شاہ زیب کے والد کی بہن نے ٹیلی ویژن چینل پر برملا کہا ہے کہ اس کے بھائی کو یعنی شاہ زیب کے والد کو اغوا کیا گیا۔ پھر اس قدر تشدد کیا گیا کہ اسے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ موصوف نے تردید کی کہ نہیں۔ اغوا نہیں ہوئے، سیڑھیوں سے گرے۔ وہ یہ بھول گئے کہ سیڑھیوں سے گردن کے بل گرنے سے فوری موت واقع ہوسکتی ہے۔ بصورت دیگر کبھی سنا نہیں کہ سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے کوئی ہسپتال میں داخل ہوجائے۔
سوشل میڈیا پر ہاہا کار مچی ہوئی ہے کہ کیوں معاف کیا گیا۔ خدا کے بندو! جس معاشرے میں ایک نہیں، کئی بچیوں کو قتل کرکے صحرا میں دفن کرنے والے معتبر بن جائیں‘ جہاں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل پیش ہو تو سارے ’’معززین‘‘ بلبلا اٹھیں، جہاں پنچایتیں آئے دن میاں بیوی کو قتل کراتی پھریں، جہاں ونی، سوارہ، اور کاروکاری کے خلاف کوئی عالم دین کبھی نہ بولا ہو۔ وہاں شاہ زیب کے ماں باپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ کیا سول سوسائٹی چاہتی ہے کہ وہ ’’ڈٹے‘‘ رہتے اور قتل ہوجاتے؟ بچے کو بھی معلوم ہے کہ جو ذہنیت قتل کرنے کے بعد عدالتوں میں انگلیوں سے فتح کا نشان بناتی
پھرتی ہے، اس ذہنیت کے لیے دو مزید قتل ایسے ہی ہیں جیسے دو مزید چیونٹیوں کو پائوں کے نیچے مسل دینا! رقم نہ لیتے، تب بھی شاہ زیب کے وارثوں کے پاس دو ہی آپشن تھے۔ ’’ڈٹے‘‘ رہتے یہاں تک کہ قتل ہوجاتے۔ یا معاف کر دیتے۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی بھلی۔ رقم لی ہے تو عقل مندی کی ہے۔ جو نعرہ لگاتے پھرتے ہیں کہ بیٹے کے خون کو فروخت کردیا، کیا وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ قاتل کا مغرور خاندان انہیں چھوڑ دیتا؟
ہم لوگ بے وقوف ہیں یا دیوانے۔ شاخ کے کٹنے پر آہ وزاری کررہے ہیں، ان نصف درجن سرداروں پر توجہ نہیں دے رہے جو جڑ میں بیٹھے ہیں اور تیشہ بدست ہیں۔ سردار‘ اپنے بھائی بندوں کو بچانے کیلئے فوراً حرکت میں آگئے۔ نبیل گبول کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ: ’’شاہ رخ کے والد سکندر جتوئی نے واقعے کے بعد ان سے ملاقات کی تھی اور بلوچستان کے چھ سرداروں کو بھی بھیجا تھا کہ آپ معاملات طے کرا دیں۔‘‘ ان سرداروں کو کون سزا دے گا؟ اس چیف سیکرٹری کو کون ہاتھ لگا سکتا ہے جس نے وفاقی وزارت داخلہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے کیس ختم کرنے کی سمری براہ راست ایوان صدر کو بھیجی۔ اس وزیر اعلیٰ کا کیا ہی کہنا
جس نے اس ’’انصاف پسند‘‘ سمری پر اپنے مبارک نام کے دستخط کیے۔ سول سوسائٹی یہ کیوں نہیں دیکھتی کہ جن لوگوں کی پشت پر درجنوں سردار، چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ کی سطح کے حکمران ہیں ان سے ایک اورنگزیب اور اس کا زخم خوردہ کنبہ کس طرح لڑ سکتا ہے۔ اس پر بھی اعتراض ہے کہ شاہ زیب کے والدین آسٹریلیا کیوں جارہے ہیں؟ اعتراض کرنے والوں میں کتنی تعداد ان’’محب وطن‘‘ افراد کی ہے جنہیں آسٹریلیا یا کسی بھی قانون پسند ملک کا ویزہ ملے تو وہ انکار کر دیں گے؟ اللہ کے بندو! شاہ زیب کے والدین پر تو ہجرت واجب‘ واجب ہی نہیں، فرض ہوچکی ہے۔ جس ملک میں ان کا جگر گوشہ قتل ہوگیا، قاتل فتح کا نشان دکھا رہے ہیں، سرداروں کی برادری قاتل کو بچانے کے لیے متحد ہوگئی ہے۔ صوبے کا سب سے بڑا بیورو کریٹ ’’معافی‘‘ کی سمری ایوان صدر کو بھجوا رہا ہے۔ صوبے کا حاکم اعلیٰ سمری پر دستخط کرکے قاتل کا ساتھ دے رہا ہے، اس ملک سے ہجرت کرنا فرض نہیں ہوگا تو پھر کہاں سے فرض ہوگا؟
