Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, July 31, 2013

خاندانِ غلاماں

نئی نظم کے متین شاعر فرخ یار کی اس نظم کا موضوع تو کچھ اور ہے مگر نظم کاآغاز اس نے چائے سے کیا ہے اور کیا ہی دل کو گرفت میں لے لینے والا آغاز ہے   ؎  
چین سے چائے کی پتیاں آگئیں
سہ پہر سج گئی
ہم کہیں درمیاں سے اٹھے 
زندگی تیرے پیالے کو سیدھا کیا
اور امید سے بھرلیا
چائے سب سے پہلے اہل چین نے پینا شروع کی۔سولہویں صدی میں پرتگالی پادری اور تاجر چین آئے تو چائے سے آشنا ہوئے۔انگریزوں نے سترھویں صدی میں چائے کو اپنایا۔ چینیوں کی طرح انگریز بھی رکھ رکھائو اور اہتمام سے چائے پیتے ہیں۔ برصغیر اور سری لنکا میں چائے کی کاشت ایسٹ انڈیا کمپنی نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے شروع کی۔
چائے نوشی کا جو حشر پاکستان اور بھارت میں ہوا وہ چینیوں اور انگریزوں کے لیے ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔یہاں چائے کو اس طرح پکایا جاتا ہے جیسے دال ، سبزی یا گوشت کو پکایا جاتا ہے۔ چائے کی پتی پانی میں ابالی جاتی ہے۔ پھر شکر ڈال کر مزید پکایا جاتا ہے۔ آخر میں دودھ ڈالا جاتا ہے۔ ابلنے کا عمل جاری رہتا ہے۔بسا اوقات شکر اور دودھ کی مقدار چائے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔کہیں اسے کڑک چائے کا نام دیا جاتا ہے اور کہیں ٹرک ہوٹل سے منسوب کیا جاتا ہے۔ایک حلوہ نما قسم کو دودھ پتی کہا جاتا ہے جس میں ایک حصہ چائے کی پتی اور ننانوے حصے دودھ ہوتا ہے۔بھارت اس معاملے میں یعنی چائے کا حلیہ خراب کرنے میں پاکستان سے بھی کئی ہاتھ آگے ہے۔وہاں چائے کو باقاعدہ جو شاندے کی شکل دے دی گئی ہے۔اسے مصالحہ چائے کہتے ہیں۔ بیچاری غریب الدیار چائے میں لونگ، الائچی، دار چینی اور کبھی کبھی اجوائن بھی ملاتے ہیں۔ بس چائے کی کیتلی میں آٹا اور گوشت یا دال ڈالنے کی کسر رہ جاتی ہے۔
یہی حال ہمارے ہاں جمہوریت کا ہوا ہے۔جمہوریت درآمد تو ہم نے کرلی لیکن اس کے بعد اس کی وہ حالت کی کہ اب وہ پہچانی نہیں جارہی ۔ہم نے جمہوریت کو بھی کڑک جمہوریت یا ٹرک ہوٹل والی جمہوریت کرکے رکھ دیا۔صدارتی انتخاب ہی کو لے لیجیے۔میڈیا میں گریہ وزاری ہورہی ہے کہ یہ ممنون حسین کہاں سے درمیان میں آگئے۔پارٹی کے لیے قربانیاں تو غوث علی شاہ ،سردار مہتاب عباسی اور جھگڑا صاحب نے دی تھیں۔لیکن یہ سب کیوں ہوا۔اس کا سبب جاننے کی اور جان جائیں تو بتانے کی ہمت کوئی نہیں کرتا۔
ہماری سیاسی جماعتیں خاندانی جاگیریں ہیں جو بدترین آمریت کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ان سیاسی پارٹیوں کو جس انداز میں ’’چلایا ‘‘ جارہا ہے، وہ مافیا سے کم نہیں۔مہذب دنیا میں سیاسی پارٹیوں کو ایک لیڈر یا ایک خاندان کی جاگیر نہیں بننے دیا جاتا۔ ان کے اندر انتخابات ہوتے ہیں۔امریکی صدارتی انتخابات کا مطالعہ کرلیجیے۔
2008ء میں صدارتی الیکشن کے لیے امیدوار نامزد کرنے سے پہلے دونوں سیاسی جماعتوں ، ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کے اندر انتخابات ہوئے۔بارک اوباما نے فروری 2007ء میں یعنی صدارتی انتخابات سے تقریباً پونے دو سال پہلے اپنی پارٹی کے اندر اعلان کیا کہ وہ صدارتی امیدوار بننے کے لیے مقابلہ کریں گے۔ ہلیری کلنٹن اس سے بھی ایک ماہ پہلے اعلان کرچکی تھی۔ایک اور ڈیموکریٹک سیاستدان جان ایڈورڈ‘ دسمبر 2006ء میں میدان میں اتر چکا تھا۔تمام امیدواروں نے پارٹی کے اندر اپنی اپنی انتخابی مہم چلائی۔ایک ایک ریاست میں زبردست مقابلہ ہوا۔آخر کار اگست 2008ء میں ڈیموکریٹک پارٹی نے بارک اوباما کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ نومبر 2008ء میں اوباما ری پبلکن امیدوار کو شکست دے کر امریکہ کا صدر بن گیا۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر مسلم لیگ نون کے اندر انتخابات کی بنیاد پر صدارتی امیدوار چنا جاتا تو ممنون حسین یا رفیق تارڑ جیسی شخصیات کامیاب ہوجاتیں؟ کیا ممنون حسین یا رفیق تارڑ، راجہ ظفر الحق، اقبال جھگڑا، سید غوث علی شاہ ، سردار مہتاب عباسی ، چودھری نثار علی خان یا خواجہ سعد رفیق جیسے تجربہ کار ، نامور اور اچھی شہرت رکھنے والے سیاست دانوں کو پارٹی کے اندرونی انتخابات میں شکست دے دیتے؟ غالباً کبھی نہیں ، لیکن مسلم لیگ نون ، ہماری باقی سیاسی جماعتوں کی طرح ہے۔ پارٹی کا سربراہ ایک نجی ادارے کے مالک کی طرح ہے۔وہ جسے چاہے اوپر لے آئے اور جسے چاہے سٹیج سے اتر جانے کا حکم دے دے۔واحد معیار ذاتی وفاداری ہے۔ اگر سپریم کورٹ بحران کے دوران کوئی شخص بریف کیس لے کر کوئٹہ جاتا ہے تو  اس کی قسمت کھُل جاتی ہے اور اگر کوئی شخص غیر ضرر رساں اور مرنجاں مرنج نظر آتا ہے تو ہما اس کے سر پر آبیٹھتا ہے۔ آج سے بیس بائیس سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ایک اخبار کا نیم خواندہ مالک ایڈیٹر سے ناراض ہوگیا۔اس نے ایڈیٹر کو کرسی سے اٹھنے کا حکم دیا۔وہ اٹھا تو اس کے چپڑاسی کو حکم دیا کہ تم کرسی پر بیٹھو۔پھر اس نے ایڈیٹر کو مخاطب کرکے کہا کہ تم نے دیکھا، میں مالک ہوں، جسے چاہوں کرسی پر بٹھا دوں۔ آج جب شہبازشریف کہتے ہیں کہ مسلم لیگ نون جمہوری روایات کی علمبردار جماعت ہے اور ممنون حسین نے ہر مشکل وقت میں پارٹی کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور پارٹی کو ان پر فخر ہے تو ہنسی بھی آتی ہے اور اس ’’ جمہوری ‘‘ کلچر پر افسوس بھی ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ممنون حسین نے سید غوث علی شاہ اور اقبال جھگڑا سے زیادہ پارٹی کا ساتھ دیا ہے ؟ دوسری طرف حالات کی ستم ظریفی ہے کہ غوث علی شاہ اور جھگڑا صاحب جیسے لوگ پارٹی چھوڑ کرجائیں تو جائیں کہاں؟ کیا پیپلزپارٹی انہیں قبول کرلے گی اور کیا وہ اس میں ایڈجسٹ ہوپائیں گے ؟
یہی حال پیپلزپارٹی کا ہے۔آصف زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین نہیں، مالک و مختار تھے۔ ان کا دل چاہا تو پہلی بار یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم کی سیٹ پر بٹھا دیا اور دوسری مرتبہ راجہ پرویز اشرف کے سرپر تاج رکھ دیا۔اعتزاز احسن ،رضا ربانی اور قمر زمان کائرہ نے چوں بھی نہیں کی۔پارٹی کا مالک چاہتا تو گیلانی اور پرویز اشرف سے بھی کم مرتبہ افراد کو وزیراعظم بنادیتا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ دودھ جلیبی بیچنے والوں کو صدارتی امیدوار بنایا جارہا ہے۔دودھ جلیبی بیچنا کوئی بری بات نہیں۔دودھ جلیبی بیچنے والے محنت کش کئی ایسے حضرات کی نسبت زیادہ دیانت دار ہیں جن کے پاس لمبی چوڑی جائیدادیں ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ دودھ جلیبی کون بیچتا ہے۔سوال یہ ہے کہ پارٹی کے اندر صدارتی نامزدگی میرٹ کی بنیاد پر ہورہی ہے یا نہیں؟
ہماری تاریخ خاندانوں سے بھری پڑی ہے ۔تغلق خاندان، خلجی خاندان، لودھی خاندان، سوری خاندان، مغل خاندان لیکن ایک خاندان غلاماں بھی تو تھا!

Tuesday, July 30, 2013

ایمان اتحاد‘ تنظیم اور نفاق

’’اوورکوٹ‘‘ غلام عباس کا وہ افسانہ ہے جس کا تذکرہ کیے بغیر اردوادب سے سرسری طورپر بھی نہیں گزراجاسکتا۔ ہم سب نے یہ افسانہ پڑھا ہوا ہے۔ اکثر نے کورس کی کتاب میں اور بہت سوں نے اپنے شوق سے۔ اس میں لاہور کی مال روڈ پر ایک خوش پوش شخص شام کو مٹرگشت کرتا ہے۔ اس نے دیدہ زیب اوورکوٹ پہنا ہوا ہے ۔ گلے میں سکارف باندھا ہوا ہے۔ پالش کیے ہوئے جوتے پہنے ہوئے ہیں۔ وہ اپر کلاس کا فرد لگتا ہے۔ لیکن اس کی موت کے بعد راز کھلتا ہے کہ اس کے اوور کوٹ کے نیچے قمیض ہی نہیں تھی اورجیب سے فقط چند سکے نکلتے ہیں یا وہ اشتہار جو مارکیٹنگ کرنے والے اسے تھماتے رہے۔ 
ظفر اقبال نے اس پوری صورت حال کو ایک شعر میں بیان کردیا ہے   ؎
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر ظفرؔ
سوراخ اسی قدر ہیں پرانی جراب میں 
رمضان کے اس مہینے پر ہم پاکستانی اپنے طرز عمل پر غور کریں تو ہمارا حال وہی ہے جو اوورکوٹ میں ملبوس بظاہر خوش پوش شخص کا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ اوورکوٹ کے نیچے ہم نے ایک پھٹی پرانی بدبودار بنیان پہن رکھی ہے۔ ہمارے جوتے پالش سے چمک رہے ہیں لیکن جرابوں کی ایڑیاں پھٹی ہوئی ہیں‘ پنجوں میں سوراخ ہیں اور جرابیں پائوں سے اتار کر رکھیں تو ماحول تعفن سے بھر جائے۔ ٹوپی کے نیچے بال میل اور جوئوں سے اٹے ہوئے ہیں۔ بدن پر میل کی تہیں ہیں۔ ہم کثافت اور غلاظت کا گٹھڑ ہیں! 
ہم سحری کھاکر صبح کی نماز ادا کرتے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ تراویح ادا کرتے ہیں۔ تسبیحات پڑھتے ہیں۔ دیگیں پکاکر کھانے تقسیم کرتے ہیں۔ ہم میں ایک کثیر تعداد ایسے خوش قسمت لوگوں کی ہے جو متشرع شکلیں رکھتے ہیں۔ شلواریں ٹخنوں سے اونچی ہیں۔ خواتین بڑی تعداد میں حجاب اور سکارف اوڑھتی ہیں۔ ہم مسجدوں اور مدرسوں میں چندے دیتے ہیں۔ نمازنہ پڑھنے والوں اور روزہ نہ رکھنے والوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ان پر نفرین بھیجتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم اس قبیل کے نہیں ہیں۔ 
لیکن ہماری ساری دینداری یہیں تک ہے۔ مذہب ہمارے حلق سے باہر باہر ہے‘ اندر نہیں اترا۔ اندر کیا ہے ؟ تعفن ، بدبو، چیتھڑے اور میل کی تہیں !المیے کی انتہا یہ ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم پرلے درجے کے منافق ہیں !
ہم میں وہ ساری برائیاں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں جنہیں رذائل کا نام دیا جاتا ہے۔ افسوس ! یہ رذائل رمضان میں زیادہ تو ہوجاتے ہیں، کم نہیں ہوتے۔ پاکستان جھوٹ بولنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔ ہم وعدہ خلافی کے بادشاہ ہیں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر، خدا کو حاضروناظر جان کر، قرآن پاک کی قسم کھاکر، اپنے آپ سے پوچھیے کہ کیا پاکستان میں جھوٹ اور وعدہ خلافی کو برا سمجھا جاتا ہے ؟ نہیں، بالکل نہیں ! جوشخص آپ سے طے کرتا ہے کہ شام پانچ بجے آپ کے پاس پہنچ جائے گا یا مطلوبہ شے پہنچا دے گا، وہ وعدہ پورا نہیں کرتا اور اسے اس کا افسوس بھی نہیں ہوتا۔ آپ اس سے خودرابطہ کرتے ہیں تو وہ نہ آنے یا پہنچانے کاسبب تک نہیں بتاتا۔ معافی مانگنی تو دور کی بات ہے وہ دھڑلے سے ایک اور وعدہ کردیتا ہے کہ بس جی ، آج شام آئوں گا یا شے پہنچا دوں گا۔
جس مقدس ہستی ؐ کے عشق کا ہم رات دن اٹھتے بیٹھتے دعویٰ کرتے ہیں‘ اس نے فرمایا تھا کہ: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور امین بنایا جائے تو خیانت کرتا ہے۔ ہم پر ان تینوں نشانیوں کا مکمل اطلاق ہوتا ہے۔ رمضان میں قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں اور بڑھانے والے سارے روزہ دار اور نمازی ہیں۔ ملاوٹ اسی طرح جاری رہتی ہے ۔ لوگوں کے پیٹ میں ملاوٹ شدہ زہریلی غذائیں جارہی ہیں۔ دوائیں جعلی ہیں، معصوم بچوں کا دودھ ناخالص ہے اور مسجدیں بھری ہوئی ہیں۔ سحری کے وقت باورچی خانوں اور کمروں کے چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔ 
پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مذہب کو روپیہ کمانے کے لیے خوب خوب استعمال کیا جاتا ہے اور بے شرمی کی حدتک کیا جاتا ہے، دین فروش نام نہاد ملااور پیروں فقیروں کو چھوڑیے معاملہ اس سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔مذہب کو جس طرح روپیہ کمانے اور ریٹنگ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، اس پر عالم بالا میں فرشتے حالت اضطراب میں ہیں، پر پھڑ پھڑا رہے ہیں جیسے بس حکم کی دیر ہے اور وہ بستیوں کی بستیاں الٹ دیں گے۔ سرشام دکانیں کھل جاتی ہیں مرزا ظاہرداربیگ آکر کائونٹر سنبھال لیتے ہیں۔ صداکار اور اداکار اسلام کے علم بردار بن جاتے ہیں کیمروں
 کی تیز روشنیوں میں روروکردعائیں مانگی جاتی ہیں اور جسم تھر کا تھرکا کر ، اور ہاتھ نچا نچا کر (نعوذباللہ ) حمدونعت پڑھی جاتی ہیں۔ بہروپ بدل گئے لیکن اداکار وہی ہیں پہلے بھی شوبزنس تھا اور معاوضوں کے انبار تھے۔ اب بھی شو بزنس ہے اور معاوضوں کے انبار ہیں۔ فقط یہ ہے کہ پہلے وضع قطع ماڈرن تھی اور ملبوس مغربی تھا۔ اب وضع قطع راہبانہ ہے اور لبادہ مذہبی ہے۔ مذاق یہ ہے کہ جس گروہ کے واعظوں نے سینکڑوں گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹ تڑوائے اور ہزاروں بکوائے اسی گروہ کے علم بردار ٹیلی ویژن سکرین پر رات دن قابض ہیں   ؎
تمہاری زلف میں آئی تو حسن کہلائی 
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی 
یوں لگتا ہے کہ دنیا میں نفاق ہی ہمارا نشان امتیاز ہے۔ حکمران بھی اس نسبت سے میسر آئے ہیں۔ پنجاب کا شہزادہ سستا بازار دیکھنے آتا ہے تو ہیلی کاپٹر سے اتر کر دودرجن گاڑیوں کے جلومیں جلوہ افروز ہوتا ہے‘ سابق وزیراعظم کہتا ہے مجھے زندگی کے آخری سانس تک استثنا حاصل ہے اور کسی جرم کی سزا دی جاسکتی ہے نہ بازپرس ہوسکتی ہے۔ پچاس پچاس افراد ہر روز موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں اور حکمران اپنی نقل وحرکت کے لیے شاہراہوں پر ٹریفک رکوارہے ہیں۔ اتحاد ایمان اور تنظیم کا تو بس نام ہے اصل اصول نفاق ہے ۔

