Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, October 29, 2013

ڈاکٹروں کی پانچوں گھی میں

ڈاکٹر سے میں نے ایک ہی سوال کیا۔’’ تم پاکستان واپس کیوں نہیں آتے ؟ کیا اس ملک کا تم پر کوئی حق نہیں ؟‘‘
’’ اس سوال پر ہنسوں یا روئوں؟‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا ’’ کئی دانشور پوچھ چکے ہیں اور جب اس کا سوال جواب دیتا ہوں تو موضوع کا رُخ تبدیل کردیتے ہیں یا منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔‘‘
’’یہ درست ہے کہ مجھے ڈاکٹر بنانے پر قوم نے اپنے وسائل خرچ کیے لیکن ڈاکٹر بنانے کے بعد قوم جو سلوک کرتی ہے اسے کوئی نہیں دیکھتا۔ ڈاکٹر بن گیا۔ اس کے بعد کئی سال تک ڈگری بغل میں دباکر جوتے چٹخاتا رہا۔ جب بھی کسی سرکاری ہسپتال میں کوئی اسامی نکلتی۔انٹرویو دیتا اور کبھی وجہ نہ بتائی جاتی کہ میری تعیناتی کیوں نہیں ہوسکتی تھی۔ جو ڈاکٹر نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے، بتاتے ہیں کہ یہاں ڈگری اصل ڈگری نہیں ہے۔ اصل ڈگری یہ ہے کہ تمہاری سفارش ہو اور وہ بھی تگڑی۔ چھوٹی موٹی سفارش کو تو تعیناتی کرنے والی اتھارٹی مانتی ہی نہیں۔ پھر میں ایک نجی ہسپتال میں کام کرنے لگ گیا جہاں پہلے تین ہزار اور پھر پانچ ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے ۔وہ سلوک اس پر مستزاد تھا جو روا رکھا جاتا تھا اور جو ناگفتنی ہے! خدا خدا کرکے سرکاری نوکری ملی لیکن اس دن میری عزت کے پرخچے اڑ گئے جس دن ڈپٹی کمشنر کی ماں بیمار تھی اور مجھے اس کے محل میں طلب کیاگیا۔ جس طرح وہ پیش آیا، اس میں میرے لیے واضح پیغام تھا کہ ٹیکنو کریٹ کی اس ملک میں کبھی کوئی عزت نہیں ہوگی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ڈپٹی کمشنر فیوڈل لارڈ ہے اورمیں ،ڈاکٹر ،اس کا مزارع ‘‘۔
’’ پھر میں باہر چلاگیا اور سرجن بن گیا۔ حب الوطنی کا سودا سر میں تھا۔واپس آیا۔ اب معلوم ہوا کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کا مافیا کس طرح کام کرتا ہے۔ سرجن کے پاس آپریشن کا کیس اس وقت آئے گا جب کوئی ڈاکٹر یعنی فزیشن مریض کو سرجن کے پاس ریفر کرے گا۔ یہاں ہر شخص حصہ مانگتا تھا۔ ریفر کرنے والا، آپریشن کرنے والے سے حصہ مانگتا تھا اور آپریشن کرنے والا لیبارٹریوں سے بھتہ مانگتا تھا۔ یہ درست ہے کہ یہ مافیا ڈاکٹروں ہی پر مشتمل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب حکومت کو معلوم ہے کہ کون سا ڈاکٹر بددیانت ہے اور کون ایماندار، تو آخر بددیانت ڈاکٹروں کی سرپرستی کیوں کی جاتی ہے؟ انہیں مشہور ہسپتالوں اور معروف اداروں میں کیوں تعینات کیاجاتا ہے؟‘‘
یہ ایک چشم کشا داستان تھی! پھر ڈاکٹروں کے اغوا شروع ہوگئے۔ کراچی میں ڈاکٹروں کو چُن چُن کر مارا گیا۔پشاور سے ڈاکٹروں کو پکڑ پکڑ کر علاقہ غیر میں لے جایاگیا جہاں وہ غلاموں کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ داستان سنانے والا ڈاکٹر خوف زدہ ہوکر ملک چھوڑ گیا۔
اب وہ ایک ترقی یافتہ ملک میں رہتا ہے۔ اس ایشیائی کے گھر میں ہفتے میں دوبار جو عورت گھر کی صفائی کرنے آتی ہے وہ سفید فام ہے۔ ما ں آئرلینڈ سے تھی اور باپ اطالوی تھا۔ پورے گھر سے گرد جھاڑتی ہے ،بیت الخلاء صاف کرتی ہے، کچن دھوتی ہے اور گھر کو چمکاتی ہے۔ ڈاکٹر کے گھر میں اس کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے جو نینی آتی ہے وہ بھی سفیدفام ہے۔وہ بچوں کے ارد گرد منڈلاتی رہتی ہے ،کبھی کوشش کرتی ہے کہ وہ کچھ پڑھ لیں اور کبھی انہیں کچھ کھلا رہی ہوتی ہے!
ساری دنیا میں ٹیکنو کریٹ کی اہمیت دوچند بلکہ کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب مغربی دنیا میں سفید فام تاجروں ، زمینداروں اور حکمرانوں کے گھروں میں ایشیائی اور افریقی ملازمتیں کرتے تھے۔ برتن دھوتے تھے ، جھاڑو دیتے تھے اور کھانے پکاتے تھے۔ وہ زمانہ لدگیا، اب اہمیت اس کی ہے جو ڈاکٹر ہے ، انجینئر ہے، کمپیوٹر کا ماہر ہے ، لیکن افسوس! وہ زمانہ پاکستان میں بدستور موجود ہے۔ یہاں ٹیکنو کریٹ کی اہمیت آج بھی وہی ہے جتنی سو سال پہلے تھی۔ یہاں آج بھی بادشاہی فیوڈل لارڈ کی ہے اور ڈپٹی کمشنر کی یا ڈی سی او کی ہے۔ صوبے کا سیکرٹری صحت آج بھی لارڈ کلائیو سے کم نہیں۔ چاہے تو گھوڑے پر لکڑیاں لادنے کا حکم دے دے اور چاہے تو گدھے پر زین کس کر سنہری لگام پہنا دے۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں کس ڈاکٹر نے شرکت کرنی ہے اس کا فیصلہ وہ سیکشن افسر ، وہ ڈپٹی سیکرٹری اور وہ سیکرٹری کرتا ہے، جسے میڈیکل کی اور میڈیکل کانفرنسوں کی الف ب سے بھی شناسائی نہیں! وفاقی سیکرٹری صحت کی تو بات ہی کیا ہے ۔ وہ تو بادشاہوں کا بادشاہ اور شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے ۔ آپ پاکستان میں بیورو کریسی کی دھاندلی اور جہالت کا اندازہ اس ایک بات سے لگاسکتے ہیں کہ پوری مہذب دنیا میں ادویات جنرک ناموں سے تجویز کی جاتی ہیں مگر پاکستان میں کمپنیوں کے برانڈ نام چلتے ہیں۔ جو کمپنی محکمہ صحت کے اہلکاروں ، کارپردازوں اور اعلیٰ عہدیداروں کے منہ میں ہڈی ڈالتی ہے اس کی بنائی ہوئی ادویات اس کے اپنے ناموں سے چلتی ہیں۔یادش بخیر جنرل پرویز مشرف نے اپنے ایک پسندیدہ نوکرشاہی کے رکن کو جو سالہا سال وفاقی سیکرٹری انفارمیشن رہا ، صحت کا وفاقی سیکرٹری بھی بنائے رکھا ،حالانکہ اس کی اس شعبے سے واقفیت اتنی ہی تھی جتنی پرویز مشرف کی رموزِمملکت سے تھی!
پاکستان میں ٹیکنو کریٹس کا مستقبل بالعموم اور ڈاکٹروں کا بالخصوص ’’روشن اور تابناک ‘‘ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال ان کی کھال اتار کر اس سے روپیہ بناتے ہیں اور مزید برانچیں کھولتے ہیں۔سرکاری ہسپتال ان سے سفارش کی بنیاد پر وہ سلوک کرتے ہیں جو مناسب ہوتا ہے۔تخصص (Specialization) کرلیں تو ایک اور مافیا ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگتا ہے اور جب مسلسل محنت سے ، زندگی بھر کام کرکرکے چند پیسے کما لیں اور آرام دہ زندگی گزارنے کے قابل ہوجائیں تو اغوا کرلیے جاتے ہیں ۔ گویا پانچوں گھی میں اور سرکڑھائی میں !
آپ اگر اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانے کا سوچ رہے ہیں تو یہ سارا نفع نقصان اچھی طرح سمجھ لیں ۔اگر آپ کا بچہ ڈاکٹر بن چکا ہے تو آپ سے ہمدردی ہی کی جاسکتی ہے ! آپ عقل مند ہوتے تو اسے اسلحہ چلانا سکھاتے!

Friday, October 25, 2013

ڈاکٹر‘ دوا اور لواحقین

یہ جولائی 2012ء کی بات ہے۔ جماعت الدعوۃ کے امیر جناب حافظ سعید نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا۔ یہ مقدمہ ’’وی آئی پی کلچر‘‘ کے خلاف تھا۔ حافظ صاحب نے عدالت کے سامنے وی آئی پی کلچر کی کئی مثالیں پیش کیں۔ گورنر پنجاب کا محل 68 ایکڑ پر محیط ہے۔ کمشنر اور دیگر ا ہلکار سو سو ایکڑ کے محلات میں بادشاہوں کی طرح رہتے ہیں۔ ’’انہیں پانچ پانچ مرلے کے گھروں میں رکھو اور نوکروں‘ خدمت گاروں کے لشکر ختم کرو‘‘۔ حافظ صاحب کے وکیل نے کہا: ’’حافظ صاحب نے فریاد کی کہ پاکستان کے حکمران گھوڑوں کے لیے ائیرکنڈیشنڈ اصطبل تیار کراتے ہیں۔ صدر مملکت کے سٹاف کے روزانہ اخراجات دس لاکھ روپے ہیں۔ بارہ لاکھ وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ہیں۔ بیس لاکھ روزانہ سینیٹ کے ہیں۔ چالیس لاکھ روزانہ نیشنل اسمبلی کے ہیں اور بیس کروڑ روزانہ کیبنٹ سیکرٹریٹ کے ہیں۔ جب کہ 75 سالہ لطیف خان گزشتہ تیس سالوں سے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں پرانے کاغذ چن کر دو وقت کی روٹی کھا رہا ہے‘‘۔ 
حافظ صاحب کے وکیل نے اور بھی کئی مثالیں دیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس مقدمے کا کیا بنا؟ لیکن حافظ صاحب نے اپنے دلائل میں ایک دلیل ایسی دی جس پر اگر غور کیا جائے تو ہمارے لیے کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’برطانوی وزیراعظم چار بیڈ روم کے ایک ایسے گھر میں رہتا ہے جو سترھویں صدی میں بنا تھا اور ایک چھوٹی سی گلی میں واقع ہے۔ جب سورج سلطنت برطانیہ پر غروب نہیں ہوتا تھا اُس وقت بھی اُس ملک کا چیف ایگزیکٹو چند 
مرلوں کے اسی گھر میں رہتا تھا۔ یہ حقیقی معنوں میں اسلامی طرز ہے اور رسول اکرمؐ کی سنت پر عمل پیرا ہونے والی بات ہے‘‘۔ 13 جولائی 2013ء کے تمام اخبارات نے حافظ صاحب کے اس مقدمے کی خبر شائع کی اور لکھا… ’’درخواست گزار نے عدالت سے درخواست کی کہ وفاقی سیکرٹری قانون‘ سیکرٹری داخلہ‘ چیف سیکرٹری پنجاب‘ وزیراعظم‘ صدر مملکت اور دیگر تمام مدعا علیہ حضرات کو ہدایت کی جائے کہ وہ برطانوی اہلکاروں اور سرکاری عہدہ داروں کی قائم کردہ مثال کی پیروی کریں جو بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن پھر بھی یوں لگتا ہے کہ وہ سنتِ رسولؐ کی پیروی کر رہے ہیں‘‘۔ 
حافظ صاحب کے مقدمے کو یہیں چھوڑ کر اب ہم ایک مریض کا حال پوچھنے جاتے ہیں جسے ڈاکٹر نے دوا دی اور ساتھ ہی یہ ہدایت کی کہ صاف ستھرے کمرے میں رہنا ہے۔ بستر کی چادر ہر روز بدلنی ہے۔ ہر روز دُھلے ہوئے کپڑے پہننے ہیں۔ مرچ‘ چکنائی‘ گرم مصالحوں اور چربی والے گوشت سے مکمل پرہیز کرنا ہے۔ مریض دوائی باقاعدگی سے لیتا رہا لیکن اس کے کمرے سے بُو آتی تھی اور کاکروچ‘ کھٹمل‘ چوہے ہر طرف دوڑتے پھرتے تھے۔ بستر کی چادر کبھی سفید تھی لیکن اب سیاہ تھی۔ مریض کے کپڑوں کو دیکھ کر ابکائی آتی تھی۔ رہا خوراک کا پرہیز تو یہ اللہ کا بندہ‘ صبح شام 
بازار سے گندے تیل میں تلے ہوئے پکوڑے منگوا کر اُن پر چاٹ مصالحہ چھڑک چھڑک کر کھاتا تھا۔ چپل کباب‘ نہاری‘ مغز‘ حلوہ پوری اس کی روزانہ کی خوراک تھی۔ چند دنوں میں وہ لقمۂ اجل بن گیا۔ اب اُس کے لواحقین ڈاکٹر کی جان کے در پے ہیں کہ اس نے دوا غلط تجویز کی تھی!! 
ہم جب جمہوریت کو بُرا بھلا کہتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنے گناہوں کا بوجھ جمہوریت کے کندھوں پر ڈال رہے ہیں۔ بھارت نے 1951ء میں زرعی اصلاحات نافذ کیں۔ ریاستیں‘ راجواڑے‘ شہزادے‘ راجے مہاراجے ختم کر دیے۔ بڑے بڑے نواب اپنے محلات میں ہوٹل کھولنے پر مجبور ہو گئے۔ زرعی زمین کی ملکیت کی تحدید کی گئی۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نشستیں اسمبلیوں میں آج تک چلی آ رہی ہیں۔ ہم نے بلوچستان میں ایک رتی کے برابر اصلاحات نہیں کیں۔ 
آج اکیسیویں صدی میں بگٹی سردار دن دیہاڑے سرداری نظام کا دفاع کرتے پھرتے ہیں اور جلتے انگاروں پر ملزموں کو چلا کر سچا یا جھوٹا قرار دینے کو درست قرار دے رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے قاتل کو ایک ہزار ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ملازم اپنی جائز ماہانہ تنخواہ سردار کی پرچی کے بغیر قومی خزانے سے نہیں لے سکتے۔ جو گیس کوئلہ معدنیات ریاست کی ملکیت ہیں ان کی رائلٹی مخصوص خاندان لے رہے ہیں۔ ہم نے چھیاسٹھ برسوں میں وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں ایک کالج‘ ایک یونیورسٹی نہیں بنائی‘ ایک کارخانہ نہیں لگایا۔ ٹیکس ملک میں صرف آٹھ فی صد آبادی دے رہی ہے۔ قاتل سیاست دانوں کے ڈیروں میں محفوظ بیٹھے ہیں۔ حکمرانوں کے بیٹے بھتیجے بادشاہ بنے پھرتے ہیں۔ اللہ کے بندو! یہ سارے جرائم تو ہمارے ہیں۔ جمہوریت کا اس میں کیا قصور ہے؟ اگر یہ ساری خرابیاں جمہوریت میں ہوتیں تو برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ سنگاپور میں بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا۔ اور حافظ سعید جیسا کٹر مسلمان‘ جس نے پورے بھارت پر لرزہ طاری کیا ہوا ہے‘ برطانوی وزیراعظم اور برطانوی اہلکاروں کی مثالیں نہ دیتا! 
اسلام ہمیشہ کے لیے ہے اور ہر زمانے میں قابلِ عمل ہے۔ اسی لیے اسلام نے دوسرے مذاہب کی طرح اپنے پیروکاروں کو ناقابلِ عمل غیر فطری احکام میں قید نہیں کیا۔ کسی مذہب نے گوشت اور انڈے حرام قرار دیے اور کسی نے اپنے مذہبی رہنمائوں کو شادی کرنے سے منع کردیا؟ اسلام نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ اس نے بنیادی اصول بتائے اور پابندی صرف یہ لگائی کہ جو کچھ کرنا چاہتے ہو‘ کرو‘ ان بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ لباس کے معاملے میں ستر کا حکم دیا۔ اسلام کو معلوم تھا کہ الاسکا اور نیوزی لینڈ میں بھی مسلمان رہیں گے اور لباس وہاں کے موسم کے مطابق پہنیں گے۔ خوراک میں اس نے حرام حلال کی تخصیص کی اور پھر مقامی ثقافت کو آزادی دے دی۔ یہی طرزِ ہدایت حکمرانی کے اسلوب میں روا رکھا۔ بنیادی اصول بتا دیے‘ بیت المال پر حکمرانوں اور اہلکاروں کا حق نہیں۔ بڑھیا حکمران کو چیلنج کر سکتی ہے۔ اقربا پروری نہیں ہوگی اور پھر لوگوں کی صوابدید اور زمانے کے تقاضوں پر چھوڑ دیا۔ شوریٰ کو پارلیمنٹ کہنے سے منع نہیں کیا۔ 
کتنی بڑی غلط فہمی ہے یہ کہنا کہ جمہوریت عوامی نمائندوں کو حقِ حکمرانی دیتی ہے۔ مسلمان عوامی نمائندے اللہ کی حاکمیت کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے کسی رکن کی مجال ہی نہیں کہ وہ اللہ کی حاکمیت کے آگے سر نہ جھکائے اور ایسی قانون سازی کرے جو اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ کیا پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ مسلمان نہیں؟ آخر ہم میں سے ہر شخص اپنے آپ ہی کو دوسروں سے بہتر مسلمان کیوں سمجھتا ہے؟ 
اگر جاگیروں اور زمینداریوں نے یونہی قائم دائم رہنا ہے‘ اگر تعلیم عام نہیں ہونی‘ اگر قبائلی علاقوں میں سمگلروں اور خانوں ہی نے حکمرانی کرنی ہے‘ اگر سرداری نظام تبدیل نہیں ہونا‘ اگر حکومت قانون کی نہیں‘ بلکہ سفارش ا ور اقربا پروری کی رہنی ہے تو پھر جمہوریت کے بجائے کوئی نظام بھی لے آیئے‘ نتیجہ وہی رہے گا!

Thursday, October 24, 2013

احمد رضا کا قاتل کون ہے؟

اُن پانچ کے گلے تو پتلی تار کے ساتھ اسی لیے گھونٹے گئے کہ وہ جائداد کے مالک تھے۔ سترہ سالہ رومانہ اور چودہ سالہ آدم کے ساتھ سات سالہ حیدر بھی اس لیے قتل کیا گیا کہ اس کے باپ اور ماں کے نام زمین تھی۔ ہاتھ پائوں رسیوں کے ساتھ باندھے گئے‘ منہ ٹیپ سے بند کیے گئے اور آسٹریلیا سے وطن واپس آنے کی سزا دی گئی۔ عامر اللہ خان نے جب کلاشنکوف ٹائپ کا کوئی ہتھیار خریدا تو آسٹریلیا سے اُس کے دوستوں نے اسے کہا کہ تم اتنی بڑی کمپنی کے ایگزیکٹو ہو‘ تمہیں یہ خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ عامر اللہ خان کا جواب تھا کہ پاکستان میں رہنے کے لیے تمہیں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ 
لیکن تین سالہ احمد رضا کا کیا قصور تھا؟ اس کے باپ کے پاس تو جائداد تھی نہ ماں کے نام زمین؟ ان لوگوں نے تو مشکل سے ایک موٹر سائیکل رکھا ہوا تھا۔ چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی احمد رضا کو کیوں قتل کیا گیا؟ سات سالہ حیدر کا باریک تار سے قتل تو اس ملک میں منطقی جواز رکھتا ہے‘ اس لیے کہ غربت کی طرح امارت بھی اس سرزمین پر جرم ہے خاص طور پر وہ امارت جو خون پسینے کی محنت سے حاصل کی گئی ہو۔ اس ملک میں اگر آپ ڈاکٹر ہیں‘ وکیل ہیں‘ کسی بڑی کمپنی کے ایگزیکٹو ہیں اور سیاست سے دور ہیں تو پھر آپ کو یا آپ کے متعلقین کو یہاں امن و امان سے رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ہاں اگر آپ سیاست میں دخیل ہیں‘ علاقے کے ناخدا ہیں‘ پولیس آپ کی جیب میں ہے۔ سرکاری ملازموں کے تبادلے کرا سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کی کمان میں دس بیس پچاس سو یا دو سو بندوق بردار پرائیویٹ فورس بھی کام کر رہی ہے تو پھر تو آپ یہ سمجھیے کہ یہ ملک آپ کا ہے اور آپ اس سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ 
تین سالہ احمد رضا کے گلے پر جب ڈور پھری ہے ا ور اس کا گلا کٹا ہے تو ہلکی سی چیخ تو نکلی ہوگی۔ تین سالہ بچے کے گلے سے نکلی ہوئی چیخ کتنی بلند ہوگی؟ چڑیا کی چیخ کی طرح؟ کبوتر کی چیخ جتنی؟ تو کیا اُن لوگوں نے سنی ہوگی جو تکّے کھا کر چڑے اڑا کر پتنگیں اُڑا رہے تھے؟ کیا یہ باریک چیخ… اتنی ہی باریک جتنی باریک وہ ڈور تھی جس نے گلا کاٹا… ڈیڑھ دو گھنٹوں کی مسافت پر واقع وزیراعلیٰ ہائوس میں سنی گئی ہوگی جہاں سب کے گلے محفوظ تھے؟ جہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کون سا وزیراعلیٰ ہائوس؟ تو تین چار یا زیادہ وزیراعلیٰ ہائوسز میں سے جو ہائوس گوجرانوالہ سے نزدیک تر تھا‘ کیا خبر وہاں تین سالہ احمد رضا کی چیخ کی ہلکی سی پرچھائیں پڑی ہو! امجد جب شادی کی تقریب سے نکلا تو اس نے اپنی چھ بیٹیوں کے اکلوتے بھائی کو موٹر سائیکل پر اپنے آگے بٹھا لیا۔ گوجرانوالہ کی اپر چناب روڈ گواہ ہے اس بات کی کہ جب تین سالہ احمد رضا وہاں سے گزر رہا تھا تو اس وقت تک اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا لیکن ابھی موٹر سائیکل نے اپر چناب روڈ کا سفر ختم نہیں کیا تھا کہ ڈور پھری اور احمد رضا کی شہ رگ کٹ گئی۔ چھ بہنیں میت سے لپٹ لپٹ کر رو رہی تھیں لیکن آہ! تین سالہ احمد رضا کی میت تو اتنی چھوٹی تھی کہ چھ بہنیں بیک وقت لپٹ ہی نہیں سکتی تھیں۔ اُس کی تو لاش بھی ننھی سی تھی۔ تین سال کے صرف چھتیس مہینے ہی تو بنتے ہیں! چھتیس مہینوں میں احمد رضا کتنا بڑا ہو سکتا تھا! 
گوجرانوالہ اور لاہور کے زندہ دلوں کو سلام! جو خوش خوراکی کے ساتھ پتنگ اڑانے کے لیے بھی مشہور ہیں‘ لیکن تفریح کے نام پر قتل صرف گوجرانوالہ اور لاہور ہی میں نہیں ہوتے۔ ہمارے بھائی جو خیبر پختونخوا میں رہتے ہیں‘ خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں تو کئی معصوم جانیں ان کی خوشی پر قربان ہو جاتی ہیں۔ 
کیا سارا حساب کتاب روزِ آخرت پر چھوڑا جا رہا ہے؟ کیا کسی نے حساب لگایا ہے کہ پچھلے پندرہ یا بیس سالوں میں ڈور پھرنے سے اور ہوائی فائرنگ کرنے سے کتنے بے گناہ ہلاک ہوئے ہیں؟ اور ان کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ان کی ذمہ دار ریاست نہیں ہے؟ کیا حکمران نہیں ہیں؟ جس ملک میں وعظ کرنا اور وعظ سننا لوگوں کا مشغلہ ہو اس ملک میں ہر شخص نے یہ بات سنی ہوئی ہے کہ فرات کے کنارے مرنے والے کتے کی ذمہ داری امیر المومنین پر تھی۔ تو کیا ہمارے بچے‘ ہمارے احمد رضا فرات کے کنارے مرنے والے کتوں سے بھی گئے گزرے ہیں؟ 
اُس خدا کی قسم! جس نے احمد رضا کو پیدا کیا اور زندگی دے کر اس ملک میں بھیجا‘ ریاست کے حکمران ضرور پکڑے جائیں گے۔ اس دنیا میں۔ اس دنیا میں نہیں تو ایک اور دنیا میں…! 
اور ایک بات… اگرچہ غلیظ گالیوں سے بھری ہوئی ای میلوں میں اس بات سے خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ اگر کافروں کے کسی ملک میں… اگر سنگاپور میں‘ سوئٹزرلینڈ یا کینیڈا میں‘ اگر ڈنمارک‘ ناروے یا جرمنی میں… ڈور پھرنے سے یا ہوائی فائرنگ سے ایک شخص بھی ہلاک ہوتا تو ریاست وہ ایکشن لیتی کہ ایسا سانحہ دوبارہ ناممکنات میں سے ہوتا۔ ڈور استعمال کرنے والے تو رہے ایک طرف‘ ڈور بنانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ آسٹریلیا کے موسم گرما میں درجۂ حرارت بڑھتا ہے تو پودوں پتوں اور گھاس کو خود بخود آگ لگ جاتی ہے۔ باربی کیو آسٹریلیا کا قومی شعار ہے۔ ہر پارک‘ ہر پکنک سپاٹ‘ ہر باغ میں باربی کیو کے لیے گیس کا انتظام سرکار نے کیا ہوا ہے۔ ہر گھر کے صحن میں باربی کیو کا چبوترہ بنا ہوا ہے۔ جس دن درجۂ حرارت ایک خاص حد سے زیادہ ہوتا ہے تو حکومت اعلان کرتی ہے کہ آج باربی کیو پر پابندی ہے۔ اُس خدا کی قسم! جس نے احمد رضا کو پیدا کیا‘ یہ پابندی ہر پارک‘ ہر پکنک سپاٹ اور ہر باغ میں نبھائی جاتی ہے۔ اپنے گھروں کے پچھواڑوں میں بھی باربی کیو کوئی نہیں بناتا۔ اس لیے کہ سب جانتے ہیں یہ پابندی کسی کے ذاتی مفاد کے لیے نہیں‘ یہ تو اجتماعی بہبود کے لیے عائد کی گئی ہے۔ لیکن یہ وہ حکومتیں ہیں جن کے وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور وزیر قوم کے سامنے جواب دہ ہیں۔ جن سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جاتا ہے۔ جنہیں وزارتوں سے اس لیے برطرف کردیا جاتا ہے کہ سرکاری پیڈ کے کاغذ پر ذاتی سفارش کیوں کی؟ 
احمد رضا کا قاتل کون ہے؟ ڈور بنانے والے؟ بیچنے والے؟ اُس سے پتنگ اڑانے والے؟ کاٹنے والے؟ یا ریاست؟… یا یہ سارے؟

