لیے مناسب قطعۂ اراضی مختص کیا جائے۔ سپرنٹنڈنٹ نے درخواست اوپر بھیج دی۔ ہانگ کانگ کی ہائی کمانڈ نے درخواست منظور کر لی۔ یہاں سے اُس مسجد کی کہانی شروع ہوتی ہے جو آج جزیرے کے اس حصے میں خوبصورتی اور تقدس کی علامت ہے۔ اس میں گراں بہا دیدہ زیب قالینیں بچھی ہیں۔ کلامِ پاک کی تلاوت ہوتی ہے اور پورے ہانگ کانگ سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ 
قطعۂ زمین الاٹ ہوا۔ پردیسی پہریداروں نے نماز باجماعت ادا کرنا شروع کی۔ بارش اور طوفان میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایک بار پھر حکامِ بالا کو درخواست دی گئی کہ چھت کھڑی کرنے کی اجازت دی جائے۔ مقامی حاکموں نے ہائی کمانڈ سے پوچھا۔ کہا گیا کہ اجازت ہے لیکن ڈھانچہ عارضی ہو گا ، کمرہ کچا اور چھت بانس کی ہو گی۔ 
کچھ عرصہ اور گزرا۔ اب مسلمانوں نے ایک اور عرض گزاری کی کہ ہمیں ایک باقاعدہ مسجد کی تعمیر کرنے دیجیے، اخراجات ہم خود اٹھائیں گے۔ یہ اجازت مل گئی۔ اس زمانے میں ایک گارڈ کی کل تنخواہ تین ڈالر تھی۔ اس میں سے ایک ڈالر سب نے مسجد کی تعمیر کے لیے وقف کر دیا۔ کچھ حصہ محکمے نے بھی ڈالا۔ جو ساتھی تعطیلات گزارنے ہندوستان گئے ہوئے تھے‘ انہیں تعمیر کے لیے نقشہ لانے کا کہا گیا۔ ایک صاحب واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں بادشاہی مسجد لاہور کا نقشہ تھا۔ کچھ گارڈ راج اور مستری کا تجربہ رکھتے تھے۔ تعمیر شروع ہو گئی۔ ڈیوٹی شفٹوں میں ہوتی تھی۔ ڈیوٹی ختم کرنے پر مسلمان گارڈ آرام نہیں کرتے تھے‘ مسجد کی تعمیر کرتے تھے۔ پنجاب رجمنٹ اور راجپوت رجمنٹ کے عساکر کے لیے جو صاحب راشن سپلائی کرتے تھے ان کا نام عباس آرقلی تھی۔ ان کے بھائی عمر آرقلی وکیل تھے۔ دونوں بھائیوں نے بڑھ چڑھ کر مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ ہانگ کانگ کے مسلمان میں جو زبانی روایات چلی آ رہی ہیں‘ ان کی رُو سے پنجاب رجمنٹ کے 
چودھری رحمت علی نے اپنا کردار ادا کیا۔ ایک اور صاحب چودھری غلام محمد تھے۔ میجر عزیز بھٹی شہید کے والد ماسٹر عبداللہ بھٹی بھی اس وقت ہانگ کانگ میں تھے۔ وہ بھی اس جدوجہد میں شریک تھے (یاد رہے کہ میجر عزیز بھٹی شہید کی ولادت ہانگ کانگ ہی میں ہوئی تھی) چیف گارڈ کا نام سردار علی تھا۔ بہرطور تیسرے عشرے (غالباً 1936ء) میں مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ اہل و عیال کی پرورش کرنے والوں نے گویا ایک عرضی جنت کے لیے بھی ڈال دی۔ 
جنگ عظیم دوم کی افراتفری میں ہانگ کانگ پر جاپانیوں نے قبضہ کر لیا۔ بہت سے مسلمان  تعاون نہ کرنے کے الزام میں‘ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ مسجد کو گودام بنا دیا گیا۔ جاپانیوں کو شکست ہوئی تو انگریزوں نے دوبارہ اقتدار سنبھال لیا۔ لیکن اب ایک اور افتاد آ پڑی۔ پرتگالیوں کو بھی جیل کی حفاظت کے لیے بھرتی کرنا شروع کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ جاپانیوں کے جانے کے بعد مسجد کا انتظام مسلمان سنبھالتے‘ پرتگالیوں نے مسجد پر قبضہ کر لیا اور اسے شراب خانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ مسلمان ملازمین نے شدید احتجاج کیا، مرنے مارنے پر تل گئے۔ انگریز سرکار نے مسلمانوں 
