نہیں!یہ محض ایک تصویر نہیں۔ یہ تاریخ ہے۔ تاریخ ہی نہیں انسائیکلوپیڈیا ہے۔ یہ تصویرِ پاکستان کی تاریخ ہے اور تحریک پاکستان کی بھی۔ اور سچ پوچھیے، تو اس سے ایمان بھی تازہ ہوتا ہے۔
یہ تصویر ملک کے سارے اخبارات میں صفحۂ اول پر شائع ہوئی ہے۔ نمایاں ترین اس میں مولانا فضل الرحمن ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ فوٹو گرافر نے کیمرے کا زیادہ فوکس ان کی دلفریب شخصیت پر کیا ہے۔ وہ مسکرا رہے ہیں۔ لیکن کُھل کر نہیں۔ یہ مسکراہٹ نیم بازکلی کی طرح ہے۔ ادھ کھلی کلی! چہرے پر نُورہے ۔ کوہستانِ سیاست سے آبشاروں کی شکل میں گرتا، شور مچاتا ، دائرے بناتا نور!اور یہی وہ نُور ہے جس سے ایمان تازہ ہورہا ہے!
ان کے بائیں طرف میاں محمد نواز شریف ہیں۔ کیا سنجیدگی اور کیا متانت ہے! سبحان اللہ ! سبحان اللہ! ڈائس پر مائیک ہیں۔ بہت سے مائیک۔ میاں صاحب ، تصویر میں یوں لگتاہے ، کچھ کہہ رہے ہیں۔ میاں صاحب کے ساتھ، بائیں طرف ، چودھری نثار علی خان ہیں لیکن وہ ذرا پیچھے کھڑے ہیں۔ ان کے آگے شہباز شریف ہیں۔ چودھری نثار علی خان زیرک انسان ہیں۔ پیچھے اس لیے کھڑے ہیں کہ آگے کھڑا ہونا، پارٹی سربراہ کے بھائی کا حق ہے۔ مانا کہ نثار علی خان کی خدمات زیادہ ہیں، لیکن ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں خون کا رشتہ، خدمات کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے!
یہ تصویر ، جو دودن پیشتر پورے ملک کے بڑے اورچھوٹے، قومی اور علاقائی، اردو اور انگریزی ، تمام اخبارات کے پہلے صفحوں پر چھپی ہے ، ملکی سیاست میں بہت اہم ہے۔ دونوں بڑے رہنما مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں تعاون پر اتفاق ہُوا ہے۔ نوازشریف نے مولانا کی مجوزہ اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول فرمالی ہے۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ قومی امور پر ہماری سوچ ایک ہے۔
جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ تصویر تاریخ ہے۔ تاریخ ہی نہیں انسائیکلوپیڈیا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا ہی نہیں، جہانِ حیرت ہے۔ حیرتوں کا ایسا جہان‘ ہم جس کے ایک کنارے پر کھڑے ہیں اور وہ مناظر دیکھ رہے ہیں جو دلچسپ ہیں اور عبرت ناک بھی !
