Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, May 31, 2013

ترَحَّم یا نبیَ اﷲ ترَحَّم

                                                       تابستان ایسا نہیں ہوتا تھا جیسا اب ہے۔ سال کے وسطی مہینے مغربی پنجاب کے آخری ضلع کی اس بستی میں جو فتح جنگ سے پندرہ میل آگے ہے‘ آرام دہ نہیں ہوتے تھے۔ پنکھا کیا ہوتا کہ بجلی ہی نہ تھی۔ ہم اس حویلی کے صحن میں جو دراصل ہمارا مہمان خانہ تھا، کیکر کے درختوں کے نیچے چلتے سائے کے ساتھ ساتھ بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹتے۔ ہوا چلتی رہتی کبھی کھیل اور کبھی پڑھائی جاری رہتی۔ گائوں جانے اور رہنے کا شوق پاگل پن کی حد تک تھا۔اقبال نے جیسے یہ شعر اسی قریے کے بارے میں کہا تھا۔   ؎
میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جائوں کہاں
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک
لیکن اس شخص کی‘ جو اسلام آباد کے گورستان میں قرآن سینے میں ڈالے اور سر کی جانب سنگ مرمر کی وہ لوح ایستادہ کیے جو شاعرنغز گو معین نظامی نے لاہور کے خطاط سے لکھوائی تھی‘ شرط یہ ہوتی تھی کہ گرما کی تعطیلات میں تم اپنے دادا سے فارسی کی کلاسیکی شاعری پڑھو گے۔ ہر سال گرما کی تعطیلات وہاں گزرتیں۔ دو یا اڑھائی ماہ یہ سلسلہ چودہ سال چلا۔ پہلی جماعت سے چودھویں جماعت تک۔ یہاں تک کہ سعدیٔ ثانی کہلانے والا بابا اپنی لائبریری، گھوڑی، زینیں اور برچھیاں چھوڑ کر اس قبرستان میں جا سویا جہاں ایک پورا حصہ اس کے طلبا کی قبروں کے لیے مخصوص تھا‘ جہاں درختوں پر لوگ رنگین کپڑوں کے چیتھڑے لٹکا دیتے تھے اور دیے جلاتے تھے۔
چودہ سال‘ گرما کی تعطیلات‘ کلاسیکی شاعری، بوستان سعدی اور گلستان سعدی کے بعد جامی کی یوسف زلیخا جو اس کے خمسے کا نشان امتیاز ہے۔ پھر سکندر نامہ برّی جو اس گنجہ کے نظامی نے لکھا جس گنجہ میں مہستیؔ جیسی بے خوف اور جدید شاعرہ رہتی تھی۔ پھر نظامی کی مثنوی مخزن اسرار، پھر امیر خسرو کی مطلع انوار، پھر جامی کی تحفۃالاحرار اور پھر مثنوی رومی کے کچھ حصے۔ سبق سے پہلے پوری تیاری کرنا ہوتی جسے ’’مطالعہ‘‘ کہتے۔ متن کے تین طرف پھیلا ہوا حاشیہ اورکتاب کی شرح الگ۔ یہ ا ور بات کہ حاشیہ اور شرح سب فارسی ہی میں ہوتی۔ دادا سے پڑھنا تو آسان تھا، وہ کتاب دیکھے بغیر متن کا شعر بھی خود پڑھ دیتے اور ترجمہ بھی کر دیتے، لیکن والد گرامی سے پڑھنا جان جوکھوں کا کام ہوتا۔ شعر پڑھتے وقت اضافت اور بحر غلط نہ ہو۔ پھر ترجمہ بھی خود ہی کرنا ہوتا اور تشریح بھی _____ یوں بھی ہوتا کہ شعر قابو میں نہ آتا۔ انہوں نے نہ بتانے کی قسم کھائی ہوئی ہوتی، یہاں یہ حال کہ ڈر کے مارے شعر پر انگلی پھیر پھیر کر کاغذ پھٹنے کے قریب ہوجاتا!
جیسے ہی موقع ملتا، کھیلنے نکل جاتے۔ ہرارہ، آسام اور کابل تک سے آئے ہوئے طلبا، کتابیں بغل میں دابے، چادریں سروں پر رکھے دور میدان میں پہنچ جاتے۔ والی بال کھیلا جاتا، یا دوڑ کے مقابلے ہوتے، چلچلاتی دوپہروں میں جب سب سوئے ہوتے، ہم لڑکے درختوں کے اس جھنڈ کا رخ کرتے جس کی بغل کے مکانوں میں کبوتروں کے کچھ انڈوں اور نئے بچوں کا شہرہ ہوتا۔ بڑے حجم کے لمبی ٹانگوں والے چیونٹے سخت تپتے ہوئے صحن میں ساری دوپہر دوڑتے پھرتے۔ چھپر تلے رکھی گھڑونچی کے نیچے ٹھنڈی ریت پر پڑی دیگچی میں سے بالائی چُرا کر کھانے کا اپنا مزہ ہوتا۔ رنگ رنگ کے دیسی خربوزے‘ سیروں یا منوں کے حساب سے نہیں، گدھوں کے حساب سے آتے یعنی ایک گدھا جتنے اٹھا سکتا۔ اس پر کالے رنگ کی بوری یوں لادی جاتی کہ وزن دونوں طرف برابر ہوتا۔ پھر برسات آجاتی۔ نیم کوہستانی
ندیاں بپھر جاتیں اور انہیں پار کرنے کے لیے گھوڑوں سمیت کنارے پر انتظار کرنا پڑتا لیکن یہ سارا احوال طوالت چاہتا ہے اور زیر تکمیل خود نوشت میں آرہا ہے۔ اس وقت جو کیفیت پڑھنے والوں کے ساتھ بانٹنی ہے وہ اور ہے!
دو دن پیشتر ذات اقدسؐ کے حوالے سے جو عاجزانہ تحریر عرض گزاری‘ اس میں جامی کے خراج تحسین کا ذکر تھا۔ وہ ذات اقدسؐ کو سورج اور عام سورج کو صبح کہتے ہیں۔ جس طرح صبح روشنی سورج سے لیتی ہے اسی طرح سورج روشنی ذات اقدسؐ سے اخذ کرتا ہے۔ اچانک جامی کا ایک بھولا بسرا مصرع  برسوں کیا عشروں کی گرد دھوتا‘ ذہن میں پلٹ آیا۔ ان دنوں جب یہ حصہ سبقاً پڑھا  تو یہ مصرع ورد زبان رہتا۔  ع
برون آور سر از بردِ یمانی
 کیفیت بدل گئی۔ جامی کی مثنوی کا وہ نسخہ تلاش کیا جو اُس وقت ایک لحاظ سے ٹیکسٹ بک کی حیثیت رکھتا تھا۔ مجلد نسخے پر 1961ء کے اخبار کا کاغذ چڑھا تھا جب طالب علم آٹھویں جماعت میں اور تیرہ برس کا تھا۔ وہ صفحہ نکالا جس پر یہ مصرع تھا۔ پھر پوری نعت پڑھی۔ پھر دوسری مرتبہ، پھر تیسری مرتبہ، پھر چوتھی مرتبہ، شام آئی اور گزر گئی، رات آ کھڑی ہوئی۔ جتنی بار پڑھی، یوں لگا، پہلی بار پڑھی۔ اپنی محرومی اور غیر سعادت مندی پر شرم آتی رہی اور جامی کے بخت پر رشک آتا رہا۔ نعت کیا ہے، فریاد ہے۔ منت اور زاری ہے۔ الفاظ ہیں کہ الہام ہیں۔ جس کے دل میں بھی یہ تمنا ہے کہ خاکِ پائے مقدس کو آنکھوں کا سرمہ بنائے، اس کے لیے یہ کیا ہی خوبصورت ارمغان ہے! دل تھامیے اور پڑھیے۔
ز مہجوری برآمد جانِ عالم
تَرحَّم یا نبیَ اﷲ! تَرحَّم
آپ کے ہجر میں پورے عالم کی جان نکلی جارہی ہے، رحم فرمایئے! اے اللہ کے نبی رحم!!
نہ آخر رحمۃُ للعالمینی
ز محرومان چرا غافل نشینی
آپ تو سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ پھر  اپنے محروموں سے یہ بے نیازی کیوں؟
برون آور سر از بردِ یمانی
کہ روئی تست صبح زندگانی
یمنی چادر سے سرِمبارک باہر نکالیے۔ آپ کا رخِ انور ہی تو زندگی کی صبح ہے۔
شبِ اندوہِ مارا روز گردان
ز رویت روزِ ما فیروز گردان
ہماری غم و درد کی رات کو دن میں ڈھال دیجیے اور چہرۂ مبارک سے ہمارے دن کو کامیاب فرما دیجیے۔
بہ تن درپوش عنبر بوئی جامہ
بسر بر بند کافوری عمامہ
جسم اطہر پر خوشبو دار پوشاک پہنئے اور سرِ مبارک پر سفید عمامہ باندھیے!
ز حجرہ پائی در صحنِ حرم نِہ
بفرقِ خاکِ رہ بوسان قدم نِہ
پھر حجرۂ مبارک سے صحنِ حرم میں پائوں رکھیے، جو غلام آپ کے راستے کی مٹی کو چومتے ہیں ان کے سروں پر قدم رکھیے۔
تو ابرِ رحمتی! آن بہ کہ گاہی
کُنی برحالِ لب خشکان نگاہی
آپ ابر رحمت ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کبھی ان پر نگاہ کرم فرمایئے جن کے ہونٹ سوکھ گئے ہیں۔
چو ہولِ روزِ رستاخیز خیزد
بآتش آبروئی ما نریزد
قیامت کے دن کا جب خوف شروع ہوگا تو کہیں ہماری آبرو جہنم کی آگ کی نذر نہ ہوجائے۔
ایک دن اور ایک رات یہ اشعار زبان پر رواں رہے۔ دنیا کی آلائشوں اور تکاثر کی دوڑ میں کب سوچنے کی توفیق ہوئی کہ آپ ؐ کے احکام کیا ہیں اور آپ کی رضا کیا چاہتی ہے؟ فلپائن کے جزائر سے لے کر کشمیر کے پہاڑوں تک۔ بصرہ و بغداد کے تاریخی کوچوں سے لے کر فلسطین کے غلام آباد تک۔ سب خائب و خاسر ہیں اور پھر بھی ذاتِ والاؐ کے احکام سے مکمل روگردانی!! کاش صرف جھوٹ بولنا ہی چھوٹ جائے، کاش صرف وعدہ خلافی ہی سے تائب ہوجائیں!   ؎
ہر اک محاذ پر لشکر تباہ اُمت کے
حضورؐ! ختم ہوں یہ دن سیاہ‘ اُمت کے
حضورؐ! آپ پہ قربان ہوں مرے ماں باپ
بدل بھی دیجیے شام و پگاہ اُمت کے
غلام جمع ہیں، میدان حشر ہے اظہارؔ
چھپے ہوئے ہیں کہاں کجکلاہ اُمت کے

Wednesday, May 29, 2013

روحانیت کا واحد سرچشمہ ذاتِ مصطفیؐ ہے

شریعت شریعت نہیں ہو سکتی جب تک اس کا ایک ایک ذرہ‘ ایک ایک رمق، ایک ایک انگ اس مقدس ہستی کا تابع فرمان نہ ہو جس کا نام نامی محمدؐ ہے اور جو طہٰ ہے اور یسٰین بھی! وہ طریقت کیا ہدایت دے گی جس کے سوتے نورِ محمدؐ سے نہ پھوٹتے ہوں۔ جو تصوف اپنی منزل رسول مکرمؐ کی تعلیمات کو نہیں بنا پائے گا وہ صرف گمراہی کی طرف لے جائے گا اور وہ روحانیت جو ہر دروازے پر لے جائے سوائے درِ رسولؐ کے وہ روحانیت سادھو یا جوگی تو بنا سکتی ہے، شعبدہ بازی تو سکھا سکتی ہے صوفی نہیں بنا سکتی! سعدی نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا:   ؎
عزیزی کہ از درگہش سر بتافت
بہر در کہ شُد ہیچ عزت نہ یافت
جس نے اس کے دروازے سے رخ پھیرا، جس دروازے پر بھی گیا، عزت نہ پا سکا۔
نظامی گنجوی نے کہ خمسہ لکھ کر ہمیشہ کے لیے نام باقی رکھ لیا‘ بات ہی ختم کردی :   ؎
احمدِ مُرسَل کہ خرد خاکِ اُوست
ہر دو جہاں بستۂ فتراکِ اُوست
احمدؐ مجتبیٰ جنہیں رسول بنا کر بھیجا گیا، خرد تو ان کے قدموں کی دُھول ہے۔ دونوں جہاں آپ کے فتراک کے ساتھ بندھے ہیں۔
صوفیوں کے صوفی عبدالرحمن جامیؔ اپنی شہرۂ آفاق مثنوی تحفۃ الاحرار میں نعتوں پر نعتیں لکھتے جاتے ہیں اور تسلی نہیں ہوتی۔ نعت اول، وجود روحانیﷺ پر‘ نعت دوم صفت معراج پر، نعت سوم معجزات رسالت پر اور کہتے ہیں کہ زبان معجزات رسالت مآبؐ کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔ کیا شانِ مصطفیؐ ہے کہ جامی جیسا قادر الکلام شاعر جو اپنے وقت کا نابغہ ہے اور عبقری ہے، اپنے زور بیان اور قدرت کلام کو عاجز پاتا ہے! پھر نعت چہارم لکھتے ہیں اور اس کا عنوان رکھتے ہیں در اقتباس نور۔ پھر نعتِ پنجم لکھتے ہیں اور اس میں گناہ گاروں کے لیے شفاعت کی بھیک مانگتے ہیں۔ ذرا نعت کا رنگ دیکھیے اور سر دھنیے:    ؎
اُو چو خور و صبح وَی است آفتاب
صبح زخورشید بود نُور یاب!
گر نہ فروغی ز رُخش تافتی
صبح وَی این نور کجا یافتی
آپؐ ہی تو سورج ہیں اور یہ جسے ہم سوج کہتے ہیں یہ تو صبح ہے۔ صبح روشنی کے لیے سورج کی محتاج ہے۔
اگر چہرۂ مبارک سے روشنی نہ پاتی تو صبح کے پاس یہ تابندگی کیسے ہوتی!
پھر روحانیت کے روشن ستارے امیر خسروؒ کو دیکھیے۔ سات بادشاہوں کے دربار سے وابستگی اطمینان نہ دے سکی اور آخر کار حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ فرماتے ہیں کہ تصوف کی اصل تو ذاتِ اقدسﷺ ہے:
ہر سخنش کاصلِ مسلمانی است
حاشیئہ   نامۂِ   ربانی      است
آپؐ کا ہر ارشاد مسلمانی کی اصل ہے اور اس خط کا حاشیہ ہے جو اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ پھر دعا مانگتے ہیں:    ؎
باد ہمیشہ رہِ ما سوئی او
سرمۂ ما خاکِ رہِ کوئی او
خدا کرے ہمارا راستہ ہمیشہ آپؐ کی طرف جائے۔ آپ کے کوچے کی مٹی ہمارے لیے سرمہ ہے۔
ایک طرف تو یہ صوفیا ہیں اور دوسری طرف میڈیا کے شائق آج کل کی ’’روحانی‘‘ شخصیات جو اعلان کرتی پھرتی ہیں کہ ہم صحرائوں جنگلوں میں بھٹکتے پھرے اور در در سوال کرتے رہے! ان کی ساری تلاش اور سارے سفر میں اگر نہیں ہے تو بس درِ رسولؐ کا ذکر نہیں۔ پیر رومی کے مریدِ ہندی‘ اقبالؔ نے اسی لیے تو متنبہ کیا تھا:    ؎
بمصطفیٰ برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر باُو نہ رسیدی تمام بو لہبی ست
اپنے آپ کو مصطفیؐ تک پہنچائو کہ سارے کا سارا دین آپؐ ہی ہیں۔ ورنہ تو تمہارے پاس ابو لہبی رہ جائے گی!
بدقسمتی سے آج کل روحانیت اس کو سمجھا جاتا ہے کہ کوئی آپ کے ماضی سے پردہ ہٹا دے اور گزرے ہوئے کچھ واقعات بتا دے یا پھر مستقبل کی پیش گوئیاں کردے۔ ان پیش گوئیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ جو شخص یہ بتانے کا دعویٰ کرے کہ آپ بیرون ملک کب جائیں گے؟ ایم این اے کب ہوں گے؟ فلاں صدر یا فلاں وزیراعظم کب رخصت ہوگا‘ وہی روحانیت کا سرچشمہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ منڈی اس قبیل کی ’’روحانی‘‘ شخصیات کی بہتات سے چھلک رہی ہے۔ ان کے پیچھے پیچھے نجومیوں، زائچہ فروشوں، فال نکالنے والوں اور پامسٹوں کے قافلے اپنے اپنے علم اٹھائے بگل بجاتے چلے آرہے ہیں۔ اللہ والوں کی سب سے بڑی نشانی ہر زمانے میں یہ رہی ہے کہ وہ اپنی تشہیر نہیں کرتے‘ خلق سے کنارہ کش ہو کر رہتے ہیں اور خالق کے ساتھ اپنے تعلق کو مخلوق کے ہاتھ فروخت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کا حال تو یہ تھا کہ جب ایک اللہ والے نے یہ وصیت کی کہ میرا جنازہ وہ پڑھائے جس میں فلاں فلاں اوصاف ہوں تو دوسرے اللہ والے نے جو ان شرائط پر پورا اتر رہا تھا شکوہ کیا کہ ’’امروز پیشِ خلق مرا رسوا کردی‘‘۔ آج تو نے مجھے لوگوں کے سامنے ظاہر کرکے رسوا کردیا اور یہاں تو عالم ہے کہ ’’روحانیت‘‘ باقاعدہ انڈسٹری کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ نشستوں کے باقاعدہ اشتہار شائع ہوتے ہیں۔ ویب سائٹس بنی ہوئی ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں مضامین لکھے اور لکھوائے جاتے ہیں۔ پھر ساتھ کتابوں کا کاروبار ہے جو لاکھوں کا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ حضرت! اگر مطلوب و مقصود اصلاح خلق ہے تو پبلشر سے کیا معاملات طے کرنے! مریدانِ باصفا کو حکم دیجیے کہ چھاپ کر مفت بانٹیں لیکن قصہ وہی ہے جو ناصر کاظمی نے کہہ دیا تھا :    ؎
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیادار بھی
جب دنیا ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے بھٹک رہی تھی کہ انسان کون ہے؟ کیا ہے اور کیوں ہے؟ تو خالق نے رحم کیا اور ان سوالات کے مہیب جنگل سے نکالنے کے لیے اپنے آخری رسولؐ کو بھیجا اور ساتھ اپنی کتاب عطا کی۔ ان سوالات کا جواب انسان کے بس میں ہوتا تو وہ وحی کا محتاج نہ ہوتا۔ علوم کا منبع ذات محمدؐ ہے۔ آپؐ قرآن پاک کی مجسم تفسیر ہیں۔ اس کائنات کے سربستہ راز اور انسان کی تخلیق اور فنا کے اسرار آپؐ کی ہدایت کے بغیر کھل ہی نہیں سکتے۔ اگر کوئی ایسے راستے کی تلاش میں ہے جو آپؐ نے نہیں دکھایا تو اس راستے پر چل کر ضلالت تو سامنے آسکتی ہے، عقدہ کوئی نہیں کھل سکتا!
رسالت مآبؐ نے اولیاء اللہ کی جو نشانیاں بتائی ہیں وہ قرآن کی زبان میں دو ہیں۔ ’’یاد رکھو جو لوگ اللہ کے ولی ہیں نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ (یونس 63-62) قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں کہ امت کے افراد کو یہ درجۂ ولایت رسول اکرمؐ کے فیض ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔
شریعت نے جو اعمال کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا ہے وہ دو قسم کے ہیں۔ کچھ کا تعلق ظاہر سے ہے جیسے کلمہ پڑھنا، نماز ، روزہ، زکوٰۃ، حج۔ ظاہری برائیاں زنا، چوری، رشوت وغیرہ ہیں۔ کچھ کا تعلق باطن سے ہے۔ یہ اوصاف دو قسم کے ہیں۔ محمود اور مذموم۔ محمود اوصاف میں صبر، شکر، صدق، توکل، محبت اور عجزو انکسار ہے۔ مذموم اوصاف کو اخلاق ذمیمہ بھی کہتے ہیں اور رذائل بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں جھوٹ، غیبت، اسراف، بخل، بغض، تکبر، منصب پسندی، حب دنیا، حسد، ریا، شہوت، غصہ، حرص اور اپنے کمال یا لیاقت کو اپنا کارنامہ سمجھنا شامل ہے۔ ان رذائل سے نجات حاصل کرنے ہی کو روحانیت کہتے ہیں اور اس میں وہی اللہ کے بندے کام آسکتے ہیں جو اپنی تشہیر سے بے نیاز ہوں۔ رومی نے کہا ہے:    ؎
دستِ ہر نااہل بیمارت کند

ِ سوئی مادر آ کہ تیمارت کند
نااہل تجھے اور بیمار کردیں گے۔ تیری تیمار داری صرف ماں کرسکتی ہے۔ روحانیت کے سارے سر چشمے ذات اقدسؐ سے پھوٹتے ہیں۔
اللہ کے بندو! ان دکانداروں سے ہوشیار رہو جو گلی گلی پھر کر منجی پیڑھی ٹھکا لو کی آوازیں لگا رہے ہیں!


