skip to main |
skip to sidebar
کوئی ہے جو ہم اہلِ پاکستان کو اس عذاب سے نجات دے ؟
ہم ایک ایسی گھاٹی میں اترچکے ہیں جس کا ہرراستہ نشیب کو جاتا ہے اور ہرنشیب میں موت انتظار کررہی ہے۔ ہم پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش ہورہی ہے۔ وہ کھردرا خاردار پودا جو جہنم میں خدا کے منکروں کو کھلایا جاتا ہے، ہم اہل ایمان کو یہاں دنیا میں کھلایا جارہا ہے۔ ہمیں کھولتا ہوا پانی پلایا جارہا ہے۔ ہماری انتڑیاں کٹ چکی ہیں۔ ہماری شریانیں شکم سے باہر آرہی ہیں۔ ہم ایک ملک میں نہیں، ایک غار میں ہیں۔ زندہ ہیں نہ مررہے ہیں۔ افسوس! دنیا کو معلوم ہی نہیں ہم کس قیامت سے گزررہے ہیں۔ ہائے افسوس! حکمران، ہمارا حال دنیا سے چھپا رہے ہیں تاکہ جس معیار زندگی سے وہ لطف اندوز ہورہے ہیں، ہوتے رہیں۔ ہمارا حال اس ملازم سے لاکھوں گنا بدتر ہے جو سفر کے دوران رنجیت سنگھ کے لیے میز کا کام دیتا تھا۔ وہ پنجاب کے حکمران کے سامنے کھڑا ہوتا تھا۔ پھر رکوع میں جاتا تھا۔ یوں کہ اس کی پیٹھ پر کھانا چن دیا جاتا تھا۔ پھر جتنی دیر رنجیت سنگھ کھانا کھاتا تھا، وہ رکوع ہی میں رہتا تھا۔
بوسنیا اور کسووومیں سربیا کی نصرانی عورتیں ٹوٹی ہوئی بوتلوں کی نوک سے مسلمان قیدیوں کے پیٹ چاک کرتی تھیں اور انہیں لِٹا کر بکروں کی طرح ذبح کرتی تھیں۔ کیا ہم اہلِ پاکستان کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک نہیں ہو رہا؟ ہمارے گلے کاٹے جارہے ہیں۔ ہمارے پیٹ چاک کیے جارہے ہیں، اس لیے نہیں کہ ہم ایک اور مذہب کے پیروکار ہیں، اس لیے کہ قاتلوں کو دولت درکار ہے !
کوئی ہے جو ہم اہلِ پاکستان کی بیٹیوں‘ مائوں‘ بوڑھوں اور بچوں کو بچائے۔ کوئی ہے جو حکمرانوں سے پوچھے کہ ہمارے ٹیکسوں سے عیاشی تو کر رہے ہو، ہماری حفاظت کیوں نہیں کررہے ؟ ہمارے ہاتھ پائوں باندھ کر ہمیں درندوں کے آگے پھینک دیا گیا ہے۔ صرف اس لیے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں !
گینگ، گینگ، ڈاکوئوں کے گینگ۔ اغواکاروں کے گینگ، بھتہ خوروں کے گینگ، کاریں چرانے والوں کے گینگ۔ بھیڑیوں کے جتھے شہریوں پر چھوڑدیئے گئے ہیں۔ حکمرانوں کو پروا ہی نہیں کہ معصوم شہری چیرے پھاڑے جارہے ہیں، لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کے بجائے پہاڑیوں میں سرنگیں لگانے کے منصوبوں پر غور ہورہا ہے تاکہ دانت تیز کرنے والوں کو کھانے کے لیے مزید گوشت میسر ہو۔ کیا سب سے بڑے صوبے کے حکمران کو معلوم ہی نہیں کہ پنجاب کے صرف بڑے بڑے شہروں‘ صرف راولپنڈی‘ لاہور‘ گوجرانوالہ اور فیصل آباد سے گزشتہ چھ ماہ میں کتنے مظلوموں کو اغوا کیا گیا ہے اور وہ کس طرح رہا ہوئے ہیں؟ بخدا انہیں کوئی اندازہ ہی نہیں کہ لاہور شہر اور راولپنڈی شہر کے چاروں طرف غیرملکیوں کی کتنی بستیاں آباد ہوچکی ہیں۔ لوگوں کے جان ومال کی حفاظت حکمرانوں کے جوتوں کی نوک پر بھی لکھے جانے کے قابل نہیں۔ راولپنڈی کی بستی…
لالہ زار میں ڈاکو عورتوں کو باندھ کر باپ کے سامنے بیٹی کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ باپ پاگل ہوجاتا ہے۔ اور یہ ایک واقعہ نہیں، ہرشہر کی ہردیوار پر ہرروز ظلم کی نئی داستان تحریر ہورہی ہے۔ قدرت ان حکمرانوں سے کاش! اسی دنیا میں حساب لے، جن کا زیادہ وقت شاید اپنے بینک بیلنس پر نظر رکھنے اور اپنے کاروباروں اور اثاثوں کو بڑھانے میں گزر رہا ہے۔
ان موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
ہماری سینٹ میں، حکمران پارٹی کی سینیٹر روپڑتی ہے ،اپنی ہی حکومت کے خلاف واک آئوٹ کرجاتی ہے ۔ وہ آنسوئوں کی بارش میں بتاتی ہے کہ اس کے عزیز تین کروڑ کا بھتہ دے کر ملک چھوڑ گئے۔ دوسرا سینیٹر کہتا ہے… کیا اب یہ کمیٹی… یعنی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ… بھتے کی منظوری دے گی…؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
کیا اب ہمیں اپنا مسئلہ اقوامِ متحدہ کے سامنے رکھنا پڑے گا؟ اٹھارہ ماہ میں دارالحکومت کے جڑواں شہروں کے تاجر 65کروڑ روپے کا بھتہ ادا کرچکے ہیں… کراچی نہیں… کوئٹہ نہیں۔ مغل طرز پر تعمیر شدہ دفتر میں بیٹھنے والے حکمران کو کوئی بتائے کہ کراچی یا کوئٹہ کے نہیں، اسلام آباد راولپنڈی کے تاجر 65کروڑ ادا کرچکے ہیں۔ ریڈزون سے پندرہ منٹ کی مسافت پر واقع محلہ وارث خان کے شہری کو بھتہ نہ دینے پر قتل کردیا گیا…ایک اور شخص کو 30لاکھ نہ دینے پر قتل کیا گیا اور پھر یہ رقم وارثوں سے لی گئی۔ کسی کے بیٹے اغوا ہورہے ہیں اور کوئی خود پکڑ کر لے جایا جارہا ہے۔ 3ستمبر 2013ء کو راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اپنی پریس ریلیز میں بتایا کہ تاجروں کو پانچ پانچ اور دس دس لاکھ بھتے کی پرچیاں موصول ہورہی ہیں۔ کیا حکومت کو اس سے بھی بڑا ثبوت درکار ہے۔ دارالحکومت کا کوئی سیکٹر ایسا نہیں جہاں گینگ وارداتیں نہیں کررہے اور گھروں میں گھس کر مکینوں کو قتل نہیں کررہے ! جوکچھ اسلام آباد کی سبزی منڈی میں ہورہا ہے‘ پولیس لائنز کی ناک کے نیچے ہورہا ہے‘ ایک ادارے کے ملازمین افغان مجرموں کے ساتھ شامل ہیں۔
کیا دوست ممالک اس حکومت پر رحم نہیں کریں گے جس کے سینیٹر کمیٹیوں کے اجلاسوں میں رورہے ہیں اور ایک دوسرے سے استفسار کرتے پھرتے ہیں کہ کیا اب یہ کمیٹیاں بھتوں کی منظوریاں دیں گی ؟ ہمیں ہمیشہ یہی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے ایسے ایسے دوست ہیں جو اس کی خاطر اپنی جانیں دائو پر لگادیں۔ آج جب اس ملک کے شہری اپنے گھروں کی چاردیواریوں کے اندرقتل ہورہے ہیں تو کیا وہ سب تماشہ دیکھتے رہیں گے اور اپنے دوست ملک کے عوام کو درندوں کے دہانوں سے نکالنے کے لیے کچھ نہیں کریں گے؟ اگر ہمارے حکمران ہماری حفاظت کو نہیں آئیں گے تو ہمیں بتایا جائے ہم کس کو پکاریں‘ کس سے تحفظ کی درخواست کریں۔ یادرکھو جب اہلِ پاکستان کی گردنیں ختم ہوجائیں گی، جب ان کی بیٹیاں‘ عورتیں‘ بچے اور مرد سب قتل ہوچکیں گے تو قاتل مزید شکار کی خواہش بھی کریں گے !!
پسِ نوشت۔ یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ جرمنی سے تیس سالہ عمران تنویر کی ای میل موصول ہوئی۔ غریب گھرانے کے اس نوجوان کو اس کی بیوہ ماں نے اپنا پیٹ کاٹ کر اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ اس نے بزنس شروع کیا اور کامیاب رہا۔ باقی سرگزشت اسی کے الفاظ میں… ’’تین چارسال ہی میں میری کمپنی سکیورٹی اور ٹیلی کام درآمد کرنے والی بڑی کمپنی بن گئی۔ پھر میرے بچے کو اغوا کرلیا گیا۔ میں نے لاہور پولیس کی منتیں کیں لیکن بے سود۔ پچاس لاکھ دے کر بچے کو چھڑایا اور ملک سے نکل آیا۔ اب میں اور بیوی رات دن وطن کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں لیکن جانے کا حوصلہ نہیں پڑتا‘‘۔ نوجوان نے اپنے بزنس کی کامیابی پر مشتمل ایک لنک بھی ارسال کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں واقع جرمن سفارت خانے نے اسے ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
دکاندار دکان میں وہی شے رکھے گا‘ جس کی طلب ہو۔ طلب جاسوسی اور جنسی کہانیوں کی ہو تو وہ ٹائن بی‘ ابن خلدون اور برٹرینڈ رسل کیوں رکھے گا؟ گاہک اگر تیل میں تلی ہوئی پھیکے پیلے رنگ کی جلیبی مانگتا ہے تو حلوائی ڈبوں میں بند صاف ستھری مٹھائی رکھنے کی تکلیف نہیں کرے گا۔ ٹریفک سے چھلکتی شاہراہوں کے کنارے کٹے ہوئے سردے اور مِٹھے دھڑا دھڑ فروخت ہو رہے ہوں تو پھلوں کو پلاسٹک کور میں محفوظ کرنے پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے! یہی حال الیکٹرانک میڈیا کا ہے‘ یہ جو کُھمبیوں کی طرح ٹی وی چینل اُگ آئے ہیں تو یہ ریڑھیاں‘ کھوکھے اور دکانیں ہی تو ہیں! جو لوگ ان چینلوں کے مالک ہیں اور جو چلانے والے ملازم ہیں‘ وہ ثواب کمانے کے لیے نہیں بیٹھے۔ بھائی! یہ تو کاروبار ہے۔ اشتہار بازی کا سلسلہ ہے۔ روپوں کا مسئلہ ہے۔ وہی شے پیش کی جائے گی جس کی طلب ہے۔ ناظرین گاہک ہیں۔ ٹی وی چینل دکاندار ہیں۔ جو نیکوکار بڑبڑا رہے ہیں کہ ریٹنگ کی وجہ سے غلط پروگرام پیش ہو رہے ہیں تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ آپ کے شکم مبارک میں اصلاح کے بخارات اُٹھ رہے ہیں تو اس تبخیر کو کنٹرول کرنے کے لیے آگے بڑھیے اور ایسا چینل لے آیئے جسے اشتہاروں کی ضرورت ہو نہ ریٹنگ کی۔
گاہک کیا چاہتا ہے؟ ناظرین کیا دیکھنا پسند کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان ہے اور واضح بھی۔ بشرطیکہ تجزیہ کرتے
وقت ’’نظریے‘‘ کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور حقیقت کو تسلیم کیا جائے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ چسکے کے شائق ہیں۔ نعرے‘ ہجوم‘ سینہ کوبی‘ جلوس‘ دھرنے‘ ہڑتالیں ’’پسند‘‘ کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ دانش کا تقاضا کیا ہے۔ وہ ہمیشہ جذبات کے ہاتھوں میں کھیلے۔ تحریکِ خلافت کی مثال لے لیجیے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے حکمران خلیفہ کہاں کے تھے‘ وہ تو موروثی بادشاہ تھے۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر اتحادیوں نے قسطنطنیہ اور سمرنا پر قبضہ کر لیا تو عثمانی ’’خلیفہ‘‘ کچھ نہ کر سکا۔ یہ اتاترک تھا جس نے ان شہروں کو آزاد کرایا اور ترکی سے غیر ملکیوں کو بھگایا۔ لیکن برصغیر کے مسلمان ان حقائق سے بے نیاز تھے۔ انہوں نے خلافت کی بحالی کی تحریک چلا دی اور وہ بھی گاندھی کے تعاون سے!
آج بھی پاکستانی مسلمانوں پر جذبات کی حکمرانی ہے۔ وہ جو کچھ پسند کرتے ہیں‘ ٹیلی ویژن چینلوں پر وہی دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ چینل پر کوئی صاحب جمہوریت کو غیر اسلامی کہہ رہے ہوں‘ طالبان کو اپنے بچے قرار دے رہے ہوں‘ جو کچھ ہم خود کر رہے ہیں اسے بھارتیوں‘ امریکیوں اور اسرائیلیوں کی سازش کہہ رہے ہوں‘ بھتہ خوروں‘ اغواکاروں‘ قاتلوں اور ڈاکوئوں کے ہاتھوں میں جکڑے ہوئے اس بے بس ملک کو اسلام کا قلعہ قرار دے کر پوری دنیا پر اپنا پرچم لہرانے کی بات کر رہے ہوں تو ناظرین خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ پھر اگر مقرر نے شلوار قمیض کے اوپر پھتوئی بھی پہنی ہوئی ہو تو سبحان اللہ! آنکھیں فرطِ جذبات سے چھلک چھلک پڑتی ہیں۔ جس چینل سے یہ سب کچھ ہو رہا ہو‘ وہ چینل پسندیدہ ہو جاتا ہے۔ گھر کے افراد کو تلقین کی جاتی ہے کہ یہی چینل دیکھیں اور اُن چینلوں سے پرہیز کریں جن پر ’’خلافِ اسلام‘‘ یا وہ گوئی کی جاتی ہے!
