زندگی کا بیشتر حصہ ولایت اور پھر پاکستانی ولایت (لاہور) میں گزارنے والے عمران خان آج کل اسلام آباد کی ایک پرفضا پہاڑی کی چوٹی پر تین سو کنال کے جھونپڑے میں رہتے ہیں۔ وہ خیبرپختونخوا میں کبھی نہیں رہے۔ ظاہر ہے وہاں کے کلچر، مسائل اور معاملات سے انہیں محض کتابی آگاہی ہے۔ بہر طور ان دنوں وہ خیبرپختونخوا کے حکمرانوں پر بہت محنت کررہے ہیں۔ عمران خان انہیں سکھا رہے ہیں کہ لکھتے وقت قلم کس طرح پکڑا جاتا ہے، مسواک یا ٹوتھ برش سے دانت کیسے صاف کیے جاتے ہیں۔ لباس زیب تن کرنے کے بعد بٹن کس طرح بند کیے جاتے ہیں۔ کنگھی کیسے کی جاتی ہے۔ دفتر میں میز کہاں رکھنی ہے اور بیٹھتے وقت رخ کدھر کرنا ہے۔ رہے باقی چھوٹے چھوٹے مسائل مثلاً فائل پر کیا لکھنا ہے؟ تو صوبے کے حکمران عمران خان سے وقتاً فوقتاً پوچھتے رہیں گے۔ 1926ء میں انتقال کرنے والے مشہور ایرانی شاعر ایرج مرزا نے ،جو اعلیٰ درجے کے خطاط بھی تھے اور فرانسیسی، روسی، عربی اور ترکی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے، ماں کے موضوع پر ایک شہرۂ آفاق نظم لکھی ہے جو اس موقع پر بے اختیار یاد آرہی ہے:
گویند مرا چو زاد مادر
پستان بدہن گرفتن آموخت
شب ہا بر گاہوارۂ من
بیدار نشست و خفتن آموخت
دستم بگرفت و پا بہ پا بُرد
تا شیوۂ راہ رفتن آموخت
یک حرف و دو حرف بر زبانم
الفاظ نہاد و گفتن آموخت
کہتے ہیں جب ماں نے مجھے جنم دیا تو سب سے پہلے دودھ پینا سکھایا۔ راتوں کو وہ میرے پنگوڑھے کے پاس بیٹھ کر جاگتی رہی اور یوں مجھے سونا سکھایا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر پائوں پائوں چلاتی رہی۔ اس طرح مجھے چلنا سکھایا۔ میری زبان پر وہ ایک ایک دو دو لفظ رکھتی ۔ یوں اس نے مجھے بولنا سکھایا۔
خیر یہ تو وائسرائے اور مقامی حکمرانوں کے باہمی معاملات ہیں۔ ہمیں اس سے کیا؟ لیکن وہ جو کہا ہے کہ عمران خان ایک پہاڑی کی چوٹی پر تین سو اور بعض روایات کی رُو سے چار سو کنال کے غربت کدے میں رہتے ہیں ،جہاں کتوں کی تعداد سنا ہے ایک درجن سے کم نہیں، تو یہ اس لیے کہا ہے کہ وہ بھی دوسرے حکمرانوں کی طرح عام آدمی کی رسائی سے باہر ہیں۔ یہاں احمد ندیم قاسمی کا شعر یاد آرہا ہے ؎
نارسائی کی قسم اتنا سمجھ میں آیا
حُسن جب ہاتھ نہ آیا تو خدا کہلایا
یہ غریب کالم نگار بھی عام آدمی ہے جو عمران خان تک رسائی نہیں رکھتا ورنہ پاکستانی جرنیل اور اس کے رفقائے کار کی شہادت پر یہ جو عمران خان نے ردعمل ظاہر کیا ہے کہ وہ نو سال سے امریکی جنگ سے نکلنے کا کہہ رہے ہیں تو نہایت احترام کے ساتھ چند سوالات کا جواب ضرور چاہتا۔
1۔ کیا پاکستان اور افغانستان دو الگ الگ آزاد ممالک ہیں یا نہیں؟
2۔کیا امریکی جنگ پاکستان میں پاکستانی حکومتیں لائی ہیں یا وہ جنگجو جو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے رہے اور امریکی جن کا تعاقب کرتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے داخل ہوئے؟