Tuesday, May 28, 2013

صدر زرداری اور جمشید دستی… دو مکاتب فکر

پاکستانی پنجاب کے پہلے وزیراعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ تھے۔ مسلم لیگ کے صوبائی صدر بھی وہی تھے۔ ممتاز دولتانہ اور شوکت حیات دونوں ان کی کابینہ میں شامل تھے۔ کچھ ہی عرصہ میں دونوں حضرات کے وزیراعلیٰ سے اختلافات شروع ہوگئے اورضلعی سطح تک پھیل گئے۔ قائداعظم نے تینوں کو کراچی طلب کیا اور سمجھایا۔ واپسی پر کچھ عرصہ بعد حالات پھر اسی نہج پر آگئے۔ مئی 1948ء میںمیاں ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات خان دونوں نے ممدوٹ صاحب کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد حالات خراب تر ہوگئے۔ باہمی مناقشت اور سازشوں نے رسہ کشی کو تیز تر کردیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دوسرے کے بلائے ہوئے اجلاسوں کو خراب کرنے کیلئے غنڈے استعمال ہونے لگے۔ لیاقت علی خان جنوری 1949ء میں اوپر آئے تو دولتانہ نے انہیں ایک فہرست دکھائی۔ اس میں پنجاب اسمبلی کے 42ارکان کے نام اور دستخط تھے۔ پنجاب اسمبلی کے کل 81ارکان میں سے 40 وہ تھے جنہوں نے دولتانہ کی حمایت کا یقین دلایا تھا۔ نواب ممدوٹ نے بھی اپنے حمایتیوں کی فہرست پیش کی۔ اس پر 44 ارکان کے دستخط تھے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ سات ارکان کے دستخط اور نام دونوں فہرستوں پر موجود تھے! چاہیے تو یہ تھا کہ اسمبلی اجلاس بلایا جاتا اور پاکستانی سیاست کے ان پہلے سات لوٹوں کو برہنہ کیا جاتا تاکہ آنے والے زمانے ان سے عبرت پکڑتے لیکن افسوس! صد افسوس ایسا نہ ہوا۔ اس کے بجائے ایک اور ہی کھیل کھیلا گیا۔ گورنرنے ممدوٹ کی وزارت اعلیٰ ختم کرا دی۔ صوبائی اسمبلی تحلیل کردی اور گورنر راج نافذ کردیا۔
اب اس سیاق و سباق میں حالیہ الیکشن کے بعد کی ایک خبر پڑھیے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک نومنتخب عوامی نمائندے نے ق لیگ میں شمولیت کا ڈیکلیریشن دینے کے بعد نوازشریف اورشہباز شریف سے بھی ملاقات کی اور انہیں بھی ن لیگ میں شمولیت کے لیے ڈیکلیریشن دے دیا ہے۔
دو کشیتوں میں بیک وقت سوار ہونے کی خواہش اور کوشش کا سبب ایک ہی ہے۔ ہر حال میں برسراقتدار گروہ سے تعلق قائم رکھنا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا کسی نظریے پر یقین نہیں۔ ایسی باتوں پر یہ حضرات نجی محفلوں میں ہنستے ہیں۔
یہ کھیل پاکستان میں بارہا کھیلا گیا۔ دن کو ہمایوں کے سامنے دست بستہ کھڑا رہنے اور رات کو شیرشاہ سوری کے پڑائو میں جانے کا فن پرانا ہے اور نہ جانے برصغیر کے مسلمانوں میں کب سے ہے۔جذبات کی محکومی میں زندگی گزارنے والے ہم قابل رحم لوگ‘ حقیقت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتے۔ ایرانی، تورانی اور افغانی جو کھیل کھیل رہے تھے‘ اس سے تنگ آ کر ہی تواکبر نے راجپوتوں کی طرف دیکھنا شروع کیا تھا۔ بیرم خان کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اس پر اکبر حیران تو ہوتا ہوگا۔ وہ سب سردار، خان، مولوی اور پیر جو اس کے دسترخوان سے فیض یاب ہوتے تھے، ایک وقت آیا کہ ساتھ چھوڑ گئے اور وہ شخص جس نے ہمایوں کو ایران لے جا کر پناہ اور مدد دلوائی تھی اور جس نے ہیموں بقال کی ایک لاکھ فوج کو شکست دے کر اکبر ،جو ابھی بچہ تھا، کا اقتدار مستحکم کیا تھا، چند درجن وفاداروں کے ساتھ جان بچاتا پھر رہا تھا ۔اگر اس خطے کے مسلمانوںکی نفسیات سمجھنا ہو اور ری پبلکن پارٹی، کونسل مسلم لیگ، کنونشن لیگ اور قاف لیگ کی تحلیل نفسی کرنا ہو اور اس امر پر غورکرنا ہو کہ 2008ء میں پیپلزپارٹی اور 2013 ء میں مسلم لیگ نون میں گروہوں کے گروہ کیوں شامل ہورہے ہیں تو ملا پیر محمد ایک ایسا کردار ہے جس کا مطالعہ
 نہ صرف یہ کہ دلچسپی سے خالی نہیں بلکہ ممد بھی ہے۔
ایران سے واپسی پر ہمایوں نے پہلے قندھار فتح کیا تھا اور کچھ عرصہ وہاں رہا تھا۔ بیرم خان دست راست تھا۔ ایک دن ایک مفلوک الحال قلاش طالب علم، کتاب بغل میں دبائے، بیرم خان کے حضور پیش ہوا۔ بیرم خان نے اس میں ذہانت دیکھی اور اخلاص بھی اورپیر محمد کو اپنے وابستگاں میں شامل کرلیا۔ زمانہ کروٹیں لیتا رہا۔ ہمایوں نے ہندوستان کا تخت دوبارہ حاصل کرلیا۔ اکبر تخت نشین ہوا تو بچہ تھا۔ اصل اقتدار بیرم خان کے ہاتھ میں تھا۔ ملاّ پیر محمد کو بیرم خان نے امیر الامراء اور خان بنا دیا۔ پورے چالیس برس ملاّ، بیرم خان کی حضوری میں رہا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ملاّ کی عیادت کے لیے بیرم خان اس کے گھر آیا تو دروازے پر کھڑے ازبک غلام نے اندر جانے سے روک دیا۔ جب بیرم خان کا ستارہ گردش میں آیا تو یہی ملاّ پیر محمد تھے جنہوں نے بیرم خان کو ہندوستان سے نکالنے اور حج بھیجنے کی مہم سنبھالی یہاں تک کہ بیرم خان نے اکبر کو خط لکھا کہ مجھے قتل کرنے کے لیے جو فوج مامور کی گئی ہے اس کی قیادت کم از کم اس نمک حرام کو تو نہ دیجیے۔
لوٹا سازی کی صنعت کو زوال سے دوچار کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انتخابات باقاعدگی سے ہوں۔ ووٹ دینے والے امیدواروں کو پرکھیں۔ مروت کریں نہ لحاظ ،نہ کسی قسم کی رعایت، تعلیم میں بھی اضافہ ہو اور زرعی اصلاحات بھی ہوں تاکہ کوئی کسی کا ہاری ہو نہ مزارع اور نہ ہی ووٹ دینے کے سلسلے میں اپنے چودھری یا خان یا سائیں کے حکم کا پابند ہو ۔ لیکن آج کے منظر نامے پر اس سے بھی زیادہ نمایاں مسئلہ پیپلزپارٹی کا انجام  ہے جس سے وہ سندھ کو چھوڑ کر پورے ملک میں دوچار ہوئی ہے۔
 کیا پیپلزپارٹی کی راکھ سے کوئی چنگاری دوبارہ اٹھ سکتی ہے؟ اس کا انحصار اس تشخیص پر ہے جو اس ضمن میں کی جارہی ہے۔ اب تک دو مکاتب فکر سامنے آئے ہیں۔ ایک مکتب فکر کی نمائندگی صدر آصف علی زرداری نے کی ہے۔ وہ شکست کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
انتخابات میں سازش کے تحت پیپلزپارٹی کو ہرایا گیا۔ کچھ عالمی اور کچھ مقامی اداروں نے سازش کی۔ الیکشن کے معاملات شفاف طریقے سے نہیں چلے۔ وسیع پیمانے پر گڑبڑ ہوئی ہے۔ عالمی طاقتیں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خطے کی طاقتوں سے بڑھتے تعلقات اور روابط سے خوش نہیں تھیں اور اسی وجہ سے ان کی جماعت کو ہرایا گیا۔
اس تشخیص کے بعد آصف زرداری علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں چار اشخاص پیپلزپارٹی کو دوبارہ منظر عام پر لا سکتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں:
’’میں لاہور میںڈ یرے لگائوں گا ۔صدارت سے فارغ ہونے کے بعد تنظیم پر توجہ دوں گا۔ بلاول پنجاب کی سیاست کریں گے۔ آصفہ اور بختاور بھی سیاست میں آنا چاہتی ہیں۔ تینوں بچے سال تک سیاست میں آ جائیں گے۔‘‘
صدر زرداری اور ان کے تینوں بچے پیپلزپارٹی کے سفینے کو منجدھار سے نکال کر کنارے پر لا سکیں گے یا نہیں؟ یہ بات اگلے دو تین سال میں معلوم ہوجائے گی۔ وقت بتا دے گا کہ صدر زرداری کی تشخیص اور علاج درست ہیں یا نہیں۔ تاہم ایک اور مکتب فکر بھی موجود ہے۔ اس کی بہترین نمائندگی جمشید دستی نے کی ہے۔ وہ الیکشن سے کچھ دن پہلے تک پیپلزپارٹی میں تھے اس لیے انہیں پیپلزپارٹی سے دشمنی اور بدخواہی پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ جمشید دستی کہتے ہیں:
’’ میں نے 2009ء میں یوسف رضا گیلانی کی موجودگی میں صدر آصف علی زرداری سے کہا تھا کہ یوسف رضا گیلانی، ان کا پورا خاندان اور وزراء کرپشن کی انتہا پر جارہے ہیں جس سے خطرناک حالات پیدا ہوں گے۔ اس وقت گیلانی اور ان کی کرپٹ ٹیم نے بُرا منایا۔ خود زرداری نے بھی بُرا منایا تھا۔ میں نے ان سے سے کہا تھا کہ محتاط چلیں مگر ان کی پوری ٹیم کرپشن پر لگی رہی۔ خود زرداری صاحب نے بی بی شہید کا نظریہ بیچا۔ کارکنوں کو نظر انداز کیا ۔کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہا تھا کہ یہ پارٹی پھر اٹھ سکے۔ پارٹی میں کوئی نہیں بولتا تھا سب کو کہیں نہ کہیں سے حصہ ملتا تھا۔ سب نے لوٹ مار کی۔ سب اسی لیے ہارے کہ سب نے کرپشن کی ۔ مجھے تو شرم آتی ہے بتاتے ہوئے‘ انہوں نے پاکستان کو تباہی اور بربادی کے کنارے پر کھڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پتہ نہیں ان کا کیا منصوبہ تھا۔ پاکستان کو بیچنا چاہتے تھے۔ اندرون خانہ سودا کر چکے تھے ‘‘۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ پیپلزپارٹی کا ایک عام مخلص کارکن صدر زرداری سے اتفاق کرتا ہوگا یا جمشید دستی سے؟؟

Friday, May 24, 2013

نومنتخب عوامی نمائندوں کی خدمت میں

وہ مکان آخر کس طرح مکمل ہوسکتا ہے جس میں ایک بھائی کمرہ تعمیر کرنا شروع کرے پھر دوسرا بھائی آئے، کمرہ ادھورا چھوڑ دے اور برآمدے کی بنیاد ڈال دے۔ ابھی برآمدہ آدھا بنا ہو کہ تیسرا بھائی آ کر معاملات سنبھالے۔ ساتھ برآمدے کو آدھا ہی رہنے دے اور مہمان خانہ بنانا شروع کردے۔ پاکستان میں یہی کچھ ہورہا ہے اور چھ عشروں سے یہی کچھ ہورہا ہے۔ تسلسل نام کی کوئی شے نہیں۔ ایک سیاسی پارٹی برسراقتدار آ کر منصوبوں کا آغاز کرتی ہے۔ وہ ابھی مکمل نہیں ہو پاتے کہ حکومت تبدیل ہوجاتی ہے۔ نیا گروہ اقتدار سنبھالتا ہے۔ زیر تعمیر منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ نئے کاموں کی ابتدا ہوتی ہے۔ وہ چل رہے ہوتے ہیں کہ کوئی جرنیل آجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی جنرل چشتی‘ کوئی جنرل نقوی، کوئی جنرل زاہد علی اکبر خان بھی ہوتا ہے۔ بِگل نئی لیَ میں بجنے شروع ہوجاتے ہیں۔ سب کچھ تلپٹ ہوجاتا ہے۔ مکان کی جو مثال اوپر دی گئی ہے‘ وہ ایک نامکمل مثال ہے۔ حکومتیں بدلنے سے جو زیرتعمیر اور زیرتکمیل منصوبے یونہی چھوڑ دیے جاتے ہیں‘ اس کی زیادہ ذمہ داری خوشامد پسند بیورو کریسی پر آتی ہے۔ شاہ سے زیادہ وفادار افسر سابق حکمرانوں کو پہچاننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔ بجٹ کا رخ موڑ دیا جاتا ہے۔ کام کرنے والی ٹیمیں ہٹا کر کہیںسے کہیں پہنچا دی جاتی ہیں۔ رہے عوام، جو ان منصوبوں کی تکمیل کے خواب دیکھ رہے تھے‘ جائیں بھاڑ میں۔آپ ان دنوں اپنے گردو پیش پر نظر دوڑائیں یہی کچھ ہوتا نظر آئے گا۔ ابھی مسلم لیگ (ن) عملاً سریر آرائے مسند نہیں ہوئی‘ لیکن جیسے ہی پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندے منظر سے ہٹے ہیں‘ بیوروکریسی نے آنکھیں بدل لی ہیں۔ شاہراہیں، پل، ہسپتالوں کی عمارتیں، جو شے جہاں تھی، وہیں رک گئی ہے۔ بجٹ کی رقوم رُخ بدل رہی ہیں۔ ٹھیکے داروں کو شٹ اپ کال دے دی گئی ہے۔ لطف کی بات اس میں یہ ہے کہ مستقبل قریب میں اقتدار سنبھالنے والے گروہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے نہ اسے معلوم ہی ہے کہ درمیانی عرصے میں کیا کچھ ہورہا ہے!
اس طرز عمل کی صرف ایک مثال دیکھیے۔ دارالحکومت کی بغل میں‘ وزیراعظم کے مغلیہ دفتر سے صرف پندرہ منٹ کے فاصلے پر ایک بستی شاہ پور ہے جو مری جانے والے شاہراہ کے دائیں کنارے پر آباد ہے۔ اس بستی اور شاہراہ مری کے درمیان کورنگ کا دریا حائل ہے۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والی ایم این اے بیگم نسیم چودھری کی مسلسل کوششوں سے مرکزی حکومت نے یہاں پل بنانے کی منظوری دی۔ یہ علاقہ چونکہ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے دائرہ کار میں آتا ہے اس لیے ترقیاتی منصوبے بھی چیف کمشنر اسلام آباد اور اس کے ماتحت ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری میں پڑتے ہیں۔پل پر کروڑوں روپے صرف ہوئے۔ پل مکمل ہوگیا۔ آخری مرحلہ پل اور مری روڈ کے درمیان ایک دو فرلانگ کی سڑک تعمیر کرنے کا تھا۔ سڑک بننا شروع ہوگئی۔ بجری اور ریت کے درجنوں ڈھیر زیر تعمیر سڑک کے کناروں پر ڈالے گئے۔ سیمنٹ کے بیگ آئے اور میناروں کی صورت رکھے گئے۔ ایک چوتھائی سڑک بنی تھی کہ قومی اسمبلی کے ارکان گھروں کو رخصت ہوگئے۔ الیکشن کا ناقوس بجا۔ پیپلز پارٹی کا لشکر کھیت رہا   ؎
کیا رات تھی بدلے گئے جب نام ہمارے
پھر صبح کو خیمے تھے نہ خدّام ہمارے
مسلم لیگ (ن) کا ڈنکا بجنے لگا۔ بیگم نسیم چودھری سابقہ ایم این اے ہوگئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی کہ یہ سڑک جہاں تھی وہیں رک گئی۔ میناروں کی صورت کھڑے کیے گئے سیمنٹ کے بیگ منتقل کرکے کہیں اور پہنچا دیئے گئے۔ مشینری جو کام کررہی تھی، ہٹا لی گئی۔ کام کرنے والے راج، مستری، مزدور، ٹھیکیدار سب یوں غائب ہوگئے جیسے کبھی یہاں آئے ہی نہ تھے۔ اب آدھی بنی ہوئی سڑک ہے اور آدھی سے کہیں زیادہ شکستہ، ٹوٹا پھوٹا کھنڈر نما راستہ ہے جس کے کناروں پر بجری اور ریت کے ڈھیر اسلام آباد کی ضلعی حکومت کی ابن الوقتی کا ماتم کررہے ہیں۔ گاڑیاں ہچکولے کھاتی گزر رہی ہیں۔ لوگ جھولیاں اٹھا ٹھا کر، منہ آسمان کی طرف کیے، بددعائیں دے رہے ہیں۔ چیف کمشنر اسلام آباد اپنے ائیرکنڈیشنڈ دفتر میں براجمان ہے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد بھی عوام سے قطعی طور پر لاتعلق ہے۔ کروڑوں روپے سے جو پل بنا وہ یوں ہی پڑا ہے۔اس علاقے سے مسلم لیگ ن کے نومنتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چودھری ہیں۔ ان کے بارے میں خبر ہے کہ شریف النفس انسان ہیں۔ اگر وہ اس کیس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں اور تحقیق کریں کہ کس کے حکم سے اس سڑک کا کام بند ہوا ہے اور پھر ذمہ دار شخص یا اشخاص کو کیفر کردار تک پہنچائیں تو ایک صحت مند روایت قائم ہوگی۔ کل انہوں نے بھی اسمبلی سے رخصت ہونا ہے۔ آج اگر پچھلوں کے جاری کیے گئے کاموں کو وہ بربادی سے بچائیں گے تو کل ان کے آغاز کردہ منصوبوں کی بھی حفاظت کی جائے گی!
یہ صرف ایک مثال ہے۔ پورے ملک میں یہی صورت حال ہے۔ موقع پرست نوکرشاہی  نئے آقائوں کو خوش کرنے کیلئے وہ سب کچھ کررہی ہوگی جس کا نئے آقا کو علم ہے نہ خواہش۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک انقلابی قدم اٹھایا تھا کہ ضلعی حکومتیں لگان جمع کرنے والے افسروں سے لے کر ناظمین کے حوالے کی تھیں۔ ناظم سیاست دان تھے۔ سیاستدان جتنا بھی مرا ہو‘ وہ اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرتا کہ اس نے وہیں جینا ہے اور وہیں مرنا ہے۔ کل اس نے پھر لوگوں سے ووٹ مانگنے ہیں۔ موت اور شادی پر عوام کے درمیان کھڑا ہونا ہے۔ اس کی آئندہ نسلوں نے بھی وہیں رہنا ہے۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کا نظام تو کلائیو، میکالے، کرزن اور ویول کا نظام تھا۔ ملکہ کی حکومت نے اپنے گماشتوں کے ذریعے استعمار کو قائم رکھنا تھا۔ اُس کمشنر اور اُس ڈپٹی کمشنر کو عوام سے کیا سروکار جس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اگلی ترقی اور اگلی تعیناتی ہے اور جسے معلوم ہے کہ ایک بار یہاں سے جان چھوٹی تو پھر اس ضلع اور اس کمشنری میں کس نے آنا ہے!   ؎
میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
میری بلا سے، بُوم رہے یا ہُما رہے
ہم ان سطور کے ذریعے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف میں نومنتخب عوامی نمائندوں کی خدمت میں دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں زیرتکمیل منصوبوں کی فوراً خبر لیں اور ابن الوقت نوکر شاہی کو وقت پر خبردار کریں۔ پیپلزپارٹی بھی پاکستان سے تھی اور اے این پی کا تعلق بھی گھانا یا اٹلی سے نہیں تھا۔ عوامی بہبود کے جو کام ہورہے تھے وہ رکنے نہیں چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ افسر شاہی میں دیانت دار اور مخلص عناصر بھی موجود ہیں لیکن جس معاشرے میں زبان زد عام اس قسم کی ضرب الامثال ہوں کہ کوتوالِ شہر کی ماں مری تو پورا شہر امڈ آیا اور کوتوالِ شہر خود مرا تو ہُو کا عالم تھا۔ اس معاشرے میں موقع پرست، پچاس فیصد بھی ہوں تو غالب رہتے ہیں!
ہم سب نے یہ کہانی بچپن میں پڑھی تھی۔ آئیے‘ اسے تازہ کریں۔ نوشیروان عادل نے دیکھا کہ اک بوڑھا درخت لگا رہا ہے۔ اس نے کہا کہ تم تو قبر کے کنارے بیٹھے ہو، اس کا پھل کیسے کھائو گے؟ بوڑھے نے جواب دیا جہاں پناہ! جو بوڑھے ہم سے پہلے گزر گئے، ان کے لگائے ہوئے درختوں کے پھل ہم نے کھائے، جو ہم لگا رہے ہیں ان کے پھل آنے والی نسلیں کھائیں گے۔ یہ کہانی نومنتخب عوامی نمائندوں کو یاد رکھنی چاہیے۔   ؎
خیری کن ای فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشتر کے بانگ برآید فلان نماند
وقت کو غنیمت جانیے اور جو بھلا ممکن ہے کر ڈالیے، بہت جلد آواز آنے والی ہے کہ فلاں شخص رخصت ہوگیا۔