ٹی وی چینلوں کو معلوم ہے کہ جن اصحاب کو وہ بلا رہے ہیں وہ کیا کہیں گے۔ لیکن وہ مجبور ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن آکر فرمائیں گے کہ وہ حکومتِ وقت کا ساتھ اسلامی نظام کی خاطر دے رہے ہیں‘ تحریک انصاف ناکام ہو گئی ہے اور عمران خان یہودیوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ سید منور حسن تشریف لائیں گے تو انتخابات میں اپنے امیدواروں کی شکست کا سبب ایجنسیوں کو قرار دیں گے‘ اپنی گفتگو امریکہ سے شروع کریں گے‘ اُسی پر جاری رکھیں گے اور اُسی پر ختم کریں گے۔ لیکن چینل والے یہ بھی جانتے ہیں کہ لاکھوں ناظرین مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کو سننا پسند کرتے ہیں۔
ٹی وی چینلوں اور میڈیا گروپوں کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ جو بھی ان کی ملازمت میں ہیں، ’’جہاں ہیں اور جیسے ہیں‘‘ کی بنیاد پر اُنہی سے کام چلانا ہے۔ ایک معروف گروپ کے کچھ ملازم سراپا تعصب ہیں۔ اس قدر کہ چند روز پہلے انہوں نے الزام لگایا کہ جو لوگ طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کر رہے ہیں‘ ان کی اکثریت شراب پیتی ہے اور قادیانیوں کی حا می ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ وہ ڈالر وصول کرتے ہیں۔ اب یہ ایسا الزام تھا کہ اس پر ہنسا ہی جا سکتا تھا لیکن گروپ کی مجبوری تھی کہ جو کچھ ملازمین کہہ رہے ہیں وہی چھاپنا ہے۔ جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے رفقا شہید ہوئے تو چینل کے ملازمین کے اس بیان کی خوب تشہیر کی گئی کہ پاکستانی جرنیل اور افسروں کو شہید کر کے طالبان نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اگر بھارت خدانخواستہ ہمارے جرنیل اور افسروں کو شہید کرتا تو کیا اس کی مذمت انہی الفاظ میں کی جاتی؟ عالمِ اسلام کی سب سے بڑی فوج کے جرنیل اور افسروں کو شہید کرنا اسلام سے دشمنی اور غداری ہے یا محض ’’غیر ذمہ داری‘‘؟
معروف ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کے خیالات نشر کرنا بھی چینلوں کی مجبوری ہے۔ ان حضرات کے چاہنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں! چاہنے والے آمنا و صدقنا کہتے ہیں‘ سوچتے نہیں‘ نہ سوال کرتے ہیں۔
قوم کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ایمن الظواہری کا یہ بیان کہ پاکستان میں اسلامی نظامِ حیات ہونا چاہیے‘ پاکستان کے آئین اور قراردادِ مقاصد کے عین مطابق ہے! تو کیا یہ بھی ایمن الظواہری طے کریں گے کہ اسلامی نظامِ حیات کون سا ہے؟ فرض کیجیے پاکستان کے علماء اور دانشور اُس نظامِ حیات کو اسلامی نہیں مانتے جس کا حکم ایمن الظواہری دیتے ہیں۔ اس صورت میں کیا ایمن الظواہری اپنے موقف میں تبدیلی لائیں گے؟
بات ٹیلی ویژن چینلوں کی مجبوریوں سے چلی تھی۔ دور نکل گئی۔ لیکن دور تو ہم کب کے نکل چکے ہیں۔ منزل کے آثار دور دور تک نہیں۔ ایک طرف سمندر ہے دوسری طرف لامتناہی صحرا جس میں ناگ پھنی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہاں اُجڑے ہوئے خیموں کی قناتیں ہیں یا انسانی ہڈیاں‘ سچ عوام سننا نہیں چاہتے۔ واہ واہ کے نشے میں مخمور رہنما وہی کچھ کہتے ہیں جسے لوگ سننا پسند کرتے ہیں۔ ہماری حالت تو ظہور نظرؔ کے شعر کی سی ہو کر رہ گئی ہے ؎
آبنائے خوف کے چاروں طرف ہے دشتِ مرگ
اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں
میڈیا کی شائع شدہ اور نشر شدہ خبروں کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی کے تاجر، طالبان کو 65کروڑ روپے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ادا کرچکے ہیں۔ جو معاملات ظاہر ہی نہ ہوسکے، اس کے علاوہ ہیں۔ کم ازکم چارتاجروں کو شہید کردیا گیا۔ کچھ کو ادائیگی کے باوجود رہا نہیں کیا گیا۔ ایک تاجر کے دوبیٹوں کو کمیٹی چوک راولپنڈی سے اغوا کیا گیا اور چھ کروڑ کے عوض چھوڑا گیا۔ جہلم میں ایک تاجر نے پچاس لاکھ کا تاوان دیا۔ پنڈی کے ایک ڈاکٹر اور اس کی ڈاکٹر بیگم سے پانچ کروڑ مانگے گئے ہیں۔ ایک معروف کمپنی کے مینیجر سے بھی مطالبہ ہوچکا ہے۔ تقریباً تمام معاملات میں بھتے کی ٹیلی فون کالیں قبائلی علاقوں سے موصول ہوئی ہیں، پشاور میں افغانستان کی ٹیلی فون سمیں کھلم کھلا فروخت ہورہی ہیں، نجی ٹرین کے مالکوں کو بھتے کی کال افغانستان سے ملی ہے، کراچی کے حالات اس کے علاوہ ہیں۔ ہزاروں دہشت گرد بھاگ کر دوسرے شہروں میں گم ہوچکے ہیں۔ لاہور کے چاروں طرف غیرملکیوں کی بستیاں بس چکی ہیں۔ نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ لاہور کی ایک مارکیٹ کے بغل میں ایک مخصوص لسانی گروہ نے اپنے الگ بیریئر (رکاوٹیں ) لگائے ہوئے ہیں۔
یہ ہے وہ ’’سازگار ماحول‘‘ جس کا ذکر وزیراعظم میاں نواز شریف نے ترکی کے دورے میں ترک تاجروں سے کیا ہے! ’’ترک سرمایہ کارپاکستان میں سازگار ماحول اور مراعات سے مستفید ہوں۔‘‘ وزیراعظم نے کہا۔ لیکن وزیراعظم صاحب کا جوارشاد معرکے کا ہے اور سنہری الفاظ سے لکھ کر آسمان پر ٹانکا جانا چاہیے، یہ ہے کہ ’’ہم مقامی اور غیر ملکی تاجروں کو یکساں سہولیات فراہم کریں گے ۔‘‘ یعنی جن ’’سہولیات‘‘ کا ذکر کالم کے شروع میں ہوا ہے، ان ’’سہولیات‘‘ سے صرف پاکستانی تاجر ہی نہیں، ترکی کے تاجر بھی لطف اندوز ہوں گے۔ واہ‘ جناب وزیراعظم واہ۔ ایک ماہیا شاید ایسے ہی مواقع کے لیے کہا گیا تھا ؎
چوگُٹھی دوانی اے
شملے دو رکھدا بابا، گھر بھُکی زنانی اے
لیکن تاریخ میں جو سوالیہ نشان بنے گا وہ اور ہے۔
ایک جرنیل دہشت گردی کی نذر ہوگیا، قوم کا اور خاص کر مسلح افواج کا مورال گر گیا اور وزیراعظم ایسے عالم میں اہلِ پنجاب پر مشتمل ایک وفد لے کر بیرون ملک چلے گئے۔ مہذب ملکوں میں حوالدار بھی ہلاک ہوجائے تو حکومتوں کے سربراہ باہر کے دورے منسوخ کردیتے ہیں۔ انسان سب برابر ہیں۔ سپاہی یا کرنل کی شہادت بھی سانحہ ہے۔ ان کے بیوی بچے بھی جرنیل کے بیوی بچوں سے کم نہیں روتے۔ لیکن ٹوسٹار جنرل کی شہادت سے فوج کا مورال ایک عام سپاہی یا افسر کی شہادت کی نسبت بہت زیادہ گرتا ہے۔ وزیراعظم کو آرمی چیف کے ساتھ کھڑا ہوکر جنازے میں شریک ہونا چاہیے تھا اور وہیں یہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ مذاکرات ہوں گے لیکن خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے برعکس وزیراعظم نے پیغام دیا تو یہ دیا کہ ؎
نہ مدعی‘ نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزق خاک ہوا
حالانکہ یہ خون رزم گاہ میں برسا تھا اور ’’دست وناخنِ قاتل۔‘‘ صاف دیکھے جارہے تھے !
اخبارات چیخ رہے ہیں کہ بھتے کی کالیں قبائلی علاقوں سے موصول ہورہی ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اس گمبھیر مسئلے پر نون لیگ کی حکومت نے کیا لائحہ عمل طے کیا ہوگا؟ لائحہ عمل تو دور کی بات ہے، ن لیگ کی حکومت نے اس کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ اس معاملے میں ن لیگ کا وژن ماشاء اللہ اتنا ہی وسیع اور دوررس ہے جتنا زرداری صاحب اور ان کے حواریوں کا تھا ع
متفق گردید رائے بو علی بارائے من
بھتہ اور تاوان مانگنے والے رقوم بینکوں میں جمع کرواتے ہیں اور اپنے آپ کو اتنا محفوظ خیال کرتے ہیں کہ بینک اور اکائونٹ نمبر کچھ نہیں چھپاتے؛ تاہم حکومت اس سارے معاملے
سے اس طرح بے نیاز اور بے فکر ہے جیسے اغوا ہونے والے اور بھتہ دینے والے پاکستانی نہیں، بھارتی ہوں! زرداری اور نوازشریف سے دس گنا زیادہ وژن تو محمود خان اچکزئی کا ہے جنہوں نے قبائلی علاقوں کے لیے بہترین تجاویز پیش کی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جو کچھ اچکزئی صاحب نے تجویز کیا ہے، اس کے علاوہ اس مسئلے کا اور کوئی حل ہی نہیں۔ انہوں نے اسمبلی میں برملا کہا کہ قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹ کو جو اختیارات حاصل ہیں وہ اللہ میاں سے کچھ ہی کم ہیں۔ ان اختیارات کو لگام دینی چاہیے۔ قبائلی علاقوں کی سات ایجنسیوں پر مشتمل ان کی اپنی اسمبلی بنائی جائے اور گورنر کے انتخاب کا حق فاٹا کے عوام کو دیا جائے۔ سابق اور موجودہ حکمرانوں کے فرشتوں نے بھی اس زاویے سے قبائلی علاقوں پر غور نہیں کیا ہوگا۔ جہاں وژن، حکمت عملی اور آئی کیو کا عالم یہ ہو کہ وفاق کا وزیراعظم اپنے وفد میں صرف اپنے علاقے اور اپنے خاندان کے وفد لے کر دوسرے ملک کے سرکاری دورے پر چلا جائے اور جو حکومت بجلی کا وزیر مملکت ایک ایسے شخص کو بنائے جو اسمبلی میں ہر شخص سے ہر وقت لڑنے جھگڑنے کے لیے تیار بیٹھا ہو، وہاں قبائلی علاقوں کے مستقبل کے بارے میں کیا فکر اور کیا ذہنی استعداد ہوگی؟ پانی اور بجلی کے وزیر مملکت کی ’’متانت‘‘ کے
حوالے سے اخبارات میں جو تفصیلی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں، پڑھ کر انسان کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ ایک معزز ممبر جب وزیر مملکت کے علم اور شیریں زبانی سے سیراب ہوچکا تو باہر آ کر اس نے صحافیوں سے پوچھا۔ ’’آپ پنجابی، اس طرح کے لوگ آخر کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔‘‘ صحافیوں کا جواب تھا: ’’یہ آپ نوازشریف صاحب سے پوچھیے۔‘‘
اور ترکی کے دورے میں ملک کے وزیراعظم ترکی کے معاہدے کس سے کروا رہے ہیں؟ پنجاب حکومت سے۔! کیا ان کی جماعت میں کوئی سرپھرا ایسا نہ تھا جو بتاتا کہ پنجاب کے علاوہ کسی ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ہی ساتھ لے جائیے! خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ آپ کی معیت پر آمادہ نہیں، تو گورنر کو ہی لے جائیے۔ کچھ نمائندگی تو ہو۔
ایک بدقسمت مچھلی کنوئیں میں گر گئی۔ وہاں اس کی مینڈک سے گپ شپ ہونے لگی۔ مچھلی نے بتایا کہ دریا، بہت بڑا ہوتا ہے۔ مینڈک تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور پوچھا: ’’کیا اتنا بڑا ہوتا ہے؟‘‘ مچھلی نے جواب دیا۔ ’’نہیں، مینڈک بھائی جان! دریا اس سے بھی زیادہ بڑا ہوتا ہے‘‘۔ اس پر مینڈک مچھلی کو لاجواب کرنے کے لیے پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کہ پچھلی دیوار سے جا لگا اور بولا: ’’اس سے زیادہ بڑا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ یہاں تو کنواں ختم ہورہا ہے۔‘‘ آج کا پاکستان لاہور کے ایک سرے سے شروع ہورہا ہے اور دوسرے پر ختم ہوجاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ترکی کے دورے کی تفصیلات پڑھ کر دیکھ لیجیے!!
پاکستانی بچوں ،پاکستانی بوڑھوں ، پاکستانی نوجوانوں اور پاکستانی خواتین کے ساتھ جو کچھ پشاور کے چرچ میں ہوا، وہ الم ناک ہے اور دردناک ۔ لیکن غیرمتوقع نہیں !آپ جَو بوکر گندم نہیں کاٹ سکتے !
عیسائی؟ ہندو؟ سکھ ؟اللہ کے بندو! جس ملک میں آٹھ سال تک مدرسوں کے معصوم بچوں کو کسی دوسرے مکتب فکر کے لوگوں سے ملنے دیا جاتا ہے نہ وہ اخبار ،رسالے اورٹیلی ویژن کے نزدیک جاسکتے ہیں، جہاں انہیں آٹھ سال مسلسل ایک ہی بات بتائی جاتی ہے کہ صرف تمہارا مسلک اصل اسلام ہے۔ جس ملک میں بات بات پر مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ تم کافر ہوگئے ہو، کلمہ پڑھ کر دوبارہ مسلمان بنو اور نکاح ازسر نو پڑھوائو، وہاں غیرمسلموں کو کون برداشت کرے گا ؟ انٹرنیٹ اور فیس بک پر وہ وڈیو لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں جس میں کراچی کے ایک سیاسی مولانا جو اب لاہور میں مقیم ہیں اور جنہیں کبھی مسکراتے نہیں دیکھا گیا انٹرویو لینے والے سے کہتے ہیں کہ تم ازسر نو کلمہ پڑھو۔ ساتھ ہی موصوف کا اصرار یہ تھا کہ اگر کسی بے بس خاتون سے زیادتی کی گئی ہے تو اسے چاہیے کہ خاموش رہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر آنے والے چند مذہبی رہنمائوں کی بات الگ ہے۔ مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے ہزاروں اساتذہ اور لاکھوں طلبہ کا سروے کرکے دیکھ لیا جائے۔ ان کی اکثریت کے نزدیک غیرمسلموں کا قتل جائز ہے، انہیں اس ملک میں رہنے کا حق ہے نہ ملازمتیں کرنے کا ! سینئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی نے حالات کے بگاڑ کا دلچسپ جائزہ پیش کیا ہے۔ قادیانی وزیرخارجہ ظفراللہ خان نے قائداعظم کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کی اور الگ جاکھڑے ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے مسلمان حکومت کا غیرمسلم وزیر سمجھ لیں یا غیرمسلم حکومت کا مسلمان وزیر ۔ظفراللہ خان کو کسی نے کنکر تک نہ مارا۔ اس زمانے میں سکیورٹی برائے نام ہوتی تھی۔ کسی نے انہیں قتل نہ کیا۔ وہ اس کے بعد بھی وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ واقعہ آج کے پاکستان میں پیش آتا تو کیا اسی طرح ہوتا؟ نہیں ! بالکل نہیں !ظفراللہ خان کو چنددنوں کے اندر اندر قتل کردیا جاتا! اس وقت بھی ظفراللہ خان کے قادیانی اور کافر ہونے میں کسی کو شبہ نہ تھا۔ مولانا شبیراحمد عثمانی جیسے جیدعالم دین نے قائداعظم کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ انہوں نے بھی اس کے قتل کا کوئی فتویٰ جاری کیا نہ ہی ملک میں احتجاجی جلسے ہوئے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اس وقت بھی ہرمسلمان کے لیے حرزجاں تھا اور کسی قادیانی یا لاہوری کو مسلمان سمجھنے کا سوچا بھی نہ جاسکتا تھا۔
ہمارے اردگرد لاتعداد ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کسی عیسائی ،ہندو یا قادیانی نے اسلام قبول کیا لیکن مسلمان معاشرے نے اسے قبول ہی نہ کیا۔ یہاں تک کہ اس کے ساتھ کھانا پینا، رشتہ کرنا، اسی طرح متروک رہاجیسے اس کے مسلمان ہونے سے پہلے تھا۔ تنگ آکر بے شمار نومسلموں نے اسلام کو خیرباد کہا اور اپنے ہم مذہبوں کی طرف واپس چلے گئے۔ وہاں سے بھی طعنے ملے اور جوتے پڑے۔ معروف عالم دین اور لکھاری مولانا زاہدالراشدی نے ستمبر 2011ء کے ماہنامہ الشریعہ میں ایک مضمون لکھا جس میں اس حوالے سے کچھ واقعات تحریر کیے۔ یہ واقعات ’’دیانت‘‘ اور ’’سچائی ‘‘ کی ایسی مثالیں ہیں کہ ہاتھ بے اختیار کانوں کو اٹھ جاتے ہیں۔ ایک صاحب نے جنہیں اسلام قبول کیے پچاس برس ہوچکے تھے، قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مولانا زاہد الراشدی نے ان کے اصرار
پر تقریظ لکھی ۔ مقامی علماء کی گواہی کے باوجود، مولانا زاہدالراشدی کے خلاف علماء ہی نے مہم چلائی کہ انہوں نے غیرمسلم کے ترجمۂ قرآن کی تعریف کی ہے۔ جو شخص پچاس سال سے مسلمان تھا اور مقامی علما اور مقامی آبادی اس کے مسلمان ہونے کی گواہی دے رہے تھے، اس کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ حکومت پنجاب کے ’’متحدہ علما بورڈ‘‘ کو درخواست دی گئی کہ مصنف کافر ہے اس لیے کتاب پر پابندی لگائی جائے۔ مولانا زاہدالراشدی ان دنوں ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے رکن تھے۔ وہاں ان کے رفقائے کار سے کہا گیا کہ وہ مولانا زاہد الراشدی سے اپنے مؤقف پر ’’نظرثانی‘‘ کروائیں۔
یہ ہے وہ مائنڈ سیٹ۔ وہ ذہنی ساخت جو غیرمسلموں کو تو کیا، نومسلموں کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جب تک اس ذہنیت کا سدباب نہیں ہوتا، قتل وغارت گری جاری رہے گی !عشق رسولؐ کے زبانی دعوے کرنے والے جب تکفیر کی تیز رفتار مشین چلاتے ہیں تو گمراہی انہیں یہ یاد کرنے کی مہلت ہی نہیں دیتی کہ کچھ مسلمانوں نے جب ایک کلمہ گو کو قتل کیا اور رسالت مآبؐ کی خدمت میں آکر جواز یہ پیش کیا کہ وہ دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا تو رحمت عالمؐ نے پوچھا کہ ’’کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔؟‘‘ کروڑوں درود ہوں اس ذات پاک ؐ پر جس نے تاریخ کا یہ یادگار فقرہ ارشاد فرمایا۔ ذرا اس ارشاد نبویؐ پر غور کیجیے اور پھر پاکستان میں ہرمنبر اور محراب سے بہتے ہوئے تکفیر کے اس سیلاب کو دیکھیے جس کی تندوتیز موجوں سے کوئی بھی نہیں بچ پارہا۔ دستاروں کے رنگ تک الگ الگ ہوگئے ہیں۔ ہرفرقے کی دستار کا رنگ مخصوص ہے۔ کسی بھی وقت کوئی مسلمان کافر ہوسکتا ہے اور ساتھ ہی اس کا نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
بھارت میں تین مسلمان، ملک کی صدارت پر فائز رہ چکے ہیں۔ وزیرخارجہ آج بھی مسلمان ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق خفیہ ایجنسی کاسربراہ بھی مسلمان ہے۔ ہمارا اعتراض اس پر کبھی یہ ہوتاہے کہ یہ حضرات برائے نام مسلمان تھے یا ہیں۔ کبھی ہم کہتے ہیں کہ یہ سب محض نمائش کے لیے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں تو ایسا نمائش کے لیے بھی نہیں کیا گیا۔
جو کچھ پشاور میں ہوا، ہماری تاریخ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ کہتے ہم یہ ہیں کہ فرات کے کنارے مرنے والے جانور کی ذمہ داری بھی مسلمان حکمران پر تھی۔ عمل ہمارا یہ ہے کہ انسانوں کو کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ خدا پاکستان پر رحم کرے اور اسے ان لوگوں سے بچائے جو اس کی مٹی چاندنی اور ہواسے غداری کررہے ہیں ۔
روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں چھپی خبر کے مطابق مولانا طارق جمیل اپنے ڈرائیور کے ساتھ کار میں جارہے تھے کہ موٹرسائیکل سوار ڈاکوئوں نے ان کو روک کر لوٹنا چاہا۔ ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی اور ڈاکوئوں کا گروہ واردات میں ناکامی پر فرار ہوگیا۔
مولانا طارق جمیل معروف مذہبی سکالر ہیں۔ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ خدانے انہیں تقریر کرنے کا ملکہ عطا کیا ہے۔ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں ع
پھر دیکھنا انداز گل افشانیٔ گفتار
بیان میں وہ روانی ہے کہ سننے والے اس روانی میں بہہ رہے ہوتے ہیں۔ مولانا اپنی طاقتِ تقریر سے مجمع کو جس طرف چاہیں لے جاتے ہیں۔ قرآن کی آیات انہیں ازبر ہیں۔ بات کرتے جاتے ہیں ۔ آیات پڑھتے جاتے ہیں۔ حقوق اللہ کے بارے میں ان کی ہزارہا تقریریں کیسٹوں‘ سی ڈیز اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں سنی جارہی ہیں۔ دنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں عبادات کے مختلف پہلوئوں پر مولانا کے ارشادات سے مسلمان فائدہ نہیں اٹھارہے۔ نہ جانے کتنے ان کی وجہ سے حقوق اللہ کی طرف مائل ہوئے۔ اور نہ جانے کتنے گناہوں کی زندگی ترک کرکے عبادات کی طرف لپکے، ذالک فضل اللہ یؤتی من یشاء۔
خدا کا شکر ہے کہ ڈاکو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔ مولانا پاکستان کا بالخصوص اور دنیا بھر کے اہل ایمان کا بالعموم قیمتی سرمایہ ہیں۔ بدبخت ڈاکوئوں کو کیا معلوم کہ وہ جسے لوٹنے کی کوشش کررہے ہیں وہ کتنا بڑا عالم دین ہے۔ سسٹم میں خرابی پیدا ہوجائے اور قانون کی حکومت اٹھ جائے تو گندم، گُھن، سبِ پس جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ علماء اور سکالر، شہید کردیئے گئے اور شہید کرنے والوں کو علم ہی نہ تھا کہ وہ کیا ظلم ڈھارہے ہیں۔ حضرت خواجہ فریدالدین عطارؒ جنہوں نے فقراور عرفان پر ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے اور جن کے بارے میں رومیؔ جیسے صوفی نے کہا ع
ما از پسِ سنائی و عطار آمدیم
ایسی ہی المناک صورت حال کا شکار ہوئے۔ چنگیز خان کی قیادت میں تاتاری عالم اسلام پر عذاب بن کر ٹوٹے تو عطارؒ اپنے شہر نیشاپور میں تھے۔ تاتاریوں نے شہرکو تباہ کردیا۔ قتل وغارت گری کے عین درمیان ایک تاتاری انہیں شہید کرنے لگا تھا کہ برابر سے ایک اور تاتاری نے اسے کہا کہ ہزار درہم میں مجھے دے دو۔ عطارؒ نے پہلے تاتاری سے کہا کہ اس قیمت پر مجھے نہ فروخت کرو ۔ میں تو اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہوں۔ اتنے میں ایک اور تاتاری آیا اور پیشکش کی کہ ایک گٹھا گھاس کا دیتاہوں۔ مجھے بیچ دو۔ عطارؒ نے تاتاری سے کہا کہ میری قیمت تو اتنی بھی نہیں‘ گھاس کا گٹھا لے لو۔ تاتاری کو غصہ آگیا کہ یہ شخص کبھی کچھ کہتا ہے کبھی کچھ۔ اس نے انہیں قتل کردیا۔ یہ الگ بات کہ جب معلوم ہوا کہ وہ کون تھے اور ان کا کیا مقام تھا تو پچھتایا اور توبہ کی۔ روایات میں ہے کہ پوری زندگی ان کے مزار پر ہی رہا۔
ماضی قریب میں عربی کے بہت بڑے سکالر اور کئی کتابوں کے مصنف مولانا خلیل حامدی گنے ڈھونے والی ٹرالی کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔ ٹرالی کے بدبخت ڈرائیور کو کیا علم کہ اس نے کتنے بڑے سکالر سے دنیا کو محروم کردیا۔ اب اس تازہ واقعہ میں ڈاکوئوں کو کیا معلوم کہ کار میں جو شخص سوار ہے ، اسے وہ لوٹ ہی نہیں سکتے۔ خزانہ تو اس کے دماغ میں ہے اور دولت اس کے دل میں ہے!
گستاخی پر نہ محمول کیا جائے تو ایک خیال دل میں آتا ہے ۔ کاش مولانا، ڈرائیور کو رکنے کا حکم دیتے‘ گاڑی سے اترتے‘ ڈاکوئوں کو قرآن پاک دکھا کر کہتے کہ جو لینا چاہتے ہو لے لو، لیکن میری بات سنتے جائو ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے ؟یہاں بیٹھو۔ میں تمہیں بتائوں۔ ہمیں یقین ہے کہ مولانا جن کے بیان میں سحر کا اثر ہوتا ہے، بات شروع کرتے تو ڈاکوئوں کی قسمت بدل جاتی ۔ غالب نے تو کہا تھا ؎
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
یہاں معاملہ الٹ ہوتا۔ ڈاکو مولانا کے حلقہ بگوش ہوجاتے۔ اس سے پہلے بھی بہت سے کھلاڑی، فنکار اور مُغَنّی مولانا کے سحر تبلیغ سے تسخیر ہوکر مائل بہ عبادات ہوئے ہیں‘ جن میں سے ایک دوحضرات تو رمضان بھی ٹیلی ویژن پر لگاتے ہیں۔ کیا عجب اس فہرست میں بدقسمت ڈاکو بھی شامل ہوکر اپنے بھاگ جگا لیتے۔
یہ جو ہم نے رمضان لگانے والی بات کی ہے تو اسے منفی انداز میں نہ لیا جائے۔ ہمیں یقین ہے مولانا کے دست حق پرست پر دیندار ہونے والے گویے دین کے کام کا معاوضہ نہیں لیتے۔ لے ہی نہیں سکتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے صاحبان اعلان بھی کردیں کہ وہ معاوضہ نہیں لیتے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے مذہبی پروگرام کرنے والے دوسرے اینکر حضرات بھی تجارت کے بجائے اسے عبادت سمجھ کر کرنا شروع کردیں۔
رہزنوں کو راہبر بنانے کی روایت ہمارے ہاں نئی نہیں ہے۔ وہ ڈاکو ہی تھا جس نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے پوچھا تھا کہ تمہارے پاس کیا ہے تو آپ نے فرمایا تھا کہ اتنے دینار ہیں جو والدہ نے لباس کے اندر سی دیئے ہیں۔ جھوٹ بول کر مال بچانے والوں میں سچ بولتا بچہ ڈاکوئوں کے سردار کو فقیروں کا سردار بناگیا ۔ رومیؔ نے سچ کہا تھا ؎
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
ایساہی ایک واقعہ شاہ اسماعیل شہیدؒکا بھی ہے۔ دلی کی ایک طوائف کے کوٹھے پر گئے۔ ’’معاوضہ ‘‘ پیش کیا اور طوائف کا جسم نہیں، دماغ مانگا۔ اسے تبلیغ کی۔ اللہ نے اس تبلیغ میں ایسا اثر ڈالا کہ اس نے توبہ کی۔ کہتے ہیں مجاہدین کو کھانا فراہم کرنے کے لیے وہ اپنے ہاتھوں سے چکی پیستی تھی !
اس وقت اس ملک کی جو حالت ہے اور خلق خدا جس طرح خدا سے دور ہورہی ہے، اس عالم میں مولانا طارق جمیل جیسے بے لوث اللہ والوں کا وجود اللہ کے انعام سے کم نہیں۔ مولانا کی ساری توجہ اہل پاکستان پر ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں ایسے مبلغین کرام بھی ہیں جو اپنے ہم وطنوں کو گناہوں کے بیچ چھوڑ کر کبھی مشرق وسطیٰ جاتے ہیں کبھی افریقہ اور کبھی ملائشیا اور انڈونیشیا۔ اور بادشاہوں اور شہزادوں کے اور مری جیسے مقامات پر اہل اقتدار کے مہمان بنتے ہیں۔ ’’فضائل اعمال‘‘ میں حضرت مولانا محمد زکریاؒ ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ عراق میں مستجاب الدعوات درویشوں کا گروہ تھا۔ جو گورنر بھی آتا۔ اسے بددعا دیتے اور وہ ہلاک ہوجاتا۔ حجاج بن یوسف آیا تو اس نے ان حضرات کو گورنر ہائوس بلاکر کھانا کھلایا۔ پھر کہا کہ میں اب ان کی بددعا سے محفوظ ہوگیا ہوں۔ بیت المال کے پیسے سے پکا ہوا کھانا ان کے پیٹ میں چلا گیا ہے اور دعا تو اکل حلال سے قبول ہوتی ہے !
