برخوردار اپنی بیگم اور دو بچوں کے ہمراہ لائونج میں داخل ہوا تو ہم اس کے منتظر تھے۔ یہ امارات کی ایئرلائن کا جہاز تھا۔ مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے پرواز پہنچ گئی۔
’’آسٹریلیا سے آ کر کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’آسٹریلیا نہیں! دبئی کی بات کیجیے۔ ہم دبئی کے راستے آ رہے ہیں۔ دبئی، جو آسٹریلیا سے زیادہ ترقی یافتہ ہے!‘‘ برخوردار نے جواب دیا اور مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔
امیگریشن کے کائونٹر پر بیٹھا ہوا اہلکار دو ’’خصوصی‘‘ افراد کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’آپ کے لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں۔ میں کیسے ٹھپہ لگا دوں، کل کو پکڑا میں جائوں گا، آپ تو کہیں نظر بھی نہ آئیں گے، اور پھر یہ دیکھیے، یہ جو قطار میں کھڑے ہیں، کیا ان کا حق فائق نہیں؟‘‘
یہ نہیں کہ سب کے ضمیر مر چکے ہیں۔ بہت سوں کے زندہ ہیں۔ وہ مدافعت کر رہے ہیں۔ امیگریشن کے کائونٹر پر بیٹھے اہلکار کا ضمیر زندہ تھا۔ لیکن یہاں جن کے ضمیر زندہ ہیں، ان پر مسلسل ’’کام‘‘ ہوتا ہے، تسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ، یہاں تک کہ وہ رام ہو جاتے ہیں یا راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ مجھے وہ سرکاری افسر یاد آیا جو معائنے کے لیے ایک شہر میں پہنچا تو اس کے ماتحت نے بتایا کہ سر! آپ گاڑی میں جہاں پائوں رکھیں گے، وہاں، ربڑ کے پائیدان کے نیچے میں نے کچھ رقم رکھ دی ہے۔ شاید آپ کو ضرورت پڑے۔‘‘ اس نے رقم واپس کی اور پھر وہ فقرہ کہا جو بھولتا نہیں، ’’یہاں اگر آپ حرام کھانے سے انکار کریں تو آپ کو زمین پر لٹا دیا جاتا ہے۔ پھر آپ کے ہاتھ پائوں پکڑ کر، حرام منہ میں ٹھونسا جاتا ہے۔‘‘
امریکہ فرانس سوئٹزر لینڈ اور جاپان کو چھوڑیے، دبئی کی بات کیجیے۔ جنہیں ہم حقارت سے بدو کہتے تھے۔ آج ان کی معیشت دنیا پر حکومت کر رہی ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک جہاز اترتا ہے۔ سفید فام مسافر اترتے ہیں، بیگ اور فائلیں اٹھائے، بزنس کی تلاش میں، ملازمتوں کے تعاقب میں۔ دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر یہاں منتقل ہو گئے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں قاف لیگ ہے نہ نون لیگ اور نہ ہی پیپلزپارٹی، یہاں قانون کی حکومت ہے۔ شہزادے کی کار بھی غلط پارک نہیں ہو سکتی۔ ٹیلی فون کرکے کسی مجرم کو چھڑایا نہیں جا سکتا۔ ٹیکس نہ دینے والا قومی اسمبلی میں نہیں، سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ یہ وہ دبئی ہے جس نے ترقی کا سفر ہم سے برسوں نہیں، عشروں بعد شروع کیا اور آج سینکڑوں سال آگے پہنچ چکا ہے۔ یہی حال کوریا اور سنگاپور کا ہے ؎
انجم غریب شہر تھے، اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