Thursday, May 23, 2013

لیاقت علی خان‘ محمد اسد اور پطرس بخاری

’’آپ پاکستان کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جو مشرق وسطیٰ کے حالات وواقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ کو عربی اور فارسی پر کامل دسترس حاصل ہے‘ ہمیں وزارت خارجہ میں آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے۔‘‘
جنوری 1948ء میں یہ بات وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے محمد اسد سے کی اور وہ وزارت خارجہ میں مشرق وسطیٰ کے شعبے کے انچارج بنا دیے گئے۔ ان کے دائرہ کار میں ایران اور شمالی افریقہ بھی شامل تھا۔ اسد لکھتے ہیں کہ دفتر میں بیٹھتے ہی انہوں نے خلیج فارس کا بڑا سا  نقشہ منگوایا اور  اسے دیوار پر لگوا دیا
’’اسی وقت میں وزیرخارجہ سرظفراللہ خان کے لیے ایک مفصل اور واضح میمورنڈم تیار کرنے میں مصروف ہوگیا جس میں مروجہ سرکاری پالیسیوں پر بے لاگ تنقیدی تبصرہ کیا گیا تھا، میری یہ تحریر خفیہ دستاویزات کے زمرے میں آتی تھی ۔ میں نے یہ میمورنڈم خود ٹائپ کیا‘‘۔
جب یہ میمورنڈم سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے محمد اسد کو بلایا اور کہا کہ آپ نے وزیر خارجہ ہی کو نہیں وزیر اعظم کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے ۔ اسد نے جواب دیا کہ آپ میرے خلاف محکمانہ کارروائی کر لیجیے لیکن میمورنڈم وزیرخارجہ کو ضرور بھیجئے۔ اکرام اللہ نے دستخط کرتے ہوئے کہا کہ جو ہوگا اس کے آپ خود ذمہ دارہوں گے۔ اس کے بعد محمد اسد لکھتے ہیں

"' دو دنوں کے بعد پتہ چلا  کہ ظفراللہ خان نے  میری تنقید کا برا نہیں منایا بلکہ جیسا انہوں نے مجھے بعد میں  خود بتایا  کہ انہوں نے میری معروضات سے اتفاق کیا اور میرے میمورنڈم کو وزیر اعظم کے پاس بھجوا دیا اور میں نے اس کی نقلیں تیار کر کے  ان پر" ضروری مطالعہ کے لیے" لکھ کر وزارت خارجہ کے تمام شعبوں کے سربراہوں کو ارسال کر دیں"
 
وزیراعظم لیاقت علی خان نے بالآخر محمد اسد کو میمورنڈم کی تجاویز پر تبادلہ خیال کے لیے بلوایا۔ گفتگو کے دوران محمد اسد نے تفصیل سے بتایا کہ معاہدۂ بغداد پاکستان کے لیے بے کار ہے۔ خلیج فارس میں قدم جمانے کی تجویز پر وزیراعظم کا ردعمل یہ تھا کہ اس کام کے لیے مضبوط کرنسی کی ضرورت ہے جب کہ پاکستان کو بے پناہ معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔ محمد اسد نے اس کا حل یہ تجویز کیا کہ پاکستان کو امریکہ کی جانب رجوع کرنا چاہیے اور امریکہ اس ضمن میں فوجی کے بجائے سیاسی ذرائع بروئے کار لائے۔
لیاقت علی خان نے محمد اسد کو لیگ آف مسلم نیشنز کے بارے میں مزید وضاحت کے لیے کہا۔ یہ اسد کا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ کی کمزوریوں اور خطے میں پاکستان کی اہمیت پر بسیط دلائل دیے۔ محمد اسد کا کہنا  تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہونے کی بناپر پاکستان کو اس سلسلے میں آگے بڑھنا چاہیے۔
وزارت خارجہ میں تعیناتی کے دوران وزیراعظم نے محمداسد کو عرب ممالک کے دورے پر بھیجا اور پاکستان کا پہلا پاسپورٹ لیاقت علی خان کے حکم پر اسد ہی کے لیے بنا۔ امیر فیصل جو بعد میں بادشاہ بنے، اسد کے ذاتی دوست تھے۔ شاہ عبدالعزیز جنہوں نے اسد کو بیٹا بنایا ہوا تھا علیل تھے ۔ یہ بادشاہ سے اسد کی آخری ملاقات تھی۔ سعودی عرب سے اسد مصر گئے اور وزیر خارجہ سے ملے۔ عربی وہ عربوں کی طرح بولتے تھے۔ وہاں سے دمشق آئے‘ دمشق سے بغداد‘ وہاں سے ترکی۔ گویا مسلم دنیا میں پاکستانی خارجہ پالیسی کی پہلی اینٹ محمداسد نے اپنے ہاتھوں سے رکھی۔ تیونس کی جنگ آزادی کے رہنما حبیب بورقیبہ سے بھی، جوبعد میں اپنے ملک کے صدر بنے محمد اسد کے ذاتی تعلقات تھے۔
دسمبر 1951ء میں اسد کو اقوام متحدہ میں تعینات کیا گیا ۔ وہاں ان کے افسر اعلیٰ پطرس بخاری تھے۔ پطرس کے بارے میں جوکچھ محمد اسد نے لکھا ہے وہ تاریخ پاکستان کے طلبا کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ محمد اسد لکھتے ہیں :
’’ہوائی اڈے سے شہر آتے ہوئے مجھے بتایا گیا کہ میرے عہدے کے لحاظ سے ہوٹل پَیرے میں کمرے کا انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن میرے بڑے افسر نے اس بناپر اسے منسوخ کردیا کہ یہ بہت مہنگا ہے۔ چنانچہ مجھے دوسرے درجے کے ہوٹل میں ٹھہرنا پڑا۔ احمد شاہ بخاری (پطرس ) کے ساتھ مستقبل میں میرے تعلقات کس نہج پر آگے بڑھیں گے یہ اس کی جانب پہلاقدم تھا۔ اگلے روز جہاں میری ان سے ملاقات ہوئی وہ نیویارک کے مشرقی حصے میں واقع ایک مہنگا ترین ہوٹل تھا۔ اس کے متعدد پرتعیش کمروں پر مشتمل ایک الگ حصے میں وہ سکونت پذیر تھے۔ ان سے یہ میری پہلی ملاقات تھی لیکن مجھے جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ ہم کبھی ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکیں گے۔ وہ بلاکے ذہین شخص تھے، ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا اور بظاہر ان کی پرورش اچھے ماحول میں ہوئی تھی لیکن ان اوصاف کے ساتھ ساتھ وہ بڑے مغرور اور خود بین شخصیت کے مالک تھے۔ یہ بھی پتہ چل گیا کہ کسی بھی موضوع پر اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جس کو اپنی ’’ہیئت اقتدار‘‘
کے ماتحت سمجھتے تھے اس پررعب جمانا اور اپنی بالادستی کا احساس دلاتے رہنا بخاری صاحب کی نفسیاتی کمزوری تھی لیکن ایسی مغلوبیت میرے لیے ناقابل برداشت تھی۔ میں نے جب سے سرکاری ملازمت اختیار کی تھی‘ ہمیشہ اپنے تصورات کی پاسداری کی تھی اور بلاخوف وخطر ان کا برملا اظہار کرتا تھا۔ لیاقت علی خان کو میرا یہی انداز تکلم پسند آگیا تھا۔ وہ معمولی آدمی نہیں تھے لیکن میری یہی غیرمنافقانہ طرز گفتگو بخاری سے میرے تعلقات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی …نتیجتاً میرے ان کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے اور مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ہم ایک ہی ٹیم کے رکن ہیں ۔ (خودنوشت ۔ مرتب : اکرام چغتائی مطبوعہ 2009ء صفحہ149)
 بخاری صاحب محمد اسد سے جان چھڑانے میں آخرکار کامیاب ہوگئے ۔ جن علاقوں میں خودمختار حکومتیں نہیں تھیں ان کے لیے ایک الگ کمیشن تشکیل دیا گیا۔ محمد اسد کی خدمات اس کمیشن کو سونپ دی گئیں۔ بخاری صاحب کی نظر میں یہ ایک غیراہم کام تھا۔ یہ الگ بات کہ محمد اسد کو اس کمیشن کا سربراہ چن لیا گیا اور انہوں نے شمالی افریقہ کے مسلمان علاقوں کے لیے وہاں بھرپور کام کیا۔
اب ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا مکتوب ملاحظہ کیجیے۔ آپ پنجاب یونیورسٹی میں ظفرعلی خان چیئر کے سربراہ ہیں اور قاہرہ یونیورسٹی میں اردو چیئر پر بھی فائز رہے ہیں۔
’’آج صبح سویرے محمد اسد اور قائداعظم کے بارے میں آپ کا کالم پڑھا۔ ہم لوگ عظمتوں کو فراموش کرنے میں خاصے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ اسد بھی ایک ایسی ہی عظمت تھے جنہیں بہت آسانی سے بھلادیا گیا۔ صرف یہی نہیں‘ انہیں ان کا جائز مقام بھی نہیں دیا گیا۔ وہ پاکستان کے پہلے قانونی شہری تھے۔ انہوں نے اس پاک سرزمین کے قیام اور اس کی نظریاتی اساس کے لیے ناقابل فراموش کردار اداکیا۔ ان کی خدمات کا دائرہ اسلامی تعمیر نوکے ادارے تک محدود نہیں تھا بلکہ تقسیم کے موقع پر مہاجرین کی آبادکاری اور پاک عرب تعلقات کی استواری سے کشمیر کے جنگی محاذوں تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کی اسلامی خدمات میں ان کا ترجمہ قرآن اور ترجمہ بخاری جیسے کام شامل ہیں۔ یہاں میں ان کے ساتھ ہونے والی ایک ناانصافی کا بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے بانی چیئرمین تھے لیکن اس بات کا اعتراف تو کجا کہیں ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ خود شعبہ اسلامیات اس حقیقت سے بے خبر ہے اور تمام مطلبوعات میں علامہ علائوالدین صدیقی مرحوم کو شعبے کا بانی چیئرمین ظاہر کیا جاتا ہے۔ محمد اسد نے قیام پاکستان کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے مشہور اسلامک کلوکیم کے لیے ان تھک محنت کی۔ دنیا بھر سے علوم اسلامی کے ماہرین اور علما محض ان کے ذاتی روابط اور کوششوں سے اس کلوکیم میں شرکت کے لیے آئے لیکن جب پھل پک کر تیار ہوگیا تو انہیں کلوکیم سے الگ کردیا گیا یا الگ ہونے پر مجبور کردیا گیا اور جب کلوکیم کے مقالات پر مشتمل کتاب چھپ کر سامنے آئی تو اس میں ان کا نام تک شامل نہیں کیا گیا۔ کتاب چلچراغ میں ان تمام واقعات کی دستاویزی شہادتیں موجود ہیں۔ والسلام زاہد منیر عامر۔