’’فضائل اعمال‘‘ عبادات کی طرف مائل کرنے والی ایک پرتاثیر کتاب ہے۔ تبلیغ کی اس نصابی کتاب میں قرآن کریم، نماز، ذکر تبلیغ اور رمضان، کے فضائل شامل ہیں۔ حقوق اللہ پر اس سے بہتر نصاب شاید ہی اور کسی کتاب میں ہو۔ کچھ حضرات اس کتاب پر دواعتراض کرتے ہیں: ایک یہ کہ اس میں فضائل جہاد شامل نہیں۔ دوسرا یہ کہ دیباچے میں مصنف لکھتے ہیں کہ ’’ایک مرض کی وجہ سے چند روز کے لیے دماغی کام سے روک دیا گیا تو مجھے خیال ہوا کہ ان خالی ایام کو اس بابرکت مشغلہ میں گزاردوں…‘‘ پہلے اعتراض پر کلام کرنا تو علماء کرام کا کام ہے مگر جہاں تک دوسرے اعتراض کا تعلق ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں وزن نہیں۔ جوتحریریں دل پر اثر کرتی ہیں وہ دماغ سے نہیں، دل سے لکھی جاتی ہیں
خیبر پختونخوا کو بدیسی وائسرائے کی طرح چلانے والے عمران خان نے پاک فوج کے میجر جنرل اور ان کے دوسر ے رفقا کی شہادت پر واحد تبصرہ جو کیا یہ ہے کہ وہ نو سال سے پاکستان کو امریکی جنگ سے نکلنے کا کہہ رہے ہیں۔ اس پر اسلام آباد کے وہ مولانا یاد آرہے ہیں جن سے لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ کی شہادت کے بعد بات ہوئی تو وہ مرحوم کو شہید کہنے میں متامّل تھے۔
زندگی کا بیشتر حصہ ولایت اور پھر پاکستانی ولایت (لاہور) میں گزارنے والے عمران خان آج کل اسلام آباد کی ایک پرفضا پہاڑی کی چوٹی پر تین سو کنال کے جھونپڑے میں رہتے ہیں۔ وہ خیبرپختونخوا میں کبھی نہیں رہے۔ ظاہر ہے وہاں کے کلچر، مسائل اور معاملات سے انہیں محض کتابی آگاہی ہے۔ بہر طور ان دنوں وہ خیبرپختونخوا کے حکمرانوں پر بہت محنت کررہے ہیں۔ عمران خان انہیں سکھا رہے ہیں کہ لکھتے وقت قلم کس طرح پکڑا جاتا ہے، مسواک یا ٹوتھ برش سے دانت کیسے صاف کیے جاتے ہیں۔ لباس زیب تن کرنے کے بعد بٹن کس طرح بند کیے جاتے ہیں۔ کنگھی کیسے کی جاتی ہے۔ دفتر میں میز کہاں رکھنی ہے اور بیٹھتے وقت رخ کدھر کرنا ہے۔ رہے باقی چھوٹے چھوٹے مسائل مثلاً فائل پر کیا لکھنا ہے؟ تو صوبے کے حکمران عمران خان سے وقتاً فوقتاً پوچھتے رہیں گے۔ 1926ء میں انتقال کرنے والے مشہور ایرانی شاعر ایرج مرزا نے ،جو اعلیٰ درجے کے خطاط بھی تھے اور فرانسیسی، روسی، عربی اور ترکی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے، ماں کے موضوع پر ایک شہرۂ آفاق نظم لکھی ہے جو اس موقع پر بے اختیار یاد آرہی ہے:
گویند مرا چو زاد مادر
پستان بدہن گرفتن آموخت
شب ہا بر گاہوارۂ من
بیدار نشست و خفتن آموخت
دستم بگرفت و پا بہ پا بُرد
تا شیوۂ راہ رفتن آموخت
یک حرف و دو حرف بر زبانم
الفاظ نہاد و گفتن آموخت
کہتے ہیں جب ماں نے مجھے جنم دیا تو سب سے پہلے دودھ پینا سکھایا۔ راتوں کو وہ میرے پنگوڑھے کے پاس بیٹھ کر جاگتی رہی اور یوں مجھے سونا سکھایا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر پائوں پائوں چلاتی رہی۔ اس طرح مجھے چلنا سکھایا۔ میری زبان پر وہ ایک ایک دو دو لفظ رکھتی ۔ یوں اس نے مجھے بولنا سکھایا۔
خیر یہ تو وائسرائے اور مقامی حکمرانوں کے باہمی معاملات ہیں۔ ہمیں اس سے کیا؟ لیکن وہ جو کہا ہے کہ عمران خان ایک پہاڑی کی چوٹی پر تین سو اور بعض روایات کی رُو سے چار سو کنال کے غربت کدے میں رہتے ہیں ،جہاں کتوں کی تعداد سنا ہے ایک درجن سے کم نہیں، تو یہ اس لیے کہا ہے کہ وہ بھی دوسرے حکمرانوں کی طرح عام آدمی کی رسائی سے باہر ہیں۔ یہاں احمد ندیم قاسمی کا شعر یاد آرہا ہے ؎
نارسائی کی قسم اتنا سمجھ میں آیا
حُسن جب ہاتھ نہ آیا تو خدا کہلایا
یہ غریب کالم نگار بھی عام آدمی ہے جو عمران خان تک رسائی نہیں رکھتا ورنہ پاکستانی جرنیل اور اس کے رفقائے کار کی شہادت پر یہ جو عمران خان نے ردعمل ظاہر کیا ہے کہ وہ نو سال سے امریکی جنگ سے نکلنے کا کہہ رہے ہیں تو نہایت احترام کے ساتھ چند سوالات کا جواب ضرور چاہتا۔
1۔ کیا پاکستان اور افغانستان دو الگ الگ آزاد ممالک ہیں یا نہیں؟
2۔کیا امریکی جنگ پاکستان میں پاکستانی حکومتیں لائی ہیں یا وہ جنگجو جو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے رہے اور امریکی جن کا تعاقب کرتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے داخل ہوئے؟
3۔کیا غیر ملکیوں کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر مسلح ہو کر پاکستان میں جو ایک آزاد ملک ہے گھس آئیں اور آباد ہو کر جنگی کارروائیاں کریں؟
4۔کیا سعودی عرب سمیت کسی مسلمان ملک میں ایسے غیر ملکی جنگجو اس انداز سے داخل ہوسکتے ہیں؟
5۔کیا ایسے غیر ملکیوں کے حوالے سے عمران خان کسی واضح پالیسی کا اظہار کرنا پسند کریں گے؟
6۔کیا عمران ہلاک کیے جانے والے جرنیل اور ان کے رفقائے کار کو شہید سمجھتے ہیں؟ اور کیا انہیں شہید کرنے والوں کو قومی مجرم گردانتے ہیں؟
7۔جس طرح امریکی ڈرون حملے ہماری خودمختاری پر حملہ ہیں اور یقیناً ہیں، کیا اسی طرح غیر ملکیوں کا ہماری سرحدوں کے اندر گھس آنا اور ہماری سرزمین سے دوسرے ملکوں پر حملے کرنا ہماری خود مختاری پر حملہ ہے یا نہیں؟ اور ان دونوں صورتوں کی یکساں مذمت کرنی چاہیے یا نہیں؟
سوالات تو اور بھی ہیں مثلاً یہ کہ زرعی اصلاحات اور پاکستان میں قائم از منۂ وسطیٰ کے جاگیردارانہ نظام کے بارے میں عمران خان کی کیا پالیسی ہوگی ۔لیکن اس قبیل کے سوالوں کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں تاکہ کارپوریٹ سیکٹر کے ان بابوئوں سے عمران خان ان سوالوں کے جوابات پوچھ سکیں جو ان کے پالیسی ساز ہیں اور جن کا پاکستان کے زمینی حقائق سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عمران کا خیبرپختونخوا کے مسائل و معاملات سے ۔یوں بھی عقل مندوں نے کہا ہے کہ کسی علاقے سے تیتر، مرغابیاں اور ہرن ختم کرنے سے اس علاقے کے معاملات کی تفہیم نہیں ہوتی۔
پاکستانی فوج کے سربکف جانبازوں کی شہادت پر جتنا غم کیا جائے ،کم ہے۔ جنرل ثنا ء اللہ نیازی ،کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان ستار کا لہو اس سرزمین کو سیراب کر گیا ہے۔ اسی لہو سے اس سرزمین پر بقول اقبال چمن ایجاد ہوں گے۔
وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشا ء اللہ
سربکف ہو کے جوانانِ وطن نکلیں گے
امریکی جنگ کا نام لے کر جو لوگ اس فوج پر حملے کررہے ہیں جو امریکہ کی نگاہوں میں کھٹکتی ہے، ان کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ اسلام کے دشمنوں کو پورے عالم اسلام میں اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی مسلح افواج نظر آتی ہیں۔ خدانخواستہ، خاکم بدہن، افواج پاکستان کو نقصان پہنچا تو دشمنان اسلام کو عالم اسلام میں اور کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ خدا وہ دن کبھی نہ لائے ۔قوم کا ایک ایک فرد اپنی بہادر افواج کا سپاس گزار ہے۔ ہم شہدا کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں مبارکباد دیتے ہیں کہ ان کے بیٹے، ان کے باپ ،ان کے شوہر اور ان کے بھائی اس سرزمین کو اپنے خون سے سینچ گئے ہیں۔ افسوس صد افسوس! کچھ بدقسمت ایسے بھی ہیں جو کھاتے اس سرزمین کا ہیں لیکن گن ان دشمنوں کے گاتے ہیں جو ہماری بہادر افواج پر بزدلوں کی طرح چھپ کر حملے کرتے ہیں۔ یہ ملک کے وہ وفادار ہیں جن کی زبان میں شہیدوں کو شہید کہتے ہوئے لکنت آجاتی ہے۔
پاکستان کی سول سوسائٹی بھی عجیب ہے۔ سول ہے نہ سوسائٹی! شاخ کے جھڑنے پر رو رہی ہے اور ان چھ سرداروں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی جو درخت کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔
شاہ زیب کے والد کی بہن نے ٹیلی ویژن چینل پر برملا کہا ہے کہ اس کے بھائی کو یعنی شاہ زیب کے والد کو اغوا کیا گیا۔ پھر اس قدر تشدد کیا گیا کہ اسے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ موصوف نے تردید کی کہ نہیں۔ اغوا نہیں ہوئے، سیڑھیوں سے گرے۔ وہ یہ بھول گئے کہ سیڑھیوں سے گردن کے بل گرنے سے فوری موت واقع ہوسکتی ہے۔ بصورت دیگر کبھی سنا نہیں کہ سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے کوئی ہسپتال میں داخل ہوجائے۔
سوشل میڈیا پر ہاہا کار مچی ہوئی ہے کہ کیوں معاف کیا گیا۔ خدا کے بندو! جس معاشرے میں ایک نہیں، کئی بچیوں کو قتل کرکے صحرا میں دفن کرنے والے معتبر بن جائیں‘ جہاں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل پیش ہو تو سارے ’’معززین‘‘ بلبلا اٹھیں، جہاں پنچایتیں آئے دن میاں بیوی کو قتل کراتی پھریں، جہاں ونی، سوارہ، اور کاروکاری کے خلاف کوئی عالم دین کبھی نہ بولا ہو۔ وہاں شاہ زیب کے ماں باپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ کیا سول سوسائٹی چاہتی ہے کہ وہ ’’ڈٹے‘‘ رہتے اور قتل ہوجاتے؟ بچے کو بھی معلوم ہے کہ جو ذہنیت قتل کرنے کے بعد عدالتوں میں انگلیوں سے فتح کا نشان بناتی
پھرتی ہے، اس ذہنیت کے لیے دو مزید قتل ایسے ہی ہیں جیسے دو مزید چیونٹیوں کو پائوں کے نیچے مسل دینا! رقم نہ لیتے، تب بھی شاہ زیب کے وارثوں کے پاس دو ہی آپشن تھے۔ ’’ڈٹے‘‘ رہتے یہاں تک کہ قتل ہوجاتے۔ یا معاف کر دیتے۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی بھلی۔ رقم لی ہے تو عقل مندی کی ہے۔ جو نعرہ لگاتے پھرتے ہیں کہ بیٹے کے خون کو فروخت کردیا، کیا وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ قاتل کا مغرور خاندان انہیں چھوڑ دیتا؟
ہم لوگ بے وقوف ہیں یا دیوانے۔ شاخ کے کٹنے پر آہ وزاری کررہے ہیں، ان نصف درجن سرداروں پر توجہ نہیں دے رہے جو جڑ میں بیٹھے ہیں اور تیشہ بدست ہیں۔ سردار‘ اپنے بھائی بندوں کو بچانے کیلئے فوراً حرکت میں آگئے۔ نبیل گبول کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ: ’’شاہ رخ کے والد سکندر جتوئی نے واقعے کے بعد ان سے ملاقات کی تھی اور بلوچستان کے چھ سرداروں کو بھی بھیجا تھا کہ آپ معاملات طے کرا دیں۔‘‘ ان سرداروں کو کون سزا دے گا؟ اس چیف سیکرٹری کو کون ہاتھ لگا سکتا ہے جس نے وفاقی وزارت داخلہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے کیس ختم کرنے کی سمری براہ راست ایوان صدر کو بھیجی۔ اس وزیر اعلیٰ کا کیا ہی کہنا
جس نے اس ’’انصاف پسند‘‘ سمری پر اپنے مبارک نام کے دستخط کیے۔ سول سوسائٹی یہ کیوں نہیں دیکھتی کہ جن لوگوں کی پشت پر درجنوں سردار، چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ کی سطح کے حکمران ہیں ان سے ایک اورنگزیب اور اس کا زخم خوردہ کنبہ کس طرح لڑ سکتا ہے۔ اس پر بھی اعتراض ہے کہ شاہ زیب کے والدین آسٹریلیا کیوں جارہے ہیں؟ اعتراض کرنے والوں میں کتنی تعداد ان’’محب وطن‘‘ افراد کی ہے جنہیں آسٹریلیا یا کسی بھی قانون پسند ملک کا ویزہ ملے تو وہ انکار کر دیں گے؟ اللہ کے بندو! شاہ زیب کے والدین پر تو ہجرت واجب‘ واجب ہی نہیں، فرض ہوچکی ہے۔ جس ملک میں ان کا جگر گوشہ قتل ہوگیا، قاتل فتح کا نشان دکھا رہے ہیں، سرداروں کی برادری قاتل کو بچانے کے لیے متحد ہوگئی ہے۔ صوبے کا سب سے بڑا بیورو کریٹ ’’معافی‘‘ کی سمری ایوان صدر کو بھجوا رہا ہے۔ صوبے کا حاکم اعلیٰ سمری پر دستخط کرکے قاتل کا ساتھ دے رہا ہے، اس ملک سے ہجرت کرنا فرض نہیں ہوگا تو پھر کہاں سے فرض ہوگا؟
