اشاعتیں

اپریل, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

آئیے! مذمت جاری رکھیں

                                                                          عمر فاروق اعظم نے اپنی زندگی کا آخری حج کیا اور مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ بازار کا گشت کرنے نکلے تو مغیرہؓ بن شعبہ کا ایرانی غلام ابو لولو فیروز ملا۔ امیرالمومنین! مجھے مغیرہ بن شعبہ سے بچائیے۔ خراج (آمدنی کا وہ حصہ جو غلام مالک کو ادا کرتا تھا) بہت زیادہ ہے۔ پوچھا کتنا خراج ادا کررہے ہو۔ جواب دیا دو درہم روزانہ ۔اور کام کیا کرتے ہو؟ ابو لولو نے بتایا۔ بڑھئی کا کام کرتا ہوں اور لوہار کا ۔ نقاشی بھی کرتا ہوں۔ امیر المومنین نے جواب دیا۔ تمہارے پیشوں کو دیکھتے ہوئے خراج کی رقم زیادہ نہیں معلوم ہورہی۔ میں نے سنا ہے تم ہوا سے چلنے والی چکی بنانے کا دعویٰ کرتے...

ابھی اُترا نہیں ہے آخری عاشق زمیں پر

شیرشاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران چلا گیا۔ ایک دن وہ اور اس کا میزبان، شاہ طہماسپ، شکار کو نکلے، آرام کا وقت آیا تو خدام نے قالین بچھا دیا۔ دونوں بادشاہ بیٹھ گئے لیکن ہمایوں کے ایک زانو کے نیچے قالین نہ تھا۔ اس کے ایک جاں نثار نے بجلی کی رفتار کے ساتھ اپنے ترکش کا غلاف تلوار سے چاک کیا اور زانو کے نیچے بچھا دیا۔ طہماسپ اس برق رفتاری سے متاثر ہوا۔ پوچھا‘ ایسے جاں نثاروں کی موجودگی میں ملک کس طرح ہاتھ سے نکل گیا۔ جواب دیا‘ بھائیوں کی عداوت نے کام خراب کیا۔ طہماسپ نے پوچھا مقامی آبادی کا رویہ کیسا تھا؟ جواب دیا غیر قوم اور غیر مذہب والوں سے رفاقت ممکن نہیں۔ طہماسپ نے اس پر کمال کا گر بتایا۔ کہا‘ ہندوستان میں دو گروہ ہیں… افغان (شاید اس کی مراد غیر مقامی لوگوں سے تھی جس میں افغان، ترک، عرب سب شامل تھے) اور راجپوت۔ اب کے خدا موقع دے تو افغانوں کو تجارت میں مصروف کرو اور راجپوتوں کے ساتھ محبت سے پیش آ کر انہیں شریک حال کرو! ہمایوں کو اقتدار تو دوبارہ مل گیا لیکن مہلت نہ ملی۔ طہماسپ کی نصیحت پر اکبر نے عمل کیا اور مقامی آبادی کو پیار سے تسخیر کرلیا۔ یوں کہ راجپوت سلطنت کا مضبوط تری...

زمین راز اُگلتی ہے

آواز ریکارڈ ہونا شروع ہوئی تو لوگ دنگ رہ گئے۔ ایک انسان بولتا ہے اور اس کی آواز محفوظ کرلی جاتی ہے! اس سے پہلے بغیر آواز کی فلمیں شروع ہوچکی تھیں۔ وہ جو قیامت کے منکر تھے کہ اعمال کس طرح دکھائے جائیں گے،سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ انسان فلم بنا سکتا ہے اور آواز ریکارڈ کرسکتا ہے تو انسانوں کا خالق کیوں نہیں کرسکتا۔ریڈیو اور ٹیلیویژن کی نشریات کا آغاز ہوا تو عقل والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ دو اور دو چار کی طرح معلوم ہوگیا کہ اذا الصّحف نشرت۔(جس دن صحیفے نشر کیے جائیںگے!!) کا کیا مطلب ہے۔قیامت سے پہلے بہت کچھ دکھا دیا گیا تاکہ تدبّر کرنے والے، روز قیامت پر ایمان لے آئیں، اگر بڑے بڑے عزت نشان دنیاہی میں رسوائی کی علامت بن سکتے ہیں تو کل حشر اٹھے گا تو کیا نہیں ہوگا۔ یہ جو چھوٹی چھوٹی قیامتیں دنیا میں دکھائی جاتی ہیں اور دکھائی جارہی ہیں تو یہ سب اس لیے کہ بڑی قیامت پر ایمان لایا جا سکے!کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ یورپ میں ایک وقت وہ آئے گا کہ پادری کی وقعت پرِکاہ نہیں رہے گی؟ کیا زمانہ تھا جب پوپ شہنشاہوں کا شہنشاہ تھا! کلیسا کے حکم پر لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا، ہاتھ پیر کاٹ دیئے جاتے...