Tuesday, May 21, 2013

مژدہ اور انتباہ

مژدہ اے اہل وطن!جس انقلاب کی نوید دی جارہی تھی اس کا آغاز ہوچکا ہے!
اُجالا گھٹا ٹوپ اندھیرے میں نقب لگا کر سامنے آرہا ہے۔ سپیدۂ سحر افق سے ظاہر ہوا ہی چاہتا ہے۔ سیاہ رات کٹ چکی ہے۔ ا ے اہل وطن! تمہاری سرزمین بہشت بننے کے بالکل قریب ہے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ آسمانی پرندے درختوں پر اترنا شروع ہوچکے ہیں۔ کیا تمہیں ہوا سے ایک خاص قسم کی بو باس نہیں آرہی؟ کیا شگوفے چٹخ نہیں رہے؟ یہ جو تمہیں ہر طرف سے عطر کی لپٹیں آرہی ہیں، تم انہیں محسوس کیوں نہیں کررہے؟
اے اہلِ وطن! تم گواہ ہو کہ میں ایک عرصہ سے تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہوں۔ کسر تو میں نے پہلے بھی کوئی نہیں چھوڑی لیکن اس الیکشن کے بعد تو میں خدمت کے لیے حد سے زیادہ سنجیدہ ہوں۔ وزارتیں اور کمیٹیاں ہمیشہ سے میری کنیزیں رہی ہیں لیکن اب کے میں نے ایک صوبے کی سربراہی پر بھی انگشت شہادت رکھی ہے!
میں نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی اپنی دسترس ہی میں رہنے  دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک مدت سے کشمیر کمیٹی کا سربراہ ہوں اور اہل وطن گواہ ہیں کہ اس عرصہ میں کئی مرتبہ کشمیر کو آزاد کرایا ہے۔ کشمیر کی جنگ آزادی میں جو جو بھی بوڑھے‘ بچے اور عورتیں شہید ہوچکی ہیں ،جو گھر نذر آتش ہوچکے ہیں اور جو بستیاں نیست و نابود ہوچکی ہیں‘ ان کی تباہی کی یاد دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کسی نہ کسی نے توکشمیر کمیٹی کا صدر رہنا ہے۔ کچھ عقل کے اندھے سوچتے ہیں کہ آخر کشمیر اور کشمیر کی جدوجہد آزادی سے میرا کیا تعلق ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ میں ایک طویل عرصہ بندوق بدست کشمیر کے پہاڑوں میں جہاد کرتا رہا ہوں۔ کئی بار شہید ہوتے ہوتے بچا۔ زخمی تو بارہا ہوا۔ یہ جو میری اندر کی آنکھ نہیں ہے تو یہ اسی جنگ میں ختم ہوئی۔
کچھ احمق اس سوچ میں ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران اس عہدے کی سربراہی کی مد میں مَیں نے قومی خزانے سے جتنی گاڑیاں، جتنی افرادی قوت‘ جتنا تیل اور کل جتنا روپیہ خرچ کیا ہے، قوم کے سامنے اس کے اعداد و شمار آنے چاہئیں لیکن ان بے وقوفوں کو معلوم نہیں کہ یہ سب کچھ سامنے آنے سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کو کتنا دھچکا لگے گا؟ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہیں‘ ان سے حساب نہیں مانگتیں۔ میں اس قوم کا ہیرو ہوں۔ قوم کو اگر نہیں معلوم تو میں اسے اس بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔
کشمیر کو آزاد کرانے کے ساتھ ساتھ میں جونا گڑھ اور حیدر آباد کو بھی بھارت کے قبضے سے چھڑانا چاہتا ہوں۔ اس لیے میرا مطالبہ یہ بھی ہے کہ فی الفور ایک حیدر آباد دکن کمیٹی اور ایک جونا گڑھ کمیٹی تشکیل دی جائے اور ان کے سربراہوں کو بھی اسی طرح وفاقی وزیر کا درجہ اور مراعات دی جائیں جس طرح کشمیر کمیٹی کے سربراہ کو دی جاتی ہیں۔ میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ ان نئی کمیٹیوں کی سربراہی کے لیے میرے پاس مناسب تن و توش کے افراد موجود ہیں! ہم کسی مرحلے پر بھی قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔
میں اہل وطن کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ جو میں نے مخصوص وفاقی وزارتیں مانگی ہیں تو یہ بے سبب نہیں! اب جب انقلاب وطن کے دروازے پر دستک دے ہی رہا ہے تو اس کے استقبال کے لیے ہمیں‘ یعنی میری جماعت کو تیاری کرنا ہے۔ ایک تو میں نے وزارت مذہبی امور کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ تو ظاہرہے یہ ہے کہ میں عالم دین ہوں اور پھر ایک مذہبی جماعت کا سربراہ ہوں تو یہ وزارت اس لحاظ سے میری جاگیر بنتی ہے۔ آخر مولانا حامد سعید کاظمی میں کون سی ایسی اہلیت تھی جو مجھ میں نہیں! مجھے تو ان کا سوچ کر ہنسی آتی ہے۔ ایسے حضرات میرے سامنے طفل مکتب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔
رہا میرا دوسرا مطالبہ‘ وزارت تعمیرات و ہائوسنگ کا تو اس میں بھی عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں یہ وزارت میری پارٹی کے پاس رہی ہے اور اہل وطن گواہ ہیں کہ ہم  نے اسے مثالی انداز میں چلا یا اور یوں چلایا کہ ایک پل بھی رکنے نہیں دیا۔ اس زمانے میں تعمیرات کا کام دن رات ہوتا تھا اور مکان تو اتنے زیادہ تھے کہ ہم چابیوں کے گچھے اونٹوں کے کجاووں پر لاد کر آوازیں لگاتے پھرتے تھے کہ ہے کوئی بے گھر جسے مکان درکار ہو! پھر یہ بھی ہے کہ چونکہ ہمارا انجینئرنگ، ٹائون پلاننگ اور تعمیراتی کام کا وسیع تجربہ ہے تو اس وزارت کا ہم سے زیادہ کون سزاوار ہوسکتا ہے؟
صوبہ خیبرپختونخوا کی گورنری بھی لگے ہاتھوں مانگی ہے۔ کیا اہل وطن اس حسن طلب سے محظوظ نہیں ہورہے؟ اور کیا میرے کاروباری ذوق پر عش عش نہیں کررہے؟
سب جانتے ہیں کہ مجھے دنیا سے لگائو ہے نہ دنیا کے دھندوں سے‘ میرا واحد مقصد تو خدمت دین اور خدمت وطن ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ایک نو آموز سیاسی پارٹی خیبرپختونخوا میں حکومت بنا رہی ہے۔ اس جماعت کو سیاست کے اسرار و رموز سکھانے کے لیے ضروری ہے کہ اوپر گورنر میری جماعت کا ہو تا کہ حکومت بنانے والی پارٹی کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ حاشا وکلا‘ اس کے علاوہ اور کوئی مقصد اس مطالبے کے پیچھے نہیں۔ع
 رُوئے سخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاہ!
اس موقع پر اہل وطن کو دشمنان دین و وطن سے ہوشیار رہنے کی تلقین بھی کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے وکی لیکس کے ذریعے عجیب و غریب خبریں پھیلائی گئیں کہ میں نے امریکی سفیر سے وزیراعظم بنانے کی فرمائش کی ہے۔ اس موقع پر میں
 ملّا نصیرالدین کا لطیفہ بھی سنانا پسند کروں گا۔ ملّا نے کسی سے گلدان مانگا۔ واپس کیا تو ٹوٹا ہوا تھا۔ گلدان کے مالک نے شکایت کی تو ملّا صاحب نے کہا کہ اول تو میں نے گلدان مانگا ہی نہیں تھا۔ اگر مانگا تھا تو تم نے دیا ہی نہیں۔ اگر دیا تھا تو میں نے لیا ہی نہیں‘ اگر لیا بھی تھا تو ٹوٹا نہیں۔ امریکی سفیر سے اول تو میں ملا ہی نہ ہوں گا۔ اگر ملا تھا تو وزارت عظمیٰ کی فرمائش نہیں کی اور اگر کی بھی تھی تو کیا وزیراعظم بننے کو میرا دل نہیں چاہتا؟ آخر مجھ میں کیا کمی ہے؟ ابھی تو تین روز پہلے بھی امریکی سفیر سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس ضمن میں میرے ترجمان نے وضاحت کردی ہے کہ اس ملاقات میں پاکستان کی داخلی سیاست پر کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ویزے کی عدم فراہمی کے بارے میں شکوہ شکایت کی گئی۔ انتخابی عمل میں ہمارے امیدواروں کے ساتھ جو ناانصافی اور دھاندلی ہوئی اس کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ اب باقی جو موضوع رہ گئے ہیں وہ امریکی معیشت اور اوباما کی صحت ہی سے متعلق ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کے بارے میں باتیں ہوئی ہوں۔
انتباہ: ہمارے پاس ایک ایسی مشین ہے جو یہودی ایجنٹوں کا پتہ لگاتی ہے۔ اس سے پہلے ایک صحافی نے زمینوں کے بارے میں خبر دینے کی جسارت کی تھی۔ اس کے بارے میں ہماری مشین کو فوراً معلوم ہوگیا تھا کہ وہ یہودیوں کا ایجنٹ ہے۔ حالیہ انتخابات میں بھی ہماری مشین مسلسل کام کرتی رہی ہے۔ اہل وطن تھوڑے لکھے کو کافی سمجھیں اور احتیاط برتیں۔

Monday, May 20, 2013

قائداعظمؒ اور علامہ محمد اسدؒ… حقیقتِ حال

علامہ محمد اسدؒ پر اس کالم نگار نے 19اکتوبر 2010ء کے ایک روزنامہ میں ’’محمداسد؟ کون محمداسد؟‘‘ کے عنوان سے مضمون سپرد قلم کیا تھا جس کے آخر میں تجویز پیش کی تھی کہ
 ’’پاکستان کے اس پہلے شہری کو ہم فراموش کرچکے ہیں ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ لاہور کی کسی شاہراہ اور اسلام آباد کے کسی خیابان کو محمد اسدؒ کے نام کردیا جائے ؟اگر آپ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں ، تو آج ہی وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان کے نام الگ الگ خط میں یہ مطالبہ کریں۔ کیا عجب فوڈ سٹریٹ میں دلچسپی لینے والے حکمران ہمارے قارئین کا یہ مطالبہ مان لیں اگرچہ ان سے چمٹی ہوئی ’’عالم فاضل‘‘ بیوروکریسی ضرور پوچھے گی کہ ’’محمد اسد؟کون محمد اسد؟‘‘

اسی تحریر میں ممتاز محقق جناب اکرام چغتائی کاذکر بھی کیا گیاتھا چغتائی صاحب نے محمداسدؒ پر سالہا سال تحقیق کی ہے۔ انہیں جرمن زبان پر عبور حاصل ہے جو اسد کی مادری زبان تھی۔ اس تحقیق کے عرصہ میں چغتائی صاحب نے آسٹریا اور جرمنی کے کئی سفر کیے۔ 1998ء میں انہیں آسٹریا کے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔ محمد اسد ؒپر ان کی تصانیف کی تعداد نصف درجن سے زیادہ ہے جن میں اہم ترین پانچ ہیں۔ محمد اسد بندۂ صحرائی (اردو)‘ محمداسد ایک یورپین بدوی (اردو)‘ محمداسد…اسلام کی خدمت میں یورپ کا تحفہ (دوجلدوں میں بزبان انگریزی ) ۔
HOME -COMING OF THE HEARTمحمد اسدؒ کی خودنوشت کا دوسرا حصہ ہے ۔( پہلا حصہ ’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ ہے ) اس دوسرے حصے کو اکرام چغتائی نے مرتب کیا ہے اور اس پر حواشی بھی لکھے ہیں۔ اس کتاب کا آخری حصہ محمد اسدؒ کی وفات کے بعد ان کی بیگم پولا حمیدہ اسد نے تحریر کیا ہے۔
19اکتوبر 2010ء کے اس مضمون کے بعد محمد اسد ؒکے بارے میں کچھ اوردوستوں کی تحریریں بھی وقتاً فوقتاًشائع ہوئیں۔ اتفاق کہیے یا سوئِ اتفاق کہ اس ضمن میں کچھ ایسی باتیں لکھی جارہی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاًکچھ دوست جن میں قابل احترام بزرگ بھی ہیں اور محبت کرنے والے چھوٹے بھائی بھی، محمد اسدؒ کے بارے میں نسبتاً تواتر سے لکھے جارہے ہیں کہ:
1۔ محمد اسدؒ کو پاکستانی شہریت قائداعظمؒ نے دی۔

2۔ قائداعظمؒ کی ہدایت پر لاہور میں محمد اسدؒ کی سربراہی میں ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم ہوا۔
3۔قائد اعظمؒ نے اسلامی آئین، طرز تعلیم اور اسلامی اقتصادیات پر حکومتی نمائندے کی حیثیت سے علامہ اسدؒ کو ستمبر 1947ء میں ریڈیو پر تقاریر کرنے کی ہدایت کی۔
 4۔ محمد اسدؒ کے محکمے نے اپنا تمام کام مکمل کرلیا تو وہ یہ سفارشات لے کر وزیراعظم لیاقت علی خان کے پاس گئے ۔ انہوں نے یہ سب کچھ اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ سرظفراللہ کے حوالے کیا جس نے انہیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔
بدقسمتی سے محمداسدؒ کے بارے میں جودوست یہ باتیں لکھ رہے ہیں وہ کہیں بھی کوئی حوالہ، ثبوت یا شہادت نہیں پیش کررہے۔ محمداسدؒ کی خودنوشت ہردوحصوں میں منظرعام پر آچکی ہے۔ ان کے بارے میں ابوالحسن علی ندویؒ، سید سلیمان ندویؒ، محمداسحاق بھٹی، پروفیسر خورشید احمد، تحسین فراقی اور کئی دیگر مشاہیر کے تحریرکردہ مضامین بھی شائع ہوچکے ہیں۔اس بات کا کوئی ثبوت کہیں بھی نہیں کہ قائداعظمؒ کا محمد اسدؒ سے کوئی رابطہ تھا یا ملاقات ہوئی۔ اگر ایسا ہوتا تو محمد اسدؒ اپنی تحریروں میں کہیں تو اس کاذکر کرتے۔
ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کیسے قائم ہوا؟ اس کے بارے میں محمد اسدؒ لکھتے ہیں کہ اکتوبر 1947ء کی ایک صبح نواب آف ممدوٹ، وزیراعلیٰ پنجاب نے انہیں اپنے دفتر بلایا۔ ’’جونہی  میں ان کے دفتر میں داخل ہوا، ممدوٹ صاحب رسمی تکلفات کی پرواہ کیے بغیر کہنے لگے۔ ’’اسد صاحب میرے خیال میں اب ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کیا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں ؟ کیا ہمیں قائداعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟‘‘کئی روز سے مجھے ایسے سوال کا انتظار تھا چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا… ’’ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیے نواب صاحب !آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیے۔ میری رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے جوان نظریاتی مسائل کو زیر بحت لاسکے جن کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ خدانے چاہا تو آئندہ حکومتِ کراچی (مرکزی حکومت) بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظمؒ ادھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں‘‘۔ نواب صاحب فوری قوت فیصلہ کی صلاحیت کے مالک تھے چنانچہ انہوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا: ’’آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہیے ؟‘‘میں نے جواباً عرض کیا اس کا نام ’’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘‘ مناسب رہے گا۔ ممدوٹ صاحب نے بلاتوقف کہا ’’بالکل درست۔ ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اس کے اخراجات کا ایک تخمینہ تیار کیجیے۔ آپ کو سرکاری طورپر اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبہ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی۔ مجھے امید ہے آپ اسے قبول کرلیں گے۔‘‘ مجھے امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی فیصلہ ہوجائے گا۔ لیکن نواب ممدوٹ کے فیصلوں کا یہی انداز تھا۔‘‘ (محمداسد خودنوشت۔ مرتب اکرام چغتائی۔ مطبوعہ 2009ء ناشر دی ٹروتھ سوسائٹی گلبرگ III لاہور صفحہ 112-111)
ریڈیو پر محمد اسدؒ کی تقاریر کا بھی قائداعظمؒ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ان کا سلسلہ بھی وزیراعلیٰ نواب ممدوٹ نے شروع کیا۔ محمد اسدؒ لکھتے ہیں۔ ’’اس پریشان کن صورت حال میں مغربی پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ نواب آف ممدوٹ نے جن کی صاف گوئی کے سبھی معترف تھے مجھے بلایا اور روزافزوں افراتفری کے سدباب کے لیے تعاون کی پیش کش کی؛ چنانچہ ریڈیو سے ہرروز میری تقریر نشر ہونے لگی۔ میری ان تمام ریڈیائی تقاریر کا عنوان تھا ’’تمام مسلمانوں کے لیے دعوت عام‘‘ (محمد اسد۔ خودنوشت۔ حوالہ مذکورہ بالا صفحہ 109)۔

 
محمد اسدؒ کو پہلا پاکستانی پاسپورٹ لینے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کا بھی کوئی تعلق قائداعظم سے نہ تھا۔ خودنوشت کے صفحہ 128اور 129 پر محمد اسد ؒنے اس کی تفصیل لکھی ہے۔ محمد اسدؒ کی تعیناتی وزارت خارجہ میں ہوچکی تھی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے انہیں مشرقی وسطیٰ کے سرکاری دورے پر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی پاکستانی پاسپورٹ بننے شروع نہیں ہوئے تھے۔ کبھی کہا جاتا کہ اسد کے پاسپورٹ پر برطانوی شہری لکھاہوگا‘ کبھی کہا جاتا کہ وہ آسٹرین ہیں۔ محمد اسدؒ لکھتے ہیں… ’’میں بے سروپا باتیں سن سن کر تنگ آگیا۔ بالآخر میں نے وزیراعظم کے ذاتی معاون کو فون کیا اور ان سے عرض کیا کہ براہ مہربانی وزیراعظم سے میری فوری ملاقات کرادیجیے‘‘ ۔ کچھ دیر بعد میں لیاقت علی خان کے دفتر پہنچا اور انہیں اپنی مشکل سے مطلع کیا۔ انہوں نے
اپنے سیکرٹری کو کہا کہ فوراً پاسپورٹ افسر کو بلائیں۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا وزیراعظم نے انہیں جلد پاسپورٹ بنانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی کہا کہ اس پر ’’پاکستانی شہری‘‘ کی مہر ثبت کرے۔ اس طرح مجھے پہلا پاسپورٹ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جس پر ’’پاکستانی شہری‘‘ لکھا گیا تھا‘‘۔ (حوالہ مذکورہ بالا۔ صفحہ 129)۔

 
جن باتوں کا قائداعظم سے کوئی تعلق نہیں، انہیں ان سے کسی شہادت کے بغیر منسوب کرنا تحقیق ومطالعہ کے منافی ہے۔ ایسا کرنے سے ان کی عظمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ حقیقت کو تبدیل نہ کرنے سے ان کی عظمت میں کمی بھی واقع نہیں ہوگی۔
رہی یہ بات کہ آئین، تعلیم اور اقتصادیات کے متعلق جب محمد اسدؒ کے محکمے نے اپنا کام مکمل کرلیا تو وہ یہ سفارشات لے کر لیاقت علی خان کے پاس گئے‘ انہوں نے یہ سب کچھ اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان کے حوالے کیا جس نے انہیںردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ۔تو اس کی کوئی شہادت کہیں نہیں پائی جاتی۔ ظفراللہ خان کے بارے میں محمداسدؒ لکھتے ہیں: ’’وہ جماعت احمدیہ کا سرگرم رکن تھا تمام مسلمان اس جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں‘‘۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’سر محمد ظفراللہ خان غلام احمد قادیانی سے گہری عقیدت رکھتا تھااس لیے وہ تمام عمر انگریزوں سے زیادہ برطانیہ کا خدمت گزار رہا۔‘‘ (خودنوشت صفحہ 121)۔

لیکن اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ محمد اسدؒ کی سفارشات لیاقت علی خان نے ظفراللہ خان کے حوالے کیں۔ محمد اسدؒ نے ایسی کوئی سفارشات وزیراعظم کو پیش ہی نہیں کی تھیں۔ وہ ابھی ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن میں کام کرہی رہے تھے کہ وزیراعظم نے انہیں جنوری 1948ء میں کراچی بلایا اور وزارت خارجہ کو درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے وزارت خارجہ میں بھیج دیا۔ اسد کی تیارکردہ جو دستاویزلیاقت علی خان کو پیش ہوئی وہ خارجہ پالیسی کے بارے میں تھی۔ یہ قصہ ہم کسی اگلی نشست میں بیان کریں گے۔

Thursday, May 16, 2013

بیمار خواب کبھی پورے نہیں ہوں گے

توکیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس ملک پر ہمیشہ اس طبقے کی حکمرانی رہے جو کلف لگی کھڑکھڑاتی پوشاکیں پہنے ڈبل کیبنوں میں گھومتا ہے۔ ساتھ کلاشنکوف بردار رکھتا ہے۔ بڑی بڑی مونچھوں پر گھی چپڑا ہوتا ہے اور اسمبلی میں صرف ہاتھ کھڑ اکرتا ہے۔ کتاب کے لفظ ہی سے اسے نفرت ہے۔
کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس مظلوم‘ مفلوک الحال ملک پر ڈیرہ دار ہی حکومت کرتے رہیں، جن کے ڈیروں میں مفرور مجرم رہتے ہیں‘ جن کی زندگی کا مقصد پٹواری اور تھانے دار کو قابو میں رکھنا ہے، جو حریفوں کے گھروں میں ڈاکے ڈلواتے ہیں اور آگ لگادیتے ہیں‘ جوبے بس عورتوں کو برہنہ کرکے گلیوں میں پھراتے ہیں‘ جو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی شادیاں نہیں کرتے کہ زمین کم نہ ہوجائے‘ جو معصوم بے گناہ لڑکیوں کو مارکر صحرا میں دفن کردیتے ہیں اور پھر کابینہ میں جا بیٹھتے ہیں‘ جو چاہتے ہیں کہ ان کے کمّی قیامت تک کمّی ہی رہیں!
کیا تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی تضحیک کرنے والے چاہتے ہیں کہ اربوں روپے کا حرام ہڑپ کرنے والے پراپرٹی ڈیلر، تھانوں پر حملہ کراکے چھوٹ جانے والے مجرم، ایفی ڈرین کی منشیات میں ملوث دوافروش، عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والے مجاور اور سرکار سے زمینیں ہتھیانے والے ضمیر فروش‘ دستار پوش ہی اس ملک میں دندناتے پھریں اور شریف لوگ کونوں کھدروں میں دبک کررہیں ؟کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ غنڈوں، اٹھائی گیروں اور چپڑی ہوئی مونچھوں والے ان پڑھوں کی سیاست سے تنگ آکر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اس ملک سے ہجرت ہی کرتے رہیں، سفارت خانوں کے آگے قطاریں باندھے کھڑے رہیں اور یہ ملک ٹھاہ ٹھاہ کرنے والوں ہی کی چراگاہ بنارہے ؟
آج جو لوگ برگر فیملی کی مکروہ اصطلاح ٹیلی ویژن چینلوں پر کسی خوف ملامت کے بغیر استعمال کرکے بدنما بتیسیوں کی نمائش کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ چوراہوں پر کھڑے ہوکر چرغے، سری پائے اور ٹکاٹک کھانے والوں ہی کا یہاں غلبہ رہے‘ جن کے بارے میں منیر نیازی نے کہا تھا:    ؎
بندے نہیں سَن
جانور سَن
روٹیاں کھائی جاندے سَن
تے رولا پائی جاندے سَن
جو نانبائیوں سے بحث کرتے ہیں کہ نان پر تل کم لگے ہیں، جورات کو سونے سے پہلے آخری لفظ کڑاہی کا اور صبح بیدار ہوکر پہلا لفظ بالٹی کا منہ سے نکالتے ہیں، جن کا کھانا زندگی کے لیے نہیں بلکہ جن کی زندگی کھانے کے لیے ہے، جوپورا منہ کھول کر سب کے سامنے خلال کرتے ہیں اور جنہوں نے اس خوبصورت شہر کو‘ اس لاہور کو جو کبھی کالجوں اور باغوں کے لیے مشہور تھا، کھابوں کا شہر بناکر رکھ دیا ہے!
کیا ممی ڈیڈی کہہ کر کروڑوں ووٹروں کی توہین کا ارتکاب کرنے والے چاہتے ہیں کہ یہاں اقتدار انہی کے پاس رہے جو ماں جیسی قابل احترام ہستی کو ’’ما‘‘کہتے ہیں اور تُو کرکے خطاب کرتے ہیں ؟جونوجوان آئی ٹی کے میدان میں آج بھارت کا مقابلہ کررہے ہیں، بنک چلارہے ہیں ، مالی اداروں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ان کی توہین کا ان لوگوں کو کیا حق پہنچتا ہے جن کا کتاب اور قلم سے ، لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ سے، برائے نام تعلق بھی نہیں ، جوصرف دولت اکٹھی کرتے ہیں اور پھر اس دولت سے اقتدار خریدتے ہیں۔ جن کی صبح پامسٹوں کو ہاتھ دکھاکر اور شام زائچہ فروشوں کے سامنے سجدہ ریز ہوکر گزرتی ہے اور جوفائیوسٹار ہوٹلوں میں نجومیوں کو اس طرح رکھتے ہیں جیسے ڈیروں پر رکھیل رکھی جاتی ہے۔