3۔کیا غیر ملکیوں کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر مسلح ہو کر پاکستان میں جو ایک آزاد ملک ہے گھس آئیں اور آباد ہو کر جنگی کارروائیاں کریں؟
4۔کیا سعودی عرب سمیت کسی مسلمان ملک میں ایسے غیر ملکی جنگجو اس انداز سے داخل ہوسکتے ہیں؟
5۔کیا ایسے غیر ملکیوں کے حوالے سے عمران خان کسی واضح پالیسی کا اظہار کرنا پسند کریں گے؟
6۔کیا عمران ہلاک کیے جانے والے جرنیل اور ان کے رفقائے کار کو شہید سمجھتے ہیں؟ اور کیا انہیں شہید کرنے والوں کو قومی مجرم گردانتے ہیں؟
7۔جس طرح امریکی ڈرون حملے ہماری خودمختاری پر حملہ ہیں اور یقیناً ہیں، کیا اسی طرح غیر ملکیوں کا ہماری سرحدوں کے اندر گھس آنا اور ہماری سرزمین سے دوسرے ملکوں پر حملے کرنا ہماری خود مختاری پر حملہ ہے یا نہیں؟ اور ان دونوں صورتوں کی یکساں مذمت کرنی چاہیے یا نہیں؟
سوالات تو اور بھی ہیں مثلاً یہ کہ زرعی اصلاحات اور پاکستان میں قائم از منۂ وسطیٰ کے جاگیردارانہ نظام کے بارے میں عمران خان کی کیا پالیسی ہوگی ۔لیکن اس قبیل کے سوالوں کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں تاکہ کارپوریٹ سیکٹر کے ان بابوئوں سے عمران خان ان سوالوں کے جوابات پوچھ سکیں جو ان کے پالیسی ساز ہیں اور جن کا پاکستان کے زمینی حقائق سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عمران کا خیبرپختونخوا کے مسائل و معاملات سے ۔یوں بھی عقل مندوں نے کہا ہے کہ کسی علاقے سے تیتر، مرغابیاں اور ہرن ختم کرنے سے اس علاقے کے معاملات کی تفہیم نہیں ہوتی۔
پاکستانی فوج کے سربکف جانبازوں کی شہادت پر جتنا غم کیا جائے ،کم ہے۔ جنرل ثنا ء اللہ نیازی ،کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان ستار کا لہو اس سرزمین کو سیراب کر گیا ہے۔ اسی لہو سے اس سرزمین پر بقول اقبال چمن ایجاد ہوں گے۔
وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشا ء اللہ
سربکف ہو کے جوانانِ وطن نکلیں گے
امریکی جنگ کا نام لے کر جو لوگ اس فوج پر حملے کررہے ہیں جو امریکہ کی نگاہوں میں کھٹکتی ہے، ان کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ اسلام کے دشمنوں کو پورے عالم اسلام میں اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی مسلح افواج نظر آتی ہیں۔ خدانخواستہ، خاکم بدہن، افواج پاکستان کو نقصان پہنچا تو دشمنان اسلام کو عالم اسلام میں اور کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ خدا وہ دن کبھی نہ لائے ۔قوم کا ایک ایک فرد اپنی بہادر افواج کا سپاس گزار ہے۔ ہم شہدا کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں مبارکباد دیتے ہیں کہ ان کے بیٹے، ان کے باپ ،ان کے شوہر اور ان کے بھائی اس سرزمین کو اپنے خون سے سینچ گئے ہیں۔ افسوس صد افسوس! کچھ بدقسمت ایسے بھی ہیں جو کھاتے اس سرزمین کا ہیں لیکن گن ان دشمنوں کے گاتے ہیں جو ہماری بہادر افواج پر بزدلوں کی طرح چھپ کر حملے کرتے ہیں۔ یہ ملک کے وہ وفادار ہیں جن کی زبان میں شہیدوں کو شہید کہتے ہوئے لکنت آجاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment