Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, April 30, 2013

آئیے! مذمت جاری رکھیں

                                                                         
عمر فاروق اعظم نے اپنی زندگی کا آخری حج کیا اور مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ بازار کا گشت کرنے نکلے تو مغیرہؓ بن شعبہ کا ایرانی غلام ابو لولو فیروز ملا۔ امیرالمومنین! مجھے مغیرہ بن شعبہ سے بچائیے۔ خراج (آمدنی کا وہ حصہ جو غلام مالک کو ادا کرتا تھا) بہت زیادہ ہے۔ پوچھا کتنا خراج ادا کررہے ہو۔ جواب دیا دو درہم روزانہ ۔اور کام کیا کرتے ہو؟ ابو لولو نے بتایا۔ بڑھئی کا کام کرتا ہوں اور لوہار کا ۔ نقاشی بھی کرتا ہوں۔ امیر المومنین نے جواب دیا۔ تمہارے پیشوں کو دیکھتے ہوئے خراج کی رقم زیادہ نہیں معلوم ہورہی۔ میں نے سنا ہے تم ہوا سے چلنے والی چکی بنانے کا دعویٰ کرتے ہو، فیروز نے کہا‘ جی ہاں‘ بنا سکتا ہوں۔ تو پھر مجھے ایک چکی بنا دو۔ نصرانی غلام نے جواب دیا۔ ’’اگر میں زندہ رہا تو آپ کے لیے ایسی چکی بنائوں گا جس کا چرچا مشرق سے مغرب تک ہوگا۔‘‘ یہ کہا اور چل دیا۔ امیر المومنین نے کہا ’’اس غلام نے مجھے ابھی ابھی دھمکی دی ہے‘‘۔ اس کے تین دن بعد ابو لولو نے ان پر حملہ کیا اور وہ شہید ہوگئے لیکن موضوع ان کی شہادت نہیں غلاموں کے ساتھ ان کا انصاف ہے۔ ابو لولو کے پیشے زرخیز تھے۔ اگر نہ ہوتے ،امیر المومنین خراج کی رقم کم کردیتے۔ اس خطّے سے، جسے آج ہم مشرق وسطیٰ کہتے ہیں، غلامی کو بالکل ختم کرنا ان کے بس میں نہ تھا لیکن جس قدر کم ہوسکتی تھی، دوسرے خلیفہ راشد نے کی۔ ہزار ہا غلام آزاد کرائے۔ صلح کے معاہدوں میں لکھوایا کہ لوگوں کے جان و مال سے تعرض نہ ہوگا۔ یہ بھی کہ گرفتار ہو کر لونڈی غلام نہیں بنائے جائیں گے۔ ابو موسیٰ اشعری کو فرمان بھیجا کہ کسی کا شتکار یا پیشہ ور کو غلام نہ بنایا جائے۔ یہ آپ ہی تھے کہ قاعدہ مقرر کردیا جس لونڈی سے اولاد ہو جائے وہ خریدی جائے گی نہ بیچی جائے گی۔ یعنی لونڈی نہیں رہے گی۔ پھر مکاتبہ نافذ کیا۔ یعنی غلام ایک معاہدہ لکھ دے کہ میں اتنی مدت میں اس قدر رقم ادا کروں گا۔ پھر جب یہ رقم ادا ہوجاتی تھی تو وہ آزاد ہوجاتا تھا۔ جنگِ بدر کے مجاہدین کی تنخواہیں مقرر کیں تو ان کے غلاموں کی تنخواہیں برابر رکھیں۔ غلاموں کی عیادت نہ کرنے والے حکام کو معزول کردیتے تھے۔ کیا خوش قسمت تھے اس زمانے کے غلام! ہائے افسوس! آج اس خطّے میں عمر فاروق اعظم ہوتے تو عبدالکریم کے ساتھ ضرور انصاف کرتے۔
مارچ کا آغاز تھا جب عبدالکریم کی بیوی مشرقِ وسطیٰ کے ایک ملک سے پاکستان واپس آئی۔ میاں وہیں رہا کہ کاروبار کررہا تھا۔ خاتون بچوں کو تعلیم دلوانے آئی تھی کہ تیل سے چھلکتے ان ملکوں میں بارہ جماعت کے بعد پاکستانی طالب علم یا تو مغربی ملکوں کا رخ کرتے ہیں یا واپس پاکستان کا۔ بیمار وہ پہلے ہی سے تھی، لیکن وقت آچکا تھا۔ زندگی اور موت کے درمیان آخری فاصلہ ہی کیا ہے۔ ایک مدھم لکیر، جو ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں مٹ سکتی ہے۔ قیامت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ لقمہ ہاتھ میں ہوگا اور منہ میں ڈالنے سے پہلے آجائے گی۔ اپریل کے تیسرے ہفتے میں عبدالکریم کی بیوی اپنے جسدِ خاکی کو راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں چھوڑ کر خود اس جہان کو چلی گئی جس کی حقیقی نوعیت کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ہاں یہ بات طے ہے کہ سب کو اس جہاں میں جانا ہے۔ اس کفیل کو بھی جس کے قبضے میں عبدالکریم کا پاسپورٹ تھا!
عبدالکریم کی بیوی کا، اس کے پانچ بچوں کی ماں کا جسدِ خاکی راولپنڈی میں تھا۔ عبدالکریم نے اچھل کر باہر آتے دل کو سینے میں سنبھالااور کفیل کے دروازے پر حاضر ہوا۔ کفیل موجود نہیں ہے۔ اسے بتایا گیا۔ وہ کہاں ہے؟ وہ ملک سے باہر گیا ہوا ہے! کہاں؟ کب آئے گا؟ یورپ گیا ہے یا امریکہ‘ معلوم نہیں۔ یہ بھی کوئی نہیں بتا سکتا کہ واپس کب آئے گا۔ ’’مجھے پاسپورٹ چاہیے۔ مجھے اپنی بیوی کے جنازے پر پہنچنا ہے۔‘‘ پاسپورٹ تو اسی کے پاس ہے‘ کسی اور نہیں معلوم کہ کہاں پڑا ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔ عبدالکریم نے پاکستان فون کیا۔ میت کے اردگرد بیٹھے ہوئے بھائی بہنوں کو، اپنی بیٹی اور بیٹوں کو روتے سسکتے بلکتے ہوئے بتایا کہ میں نہیں آسکتا۔ نہیں معلوم کفیل کب آئے گا اور کب پاسپورٹ ملے گا۔ اس نے کوشش کی کہ کفیل کا فون نمبر ملے، اور وہ جہا ںبھی ہے اس کی منت کرے‘ لیکن یا تو کفیل سے کسی کا بھی رابطہ نہ تھا یا کوئی ٹیلی فون نمبر دینے کے لیے تیار نہ تھا!
لاتعداد عبدالکریم ہیں جن سے یہ سلوک ہورہا ہے۔ غلام کا نام نہیں استعمال ہورہا لیکن پوری دنیا اس نظام کو، اس سسٹم کو غلامی کا نام دیتی ہے۔ زنجیریں نظر نہیں آتیں لیکن انسان قید ہیں۔ عمر فاروق اعظم نے انصاف کیا تھا کہ خراج پیشے کے اعتبار سے زیادہ نہیں اور مغیرہ بن شعبہ اس غلام کے خراج پر انحصار بھی تو نہیں کرتے تھے لیکن مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے عبدالکریم جو خراج اپنے اپنے کفیل کو دیتے ہیں‘ اس میں کوئی انصاف نہیں ہوسکتا۔ عبدالکریم کا کاروبار چلتا ہے یا نہیں، اسے آمدنی ہورہی ہے یا نقصان‘ کفیل کو مقررہ رقم ضرور ادا کرنی ہے۔ اس لیے کہ عبدالکریم کے اپنے نام پر کاروبار ہے نہ دکان، ٹیکسی ہے نہ بنک اکائونٹ‘ یہ سب کچھ تو کفیل کے نام پر ہے‘ کفیل ایک منٹ کے اندر اندر اسے ملک سے نکلوا سکتا ہے‘ گرفتار کرا سکتا ہے، کاروبار ٹھپ کرا سکتا ہے، خراج کی رقم دوگنا کر سکتا ہے‘ عبدالکریم احتجاج کرسکتا ہے نہ انکار۔ وہ چپ رہ کر‘ خون کے گھونٹ پی کر‘ سر جھکا کر کام کرتا رہتا ہے۔ پلٹ کر دیکھتا ہے تو اپنے ملک میں اسے دہشت گردی نظر آرہی ہے اور بدعنوان مگر مچھ جوحکمرانوں کے روپ میں سب کچھ ہڑپ کیے جارہے ہیں اور پولیس جو شریفوں، چودھریوں، زرداریوں اور پرویز مشرفوں کی حفاظت پر مامور ہے اور اغوا برائے تاوان کی ان گنت وارداتیں… عبدالکریم کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور نظر نہ آنے والی زنجیریں پہنے‘ کاروبار جاری رکھتا ہے۔ خراج دیتا رہتا ہے، کاروبار جاری رکھنے کے لیے اسے اقامہ درکار ہے۔ اقامہ کفیل ہی دے سکتا ہے۔ ہر کام کے لیے‘ ہر قانونی کارروائی کے لیے۔ کفیل کے دستخطوں کی ضرورت ہے۔ ذرا سی غلط فہمی، معمولی سی گستاخی، عبدالکریم کو ملک سے نکلوا سکتی ہے۔ مزدوری‘ رہائش‘  ماحول یا کسی بھی سلسلے میں شکایت کرنے کا مطلب ہے کہ کفالت واپس لے لی جائے گی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق 2010ء میں مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک میں اڑھائی کروڑ ورکر کام کررہے تھے۔ ان میں تین چوتھائی کا تعلق ایشیائی ملکوں سے ہے۔ کیا یہ ایشیائی ممالک کفیل سسٹم کو بدلوانے یا نرم کرانے کی کوشش نہیں کرسکتے؟ افسوس! اس کا جواب نفی میں ہے۔ پنجاب کا محاورہ ہے کہ زبردست کے سو میں بیس پانچ بار نہیں‘ چھ بار ہوتا ہے۔ 2011ء میں انڈونیشیا اور فلپائن کی حکومتوں نے کوشش کی کہ مشرقِ وسطیٰ کے ایک مشہور ملک میں کام کرنے والے گھریلو ملازموں کی کم سے کم اجرت مقرر کردی جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ملک نے انڈونیشیا اور فلپائن سے مزید بھرتی بند کردی!!
لیکن اس قصّے کو چھوڑیے۔ آئیے ہم ان ملکوں کی مذمت جاری رکھیں جو کافروں کے ہیں، جہاں چار کروڑسے زیادہ مسلمان اتنے ہی شہری حقوق رکھتے ہیں جتنے مقامی لوگ‘ جہاں جائیدادیں، کاروبار، کمپنیاں سب کچھ تارکین وطن کے نام پر ہے۔ جہاں کفیل کوئی نہیں، صرف دلیل سے کام نکلتا ہے۔ جہاں وہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ وزارتوں پر فائز ہیں۔
عدالت میں کسی مقامی کے خلاف بھی، خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ اپنا مقدمہ پیش کرسکتے ہیں اور انصاف حاصل کر سکتے۔ ’’طاقت ور‘‘ مسلمان ملکوں میں پیدا ہونے والے ’’’غیرملکی‘‘ مسلمان‘ وہاں رہتے رہتے بوڑھے ہوجائیں گے تب بھی شہریت نہیں حاصل کرسکتے۔ ان حقوق کا سوچ بھی نہیں سکتے جو ’’اصل‘‘ شہری کو حاصل ہیں!
یہ ہم بھی کس قضیّے میں الجھ گئے‘ آئیے‘ جمہوریت کے خلاف شائع ہونے والا تازہ کالم پڑھیں۔

Monday, April 29, 2013

ابھی اُترا نہیں ہے آخری عاشق زمیں پر

شیرشاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران چلا گیا۔ ایک دن وہ اور اس کا میزبان، شاہ طہماسپ، شکار کو نکلے، آرام کا وقت آیا تو خدام نے قالین بچھا دیا۔ دونوں بادشاہ بیٹھ گئے لیکن ہمایوں کے ایک زانو کے نیچے قالین نہ تھا۔ اس کے ایک جاں نثار نے بجلی کی رفتار کے ساتھ اپنے ترکش کا غلاف تلوار سے چاک کیا اور زانو کے نیچے بچھا دیا۔ طہماسپ اس برق رفتاری سے متاثر ہوا۔ پوچھا‘ ایسے جاں نثاروں کی موجودگی میں ملک کس طرح ہاتھ سے نکل گیا۔ جواب دیا‘ بھائیوں کی عداوت نے کام خراب کیا۔ طہماسپ نے پوچھا مقامی آبادی کا رویہ کیسا تھا؟ جواب دیا غیر قوم اور غیر مذہب والوں سے رفاقت ممکن نہیں۔ طہماسپ نے اس پر کمال کا گر بتایا۔ کہا‘ ہندوستان میں دو گروہ ہیں… افغان (شاید اس کی مراد غیر مقامی لوگوں سے تھی جس میں افغان، ترک، عرب سب شامل تھے) اور راجپوت۔ اب کے خدا موقع دے تو افغانوں کو تجارت میں مصروف کرو اور راجپوتوں کے ساتھ محبت سے پیش آ کر انہیں شریک حال کرو! ہمایوں کو اقتدار تو دوبارہ مل گیا لیکن مہلت نہ ملی۔ طہماسپ کی نصیحت پر اکبر نے عمل کیا اور مقامی آبادی کو پیار سے تسخیر کرلیا۔ یوں کہ راجپوت سلطنت کا مضبوط ترین ستون بن گئے۔ یہ سارا معاملہ وژن کا تھا!
اس وژن کا عشرِ عشیر بھی ہمارے سیاست دانوں میں ہوتا تو آج ملک قاش قاش ،پارہ پارہ نہ ہوتا۔ کوتاہ نظری کی انتہا ہے کہ جن علاقوں سے ووٹ نہ پڑیں ان سے برسراقتدار آ کر سوتیلا  سلوک کیا جاتا ہے۔ یوں نفرتیں شدید ہوجاتی ہیں اور خلیج وسیع تر۔ امتیازی سلوک دشمن کو جنم دیتا ہے یہاں تک کہ محروم خلق خدا چیخ اٹھتی ہے۔ طہماسپ جیسا شخص میسر آئے تو مشورہ دے کہ جنہوں نے ووٹ نہیں دیے، ان کے ساتھ زیادہ شفقت برتو!
نارووال سے نون لیگ کا امیدوار، جو کبھی جماعت اسلامی کے خیمے کا طناب بردار تھا ،کہتا ہے ’’میں نے اس شہر کو پیرس تو نہیں بنایا لیکن آدھا پیرس ضرور بنا دیا ہے!‘‘ درست فرمایا ہے۔ اس لیے کہ نارووال نے شریف برادران کے وفادار کو فتح سے ہمکنار کیا اور خزانے کا رخ اس طرف ہوگیا۔ وفادار بھی ایسا کہ    ؎
اگر شہ روز را گوید شب است این
بباید گفت ’’اینک ماہ و پروین!‘‘
بادشاہ دن کو رات کہے تو فوراً کہہ اٹھے، وہ رہے چاند ستارے!
نارووال آدھا پیرس بن گیا لیکن اٹک کی چھوٹی سی بستی جھنڈیال کو پانچ سال،پورے پانچ سال، ڈسپنسری کی تعمیر کے لیے بیس لاکھ کی رقم اس لیے نہیں ملی کہ ڈسپنسری کی منظوری قاف لیگ کے ضلع ناظم میجر طاہر صادق نے دی تھی۔
نون لیگ کو پنجاب پر قبضہ کے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچلا تھا جب اس کالم نگار نے پریس میں اس مسئلے کو اجاگر کیا اور خادم اعلیٰ کی خدمت میں اہل دیہہ کی طرف سے عرض گزاری کی۔ کالم نگار لاہور سے اسلام آباد کی طرف سفر کررہا تھا۔ جی ٹی روڈ پر نصف فاصلہ طے ہوچکا تھا۔ محکمہ اطلاعات پنجاب کے حقیقی مدار المہام کا ٹیلی فون آیا اور اس نے وجہ بیان کردی: ’’ڈسپنسری کی منظوری شہباز شریف نے تو نہیں دی تھی…!‘‘
وقت بھی کیا کیا ستم ظریفیاں دکھاتا ہے۔ یہ مدار المہام، سلطنت اطلاعات پنجاب کے یہ شہنشاہ، کالم نگار کے چالیس سالہ پرانے دوست تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ شعر فہمی میں اس شخص کا ثانی کوئی نہیں۔ خود شعر کم کہے لیکن جو کہے‘ ان میں سے کچھ تو ضرب المثل ہی بن گئے۔ افسوس! بلا کے اس ذہین شخص کو خدمت کی عادت نے درباروں سے باندھ ہی دیا۔ ایک کے بعد دوسرا دربار۔ سعدی نے کہا تھا، کمرِ زرّین… یعنی سنہری پیٹی باندھنا اور نوکری میں کھڑے رہنا ،جو اس مزے میں پڑ گیا وہ چالیس سالہ تعلق کی پشت میں بھی سرکاری ترجمانی کا خنجر بھونک دیتا ہے۔ منصب برقرار رکھنا جنگ سے کم نہیں۔ عباس تابش نے کہا تھا   ؎
حالتِ جنگ میں آدابِ خور ونوش کہاں
اب تو لقمہ بھی اٹھاتا ہوں میں تلوار کے ساتھ
اسی لیے تو بزرگوں نے متنبہ کیا تھا    ؎
عمر گران مایہ درین صرف شد
تاچہ خورم صیف و چہ پوشم شتا
ای شکم خیرہ! بنانی بساز
تانکنی پشت بخدمت دوتا
زندگی اسی فکر میں گزر گئی کہ گرمیوں میں کھائوں گا کیا اور جاڑے میں پہنوں گا کیا۔ اے کبھی نہ بھرنے والے پیٹ! خدا کے لیے ایک روٹی کی عادت ڈال تاکہ خدمت کرکر کے کمر دہری نہ کرنی پڑے۔
بخدا نون لیگ سے دشمنی نہیں، ہمدردی ہے۔ ہیہات! علاقائیت اور قومیت کی دبیز پٹی آنکھوں پر باندھے اس گروہ کو مطلق احساس نہیں کہ اس نے وسطی پنجاب کے تین چار اضلاع کو چھوڑ کرباقی پنجاب سے جو برتائو روا رکھا ہے اس کا عدل سے کوئی واسطہ نہیں۔ عابد شیر علی سے اسحاق ڈار تک اور رانا ثناء اللہ سے سیالکوٹ کے خواجگان تک ایک تنگ علاقائی پٹی، ایک پتلا کوریڈور ہے۔ رہے چودھری نثار علی خان تو وقت منتظر ہے کہ وہ اس علاقائی انجمن امداد باہمی سے کب کنارہ کش ہوتے ہیں۔ کل نہیں تو پرسوں۔ صبحِ دو شنبہ نہیں تو شبِ آدینہ!  ع
دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
ہمہ گیری کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہر جگہ نون لیگ کے پرچم تلے امیدوار میسر ہیں۔ اس میں آخر تعجب کی کیا بات ہے۔ اول تو خود نون لیگ نے Electables تلاش کر کرکے اپنے تھیلے میں ڈالے۔ دوم‘ اکا دکا سواروں کو قافلہ درکار ہوتا ہے کوئی سا بھی ہو!
قاف لیگ سُکڑی اور پی پی پی زرداری خاندان کی بھینٹ چڑھی تو بچھڑنے والے سوار یہاں آگئے۔ اودھ کی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے مل کر روہیلہ ریاست ختم کی تو مرحوم ریاست کے لشکری نظام کے ہاں چلے گئے اور کچھ نے تو مرہٹوں کی ملازمت کرلی! مسافر ان قافلوں کو بھی مل جاتے ہیں جن کی منزل کوئی نہیں ہوتی!
اعتزاز احسن نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شہباز شریف صرف جنوبی لاہور کے وزیراعلیٰ رہے۔ نظر کی ’’وسعت‘‘ کا اندازہ لگایئے کہ مشیران کرام بھی ایک ہی شہر سے ہیں۔ ہمارے چالیس سالہ پرانے دوست گرامی بھی لاہور سے باہر نہیں دیکھ سکتے اور وہ ریٹائرڈ بیورو کریٹ بھی جو سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ یہ صاحب اس وقت کے وزیراعظم کو یہ تصور ہی نہ دے سکے کہ فوج کا سربراہ ہمیشہ لڑاکا شعبوں سے ہوتا ہے۔ انفنٹری، آرٹلری یا آرمرڈ سے! باقی شعبے تو ثانوی ہوتے ہیں۔
 پھر یہ کہنا کہ جب جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنایا گیا تو انہوں نے ’’سارے کور کمانڈروں کو کال کیا، میری  موجودگی میں اور وہ آگے سے مبارکبادیں دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ سر مبارک ہو، ہم پھر کب آئیں مبارکباد دینے کو۔‘‘(یو ٹیوب پر ان صاحب کا انٹرویو موجود ہے۔)اس دعویٰ کا کوئی ثبوت؟ کیونکہ ٹیلیفون تو جنرل بٹ کے کان کے ساتھ لگا تھا۔ کمرے میں موجود شخص نے گفتگو کیسے سن لی اور کیا کسی مرحلے پر جنرل بٹ صاحب نے خود بتایا ہے کہ کور کمانڈر مبارکباد دے رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ کب آئیں؟؟
نارووال ضرور پیرس بنے۔ وہ بھی ہمارے ہی ملک کا حصہ ہے اور ہمیں عزیز ہے لیکن جن علاقوں کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا ان کا حساب دینا ہوگا۔ ہر حال میں حساب!  ع
اپنا حق شہزادؔ ہم چھین لیں گے، مانگیں گے نہیں!
کوتاہ اندیشوں اور کورچشموں سے‘ صرف اپنے خاندانوں اور اپنے قبیلوں کی پرورش کرنے والوں سے ضرور نجات ملے گی۔ پاکستان پر انصاف کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔ کل نہیں تو پرسوں۔ نہیں تو ایک دن بعد۔ عمران خان کامیاب نہ ہوا تو کوئی اور آئے گا اور ضرور آئے گا   ؎
ابھی اترا نہیں ہے آخری عاشق زمیں پر
ہمارے بعد بھی یہ سلسلہ باقی رہے گا

