Monday, April 01, 2013
ٹُر گیا ماہیا
تمہیں رخصت کرکے ائیر پورٹ سے واپس آیا تو پوَ پھٹ رہی تھی۔ آنکھوں پر چادر اس لیے ڈال لی کہ روشنی اچھی نہیں لگ رہی تھی اور یہ میں رو تو نہیں رہا تھا، وہ تو بس یونہی آنکھوں سے پانی نکلنے لگ گیا تھا۔ جاتے ہوئے تم میری گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نیند سے تمہاری آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں۔ فراق کا شعر یاد آرہا تھا ؎
سنتے ہی اس آنکھ کی کہانی
افلاک کو نیند آگئی تھی
تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھول کر بس تم یہ دیکھ لیتے تھے کہ تم میری ہی گود میں ہو۔ میں نے تمہیں اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا اور وقفے وقفے سے تمہیں چوم رہا تھا۔ اس وقت بھی میں رو تو نہیں رہا تھا، بس آنکھیں یونہی چھلک چھلک پڑتی تھیں۔ اس وقت تم ہوا میں اڑ رہے ہو، کہیں دور، بادلوں سے بہت اوپر، بحرالکاہل کی طرف رخ کیے، ؎
ہوا میں تخت اڑتا جارہا ہے۔ اُس پری رو کا
محبت دل میں پھر قصہ کہانی بن کے اٹھی ہے
لیکن لگتا ہے ابھی تک ساتھ چمٹے ہوئے ہو، اور تمہیں ڈر ہے کہ ابا، زبردستی اٹھا کر، دادا سے دور نہ لے جائے اور مجھے سلیم احمد کا شعر یاد آرہا ہے ؎
یہ تو ہے، یاد ہے تیری، کہ میری حسرت ہے
یہ کون ہے مرے سینے میں سسکیاں لیتا
تمہارے جانے سے ایک دن پہلے، جب جدائی قطرہ قطرہ دل میں اترنا شروع ہوگئی تھی، میں چاہتا تھا کہ تمہیں ایک بار پھر اس ندی کے کنارے لے جائوں جو تمہارے اسلام آباد والے گھر کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ تمہارے قیام کے دوران، میرے ساتھ وہاں جانا تمہارا محبوب کھیل تھا۔ تم گول چمکتا سنگریزہ اٹھا کر پانی میں پھینکتے، وہ پانی میں گرتا، آواز آتی، دائرے بنتے تو تم خوش ہوتے، چہرہ چمک اٹھتا، میں تمہارے رخسار اور آنکھیں چوم لیتا، پھر تم ایک اور پتھر پھینکتے اور وہی کھیل… آواز، دائرے اور تمہیں چومنا… دوبارہ شروع ہوجاتا لیکن جانے سے ایک دن پہلے تم اپنی کزن کے ساتھ کھیل میں مگن تھے اور میں پھر سلیم احمد کا شعر یاد کر رہا تھا ؎
آخری دن تھا کئی دن کی ملاقاتوں کا
آج کی شام تو وہ شخص اکیلا ہوتا
پونے تین سال قبل تم میلبورن میں پیدا ہوئے اور میں نے خوبصورت، چمکتے دمکتے، آئینے جیسے فرش اور مصور دیواروں والے ہسپتال میں تمہیں پہلی بار دیکھا تو بے اختیار ظفر اقبال کا مصرع زبان پر آگیا۔ع
کہاں کا پھول تھا لیکن کہاں پر آ کھلا ہے
ذہن میں ایک امکان پرچھائیں کی طرح ایک لمحے کیلئے آیا۔ کیا اس سے انگریزی میں بات کرنا ہوگی؟… اور پرچھائیں گزر گئی، پونے تین سال کے بعد تم فتح جنگ کی ہندکو، توتلی زبان سے سہی، لیکن روانی کے ساتھ بولتے ہو تو میں اس پروردگار کا شکر ادا کرتا ہوں جو بحرالکاہل کے ساحلوں سے لے کر تمہارے آبائی گائوں کی پہاڑیوں تک ہر جگہ اپنی قدرت کا سکہ چلاتا ہے۔ مجھے اس سے کیا غرض کہ تم انگریزی میں بات کرتے ہو یا چینی میں، میرے ساتھ تم میری اور اپنی آبائی زبان بول لیتے ہو، یہ کیا کم ہے! خدا نہ کرے میرا حال کبھی داغستان کی اس بڑھیا کی طرح ہو جس کا بیٹا دور… کسی اور ولایت میں رہتا تھا۔ سالہا سال بعد ایک شخص اسے ملا جو اس کے بیٹے کا سلام لایا۔ اس نے پوچھا کیا میرا بیٹا اپنی زبان بولتا ہے؟ اور جب قاصد نے نفی میں جواب دیا تو بڑھیا نے دلدوز چیخ ماری اور گر پڑی۔