Monday, October 21, 2013

وزیراعظم تاریخ ہی نہیں تقدیر بھی بدل سکتے ہیں لیکن…

خدا چھپر پھاڑ کر دیتا ہے اور پھر جب دیکھتا ہے کہ برتن چھوٹا ہے تو نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔ بے یارو مددگار غریب الوطن بابر کو شمالی ہند کی سلطنت ملی۔ پھر ایک وقت آیا کہ کابل اور بدخشاں کے پہاڑوں سے لے کر… بنگال اور آسام کی دلدلوں تک اورنگ زیب کی حکمرانی تھی۔ پھر برتن چھوٹا پڑتا گیا۔ یہاں تک کہ ہر خاص و عام کی زبان پر ایک ہی بات تھی۔ سلطنتِ شاہ عالم۔ از دِلّی تا پالم۔ پالم دِلّی کا وہ نواحی علاقہ تھا جہاں بعد میں ہوائی اڈہ بنا۔ 
قدرت نے ہمیں چھپر پھاڑ کر شاہ عالم عطا کیے۔ اتنے کہ اب ایک شاہ عالم کے بعد دوسرا شاہ عالم آتا ہے۔ 1947ء سے لے کر اب تک کے حکمرانوں… معاف کیجیے گا‘ بادشاہوں کی فہرست بنایئے تو اکثریت شاہ عالموں کی ہوگی۔ 
اللہ اللہ! عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کی صدارت آصف علی زرداری کے حصے میں آئی! دانشوروں کو ایک طرف رکھیے۔ جو تبصرے ٹانگے والوں‘ ریڑھی بانوں‘ رکشہ ڈرائیوروں‘ خاکروبوں‘ راج مستریوں اور مزدوروں نے کیے‘ جمع کیے جاتے تو عہدِ حاضر کی عبرت ناک ترین دستاویز بنتی۔ اسلام آباد کا ایوانِ صدر زرداری صاحب کی دلّی تھی اور کراچی ان کا پالم تھا۔ کسی چیز سے دلچسپی نہ تھی۔ بس ایک دعویٰ تھا کہ ہم سیاست جانتے ہیں۔ سیاست یہ تھی کہ جو ہوتا ہے‘ ہو جائے لیکن دلّی سے پالم تک کا علاقہ ان کے پاس ہی رہے۔ ’’ہم خرید لیں گے‘‘ تکیۂ کلام تھا۔ ان کے عہد کی مضحکہ خیز ترین واردات یہ تھی کہ پالم یعنی کراچی جاتے تھے تو سندھ کے وزیراعلیٰ کا کام سنبھال لیتے تھے۔ پنجاب سے 
دلچسپی تھی نہ بلوچستان سے‘ خیبر پختونخواہ سے نہ شمالی علاقوں سے‘ سپریم کمانڈر تھے لیکن عسکری نوجوانوں اور افسروں کے ساتھ بڑے بڑے سانحے پیش آئے تو سپریم کمانڈر نے لاتعلقی کے تمام تاریخی ریکارڈ توڑ دیئے۔ زرداری صاحب کے عہدِ صدارت کا روزنامچہ محفوظ کر لیا جائے تو ایک بات یقینی ہے کہ پاکستان کی آئندہ نسلیں اُن لوگوں کو کبھی معاف نہیں کریں گی جنہوں نے تخت نشینی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تعجب ہوتا ہے کہ فرحت اللہ بابر جیسے اچھی شہرت رکھنے والے‘ معاملات کے صاف ستھرے افراد زرداری صاحب کا دفاع کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی ایک انتہا سلمان فاروقی جیسے اصحاب‘ اور دوسری انتہا جنرل نصیر اللہ بابر جیسے کھرے چمکتے انسان۔ حیرت خود حیران ہوتی ہے! سالہا سال پہلے اس ناخلف نے والد گرامی سے سوال کیا کہ اتنے تعلیم یافتہ عالی دماغ‘ صاحبِ مطالعہ‘ باریک بین افراد اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ گالیوں کے طومار لکھنے والا‘ کچہری میں نوکری کرنے والا‘ ساعت ساعت موقف بدل لینے والا شخص نبی نہیں ہو سکتا۔ فرمایا‘ یہی تو توفیق کا معاملہ ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ نبیِ صادق کی مخالفت کرنے والے اور بدر اور احد کے کارزاروں میں جہنم رسید ہونے والے عرب کم ذہین تھے؟ بلا درجہ کے مردم شناس‘ بحرِ روم کے ساحلوں تک سفر کرنے والے‘ 
اُڑتی چڑیا کے پر گننے والے‘ مگر اُس ذات نے جو مقلب القلوب ہے‘ دل جس کی مٹھی میں ہیں‘ توفیق ارزانی نہ کی تو عقل پر پردے پڑ گئے اور منطق کا معمولی نکتہ بھی نہ سمجھ سکے کہ جس شخص نے چالیس سال جھوٹ نہ بولا‘ وہ ا چانک غلط بیانی کیسے کر سکتا ہے (معاذاللہ)۔ یہ بھی تو توفیق ہی کا کرشمہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور کئی دوسرے افراد‘ جن میں جیلوں کے ساتھی بھی تھے‘ کدالوں سے کھدائیاں کرتے رہے لیکن رضا ربانی اور اعتزاز احسن جیسے لوگ منقار زیر پر رہے اور آمنا و صدقنا کہتے رہے! حیرت خود حیران ہوتی ہے    ؎ 
بسی نادیدنی را دیدہ ام من 
مرا ای کاشکی مادر نہ زادی 
ایک کے بعد ایک شاہ عالم سلطنت جس کی از دِلّی تا پالم۔ وزیراعظم کے ترکی اور چین کی یاترائوں کو چھوڑیے کہ بہت کچھ لکھا جا چکا‘ ڈھاک کے وہی تین پات۔ ’’مستقل مزاجی‘‘ ایسی کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ تازہ لطیفہ دیکھیے… این گُلِ دیگر شگفت۔ وزیراعظم نے جمعہ کے دن لاہور میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کیا اور ’’پنجاب میں خصوصی انسداد دہشت گردی فورس کی تشکیل جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس نئی فورس کی کمانڈ کا نظام پولیس سے الگ اور زیادہ موثر بنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی فورس کو خاص طور پر بھتہ خوری اور ا غوا برائے تاوان میں ملوث افراد کے خلاف موثر کارروائی کرنا ہوگی…‘‘ خبر رساں ایجنسی کے مطابق اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب‘ آئی جی پنجاب سمیت اعلیٰ حکام موجود تھے۔ 
ہوبہو وہی فلم! فرق یہ ہے کہ پہلے زرداری صاحب تھے۔ اب میاں نوازشریف ہیں۔ پہلے زرداری صاحب اسلام آباد سے نکلتے تھے تو کراچی پہنچ کر سندھ حکومت کی باگ ڈور سنبھال لیتے تھے۔ اب میاں نوازشریف اسلام آباد سے نکلتے ہیں تو لاہور پہنچ کر پنجاب حکومت کے امور نمٹانے لگ جاتے ہیں۔ وہاں اویس مظفر ٹپی تھے تو یہاں… خیر جانے دیجیے۔ لیکن شیر خوار بچہ بھی یہ نکتہ سمجھ سکتا ہے کہ پنجاب کی انسداد دہشت گردی فورس پنجاب سے باہر بے بس ہوگی۔ اللہ کے بندو! اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے اصل اور بڑے مراکز دریائے سندھ کے مغرب میں ہیں۔ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار خیبر پختونخوا ہے۔ کوئی وزیراعظم کو بتائے کہ وہ خیبر پختونخوا کے بھی وزیراعظم ہیں۔ وزیرستان اور فاٹا بھی ان کی عملداری میں ہے۔ کاش ایسے ہی ایک اجلاس کی صدارت میاں نوازشریف پشاور میں بھی کرتے۔ یہ ممکن تھا کہ وزیراعلیٰ کے پی انہیں شایانِ شان پروٹوکول نہ دیتے! پچیس سال… پورے پچیس سال اورنگ زیب عالم گیر دکن میں رہا اس لیے کہ وہاں ضرورت تھی۔ مقبرہ بھی وہیں بنا۔ اقبال نے حاضری دی تو بے اختیار کہا   ؎    
درمیانِ کارزارِ کفر و دین 
ترکشِ ما را خدنگِ آخرین 
آج اگر وزیراعظم نوازشریف بنوں میں ڈیرہ ڈال دیں اور یہ طے کر لیں کہ جب تک دہشت گردی کے مراکز ختم نہیں ہوتے‘ میرا دارالحکومت یہی ہے۔ تو اس قوم کی تاریخ ہی نہیں‘ تقدیر بھی بدل جائے۔ لیکن افسوس! صد افسوس! وہ لوگ جو ان کے گرد حصار باندھے ہیں‘ ان کے روشن مستقبل کا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ وزیراعظم ذہنی طور پر ایک صوبے کیا‘ ایک شہر سے نہ نکلیں اور کبھی نہ نکلیں۔ چودھری شجاعت حسین پر ہزار اعتراض سہی‘ مگر کبھی کبھی بات کرتے ہیں تو بڑے بوڑھوں والی‘ جس میں صدیوں کا نچوڑ ہوتا ہے۔ عید کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قاعدہ کلیہ بیان کردیا کہ نواز حکومت کی کابینہ میں شامل ہونے کے لیے کیا ضروری ہے؟ 
پس نوشت: ایوانِ صدر کی پریس سیکرٹری محترمہ صبا محسن نے وضاحت کی ہے کہ صدر مملکت حج کے لیے کمرشل فلائٹ سے گئے اور انہوں نے اور وفد کے دیگر ارکان نے سفر کے اخراجات اپنی اپنی جیب سے ادا کیے ہیں۔

Tuesday, October 15, 2013

دو دنیائوں کے درمیان لکیر

طالبان آسمان سے نہیں اترے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک صبح اچانک کچھ نوجوانوں نے اعلان کیا کہ ہم طالبان ہیں اور ہمیں آج معلوم ہوا ہے کہ جمہوریت کفرہے اور پاکستان کے آئین کی کوئی حیثیت نہیں۔
بسا اوقات ہم آنکھیں موند لیتے ہیں۔اس سے ہماری اپنی دنیا تاریک ہوجاتی ہے تاہم اس دنیا کا وجود جوں کا توں رہتا ہے جسے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی کھلی آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ ہم اہلِ پاکستان وہ سچائیاں جو روز روشن کی طرح واضح ہیں ، نہیں مانتے۔ کبھی خوف کے مارے ،کبھی مصلحتاً ،کبھی مروت کی وجہ سے ، لیکن   ؎
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ ٔآفتاب را چہ گناہ
چمگادڑ کی آنکھ دن کو نہیں دیکھ سکتی لیکن اس سے سورج کو کیا فرق پڑتا ہے؟
طالبان کی پشت پر ایک نظریہ ہے ،ایک فلسفہ ہے ،ایک طرز فکر ہے اوراساتذہ اور شیوخ کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ ہزاروں مدارس ہیں اور ان میں پڑھانے والے ہزاروں اساتذہ ہیں۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہوکر معاشرے کی مختلف سطحوں پر زندگی بسر کررہے ہیں ۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مدارس سے نکلا ہوا تازہ خون آبادی کے اس حصے میں شریک ہوتا ہے۔
یہاں ہم ایک اہم نکتہ قارئین کے گوش گزار کریں گے ۔ہمارے پڑھنے والوں میں طالبان کے حامی بھی ہیں اور مخالف بھی۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں کے ہم نوا بھی ہیں اور مدارس کے مداح بھی۔ ہم ان سطور میں اپنی رائے دینے سے مکمل احتراز کررہے ہیں اور محض وہ حقیقتیں بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔
جس مسلک فکر کی نمائندگی تحریک طالبان پاکستان کررہی ہے ،اس کے مدارس کی صحیح تعداد شاید کسی کو نہ معلوم ہو ،یہ مدارس پاکستان کے ہر شہر، ہر قصبے ، ہر گائوں میں کام کررہے ہیں ۔ان مدارس میں برصغیر کی تاریخ تو دور کی بات ہے برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ تک نہیں پڑھائی جاتی۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ تو کجا ، تحریک پاکستان ہی نصاب میں شامل نہیں۔ یہ بات اچھی ہے یا بری ، اس سے بحث نہیں لیکن حقیقت حال یہی ہے۔
کیا مدارس کے طلبہ کو بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ ملک کس طرح حاصل کیا؟ قائداعظم نے کس طرح بیک وقت برطانوی حکومت اور ہندو کانگریس سے مقابلہ کیا؟ 1946ء کے انتخابات میں کیا ہوااور یہ جمہوریت ہی تھی جس نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی ؟ جمہوریت کو کفر صرف طالبان نہیں کہہ رہے ،جو مسلّح ہیں اور وزیرستان اور قبائلی علاقوں پرعملاً حکمرانی کررہے ہیں ، کروڑوں پاکستانی جمہوریت کو کفر سمجھتے ہیں ۔یہ آبادی کا وہ حصہ ہے جو مدارس میں پڑھ رہا ہے ،پڑھا رہا ہے ،مدارس سے پڑھ کر معاشرے میں مصروف عمل ہے ۔پھر ان میں لاکھوں کروڑوں پاکستانی وہ بھی ہیں جو مدارس میں نہیں پڑھے ، لیکن علماء کے خطبات اور تقاریر سنتے ہیں اور ان کے طرز فکر کو اپناتے ہیں ۔یہ کروڑوں لوگ ہر اس شخص کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں جو جمہوریت کے خلاف بولتا یا لکھتا ہے ۔انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ جمہوریت کا متبادل کیا ہے ۔ان کا اس امر پر پختہ یقین ہے کہ جمہوریت کی نفی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے ۔یہاں منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے اس ای میل کا ذکر دلچسپی سے خالی سے نہ ہوگا جو اس کالم نگار کو کچھ عرصہ قبل بیرون ملک سے موصول ہوئی۔ ایک صاحب نے سادہ دلی سے لکھا کہ فلاں صاحب جمہوریت کے خلاف مسلسل لکھ رہے ہیں۔ میں نے کئی ای میلوں میں ان سے گزارش کی ہے کہ از راہ کرم جمہوریت کا متبادل بھی بتائیے تاکہ ہماری رہنمائی ہو لیکن وہ کسی ای میل کا جواب مرحمت نہیں کرتے ۔‘‘ ایک اور واقعہ نہیںبھولتا ۔میلبورن میں ایک صاحب ہیں جو کسی زمانے میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں کام کرتے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ سائنس کے کسی شعبے میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ کبھی کبھی اپنی تشریف آوری سے عزت افزائی کرتے ہیں۔ غالباً کچھ عرصہ انڈونیشیا میں پڑھایا لیکن افتا د طبع ایسی ہے کہ فارغ کردیئے گئے ۔ان دنوں میلبورن میں ویگن چلاتے ہیں جو ٹیکسی ہی کی ایک شکل ہے۔ ایک دن تشریف لائے اور حکم دیا کہ چلو فلاں مسجد میں جماعت آئی ہوئی ہے۔ میلبورن میں فاکنر مسجد ان سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ہم وہاں ایک گروہ کے ساتھ بیٹھ گئے جہاں زیادہ تر اصحاب ہمارے ان دوست کے جاننے والے تھے ۔دوران گفتگو ایک بزرگ نے فرمایا کہ جمہوریت کفر ہے اور یہی مسائل کی جڑ ہے۔عرض کیا بالکل درست ۔صرف یہ ہے کہ متبادل بتانا پڑے گا کیونکہ لوگ پوچھیں گے ۔ان کا جواب مختصر اور دو ٹوک تھا : اللہ کے راستے میں نکلیں گے تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ دفعتاً ایک خیال برق کی طرح چمکا۔ پوچھا ،کیا آپ آسٹریلوی شہری ہیں۔ فرمایا ،الحمدللہ شہریت ملی ہوئی ہے۔ پھر عرض کیا کہ کیا آپ نے اس ملک کا شہری بننے کے لیے حلف اٹھایا تھا۔ فرمایا جی ہاں ! اور الحمدللہ قرآن پاک پر حلف اٹھایا تھا۔
بائبل پر نہیں ، اب عرض کیا کہ حلف اٹھاتے وقت ایک پیمان آپ نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی باندھا تھا کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کی پاسداری کروں گا! لیکن اب آپ جمہوریت کے خلاف ہیں ۔ایک سناٹا تھا جو مجلس پر چھا گیا ،یہاں تک کہ ہمارے دوست نے زانو دبا کر مزید ’’ گستاخی ‘‘ سے منع کردیا۔ وہاں اور دوسرے ’’ جمہوری‘‘ ملکوں میں کون کون لوگ خیراتی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں ،گزارہ الائونس لیتے ہیں ،ان کے مشاغل کیا ہیں ،ظاہر کیسا ہے اور دعویٰ کیا ہے؟ یہ ایک الگ داستان ہے طویل ہے ،اور آج کے موضوع سے باہر ہے!
پاکستان کے آئین کو حرام صرف طالبان نہیں قرار دے رہے ۔طالبان تو بہت قلیل تعداد میں ہیں ان کی پشت پر لاکھوں کروڑوں پاکستانی ہیں ،ہزاروں مدارس ہیں اور ان مدارس میں پڑھانے والے ہزاروں لاکھوں قابل احترام اساتذہ ہیں۔ یہ الگ بات کہ اکثریت نے آج تک آئین کو کھول کر پڑھنا تو درکنار، شکل بھی نہیں دیکھی۔ بہت سوں کے ذہن میں تو آئین کا تصور یہ ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہوگی جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناقابلِ برداشت مواد درج ہوگا! کتنے مدارس ہیں جہاں آئین پاکستان کا ایک عدد نسخہ موجود ہوگا؟
یہ خبر تواتر سے آرہی ہے کہ مدارس کے سینئر اور قابل احترام اساتذہ طالبان سے مذاکرات کررہے ہیں ۔ نہیں معلوم یہ خبر واقعاتی اعتبار سے کہاں تک درست ہے، لیکن دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ کیا یہ محترم اساتذہ ،یہ جید علماء کرام خود جمہوری نظام حکومت سے اتفاق فرماتے ہیں ؟ آئینِ پاکستان کو تسلیم فرماتے ہیں ؟ بانی پاکستان محمد علی جناح کے بارے میں ان کے خیالات کیا ہیں ؟ ان کی اکثریت تو اس لقب (قائداعظم) ہی سے اتفاق نہیں کرتی جو برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اس لیڈر کو دیا!!
طالبان جیسی تحریک کسی اور مسلمان ملک میں نہیں ابھری۔ اس لیے کہ یہ لکیر جس نے اہلِ پاکستان کو دو دھڑوں میں تقسیم کررکھا ہے کسی اور مسلمان ملک میں نہیں پائی جاتی۔ مدارس کی دنیا الگ ہے۔ کروڑوں عوام سے خطاب کرنے والے خطیب اور آئمہ حضرات اپنی اپنی صوابدید کے مطابق اپنے اپنے نکتہ نظر کا پرچار کرتے ہیں ۔یہ صورت حال سعودی عرب میں ہے ،نہ متحدہ عرب امارات میں ، ترکی میں ہے ،نہ ملائیشیا میں ۔دو متوازی… دو متحارب …دو مکمل طور پر مختلف دنیائیں۔ کہیں بھی نہیں ۔ صرف پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔ایک پاکستان کی نمائندگی پاکستانی ریاست اور پاکستانی مسلح افواج کررہی ہیں،دوسرے پاکستان کی نمائندگی مدارس اور طالبان کررہے ہیں ۔اللہ کے بندو ! مذاکرات سے وہ لکیر نہیں ختم ہوسکتی جو دو دنیائوں کے درمیان کھینچی ہوئی ہے لیکن افسوس ! یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آسکتی جو جال پانی کی سطح پر پھینک رہے ہیں جب کہ مسئلے کی کنجی تہہ میں ہے!!