Friday, April 26, 2013

زمین راز اُگلتی ہے

آواز ریکارڈ ہونا شروع ہوئی تو لوگ دنگ رہ گئے۔ ایک انسان بولتا ہے اور اس کی آواز محفوظ کرلی جاتی ہے! اس سے پہلے بغیر آواز کی فلمیں شروع ہوچکی تھیں۔ وہ جو قیامت کے منکر تھے کہ اعمال کس طرح دکھائے جائیں گے،سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ انسان فلم بنا سکتا ہے اور آواز ریکارڈ کرسکتا ہے تو انسانوں کا خالق کیوں نہیں کرسکتا۔ریڈیو اور ٹیلیویژن کی نشریات کا آغاز ہوا تو عقل والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ دو اور دو چار کی طرح معلوم ہوگیا کہ اذا الصّحف نشرت۔(جس دن صحیفے نشر کیے جائیںگے!!) کا کیا مطلب ہے۔قیامت سے پہلے بہت کچھ دکھا دیا گیا تاکہ تدبّر کرنے والے، روز قیامت پر ایمان لے آئیں، اگر بڑے بڑے عزت نشان دنیاہی میں رسوائی کی علامت بن سکتے ہیں تو کل حشر اٹھے گا تو کیا نہیں ہوگا۔ یہ جو چھوٹی چھوٹی قیامتیں دنیا میں دکھائی جاتی ہیں اور دکھائی جارہی ہیں تو یہ سب اس لیے کہ بڑی قیامت پر ایمان لایا جا سکے!کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ یورپ میں ایک وقت وہ آئے گا کہ پادری کی وقعت پرِکاہ نہیں رہے گی؟ کیا زمانہ تھا جب پوپ شہنشاہوں کا شہنشاہ تھا! کلیسا کے حکم پر لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا، ہاتھ پیر کاٹ دیئے جاتے تھے۔ سولی پر چڑھانا تو نرم ترین سزا تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ لوگ نہ صرف یہ کہ انہیں پوچھتے نہیں تھے، مذاق اُڑاتے تھے۔ آج کلیسا کے ایسے ایسے کرتوت ظاہر ہوئے ہیں اور معصوم مظلوم بچوں نے بڑے ہو کر وہ وہ راز کھولے ہیں کہ ہوس کے یہ چھپے ہوئے پجاری منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور لوگ تف تف کررہے ہیں!
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ پاکستان میں، ایک سابق آرمی چیف کی کشتی عدالتوں کے گرداب میں ہچکولے کھائے گی۔ اس کا وکیل خلق خدا کے سامنے گریہ کناں ہو کر ضعیف ماں کی بیماری کی دہائی دے گا اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والا شخص ججوں کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہوگا!
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ صحافی، جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، برہنہ ہوجائیں گے! دوسروں کے کرتوت اچھالنے والے، دوسروں کے راز افشا کرنے والے، کالموں میں دوسروں کا لباس تار تار کرنے والے، رپورٹنگ میں دوسروں کے گردے نکال کر تار پر لٹکا دینے والے اور ٹیلیویژن کے پردۂ سیمیں پر بیٹھ کر دوسروں کی آمدنی کے گوشوارے دیواروں پر آویزاں کرنے والے! ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ان کے اپنے اعمال نشر ہو رہے ہوں گے۔ قیامت کا سماں ہے   ؎
بہت ترتیب سے سارے جہاں گرنے لگے ہیں
کہ ہفت اقلیم پر ہفت آسماں گرنے لگے ہیں
خزانے یا زمیں کے راز اوپر آرہے ہیں
ستارے یا فلک سے شمعداں گرنے لگے ہیں
صرف ایک مثال پر اکتفا کیجیے۔ ایک صاحب وزیراعظم کے ہر پرنسپل سیکرٹری کی شان میں ایسی ’’رپورٹنگ‘‘کرتے آئے ہیں کہ قصیدہ خوانی اس رپورٹنگ کے سامنے مات پڑ جائے۔ خواہ یہ پرنسپل سیکرٹری محمد میاں سومرو کا تھا یا شوکت عزیز کا، یوسف رضا گیلانی کا تھا یا راجہ پرویز اشرف کا۔ کون نہیں جانتا کہ پرنسپل سیکرٹری ناانصافیوں کا سرچشمہ ہوتا ہے اور سب کچھ کرنے کرانے کے بعد کوئی تو بیرون ملک تعیناتی کرالیتا ہے اور کوئی نیپرا جیسے ادارے کا سربراہ لگ جاتا ہے (اس موضوع پر تفصیلی تحریر پھر کبھی) لیکن یہ صاحب پابندی کے ساتھ ہر پرنسپل سیکرٹری کی شان میں قصیدہ لکھتے تھے۔ اب جب ’’صحیفہ نشر‘‘ ہوا ہے تو ان کا نام اس میں بار بار دیکھ کر تعجب نہیں ہوا۔ ’’سپیشل اسائنمنٹ‘‘ کے لیے سیکرٹ فنڈ سے تین لاکھ ملتے ہیں۔ ایک ماہ بعد پھر ایک لاکھ روپے۔ مہینے ڈیڑھ مہینے بعد پھر ایک لاکھ روپے۔ کون سی سپیشل اسائنمنٹ؟ اور یہ تو مشتے نمونہ از خروارے ہے! سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تیز ہوا کو حکم دیتا ہے کہ دستاریں گرا دے اور پارسائی کی سفید چادریں اڑا لے جائے۔   ؎
گھوڑے، حشم، حویلیاں، شملے، زمین، زر
میں دم بخود کھڑا رہا کتبوں کے سامنے
صحافیوں کی اکثریت نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری پوری کی۔ غلطیاں بھی ہوئیں، افراط بھی اور تفریط بھی۔ سیاست دانوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ وضاحت کریں۔ چنانچہ خبر آنے یا کالم یا رپورٹ چھپنے کے چند ثانیے بعد وہ جواب آں غزل پیش کردیتے۔ جرنیلوں کے پاس قوت ہے۔ وہ اپنے اسلوب سے صحافیوں کو جواب دیتے ہیں۔ مظلوم ترین طبقہ اس کھیل میں سرکاری ملازموں کا ہے جن کے پاس جواب دینے کے لیے کوئی فورم ہے نہ پلیٹ فارم۔ بیورو کریسی کی اکثریت ایماندار ہے اور غریب۔ سب پرنسپل سیکرٹری لگتے ہیںنہ ڈپٹی کمشنر، نہ سب وزیراعظم کی صفائی عدالت میں پیش کرکے تحسین حاصل کرتے ہیں۔ چند کالی بھیڑیں ہیں اور معاف کیجیے، صحافی ان کالی بھیڑوں کے کاندھے پر بندوق رکھ کر ساری بیورو کریسی کو نشانے پر رکھتے رہے ہیں۔ ٹیلیویژن پر آ کر مذہب کا پرچار کرنے والے صحافیوں نے تو تحقیر سے سرکاری ملازموں کو بابو لکھا اور اس تواتر سے کہ یہ لفظ لغت کا حصہ ہی بن گیا۔ مذہب کا لبادہ اوڑھنے والے ان نام نہاد پارسائوں کو اللہ کی کتاب کا حکم کبھی یاد نہ آیا۔
ولا تنا بزوا بالالقاب۔ (ایک دوسرے کو بُرے القاب سے نہ یاد کرو۔) زندگی بھر کی محنت شاقہ کے بعد کسی سرکاری ملازم کو سواری ملتی ہے یا سر ڈھانپنے کے لیے چھت، تو اس پر وہ ہاہاکار مچتی ہے کہ شرفاء کونوں کھدروں میں چھپ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شاید اس میں کارفرما کچھ دوستوں کا احساس کمتری بھی ہو جو مقابلے کے امتحان میں سرخرو نہ ہوسکے!
صحافت مقدس پیشہ ہے۔ سیکرٹ فنڈسے جنہوں نے ناروا فائدہ اٹھایا، وقت ان کے ساتھ خود ہی نمٹ لے گا۔ لیکن    ؎
سنو علاقے ہیں اور بھی یاد رفتگاں کے
سنو میں اندازِ نوحہ خوانی بدل رہا ہوں
صرف مالی بے احتیاطی ہی باعثِ تشویش نہیں۔ دیانت کی ساری صورتیں لازم ہیں۔ علاقے کی بنیاد  پر طرفداری کرنا ہر گز مستحسن نہیں۔ یہ اصول تو جنگ بدر ہی میں طے پا گیا کہ رفاقت کی بنیاد ،انصاف  ہے، علاقہ نہیں، مکہ سے آنے والا لشکر جن مہاجرین پر حملہ آور ہوا وہ مکہ ہی کے تو تھے اور مہاجرین کی خاطر جو جانوں کا نذرانہ پیش کررہے تھے‘ وہ مدینہ کے تھے ۔صحافت کی بنیاد حقائق ہونے چاہئیں اور سچائی… نہ کہ علاقہ! اگر بدعنوانی واضح ہے اور پوری دنیا اس کی گواہی دیتی ہے تو علاقے کی بنیاد پر کسی کا ساتھ دینا سچے اور انصاف پسند صحافی کو زیبا نہیں۔ رومی ؒدیوان شمس تبریز  میں کیا خوب تنبیہ کرتے ہیں    ؎
ہلہ ہش دار کہ در شہر دوسہ طرارند
کہ بہ تدبیر‘ کلہ از سرِمہ  بردارند
ہشیار‘ خبردار‘ شہر میں دو تین ایسے شعبدہ باز ہیں کہ چاند کے سر سے بھی ٹوپی اتارلائیں!!!

Thursday, April 25, 2013

ناکام ریاست… کیوں اور کیوں نہیں ؟

ہوانگ فو اس وقت سے میرا دوست ہے جب مزدوری کے سلسلے میں مجھے چند بار چین جانا پڑا۔ اس کے بعد ای میل کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہے۔ یہ کوئی دو سال پہلے کی بات ہے۔ وہ اسلام آباد آیا۔ اس نے بتایا کہ اس کی کمپنی نے پاکستان میں کوئی کام شروع کیا ہے اور یہ کہ اب وہ کبھی کبھار آتا رہے گا۔ وہ تین چار ماہ بعد چند دنوں کے لیے آتا ہے۔ ہم کسی ریستوران میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں۔ اسے اب میرے بچوں بلکہ پوتوں اور نواسوں تک کے نام یاد ہو گئے ہیں۔ یہ ایک ہفتہ پہلے کا واقعہ ہے۔ ہونگ فو کا فون آیا‘ میں نے پوچھا ’’کب آئے ہو‘ اور مجھے آنے کا بتایا تک نہیں۔ بس شام سات بجے اپنے پسندیدہ ریستوران میں پہنچ جائو‘‘۔ اس کی آواز میں نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔ کہنے لگا طبیعت ٹھیک نہیں۔ تم میرے پاس کیوں نہیں آ جاتے؟ میں اس کے ہوٹل پہنچ گیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو ٹھٹک گیا۔ وہ بستر پر دراز تھا۔ بازو اور کندھے پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’پہلے بیٹھو تو سہی‘ سب بتاتا ہوں‘‘۔ اس نے جواب دیا۔ یہ سڑک کا ایک حادثہ تھا جس میں ہوانگ فو زخمی ہوا تھا۔ لیکن یہ عجیب و غریب حادثہ تھا۔ وہ ایک دو روز پہلے اسلام آباد سے مری جا رہا تھا۔ سرینا ہوٹل کے سامنے سے ہو کر وہ مری روڈ پر آ گیا۔ اب اس کا رُخ مری کی طرف تھا اور کنونشن سنٹر اس کے بائیں طرف تھا۔ تھوڑی دیر میں اس نے لیک ویو پارک کے سامنے سے گزرنا تھا۔ جیسے ہی وہ لیک ویو پارک کے سامنے پہنچا‘ شاہراہ پر اچانک مویشی آ گئے‘ دو گائیں اور ایک بچھڑا‘ کار کی رفتار تیز تھی۔ ڈرائیور نے بریک لگائی‘ لیکن اگر وہ یک دم پورے زور سے بریک لگاتا تو گاڑی اُلٹنے کا اندیشہ تھا۔ اس کشمکش میں کار‘ بائیں طرف‘ گائے سے ٹکرائی‘ ہوانگ فو اُسی طرف بیٹھا ہوا تھا۔ گاڑی بائیں پہلو پر اُلٹ گئی۔ خوش قسمتی سے ہوانگ فو کا صرف بازو زخمی ہوا‘ کندھے پر بھی گہری چوٹ لگی لیکن بہرطور جان بچ گئی۔
مجھے معلوم تھا کہ کنونشن سنٹر سے مری کا رُخ کریں تو پانچ سات میل کا فاصلہ خطرناک ہے اس لیے کہ اس سارے علاقے میں جانوروں کے ریوڑ کھلے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کی وجہ سے کئی حادثے رونما ہو چکے ہیں لیکن کسی کے کان پر کبھی جُوں تک نہیں رینگی۔ ہوانگ فو زخمی ہونے کے بعد‘ بستر پر لیٹے لیٹے‘ اپنے جاننے والے لوگوں کے ذریعے پوری معلومات حاصل کر چکا تھا۔ اس نے میرے لیے چائے منگوائی اور پھر باتیں کرنے لگا۔ ’’تمہیں یاد ہے چند ماہ پہلے ہم اسی ہوٹل کے ریستوران میں بیٹھے تھے اور گرما گرم بحث کر رہے تھے۔ اُن دنوں کسی عالمی تھنک ٹینک کا تازہ تازہ بیان چھپا تھا جس میں پاکستان کو ناکام ریاست قرار دیا گیا تھا۔ تم بہت جذباتی ہو گئے تھے۔ تمہاری سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ یہ تھنک ٹینک اور ان کے نام نہاد دانشور غیر جانب دار نہیں ہوتے۔ میں کہتا تھا کہ تم ان کی نیت پر شک کرنے کے بجائے اپنے ملک کے حالات کا تجزیہ کرو۔ آج بھی میں تم سے یہی بات کرنا چاہتا ہوں۔ غور کرو اور انصاف سے کام لو‘ کوئی ریاست اس لیے ناکام نہیں قرار دی جا سکتی کہ وہ دہشت گردی کا شکار ہے یا اُس پر غیر ملکی قرضے زیادہ چڑھ چکے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جنہیں حل کیا جا سکتا ہے۔ ناکام ایک ملک اس وقت کہلواتا ہے جب اُس کے باشندے تہذیب و معاشرت کے انتہائی بنیادی اصول بھی اپنے اوپر نافذ نہیں کر سکتے۔ کل والے حادثے کی مثال ہی لے لو۔ کنونشن سنٹر‘ لیک ویو پارک‘ مَل پور سب دارالحکومت کا حصہ ہیں۔ ان کے درمیان سے مری روڈ گزر رہی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی شاہراہ ہے۔ غیر ملکی عمائدین‘ سیاح‘ سیاست دان‘ وزرا‘ گورنر‘ جرنیل‘ بڑے بڑے بیوروکریٹ سب یہاں سے ہو کر مری جاتے ہیں۔ مویشیوں کے ریوڑ اس علاقے میں کھلے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ گاڑیاں یہاں تیز رفتاری سے چلتی ہیں۔ بے شمار حادثے اپنی مویشیوں کی وجہ سے ہو چکے ہیں۔ کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ چھ چھ گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرائیں لیکن بدقسمتی کی انتہا دیکھو کہ اس خطرے کا آج تک سدباب نہیں ہو سکا۔ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ کہتا ہے کہ شاہراہ نیشنل ہائی وے کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ کچھ لوگ اسلام آباد کیپٹل (I.C.T) کے محکمے پر الزام لگاتے ہیں۔ یہ جانور کن لوگوں کے ہیں؟ انہیں یہاں اتنی بڑی اور اتنی مصروف اہم شاہراہ پر کیوں چھوڑا گیا ہے؟ ان کی وجہ سے حادثے
ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت اس قدر بھونڈی ہے کہ بدترین مذاق بھی اتنا مضحکہ خیز نہ ہوگا۔ جب ریاست کے ادارے اپنے بنیادی فرائض کی سرانجام دہی میں مجرمانہ غفلت برتیں‘ سالہا سال تک برتیں اور شہریوں کو ہلاکت کے منہ میں ڈال دیں تو یہ ہوتی ہے ریاست کی ناکامی! کیا ناکامی کی کوئی بدتر مثال بھی ہو سکتی ہے؟‘‘
ہوانگ فو مسلسل بول رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔ ’’مغربی تھنک ٹینک جب پاکستان کو ناکام ریاست کہتے ہیں تو اس سے مجھے بھی اختلاف ہوتا ہے۔ وہ یہ الزام اپنی غرض کا پیچ درمیان میں ڈال کر لگاتے ہیں۔ میرا موقف یہ ہے کہ پاکستان ناکام ریاست اس لیے نہیں کہ وہ امریکی پالیسیوں کی اندھی پیروی نہیں کرتا۔ اس لیے نہیں کہ یہاں دہشت گردی کا راج ہے۔ میں اسے اس لیے ناکام ریاست کہتا ہوں کہ یہاں حکومتی ادارے مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔ ایک اور مثال لو‘ پاکستان کا شمار اُن ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ٹریفک کی وجہ سے اموات سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ میں نے اسلام آباد اور لاہور کی ٹریفک پر غور کیا ہے۔ اگر صرف دو اصول اپنا لیے جائیں تو ٹریفک کے حادثات میں قابلِ ذکر کمی آ سکتی ہے۔ یہ دو اصول پوری مہذب دنیا میں رائج ہیں۔ ایک یہ کہ بائیں طرف سے کوئی گاڑی اوور ٹیک نہ کرے۔ دوسرے یہ کہ چھوٹی سڑک سے بڑی شاہراہ پر چڑھتے وقت گاڑی مکمل طور پر رُک جائے۔ لیکن پاکستان کی پولیس نے آج تک لوگوں کو ان اصولوں سے آشنا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی ٹی وی یا اخبار میں
انہیں نہیں بتایا گیا‘ کبھی کسی اشتہار‘ بینر یا آواز کے ذریعے تلقین نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان ٹریفک کی بدنظمی کا ایک ایسا جنگل ہے جس میں سے سلامت گزر جانا معجزہ ہے۔
ملک بڑے بڑے بین الاقوامی مسائل کی وجہ سے ناکام نہیں ٹھہرتے۔ ملک اُس وقت ناکام ٹھہرائے جاتے ہیں جب ان کے باشندے روز مرہ کی زندگی بسر کرتے ہوئے گلے میں گھٹن محسوس کریں۔ جب ہر چوک پر بسیں‘ گداگروں کو صبح اُتاریں‘ دوپہر کو انہیں کھانا پہنچائیں اور شام کو واپس لے جائیں‘ جب دودھ‘ آٹا‘ گھی‘ مرچیں‘ دوائیں‘ کھلم کھلا جعلی فروخت ہو رہی ہوں‘ جب لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے عطائی لوگوں کو رات دن موت کے گھاٹ اتار رہے ہوں‘ جب میونسپلٹی کے ادارے پانی کا ٹینک پرائیویٹ مافیا کو نو سو روپے میں اور پرائیویٹ مافیا مجبور صارفین کو گیارہ سو روپے میں بیچ رہا ہو‘ جب کچہری میں باپ کو اپنی جائیداد سگے بیٹے کے نام کرانے کے لیے بھی ہزاروں روپے رشوت دینا پڑے‘ جب جنازے میں شامل ہونے کے لیے جہاز کی نشست ’’خریدنا‘‘ پڑے اور جہاز کے اندر جا کر آدھا جہاز خالی ملے‘ جب ٹیلی فون ٹھیک کرانے کے لیے‘ بچے کو سکول میں داخلہ دلوانے کے لیے‘ ہسپتال سے دوائی لینے کے لیے‘ ایجوکیشن بورڈ سے بیٹی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اور اپنے ہی ملک کے ایک حصے سے خریدے ہوئے مال کو دوسرے حصے میں لے جانے کے لیے سفارش ڈھونڈنا پڑے یا کسی نہ کسی کے منہ میں ہڈی ڈالنا پڑے تو اُس وقت ریاست کو ناکام قرار دیا جاتا ہے۔

ہوانگ فو‘ کل کی پرواز سے واپس چلا گیا ہے۔ نہیں معلوم پلٹ کر آئے گا یا نہیں!