کے تیور دیکھے تو مسجد پرتگالیوں سے واپس لے لی اور مسلمان دوبارہ رکوع و سجود ادا کرنے لگے۔ اسّی اور نوّے کے عشروں میں مسجد کی دیکھ بھال کی سعادت بشیر محمد اور محمد شریف نامی دو پاکستانیوں کے حصے میں آئی۔ 1990ء میں ملک نثار احمد جیل کے افسر کے طور پر سٹینلے تعینات ہوئے۔ 1992ء میں محمد شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد نثار احمد نے مسجد کا چارج سنبھالا۔ وہ جو کہتے ہیں سر منڈاتے ہی اولے پڑے، نوجوان ملک نثار احمد نے مسجد کی نگرانی سنبھالی تو فلک بوس تعمیرات کا سلسلہ جزیرے کے اس گوشے تک پہنچ گیا تھا۔ سروے ہوئے‘ نقشے بنائے گئے اور اتھارٹی نے حکم صادر کیا کہ مسجد کو گرا دیا جائے اور یہ جگہ اس منصوبے میں ضم کر دی جائے جہاں بلند و بالا عمارتیں بننی ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان ملازمین کی تعداد سٹینلے میں حد درجہ کم ہو چکی تھی۔ حکام کو بھی معلوم تھا کہ اب مسلمان اتنی تعداد میں نہیں کہ دبائو ڈال سکیں۔ نثار احمد نے کمرِ ہمت باندھ لی۔ روانی سے چینی اور انگریزی بولنے والے نثار احمد نے پہلے تو مقامی حکام کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بابری مسجدکے انہدام سے پہلے ہی عالمی سطح پر ارتعاش برپا ہے‘ ایک اور مسئلہ نہ کھڑا کیجیے‘ لیکن کام نہ بنا۔ اب نثار احمد نے اردگرد نظر دوڑائی۔ ہانگ کانگ کے مسلمانوں کے مجموعی امور اور مساجد کے حوالے سے ایک نیم سرکاری ادارہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے نام سے کام کر رہا تھا۔ اس میں چینی‘ عرب اور دیگر قومیتوں کے مسلمان شامل تھے۔ نثار احمد نے 
بورڈ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ اگلے اجلاس میں مجھے ایک مسئلہ بیان کرنے کی اجازت دی جائے۔ نوجوان نثار احمد نے ریٹائرڈ شریف صاحب کو ساتھ لیا تاکہ ایسا نہ ہو کہ بورڈ کے ارکان ’’لڑکے‘‘ کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔ اجلاس میں نثار احمد نے سٹینلے مسجد کا مقدمہ اس موثر‘ مدلّل اور دل سوز انداز میں پیش کیا کہ ارکان متاثر ہو گئے۔ اب نثار احمد نے انہیں سٹینلے میں مدعوکیا اور مسجد کی عمارت دکھا کر انہدام کے منصوبے کا پورا پس منظر اور پیش منظر دکھایا۔ بالآخر بورڈ آف ٹرسٹیز نے ہانگ کانگ کی حکومت سے اعلیٰ ترین سطح پر رابطہ کیا۔ اب جیل حکام کو احساس ہوا کہ معاملہ اتنا سہل نہیں؛ چنانچہ انہدام کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ 
فتح جنگ ضلع اٹک کے گائوں جھنڈیال سے تعلق رکھنے والے نثار احمد نے اندازہ لگایا کہ موجودہ مسلمان ملازمین ریٹائر ہوئے تو مسجد کا معاملہ پھر نازک ہو جائے گا؛ چنانچہ انہوں نے سعی بسیار کے بعد مسجد کو تاریخی عمارت قرار دلوایا۔ یوں اب مسجد کو گرایا نہیں جا سکتا اور اس کی حفاظت آثارِ قدیمہ کے محکمے کے فرائض میں شامل ہو گئی ہے۔ 