Sunday, October 13, 2013

آخر سرچشمہ کہاں ہے؟

جہاز کی حالت یہ تھی کہ پُرسکون سمندر میں بھی ہچکولے کھا رہا تھا۔ خرابی تھی اور ایسی کہ جہاز کو کھائے جا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ پانی اندر آنے لگا تھا‘  جیسے رِس رہا ہو۔ نکال دیا جاتا تو چند روز میں پھر وہی حالت ہو جاتی۔ ایسے میں فرسٹ کلاس کے مسافر خوابگاہوں (کیبنوں) کی تقسیم پر جھگڑ رہے تھے۔ تب کپتان نے انہیں شرم دلائی کہ اللہ کے بندو! جہاز کی خیر مانگو! خوابگاہوں کی عیاشیاں تو جہاز ہی کے ساتھ ہیں۔ 
ٹھیک یہی پوزیشن اس وقت پاکستان کی ہے۔ جو صوبہ رقبے میں سب سے بڑا ہے‘ اُس کی حالت یہ ہے کہ زلزلہ زدگان کی مدد کرنے والوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں پر ریاست کی عملداری کا دعویٰ کرنے والے خود ہی خاموش ہو گئے ہیں۔ وفاقی حکومت ایک صوبے کی نمائندہ ہو کر رہ گئی ہے۔ جیسے‘ میرے منہ میں خاک‘ وہ خود ہی عملی اعلان کر رہے ہوں کہ بھائی‘ اب پاکستان یہی صوبہ ہے‘ باقی کو بھول جائو۔ کراچی روانڈا بن کر رہ گیا ہے اور یوں لگتا ہے فریڈرک فورسائیتھ (Frederick Forsyth) کے شہرہ آفاق ناول Dogs of war کی فلم چل رہی ہے۔ ایسے میں نیب اور اس کے نو منتخب چیئرمین پر تبصرے!! تعجب ہوتا ہے کہ دانشور اور صحافی امڈتی گھٹائوں کو نہیں دیکھتے اور ڈول ڈول پانی نکالنے والے رہٹ پر توجہ دے رہے ہیں۔ چیئرمین فرشتہ بھی ہوا‘ جِن بھی ہوا تو کیا کر لے گا؟ کیا زرداری صاحب اور سلمان فاروقی جیسے لوگ واپس آ جائیں گے؟ میجر قمر الزمان چودھری کو یہ کالم نگار بھی ایک عشرے سے جانتا ہے لیکن تبصروں‘ اندازوں اور تخمینوں کا یہ وقت نہیں۔ اس پہلو سے لکھا تو معاصرت پر محمول کیا جائے گا اور اس پہلو سے کچھ کہا تو روغنِ قاز ملنے کا الزام لگے گا۔ نہیں! یہ وقت نہیں! وقت اُڑتا ہے‘ پھر ٹھہر جاتا ہے۔ ابھی تو اُڑا جا رہا ہے! اسے ٹھہرنے دیجیے!   ؎
دربارِ وطن میں جب اک دن‘ سب جانے والے جائیں گے 
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے‘ کچھ اپنی جزا لے جائیں گے 
نیب؟ نہیں! ملک کی بات کرو    ؎  
پاپوش کی کیا فکر ہے‘ دستار سنبھالو 
پایاب ہے جو موج‘ گزر جائے گی سر سے 
جناب پرویز رشید کی قربانیاں بے پناہ ہوں گی لیکن اُن کے بیانات سُن کر اور پڑھ کر یہ حقیقت سر چڑھ کر بولتی ہے کہ قربانیوں کا صلہ منصب کی صورت میں عطا کیا جائے تو منصب پر کیا گزرتی ہے! منصب کے لیے اہلیت جانچنے کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ فلاں کی وفاداریاں اور قربانیاں بے پناہ ہیں! یہی کچھ تو زرداری صاحب کرتے رہے‘ جیل کے ہمراہیوں کو سب کچھ سونپ دیا۔ ڈاکٹروں کو پٹرولیم کے قلم دان عنایت کر دیے۔ اس سے ہزار گنا زیادہ عقل مند تو ہمایوں تھا‘ جس نے نظام سقہ کو صاف صاف کہا ہوگا کہ قربانی تمہاری بے مثال! جان تم نے میری بچائی‘ لیکن ایک دن سے زیادہ اختیار نہیں دوں گا کیونکہ تم Statesman نہیں! جہاں بانی تمہارا کام نہیں! تم سقّے ہو‘ سقّے ہی رہو گے! بجلی کے بڑھے ہوئے نرخ قوم کے لیے عفریت بن گئے۔ اس عفریت کا پرویز رشید دفاع کر رہے تھے تو ان پر رحم آ رہا تھا اور ہنسی بھی! ہو سکتا ہے‘ دل زبان کا ساتھ نہ دے رہا ہو لیکن طالبان کے حوالے سے تازہ ترین دانش پارہ جو انہوں نے ہوا میں چھوڑا ہے‘ اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ رہا ہے: ’’آج یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آئین کو نہ ماننے والوں سے گفتگو کرنی چاہیے یا نہیں‘ تو جن لوگوں نے چار بار آئین توڑا‘ اُن سے کیا سلوک ہونا چاہیے‘‘۔ اسے کہتے ہیں ایک ہی جست میں مدار سے باہر نکل جانا!! جن لوگوں نے چار بار کیا‘ بار بار آئین کو توڑا‘ وہ آپ ہی کے تو لوگ تھے! جس آمر نے فخر سے کہا تھا کہ ’’آئین کیا ہے؟ دس بارہ صفحات کا پمفلٹ! میں اسے پھاڑ کر پرے پھینک سکتا ہوں‘‘ وہی تو تھا جس نے خواہش کی تھی کہ اس کی زندگی میاں نوازشریف کو لگ جائے۔ قوم آج تک یہ سننے کی منتظر ہے کہ پرویز مشرف کو نیچے سے‘ بہت نیچے سے‘ اوپر لا کر عالمِ اسلام کی سب سے بڑی فوج کا سالار بنانے کا معیار کیا تھا۔ جن شرفا نے اس ناانصافی سے منع کیا تھا ان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی تھے! 
بہت معذرت! کہ جو بیانات مرفوع القلم ہوں‘ اُن پر اتنا کچھ کہہ دینا کارِ لاحاصل ہے! پاکستان ایک گروہ کا تو نہیں کہ ہم اس گروہ کے زعما کے بیانات کو لے کر بیٹھ جائیں۔ پاکستان ان کے ادراک اور وژن سے بہت بڑھ کر ہے اور بہت کچھ ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ اس ملک میں اے کے بروہی جیسے لوگ موجود تھے۔ روایت ہے کہ آئین کی تنسیخ پر اُس نے کہا تھا کہ میں ایک بیوہ کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رویا اور ایک وقت یہ ہے کہ آئین کو نہ ماننے والوں کا دفاع کیا جا رہا ہے! 
لیکن کیا طالبان آسمان سے اُترے ہیں؟ جو باتیں وہ کر رہے ہیں کیا اُن کے اپنے دماغوں کی پیداوار ہیں؟ یہ ہے وہ سوال جو جواب مانگتا ہے اور اس جواب کا ادراک حکمرانوں کے بس میں نہیں! پیپلز پارٹی ہو یا نون لیگ‘ تاریخ کا فلسفہ اور حالات جس نہج پر ہیں‘ اُس کے اسباب کا تعین ان کے بس کی بات نہیں! محلات خریدنا‘ کارخانے لگانا‘ پہاڑوں میں سرنگیں بنا کر زمین کی قیمتیں بڑھانا… جن کے یہ کام ہوں‘ وہ اسباب کا تعین نہیں کر سکتے۔ لیڈر کی ذہنی ساخت ہی دوسری قبیل کی ہوتی ہے۔ ابراہام لنکن‘ اس سے بھی پہلے جارج واشنگٹن‘ چرچل‘ ڈیگال‘ اتاترک‘ قائداعظم… کیا انہوں نے اختیارات اولاد کو سونپ دیے تھے؟ کیا وہ ہر کام کو بزنس کے نقطۂ نظر سے دیکھتے تھے؟ کیا ان لیڈروں نے اقتدار کو اپنی دولت دو چند‘ سہ چند کرنے کے لیے استعمال کیا تھا؟ آخر سلطان ٹیپو اور نظام حیدرآباد میں کیا فرق تھا؟ یہی کہ ایک لیڈر تھا‘ دوسرا حکمران۔ جب ٹیپو آزادی کی آخری جنگ لڑ رہا تھا‘ نظام دکن‘ ٹیپو پر حملہ کرنے والی انگریزی فوج کے لیے کمک روانہ کر رہا تھا (ولیم ڈال رِمپل وائٹ مغلز (White Mughals) میں لکھتا ہے کہ نظام نے جو فوجی لشکر انگریزوں کی کمک کے لیے بھیجا تھا اس کی قیادت کرنے والا کمانڈر ایرانی تھا!) ٹیپو چاہتا تو وہ بھی اقتدار کو آنے والی نسلوں کے لیے وراثت بنانے کی خاطر انگریزوں کے سایۂ عاطفت میں آ جاتا! 
اسباب کا تعین ان سے نہیں ہوگا! بخدا نہیں ہوگا۔ 66 سال کیا ہوتا رہا؟ اس کا تجزیہ یہ نہیں کر سکتے۔ ان میں کوئی رجلِ رشید نہیں! اگر غلطی سے سرتاج عزیز جیسا دماغ جتھے میں شامل ہو بھی جائے تو اسے اپنی اوقات میں رکھنے کا ہنر یہ خوب جانتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ جو باتیں طالبان کر رہے ہیں‘ کیا ان کے اپنے دماغوں کی پیداوار ہیں؟ یا انہوں نے کہیں سے اخذ کی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کہاں سے اخذ کی ہیں؟ یہ آئین کی تنقیص… یہ جمہوریت کی تکفیر… آخر منبع کہاں ہے؟ آخر سرچشمہ کہاں ہے؟ اس کا جواب ہم اگلی نشست میں دینے کی کوشش کریں گے۔ 
پس نوشت: روزنامہ دنیا کی خبر کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین 34 رکنی وفد کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کرنے پی آئی اے کی وی وی آئی پی پرواز سے حجاز مقدس چلے گئے۔ وفد میں ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ‘ بیٹے عدنان‘ ان کی اہلیہ عظمیٰ‘ پوتے ریان‘ ماسٹر حسن‘ پوتیاں ہدیٰ‘ عائشہ‘ دوسرے بیٹے ارسلان‘ ان کی اہلیہ حنا ارسلان‘ پوتے شہریار‘ پوتیاں صبا‘ نیہا‘ صدر کی ہمشیرہ زبیدہ خاتون‘ سالی مسز شاہد لئیق الدین‘ اُن کے شوہر شیخ محمد شاہد‘ صدر ممنون حسین کے خاندانی دوست ظفر ٹپال‘ صابرہ ٹپال‘ طاہر خالق‘ فوزیہ طاہر‘ خواجہ قطب الدین‘ فضیلہ فاطمہ بھی اس قافلے میں صدر کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ 
خبر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صدر کا یہ انتہائی نجی قافلہ سرکاری خرچ پر گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حسنِ ظن سے کام لینا چاہیے۔ آخر صدر ممنون حسین جانتے ہی ہوں گے کہ حج کی فرضیت کا تعلق فرد کی مالی استطاعت سے ہے اور ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی سے حج کرنا جائز نہیں۔ ہم صدر کی خدمت میں عرض گزاری کرتے ہیں کہ وہ ایوانِ صدر کے ترجمان کو اس سلسلے میں وضاحت کرنے کا حکم دیں۔