Tuesday, April 23, 2013

ہانکا

ہجوم دیکھ کر انوریؔ کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔ نزدیک گیا تو دیکھا ایک شخص لوگوں کو اشعار سنارہاہے۔ یہ اشعار انوری کے تھے۔ انوریؔ نے اسے کہا یہ شعر جو تم پڑھ رہے ہو، یہ تو انوری کے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ ہاں! بالکل انوری کے ہیں۔ تو تم کیوں سنارہے ہو؟ انوری نے پوچھا۔ کہنے لگا میں ہی تو انوری ہوں۔ یہ سن کر انوری نے وہ مشہور فقرہ کہا جو ادب کی تاریخ میں امر ہوگیا۔ ’’شعرچوری ہوتے تو سنے تھے، یہاں تو خود شاعر چوری ہوگیا ہے !‘‘
بارہویں صدی کے مشہور شاعر انوری کا یہ واقع بلاسبب نہیں یاد آرہا۔ ٹیکسلا میں قاف لیگ کے جس سابق لیڈر کو تحریک انصاف نے ٹکٹ مرحمت کیا ہے اس نے وہی بات کہی ہے جو انوریؔ بن کر انوریؔ کی شاعری سنانے والے نے انوریؔسے کہی تھی۔ اس کا کہناہے کہ حلقے میں اس کے چالیس ہزار سے زیادہ ووٹ ہیں اور یہ کہ اس نے پارٹی اس لیے بدلی ہے کہ اس کے حمایتیوں کا مطالبہ تھا!
یہ ایک عجیب وغریب صورت حال ہے، حمایتی تحریک انصاف کو پسند کرتے ہیں لیکن جو اصحاب سالہا سال سے تحریک انصاف سے وابستہ چلے آرہے ہیں اور جنہوں نے انتھک محنت سے تحریک کو علاقے میں مستحکم کیا وہ ان حمایتیوں کو راس نہیں آتے۔ حل یہ نکالاگیا کہ حمایتی اپنے لیڈر سے ،جو قاف لیگ سے وابستہ ہیں اور پرویز مشرف کے زمانے میں تخت وزارت پر فائز رہے، یہ درخواست کریں کہ حضور! آپ تحریکِ انصاف میں داخل ہو جائیے تاکہ ہم آپ سے بھی وابستہ رہیںاور تحریک انصاف سے بھی!بے غرض رہنمانے اس آواز پر لبیک کہا اور اپنے حامیوں کے مطالبے پر قاف لیگ کو بیچ منجدھار کے چھوڑ کر تحریک انصاف کی چادر اوڑھ لی۔ رہوار سیاست نے ،یوں لگتا ہے، اپنا رُخ موڑ لیا ہے۔ آج تک تو یہی سنتے پڑھتے اور دیکھتے آئے تھے کہ رہنمائی کے فرائض رہنما سرانجام دیتے ہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں کے ذہن تبدیل کرتے ہیں اور انہیں اس طرف لے کر جاتے ہیں ، جدھر فلاح ہو۔ قاف لیگ کے سرچشمہ فیوض سے یہ ایک نیا سوتا پھوٹاہے۔ اب پیروکار فیصلہ کریں گے کہ لیڈر نے کس راستے پر چلنا ہے۔ کیا عجب کل نون لیگ اقتدار میں آجائے اور یہ چالیس ہزار پیروکار نون لیگ کو پسند کرنے لگیں۔ اگر ایسا ہوا تو وہ اپنے رہنماکی رہنمائی کرتے ہوئے اسے نون لیگ کے تھان پر لے آئیں گے !
تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاہ بختی کی جڑیں ہماری تاریخ کے اس دور میں پیوست ہیں جب تقسیم سے قبل پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کے ٹوڈی جاگیردار مسلم لیگ میں آگئے یالائے گئے ! یہ حضرات کسی نہ کسی شکل میں آج بھی قوم پر مسلّط ہیں۔ عوامی نمائندگی انہیں وراثت میں ملتی آرہی ہے۔ تاریخ کے طالب علم کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایک طرف قائداعظم کی کرشماتی اور طلسماتی شخصیت کا ذکر ہوتا ہے، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ انگریزی سے نابلد عوام پر ان کے سحر کی گرفت کا یہ عالم تھا کہ وہ انگریزی زبان میں تقریر کرتے تھے اور حاضرین نہ سمجھتے ہوئے بھی دم بخود ہوکر سنتے تھے، تو پھر اس صورت حال میں مسلم لیگ کو یونینسٹ پارٹی کے ٹوڈیوں کی ضرورت ہی کیا تھی؟پنجاب کے وزیراعلیٰ سرسکندر حیات خان تو بیک وقت مسلم لیگ میں بھی
 شامل تھے اور یونینسٹ پارٹی میں بھی ۔تحریک انصاف سے بھی یہی سوال پوچھنے کو دل چاہتا ہے کہ اگر نوجوان عمران خان پر فدا ہونے کے لیے سربکف کھڑے ہیں تو پھر جنرل مشرف کے چلے ہوئے کارتوسوں کو اسلحہ خانہ میں کیوں بھرا جارہا ہے ؟کیا تماشہ ہے عمران خان اسی سانس میں یہ اعلان بھی کیے جارہے ہیں کہ ’’ان کی پارٹی نے میوزیکل چیئر کا کلچر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ پرانے چہرے تبدیلی لانے کے اہل ہی نہیں۔ ‘‘
سچ پوچھیے تو ہمیں یہ نسخہ کیمیابہت کام کا لگاہے۔ جس زمانے میں برزنیف سوویت یونین کا بے تاج بادشاہ تھا۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا    ؎
ہمارے مسائل کو آسان کر
برزنیف کو یارب مسلمان کر
اس وقت عمران خان سیاست میں ہوتے تو ضمیر جعفری کے شعر میں غلطی نکالتے۔ بجائے اس کے کہ برزنیف مسلمان ہو اورروسی عوام اس کی تقلید کریں، تحریک انصاف یہ دعا مانگتی کہ پہلے روسی عوام اسلام قبول کریں اور پھر وہ برزنیف کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کریں۔ اس فارمولے کا اطلاق موجودہ صورت حال پر ہوتو مطلب یہ ہوگا کہ ایک ابامہ کو قائل کرنے کے بجائے، امریکی عوام کو قائل کیا جائے کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسیوں سے اختلاف کریں۔ جب چار پانچ عشروں کی محنت کے بعد تیس کروڑ امریکی ہمارے حامی ہوجائیں گے تو وہ ابامہ کو بھی سیدھے راستے پرلے آئیں گے!
علامہ اقبال نے اس ضمن میں ایک اور نکتہ نکالا تھا    ؎
کرے قبول اگر دین مصطفی انگریز
سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام
غالباًعلامہ کو یہ ڈرتھا کہ اگر انگریز مسلمان ہوگئے تو وہ ان ’’برکات‘‘ کو بھی اپنا لیں گے جن سے مسلمان ’’فیض یاب‘‘ ہورہے ہیں ۔  وہ بھی مسلمان ہوکر فرقوں میں بٹ جائیں گے اور ایک دوسرے کی مساجد کو ’’فتح ‘‘ کرنا شروع کردیں گے۔ پھر لباس کا مسئلہ اٹھے گا۔ کس انگریز مسلمان نے کون سے رنگ کی دستار زیب سر کرنی ہے اور کس انگریز مسلمان نے کون سی مذہبی تنظیم میں شامل ہونا ہے۔ اس وقت بریڈفورڈ ، مانچسٹر، برمنگھم ، گلاسکو اور لندن کی پاکستانی برادری میں وہی صورتِ احوال ہے جو پاکستان میں ہے۔ ’’روحانی‘‘ بزرگ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مسجدیں فرقوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ تعویز گنڈے کا کاروبار زوروں پر ہے۔ ہمہ وقتی ٹیلی ویژن چینل صرف جادو اور استخاروں کی خدمات کے لیے مختص ہیں۔ پاکستانیوں کی تیسری نسل بھی اتوار بازاروں میں ٹھیلے لگارہی ہے۔ دوسری طرف بھارتی تارکین وطن کی نئی نسل صحافت ، تعلیم ،قانون ، ٹیکنالوجی اور بزنس کے شعبوں پر اپنی گرفت مضبوط کرچکی ہے۔
بات تحریک انصاف کی ہورہی تھی۔ لیڈر کے پیروکاروں نے ہانکا لگایا اور ہانکتے ہانکتے اپنے لیڈر کو قاف لیگ سے نکال کر تحریک انصاف میں لے آئے۔ اگر چل پڑے تو کیا ہی اچھی روایت ہے! کیا عجب کل اے این پی کے حمایتی مولانا فضل الرحمن سے متاثر ہوجائیں اور اسفند یارولی کو جے یو آئی میں شامل ہونے پر مجبور کردیں۔ پیپلزپارٹی کے جیالے نون لیگ کے گرویدہ ہوجائیں اور زرداری صاحب کو نون لیگ کا ٹکٹ مل جائے۔ نون لیگ کے پیروکاروں کے دلوں کا رخ قدرت موڑے اور وہ ایم کیوایم سے متاثر ہو جائیں یوں میاں نواز شریف مجبور ہوکر لندن فون کررہے ہوں۔
پارٹیاں بدلنے والے سیاست دان مفت میں بدنام ہوتے رہے اور لوٹے کہلواتے رہے۔ باعزت نسخہ تو اب ہاتھ آیا ہے۔ اسی لیے تحریک انصاف میں لوٹا کوئی نہیں۔ یہاں موقع پرستی کا تاج حامیوں کے اصرار پر پہنا جاتا ہے   ؎
یہاں تاج اس کے سرپر ہوگا جو تڑکے شہر میں داخل ہو
یہاں سایہ ہما کا نہیں پڑتا ، یہاں کوہ قاف نہیں ہوتا

Monday, April 22, 2013

پوٹلی سر پر رکھو

بستر باندھو، پوٹلی سر پر رکھو، صندوق اٹھائو، پاسپورٹ پکڑو، یہ ملک تمہارا نہیں۔ یہ ملک جنرل پرویز مشرف کا ہے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ وہ ملزم ہو کر بھی ٹھاٹھ سے رہ رہا ہے۔ تم مجرم نہ ہو کر بھی اس تزک و احتشام کا نہیں سوچ سکتے۔ تمہارے ٹیکسوں سے جو رینجرز بھرتی کیے گئے تھے تاکہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کریں، وہ پرویز مشرف کی حفاظت پر مامور ہیں۔ جس پولیس نے تمہارے گھروں اور تمہارے مال اسباب پر پہرہ دینا تھا، وہ پرویز مشرف، اس کے گھر اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ ڈیوٹی دے رہی ہے۔ تم جرم کرتے ہو تو تمہیں ہتھکڑی لگتی ہے، تم حوالات میں بند کیے جاتے ہو یا جیل کی کال کوٹھڑی میں۔ پرویز مشرف نے بھی جرم کیا ہے لیکن کوئی مائی کا لال اسے ہتھکڑی نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ ملک اس کا ہے۔
جیل کی کال کوٹھڑی؟ کون سی جیل اور کون سی کال کوٹھڑی؟ مالک مالک ہوتے ہیں اور مزارع مزارع۔ وہ اپنے گھر میں ہے، اس گھر میں جو ایکڑوں پر محیط ہے، جس کی دیواریں قلعوں کی دیواروں سے بلند تر ہیں۔ جس کے باہر بھی چڑیا پر نہیں مار سکتی۔
حوالات؟ کون سی حوالات؟ اسے پولیس افسروں کے میس میں رکھا گیا، مہمانوں کی طرح۔ اس کے گھر سے ملاقات آئی تو تھرتھلی مچ گئی، روشنیاں بجھا دی گئیں، ہر طرف رینجرز، ہر طرف پولیس، پہرے، سربفلک دیواریں، ہرطرف سنگینیں ہرطرف بندوقیں۔ رہیں ہتھکڑیاں تو وہ تمہارے لیے ہیں۔ یہی پولیس جو مجرم اور مجرم کے خاندان کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر پہرہ دے رہی ہے، تم مجرم بنو تو تمہارے ساتھ وہ سلوک کرے کہ تمہاری نسلیں بھی یاد رکھیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب روٹ لگتا ہے تو یہ پولیس کس فرعونیت سے تمہارا راستہ روک کر تمہیں غلاموں کی طرح گھنٹوں شاہراہ کے کنارے کھڑا رکھتی ہے۔
بستر باندھو، پوٹلی سر پر رکھو، صندوق اٹھائو، پاسپورٹ پکڑو، یہ ملک تمہارا نہیں، یہ ان  جرنیلوں کا ہے جن کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ صادرکیا کہ وہ ’’غیرقانونی اور غیرآئینی سرگرمیوں میں شریک ہوئے اور انہوں نے ایوان صدر میں قائم غیرقانونی الیکشن سیل کے تحت ہونے والی سرگرمیوں میں حصہ لیا ‘‘ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اس حکم کو صادر ہوئے پورے چھ ماہ ہو چکے ہیں، پتّہ تک نہیں ہلا۔ کون سا قانون اور کون سی کارروائی؟ کارروائی تو دور کی بات ہے، مجرم ٹیلی ویژن چینلوں پر آ کر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو غیرمنصفانہ قرار دیتا رہا۔ اس لیے کہ یہ ملک تمہارا نہیں اس کا ہے۔ ایسا فیصلہ اگر عدالت عظمیٰ … نہیں… عدالت عظمیٰ تو بہت بڑی بات ہے، اگر تحصیل سطح کی عدالت بھی تمہارے خلاف دیتی تو فیصلہ سنائے جانے کے چند سیکنڈ بعد تمہیں پکڑ لیا جاتا۔ 24 اکتوبر 2012ء کے روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے برملا لکھا کہ جنرل صاحب بھی اپنی این جی او کے لیے مالی امداد حاصل کرتے رہے۔ لیکن کس کی مجال ہے کہ جنرل صاحب سے پوچھے اور حساب لے۔ پوچھ گچھ اور حساب کتاب تمہارے لیے ہے، ان کے لیے نہیں۔
بستر باندھو، پوٹلی سر پر رکھو، صندوق اٹھائو‘ پاسپورٹ پکڑو، یہ ملک تمہارا نہیں، ان  جرنیلوں کا ہے جنہوں نے این ایل سی اور ریلوے کے محکموں میں قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا، جن کے خلاف سالہا سال گزرنے کے بعد بھی پبلک اکائونٹس کمیٹی کچھ کر سکی نہ نیب۔ اس لیے کہ یہ ملک تمہارا نہیں، ان کا ہے۔ اگر تمہارا ہے تو کیا تم اربوں کے گھپلے کرنے کے بعد گالف کھیل سکتے ہو؟
یہ ملک فہمیدہ مرزا کا ہے جو 77 کروڑ روپے کے قرضے معاف کرا سکتی ہے اور اس پر مستزاد، پوری زندگی کے لیے سرکاری خرچ پر نوکروں کی فوج رکھ سکتی ہے۔ یہ ملک اسلم رئیسانی کا ہے جو اسّی کروڑ روپے جائیداد کے نقصان کی ’’تلافی‘‘ کے طور پر سرکاری خزانے سے وصول کرتا ہے۔ یہ ملک یوسف رضا گیلانی کا ہے جو عبوری حکومت آتے ہی اپنے خاندان کے دو درجن افراد کو دبئی بھیج دیتا ہے، جس کے فرزند کے بارے میں وعدہ معاف گواہ صاف کہتا ہے کہ ایفی ڈرین کیس میں اس نے گیارہ ملین (ایک کروڑ دس لاکھ) فلاں سے  وصول کیے لیکن پھر بھی کس کی مجال ہے کہ اسے ہاتھ لگائے۔ یہ ملک امین فہیم کا ہے جس کے بینک اکائونٹ میں چار کروڑ آتے اور جاتے ہیں۔ پھر بھی وہ معزز ہے اور وزیر بھی۔ یہ ملک تمہارا نہیں، اس لیے کہ تمہاری بیٹی کو مقابلے کا امتحان دینا پڑتا ہے جس کے لیے وہ مہینوں پاپڑ بیلتی ہے، پھر بھی وہ ناکام رہتی ہے اس لیے کہ نمبر کم حاصل کرتی ہے اور میرٹ سے نیچے رہ جاتی ہے۔ یہ ملک امین فہیم کا ہے جس کی بیٹی مقابلے کا امتحان دیتی ہے نہ ٹریننگ لیتی ہے۔ وہ تو بس کھل جا سم سم کہتی ہے اور آئرلینڈ میں فرسٹ سیکرٹری لگ جاتی ہے۔ یہ ملک کیپٹن صفدر کا ہے جس کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے پنجاب بھر کے عوامی نمائندے کروڑوں روپے کے فنڈز اس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں۔
بستر باندھو، پوٹلی سر پر رکھو، صندوق اٹھائو، پاسپورٹ پکڑو، یہ ملک تمہارا نہیں۔ تم صرف ٹیکس دینے کے لیے ہو، ہر روپیہ جو تم کماتے ہو اس پر ٹیکس دیتے ہو، ہر روپیہ جو تم خرچ کرتے ہو اس پر ٹیکس دیتے ہو، ٹیکس دے دے کر تمہاری پسلیوں سے گوشت جھڑ چکا ہے یہاں تک کہ تمہاری ہڈیاں بچوں کو گنتی سکھانے کے کام آ سکتی ہیں۔ بدقسمت شخص! یہ ملک ان کا ہے جو ایک پیسہ ٹیکس نہیں دیتے، جن کے پاس ٹیکس نمبر ہی نہیں، جو اس ڈاکہ زنی، اس بے حیا چوری کے باوجود عوامی نمائندے کہلاتے ہیں، حکومت کرتے ہیں اور ان محفوظ جزیروں میں زندگی گزارتے ہیں جو اس غربت کے اوپر جس میں تم تیر رہے ہو، فضا میں گردش کر رہے ہیں۔ تم اس ملک میں غلام ہو، تمہارے بچے بھی غلام رہیں گے۔ یہ ملک ان کا ہے جنہیں حکومتیں وراثت میں ملتی ہیں۔ یہ ملک تمہارا نہیں جسے وراثت میں غربت ملی ہے۔ یہ ملک بلاول، حمزہ شہباز، مریم اور مونس الٰہی کا ہے۔ تمہارا یا تمہارے بچوں کا نہیں۔ یہ ملک ان کا ہے جن کے بارے میں نصرت بھٹو نے کہا تھا کہ بھٹو فیملی کے بچے پیدا ہی حکومت کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ ملک ان سرداروں کا ہے جو ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں۔ ’’ہماری سرداری ، ہمارا قبائلی سٹیٹس ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا‘‘
محمد علی جوہر نے لندن میں انگریزوں سے کہا تھا میں غلام ملک میں واپس نہیں جانا چاہتا‘ تم اگر مجھے آزادی نہیں دے سکتے تو تمہیں قبر کی جگہ دینا پڑے گی۔ بدقسمت شخص! تمہیں تو یہاں قبر بھی نہیں ملے گی اس لیے کہ جو تمہارے ہاتھ سے گیس، بجلی، پانی، عزت اور سکیورٹی چھین چکے ہیں، وہ اب تم سے قبر بھی چھیننے والے ہیں۔ بستر باندھو، پوٹلی سر پر رکھو، صندوق اٹھائو، پاسپورٹ پکڑو اور جاتے ہوئے حافظ کا یہ غیبی شعر پڑھو جو اس نے تمہارے لیے کہا تھا    ؎
ما آزمودہ ایم دریں شہر بخت خویش
بیروں کشید باید ازیں ورطہ رختِ خویش
اس دیار میں ہم اپنا بخت آزما چکے، یہ لو، اس سے ہم اپنا مال اسباب نکال لیتے ہیں۔