ناکام ریاست… کیوں اور کیوں نہیں ؟

ہوانگ فو اس وقت سے میرا دوست ہے جب مزدوری کے سلسلے میں مجھے چند بار چین جانا پڑا۔ اس کے بعد ای میل کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہے۔ یہ کوئی دو سال پہلے کی بات ہے۔ وہ اسلام آباد آیا۔ اس نے بتایا کہ اس کی کمپنی نے پاکستان میں کوئی کام شروع کیا ہے اور یہ کہ اب وہ کبھی کبھار آتا رہے گا۔ وہ تین چار ماہ بعد چند دنوں کے لیے آتا ہے۔ ہم کسی ریستوران میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں۔ اسے اب میرے بچوں بلکہ پوتوں اور نواسوں تک کے نام یاد ہو گئے ہیں۔ یہ ایک ہفتہ پہلے کا واقعہ ہے۔ ہونگ فو کا فون آیا‘ میں نے پوچھا ’’کب آئے ہو‘ اور مجھے آنے کا بتایا تک نہیں۔ بس شام سات بجے اپنے پسندیدہ ریستوران میں پہنچ جائو‘‘۔ اس کی آواز میں نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔ کہنے لگا طبیعت ٹھیک نہیں۔ تم میرے پاس کیوں نہیں آ جاتے؟ میں اس کے ہوٹل پہنچ گیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو ٹھٹک گیا۔ وہ بستر پر دراز تھا۔ بازو اور کندھے پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’پہلے بیٹھو تو سہی‘ سب بتاتا ہوں‘‘۔ اس نے جواب دیا۔ یہ سڑک کا ایک حادثہ تھا جس میں ہوانگ فو زخمی ہوا تھا۔ لیکن یہ عجیب و ...

ہانکا

ہجوم دیکھ کر انوریؔ کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔ نزدیک گیا تو دیکھا ایک شخص لوگوں کو اشعار سنارہاہے۔ یہ اشعار انوری کے تھے۔ انوریؔ نے اسے کہا یہ شعر جو تم پڑھ رہے ہو، یہ تو انوری کے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ ہاں! بالکل انوری کے ہیں۔ تو تم کیوں سنارہے ہو؟ انوری نے پوچھا۔ کہنے لگا میں ہی تو انوری ہوں۔ یہ سن کر انوری نے وہ مشہور فقرہ کہا جو ادب کی تاریخ میں امر ہوگیا۔ ’’شعرچوری ہوتے تو سنے تھے، یہاں تو خود شاعر چوری ہوگیا ہے !‘‘ بارہویں صدی کے مشہور شاعر انوری کا یہ واقع بلاسبب نہیں یاد آرہا۔ ٹیکسلا میں قاف لیگ کے جس سابق لیڈر کو تحریک انصاف نے ٹکٹ مرحمت کیا ہے اس نے وہی بات کہی ہے جو انوریؔ بن کر انوریؔ کی شاعری سنانے والے نے انوریؔسے کہی تھی۔ اس کا کہناہے کہ حلقے میں اس کے چالیس ہزار سے زیادہ ووٹ ہیں اور یہ کہ اس نے پارٹی اس لیے بدلی ہے کہ اس کے حمایتیوں کا مطالبہ تھا! یہ ایک عجیب وغریب صورت حال ہے، حمایتی تحریک انصاف کو پسند کرتے ہیں لیکن جو اصحاب سالہا سال سے تحریک انصاف سے وابستہ چلے آرہے ہیں اور جنہوں نے انتھک محنت سے تحریک کو علاقے میں مستحکم کیا وہ ان حمایتیوں کو راس...