Friday, October 11, 2013

آج سے دو سال بعد

ہیلو! 
شاہ صاحب! اسلام آباد سے بول رہا ہوں۔ آپ کا خادم۔
سائیں کیا حال ہے ؟ دارالحکومت کا؟
حال اچھا نہیں ہے شاہ صاحب!
سائیں آپ ہی کو بہت شوق تھا وفاقی وزیر بننے کا‘ ہم تو آپ کو اپنی کابینہ میں لینا چاہتے تھے ۔ آپ ہمارے ہاتھ میں نہ آئے اور اُڑ کر پہاڑوں میں چلے گئے۔
شاہ صاحب ! بس قسمت کی بات ہے۔ آپ بتائیے کیا ہورہا ہے؟
بس ، سائیں معاملات کنٹرول میں ہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔ وہ چودھری نویکلا خان آپ کو یاد ہے؟
کون چودھری نویکلا خان ؟ اچھا ، یاد آگیا، وہی جو چیف منسٹر ہائوس میں ہروقت موجود رہتا ہے۔شاہ صاحب ! بہت ہی گرویدہ ہے وہ آپ کا ، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے کار میں بیٹھنا ہوتو دروازہ خود نہ کھولے۔
ہاں سائیں ! وہی‘ ہم نے اسے وزیر امور بھتہ خوری لگایا ہے۔ سائیں ! آدمی وہ سمجھدار ہے اور مستعد بھی۔ حالات اس نے اس طرح کنٹرول کیے ہیں کہ اس کے بعد بھتہ خوری کی خبر میڈیا میں نہیں آئی۔
وہ کیسے شاہ صاحب ؟
سائیں! اس نے سیدھے سیدھے دو اقدامات کیے ۔ پہلے تو اس نے شہر بھر کے تاجروں دکانداروں کمپنیوں کے مالکان سب کو 
اطلاع بھجوائی کہ جیسے ہی بھتے کی پرچی موصول ہو۔ ڈرنے کی ضرورت ہے نہ میڈیا میں کسی کو بتانے کی، بس فوراً وزارت امور بھتہ خوری میں رپورٹ کریں۔ دوسرا اقدام اس نے یہ کیا کہ تمام بھتہ خوروں کو جمع کرکے ان کے ساتھ میٹنگ کی اور انہیں اس بات پر راضی کیا کہ وہ بھتہ کی رقم سال کے شروع میں فکس کردیں اور پھر ایک سال تک اس میں اضافہ نہ کریں۔ اس کے بدلے میں اس نے بھتہ خوروں کو یہ سہولت فراہم کی کہ انہیں ماہ بماہ پرچی بھیجنے کی تکلیف نہیں کرنا پڑے گی نہ ہی رقم وصول کرنے کے لیے آدمیوں کو ہر تاجر ہر کمپنی کے پاس بھیجنا پڑے گا۔ بھتہ ادا کرنے والے یہ رقم ہر یکم کو متعلقہ بنک اکائونٹ میں جمع کرا دیا کریں گے۔ بس سائیں ! اس کے بعد شہر میں ایسا سکون ہوا ہے کہ کیا بتائوں اور کیا تعریف کروں۔ہر روز خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کرتا ہوں کہ عقل کو استعمال میں لایا اور چودھری نویکلا خان کو یہ منصب عطا کیا۔ بھتہ دینے والے مطمئن ہیں اور خوش! وہ جو اذیت تھی اور ایک انجانا خوف تھا اور ایک درد ناک بے قراری تھی ہر ماہ پر چی وصول کرنے کی ، جیسے اس شخص کو ہوتی ہے جسے ہر سال رُت تبدیل ہونے کے دنوں میں سانپ کاٹنے آتا ہے ، وہ ختم ہوگئی۔ سائیں ، ایک سسٹم بن گیا ہے۔ لینے والے بھی مطمئن اور دینے والے بھی خوش ! ہاں یاد آیا ، چودھری نویکلا خان نے بھتہ خوروں کو اس بات پر بھی راضی 
کرلیا ہے کہ اگر کسی نے ان کے بنک اکائونٹ میں یکم کو رقم جمع نہیں کرائی تو وہ ایکشن لینے سے پہلے ایک ماہ انتظار کریں گے اور اس کے بعد اسے قتل کریں گے۔
 لیکن شاہ صاحب چودھری نویکلا خان کو اس سارے جھنجٹ سے حاصل کیا ہوا؟ 
سائیں! بڑی زبردست بات پوچھی ہے آپ نے۔ اب آپ سے کیا پردہ ، چودھری نے پراپرٹی ڈیلنگ اور کار ڈیلنگ کی طرح بھتہ ڈیلنگ کو بھی سائنس بنادیا ہے۔ بس ایک معقول رقم فیس کے طور پر دونوں پارٹیوں سے چودھری لیتا ہے۔ سائیں ! آپ تو ہمارا ہی احوال پوچھے جارہے ہیں ، کچھ دارالحکومت کی بھی تو سنائیں۔
شاہ صاحب! آپ نے جس خوبصورتی اور منطق سے بھتہ خوری کے مسئلے کو حل کیا ہے وہ خوبصورتی اور منطق یہاں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ یہاں تو بدانتظامی عروج پر ہے۔ مرکزی کابینہ میں ایک نئی وزارت قائم ہوئی۔ امور اغوا برائے تاوان کی لیکن شاہ صاحب! مجال ہے جو کوئی بہتری آئی ہو۔ آج کی تاریخ میں صورت حال یہ ہے کہ کابینہ کے دو ارکان قبائلی علاقے میں محبوس ہیں۔ امور اغوا برائے تاوان کا مرکزی وزیر دو ماہ سے بنوں میں بیٹھا اغوا کاروں سے مذاکرات کررہا ہے اور بات بن نہیں رہی۔ مذاکرات کے اس سارے عرصے میں اغوا کار مرکزی حکومت سے ڈیلی الائونس لے رہے ہیں اور ان کے لیے اور وزیر صاحب اور ان کی پوری ٹیم کے لیے کھانا ہر روز پشاور کے فائیو سٹار ہوٹل سے سرکاری خرچ پر آرہا ہے۔
سائیں ! پولیس افسر کا کیا بنا؟
ہاں شاہ صاحب ! میں بتانے ہی والا تھا پولیس کے سربراہ کو اغوا ہوئے تین ہفتے ہونے کو ہیں۔ ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ امور اغوا برائے تاوان کے وزیر کا خیال ہے کہ یہ ہائی پروفائل اغوا پولیس ہی کے ایک اہلکار کے گینگ نے کیا ہے یا اگر گینگ قبائلی علاقوں کا ہے تو اس گینگ کا نمائندہ وہ اہلکار ہی ہے۔ وزیر صاحب نے ہمت کی اور اس اہلکار سے مذاکرات کی سلسلہ جنبانی بھی کی لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی۔
سائیں ! وہ جو دو سال پہلے ریلوے کے محکمے کو بھتے کی پرچی ملی تھی، اس کا کیا ہوا؟
شاہ صاحب ! وہ دو سال پہلے ملنے والی پرچی تو محض آغاز تھا اب تو معاملہ بہت سارے محکموں کا ہے شاہ صاحب ! آپ کو یاد ہوگا کہ دو سال پہلے ریلوے کو آنے والے ٹیلی فون کا سراغ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ افغانستان سے آیا تھا۔ دنیا کا بدترین مذاق یہ کیاگیا کہ حکومت نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اگر اس وقت پاکستان کی حکومت افغانستان سے ساری آمدورفت بند کردیتی اور ہر قسم کی سپلائی وہاں جانے سے روک دیتی اور یہ مطالبہ کرتی کہ ٹیلی فون کرنے والے گروہ کو ہمارے حوالے کیاجائے تو یہ سلسلہ آگے نہ بڑھتا۔ شاہ صاحب ! کتنے شرم کی بات ہے! گزشتہ ہفتے دبئی میں ایک بھارتی وزیر سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا ’’ اگر ایسا فون کسی ملک سے بھارت کو ملتا تو دنیا دیکھتی کہ اس ملک کا کیا حشر ہوتا۔ افغانستان کی تو شہ رگ ، پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ پھر بھی وہاں سے بھتہ کے ٹیلی فون آتے ہیں اور پشاور میں پاکستانی سم مہنگی ہے اور افغان سم سستی ہے !!‘‘خیر یہ تو اور بات ہے میں یہ کہہ رہا تھا کہ اب معاملہ ایک دو محکموں کا نہیں ہے۔ اس وقت تقریباً سارے بڑے بڑے وفاقی محکمے بھتہ دے رہے ہیں۔ ائیرپورٹ پر بھتہ ادا کرنے کا باقاعدہ کائونٹر بنا دیاگیا ہے۔ دارالحکومت کے سو فیصد تاجر اور دکاندار تو بھتہ دے ہی رہے ہیں۔ پروموشن پر سرکاری افسر کو بھی بھتہ دینا پڑتا ہے۔ وفاقی سیکرٹری کا چارج لینے کے لیے سب سے زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے ۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں پہلے تو وہ ریٹائرڈ بابو لگتے تھے جو وزیراعظم یا صدر کے ذاتی وفادار ہوتے تھے ، اب وہ لگتے ہیں جن کے پاس بھتہ کی پرچی ہو اور اس پر Paid کی مہر لگی ہوئی ہو۔

Thursday, October 10, 2013

طالب علم اور گستاخی

ڈاکٹر کمال اکبر سے پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ کالم نگار نے مقابلے کا امتحان پاس کر لیا تھا لیکن فیڈرل پبلک سروس کمیشن عینک کے نمبر سے مطمئن نہیں تھا۔ ایک بزرگ نے ساتھ لیا اور اُن کے پاس لے گئے۔ آئی سپیشلسٹ کے طور پر ان کا نام اُس وقت بھی کم معروف نہیں تھا؛ تاہم جس بات نے متاثر کیا یہ تھی کہ کرنیلوں والی خو بُو تھی نہ ڈاکٹروں والی بے نیازی۔ ملائمت سے بات کرتے تھے اور مریض کو دوست بنا لیتے تھے۔ 
ڈاکٹر صاحب سینئر ہوتے گئے۔ کالم نگار بھی سول سروس کی سیڑھیاں چڑھتا رہا۔ وہ میجر جنرل ہوئے تو جنرل مشتاق بیگ‘ جنہیں راولپنڈی میں خودکش دھماکے سے شہید کیا گیا‘ بطور بریگیڈیئر اُن کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ پھر کمال اکبر تھری سٹار جرنیل ہو کر ٹاپ پر پہنچ گئے۔ اُن دنوں وہ اور کالم نگار ایک حساس احاطے میں قریب قریب بیٹھتے تھے۔ ایک دن ہم بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ یاد نہیں وہ کالم نگار کے دفتر میں تھے یا کالم نگار اُن کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ سنگاپور جا رہا ہوں۔ بولے پورے سنگاپور میں ایک ہی شے ہے جو خریدنی چاہیے‘ باقی کسی شاپنگ کی ضرورت نہیں۔ کرنسی ہماری کمزور ہے اور مہنگائی وہاں بہت ہے۔ پھر انہوں نے سمجھایا کہ وہاں ایک جزیرہ ہے سنتوسا‘ اس میں چیئر لفٹ ہے۔ چیئر لفٹ جہاں لے جائے گی وہاں ذرا اونچائی پر ایک گفٹ شاپ ہے۔ اُسے کہنا تمہیں وہ ٹوپی دے جس پر لائٹ (بلب) لگا ہوا ہے۔ بس یہی ایک کام کی شے ہے وہاں خریدنے کی۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ رہنمائی کرتے رہے کہ کم خرچ شے کہاں سے ملے گی لیکن اُن کا کارنامہ ایک اور ہے۔ ایک بار اُن کے سرکاری کلینک میں جانا ہوا تو خصوصی طور پر ایک مریضہ دکھائی۔ اُس کا منہ جلا ہوا تھا‘ غالباً شیشے کے ٹکڑے اندر دھنس گئے تھے۔ کہنے لگے‘ یہ خاتون اگر دورانِ سفر سیٹ بیلٹ لگاتی تو یہ حال نہ ہوتا۔ سیٹ بیلٹ کی اہمیت بتانا ان کی زندگی کا مشن تھا۔ اُن دنوں پاکستان میں بہت سی گاڑیاں ایسی تھیں جن میں سیٹ بیلٹ ہوتی ہی نہیں تھی۔ کمال اکبر نے کباڑیوں کی دکانوں سے ہزاروں سیٹ بیلٹس خریدیں اور اپنے سٹاف‘ مریضوں‘ دوستوں‘ دوستوں کے سٹاف اور ڈرائیوروں میں تقسیم کیں۔ خود کار میں پچھلی نشست پر بھی بیلٹ لگا کر بیٹھتے۔ ماہرِ امراضِ چشم کی حیثیت سے انہیں ہر وقت یہ فکر کھاتی کہ سیٹ بیلٹ نہ لگانے سے لوگوں کا چہرہ اور آنکھیں متاثر ہوں گی۔ 
ایک بار ملے تو پلاسٹک اور ربڑ کی بنی ہوئی چھوٹی سی بطخ دی۔ اسے رکھ دیا جاتا تو مسلسل دائیں بائیں آگے پیچھے حرکت کرتی اور تماشے دکھلاتی۔ کہنے لگے‘ کئی مریض ایسے ہوتے ہیں جو پڑھ نہیں سکتے۔ ان کی وقت گزاری کے لیے یہ ایک اچھا تماشہ ہے۔ کثیر تعداد میں بطخیں تقسیم کیں۔ ان کی جیبوں اور بیگ میں ہر وقت چھوٹی چھوٹی ٹارچیں‘ بال پین اور دیگر مفید چیزیں موجود رہتی تھیں جو وہ بانٹتے رہتے۔ بال پین جن سے روشنی پھوٹتی‘ بڑے بڑے ہسپتالوں کے سٹاف میں مفت تقسیم کیے کہ اندھیرے میں بھی مریضوں کی خدمت ہوتی رہے اور کام نہ رُکے۔ لیکن اصل بات جو بتانی مقصود ہے اور ہے۔ 
جنرل صاحب کی قوتِ مشاہدہ بہت تیز ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ فوجی فائونڈیشن ہسپتال میں خدمات سرانجام دیں۔ ایک دن ان کی خدمت میں حاضری دی تو کہنے لگے تمہیں دلچسپ بات بتائوں۔ ایک صاحب اپنی اہلیہ کو دکھانے آئے‘ تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر ہیں۔ اہلیہ کی آنکھوں کا مسئلہ پیچیدہ تھا۔ معائنہ کر کے کاغذ پر تشخیص اور نسخہ لکھا۔ جو بات خصوصی طور پر جنرل صاحب نے نوٹ کی یہ تھی کہ شوہر نے‘ جو ڈاکٹر کہلا رہا تھا‘ کاغذ کو دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور تہہ کر کے جیب میں ڈال لیا۔ جنرل صاحب سوچنے لگ گئے‘ یہ کیسا ڈاکٹر ہے! یہ ڈاکٹر نہیں ہو سکتا۔ ایک لمحے سے بھی کم وقت میں وہ اصل حقیقت کو پا گئے۔ پوچھا‘ آپ ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں؟ شوہر نے جواب دیا‘ جی ہاں! 
یہ ساری تمہید یہ بتانے کے لیے بیان کی ہے کہ اب ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہر شعبے میں موجود ہیں۔ ایک معروف معاصر میں ایک ڈاکٹر صاحب کا کالم کچھ دن ہوئے پڑھا‘ یوں تو سلاست اور انشا پردازی  ع 
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست 
والا شعر بار بار یاد دلا رہی تھی لیکن ایک مقام پر پہنچ کر تو باقاعدہ سکتہ طاری ہو گیا۔ قرآن پاک کے غیر منقوط ترجمہ کے ضمن میں لکھا تھا ’’ڈاکٹر… کی تحقیق کے مطابق برصغیر میں اکبری دربار کے دانشور ابوالفضل فیضی نے یہ کوشش کی تھی لیکن یہ مکمل نہ ہو سکی‘‘۔ 
کیا کوشش کی تھی جو مکمل نہ ہو سکی؟ اس سوال کو تو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیجیے‘ لطف اس ’’اطلاع‘‘ سے اٹھایئے ’’اکبری دربار کے دانشور ابوالفضل فیضی‘‘۔ 
سبحان اللہ! چودہ طبق روشن ہو گئے۔ دانشور ابوالفضل فیضیؔ… اس فارمولے پر کئی اور تراکیب بن سکتی ہیں۔ بادشاہ جہانگیر شاہ جہان۔ فاتح چنگیز خان تیمور‘ شاعر اسد اللہ غالب بیدل‘ موسیقار امیر خسرو تان سین‘ مجاہد طارق بن زیاد قتیبہ! 
’’اکبری دربار‘‘ کو ختم ہوئے بمشکل چار سو سال ہوئے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم نہیں رہا کہ ابوالفضل فیضی کوئی دانشور نہیں تھا‘ بلکہ دو دانشور تھے۔ دو بھائی تھے۔ والد ان کا شیخ مبارک ناگوری تھا‘ دونوں اکبری دربار سے وابستہ تھے لیکن شعبے الگ الگ تھے۔ فیضی کی وفات 1004ھ میں بیماری سے ہوئی۔ ابوالفضل کو 1011ھ میں جہانگیر نے قتل کرا دیا۔ 
رہا یہ ’’انکشاف‘‘ کہ ’’ابوالفضل فیضی نے یہ کوشش کی تھی لیکن یہ مکمل نہ ہو سکی‘‘ تو معلوم نہیں کیا بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ پیچھے فقط غیر منقوط اور منقوط کتابت کا ذکر کیا گیا۔ تو کیا مکمل نہ ہو سکا؟ ترجمہ؟ یا تفسیر؟ 
اللہ کے بندو! ایک دنیا جانتی ہے کہ فیضی نے قرآن پاک کی غیر منقوط تفسیر لکھی اور مکمل کی۔ سواطع الالہام اس کا نام ہے۔ محمد حسین آزاد دربارِ اکبری میں لکھتے ہیں: ’’ایک خط میں (فیضی) لکھتا ہے دسویں تاریخ ربیع الثانی 1002ھ کو میری تفسیر ختم ہوئی۔ لوگ تقریظیں اور تاریخیں کہہ رہے ہیں‘‘۔ 
صرف محمد حسین آزاد ہی نہیں‘ شبلی نعمانی بھی یہی بتاتے ہیں۔ اپنی شہرئہ آفاق تصنیف شعر العجم (حصہ سوم) میں شبلی رقم طراز ہیں: ’’سواطع الالہام یعنی تفسیر غیر منقوط 1002ھ میں تمام ہوئی۔ کل مدتِ تصنیف دو اڑھائی برس ہے۔ اس تفسیر پر فیضی کو بڑا ناز ہے۔ دوستوں کو جو خطوط لکھے ہیں ان میں اکثر فخر سے اس کا تذکرہ کرتا ہے‘‘۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ شبلی نعمانی فیضی کی اس مشقت کو ناپسند کرتے ہیں۔ ’’سخت تعجب ہے کہ فیضیؔ جیسے حکیم اور فلسفہ پسند شخص نے کیوں کر یہ بے ہودہ مغز کاوی گوارا کی‘‘؟ شبلی حیران ہوتے ہیں کہ فیضی کے مخالفین نے اس موقع پر اعتراض کیا بھی تو یہ کہا کہ چونکہ آج تک بے نقط تفسیر نہیں لکھی گئی اس لیے یہ بدعت ہے۔ فیضیؔ اپنے حریفوں سے زیادہ ذہین تھا۔ اس نے برجستہ جواب دیا کہ کلمہ (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) بھی تو غیر منقوط ہے!! 
ایک عالم کو کسی نے آ کر خبر دی کہ مولوی صاحب کی صاحبزادی کو کتا کھا گیا۔ عالم نے پوچھا تمہیں کس نے بتایا؟ جواب دیا قرآن پاک میں لکھا ہے۔ عالم سوچ میں پڑ گیا۔ پھر خبر لانے والے کو بتایا کہ ’’عقل مند‘‘ انسان! وہ مولوی نہیں تھے‘ پیغمبر تھے۔ صاحبزادی نہیں تھی‘ ان کا فرزند تھا۔ کتا نہیں تھا بھیڑیا تھا اور کھایا نہیں تھا‘ وہ تو بھائیوں نے حضرت یعقوبؑ کے سامنے جھوٹ بولا تھا!! تو حضور! ابوالفضل فیضی نہیں‘ فیضی تھا۔ (محمد حسین آزاد اس کا نام ابوالفیض لکھتے ہیں لیکن شبلی یہ بھی نہیں لکھتے۔) ترجمہ یا کتابت نہیں تھی‘ تفسیر تھی اور ہرگز ایسا نہیں کہ مکمل نہ ہو سکی۔ مکمل ہوئی اور اس پر مبارکباد‘ تقاریظ اور شاباش کا خاصا غلغلہ برپا ہوا۔ 
منقوط غیر منقوط کے قصے میں فیضی ہی کا شعر برمحل لگ رہا ہے    ؎ 
ز نوکِ خامۂ من نیم نقطہ بیرون نیست 
شَروحِ انفس و آفاق در متونِ منست 
لیکن اصل تنبیہ تو سعدی کر گئے ہیں   ؎ 
ہر گوشہ گمان مبر کہ خالیست 
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد 
ہر کونے کو خالی نہ سمجھیے‘ کہیں چیتا سویا ہوا نہ ہو۔ ابھی سے مغلوں کی تاریخ کو مسخ نہ فرمایئے۔ کہیں کوئی طالب علم گستاخی نہ کر بیٹھے!!