اس طبقے نے اس ملک میں لائبریریوں کو ختم کیا، کتاب فروشوں کو چلتا کیا اور اب یہ چاہتے ہیں کہ جولوگ پڑھے لکھے ہیں، وہ اس ملک کو ان کے لیے چھوڑ کر ان تارکینِ وطن سے جاملیں جن تارکینِ وطن کو محض اس لیے ووٹ دینے کا حق نہیں ملا کہ وہ تبدیلی چاہتے ہیں!ٹیلی ویژن سکرینوں پر ممی ڈیڈی کی بانسری بجاکر مسرور ہونے والے نیم خواندہ سیاست دانوں کو معلوم ہے کہ جس دن لاکھوں تارکینِ وطن کو ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا، ان کی بانسریوں کے سوراخوں سے خوشی کے نغموں کے بجائے بین پھوٹنے لگیں گے۔
جس شخص نے یہ ملک بنایا تھا، آخر وہ کس طبقے سے تعلق رکھتا تھا؟ اس کے پاس زمین تھی نہ ڈیرہ، بندوق بردار تھے نہ پٹواری، وہ مرغبانی کا کاروبار کرتا تھا نہ پراپرٹی کا۔ قائداعظم نے ولایت میں تعلیم حاصل کی۔ انگریزی لباس پہنا، انگریزی زبان بولی، چھری کانٹے سے کھانا کھایا اور کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنی وضع قطع بدلی نہ طوراطوار ، نہ لائف سٹائل؛ وہ یہ راز پارگئے تھے کہ لنگوٹی باندھ کر تیسرے درجے کے ڈبے میں سفر کرنے والا گاندھی محض نمائش کے لیے اس طرح کررہا ہے۔ کانگرس کے ورکر تیسرے درجے کے اس ڈبے کو پہلے ڈی ڈی ٹی سے دھوتے تھے جس میں اس گندم نما جو فروش نے سفر کرنا ہوتا تھا۔ کروڑوں اربوں کے سکینڈلوں میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے یہ لوگ جس طبقے کو برگر اور ممی ڈیڈی کا طعنہ دے رہے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ طبقہ‘ یہ مڈل کلاس کے لوگ اپنی لیاقت سے، اپنے دماغ سے اور اپنی شبانہ روز محنت سے اس مقام پر پہنچے ہیں۔ پینسٹھ سال سے اس ملک کی ہڈیاں بھنبھوڑنے والوں کو آج دکھ ہے کہ مڈل کلاس پیداکیوں ہوگئی ہے۔ ان کا فائدہ اسی میں تھا کہ یہ مڈل کلاس ٹوئٹرہی پر لگی رہتی، پولنگ سٹیشنوں پر نہ پہنچتی ۔ لیکن افسوس ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اس ملک پر آخر پڑھے لکھے لوگوں کا بھی حق ہے!
تمہارے بچے تمہاری وراثت میں ڈیرے تو سنبھال سکتے ہیں، کلف لگی کھڑکھڑاتی پوشاکیں پہنے ، ڈبل کیبنوں میں سوار ٹریفک کے قانون تو پامال کرسکتے ہیں، تھانوں سے مجرموں کو تو چھڑاسکتے ہیں، پڑھے لکھوں کا مذاق تواڑا سکتے ہیں، لیکن مشہورعالم یونیورسٹیوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور عظیم الشان مالی اداروں میں نہیں پہنچ سکتے۔ وہ آئی ٹی میں بھارت کو آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ تم نے اس پنجاب کو گندم اور چینی درآمد کرنے والا گداگر بنادیا جس کی زمینداری تمہاری تحویل میں ہے۔ اس کے مقابلے میں پنجاب کا چھوٹا سا ٹکڑا جوسرحد پار ہے، پورے بھارت کو اناج فراہم کررہا ہے۔ جس کلاس کا تم مذاق اڑا رہے ہو، یہ وہی کلاس ہے جس کی بھارت نے پذیرائی کی، سرآنکھوں پر بٹھایا، اسی مڈل کلاس نے بھارت کو آئی ٹی اور ملٹی نیشنل میدانوں میں آسمان تک پہنچا دیا۔ جن لوگوں کا قافیہ تنگ کرکے تم ملک سے باہر بھیجنا چاہتے ہو، ان لوگوں کو بھارت واپس بلارہا ہے، بھارت Reverse- Brain-Drain

 کالطف اٹھارہا ہے اور تم تھانے کچہری کی سیاست کو بچانے کے لیے انہیں سیاست سے اور نتیجتاً ملک سے دور رکھنا چاہتے ہو!
لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ تمہارے بیمار خواب کبھی پورے نہیں ہوں گے۔ جن کی تم تضحیک کررہے ہو اور جن کی تحقیر کے لیے نام رکھ کر تم قرآنی حکم (ولا تنابزوا بالالقاب) کی خلاف ورزی کررہے ہو، وہ اب مونچھ اور کلف کلچر کو تبدیل کرکے رہیں گے۔ جس اعلیٰ تعلیم یافتہ قائداعظم نے یہ ملک بنایا تھا، اس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ پیروکار ہی یہ ملک بچائیں گے !   ؎
مجھ پہ ہنستے تو ہیں پر دیکھنا روئیں گے رقیب
لبِ خنداں کی قسم ! دیدہ ٔ گریاں کی قسم

Tuesday, May 14, 2013

خرید لو

یہ ایک بادشاہ کی کہانی ہے جو ایک عالی شان محل میں رہتا تھا۔ یہ محل ایک پہاڑ پر بناہوا تھا ۔اس پہاڑ پر پہنچنا کسی کے لیے بھی ممکن نہ تھا۔ پہاڑ کے چاروں طرف پہرہ تھا۔ پہریدار بندوقوں توپوں راکٹوں اور گرنیڈوں سے مسلح تھے۔ ان کے کانوں پر طاقت ورٹیلی فون لگے رہتے تھے۔ ان ٹیلی فونوں پر ذرا سی آہٹ کی آواز بھی صاف سنائی دیتی تھی۔
سلطنت کے لوگ غریب تھے۔ ان کے پاس لالٹینیں ٹوٹی ہوئی تھیں اور دیئے مٹی کے تھے۔
دیئے جلانے کا تیل راشن پر ملتا تھا۔ لوگ ہاتھوں میں ڈبے پکڑے قطاروں میں کئی کئی دن کھڑے رہتے۔ رعایا کی اکثریت چیتھڑوں میں ملبوس تھی۔ گرانی اس قدرتھی کہ دووقت کی روٹی حاصل کرنا عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ امن وامان کا سرے سے وجود ہی نہ تھا۔ مسلح جتھے پوری سلطنت میں بلاخوف وخطر پھرتے رہتے اور جہاں موقع ملتا پرامن شہریوں کو قتل کردیتے۔ دکاندار دن دہاڑے لوٹ لیے جاتے۔ بچے کیا، بڑے بھی اغوا ہوجاتے۔ جوشخص بھی اپنا گھوڑا کسی درخت کے ساتھ باندھتا ، پانچ منٹ میں چوری ہوجاتا۔
بادشاہ رعایا سے بے نیاز ، محل ہی میں رہتا۔ وہ محل سے کبھی باہر نہ نکلتا۔ اس کا ایک ہی مشغلہ تھا۔ ہیرے جواہرات درہم دینار اشرفیاں جمع کرنا۔ اسے قیمتی پتھروں کا بھی شوق تھا۔ اس کے خزانے الماس ، زمرد، عقیق ، مروارید، نیلم اور مرجان سے بھرے ہوئے تھے ۔ وہ رات دن مزید دولت اکٹھی کرنے میں لگارہتا۔ جب اس کے محل میں جگہ باقی نہ رہی تو اس نے کوہ قاف میں ایک غار کرائے پر لیا اور اسے بھرنے میں لگ گیا۔
بادشاہ کی اپنے امیروں، وزیروں، مصاحبوں اور معاونین خاص کو بھی یہی نصیحت تھی کہ وقت کو غنیمت سمجھو۔ اقتدار ناقابل اعتبار ہے۔ جتنی اشرفیاں جتنے درہم ودینار جمع کرسکتے ہوکرو۔ بسااوقات تو وہ ان سے کمال شفقت سے پوچھ بھی لیتا کہ کون سا منصب درکار ہے؟ وہ حساب کتاب کرکے بتاتے کہ فلاں عہدے پر زیادہ اشرفیاں جمع کرنے کا امکان ہے۔ وہ اسی وقت فرمان جاری کردیتا اور مصاحب نئے منصب پر متمکن ہوکر اشرفیاں اکٹھی کرنا شروع کردیتا۔ وزیروں مشیروں اور معاونین خاص کر دور ونزدیک کے سارے رشتہ دار بھی سلطنت کے طول وعرض میں مختلف عہدوں پر براجمان یہی کام کررہے تھے۔ جسے خبر ملتی کہ سلطنت کے فلاں کونے میں فلاں شخص کے پاس کچھ اشرفیاں پائی گئی ہیں، فوراً گھوڑے پر سوار ہوتا، مسلح جتھا ہمراہ لیتا اور جب تک وہ اشرفیاں نکلوانہ لیتا، چین سے نہ بیٹھتا۔
دولت کی حفاظت پر ہروقت مسلح افراد مامور رہتے۔ کوہ قاف کے غار پر ایک بڑا پتھر رکھ دیا گیا تھا۔ اس پر غیرملکی محافظ چوبیس گھنٹے پہرہ دیتے۔ بادشاہ کے محل میں خصوصی جادوگر تعینات تھے جو اس کے لاتعداد خزانوں کی مافوق الفطرت حفاظت کے لیے جنتر منتر کرتے۔ ان میں سے ایک کی ہدایت پر ہرروز کالے رنگ کی دو لومڑیاں ذبح کی جاتیں اور گوشت کووں کو کھلایا جاتا۔
بادشاہ بہت کم بولتا۔ اس کا تکیہ کلام بھی مختصر تھا۔ ’’خریدلو‘‘ اس سے جب بھی کوئی بات کرتا، وہ آدھی بات سنتا اور کہتا ’’خریدلو‘‘ ایک بار وزیر تاریخ نے شکایت کی کہ مورخ کہا نہیں مان رہے اور تاریخ لکھتے وقت رعایا سے حالات پوچھتے پھرتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا ’’خریدلو‘‘ ، چنانچہ عام مورخ خرید لیے گئے۔ پھر معلوم ہوا کہ نقارچی جو صبح صبح ڈھول پیٹ کر گلیوں بازاروں میں لوگوں کو تازہ خبروں سے آگاہ کرتے ہیں، بادشاہ کے خزانوں کے بارے میں بتاتے پھر رہے ہیں۔ بادشاہ نے انہیں بھی خریدنے کا حکم دیا۔ اکثر نقارچی بک گئے۔ باقی دبک گئے۔ جب شہزادوں کی تعلیم کا مرحلہ آیا تو پوچھا گیا ، کون سے مکتب درہم دینار لے کر اسناد دے دیتے ہیں ؟ مصاحبوں نے ایسے مکتبوں کے پتے دیئے، شہزادوں کو وہاں بھیجا گیا، وہ کچھ عرصہ وہاں رہے اور اسناد لے کر کامیابی کے پرچم لہراتے واپس آئے، بادشاہ نے انہیں ایک ہی نصیحت کی کہ جواہرات جمع کرو اور جو شے درکار ہو اور جو شخص قابو میں نہ آئے اور جو ادارہ اطاعت سے انکار کرے، خریدلو۔
ایک بار بادشاہ کو صحت کی ضرورت پڑ گئی۔ معلوم ہواکے ایک اور ولایت میں میسر ہے ۔ چنانچہ وہ وہاں گیا۔ اور صحت خرید لایا۔
ایک بار محل میں قانون کی ضرورت پڑ گئی۔ وہ بھی یوں کہ فرش پر بچھائی جانے والی قالینوں کو جگہ جگہ سے چوہے کتر گئے۔ مصاحبوں نے مشورہ دیا کہ اگر انہیں ہٹا کر قانون بچھالیا جائے تو اس کے اوپر چلنے سے پیروں کو عجیب لطف آئے گا اور جوتے بھی خراب نہیں ہوں گے۔ چنانچہ سلطنت میں جس قدر بھی قانون ملا، خرید کر فرش پر بچھا دیا گیا۔ بادشاہ اور اس کے وزیر امیر اور معاونین خاص اس پر چلتے اور لطف اندوز ہوتے۔
ایک بار جاسوس خاص نے خبردی کہ رعایا چراغ زیادہ جلانے لگ گئی ہے اور فضول خرچی پر مائل ہے۔ فیصلہ ہوا کہ سلطنت میں جتنا بھی تیل موجود ہے۔ اکٹھا کر لیا جائے۔ دربار میں بادشاہ نے پوچھا یہ مہم کون سرانجام دے گا۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے طبیب خاص نے جھرجھری لی اور ہاتھ کھڑاکردیا۔ فوراً طبیب خاص کو امیر تیل مقرر کردیا گیا۔ اس نے سلطنت کے اطراف واکناف سے سارا تیل منگواکر سٹورکرلیا۔ رعایا کو سبق حاصل ہوا اور مائل بہ اصلاح ہوئی۔
کرنا خدا کا، ایک بار بادشاہ سلامت کو عزت کی ضرورت پڑ گئی۔ فوراً حکم ہوا ’’خریدلو‘‘ ۔ گماشتے سلطنت میں کیڑوں کی طرح پھیل گئے۔ بازار چھان مارے گئے، سوئے ہوئے دکاندار جگاکر دکانیں کھلوائی گئیں، ڈھنڈورچی منہ مانگی قیمت کا اعلان کرنے لگے لیکن عزت کہیں سے بھی نہ ملی۔ تاجروں نے ادب کے ساتھ عرض گزاری کی کہ عالی جاہ! یہ جنس بدبخت ایسی ہے کہ منڈی میں میسر نہیں۔ بادشاہ نے چیخ کر کہا ’’یہ کیسے ممکن ہے۔ ہم ہر شے، ہرشخص ، ہرادارہ خریدسکتے ہیں اور خریدرہے ہیں۔ جائو عزت ، جہاں سے ملے خرید کر لائو۔‘‘
سہمے ہوئے مصاحب سلطنت سے باہر دنیاکے کونوں کھدروں تک گئے ،ہرامیر ہروزیر ہر معاون خاص عزت خریدنے کے لیے کوچہ کوچہ دروازہ دروازہ آواز لگارہا تھا۔ ایک ہاتھ میں تھیلا اور دوسرے میں جواہرات سے بھرا بقچہ ، ہراقلیم، ہرولایت ہرملک چھان مارا گیا۔ سمندروں کے پار، پہاڑوں سے اس طرف، لیکن عزت کی ایک رمق بھی کہیں سے میسر نہ آئی۔
ناکام ونامراد مصاحبوں نے آکر رپورٹ پیش کی۔ ہرشے خرید لینے والا بادشاہ آخر بے بس ہوگیا ۔اب وہ پہاڑی کے اوپر اپنے عظیم الشان محل میں عزت کے بغیر رہ رہا ہے۔