پوٹلی سر پر رکھو

بستر باندھو، پوٹلی سر پر رکھو، صندوق اٹھائو، پاسپورٹ پکڑو، یہ ملک تمہارا نہیں۔ یہ ملک جنرل پرویز مشرف کا ہے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ وہ ملزم ہو کر بھی ٹھاٹھ سے رہ رہا ہے۔ تم مجرم نہ ہو کر بھی اس تزک و احتشام کا نہیں سوچ سکتے۔ تمہارے ٹیکسوں سے جو رینجرز بھرتی کیے گئے تھے تاکہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کریں، وہ پرویز مشرف کی حفاظت پر مامور ہیں۔ جس پولیس نے تمہارے گھروں اور تمہارے مال اسباب پر پہرہ دینا تھا، وہ پرویز مشرف، اس کے گھر اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ ڈیوٹی دے رہی ہے۔ تم جرم کرتے ہو تو تمہیں ہتھکڑی لگتی ہے، تم حوالات میں بند کیے جاتے ہو یا جیل کی کال کوٹھڑی میں۔ پرویز مشرف نے بھی جرم کیا ہے لیکن کوئی مائی کا لال اسے ہتھکڑی نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ ملک اس کا ہے۔ جیل کی کال کوٹھڑی؟ کون سی جیل اور کون سی کال کوٹھڑی؟ مالک مالک ہوتے ہیں اور مزارع مزارع۔ وہ اپنے گھر میں ہے، اس گھر میں جو ایکڑوں پر محیط ہے، جس کی دیواریں قلعوں کی دیواروں سے بلند تر ہیں۔ جس کے باہر بھی چڑیا پر نہیں مار سکتی۔ حوالات؟ کون سی حوالات؟ اسے پولیس افسروں کے میس میں رکھا گیا، مہمانوں کی طرح۔ اس کے گھر سے ملاقات آئی ت...

ایک تاریخ …ایک روایت

رات کا پہلا پہر تھا اور سچی بات یہ ہے کہ رات وہیں بیٹھ گئی تھی۔ اس کا دل آگے گزرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ راحت ملتا نیکر کے نغمے فضا میں بکھر رہے تھے اور لگتا تھا روشنیاں برقی قمقموں سے نہیں ، گیتوں سے نکل رہی تھیں ۔یہ راولپنڈی چھائونی میں پاکستان ملٹری اکائونٹس کا ہیڈکوارٹر تھا۔ وہی چھائونی جسے برطانوی حکومت نے 1851ء میں آباد کیا۔ 1919ء میں تیسری جنگِ افغانستان کا خاتمہ اسی راولپنڈی چھائونی میں ہوا اور ٹریٹی آف راولپنڈی کہلوایا۔ اس معاہدے کے بعد راولپنڈی چھائونی برطانوی ہند میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی۔ راحت ملتانی کر کے نغمے پاکستان ملٹری اکائونٹس کی قدیم روایت کی غمازی کررہے تھے۔ عساکرِپاکستان کے نمائندے بھی موجودتھے اور محکمۂ دفاع کے اصحابِ قضا وقدر بھی۔ ملٹری اکائونٹس کے محکمے کی خوبی ہی یہ رہی ہے کہ اس کے ہاں سب جمع ہوتے ہیں۔ ع    تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے تاریخ کا کوئی عقیدہ ہوتا ہے نہ قومیت۔ وہ سب کچھ ریکارڈ پر لے آتی ہے۔ ہمارا بس چلے تو برصغیر کی تاریخ سے برطانوی عہد کو کھرچ کر ایک طرف رکھ دیں لیکن بدقسمتی سے، یا خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوسکتا۔ بر...

بیساکھی

                                                     آپ جو چاہیں کہیں‘ میں اس معاملے میں مولانا فضل الرحمن کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ الیکشن کمیشن نے مذہب یا فرقہ پرستی کے نام پر ووٹ مانگنے کو جرم قرار دیا ہے۔ مولانا نے اس کی مخالفت کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ نہ مانگنا نظریۂ پاکستان کے منافی ہوگا اور یہ پابندی لگا کر الیکشن کمیشن اپنے آپ کو سیکولر ثابت کر رہا ہے۔ مجھے مولانا کا موقف مبنی برحق لگتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ووٹ مانگتے وقت ووٹروں کے مذہبی جذبات کو بیدار کریں۔ اسلام کا حوالہ دیں اور سیکولر ازم کی کشتی میں سوراخ کریں۔ مولانا کے موقف کی تائید کرکے مجھے سکون محسوس ہو رہا تھا۔ اتنے میں دستک ہوئی‘ باہر جماعت اسلامی کا امیدوار کھڑا تھا۔ اُس نے مذہب کے نام پر میرے ووٹ کا مطالبہ کیا...