Friday, April 19, 2013

ایک تاریخ …ایک روایت

رات کا پہلا پہر تھا اور سچی بات یہ ہے کہ رات وہیں بیٹھ گئی تھی۔ اس کا دل آگے گزرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ راحت ملتا نیکر کے نغمے فضا میں بکھر رہے تھے اور لگتا تھا روشنیاں برقی قمقموں سے نہیں ، گیتوں سے نکل رہی تھیں ۔یہ راولپنڈی چھائونی میں پاکستان ملٹری اکائونٹس کا ہیڈکوارٹر تھا۔ وہی چھائونی جسے برطانوی حکومت نے 1851ء میں آباد کیا۔ 1919ء میں تیسری جنگِ افغانستان کا خاتمہ اسی راولپنڈی چھائونی میں ہوا اور ٹریٹی آف راولپنڈی کہلوایا۔ اس معاہدے کے بعد راولپنڈی چھائونی برطانوی ہند میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی۔ راحت ملتانی کر کے نغمے پاکستان ملٹری اکائونٹس کی قدیم روایت کی غمازی کررہے تھے۔ عساکرِپاکستان کے نمائندے بھی موجودتھے اور محکمۂ دفاع کے اصحابِ قضا وقدر بھی۔ ملٹری اکائونٹس کے محکمے کی خوبی ہی یہ رہی ہے کہ اس کے ہاں سب جمع ہوتے ہیں۔ ع   
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
تاریخ کا کوئی عقیدہ ہوتا ہے نہ قومیت۔ وہ سب کچھ ریکارڈ پر لے آتی ہے۔ ہمارا بس چلے تو برصغیر کی تاریخ سے برطانوی عہد کو کھرچ کر ایک طرف رکھ دیں لیکن بدقسمتی سے، یا خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوسکتا۔ برطانوی استعمار نے جہاں ظلم کیے، وہاں اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ سانپ اور بچھو کے بھی فوائد ہیں۔ ورنہ خلاّقِ عالم انہیں پیدا ہی نہ فرماتا۔ کوئی مانے یا نہ مانے، برطانوی عہد نہ ہوتا تو شاید ہمارا حال وہی ہوتا جوآج جنوبی افغانستان کا ہے۔ ہم انگریزوں کو مکار اور غاصب تو کہتے ہیں (اور بجا کہتے ہیں) لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ شدید محنت ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھی۔ مکاری سے ملک کا کچھ حصہ کچھ عرصہ کے لیے ہتھیایا جاسکتا ہے لیکن ایک پورے برصغیر پر دوسوسال تک حکومت نہیں کی
 جاسکتی۔ بنگال کی برسات میں اوسطاً ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک انگریز روزانہ ملیریا کی نذر ہوتا تھا لیکن ڈرکر واپس کوئی نہ بھاگا۔ ولیم ڈالرمپل نے، ’’لاسٹ مغل‘‘ میں لکھا ہے کہ دلی کا انگریز ریزیڈنٹ چارلس میٹکاف اور اس کے ماتحت صبح سات بجے اپنے دفتروںمیں پہنچ جاتے تھے اور شدید گرمی میں چند گھنٹے آرام کرنے کے لیے جب وہ اپنی بیرکوں کو جارہے ہوتے تو اس وقت لال قلعہ کے شاہی مکین اُٹھنے کی کوشش کررہے ہوتے۔ کلائیو روزانہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پشت پر ہوتا تھا اور ہمارے ہیرو، بنگال کے نواب، پالکیوں میں سفرکرتے تھے ۔ سکندر مرزا کے بیٹے کی تصنیف ’’فرام پلاسی ٹو پاکستان‘‘ پڑھی جائے تو آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ ایک طرف مسلمان حکمرانوں کے الّلے تلّلے، عیاشیاں، کھلنڈراپن،پنشن کے لیے دریوزہ گری، دوسری طرف برطانوی حکومت کا مستحکم مالیاتی نظام، قواعدوضوابط کی مکمل حکمرانی اور ملٹری اکائونٹنٹ جنرل اور آڈیٹر جنرل کی رائے اور رولنگ کو حرف آخر سمجھنا ! ہم میں سے بہت کم کو معلوم ہے کہ فنانس اور اکائونٹس کی آزادی کو سب سے پہلے حضرت عمر ؓ نے قائم کیا۔ صوبے کا افسرِ مالیات ، صوبے کے گورنر کا ماتحت نہیں ہوتا تھا بلکہ امیرالمومنین کو براہ راست رپورٹ کرتا تھا۔ حضرت علیؓ نے اپنے دور حکومت میں اسی سسٹم کو برقرار رکھا۔ وہ بھی اس معاملے میں اتنے ہی سخت گیر تھے کہ جب ایک گورنر نے سرکاری قرضہ واپس کرنے میں تاخیر کی اور صوبے کے افسر مالیات نے اس کی شکایت کی تو چوتھے خلیفہ ٔ راشد نے حمایت گورنر کی نہیں، بلکہ افسر مالیات کی کی اگرچہ گورنر کے ساتھ رشتہ داری بھی تھی! محکمہء مالیات کی یہ آزادی اہلِ مغرب نے اپنا لی اور ان کی معیشتیں مستحکم ہوگئیں۔ ارشاد حقانی نے ایک بار لکھا تھا کہ ترکی کے دورہ کے دوران
 ترک صدر نے ضیاء الحق سے کسی کھلاڑی یا فنکار کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ بیمار ہے اور میں اسے علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنا چاہتا ہوں لیکن میری وزارت خزانہ اجازت نہیں دے رہی۔ مردِ مومن مردِحق نے اپنی وزارت خزانہ سے پوچھے بغیر، وہیں سے اس کھلاڑی (یا فنکار) کے علاج کے احکام جاری کردیے!
برطانوی عہد میں جو محکمے قائم ہوئے ، ان کی تفصیلات کا جائزہ لیں تو حیرت ہوتی ہے۔ آپ کسی چھوٹے سے چھوٹے ریلوے سٹیشن کا جائزہ لے لیجیے ، سٹیشن ماسٹر کے کمرے سے لے کر، باہر بچھی ہوئی پٹڑیوں تک ایک مربوط نظام ہے۔ اس قدر مضبوط کہ ہماری پینسٹھ سال کی کرپشن کے باوجود ریلوے آج بھی سانس لے رہی ہے۔ تاہم قدیم ترین محکمہ جو انگریزوں نے برصغیر میں قائم کیا وہ عسکری حسابات (ملٹری اکائونٹس) کا تھا۔ 1750ء میں کلکتہ میں فورٹ ولیم بنا تو فوج کی ادائیگیوں کے لیے ساتھ ہی ’’پے ماسٹر‘‘ کا دفتر بھی قائم کردیا گیا۔ 1788ء میں اسے ’’ملٹری آڈیٹر جنرل ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ 1831ء میں ملٹری آڈیٹر جنرل کی ماہانہ تنخواہ تین ہزار چارسو روپے تھی۔ 1857ء میں جنگ آزادی ناکام ہوگئی اور برطانوی حکومت نے براہِ راست ہندوستان کا چارج لے لیا۔ اُس وقت بنگال، مدراس اور بمبئی کے تین الگ الگ ملٹری اکائونٹنٹ جنرل تھے۔ 1864ء میں پورے برصغیر میں ایک ملٹری اکائونٹنٹ جنرل مقرر کیا گیا۔ 1914ء میں ملٹری اکائونٹنٹ جنرل کی تنخواہ اڑھائی ہزار روپے تھی ۔ کنٹرولر ملٹری اکائونٹس دوہزار دوسوروپے اور اکائونٹس افسر سولہ سو روپے لے رہا تھا۔ پاکستان بنا تو اس محکمے کی تنخواہیں دوسروں سے زیادہ تھیں جو بعد میں یکساں نظام میں ضم کردی گئیں۔ رائے بہادر وینگو ایار پہلا ہندوستانی تھا جو 1926ء میں کنٹرولر ملٹری اکائونٹس کے منصب پر فائز ہوا۔
تقسیم ہوئی تو یہ محکمہ اپنی ساری روایات اور کڑے معیار کے ساتھ وراثت میں پاکستان کو بھی ملا۔ شعیب احمد، جوایوب خانی دور میں وزیرخزانہ رہے، ملٹری اکائونٹس ہی سے تھے۔ سرتاج عزیز بھی مقابلے کا امتحان دے کر اسی محکمہ میں آئے اور یہیں سے اپنے تابناک کیریئر کا آغاز کیا۔ یہ الگ بات کہ ان کی خودنوشت میں اس کا ذکر برائے نام ہے۔ ان کی نامور بہن نثارعزیز بٹ نے اپنی خودنوشت ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ میں ملٹری اکائونٹس کا نسبتاً زیادہ ذکر کیا ہے ۔ الطاف گوہر کے بھائی تجمل حسین بھی (ان کا نام ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ جناب مجیب الرحمن شامی نے دستگیری کی) اسی شعبے کے نامور افسر رہے۔ مجھے بالکل نہیں معلوم تھا کہ تجمل حسین صاحب نے اپنی خودنوشت لکھی ہے۔ کبھی کسی بک شاپ میں نظر نہیں آئی۔ کچھ عرصہ پہلے ایک مباحثے میں شرکت کے لیے پرتھ یونیورسٹی جانا ہوا تو قیام نامور پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ یاسمین کے ہاں تھا۔ کتابوں کے انبار میں تجمل صاحب کی آٹو بائیوگرافی ہاتھ آئی جو رات ہی کو پڑھ لی۔
پاکستان ملٹری اکائونٹس واحد سرکاری محکمہ ہے جس میں کڑے احتساب اور قواعدوضوابط کی شدید پابندی کے ساتھ ساتھ مشاعروں اور کھیلوں کی روایات بدستور زندہ ہیں۔ عبدالحمید عدم، نجم حسین سید، ابن الحسن سید اور اسلم خان مگسی اس شعبے سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات ہیں۔ ملک خادم حسین شعبے کے موجودہ مدارالمہام ہیں اور شعبے کی روایات کے امین! ضابطے کی بات ہوتو دبائو کے باوجود ڈٹ جاتے ہیں لیکن ’’غیر نصابی ‘‘ روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ جس تقریب کا ذکر اس تحریر کے آغاز میں ہوا ہے، وہ اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ملک گیر سطح کی ان تقریبات میں مسلح افواج بھرپور معاونت کرتی ہیں اور یوں دوسو سال سے جوروایات چلی آرہی ہیں وہ بدستور زندہ ہیں اور خوش آئندہیں!
جس زمانے میں جنرل عتیق الرحمن پنجاب کے گورنر تھے، حکومت پنجاب کے ملازمین نے ہڑتال کردی اور احتجاجی جلوس نکالے۔ شکایت یہ تھی کہ تنخواہ دیر سے ملتی ہے۔ جنرل صاحب نے آئو دیکھا نہ تائو، ملٹری اکائونٹنٹ جنرل کو ٹیلی فون کھڑکا دیا۔ کہنے لگے اتنا عرصہ فوج میں ملازمت کی ، کبھی تنخواہ کسی افسر کو تاخیر سے ملی نہ کسی جوان کو، پنجاب حکومت کے ملازمین کو کیوں تاخیر سے ملتی ہے ؟ ملٹری اکائونٹنٹ جنرل نے قہقہہ لگایا، گورنر صاحب ! ان کی تنخواہ سول کے شعبے سے ہے، ہمارے ہاں سے نہیں جاتی!یہ ایک حقیقت ہے کہ نظم وضبط اور کارکردگی کا جو معیار عسکری حسابات کے محکمے میں ہے، اگر حکومت پاکستان کے دیگر شعبوں میں بھی جاری وساری ہوجائے تو صورت حال خاصی مختلف ہو!

Wednesday, April 17, 2013

بیساکھی

                                                     آپ جو چاہیں کہیں‘ میں اس معاملے میں مولانا فضل الرحمن کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ الیکشن کمیشن نے مذہب یا فرقہ پرستی کے نام پر ووٹ مانگنے کو جرم قرار دیا ہے۔ مولانا نے اس کی مخالفت کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ نہ مانگنا نظریۂ پاکستان کے منافی ہوگا اور یہ پابندی لگا کر الیکشن کمیشن اپنے آپ کو سیکولر ثابت کر رہا ہے۔
مجھے مولانا کا موقف مبنی برحق لگتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ووٹ مانگتے وقت ووٹروں کے مذہبی جذبات کو بیدار کریں۔ اسلام کا حوالہ دیں اور سیکولر ازم کی کشتی میں سوراخ کریں۔
مولانا کے موقف کی تائید کرکے مجھے سکون محسوس ہو رہا تھا۔ اتنے میں دستک ہوئی‘ باہر جماعت اسلامی کا امیدوار کھڑا تھا۔ اُس نے مذہب کے نام پر میرے ووٹ کا مطالبہ کیا۔ وہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کا نمائندہ تھا۔ اُس کی جماعت نے اسلام کے لیے طویل جدوجہد کی تھی۔ وہ مجھے قائل کر ہی رہا تھا کہ جے یو آئی کا امیدوار آ گیا۔ وہ بھی مذہب کے نام پر میرے ووٹ کا خواستگار تھا۔ اُس کی جماعت ایک قدیم مذہبی روایت کی نام لیوا تھی۔ وہ اپنا رشتہ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ سے جوڑ رہا تھا‘ دیوبند کے مدرسہ کی اور دیوبند مکتبِ فکر کی برِّصغیر میں بے پناہ مذہبی خدمات ہیں۔ میں اُس کا موقف خاموشی سے سُن رہا تھا کہ ایک اور مولانا تشریف لائے۔ اُن کے ساتھ بھی نیک لوگوں کا گروہ تھا۔ یہ جمعیت علمائے پاکستان کے امیدوار تھے۔ انہوں نے بھی مذہب کے نام پر میرا ووٹ مانگا۔ ان کی خدمات سے کون انکار کر سکتا ہے۔ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان کی ایک دنیا معترف ہے۔ ایک زمانہ ان سے فیض یاب ہوا۔ عشقِ رسولﷺ ان کا سرمایۂ حیات تھا۔ مولانا احمد لدھیانوی کا نمائندہ تشریف لے آیا۔ وہ بھی مذہب ہی کے نام پر ووٹ کا مطالبہ کر رہا تھا۔ پھر مولانا ساجد نقوی کا نمائندہ آیا۔ وہ بھی مذہب کے نام پر ووٹ مانگ رہا تھا اور سچ پوچھیے تو اُس کا بھی حق بنتا تھا۔ پھر اہلِ حدیث دوست تشریف لائے۔ ان کا بھی اندازِ طلب یہی تھا۔
میں حیرت و اضطراب کے دریائے بے کنار میں غوطے کھا رہا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مذمت کی اور اسے نظریۂ پاکستان کے منافی قرار دیا۔ مجھے ان کا فیصلہ دل کی گہرائیوں سے پسند آیا۔ لیکن عملاً جو صورتِ حال سامنے آ کھڑی ہوئی‘ اُس نے میرے ہوش ٹھکانے لگا دیے۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کس کا مطالبہ ٹھکرایا جائے اور کس کا قبول کیا جائے کہ مسلم لیگ نون والے آ دھمکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت مذہبی نام رکھنے والی کسی بھی جماعت سے کم مذہبی نہیں ہے۔ اس کے ارکان کی بہت بڑی تعداد نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کی پابند ہے۔ بات درست تھی۔ یہ لوگ بھی اتنے ہی مذہبی ہیں جتنے جماعت اسلامی‘ جے یو آئی یا دوسری مذہبی جماعتوں کے ارکان۔ یہی حال تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم کا ہے۔ غلام احمد بلور کا داخلہ مغربی ملکوں میں اس لیے بند کردیا گیا کہ انہوں نے گستاخانہ فلم بنانے والوں کے قتل پر انعام کا اعلان کیا۔ ایم کیو ایم والے سید سلیمان ندوی اور شبلی نعمانی کی روایات کے امین ہیں۔ وہ کسی سے کم مذہبی نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں میں بھی ان گنت لوگ شعائرِ اسلام کے پابند اور حرمتِ رسولؐ پر کٹ مرنے والے ہیں۔ آخر مذہب کے نام پر کوئی پارٹی‘ کس طرح ووٹ کا مطالبہ کر سکتی ہے؟ مذہب پر کسی
کی اجارہ داری نہیں۔ سب مسلمان ہیں۔ کوئی شخص دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ دوسرے سے بہتر مسلمان ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کو کم تر مسلمان نہیں ثابت کر سکتا۔ مولانا فضل الرحمن کو ضرور غلط فہمی ہوئی ہوگی! ووٹ مانگتے وقت تو یہ بتانا ہوگا کہ کس کے پاس بہتر اقتصادی پروگرام ہے؟ کون ملک کو باعزت خارجہ پالیسی دے گا؟ کون قوم کو آئی ایم ایف کے سنہری جال سے نکالے گا؟ غیر ملکی قرضوں کی زنجیریں کون توڑے گا؟ صدیوں پرانا جاگیردارانہ نظام کون ختم کرے گا؟ اور تباہ حال نظامِ تعلیم کو کون سنبھالے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والی جماعتوں کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے اور انہوں نے اپنا ہوم ورک نہیں کیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ مذہب کے نام پر عوام کے جذبات کا استحصال کرتی ہیں۔ جذباتی بلیک میلنگ کرتی ہیں اور اپنا اُلّو سیدھا کرتی ہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے میں ان مذہبی جماعتوں کی حکومت ملک کے بڑے حصے پر قائم رہی لیکن اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ان کی کارکردگی دوسرے صوبوں پر حکومت کرنے والی غیر مذہبی جماعتوں سے کسی صورت میں بہتر نہیں تھی!
کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ مذہب کے نام پر لوگوں کا سیاسی‘ تجارتی اور جذباتی استحصال بند کیا جائے؟ شہد کو اسلامی شہد کے نام پر فروخت کرنے والوں کو بتایا جائے کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والے سارے شہد کا ایک ایک قطرہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم سے بنتا ہے اور کوئی شہد غیر اسلامی نہیں ہوتا۔ دکان چلانی ہے تو خدا کے لیے مذہب کو درمیان میں نہ لایئے۔ اس مثال سے اُن سیاسی جماعتوں کی ’’حکمت عملی‘‘ سمجھ میں آ جانی چاہیے جو اپنی سیاست کو ’’اسلامی سیاست‘‘ کے نام سے فروخت کرنا چاہتی ہیں۔ جمال احسانی مرحوم لطیفہ سنایا کرتے تھے۔ کراچی میں ایک صاحب کا دعویٰ تھا کہ وہ مغل خاندان کا آخری چشم و چراغ ہیں۔ شاعری بھی کرتے تھے جس کا سر ہوتا تھا نہ پیر۔ خارج از وزن اور مضحکہ خیز۔ ایک دن جوشؔ کے ہاں گئے اور کہا شعر سنانے آیا ہوں۔ جوشؔ دو تین شعر ہی سن سکے۔ پھر ان کی ہمت جواب دے گئی۔ ملازم سے کہا انہیں باہر نکال دو۔ وہ صاحب باہر نکلتے نکلتے کہہ رہے تھے: ’’جوش صاحب! ہمت ہے تو شاعری میں مقابلہ کیجیے‘ غنڈہ گردی پر کیوں اُتر آئے ہیں؟‘‘
سو‘ مذہب کے نام پر سیاسی سودا بیچنے والوں کی خدمت میں نہایت ادب سے گزارش ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کا پروگرام لے کر آگے بڑھیے۔ مذہب بہت مقدس ہے اور لائقِ صد احترام۔ ازراہِ کرم اسے بیساکھی کے طور پر نہ استعمال کیجیے!