نثار احمد نے کل وقتی امام کا بندوبست کیا۔ ان کی اہلیہ نے دامے درمے بھرپور ساتھ دیا۔ خواتین کے لیے وضو خانے تعمیر کرائے۔ ایک بچہ مسجد میں حفظِ قرآن مکمل کر چکا ہے، دوسرا کرنے والا ہے۔ کئی درجن بچے ناظرہ قرآن پاک پڑھ چکے ہیں۔ مسجد پورا دن کھلی رہتی ہے۔ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن کی رونق دیدنی ہوتی ہے۔ باہر سے بادشاہی مسجد لاہور کا نقشہ پیش کرنے والی یہ خوبصورت عمارت ہندوستانی اور پاکستانی مسلمانوں کی تین نسلوں کی جدوجہد کا دلکش اور شیریں ثمر ہے۔

Thursday, April 03, 2014

جزیرہ


سامنے سمندر ہے۔ نیلے اور سفید پانی کا مسحور کن امتزاج۔ دخانی کشتیاں چل رہی ہیں۔ دور‘ بہت دور‘ دو قوی ہیکل بحری جہاز نظر آ رہے ہیں۔ دائیں طرف مشہورِ زمانہ مَرے ہائوس ہے جو 1846ء میں برطانوی اقتدار نے اپنے فوجی افسروں کے لیے تعمیر کیا تھا۔ اس کے سامنے سمندر کے پانی میں خوبصورت بارہ دری نما عمارت ہے۔ کسی زمانے میں لندن سے آئے ہوئے اعلیٰ برطانوی حکام‘ اور کبھی کبھی ملکہ بھی‘ اس بارہ دری میں بیٹھ کر سمندر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اُن مغل شہزادوں اور بیگمات کی طرح جو بارہ دریوں میں بیٹھ کر جمنا اور راوی کی لہروں کے ساتھ ساتھ جیسے بہتے جاتے تھے اور ہلکورے کھاتے تھے اور ہندوستانیوں کی اکثریت لنگوٹی میں ملبوس تھی۔ چنائی یونیورسٹی کے پروفیسر ابراہام ایرالی نے‘ جو ہندو ہے نہ مسلمان‘ اور جس کی معرکہ آرا تصانیف بھارت میں کوئی نہیں چھاپتا‘ برطانیہ میں شائع ہوتی ہیں‘ لکھا ہے کہ مغلوں کے عروج کے زمانے میں ہندوستان کی کل دولت کا ایک چوتھائی صرف پانچ سو کے لگ بھگ افراد کی ملکیت میں تھا‘ لیکن یہ کہانی اور ہے‘ پھر کبھی سہی‘ اس وقت تو لکھنے والا ہانگ کانگ کے جنوبی ساحل پر کھڑا‘ خلیج سٹین لے‘ کے بے پناہ حُسن پر حیران ہے۔ 1842ء میں جب انگریزوں نے ہانگ کانگ پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے یہی سٹین لے گائوں ہی ان کا ہیڈ کوارٹر بنا تھا۔ بعد میں جزیرے کے شمال میں وکٹوریہ سٹی بنا اور ہیڈ کوارٹر وہاں منتقل ہوا۔ اسی وکٹوریہ سٹی کو اب ہانگ کانگ کا سنٹرل ڈسٹرکٹ کہا جاتا ہے جو لندن اور نیویارک کے بعد دنیا کا تیسرا طاقت ور ترین مالیاتی مرکز ہے۔ اب تو ہانگ کانگ کے ساتھ ساتھ‘ ’’نیولان کانگ‘‘ کی اصطلاح بھی وضع کرلی گئی ہے جو ’’نیویارک لندن اور ہانگ کانگ‘‘ کا مخفف ہے۔ پوری دنیا کی معیشت کا رُخ ان تین شہروں کی مالیات متعین کرتی ہے۔ 
وکٹوریہ کے نام کے ساتھ انگریزوں کا عشق بھی خوب ہے۔ جہاں گئے‘ پہلے یہ نام رکھا۔ کینیڈا کے‘ انتہائی مغرب میں‘ خوبصورت برٹش کولمبیا کا دارالحکومت وکٹوریہ ہے‘ جو اصل میں جزیرہ ہے۔ آسٹریلیا گئے تو جنوب مشرقی صوبے کا نام وکٹوریہ رکھا۔ کراچی مارکیٹ بنائی تو اس کا نام وکٹوریہ مارکیٹ کے بجائے پتہ نہیں ایمپریس مارکیٹ کیوں رکھا‘ ہو سکتا ہے اب پچھتا رہے ہوں! 