Sunday, July 28, 2013

پروفیسر غلام اعظم

میں نے پروفیسر غلام اعظم کو صرف ایک بار تقریر کرتے سنا۔ اُن دنوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبۂ اقتصادیات کا طالب علم تھا۔ اگست 1969ء میں ڈھاکہ کے ناظمِ جمعیت عبدالملک کو شہید کر دیا گیا۔ تعزیتی جلسہ میں پروفیسر صاحب نے جذباتی اور طوفانی تقریر کی۔ ملاقات ایک آدھ بار ہی ہوئی۔ کھلی پیشانی‘ چمکتی آنکھیں‘ چہرے پر حد درجہ جاذبیت‘ آواز میں نرمی اور مٹھاس‘ مقناطیسی شخصیت۔ حسینہ واجد کی حکومت کی نام نہاد جنگی جرائم کی عدالت نے نوے سالہ پروفیسر غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا دی ہے۔ گویا اگر وہ مزید نوے سال زندہ رہیں تو زنداں ہی میں رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک غیر انسانی وحشیانہ سزا ہے۔ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
1948ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان ڈھاکہ گئے تو غلام اعظم اس وقت ڈھاکہ یونیورسٹی سنٹرل سٹوڈنٹس یونین کے سیکرٹری جنرل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر مشرقی پاکستانی کا دل اس بات پر مجروح تھا کہ صرف اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے کی یادداشت وزیراعظم کی خدمت میں غلام اعظم ہی نے پیش کی۔ فروری 1956ء میں جب مولانا مودودی ڈھاکہ گئے تو انہوں نے بھی بنگلہ کو قومی زبان بنانے کی حمایت کی۔ بدقسمتی سے جب لسانی تحریک سیکولر رنگ اختیار کر گئی تو جماعت اسلامی مشرقی پاکستان نے تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اسلام پسندوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ بنگلہ زبان کی تحریک میں سو فی صد مشرقی پاکستانی شریک تھے۔ جماعت تحریک سے الگ ہوئی تو اسلام پسندوں کے لیے ایک ہی راستہ رہ گیا کہ وہ عام لسانی تحریک میں شامل ہو جائیں۔ یہیں سے جماعت اسلامی میں ایک عجیب و غریب رجحان کا آغاز ہوا۔ یہ رجحان عوامی جذبات و احساسات کو خاطر میں نہ لانے کا تھا۔ جماعت Main Stream سے کٹ گئی اور آج تک کٹی ہوئی ہے۔ اس کی مثالیں ہم آگے پیش کریں گے۔
پروفیسر غلام اعظم کا تعلق جماعت کی اُس سطح سے تھا جس پر ابوالاعلیٰ مودودی اور امین احسن اصلاحی جیسے زعما فائز تھے۔ دیانت‘ متانت‘ ذہنی گہرائی اور تدبر بعد کے جماعتی رہنمائوں میں اُس درجے کا عنقا ہو گیا۔ یہ ایک کلاس تھی جو ختم ہو گئی۔ ضیاء الحق کے عہد میں مشرقی پاکستان ساتھ ہوتا تو پروفیسر غلام اعظم جماعت کو فوجی آمریت کی بی ٹیم کبھی نہ بننے دیتے۔ لیکن اگر مشرقی پاکستان ساتھ ہوتا تو کیا ابو الاعلیٰ مودودی کے بعد‘ غلام اعظم جیسا شخص ’’نئی‘‘ جماعت اسلامی کے لیے قابلِ قبول ہوتا؟ غالباً نہیں! وہ اُن خصوصیات اور کمالات سے عاری تھے جو بعد میں جماعت کے زعما کا طرۂ امتیاز بن گئے۔  پروفیسر غلام اٰعظم پراپرٹی ڈیلینگ کرتے  نہ مشکوک ہائوسنگ سوسائٹیوں کی دلدل میں گھستے۔ نہ کسی کشمیر کمیٹی کے فنڈ میں الجھتے نہ اپنے بچوں کو جماعت کے خرچ پر پوری دنیا کی سیر کرتے۔ اپنی کسی صاحبزادی کو  پالیمنٹ کا رکن تو وہ ہر گز نہ بننے دیتے۔ یہ وہ لوگ تھے جو دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے اُس کا اطلاق اپنی ذات اور اپنے خاندان پر کرتے تھے۔ سورۃ احزاب کی آیت  پر نمبر 33 کی تفسیر میں مولانا مودودی نے لکھا ہے
… ’’قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں‘ بیرونِ خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں…‘‘
 جماعت کو چاہیے کہ اب مولانا مرحوم کی تصانیف کے ’’ترمیمی‘‘ ایڈیشن شائع کرے!
مشرقی پاکستان کے آخری ایام میں پروفیسر غلام اعظم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔ جناب مجیب الرحمن شامی نے درست کہا ہے کہ آبادی کا ایک حصہ بھارتی فوج کے ساتھ مل گیا تھا تو ایک حصہ پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر وطن کا دفاع کر رہا تھا۔ دفاع کرنے والوں کو اس کا حق حاصل تھا۔ دونوں حصوں میں سے بہرطور ایک نے ہارنا تھا اور ایک نے جیتنا تھا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ جو مشرقی پاکستانی پاکستانی فوج کے ساتھ تھے وہ ہار گئے۔ یہ سوال بھی دلچسپ ہے کہ اگر وہ جیت جاتے تو کیا بھارتی فوج کے ساتھ مل جانے والوں کو معاف کر دیتے؟ بالکل نہیں۔ یہ وہی اورنگ زیب عالم گیر والی صورت حال تھی۔ وہ بھائیوں کو نہ مارتا تو بھائی اُسے مار دیتے۔
بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔ اب یہ ایک زمینی حقیقت تھی۔ حقیقت پسندی کا تقاضا یہ تھا کہ پروفیسر غلام اعظم حقیقت کو قبول کر لیتے اور نئے ملک میں اسلام کے لیے نئی لگن اور نئے پروگرام کے ساتھ کام شروع کر دیتے۔ جذبات کی رَو میں وہ اس امر کا ادراک نہ کر سکے کہ تاریخ کا پہیہ اُلٹا نہیں چلتا۔ ان کے سامنے مصر اور شام کی کنفیڈریشن ٹوٹی تھی اور لسانی وحدت کے باوجود دوبارہ نہ بن سکی۔ یہاں تو درمیان میں دشمن ملک حائل ہونے کے علاوہ باہمی تلخیاں بھی ناقابلِ فراموش تھیں اور سب سے بڑی الم ناک حقیقت یہ تھی کہ وفاقِ پاکستان کو اپنی غلطیوں اور زیادتیوں کا ذرّہ بھر احساس نہ تھا۔
پروفیسر صاحب نے تاریخ کے پہیے کو اُلٹا گھمانے کی کوشش شروع کردی۔ انہوں نے ’’پوربو پاکستانی پونو ردھار کمیٹی‘‘ (کمیٹی برائے احیائِ مشرقی پاکستان) قائم کی‘ پھر اس کمیٹی کو وہ لندن لے گئے۔ مانچسٹر اور لیسٹر میں کانفرنسیں منعقد کر کے انہوں نے بنگلہ دیش کے انہدام کے لیے کوششیں کیں۔ 1972ء میں ریاض میں انٹرنیشنل یوتھ کانفرنس کے اجلاس میں انہوں نے دنیائے اسلام سے اپیل کی کہ وہ مشرقی پاکستان کو ازسرِ نو زندہ کرے۔ 1973ء اور 1976ء کے درمیانی عرصے میں انہوں نے سعودی بادشاہ سے سات مرتبہ ملاقات کی اور اسے بنگلہ دیش تسلیم نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ رابطہ عالم اسلامی کے 1974ء کے اجلاس منعقدہ بمقام مکہ مکرمہ اور دنیائے اسلام کے وزرائے خارجہ کے 1973ء کے اجلاس منعقدہ بمقام بن غازی میں بھی انہوں نے اسی مقصد کے لیے کام کیا۔
کاش! یہ کوششیں کامیاب ہو جاتیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ الٹا ان کوششوں کو بنگلہ دیش حکومت نے حالیہ مقدمے میں ان کے خلاف مقدمے کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔ پروفیسر صاحب اس بات کا ادراک نہ کر سکے کہ عرب دنیا نے غیر عرب مسلمانوں کی سیاسی میدان میں کبھی کوئی مدد نہیں کی۔ فلسطین کی تنظیموں اور اُس خطے کے ملکوں کا رویہ کشمیر کے حوالے سے سب کے سامنے ہے۔ برما میں حالیہ مسلم کُشی کے خلاف کسی عرب ملک نے آواز نہیں اٹھائی۔ کاش پروفیسر صاحب حالات کا درست اندازہ لگاتے اور اپنی جدوجہد کو بنگلہ دیش کے فریم ورک کے اندر فِٹ کرتے!
پاکستان میں ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ تحریک بھی ایک جذباتی اور غیر حقیقی اقدام تھا جس کا ناکام ہونا صاف نظر آ رہا تھا۔ اس سے پہلے برصغیر میں تحریک خلافت بھی دہی کو دوبارہ دودھ میں تبدیل کرنے کی کوشش تھی۔ اس کا ادراک قائداعظم نے کر لیا تھا۔ وہ اس کھیل سے دور رہے۔
مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی سے یہ غلطی بھی ہوئی کہ اُس نے معاشی حقائق سے مکمل چشم پوشی کی اور مشرقی حصے کی اقتصادی محرومیوں کو درخورِ اعتنا گردانا۔ اقتصادی حقوق کے حصول کا پرچم پروفیسر غلام اعظم اٹھا لیتے تو مجیب الرحمن کے غبارے سے ہوا نکل جاتی۔ لیکن جماعت اسلامی مغربی پاکستان کی ہو یا مشرقی پاکستان کی‘ سعدی کی اس نصیحت سے ہمیشہ غافل ہی رہی   ؎
شب چُوں عقدِ نماز می بندم
چہ خورد با مداد فرزندم
رات کو نماز کی نیت باندھتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں کہ صبح بیٹا کیا کھائے گا؟
جماعت ہمیشہ عوامی احساسات سے بے نیاز رہی۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جماعت نے مکمل کوتاہ نظری سے کام لیا اور آمریت کا ساتھ دیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کا کوئی ایک مضمون بھی پاکستانی عوام کے مسائل اور مصائب کے بارے میں نہیں ملتا۔ ہاں افغانستان اور ترکی کے بارے میں انہوں نے خوب خوب لکھا۔ جماعت کی موجودہ قیادت بھی اس موجِ خوں سے مکمل بے نیاز ہے جو پاکستانی عوام کے سروں کے اوپر سے گزر رہی ہے۔ فوج بے پناہ قربانیاں دے رہی ہے۔ دہشت گرد عوام کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں لیکن جماعت کی قیادت نے آج تک غیر مشروط مذمت نہیں کی۔ انگریزوں نے خوب محاورہ ایجاد کیا ہے۔ سنگل ٹریک۔ سنگل ٹریک کے ساتھ ہر دھماکے کو بلیک واٹر کے نام لگانا اور برما اور مصر کے مسلمانوں کے لیے پریشان ہونا! ہنسی بھی آتی ہے اور  سیاسی "" بصیرت "" پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ جو کچھ وطن کے اندر‘ عین آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اُس کی مطلق پروا نہیں۔ لوک گیت بھی حکمت سے بھرپور ہوتے تھے  ؎
چو گُٹھی دو آنی آ
شملے دو رکھداں بابا! گھر بھُکّی زنانی آ
پش نوشت: تادمِ تحریر کوئی ایسی خبر نہیں ملی کہ جماعت اسلامی پاکستان نے پروفیسر غلام اعظم کی سزا کے خلاف کوئی احتجاجی یادداشت بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کو پیش کی ہو۔


Friday, July 26, 2013

کئی نوری سال

چودھری بیمار ہوگیا تو میراثی کے بچے نے ماں سے پوچھا کہ بیمار چودھری جانبر نہ ہوا تو اگلا چودھری کون ہوگا۔ ماں نے بتایا کہ اس کا بیٹا۔ بچے نے پوچھا، وہ بھی مر گیا تو پھر؟ ماں نے کہا پھر اس کا بیٹا۔ پرامید بچے نے پوچھا وہ بھی مر گیا تو… میراثن نے کہا کہ سارا گائوں بھی مر جائے تو تم کبھی چودھری نہیں بن سکتے۔ 1947ء سے لے کر اب تک پاکستانی عوام اس آس پر بیٹھے ہیں کہ ایک دن وہ بھی پاکستان کے حکمران بنیں گے‘ لیکن لگتا ہے پاکستان کے سارے سردار اور نواب بھی رخصت ہوجائیں تو عوام کی باری پھر بھی نہیں آئے گی۔ پریکٹس کے لیے برطانیہ سے حکمران منگوانے شروع کیے جا چکے ہیں۔
جنگل کی سب سے چست مخلوق جنگل کی بادشاہ بن گئی۔ کئی دن گزر گئے اس نے نظام مملکت میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ ایک دن سب جانور اکٹھے ہو کر اس کے حضور گئے۔ بادشاہ سلامت درخت کی ایک شاخ پر بیٹھے تھے۔ وفد کو دیکھا تو کود کر ساتھ والے درخت کی ٹہنی پر جا بیٹھے۔ وہاں سے چھلانگ لگائی تو واپس پہلے درخت کی کسی اور ٹہنی پر براجمان ہوگئے۔ وفد نے مطالبات پیش کیے تو فرمانے لگے، ان مسائل کو چھوڑیے، آپ حضرات میری آنیاں جانیاں تو دیکھیے۔ مسلم لیگ نون عوام میں کس قدر دلچسپی لے رہی ہے؟ اس سوال کو چھوڑیے۔ اس کے پسندیدہ سیاست دان تو دیکھیے۔ سندھ میں اس وقت مسلم لیگ نون کے ’’بیس کمانڈر‘‘ جناب ممتاز بھٹو ہیں۔ ان کے مائنڈ سیٹ اور عوام دوستی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ وفاقِ پاکستان کو نحیف کرنے کے لیے جب بھی پریس میں مضمون لکھتے ہیں، نام کے ساتھ نواب لکھنا نہیں بھولتے۔ یہ اور بات ہے کہ سابقے لاحقے مسلم لیگ نون کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ جنوبی پنجاب کے ایک بزرگ سیاستدان جو مسلم لیگ نون کا ماضی میں اہم ستون رہے ہیں اور آج کل صرف ستون ہیں، میڈیا کے نمائندوں پر اس لیے غضب ناک ہوتے تھے کہ نام کے ساتھ ’’سردار‘‘ کیوں نہیں لگایا۔
نواب ممتاز بھٹو قومی یکجہتی پر اندھا یقین رکھتے ہیں۔ اس قدر کہ ستر کے عشرے میں کراچی میں بالخصوص اور سارے سندھ میں بالعموم لسانی فسادات انہی کے ہمایونی دور میں برپا ہوئے۔ سندھیوں اور غیر سندھیوں میں فرق ملحوظ رکھتے ہیں مگر سندھیوں کو بھی دو حصوں میں منقسم کرتے ہیں۔ طبقۂ بالا کے سندھی اور طبقۂ زیریں کے سندھی۔ کچھ عرصہ پہلے ہی ایک انتخابی حلقے کے ضمن میں فرمایا کہ یہ تو ہماری خاندانی نشست ہے۔ 1985ء میں لندن میں تھے تو ’’سندھی بلوچ پشتون فرنٹ‘‘ بنایا تاکہ سندھی بلوچ اور پشتون، سندھی بلوچ اور پشتون ہی رہیں۔ خدانخواستہ کہیں پاکستانی نہ بن جائیں۔ پھر 1989ء میں سندھ نیشنل فرنٹ (S.N.F) تشکیل دیا۔ اب بھی اس کے مدارالمہام ہیں۔ مسلم لیگ نون انہیں وفاقِ پاکستان کا صدر بنانا چاہتی تھی۔ کالم نگاروں نے وفاق سے ان کی ’’محبت‘‘ کی داستانیں عام کر دیں۔ بہر طور ’’ہنوز شب درمیان است‘‘ صدارت نہ سہی، تزک و احتشام والی کوئی اور مسند پیش کر دی جائے گی!
بلوچستان میں مسلم لیگ نون سردار ثناء اللہ زہری کے کاندھوں پر کھڑی ہے۔ یہ کاندھے کتنے مضبوط ہیں اس کا اندازہ شہزاد احمد کے ایک شعر سے لگایا جاسکتا ہے   ؎
وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی
لیکن اطمینان بخش امر یہ ہے کہ شاعر کے معشوق کی طرح مسلم لیگ نون کو بھی کاندھوں کی ’’مضبوطی‘‘ کا کوئی ادراک نہیں۔ اگر دامن میں کوئی نظریہ نہ ہو، دور کی بینائی ضعیف ہو، وژن کے ہجے تک نہ آتے ہوں تو پھر ہم رکاب بھی ایک سے ایک بڑھ کر ہوتا ہے۔ کہیں کوئی مشرف کا تربیت یافتہ اور کہیں کوئی مسلم لیگ قاف کے قافلے سے بچھڑا ہوا مسافر! جیسے ہمارے ریستورانوں میں قیمے اور آملیٹ کے اجزا ’’صاف ستھرے‘‘ ہوتے ہیں! سردار زہری صاحب کے پچیس محافظ ہیں اور وہ ان تمام محافظوں اور ان کے اسلحہ سمیت صوبائی اسمبلی کو زینت بخشنا چاہتے تھے۔ پولیس نے مزاحمت کی تو مڈل کلاس وزیراعلیٰ نے سردار صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پولیس کے افسر اعلیٰ ہی کو معطل کر دیا۔ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد (غالباً) 39 ہے۔ اگر ہر رکن پچیس مسلح محافظ ہمراہ لائے تو محافظوں کی کل تعداد پچیس کم ایک ہزار بنتی ہے! امن و امان کی حالت تو کراچی سے لاہور، پشاور اور اسلام آباد تک یکساں ابتر ہے تو پھر ہر اسمبلی کا ہر رکن اتنے ہی گارڈ کیوں نہ رکھے؟ فوجی جوان، سول افسر، عوام ہر جگہ رات دن گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ سیاست دانوں نے اس صورتحال کا بہترین حل یہ نکالا ہے کہ درجنوں محافظ رکھ لیے ہیں۔ رہا ملک تو وہ جلتا رہے، پگھلتا رہے!
اور یہ جو گورنر پنجاب کے پرکشش منصب کے لیے وائسرائے صاحب سمندر پار سے منگوائے جارہے ہیں تو صدر آصف زرداری خوب ہنستے ہوں گے اور لنگوٹیے یاروں کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوں گے۔ پانچ سال ان پر طعن و تشنیع کے تیر چلائے جاتے رہے کہ جیل کے ساتھیوں کو نوازتے رہے لیکن ز مانے کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ہر حکمران اپنا ڈاکٹر سومرو اور اپنا ڈاکٹر عاصم ساتھ لے کر آتا ہے خواہ دساورہی سے کیوں نہ لانا پڑے۔ جن لوگوں نے جدہ اور لندن میں دلجوئیاں کیں اور دامے درمے سخنے دستگیری کرتے رہے، اب ان کے احسانات چکانے کا وقت آگیا ہے۔ خدا ہمیشہ آباد رکھے پاکستان کے سرکاری خزانے کو، آخر اور کس دن کام آئے گا!
ویسے پاکستانی تارکین وطن کی نفسیات عجیب و غریب ہے۔ ہجرت کرکے جن ملکوں میں آباد ہوئے ہیں، وہاں کے جمہوری نظام سے خوب خوب فائدے اٹھاتے ہیں۔ لیکن ’’بیک ہوم‘‘ اس جمہوریت کو قائم کرنے میں ذرا دلچسپی نہیں لیتے بلکہ آمرانہ سیاسی جماعتوں کے دم چھلے بنے رہتے ہیں۔ چودھری محمد سرور صاحب ہی کو لیجیے، ساری زندگی برطانیہ میں سیاست کرتے رہے۔ لیبر پارٹی سے تعلق رہا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ کیا لیبر پارٹی میں وہی کچھ ہوتا ہے جو مسلم لیگ نون میں ہوتا ہے؟ آخر وہ میاں صاحب کو کیوں نہیں قائل کرتے کہ پارٹی کے اندر اسی طرح انتخابات ہونے چاہئیں جیسے برطانیہ کی سیاسی پارٹیوں میں ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے تارکین وطن ’’جہاں جیسا بھی ہے‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ ملک کے باہر جمہوریت کی گائے دوہیں گے اور ملک کے اندر شخصی سیاست سے کچھ حاصل ہوجائے تو وہ بھی برا نہیں! پاکستانی عوام کی حکمرانی ابھی دور ہے۔ بہت دور۔ مصطفی زیدی نے کہا تھا   ؎
ابھی تاروں سے کھیلو چاند کی کرنوں سے اِٹھلائو
ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ
کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ عوام کی حکمرانی کئی نوری سال دور ہے۔ سردار، نواب، چودھری، خان، مخدوم، چھائے ہوئے ہیں۔ ہر حکمران ان کا محتاج ہے۔ یہ نام نہاد حکمران آتے ہیں، چلے جاتے ہیں لیکن سرداروں، نوابوں، چودھریوں، خانوں، مخدوموں کی حکومت ہمیشہ رہتی ہے اور لگتا ہے ہمیشہ رہے گی۔