Tuesday, April 16, 2013

جنرل پرویز مشرف۔۔ایک علامت

جب سے جنرل پرویز مشرف واپس آئے ہیں، پوری قوم (اس کالم نگار سمیت ) ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے ۔ یوں لگتا ہے وہ نفرت کی ایک علامت بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک وکیل نے انہیں جوتا کھینچ مارا۔ جہاں جاتے ہیں، لوگ احتجاج کرتے ہیں۔ کیا وکلاء اور کیا جامعہ حفصہ کی طالبات، نفرت کی انتہا یہ ہے کہ گنتی کے جو چند افراد ان کی دسترس میں رہ گئے ہیں ان سے بھی عوام نفرت کرنے لگے ہیں۔ ان میں ان کے وکیل بھی شامل ہیں۔ اس میں شاید مبالغہ نہ ہوکہ اگر آج مشرف صاحب حفاظتی حصار کے بغیر کسی بازار، مسجد یا شاہراہ پر عوام کے ہتھے چڑھ جائیں تو انہیں جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ لال مسجد سانحے کا ذمہ دار بھی انہیں ٹھہرایا جاتا ہے، اکبر بگتی کے بھی وہ قاتل سمجھے جاتے ہیں، ڈرون حملوں کی ذمہ داری بھی ان پر ہے، طالبان کے خلاف یوٹرن بھی انہوں نے لیا تھا، اور سب سے بڑے جرم، این آر او کا طوق بھی انہی کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔
ان کے مائنڈ سیٹ کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے جو اتنا غلط بھی نہیں۔ لال مسجد کے بارے میں ان کا موقف عجیب و غریب ہے کہ بچیا ں وہاں تھیں ہی نہیں۔ اکبر بگتی کے قتل سے بھی وہ منکر ہیں۔
لیکن جنرل پرویز مشرف کی آج ایک اور حیثیت بھی ہے ، جس کا ہم میں سے بہت کم لوگوں کو احساس ہے۔ آج کا جنرل پرویز مشرف ایک علامت ہے ہماری ناانصافی کی! ایک علامت ہے ہمارے مجموعی قومی رویے کی۔ رویہ جو شرم ناک حدتک غیرذمہ دارانہ ہے۔ آج کا جنرل پرویز مشرف ایک جیتا جاگتاگوشت پوست کا ثبوت ہے اس حقیقت کا کہ ہم ایک تماش بین قوم ہیں۔ ہم من حیث القوم غیر سنجیدہ ہیں۔ ہماری حیثیت اس ہجوم سے زیادہ نہیں جو چوک پر جمع ہوتا ہے جس میں غالب تعداد بے فکرے کھلنڈروں کی ہوتی ہے جن کا واحد مقصد تماشہ دیکھنا، تالیاں پیٹنا  اور ہاہا کرنا ہوتا ہے۔ چوک پر اگر میراثی چودھری کی بے عزتی کردے تو بے فکرے کھلنڈروں کا یہ ہجوم میراثی کے لیے تالیاں پیٹنے لگتا ہے اور اگر چودھری کے پالتو مشٹنڈے میراثی کی ٹھکائی کردیں تو یہ انہیں داد دینے لگ جاتے ہیں۔
جب ڈاکٹرعبدالقدیر خان پر الزام لگتا ہے کہ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی دوسرے ملکوں کو شفٹ کرتے رہے تو ہمارا جواب ہوتا ہے کہ کیا وہ یہ کام تن تنہا کرتے رہے ؟ اور کیا یہ ایسا کام تھا جسے چھپ کر کیا جاسکتا تھا؟ یہ جواب منطقی انصاف پر مبنی ہے ۔ لیکن اس منطق اور اس انصاف کا اطلاق ہم جنرل پرویز مشرف پر کیوں نہیں کررہے ؟ کیا لال مسجد کے سانحے کے وہ اکیلے ذمہ دار ہیں؟ کیا اکبر بگتی کا قتل انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے کیا اور اس وقت کوئی اور شخص دور ونزدیک وہاں موجود نہیں تھا؟ طالبان کے خلاف جب انہوں نے یوٹرن لیا تو کیا اس سڑک پر اور کوئی سواری نہیں تھی؟ کیا ڈرون حملوں کی اجازت انہوں نے اکیلے دی؟کیا این آر او صرف اُن کی تخلیق ہے؟ اگر وہ واقعی اتنے طاقت ورتھے کہ کابینہ بھی مخالف تھی، سب سے بڑی اتحادی جماعت قاف لیگ بھی ساتھ نہیں دے رہی تھی، کورکمانڈر بھی خلاف تھے اور اس کے باوجود یہ سارے کام انہوں نے تن تنہا انجام دیے تو پھر انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ انسان نہیں، دیوتا ہیں۔ طاقت اور زور کا دیوتا!
آپ غور فرمائیے، چودھری شجاعت حسین ہماری سیاست میں شرافت اور متانت کی ایک اعلیٰ مثال ہیں، وہ کسی کے خلاف ناشائستہ زبان نہیں استعمال کرتے، ان میں ایک رکھ رکھائو ہے۔ وہ صلح جوئی کے لیے معروف ہیں۔ ان کے مذہبی رحجان سے بھی کوئی انکار نہیں
 کرسکتا۔ ان کے گھرانے کی خواتین سیاست اور میڈیا سے احتراز کرتی ہیں۔ لال مسجد کا ذکر کرتے ہوئے وہ روبھی پڑے تھے۔ لیکن کیا وہ اس ٹریجڈی کے بعد حکومت سے علیحدہ ہوئے؟ کیا انہوں نے اس وقت جنرل پرویز مشرف کی (سانحے کی نہیں، سانحے کی مذمت تو سب کررہے تھے) مذمت کی؟ اکبر بگتی کا قتل ناروا تھا۔ لیکن اس کے قتل پر مشرف کے کتنے ساتھی اس سے الگ ہوئے؟ جب ذوالفقار علی بھٹو اپنے عہد اقتدار میں چودھری ظہورالٰہی مرحوم کو جان سے مارنا چاہتے تھے تو اکبر بگتی ان کے راستے کی دیوار بن گیا تھا۔ اس کے باوجود ، دوسروں کو تو چھوڑیے، خود چودھری شجاعت حسین اکبر بگتی کے قتل پر حکومت سے الگ نہ ہوئے! شیخ رشید کی مثال لے لیجیے، یہ وہی شیخ صاحب ہیں جو پرویز مشرف کا نام سید پرویز مشرف کہہ کر لیتے تھے۔ آج جو میڈیا پرویز مشرف کی دھجیاں بکھیر رہا ہے وہ پرویز مشرف کے انتہائی قابل اعتماد رفیق سفر شیخ رشید کو رات دن سرآنکھوں پر بٹھا رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمارے بعض اینکر حضرات چوک پر جمع ہونے والے کھلنڈرے بے فکروں کی بہترین مثال ہیں۔ آج شیخ رشید احمد کے پہروں طویل انٹرویو لیے جارہے ہیں۔( کیا کسی نے حساب لگایا ہے کہ تمام چینلوں کے انٹرویو جمع کیے جائیں تو کتنے سو، کتنے ہزار گھنٹے شیخ رشید کی نذر ہوچکے ہیں)۔ کل پرویز مشرف پٹخنی دے کر اوپر آگیا تو یہی اینکر حضرات اپنے سٹوڈیو میں اس کا میک اپ کررہے ہوں گے۔
چودھری پرویز الٰہی ، پرویز مشرف کو دس بار وردی سمیت منتخب کروا رہے تھے۔ امیر مقام اس کے بھائی تھے ۔ طارق عظیم ٹیلی ویژن پر اس کے ہراچھے اور ہر برے اقدام کا دفاع کررہے تھے۔ ماروی میمن نے بھی یہی کچھ کیا۔ خورشید محمود قصوری پانچ سال وزیر خارجہ کی حیثیت سے پرویز مشرف کے اقدامات کی پورے کرۂ ارض پر دفاع اور تحسین کرتے رہے۔ حنا ربانی کھر اور عمر ایوب خان ان کے عہد میں خزانے کے وزیر رہے۔ شوکت عزیز حکومت کا سربراہ تھا اور اس قدر طاقت ورتھا کہ 2007ء میں جب اس نے اور اس کے پچاس رکنی وفد نے میقات پر احرام نہ باندھا تو دَم کے انیس ہزار ریال بھی قومی خزانے سے دلوائے گئے۔ پاکستانی عوام اور خواص نے ان سب حضرات کو عملی طورپر، زبان حال سے، معصوم قرار دے دیا ہے ۔ ان میں سے کسی کے خلاف احتجاج ہوا نہ کسی نے کسی عدالت میں ان پر مقدمہ درج کرایا۔ یہ سب حضرات جو پرویز مشرف کے ہرجرم میں ان کا دست وبازو بنے رہے، آج تحریک انصاف ، نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے شیش محلوں میں کمخواب کی مسندوں پر جلوہ فرما ہیں۔ خدام مورچھل ہلا رہے ہیں۔ کنیزیں پائوں دبارہی ہیں۔ غلام دست بستہ کھڑے ہیں اور پرویز مشرف اپنی جان بچاتے پھررہے ہیں۔
کیا اس بارے میں دوآرا ہوسکتی ہیں کہ ہم ایک غیرسنجیدہ، انصاف دشمن اور تماش بین قوم ہیں؟

Friday, April 12, 2013

اسی غبار سے سوار برآمد ہوں گے

اگر چرواہا ہی بکریوں کو بھیڑیے کے آگے ڈالنا شروع کردے؟
اگر باڑھ ہی کھیت کو کھانا شروع کردے؟
اگر میڈیا ہی جانب دار ہو جائے؟
چار دن پہلے جب عدالت عالیہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کی معطلی کا فیصلہ صادر کیا تو ایک معروف تجزیہ کار نے ٹیلی ویژن سکرین پر گویا سرخ قمیض کو جھنڈے کی صورت میں لہرانا ہی شروع کردیا۔ نام نہاد تجزیے کا لبّ لباب یہ تھا کہ محصول جمع ہو رہا تھا۔ ٹیکس پالیسیاں بن رہی تھیں۔ معیشت کو سہارا دیا جا رہا تھا۔ یہ بھلا کون سا وقت تھا ایف بی آر کے چیئرمین کو ہٹانے کا۔
اگر ٹیلی ویژن کے تجزیہ کار اور اخبارات کے کالم نگار سرخ قمیضوں کو بانسوں پر لٹکا کر جانب دار ہو جائیں گے اور معاملے کے ایک ہی پہلو کو سامنے لائیں گے تو یہ وہ میڈیا نہیں رہے گا جسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ یہ تو دوسرے تین ستونوں کو گرانے والا میڈیا ہوگا۔ ایف بی آر وہ ادارہ ہے جو پورے ملک سے محصولات جمع کرتا ہے۔ آمدنی پر ٹیکس لگاتا ہے۔ کسٹم کے محصولات اکٹھے کرتا ہے۔ سیلز ٹیکس کا ذمہ دار ہے۔ دولت پر ٹیکس لگاتا ہے۔ ملک کی معیشت کا دارومدار اسی آمدنی پر ہے۔
یہاں سینکڑوں افسر اور ہزاروں اہلکار ہیں۔ ان افسروں اور اہلکاروں کی استعداد کار کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ایک شخص تیس پینتیس برس کی شبانہ روز محنت کے بعد اس مرحلے پر پہنچتا ہے کہ اسے اپنے ادارے کا سربراہ بنایا جائے۔ سینیارٹی‘ کارکردگی‘ دیانت سارے عوامل اُس کے حق میں ہوتے ہیں۔ اچانک ایک شخص کو جس کا اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ پورے ادارے پر مایوسی اپنے پر پھیلا دیتی ہے۔ اگر یہی ہونا ہے تو پھر کام کا کیا فائدہ؟ انسان‘ انسان ہوتے ہیں۔ فرشتے نہیں ہوتے۔ حوصلہ افزائی سے ان کی کارکردگی بڑھتی ہے۔ انصاف سے ان میں محنت کا جذبہ دوبالا ہوتا ہے۔ ناانصافی انہیں گھائل کر دیتی ہے۔ ان کی استعدادِ کار کو گھُن لگ جاتا ہے۔ وہ نہ صرف خود مایوس ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ یہاں سے نکل بھاگو۔ وہاں جائو جہاں محنت کا پھل ملتا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کی معیشت پر ماتم کیا ہے اور یہ رونا بھی رویا ہے کہ مستقبل قریب میں بہتری کے آثار عنقا ہیں۔ ایک سبب اس صورتِ حال کا بینک نے یہ بتایا ہے کہ بیوروکریسی پالیسی سازوں (یعنی سیاست دانوں) کے سامنے صحیح تصویر پیش نہیں کرتی۔ کاش‘ ایشیائی ترقیاتی بینک ایک مطالعہ اس امر کا بھی کرواتا کہ پاکستان میں بیوروکریسی کو کس طرح تباہ و برباد کیا جاتا رہا اور بدستور کیا جا رہا ہے۔ بیرون ملک تعیناتیوں کی تو بات ہی نہ کیجیے کہ ننانوے فی صد فیصلے اس ضمن میں سفارش اور اقربا پروری سے ہوئے‘ اندرونِ ملک بھی جو کچھ ہوتا رہا‘ خدا کسی دشمن ملک کو بھی اس سے دوچار نہ کرے۔
ضیاء الحق کے زمانے میں بھی فردِ واحد کی خواہش ہی قانون کا درجہ رکھتی تھی اور بیوروکریسی اس آمریت کا خوب تختۂ مشق بنی۔ لیکن پرویز مشرف نے تو تباہی کا نیا راستہ دریافت کیا۔ اُس نے بڑے بڑے محکموں میں فوجی افسروں کو لگانا شروع کیا اور وہ جو مستحق تھے وہ کونوں کھدروں میں چھپ کر بیٹھ گئے یا عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے گھروں کو چلے گئے۔وفاقی حکومت کا ایک بہت بڑا محکمہ ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ کہلاتا ہے، یعنی چھائونیوں اور عسکری زمینوں کا انتظام و انصرام کرنے والا محکمہ۔ اس محکمے کو چلانے والے افسر مقابلے کا امتحان پاس کرکے آتے ہیں۔سربراہ ہمیشہ انہی پیشہ ور لوگوں میں سے ہوتا تھا۔پرویز مشرف نے یہ سربراہی ایک جرنیل کو سونپ دی پھر دوسرا جرنیل آیا، پھر تیسرا ، یوں محکمے کے افسر بددلی کا شکار ہوتے گئے۔پرویز مشرف نے ڈاکخانے کی سربراہی بھی ایک ریٹائرڈ جرنیل کو سونپ دی۔وفاقی محکمہ تعلیم کی سربراہی ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے حوالے کردی گئی جسے چار بار (یا غالباً پانچ بار) توسیع دی گئی۔وفاقی محکمہ تعلیم کے افسر اور پروفیسر ، جو پوری پوری زندگی کے بعد اس سربراہی پر فائز ہوتے تھے اور جن کا استحقاق تھا، بددل، مایوس اور گھائل ہوکر سرجھکا کر قسمت کو روتے رہے۔کہیں شنوائی تھی نہ فریاد رسی ، ظلم کا دور دورہ تھا اور رعونت کی حکمرانی تھی۔
پرویز مشرف نے اسی پر بس نہ کیا۔سول سروس کے سب سے مقدس تربیتی ادارے ، سٹاف کالج لاہور میں بھی ایک جرنیل کو بٹھا دیا۔یہ صاحب کارگل شہرت یافتہ تھے۔سول سروس کے ارکان ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے تھے کہ کیا کاکول میں سول سروس کے کسی فرد کو لگایا جاسکتا ہے؟ نہیں تو ، پھر ایک ریٹائرڈ جرنیل کو پوری سول سروس کے اوپر کیوں لابٹھا دیاگیا ہے؟
ناانصافی کا یہی کھیل پیپلزپارٹی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں کھیلا۔تیس تیس پینتیس پینتیس سال کے تجربے کے بعد جو پیشہ ور افسر اس انتظار میں تھے کہ ان میں سے کسی کو سربراہی کا موقع ملے گا، بیٹھے رہ گئے اور تقرر نجی شعبے سے کردیاگیا۔افسروں میں بددلی پھیل گئی۔بددلی ایک جگہ نہیں رکتی۔سفر کرتی ہے اور اوپر سے نیچے تک ہر شخص کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔کچھ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ تعیناتی کے لیے جو معیار مقرر کیاگیا تھا ، اسے مدنظر نہیں رکھا گیا۔عدالت نے داد رسی کی اور اب جس افسر کو سربراہ مقرر کیاگیا ہے اس کی تین دہائیاں اس وادی کے
نشیب و فراز میں کٹی ہیں۔ظاہر ہے کہ وہ افرادی قوت سے بھی آشنا ہوگا اور ان بے شمار دیگر مسائل سے بھی جن کا باہر سے آکر مسلط ہوجانے والے کو کچھ علم نہیں ہوتا۔
نجی شعبے میں بہت ٹیلنٹ ہے اور ذہانت بھی۔لیکن وہ جو سرکاری محکموں میں  بیٹھے ہوئے ہیں ان کے دماغوں میں بھی بُھس تو نہیں بھرا ہوا۔اگر وہ اہل ہیں تو انہیں سربراہی تک جانے کا حق ہے۔اگر وہ اہل نہیں تو انہیں اب تک نکالا کیوں نہیں گیا؟
اقربا پروری اور سیاسی مداخلت نے سول سروس کو بدحال کررکھا ہے۔پولیس ہی کو دیکھ لیجیے، پوری کی پوری پولیس فورس سیاسی مداخلت کا تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔کسی افسر یا اہلکار کو تین سال کی مدت کسی جگہ پوری ہی کوئی نہیں کرنے دیتا۔جن افسروں اور اہلکاروں کا بستر ہمیشہ لپٹا ہوا ہوگا اور کوچ کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہوں گے،ان سے استعداد کی توقع کوئی احمق ہی کرسکتا ہے اور احمقوں کی ہمارے ہاں بہتات ہے!
انصاف ! انصاف ! سول سروس میں انصاف درکار ہے۔ سیاسی مداخلت ختم کردیجیے۔اقربا پروری اور سفارش کے طاعون سے نجات حاصل کیجیے۔دامادوں ، بھتیجوں ، بھانجوں ، بیٹوں کو اپنی قابلیت پر بھروسہ کرنے کی عادت ڈالیے۔سچ بولنے پر سزا نہ دیجیے غلط حکم نہ ماننے پر تعاقب نہ کیجیے‘ تحسین کیجیے ‘ پھر دیکھیے ، یہی سول سروس آپ کے ملک کو سنگاپور بھی بناسکتی اور سوئٹزرلینڈ بھی ۔ ع
تو چہ دانی کہ درین گرد سواری باشد
اسی گرد وغبار سے شہسوار برآمد ہوں گے!

Thursday, April 11, 2013

بجلیوں کا کارواں

شوکت عزیز کی پلاسٹک کی بنی ہوئی وزارت عظمیٰ کا زمانہ تھا۔ وزیراعظم کے لیے ہوائی جہاز خریدنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ خریداری کئی مراحل سے گزری۔ ہوتے ہوتے کئی محکموں کا عمل دخل ہوگیا۔ وفاقی وزارت خزانہ کا ایک حصہ وزارت دفاع میں واقع ہے۔ اس حصے کا سربراہ ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس کہلاتا ہے۔ یہ انتظام دفاع کو سہولت پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ مسائل یہیں حل ہوتے رہیں اور ہر کام کے لئے اسلام آباد کا رخ نہ کرنا پڑے۔ جن اہم امور میں وزارت خزانہ اسلام آباد کے فیصلوں کی ضرورت پڑتی ہے، ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس ان امور کے لیے اسلام آباد سے پوچھ لیتا ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس کو ایک دن ایک معروف صحافی کا فون آیا: ’’کیا آپ وہ فائل مجھے دکھا سکتے ہیں جس میں وزیراعظم کے لیے خریدے گئے جہازوں کا معاملہ چلتا رہا؟‘‘
ایڈیشنل سیکرٹری نے ایک لمحہ سوچے بغیر جواب دیا… ’’صاحب! اس خریداری کا دکھ تو مجھے بھی ہے لیکن بہت معذرت کہ فائل نہیں دکھا سکوں گا۔ یہ فائل میرے پاس حکومت پاکستان کی امانت ہے۔‘‘
ایڈیشنل سیکرٹری کی اس معروف صحافی سے اچھی دعا سلام تھی۔ یہ اور بات کہ ٹیلیفون پر ہونے والی اس مختصر گفتگو کے بعد صحافی نے سردمہری اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ ایک بار ایڈیشنل سیکرٹری ان کے ادارے میں ایک دوست سے ملنے گیا۔ وہ کمرے کے باہر کھڑے تھے۔ تاثر یہی دیا کہ جان پہچان ہے نہ دعا سلام۔ لیکن یہ اصل مسئلہ نہیں۔ قصہ بیان کرنے کا مدعا اور ہے۔
آج آئین کی دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ کی خالص ظاہری تعبیر کی ترجمانی بہت سے معروف اور نیک نام صحافی کررہے ہیں، شدومد سے کررہے ہیں اور جارحیت کے ساتھ کررہے ہیں۔ چھوٹا سا سوال ہے کہ اگر سرکاری اہلکار فائل دکھانے کی خیانت کرتا تو کیا وہ باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترتا؟ (یہ الگ بات کہ منظور نظر ہوجاتا!) لیکن کیا ایک اہلکار سے ایسا مطالبہ کرنا باسٹھ تریسٹھ کی روح کے ساتھ ہم آہنگ ہے؟
پرویز مشرف کے عہد زیاں میں جس صحافی نے یہ خبر بریک کی تھی کہ ایک معروف مذہبی جماعت کے رہنما کو جی ایچ کیو کی طرف سے زرعی زمین دی گئی ہے، اس صحافی کو معروف مذہبی جماعت کے ترجمانوں نے انتہائی افسوسناک خطاب سے نوازا۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ آج وہی صحافی باسٹھ تریسٹھ کی جس تعبیر کی ترجمانی کررہے ہیں اس تعبیر پر اسی مذہبی جماعت کے ارکان سو فیصد پورا اترتے ہیں۔ یہ حضرات دعائے قنوت بھی فر فر سنا سکتے ہیں اور چھ کلمے بھی۔ بہت سوں کو کلام پاک پورا یا اس کے اکثر حصے حفظ بھی ہوں گے، لیکن کیا جانچنے کے لیے یہ معیار کافی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں کوئی بتائے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظمؓ نے کیوں پوچھا تھا کہ وہ شخص لوگوں کے ساتھ معاملات میں کیسا ہے؟ جب لوگوں نے عرض کیا کہ وہ صاحب نمازوں اور روزوں میں حد سے زیادہ سرگرم ہیں تو خلفیہ راشد نے اس گواہی کو کافی کیوں نہ سمجھا؟ کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی اپنی پسندیدہ تعبیر ایک بار نہیں لاکھ بار کرے، انصاف کی بات یہ ہے کہ امت کیلئے حضرت عمرؓ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہنمائی فرما گئے ہیں کہ کسی کو جانچنا ہو تو یہ دیکھو کہ وہ معاملات میں کیسا ہے؟ لوگوں کے ساتھ اس کا برتائو کیسا ہے۔ رہیں عبادات تو وہ اس کا اور اس کے پروردگار کا معاملہ ہے۔ دعائے قنوت تو حجاج بن یوسف کو بھی یاد تھی ۔ اسے چھ کلمے بھی آتے ہوں گے۔ اگر صرف عبادات کی بنیاد پر جانچنا ہوتا تو حجاج بن یوسف پابندی سے نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا لیکن کیا اس کا موازنہ اس گورنر سے کیا جاسکتا ہے جس سے امیر المومنین نے پوچھا تھا تم اپنی رہائش گاہ سے تاخیر کے ساتھ کیوں برآمد ہوتے ہو تو اس نے جواب دیا تھا کہ میرے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا ہے۔ دھوتا ہوں تو خشک ہونے تک پہننے کے لیے کچھ اور میسر نہیں، باہر کیسے نکلوں؟
کوئی اس سے یہ نتیجہ نہ نکالے کہ عبادات کی اہمیت نہیں۔ خدا اور خدا کے رسولؐ نے جو فرائض مقرر کیے ہیں ان کی اہمیت کو ایک رمق بھی نہیں گھٹایا  جاسکتا۔ خمر حرام ہے اور قیامت تک حرام رہے گا۔ ربوٰی حرام ہے اور اسے کوئی بھی حلال نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ اختیار بھی کسی کو نہیں کہ وہ اپنے آپ ہی کو شارح سمجھے اور اپنی تشریح کو حرف آخر جان کر دوسروں پر مسلط کرے۔ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ربوٰی کی تشریحات میں کئی مکاتب فکر ہیں۔ مفتی اعظم الازہر سے لے کر مفتیٔ پاکستان مولانا محمد شفیع تک کئی تعبیریں ہیں، کئی اختلافات ہیں۔ جی پی فنڈ پر جو منافع ملتا ہے اور جسے سود کہا جاتا ہے، کئی علما نے جائز
قرار دیا ہے اور اگر یہ کالم نگار بھول نہیں رہا تو مفتی محمد شفیع مرحوم بھی ان میں شامل ہیں اور یہ تو ہمارے سامنے کا واقعہ ہے کہ ہمارے دور کے نامور عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی نے اسلامی بنکاری میں نئے تصورات نکالے۔ جمود توڑا اور ان کٹر مسلمانوں کو جو عام بنکاری سے اجتناب کرتے ہیں، اسلامی بنکاری کا راستہ دکھایا۔ لیکن بہت سے علما نے جن میں مولانا تقی عثمانی کے قابل احترام اساتذہ بھی شامل ہیں، اس ساری جدوجہد پر شدید اعتراض کیا اور اسلامی بنکاری کو ناجائز قرار دیا۔ نامور شاعر جناب سعود عثمانی جو مولانا تقی عثمانی کے بھتیجے ہیں، اس کی پوری تفصیل بتا سکتے ہیں۔ یہ تعبیر و تشریح کا مسئلہ ہے۔ آخر کوئی شخص جو عالم دین بھی نہیں، ٹیلی ویژن پر کس طرح اصرار کرسکتا ہے کہ وہی حرف آخر ہے! پیش