Tuesday, October 08, 2013

دامن خالی، ہاتھ بھی خالی

زمانہ خاک کردیتا ہے۔ جسموں کو مٹی کرکے مٹی میں ملادیتا ہے لیکن کبھی کبھی ہانپنے بھی لگ جاتا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا:   ع
مارا زمانے نے اسداللہ خاں تمہیں
لیکن اسد اللہ خان کہاں مرا۔ ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا۔ آج بھی اس کا دیوان سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شمار ہوتا ہے۔
چٹانوں سے ٹکراتے دریائے سندھ سے کچھ میل مشرق کی طرف، ایک گوشے میں پڑا ہوا پنڈی گھیب کا خوابیدہ ، مٹیالا قصبہ… جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے، اڑتی ہوئی مٹی پر اور چلتی ہوئی ہوا پر لکھا ہوا صاف نظر آتا ہے کہ زمانہ خاک کردیتا ہے لیکن کہیں کہیں ہانپنے لگ جاتا ہے۔ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرا جب پنڈی گھیب قصبہ نہیں دارالحکومت تھا۔ اس زمانے میں جو قصبہ یا جو شہر دارالحکومت بنتا تھا ، تمام پیشوں کے ماہر وہاں منتقل ہوجاتے تھے۔
پنڈی گھیب میں بھی بتیس پیشوں کے ماہر رہتے تھے جنہیں بتیس ذاتیں کہتے تھے۔ کوزہ گروں سے لے کر زین سازوں تک … نعل لگانے والوں سے لے کر شمشیر سازوں تک اور بافندوں سے لے کر کفش دوزوں تک۔ ہر فاتح یہاں کے جنگ جوئوں کا محتاج تھا اور ہر طالع آزما اپنے ستارے کو یہاں تلاش کرتا تھا۔ شہسوار یہاں کے ایسے تھے کہ گھوڑا دم توڑ دیتا تھا لیکن خستگی سوار کو چھو نہیں سکتی تھی۔راتوں کو وہ سفر کرتے تھے تو راستے کا ایک ایک پتھر ان کے حافظوں میں لو دیتا تھا۔ سورما ایسا ایسا تھا کہ رات کے آغاز میں روانہ ہوتا، پچاس ساٹھ کوس دور جاکر دشمن کو ہلاک کرتا اور صجدم اپنے بستر میں سویا ہوا ملتا۔ کیا لوگ تھے ،چلتے تو قدموں کی دھمک سے دل دہل جاتے۔ نشانہ با ندھتے تو اجل کا فرشتہ اثبات میں سر ہلاتا    ؎
آج بھی اُس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
آج بھی یہاں کے اور اس پوری پٹی کے رہنے والے جو دل میں ہو ، برملا کہتے ہیں اور کھردرے انداز میں کہتے ہیں،ملائمت یا منت زاری سے نہیں کہتے۔ مصلحت کا لفظ لغت میں نہیں ۔احسان بھولتے ہیں نہ سبکی اور بے توقیری۔ ساتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو خوف اور موت دونوں کو درمیان سے ہٹا دیتے ہیں۔ دشمنی کا فیصلہ ہوتا ہے تو معافی کا کبوتر ہمیشہ کے لیے اڑ کر چلا جاتا ہے اورلکیر پتھر پر اتنی گہری پڑتی ہے کہ کبھی کبھی تو لہو سے بھی نہیں بھرتی۔
اسی خوابیدہ مٹیالے قصبے میں تقسیم کے لگ بھگ ریت کے ٹیلوں میں گھری ہوئی ایک مسجد میں فقر کا ایک پیکر علم کے جواہر بانٹتا تھا۔ علوم اس کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے تھے۔ لغت اس کی کنیز تھی۔ حدیث پر اسے دسترس تھی یوں کہ اطراف و اکناف سے علم کے متلاشی آتے تھے اور دو زانو ہوکر سال ہا سال کے لیے بیٹھ جاتے تھے۔ تفسیر اور تفسیر کی تاریخ اسے ازبر تھی۔ عربی ادب اس کی دہلیز پر چوبدارتھا۔ علم کی دنیا اسے قاضی شمس الدین کے نام سے جانتی تھی۔ مسجد کے درشت فرش پر وہ بیٹھتا تھا اور فضا میں نظر نہ آنے والے پروں کی پھڑپھڑاہٹ صاف سنائی دیتی تھی۔ جوجانتے ہیں وہ جانتے ہیں ، جونہیں جانتے وہ جان لیں کہ اس عہد کی مسجدوں میں مرمر کے فرش تھے نہ قالینی صفیں ، سنگریزے تھے اور ٹھٹھرتے جاڑوں سے بچنے کے لیے خاص قسم کی خشک گھاس بچھا دی جاتی تھی جسے ’’ ستھر‘‘ کہتے تھے ۔کچھ کچھ وہ خوشبودار ہوتی تھی۔ بس ایسے ہی سنگریزے تھے اور اسی قسم کا ستھر تھا جہاں بیٹھ کر قاضی شمس الدین علوم اور فنون بکھیرتے تھے ۔ پوپھٹے شروع کرتے تو اشراق کا وقت چاشت میں ڈھل جاتا۔ دن کے زوال سے شروع کرتے تو سورج کے زرد ہونے اور پھر چھپ جانے تک پڑھاتے رہتے ۔مختلف رنگوں اور مختلف زبانوں والے سائل روحوں کے کشکول بھرتے جاتے۔
دودھ اور سیندور کا آمیزہ بنائیں تو جو رنگ بنتا ہے وہی رنگ اس نواب کے چہرے کا تھا جو بابا جنگ بہادر خان کہلاتا تھا اور اس مسجد کا مربی اور سرپرست تھا۔ قاضی شمس الدین کے اساتذہ ، دور بہت دور وسطی ہند کی اس درس گاہ میں متمکن تھے جو دیوبند کے قصبے میں تھی اور چار دانگ عالم میں جس کا شہرہ تھا۔ حدیث کے استاد کی ضرورت پڑی۔ دارالعلوم دیوبند کے ارباب قضاو قدر نے حکم صادر کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہاں سے پڑھ کر جانے والا قاضی شمس الدین اپنی مادرِ درسگاہ میں واپس آئے اور نصف دائرے میں دو زانو بیٹھنے والوں کو تعلیم دے۔ حکم پنڈی گھیب پہنچا۔ قصبے کے مکینوں کی نیند اور بھوک اڑ گئی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ہاتھوں سے اس لعل کو نہیں گنوا سکتے۔ نواب جنگ بہادر خان کو فیصلے سے آگاہ کردیاگیا۔ انکار کی خبر دیوبند پہنچی۔ دارالعلوم کے سربراہ اس وقت قاری محمد طیب ؒ تھے۔ وہ پابہ رکاب ہوئے اور طویل سفر کے بعد ،اس خوابیدہ مٹیالے قصبے میں بنفس نفیس پہنچ گئے۔قاری صاحب مرحوم نے باشندگان شہر کو جمع کیا اور گفتگو کی۔ دلیل یہ تھی کہ پڑھا تو شمس الدین یہاں بھی رہے ہیں اور وہاں بھی پڑھائیں گے ہی ،لیکن پنڈی گھیب اور دیوبند میں فرق ہے۔یہ ایک چھوٹی درسگاہ ہے۔ شائقین کی تعداد محدود ہے۔دیو بند ایک بڑی ، عظیم درسگاہ ہے جہاں سائلین کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ خلق نے قاری صاحب کی پذیرائی کی اور شمس الدین کو ان کے عقیدت مندوں نے دلوں پر پتھر رکھ کر جدا ہونے کی اجازت دی۔ سالہا سال دیوبند میں پڑھانے کے بعد شمس الدین واپس ہوئے تو پنڈی گھیب نہ پلٹے اور گوجرانوالہ میں پڑھانا شروع کردیا۔ نان و نمک کے لیے صابن بنانے کا چھوٹا سا کاروبارر کھا۔ خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ تدریس کا معاوضہ معمولی لیتے تھے۔ کسی اور شہر (غالباً فیصل آباد) سے زیادہ معاوضہ کی پیشکش ہوئی ،تیار ہوئے لیکن پھر فوراً ہی ارادہ منسوخ کردیا۔ اٹک پنڈی گھیب کی ہندکو میں بات کیا کرتے۔کہنے لگے مرجاتا تو کیا جواب دیتا کہ چند روپوں کے اضافہ کے لیے تدریس حدیث کی جگہ تبدیل کرلی ؟
انہی قاضی شمس الدین کے سامنے اس کالم نگار کے والد گرمی دو زانو بیٹھ کر فیض یاب ہوئے۔ کیا عقیدت اور کیا سپردگی تھی۔ استاد نے بیٹھنا ہوتا تو سر سے رومال یا دستار اتار کر نشست صاف کرتے ۔ فخر تھا یا جذبہ تشکر جس نے یہ شعر کہلوایا     ؎
میں ایک ذرّۂِ ناچیز ہوں ظہوؔر مگر
خدا نے دی ہے مجھے ’’ شمسِ دیں‘‘ سے تابانی
پھر استاد کی مسند پر بیٹھ کر پڑھایا۔ نصف صدی تک عید کا اور جمعہ کا خطبہ دیا۔ مسجد سے ایک پائی تک لینا حرام تھی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں میں ملازمت کی اور کتابیں لکھ کرگزر اوقات کیا۔ کیا وسعت بخشی پروردگار نے اس تنگی میں کہ ایک بیٹا سول سروس کی چوٹی تک پہنچا، دوسرا امریکہ میں تقابل ادیان پڑھا رہا ہے اور پوتا کارڈیالوجسٹ ہے، ایسا کہ بحرالکاہل کے کناروں پر مریض کھچے چلے آتے ہیں۔ بخدا یہ فخر و مباہات نہیں،  تحدیث نعمت ہے     ؎
شکرِ نعمت ہائی تو، چندانکہ، نعمت ہائی تو
عذرِ تقصیراتِ ما، چندانکہ، تقصیراتِ ما
چٹانوں سے سرمارتے دریائے سندھ سے کچھ فاصلے پر نیم بیدار مٹیالی پنڈی گھیب میں جب بھی کالم نگار جاتا ہے، محبت کرنے والے باور کراتے ہیں کہ تمہارے بزرگوں کا فیض ہے جوآج ہم سر اٹھا کر سینہ تان کر چل رہے ہیں ورنہ کسی کتبے کے سامنے ، کسی لمبے چولے والے کے حضور دست بستہ کھڑے ہوتے یا فیض رسانی کے کسی دعویدار کے پائوں میں بیٹھے ہوتے۔ قطرے رخساروں پر ڈھلکنے لگتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم تو محض نام بیچنے والے ہیں ۔ شہرۂ آفاق ناول نگار شیرلیٹ برانٹی نے اپنے محبوب (ہنیگر) کو لکھا تھا:
The poor do not need much to keep them alive. They ask only for crumbs that fall from rich man's table.
افسوسٖ!ہم تو علم کے دستر خوان سے بچے کھچے ٹکڑے تک نہ چن سکے۔ اخترہوشیار پوری نے ہمارے لیے ہی کہا تھا    ؎
دامن خالی، ہاتھ بھی خالی، دستِ طلب میں گردِ طلب