ہانگ کانگ عجوبۂ روزگار شہر ہے۔ شہر کیا ہے‘ کئی شہروں کا مجموعہ ہے۔ کرۂ ارض پر ہانگ کانگ کو کئی لحاظ سے امتیاز حاصل ہے۔ فی کس آمدنی کے حوالے سے بلند ترین ملکوں میں شامل ہے۔ اقتصادی آزادی‘ معیارِ زندگی‘ شفافیت اور افرادی قوت کی ترقی سمیت کئی لحاظ سے سرِفہرست ہے۔ اکاسی ملکوں میں اس کے شہریوں کا آئی کیو بلند ترین ہے۔ 2012ء کے سروے میں طویل ترین عمروں میں بھی اس کا پہلا نمبر تھا۔ 
ہانگ کانگ کی پبلک ٹرانسپورٹ عجوبۂ روزگار ہے۔ چار سو چھبیس مربع میل کے علاقے میں ستر لاکھ افراد… اور لاکھوں سیاحوں کی روزانہ آمد اور قیام۔ اس کا حل یہی تھا کہ دنیا کا مستعد ترین پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم چلایا جائے اور وہ یہاں چل رہا ہے۔ نوے فی صد آبادی ذاتی کاروں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتی ہے۔ یہاں کی زیرِ زمین ریلوے (ایم ٹی آر۔ ماس ٹرانزٹ ریلوے) دنیا کے نصف درجن بہترین زیر زمین ذرائع آمدورفت میں شمار ہوتی ہے۔ 152 سٹیشن ہیں۔ روزانہ 34 لاکھ افراد سفر کرتے ہیں۔ دس مختلف لائنیں ہیں۔ ہر ریلوے سٹیشن کا رنگ مختلف ہے۔ ہر شخص کو معلوم ہے کہ مجھے کس رنگ کے سٹیشن پر اترنا ہے۔ ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ آکٹوپس کارڈ ایک الیکٹرانک کارڈ ہے جو ہر مسافر کو خریدنا ہوتا ہے۔ اس کی افادیت وہی ہے جو کریڈٹ کارڈ کی ہے۔ یہ کارڈ نہ صرف ریل بلکہ ٹرام بس اور فیری میں بھی کام آتا ہے۔ ٹرام 1904ء سے چل رہی ہے۔ سینکڑوں ڈبل ڈیکر اور سنگل ڈیکر بسیں اس کے علاوہ ہیں۔ وقت کی پابندی کا یہ عالم ہے کہ ایک سیکنڈ کی تاخیر کا بھی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ شام پانچ بجے جب چالیس پچاس لاکھ افراد سرکاری دفتروں‘ نجی کمپنیوں‘ ملٹی نیشنل اداروں‘ پلازوں‘ سٹوروں‘ بازاروں سے نکلتے ہیں تو بظاہر قیامت کا سماں ہوتا ہے۔ 
انسان حیران ہوتا ہے کہ چند سو مربع میل کے جزیرے میں یہ حشر برپا کرتا اژدہام کہاں سمائے گا اور کدھر کا رُخ کرے گا۔ لیکن ہانگ کانگ کا مستعد ٹرانسپورٹ سسٹم اس بے پایاں‘ بے کنار‘ ہجوم کو نگل لیتا ہے۔ ہر دو منٹ کے بعد ایک زیر زمین ٹرین ڈیڑھ سو سٹیشنوں پر آ کر رکتی ہے‘ ہجوم‘ قطار بناتا ہے اور سوار ہو جاتا ہے۔ ٹرین میں گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ قطاریں رُک جاتی ہیں۔ کوئی شخص قطار کی خلاف ورزی نہیں کرتا‘ دو منٹ کے بعد دوسری ٹرین آ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ پانچ پانچ چھ چھ ڈبل ڈیکر بسیں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہیں۔ پیچھے پیچھے درجنوں ٹرامیں آ رہی ہیں‘ یہ ٹرانسپورٹ سسٹم دن بھر کے تھکے ہارے پچاس لاکھ افراد کو اپنے گھروں اور آرام دہ بستروں پر پہنچا دیتا ہے۔ 
چھوٹی سی جگہ پر اور کوئی چارہ نہیں تھا‘ سوائے اس کے کہ آبادی کو افقی کے بجائے عمودی عمارتوں میں سمویا جائے۔ کثیرمنزلہ عمارتوں کا سلسلہ 1935ء میں شروع ہوا۔ اس وقت بلند ترین عمارتوں کے لحاظ سے ہانگ کانگ دنیا میں اول نمبر پر ہے۔ ان عمارتوں کو ’’سکائی لائن‘‘ (آسمانی قطار) کہا جاتا ہے۔ 2000ء اور 2010ء کے درمیانی عرصہ میں پچاسی عمارتیں ایسی تعمیر ہوئیں جو تقریباً چھ سو فٹ اونچی تھیں۔ یہ رہائشی عمارتیں ہیں۔ جس نے ہانگ کانگ میں رہنا ہے‘ اسے معلوم ہے کہ وہ وسیع گھر 