ے کی وجہ سے یا حادثے کی وجہ سے اگر پردۂ سیمیں تک رسائی ہوگئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام پر اجارہ داری بھی حاصل ہوگئی ہے!
معاملات! حضور معاملات! مسلمان ہونے کی کسوٹی معاملات ہیں، محض عبادات نہیں! اس بلکتی سسکتی قوم کے کروڑوں اربوں روپے ہڑپ کرنے والے ڈاکو چھ کلمے سنا کر قومی اسمبلی کے دروازے میں دوبارہ داخل ہونے کو ہیں:
وہ شاخ گُل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا

Wednesday, April 10, 2013

بد دماغ لوگ

                                                                                    
یہ واقعہ گزشتہ جون کا ہے۔ شہرہ آفاق قصبے آکسفورڈ کے لارڈ میئر ایلن آرمی ٹیج ایک تقریب میں مدعو تھے۔ تیرہ سال سے کم عمر کھلاڑیوں کے ساتھ تصویر کھچوانے کا وقت آیا تو ایک لڑکی کے بارے میں ان کے منہ سے ایک فقرہ نکل گیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ لڑکی جب جھکی تو دلکش لگ رہی تھی۔ یہ فقرہ لارڈ میئر کے لیے عذاب بن گیا۔ لوگ معترض ہوئے کہ یہ جملہ ’’نامناسب‘‘ تھا۔ آرمی ٹیج نے آئیں بائیں شائیں بہت کی‘ کبھی کہا کہ میں نے کچھ اور کہا تھا مگر لوگوں نے غلط سنا، کبھی کوئی اور تشریح کی لیکن یہ فقرہ گلے کا ہار بن گیا۔ تین بچوں کے باپ ایلن آرمی ٹیج کی ساری زندگی سیاست میں گزری اور ایک طویل سفر کے بعد وہ آکسفورڈ کا لارڈ میئر بنا تھا۔ آکسفورڈ جس کی شہرت داستانوی ہے‘ جس میں صدیوں سے مقامی حکومت جمہوری خطوط پر چل رہی ہے اور جس کا لارڈ میئر منتخب ہونا بڑا اعزاز ہے۔
مقدمہ لمبا چلا، کونسلروں نے خفیہ اجلاس منعقد کیے۔ خفیہ اس لیے کہ لڑکی کی شناخت عام نہ ہوجائے اور اس کی بدنامی کا سبب نہ بنے۔ سیاسی پارٹی، لبرل ڈیموکریٹ نے جس کے ساتھ لارڈ میئر وابستہ تھا، فقرے کو ناقابل قبول کہا۔ آکسفورڈ کنٹری کونسل کی تنظیم بھی جو بچوں کی حفاظت کے لیے کام کرتی تھی، بیچ میں کود پڑی۔ آخر کار مسئلہ آکسفورڈ سٹی کونسل کے پاس پہنچا۔ کونسل کا فیصلہ تھا کہ لارڈ میئر نے اخلاقی حدود پامال کی ہیں اور ایک بچی کے بارے میں ایسا فقرہ کہا جو کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا۔ مارچ میں لارڈ میئر کو مستعفی ہونا پڑا۔
کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل کمالہ حارث اور صدراوباما کی سیاسی رفاقت طویل عرصے پر محیط ہے۔ دونوں ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہیں۔ ماضی میں دونوں انتخابی مہم میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ کمالہ کی ماں ڈاکٹر شمالہ چنائی (مدراس) سے تھی‘ باپ جمیکا سے تھا۔ کمالہ نے قانون کا پیشہ اپنایا۔ پہلے سان فرانسسکو میں ضلعی اٹارنی جنرل کا انتخاب جیتا‘ پھر ریاست کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل بن گئی۔ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ تک ترقی کرے گی۔
چار اپریل کو ڈیمو کریٹک پارٹی نے چندہ جمع کرنے کی ایک بڑی تقریب منعقد کی جس میں صدر اوباما بھی شریک ہوئے۔ یہ تقریب کیلی فورنیا کے ایک قصبے اتھرٹن میں برپا ہوئی۔ بہت سے کروڑ پتی اور ارب پتی شریک ہوئے۔ تقریب کے انعقاد میں کمالہ کا خاصا عمل دخل تھا۔ چنانچہ صدر اوباما نے اپنی تقریر میں کمالہ کی تعریف کی۔ انہوں نے اسے مخلص، انتھک اور ذہین قرار دیا اور پھر کہا کہ ’’کمالہ ملک کی سب سے زیادہ خوش شکل اٹارنی جنرل ہیں‘‘۔ یہ فقرہ جو مغربی کلچر میں ایک عام سا فقرہ ہے صدر اوباما کے لیے مصیبت بن گیا۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن نے تنقید کرنا شروع کردی۔ مجموعی ردعمل یہ تھا کہ صدر کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ نکتہ جس پر زور دیا گیا یہ تھا کہ خواتین کو ملازمت کے دوران اس قسم کی ’’تعریف‘‘ کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے اور پیشہ وارانہ مہارت کے بجائے شکل و صورت ہی کیوں دیکھی جاتی ہے۔ بارہ گھنٹوں میں معاملہ خطرناک صورت اختیار کر گیا۔ یہ تک کہا جانے لگا کہ یہ منافقت ہے اور خاتون کی بے عزتی ہے۔ آخر کار صدر نے کمالہ کو فون کیا اور اپنے ریمارکس پر معافی مانگی۔ بات یہیں ختم نہ ہوئی۔ ایوان صدر کے پریس سیکرٹری کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔ کمالہ نے یہ تو تصدیق کی کہ صدر نے فون کیا لیکن اب میڈیا اس تجسس میں ہے کہ کمالہ نے صدر کو معاف کردیا ہے یا نہیں۔
ان دو تازہ ترین واقعات کے ذکر کے بعد ہم یورپ اور امریکہ سے واپس اپنے ملک آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک فلم گردش کررہی ہے۔ ہزاروں لاکھوں پاکستانی اسے دیکھ چکے ہیں۔ ایک تقریب میں جو شاید سیاسی نوعیت کی ہے، ایک سیاستدان دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سیاستدان ایک خاتون کے بارے میں انتہائی ناشائستہ اور غیر مہذب بات کرتا ہے اور اشارہ بھی کرتا ہے۔ بات کرنے اور اشارہ کرنے کے بعد وہ قہقہہ لگاتا ہے اور بار بار لگاتا ہے۔ حاضرین مجلس محظوظ ہورہے ہیں۔ ہنسی کی آوازیں آرہی ہیں۔ ہفتے گزر چکے ہیں‘ ابھی تک کسی کونے سے احتجاج کی ہلکی سی آواز بھی نہیں سنائی دی۔
یہ کسی ایک شخص کا قصور نہیں‘ ہم جو غیرت مند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ ہم جو خاتون خانہ کی آواز بھی چار دیواری سے باہر نہیں جانے دیتے‘ ہم جو اب بھی اپنی خواتین کو ملازمت کی اجازت نہیں دیتے‘ ہم بنیادی طور پر ناشائستہ لوگ ہیں۔ رکھ رکھائو، نرم گفتاری اور آداب مجلس سے ہم ہمیشہ ناآشنا ہی رہے۔ چادر اور چاردیواری کا شور و غوغا ہم نے چہار دانگ عالم میں خوب برپا کیا۔ افسوس! حقیقت میں ہم خواتین کی عزت کرنا جانتے ہی نہیں!
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم دوسروں کو ہر وقت طعن و تشنیع کا ہدف بنائے رکھتے ہیں۔ مغرب ہمارے نزدیک عورت کی عزت نہیں کرتا۔ ایک محاورہ ہم نے ایجاد کر رکھا ہے کہ عورت شمع خانہ تھی‘ مغرب نے اسے شمع محفل کردیا۔ ہم میں سے اکثر یہ تصور رکھتے ہیں کہ عورت ایک جنس ہے جو مغربی ملکوں میں افراط کے ساتھ میسر ہے۔ وہاں نہ خاندانی نظام ہے نہ عورتوں کی حرمت ہے۔ یہ سارے الزامات ہم اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے دہراتے ہیں لیکن جو کچھ ہمارے ہاں ہورہا ہے اس کا ذکر کرتے ہیں نہ فکر۔ بیویوں پر جسمانی تشدد نہ صرف ناخواندہ، دیہاتی بلکہ تعلیم یافتہ اور شہری بھی کرتے ہیں۔ جائداد میں عورتوں کو کچھ نہیں ملتا۔ کیا مسٹر اور کیا مولانا، اس گھنائونے جرم میں سب برابر  کے شریک ہیں۔ جو تنظیمیں خواتین کے حقوق کے لیے بنی ہوئی ہیں اور اندرون ملک اور
بیرون ملک سے بے تحاشا فنڈ اکٹھے کرتی ہیں ان میں سے اکثر ضرورت مند خواتین کے ساتھ سرد مہری اور رعونت کا برتائو کرتی ہیں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ اس کالم نگار کے گائوں سے ایک عورت آئی جو اپنے گھر میں سلائی کڑھائی اور دستکاری قسم کا کام کرنا چاہتی تھی اور رہنمائی کی تلاش میں تھی۔ ہم میاں بیوی اسے دارالحکومت کی اس تنظیم نما دکان میں لے گئے جو ایک معروف دانشور خاتون چلاتی ہیں اور خواتین کے حال زار پر جن کی گراں بہا تحریروں کے انبار لگ چکے ہیں۔ اعتماد کے ساتھ اس لیے گئے تھے کہ اچھی خاصی شناسائی تھی اور برسوں کی تھی۔ ان کا سلوک اور ڈیلنگ دیکھ کر آنکھوں پر اعتبار آیا نہ کانوں پر۔ ایک درشتی تھی اور تکبر جو اہل ضرورت پر برس رہا تھا! ہم حاجت مند عورت کو ناکام و نامراد واپس لے آئے۔
اس کالم کے ردعمل میں بھی خطوط اور ای میلیں موصول ہوں گی جن میں لکھنے والے کو مغرب سے مرعوبیت کے طعنے دیئے جائیں گے۔ کچھ حسب سابق امریکی ایجنٹ کہیں گے۔ کچھ پھول جھاڑنے والے قلم مغرب کی غلامی کا خطاب بھی دیں گے۔ مغل دربار سے وابستہ نظیری نیشا پوری نے ہماری بیماری کی خوب تشخیص کی ہے:   ؎
کس زما سرگشتگاں رہ بر مراد خود نیافت
بال و پر درجستجوئے منزلِ عنقا زدیم
یعنی ہم بددماغ لوگ ہیں۔ ایک ایسی منزل کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں جو عنقا ہے۔ آج تک کسی کو ہماری رہنمائی سے کامیابی نہ حاصل ہوسکی!!