جنرل پرویز مشرف۔۔ایک علامت

جب سے جنرل پرویز مشرف واپس آئے ہیں، پوری قوم (اس کالم نگار سمیت ) ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے ۔ یوں لگتا ہے وہ نفرت کی ایک علامت بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک وکیل نے انہیں جوتا کھینچ مارا۔ جہاں جاتے ہیں، لوگ احتجاج کرتے ہیں۔ کیا وکلاء اور کیا جامعہ حفصہ کی طالبات، نفرت کی انتہا یہ ہے کہ گنتی کے جو چند افراد ان کی دسترس میں رہ گئے ہیں ان سے بھی عوام نفرت کرنے لگے ہیں۔ ان میں ان کے وکیل بھی شامل ہیں۔ اس میں شاید مبالغہ نہ ہوکہ اگر آج مشرف صاحب حفاظتی حصار کے بغیر کسی بازار، مسجد یا شاہراہ پر عوام کے ہتھے چڑھ جائیں تو انہیں جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ لال مسجد سانحے کا ذمہ دار بھی انہیں ٹھہرایا جاتا ہے، اکبر بگتی کے بھی وہ قاتل سمجھے جاتے ہیں، ڈرون حملوں کی ذمہ داری بھی ان پر ہے، طالبان کے خلاف یوٹرن بھی انہوں نے لیا تھا، اور سب سے بڑے جرم، این آر او کا طوق بھی انہی کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ ان کے مائنڈ سیٹ کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے جو اتنا غلط بھی نہیں۔ لال مسجد کے بارے میں ان کا موقف عجیب و غریب ہے کہ بچیا ں وہاں تھیں ہی نہیں۔ اکبر بگتی کے قتل سے بھی وہ منکر ہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف...

اسی غبار سے سوار برآمد ہوں گے

اگر چرواہا ہی بکریوں کو بھیڑیے کے آگے ڈالنا شروع کردے؟ اگر باڑھ ہی کھیت کو کھانا شروع کردے؟ اگر میڈیا ہی جانب دار ہو جائے؟ چار دن پہلے جب عدالت عالیہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کی معطلی کا فیصلہ صادر کیا تو ایک معروف تجزیہ کار نے ٹیلی ویژن سکرین پر گویا سرخ قمیض کو جھنڈے کی صورت میں لہرانا ہی شروع کردیا۔ نام نہاد تجزیے کا لبّ لباب یہ تھا کہ محصول جمع ہو رہا تھا۔ ٹیکس پالیسیاں بن رہی تھیں۔ معیشت کو سہارا دیا جا رہا تھا۔ یہ بھلا کون سا وقت تھا ایف بی آر کے چیئرمین کو ہٹانے کا۔ اگر ٹیلی ویژن کے تجزیہ کار اور اخبارات کے کالم نگار سرخ قمیضوں کو بانسوں پر لٹکا کر جانب دار ہو جائیں گے اور معاملے کے ایک ہی پہلو کو سامنے لائیں گے تو یہ وہ میڈیا نہیں رہے گا جسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ یہ تو دوسرے تین ستونوں کو گرانے والا میڈیا ہوگا۔ ایف بی آر وہ ادارہ ہے جو پورے ملک سے محصولات جمع کرتا ہے۔ آمدنی پر ٹیکس لگاتا ہے۔ کسٹم کے محصولات اکٹھے کرتا ہے۔ سیلز ٹیکس کا ذمہ دار ہے۔ دولت پر ٹیکس لگاتا ہے۔ ملک کی معیشت کا دارومدار اسی آمدنی پر ہے۔ یہاں سینکڑوں افسر اور ہزاروں...