Tuesday, July 23, 2013

ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا

جب قہقہے بکھیرنے والے بھی رونے رُلانے پر آجائیں تو سمجھیں کہ آخری حد آن پہنچی ہے۔ یوں بھی بتایا جارہا ہے کہ پاکستانی نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں۔ پہروں سی این جی سٹیشنوں پر انتظار کرنا، کبھی یوپی ایس کی بیٹریوں کو تلاش کرنا، کبھی جنریٹروں کی قیمتیں معلوم کرنا ، ہرآنے والے مہینے زیادہ سے زیادہ مہنگی ہوتی اشیائے روزمرہ سے گتکا کھیلنا کہ کون سی لی جائے اور کس کے بغیر گزارہ کرنا سیکھا جائے اور کون سی کتنی لی جائے۔ گھروں میں مالی معاملات پر جھگڑے ،بیوی بچوں کے اخراجات اور مطالبات۔ نتیجہ خودکشی یا چڑچڑے پن کی شکل میں۔ رہی سہی کسر اس خوف نے پوری کردی ہے کہ گاڑی یا موٹرسائیکل نہ چوری ہوجائے، بھتے کی پرچی نہ ملنی شروع ہوجائے اور خاندان کے کسی فرد کو اغوا کرنے والے نہ لے جائیں۔ 
ظریفانہ شاعری کے بادشاہ خالد مسعود نے، جسے اس کی افتاد طبع نے پژمردہ چہروں پر مسکراہٹیں چھڑکنے کے کام پر لگایا ہوا ہے، اب لوگوں کو ڈرانے پر مامور نظرآتا ہے۔ خالد نے لکھا ہے کہ ملتان  جیسے شہر میں بھی (جواس کے بقول بہت بڑا شہر نہیں ہے ) بھتہ خوری عام ہوگئی ہے۔ ’’لازمی‘‘ چندے کے نام پر بھتے کی پرچیاں تقسیم ہورہی ہیں۔ تاجروں کی سٹی گم ہورہی ہے کہ ابھی تو اتنی رقم کا مطالبہ ہے جودی جاسکتی ہے، کل کو ظاہر ہے یہ رقم پھولتے غبارے کی طرح زیادہ ہوجائے گی اور پھر استطاعت سے باہر چلی جائے گی۔ لیکن بزنس کمیونٹی کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ رقم نہیں ہے، اصل مسئلہ وہ 
عزتِ نفس ہے جو ہربار ذبح ہوتی ہے اور ملک کے آزاد شہریوں کی گردنوں میں رسیاں ڈالی جارہی ہیں۔ ان رسیوں کے دوسرے سرے کن پراسرار ہاتھوں میں ہیں ؟ یہ بات پولیس کو معلوم ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو معلوم ہے۔ اگر پولیس حکومت نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ پھر تاجر ہی حکومت ہوں گے۔ یعنی حکومت اپنی جان بچانے کے لیے بھتے دیتی پھر رہی ہے، لیکن خالد مسعود نے ایک بات ایسی لکھ دی ہے کہ اگر پنجاب میں حکومت نام کی کوئی جنس ہوتی تو چلوبھر پانی ڈھونڈنے کے لیے راوی کا رخ کرچکی ہوتی۔ خالد نے لکھا ہے کہ ایک طرف تو پشتون برادری پنجاب کے طول وعرض اور اطراف واکناف میں کاروبار کررہی ہے، شہرتو شہر پنجاب کا کوئی قصبہ کوئی گائوں ایسا نہیں جہاں یہ برادری موجود نہ ہو، دوسری طرف اسی پشتون برادری کے بھائی پنجابیوں کو دھڑا دھڑ اغواکرکے وزیرستان کی ’’آزاد‘‘ سرزمین میں لے جارہے ہیں، سینکڑوں کے حساب سے گاڑیاں چُراکر اسی دیار جہاد میں جارہی ہیں، اغوا شدہ لوگوں کے اعزہ واقارب وزیرستان یا دوسرے قبائلی علاقوں ہی کا رخ کرتے ہیں۔ کاروں کے مالکان بھی وہیں طلب کیے جاتے ہیں۔ نمازیں ادا کرنے کے بعد اسلام کے سپوت، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی کے غلام نہیں رہے اور ہمیشہ ’’آزاد‘‘ رہے ہیں، مغویوں کے
اور کاروں کے ’’سودے ‘‘ طے کرتے ہیں۔ کروڑوں روپے پنجاب سے ’’آزاد‘‘ علاقوں میں ٹرانسفر ہوتے ہیں ،یوں خوش قسمت مغوی زندہ واپس آتے ہیں اور گاڑیاں مالکان کے ’’حوالے ‘‘ کی جاتی ہیں، لیکن سب مغوی خوش قسمت ہوتے ہیں نہ سارے کاروں کے مالکان۔ 
ایک زمانہ تھا کہ ہم پنجابیوں کی شہرت اور تھی ۔ غالباً میردردؔ نے کہا تھا   ؎
چھڑا جو قصہ کہیں رات ہیر رانجھے کا 
ہم اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا 
لیکن اب ہم پنجابی خود لوٹے جارہے ہیں ۔یوں بھی ہم پنجابی ہمیشہ سے صلح جُو اور امن پسند رہے ہیں۔ گن کر دیکھ لیجیے، درہ خیبر سے جو حملہ آور آیا، پنجاب سے اس طرح محفوظ گزرا جیسے بتیس دانتوں میں زبان محفوظ ہوتی ہے۔ پانی پت سے پہلے کبھی کوئی روک ٹوک نہ ہوئی بلکہ ہم پنجابی ’’مہمان نوازی‘‘ کے صدقے حملہ آوروں کے ہم رکاب ہوجاتے تھے۔ یہ صلح جوئی اور امن پسندی اب بھی اسی طرح جاری ہے۔ پنجاب کے دریا خشک ہو گئے لیکن ’’برداشت‘‘ اور ’’وسیع القلبی‘‘ کے چشمے اسی طرح فیض ابل رہے ہیں۔ ایک طرف اہل پنجاب نے اپنے بازاروں ،منڈیوں ،مارکیٹوں کے دروازے اپنے ان بھائیوں کے لیے کھول دیئے ہیں جو اٹک پار سے جوق درجوق ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں آرہے ہیں، آکر ہنسی خوشی آباد ہورہے ہیں اور کامیاب کاروبار کررہے ہیں، دوسری طرف ہم اہل پنجاب نے اپنے پیاروں کو اغوا کے لیے حاضر کردیا ہے ،تیسری طرف مانگ تانگ کر، برادری سے چندے کرکے، لاکھوں کروڑوں روپے تھیلوں میں ڈال کر قبائلی علاقوں میں خود بہ نفس نفیس حاضر ہوکر نذرانوں کی صورت میں نمازی پختون بھائیوں کو دے رہے ہیں تاکہ ان کے بچوں کی ’’محنت‘‘ٹھکانے لگے اور اغوا شدہ انسانوں اور چوری شدہ گاڑیوں کے مناسب دام انہیں ملتے رہیں۔ اس سارے کھکھیڑمیں اگر آپ پنجاب حکومت کو تلاش کررہے ہیں تو آپ احمق ہیں یا سادہ دل۔ پنجاب حکومت میٹروبس چلانے کی فکر میں ہے۔  چین کا دورہ ہویا آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کی زیارت ، چھوٹے میاں صاحب بڑے میاں صاحب کے پہلو ہی میں پائے جاتے ہیں، شعرا تو غم دوراں سے نمٹنے کے لیے چند لمحے غم جاناں سے بھی چرا لیتے تھے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا   ؎
تو ذرا چند گھڑی پار افق پرسستا 
میں ذرا دن سے نمٹ کر شب تار! آتا ہوں 
مگر بھائی بھائی سے ایک لمحہ بھی جدا نہیں ہوسکتا۔ کاش بڑے میاں صاحب کو بھائی کے ساتھ ساتھ کوئی دوست بھی مل جاتا۔ لیکن یہ قصہ بھی الطاف حسین حالیؔ تمام کرچکے ہیں   ؎
آرہی ہے چاہِ یوسف سے صدا 
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
بہرطور، یہ اب طے ہے کہ پنجاب حکومت کو بھتہ خوروں یا اغواکاروں سے کوئی دشمنی نہیں ہے، بلکہ جہاں تک بھتہ خوروں اور اغواکنندگان کا تعلق ہے، پنجاب حکومت کا وجود ہی کوئی نہیں۔ پنجاب حکومت رعایا کا معیار زندگی بلند کرنے کی فکر میں ہے۔ یعنی اس رعایا کا جو بھتہ خوروں اور اغواکنندگان سے بچ جائے گی۔ معیار زندگی بلند کرنے کے لیے میٹروبس اور بلٹ ٹرینیں چلائی جائیں گی۔ ہم اس ضمن میں یہ مشورہ دیں گے کہ بھتہ خوروں اور اغواکنندگان کو ان بسوں اور ٹرینوں میں رعایتی نرخوں پر ٹکٹ دیئے جائیں تاکہ پنجاب بھر میں ’’کاروبار‘‘ کرنا ان کے لیے مزید سہل ہوجائے۔ رہے پنجاب کے عوام تو وہ اپنی حفاظت کا بندوبست خود کریں۔ مثلاً جب تک اغوا کا سلسلہ بند نہیں ہوتا، اہل پنجاب حفظ ماتقدم کے لیے ان لوگوں کے کاروبار کا بائی کاٹ کردیں جن کے بھائی بند اغوا کے کام میں ملوث ہیں۔ 
پس نوشت: تازہ ترین اطلاع کے مطابق راولپنڈی کے مشہور نرنکاری بازار کے تاجروں کو ’’محبت نامے‘‘ موصول ہوچکے ہیں۔

Sunday, July 21, 2013

نہیں ‘ہم ناکام ریاست نہیں !

جو بدبخت کہتے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے‘ ہم نے ان کے منہ پر ایک اور تھپڑ مارا ہے۔ زناٹے دار تھپڑ! کیا یہ لوگ اندھے ہوگئے ہیں ؟ کیا تعصب ان کی آنکھوں میں موتیا بن کر اتررہا ہے ؟ ہم ان کو کتنے ثبوت دیں گے۔ اس ناقابل تردید حقیقت کے کہ ہم ناکام ریاست نہیں ہیں۔ ہم کامیاب ریاست ہیں۔ ہماری کامیابی کی کہکشائیں آسمانوں پر دمک رہی ہیں۔ 
آپ یہ نہ سمجھیے کہ ایک روز قبل جوکچھ بلوچستان میں ہوا ہے، کالم نگار اس کا ذکر کرنا چاہتا ہے۔ صوبائی وزیر اپنے ذاتی مسلح گارڈ بلوچستان اسمبلی کے اندر لے جانا چاہتا تھا۔ وہ صرف وزیر نہیں تھا‘ سردار بھی تھا۔ پولیس نے اجازت نہ دی۔ تلخ کلامی ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے انصاف کیا اور ایس پی کو معطل کردیا۔ ملک میں پڑھے لکھے لوگوں نے مسرت کے شادیانے بجائے تھے کہ پہلی بار مڈل کلاس کے ایک تعلیم یافتہ فرد کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے۔ مڈل کلاس کے عروج کا مزہ اہل وطن کراچی میں پہلے چکھ چکے ہیں اور مسلسل چکھ رہے ہیں۔ خیر‘ ایک مزہ اور سہی۔ یہ صوبائی وزیر مسلم لیگ نون کا بلوچستان میں ایک اہم ستون ہے۔ صوبے کا وزیر اعلیٰ مسلم لیگ نون کا مرہون احسان ہے ورنہ وزیراعلیٰ کیسے بنتا۔ ایس پی کی ماتحت پولیس نے قانون کی عملداری رائج کرنے کی کوشش کی۔ اسے سزا نہ دی جاتی تو مسلم لیگ نون کے ماتھے پر بل پڑجاتے اور یوں وزارت اعلیٰ کی کشتی بھنور میں پھنس سکتی تھی۔ یوں تو یہ واقعہ ایک روشن برہان ہے اس حقیقت کی کہ ہم ناکام ریاست نہیں ہیں لیکن جو واقعہ ثبوت کے طورپر کالم نگار پیش کرنا چاہتا ہے وہ اور ہے۔ 
یہ لوگ کسی دلیل کسی ثبوت کو نہیں مانتے ۔ ہم اس زمانے میں‘ جب بے وقوف ممالک انٹرنیٹ اور ڈی این اے کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں، اپنے ملک کو بہت صفائی کے ساتھ عہد حاضر سے نکال کر پتھر کے زمانے میں لے آئے ہیں۔ پھر بھی ہمیں ناکام قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے گھروں میں لالٹینیں ہیں۔ ہماری چھتوں پر ڈاکو ہیں۔ ہماری بسوں‘ ویگنوں اور ٹرکوں کی ڈرائیونگ سیٹوں پر قاتل بیٹھے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے ایسے حصے ہیں جہاں ہزاروں اغوا شدہ پاکستانیوں کو جانوروں کی طرح رکھا جاتا ہے اور چوری شدہ کاروں کے سودے کاروں کے اصل مالکان کے ساتھ نماز پڑھ کر کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مردوں‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور مریضوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے۔ جنازے پڑھنے والوں کو بارود سے اڑایا جاتا ہے۔ قبروں سے لاشیں نکال کر چوراہوں پر لٹکائی جاتی ہیں‘ یہ اور بات کہ ہمارے لیڈروں کی نزدیک کی نظریں کمزور ہیں‘ انہیں یہ سب 
کچھ نظر نہیں آتا۔ ہاں، دور کی نظریں عقابی ہیں۔ برما، فلسطین اور عراق کے ایک ایک شخص کا دکھ دکھائی دیتا ہے۔ ہر چوٹ ہم دل پر محسوس کرتے ہیں۔ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب ہم اپنی افرادی قوت مملکت شام کو بطور تحفہ بھیج رہے ہیں۔ ہم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ کسی پاسپورٹ کی ضرورت ہے نہ ویزے کی۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ مسلح ہوں اور جنگ جُو ہوں۔ یہ سب ثبوت ہماری کامیابی کے ہیں۔ افسوس ! پھر بھی ہمیں ناکام ریاست کہا جاتا ہے۔ 
لیکن اب ایسا ثبوت منظر عام پر آچکا ہے کہ ہم جو ایٹمی طاقت ہیں‘ ہمیں کامیاب تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ 
ایٹمی ملک کی تازہ ترین کامیابی کی خبر یہ ہے کہ دارالحکومت کے شہریوں کو پینے کے لیے غلیظ پانی مہیا کیا جارہا ہے۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے نے شہر کے مختلف مقامات پر 37فلٹریشن پلانٹ لگائے ہیں تاکہ پانی کو پینے کے قابل بنایا جاسکے ۔ ان میں سے گیارہ پلانٹ بند ہیں اور باقی چھبیس میں سے پچیس گندا پانی  سپلائی کررہے ہیں۔ صرف ایک پلانٹ ایسا پانی نکال رہا ہے جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہے۔ پارلیمنٹ ، پارلیمنٹ لاجز، وزیروں کی رہائشی کالونی اور ایوان صدر کے ملازموں کی کالونی میں لگے ہوئے تمام فلٹریشن پلانٹ گندا پانی مہیا کررہے ہیں۔ اس معاملے میں اسلامی مساوات واخوت کے سنہری اصولوں پر پوری طرح عمل کیا گیا ہے۔ جہاں ’’جی‘‘ اور ’’آئی‘‘ جیسے غریبانہ اور متوسط سیکٹروں کو گندا پانی دیا جارہا ہے وہاں ’’ایف سکس‘‘، ’’ایف ٹین‘‘، ’’آئی ایٹ تھری‘‘ اور ’’آئی ایٹ ٹو‘‘ جیسے امیر سیکٹروں کو بھی ویسا ہی پانی دیا جارہا ہے۔ پینے کے اس پانی میں جو بیکٹیریا پایا جاتا ہے وہ معمولی نہیں ہے اور انسان کی چھوٹی آنت میں نہیں بلکہ بڑی آنت میں پرورش پاتا ہے جس کا تعلق فضلے سے ہوتا ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان تمام فلٹریشن پلانٹوں پر شہریوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ پانی صاف کرنے کا کام ترقیاتی ادارے نے ٹھیکے پر آگے کسی اور کودیا ہوا ہے جس کی کارکردگی ترقیاتی ادارہ چیک کررہا ہے نہ کنٹرول۔ تاہم اطمینان بخش امر یہ ہے کہ ٹھیکے کی مدت ختم ہونے کے بعد اسی ٹھیکیدار کو مزید مدت کے لیے توسیع دی جارہی ہے تاکہ غلیظ پانی کی سپلائی تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔ ترقیاتی ادارے میں تقریباً گیارہ یا بارہ ہزار افراد کام کررہے ہیں جن میں افسروں کی تعداد غالباً ایک تہائی سے کم نہ ہوگی۔ ترقیاتی ادارے کے ان تمام افسروں اور کارکنوں کو ترجیحی بنیادوں پر گراں ترین سیکٹروں میں رہائشی پلاٹ دیے جاتے ہیں۔ غالباً ان تعمیری (یعنی مکانوں کی تعمیری ) سرگرمیوں کی وجہ سے ترقیاتی ادارہ پینے کے پانی جیسے ’’غیر ضروری‘‘ شعبوں پر توجہ نہیں دے پارہا۔ 
ہماری کل آبادی اٹھارہ کروڑ سے زیادہ ہے۔ دارالحکومت کی آبادی گیارہ بارہ لاکھ سے زیادہ نہیں۔ یہاں دوسرے ملکوں کے سفیر، وفاقی حکومت کے وزیر، پارلیمنٹ کے ارکان، بڑے بڑے افسر اور بین الاقوامی کمپنیوں کے ایگزیکٹو رہتے ہیں‘ اگر ہم چند لاکھ نفوس پر مشتمل ایک اہم شہر میں پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرسکتے تو دوسرے شہروں قصبوں اور بستیوں میں رہنے والے عوام کی حالت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ 
اس سے بڑھ کر اور کامیابی کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ان حالات میں بھی دنیا کو بار بار یاد دلاتے ہیں کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ اب بھی اگر کوئی کہے کہ ہم ناکام ریاست ہیں تو اس بدبخت کے لیے ہلاکت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔

Friday, July 19, 2013

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیہ

                                   وہ پانچ تھے، ایک ہی ملک سے تھے اور پانچوں پاکستانی تھے۔ پھر ان  میں سے ایک نے اپنی شملے والی پگ کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں پنجابی ہوں۔ دوسرے نے کالی لنگی سر پر باندھی اور بندوق گلے میں ڈال کر نعرہ لگایا میں پختون ہوں۔ تیسرے نے اجرک اوڑھی اور کہا میں سندھی ہوں، چوتھے نے کڑھی ہوئی واسکٹ پہن کرکہا میں بلوچی ہوں۔ پانچویں نے کہا، نہیں، ہم سب پاکستانی ہیں۔ چاروں نے اصرار کیا نہیں ہم  بلوچ ہیں، ہم سندھی ہیں ،ہم پختون ہیں ،ہم پنجابی ہیں تو پھر پانچویں نے کہا کہ ایسا ہے تو ایسا ہی سہی، پھر میں بھی مہاجر ہوں۔ 
الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے ۔کچھ لوگ اس پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ افسوس ! ان کی نظر دیوار کے پار دیکھنے سے قاصر ہے۔ کچھ لوگ الطاف حسین کو ایم کیوایم اور ایم کیوایم کو الطاف حسین کہہ رہے ہیں اور برطانوی پولیس کو طالبان کا ہم نواقرار دے رہے ہیں۔ افسوس! وہ بچوں جیسی بات کررہے ہیں یا دوسروں کو بچہ سمجھ رہے ہیں۔ افراط اور تفریط سے کوئی مسئلہ سلجھتا ہے نہ اس کی تفہیم ہوتی ہے۔ اگر ہرشخص تصویر کے صرف اس حصے کو مکمل تصویر سمجھے جو اسے نظر آرہا ہے تو وہ ہمیشہ گمراہ ہی رہے گا۔ نتائج دیکھ کر شور برپا کرنے والے اور اسباب پر غور نہ کرنے والے اس بدقسمت کسان کی طرح ہیں جس نے بھوسی سے غلہ الگ کیا۔ پھر غلے کو کھلیان ہی میں چھوڑ کر گھر گیا اور سوگیا۔ بارش نے اس کا غلہ برباد کردیا اور اب وہ روپیٹ رہا ہے لیکن یہ تسلیم نہیں کررہا کہ پیروں پر کلہاڑی کسی اور نے نہیں، اس نے خود ماری ہے۔ 
کوئی لیڈر ناگزیر نہیں ہوتا۔ قائداعظم چلے گئے ،بھٹو رخصت ہوگئے۔ الطاف حسین اس ابتلا سے بچ نکلے تب بھی ایک دن دنیا چھوڑجائیں گے۔ نواز شریف زرداری سب فانی ہیں۔ لیکن پاکستان کے عوام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصہ الطاف حسین کی قیادت تسلیم کرنے پر کیوں مجبور ہوا؟
جن لوگوں نے تقسیم کے وقت پیش گوئی کی تھی کہ پاکستانی قومیتوں میں بٹ جائیں گے، ہم نے روز اول ہی سے ان کی پیش گوئیاں کو درست ثابت کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ ہم پاکستانی بننے کے بجائے لسانی گروہوں میں منقسم ہوگئے۔ وہ لوگ جوسرحد پار سے ہجرت کرکے جنوب میں آباد ہوئے تھے، یہ تماشا دیکھتے رہے اور ایک مدت تک دیکھتے رہے۔ اگر ہم غورکریں تو شمالی ہندوستان سے آئے ہوئے پاکستانیوں میں اور مشرقی پاکستانیوں میں گہری مماثلت تھی۔ یہ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور وڈیرہ شاہی سے کوسوں دور۔ ہم آج تک یہ بات نہیں سمجھ پارہے کہ مغربی پاکستان کے سرداروں ،جاگیرداروں اور خانوں کے ساتھ مشرقی پاکستانی نباہ نہیں کرسکتے تھے، لیکن بچے کھچے پاکستان کے جنوبی علاقوں میں آکربسنے والے پاکستانی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی ہمارارنگ ڈھنگ دیکھتے رہے جو وہی کا وہی رہا۔ انہوں نے دیکھا کہ جولوگ اسمبلیوں میں آتے ہیں وہ اپنی سرداریوں ،زمینداریوں اور جاگیروں کے گھمنڈ میں رہتے ہیں۔ ان میں تعلیم ہے نہ متانت ۔ گہرائی ہے نہ سنجیدگی۔ یہ تو ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے۔ ساری دنیا نے یوٹیوب پر دیکھا۔ سردار سیاست دان کس طرح ایک خاتون سیاست دان کی توہین کررہے تھے اور ٹھٹھے مارمارکر ہنس رہے تھے۔ احاطہ تحریر میں لایا جاسکتا ہے نہ زبانی بتایا جاسکتا ہے۔ نقل کفر تو کفر نہیں ہوتی لیکن فحاشی کی نقل فحاشی ہی ہوتی ہے۔ اردو بولنے والوں کے توہین آمیز نام رکھے گئے۔ انہیں دانستہ یا نادانستہ باور کرایا جاتا رہا کہ میاں! تعلیم کی یہاں کوئی حیثیت نہیں، اس ملک میں اگر اہمیت ہے تو جاگیروں کی ہے، موروثی نشستوں کی ہے اور اسلحہ کی ہے۔ معاف کیجیے گا۔ اردو بولنے والے اگر اپنے آپ کو مہاجر نہ کہلواتے تو کیا قیامت تک مکڑ، تلیر اور مٹروے کہلواتے رہتے ؟ آج جو لوگ اعتراض کررہے ہیں کہ الطاف حسین نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ ٹیلی ویژن اور وی سی آر فروخت کرو اور بندوقیں کلاشنکوفیں خریدو، انہیں یہ یاد نہیں کہ اکبر بگتی اسلام آباد آتے تھے تو اڑھائی سو کلاشنکوف بردار محافظ ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ اور یہ گوارا تھا۔ اس پر کوئی معترض نہ تھا۔ اندرون سندھ سے وڈیرے کراچی جاتے تھے تو ان کی گاڑیوں کے ساتھ اور ان کے محلات پر ایسی ایسی ہیئت کذائی والے اسلحہ بردار ہوتے تھے کہ دیکھ کر وحشت ہوتی تھی۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے 
کہ ایک گروہ اپنے حقوق مانگتے وقت جارحیت پراترآتا ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اندرون سندھ سے ان امیدواروں کو گھروں سے بلابلا کر افسریاں پیش کی گئیں جو مقابلے کے امتحان میں فیل ہوچکے تھے۔ ہم انصاف نہیں کرتے ۔ ہم انصاف پسند ہوتے تو ایک گروہ پر نہیں، سب گروہوں پر یکساں اعتراض کرتے۔ اگر یہ نعرہ لگے کہ جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ، اگر مشرقی پنجاب سے آنے والے چیف منسٹروں سے آئے دن جپھیاں ڈالی جاتی رہیں، جو بستیاں چھوڑ کے آئے تھے، انہی کے نام پر یہاں پھر بستیاں بسالی جائیں، غلام مصطفی کھر اور اچکزئی صاحب چادریں ایک خاص سٹائل میں اوڑھتے رہیں۔ صوبے کا نام تبدیل کرکے ایبٹ آباد سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک کے لوگوں کواجنبیت کی دیوار کے اس پار دھکیل دیا جائے، بلوچستان میں زبانوں اور قومیتوں کی بنیاد پر درجنوں سیاسی جماعتیں وجود میں آجائیں، اگر اس سب کچھ پر اعتراض نہیں تو پھر ایک گروہ کے چوڑی دار پاجامے پہننے اور مہاجر کہلانے پر کس طرح اعتراض کیا جاسکتا ہے ؟ 
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ 
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے 
جودوست تمسخراڑاتے ہیں کہ الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطابوں کو سننے والے روبوٹ لگتے ہیں۔ وہ یہ بھی تو بتائیں کہ ان کے پاس متبادل کیا ہے ؟ کیا وہ سندھ کارڈ کھیلنے والی پیپلزپارٹی میں قبول کرلیے جائیں گے ؟ ایک بار پھر معاف فرمائیے گا، حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ گلے میں لٹکانے والے پنجاب میں تو آکسیجن بھی اس بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے کہ آرائیں کون ہے، کشمیری کون ہے ،جاٹ کون ہے، اس سانحہ کو ہم پی جاتے ہیں کہ چند ماہ پہلے پی این اے کے کارکنوں نے اسفند یارولی کو اردو بولنے کی اجازت نہیں دی اور اس نے منتیں کرکے انہیں سمجھایا کہ میڈیا کے نمائندوں کو پشتو نہیں آتی۔ آج اگر کراچی اور حیدر آباد کے عوام الطاف حسین جیسی سیماب صفت شخصیت کی قیادت قبول کرنے پر مجبور ہیں تو اس حدتک انہیں خود ہم لوگوں نے دھکیلا ہے۔ ہم پنجابی سندھی پٹھان بننے کے بجائے صرف پاکستانی رہتے تو وہ بھی مہاجر نہ بنتے۔ 
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیوایم سے ڈھیروں غلطیاں ہوئیں۔ الطاف حسین نے جب مہاجر کا لفظ اپنی جماعت سے ہٹایا تو چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ چھاپ لگ چکی تھی۔ اگر وہ پاکستان بھر کے پسے ہوئے طبقات کو ساتھ لے کر پہلے دن ہی سے وڈیرہ شاہی کے خلاف محاذ بناتے تو آج پورے ملک کی مڈل کلاس ان کے ساتھ ہوتی! 
  اب بھی وقت ہے کہ ایم کیوایم اپنے سارے انڈے الطاف حسین کی ٹوکری میں نہ رکھے اور زیادہ اہمیت اپنے عوام کو دے۔ اس الزام پر ہنسا ہی جاسکتا ہے کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ الطاف حسین کے خلاف سازش کررہی ہے۔ وہی سیاسی جماعتیں زندہ رہتی ہیں جو سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتی ہیں اور ایک مقام پر اٹک کر نہیں رہ جاتیں بلکہ رکاوٹ دورکرکے آگے بڑھتی ہیں۔ پیراہن کو خون میں ترکرکے لہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایم کیوایم مانے یا نہ مانے، اسے نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ !
                                    

Tuesday, July 16, 2013

وژن! جناب شہباز شریف! وژن [ دوسری قسط ]

                                       ’’وادی تیراہ سے طالبان کمانڈر منگل باغ کی قید سے فرار ہو کر وزیر آباد کا نوجوان گھر پہنچ گیا۔ سہیل منشا نے انکشاف کیا ہے کہ وادیٔ تیراہ کے سنگلاخ پہاڑوں میں اسلحہ، بم وغیرہ بنانے کی فیکٹری ہے جہاں 52 سے 70نوجوان کام کرتے ہیں اور فیکٹری میں تیار ہونے والا اسلحہ گدھوں پر لاد کر سرحد کے قریب گاڑیوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ وزیر آباد کے رہائشی سہیل منشا نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گوجرانوالہ طارق افتخار کی عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔‘‘ سہیل نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو بتایا کہ وہ 6فروری 2013ء کو گھر سے کتاب لینے کے لیے جارہا تھا کہ سفید پگڑیاں پہنے چار مولویوں نے اسے روک لیا اور اسے ایک شاپنگ بیگ پکڑ اکر اس کی گرہ کھولنے کو کہا۔ شاپنگ بیگ پر وی آئی پی لکھا ہوا تھا۔ جیسے ہی اس نے گرہ کھولی ا س میں موجود پائوڈر سے اسے کچھ ہوش نہ رہا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک نامعلوم جگہ پر تھا جہاں اس کا ہاتھ اور ٹانگ زنجیروں سے بندھی تھی۔ اسے بتایا گیا کہ وہ منگل باغ کا قیدی ہے۔ اسے وارننگ دی گئی کہ بولنے اور سوال کرنے والے کو جواب گولی کی شکل میں دیا جاتا ہے۔ پھر اسے پہاڑوں میں بنی ہوئی اسلحہ فیکٹری میں اسلحہ صاف اور پالش کرنے کے کام پر لگایا گیا جہاں بم بھی بنائے جاتے۔ پھر اس کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ بکریوں اور گدھوں کو اسلحہ والوں تک پہنچائے۔ ایک دن اس نے پہاڑی سلسلے میں ایک ٹرک کو کھڑے دیکھا۔ وہ ہمت کرکے اس تک پہنچا اور ٹرک کے ڈرائیور کنڈکٹر کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتایا تو کنڈکٹر نے مدد کرنے کی ہامی بھری جس پر ڈرائیور کی اس کے ساتھ لڑائی ہوگئی تاہم کنڈکٹر نے ڈرائیور کو آمادہ کرلیا اور اسے ٹرک میں چھپا کر راولپنڈی لے آیا۔ کنڈکٹر نے اس کے والد کا موبائل نمبر لے کر فون کیا تو وہ اپنے گھر تک پہنچا۔
یہ خبر روزنامہ دنیا (12جولائی 2013ء) کی ہے۔ اس قسم کی خبریں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ جن ملکوں میں حکمران اپنے آپ کو عوام کا محافظ سمجھتے ہیں، وہاں ایسی ایک خبر بھی ان کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں اور سیون سیون کے بعد برطانیہ میں حکومت نے یہ واقعات دوبارہ نہیں ہونے دیے۔ حکمران گڈریوں کی طرح ہیں۔ اگر گڈریے کی موجودگی میں آئے دن بکریوں کو بھیڑیے اٹھا کر لے جائیں تو اس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔ یا گڈریا بھیڑیوں کے ساتھ ملا ہوا ہے یا گلّے کی پاسبانی کا اہل نہیں۔ اسی سرزمین پر شیرشاہ سوری ہوگزرا ہے جو ایک عام دیہاتی کے قتل پر بھی مجرم کو سزا دیے بغیر سوتا نہیں تھا۔ یہیں علائوالدین خلجی بھی تھا جو کم تولنے والے کے جسم سے اسی حساب سے گوشت کٹوا دیتا تھا۔ پنجاب سے سینکڑوں افراد اغوا ہوچکے ہیں۔ یا تو وزیراعلیٰ اس ظلم سے بے خبر ہیں یا وہ اغوا کی وارداتوں کو قابل توجہ نہیں گردانتے۔ چھ جولائی 2013ء کو ایک معروف انگریزی معاصر میں بتایا گیا ہے کہ ایک وقت میں کم از کم ایک ہزار اغوا شدہ افراد وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں موجود ہوتے ہیں۔ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور راولپنڈی کے شہر اغوا کرنے والوں کی جنت ہیں۔ پنجاب حکومت کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے اغوا کے حوالے سے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے تین چار روز پہلے بیان دیا کہ گیلانی کے بیٹے کو اغوا کے بعد وزیرستان میں لے جایا گیا اور بھاری
 تاوان مانگا گیا لیکن تاوان کے ساتھ انہوں نے کچھ لوگوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا جو ممکن نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ علاقہ غیر میں مرکزی ایجنسیاں ہی ان سے رابطہ کرتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت کیا کررہی ہے؟ تو کیا آپ اپنے لوگوں کو اغوا ہونے دیتے رہیں گے صرف اس لیے کہ وزیرستان آپ کے اختیار سے باہر ہے؟ بات پھر وژن کی آجاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں وزیرستان اور قبائلی علاقوں کے سینکڑوں ہزاروں افراد اور خاندان ملتان سے لے کر لاہور تک اور فیصل آباد سے لے کر راولپنڈی تک ہر شہر میں آباد ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کا ثقافتی مزاج یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے سے انتہائی مربوط رہتے ہیں۔ کسی ایک شخص کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو شہر میں اس کی زبان بولنے والے تمام افراد اس کی مدد کے لیے اکٹھے ہوجائیں گے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ وزیرستان کے جو لوگ پنجاب کے شہروں میں آباد ہوئے ہیں وہ اغوا کرنے والوں سے رابطے میں ہوتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قبائلی ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں اور ایک دوسرے کا لحاظ بھی کرتے ہیں۔ اگر پنجاب حکومت اپنے شہروں میں رہنے والے معتبر قبائلی افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنائے اور انہیں یہ احساس دلائے کہ اغوا کرنے والے وزیرستانی یا دوسرے قبائلی مجرم، ان سب لوگوں کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں جو وہاں سے ہجرت کرکے پنجاب میں آباد ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اغوا کنندگان ان کی بات پر کان نہ دھریں۔ صوبائی حکومت اغوا شدہ افراد کی برآمدگی کا کام ان معتبر لوگوں کے ذمہ لگائے۔ انہیں شائستگی کے ساتھ باور کرایا جائے کہ اگر آپ حضرات یہاں رہنا چاہتے ہیں تو اپنے قبائلی بھائیوں کو اس گھنائونے کاروبار سے روکیں۔ کمزور سے کمزور لوگ بھی برداشت نہیں کرتے کہ وہ ایک بھائی کو پناہ دیں اور دوسرا بھائی انہیں ہی نقصان پہنچائے۔ دریائے سندھ کے اس پار سے ہمارے بھائی ہمارے پاس آ کر رہ رہے ہیں اور انہیں کے اعزہ و اقارب اور ہم وطن ہمارے ہی لوگوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کررہے ہیں اور صوبائی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ کیسا حُسنِ انتظام ہے؟ کیسا وژن ہے اور کس قسم کا احساس ذمہ داری ہے؟
گیلانی اور تاثیر کے بیٹوں کے اغوا کی خبریں اس لیے نمایاں ہوئی ہیں کہ ایک سابق وزیراعظم ہے اور دوسرا قتل ہوتے وقت صوبے کا گورنر تھا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے اطراف واکناف سے لوگوں کو یوں اٹھایا جارہا ہے جیسے ریوڑ سے بھیڑیں اٹھائی جاتی ہیں۔ یہ کالم نگار ایک ایسے نوجوان کو جانتا ہے جو ایک ترقی یافتہ ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہا ہے۔ وہ بہت آسانی سے وہاں کی شہریت لے سکتا تھا لیکن اسے واپس آ کر ملک کے کام آنے کا جنون تھا، اس لیے اس نے پاسپورٹ کے لیے درخواست تک نہ دی۔ کچھ عرصہ پہلے اس کے والد کو ،جو ایک باعزت منصب سے ریٹائر ہوئے تھے ،اغوا کرلیا گیا۔ کئی ہفتوں کی تگ و دو کے بعد تقریباً ایک کروڑ روپے تاوان دے کر انہیں چھڑوایا گیا۔ اس بوڑھے شخص کو غسل خانے میں ایک اور مغوی کے ساتھ رکھا گیا۔ دونوں کو ایک ہی زنجیر سے باندھا گیا۔ ٹوٹی ہوئی بوتل سے پانی پیتے تھے اور پینے کے لیے وہی پانی تھا جو رفع حاجت کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے اس ملک میں واپس آنے اور رہنے سے توبہ کی ہے۔اس کا دوسرا بھائی جو یہاں ہے، میڈیکل کے ایک ایسے شعبے کا ماہرہے جس کے ماہرین ملک میں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ وہ بھی اب بیرون ملک جانے کی تیاری کررہا ہے۔ وہ اپنے والدین کو بھی لے جارہے ہیں اور یہ ملک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔ جس روح فرسا حادثے سے وہ گزرے ہیں، اس کے بارے میں وہ ہر بین الاقوامی فورم پر بات کریں گے۔ ان کی آئندہ نسلیں بھی لوگوں کو بتائیں گی کہ ان کی ہجرت کا کیا سبب تھا۔ سرکاری خزانے سے سینکڑوں محافظ اپنے محلات پر تعینات کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ حب الوطنی کی جڑوں پر رات دن کلہاڑے پڑ رہے ہیں۔ وطن ایک پھول ہے لیکن اگر پھول سے خوشبو کی بجائے آنچ آنے لگے تو پھول ہاتھ سے گرا دیا جاتا ہے۔
میاں شہبازشریف انتھک کام کرنے والے حکمران ہیں لیکن افسوس! رعایا پر جو کچھ گزر رہی ہے، اس سے وہ آگاہ نہیں یا تغافل برت رہے ہیں۔ وہ اگر شیرشاہ سوری اور علائوالدین خلجی نہیں بن سکتے تو ازراہِ کرم قائم علی شاہ بھی تو نہ بنیں!
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ،اپنا تو بن