تمہیں کیا معلوم کہ تمہارے بکھرے ہوئے کھلونوں کے درمیان، فرش پر بیٹھے ہوئے دادا کا جدائیوں اور آنسوئوں کے ساتھ عمر بھر کا معاہدہ ہے۔ پکا معاہدہ۔ جس سے روگردانی کا ارتکاب آج تک جدائیوں اور آنسوئوں نے کیا نہ برف جیسے سفید بالوں والے دادا نے۔ دس سال ہوئے تمہارا باپ پڑھنے کیلئے ولایت سدھارا تو میں چار پائی کے ساتھ لگ گیا اور ایک مہینہ نہ اٹھ سکا۔ ان دنوں تمہارے باپ کے دادا امریکہ میں تھے۔ ٹیلی فون پر رو کر فریاد کی ابا جی، اسرار چلا گیا ہے، ایک پیار بھری انتقامی آواز سنائی دی… ’’کوئی بات نہیں… کل تم بھی پڑھنے کیلئے ڈھاکہ یونیورسٹی گئے تھے، اور میں بھی رو رو کر بیمار ہوا تھا۔‘‘ پھر تمہاری پھپھو شادی کرکے بحر اوقیانوس کے پار چلی گئی، ہفتوں بلڈپریشر جگہ پر واپس نہ آیا۔ پھر تمہارا چاچا پڑھنے کیلئے یورپ چلا گیا اور میں نے گیتوں کی کیسٹس لگانا بند کردیں کہ سسکیاں لیتے ہوئے گاڑی کون چلائے، جب تم بڑے ہوگے تو وہ شعر ضرور پڑھنا ؎
ستارے کاٹتا ہوں، راستہ بناتا ہوں
مرا ہی کام ہے جس طرح صبح کرتا ہوں
فراق میرا عصا، یاد میری بینائی
تو آ کے دیکھ کہ میں اب بھی چلتا پھرتا ہوں
میں روز باغ کھِلاتا ہوں دل میں شام ڈھلے
اور اس کو ساتھ لیے رات بھر ٹہلتا ہوں
جہاں سے گزرے گا وہ باد پا سواری پر
میں ہجر اوڑھ کے اس رہگزر پر بیٹھا ہوں
جدائی بُن کے بچھا لی ہے فرش پر اظہار
اسی پہ بیٹھ کے روتا اسی پہ سوتا ہوں
لیکن تمہیں اس سے کیا غرض اور تمہارے باپ کو کیا معلوم! اس شخص نے جسے اس کے ہم عصر سعدیٔ ثانی کہا کرتے تھے اور جس نے فتح جنگ اٹک کی دور افتادہ نیم کوہستانی بستی جھنڈپال میں بیٹھ کر ساٹھ برس تک فارسی کا ادب عالیہ پڑھایا اور جس کے شاگرد آسام سے بھی آتے تھے اور کابل سے بھی۔ اس شخص نے کہا تھا کہ عشق حقیقی کو چھوڑ کر، سارے عشق محض باتیں ہی باتیں ہیں، اصل عاشق ماں باپ ہوتے ہیں اور بچے اور پوتے اصل معشوق… وہی معشوقانہ تغافل، وہی محبوبانہ اغماض… اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ آدم کے ماں باپ نہیں تھے۔ صرف اولاد تھی۔ اسی لیے محبت کا بہائو ہمیشہ آگے کی طرف ہوتا ہے۔ شدت کی جو محبت اولاد کے لیے ہے، ماں باپ کے لیے نہیں ہوتی!
کیا ستم ظریفی ہے کہ تمہارے جانے کے بعد بھی سینے میں آکسیجن کی آمد و رفت جاری ہے۔ کیا اس درد کا جو دل میں اٹھ رہا ہے کوئی علاج تمہاری آنکھیں چومنے کے علاوہ بھی ہے؟ کیا ظفر اقبال نے یہ شعر تمہارے لیے ہی کہا تھا۔ ؎
اے ظفر وہ یار کیسا ہے کہ اس کے نین نقش
خون میں شامل ہیں، آنکھوں کے لیے نایاب ہیں
درد…مسلسل…میٹھا میٹھا درد، دل سے آنکھوں تک آتا اور آنکھیں بھگو کر واپس جاتا درد…
ڈھکن ہویجے نوں
ٹر گیا ماہیا، مِٹھی مِٹھی پیڑ کلیجے نوں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
4 comments:
اگر یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے جس سے آپ دو چار ہیں تو سکائیپ کا سہارا لیجئے اُس وقت تک جب پھر پوتا آپ کی گود میں نہ بیٹھا ہو اور اُن کا سوچئے جو کمپیوٹر سے محروم ہیں
وچھوڑیاں دا دُکھ۔
وقت کے پاس اسکا شاید کوئی علاج ہو۔ اور وقت ہی اس کا علاج ہے۔
اللہ آپکے پیاروں کو آپ سے ملاتا رہے
Izhar saheb,
You are welcome back to Australia anytime!
Nice column.
Saeed Khan
I love to think of my grandfather whom I had never seen and my father who shared the same passion for his offspring and grandchildren and is no more in the world to see them grow up....
may you and your grandson enjoy the company of each other for long, long time, ameen!
Post a Comment