تاریخ مصر ہے کہ یہ تصویر کانگرس اور مسلم لیگ کے اشتراک کی تصویر ہے!کانگرس!کون سی کانگرس؟ وہی کانگرس جس میں گاندھی تھے، نہرو تھے، پٹیل تھا اور حضرت مفتی محمود تھے!مفتی صاحب جمعیت العلما ء ہند میں تھے۔ اور جمعیت العلماء ہند کانگرس کی زبردست حامی تھی ۔ دونوں جماعتیں یک جان دوقالب تھیں۔ جمعیت العلماء ہند پاکستان کے قیام کی شدید مخالف تھی۔ مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کا مناظرہ یا مناقشہ ، یا معاملہ ، جوکچھ بھی تھا، سب کو معلوم ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے، جواسی مکتب فکر کے سرکردہ عالم تھے‘ 1945ء میں جمعیت العلماء اسلام کی بنیاد ڈالی‘ وہی اس کے صدرتھے۔ یہ جمعیت ، جمعیت العلماء ہند کی سیاسی مخالف تھی۔ یہ پاکستان کی حامی تھی۔ وہ دشمن۔ مفتی محمود اس جمعیت میں تھے جو کانگرس کے ساتھ تھی!مولانا فضل الرحمن مفتی صاحب مرحوم کے فرزند ارجمند ہیں اور خلف الرشید !ان کا یہ قول زریں پاکستان میں کسے نہیں یاد کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں نہیں شریک!‘‘
آج تک یہ راز نہیں کھل سکا کہ جو جمعیت العلماء اسلام پاکستان کے قیام کی حامی تھی، قائداعظم کی دستِ راست تھی، جس کی بنیاد مولانا شبیر احمد عثمانی نے رکھی تھی اور جس کے صدر مولانا عثمانی ہی رہے، یہاں تک کہ انہوں نے جان‘ جان پیدا کرنے والے کے سپرد کردی، یہ جمعیت مفتی محمود صاحب کی آغوش میں کیسے آگئی؟
قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ
یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چرالیتے ہیں لوگ
کیا المیہ ہے اور کیا طلسم ہوشربا ہے کہ جس جمعیت العلماء اسلام کی بنیاد مولانا شبیر احمد عثمانی نے رکھی، اس کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے جو پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک ہی نہیں تھے۔ نہ صرف یہ کہ شریک نہیں تھے، اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ مسلم لیگ کا اتحاد ہوا ہے!جی ہاں! اسی مسلم لیگ کا جس کے سربراہ کو، ان کے معتقدین کا گروہ قائداعظم ثانی کہتا ہے !ایک طرف قائداعظم کی مسلم لیگ ۔ دوسری طرف پٹیل کی کانگرس کی حامی جمعیت العلماء اسلام !دونوں نے قوم کو اعتماد میں لیا ہے کہ قومی امور پر ہماری سوچ ایک ہے !
ہم نے کہا تھا کہ یہ تصویر تاریخ ہے۔ یہ بتانا تو ہم بھول ہی گئے کہ یہ تصویر فلم بھی ہے۔ فلم چلتی ہے اور منظر ایک ایک کرکے سامنے آتے ہیں ۔ ایک منظر میں ڈیزل کے ٹینکر کے ٹینکر چلے جارہے ہیں۔ دوسرا منظر دیکھیے اس میں پرویز مشرف کی الاٹ کردہ سرکاری، زرعی زمینیں ہیں جو ڈیرہ اسماعیل خان کے نواح میں ہیں۔ اگلے منظر میں کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے بارے میں وہ ارشادات ہیں جو بھارت جاکر کہے جاتے ہیں۔
کیمرہ مولانا فضل الرحمن سے ہٹ کر میاں نواز شریف پر پڑتا ہے۔ منظر آرہے ہیں منظر جارہے ہیں۔ یہ منظر دیکھیے ، یہ میاں صاحب کی مسلم لیگ ہے۔ یہ دوسرا منظر دیکھیے ، یہ قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ ہے۔ ایک منظر میں محلات پر مشتمل پُورا شہر ہے جسے جاتی امراکہا جاتا ہے۔ دوسرے منظر میں قائداعظم کراچی آکر گھر بناتے ہی نہیں، بناتے تو اس کا نام یقینا بمبئی نہ رکھتے۔ ایک منظر میں جدہ کے کارخانے ہیں دوسرے میں قائداعظم جرابیں واپس کررہے ہیں کہ مہنگی ہیں۔ ایک منظر میں کابینہ کی اسلام آباد میٹنگ کے لیے لاہور سے کھابے آرہے ہیں۔ دوسرے میں قائداعظم کہہ رہے ہیں کہ کابینہ کے ارکان گھر سے چائے پی کر آیا کریں۔ ایک منظر میں لندن کی وسیع وعریض جائیدادیں‘ فلیٹ اور کاروبار ہیں دوسرے منظر میں قائداعظم پاکستانی سفیر سے سرکاری گاڑی کی خریدکے سلسلے میں پیسے پیسے کی بچت پر اصرار کررہے ہیں۔ ایک منظر میں باورچی جہاز پر سوار ہوکر جدّہ جارہا ہے۔ اس کا کام صرف باقرخانیاں بنانا ہے۔ دوسرے منظر میں قائداعظم لاہور سے منگوائے گئے کپورتھلہ کے باورچی کو واپس بھجوارہے ہیں جو ان کے آخری ایام میں کوئٹہ منگوایا گیا تھا۔ ایک اور منظر دیکھیے، پنجاب کے وزیراعلیٰ جہاز پر بیٹھ کرطبی معائنے کے لیے سمندر پار تشریف لے جارہے ہیں۔ (طبی معائنے کے لیے ایسے سفر کتنے ہوئے ، تعداد شمار سے باہر ہے) دوسرے منظر میں ایک مفلوک الحال گائوں ڈسپنسری کا کشکول لیے لاہور کی طرف دیکھ رہا ہے اور وزیراعلیٰ کی حکومت کے پاس اس کے لیے بیس لاکھ روپے کی رقم نہیں!