اور صحن سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ فلیٹ اور اپارٹمنٹ یہاں کے کلچر کا جزو لاینفک ہیں۔ 
ہانگ کانگ آج جس مقام پر ہے‘ اُسے یہاں تک پہنچانے میں سب سے اہم کردار برطانوی حکومت اور برطانوی قانون کا ہے۔ استحکام‘ سکیورٹی اور تسلسل۔ یہ تین اجزا ہیں جو برطانوی قانون کو معیشت اور نظام تعمیر کرنے میں مددگار بناتے ہیں۔ غیر یقینی صورت حال سے (کل کون سا قانون ہوگا) انگریزوں نے ہمیشہ پرہیز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شخصیات کے بجائے پورے نظام کے سر پر سہرا سجتا ہے۔ سنگاپور کو لی کوآن یو نے بنایا۔ ملائیشیا کا نام آتے ہی مہاتیر کا چہرہ ذہن کے پردے پر چھا جاتا ہے۔ چین کو آج کا چین بنانے میں مائوزے تنگ اور چواین لائی کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ لیکن ہانگ کانگ‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا اور کینیڈا کا نام آئے تو کوئی شخصیت نہیں یاد آتی۔ برطانیہ کا مجموعی نظام اور قانون یاد آتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ جب آزاد ہوا تو برطانوی نظام ہی تھا جسے لے کر اُس نے قدم آگے بڑھائے۔ قانون کی یقینی صورت حال‘ تسلسل‘ نجی شعبے پر اعتماد‘ اقتصادی سرگرمیوں پر ضروری کنٹرول لیکن منڈی کا مجموعی طور پر طلب اور رسد پر انحصار سرکاری شعبے پر اکائونٹس کے قوانین اور آڈٹ کی مکمل گرفت اور سب سے بڑھ کر عدلیہ کی آزادی۔ یہ تھے وہ عوامل جنہوں نے ہانگ کانگ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ کینیڈا‘ امریکہ اور خود برطانیہ کو ان ملکوں میں سرفہرست کھڑا کیا ہے جہاں آباد ہونے اور رہنے کے لیے دنیا بھر کے لوگ قطاروں میں کھڑے ہیں۔

Tuesday, April 01, 2014

ذرا انتظار کیجیے


بلوچستان میں رائج سرداری نظام کے پانچ ہزار سال مکمل ہونے پر پاکستان کو ان ممالک میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے جہاں آثارِ قدیمہ کی حفاظت احسن طریقے سے کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے پاکستان کو ایوارڈ بھی دیا جائے گا۔
پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی ہے۔ جس کی رو سے ملک میں زرعی اصلاحات کا نام لینے والے کو دس سال قیدِ با مشقت کی سزا دی جا سکے گی۔
ایک نیا ادارہ’’تاریخ پاکستان پر نظر ثانی‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ اس ادارے میں اس امر پر تحقیق کی جائے گی کہ پاکستان بنانے کا سارا کریڈٹ مسلم لیگ کو کیوں دیا جاتا ہے اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کو اس کے اصل مقام سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے۔
تازہ ترین سیاسی کانفرنس میں سہ فریقی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ بقائے باہمی کے اس معاہدے پر بلاول بھٹو، مونس الٰہی اور حمزہ شہباز نے دستخط کیے ہیں اور عہد کیا ہے کہ بزرگوں کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے باری باری حقِ حکمرانی ادا کرنے کے عمل کو جاری رکھا جائے گا۔