Monday, July 15, 2013

وژن! جناب شہباز شریف‘ وژن!

                           یہ ایک کیچڑ بھرا میلا قصبہ تھا۔ پیرودھائی یا بادامی باغ جیسا۔ بس فرق یہ تھا کہ سمندر کے کنارے تھا۔ یہاں چپوئوں سے چلنے والی کشتیاں تھیں، انسانی ٹانگوں کے زور سے حرکت کرتے سائیکل رکشے تھے۔ ریڑھیاں دھکیلتی مریل چینی عورتیں تھیں اور چائے بیچتے لکڑی کے غریبانہ کھوکھے تھے۔ حالت یہ تھی کہ سنگا پور کو 1965ء میں ملائیشیا نے الگ کر دیا تو لی کوانگ یِؤ کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ الگ ہو کر زندہ کیسے رہیں گے۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی۔
لیکن سنگا پور خوش قسمت تھا کہ اسے  لی  جیسا لیڈر ملا ہوا تھا۔ یہ لی کا وژن تھا جس نےچند سالوں میں سنگا پور کو ایشیا کا ٹائیگر بنا دیا۔ کیچڑ بھری بستی زمین پر دمکتا ستارہ بن گئی۔ آج ترقی یافتہ دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی کمپنی ہو جس کا دفتر یا ایشیائی ہیڈکوارٹر سنگا پور میں نہ ہو۔
آپ لی کے وژن کا اندازہ لگایئے۔ سنگا پور میں تین بڑے گروہ آباد ہیں۔ چینی 74 فیصد ہیں۔ مَلے (ملا ایشیا کے ہم نسل) تیرہ فیصد اور انڈین تامل نو فیصد۔ لی نے سنگا پور کے لیے چار قومی زبانیں تجویز کیں۔ انگریزی، چینی، مَلے اور تامل۔ نوفیصد ہندوستانی نژاد آبادی کو بھی اتنی ہی اہمیت دی گئی جتنی 74فیصد چینیوں کو۔ لی کو نظر آرہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انڈین اقلیت تامل کے بجائے انگریزی پر انحصار کرنے لگے گی؛ چنانچہ آج بہت سے تامل خاندان اپنے گھروں میں بھی انگریزی بولنے لگے ہیں۔ چینی اور مَلے آبادی بھی انگریزی پر پہلے سے زیادہ انحصار کررہی ہے اور یوں آہستہ آہستہ سنگا پور کثیر القومی ہونے کے باوجود لسانی وحدت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ ہے وژن۔ اگر سنگا پور کی سیاسی قیادت صرف انگریزی یا چینی کو قومی زبان قرار دیتی تو فسادات نہ بھی ہوتے تو زیرزمین بے اطمینانی کی لہریں ضرور اپنا تخریبی کام شروع کر دیتیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارا رویّہ کس قدر ناپختہ اور دوراندیشی سے خالی تھا۔ ہم نے بنگالی کو قومی زبان تسلیم کیا لیکن اس وقت جب محرومی کے بیج بوئے جا چکے تھے اور ہماری چونچ اور دم گم ہوچکی تھی۔ نااہلی کا یہ عالم ہے کہ جس اردو کو ہم نے مشرقی پاکستان پر مسلط کرنے کی کوشش کی تھی، وہ آج چونسٹھ سال گزرنے کے باوجود ہم خود اپنے اوپر نافذ نہیں کرسکے اور کیا وفاق اور کیا چاروں صوبائی حکومتیں، کاروبار مملکت ہر جگہ انگریزی زبان میں ہورہا ہے!
لی کے وژن کا ایک اور کرشمہ دیکھیے۔ اسے نظر آرہا تھا کہ اگر سنگا پور میں چینیوں، مَلے اور ہندوستانیوں نے الگ الگ بستیاں بسا لیں تو نسلی امن کبھی قائم نہ رہ سکے گا۔ چینی مَلے آبادی کو نفرت سے دیکھیں گے اور دونوں انڈین آبادی کو بدیشی سمجھیںگے۔ اس نے ایسی ہائوسنگ پالیسی بنانے کی ہدایت کی کہ کسی ایک گروہ کو شہر کے کسی حصے میں اکثریت نہ حاصل ہو۔ اس پالیسی کو
 Integrated Housing Policy
 کا نام دیا گیا۔ ایک ایک بلاک میں چینیوں، مَلے اور ہندوستانیوں کا کوٹہ مقرر کیا گیا۔ فلیٹوں کی جس بستی میں چینیوں، مَلے یا ہندوستانیوں کی تعداد ایک مقررہ حد تک پہنچ جاتی، اس بستی میں انہیں مزید رہائش گاہیں خریدنے یا کرائے پر رہنے کی اجازت نہ دی جاتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1965ء سے، جب آزادی ملی، آج تک سنگا پور میں نسلی فسادات نہیں ہوئے اس لیے کہ تینوں نسلی گروہ اس ترتیب سے پورے شہر میں پھیلائے گئے ہیں کہ کسی ایک گروہ کا ارتکاز کہیں ہو ہی نہیں سکا۔ سنگا پور کی اس پالیسی کا دنیا کے بہت ممالک اتباع کررہے ہیں۔ بھارت نے آندھرا پردیش میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے مکانوں کا کوٹہ مقرر کیا ہے تاکہ کسی ایک گروہ کا ارتکاز نہ ہوسکے۔
ہائوسنگ پالیسی نہ ہونے وجہ سے ہم نے مشرقی پاکستان میں ٹھوکر کھائی۔ ڈھاکہ میں غیر بنگالیوں نے محمد پور اور میر پور کے ناموں سے اپنی بستیاں الگ بسا لیں۔ یوں کہ ان میں کسی بنگالی کا رہنا ناممکن بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بستیاں الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے نمایاں ہوگئیں۔ نفرت کا نشانہ بنتی گئیں اور پھر ان پر حملہ کرنا آسان ہوگیا۔
کراچی ہماری کوتہ نظری کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اگر ہمارے لیڈروں میں بھی اتنا ہی وژن ہوتا جتنا لی کوانگ یئو میں تھا تو سہراب گوٹھ وجود میں آتا نہ لالو کھیت اور نہ عزیز آباد۔ حماقت کی انتہا ہے کہ پٹھانوں کے علاقے الگ ہیں، بلوچوں کے الگ، ہزارہ والوں کے الگ اور سرحد پار سے آنے والوں کے الگ ہیں۔ جو بویا تھا آج کاٹا جارہا ہے۔ انتخابی حلقوں کے جھگڑے بھی اسی وجہ سے ہیں۔
لیکن ہم نے ڈھاکہ سے سبق سیکھا نہ کراچی سے۔ اب ہم ایک اور ڈھاکہ‘ ایک اور کراچی بنا رہے ہیں اور اس کا نام لاہور ہے۔ ہم ایک نیا گڑھا کھود رہے ہیں۔ قتل و غارت کا نیا بیج بو کر اس میں کھاد ڈال رہے ہیں تاکہ کل لاشوں کی فصل کاٹ سکیں۔ اس کالم نگار نے کئی مضامین میں اس صورتحال کی طرف اشارہ کیا لیکن نقار خانے میں طوطی کی کسی نے نہ سنی۔ اب پانی سر سے اتنا گزر چکا ہے کہ دوسروں نے بھی چیخنا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک معاصر میں ایک معروف کالم نگار نے لکھا ہے: ’’لاہور شہر کے اندر غیر ملکیوں کی باقاعدہ بستیاں نہ صرف آباد ہوچکی ہیں بلکہ خوب مستحکم بھی ہوچکی ہیں۔‘‘ آگے چل کر کالم نگار لکھتے ہیں: ’’چند سال کے اندر اندر لاہور بھی کراچی کا سا منظر پیش کررہا ہوگا۔‘‘
یہ صورت حال پورے پنجاب میں ہے۔ اخبار نویس یہ اطلاع دے چکے ہیں کہ راولپنڈی کو چاروں طرف سے گھیرا جا چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے کلرکہار گئے تو وہاں ’’انجمن حقوق تحفظ پختوناں کلرکہار‘‘ نے انہیں سپاسنامہ پیش کیا اور ایک مخصوص گروہ کے استعمال کے لیے ایمبولنس کا مطالبہ کیا۔ وژن کا تقاضا یہ تھا کہ انہیں بتایا جاتا کہ مطالبہ سر آنکھوں پر لیکن ایمبولنس یا اس قسم کی سہولتیں میونسپلٹی یا لوکل گورنمنٹ کو دی جائیں گی اور کیا پختون اور کیا غیر پختون سب استعمال کریں گے‘ لیکن ان حساس پہلوئوں کا ادراک تب ہوتا ہے جب سوچ سطحی نہ ہو اور گہرائی میں جا کر سارے مضمرات کا اندازہ لگایا جائے۔ یہ لسانی آبادیاں جہاں جہاں ہیں وہیں ان میں ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ کا رجحان پایا جاتا ہے۔ لاہور اور راولپنڈی کے اردگرد جتنی آبادیاں ہیں، ان کے جھگڑے جرگوں میں چکائے جاتے ہیں۔ کالم نگار سب جانتے ہیں کہ لاہور میں ایسی مارکیٹیں وجود میں آچکی ہیں جن میں مقامی شخص دکان کھول سکتا ہے نہ چلا سکتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ایسی ہی ایک مارکیٹ میں صرف ایک دکان مقامی آبادی سے تعلق 
رکھنے والے کی تھی۔ جب دبائو کے باوجود اس نے اس مارکیٹ کو خیرباد نہ کہا تو اسے قتل کردیا گیا۔ اس پر مقامی آبادی کو ہوش آیا اورمارکیٹ خالی کرا لی گئی۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے اس حوالے سے کوئی پالیسی بنائی ہے یا نہیں؟ اگر بنائی ہے تو وہ کیا ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے شہروں کے اس اس حوالے سے اعداد و شمار موجود ہیں؟ کیا انہوں نے کوئی ہوم ورک کیا ہے؟ کیا انہیں اندازہ ہے کہ ان بستیوں میں کتنا اور کس قسم کا اسلحہ ہے؟ کل کو اگر سہراب گوٹھ کاڈرامہ لاہور میں دہرایا گیا تو اس کا وزیراعلیٰ نے کیا توڑ سوچا ہے؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ ہر روز پنجاب میں بالخصوص لاہور میں دریائے سندھ کے اس پار سے خاص طور پر وزیرستان اور قبائلی علاقوں سے کتنے افراد داخل ہوتے ہیں؟ اور ان میں سے کتنے واپس جاتے ہیں؟ اور کتنے یہیں آباد ہوجاتے ہیں؟ وزیراعلیٰ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ساری ذمہ داریاں بنیادی نوعیت کی ہیں اور ناگزیر ہیں۔ میٹرو بس، دانش سکول اور اس قبیل کے دوسرے منصوبے اس صورت میں مفید ہوسکتے ہیں جب آپ کی حاکمیت کو چیلنج کرنے والے عناصر صوبے میں موجود نہ ہوں۔ پاکستان کے سارے شہر پاکستانیوں کے اپنے ہیں۔ لاہور، راولپنڈی اور پنجاب کے دیگر شہروں پر تمام پاکستانیوں کا حق ہے لیکن ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک گروہ اپنی عدلیہ الگ کیوں قائم کرے؟ پھر آنے والوں کو مقامی آبادی میںگھل مل کر رہنا چاہیے۔
الگ بستیاں جو کل کو ’’نو گو ایریا‘‘ میں تبدیل ہوجائیں، ہرگز نہیں بسنی چاہئیں۔ کسی منڈی بازار مارکیٹ میں کسی لسانی گروہ کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ جوافراد یا خاندان باہر سے آ کر آباد ہورہے ہیں، انہیں مسلح نہیں ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)