Monday, May 13, 2013

ذراسہج چنو

غلام احمد بلور نے متانت اور شرافت کی ایک قابل تحسین مثال قائم کی۔ شکست کو تسلیم کیا اور خندہ پیشانی سے تسلیم کیا۔ اگر وہ دھاندلی کا الزام لگاتے تو ان کے وقارمیں کمی تو آسکتی تھی، اضافہ نہ ہوتا۔ حقائق کو تسلیم کرناچاہیے ، نون لیگ نے مرکز اور پنجاب میں میدان مار لیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ تحریک انصاف کو یہ حقیقت تسلیم کرکے مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔
اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں، ان کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو تین منظر صاف نظر آرہے ہیں:اول۔ مسلم لیگ نون نے اس اصول پر پوری طرح عمل کیا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ رواہے۔ اس نے ٹکٹ دیتے وقت امیدواروں کا ماضی دیکھا نہ حال۔ دیانت دیکھی نہ شہرت۔ اس نے صرف ایک پہلو سامنے رکھا اور وہ یہ کہ کیا اس امیدوار کے جیتنے کا امکان روشن ہے ؟ گوجر خان سے راجہ جاوید اخلاص کی مثال لے لیجیے۔ نون لیگ کے کارکنوں نے بہت شور مچایا۔ راجہ صاحب کی وہ تصویریں بار بار شائع کیں جن میں وہ پرویز مشرف کے ساتھ کھڑے تھے۔ نون لیگ کے وفاداروں کی قربانیاں گنوائیں لیکن ٹکٹ راجہ جاوید اخلاص ہی کو ملا۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ نون لیگ کے ٹکٹ پر جیتنے والے بہت سے ELECTABLES نون لیگ کا ٹکٹ نہ حاصل کر پاتے، تب بھی جیت جاتے۔ پنڈی گھیب، جنڈ،کھنڈہ سے ملک اعتبار خان نے جیتنا ہی جیتنا تھا۔ گوجر خان سے راجہ جاویداخلاص جس پارٹی کا ٹکٹ لیتے، جیت جاتے۔ ملتان سے ملک سکندر بوسن ہرصورت میں جیتتے اور غالباً ہری پور سے عمرایوب خان کی نشست بھی ہرحال میں یقینی تھی ۔ ایسی کئی مثالیں ہیں۔ برادریوں اور سماجی مجبوریوں کو ختم ہونے میں ایک عرصہ لگے گا!اس طریق سیاست کو حکمت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اور اصول شکنی کا بھی ! اسی حکمت یا اس اصول شکنی میں نون لیگ اس حدتک گئی کہ انجم عقیل جیسے مشہور ملزموں کو بھی اپنی آغوش میں لے لیا۔ اسلام آباد کے جلسہ میں انجم عقیل کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑے میاں صاحب نے ویل ڈن انجم عقیل کہا۔ یہ اور بات کہ وہ ہار گئے۔
دوم ۔ جو صوبہ پنجاب کی نسبت زیادہ دقیانوسی اور زیادہ روایت پسند سمجھا جاتا تھا، وہ نئے پاکستان کی جدوجہد میں پنجاب کو کہیں پیچھے چھوڑ گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ برادریوں کا بندھن پنجاب میں کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ ذات پات کے پیچیدہ جال میں پنجاب بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ خاص طورپر جاٹ، ارائیں اور کشمیری ذاتیں اعصاب پر سوار ہیں۔ ذات پات کے سامنے کوئی نظر یہ،کوئی فلسفہ حیات کوئی میرٹ وقعت نہیں رکھتا، یہاں تک کہ پنجاب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان بھی رشتے کرتے وقت ذات پات کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ اعجاز الحق کی مثال لے لیجیے۔ بہاولپور کے ایک دورافتادہ گوشے کے سوا انہیں کوئی جائے پناہ نہ مل سکی۔ صرف اس لیے کہ وہاں ارائیں برادری کا زور ہے۔ تحریک انصاف ذات پات کے اس جال کو توڑنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس الیکشن کے نتائج دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ خیبر پختون خواہ نے برادریوں کے علائق کو بالائے طاق رکھ کر نظریے کو ووٹ دیے ہیں۔ روایت پسند پختونوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ روایات کہن کو توڑ سکتے ہیں۔ جس کسی نے کہا ہے سچ کہا ہے کہ نئے پاکستان کا چاند سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں طلوع ہوا ہے۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ ع  گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا، تو رنگ یوں بدلا ہے کہ جوکچھ اقبال نے پختونوں کے بارے میں شیرشاہ سوری کی زبان میں کہا تھا، آج پنجاب پرصادق آرہا ہے  ؎
یہ نکتہ خوب کہا شیرشاہ سوری نے
کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری
عزیز ہے انہیں نام وزیری و محسود
ابھی یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری
ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی
کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری
لیکن وہ دن دور نہیں جب پنجاب بھی ذات پات کے فرسودہ نظام سے باہر نکل کر کھلی ہوا میں سانس لے گا۔
سوم۔ نگاہ ہوش سے یہ حقیقت اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ بہرحال اس الیکشن کے نتائج میں POLARISATION خطرناک حدتک مضمر ہے۔ پنجاب کے باہر کا تو ذکر ہی کیا،
پنجاب کے اندر بھی یہ کھیل وسطی پنجاب کا نظر آتا ہے۔ قومی سطح کے ایک معروف اخبار کی یہ سرخی جو پہلے صفحہ پر نظر آرہی ہے قابل غور ہے:۔’’ن لیگ کا لاہور ،فیصل آباد ،گوجرانوالہ سمیت چھ شہروں میں کلین سویپ۔ سیالکوٹ، قصور اور شیخوپورہ میں بھی ن لیگ کے امیدوار تمام نشستوں پر کامیاب‘‘ ان صفحات کے قارئین گواہ ہیں کہ اس کالم نگار نے کئی بار نشان دہی کی ہے کہ نون لیگ جوہری طورپر وسطی پنجاب کی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کی کورکمیٹی یاکچن کیبنٹ میں تقریباً تمام اصحاب ایک ہی علاقہ سے ہیں۔ تاریخ کے دھارے کو روکنا تو درکنار، موڑنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ تو اب ایک حقیقت کی شکل اختیار کررہا ہے۔ پنجاب کے مغربی اضلاع کو بھی ترقی اور خوشحالی کے لیے وسطی پنجاب کے اقتدار سے باہر نکلنا ہوگا۔
پنجاب سے باہر صورت حال اور بھی زیادہ غیراطمینان بخش ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نون لیگ صرف پنجاب ہی کے اندر ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ اس ضمن میں الطاف حسین کا بیان بظاہر کتنا ہی تلخ لگے، دراصل حقیقت پر مبنی ہے۔ الطاف حسین نے نون لیگ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ۔ ’’صوبہ پنجاب سے پنجابیوں کی نمائندہ جماعت 2013ء کے الیکشن میں کامیاب ہوئی ہے اور میاں نوازشریف پنجابیوں کے مستند لیڈر قرار پائے ہیں۔‘‘ الطاف حسین نے اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ ’’وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے رہنما کی حیثیت سے باقی ماندہ تین صوبوں کے غیرپنجابی عوام کے ساتھ بھی انصاف ، دیانت داری اور برابری کا سلوک کریں گے۔‘‘
اس الیکشن کے نتائج نے دونوں بڑی پارٹیوں نون لیگ اور تحریک انصاف کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ نون لیگ کی آزمائش یہ ہے کہ کیا وہ اس مائنڈ سیٹ سے باہر نکل سکے گی جس میں مسلح افواج کا سربراہ بھی ایک مخصوص برادری ہی سے چنا جاتا ہے۔ نون لیگ کو یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ 1999ء میں جب اس کے اقتدار کا خاتمہ کیا گیا تو کسی آنکھ میں نمی نہیں تھی۔ اس زمانے کے اخبارات گواہ ہیں کہ ساری کلیدی اسامیوں پر ایک مخصوص شہر اور ایک مخصوص برادری کا غلبہ تھا۔ اسے ثابت کرنا ہوگا کہ فیصل آباد اور سیالکوٹ کے درمیان جو تنگ کاریڈور ہے، وہ اس سے باہر بھی نکل سکتی ہے! اگر وہ اس چھاپ کو اپنے اوپر سے ہٹاسکے تو اس کا مستقبل روشن تر ہوگا!
تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں حاصل ہونے والی ظفریابی کو آزمائش سمجھنا چاہیے، اب اسے ایک تجربہ گاہ مل گئی ہے جہاں وہ اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہوسکتی ہے اور وعدوں کو وفا کرسکتی ہے۔ لیکن اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خیبر پختونخوا میں عجلت نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سید احمد شہید بریلوی کی تحریک مجاہدین کو اسی عجلت نے اس حسّاس علاقے میں ناکام کیا تھا۔ گم شدہ شاعر شبیر شاہد نے کیا خوب نصیحت کی تھی   ؎
ہن برسے گا، سدا برسے گا، ذرا سہج چُنو
چنو سہج کہ بادل ہے دہرا، ذرا سہج چُنو
کوئی کانٹا دیکھو روح میں رہ جائے نہ کہیں
چُنو دھیرج میں، چُنو سہج ذرا،ذرا سہج چُنو

Sunday, May 12, 2013

استغفار پر ہنسی

                                             
سوار پیدل کو سلام کرے، چلتا ہوا بیٹھے کو سلام کرے، چھوٹا بڑے کو سلام کرے‘ جو تعداد میں کم ہیں وہ انہیں سلام کریں جو تعداد میں زیادہ ہیں اور دو پیدل چلتے ہوئے افراد کا آمنا سامنا ہو تو سلام میں پہل کرنے والا برتر ہوگا۔
یہ ہے وہ سبق جو ہمیں دیا گیا تھا۔ یہ سبق محض سبق نہیں تھا‘ یہ ایک علامت تھی اس بات کی کہ پورا معاشرہ حسنِ آداب پر استوار ہوگا۔ خوش اخلاقی چھتری کی طرح سروں پر تنی ہوئی ہوگی۔ ہر شخص مسکرا کر دوسرے سے بات کرے گا۔ ہر فرد اپنی باری کا انتظار کرے گا۔ مذہب کا بنیادی کردار فرد کی اصلاح تھی۔ افسوس! آج مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ فرد‘ دوسرے کے لیے ناقابلِ برداشت ہورہا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرا اپنی اصلاح کرے۔ وہ اپنے آپ کو بھول رہا ہے‘ اس بے وقوف شخص کی طرح جو گروہ کو گنتے وقت اپنے آپ کو نہیں گنتا تھا!
آپ گزرتے وقت پیچھے آنے والے شخص کے لیے دروازہ پکڑ کر کھولے رکھتے ہیں۔ وہ گزرتا ہے۔ شکریہ ادا کرنا تو دور کی بات ہے‘ آپ کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ جیسے آپ اس کے ملازم ہی تو ہیں اور آپ نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ تنگ راستے پر آپ اپنی گاڑی ایک طرف کرکے روک لیتے ہیں تاکہ سامنے سے آنے والی گاڑی پہلے گزر جائے‘ وہ گزرتے وقت آپ کا شکریہ نہیں ادا کرتا۔ ایک ہاتھ ہی تو ہلانا ہے لیکن وہ آپ کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ اگر وہ آپ کے لیے گاڑی روکتا ہے اور آپ شکریہ ادا کرنے کیلئے ہاتھ لہراتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے نہ آپ کی طرف دیکھتا ہے۔ اس
کے پاس تصور ہی نہیں کہ شکریہ ادا کرنا ہے یا وصول کرنا ہے۔ آپ پولیس سکیورٹی کی کھڑی ہوئی رکاوٹ سے گاڑی گزار رہے ہیں۔ ایک وقت میں صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے۔ اچانک پیچھے سے گاڑی آ کر دھانسو طریقے سے آگے ہوجاتی ہے۔ آپ مجبوراً اپنی گاڑی روک کر اسے گزرنے دیتے ہیں۔ پارکنگ میں آپ انتظار کررہے ہیں کہ ایک گاڑی جانے والی ہے اور اس کی جگہ خالی ہورہی ہے جہاں آپ گاڑی پارک کرلیں گے۔ ایک شخص پیچھے سے آتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ آپ پہلے سے انتظار کررہے ہیں لیکن وہ یوں تیزی دکھاتا ہے جیسے مقابلے میں شرکت کررہا ہے۔ وہ مقابلہ جیت جاتا ہے۔ آپ کھڑے رہ جاتے ہیں۔
کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ریلوے کراسنگ پر کیا ہوتا ہے؟ پھاٹک کھلنے پر کوئی شخص اپنی باری کا انتظار نہیں کرتا۔ بائیں والے دائیں طرف اور دائیں والے بائیں طرف دوڑتے ہیں۔ قانون پر چلنے والے کھڑے رہ جاتے ہیں۔ پورا نظام تہس نہس ہوجاتا ہے اور پانچ منٹ کے بجائے ایک گھنٹہ ضائع ہوتا ہے۔ آپ سرخ بتی پر رکتے ہیں۔ بتی سبز ہوتی ہے ایک ثانیہ بھی نہیں گزرتا کہ پیچھے سے پیں، پیں کی آواز آپ کے سر پر ہتھوڑے کی طرح برستی ہے۔ وہ شخص چاہتا ہے کہ بتی سبز ہوتے ہی آپ اپنی گاڑی کو ہوا میں اُچھالیں اور اس کے آگے سے ہٹ جائیں! شاہراہ پر سامنے سے آنے والا ٹرک آپ کو راستہ نہیں دیتا۔ آپ اپنی گاڑی کچے پر اتارنے پر مجبور ہیں۔ آپ بے بسی سے ٹرک ڈرائیور کو دیکھتے ہیں لیکن وہ تو ایک بلند قلعے میں محصور ہے۔ آپ اسے دیکھ ہی نہیں پاتے۔ اس ملک میں اگر فرد تھوڑا سا قانون‘ ذرا سی خوش اخلاقی اختیار کر لے تو حادثوں کی تعداد میں کم از کم پچاس فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے!
آپ ٹرین یا بس کا ٹکٹ خرید رہے ہیں۔ کائونٹر والا آپ کو ٹکٹ تھما کر رقم وصول کررہا ہے۔ اچانک پیچھے سے ا یک کرخت آواز آتی ہے اورایک ہاتھ پیسے پکڑے ہوئے آپ کے اور کائونٹر والے کے ہاتھ کے اوپر آجاتا ہے۔ کائونٹر والا بے بسی ا ور غصے سے اسے کہتا ہے‘ بھائی! میںان سے تو فارغ ہو لوں۔ آپ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایک اچھا بھلا پڑھا لکھا معزز شخص کھڑا ہے اور اس کے چہرے پر ندامت کا شائبہ تک نہیں! یہی کچھ آپ دکان سے سودا لیتے وقت دیکھتے ہیں۔ پیچھے کھڑا ہوا شخص آپ کی فراغت کا انتظار نہیں کرتا او رہاتھ آگے بڑھا کر سودا پہلے خریدنا چاہتا ہے اوراب تو ’’حسن اخلاق‘‘ اس انتہا پر پہنچ چکا ہے کہ بس یا ٹرین میں عورت کے لیے کوئی مرد اور سفید ریش مسافر کے لیے کوئی نوجوان اپنی نشست سے نہیں اٹھتا!
ہر طرف وحشت ہے اور بد تہذیبی! اس صورتحال کو کوئی عمران خان‘ کوئی منور حسن‘ کوئی نوازشریف نہیں بدل سکتا۔ نہ ہی اٹھارہ کروڑ افراد پر اٹھارہ کروڑ پولیس مین متعین کیے جاسکتے ہیں۔ یہ میرا اور آپ کا انفرادی فرض ہے۔ اگر میں سب سے پہلے اپنی اصلاح نہیں کرتا اور معاشرے کو کوستا ہوں تو میں پاگل ہوں یا منافق! یہ میرا فرض ہے کہ میں اپنے بچے کو سمجھائوں کہ تم نے کسی صورت میں قانون کا دامن نہیں چھوڑنا اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے! استقامت کی گھڑی وہ ہے جب بچہ دلیل دیتا ہے کہ یہ کام کوئی دوسرا نہیں کررہا۔ آخر میں ہی کیوں؟ لیکن اسے باور کرانا ہے کہ اگر ساری دنیا میں وہ ایک ہی شخص ایسا کرنے والا رہ گیا ہے تب بھی اسے ایسا کرتے رہنا چاہیے۔ کوئی قانون کو پائوں تلے روندتا ہے یا سلام کا جواب نہیں دیتا۔ کوئی اپنی باری کا انتظار نہیں کرتا یا کسی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہ ہرگز جواز نہیں کہ دوسرا بھی ایسا ہی کرے۔
یہ تو وہ معاشرہ تھا جس میں مرتا ہوا شخص پانی نہیں پیتا تھا کہ پہلے دوسرا پیے اور دوسرا نہیں پیتا تھا کہ پہلے تیسرا پیے اور سب دوسروں کی خاطر جان قربان کردیتے تھے۔ خود بھوکے رہتے لیکن پڑوسی کو کھانا بھجواتے تھے۔ خود پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے دوسروں کو نئے ملبوسات مہیا کرتے تھے۔ اس امت کے پیغمبرؐ کو ایک شخص نے کہا تھا آپؐ یہیں انتظارفرمائیے‘ میں ابھی آتا ہوں، وہ بھول گیا اورآپؐ تین دن وہیں انتظار فرماتے رہے۔ آج امت کی یہ حالت ہے کہ دوسرے کی خاطر اپنے حق سے دستبردار ہونا تو دور کی بات ہے‘ دوسرے کا حق غصب کرنا روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ اپنی باری کا انتظار کرنا کوئی قربانی تو نہیں، جو پہلے سے کھڑا ہے‘ اس کا حق فائق ہے لیکن یہاں یہ بھی گوارا نہیں! آج یہ لطیفہ انگریزوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بھی ہو تو قطار بنا لیتا ہے! کاش یہ ہمارے بارے میں ہوتا!
پیغمبروں کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ آخری پیغمبرؐ یہ فرما کر کہ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں‘ اُمت سے رخصت ہوگئے۔ آسمان سے کوئی فرشتہ بھی اتر کر ہمارے آگے ہاتھ نہیں جوڑے گا۔ ہماری عادات و خصائل پر دوسری قومیں ہنستی ہیں اور انہیں ہنسنے کا حق حاصل ہے۔ کہاں ہمارے دعوے اور کہاں ہمارا اخلاق! کوئی ظاہری صورت‘ کوئی تسبیح و وظیفہ، کوئی تھری پیس سوٹ‘ حسنِ اخلاق کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ صائب تبریزی بھی کہاں یاد آگیا   ؎
سبحہ بر کف‘ توبہ برلب‘ دل پُر از شوقِ گنہ
معصیت  را  خندہ     می  آید  ز  استغفارِ ما
ہاتھ میں تسبیح ہے، ہونٹوں پر توبہ ہے اور دل کو گناہوں کا شوق ہے۔ معصیت کو ہماری استغفار پر ہنسی آرہی ہے!