ادھر، رائے ونڈ میں دو فریقی کانفرنس کے اختتام پر مریم نواز اور حمزہ شہباز نے بھی پر امن بقائے باہمی کے سمجھوتے پر دستخط کر دیے ہیں۔ باریاں متعین کرنے کے لیے کمیٹی کا قیام عمل میں لا یا جا چکا ہے۔ 
پی این اے، جے یو آئی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی جماعتیں ’’ خاندانی کاروبار‘‘ کے طور پر سٹاک ایکس چینج کی رکن بنا لی گئی ہیں۔ ان پارٹیوں میں شامل چند سر پھروں نے پارٹیوں کے اندر الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا تھا اور خاندانی اجارہ داری کو ختم کرنے کی بات کی تھی۔ ان سر پھروں کی اصلاح کے لیے دانش وروں کی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو تبلیغ و تلقین کے ذریعے انہیں خاندانی اجارہ داری کا قائل کرنے کی سعی کرے گی۔ دانش وروں کی اس کمیٹی میں اعتزاز احسن، رضا ربانی، احسن اقبال، شاہی سید اور حافظ حسین احمد شامل ہیں۔ 
ایک روز پہلے انتخابات میں شکست کھا جانے والے جماعت کے امیر سے ان کی آئندہ مصروفیات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ فراغت کے اس دور میں وہ اپنے اُن منصوبوں پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن کے لیے انہیں وقت نہیں مل رہا تھا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے وہ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کا مد لّل جواب لکھیں گے۔
دوبارہ منتخب نہ ہو سکنے والے امیر نے اپنی جانشینی کے لیے دو اسمائے گرامی تجویز کیے تھے اور جماعت کے ووٹروں سے التماس کی تھی کہ ان میں سے ایک کو منتخب کر لیں۔ یہ دو نام مولانا صوفی محمد اور مولانا عبدالعزیز کے تھے۔ تاہم ووٹروں نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی اور سراج الحق صاحب کو پسند کیا۔ سراج صاحب کی ذاتی معاملات میں دیانت مثالی ہے اور بولنے میں توازن و احتیاط ملحوظ رکھتے ہیں۔ 
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی جناب اسد عمر نے طالبان سے درخواست کی ہے کہ وہ ریاست کے اندر ریاست نہ بنائیں، ہتھیار رکھ دیں اور فاٹا میں جمہوری عمل کا حصہ بن کر عوامی نمائندگی کریں۔ عوام کو یہ جان کر بے پایاں مسرت ہو گی کہ طالبان نے، جو معزز رکن قومی اسمبلی کی اس درخواست ہی کا انتظار کر رہے تھے، ان کی بات مان لی ہے۔ ہتھیار رکھ دیے ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ 
تحریک انصاف کو جے یو آئی(سمیع الحق گروپ) میں ضم کر دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف اپنے نوجوان ووٹروں کو، جن کی اکثریت ممی ڈیڈی اور برگر خاندانوں کے نوجوانوں پر مشتمل ہے، جہاد پر بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔ 
تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں امن قائم ہو جانے کے بعد وہاں سے فوج ہٹا لی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میںانہوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ چونکہ پشاور، راولپنڈی، منگلا، گوجرانوالہ، لاہور، گلگت، بہاولپور، کراچی اور کوئٹہ میں امن پہلے ہی سے جاری و ساری ہے، اس لیے ان علاقوں سے بھی فوجی چھائونیاں ختم کر دینی چاہئیں۔ 