Friday, July 12, 2013

سب سے وکھرے‘ سب سے برتر

                         ناممکن تو نہیں تھا مگر مشکل اتنا تھا کہ بس ناممکن ہی لگ رہا تھا۔ سرچھپانے کے لیے چھت بننے کا امکان روشن ہورہا  تھا لیکن پھر تاریکی میں چھپ چھپ جاتا تھا۔ نائب قاصد ارشاد کو اس کے ایک نرم دل رشتہ دار نے پانچ مرلے زمین کی پیشکش کی تھی اس شرط پر کہ چارماہ کے اندر اندر تین لاکھ روپے کی ادائیگی کردی جائے۔ 
شاید اس کے بعد کوئی اور موقع نہ ملے۔ ارشاد نے کمرہمت باندھ لی۔ بیوی کے زیور بیچے۔ بھائی سے قرض لیا۔ کچھ پیسے سسر نے کہیں سے بندوبست کرکے دیے۔ یوں دوماہ کی شبانہ روز کوشش سے دولاکھ کا انتظام ہوگیا۔ ایک لاکھ مزید درکار تھے۔ کئی جگراتوں کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے اپنے محکمے سے ہائوس بلڈنگ ایڈوانس مل سکتا ہے بشرطیکہ اس کی پشت پر کوئی مضبوط ہاتھ ہو۔ خدانے اس کا بھی بندوبست کردیا ۔ اور ایک لاکھ روپے اس کے سیونگ اکائونٹ میں دفتر سے بذریعہ چیک جمع ہوگئے۔ یہ 2012ء کے رمضان سے پہلے کا ذکر ہے۔ 
عیدالفطر کے ایک ہفتہ بعد مدت پوری ہورہی تھی۔ اس نے تین لاکھ روپے کی رقم ادا کرکے زمین اپنے نام کرانا تھی عید کی چھٹیوں کے بعد وہ بنک گیا اور دفتر سے قرض لیا ہوا ایک لاکھ روپیہ نکلوایا لیکن اس کے پیروں تلے سے زمین اس وقت نکلی جب ایک لاکھ کے بجائے اسے ستانوے ہزار پانچ سوروپے دیئے گئے۔ بنک والوں نے بتایا کہ اس کے سیونگ اکائونٹ پر زکوٰۃ نافذ کی گئی ہے اور اڑھائی فیصد کے حساب سے یہ رقم اڑھائی ہزار بنتی ہے۔ بنک منیجر کے پاس تو ملنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ کلرک کو اس نے بہت قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہی نہیں۔ وہ تو مشکل سے دووقت کی روٹی بچوں کو مہیا کررہا ہے۔ اور پھر یہ ایک لاکھ روپیہ تو اس نے قرض لیا ہے۔ اس پر زکوٰۃ کسی حساب سے نہیں بنتی۔ لیکن کلرک ایک ہی بات کہتا تھا میں کچھ نہیں کرسکتا۔ بنک کے قواعد کی رو سے ہر سیونگ اکائونٹ سے یکم رمضان کو زکوٰۃ کاٹنا ہوتی ہے۔ 
یہ واقع نام کی تبدیلی کے سوا سوفیصد سچا ہے۔ اسلام کے ساتھ یہ مذاق مردمومن مردحق ضیاء الحق نے 1980ء میں زکوٰۃ اور عشر آرڈیننس کے نفاذ سے شروع کیا جو بدقسمتی سے آج تک جاری وساری ہے۔ آپ کے اربوں روپے کرنٹ اکائونٹ میں پڑے ہیں تو ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں لیکن آپ کی پنشن، جی پی فنڈ سے لیا ہوا قرض یا تنخواہ سے بچی ہوئی کچھ رقم سیونگ اکائونٹ میں پڑی ہے تو بنک اس سے زکوٰۃکاٹ لے گا۔ آپ کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی۔ بنک والوں میں اتنی شائستگی اور اخلاق بھی نہیں کہ آپ کو خط کے ذریعے اطلاع ہی دے دیں۔ 
ہمارے علماء زکوٰۃکے حوالے سے تملیک کی شرط لگاتے ہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رقم کسی فرد کی ملکیت میں دی جائے۔ چنانچہ اگر آپ زکوٰۃ کی رقم کسی زیرتعمیر ہسپتال یا کسی اور رفاہی سرگرمی میں لگانا چاہتے ہیں تو مذہبی سکالر اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ضیاء الحق کے اس خالص غیراسلامی کام  پر مذہبی حلقوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ ضیاء الحق ان حضرات کی آنکھ کا تاراتھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس نے علما اور مشائخ کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کانفرنسوں کا دسترخوان وسیع وعریض ہوتا تھا۔ ٹیکس ادا کرنے والے عوام کا پیسہ ہوتا تھا۔ لمبی عبائوں اور کلف زدہ دستاروں کے پیچ ہوتے تھے اور شکم تنوروں کے طرح بھرے جاتے تھے ۔ ستائیسویں رمضان کو سرکاری خزانے سے جہاز بھر بھر کر حرم مکہ کے سفر ان کانفرنسوں کے علاوہ تھے ۔ چنانچہ اعتراض کون کرتا ؟زکوٰۃکے لیے اور ہرمذہبی فریضہ ادا کرنے کے لیے نیت اور ارادہ لازم ہے۔ لیکن یہاں مالک کو خبر ہی نہیں۔ اس کے اکائونٹ سے زکوٰۃ کاٹی جارہی ہے۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ کسے دی جارہی ہے ؟ کسی مستحق کو دی بھی جارہی ہے یا کسی وزیر کے دفتر کی آرائش پر خرچ ہورہی ہے۔ 
ہم نے اس ملک کو اسلام کا قلعہ کہا اور پھر اس میں مذہب کے نام پر ہروہ کام شروع کردیا جس کا ہمارے مذہب سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ پانچ وقتوں کی نماز پڑھنے والے گاڑیاں چوری کروارہے ہیں اور بے گناہ افراد کو اغوا کرکے تاوان وصول کررہے ہیں۔ یہ سارا ’’لین دین‘‘ یہ سارا ’’کاروبار‘‘ حجروں میں نہیں، مسجدوں میں بیٹھ کر کیا جارہا ہے اور اسے ’’ہمارے بچوں کی محنت ‘‘کا نام دیا جارہا ہے۔ رمضان ہی کو لے لیجئے 
ضیاء الحق سے پہلے بھی اس ملک میں مسلمان ہی بستے تھے اور روزے رکھتے تھے۔ لیکن ریستوران کھلے رہتے تھے۔ ان کے دروازوں پر پردے لگادیئے جاتے تھے۔ سرعام اس وقت بھی کوئی نہیں کھاتا پیتا تھا۔ضیاء صاحب نے ادھر تو مشہور بھارتی اداکار شتروگھن سنہا کو منہ بولا بیٹا بنایا، ادھر رمضان میں سارے ریستوران بند کرا دیئے۔ اسلام مسافروں اور مریضوں کو رمضان کے روزوں سے مستثنیٰ کرتا ہے مسافر اور مریض قضا شدہ روزے اس وقت رکھتے ہیں جب سفر ختم ہوجائے یا وہ تندرست ہوجائیں۔ آج عالم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کام سے کراچی سے اسلام آباد آتا ہے تو مسافر ہونے کے باوجود پورے شہر میں اسے کھانا میسر نہیں ہوتا۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے خاص طورپر جوانسولین پر ہیں، وقت پر کھانا کھانا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، لیکن مسافر ہے یا تنہا زندگی بسر کرنے والا مریض ، بچہ ہے یا بوڑھا چند لقمے بھی کہیں سے نہیں حاصل کرسکتا۔ 
ہمارے خودساختہ مذہبی تصورات عجیب وغریب ہیں۔ ہم گالیاں تجویدسے دیتے ہیں اور قرآن پاک غلط پڑھتے ہیں‘ ستائیسویں رمضان کی رات نوافل میں گزرتی ہے اور صبح کی فرض نماز کے وقت تھک کر سوجاتے ہیں۔ زندگی میں سینکڑوں ہزاروں بار قرآن پاک ختم کرتے ہیں لیکن حرام ہے جو چار آیتوں کا مفہوم سمجھ یا سمجھا سکیں۔ دوستوں پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں اور قریبی اعزہ بھوک سے ایڑیاں رگڑتے رہیں تو پرواہ نہیں کرتے۔ بچوں کو گراں ترین تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں خواہ ملک کے اندر یا ملک سے باہر، لیکن ان کی مذہبی تعلیم پر چند سوروپے خرچ کرنے پڑیں تو پیٹ میں قولنج سے بدتر درد پڑنے لگتا ہے۔ کاروبار میں ملاوٹ سے لے کر ٹیکس چوری تک، تجاوزات سے لے کر دروغ گوئی تک ہر گناہ کو جائز سمجھتے ہیں لیکن عرسوں‘ قوالیوں‘ دیگوں اور چندوں سے اپنے آپ کو دھو کر نفاق کی دھوپ میں خشک کرلیتے ہیں۔ باس کے‘ خواہ احمق ہی کیوں نہ ہو اور حرام ہی کیوں نہ کھاتا ہو، جوتے سیدھے کرتے ہیں لیکن والد کے سامنے تڑ تڑ بکواس کرتے ہیں۔ فضائل قرآن سن سن کر اور سنا سنا کر بال سفید ہوجاتے ہیں لیکن قرآن سے تادم آخر ناآشنا رہتے ہیں۔ عشق رسولﷺ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن صبح سے شام تک عملی زندگی کی ہرسانس میں خدا کے رسولؐ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ اپنے ملک کے حصے ایک ایک کرکے الگ ہورہے ہیں لیکن کبھی وائٹ ہائوس پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے رنگ کے قلعہ پر پرچم لہرانے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ درجنوں کے حساب سے ہمارے معصوم ہم وطن ہرروز گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے جاتے ہیں لیکن وہ ہمیں کیڑوں کی طرح حقیر لگتے ہیں اور ہمارے درد دل کا سارا سرمایہ چیچنیا سے لے کر مصر تک بیرون ملک صرف ہوجاتا ہے۔ ہم جب جوان اور توانا ہوتے ہیں تو بنکاک اور لندن کی یاترا کرتے رہتے ہیں اور جب بڈھے کھوسٹ‘ اپاہج‘ ضعیف اور بدحواس ہوجاتے ہیں تو ہمیں خدا کا گھر اور نبیؐ کا روضہ یاد آنے لگتا ہے ہم پوری دنیا کے مسلمانوں سے وکھرے ہیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں سے اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔
     

Wednesday, July 10, 2013

اعزاز

ایک ایک پیسہ جوڑ کر سالہا سال اپنا اور بال بچوں کا پیٹ کاٹتا رہا اور یوں زندگی میں پہلی بار میرے پاس ایک لاکھ روپے جمع ہوئے۔
دوستوں نے مشورہ دیا کہ چوری چکاری عام ہے بہتر ہے اسے بنک میں جمع کرادو۔بنک گیا تو گارڈ نے اندر جانے سے روک دیا۔پوچھنے لگا رقم جمع کرانے آئے ہو یا نکلوانے؟ میں نے بتایا کہ جمع کرانے آیا ہوں۔کہنے لگا اس کا مطلب ہے تم سرمایہ دار ہو۔اندر جانے سے پہلے اپنی قمیض اتار کر میرے حوالے کرو ۔میں نے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔اس کی دلیل یہ تھی کہ ڈار صاحب نے آئی ایم ایف کی ساری شرطیں مان کر اس کا یعنی گارڈ کا کشکول تک توڑ دیا ہے اور اب وہ بالکل تہی دست یعنی خالی ہاتھ ہے۔مرتا کیا نہ کرتا ، قمیض اس کے حوالے کی اور یوں بنک منیجر تک رسائی ہوئی۔وہ ایک ان پڑھ کلائنٹ سے نمٹ رہا تھا۔لمبی داڑھی والے اس شخص نے سر پر بڑا سا پگڑ باندھ رکھا تھا اور ایک ایسی زبان میں بات کررہا تھا جو مجھے نہیں آتی تھی۔اس نے چادر اوڑھ رکھی تھی۔بنک منیجر اس کے سامنے بچھا جاتا تھا۔کافی دیر گفتگو ہوتی رہی۔پھر پگڑ والے شخص نے چادر سے کرنسی نوٹوں کے پلندے نکالنے شروع کیے یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا یہاں تک کہ بنک منیجر کی میز، سائیڈ ٹیبل اور دفتر کی خالی جگہ نوٹوں کے بنڈلوں سے بھر گئی۔ منیجر نے کیشئر کو بلوا کر ان نوٹوں کی گنتی کرنے کا حکم دیا۔اس پر پگڑ والے شخص نے انتہائی درشتی سے منیجر کو کچھ کہا۔ منیجر نے فوراً اس کے آگے ہاتھ جوڑے ۔ایک رسید اس کے حوالے کی جسے لینے کے بعد پگڑ والا شخص اٹھ کر چلا گیا۔جاتے وقت میں نے اس کی چادر کے ایک کونے سے لوہے کی ایک نالی نما شے کی ہلکی سی جھلک دیکھی جس پر مجھے بغیر کسی وجہ کے جھرجھری سی آگئی۔
بنک منیجر نے مجھ سے پوچھا کہ کتنی رقم جمع کرانی ہے میں نے بتایا کہ پورے ایک لاکھ روپے۔اس پر اس کا رویہ میرے ساتھ متکبرانہ ہوگیا اور وہ فوراً آپ سے تم پر آگیا۔میں نے پوچھا کہ یہ پگڑ والا شخص کون تھا اس پر اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا ۔ہکلا کر کہنے لگا، میاں ! زندہ رہو اور رہنے دو اور بیکار سوال مت پوچھو۔اتنے میں اس کا کیشئر آگیا اس نے کیشئر کو بتایا کہ یہ کرنسی نوٹ بنک کی تجوری میں جمع کرلو یہ دو کروڑ روپے ہیں۔ کیشئر نے کہا کہ وہ خود گنتی کرے گا۔اس پر منیجر نے اسے بتایا کہ وہ جمع کرانے والے شخص کے سامنے گنوانا چاہتا تھا لیکن اس نے کہا کہ گننے کی ضرورت نہیں جب وہ دو کروڑ کہہ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ دو کروڑ روپے ہیں۔یہ کہتے ہوئے اس کی یعنی پگڑ والے شخص کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خلا در آیا تھا جس سے اس پر یعنی بنک منیجر پر لرزہ سا طاری ہوگیا تھا۔
بنک منیجر نے رقم جمع کرنے سے پہلے مجھ پر واضح کیا کہ جمع کرتے وقت بھی ٹیکس دینا پڑے گا اور نکالتے وقت بھی۔اس نے یہ بھی بتایا کہ نکلواتے وقت جو ٹیکس کاٹا جاتا ہے وہ ڈار صاحب نے دو گنا کردیا ہے  سبب پوچھا تو منیجر نے دانت نکال کر جواب دیا کہ ڈار صاحب نے پرانا کشکول توڑ دیا ہے اور نیا بنوانے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کردیا ہے۔
حساب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ جمع کراتے وقت پانچ ہزار روپے کا ٹیکس اور نکلواتے وقت دس ہزار روپے کا ٹیکس دینا پڑے گا۔ یعنی ایک لاکھ میں سے 15ہزار روپے کم ہوجائیں گے۔میں نے فیصلہ کیا کہ اس سے بہتر یہ ہے کہ رقم گھر ہی میں پڑی رہے ۔ اٹھ کر جانے لگا تو بنک منیجر نے کہا کہ ایک ہزار روپے دیتے جائیں۔میں نے پوچھا کس بات کے ، کہنے لگا کہ یو پی ایس فنڈ کے لیے ، میں نے اسے بتایا کہ میں سرکاری ملازمت کرتا رہا ہوں اور یہ کہ مجھے قوانین کا پورا پورا علم ہے۔بنک میں یو پی ایس تو بنک کا ہیڈ آفس مہیا کرتا ہے منیجر ہنسا اور کہنے لگا یہ یو پی ایس فنڈ محلے کے بھتہ آفس کا ہے! بات معقول تھی چنانچہ میں نے ایک ہزار روپے اسے ادا کردیے۔
ننانوے ہزار روپے کی رقم لے کر گھر واپس پہنچا۔ابھی بیوی سے مشورہ ہی کررہا تھا کہ کہاں رکھی جائے کہ گھنٹی بجی۔بیٹا باہر دیکھنے گیا کہ کون آیا ہے۔واپس آیا تو خوف کے مارے کانپ رہا تھا۔اس نے میرے سامنے ایک پرچی رکھی جس پر لکھا تھا
پرچی برائے بھتہ
پچاس ہزار روپے کی رقم آج شام تک میرے حوالے کی جائے۔
شمعون خاکروب۔
بیٹے سے میں نے کہا یہ کیا بکواس ہے۔ شمعون تو ہمارا خاکروب ہے۔وہ ہم سے کس طرح بھتہ مانگ سکتا ہے؟
بیٹے کی گھگھی بندھی ہوئی تھی ۔ہلکاکر کہنے لگا ۔اباجی آپ خود باہر جاکر اسے ملیں۔شمعون کے تو تیور ہی اور ہیں۔
میں غصے سے کانپتا ہوا باہر گیا۔شمعون بڑی بدتمیزی سے دونوں بازو سینے پر باندھے کھڑا تھا۔مجھے دیکھتے ہی بولا۔ ’’صاحب جی، آپ کے پاس ایک لاکھ روپے کی رقم ہے پچاس ہزار روپے بھتے کے میرے حوالے کردیں۔اسی میں آپ کی عافیت ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ کیا بکواس کررہے ہو۔ تنک کر بولا نہیں دیں گے تو عدالت میں جائوں گا اور آپ کے خلاف کیس کردوں گا۔ پھر کہنے لگا کہ بھتہ دینے کی صورت میں وہ باقی پچاس ہزار روپے کی مکمل حفاظت کی ذمہ داری لے گا اور کوئی شخص بھتہ مانگے گا نہ ڈاکہ ڈالے گا۔ میں نے کہا یہ تو بعد کی بات ہے۔ پہلے یہ بتائو کہ عدالت جانے کی دھمکی کیسے دے رہے ہو۔ کیا عدالت بھتہ مانگنے پر تمہاری دادرسی کرے گی؟ کہنے لگا صاحب جی! بھتہ قانونی طور پر جائز ہوچکا ہے۔اسی لیے تو اسلام آباد سے لے کر کراچی تک اور کوئٹہ سے لے کر لاہور تک ہر شہر میں بھتہ لیا جارہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھتہ لینے والوں کا بھی علم ہے اور دینے والے اداروں کا بھی۔ دکاندار کارخانہ دار، تاجر، پراپرٹی ڈیلر، کاروں کے شو روم والے، سب کھلے عام بھتہ دے رہے ہیں، صدر، وزیراعظم، صوبائی وزرائے اعلیٰ، مسلح افواج، ایجنسیاں، سب کو معلوم ہے اور سب خاموش ہیں۔ آپ خود بتایئے‘ یہ کام غلط ہوتا تو یہ سب کیسے خاموش رہ سکتے تھے؟ اور پولیس والے بھتہ خوروں کی سرپرستی کس طرح کرسکتے تھے؟
بات معقول تھی میرا سر چکرا گیا۔ اگر بھتہ خوری ناجائز ہوتی تو وزیراعظم پہلے اس لعنت کا قلع قمع کرتے اور بلٹ ٹرینوں کے منصوبوں پر بعد میں غور کرتے۔ اگر لاکھوں کروڑوں افراد اور ادارے بھتہ دے رہے ہیں اور ملک کے وزیراعظم، صدر اور آرمی چیف نے اس بارے میں آج تک ایک لفظ بھی نہیں کہا تو ظاہر ہے کہ یہ جائز ہے۔
میں اندر گیا اور پچاس ہزار روپے لا کر شمعون خاکروب کے حوالے کردیے۔ اب میرے پاس انچاس ہزار روپے تھے لیکن اطمینان یہ تھا کہ مکمل طور پر محفوظ تھے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور صوفے پر نیم دراز ہو کر ٹیلیویژن آن کیا۔ ایک تقریب کا آنکھوں دیکھا حال بتایا جارہا تھا۔ وفاقی کابینہ کے ارکان ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ پاکستان کے حصے میں ایک اور اعزاز آیا تھا۔ پوری دنیا میں پاکستان واحد ملک تھا جہاں اغوا برائے تاوان ایک انڈسٹری بن چکا ہے۔ محفوظ ترین سرگرمی ہے اور زوروں پر ہے۔ اس حوالے سے ہمارے ملک کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آیا تھا اور اس خوشی میں کابینہ کے ارکان معانقے کررہے تھے۔
 مجھے ایک بار پھر جھرجھری آگئی! 