کیا سول سوسائٹی نے اس لڑکے کا قصہ نہیں سنا جو آسمان کی طرف منہ کرکے ہنسا تھا؟ بادشاہ کو خطرناک مرض نے آ گھیرا تو طبیبوں نے تجویز کیا کہ ایسے شخص کا پِتّا دوا کے طور پر استعمال کیا جائے جس میں چند خاص صفات ہوں۔ ایک دہقان زادہ ان صفات کے ساتھ مل گیا۔ ماں باپ کو راضی کرلیا گیا۔ قاضی نے فتویٰ دے دیا کہ بادشاہ کی جان بچانے کے لیے یہ قتل جائز ہے۔ جلاد گردن مارنے والا تھا کہ لڑکے نے آسمان کی طرف منہ کیا اور ہنسا۔ بادشاہ کو تعجب ہوا کہ یہ کون سا وقت ہے ہنسنے کا۔ لڑکے نے جواب دیا کہ اولاد کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں۔ میرے ماں باپ میرے قتل پر راضی ہیں۔ انصاف کے لیے قاضی کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ قاضی نے بھی فتویٰ دے دیا ہے۔ آخری اپیل بادشاہ سے کی جاتی ہے، وہ تو خود میری ہلاکت میں اپنی سلامتی دیکھ رہا ہے۔ یہی حال شاہ زیب کے والدین کا ہے۔ چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ کے فرائض میں صوبے کے شہریوں کی حفاظت سرفہرست ہے لیکن وہ تو خود قاتل کو بچانے کے لیے سرگرم کار ہیں۔
یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ شاہ زیب کا قاتل تو اسی دن بچ گیا تھا جس دن‘ 1951ء میں بھارت نے زرعی اصلاحات نافذ کرکے شہزادوں، راجوں، جاگیرداروں اور سرداروں کے دہانوں سے دانت نکال دیے تھے اور پاکستان کے ایجنڈے میں سرداروں اور جاگیرداروں کی حفاظت کا آئٹم ڈالا گیا تھا۔ سول سوسائٹی اس دن کہاں تھی جس دن بلوچستان کے سرداروں نے ایک خاتون سیاستدان کا ناقابل بیان فحش مذاق اڑایا تھا اور قہقہے لگائے اور جس کی ویڈیو آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔ بلوچستان کے سابق چیف منسٹر نے بڑے فخر سے کہا ہے کہ مجھ سے وزارت اعلیٰ تو لے سکتے ہیں لیکن بطور سردار جو شان و شوکت مجھے میّسر ہے کیسے چھینیں گے؟ اس ملک میں شاہ زیب کے ماں باپ کو کون انصاف دے گا جس میں اُس فیوڈل کو ہاتھ کوئی نہیں لگا سکتا جس کے اکائونٹ میں کروڑوں روپے آئے اور گئے اور وہ کانفرنس سے واک آئوٹ کر جاتا ہے کہ اسے پروٹوکول نہیں دیا گیا اور حکومت وقت کے عمائدین اسے منانے کی سرتوڑ کوششیں کرتے ہیں۔
سول سوسائٹی اچھی طرح جان لے کہ یہ ملک سرداروں اور جاگیرداروں کی جنت ہے۔ یہاں شاہ زیب قتل ہوتے رہیں گے۔ یہاں قاتل عدالت میں فتح کے نشان دکھاتے رہیں گے۔
1 comment:
ویسے تو جاوید غامدی صاحب نے کالم لکھ دیا ہے ،19 ستمبر 2013 کے روزنامہ دنیا میں، کہ قتل عمد کی سزا کیا ہے .لیکن جب 18 ستمبر کو آ پ کا کالم پڑھا تو TV پر اس بارے بحث بھی دیکھی. کچھ لوگ دیت کے قانون کی تبدیلی کی بات کر رہے تھے. تو جواباً کچھ صحافی کہتے تھے کہ یہ خدا کا قانون ہے اور اس کو چھیڑ نہیں سکتے .
میں تو صرف یہ کہوں گا کہ لوگ قرآن مجید کی سورہ النسا کا تیروا ں (13 ) رکوع پڑھ لیں. الله نے واضح کر دیا ہے کہ جان بوجھ کر قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے اور اس کی بہت سخت سزا ہے .
لیکن اس کس نے یہ بتا دیا ہے کہ پاکستان میں اسلام کو ایک طاقتور شخص کس طرح اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکتا ہے خواہ قتل جیسا گناہ کیا ہو.
Post a Comment