بجلیوں کا کارواں

شوکت عزیز کی پلاسٹک کی بنی ہوئی وزارت عظمیٰ کا زمانہ تھا۔ وزیراعظم کے لیے ہوائی جہاز خریدنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ خریداری کئی مراحل سے گزری۔ ہوتے ہوتے کئی محکموں کا عمل دخل ہوگیا۔ وفاقی وزارت خزانہ کا ایک حصہ وزارت دفاع میں واقع ہے۔ اس حصے کا سربراہ ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس کہلاتا ہے۔ یہ انتظام دفاع کو سہولت پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ مسائل یہیں حل ہوتے رہیں اور ہر کام کے لئے اسلام آباد کا رخ نہ کرنا پڑے۔ جن اہم امور میں وزارت خزانہ اسلام آباد کے فیصلوں کی ضرورت پڑتی ہے، ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس ان امور کے لیے اسلام آباد سے پوچھ لیتا ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس کو ایک دن ایک معروف صحافی کا فون آیا: ’’کیا آپ وہ فائل مجھے دکھا سکتے ہیں جس میں وزیراعظم کے لیے خریدے گئے جہازوں کا معاملہ چلتا رہا؟‘‘ ایڈیشنل سیکرٹری نے ایک لمحہ سوچے بغیر جواب دیا… ’’صاحب! اس خریداری کا دکھ تو مجھے بھی ہے لیکن بہت معذرت کہ فائل نہیں دکھا سکوں گا۔ یہ فائل میرے پاس حکومت پاکستان کی امانت ہے۔‘‘ ایڈیشنل سیکرٹری کی اس معروف صحافی سے اچھی دعا سلام تھی۔ یہ اور بات کہ ٹیلیفون پر ہونے والی اس مختصر گفتگو...

بد دماغ لوگ

                                                                                     یہ واقعہ گزشتہ جون کا ہے۔ شہرہ آفاق قصبے آکسفورڈ کے لارڈ میئر ایلن آرمی ٹیج ایک تقریب میں مدعو تھے۔ تیرہ سال سے کم عمر کھلاڑیوں کے ساتھ تصویر کھچوانے کا وقت آیا تو ایک لڑکی کے بارے میں ان کے منہ سے ایک فقرہ نکل گیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ لڑکی جب جھکی تو دلکش لگ رہی تھی۔ یہ فقرہ لارڈ میئر کے لیے عذاب بن گیا۔ لوگ معترض ہوئے کہ یہ جملہ ’’نامناسب‘‘ تھا۔ آرمی ٹیج نے آئیں بائیں شائیں بہت کی‘ کبھی کہا کہ میں نے کچھ اور کہا تھا مگر لوگوں نے غلط سنا، کبھی کوئی اور تشریح کی لیکن یہ فقرہ گلے کا ہا...

اگر آج حضرت عمرؓ ہوتے

تو کیا ہمارے ریٹرننگ افسروں کو اس معیار کا بالکل علم نہیں جو حضرت عمر فاروق ؓنے مقرر کیا تھا؟ یہ واقعہ اتنا مشہور ہے کہ ہم میں سے ہر شخص نے سنا ہوا ہے۔ دوسرے خلیفہ راشد نے ایک صاحب کے بارے میں لوگوں کی رائے لی۔ بتایا گیا کہ خشو ع و خضوع سے نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور عبادت میں بہت زیادہ سرگرم۔ امیر المومنین نے کہا نہیں، یہ بتائو کہ یہ شخص لوگوں کے ساتھ معاملات میں کیسا ہے؟ جس قبیل کے سوالات ریٹرننگ افسر پوچھتے رہے ہیں اس سے یہ تصویر مکمل طور پر واضح ہوگئی ہے جو اسلام کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں بنی ہوئی ہے۔ افسوس! یہ تصویر نامکمل ہے۔ ہم نے اسلام کو خانوں میں بانٹا ۔ پھر جو خانے ہمیں پسند آئے ہم نے چن لیے۔ جو خانے مشکل لگے، ہم نے چھوڑ دیئے۔ ہم نے خدائے بزرگ و برتر کے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو۔ افسوس ہے ہمارے اس فہم پر جو اسلام کے متعلق ہمیں حاصل ہے اور جس کا ہمیں دعویٰ ہے! یہ ریٹرننگ افسر جو دعائے قنوت سنتے رہے، چھ کلمے سنتے رہے (ہمارے دوست خورشید ندیم نے روزنامہ دنیا میں کیا پتے کی بات لکھی کہ اسلام میں تو ایک ہی کلمہ تھا!) اور امیدواروں سے...