کیا سول سوسائٹی نے اس لڑکے کا قصہ نہیں سنا جو آسمان کی طرف منہ کرکے ہنسا تھا؟ بادشاہ کو خطرناک مرض نے آ گھیرا تو طبیبوں نے تجویز کیا کہ ایسے شخص کا پِتّا دوا کے طور پر استعمال کیا جائے جس میں چند خاص صفات ہوں۔ ایک دہقان زادہ ان صفات کے ساتھ مل گیا۔ ماں باپ کو راضی کرلیا گیا۔ قاضی نے فتویٰ دے دیا کہ بادشاہ کی جان بچانے کے لیے یہ قتل جائز ہے۔ جلاد گردن مارنے والا تھا کہ لڑکے نے آسمان کی طرف منہ کیا اور ہنسا۔ بادشاہ کو تعجب ہوا کہ یہ کون سا وقت ہے ہنسنے کا۔ لڑکے نے جواب دیا کہ اولاد کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں۔ میرے ماں باپ میرے قتل پر راضی ہیں۔ انصاف کے لیے قاضی کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ قاضی نے بھی فتویٰ دے دیا ہے۔ آخری اپیل بادشاہ سے کی جاتی ہے، وہ تو خود میری ہلاکت میں اپنی سلامتی دیکھ رہا ہے۔ یہی حال شاہ زیب کے والدین کا ہے۔ چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ کے فرائض میں صوبے کے شہریوں کی حفاظت سرفہرست ہے لیکن وہ تو خود قاتل کو بچانے کے لیے سرگرم کار ہیں۔
یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ شاہ زیب کا قاتل تو اسی دن بچ گیا تھا جس دن‘ 1951ء میں بھارت نے زرعی اصلاحات نافذ کرکے شہزادوں، راجوں، جاگیرداروں اور سرداروں کے دہانوں سے دانت نکال دیے تھے اور پاکستان کے ایجنڈے میں سرداروں اور جاگیرداروں کی حفاظت کا آئٹم ڈالا گیا تھا۔ سول سوسائٹی اس دن کہاں تھی جس دن بلوچستان کے سرداروں نے ایک خاتون سیاستدان کا ناقابل بیان فحش مذاق اڑایا تھا اور قہقہے لگائے اور جس کی ویڈیو آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔ بلوچستان کے سابق چیف منسٹر نے بڑے فخر سے کہا ہے کہ مجھ سے وزارت اعلیٰ تو لے سکتے ہیں لیکن بطور سردار جو شان و شوکت مجھے میّسر ہے کیسے چھینیں گے؟ اس ملک میں شاہ زیب کے ماں باپ کو کون انصاف دے گا جس میں اُس فیوڈل کو ہاتھ کوئی نہیں لگا سکتا جس کے اکائونٹ میں کروڑوں روپے آئے اور گئے اور وہ کانفرنس سے واک آئوٹ کر جاتا ہے کہ اسے پروٹوکول نہیں دیا گیا اور حکومت وقت کے عمائدین اسے منانے کی سرتوڑ کوششیں کرتے ہیں۔
سول سوسائٹی اچھی طرح جان لے کہ یہ ملک سرداروں اور جاگیرداروں کی جنت ہے۔ یہاں شاہ زیب قتل ہوتے رہیں گے۔ یہاں قاتل عدالت میں فتح کے نشان دکھاتے رہیں گے۔
پک گئے ہیں کان یہ سن سن کر کہ قبائلی علاقوں کو انگریز نے بھی نہیں چھیڑا تو پاکستانی فوج وہاں کیوں داخل ہوئی ؟جس چینل کو کھولیں کوئی نہ کوئی بزرجمہریہ فلسفہ بگھار رہا ہوتا ہے۔
سبحان اللہ سبحان اللہ ! چونکہ انگریز حکومت نے قبائلیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا تو اب حکومت پاکستان کے لیے اس معاملے میں انگریز آقائوں کی پیروی لازم ہے۔ انگریزوں پر یہ پالیسی آسمان سے اتری تھی اس لیے اس مقدس پالیسی کو ترک کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے متراف ہوگا۔
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
اللہ کے بندو!بات کرتے وقت کچھ تو سوچ لیا کرو۔ اتنے بڑے بڑے مناصب سے تم ریٹائر ہوئے‘ جن کا ذکر تمہارے ناموں کا جزولاینفک بن گیا ہے۔ اور کچھ نہیں تو ان عہدوں ہی کا خیال کر لیا کرو‘ خلق خداکیا کہے گی کہ یہ لوگ سوچنے سمجھنے سے عاری ہیں ؟ بقول میرؔ ؎
ہوا جو دل خوں، خرابی آئی، ہرایک اعضا میں ہے فتور اب
حواس گم ہیں، دماغ گم ہے، رہا سہا بھی گیا شعور اب
انگریزوں کی غیرملکی حکومت کو آخر غلاموں کی فلاح وبہبود سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی ؟ روس وسط ایشیا پر قبضہ کررہا تھا۔ برطانوی حکمرانوں نے اسے ہر حال میں برطانوی ہند کی سرحدوں سے دور رکھنا تھا۔ اسی لیے تو واخان کی پٹی پیدا کی گئی جہاں آج بھی پتھر کے زمانے کی غربت کا دور دورہ ہے۔ افغانستان کو Bufferریاست بنایا گیا تاکہ روس (بعد میں سوویت یونین) اور برطانوی ہند دونوں ایک دوسرے سے مکمل لاتعلق رہیں۔ یہ تھا وہ پس منظر… جس میں افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ وہاں شاہراہیں بنیں نہ ریل کی پٹڑیاں بچھیں۔ ایڈورڈ کالج بنا نہ اورینٹل کالج۔ یونیورسٹی بنی نہ مقامی حکومتیں وجود میں آئیں۔ ڈسٹرکٹ بورڈ، میونسپل کمیٹی… کچھ بھی نہ بننے دیا گیا۔
پاکستانی حکومتوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انگریز کی یہ غفلت شعار پالیسی آزادی کے بعد بھی جاری رکھی گئی۔ قبائلیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ وہاں کارخانے بنے نہ زراعت کو ترقی دی گئی۔ کالج بنے نہ یونیورسٹیاں۔ پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے ملکوں اور خانوں کو رشوتیں دی جاتی رہیں۔ سمگلروں کی پیٹھیں ٹھونکی جاتی رہیں۔ فاٹا سے ایک ایک سینیٹ کی سیٹ پندرہ پندرہ کروڑ روپے میں بکتی رہی اور عام قبائلی دووقت کی روٹی کو محتاج رہا۔ تنگ آکر اس نے بندوق اٹھالی۔
یہ نام نہاد دانشور چاہتے ہیں کہ قبائلی علاقے اسی حال میں رہیں۔ اس خدا کی قسم… جس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے پیغمبر بھیجے‘ یہ قبائلی علاقوں کے دشمن ہیں۔ نرگسیت کا شکار، اپنی آواز سننے کے شائق، اپنی موٹی عقلوں کے اسیر… یہ بزرجمہر چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی اولادیں امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھیں‘ بڑے بڑے مناصب پر فائز ہوں، سلطنتوں جیسے وسیع کاروبار کریں، ایک جہاز سے اتریں تو دوسرا تیار ہو۔ لیکن قبائلیوں کے بچے غلیل اور بندوق سے آگے نہ بڑھیں۔ کتاب پڑھیں نہ ان کے پاس لیپ ٹاپ ہوں۔ حیرت ہے کہ قبائلی علاقوں کے ان خیرخواہوں
نے ابھی تک خیبر پختونخوا کے گورنر انجینئر شوکت اللہ کے خلاف فتویٰ نہیں دیا۔ مہمند ایجنسی میں جب گورنر ایک بڑے جرگے سے خطاب کرنے والے تھے، تو انہیں حسب روایت کلاشنکوف کا تحفہ پیش کیا گیا لیکن گورنر نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ دور علم کے فروغ کا دور ہے‘ اگر قلم کا تحفہ دیا جاتا تو انہیں خوشی ہوتی۔ کیا عجب مدقوق ذہن یہ اعتراض جڑدیں کہ کلاشنکوف کا تحفہ رد کرکے پختونوں سے بہادری چھیننے کی کوشش کی گئی ہے !
پاکستانی فوج کیوں نہ قبائلی علاقوں میں داخل ہو اور وہاں کیوں نہ پڑائو ڈالے ؟ کیا یہ پاکستان کی اپنی فوج نہیں ؟ کیا یہ بھارت یا روس کی فوج ہے ؟ ایک سو ایک مثالیں موجود ہیں، پاکستانی فوج نے پاکستان کے جس علاقے میں بھی کنٹونمنٹ بنایا وہاں ترقی ہوئی اور عوام کا معیار زندگی بلند ہوا۔ پنوں عاقل کو دیکھیے‘ بے آب وگیاہ صحرا میں سڑکوں اور تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا گیا۔ اٹک اور اسلام آباد کی درمیانی پٹی کو دیکھیے۔ انگریز اس علاقے کو پالیسی کے طورپر صنعت سے محروم رکھتے رہے تاکہ فوجی بھرتی کم نہ ہو۔ مسلح افواج نے یہاں بیسیوں کارخانے لگائے اور تعلیمی اداروں کے جال بچھادیے۔ حویلیاں، سنجوال، واہ اور کامرہ کی خواندگی کی شرح ملک کے باقی حصوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جنرل اسرار گھمن نے اپنے قیام ٹیکسلا کے زمانے میں پورا ایجوکیشن سٹی قائم کیا جس سے سب سے زیادہ فائدہ مقامی آبادی اٹھارہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں کنٹونمنٹ قائم ہونے سے بچے اور بچیاں زیورتعلیم سے آراستہ ہوتی ہیں ، بڑوں کو ملازمتیں ملتی ہیں اور عوام کو صاف ستھرا ماحول میسر آتا ہے۔
کچھ حضرات بظاہر پاکستانی فوج کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں لیکن اسی سانس میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان ہی کے کچھ حصے پاکستانی فوج کے لیے ممنوعہ علاقے قراردیے جائیں۔ یہ حضرات ہرمسئلے کو کفرواسلام کا متنازعہ بناکر ماحول کو 440وولٹ میں تبدیل کردیتے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کے مسئلے ہی کو لے لیجیے۔ یہ ایک متنازعہ ایشو ہے۔ ایسے مسائل پر اجماع کبھی ہو بھی نہیں سکتا۔ چار افراد مذاکرات کے حق میں ہوتے ہیں تو چھ مخالف۔ دونوں طرف دلائل ہیں، دونوں طرف فوائد ہیں اور نقصانات بھی۔ حمایت کرنے والے بھی محب وطن ہیں اور مخالفت کرنے والے بھی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مکالمے کے بجائے فتوے لگائے جارہے ہیں۔ دودن پیشتر ایک معاصرنے فتویٰ لگایا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کرنے والے اسلامی اساس کے خلاف ہیں، ملک کو سیکولر بنانا چاہتے ہیں، مغربی مشروب کے دالدہ ہیں، جہاد کے خلاف ہیں، جنرل ضیاء الحق سے نفرت کرتے ہیں اور قادیانیوں کو غیرمسلم قراردیے جانے پر خفا ہیں۔ معاصر اسی پر اکتفا نہیں کرتا، یہ الزام بھی لگاتا ہے کہ ’’نجانے ان میں سے کتنے گمراہ ہیں جو غیرملکی اشاروں پر ناچتے اور ڈالر کھاکر غیروں کا ایجنڈا اس ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔
پاکستان کی جدید صحافت میں ایسی بیماراور پست ذہنیت کا مظاہرہ شاید ہی اس سے پہلے ہوا ہو۔ بلیک میلنگ کی یہ روایت بھی ضیاء الحق ہی نے ڈالی تھی۔ ریفرنڈم میں پوچھا یہ گیا تھا کہ کیا آپ اسلامی نظام کے حامی ہیں ؟۔ اگر جواب ہاں میں تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ضیاء الحق مزید پانچ سال کے لیے حکومت کریں گے۔ یہی انداز اس معاصر نے بھی اپنایا ہے کہ اگر آپ طالبان سے مذاکرات کے حامی نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ شرابی ہیں، قادیانیوں کے حامی ہیں اور ڈالر کھارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لاکھوں کروڑوں پاکستانی مذاکرات کے حامی ہیں تو لاکھوں کروڑوں ہی مخالف بھی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مذاکرات کے حامی کل کے بدلے ہوئے حالات میں مخالف ہوجائیں اور مخالفت کرنے والے حمایت کرنے لگ جائیں۔
بھارت کا معروف ایکٹر شتروگھن سنہا‘ جو پاکستان کی بدترین دشمن ’’بی جے پی‘‘ کا کارکن ہے‘ ضیاء الحق کا اتنا گہرا دوست تھا کہ آج بھی اس خاندان کی تقاریب میں شامل ہونے کے لیے بھارت سے خصوصی طورپر آتا ہے۔ وہ کئی کئی دن ایوان صدر میں ٹھہرتا تھا۔ ضیاء الحق کے بجائے اگر کوئی اور ایسا کرتا تو اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار اس پر فتووں کی بارش کردیتے۔ حرم کعبہ میں نوے دن کے اندراندر انتخابات کرانے کا عہد بھی قوم کو نہیں بھولا۔ ہائے مومن کہاں یاد آگیا ؎
ناصحا! دل میں تُو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے، کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے؟
اس روئے زمین پر، اس نیلے آسمان کے نیچے یہ ایک عجیب وغریب ملک ہے جہاں ریاست کا سربراہ ایک ایسا شخص بھی بن سکتا ہے جو ہوسِ زراندوزی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ جس کے پاس نیویارک سے فرانس اور انگلستان تک محلات کا سلسلہ ہے اور جسے سوئٹزرلینڈ کے بنک جھک کر سلام کرتے ہیں۔
جہاں بے یارومددگار ملزم مقدموں کے فیصلوں کے انتظار میں آدھی آدھی زندگیاں سلاخوں کے پیچھے گزار دیتے ہیں لیکن جہاں طاقت ور قاتل عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے ہیں۔ جہاں بااثر قاتلوں کو چھڑانے کے لیے درجنوں سردار حرکت میں آجاتے ہیں اور جہاں ریکارڈ ہے کہ کبھی کوئی جاگیردار قتل کرنے یا کرانے کے بعد پھانسی نہیں چڑھا۔
جہاں خیرات وصدقات ہرجرم پر پردہ ڈال دیتے ہیں‘ جہاں غذا اور ادویات میں قاتلانہ ملاوٹ کرنے والے‘ ٹیکس چوری کرنے والے، تجاوزات کے ذریعے حرام مال کمانے والے اور مال بیچتے وقت گاہکوں کو نقص نہ بتانے والے، پاک صاف ہوجاتے ہیں بشرطیکہ وہ خیراتی ادارے چلائیں، مسجدوں، مدرسوں کو چندے دیں اور دیگیں تقسیم کریں۔ جہاں فائلوں کے نیچے پہیے لگانے کا برملا اعتراف کرنے والے اس لیے نیکوکار قرار دیئے جاتے ہیں کہ وہ مفت شفاخانے چلاتے ہیں۔ گویا اگر آپ خیراتی مراکز بنادیں تو آپ کو کھلی چھٹی ہے کہ جس طریقے سے چاہیں، دولت کمائیں۔ سمگلروں، انسانی ٹریفک کا دھندا کرنے والوں، ڈاکے ڈالنے والوں اور اغوا برائے تاوان کا ’’کاروبار‘‘ کرنے والوں کے لیے اس سے زیادہ گرین سگنل کیا ہوگا !