قیام پاکستان کے جرم میں شریک نہ ہونے والی جمعیت العلماء اور مسلم لیگ (ن) میں ’’انتخابی تعاون‘‘ ظاہر ہے کراچی کے لیے تو نہیں کہ اس مقتل گاہ میں میاں صاحب دلچسپی لے رہے ہیں نہ مولانا صاحب ۔ یہ انتخابی تعاون پنجاب کے لیے بھی نہیں کہ پنجاب کے میدان مولانا صاحب کی جولانگاہ ہی نہیں! پنجاب میں ان کی دلچسپی اتنی ہی ہے کہ ان کا بھاری بھر کم لمبا چوڑا سرکاری پروٹوکول والا قافلہ اسلام آباد سے نکلے تو پنجاب کے مغربی علاقوں سے ہوتا ہوا ڈی آئی خان کی کچھار میں پہنچ جائے۔ یہ انتخابی اتحاد بلوچستان کے لیے بھی نہیں کہ مسلم لیگ نو ن وہاں وجود ہی نہیں رکھتی ۔ مولانا صاحب نے وہاں مدرسوں کا جال بچھایا ہوا ہے اور صوبہ ان کی مٹھی میں ہے۔ یوں بھی سیاسی مولانائوں کا جادو وہیں چلتا ہے جہاں نہ تعلیم ہو نہ صنعت !
اندھا بھی دیکھ رہا ہے اور بچہ بھی سمجھ رہا ہے کہ یہ انتخابی تعاون خیبرپختونخوا کے لیے ہے جہاں مولانا اور میاں دونوں کو تحریک انصاف سے خطرہ ہے۔ یہ وہ واحد علاقہ ہے جہاں مولانا اور میاں دونوں صاحبان کی مشترکہ دلچسپی ہے۔
اگر میاں صاحب اس خوش فہمی میں ہیں کہ خیبرپختونخوا میں عمران خان کا مقابلہ کرکے، مولانا سے وہ کچھ سیاسی فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تو اس پر تبسم ہی کیا جاسکتا ہے ! کہاں میاں صاحب اور کہاں مولانا صاحب! میاں صاحب کاروبار میں ایک کے لاکھ بناتے ہوں گے، لیکن یہ تو سیاست ہے اور سیاست میں مولانا سے فائدہ اٹھانا شیر کے منہ سے گوشت نکالنے والی بات ہے۔ جن مولانا صاحب نے آٹھ سال پرویز مشرف کو جیب میں اور پانچ سال آصف زرداری کو مٹھی میں رکھا، میاں صاحب کو فارسی شاعری کا ذوق ہوتا تو ان مولانا صاحب کو اقبال کا یہ مصرع ہی سنادیتے۔ ع
مہرو بے مہری و عیاری ویاری ازتست
Thursday, February 28, 2013
Tuesday, February 26, 2013
لیکن ذرا احتیاط کے ساتھ
بات اُس فضا کی ہورہی تھی جس میں مکالمہ ہوسکتا ہے اور جہاں سوالات اُٹھانے والوں کو دشمن کا ایجنٹ کہہ کر سچا ئیوں پر پردہ نہیں ڈال دیا جاتا۔ اس ضمن میں کچھ سوالات ہم نے کل والے کالم میں اٹھائے تھے جن کا تعلق پاکستان کی تاریخ اور سیاست سے تھا ۔ لیکن بہت سے سوالات جو جواب مانگتے ہیں، عالمِ اسلام سے متعلق ہیں اس لیے کہ اگرچہ معیشت ، امن وامان اور سیاست دانوں کی کرپشن کی وجہ سے ہم افغانستان عراق اور صومالیہ کے ساتھ بریکٹ ہوکر رہ گئے ہیں، اس کے باوجود ہم میں سے اکثر پاکستان کو عالمِ اسلام کا لیڈر قرار دینے پر بضد ہیں!