Friday, May 10, 2013

روشنی کی کرن

اسلام آباد کلب کے لائونج سے گزرتا سیڑھیاں اتر کر لائبریری جانا چاہتا تھا کہ خبر کی بھنک کان میں پڑی۔ عمران خان زخمی ہوگیا ہے۔ پلٹا اور ٹی وی کے سامنے پہلے کھڑا ہوا پھر بیٹھ گیا۔ کان ٹی وی کی طرف لگے تھے لیکن نظر لوگوں کی نقل وحرکت پر تھی۔ ایک صاحب بدحواس ہوکر ایک طرف کو چل پڑے جیسے کسی کو بتانے کے لیے دوڑنا چاہتے ہوں۔ ایک خاتون آئی اور خبر سن کر ہاتھ منہ پر رکھ لیا ۔ لائونج بھر گیا۔ لوگ کناروں پر کھڑے ہوگئے ۔خاص طورپرنوٹ کی جانے والی بات یہ تھی کہ نظریں ٹی وی سکرین پر جم گئی تھیں اور ہٹتی نہ تھیں۔ اس کے بعد جو بھی ملا اس نے اسی موضوع پر بات کی۔ چھ سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا۔ جب چیف جسٹس افتخار چودھری کو ہٹایا گیا تھا اور لوگ ٹیلی ویژن سکرینوں کے سامنے جیسے نصب ہوگئے تھے۔
زمانہ کروٹ بدل چکا ہے۔ بادشاہوں کا زمانہ لد چکا۔ یہ لیڈروں کا دور ہے۔ لیڈر کوکچھ ہوجائے تو اس کے پیروکار لمحہ لمحہ کی خبر جاننا چاہتے ہیں۔ ہمایوں کتاب خانے کی چھت سے گرا اور جاں بحق ہوگیا لیکن خبر کئی دنوں تک چھپائی گئی ۔ کبھی مطب سے دوا جاتی تھی‘ کبھی باورچی خانے سے مرغ کا شوربہ۔ کبھی بتایا جاتا تھا کہ ضعف زیادہ ہوگیا ہے اور کبھی خبر پھیلتی کہ روبصحت ہیں۔ دربار میں ایک شاعر تھا کہ شکل اور قدبادشاہ سے ملتا تھا۔ کئی دفعہ اسے محل کی چھت سے دکھایا گیا کہ ابھی چہل قدمی تو کررہے ہیں لیکن باہر نہیں آسکتے‘ یہاں تک کہ اکبر تخت نشین ہوگیا۔ فرامین ہرطرف بھیجے جاچکے ۔ تب بادشاہ کی رحلت کا اعلان ہوا۔’’عثمانی ترک بھی اسی طرح کرتے تھے۔ اب دوسری انتہا ہے کہ عمران خان کے نیچے گرنے کے منظر کو ٹیلی ویژن چینل بار بار دکھارہے تھے۔   ع
ببین تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا
عمران خان کو حادثہ پیش آنے سے لوگ بدحواس کیوں ہوگئے؟ خواتین نے منہ پر ہاتھ کیوں رکھ لیے؟مردٹیلی ویژن کے ساتھ کیوں چپک گئے۔ سوشل میڈیا پر افراتفری کیوں برپا ہوگئی۔ لوگ ایک دوسرے سے کیوں پوچھنے لگے کہ یہ سازش تو نہیں تھی؟جولوگ عمران خان کے حامی نہیں ہیں انہیں ان سوالات پر غور کرنا چاہیے۔ جسٹس افتخار چودھری کسی کے رشتہ دار تھے نہ عمران خان کا کسی سے خون کا رشتہ ہے۔ پرویز مشرف سے کسی کی ذاتی مخاصمت تھی نہ پیپلزپارٹی، نون لیگ اور جے یو آئی سے کسی کا جائیداد کا تنازعہ ہے۔ خلق خدا انصاف چاہتی ہے اور انصاف قانون کی بالادستی سے ملے گا۔ جوافراد ، جوخاندان اور جو برادریاں پیپلزپارٹی اور نون لیگ سے فیض یاب ہوئیں ، ان کی بات اور ہے ۔ ان کا مستقبل بھی احسان کرنے والی ان جماعتوں ہی سے وابستہ ہے۔ ان کے علاوہ جتنے بھی سوچنے سمجھنے والے لوگ ہیں، خاص طورپر شہروں کی پڑھی لکھی مڈل کلاس، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان جماعتوں نے عدل وانصاف کا خون کیا ہے۔ پیپلزپارٹی تو میرٹ کشی کے لیے نہ صرف معروف ہے بلکہ ڈنکے کی چوٹ اس کا اعلان بھی کرتی ہے۔ پی آئی اے ، ریلوے اور ان گنت دوسرے محکمے اس کی جیالانوازی کی نذر ہوگئے ہیں۔ صدر زرداری دوستوں کے دوست ہیں۔ دوست نوازی اور عدل وانصاف میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
پیپلزپارٹی کے بارے میں زیادہ بات کرنا مرے کو مارنے والی بات ہے۔ نون لیگ نے عام آدمی کے ساتھ کون سا انصاف کیا ہے؟نون لیگ کے حمایتی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ صوبے کا بجٹ ایک شہر پر خرچ کردیا گیا ہے۔ آڈیٹر جنرل نے نون لیگ کی سستی روٹی اور دوسری سکیموں کے متعلق جو ہوشربا انکشافات کیے ہیں، ان کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ صوبے کے قریوں اور بستیوں میں خاک اُڑ رہی ہے، پانی ہے نہ سڑکیں ، سرکاری سکولوں کی چھتیں ہیں نہ دیواریں، نہ استاد، تحصیل سطح کے یتیم ہسپتالوں کے سوا کوسوں چلے جائیے ، بڑے بڑے دیہاتوں میں ڈسپنسری کوئی نہیں، خادم اعلیٰ صرف ایک سوال اپنے آپ سے پوچھیں ۔ پانچ سالوں میں وہ کتنے سرکاری سکولوں میں گئے ہیں؟شاید ایک میں بھی نہیں؟صوبے کے کتنے گائوں ان کے مبارک قدموں سے متبرک ہوئے ہیں؟ اعتزاز احسن کی بات پھر یاد آتی ہے کہ وہ لاہور کے نہیں صرف جنوبی لاہور کے وزیراعلیٰ تھے۔ کیا وسعتِ نظر ہے! رانا ثناء اللہ کے علاوہ کسی وزیر کا نام اس عرصہ میں شاید ہی لائم لائٹ میں آیا ہو۔ اٹھارہ وزارتیں فردواحد کی جیب میں رہیں!
لیکن پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا کیا گلہ! جن سیاسی جماعتوں نے مذہب کی مقدس چادر اوڑھ رکھی ہے، انصاف ان کے ہاں کہاں تھا؟ جے یو آئی میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس کی مارصرف ان علاقوں تک ہے جہاں تعلیم کی شدید کمی ہے، مدارس کی بہتات ہے، خاندانی نظام نے فرد کو جکڑا ہوا ہے اور عملی طورپر قبائلی سسٹم کی فرماں روائی ہے۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا   ؎
کلائیو کی یہ بات آئی پسند
کہ وہ مرگیا
جے یوآئی کا قوم پر احسان ہے کہ شہروں میں بالعموم اور مڈل کلاس میں بالخصوص اس کی دال نہیں گلتی ۔ یوں بھی اگر کوئی کہے کہ یہ جماعت یا اس جماعت کے محترم رہنما حکومت میں آکرتبدیلی لائیں گے تو یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ جناب عبدالستار ایدھی نیوکلر فزکس پر لیکچر دیں گے۔ کئی سالوں سے یہ جماعت حکومت کا حصہ ہے ۔ کراچی کے ایک شاعر کے بارے میں جمال احسانی مرحوم نے مشاعرہ کے کمپیئر سے کہا کہ انہیں سب سے پہلے پڑھوائیے ۔ کمپیئر نے کہا، سب سے پہلے ہی ہیں۔ جمال احسانی کہنے لگے مزید پہلے پڑھوائیے ۔ جے یو آئی مزید حکومت میں رہ کر کون سی تبدیلی لائے گی؟
ایک اور مذہبی جماعت، جو سیاست میں ایک بہت بڑے نام کے ساتھ درآئی تھی، صرف اس میرٹ کو میرٹ سمجھتی ہے جو اس کے وابستگان کو نوازے۔ اس جماعت کی اور اہل وطن کی دونوں کی خوش قسمتی ہے کہ یہ آج تک اقتدار میں نہیں آئی اور تھوڑا سا بھرم باقی ہے ورنہ حالت یہ ہوتی کہ  ع
مارا خراب کردہ وخود مبتلا شدی
اگرچہ جنرل ضیاء الحق کے دورِ سپاہ میں بھانجے کے ساتھ ماموں جان کی عملداری بھی رہی!جہاں جہاں اس پارٹی کو اختیار ملا، اس نے پیپلزپارٹی کی جیالا نوازی اور مسلم لیگ کی متوالا نوازی کو مات کردیا۔ اسلام آباد کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں ایک وقت تھا کہ اس کا غلبہ تھا۔ تقابلِ ادیان کی نشست پر انتھراپولوجی پڑھا ہوا شخص لگ گیا‘ پاکستان کی قدیم ترین یونیورسٹی کا جوحال ہوا ہے ، عبرت ناک ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک خالص سیاسی تنظیم کا یومِ تاسیس یونیورسٹی کے اندر منایا جاتا ہے!اس کی کوئی مثال دنیا کی کسی یونیورسٹی میں نہیں ملتی۔ خوف زدہ اساتذہ پچھلی ربع صدی کی روداد لکھیں تو بیسٹ سیلر کے اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ جائیں۔
یہ ہے اس پیش منظر کی ہلکی سی جھلک جو ملک میں افق سے افق تک چھایا ہوا ہے۔ انصاف کم ہی ملتا ہے۔ میرٹ کا حال یہ ہے کہ اداروں کے سربراہ دن دہاڑے رشتہ داروں کے جتھوں کے جتھے بھرتی کرلیتے ہیں اور احتساب کے تالاب میں معمولی سا ارتعاش بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔ عمران خان میں لوگوں کو امید کی ایک جھلک نظر آرہی ہے۔ حادثے کی خبر ملی تو امید ڈولتی نظر آئی۔ خیریت کی خبر ملی تو روشنی کی کرن پھر چمکنے لگی۔

Tuesday, May 07, 2013

چھ زمینیں اور آٹھ آسمان

الیکشن مہم زوروں پر ہے۔ جذبات مشتعل کرنے کا مقابلہ ہے۔ نعرے ہیں اور دعوے اور سچی بات یہ ہے کہ بڑھکیں ہیں۔ یہاں دلیل کا کوئی عمل دخل نہیں۔ منطق اور عقل کا کوئی کام نہیں۔ حقائق کو کوئی نہیں پوچھتا۔ جو جتنا زیادہ شور برپا کرے وہی اپنے آپ کو ظفریاب سمجھتا ہے۔ کوئی مباحثہ نہیں۔ کوئی ڈی بیٹ نہیں۔ امیدواروں کو ، خاص طور پر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ،سب سے بڑا فائدہ عوام کی ناخواندگی کا ہے۔ ناخواندگی اور نیم خواندگی۔ اعداد و شمار بے کار ہیں۔ جو تین تین بار اقتدار میں رہے‘ ان سے کون پوچھے کہ آپ کے زمانے میں قومی آمدنی میں اضافے کی کیا شرح رہی اور آپ کے اپنے اثاثے کس رفتار سے بڑھے۔ کس کو کون بتائے کہ کس کے عہد میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایک ایک دن کے لیے احکامات جاری کیے؟ اکثریت کو یہی نہیں معلوم کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کس چڑیا کا نام ہے۔ وہی پامال لطیفہ کہ نظر کا معائنہ کرانے والے مریض سے آنکھوں کے ڈاکٹر نے کہا سامنے دیوار پر جو چارٹ لگا ہے اسے پڑھو، تو اس نے پوچھا کہ کون سی دیوار؟
ترقی یافتہ ملکوں میں امیدواروں کے درمیان مباحثے ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر‘ یونیورسٹیوں میں‘ تھنک ٹینکس میں۔ حوصلے اور تحمل سے دلائل دیئے جاتے ہیں۔ اعداد و شمار کے ساتھ موقف بیان کیے جاتے ہیں۔ تردید کرنے والا بھی دلیل پیش کرتا ہے اور اصرار کرنے والا بھی دلیل ہی کا سہارا لیتا ہے۔ کوئی گلے کی رگیں سرخ کرتا ہے نہ منہ سے جھاگ نکالتا ہے۔ کوئی کسی کو آلو کہتا ہے نہ اوئے پکارتا ہے۔ مدتوں پہلے اس کالم نگار نے روم میں ایک مشہور ریستوران دیکھا جہاں الیکشن کے زمانے میں سیاسست کے شوقین آکر بیٹھتے تھے اور گھنٹوں بحث کرتے تھے لیکن آوازیں بلند نہیں ہوتی تھیں۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے زیادہ شور نہ ہوتا تھا۔ آستینیں چڑھتی تھیں نہ دشنام طرازی ہوتی مگر یہ ساری باتیں تعلیم سے ہیں اور تعلیم بھی کیا، تربیت اور روایت سے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ تمدن کس سٹیج پر ہے۔ تمدن، کلچر، تہذیب، فلسفی ان سب کی الگ الگ تعریفیں کریں گے لیکن بنیادی قدرِ اشتراک تینوں میں ایک ہے۔ صرف ایک ۔ کہ دولت کا کوئی کردار نہیں۔ دولت تو برونائی اور مشرقِ اوسط میں بھی ہے۔ دولت تو غریب پاکستان میں بھی لوگوں کے پاس اس قدر ہے کہ تین چار افراد پورے ملک کا قرضہ چکا دیں۔ برداشت، ٹھہرائو اور نرم گفتاری کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی ملک میں لائبریریاں کتنی ہیں، یونیورسٹیوں کا ماحول کیا ہے اور حکمرانوں کا قومی خزانے کے ساتھ برتائو کیسا ہے۔ برطانیہ کا وزیراعظم مشہور کمپنی چرچ کے بنے ہوئے جوتوں کا ایک جوڑا اٹھارہ سال پہنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرقِ  وسطیٰ کے بادشاہوں کا معیار زندگی دیکھیے، اور پھر آخری فیصلہ کرنے کے لیے یہ معلوم کیجیے کہ علاج کرانے کے لیے برطانیہ کے مریض مشرق وسطیٰ کا رُخ کرتے ہیں یا مشرق وسطیٰـ سے مریضوں کو برطانیہ لایا جاتا ہے۔
 ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان بننے کے لیے طالب علم کہاں سے چلتے ہیں اور کہاں پہنچتے ہیں۔
ناصر کاظمی نے کہا تھا    ؎
تیرے وعدے، میرے دعوے
ہوگئے باری باری مٹی
نوازشریف کہتے ہیں پنڈی سے مری ٹرین چلائیں گے۔ کوئی پوچھے، حویلیاں سے ایبٹ آباد صرف دس کلومیٹر کا فاصلہ ہے، حویلیاں تک انگریز ٹرین پہنچا گئے تھے‘ آپ سے اقتدار کے دو زمانوںمیں یہی نہ ہوا کہ ایبٹ آباد تک ریل چلا دیتے۔ لواری سرنگ تو اب بنی ہے۔ پہلے جب سرما عروج پر ہوتا تھا تو چترال کے باشندے پشاور سے افغانستان جاتے تھے اور نورستان کے راستے چترال کی وادی میں داخل ہوتے تھے۔ ان دنوں ایک وزیر نے دعویٰ کیا کہ ہم چترال کو وسط ایشیا سے ملا دیں گے۔ کسی کو یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ چترال تو خود پاکستان سے چھ ماہ کٹا رہتا ہے! پہلے اسے پاکستان سے تو ملائیے!
عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ امریکی ڈرون گرا دے گا۔ کہنا آسان ہوتا ہے اور کرنا مشکل۔ عمران خان نوجوانوں کی آس ہے اور ان لوگوں کے لیے امید کا چراغ بنا ہوا ہے جو اس ملک کو خاندانی سیاست سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسے سوچ سمجھ کر دعوے کرنے چاہییں۔ ابھی وہ میز کے اس طرف بیٹھا ہے۔ ڈرون گرانے کا حکم دیتے وقت وہ میز کے دوسری طرف بیٹھا ہوگا۔ اس وقت اس کے سامنے ایک تصویر ہے۔ اس وقت تصویر مختلف ہوگی۔
مجیب الرحمن نے متحدہ پاکستان  کے آخری انتخابات میں اکثریت حاصل کی تھی تو عقل مندوں نے مشورہ دیا تھا کہ اسے حکومت دے دو۔ دعوے کرنا اور بات ہے۔ حکومت میں آکر پالیسیاں بنانا، بدلنا اور نافذ کرنا دوسری بات ۔
چھ ماہ کے اندر اندر مشرقی پاکستان کے عوام اس سے دل برداشتہ ہوجائیں گے۔ ڈرون گرانے کا دعویٰ اور وعدہ کرنے سے پہلے عمران خان کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ فاٹا کے مستقبل کے لیے اس کے پاس کیا وژن ہے؟ اور وہ ان علاقوں پر حکومت کی رٹ کیسے نافذ کرے گا؟ دنیا کا کوئی ملک یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی دوسرے ملک سے لوگ آ کر لڑائی میں حصہ لیں۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے جو لوگ فاٹا میں رہ رہے ہیں وہ کسی عرب ملک کا رُخ کیوں نہیں کرتے؟
سب سے پہلے اس کالم نگار نے یہ مطالبہ کیا تھا اور آج پھر دُہراتا ہے کہ پینسٹھ برسوں کے دوران قبائلی علاقوں میں جو پیسہ تقسیم کیا جاتا رہا اس کا حساب قوم کے سامنے رکھنا چاہیے۔ کن خواتین اور کن ملوک کو کتنی رقم دی گئی؟ عام قبائلی کو کیا ملا؟ وہاں کتنے سکول، کتنے کالج اور کتنی یونیورسٹیاں بنیں؟ کتنے کارخانے لگے؟ کتنے قبائلیوں کو باعزت روزگار دیا گیا؟ پینسٹھ سال کا عرصہ کم عرصہ نہیں، آخر ان علاقوں کو باقی پاکستان میں ضم کیوں نہ کیا گیا؟ اور سمگلروں‘ ہائی جیکروں‘ کاریں چرانے والوں اور اغوا کرنے والوں کی جنت کیوں رہنے دیا گیا؟ جو لوگ قبائلیوں کو بہادر اور غیرت مند کہہ کر ان کے بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوقیں دیکھنا پسند کرتے ہیں وہ اپنے بچوں کو لیپ ٹاپ کیوں دیتے ہیں؟ عمران خان کو فاٹا کے بارے میں سوچ سمجھ کر پالیسی بنانا چاہیے تھی اور قوم کو بتانا چاہیے تھا کہ وہ ان مظلوم علاقوں کی تقدیر کس طرح بدلے گا؟ ڈرون گرانا آسان ہے، نتائج، خدانخواستہ، ڈرون سے بھی زیادہ تباہ کن ہوئے تو وہ بھی غریب قبائلی ہی بھگتیں گے۔ خدا انہیں محفوظ رکھے۔
الیکشن کی جنگ جاری ہے۔ قیامت کا شور ہے۔ نظامی نے سکندر کی جنگ کا حال بتاتے ہوئے لکھا تھا   ؎
زِ سمِ ستوراں در آن پہن دشت
زمین شش شد و آسمان گشت ہشت
گھوڑوں کے سم زمین پر پڑنے سے وہ گرد اٹھی کہ زمینیں سات سے چھ رہ گئیں اور آسمان سات سے آٹھ ہوگئے۔ گرد کے اس طوفان میں کسے پرواہے کہ بنیادی مسائل کیسے حل ہوں گے؟ وہ زرعی اصلاحات جو بھارت 1951ء میں لے آیا‘ پاکستان میں کب آئیں گی؟ کون لائے گا؟ ازمنۂ وسطیٰ سے بھی قدیم تر سرداری نظام جو بلوچستان میں آج بھی رائج ہے‘ کب ختم ہوگا؟ کون ختم کرے گا؟ کب تک سچ اور جھوٹ کا فیصلہ دہکتے انگاروں پر چلا کر کیا جائے گا؟ پرویز مشرف برا ہے لیکن اسے مارنے والے کو طلال بگٹی صاحب ایک ہزار ایکڑ زمین کہاں سے دیں گے؟ اور ان کے پاس کل کتنی زمین ہے؟ ایک عام بگٹی کا معیار زندگی کیا ہے؟ یہ اور سینکڑوں دوسرے سوال۔ لیکن ناخواندگی زندہ باد! سوال پوچھے کون؟