ایئرپورٹ سے نکلے تو ٹریفک کا بے ہنگم جنگل تھا۔ ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی فکر میں تھا۔ دائیں طرف سے نہیں تو بائیں طرف سے سہی، جو دائیں مڑنے کا اشارہ دے رہا ہے، اس کے اشارے کی پروا کسی کو نہیں، اور جس نے بائیں طرف مڑنا ہے، وہ اشارہ دیے بغیر ہی مڑ رہا ہے۔ ہارن بجانے کا گویا مقابلہ ہو رہا ہے، (مہذب ملکوں میں ہارن بجانا، گالی دینے کے مترادف ہے۔) ویگنیں اور بسیں موت کے ہرکارے ہیں۔ ان کے ڈرائیوروں کے حلیوں پر غور کیجیے، چادر اوڑھے ہوئے، جلتا ہوا سگریٹ ہاتھ میں، زبان پر گالی، سڑک ان کی جاگیر ، قانون ان کا خانہ زاد نوکر، پکڑے جانے کا کوئی امکان نہیں! مالک کے ہاتھ لمبے ہیں، کسی نے گستاخی کر بھی دی تو چھڑا لیے جائیں گے۔
برخوردار گھر پہنچ کر اخبار دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اور خبر مجھے سنانے لگتا ہے، سوئی گیس کے ادارے نے لاہور میں دو کارخانوں پر چھاپا مارا ہے۔ دونوں چوری کی گیس استعمال کر رہے تھے۔ ایک کا مالک پیپلزپارٹی کا لیڈر ہے اور دوسرا نون لیگ کے ایم این اے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ساری صوبائی قیادت سوئی گیس کمپنی کے دفتر میں اکٹھی ہوگئی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما کا کارخانہ ماہانہ پانچ کروڑ روپے کی گیس چرا رہا ہے اور نون لیگ کے رکن اسمبلی کا کارخانہ ماہانہ پچیس لاکھ روپے کی۔
یہ ہے فرق پاکستان اور دبئی کا۔ پاکستان اور سنگاپور کا۔ پاکستان اورکوریا کا۔ اور اگر جان کی امان ملے تو پاکستان اور بھارت کا۔ وہاں ادارے مضبوط ہیں، یہاں معززین۔ وہاں پولیس طاقتور ہے یہاں مجرم۔ وہاں پروفیسر کی عزت ہے یہاں پٹواری اور ڈپٹی کمشنر کی۔ وہاں جتنا بڑا ڈاکٹر ہے صبح صبح ہسپتال اتنا ہی سویرے پہنچتا ہے۔ یہاں جتنا بڑا ڈاکٹر ہے، اسی حساب سے دیر سے آتا ہے۔ وہاں حکمران کی گاڑی سرخ اشارے پر کھڑی ہو جاتی ہے، یہاں حکمران گزر رہا ہو تو عوام کو یوں روک دیا جاتا ہے جیسے جانوروں کے ریوڑ کو۔ یہاں چونکہ جمہوریت مضبوط ہے اس لیے حاملہ عورتیں بچوں کو رُکی ہوئی ٹریفک میں جنم دے کر مر جاتی ہیں اور ہسپتال جانے والے مریض رُکی ہوئی ٹریفک میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔
پھر وہ ایک اور خبر پڑھتا ہے۔ کراچی کے ایک علاقے میں دھماکے ہوئے، 45 جاں بحق 135 زخمی۔ درجنوں فلیٹ اور دکانیں تباہ۔
ملائیشیا یاد آ گیا۔ 1969ء میں نسلی فسادات ہوئے۔ لیڈرشپ سرجوڑ کر بیٹھی۔ پالیسیاں بنائیں۔ دیانتداری سے، صدقِ دل سے، نافذ کی گئیں۔ آج تک دوبارہ فساد نہیں ہوا۔
امیگریشن کے کائونٹر پر بیٹھا ہوا اہلکار دو ’’خصوصی‘‘ افراد کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’آپ کے لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں۔ میں کیسے ٹھپہ لگا دوں، کل کو پکڑا میں جائوں گا، آپ تو کہیں نظر بھی نہ آئیں گے، اور پھر یہ دیکھیے، یہ جو قطار میں کھڑے ہیں، کیا ان کا حق فائق نہیں؟‘‘