Monday, July 08, 2013

بھیک مانگتی ماں اور گھوڑوں کی خریداری کرتا بیٹا

پہلی خبر یہ ہے کہ گومل زام ڈیم کے اغوا شدہ اہلکاروں کی نئی ویڈیو جاری ہوگئی ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو اگلی ویڈیو میں ایک اہلکار کو گولی مار دی جائے گی۔ ان سرکاری ملازموں کو اغوا ہوئے ایک سال ہونے کو ہے۔ ان لوگوں نے خیبر پختونخوا کے گورنر اور وزیراعلیٰ اور واپڈا کے حکام سے فریاد کی ہے کہ خدا کے لیے انہیں رہائی دلوائی جائے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ کراچی میں ایک خاتون ایک اولڈ ہوم ٹرسٹ چلا رہی ہے۔ 22 مئی 2013ء کو ایک شخص اس ٹرسٹ کے دفتر میں آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ ملا عمر کا بھتیجا ہے اور یہ کہ اسے پچاس لاکھ روپے بھتہ درکار ہے۔ نہ دینے کی صورت میں ٹرسٹ چلانے والی خاتون کو قتل کر دیا جائے گا اور عمارت کو دھماکے سے اڑا دیا جائے گا۔ پولیس کو بتایا گیا لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ 25 جون کو وہ شخص دوبارہ آیا‘ اس کے ساتھ مسلح افراد بھی تھے۔ خاتون رپورٹ درج کرانے تھانے پہنچی تو وہ شخص تھانے میں پہلے سے موجود تھا!
تیسری خبر یہ ہے کہ مری کے ایک معروف بزنس مین کو دو ماہ سے بھتے کے مطالبات اور دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس سے دس کروڑ روپے طلب کیے جارہے تھے۔ تقاضا کرنے والے اپنے آپ کو طالبان کہتے تھے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ طالبان تھے یا کوئی اور۔ پولیس کو بتایا گیا لیکن بزنس مین کو کوئی سکیورٹی مہیا نہ کی گئی۔ چار جولائی کو اس کے گھر میں دھماکہ ہوا۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق ایک کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
لیکن اصل خبر یہ نہیں ہے۔ اصل خبر وہ ہے جو دو دن پیشتر قومی سطح کے ایک انگریز معاصر نے اپنے ایک مضمون میں دی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ہزار پاکستانی پاکستان ہی کے ایک خاص علاقے میں ہر وقت اغوا شدہ حالت میں محبوس ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو معلوم ہے کہ یہ علاقہ کون سا ہے۔ یہ افراد پاکستان کے مختلف علاقوں سے اغوا کیے جاتے ہیں۔ ہر شہر کے لیے الگ الگ گروہ مختص ہیں۔ انہیں جس حالت میں رکھا جاتا ہے اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بھاری رقوم وصول کرکے انہیں چھوڑا جاتا ہے۔ بھتہ اس کے علاوہ ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ بھتے کی وبا کراچی تک محدود ہے تو وہ بے وقوف ہے یا بے وقوف بنا رہا ہے۔ کوئی بڑا شہر ایسا نہیں جو اس سے محفوظ ہو۔
اس پس منظر میں اب ان خبروں پر غور کیجیے کہ نوازشریف چین کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کاروبار کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ بلٹ ٹرین چلانا چاہتے ہیں۔ خنجراب سے گوادر تک راہداری کا قیام عمل میں لانا چاہتے ہیں۔ جس ملک میں سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اغوا ہورہے ہیں‘ مری سے لے کر کراچی تک تاجروں سے بھتہ مانگا جارہا ہے‘ ان کے گھروں کو بموں سے اُڑایا جارہا ہے اور بھتہ مانگنے والے تھانوں میں پائے جاتے ہیں‘ اس ملک میں سرمایہ کاری کا سوچنا ہی مضحکہ خیز ہے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ افغانستان کے صدر اور پاکستان کے وزیراعظم میں کتنی مماثلتیں ہیں۔ یقینا بہت سی ہیں۔ ماشاء اللہ دونوں مسلمان ہیں۔ دونوں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں امریکہ دوست ہیں۔ فرق صرف ایک ہے۔ افغانسان کے صدر کا اقتدار کابل سے باہر نہیں لیکن کابل کے اندر ضرور ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کا اقتدار بدقسمتی سے اسلام آباد کے اندر بھی موجود نہیں۔ تقریباً تین یا چار گاڑیاں دارالحکومت سے ہر روز چوری ہوتی ہیں۔ تازہ ترین خبر کے مطابق اہم افراد کو اغوا کرنے کے نئے منصوبے کا انکشاف ہوا ہے۔ کمال یہ ہے کہ ہر دھماکے اور ہر کارروائی کی پیشگی اطلاع مل جاتی ہے لیکن اس کا سدباب نہیں ہوتا!
مزے کی بات یہ ہے کہ برما اور مصر کے حالات پر زاروقطار رونے والے رہنمائوں کو اغوا کی ان وارداتوں کی خبر ہے نہ بھتے کی پرچیوں ہی کا معلوم ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کارروائیوں کی پشت پر ان حضرات کی اخلاقی مدد بھی شامل حال ہے؟
اس باب میں دو آرا نہیں ہوسکتیں کہ خود مختاری کا نعرہ لگانے والی اس حکومت کا اپنے علاقوں پر کوئی کنٹرول نہیں۔ وسیع و عریض علاقوں پر اس کی خودمختاری کا یہ عالم ہے کہ وہاں قانون ہے نہ پولیس۔ فوج وہاں جائے بھی تو حالت جنگ میں ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس صورتحال سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتیں۔ جس کا بس چلتا ہے ملک سے بھاگ رہا ہے۔ پشاور میں ڈاکٹروں کا اغوا تسلسل اور منظم طریقے سے ہورہا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں عضو معطل ہیں۔ خوف زدہ عوام مجبوراً فوج کی طرف اور آئی ایس آئی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ریڑھی والے ان پڑھ پاکستانی سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ بزنس مین اور مراعات یافتہ بیورو کریٹ تک ہر شخص کو معلوم ہے کہ حکومت بے بس ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ اگر سول حکومت اپنی بے بسی کا اعتراف نہیں کرتی تو کیا مسلح افواج اور متعلقہ ایجنسیاں اپنے عوام کو غلامی اور قید میں سسکتا بلکتا دیکھتی رہیں گی؟
ایک حل یہ ہے کہ ان علاقوں کو خودمختاری دے دی جائے۔ اُن کو اُن کی اصل پوزیشن پر بحال کردیا جائے۔ وہاں سے آنے اور وہاں جانے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اغوا شدہ پاکستانیوں کی تعداد سینکڑوں ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں میں ہوجائے گی اور بھتہ پرچی شہروں سے ہوتی ہوئی قصبوں تک پہنچ جائے گی۔ اگر کسی نابغے یا عبقری کے ذہنِ رسا میں اس کے علاوہ کوئی اور حل موجود ہے تو اس مظلوم معتوب اور مقہور قوم کو جلد بتائے اور ثواب دارین حاصل کرے۔ رہیں گیدڑ بھبکیاں اور قاہرہ کے لیے پیٹ میں اٹھتے مروڑ تو سیانے کہہ گئے ہیں:
’’ ما پنّے تے پتر گھوڑے گِھنے‘‘
ماں بھیک مانگتی پھر رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری میں مصروف ہے!

Friday, July 05, 2013

کوئی ہے جو ہماری مدد کرے!

ہمارے خلاف ہمیشہ سازشیں ہوئیں۔ امویوں کے دور ہی کو لیجیے۔ ہم نے تو کچھ بھی نہیںکیا تھا۔ عربوں کو غیر عربوں پر اس حد تک فوقیت دی جاتی تھی کہ غیر عرب کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ سازش ہوئی اور ا مویوں کی حکومت ختم ہوگئی۔
ہسپانیہ سے بھی ہماری حکومت کو سازش کے تحت دیس نکالا ملا۔ امرا اور افسروں کی تعیناتیاں اور ترقیاں شاہی خاندان کی خواتین کی مرضی سے ہونے لگی تھیں۔ ایک مسلمان ریاست، دوسری مسلمان ریاست کو سبق سکھانے کے لیے نصرانی حکومتوں سے مدد مانگتی تھی۔ میدان جنگ میں ہار جیت کا فیصلہ شطرنج کھیل کر کیا جاتا تھا۔ تخت نشینی کی جنگیں عام تھیں۔ آخری خلیفہ جلا وطنی کے لیے بحری جہاز پر سوار ہونے لگا تو پیچھے مڑ کر دیکھا۔ قرطبہ کے محلات دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ماں نے کہا جس سلطنت کی حفاظت مردوں کی طرح نہ کرسکے، اس پر عورتوں کی طرح آنسو کیوںبہاتے ہو؟ لیکن بے شمار ایسی وجوہات کا سلطنت کے خاتمے سے کیا تعلق؟ سو باتوں کی ایک بات ہے کہ ہمارے خلاف سازشیں ہوئیں اور ہمیں ہسپانیہ چھوڑنا پڑا۔
پھر ایک بہت بڑی سازش برصغیر کے مسلمانوں کے خلاف کی گئی۔ سازش کے تحت مغل بادشاہوں نے سفید فام تاجروں کو کاروبار کی اجازت دی اور ’’تجارتی کوٹھیاں‘‘ بنانے کے پروانے عطا کیے۔ مغلوں نے سمندری دنیا سے مکمل بے نیازی برتی اور بحری بیڑہ بنانے کا خیال تک نہ آیا۔ یہ وژن کی کمی نہ تھی بلکہ سازش تھی۔ گوا  کے پرتگالی پادری جب جہانگیر کے دربار میں مشینی چھاپہ خانہ لے کر آئے اور دربار کے مولویوں نے اس کی مخالفت کی تو یہ بھی سازش تھی۔ انگریزوں نے ’’مکاری‘‘ سے حکومتوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ یہ ’’مکاری‘‘ کئی سو سال تک چھپی رہی اور ہمیں معلوم ہی نہ ہوا کہ دشمن مکار ہے۔ ہمارا تو کوئی قصور ہی نہ تھا۔ یہ جو کلائیو اور دوسرے انگریز جنگجو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر رہتے تھے اور یہ جو سراج الدولہ قسم کے نواب پالکیوں میں بیٹھ کر میدان جنگ میں ورود کرتے تھے تو اس کا ہماری شکست سے کیا تعلق؟ شکست تو سازش کی وجہ سے ہوئی۔ انگریزوں کا مالیاتی نظام اتنا مستحکم تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ’’آڈیٹر جنرل اور اکائونٹس کے اعلیٰ حکام کی چھان بین کے بغیر ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوسکتی تھی۔‘‘ ہمارا سسٹم یہ تھا کہ کسی کو سونے میں تولا جاتا تھا اور کسی کو چاندی میں۔ کسی کا منہ موتیوں سے بھر دیا جاتا تھا اور کسی کو درجنوں ہاتھی گھوڑے عطا کردیئے جاتے تھے۔ دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ چارلس میکاف صبح 7بجے دفتر پہنچتا تھا۔ کئی گھنٹے مسلسل کام کرنے کے بعد گیارہ بجے جب وہ اور اس کے ساتھی گرمی کی شدت کے دوران کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے بیرکوں کو جارہے ہوتے تو شاہی قلعے میں بیدار ہونے کے آثار شروع ہوتے تھے۔ اورنگزیب جیسا صالح بادشاہ بھی شکارکھیلنے نکلتا تو ایک لاکھ افراد ساتھ ہوتے تھے۔ غیر صالح بادشاہوں کا تو ذکر ہی کیا! لیکن ان سارے عوامل کا، ہماری شکست سے کوئی تعلق نہیں! ہماری شکست کا سبب ایک اور صرف ایک ہے سازش، سازش اور سازش!
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہی کو لے لیجیے ہم اس معاملے میں فرشتوں کی طرح معصوم اور دودھ کی طرح پاک ہیں۔ ہمارا تو کوئی قصور ہی نہیں۔ سازش ہوئی۔ مشرقی پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں نے غداری کی۔ بھارت کے ہاتھوں میں کھیلے اور ملک ٹوٹ گیا۔ جو کچھ ہم نے کیا، اس کا علیحدگی کے اسباب سے کیا تعلق؟ بنگالی زبان اردو کی نسبت صدیوں زیادہ پرانی اور زیادہ ترقی یافتہ تھی۔ ہم نے اسے قومی زبان کا درجہ دیا لیکن سو کوڑے اور سو پیاز کھانے کے بعد۔ دس دس سال تک فوجی آمروں کو حکومت کرنے دی۔ اس میدان میں مشرقی پاکستان مغربی حصے کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتا تھا۔ جرنیل تو سارے یہاں سے تھے۔ یہاں جاگیرداروں، زمینداروں اور سرداروں کی بادشاہیاں تھیں۔ وہاں متوسط اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سیاست میں تھے۔ ان کی آبادی زیادہ ہونے کے باوجود ون یونٹ بنا کر دونوں بازوئوں میں مصنوعی برابری پیدا کی گئی۔ بیرون ملک سے سینیٹری کا سامان آیا اور وزرا میں تقسیم ہوا تو مشرقی پاکستان کے وزیروں نے اپنے صوبے کا حصہ مانگا۔ انہیں کہا گیا کہ تم لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہو‘ تم نے یہ سامان کیا کرنا ہے؟ وہ لوگ اس قدر غدار تھے کے فاطمہ جناح وہاں سے جیت گئیں اور ہم اس قدر
معصوم تھے کہ وہ یہاں سے ہار گئیں۔ پاکستان ٹائمز جیسے اخبار نے لکھا کہ وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ ہے اور یہ فارن ایکس چینج جو صوبہ زیادہ کمارہا ہے، اُسے کم حصہ دیا جارہا ہے۔ یہ کالم نگار تین سال ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم رہا۔ کسی سے علیحدگی کی بات نہیں سنی۔ ایک اور صرف ایک شکایت تھی کہ انصاف نہیں ہورہا اور فوجی آمر ہمیشہ مغربی پاکستان میں سے آئیں گے! اس شکایت کا جواب کوئی نہیں دے سکتا تھا! الیکشن میں عوامی لیگ کو واضح اور غیر متنازعہ اکثریت حاصل ہوئی۔ وفاق میں حکومت بنانا مشرقی پاکستان کا حق تھا۔ انہیں حکومت نہیں بنانے دی گئی تھی۔ قانونی اخلاقی شرعی کسی اعتبار سے مشرقی پاکستان کو حکومت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہ تھا۔کیا وہ لوگ مسلمان نہیں تھے؟ کیا وہ پاکستانی نہیں تھے؟ لیکن انہیں کیا ملا؟ ’’شجاعت‘‘ بھرے یہ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ ہم ان کی نسلیں بدل کر رکھ دیں گے۔ مگر ان سارے حقائق کا علیحدگی سے کوئی تعلق نہیں! علیحدگی تو سازش سے ہوئی۔ ہم تو پکے مسلمان ہیں۔ یہ تو مشرقی پاکستانی تھے جو ہندوئوں کے ہاتھوں کھیلنے لگ گئے۔ اس بات کا کیا جواب دینا ضروری نہیں کہ یہی مشرقی پاکستانی قیام پاکستان کے وقت ہندوئوں کے ہاتھوں میں کیوں نہیں کھیلے؟ وہ حصہ جو مغربی پاکستان بنا، وہاں لاکھوں مسلمان قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ خاکسار، احرار، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے ہند، سب نے پاکستان کی مخالفت کی۔ بنگال میں کوئی ایک مسلمان تنظیم بھی ایسی
نہ تھی جس نے پاکستان کی مخالفت کی۔ یہ ساری باتیں فضول ہیں۔ حقیقت ایک ہی ہے کہ ہم معصوم ہیں اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی سازش کے نتیجہ میں عمل میں آئی۔
ہمارے خلاف ہمیشہ سازشیں ہوئیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ جو ساری ایجادات اہل مغرب نے کیں۔ ہوائی جہاز سے ٹرینز تک، ٹیلیویژن سے انٹر نیٹ تک، پنسلین سے ٹی بی کے علاج تک۔ یہ سب سازش ہی تو ہے! یہ جو آج ہمارے گھروں میں برقی روشنی، اے سی، ٹیلیویژن، انٹرنیٹ، مائیکرو ویو اوون، ڈیپ فریزر اور لائف سیونگ ادویات موجود ہیں۔ یہ جو ہر مسلمان کی جیب میں دو دو موبائل فون بج رہے ہیں تو یہ بھی یہود و ہنود کی سازش ہے۔ امریکہ ہمیں ڈرون ٹیکنالوجی نہیں دے رہا۔ یہ بھی سازش ہے۔ اسے چاہیے کہ یہ ٹیکنالوجی پلیٹ میں رکھ کر، جھک کر پیش کرے اور ساتھ فرشی سلام بھی کرے۔ ہم خود یہ ٹیکنالوجی بنانے سے قاصر ہیں۔ تعلیم کے لیے ہم دوسرے ملکوں سے بہت کم، بہت ہی کم بجٹ مخصوص کرتے ہیں۔ ہزاروں، گھوسٹ سکول قائم ہیں، سینکڑوں سکولوں کی عمارتیں میں وڈیروں کے مویشی بندھے ہیں۔ ملک میں اغوا برائے تاوان کی صنعت دن دونی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ دارالحکومت سے اوسطاً چار گاڑیاں روزانہ چوری ہورہی ہیں۔ ٹیکس نہ دینے والے مجرم حکمرانوں میں شامل ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر ہر لائق شخص ملتان سے آتا تھا۔ آج کل لیاقت کا سرچشمہ لاہور ہے۔ بدبخت کافر انگریز ہمیں ریلوے دے گئے تھے۔ ہم نے بیچ کھائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہم معصوم ہیں۔ ہم لائق ہیں۔ افسوس! ہمارے خلاف سازشوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا! کوئی ہے جو ہماری مدد کرے!