Tuesday, April 09, 2013

اگر آج حضرت عمرؓ ہوتے


تو کیا ہمارے ریٹرننگ افسروں کو اس معیار کا بالکل علم نہیں جو حضرت عمر فاروق ؓنے مقرر کیا تھا؟
یہ واقعہ اتنا مشہور ہے کہ ہم میں سے ہر شخص نے سنا ہوا ہے۔ دوسرے خلیفہ راشد نے ایک صاحب کے بارے میں لوگوں کی رائے لی۔ بتایا گیا کہ خشو ع و خضوع سے نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور عبادت میں بہت زیادہ سرگرم۔ امیر المومنین نے کہا نہیں، یہ بتائو کہ یہ شخص لوگوں کے ساتھ معاملات میں کیسا ہے؟
جس قبیل کے سوالات ریٹرننگ افسر پوچھتے رہے ہیں اس سے یہ تصویر مکمل طور پر واضح ہوگئی ہے جو اسلام کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں بنی ہوئی ہے۔ افسوس! یہ تصویر نامکمل ہے۔ ہم نے اسلام کو خانوں میں بانٹا ۔ پھر جو خانے ہمیں پسند آئے ہم نے چن لیے۔ جو خانے مشکل لگے، ہم نے چھوڑ دیئے۔ ہم نے خدائے بزرگ و برتر کے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو۔ افسوس ہے ہمارے اس فہم پر جو اسلام کے متعلق ہمیں حاصل ہے اور جس کا ہمیں دعویٰ ہے!
یہ ریٹرننگ افسر جو دعائے قنوت سنتے رہے، چھ کلمے سنتے رہے (ہمارے دوست خورشید ندیم نے روزنامہ دنیا میں کیا پتے کی بات لکھی کہ اسلام میں تو ایک ہی کلمہ تھا!) اور امیدواروں سے وعدے کرواتے رہے کہ نمازیں پڑھیں گے۔ ان ریٹرننگ افسروں نے یہ کیوں نہ پوچھا کہ جھوٹ کے بارے میں ہادیٔ اعظم ﷺ کا کیا فرمان ہے؟ وعدہ خلافی کے متعلق کیا کہا گیا ہے؟ پڑوسیوں کے حقوق کے ضمن میں اسلامی احکام کیا ہیں؟ کم تولنے والوں کے متعلق قرآن کا کیا فیصلہ ہے؟ منافق کی کیا نشانیاں بتلائی گئی ہیں؟ انہوں نے مولوی صاحب سے کیوں نہ پوچھا کہ کروڑوں کی زمین کس قانون کے تحت پرویز مشرف کی وساطت سے حاصل کی گئی؟ فہمیدہ مرزا سے کیوں نہ پوچھا کہ تاحیات اس مفلوک الحال ملک سے ملازم، گاڑیاں، علاج کی سہولت اور مشاہرہ اپنے نام کرا لینا کون سی دیانت ہے؟ نوازشریف سے کیوں نہ پوچھا کہ سو محافظ کس قانون کے تحت پہریداری کررہے ہیں؟ شہباز شریف سے کیوں نہ پوچھا کہ ہر بیوی کے لیے الگ محافظ، رشتہ داروں کے لیے الگ محافظ، پرائیوٹ سیکرٹریوں کے لیے الگ محافظ، کس قانون کے تحت مامور کیے گئے۔ اس مد میں اب تک کتنے ارب روپے لگے اور کیا یہ سب جائز ہے؟
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرتا ہے اورامانت سونپی جائے تو خیانت کرتا ہے۔ کیا اس سے زیادہ سخت بات ہوسکتی ہے کہ جو ملاوٹ کرے ،وہ ہم میں سے نہیں۔ کیا آپ ؐنے نہیں فرمایا کہ نقص والی شے، بتائے بغیر بیچنے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔ کیا یہ تنبیہ نہیں کی گئی کہ جس کا جو حصہ حرام  مال سے پرورش پائے گا آگ سے محفوظ نہیں رہ سکے گا؟ کیا بار بار نہیں بتایا گیا کہ بندوں کے حقوق پامال کیے گئے تو جزاکے دن صرف بندے ہی معاف کرسکیں گے؟ اسلام کے یہ حصے ہم نے ایک طرف رکھ دیے۔ یہ مشکل ہیں اس لیے ان کا ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔ دعائے قنوت سنا دینے والا اور چھ کلمے توتے کی طرح پڑھ دینے والا قابل قبول ہے ؛اگرچہ وہ جھوٹ بولے، خیانت کرے،
ملاوٹ کا مرتکب ہو، ٹیکس چور ہو، پڑوسیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے، دشنام طرازی کرے اور سرکاری مال میں خوردبرد کرے۔ پیپلزپارٹی کے وزیروں اور رہنمائوں کو توچھوڑیے ، لیکن کیا فضل الرحمن، نوازشریف، شہباز شریف اور امیر حیدر خان ہوتی اپنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یقین دہانی کراسکتے ہیں کہ سرکاری خزانے کو انہوں نے اپنی ذات پر اور اپنے متعلقین پر ناروا خرچ نہیں کیا؟
ہم جنرل ضیا ء الحق پر الزام دھرتے ہیں کہ اس نے اسلام کی ’’واعظانہ‘‘ تعبیر کو عام کیا اور روح کو پس پشت ڈالا۔ یہ ایک حد تک درست ہے۔ مرحوم جرنیل کا فہم اسلام ریاض الصالحین سے شروع ہوتا تھا اور اسی پر ختم ہوجاتا تھا لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ صورتحال کو موجودہ نہج تک لانے کی ساری ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ آج وہ ہم میں نہیں اور جیسا کہ دنیا میں ہوتا آیا ہے اس سے فائدے اٹھانے والے اس کی مدافعت میں ایک لفظ کہنا پسند نہیں کرتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید نہ کہا جائے۔
اسلام کی اس حد درجہ تنگ اور آرام طلب تعبیر کی ذمہ داری اس طبقے پر ہے جو اسلام کا عالم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ،جو کسی اور کو ایسا دعویٰ کرنے کا حق نہیں دیتا اور جس کی منبرو محراب پر، وعظ و تلقین پر، مدرسہ اور فتویٰ پر مکمل اجارہ داری ہے۔ اس اجارہ داری کو جو چیلنج کرنا چاہتا ہے، منہ کی کھاتا ہے! اس طبقے کی اکثریت کا ان لوگوں سے خاموش معاہدہ ہے جو جھوٹ بولتے ہیں، وعدہ خلافی کرتے ہیں، کم تولتے ہیں، ٹیکس چراتے ہیں اور سرکاری خزانے کو اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر  بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ یہ طبقہ لوگوں کو یہ تو تلقین کرتا ہے کہ تمہارا ظاہر ایسا ہونا چاہیے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ صبح سے لے کر شام تک جو کچھ تم کررہے ہو، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ آج عملی طور پر یہ ہورہا ہے کہ ہم نماز فجر کے بعد مسجد سے نکلتے وقت اسلام سے گلے ملتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں کہ جناب! آپ مسجد ہی میں تشریف رکھیے۔ ظہر کے وقت دوبارہ آپ سے یہیں ملاقات ہوگی۔ ظہر کی نماز تک ہمارا اسلام سے دور کا تعلق بھی نہیں رہتا۔ اگر یہ بات غلط ہے تو پھر خدا کے لیے کوئی بتائے کہ کم تولنے والوں، ملاوٹ کرنے والوں، ناجائز نفع کمانے والوں اور ٹیکس چوری کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد ظاہری طور پر کٹر مسلمان کیوں ہے؟
ستم بالائے ستم یہ کہ اس سب کچھ کے علاوہ، ہم میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جس کے ارکان لوگوں کو گھروں سے بلا کر مسجدوں میں لاتے ہیں۔ انہیں اپنے ازدواجی، معاشرتی ،کاروباری اور قانونی فرائض سے کاٹ کر مہینوں، رات دن اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور تعلیم صرف ظاہر کی دیتے ہیں۔ ان کے نام نہاد نصاب میں اس اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں جو عملی زندگی پر نافذ ہوتا ہے۔ یہ حضرات ساری زندگی فضائل قرآن پڑھتے اور پڑھاتے ہیں لیکن قرآن کے نزدیک جاتے ہیں نہ جانے دیتے ہیں۔ بھلا قرآن کے بغیر اور قرآن کے معانی و مفاہیم جانے بغیر کوئی اسلام سے کس طرح آشنا ہوسکتا ہے؟ حالت یہ ہے کہ عام مسلمان مسجد کی تعمیر و توسیع کے لیے کچھ پیش کرے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم آپ کی آمدنی کس حد تک پاک صاف ہے لیکن اگر کوئی وزیراعلیٰ یا سابق حکمران مرکز کے لیے پچھتر کنال زمین پیش کرے تو نہ صرف قبول کر لی جاتی ہے بلکہ سب سے بڑے واعظ خود استقبال بھی کرتے ہیں۔
اس شخص نے جو واعظین کے طبقے سے نہیں تھا لیکن اسلام کو سمجھتا تھا، کہا تھا   ؎
چو می گویم مسلمانم، بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را
کہ میں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں تو کانپنے لگتا ہوں اس لیے کہ مجھے اس راستے کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ یہ راستہ بہت مشکل ہے۔ اس میں ہر وقت اس بات کا التزام کرنا ہوتا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، کسی کے حق پر پائوں نہ آجائے۔ ذرا سا شک بھی حرام کا پڑ جائے تو کروڑوں روپے پھینک دینے ہوں گے، لیکن یہ تو بہت مشکل ہے۔ اس کا آسان علاج ہے کہ میں ظاہر بدل لوں، ہاتھ میں تسبیح پکڑ لوں، پھر کسی کی کیا مجال ہے جو مجھ پر اعتراض کرے، کرے گا تو اسلام کا مخالف کہلائے گا اور نسلوں کو بھی سبق حاصل ہوجائے گا!
اگر آج عمر فاروقؓ ہوتے تو ریٹرننگ افسروں کے سوالات پر جناب کا ردعمل کیا ہوتا؟تو کیا ہمارے ریٹرننگ افسروں کو اس معیار کا بالکل علم نہیں جو حضرت عمر فاروق ؓنے مقرر کیا تھا؟
یہ واقعہ اتنا مشہور ہے کہ ہم میں سے ہر شخص نے سنا ہوا ہے۔ دوسرے خلیفہ راشد نے ایک صاحب کے بارے میں لوگوں کی رائے لی۔ بتایا گیا کہ خشو ع و خضوع سے نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور عبادت میں بہت زیادہ سرگرم۔ امیر المومنین نے کہا نہیں، یہ بتائو کہ یہ شخص لوگوں کے ساتھ معاملات میں کیسا ہے؟
جس قبیل کے سوالات ریٹرننگ افسر پوچھتے رہے ہیں اس سے یہ تصویر مکمل طور پر واضح ہوگئی ہے جو اسلام کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں بنی ہوئی ہے۔ افسوس! یہ تصویر نامکمل ہے۔ ہم نے اسلام کو خانوں میں بانٹا ۔ پھر جو خانے ہمیں پسند آئے ہم نے چن لیے۔ جو خانے مشکل لگے، ہم نے چھوڑ دیئے۔ ہم نے خدائے بزرگ و برتر کے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو۔ افسوس ہے ہمارے اس فہم پر جو اسلام کے متعلق ہمیں حاصل ہے اور جس کا ہمیں دعویٰ ہے!
یہ ریٹرننگ افسر جو دعائے قنوت سنتے رہے، چھ کلمے سنتے رہے (ہمارے دوست خورشید ندیم نے روزنامہ دنیا میں کیا پتے کی بات لکھی کہ اسلام میں تو ایک ہی کلمہ تھا!) اور امیدواروں سے وعدے کرواتے رہے کہ نمازیں پڑھیں گے۔ ان ریٹرننگ افسروں نے یہ کیوں نہ پوچھا کہ جھوٹ کے بارے میں ہادیٔ اعظم ﷺ کا کیا فرمان ہے؟ وعدہ خلافی کے متعلق کیا کہا گیا ہے؟ پڑوسیوں کے حقوق کے ضمن میں اسلامی احکام کیا ہیں؟ کم تولنے والوں کے متعلق قرآن کا کیا فیصلہ ہے؟ منافق کی کیا نشانیاں بتلائی گئی ہیں؟ انہوں نے مولوی صاحب سے کیوں نہ پوچھا کہ کروڑوں کی زمین کس قانون کے تحت پرویز مشرف کی وساطت سے حاصل کی گئی؟ فہمیدہ مرزا سے کیوں نہ پوچھا کہ تاحیات اس مفلوک الحال ملک سے ملازم، گاڑیاں، علاج کی سہولت اور مشاہرہ اپنے نام کرا لینا کون سی دیانت ہے؟ نوازشریف سے کیوں نہ پوچھا کہ سو محافظ کس قانون کے تحت پہریداری کررہے ہیں؟ شہباز شریف سے کیوں نہ پوچھا کہ ہر بیوی کے لیے الگ محافظ، رشتہ داروں کے لیے الگ محافظ، پرائیوٹ سیکرٹریوں کے لیے الگ محافظ، کس قانون کے تحت مامور کیے گئے۔ اس مد میں اب تک کتنے ارب روپے لگے اور کیا یہ سب جائز ہے؟
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرتا ہے اورامانت سونپی جائے تو خیانت کرتا ہے۔ کیا اس سے زیادہ سخت بات ہوسکتی ہے کہ جو ملاوٹ کرے ،وہ ہم میں سے نہیں۔ کیا آپ ؐنے نہیں فرمایا کہ نقص والی شے، بتائے بغیر بیچنے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔ کیا یہ تنبیہ نہیں کی گئی کہ جس کا جو حصہ حرام  مال سے پرورش پائے گا آگ سے محفوظ نہیں رہ سکے گا؟ کیا بار بار نہیں بتایا گیا کہ بندوں کے حقوق پامال کیے گئے تو جزاکے دن صرف بندے ہی معاف کرسکیں گے؟ اسلام کے یہ حصے ہم نے ایک طرف رکھ دیے۔ یہ مشکل ہیں اس لیے ان کا ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔ دعائے قنوت سنا دینے والا اور چھ کلمے توتے کی طرح پڑھ دینے والا قابل قبول ہے ؛اگرچہ وہ جھوٹ بولے، خیانت کرے،
ملاوٹ کا مرتکب ہو، ٹیکس چور ہو، پڑوسیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے، دشنام طرازی کرے اور سرکاری مال میں خوردبرد کرے۔ پیپلزپارٹی کے وزیروں اور رہنمائوں کو توچھوڑیے ، لیکن کیا فضل الرحمن، نوازشریف، شہباز شریف اور امیر حیدر خان ہوتی اپنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یقین دہانی کراسکتے ہیں کہ سرکاری خزانے کو انہوں نے اپنی ذات پر اور اپنے متعلقین پر ناروا خرچ نہیں کیا؟
ہم جنرل ضیا ء الحق پر الزام دھرتے ہیں کہ اس نے اسلام کی ’’واعظانہ‘‘ تعبیر کو عام کیا اور روح کو پس پشت ڈالا۔ یہ ایک حد تک درست ہے۔ مرحوم جرنیل کا فہم اسلام ریاض الصالحین سے شروع ہوتا تھا اور اسی پر ختم ہوجاتا تھا لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ صورتحال کو موجودہ نہج تک لانے کی ساری ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ آج وہ ہم میں نہیں اور جیسا کہ دنیا میں ہوتا آیا ہے اس سے فائدے اٹھانے والے اس کی مدافعت میں ایک لفظ کہنا پسند نہیں کرتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید نہ کہا جائے۔
اسلام کی اس حد درجہ تنگ اور آرام طلب تعبیر کی ذمہ داری اس طبقے پر ہے جو اسلام کا عالم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ،جو کسی اور کو ایسا دعویٰ کرنے کا حق نہیں دیتا اور جس کی منبرو محراب پر، وعظ و تلقین پر، مدرسہ اور فتویٰ پر مکمل اجارہ داری ہے۔ اس اجارہ داری کو جو چیلنج کرنا چاہتا ہے، منہ کی کھاتا ہے! اس طبقے کی اکثریت کا ان لوگوں سے خاموش معاہدہ ہے جو جھوٹ بولتے ہیں، وعدہ خلافی کرتے ہیں، کم تولتے ہیں، ٹیکس چراتے ہیں اور سرکاری خزانے کو اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر  بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ یہ طبقہ لوگوں کو یہ تو تلقین کرتا ہے کہ تمہارا ظاہر ایسا ہونا چاہیے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ صبح سے لے کر شام تک جو کچھ تم کررہے ہو، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ آج عملی طور پر یہ ہورہا ہے کہ ہم نماز فجر کے بعد مسجد سے نکلتے وقت اسلام سے گلے ملتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں کہ جناب! آپ مسجد ہی میں تشریف رکھیے۔ ظہر کے وقت دوبارہ آپ سے یہیں ملاقات ہوگی۔ ظہر کی نماز تک ہمارا اسلام سے دور کا تعلق بھی نہیں رہتا۔ اگر یہ بات غلط ہے تو پھر خدا کے لیے کوئی بتائے کہ کم تولنے والوں، ملاوٹ کرنے والوں، ناجائز نفع کمانے والوں اور ٹیکس چوری کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد ظاہری طور پر کٹر مسلمان کیوں ہے؟
ستم بالائے ستم یہ کہ اس سب کچھ کے علاوہ، ہم میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جس کے ارکان لوگوں کو گھروں سے بلا کر مسجدوں میں لاتے ہیں۔ انہیں اپنے ازدواجی، معاشرتی ،کاروباری اور قانونی فرائض سے کاٹ کر مہینوں، رات دن اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور تعلیم صرف ظاہر کی دیتے ہیں۔ ان کے نام نہاد نصاب میں اس اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں جو عملی زندگی پر نافذ ہوتا ہے۔ یہ حضرات ساری زندگی فضائل قرآن پڑھتے اور پڑھاتے ہیں لیکن قرآن کے نزدیک جاتے ہیں نہ جانے دیتے ہیں۔ بھلا قرآن کے بغیر اور قرآن کے معانی و مفاہیم جانے بغیر کوئی اسلام سے کس طرح آشنا ہوسکتا ہے؟ حالت یہ ہے کہ عام مسلمان مسجد کی تعمیر و توسیع کے لیے کچھ پیش کرے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم آپ کی آمدنی کس حد تک پاک صاف ہے لیکن اگر کوئی وزیراعلیٰ یا سابق حکمران مرکز کے لیے پچھتر کنال زمین پیش کرے تو نہ صرف قبول کر لی جاتی ہے بلکہ سب سے بڑے واعظ خود استقبال بھی کرتے ہیں۔
اس شخص نے جو واعظین کے طبقے سے نہیں تھا لیکن اسلام کو سمجھتا تھا، کہا تھا   ؎
چو می گویم مسلمانم، بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را
کہ میں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں تو کانپنے لگتا ہوں اس لیے کہ مجھے اس راستے کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ یہ راستہ بہت مشکل ہے۔ اس میں ہر وقت اس بات کا التزام کرنا ہوتا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، کسی کے حق پر پائوں نہ آجائے۔ ذرا سا شک بھی حرام کا پڑ جائے تو کروڑوں روپے پھینک دینے ہوں گے، لیکن یہ تو بہت مشکل ہے۔ اس کا آسان علاج ہے کہ میں ظاہر بدل لوں، ہاتھ میں تسبیح پکڑ لوں، پھر کسی کی کیا مجال ہے جو مجھ پر اعتراض کرے، کرے گا تو اسلام کا مخالف کہلائے گا اور نسلوں کو بھی سبق حاصل ہوجائے گا!
اگر آج عمر فاروقؓ ہوتے تو ریٹرننگ افسروں کے سوالات پر جناب کا ردعمل کیا ہوتا؟

Saturday, April 06, 2013

قبروں کی تقسیم


جنرل پرویز مشرف جو کچھ کر رہے ہیں اس کا سبب شاید وہ خود بھی نہ بتا سکیں!
پاکستان کی فوج تربیت کے حوالے سے دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ ہماری سول سروس اس ضمن میں اس کے پاسنگ بھی نہیں۔ایک اور دس کا فرق ہے۔ جرنیل بننے تک فوجی افسر ان گنت تربیتی مراحل سے گزرتا ہے۔ اسے وسیع مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ تقریر اور تحریر میں مہارت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حالات کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ درست ہے کہ اصل میدان تربیت کا عسکری حوالے سے ہے لیکن فیصلہ کرنے سے پہلے سارے پہلوئوں کو جانچنا سکھایا جاتا ہے۔ سول سروس میں اس کے برعکس، اگلے گریڈ میں ترقی کے لازمی کورس کے علاوہ کچھ بھی نہیں! تربیت کے لیے کس نے جانا ہے کس نے نہیں، اس کا کوئی سسٹم ہی نہیں! جن کی پُشت پر ’’مضبوط‘‘ سرپرست ہوتے ہیں وہ بار بار تربیتی کورس حاصل کرتے ہیں اور وہ بھی دساورکے! پنجاب کے ایک سیاستدان بیرون ملک تھے، وہیں خبر ملی کہ بہت بڑے منصب کے لیے چن لیے گئے ہیں۔ سول سرونٹس کی فہرست وہیں منگوائی۔ نام سے مشرب کا علم تو ہو ہی جاتا ہے۔ ایک نام کے اردگرد دائرہ لگایا اور اپنا معاون مقرر کرایا۔ اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے۔ خوش قسمت افسر ائیرپورٹ ہی پر نظر آتا تھا۔ یا برونِ در جاتے ہوئے یا درون خانہ آتے ہوئے! تاہم مسلح افواج میں ایسا نہیں ہوتا اس لیے کہ ترقیوں، تعیناتیوں اور تربیتی کورسوں میں سیاست دان ابھی تک نقب لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ سفارش کا عنصر لازماً موجود ہے۔ وہ فرشتے نہیں، اسی معاشرے کا حصہ ہیں لیکن ایسا خال خال ہوتا ہے اور عرب کہتے ہیں
الشّاذُ کالمعدوم، جو خال خال ہو وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
مگر یہ سارے تربیتی مراحل، یہ ساری تپتی بھٹیاں، پرویز مشرف صاحب کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ پانچ سال باہر رہے۔ ادراک ہی نہ ہو سکا کہ ملک میں کتنی غربت ہے! الیکشن کا ناقوس بجا تو ٹاپوں ٹاپ واپس آئے۔ اب خلق خدا کو محظوظ کرتے پھر رہے ہیں۔
مزے کی بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ دوسرے سابق جرنیلوں سے عقل مندی میں کوسوں پیچھے ہیں۔ سابق جرنیلوں میں سے عقل مند ترین وہ ہیں جنہیں منظر عام پر آنے کا کوئی شوق نہیں۔ اس کی ایک مثال جنرل احسان الحق ہیں۔ آئی ایس آئی سے لے کر جوائنٹ سٹاف کمیٹی تک چوٹی کے مناصب پر رہے لیکن وردی اتارنے کے بعد کسی کپڑے کو پبلک میں نہ دھویا۔ وزارت نہ سفارت، اخبار میں مضمون نہ ٹاک شو، چند انٹرویو ضرور دیے۔ گُمان غالب یہ ہے کہ جنرل نے خواہش نہیں کی ہو گی۔
جو کم عقل مند تھے اور اس بات کے شائق کہ ان کے چہرہ ہائے گلگوں پر روشنی پڑتی رہے، انہوں نے ایک سبق پلے باندھ لیا کہ سیاست بھاری پتھر ہے، نہیں اٹھے گا۔ کچھ نے اٹھانے کی کوشش کی، چوم کر چھوڑ دیا۔ ہاں، خودنمائی کا شوق خوب پورا کیا اور کر رہے ہیں۔ یہ شوق خدا دشمن کو بھی نہ دے، جسے لاحق ہو جائے، عزت کی پروا کم ہی کرتا ہے۔ جس سابق جرنیل کو ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے مجرم قرار دیا اس نے پردہ سیمیں پر آکر کیسے کیسے گل کھلائے۔ ٹیپ کا بند ہی عجیب و غریب تھا ’’میں بتا رہا ہوں، میں بتا رہا ہوں‘‘ اور تاثر دیا کہ عساکر سارے کے سارے کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ اس سے کچھ عرصہ قبل روزنامہ دنیا یہ حقیقت ریکارڈ پر لا چکا تھا کہ موصوف نے اپنی این جی او کے لیے کہاں سے کتنی رقم کس طرح حاصل کی۔
پرویز مشرف ان سب سے کم سمجھ دارثابت ہوئے۔ ابھی تک تکبر کی اسی فضا میں رہ رہے ہیں جو ایام اقتدار میں طاری تھی۔ ان کے مائنڈسیٹ کا کچھ کچھ اندازہ اس کتاب سے ہوتا ہے جو انہوں نے ٹھیکے پر لکھوائی اور جو اب فٹ پاتھوں پر ایوب خان کی ’’ فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے ہمراہ یہ شعر پڑھتی دکھائی دتی ہے    ؎
آ عندلیب! مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گُل پکار میں چلاّئوں ہائے دل
لکھتے ہیں کہ کراچی کے فریئر ہال پارک میں کوئی شریف آدمی بیٹھا تھا کہ ان کے انکل پیچھے سے بار بار ان صاحب کے سر پر زور سے چانٹا رسید کرتے تھے اور پھر معافی مانگنے لگ جاتے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اٹھان کس ماحول میں ہوئی، اخلاقیات کا تصور کیا ہے! بہرطور کیا عجب! اسمبلی میں پہنچ جائیں اور ڈاکخانے یا لوک ورثہ قسم کے محکمے کے وزیر مملکت لگ جائیں۔ امکانات کی کوئی حد تو نہیں!
تاہم پرویز مشرف کی واپسی سے زیادہ حیرت انگیز وہ خاموشی ہے جو اس ضمن میں کچھ حلقوں پر طاری ہو گئی ہے۔ کہاں تو وہ عالم کے پانچ سال تک جنرل صاحب کو مسلسل بے نقط سناتے رہے اور کہاں یہ حال کہ مُہر بہ لب ہو گئے ہیں۔ یہ وہی حلقے ہیں جو جرنیل کی کثیر باقیات کو ’’جیسے ہیں جہاں ہیں‘‘ کی بنیاد پر قبول کر چکے ہیں۔ پرویز مشرف خوش ذوق ہوتے تو ان حلقوں کو مخاطب کرکے کہتے:    ؎
کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میرِؔ شکستہ پا ترے باغِ تازہ میں خار تھا
ان حلقوں کا بھی کیا کہنا! یہ حلقے قوم کے حلقوم پرپائوں رکھ کر حکومت سے اترنے کے بعد بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو پہلے کر رہے تھے۔ آج کے اخبارات سامنے کھلے ہیں، انسان دانتوں میں انگلیاں دبا لیتا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ لاہور ایلیٹ پولیس کے 967 ارکان میں سے 665 ارکان رات دن خادمانِ عوام کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ایک اجمالی تفصیل یوں دکھائی دے رہی ہے (اور یہ گزشتہ پانچ سال سے ہو رہا ہے)
میاں نواز شریف:ایک سو پولیس مین، آٹھ گاڑیاں۔
میاں شہباز شریف: پچانوے پولیس مین، آٹھ گاڑیاں۔
مریم نواز، کیپٹن صفدر: بارہ محافظ۔
حمزہ شہباز: پندرہ محافظ۔
سلمان شہباز: سات محافظ۔
نصرت شہباز (میاں شہباز شریف کی پہلی بیگم): بارہ محافظ۔
تہمینہ شہباز (دوسری بیگم): تیس محافظ۔
شہباز شریف کی صاحبزادی: سات محافظ۔
سردار ذوالفقار کھوسہ: دس محافظ۔
دوست محمد کھوسہ: سات محافظ۔
طلحہ برکی (سابق سیکرٹری شہباز شریف): آٹھ محافظ۔
توقیر شاہ (سابق سیکرٹری شہباز شریف) : چار محافظ۔
خواجہ محمد شریف (سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ): چار محافظ۔
یوسف رضا گیلانی: انیس محافظ۔
سلمان تاثیر فیملی: تیرہ محافظ۔
چودھری شجاعت حسین: سترہ محافظ۔
چودھری پرویزالٰہی: آٹھ محافظ۔
مونس الٰہی: چھ محافظ۔
رہا پورا لاہور شہر اور اس کے باشندے تو ان کے لیے ایک سو پولیس مین بچتے ہیں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قانون سابق وزیر اعظم کو بارہ محافظوں اور سابق وزیر اعلیٰ کو آٹھ کی اجازت دیتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ مامور آٹھ محافظ قانون کے مطابق ہیں!
لیگ آف نیشنز بنی تو ا قبال نے کہا تھا  ع
بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند
اقبال کو کیا خبر تھی کہ قبریں کہاں کہاں تقسیم ہوں گی!