یہ نہیں کہ سب کے ضمیر مر چکے ہیں۔ بہت سوں کے زندہ ہیں۔ وہ مدافعت کر رہے ہیں۔ امیگریشن کے کائونٹر پر بیٹھے اہلکار کا ضمیر زندہ تھا۔ لیکن یہاں جن کے ضمیر زندہ ہیں، ان پر مسلسل ’’کام‘‘ ہوتا ہے، تسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ، یہاں تک کہ وہ رام ہو جاتے ہیں یا راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ مجھے وہ سرکاری افسر یاد آیا جو معائنے کے لیے ایک شہر میں پہنچا تو اس کے ماتحت نے بتایا کہ سر! آپ گاڑی میں جہاں پائوں رکھیں گے، وہاں، ربڑ کے پائیدان کے نیچے میں نے کچھ رقم رکھ دی ہے۔ شاید آپ کو ضرورت پڑے۔‘‘ اس نے رقم واپس کی اور پھر وہ فقرہ کہا جو بھولتا نہیں، ’’یہاں اگر آپ حرام کھانے سے انکار کریں تو آپ کو زمین پر لٹا دیا جاتا ہے۔ پھر آپ کے ہاتھ پائوں پکڑ کر، حرام منہ میں ٹھونسا جاتا ہے۔‘‘
امریکہ فرانس سوئٹزر لینڈ اور جاپان کو چھوڑیے، دبئی کی بات کیجیے۔ جنہیں ہم حقارت سے بدو کہتے تھے۔ آج ان کی معیشت دنیا پر حکومت کر رہی ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک جہاز اترتا ہے۔ سفید فام مسافر اترتے ہیں، بیگ اور فائلیں اٹھائے، بزنس کی تلاش میں، ملازمتوں کے تعاقب میں۔ دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر یہاں منتقل ہو گئے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں قاف لیگ ہے نہ نون لیگ اور نہ ہی پیپلزپارٹی، یہاں قانون کی حکومت ہے۔ شہزادے کی کار بھی غلط پارک نہیں ہو سکتی۔ ٹیلی فون کرکے کسی مجرم کو چھڑایا نہیں جا سکتا۔ ٹیکس نہ دینے والا قومی اسمبلی میں نہیں، سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ یہ وہ دبئی ہے جس نے ترقی کا سفر ہم سے برسوں نہیں، عشروں بعد شروع کیا اور آج سینکڑوں سال آگے پہنچ چکا ہے۔ یہی حال کوریا اور سنگاپور کا ہے ؎
انجم غریب شہر تھے، اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
ایئرپورٹ سے نکلے تو ٹریفک کا بے ہنگم جنگل تھا۔ ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی فکر میں تھا۔ دائیں طرف سے نہیں تو بائیں طرف سے سہی، جو دائیں مڑنے کا اشارہ دے رہا ہے، اس کے اشارے کی پروا کسی کو نہیں، اور جس نے بائیں طرف مڑنا ہے، وہ اشارہ دیے بغیر ہی مڑ رہا ہے۔ ہارن بجانے کا گویا مقابلہ ہو رہا ہے، (مہذب ملکوں میں ہارن بجانا، گالی دینے کے مترادف ہے۔) ویگنیں اور بسیں موت کے ہرکارے ہیں۔ ان کے ڈرائیوروں کے حلیوں پر غور کیجیے، چادر اوڑھے ہوئے، جلتا ہوا سگریٹ ہاتھ میں، زبان پر گالی، سڑک ان کی جاگیر ، قانون ان کا خانہ زاد نوکر، پکڑے جانے کا کوئی امکان نہیں! مالک کے ہاتھ لمبے ہیں، کسی نے گستاخی کر بھی دی تو چھڑا لیے جائیں گے۔