مفتی صاحب نے فرمایا ہے کہ حکومت غیر جنگی قیدیوں کو رہا کر دے کیونکہ انہیں قید میں رکھنا اسلام کی رو سے جائز نہیں ہے۔ مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اسلام کی کسوٹی پر صرف حکومتی اقدامات ہی پرکھے جائیں گے۔
مذہبی رجحان رکھنے والے تاجروں نے علماء کی خدمت میں درخواست کی ہے کہ وہ جدید مسائل سے نمٹنے کے لیے اجتہاد کے بند دروازے کھولیں۔ علماء نے پوچھا کہ تاجر حضرات کے نزدیک یہ جدید مسائل کون کون سے ہیں؟ جو اب میں تاجر برادری نے تجویز پیش کی ہے کہ دروغ گوئی، عہد شکنی، ناجائز تجاوزات، ٹیکس چوری اور شے بیچتے وقت نقص چھپانے کو، پاکستانی تاجروں کے لیے جائز قرار دیا جائے تاکہ ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں بار بار عمرے اور صدقہ خیرات نہ کرنا پڑے۔
فرقہ وارانہ کشیدگی کم کرنے کے لیے اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے کہ ہر مسجد میں صرف ان نمازیوں کو داخل ہونے کی اجازت دی جائے جو اس مسجد میں نماز پڑھانے والے امام صاحب کے مسلک سے متفق ہوں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس سے مذہبی ہم آہنگی میں قابل تحسین اضافہ ہو گا۔
حکومتِ پنجاب نے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے صوبے کے دو زون بنا دیے ہیں۔ پہلے زون کا نام’’ خوشحال زون‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس میں بہاولپور، خانیوال، مظفر گڑھ، اٹک، چکوال، جہلم، راولپنڈی،جھنگ، میانوالی وغیرہ کے اضلاع شامل ہیں۔ دوسرے زون کا نام ’’مفلوک الحال زون‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس زون میں لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ کے قلاش اضلاع شامل کیے گئے ہیں۔ انصاف کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’’خوشحال زون‘‘ پر خرچ کیا جائے گا۔ 
نجی شعبے میں میڈیکل تعلیم کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت نے ایک ایک کنال کی عمارت میں میڈیکل کالج قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ مخصوص حالات میں دس مرلے کے مکان میں بھی میڈیکل کالج کھولنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ 
حکومت نے تاجروں، صنعت کاروں اور زمینداروں کو تلقین کی ہے کہ ملک میں جتنا گھی، چینی، گندم، گوشت، اناج، عمارتی لکڑی، سیمنٹ، سریا، ادویات، کپڑا، جوتے اور دیگر اشیائے ضرورت پیدا کی جا رہی ہیں، ان کا نصف حصہ پڑوسی ملک میں سمگل کرنے کے لیے مختص کر دیا جائے۔ 
کرپشن کم کرنے کے لیے حکومت اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ پڑوسی ملک سے لاکھوں کی تعداد میں جو لوگ پاکستان آکر یہاں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر رہے ہیں، انہیں یہاں آنے سے منع کر دیا جائے اور پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ انہیں ان کے اپنے ملک ہی میں فراہم کیے جائیں۔
یہ ساری خبریں محض خیالی ہیں لیکن ذرا انتظار کیجیے۔ امکان کی دنیا لا محدود ہے۔

 

powered by worldwanders.com