قبروں کی تقسیم

جنرل پرویز مشرف جو کچھ کر رہے ہیں اس کا سبب شاید وہ خود بھی نہ بتا سکیں! پاکستان کی فوج تربیت کے حوالے سے دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ ہماری سول سروس اس ضمن میں اس کے پاسنگ بھی نہیں۔ایک اور دس کا فرق ہے۔ جرنیل بننے تک فوجی افسر ان گنت تربیتی مراحل سے گزرتا ہے۔ اسے وسیع مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ تقریر اور تحریر میں مہارت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حالات کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ درست ہے کہ اصل میدان تربیت کا عسکری حوالے سے ہے لیکن فیصلہ کرنے سے پہلے سارے پہلوئوں کو جانچنا سکھایا جاتا ہے۔ سول سروس میں اس کے برعکس، اگلے گریڈ میں ترقی کے لازمی کورس کے علاوہ کچھ بھی نہیں! تربیت کے لیے کس نے جانا ہے کس نے نہیں، اس کا کوئی سسٹم ہی نہیں! جن کی پُشت پر ’’مضبوط‘‘ سرپرست ہوتے ہیں وہ بار بار تربیتی کورس حاصل کرتے ہیں اور وہ بھی دساورکے! پنجاب کے ایک سیاستدان بیرون ملک تھے، وہیں خبر ملی کہ بہت بڑے منصب کے لیے چن لیے گئے ہیں۔ سول سرونٹس کی فہرست وہیں منگوائی۔ نام سے مشرب کا علم تو ہو ہی جاتا ہے۔ ایک نام کے اردگرد دائرہ لگایا اور اپنا معاون مقرر کرایا۔ اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے۔ خوش...

حیا کی باریک تہہ

باربرا ٹک مین 1912ء میں پیدا ہوئی اور 1989ء میں دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اس نے بجلی یا ریڈیو قسم کی کوئی حیرت انگیز ایجاد نہیں کی ،نہ کوئی اور ایسا کارنامہ انجام دیا جو اس کا نام نصاب کی کتابوں میں داخل کروادیتا۔ وہ تاریخ کی پروفیسر تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں پڑھاتی رہی۔ امریکی نیوی کے وارکالج میں بھی لیکچر دیتی رہی۔ ان اداروں میں لاتعداد پروفیسر پڑھاتے رہے۔ وہ بھی ان میں سے ایک تھی۔ لیکن ایک کارنامہ باربراٹک مین نے ایسا سرانجام دیا کہ عقل و دانش کی وادیوں میں سفر کرنے والے اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ فلسفۂ تاریخ میں اس نے ایک نظریہ پیش کیا جو حیرت انگیز طورپر ماضی میں بھی سچ ثابت ہوتا رہا، آج بھی ہورہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ باربرا کی مشہور تصنیف ’’دی مارچ آف فولی‘‘ (حماقتوں کا مارچ) میں یہ نظریہ مثالوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ ہرزمانے میں اور ہر جگہ حکومتوں کی پالیسیاں خودکُش رہی ہیں۔ حکومتیں ایسی پالیسیاں بناتی اور چلاتی ہیں جو ان کے مفاد کے خلاف ہوتی ہیں۔ وہی لوگ جوحکومت میں احمقانہ فیصلے صادر کرتے ہیں، اپنی نجی زندگی میں ہرفیصلہ عقل...

ٹُر گیا ماہیا

تمہیں رخصت کرکے ائیر پورٹ سے واپس آیا تو پوَ پھٹ رہی تھی۔ آنکھوں پر چادر اس لیے ڈال لی کہ روشنی اچھی نہیں لگ رہی تھی اور یہ میں رو تو نہیں رہا تھا، وہ تو بس یونہی آنکھوں سے پانی نکلنے لگ گیا تھا۔ جاتے ہوئے تم میری گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نیند سے تمہاری آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں۔ فراق کا شعر یاد آرہا تھا   ؎ سنتے ہی اس آنکھ کی کہانی افلاک کو نیند آگئی تھی تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھول کر بس تم یہ دیکھ لیتے تھے کہ تم میری ہی گود میں ہو۔ میں نے تمہیں اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا اور وقفے وقفے سے تمہیں چوم رہا تھا۔ اس وقت بھی میں رو تو نہیں رہا تھا، بس آنکھیں یونہی چھلک چھلک پڑتی تھیں۔ اس وقت تم ہوا میں اڑ رہے ہو، کہیں دور، بادلوں سے بہت اوپر، بحرالکاہل کی طرف رخ کیے،    ؎ ہوا میں تخت اڑتا جارہا ہے۔ اُس پری رو کا محبت دل میں پھر قصہ کہانی بن کے اٹھی ہے لیکن لگتا ہے ابھی تک ساتھ چمٹے ہوئے ہو، اور تمہیں ڈر ہے کہ ابا، زبردستی اٹھا کر، دادا سے دور نہ لے جائے اور مجھے سلیم احمد کا شعر یاد آرہا ہے   ؎ یہ تو ہے، یاد ہے تیری، کہ میری حسرت ہے یہ کون ہے مرے...