Thursday, April 04, 2013

حیا کی باریک تہہ


باربرا ٹک مین 1912ء میں پیدا ہوئی اور 1989ء میں دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اس نے بجلی یا ریڈیو قسم کی کوئی حیرت انگیز ایجاد نہیں کی ،نہ کوئی اور ایسا کارنامہ انجام دیا جو اس کا نام نصاب کی کتابوں میں داخل کروادیتا۔ وہ تاریخ کی پروفیسر تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں پڑھاتی رہی۔ امریکی نیوی کے وارکالج میں بھی لیکچر دیتی رہی۔ ان اداروں میں لاتعداد پروفیسر پڑھاتے رہے۔ وہ بھی ان میں سے ایک تھی۔
لیکن ایک کارنامہ باربراٹک مین نے ایسا سرانجام دیا کہ عقل و دانش کی وادیوں میں سفر کرنے والے اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ فلسفۂ تاریخ میں اس نے ایک نظریہ پیش کیا جو حیرت انگیز طورپر ماضی میں بھی سچ ثابت ہوتا رہا، آج بھی ہورہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ باربرا کی مشہور تصنیف ’’دی مارچ آف فولی‘‘ (حماقتوں کا مارچ) میں یہ نظریہ مثالوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ ہرزمانے میں اور ہر جگہ حکومتوں کی پالیسیاں خودکُش رہی ہیں۔ حکومتیں ایسی پالیسیاں بناتی اور چلاتی ہیں جو ان کے مفاد کے خلاف ہوتی ہیں۔ وہی لوگ جوحکومت میں احمقانہ فیصلے صادر کرتے ہیں، اپنی نجی زندگی میں ہرفیصلہ عقل مندی سے کرتے ہیں۔ وہ اپنا کارخانہ یا جاگیر سمجھ بوجھ سے چلاتے ہیں۔ اپنے بچوں کی شادیاں سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ اپنے گھروں کو کمال دانش مندی اور احتیاط سے چلاتے ہیں۔ لیکن جب حکومتی فیصلے کرتے ہیں تو عقلمندی اور دوراندیشی کو باہر بٹھا دیتے ہیں۔ باربرا عقل مندی (وزڈم) کی تعریف یوں کرتی ہے کہ فیصلہ تین بنیادوں پر کیا جائے: تجربہ، کامن سینس اور میسر اطلاعات اور اعدادوشمار ۔ حکومتیں فیصلے ان تینوں کی بنیاد پر نہیں کرتیں۔
ایک حکومت کی پالیسی کو نقصان دہ اس وقت کہا جائے گا جب وہ تین شرائط پوری کررہی ہوگی۔ اول‘ اس پالیسی کو اس وقت بھی غلط قرار دیا جائے جب یہ بنائی اور نافذ کی جارہی ہو۔ یہ نہیں کہ سالہا سال بعد اسے غلط کہا جائے۔ دوم‘ اس پالیسی کا متبادل بھی موجود ہو۔ یہ نہ کہا جاسکتا ہو کہ اس پالیسی کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ سوم‘ یہ پالیسی پورے گروہ نے بنائی ہو، ایک شخص کا فیصلہ نہ ہو۔
باربرا کے نظریہ کا پاکستان پر بدرجہ اتم اطلاق ہوتا ہے۔ آپ پیپلزپارٹی کی حالیہ حکومت کی ’’کارکردگی ‘‘ کا جائزہ لے لیجیے۔ احمق سے احمق شخص کو بھی معلوم ہو رہا تھا کہ پالیسیاں پارٹی کے لیے اور ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔ چلیے‘ پیپلز پارٹی کو چھوڑیے کہ وہ مرفوع القلم ہے اور اُس کی ’’عقل مندی‘‘ اور ’’سنجیدگی‘‘ محتاجِ بیان ہی نہیں! دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی خودکُش پالیسیاں اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور مسلسل ایسے فیصلے کیے جوان کے اپنے مفاد کے خلاف تھے۔ اے این پی کا یہ فیصلہ دیکھ لیجیے کہ صوبے کا نام خیبر پختونخوا ہوگا۔ یہ ایک بیج تھا جو اس پارٹی نے بویا اور اس کے درخت پر صوبے کی تقسیم کا ثمر لگے گا۔ پارٹی نے صوبے کے ان تمام باشندوں سے پنگا لے لیا جو نسلاً پختون نہیں ہیں۔ ہزارہ صوبہ محض آغاز ہے۔ اسے موخر تو کیا جاسکتا ہے، روکا نہیں جاسکتا اور تو اور قبائلی علاقے جو پختون ہیں ابھی سے الگ صوبے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔
مسلم لیگ نون نے پے درپے ایسی پالیسیاں اپنائیں جو اس کے مفاد کے خلاف تھیں۔ میاں صاحبان نے پوری قاف لیگ کو اپنی آغوش میں لے لیا لیکن چودھریوں سے مخالفت جاری رکھی حالانکہ دوسروں کا قصور چودھریوں سے کم نہیں تھا۔ وہ دوسروں کو ’’مشرف کی باقیات‘‘ کا طعنہ دیتے رہے اور یہ نہ سوچا کہ خلق خدا ہنسے گی۔ ایک اور مثال۔ ملکی میڈیا کے غالب حصے نے میاں صاحبان کو سمجھانے کی کوشش اور مسلسل کوشش کی کہ وہ ایک ہی شہر پر سارے وسائل نہ صرف کریں اور اپنے آپ کو پورے صوبے کا والی سمجھیں لیکن ان کے محدو د وژن نے ادراک ہی نہ کیا۔ آج اگر کچھ ایسے لوگ ان کے ساتھ ہیں جنہوں نے ہر حال میں منتخب ہونا ہے اور جنہیں ELECTABLESکہا جارہا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صوبے کے عوام نے ان کی خودکُش پالیسیاں فراموش کردی ہیں۔ یہ بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے، سوائے ان حضرات کے جن کی دنیا رائے ونڈ سے شروع ہوتی ہے اور سیالکوٹ پر ختم ہوجاتی ہے کہ بہاولپور، ڈی جی خان، لودھراں، میانوالی، اٹک، تلہ گنگ، چکوال ، جھنگ، راولپنڈی ، پنڈی گھیب ، جہلم اور دوسرے دورافتادہ علاقوں کے عوام کو اس سرگرمی میں آخر کیا دلچسپی ہوسکتی ہے جو پانچ سال تک ایک ہی شہر میں دکھائی جاتی رہی! بیس وزارتوں کو اپنی جیب میں ڈالنا بھی خودکش جیکٹ پہننے سے کم نہ تھا۔ اس کے بجائے بیس دیانت دار اور محنتی وزیر مختلف اضلاع سے لیے جاتے تو آج لوگ ایک بڑی ٹیم کو یادکررہے ہوتے اور ترقی کے ثمرات اپنی دہلیزوں پر دیکھ رہے ہوتے! لیکن جہاں وژن اتنا ’’وسیع‘‘ ہوکہ کمانڈر انچیف چننا ہو یا نگران وزیراعلیٰ ، نظراپنی برادری سے نہ ہٹے، وہاں پارٹی کے مفاد کو کون دیکھے گا۔
ایم کیوایم کا جنرل پرویز مشرف کی حمایت کا حالیہ فیصلہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اس سے پارٹی کو بے پناہ نقصان پہنچے گا۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت پرویز مشرف سے شدید نفرت کرتی ہے اور اکثریت میں ہرطبقہ شامل ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھیوں سے بھی عوام نفرت کرتے ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں نے پرویز مشرف کی باقیات کو گلے لگایا ہے انہوں نے اپنے پیروں پر کلہاڑیاں ماری ہیں لیکن انہوں نے ایک عقل مندی دکھائی کہ پرویز مشرف کو نزدیک نہیں لگنے دیا۔ یہ سب سے بڑی کلہاڑی اگر ایم کیوایم نے اٹھالی ہے تو اس کا پائوں شدید زخمی ہوجائے گا۔ ایم کیوایم کو سوچنا چاہیے کہ پرویز مشرف کو الیکشن میں کامیاب کرانے کے لیے اگر اس نے کوئی کردار ادا کیا تو عوام کی اکثریت اسے شدید ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے گی اور ایک خاص چھاپ اپنے اوپر سے ہٹانے کی جو کوشش ایم کیوایم کررہی ہے، اسے نقصان پہنچے گا۔
پرویز مشرف کا ذکر آیا ہے تو اس کے عجیب وغریب بیانات پر بھی بات ہوجائے۔ کئی براعظموں میں شاہانہ زندگی گزار کر واپس آنے والا یہ شخص دُہائی دے رہا ہے کہ ملک تباہ ہوگیا ہے اور پیپلزپارٹی کی حکومت نے پانچ سال میں بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اس ملک میں ایک عجیب و غریب فیشن ہے کہ نتیجہ سب دیکھتے ہیں، سبب کوئی نہیں دیکھتا۔ ضیاء الحق نے جوکچھ کیا، اس میں پیپلزپارٹی کا بھی حصہ تھا۔ یہ الگ بات کہ آج تک پیپلزپارٹی نے قوم سے معافی نہیں مانگی کہ اس نے میرٹ کو قتل کرکے ضیاء الحق کو سپہ سالار بنایا تھا۔ پرویز مشرف کو لہوولعب اور ہائوہو کے پاتال سے اٹھا کر اقتدار کی چوٹی پر مسلم لیگ نون کی قیادت نے بٹھایا تھا۔ آج مسلم لیگ نون کے طرفدار مشرف کے سیاہ کارناموں پر اثر انگیز مضامین رقم کرتے ہیں لیکن یہ اعتراف نہیں کرتے کہ میرٹ کو قتل کرکے ایک غیرسنجیدہ اور عیاش طبع انسان کو چننا بہت بڑی غلطی تھی۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کی حالیہ حکومت کو این آراو نے جنم دیا اور اس ولادت میں دائی کے فرائض پرویز مشرف نے انجام دیے ، بیسیوں کرپٹ، بھاگے ہوئے افراد کو این آراو کے حمام میں نہلا کر نئی پوشاکیں پہنائی گئیں اور اختیارات دے کر مسندوں پر بٹھادیا گیا۔ وہ پانچ سال تک خزانے کو لوٹتے رہے اور وطن کی تقدیر سے کھیلتے رہے۔ آج پرویز مشرف کس منہ سے ان پر الزام لگارہا ہے ؟؟ بات یہ ہے کہ چہرے سے حیا کی باریک تہہ اتر جائے تو عزت نفس ختم ہوجاتی ہے۔ پرویز مشرف کروڑوں اربوں روپے کی (جائز؟) دولت کے ساتھ سب کچھ خرید سکتا ہے‘ عزت نفس نہیں خرید سکتا!

Monday, April 01, 2013

ٹُر گیا ماہیا


تمہیں رخصت کرکے ائیر پورٹ سے واپس آیا تو پوَ پھٹ رہی تھی۔ آنکھوں پر چادر اس لیے ڈال لی کہ روشنی اچھی نہیں لگ رہی تھی اور یہ میں رو تو نہیں رہا تھا، وہ تو بس یونہی آنکھوں سے پانی نکلنے لگ گیا تھا۔ جاتے ہوئے تم میری گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نیند سے تمہاری آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں۔ فراق کا شعر یاد آرہا تھا   ؎
سنتے ہی اس آنکھ کی کہانی
افلاک کو نیند آگئی تھی
تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھول کر بس تم یہ دیکھ لیتے تھے کہ تم میری ہی گود میں ہو۔ میں نے تمہیں اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا اور وقفے وقفے سے تمہیں چوم رہا تھا۔ اس وقت بھی میں رو تو نہیں رہا تھا، بس آنکھیں یونہی چھلک چھلک پڑتی تھیں۔ اس وقت تم ہوا میں اڑ رہے ہو، کہیں دور، بادلوں سے بہت اوپر، بحرالکاہل کی طرف رخ کیے،    ؎
ہوا میں تخت اڑتا جارہا ہے۔ اُس پری رو کا
محبت دل میں پھر قصہ کہانی بن کے اٹھی ہے
لیکن لگتا ہے ابھی تک ساتھ چمٹے ہوئے ہو، اور تمہیں ڈر ہے کہ ابا، زبردستی اٹھا کر، دادا سے دور نہ لے جائے اور مجھے سلیم احمد کا شعر یاد آرہا ہے   ؎
یہ تو ہے، یاد ہے تیری، کہ میری حسرت ہے
یہ کون ہے مرے سینے میں سسکیاں لیتا
تمہارے جانے سے ایک دن پہلے، جب جدائی قطرہ قطرہ دل میں اترنا شروع ہوگئی تھی، میں چاہتا تھا کہ تمہیں ایک بار پھر اس ندی کے کنارے لے جائوں جو تمہارے اسلام آباد والے گھر کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ تمہارے قیام کے دوران، میرے ساتھ وہاں جانا تمہارا محبوب کھیل تھا۔ تم گول چمکتا سنگریزہ اٹھا کر پانی میں پھینکتے، وہ پانی میں گرتا، آواز آتی، دائرے بنتے تو تم خوش ہوتے، چہرہ چمک اٹھتا، میں تمہارے رخسار اور آنکھیں چوم لیتا، پھر تم ایک اور پتھر پھینکتے اور وہی کھیل… آواز، دائرے اور تمہیں چومنا… دوبارہ شروع ہوجاتا لیکن جانے سے ایک دن پہلے تم اپنی کزن کے ساتھ کھیل میں مگن تھے اور میں پھر سلیم احمد کا شعر یاد کر رہا تھا   ؎
آخری دن تھا کئی دن کی ملاقاتوں کا
آج کی شام تو وہ شخص اکیلا ہوتا
پونے تین سال قبل تم میلبورن میں پیدا ہوئے اور میں نے خوبصورت، چمکتے دمکتے، آئینے جیسے فرش اور مصور دیواروں والے ہسپتال میں تمہیں پہلی بار دیکھا تو بے اختیار ظفر اقبال کا مصرع زبان پر آگیا۔ع
کہاں کا پھول تھا لیکن کہاں پر آ کھلا ہے
ذہن میں ایک امکان پرچھائیں کی طرح ایک لمحے کیلئے آیا۔ کیا اس سے انگریزی میں بات کرنا ہوگی؟… اور پرچھائیں گزر گئی، پونے تین سال کے بعد تم فتح جنگ کی ہندکو، توتلی زبان سے سہی، لیکن روانی کے ساتھ بولتے ہو تو میں اس پروردگار کا شکر ادا کرتا ہوں جو بحرالکاہل کے ساحلوں سے لے کر تمہارے آبائی گائوں کی پہاڑیوں تک ہر جگہ اپنی قدرت کا سکہ چلاتا ہے۔ مجھے اس سے کیا غرض کہ تم انگریزی میں بات کرتے ہو یا چینی میں، میرے ساتھ تم میری اور اپنی آبائی زبان بول لیتے ہو، یہ کیا کم ہے! خدا نہ کرے میرا حال کبھی داغستان کی اس بڑھیا کی طرح ہو جس کا بیٹا دور… کسی اور ولایت میں رہتا تھا۔ سالہا سال بعد ایک شخص اسے ملا جو اس کے بیٹے کا سلام لایا۔ اس نے پوچھا کیا میرا بیٹا اپنی زبان بولتا ہے؟ اور جب قاصد نے نفی میں جواب دیا تو بڑھیا نے دلدوز چیخ ماری اور گر پڑی۔
 تمہیں کیا معلوم کہ تمہارے بکھرے ہوئے کھلونوں کے درمیان، فرش پر بیٹھے ہوئے دادا کا جدائیوں اور آنسوئوں کے ساتھ عمر بھر کا معاہدہ ہے۔ پکا معاہدہ۔ جس سے روگردانی کا ارتکاب آج تک جدائیوں اور آنسوئوں نے کیا نہ برف جیسے سفید بالوں والے دادا نے۔ دس سال ہوئے تمہارا باپ پڑھنے کیلئے ولایت سدھارا تو میں چار پائی کے ساتھ لگ گیا اور ایک مہینہ نہ اٹھ سکا۔ ان دنوں تمہارے باپ کے دادا امریکہ میں تھے۔ ٹیلی فون پر رو کر فریاد کی ابا جی، اسرار چلا گیا ہے، ایک پیار بھری انتقامی آواز سنائی دی… ’’کوئی بات نہیں… کل تم بھی پڑھنے کیلئے ڈھاکہ یونیورسٹی گئے تھے، اور میں بھی رو رو کر بیمار ہوا تھا۔‘‘ پھر تمہاری پھپھو شادی کرکے بحر اوقیانوس کے پار چلی گئی، ہفتوں بلڈپریشر جگہ پر واپس نہ آیا۔ پھر تمہارا چاچا پڑھنے کیلئے یورپ چلا گیا اور میں نے گیتوں کی کیسٹس لگانا بند کردیں کہ سسکیاں لیتے ہوئے گاڑی کون چلائے، جب تم بڑے ہوگے تو وہ شعر ضرور پڑھنا   ؎
ستارے کاٹتا ہوں، راستہ بناتا ہوں
مرا ہی کام ہے جس طرح صبح کرتا ہوں
فراق میرا عصا، یاد میری بینائی
تو آ کے دیکھ کہ میں اب بھی چلتا پھرتا ہوں
میں روز باغ کھِلاتا ہوں دل میں شام ڈھلے
اور اس کو ساتھ لیے رات بھر ٹہلتا ہوں
جہاں سے گزرے گا وہ باد پا سواری پر
میں ہجر اوڑھ کے اس رہگزر پر بیٹھا ہوں
جدائی بُن کے بچھا لی ہے فرش پر اظہار
اسی پہ بیٹھ کے روتا اسی پہ سوتا ہوں
لیکن تمہیں اس سے کیا غرض اور تمہارے باپ کو کیا معلوم! اس شخص نے جسے اس کے ہم عصر سعدیٔ ثانی کہا کرتے تھے اور جس نے فتح جنگ اٹک کی دور افتادہ نیم کوہستانی بستی جھنڈپال میں بیٹھ کر ساٹھ برس تک فارسی کا ادب عالیہ پڑھایا اور جس کے شاگرد آسام سے بھی آتے تھے اور کابل سے بھی۔ اس شخص نے کہا تھا کہ عشق حقیقی کو چھوڑ کر، سارے عشق محض باتیں ہی باتیں ہیں، اصل عاشق ماں باپ ہوتے ہیں اور بچے اور پوتے اصل معشوق… وہی معشوقانہ تغافل، وہی محبوبانہ اغماض… اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ آدم کے ماں باپ نہیں تھے۔ صرف اولاد تھی۔ اسی لیے محبت کا بہائو ہمیشہ آگے کی طرف ہوتا ہے۔ شدت کی جو محبت اولاد کے لیے ہے، ماں باپ کے لیے نہیں ہوتی!
کیا ستم ظریفی ہے کہ تمہارے جانے کے بعد بھی سینے میں آکسیجن کی آمد و رفت جاری ہے۔ کیا اس درد کا جو دل میں اٹھ رہا ہے کوئی علاج تمہاری آنکھیں چومنے کے علاوہ بھی ہے؟ کیا ظفر اقبال نے یہ شعر تمہارے لیے ہی کہا تھا۔   ؎
اے ظفر وہ یار کیسا ہے کہ اس کے نین نقش
خون میں شامل ہیں، آنکھوں کے لیے نایاب ہیں
درد…مسلسل…میٹھا میٹھا درد، دل سے آنکھوں تک آتا اور آنکھیں بھگو کر واپس جاتا درد…
 ڈھکن ہویجے نوں
 ٹر گیا ماہیا، مِٹھی مِٹھی پیڑ کلیجے نوں
 

powered by worldwanders.com