جہاں خفیہ ایجنسی میں کام کرنے والے دوہزار سے زیادہ سرکاری اہلکار ایک سیاسی جماعت کے کارکن ہیں اور جہاں ملک کے سب سے بڑے شہر کی پولیس میں چھ ہزار جرائم پیشہ افراد ’’ملازمت ‘‘ کررہے ہیں۔ وردی پہن کر مجرموں کو قیمتی اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور بھتہ خوروں اور اغواکاروں کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔
جہاں مفتیانِ عظام اور علماء کرام عوام سے مضاربہ کے نام پر اربوں روپے لوٹ لیتے ہیں۔ کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا اور وہ عزت وآرام کے ساتھ دبئی میں رہتے ہیں۔
جہاں جنسیات (پورنو گرافی) دیکھنے والوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔ جہاں رشوت، ناجائز منافع خوری، ٹیکس چوری، ڈاکہ زنی، اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری، جھوٹ، وعدہ خلافی ، غیبت اور رشتہ داروں سے بدسلوکی کو معمول کی زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں پنچائتیں شرعی نکاح کرنے والے شوہروں اور بیویوں کو موت کے گھاٹ اتاردیتی ہیں۔ جہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن وہاں کے مبلغین اور علما کبھی نائجیریا میں تبلیغ کررہے ہوتے ہیں ، کبھی مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے شاہی محلات میں اور کبھی ملائیشیا‘ انڈونیشیا میں ؎
تو کارِ جہاں را نِکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی؟
جہاں ایک دن یونیورسٹیوں کے ہوسٹلوں سے جن تنظیموں کی آغوش سے دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں دوسرے دن انہی تنظیموں کے بزرگ آل پارٹی کانفرنسوں میں جلوہ افروز ہوکر دہشت گردی کے مسائل ’’حل‘‘ کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔
جہاں دوستی سب سے بڑا میرٹ اور واقفیت سے بڑی اہلیت ہے۔ جہاں معجون کھانے والی اونٹنیوں اور خمیرے کھانے والی بکریوں کا دودھ، ہر یسے، پائے، چھولے، تل والے نان، باقرخانیاں، کھیر اور ربڑیاں، دستاویزات اور تصانیف سے زیادہ قدروقیمت رکھتی ہیں۔ جہاں جلاوطنی میں سہارا دینے والے کھمبے ، محلات کی شہ نشینوں کے سامنے ستونوں کی صورت میں نصب کیے جاتے ہیں۔ جہاں باورچی، نانبائی، حلوائی، کنجڑے، حجام، پہلوان، مالش کرنے والے، ٹانگیں دبانے والے، لطیفے سنانے والے اور ڈھول بجانے والے‘ نو رتنوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔ جہاں تاریخ کے انمٹ صفحات پر رقم ہوچکا ہے کہ کس کام کے لیے کن وزیروں کو کن مالش کرنے والوں کی سفارش پر کہاں بھیجا گیا تھا۔
جہاں وزیر خزانہ کھرب پتی ہوتا ہے جو جزیروں میں رہتا ہے یا آسمانوں میں۔ جسے بازار کا راستہ ہی نہیں معلوم ! جس کا عوام سے اور عوامی مسائل سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا ملکہ کا ان لوگوں سے جنہیں روٹی نہیں ملتی اور وہ اس قدر بے وقوف ہیں کہ روٹی نہ ملے تو کیک بھی نہیں کھاتے !
جہاں اربوں کھربوں روپے ’’کمانے‘‘ والا سابق وزیراعظم نئے وزیراعظم کی دعوتوں میں معزز مہمان بن کر شریک ہوتا ہے۔
ہاں !اس روئے زمین پر، اسی نیلے آسمان کے نیچے اس عجیب وغریب ملک میں جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے وہاں اس سب کچھ کے نتیجے میں کچھ اور بھی ہوتا ہے۔ وہاں لوگوں پر کبھی بش مسلط ہوتا ہے کبھی اوباما۔ اپنے ہی لوگوں کا ایک گروہ اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے کے لیے باقی آبادی سے الگ ہوجاتا ہے۔ پھر قاتلوں کے اس گروہ کو کوئی پکڑ سکتا ہے نہ راہ راست پر لاسکتا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ بچے اغوا ہوجاتے ہیں۔ عورتیں چھن جاتی ہیں ۔ بوڑھے قتل ہوجاتے ہیں۔
اس عجیب و غریب ملک میں جہاں کے عوام یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں اور ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں، خدا کے عذاب کا کوڑا سرسرا کر، ہوامیں چمک کر، فضا میں بلند ہوکر، عوام پر یوں پڑتا ہے کہ کھال کٹ کٹ جاتی ہے، گوشت پھٹ جاتا ہے، ہڈیاں نظرآنے لگتی ہیں اور خون فوارے کی طرح ابلنے لگتا ہے۔ لوگوں پر بددیانت حکمران، لالچی مولوی، فتویٰ فروش عالم، بے ضمیر بیوروکریٹ اور کروڑوں اربوں میں کھیلنے والے اینکر پرسن مسلط ہوجاتے ہیں اور قوم کو جدھر چاہیں ہانک کر لے جاتے ہیں۔
عذاب کی بھی کیا کیا صورتیں ہیں!!
جعفر طاہر کمال کے شاعر تھے۔بسیار گو ، لیکن بلند مرتبہ اور قادرالکلام ۔قدر اللہ شہاب کی سرپرستی میں ’’ ہفت کشور‘‘ تصنیف کی جو سات مسلم ممالک کا منظوم تذکرہ ہے۔یہ ایک معرکہ آرا کتاب ہے جو ہماری قومی جہالت اور ناقدری کا شکار ہوکر طاق نسیاں پر دھری رہ گئی ہے۔جن کتابوں پر پہلے پہل آدم جی ایوارڈ ملا ، یہ کتاب ان میں سے ہے۔اس کا انتساب انہوں نے شہاب کے نام کیا اور ساتھ یہ مصرع لکھا ع
آں مہرباں کہ آبروئی ہفت کشور است
اسی میں پاکستان کے بارے میں ان کی طویل بحر والی معرکہ آرا غزل نما نظم ہے جس کا ایک مصرع یوں ہے ع
گل و گزار کے اورنگِ ہمہ رنگ پہ یہ نغمہ و آہنگ مرے جھنگ و تلاگنگ کی بہتی ہوئی لَے
جعفر طاہر کا تعارف اس واقعہ کے ضمن میں کرانا پڑا جو بتانا مقصود ہے۔ایک زمانے میں وہ مری میں قیام پذیر تھے ۔ ترنگ میں آکر دوستوں سے ، جو شاعر اور ادیب تھے ،وعدہ کیا کہ فلاں دن وہ دعوت کا اہتمام کررہے ہیں۔شوق کو مہمیز لگانے کے لیے دعوت کی تفصیل بھی بیان کی ۔مسلّم بکرا روسٹ کیاجائے گا۔بکرے کے اندر بکری کا چھوٹا بچہ ہوگا۔بکری کے بچے کے اندر مرغ ہوگا۔مرغ کے اندر انڈے ہوں گے۔اس کے علاوہ مسلّم بکرے کے اندر چاول ، خشک میوے اور مغزیات بھی ڈالے جائیں گے۔ہر دوست سے انہوں نے الگ الگ بات کرکے باقاعدہ مدعو کیا لیکن افسوس ! مقررہ دن اور مقررہ وقت پر جب سب لوگ پہنچے تو جعفر طاہر کی رہائش گاہ پر تالہ لگا ہوا تھا اور میزبان کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔
یہ واقعہ دو دن بیشتر ایبٹ آباد میں یاد آیا۔اگر ہماری قومی نااہلی ، بے حسی ، بے شرمی، ڈھٹائی اور ہڈ حرامی کا اندازہ ایک نظرمیں کرنا ہو تو ایبٹ آباد اس کی بہترین مثال ہے۔ہر حکومت وعدے کرتی رہی۔کبھی یہ دعویٰ کیاگیا کہ چین تک ریل چلائیں گے۔کبھی یہ ڈینگ ماری گئی کہ وسط ایشیا کو اس راستے سے گرم پانیوں تک رسائی دیں گے۔کبھی یہ بڑ ہانکی گئی کہ شاہراہ ریشم جدید دنیا میں وہی کردار ادا کرے گی جو ازمنہ وسطیٰ میں پوری دنیا کی تجارت کے لیے کررہی تھی… لیکن عملی طور پر حالت یہ ہے کہ سفید فام آقا حویلیاں تک پٹڑی بچھا کر…ریل چلاکر…ہمارے حوالے کرگئے تھے۔حویلیاں سے ایبٹ آباد دس کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔چھیاسٹھ سال ڈینگیں مارتے ،بڑہانکتے ، دعوے کرتے گزر گئے لیکن ہم حویلیاں سے ایبٹ آباد ریل نہ پہنچا سکے۔ایبٹ آباد ہمارے بڑے شہروں میں سے ہے۔کل پرسوں الگ صوبہ بنا تو یہ صوبائی دارالحکومت بھی بن سکتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حسن ابدال سے ایبٹ آباد تک آج دو رویہ شاہراہ ہوتی ،لیکن عملی طور پر یہ سفر پریشانی ، تأسّف ، بدانتظامی، افراتفری اور لاقانونیت کا دوسرا نام ہے۔ایبٹ آباد کے اندر داخل ہونے والی سڑک پر گاڑی چلانا جان جوکھوں کا کام ہے۔یہی وہ شاہراہ ہے جو شاہراہ ریشم کا دروازہ ہے۔یہی وہ راستہ ہے جو چین تک جاتا ہے۔ یہیں سے دنیا بھر کے سیاح اور کوہ پیما فلک بوس چوٹیوں کو چومنے کے لیے سفر کا آغاز کرتے ہیں اور بدقسمتی سے یہیں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ مسلّم بکرے کے اندر میمنا ، پھر مرغ ، پھر انڈا اور بریاں چاول تو کیا ہوں گے ،دروازے پر لٹکتا ہوا آہنی قفل ، مہمانوں کا منہ چڑا رہا ہے۔
گزشتہ چالیس برسوں کے دوران شاید ہی کوئی ایسا سال گزرا ہو جس کے دوران ایبٹ آباد کم از کم دو دفعہ جانا نہ ہوا ہو۔ کیا شہر ہے اور کیا اسکی ہوا ہے۔کیا محل وقوع ہے اور کیا کوہستانی حصار ہے جو قدرت نے اس کے گرد کھینچا ہے۔ایک طرف سربن کا وہ پہاڑ ہے جس کے بارے میں اقبال ؔنے اپنے قیام ایبٹ آباد کے دوران کہا تھا ؎
اُٹھی پھر آج وہ پُورب سے کالی کالی گھٹا
سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا
ہوا کے زور سے اُبھرا، بڑھا، اُڑا بادل
اُٹھی وہ اور گھٹا ، لو ، برس پڑا بادل
عجیب خیمہ ہے کُہسار کے نہالوں کا
یہیں قیام ہو وادی میں پھرنے والوں کا
دوسری طرف وہ راستہ ہے جو قراقرم کی طرف جاتا ہے اور دنیا کے خوبصورت ترین راستوں میں سے ہے۔مانسہرہ ، شنکیاری ، ڈاڈر ، اور بٹراسی جاتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ قدرت نے پاکستان کے حق میں اپنی فیاضی کے دروازے پورے کھول دیے ہیں۔میجر ایبٹ نے یونہی تو نہیں کہا تھا ؎
I REMEMBER THE DAY WHEN I FIRST CAME HERE
AND SMELT THE SWEET ABBOTTABAD AIR
نظم کے آخر میں ایبٹ رو کر کہتا ہے
I BID YOU FAREWELL WITH A HEAVY HEART
NEVER FROM MY MIND WILL YOUR MEMORIES THWART
آج خوبصورت ایبٹ آباد بے بسی کی تصویر ہے۔لالچ کے خونی پنجے اس کے نازک جسم میں گڑ چکے ہیں۔لینڈ مافیا اسے نوچ رہا ہے۔ درخت کٹ رہے ہیں ، پہاڑیاں کھودی جارہی ہیں۔کراچی سے لے کر لاہور تک ،پشاورسے لے کر بنوں تک ،سوات سے لے کروزیرستان تک ،مزار شریف سے لے کر کابل تک کے لوگ یہاں آکر آباد ہورہے ہیں۔اس کی پاکیزہ فضا دھوئیں ، شورو غوغا اور گاڑیوں سے نکلتی آگ کی وجہ سے مسموم ہورہی ہے۔جہاں قدرتی حسن تھا وہاں ہر طرف پلازے، دکانیں ، کھوکھے اور ریڑھیاں ہیں۔منصوبہ بندی ہے نہ تنظیم ، ٹریفک یوں ہے جیسے گاڑیاں نہیں گھوڑے ، خچر اور بیل گاڑیاں چل رہی ہیں۔تھوڑا سا حصہ جو لالچ اور بد انتظامی سے بچا ہوا ہے، اس کا سہرا فوج کے سر ہے ورنہ وہاں بھی دکانیں اور ٹکسال لگ چکے ہوتے۔آپ اندازہ لگائیے کہ شملہ پہاڑی جو قدرت کا بیش بہا عطیہ ہے ، کوڑے دان میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ ہم پاکستانی اتنے ’’ عظیم ‘‘ ہیں کہ شملہ پہاڑی کی چوٹی پر کوئی درخت ، کوئی بنچ ایسا نہیں جس پر نام نہ کھدے ہوں اور ایڈریس نہ لکھے ہوں ع
ثبت است بر جریدۂِ عالم دوامِ ما
دوسری قوموں نے اپنے نام ایجادات اور دریافتوں سے زندہ رکھے ہیں۔کسی نے دنیا کو پنسلین کا تحفہ دیا ، کسی نے برقی روشنی کا ، کسی نے ریل بنائی ،کسی نے انٹرنیٹ اور کسی نے موبائل فون … جس کے بغیر آج ہمارے خاکروب کا گزارا بھی نہیں ہوتا … لیکن ہم چونکہ انسانیت کو کچھ نہیں عطا کرسکے اس لیے نام زندہ رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ شاپنگ بیگ ، چپس کے ٹکڑے ، خالی ڈبے اور ٹوٹی ہوئی بوتلیں سیر گاہوں میں ادھر ادھر بکھیر کر ، درختوں اور بنچوں پر اپنے نام کھود دیں اور یوں تاریخ کے آسمان پر ستاروں کی طرح روشن رہیں!