Wednesday, July 03, 2013

کیا ہم اتنے عقل مند ہیں؟

یہ تقریباً ایک سو تیس یا چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ سرسید احمد خاں نے لندن کا سفر کیا۔ وہ اور ان کے ساتھی بحری جہاز سے جنوبی فرانس کے ساحل پر اُترے۔ فرانس کے شمال سے انہوں نے پھر بحری جہاز لینا تھا اور انگلش چینل عبور کرنی تھی۔ ان کے ایک ہم سفر کے پاس ڈھنگ کا لباس نہیں تھا۔ غالباً موسم کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔ کسی نے بتایا کہ یہاں تیار لباس مل جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی ہی دکان میں گئے۔ سرسید بتاتے ہیں کہ وہاں ہر سائز کے لباس موجود تھے۔ ایک مس صاحبہ کائونٹر پر بیٹھی تھیں۔ ان کے ساتھی نے ماپ دیا اور دس پندرہ منٹ کے بعد اُن کے جسم پر نیا لباس تھا جو اس طرح موزوں لگ رہا تھا جیسے انہی کے ماپ کا سیا گیا ہو۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں پوشاک تو کیا‘ ٹوپیاں بھی آرڈر پر تیار ہوتی تھیں۔
ڈیڑھ سو برس ہونے کو ہیں۔ ہم اس معاملے میں ابھی وہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ ایک بہت ہی قلیل تعداد سلی سلائی قمیضیں اور پتلونیں خرید رہی ہے۔ تیار شدہ شلوار قمیض اور کُرتے بھی بازار میں دستیاب ہیں لیکن پاکستان کی کل آبادی کا پانچ دس فیصد یا اس سے بھی کم حصہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو ہمارے کلچر میں یہ رواج ابھی تک نفوذ نہیں کر سکا۔ ماپ کے مطابق آرڈر پر تیار کیا ہوا لباس زیادہ شان و شوکت کی نمائندگی کرتا ہے۔ دوسری وجہ ریڈی میڈ ملبوسات تیار کرنے والوں کی نااعتباری ہے۔ کپڑے کی کوالٹی اکثر و بیشتر ناقص ہوتی ہے۔ لاگت کم کرنے کے لیے یہ لوگ آخری حد سے بھی آگے گزر جاتے ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ پاکستانی بزنس کے میدان میں ہمہ گیر ہے۔ ہمارے تاجر بہت سی ناانصافیاں کر رہے ہیں۔ یہ اُن میں سے محض ایک ہے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ لباس سلوانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ پہلے آپ کپڑا خریدتے ہیں۔ اس کے لیے پورا نہیں تو آدھا دن ضرور وقف کرنا پڑتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آپ ایک ہی دکان پر گئے اور وہاں سے کپڑا خرید کر فارغ ہو گئے۔ ارادہ یہی ہوتا ہے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ ایک دکان سے دوسری‘ دوسری سے تیسری‘ تیسری سے چوتھی۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک بازار سے دوسرے بازار کا اور شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ کپڑا خرید کر گھر آتے ہیں۔ اگر سوتی کپڑا ہے تو اسے پانی میں بھگو کر خشک کیا جاتا ہے۔ اسے شرِنک کرنے کا عمل کہتے ہیں۔ اگلا مرحلہ درزی کے پاس جا کر ماپ دینے کا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جائیں تو اُس وقت درزی دکان میں موجود نہ ہو۔ چلیے‘ ماپ دے کر آ گئے۔ نوّے فیصد امکان اس بات کا ہے کہ درزی نے جو تاریخ اور وقت دیا ہے‘ اُس پر ملبوس تیار ہی نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ صبح جائیں تو وہ شام کو آنے کا کہتا ہے۔ ’’کاری گر چھٹی پر ہیں‘‘، آسان ترین بہانہ ہے۔ آج کل لوڈشیڈنگ بھی تاخیر کی وجہ ہے جو کسی حد تک معقول جواز ہے۔ وجہ جو بھی ہو‘ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ درزی پھیرے نہ لگوائے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کے گھر کی خواتین کے ساتھ درزی کیا سلوک کرتے ہیں؟ ہماری خواتین کو‘ خواہ وہ کسی طبقہ سے ہیں‘ ان پڑھ ہیں یا اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ نئے ملبوسات کا بہت شوق ہے اور یہ شوق بیماری کی حد تک ہے۔ اکثر خواتین نت نئے درزیوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ سہیلیاں ملتی ہیں تو درزیوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ضرور ہوتا ہے۔ پھر ان درزیوں کو‘ خواہ وہ دُور کی آبادیوں ہی میں کیوں نہ ہوں‘ آزمایا جاتا ہے۔ کچھ مردود ٹھہرتے ہیں یعنی رد کر دیے جاتے ہیں۔ کچھ کی کارکردگی پسند آ جاتی ہے۔ ان کی تشہیر جاری رہتی ہے۔ یہ درزی شاید ہی وعدے کی پابندی کریں۔ کھاتی پیتی خواتین کے ڈرائیور ان کی دکانوں کے پھیرے لگاتے ہیں۔ دوسری خواتین خود چکر لگاتی ہیں۔ ’’کل آیئے‘‘، ’’بس پرسوں لے جایئے‘‘۔ ابھی ہمارا کلچر اتنا ترقی یافتہ نہیں ہوا کہ جانے سے پہلے ٹیلی فون کر لیا جائے۔ کریں بھی تو کوئی شاگرد جواب دے گا ’’ماسٹر صاحب خود موجود نہیں اور مجھے آپ کے لباس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں‘‘۔
خواتین کے ساتھ زیادتی کی انتہا وہ دکاندار کرتے ہیں جو شادیوں کے ملبوسات تیار کرتے ہیں۔ اوّل تو اس تبذیر اور حماقت کا جواب نہیں کہ لاکھوں روپے میں جو لہنگا تیار ہوتا ہے وہ دلہن ایک دو گھنٹوں کے لیے زیب تن کرتی ہے اور اس کے بعد باقی زندگی وہ
کسی صندوق یا وارڈ روب میں گزارتا ہے۔ اس مسئلے کو بھی چھوڑیے‘ اُس عذاب کا خیال کیجیے جو شادی والے گھر کی خواتین پر درزیوں کی شکل میں اترتا ہے۔ نئے ملبوسات صرف دلہن کے نہیں‘ دلہن اور دلہا کی رشتہ دار خواتین ساری کی ساری خصوصی پوشاکیں بنواتی ہیں۔ وہ دکاندار اور کاری گر جو گوٹہ کناری‘ سلما ستارے‘ لیسیں لگانے‘ کپڑوں میں سٹون اور نگ ٹانکنے کا کام کرتے ہیں‘ ان کی بے نیازی‘ تغافل اور بے رخی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آج کل شادی کے ملبوسات پر جو خصوصی کام ہوتا ہے اُسے Hammer work یا دَبکی کہا جاتا ہے (خدا جانے یہ کس بلا کا اور کس عمل کا نام ہے)۔ اس موقع پر مردوں کا کردار بس اتنا رہ جاتا ہے کہ رقم فراہم کریں (جس کا درست تخمینہ لگانا ناممکن ہے) اور ڈرائیور کا بندوبست کریں یا خود ڈرائیور کی ڈیوٹی سرانجام دیں۔ اس کے بعد آنکھ مچولی کا ایک طویل کھیل شروع ہوتا ہے۔ جس نوعیت کے کام کا آرڈر دیا جاتا ہے‘ تیار ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ کاری گر نے اپنی طرف سے اس میں تبدیلیاں کر ڈالیں‘ کبھی ملبوس اصل ماپ سے بڑا یا چھوٹا نکل آتا ہے۔ اکثر و بیشتر مقررہ تاریخ پر کام تیار نہیں ہوتا۔ اس امر کا وثوق سے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ درزی اور کاری گر اٹھانوے فی صد خواتین کو پھیروں پر پھیرے لگواتے ہیں۔ ان میں اتنا اخلاق نہیں کہ ٹیلی فون پر تاخیر کی اطلاع دے دیں۔ ایڈوانس رقم لے چکے ہوتے ہیں‘ شکار پھنس
چکا ہوتا ہے‘ کہیں جا نہیں سکتا۔ یہ بداخلاقی اس قدر عام ہے کہ خواتین نفسیاتی طور پر اسے قبول کر چکی ہیں۔ شاید ایک یا دو فی صد مثالیں ایسی ہیں کہ مظلوم خواتین کے مرد آ کر دکاندار سے بات کریں۔ عام طور پر اس کا انجام بھی جھگڑے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ گاہک عملی طور پر یرغمال بن چکا ہوتا ہے۔ شادی کی تاریخ سر پر آ چکی ہوتی ہے۔ ایڈوانس اگر کوئی واپس بھی دے تو اس کا فائدہ نہیں۔ اب اس قلیل مدت میں کہیں سے بھی کام نہیں کرایا جا سکتا۔
اس عذاب اور اس شیطانی دائرے سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے جو عقل مند قوموں نے ڈیڑھ سو سال پہلے تلاش کر لیا تھا۔ ڈیڑھ سو سال کا اندازہ ہم سرسید احمد خان کی دی ہوئی اطلاع کے لحاظ سے لگا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں سال ہو چکے ہوں۔ ہمارے تاجر اگر چند چھٹانک ایمانداری کہیں سے خرید لیں اور کوالٹی کی گارنٹی دینے کے لیے تیار ہو جائیں تو ریڈی میڈ ملبوسات‘ آرڈر پر سلوانے کے رواج کو مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں۔ درزیوں کی بے روزگاری کا سوال اس لیے نہیں پیدا ہوتا کہ ان کی ضرورت ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بہر صورت پڑے گی۔ لیکن آپ اُس آرام اور عزت کا اندازہ لگایئے جب آپ ہر موقع پر‘ ہر قسم کا ملبوس‘ بنا بنایا خرید کر گھر آ جاتے ہیں۔ دس پھیرے لگانے کے بجائے ایک دفعہ ہی میں کام ہو جاتا ہے۔ اَن پڑھ‘ بداخلاق‘ بدمزاج‘ وعدہ خلاف‘ دروغ گو درزیوں اور کاری گروں سے آپ کی جان چھوٹ جاتی ہے۔ تنگ گلیوں اور پُرپیچ راستوں کے آخر میں واقع کھوکھا نما دکانوں پر آپ کو نہیں جانا پڑتا۔ پوری ترقی یافتہ دنیا میں یہی ہو رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اتنے عقل مند ہیں؟

Monday, July 01, 2013

شتر مرغ

وہ دیر کے ایک دور افتادہ گائوں میں پیدا ہوا۔ اس گائوں کے تقریباً سارے مکان کچے تھے۔ سب مرد باریش تھے اور ساری عورتیں سخت پردہ کرتی تھیں۔ سب مردوں کا ایک جیسا لباس تھا۔ شلوار قمیص۔ دس سال کا تھا جب وہ یہاں  آیا۔ چھ سال ہوچکے ہیں۔ دو یا تین سال اور یہیں رہنا ہوگا۔ یہ مدرسہ اقامتی ہے۔ وہ رات دن یہیں رہتا ہے۔ مدرسہ کے ساتھ مسجد بھی ہے۔ وہ مسجد بھی اسی مکتبِ فکر کی ہے جس سے مدرسہ وابستہ ہے۔ وہ یہاں کبھی کبھی اخبار پڑھتا ہے۔ اخبار بھی اسی مکتبِ فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے، سچی بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم دو حصوں میں منقسم ہوچکی ہے۔ دونوں حصے بہت بڑے ہیں۔ جوکوئی اس حقیقت سے اغماض برتتا ہے ، چشم پوشی کرتا ہے، یا اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہے، اس سے حقیقت کے وجود پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
یہ سوال احمقانہ ہے کہ دونوں حصوں میں کون صحیح ہے اور کون غلط۔ یہ انسانوں کا معاملہ ہے۔ ان کے عقائد ، ان کے رویوں، ان کی عقلوں ، ان کے عمل اور ان کے ردعمل کا معاملہ ہے۔ یہ نباتات‘ جمادات اور معدنیات کی سائنس نہیں کہ ایک فارمولے کا یکساں حالتوں پر یکساں اطلاق ہو۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مدرسوں والے غلط ہیں تو وہ غلطی پر ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور بیرون ملک کے بین الاقوامی اداروں سے پڑھ کر آنے والے صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں تو وہ بھی انصاف نہیں کررہا۔ہوسکتا ہے دونوں صحیح ہوں۔ ہوسکتا ہے دونوں غلط ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں کچھ کچھ صحیح اور کچھ کچھ غلط ہوں۔ لیکن یہ سوال ہی غیرضروری ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ قوم دوگروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ یہ تقسیم خوفناک ہے۔ دونوں گروہ بعدالمشرقین پر ہیں ۔ دونوں کا انداز فکر اور انداز زندگی الگ الگ ہے۔ ان کا ایک دوسرے سے سماجی اختلاط برائے نام ہے۔ دونوں گروہ باہم رشتے تک برائے نام ہی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے زیرمطالعہ رہنے والے اخبارات بھی الگ الگ ہیں۔
جو ذہین وفطین تجزیہ کار کہتے پھرتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان محض چند ہزار مسلح نفوس پر مشتمل ہے اور ملک کی باقی آبادی میں اس کا نفوذ نہیں ہے، وہ یا تو بچوں جیسی بات کررہے ہیں یا دوسروں کو بچہ سمجھ رہے ہیں۔ آبادی کے بہت بڑے حصے کی تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ دینی ہم آہنگی ہے اور یہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ تحریک طالبان پاکستان جمہوری نظام کی دشمن ہے۔ ملک میں لاکھوں کروڑوں لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کا متبادل کیا ہے۔ وہ عباسیوں اور عثمانی ترکوں کی موروثی ملوکیت کو خلافت سمجھتے ہیں اور یہ بات قابلِ دست اندازی پولیس نہیں کہ ان کو پکڑ لیا جائے۔ ہمارے کئی کالم نگار دوست جمہوریت اور انتخابات کے خلاف کالموں پر کالم لکھ لکھ کر آبادی کے اس حصے سے دادوتحسین کے  ڈونگر ے وصول کرتے ہیں۔ دودن پیشتر لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز نے فیصل آباد کے گائوں 64ج ب میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن اور غازی عبدالرشید کے مشن کو آگے بڑھانا ہے۔ مولانا اس جلسہ کے واحد مقرر اورواحدسامع نہیں تھے۔ وہاں ہزاروں کی تعدادمیں لوگ ان کے حامی تھے۔
گزشتہ ہفتے جناب حافظ سعید نے برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر اور سید منور حسن نے شام کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان محترم بزرگوں نے پاکستان میں ہرروز درجنوں مسلمانوں کے قتل عام کا کوئی تذکرہ نہیں فرمایا لیکن یہ اکیلے نہیں ہیں۔ لاکھوں پاکستانی ان کے خیالات کی تائید کرتے ہیں۔ ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو وڈیو اور فلموں کی دکانیں جلانے کودرست قرار دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کی مسلح جدوجہد کو وہ درست نہیں سمجھتے لیکن آبادی کا بہت بڑا حصہ ان کے نظریات کو درست قرار دیتا ہے۔ کل ہی ایک عزیز نے‘ جووکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں‘ بتایا کہ ان کا ایک موکل ہراس وکیل سے احتراز کرتا ہے جس کی ظاہری شکل وصورت بقول اس کے، اسلامی نہیں ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں کہ متشرع وضع قطع والا شخص معاملات میں کیسا ہے۔ آپ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے مائنڈ سیٹ سے، انداز فکر سے، اتفاق کریں یا اختلاف، اس سے انکار کیسے کریں گے کہ یہ مائنڈ سیٹ بہرطور موجود ہے اور ایک حقیقت ہے۔
ہم نے دیر سے تعلق رکھنے والے طالب علم کی مثال دی ہے۔ مدارس میں سب طالب علم غریب نہیں۔ ان میں امیر خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی ہیں۔ مڈل کلاس والے بھی ہیں کچھ کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں اور ان کے کمروں میں ایئرکنڈیشنر لگے ہوئے ہیں۔ آپ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے خیالات سے لاکھ اختلاف کریں لیکن انہیں اپنے خیالات ونظریات پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے۔ آٹھ دس سال تک رات دن مدرسہ میں رہنے والا اور صرف ایک مخصوص مکتب فکر کے لوگوں سے میل جول رکھنے والا طالب علم جب عملی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو مختلف عقائد‘ مختلف لباس اور مختلف وضع قطع رکھنے والے لوگوں کو ذہنی طورپر قبول کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور اکثر کو کافر سمجھتا ہے۔ بعید نہیں کہ مسلح جدوجہد پر بھی اُتر آئے، یہ سب کچھ حقیقت ہے۔ اس
حقیقت کی موجودگی سے انکار کرنے والا عقل مند نہیں ہوسکتا!
 سوال یہ نہیں ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت کی جائے یا نہ کی جائے۔ یہ بھی اہم مسئلہ نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے مسلح افراد، جنگ جوئی نہ کریں تو کیا کاروبار، کھیتی باڑی اور ملازمتیں کرسکیں گے؟ یہ قلیل المیعاد (شارٹ ٹرم) مسائل ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک نظریاتی طورپر دوگروہوں میں منقسم ہوچکا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو سلام کرکے موسم کا حال پوچھ بھی لیں تو دلوں میں میل ہے۔ ایک گروہ اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ ’’سیکولر ‘‘ تعلیم حاصل کرنے والے اسلام سے نابلد ہیں۔ دوسرا گروہ سمجھتا ہے کہ ظاہر کو اہمیت دینے والے اسلام کی روح سے دور ہیں اور یہ کہ جمہوریت کو غیراسلامی سمجھنے والے متبادل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ دونوں گروہ پاکستانی ہیں۔ دونوں کو اپنے اپنے نظریات پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے۔ اگر مسلح جدوجہد کرنے والے پُرامن راستے پر چل بھی پڑیں تو نظریاتی بُعد پھر بھی جہاں ہے، وہیں رہے گا۔
یہ بُعد‘یہ فاصلہ‘یہ خلیج پاکستان کی اصل دشمن ہے۔ اس خلیج کو کیسے پاٹا جائے؟یہ بُعد، قربت میں کس طرح تبدیل ہو؟ یہ فاصلہ کیسے مٹے؟ اس کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ پانچ ، دس، پندرہ سال پر محیط منصوبہ بنانا ہوگا۔ ایسامنصوبہ جو دونوں گروہوں کے لیے قابل قبول ہو‘ لیکن شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ دونوں گروہ حقیقت ہیں اور حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔
 

powered by worldwanders.com