Monday, May 06, 2013

اجارہ داری

صحرا تھا اور طویل سفر۔ دور ایک سایہ سا نظر آیا۔ عبداللہ بن مبارکؒ نے قریب جا کر دیکھا تو وہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ انہوں نے السلام علیکم کہا۔ بڑھیا نے سلام کے جواب میں قرآنی آیت پڑھی۔ ’’سلام’‘ قولاً من رب الرحیم۔‘‘پوچھا یہاں کیا کررہی ہو۔ جواب میں اس نے ایک اور آیت پڑھی۔ جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا کوئی رہنما نہیں (اعراف) ۔وہ سمجھ گئے راستہ بھول گئی ہے۔ پوچھا کہاں جانا ہے۔ بولی: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی۔ (اسریٰ)۔ عبداللہ بن مبارکؒ سمجھ گئے کہ وہ حج کرکے آرہی ہے اور بیت المقدس جانا چاہتی ہے۔ پوچھا کب سے یہاں بیٹھی ہو؟ اب اس نے ایک اور آیت پڑھی: پوری تین راتیں (مریم)
کھانے کا کیا انتظام ہے؟
وہی کھلاتا پلاتا ہے (الشعرا)
وضو کیسے کرتی ہو؟
پانی نہ پائو تو پاک مٹی سے تیمم کرلو (النساء)
کھانا پیش کروں؟
پھر رات تک روزے کو پورا کرو (البقرہ)
مگر آج کل رمضان تو نہیں۔ پھر روزہ کیسا؟
جو بھلائی کے ساتھ نفلی عبادت کرے تو اللہ قدر دان اور جاننے والا ہے۔ (البقرہ)
سفر کی حالت میں نفلی روزہ ضروری نہیں۔ تم چھوڑ سکتی تھیں۔ اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔ اگر تم سمجھو تو (البقرہ)
تم نارمل گفتگو کیوں نہیں کرتیں؟
انسان جو بات بھی کرتا ہے اس کے لیے ایک نگہبان فرشتہ مقرر ہے۔ (ق)
تمہارا کس قبیلے سے تعلق ہے؟
جس بات کا تمہیں علم نہیں‘ اس کے پیچھے نہ پڑو۔ کان، آنکھ اور دل ہر ایک کے بارے میں پوچھا جائے گا (الاسریٰ)
مجھ سے غلطی ہوگئی۔ معافی کا خواستگار ہوں۔
آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تمہیں معاف کرے (یوسف)
تم میری اونٹنی پر سوار ہوسکتی ہو۔
تم جو بھلائی بھی کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔ (البقرہ)
عبداللہ بن مبارک نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا تاکہ وہ سوار ہوسکے ۔ مگر اس نے ایک اور آیت پڑھی۔ ’’مومنین سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچے رکھیں۔(النور) انہوں نے نگاہیں جھکا لیں مگر اونٹنی بدک گئی اوربھاگ پڑی۔ اس کشمکش میں بڑھیا کے کپڑے پھٹ گئے۔ اس پر اس نے کہا۔ تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال کی وجہ سے ہے۔ (الشوریٰ)
انہوں نے کہا کہ میں اونٹنی کو باندھ دیتا ہوں۔ وہ بولی ’’ہم نے اس مسئلے کا حل سلیمان کو سمجھا دیا۔ (الانبیا)‘‘ اونٹنی کو انہوں نے باندھا اور وہ سوار ہوئی۔ سوار ہوتے وقت دعا مانگی ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کیا اور ہم اسے کرنے والے نہیں تھے۔ (الزخرف)‘‘
عبداللہ بن مبارک نے مہار پکڑی اور چل پڑے۔ وہ تیز تیز دوڑتے جارہے تھے اور چیخ کر اونٹنی کو ہانک رہے تھے۔ بڑھیا نے آیت پڑھی۔ ’’اپنے چلنے میں اعتدال سے کام لو اور اپنی آواز پست رکھو (لقمان)‘‘ وہ آہستہ ہوگئے اور وقت گزارنے کے لیے ترنم سے اشعار وغیرہ پڑھنے لگے۔ اس پر بڑھیا نے کہا۔ قرآن سے جتنا حصہ آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھو (المزمل)
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد عبداللہ بن مبارک نے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھا۔ اس پر اس نے یہ آیت پڑھی: اے ایمان والو ‘ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھ جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ (مائدہ)
وہ چلتے گئے یہاں تک کہ انہوں نے اس قافلے کو جا لیا جس سے وہ بچھڑی تھی۔ عبداللہ نے پوچھا اس قافلے میں تمہارا کون ہے؟ جواب میں اس نے یہ آیت پڑھی: مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف) وہ سمجھ گئے کہ یہاں اس کے بیٹے ہیں۔ پوچھا وہ قافلے میں کیا کرتے ہیں۔ کہا: اور علامتوں اور ستاروں ہی سے وہ راستہ معلوم کرتے ہیں۔ (النحل)، وہ جان گئے کہ اس کے بیٹے گائیڈ ہیں۔ اب انہوں نے بیٹوں کے نام پوچھے۔ جواب میں اس نے مختلف آیات کے تین حصے پڑھے ۔ اللہ نے ابراہیم کو خالص دوست بنا لیا (النساء)،اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا۔ (النسا) اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی سے تھام لو (مریم) عبداللہ نے ابراہیم موسیٰ اور یحییٰ کے نام سے پکارا تو خاتون کے تینوں فرزند آ موجود ہوئے۔ سب بیٹھ گئے۔ پھر بڑھیا نے بیٹوں کو مخاطب کرکے یہ آیت پڑھی۔ اب کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کی طرف بھیجو وہ دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے۔ پھر اس میں سے کچھ لے آئے (الکہف)، چنانچہ ایک بیٹا گیا اور کھانا لے آیا۔ کھانا سامنے رکھا گیا تو اس نے کہا۔ مزے سے کھائو اورپیو یہ ان کا بدلہ ہے جو تم نے پچھلے دنوں کیا (الحاقہ)
پوچھنے پر بیٹوں نے بتایا کہ ان کی ماں نے چالیس برس سے قرآنی آیات کے علاوہ کوئی جملہ نہیں بولا تاکہ زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جس پر گرفت ہو۔
یہ ایک مشکل اور نادر کام تھا جو اس پارسا خاتون نے کیا۔ ہم اس طرح نہیں کرسکتے نہ ہی اس کا حکم ہے۔ اس لیے کہ یہ تقویٰ ہے۔ فتویٰ نہیں، لیکن ہم تو دوسری انتہا پر ہیں۔
قرآن پاک سے ہمارا تعلق محض اتنا ہی ہے کہ بچپن میں مولوی صاحب سے اس کی ٹیوشن پڑھیں۔ پھر کسی کی موت پر ایک دو پارے پڑھ لیں اور بہت تیر ماریں تو ایک ختم رمضان میں کرلیں۔
قرآن پاک کو سمجھنا اور سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونا اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس مضحکہ خیز صورتحال کا تصور کیجیے جس میں ہر شخص اسلام کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اسلام کے نام پر ان گنت تنظیمیں‘ جماعتیں، گروہ، وجود میں آرہے ہیں جو باہم دست و گریبان ہیں۔ کوئی اسلامی نظام کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کوئی لال قلعہ سے لے کر وائٹ ہائوس تک پر قبضہ کرنے کا اعلان کررہا ہے۔ گاڑیوں کے پچھلے شیشوں پر اور دکانوں کی پیشانیوں پر سب نے اپنے اپنے عقیدے لکھ رکھے ہیں لیکن اٹھانوے فیصد کو معلوم ہی نہیں کہ قرآن پاک میں لکھا کیا ہے۔ قرآن پاک تو دور کی بات ہے پانچ وقت نماز پڑھنے والوں کو یہی نہیں معلوم کہ جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ بھاری اکثریت ہر نماز‘ ہر رکعت میں سورہ اخلاص پڑھ رہی ہے حالانکہ رسول پاکؐ نے سوائے جمعہ اور عید کے، عام فرض نمازوں میں کوئی ایک یا چند متعین سورتیں نہیں پڑھیں۔ عمرو بن شعیب اپنے والد اور پھر دادا کے توسط سے روایت کرتے ہیں کہ بڑی یا چھوٹی کوئی سورت ایسی نہیں جسے میں نے نبیؐ کو فرض نمازوں میں پڑھتے نہ سُنا ہو۔ آج یہ ڈیوٹی صرف نماز پڑھانے والے امام کی ہے کہ وہ مختلف سورتیں پڑھے۔
اس صورتحال کا عملی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمانوں میں بالعموم اور اہل پاکستان میں بالخصوص ایک طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو قرآن کے معانی اور مفاہیم کو سمجھ سکتا ہے اور عام مسلمان اس طبقے کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔ آپ نماز جمعہ سے پہلے کی جانے والی تقریر کی مثال لے لیجیے۔ خطیب صاحب کے سامنے جو نمازی بیٹھے ہوتے ہیں ان کی بھاری اکثریت کو بالکل معلوم نہیں کہ جو آیات پڑھی گئی ہیں ان کا معنی مولوی صاحب درست بتا رہے ہیں یا اپنے مطلب کا اضافہ کررہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ خطیب حضرات ایسا کرتے ہیں۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کہ اگر وہ ایسا کریں تو سامنے بیٹھے ہوئے دو پایوں کو معلوم ہی نہ ہو۔ قرآن پاک مدارس اور مدارس میں پڑھنے پڑھانے والوں کی اجارہ داری میں مقید ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کا الزام مدارس اور اہل مدرسہ پر ڈالنا قطعی ناروا ہے۔ آپ اپنے بچوں کو اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں بھیج سکتے ہیں۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے بیرون ملک یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوا سکتے ہیں لیکن اس کو اتنی عربی نہیں پڑھوا سکتے ہیں کہ وہ قرآن پاک کو سمجھ سکے اور کسی سے اس ضمن میں دھوکہ نہ کھائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ عام گفتگو میں قرآن پاک کی آیات کا حوالہ دیتے اور اسی کی آیات کے حصے ضرب الامثال کی صورت اختیار کرتے لیکن اسلام کے اس قلعہ میں اٹھانوے، ننانوے فیصد مسلمان کتاب اللہ کے معانی و مفاہیم سے یکسر بے بہرہ ہیں۔ پھر بدقسمتی سے ایسے گروہ بھی پھر رہے ہیں جو لوگوں کو باور کراتے پھرتے ہیں کہ قرآن سمجھنا صرف علما کا کام ہے اور تم صرف تسبیحات اور وظائف پر گزارہ کرو۔ اگر ایسا ہوتا تو خدا کی کتاب میں بار بار یہ نہ کہا جاتا۔ ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے‘‘ کہیں یہ بتایا ’’اے نبی ،ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان پر سہل بنا دیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں‘‘ (الدخان) قرآن میں یہود اور نصاریٰ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے علما اوردرویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ (التوبہ)، حضرت عدیؓ بن حاتم جب عیسائی سے مسلمان بنے تو اللہ کے رسولؐ سے پوچھا کہ رب بنانے سے کیا مطلب ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جسے حلال کہتے ہیں تم حلال مان لیتے ہو۔ حضرت عدیؓ نے عرض کیا ایسا تو ہے۔ فرمایا بس یہی ان کو خدا بنا لینا ہے!!

 کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی اپنے علما اور درویشوں کو رب بنا بیٹھے ہیں؟
اللہ کے بندو! اپنے بچوں کو قرآن کے معانی سے براہ راست آگاہ کرنے کا انتظام کرو تاکہ وہ ان لوگوں سے بچ سکیں جو اسے اپنی اجارہ داری بنائے بیٹھے ہیں۔

Friday, May 03, 2013

کھلنا چاہیے‘ ضرور کھلنا چاہیے!

مصرکے گورنر حضرت عمرو بن عاص کے صاحبزادے نے ایک شخص کو تازیانے مارے۔ مارتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔ لے میں بڑوں کی اولاد ہوں‘‘ مظلوم مدینہ پہنچا اور فریاد کی۔ عمرفاروق اعظم ؓنے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور گورنر اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجا۔ دونوں مجلس قصاص میں پیش ہوئے دوسرے خلیفہ راشد نے بلند آواز میں کہا۔ مصر ی کہاں ہے ؟ لے یہ درہ اور بڑوں کی اولاد کو مار‘‘ مصری مارتا جاتا تھا اور فاروق اعظم کہتے جارہے تھے، ’’بڑوں کی اولاد کو مار‘‘۔ اس نے جی بھر کر مارا اور جب درہ خلیفہ کو واپس کرنے لگا تو انہوں نے کہا، عمرو کے سرپر مار، خدا کی قسم بیٹا ہرگز نہ مارتا اگر اسے باپ کے اقتدار کا گھمنڈ نہ ہوتا۔ گورنر نے احتجاج کیا ’’امیرالمومنین آپ سزادے چکے ہیں۔‘‘ مصری نے بھی کہا ’’امیرالمومنین!جس نے مجھے مارا تھا میں نے اس سے بدلہ لے لیا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا ، خدا کی قسم اگر تو عمروبن عاص کو مارتا تو میں اس وقت تک درمیان میں نہ آتا جب تک تو خود اپنا ہاتھ نہ روکتا۔ یہ تھا وہ موقع جب عمرفاروقؓ نے، خدا ان پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے، وہ لافانی فقرہ کہا جسے روسو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ روسو نے کہا ہوگا لیکن وہ تو اٹھارہویں صدی میں تھا بارہ سو سال بعد! حضرت عمرؓ نے عمروؓبن العاص کو مخاطب کیا۔ ’’عمرو! تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنایا؟ ان کی مائوں نے تو انہیں آزاد جنا تھا۔‘‘
درست کہا ہے نواز شریف نے کہ اگر بڑوں کو چھوڑ دیا جائے اور عام مجرموں ہی کو سزادی جائے تو پھر قانون تو صرف چھوٹوں ہی کے لیے رہ جائے گا۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ اس کالم نگار نے شریف برادران پر اور نون لیگ پر اکثر وبیشتر تنقید کی ہے اور کسی جھجک اور خوف کے بغیر کی ہے ۔ یہاں تک کہ بہت سے دوست ناراض ہوگئے۔ نوجوان صحافی اجمل شاہ دین نے کیا ہی میٹھا گلہ کیا کہ آپ ہمارے دل کا خیال نہیں کرتے۔ لیکن میاں نوازشریف نے کل جوکچھ کہا ہے اس کی حمایت نہ کرنا ناانصافی ہوگی کہ یہ آواز پوری قوم کی آواز ہے۔ ہمارے جو دوست نون لیگ سے وابستہ ہیں ان کی خدمت میں یہ بھی عرض ہے کہ حمایت بھی انہی کی طرف سے معتبر ہوتی ہے جو اختلاف کی جرأت رکھتے ہیں۔ جن لکھاریوں کے بارے میں پڑھنے والے طے کرلیتے ہیں کہ یہ تو ہرحال میں ساتھ دیتے ہیں، ہربات کی تعریف کرتے ہیں اور اختلاف نہ کرنے پر مجبور ہیں، وہ جائز تعریف بھی کریں تو اس کی کوئی وقعت نہیں۔ ہرروز شیر آیا شیر آیا کہا جائے تو جس دن شیر آجائے آواز پر‘ کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو، کوئی نہیں کان دھرتا۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ ڈکٹیٹر کو سزادینے سے جو پنڈورابکس کھلتا ہے، اسے کھلنا چاہیے اور آئین توڑنے والے کو ضرور سزا ملنی چاہیے، ’’اگر میں وزیراعظم بنا تو پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت ضرور کارروائی کروں گا۔ نواز شریف بہرطور ایک سیاست دان ہیں اور اس ملک کے عوام سیاست دانوں پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کرتے، ہوسکتا ہے میاں نواز شریف برسراقتدار آکر یہ وعدہ بھول جائیں‘ لیکن اگر نہ بھولے اور جو کہہ رہے ہیں وہ کردکھایا تو یہ واقعی ایک کارنامہ ہوگا۔
اس ملک کو اندر سے کھانے والا اصل سرطان ’’مٹی پائو‘‘ کا رویہ ہے۔ کیوں مٹی پائو؟ اس لیے کہ بڑوں کے پکڑے جانے کا امکان ہے ؟پنڈورابکس نہ کھولو، کیوں نہ کھولو؟پنڈورابکس کھلنا چاہیے ۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ سیاہ کو سیاہ اورسفید کو سفید کہہ کر سیاہ اور سفید کو الگ الگ کرنا چاہیے۔ آٹھ سال تک جن لوگوں نے پرویز مشرف کے ساتھ بیٹھ کر حلوہ کھایا ہے اور کھانے کے بعد دونوں ہاتھ مل کر چکنائی سے مونچھوں کو مزید اکڑایا ہے، انہیں کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے۔ بھاگنے والے، وزیراعظم شوکت عزیز کو بھی، جو جاتے ہوئے کروڑوں روپے کے سرکاری تحائف ساتھ لے گئے، واپس بلانا چاہیے، ان کے اعمال کا محاسبہ ہونا چاہیے اوررات کو دو بجے قلفی کی دکان کھلوا کر، جگر ٹھنڈا کرنے والے سے ان قلفیوں کا بھی حساب لینا چاہیے جو کرنسی کی شکل میں تھیں۔
یہ عجیب وغریب اسلامی ملک ہے جس میں صبح و شام پیغمبراسلام ؐ کے اس فرمان کی عملی مخالفت اور توہین ہوتی ہے کہ تم
سے پہلی امتیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ طاقت وروں کو چھوڑ دیتی تھیں اور کمزوروں کو سزادیتی تھیں (یہ مفہوم ہے، اصل الفاظ نہیں) یہ کیسا اسلامی ملک ہے جہاں ڈنکے کی چوٹ کہا گیا کہ ’’فلاں مالو مصلی نہیں ہے‘‘ اگر یہ اسلامی ملک ہوتا تو ایسا کہنے والے سے بازپرس ہوتی، اسلام کی نظر میں مالو مصلی ، چودھری، خان، سردار، سب برابر ہیں۔ شرم آنی چاہیے ہم علم برداران اسلام کو کہ کافر ملکوں میں آج مالو مصلی اور چودھری برابر ہیں۔ برطانوی وزیراعظم کی بیوی ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوئے پکڑی جاتی ہے تو عدالت میں لے جائی جاتی ہے۔ سنگاپور کے وزیراعظم کا بیٹا ٹریفک قانون کو پامال کرتا ہے تو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ کرہ ارض کا طاقت ور ترین صدر اپنی قوم سے جھوٹ بولتا ہے تو کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے اور عدالت کی کارروائی پوری دنیا دیکھتی اور سنتی ہے۔ لیکن افسوس!یہودیوں کا قول کہ ہم برتر ہیں، اب ہم میں بھی در آگیا ہے۔ ہم ہرشخض کا منہ نوچتے ہیں اور اپنے بدبو دار گریبان  میں نہیں جھانکتے ۔
تو کیا میاں نواز شریف، پرویز مشرف کے ان ساتھیوں کو بھی اس کے ساتھ کٹہرے میں کھڑا کریں گے جو آج، اپنے جرائم چھپانے کی خاطر، ان کے ساتھ آملے ہیں ؟کتنا مضحکہ خیز ہے یہ منظر جب پرویز مشرف کا آٹھ سال دفاع کرنے والے طارق عظیم صاحب ٹیلی ویژن سکرین پر مسلم لیگ نون کا موقف بیان کررہے ہوتے ہیں۔ اس کالم نگار کو وہ منظر بھی یاد ہے جو ٹیلی ویژن پر دیکھا تھا۔ ہری پور کے گردونواح میں شوکت عزیز ایک غیرمعیاری ، ابکائی آور، تقریر کررہے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ تقریر کرتے وقت جسم کا زور کبھی ایک پائوں پر ڈالتے، کبھی دوسرے پر، تقریر میں بار بار یہی فقرہ تھا کہ ہم ترقی لائیں گے ، ہم پاکستان میں ترقی لائیں گے، اور ان کے ایک طرف گوہرایوب کھڑے تھے اور دوسری طرف عمرایوب ، آج دونوں مسلم لیگ نون کی زینت ہیں۔ اور بے شمار دوسرے بھی!
پنڈورابکس ضرور کھلنا چاہیے، اور یہ سب جو بھیڑوں کی کھال اوڑھے ، تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے ریوڑ میں شامل ہیں انہیں ریوڑ سے باہر نکالنا چاہیے پھر ان کے اوپر سے بھیڑ کی کھال اتار دینی چاہیے تاکہ ان کا اصل روپ سامنے آجائے۔ پھر انہیں ان جرائم کی سزا ملنی چاہیے جوانہوں نے پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ کر کیے۔
قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ گورنر کے بیٹے کے لیے اور اس مصری کے لیے بھی جسے اس نے مارا تھا۔ پرویز مشرف کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کے اتحادیوں کے خلاف بھی ۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں ۔ اور ان کے خلاف بھی جوٹیلی ویژن پر آکر ملفوف قسم کی دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہمارے خلاف کارروائی کی گئی تو فلاں ادارہ برداشت نہیں کرے گا۔ ادارے نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی مجرم کی پشت پناہی نہیں کرے گا۔ لوگ ادارے سے محبت کرتے ہیں۔ بے پناہ محبت! کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ادارے کی آڑ لے کر جرائم کرتا پھرے!!
 

powered by worldwanders.com