سیاحت کے وفاقی محکمے میں ہمیشہ سیاسی تقرریاں ہوتی رہیں اور سیاحت بھاڑ میں جھونکی جاتی رہی۔ایبٹ آباد سے گلگت اور سکردو تک ، کوئی ایک بھی ایسا باعزت ریستوران نہیں جہاں سیاح اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ کچھ دیر ٹھہر سکیں۔مناسب واش روم اس سارے راستے پر ایک خواب کے سوا کہیں نہیں،انٹرنیٹ تو دور کی بات ہے۔قومی ائیرلائن شمالی شہروں کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے وہ دھاندلی ، دروغ گوئی ، اقربا پروری اور اذیت رسانی کی المناک داستان ہے جسے بیان کرنے کے لیے الگ دفتر چاہیے۔ جن ملکوں کے پاس اس حسن کا عشر عشیر بھی نہیں جو قدرت نے شمالی علاقوں کی شکل میں پاکستان کو دیا ہے، انہوں نے ٹور ازم سے پوری دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور ہم اس انتظار میں ہیں کہ آسمان سے فرشتے اتریں، سیاحت کی انڈسٹری کو DEVELOP کریں اور پھر پلیٹ میں رکھ کر ہماری خدمت میں پیش کریں ؎
وہ شاخِ گُل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
شام کو سلطنت عثمانیہ نے 1516ء میں اپنی تحویل میں لیا۔ چارسوسال تک شام ایک اہم صوبہ رہا ۔ ترکوں نے جہاں عربی زبان کو عزت اور اہمیت دی‘ وہاں دمشق کو بھی علاقے کا مرکزی مقام قرار دیا ۔ مکہ جانے والے حجاج کے لیے اسے ایک اہم پڑائو کا درجہ حاصل رہا۔ پہلی جنگِ عظیم کے وسط میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے علاقے کو اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں بانٹ لیا اور اس کا نام Mandate(انتداب) رکھا۔ فرانس سے شام کی جان 1946ء میں چھوٹی۔ اقبال نے یورپ کے اس تسلط پر خوب طنز کیا تھا ؎
فرنگیوں کو عطا خاکِ سوریا نے کیا
نبیِ عفّت و غم خواری و کم آزاری
صلہ‘ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے
مے وقمار وہجومِ زنانِ بازاری
اقبال نے ضربِ کلیم میں ایک باب الگ باندھا ہے جس کا عنوان ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب‘‘ ہے۔ انٹرنیشنل ریلیشنز (بین الاقوامی تعلقات ) کے طلبہ کے لیے یہ ایک باب کئی کتابوں پر بھاری ہے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم کا درمیانی عرصہ اس باب کا موضوع ہے۔ ایک ایک شعر میں کئی کئی نکات ہیں ۔ سامراجی طاقتوں نے اس زمانے میں جو چیر پھاڑ شروع کررکھی تھی اس کا ذکر اقبال نے جس پیرائے میں جگہ جگہ کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شام وفلسطین کے انتداب کی طرف بھی انہوں نے پُرمغز اشارے کیے ہیں ؎
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
تُرکانِ ’’جفاپیشہ‘‘ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
تُرکانِ ’’جفاپیشہ‘‘ کا ذکر کرکے اقبال نے یوں سمجھیے ساری روداد بیان کردی کہ کس طرح کچھ ناعاقبت اندیش عربوں نے انگریزوں سے سازباز کرکے سلطنتِ عثمانیہ سے ’’آزادی ‘‘ حاصل کی۔ اسرائیل کے قیام میں اردن کے شاہ حسین کے دادا نے اہم کردار ادا کیا تھا! ایک نظم کا علامہ نے عنوان ہی ’’انتداب‘‘ رکھا ہے۔ اس کے دواشعار یوں ہیں ؎
جہاں قمار نہیں، زن تنک لباس نہیں
جہاں حرام بتاتے ہیں شغلِ میخواری
نظرورانِ فرنگی کا ہے یہی فتویٰ
وہ سرزمیں مدنیت سے ہے ابھی عاری
فرانس سے 1946ء میں شام کو رہائی تو ملی لیکن استعمار ، جیسا کہ استعمار نے ہرجگہ کیا، ایسا بیج بوچکا تھا جس کی فصل شام آج تک کاٹ رہا ہے۔ یورپ کے شاطروں نے چُن چُن کر اقلیتوں کو نوازا اور انہیں اکثریت کے مقابلے میں منفی انداز سے کھڑا کیا۔ 1923ء سے لے کر 1946ء تک فرانسیسیوں نے فوج میں اقلیتوں کو بھرتی کیا۔ ان اقلیتوں میں دروزی (انہیں نصیری بھی کہا جاتا ہے اور علوی بھی ) سرفہرست تھے۔ جب فرانسیسی گئے تو فوج میں علوی پینسٹھ سے سترفی صد تک ہوچکے تھے ! افسروں میں ان کی تعداد 1960ء میں نوے فی صد تک پہنچ گئی۔ 1958ء میں شام اور مصر کا اتحاد وجود میں آیا۔ اس اتحاد سے سنی اکثریت کی پوزیشن قدرے بہتر ہوئی لیکن شام نے 1961ء میں اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی۔ بعث پارٹی پر دروزی اقلیت چھا گئی۔ سوشلزم اور سیکولرزم دونوں نعرے اس اقلیت کو راس آتے تھے۔ 1970ء میں جب دروزی فرقے سے تعلق رکھنے والے حافظ الاسد نے اقتدار پر قبضہ کیا تو وہ جو روایت تھی کہ ملک کا صدر سنی ہوتا تھا، وہ بھی ختم ہوگئی۔ حافظ الاسد نے اپنے رشتہ داروں اور ہم قبیلہ افراد کو چن چن کر اہم مناصب پر فائز کیا۔ عملی طورپر شام فرانس کے بجائے اس دروزی اقلیت کی کالونی بن کر رہ گیا جس کی آبادی ملک میں دس گیارہ فی صد سے زیادہ نہیں تھی !خفیہ سکیورٹی ایجنسیوں پر یہی لوگ چھائے ہوئے تھے اور اختلاف کرنے والوں سے ’’نمٹنے ‘‘ میں ہروہ طریقہ استعمال ہوتا تھا جس سے انسانیت کو شرم آتی تھی۔ قبیلہ نوازی اور اقربا پروری کا لازمی نتیجہ کرپشن ہوتا ہے اور اگلی منزل معیشت کی تباہی ہوتی ہے۔ شام کے ساتھ یہی ہوا۔ خوراک کی قلّت، بیروزگاری اور گرانی نے عوام کو پریشان کردیا۔ سنی اکثریت بغاوت پر اترآئی۔ اس میں اخوان المسلمون پیش پیش تھی۔ 3فروری 1982ء کی صبح بغاوت شروع ہوئی۔ باغیوں نے بعث پارٹی کے ستر بڑے بڑے لیڈر ہلاک کردیے اور حما کو ’’آزاد شہر‘‘ قرار دے دیا۔ حافظ الاسد نے خصوصی یونٹیں جو اس کے چھوٹے بھائی رفعت کی کمان میں تھیں، حما بھیجیں ۔ ستائیس دن شہر کا محاصرہ کیا گیا ۔ ٹینک اور بھاری توپخانے سے گولہ باری کی گئی۔ پھر قتلِ عام ہوا اور تیس سے چالیس ہزار لوگ
مارے گئے۔ پندرہ ہزار کا سراغ ہی نہ ملا۔ ایک لاکھ شہر بدرکردیے گئے۔ جب رفعت الاسد کو شک ہوا کہ کچھ باغی زیرزمین سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں تو اس نے سرنگوں میں ڈیزل ڈال کر آگ لگادی۔ ہر سُرنگ کے دہانے پر ٹینک کھڑے کردیے گئے۔ جان بچا کر بھاگنے والوں کو ٹینکوں کے گولوں سے اڑادیا گیا۔ شہرۂ آفاق صحافی رابرٹ فسک اپنی تصنیف 'Pity the Nation' میں لکھتا ہے کہ جب ٹینک اور فوجی دستے شہر کی طرف بڑھ رہے تھے تو شہری آبادی بھاگ رہی تھی اور اس کے پاس خوراک تھی نہ پانی !
سنی مدافعت کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس سے ایک بات شام کے لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ اپنی حکومت کی بقا کے لیے دروزی حافظ الاسد کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آج جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے اور یہ محض پروپیگنڈہ ہے وہ یا تو شامی دروزیوں کے ظلم کی استعداد سے ناواقف ہیں یا حالات سے بے خبر ہیں۔ ترکی حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ناقابلِ تردید شواہد مہیا کیے ہیں ۔ یہ ہتھیار ایک سے زائد مواقع پر استعمال کیے گئے۔ اس سے پہلے حلب ، المشارقہ اور کئی دوسرے شہروں میں بھی احتجاج کرنے والی آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
قریبی رشتہ داروں اور دروزی فرقے سے تعلق رکھنے والے انتہائی قابلِ اعتماد دوستوں کو مختلف اسامیوں پر اس طرح تعینات کیا گیا ہے کہ اڑھائی سال کی خونریز خانہ جنگی بھی اس حصار میں تاحال رخنہ نہیں ڈال سکی۔ بشارالاسد کا بھائی ماہرالاسد‘ ری پبلکن گارڈز کا کمانڈر ہے۔ ماہر کا برادر نسبتی محمد ہمشو، ہمشوانٹرنیشنل گروپ کا مالک ہے جو تعمیرات اور گھوڑوں کی نسل افزائی کی بہت بڑی کمپنی ہے۔ ماہرالاسد کا خطرناک ترین منصب دروزیوں پر مشتمل مسلح ملیشیا فورس کی کمان ہے۔ چچازاد بھائی اس فورس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ بشارالاسد کے ماموں کا خاندان‘ جسے مخلوف فیملی کہا جاتا ہے‘ ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر کا مالک ہے۔ دمشق میں خفیہ سکیورٹی ایجنسی کا سربراہ بھی بشارکا کزن ہے۔ پورے شام میں موبائل فون کی صرف دو کمپنیاں ہیں اور ایک کا چیئرمین اور نائب چیئرمین دونوں بشار کے قریبی عزیز ہیں۔ ملک کی واحد نجی ایئرلائن مخلوف خاندان کی ملکیت ہے۔ بری فوج ، فضائیہ اور وزارت داخلہ‘ تینوں کی خفیہ ایجنسیاں الگ الگ ہیں۔ تمام کی سربراہی خاندان کے افراد کے پاس ہے۔ ایک ایجنسی کا دوسری سے تعلق کم ہی ہوتا ہے۔ تمام اطلاعات سے بیک وقت آگاہی صرف بشارالاسد کو ہوتی ہے، حکومت کی مضبوطی کی ایک وجہ یہ احتیاط بھی ہے۔ کسی ایک ایجنسی کا سربراہ ایک خاص حد سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتا۔
خانہ جنگی کو اڑھائی سال ہورہے ہیں۔ بشارالاسد کی حکومت سنبھل چکی ہے۔ شدید خونریز لڑائیوں کے بعد بھی باغی بشارالاسد کے خاندانی حصار میں کوئی شگاف نہیں ڈال سکے۔ کوئی اہم عہدیدار منحرف نہیں ہوا۔ ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور فرانس باغیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ ایران‘ عراق‘ چین اور روس بشارالاسد کی پشت پر کھڑے ہیں؛ تاہم روس نے کہا ہے کہ اگر اسے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ثبوت دکھایا جائے تو وہ امریکی حملے کی حمایت کرے گا ؎
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
’’مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں شام کی صورتحال پر عرب لیگ کے خصوصی اجلاس کے موقع پر سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری شامی عوام کے خلاف حکومتی جارحیت روکنے کے لیے اقدامات کرے اور اگر شامی عوام نے بشارالاسد کے خلاف امریکی حملے کی حمایت کی تو سعودی عرب بھی اس کی حمایت کرے گا‘‘۔
تو کیا سعودی عرب کو مسلمانوں سے دشمنی ہے کہ وہ امریکی حملے کی حمایت کررہا ہے؟ کیا ترکی اور متحدہ عرب امارات مسلمان نہیں؟ یا کیا وہ ان پاکستانیوں سے کم درجے کے مسلمان ہیں جو امریکی حملے کے خلاف پاکستان میں بیانات دے رہے ہیں اور ایجی ٹیشن کررہے ہیں؟ ہم اہل پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مسائل کا تجزیہ ناپید اور نعرے، ہجوم، جلوس، بینر اور دھواں دار بیانات پیش منظر پر ہر طرف چھائے ہوئے ہیں۔ آج مختلف گروہ یا تو منقار زیر پر ہیں یا بشار الاسد اور اس کے حامیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سیاست بھی کیا شے ہے! اس میں اور دو رنگی کے درمیان ایک مدہم سی لکیر ہے جو مشکل ہی سے نظر آتی ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ ہمیں بشار الاسد سے کوئی ہمدردی نہیں؛ تاہم ہم امریکی حملے کے خلاف ہیں۔
فانی بدایونی نے کہا تھا: ؎
دعویٰ یہ ہے کہ دوریٔ معشوق ہے محال
مطلب یہ ہے کہ قرب نہیں اختیار میں
مشرق وسطیٰ میں موجودہ کشمکش دراصل اُس وقت آغاز ہوئی جب خطے کے ایک بڑے ملک ایران نے انقلاب برآمد کرنے کا عزم اور اعلان کیا۔ یہ ’’ایکسپورٹ آف ریوولیوشن‘‘ محض ایک اعلان نہیں تھا، جلد ہی اس پر عملدرآمد بھی شروع ہوگیا۔ لبنان پہلی تجربہ گاہ بنی اور جلد ہی وہاں حزب اللہ کی شکل میں ایرانی توسیع وجود میں آگئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاسداران انقلاب وہاں بھیجے گئے۔ اس میں شک نہیں کہ حزب اللہ نے اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور شام کی مدد بھی کی لیکن دوسری طرف عرب بادشاہتیں محتاط ہوگئیں، یہاں تک کہ وہ اپنے دفاع میں لگ گئیں۔ ایک طرف ایران ان تمام عرب ملکوں میں انقلاب ’’برآمد‘‘ کرنا چاہتا ہے جو اس کے مغرب میں واقع ہیں، دوسری طرف عرب ممالک اس ’’برآمد‘‘ کے آگے بند باندھنا چاہتے ہیں۔ لبنان کی طرح اگر باقی ملکوں میں بھی ایسے ہی ایران نواز گروہ ظہور پذیر ہوجائیں تو پورا خطہ عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق اور ایران کی جنگ میں (شام کو چھوڑ کر) دوسرے عرب ممالک عراق کی پشت پر تھے۔
یہ کفر اور اسلام کا مسئلہ نہیں۔ یہ مفادات کا ٹکرائو ہے۔ ایران کی مجبوری یہ ہے کہ شام اس کا مضبوط ترین حلیف ہے۔ یہ اتحاد اس وقت سے قائم ہے جب سے ایران میں انقلاب آیا۔ صدام حسین شام اور ایران دونوں کا مشترکہ دشمن تھا۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شام نے ایران کو تزویراتی گہرائی (Strategic Depth) مہیا کی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے ایران کی پہنچ بحرروم تک ہے اور لبنان میں حزب اللہ تک
رسائی بھی شام ہی کے ذریعے ہے۔ بشارالاسد تخت سے اترجائے تو ایران سب سے بڑے اتحادی سے محروم ہوجائے گا۔ یہ ہے وہ وجہ جس کی بناپر ایران شامی حکومت کی مددکررہا ہے اور یہ مدد دامے‘ درمے‘ سخنے سے کہیں بڑھ کرہے!
