Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, March 20, 2014

اگر جان کی امان ملے


پہلی مثال۔۔۔۔۔ قرآن پاک میں طلاق دینے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ طلاق بہ دفعات واقع ہو گی اور شوہر دو دفعہ طلاق دینے کے بعد اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے ، لیکن جب تیسری بار طلاق دے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی اور علیحدگی کا نفاذ ہو جائے گا۔ سورۃ البقرہ کی آیت 229 اور 230 میں یہی بیان کیا گیا ہے۔ عہدِ رسالتؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓکے زمانے میں اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیتا تھا تو وہ ایک ہی طلاق سمجھی جاتی تھی ، لیکن حضرت عمرؓنے اپنے دور حکومت میں اس طریقے کوجو رسالت مآب ؐ نے اختیار کیا تھا‘ بند کر دیا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ ’’عہد رسالتؐ ‘ عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال تک بیک وقت تین طلاقوں کو ایک طلاق قراردیاجاتا تھا مگر حضرت عمرؓنے کہا کہ لوگوں کو جس معاملے میں رخصت و سہولت تھی اس کا دروازہ انہوں نے اپنی عجلت پسندی سے اپنے اوپر بندکر لیا ہے، اس لیے ہمیں بیک وقت تین طلاقوں کو طلاق بائن قراردیناچاہیے‘‘۔ چنانچہ آپ نے یہ تبدیلی نافذ کردی۔ سورہ بقرہ کی آیت 229کی تفسیر میں سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں: ’’حضرت عمرؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا آپ اس کو درّے لگاتے تھے‘‘۔
ایک کام جو رسول اکرمؐ کے زمانے میں ہو رہا تھا‘حضرت عمرؓنے اسے بندکرکے دوسرا حکم نافذکر دیا۔ قرآن پاک میں کہیں بھی ذکر نہیں کہ تین طلاقیں بیک وقت دینے والے کو درے مارے جائیں،لیکن حضرت عمرؓدرے مارتے تھے، کیوں؟اس لیے کہ مسلمانوں کا حکمران مصالح عامہ کی غرض سے وہ کام کر سکتا ہے جس کا تعین کلام پاک میں نہیں کیا گیا۔
دوسری مثال۔۔۔۔۔ اللہ نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے: ’’چور خواہ عورت ہو یا مرد‘دونوں کے ہاتھ کاٹ دو‘‘۔ اس میں نبی پاکؐ کی ہدایت یہ تھی کہ ایک ڈھال کی قیمت سے کم کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔احناف اسے دس درہم قرار دیتے ہیں۔ پھل ، پرندے اور ترکاری کی چوری میں بھی سزا نہیں ہے ، لیکن واضح احکام کے باوجود حضرت عمرؓنے اونٹ کی چوری پر چورکو معاف کر دیا۔ حاطب نامی شخص کے غلاموں نے ایک صاحب کا اونٹ چرایا۔اقرار جرم پر فاروق اعظمؓ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا لیکن جو صاحب ہاتھ کاٹنے جا رہے تھے‘ انہیں واپس بلا لیا اورغلاموں کے مالک سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’بخدا اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ تم غلاموں سے کام لیتے ہواور پھر انہیںاس حد تک بھوکا مارتے ہوکہ خدا کی حرام کی ہوئی چیزیں ان کے لیے حلال ہو جاتی ہیں تو میں ضرور ان کے ہاتھ کٹوا دیتا‘‘۔ پھر آپؓ نے غلاموں پر حد معاف فرما دی اور غلاموں کے مالک کو حکم دیا کہ وہ اونٹ کی قیمت سے دوگنا رقم اونٹ کے مالک کو ادا کرے۔
حضرت عمرؓمسلمانوں کے حکمران کی حیثیت سے نہ صرف یہ کہ نص کے مطابق سزا نہیں دیتے بلکہ غلاموں کے مالک پر اونٹ کی قیمت کا دوگنا جرمانہ نافذکرتے ہیں۔کیا قرآن پاک میں اس کا تعین کیا گیا تھا؟کیا عہد رسالتؐ میں ایسا کیا گیا تھا؟نہیں ۔ لیکن حضرت عمرؓ نے ایسا کیا ، اس لیے کہ آپؓ احکام کی روح کو دیکھتے تھے اور مسلمانوں کے اس وقت کے حالات کو پیش نظر رکھتے تھے۔
تیسری مثال۔۔۔۔۔مال غنیمت کے سلسلے میں قرآن پاک میں واضح اصول بتا دیا گیا ہے:’’اور جان لوکہ جوکچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے‘‘۔ (سورہ انفال:41) چنانچہ مسلمان ہر جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد مال غنیمت کا خمس الگ کرکے امیرالمومنین کی خدمت میں بھیج دیتے اور باقی لشکریوں میں تقسیم کردیا جاتا ، لیکن جب عراق کی زمین فتح ہوئی اور مسلمان فوجیوں نے قرآنی حکم کے مطابق چاہا کہ زمین کا پانچواں حصہ بیت المال کو دیا جائے اور باقی زمین افواج میں تقسیم کر دی جائے تو حضرت عمرؓنے اجازت نہ دی ۔ ان کا موقف یہ تھا کہ زمینیں اورکاشت کار فاتحین میں تقسیم کئے تو یہ وراثت میں انہی خاندانوں کے پاس رہ جائیں گی ، پھران مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے؟ وہ چاہتے تھے کہ زمین کاشت کاروں کی ملکیت ہی میں رہے اور ان پر لگان نافذکیا جائے تاکہ حفاظتی چوکیوں اور بڑی بڑی چھائونیوں پراٹھنے والے اخراجات پورے ہو سکیں۔