برخوردار گھر پہنچ کر اخبار دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اور خبر مجھے سنانے لگتا ہے، سوئی گیس کے ادارے نے لاہور میں دو کارخانوں پر چھاپا مارا ہے۔ دونوں چوری کی گیس استعمال کر رہے تھے۔ ایک کا مالک پیپلزپارٹی کا لیڈر ہے اور دوسرا نون لیگ کے ایم این اے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ساری صوبائی قیادت سوئی گیس کمپنی کے دفتر میں اکٹھی ہوگئی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما کا کارخانہ ماہانہ پانچ کروڑ روپے کی گیس چرا رہا ہے اور نون لیگ کے رکن اسمبلی کا کارخانہ ماہانہ پچیس لاکھ روپے کی۔
یہ ہے فرق پاکستان اور دبئی کا۔ پاکستان اور سنگاپور کا۔ پاکستان اورکوریا کا۔ اور اگر جان کی امان ملے تو پاکستان اور بھارت کا۔ وہاں ادارے مضبوط ہیں، یہاں معززین۔ وہاں پولیس طاقتور ہے یہاں مجرم۔ وہاں پروفیسر کی عزت ہے یہاں پٹواری اور ڈپٹی کمشنر کی۔ وہاں جتنا بڑا ڈاکٹر ہے صبح صبح ہسپتال اتنا ہی سویرے پہنچتا ہے۔ یہاں جتنا بڑا ڈاکٹر ہے، اسی حساب سے دیر سے آتا ہے۔ وہاں حکمران کی گاڑی سرخ اشارے پر کھڑی ہو جاتی ہے، یہاں حکمران گزر رہا ہو تو عوام کو یوں روک دیا جاتا ہے جیسے جانوروں کے ریوڑ کو۔ یہاں چونکہ جمہوریت مضبوط ہے اس لیے حاملہ عورتیں بچوں کو رُکی ہوئی ٹریفک میں جنم دے کر مر جاتی ہیں اور ہسپتال جانے والے مریض رُکی ہوئی ٹریفک میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔
پھر وہ ایک اور خبر پڑھتا ہے۔ کراچی کے ایک علاقے میں دھماکے ہوئے، 45 جاں بحق 135 زخمی۔ درجنوں فلیٹ اور دکانیں تباہ۔
ملائیشیا یاد آ گیا۔ 1969ء میں نسلی فسادات ہوئے۔ لیڈرشپ سرجوڑ کر بیٹھی۔ پالیسیاں بنائیں۔ دیانتداری سے، صدقِ دل سے، نافذ کی گئیں۔ آج تک دوبارہ فساد نہیں ہوا۔
سنگاپور میں انڈین بھی ہیں، چینی بھی اور ملائے بھی۔ لیڈرشپ کا وژن دیکھیے، چینی کا پڑوسی چینی نہیں ہو سکتا۔ انڈین کا پڑوسی انڈین نہیں ہو سکتا اور چینی، چینی کے گھر کے ساتھ گھر نہیں بنا سکتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی ایک نسل کا کسی ایک علاقے میں ارتکاز ہی نہیں ہوا۔ جو دوسرے کے گھر کو جلائے گا، پہلے اس کا اپنا گھر جلے گا۔
لیکن یہ پالیسیاں، یہ دور اندیشیاں، یہ وژن، یہ دردمندیاں وہاں ہوتی ہیں جہاں سیاست دان باکردار ہوں۔ جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہو۔ وہاں فصل کیسے محفوظ رہے گی۔ جہاں گڈریا خود بھیڑیے کا نمائندہ ہو وہاں کیسی بھیڑ اور کون سا گلّہ! ؎
اِن موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
لیکن یہ پالیسیاں، یہ دور اندیشیاں، یہ وژن، یہ دردمندیاں وہاں ہوتی ہیں جہاں سیاست دان باکردار ہوں۔ جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہو۔ وہاں فصل کیسے محفوظ رہے گی۔ جہاں گڈریا خود بھیڑیے کا نمائندہ ہو وہاں کیسی بھیڑ اور کون سا گلّہ! ؎
اِن موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
1 comment:
بہت سچی اور اچھی تحریر ہے ماشاءاللہ۔۔۔۔
Post a Comment