سعودی عرب کی مجبوری یہ ہے کہ وہ خطے میں ایران کا اثرونفوذ ہرحال میں روکنا چاہتا ہے۔ بشارالاسد کی شکست کی صورت میں ایران کو زبردست دھچکا لگے گا۔ امریکی مداخلت اس لیے بھی سعودی عرب کے لیے خوش آئند ہے کہ یہ مداخلت بشارالاسد کے بعد انتہا پسندوں کو اقتدار سے دوررکھ سکتی ہے۔ یہ انتہا پسند بادشاہتوں کے لیے خطرہ ہیں۔
ترکی کی مجبوری یہ ہے کہ عراق کی شیعہ حکومت کے ساتھ کردوں کے مسئلے پر اس کی مخالفت ہے‘ دوسری طرف عراق کے شیعہ جنگجو شام میں بشارالاسد کے حامیوں کے شانہ بشانہ لڑرہے ہیں۔ اس جلتی پر تیل ایمن الظواہری کے اس بیان نے ڈالا جو اپریل میں جاری کیا گیا۔ اس بیان میں شامی اپوزیشن کو سراہا گیا اس لیے کہ ایمن کے بقول یہ جنگ
بشارالاسد اور ایران دونوں کے خلاف ہے۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وقت کے ایک حالیہ ٹکڑے کو چھوڑ کر، ترکی اور ایران ہمیشہ ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں، یہ دشمنی اس وقت زیادہ ہوئی جب ایران میں صفوی برسراقتدار آئے اور حکومت سرکاری طورپر شیعہ کہلانے لگی۔
روس کی مجبوری یہ ہے کہ بحیرہ روم میں روسی نیوی کے پاس اڈہ ہے اور یہ شامی حکومت کی وجہ سے ہے۔ روس اور شام میں ہتھیاروں کی فراہمی کا معاہدہ بھی ہے جو تقریباً پانچ ارب ڈالر کا ہے۔ لیبیا میں قذافی کے خاتمے سے روس کو پہلے ہی بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ چارارب ڈالر کا سودا لیبیا سے ہوچکا تھا کہ قذافی پیش منظر سے ہٹ گیا۔ اب اگر بشارالاسد بھی تاریخ کی دھند میں روپوش ہوتا ہے تو روس کو مزید مالی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسلحہ کے علاوہ روسی کمپنیوں نے 2009ء سے اب تک شام میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ بشارالاسد کی شکست کی صورت میں یہ معاہدے مٹی میں دفن ہوجائیں گے۔
شام کے اندر حافظ الاسد کی حکومت نے‘ جو ایک اقلیت کی حکومت ہے، اکثریت کے ساتھ کیا سلوک کیا، اور کیا سلوک کررہی ہے، اس کا احوال ہم کل کی نشست میں بیان کریں گے۔
جہاز پر سوار ہونے کے لیے ہم قطار میں کھڑے تھے ۔ کراچی سے اسلام آباد آنے کے لیے اس جہاز پر نشست ملی تھی جس کے زیادہ تر مسافر دبئی سے آرہے تھے۔ ناخواندہ اور نیم خواندہ محنت کش ۔ جوشخص میرے آگے تھا، اس نے کندھے پر پیڈسٹل پنکھا رکھا ہوا تھا ۔ میں نے اسے کہا کہ پنکھے تو پاکستان میں بہت اچھے بن رہے ہیں۔ اس نے فوراً تصحیح کی۔’’لیکن یہ فارن کا ہے۔‘‘
یہ کئی سال پہلے کی بات ہے ۔ اس زمانے میں باہر سے ٹو ان ون (ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو) ، وی سی آر، کراکری اور کٹلری لانے کا رواج تھا۔ یہ رجحان پاکستان میں ہمیشہ سے تھا اور آج بھی ہے۔ آج بھی کپڑے کے تاجر کپڑا پاکستان کے کارخانوں میں بنواتے ہیں اور ٹھپا اس پر کوریا یا جاپان کا لگواتے ہیں۔ اس احساس کمتری میں ہمارے تجربہ کار اور جہاں دیدہ حکمران بھی اسی طرح مبتلا ہیں جس طرح دبئی میں کام کرنے والے محنت کش۔ پنجاب کی حکومت نے ترکی سے پولیس افسر منگوائے ہیں جو دہشت گردی اور جرائم ختم کرنے کے لیے سفارشات مرتب کررہے ہیں۔ لاہور کے پولیس ہیڈکوارٹر میں پاکستانی پولیس افسر ان مہمانوں کی خدمت پر مامور ہیں !
سفارشات ؟؟کیا مہمان پولیس افسروں کے پاس آسمان سے نئے نئے اترے ہوئے طریقے ہوں گے جو ہماری اپنی پولیس کو نہیں معلوم ؟؟اللہ کے بندو!اگر تمہارے سروں کے اندر دماغ ہیں تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں ’’سفارشات‘‘ کی کمی نہیں، آزادیٔ کارکی کمی ہے اور سیاسی مداخلت ہے جو پولیس کو کچھ نہیں کرنے دے رہی۔ اگر نتیجہ چاہتے ہو تو ترک پولیس افسران کو فیلڈ میں کام کرنے دو۔ یہ تم کبھی بھی نہیں کرو گے کیونکہ غیرملکی پولیس افسر سیاسی مداخلت پر ایک ہی جواب دیں گے۔ ’’نہیں، جناب، یہ نہیں ہوسکتا، آپ اپنا کام کیجیے، ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے۔‘‘ پاکستانی پولیس افسر کو تو تم فوراً لاہور یا راولپنڈی سے اٹھاکر بہاولنگر یا جنڈ بھیج دوگے ۔ ترک پولیس افسروں کا کیا کرو گے ؟
’’سفارشات‘‘ ؟ پاکستان میں سفارشات کی کمی ہے نہ قوانین کی۔ ایک سے ایک قانون موجود ہے۔ جوبات چاک گریباں دیوانے کو بھی معلوم ہے لیکن حکمرانوں کو نہیں معلوم‘ یہ ہے کہ قوانین کو نافذ کوئی نہیں کرنے دیتا۔ سرکاری تعمیراتی قوانین اس کی بہترین مثال ہیں۔ ایم ای ایس اور پی ڈبلیو ڈی دوایسے محکمے ہیں جو سرکاری عمارتیں بناتے ہیں۔ آپ تقسیم سے پہلے کی بنی ہوئی سرکاری عمارتیں دیکھ لیجیے اور آج کی بنی ہوئی عمارتیں دیکھ لیجیے۔ زمین وآسمان کا فرق ہے لیکن قوانین (Rules) کی کتابیں وہی ہیں ! جس زمانے میں ان قوانین پر عمل ہوتا تھا، لاہور ریلوے سٹیشن، جی پی او، گورنمنٹ کالج اور اولڈ کیمپس جیسی عمارتیں بنتی تھیں۔ جو آج کل ہورہا ہے، لکھنے والوں کو بھی معلوم ہے اور پڑھنے والوں کو بھی۔ ترکی سے نہیں، مریخ سے پولیس افسروں کو منگواکر دہشت گردی اور کرپشن ختم کرانے کی ’’سفارشات‘‘ مرتب کروالیجیے، ان سفارشات پر سیاسی جماعتیں کبھی بھی عمل پیرا نہیں ہونے دیں گے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے منہ کو خون کی چاٹ لگ چکی ہے۔ پاکستان کے پولیس افسروں کی تعیناتی کی فہرستیںمرتب کی جائیں تو یہ ایک مضحکہ خیز اور شرم ناک دستاویز ہوگی۔ کسی کو تین ماہ بعد ہٹادیا گیا، کسی کو چھ ماہ بعد اور کسی کو پندرہ دن بعد۔ سیاسی مداخلت اس ملک کی جڑوں پر کلہاڑا چلارہی ہے۔ کوئی ایک سیاسی جماعت بھی مستثنیٰ نہیں۔ جو سیاسی جماعتیں مذہبی عبائیں اوڑھے ہوئے ہیں، ان کی مداخلت بھی کم نہیں۔ نیک نام اور دیانت دار بیوروکریٹ آپ بیتیاں لکھیں تو اہل پاکستان کو کچھ پتہ بھی چلے۔ یہاں زیادہ تر جن اصحاب نے قلم اٹھایا وہ خود کان نمک کا حصہ رہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ سلمان فاروقی خودنوشت لکھ رہے ہیں۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ !
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے میں سیاسی بنیادوں پر لائے گئے 45اہلکاروں کو نکالنے کا حکم دیا ہے۔ ایف سی کے ایک سو دس اہلکار ان معززین کی حفاظت پر مامور رہے جو اس ’’سہولت‘‘ کے حقدار ہی نہیں تھے۔ صرف گزشتہ مالی سال میں اسی غلط بخشی پر چارکروڑ ساٹھ لاکھ روپے قومی خزانے سے غارت گئے۔ آخر سیاست دان اور سیاسی جماعتیں محکموں کو، افسروں اور اہلکاروں کو، سرکاری نظام کو اپنا کام کیوں نہیں کرنے دیتیں؟ سیاست دانوں پر اس وقت گھڑوں پانی پڑنا چاہیے تھا جب برطانوی وزیراعظم کے حالیہ دورۂ پاکستان میں الطاف
حسین کی ممکنہ گرفتاری کے بارے سوال کیا گیا تو ان کا ایک ہی جواب تھا: برطانوی پولیس خودمختار ہے اور حکومت اسے کچھ نہیں کہہ سکتی! پطرس نے لکھا ہے کہ مرزا کی بائیسکل کا ہرپرزہ بجتا تھا سوائے گھنٹی کے۔ ہمارے منتخب نمائندے قانون سازی کے علاوہ ہرکام کرتے ہیں۔ مقامی حکومتوں سے انہوں نے نالیاں پکی کرانے کا کام لے لیا اور سرکاری محکموں سے بھرتیاں تبادلے اور ترقیاں اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ان حضرات کو اس سے کچھ غرض نہیں کہ ملک لاقانونیت کے جنگل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ صرف پنجاب میں ڈاکوئوں اور اغوا برائے تاوان کے دوسو سے زیادہ گروہ کام کررہے ہیں۔ آٹھ ہزار سے زیادہ افراد ان میں ملوث ہیں۔ صوبے میں گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران اغوا ڈکیتی اور چوری کی ایک لاکھ نو ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ سات ماہ میں ڈکیتی کی ڈیڑھ ہزار، راہزنی کی گیارہ ہزار، سٹریٹ کرائم کی آٹھ ہزار، موٹرسائیکل چوری کی بارہ ہزار، کار چوری کی چارہزار اور قیمتی سامان چوری کی سولہ ہزار وارداتیں ہوئیں اور یہ صرف وہ تعداد ہے جو ریکارڈ کی گئی۔ آج اگر پولیس کا سربراہ کسی دیانت دار شخص کو لگاکر اسے یقین دلایا جائے کہ تم تین سال تک اسی کام پر مامور ہو تم اپنے کام میں اور اپنے افسروں اور اہلکاروں کی تعیناتیوں اور تبادلوں میں مکمل طورپر خودمختار ہو اور تم بڑی سے بڑی سفارش کو ردکرسکتے ہو۔ اس کے نتیجہ میں سوفی صد ضمانت دی جاسکتی ہے کہ چھ ماہ میں جرائم سو سے تیس
تک آجائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ خودمختاری مل سکتی ہے ؟
پنجاب کے میدان جون میں برف باری سے اٹ سکتے ہیں۔ سکردو کے باشندے دسمبر کی راتیں صحن میں گزارسکتے ہیں۔ کسان ہل چلانے کے لیے بیلوں کے بجائے مرغیاں جوت سکتے ہیں لیکن ہمارے حکمران دوست نوازی (Cronyism) سے باز نہیں آسکتے۔ وفاقی حکومت نے ریٹائرڈبیوروکریٹ جناب خواجہ ظہیر کو مشیر تعینات کرکے وفاقی وزیر کا درجہ دیا ہے۔ خواجہ صاحب نیک نام بھی ہوں گے اور خوش کردار بھی، لیکن وزیراعظم کی خدمت میں کوئی یہ بھی عرض کرتا کہ ایک مخصوص علاقائی پٹی سے پہلے ہی پندرہ وفاقی وزیر لیے جاچکے ہیں۔ خواجہ صاحب سولہویں ہوں گے۔ ٹیلنٹ کی کہیں بھی کمی نہیں۔ اس نئی تعیناتی کی اگر فی الواقع ضرورت تھی تو کسی اور صوبے سے کوئی فرد لے لیا جاتا۔ وہ اگر خواجہ صاحب سے زیادہ نہیں تو کم لائق بھی نہ ہوتا۔ اس کالم نگار کی ناقص معلومات کی روسے چترال دیر سوات پشاور مردان کوہاٹ اور فاٹا سے کوئی وفاقی وزیر نہیں لیا گیا (اگر یہ غلط ہے تو لکھنے والا اپنی تصحیح کا طالب ہے )
بات ترکی کے پولیس افسروں سے چلی تھی۔ پاکستان کی افرادی قوت ، دنیا کے کسی خطے کی افرادی قوت سے ذہانت اور لیاقت میں کم نہیں۔ سوال یہ ہے ہم اپنے افسروں اور اہلکاروں کو کس نیت سے استعمال کررہے ہیں۔ حسن نیت ہو تو ایک آنسو بہت ہے۔ ورنہ دعاہائے سحری بھی بیکار ہیں۔ رئوف امیرؔ مرحوم نے کہا تھا ؎
شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے ایک پتہ بھی ہلتا نہیں ہے مگر
یہ سنا ہے کہ پہلے کسی شخص نے صرف کلمہ پڑھا اور ہواچل پڑی
powered by
worldwanders.com