فاتحین نے امیر المومنینؓ سے اختلاف کیا ، تب امیر المومنینؓنے مسلمانوں سے مشورہ کیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف فاتحین کی رائے سے اتفاق کر رہے تھے اور حضرت عثمانؓحضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ امیرالمومنینؓ کے ہم خیال تھے۔ پھر آپ نے انصارکے دس معززین کو بلا کر ان سے بات کی، یہاں تک کہ اکثریت نے آپ کی حمایت کی ،چنانچہ آپؓ نے حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ کو خط لکھا اور حکم دیا کہ زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے لیے چھوڑ دو جوان زمینوں میںکام کرتے ہیں۔
یہاں بھی حضرت عمرؓنے قرآن پاک کی واضح نص کا اطلاق مفتوح زمینوں پر نہ کیا ؛حالانکہ اس استثنا کا ذکرکہیں بھی نہ تھا۔کلام اللہ میں نہ سنت میں ، اس لیے کہ مصالح عامہ کا تقاضا اس وقت یہی تھا۔
بے شمارایسی مثالیں ہیں ۔ تاریخ کے ہر دور میں مسلمان حکمرانوں نے مسلمان عوام کے وسیع تر مفاد کی خاطر وہ پابندیاں عائد کیں جواللہ اور رسولؐ کے زمانے میں نہیں تھیں۔فقہائے کرام نے ’’قانون تحدید‘‘ (Law of Ceiling) پیش کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امیر اور غریب میں فرق بہت زیادہ ہو جائے اور مسلمانوں کی مجموعی حیثیت کو چند افراد کی بڑی بڑی ملکیتیں ضرر پہنچانے لگ پڑیں تو مسلمانوں کی ریاست ملکیت کی حد مقررکر سکتی ہے یعنی ایک فرد ایک خاص حد سے زیادہ زرعی زمین اور ایک خاص حد سے زیادہ جائداد یا دولت کی کوئی بھی اور شکل اپنی ملکیت میں نہیں رکھ سکے گا ۔ فرد اگر اپنی بے تحاشا دولت اس طرح خرچ کرتا ہے کہ مسلمانوںکواس سے نقصان پہنچ رہا ہے تواس خرچ پر بھی قدغن لگائی جا سکتی ہے۔
بالکل اسی طرح مسلمانوں کے مفاد عامہ میں مسلمانوں کی حکومت شادی کی عمرکے حوالے سے پابندی عائدکر سکتی ہے۔ اسلام نے جزئیات طے نہیں کیں اس لیے کہ یہ آفاقی مذہب ہے ، صرف ایک زمانے اور ایک حالت کے لیے نہیں۔آخر حضرت عمرؓنے وہ پابندیاں کیوں عائدکیں جن کا ذکر قرآن پاک میں ہے نہ حدیث میں؟ آپ نے تو ایک حسین و جمیل مردکو مدینہ سے جلا وطن کر دیا تھاکہ وہ عورتوں کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے۔کیا قرآن پاک میں ایسا کرنے کی اجازت دی گئی ہے؟ نہیں ، اس لیے کہ تفصیلی معاملات مسلمانوں کے اجتماعی نظام پر چھوڑدیے گئے ہیں، شوریٰ کرے یا پارلیمینٹ یا علمائے کرام کا بورڈ۔ بہت سے فیصلے ہم عصر تقاضوں کی روشنی میں کیے جائیں گے۔
آج جس طرح کم سن بچیوں کو ونی اورسوارا کی غیر اسلامی مکروہ رسموں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اور جس طرح جرم کرنے والے مردوں کی چھوٹی چھوٹی بہنیں ظلم کا شکار ہو رہی ہیں ، اس کے پیش نظرکم سن بچیوں کے نکاح پر پابندی مصلحت عامہ کے عین مطابق ہے۔
رہی یہ دلیل کہ نکاح کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓکی عمر مبارک نو سال کی تھی‘ تو یہ بات متنازع ہے ، اس پر ہمیشہ اختلاف رہا ہے اور یہ نظریہ بھی موجود ہے کہ ان کی عمر نو سال سے کہیں زیادہ تھی ۔ حضرت عائشہ ؓکی مثال دینے والے یہ بھول رہے ہیں کہ آقائے دو جہاں نے جب حضرت خدیجہؓ سے شادی کی تو آپؐ کی عمر 25سال اورام المومنین حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی ، پھر جب حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی تو وہ اس وقت 65برس کی تھیں اورنبی اکرمؐ پچاس برس کے تھے! یعنی سارا شباب مبارک جس مقدس خاتون کے ساتھ گزرا وہ پندرہ سال عمر میں بڑی تھیں!
کم سن بچیوں کی شادی کو ’’اسلامی‘‘ قرار دینے والے حضرات اس حقیقت کوکبھی اہمیت نہیں دیتے کہ شادی کرتے وقت عورت کی عمر جتنی بھی ہو‘ اس کی رضامندی کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی۔ عورت کو اپنی پسندکی شادی کا حق اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے دیا ہے۔ افسوس ! آج یہ حق اس سے چھیننے والے اسلام کا نام استعمال کر رہے ہیں!!

1 comment:

Anonymous said...

I wаntеd to thank you for this very gοod read!! I absolutely loved everу
little bit of it. I have got you saved as a faorite to cɦeck oսt new
stuff you post…

Also visit my web-site; parajumpers sverigeparajumpers trondheim

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com