عمرِگریزاں! عمرِگریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو

Sunday, October 06, 2013

علما و مشائخ کی اپیل …(آخری قسط)

ہمارے ان قابلِ احترام جید علمائے کرام اور مشائخِ عظّام کا مذہبی فریضہ ہے کہ قوم کو گومگو کی کیفیت سے نکالیں۔ طالبان حق پر ہیں یا غلط ہیں… دونوں میں سے ایک ہی بات درست ہو سکتی ہے۔ اگر وہ حق پر ہیں تو علما ان کا ساتھ دیں‘ قوم بھی ساتھ دے گی۔ اگر علما سمجھتے ہیں کہ ان کے مطالبات جائز ہیں لیکن طریق کار غلط ہے‘ تب بھی یہ موقف کھل کر سامنے آنا چاہیے۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے محترم علما و مشائخ اس ضمن میں کوئی واضح رائے نہیں رکھتے اور اگر رکھتے ہیں تو اس کا بوجوہ اظہار نہیں کرتے۔ بقول احمد ندیم قاسمی    ؎ 
مجھے تسلیم ہے تم نے محبت مجھ سے کی ہو گی 
زمانے نے مگر اظہار کی مہلت نہ دی ہو گی 
طالبان صرف ڈرون حملوں یا امریکی موجودگی کی بات نہیں کر رہے‘ وہ پاکستان کے آئین اور پاکستان کی حکومت کو بھی نہیں مانتے۔ اگر یہ موقف مبنی برحق ہے تو ہم ادب کے ساتھ علمائے کرام سے درخواست گزار ہیں کہ وہ کھل کر طالبان کے اس موقف کی تائید کریں۔ اس کالم نگار کی طرح لاکھوں کروڑوں پاکستانی جو دین کا علم نہیں رکھتے‘ مولانا تقی عثمانی کی طرف دیکھتے ہیں۔ کاش جسٹس صاحب یہاں بھی اُسی وضاحت سے کام لیتے جس کے ساتھ انہوں نے عبدالرشید غازی صاحب کے طریقِ کار کو شرعی اور اخلاقی لحاظ سے غلط قرار دیا تھا۔ 
پاکستانی ریاست کے پہلے سربراہ‘ قائداعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس مکتبِ فکر کے کسی عالم نے پاکستانی آئین کو شریعت کا مدِمقابل قرار نہیں دیا۔ طالبان نے کئی بار کہا ہے کہ ’’وہ شریعت کی جب کہ حکومت آئین کی بات کرتی ہے‘‘۔ ہمارے علما و مشائخ سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ آئین‘ شریعت کے مدِّمقابل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ شریعت اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام پر مشتمل ہے جب کہ آئین ملک کا نظم و نسق چلانے کے متعلق ہدایات دیتا ہے۔ شریعت آسمانی ہدایت ہے جس میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ آئین ایک قانونی دستاویز ہے جس میں ایک نہیں‘ ہزار ترامیم کی جا سکتی ہیں۔ تعجب ہے کہ علمائے کرام اس نکتے پر اپنا موقف واضح کرنے سے گریزاں ہیں! 
قوم اس نازک مسئلے پر بھی رہنمائی کی طلبگار ہے کہ کیا ڈرون حملوں کا انتقام اُن بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں اور مردوں سے لینا جائز ہے جن کا امریکہ سے تعلق ہے نہ پاکستان کی پالیسی سازی سے! شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو جو ڈرون حملوں کا دفاع کرتا ہو۔ امریکی ڈرون حملے وحشت اور بربریت کی بدترین مثال ہیں‘ لیکن کیا علمائے کرام کے نزدیک ڈرون حملوں کا انتقام سید علی ہجویریؒ کے مزار کے زائرین یا بازاروں میں خریداری کرنے والی عورتوں یا مسجدوں میں سربسجود اور جناز گاہوں میں مصروفِ دعا باوضو مسلمانوں سے لینا جائز ہے؟ حافظ سعید صاحب نے کل کے اخبارات میں دھماکوں کو غیر مشروط طور پر حرام قرار دیا ہے۔ 
سرورِ کائناتؐ نے اپنے آخری ایام میں شام پر حملہ کرنے کے لیے لشکرِ اسامہؓ کی تیاری کا حکم جاری فرمایا تھا‘ لیکن آپؐ کی علالت اور پھر وصال کی وجہ سے لشکر روانہ نہ ہو سکا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ مسند آرائے خلافت ہوئے تو سب سے پہلے لشکرِ اسامہؓ کی روانگی کا حکم دیا۔ امیر المومنین لشکر کو رخصت کرنے مدینہ سے باہر اس حال میں تشریف لائے کہ پیدل چل رہے تھے اور اسامہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔ لشکر کو الوداع کرتے وقت خلیفۂ رسولؐ نے فرمایا: ’’اس موقع پر میں تمہیں دس نصیحتیں کرتا ہوں۔ غور سے سنو اور انہیں یاد رکھو۔ ان پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔ 
1۔ خیانت نہ کرنا۔ 
2۔ بدعہدی نہ کرنا۔ 
3۔ چوری نہ کرنا۔ 
4۔ مقتولوں کے اعضا نہ کاٹنا۔ بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا۔ 
5۔ کھجور کے درخت نہ کاٹنا نہ جلانا۔ کوئی بھی پھل والا درخت نہ کاٹنا۔ 
6۔ بھیڑ‘ بکری‘ گائے یا اونٹ کو کھانے کے سوا ذبح نہ کرنا۔ 
7۔ تمہارا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوگا جو اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کیے گرجوں اور عبادت خانوں میں بیٹھے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر رہے ہوں گے۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ ان سے کوئی تعرض نہ کرنا۔ 
8۔ تمہیں ایسے لوگوں کے پاس جانے کا موقع ملے گا جو تمہارے لیے برتنوں میں ڈال کر مختلف قسم کے کھانے پیش کریں گے۔ تمہارا فرض ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کردو۔ 
9۔ تم ایسے لوگوں سے ملو گے جنہوں نے سر کا درمیانی حصہ تو منڈوا دیا ہوگا لیکن سر کے چاروں طرف بڑی بڑی لٹیں لٹکتی ہوں گی۔ انہیں تلوار سے قتل کر دینا۔ 
10۔ اپنی حفاظت اللہ کے نام سے کرنا۔ 
یہ دس ہدایات اسلامی تاریخ میں پتھر پر کھدی لکیر بن گئیں۔ سلطنت کو وسیع کرنے کے لیے لوگوں کا خون بہانے والے بادشاہوں کی بات اور ہے‘ لیکن جب بھی مسلمان خدا کے دین کی سربلندی کے لیے برسرِ پیکار ہوئے تو ان نصیحتوں پر سختی سے کاربند رہے۔ پاکستان میں ثمردار درخت اور فصلیں تو دور کی بات ہے‘ بے گناہ بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں اور نہتے مردوں کا خون اس کثرت اور اس تواتر سے بہایا گیا ہے کہ تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔ 30 ستمبر کی اپیل میں کہا گیا ہے کہ: ’’اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کو خانہ جنگی سے نکالنے اور امن و 
امان کے قیام کے لیے مدارس اور خانقاہوں سے باہر آ کر عملی طور پر اپنا کردار ادا کیا جائے‘‘۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ  ع 
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے 
دلچسپ امر یہ ہے کہ جہاں بے لوث اور فقیرانہ زندگی بسر کرنے والے علمائے کرام موجود ہیں‘ وہاں کچھ ایسے اصحاب بھی ہیں جن کا فقر و درویشی سے دور دور کا علاقہ نہیں۔ ایک حضرت ایسے بھی ہیں جو کچھ عرصہ قبل امریکہ تشریف لے گئے۔ علاج معالجہ سے لے کر سفر خرچ تک تمام تفصیلات ’’پیکیج‘‘ کا حصہ تھیں!! 
پھر بھی اکثریت اُن علمائے کرام پر مشتمل ہے جو اُجلی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اکلِ حلال کے لیے کمال درجے کی احتیاط برتتے ہیں۔ دن قال اللہ و قال الرسول اور رات عبادت و استغفار میں گزارتے ہیں۔ طالبان کی اکثریت ان علما کا دل سے احترام کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ علما ’’بزن‘‘ کا حکم دیں تو طالبان کی یلغار کو کوئی نہیں روک سکے گا لیکن اگر یہ ’’قِف‘‘ کہہ دیں تو طالبان کی تلواریں حیرت انگیز سرعت سے نیاموں میں چلی جائیں گی۔ علما اور مشائخ جانتے ہیں کہ علامہ اقبال‘ مولانا انور شاہ کاشمیری سے متاثر تھے۔ آج اس سرزمین پر ہر طرف سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں اور ان بادلوں کے پیچھے سے علامہ اقبال علما و مشائخ سے مخاطب ہیں:     ؎ 
ہمہ افکارِ من از تُست چہ در دل چہ بلب 
گہر از بحر برآری نہ برآری از تُست 
گلہ ہا داشتم از دل بہ زبانم نرسید 
مہر و بی مہری و عیاری و یاری از تُست

Friday, October 04, 2013

علما ومشائخ کی اپیل

معروف اور جید علماء کرام نے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر حکومت اور طالبان سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ذرائع کے مطابق علماء نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو خانہ جنگی سے نکالنے اور امن وامان کے قیام کے لیے مدارس اور خانقاہوں سے باہر آکر عملی طورپر اپنا کردار اداکیا جائے۔ علماء نے یہ بھی کہا  ہے کہ طاقت کا بے جا استعمال اور خونریزی کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ 
30ستمبر کا یہ اجلاس اور یہ اپیل‘ بظاہر ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ خدا کرے کہ یہ اپیل صدابصحرا نہ ثابت ہو ۔ لیکن کیا ایسا ہوسکے گا؟ جو کشت وخون سالہا سال سے جاری ہے، کیا اس کا مداوا یہ ایک اجلاس کرسکے گا؟ وہ جو ناصر کاظمی نے کہا تھا   ؎
میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں 
بڑا مزا ہو اگر وا نہ کرسکے تو بھی 
تو یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ علماء کے اس اجلاس اور ان کی اپیل کا تجزیہ کرتے ہوئے دوپہلو خاص طورپر سامنے رکھنے ہوں گے۔ 
اول ۔ یہ اجلاس ایک خاص مکتب فکر کے علماومشائخ کا تھا۔ یہ کہنا کہ یہ ملک بھر کے جید علما کا اجلاس تھا، واقعاتی اعتبار سے درست نہیں۔ اس اجلاس میں شیعہ‘ بریلوی اور اہل حدیث مسلک کے علما اور مشائخ شامل نہیں تھے۔ صرف وہی علماء تھے جو وفاق المدارس سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کی معلومات کے لیے بتانا مناسب ہوگا کہ ہرمکتب فکر کے مدارس کی اپنی تنظیم ہے جو امتحانات اور نتائج کے اعلان کی ذمہ دار ہے۔ بریلوی مکتبِ فکر کے مدارس کی باڈی تنظیم المدارس کہلاتی ہے۔ مفتی منیب الرحمن اس کے سربراہ ہیں۔ اسی طرح اہلِ تشیع اور اہل حدیث مکاتب فکر کے مدارس کی تنظیمیں الگ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے مدارس الگ ہیں۔ گویا ان کا تعلق دیوبندی‘ بریلوی‘ شیعہ‘ اہل حدیث‘ کسی مکتب فکر سے نہیں‘ حالانکہ عقائد کی روسے جماعت اسلامی دیوبند مسلک کے قریب سمجھی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے مدارس کی تنظیم الگ کیوں بنائی؟ اس کا سبب نہیں معلوم۔ کہتے ہیں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ میرا 72فرقوں میں سے کسی فرقے سے کوئی تعلق نہیں۔ سننے والے نے جواب دیا کہ پھر یوںکہو نا کہ تمہارا 73واں فرقہ ہے!
پھر ان تمام مکاتب فکر کے مدارس کی تنظیموں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم بھی ہے جسے ’’تنظیمات المدارس‘‘ کہا جاتا ہے۔ 30ستمبرکو علماو مشائخ کا جواجلاس ہوا اور جس کے نتیجہ میں حکومت اور طالبان سے امن کی اپیل کی گئی ہے، وہ اجلاس صرف وفاق المدارس کے مکتب فکر کا تھا۔ یہاں ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق اس اجلاس میں شریک نہیں تھے‘ حالانکہ وہ اسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور طالبان کے مسئلے پر اپنی واضح آراء رکھتے ہیں۔ 
دوم۔تحریک طالبان پاکستان کا تعلق بھی اسی مکتب فکر سے ہے۔ وہ جن مدارس کے پڑھے ہوئے ہیں وہ مدارس ’’وفاق المدارس‘‘ ہی سے وابستہ ہیں۔ 
یہ ہیں دواہم پہلو جو اس ضمن میں سامنے رکھنے ہوں گے۔ علما اور مشائخ کی اس اپیل کے ایک دن بعد تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے اپیل کے خیر مقدم کی خبریں شائع ہوئیں۔ طالبان نے یہ بھی کہا کہ یہ تمام علما و مشائخ ان کے لیے قابل احترام ہیں۔ اب مقطع میں جو سخن گسترانہ سوال آپڑا ہے‘ یہ ہے کہ اگر تحریکِ طالبان پاکستان کے ارکان اسی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جس سے یہ علما 
اور مشائخ وابستہ ہیں اور اگر طالبان ان مقدس ہستیوں کا احترام بھی کرتے ہیں تو پھر کشت وخون کیوں نہیں رک رہا ؟ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کے جواب پر امن کا انحصار ہے۔ اس وقت ملک میں تین فریق ہیں۔ ایک فریق طالبان خود ہیں دوسرا فریق وہ پاکستانی عوام ہیں جو طالبان کے ساتھ نظریاتی طورپر اتفاق کرتے ہیں۔ تیسرا فریق عوام کا وہ بڑا حصہ ہے جو طالبان کے خیالات سے اختلاف کرتا ہے۔ یادرہے کہ اختلاف کرنے والوں میں اس مکتب فکر کے بھی لاکھوں لوگ شامل ہیں جس مکتب فکر سے خود طالبان وابستہ ہیں۔ جس طرح عوام علماء ومشائخ کی رہنمائی کے محتاج ہیں اسی طرح طالبان کو بھی رہنمائی درکار ہے۔ طالبان اپنے علاقوں میں موجود علماء کرام سے ضرور رہنمائی حاصل کرتے ہوں گے لیکن مفتی محمد رفیع عثمانی، جسٹس تقی عثمانی اور مولانا سلیم اللہ خان کے ہم پایہ علماء یقیناً طالبان کے علاقوں میں موجود نہیں۔
اگر ہماری عرض گزاری کو گستاخی پر نہ محمول کیا جائے تو ہم یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ اس مکتب فکر کے علماء ومشائخ نے اپنا فرض سرانجام نہیں دیا۔ اس دعویٰ کے ثبوت میں کئی دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں۔ 
اول ۔ آج تک ان علما ومشائخ نے واضح طورپر یہ نہیں بتایا کہ وہ طالبان کے تصور اسلام اور طریق کار سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف ۔ ہمیں نہیں معلوم یہ کتمانِ حق ہے یا اس تغافل کا کوئی اور نام بھی ہے لیکن ان کا کوئی موقف کبھی سامنے نہیں آیا۔ مثلاً لال مسجد کے مولانا عبدالرشید غازی صاحب کے متعلق مولانا جسٹس تقی عثمانی صاحب کا یہ مؤقف آج بھی یوٹیوب پر دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ عبدالرشید غازی صاحب کے مطالبات درست تھے لیکن طریقہ درست نہیں تھا اور یہ کہ ان کا طریقہ شرعی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے صحیح تھا۔ اور یہ کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جذبے سے مغلوب ہوکر رہ گئی تھی۔ لیکن ہمارے ان جید اور قابل احترام علما نے تحریک طالبان پاکستان کے مطالبات اور طریق کار کے متعلق آج تک اپنا مؤقف اس طرح کھل کر بیان نہیں کیا۔ 
دوم۔ کیا مولانا فضل اللہ، مسلم خان، بیت اللہ محسود ، حکیم اللہ محسود اور طالبان کے کئی اور لیڈر عالِم ہیں؟ اور کیا وہ فی الواقع دیوبند مکتب فکر کی نمائندگی کررہے ہیں؟ اس اہم سوال کا جواب بھی ان ثقہ علما نے کبھی نہیں دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام خواہ جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتے ہوں، طالبان کے ان رہنمائوں کو اس مکتب فکر کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ 
سوم۔ جب طالبان نے دوسرے مسلک کے رہنمائوں کی لاشیں قبروں سے نکال کر چوراہوں پر لٹکائیں اور مزاروں پر دھماکے کیے، اس وقت بھی ہمارے یہ قابل احترام علما خاموش رہے۔ جب داتا دربار لاہور کے دھماکے میں درجنوں افراد موت کے گھاٹ اتر گئے اور سنی اتحاد کونسل نے جلوس میں مخالف مکتب فکر کے دومعروف علما کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تب بھی اس طرف سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ 
چہارم۔ علما نے اپنی اپیل میں حکومت اور طالبان دونوں کو یکساں طورپر مخاطب کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ علما پاکستانی ریاست کے حکمرانوں کو ’’اولی الامر‘‘ سمجھتے ہیں ؟مفتی محمد شفیع مرحوم اپنی تفسیر معارف القرآن میں سورہ نساء کی آیت 59(اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسولؐ کا اور حاکموں کا جو تم میں سے ہوں ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’آیت مذکورہ میں اولوالامر کی اطاعت سے علما اور حکام دونوں کی اطاعت مراد ہے۔ اس لیے اس آیت کی رو سے فقہی تحقیقات میں فقہا کی اطاعت اور انتظامی امور میں حکام وامرا کی اطاعت واجب ہوگی۔‘‘ آگے چل کر مفتی صاحب مرحوم فرماتے ہیں:
’’جس طرح خصوصیات قرآن میں قرآن کا اتباع اور منصوصات رسولؐ میں رسولؐ کا اتباع لازم وواجب ہے اسی طرح غیر منصوص فقہی چیزوں میں فقہا کا اور انتظامی امور میں حکام وامرا کا اتباع واجب ہے۔ یہی مفہوم ہے اطاعت اولی الامر کا۔‘‘ 
(معارف القرآن جلددوم۔ صفحہ 453۔ طبع جدید اکتوبر 1983ء)
مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم کے دونوں صاحبزادے مولانا مفتی رفیع عثمانی اور مولانا جسٹس تقی عثمانی ان نامور علما کے سرخیل ہیں جنہوں نے 30ستمبر کو طالبان اور حکومت کے نام اپیل کی۔ دونوں نامور علماء حکومت پاکستان کو اپنی آمدنی سے ٹیکس بھی ادا کرتے ہوں گے۔ جس شریعت کورٹ کے مولانا تقی عثمانی جج رہے وہ بھی پاکستانی ریاست اور حکومت کا حصہ تھی اور ہے۔ تو کیا پاکستانی ریاست کے خلاف طالبان کا خروج ( مسلح بغاوت) جائز ہے ؟ ۔ اگر جائز ہے تو ان محترم علماء کرام کو اس خروج میں نہ صرف حصہ لینا چاہیے بلکہ اس کی قیادت فرمانی چاہیے اور اگر جائز نہیں تو واضح طورپر اس کا اعلان کرنا چاہیے۔ (جاری)

Tuesday, October 01, 2013

لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ

دادا اور پوتا ایک گائوں سے دوسرے گائوں جارہے تھے۔ پندرہ سالہ پوتا گدھے پر سوار تھا۔ کچھ راہگیر سامنے سے آرہے تھے۔ دیہی ثقافت کا یہ ایک اہم حصہ ہے کہ ایک دوسرے کو کراس کرتے ہوئے رک کر حال چال پوچھتے ہیں اور خوب تفصیل سے پوچھتے ہیں ۔ پہلا سامنا جن راہگیروں سے ہوا، انہوں نے جاتے جاتے یہ بھی کہہ دیا کہ جوان پوتا مزے سے گدھے کی سواری کررہا ہے اور بوڑھا دادا پیدل چلنے کی مشقت میں ہے۔ پوتے سے یہ تبصرہ برداشت نہ ہوا۔ دادا کے منع کرنے کے باوجود وہ نیچے اترآیا اور اصرار کرکے دادا کو سوار کرادیا۔ پھر کچھ اور لوگ ملے ۔ خیروعافیت پوچھنے کے بعد وہ بابے سے مخاطب ہوئے۔’’معصوم بچہ پیدل سفر کررہا ہے۔ تھکاوٹ کے مارے اس کا برا حال ہے اور تم مزے سے سواری کررہے ہو۔ کیا آج کل کے دادا اتنے سخت دل ہوگئے ہیں ؟‘‘ پوتے کے لاکھ منع کرنے کے باوجود دادا نے مزید سواری کرنے سے صاف انکار کردیا۔ خوب بحث ہوئی۔ بالآخر طے ہوا کہ دونوں سوار ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ دادا نے پوتے کو آگے بٹھا لیا۔ اب جو مسافر راہ میں ملے، انہوں نے خیرخیریت اور فصلوں کی صورت حال پر تبصرہ کرنے کے بعد یہ ریمارک بھی دیا کہ دونوں ہٹے کٹے جانور پر سوار ہوگئے ہیں جو بری طرح ہانپ رہا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ دونوں میں سے ایک بھی اپنے قدموں پر نہیں چل سکتا۔ شرمندگی سے دونوں دادا پوتا کے ماتھوں پر پسینہ آگیا۔ دونوں نیچے اترآئے اور پیدل چلنا شروع کردیا۔ آپس میں بات چیت بھی نہیں کررہے تھے۔ راہ گیر وں کا چھوٹا سا گروہ جو اب ملا، خوب ہنسا اور انہیں یاد دلایا کہ ساتھ گدھا بھی ہے اور تم دونوں اتنے احمق ہوکہ پیدل چل رہے ہو۔ دونوں نہیں، تو ایک تو اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ 
عام سی یہ کہانی جو ہم سب نے لڑکپن میں پڑھی یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ کیا دادا اور پوتے نے خلق خدا کا منہ بند کرنے کے لیے آخری متبادل صورت آزمائی تھی اور گدھے کو اپنے اوپر سوار کرایا تھا یا نہیں ! کہانی اس بارے میں خاموش ہے۔ لیکن یہ کہانی یوں یادآئی کہ بیس ستمبر کے کالم ’’ڈاکو، دماغ اور دل‘‘ میں ہم نے اس خبر کا ذکر کیا تھا جس کے مطابق ڈاکوئوں نے معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل کو لوٹنے کی کوشش کی لیکن ڈرائیور کی حاضر دماغی سے ڈاکو کامیاب نہ ہوسکے۔ بنیادی طورپر کالم اسی حوالے سے تھا اور خدائے بزرگ وبرتر کا شکر ادا کیا گیا تھا جس نے حضرت مولانا کو اپنی حفاظت میں رکھا۔ چونکہ مولانا کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے اس لیے تحریر میں تبلیغی جماعت کا ذکر بھی تھا!
اس کالم نے مہمیز کا کام کیا۔ یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ جتنے تبصرے اس کالم پر کیے گئے شاید ہی کسی اور مضمون پر ہوئے۔ بیرون ملک سے اور اندرون ملک سے ای میلوں کا انبارلگ گیا۔ یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ردعمل دونوں طرف سے ہوا اور خوب ہوا۔ تبلیغی جماعت کے حامیوں نے بھی کھل کر لکھا اور معترضین نے بھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کالم نگار سے دونوں فریق ناخوش ہیں۔ سراج الدین ظفر کمال کے شاعر تھے۔ افسوس ہم نے انہیں بھلا دیا۔ ان کا شعر یاد آرہا ہے    ؎
نہ مطمئن ہے فقیہِ حرم، نہ رندِ خراب
اسے سزا کا ہے دھڑکا، اسے جزا معلوم 
اس کالم کے بے تحاشا فیڈبیک سے تین باتیں واضح ہوگئیں ۔ اول : خلق خدا کو مطمئن کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ ایک ہی تحریر سے جس گروہ کے کچھ افراد حددرجہ خوش ہوتے ہیں اسی گروہ کے کچھ اور افراد، اتنے ہی نالاں نظرآتے ہیں۔ دوم: تبلیغی جماعت سے محبت کرنے والے دنیا کے ہرگوشے میں موجود ہیں۔ عام تاثر کہ یہ حضرات میڈیاسے بے نیاز ہیں، غلط ہے۔ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ اخبارات سے، ملکی حالات سے اور بین الاقوامی مدوجزر سے اپنے آپ کو آگاہ رکھتے ہیں۔ ردعمل میں اپنے جذبات کے اظہار کے لیے یہ انٹرنیٹ سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ سب باتیں خوش آئند ہیں۔ سوم: تبلیغی جماعت سے اختلاف کرنے والے بھی تعداد میں کم نہیں۔ یہ بھی اپنے خیالات اور جذبات کا ابلاغ خوب جانتے ہیں۔ اپنا ہی شعر یاد آرہا ہے   ؎
ملی ہے اس لیے خلعت کہ میں نے زیرِعبا
چلا تھا گھر سے تو شمشیر بھی پہن لی تھی!
قارئین کی بے پناہ دلچسپی کے پیش نظر، ہم دونوں طرف سے پیش کردہ نکات، بلاکم وکاست، جوں کے توں، پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں۔ 
جماعت سے محبت کرنے والے افراد کالم سے خوش نظرآئے لیکن ایک کثیر تعداد نے کالم نگار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کے خیال میں لکھنے والے نے جابجا طنز سے کام لیا تھا۔ وہ اس بات سے ناخوش ہیں کہ مولانا طارق جمیل کی تقاریر کا ذکر صرف حقوق اللہ کے حوالے سے کیوں کیا گیا ہے حالانکہ وہ اخلاقیات پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔ یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ حجاج بن یوسف اور عراق کے مستجاب الدعوات فقیروں کی دعوت کا ذکر طنزاً کیا گیا کیونکہ جماعت کے بزرگان کرام، حکمرانوں کو مہمان نوازی کا موقع دیتے رہتے ہیں۔ ہماری اس تجویز کو کہ رمضان المبارک میں جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات جوٹیلی ویژن کے پروگرام کرتے ہیں، چونکہ معاوضہ نہیں لیتے، اس لیے اس کا اعلان بھی کردیں تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو، کالم نگار کے حسد پر محمول کیا گیا ہے۔ بہت سے دوستوں نے جہاد کے حوالے سے وضاحت کی کہ اگرچہ فضائلِ جہاد تبلیغی نصاب کا حصہ نہیں لیکن حکایاتِ صحابہ میں جو نصاب کا حصہ ہیں،جہاد کے فضائل جابجا بیان کیے گئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ ’’فضائل اعمال‘‘ اسی زمانے میں تالیف کی گئی جب مصنف کو دماغی کام سے روک دیا گیا تھا، تو کالم نگار پر شدید تنقید کی گئی ہے کہ اس کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی جب کہ مصنف کہنا یہ چاہتے تھے کہ ان دنوں وہ فرصت سے تھے۔ 
تبلیغی جماعت سے اختلاف کرنے والوں نے بھی کالم نگار پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کے خیال میں کالم نگار نے تبلیغی جماعت سے اپنی عقیدت پڑھنے والوں پر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔ ان حضرات نے کالم نگار کے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ مولانا طارق جمیل کی ساری توجہ اپنے ہم وطنوں پر ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ وہ اکثر وبیشتر غیرملکی دوروں پر رہتے ہیں اور یہ کہنا درست نہیں کہ وہ اہل اقتدار کے ہاں قیام نہیں فرماتے۔ ان حضرات کا اعتراض یہ بھی ہے کہ جماعت کے بزرگوں کی تلقین پر لاتعداد لوگوں نے گھروں سے ٹیلی ویژن ہٹا دیے۔ اس سے گھروں میں جھگڑے بھی ہوئے۔ لیکن اگر گھر میں ٹیلی ویژن نہ ہوگا تو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات کے وہ مذہبی پروگرام کیسے دیکھے جاسکیں گے جو وہ ٹیلی ویژن پر پیش کرتے ہیں؟
مذہبی پروگراموں کا معاوضہ لینے کے ضمن میں دلچسپ باتیں بتائی گئیں۔ کچھ قارئین نے بتایا کہ قرآنی پروگراموں کا معاوضہ لینا بزرگوں کے نزدیک جائز نہیں۔تبلیغی نصاب کی کتاب فضائل اعمال کے بارے میں مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک میں رہنے والے قارئین نے بتایا ہے کہ عرب حضرات اس کتاب کو پسند نہیں کرتے اس لیے ان ملکوں میں ’’ریاض الصالحین ‘‘ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ عربوں کا اعتراض یہ ہے کہ ’’فضائل‘‘ میں بیان کردہ روایات ضعیف ہیں اور اکثر کی سند موجود نہیں! ایک نکتہ جو اختلاف کرنے والے اکثروبیشتر قارئین نے التزام سے اٹھایا ہے یہ ہے کہ حقوق العباد پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ 
صحافیانہ دیانت کوبروئے کار لاتے ہوئے دونوں طرف کے مؤقف پیش کردیئے گئے ہیں۔ بقول فراق  ع
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ

 

powered by worldwanders.com