کیا ہم نے اس موضوع پر کبھی مکالمہ کیا ہے کہ پچپن کے قریب مسلمان ملکوں میں سے صرف تین چار ملک آمریت سے بچے ہوئے ہیں۔ ان تین چارملکوں میں بھی پاکستان کی جمہوریت ’’شاہی‘‘ جماعتوں کے پنجۂ وراثت میں جکڑی ہوئی ہے اور ایران ’’جمہوری آمریت‘‘ کا شکار ہے کہ وہاں پارلیمنٹ کے اوپر علما اور فقہا کی ایک جماعت اصل حکمران ہے جس کے بارہ میں سے نصف ارکان نامزد ہوتے ہیں۔ علما کی یہ جماعت (گارڈین کونسل) پارلیمنٹ کے کسی بھی اقدام کو ویٹو کرسکتی ہے۔ سوال جو اُٹھتا ہے یہ ہے کہ آخر مسلمان ملکوں میں جمہوریت کیوں نہ پنپ سکی ؟اکیسویں صدی کا سورج سوا نیزے پر ہے اور مراکش سے لے کرشرقِ اوسط کے پانیوں تک ہم پر بادشاہوں کی حکومت ہے اور شام سے لے کر قازقستان تک ایسے ایسے ’’منتخب ‘‘ حکمران قابض ہیں جو تیس تیس چالیس چالیس سال سے الیکشن ’’جیتتے ‘‘ چلے آرہے ہیں ! لیکن ٹھہریے، ہم ایک اور قضیے کا بھی شکار ہیں۔ ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو مروّجہ جمہوریت کو غیراسلامی قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہم عباسیوں، اُمویوں اور عثمانی ترکوں کی موروثی سلطنتوں کو ’’خلافت‘‘ کہنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جب پوری دنیا میں موروثی بادشاہتوں کا دور دورہ تھا، اسلام نے اس کی عملی طورپر مکمل نفی کی۔ عہد رسالتؐ سے لے کر خلافتِ راشدہ کے عہدتک کسی نے بھی اپنی اولاد کو حکمران نہ ہونے دیا !
ہمیں اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا چاہیے کہ جس سادگی اور احتساب کا دعویٰ ہم کررہے ہیں وہ عملی طورپر صرف ’’غیراسلامی‘‘ جمہوریتوں ہی میں کیوں نظر آتا ہے؟ہم فخر سے کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ حکمران ہونے کے باوجود عدالتوں میں گئے اور ان کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو ایک عام شہری کے ساتھ ہوتا تھا۔ اُسی سانس میں ہم اپنے حکمرانوں کو عدالتوں سے برتر قرار دیتے ہیں۔ کل ہی ہمارے اٹارنی جنرل صاحب نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا ہے کہ ’’صدر اور وزیراعظم کسی عدالت کو جواب دہ نہیں۔‘‘ دوسری طرف امریکی صدر عدالت میں پیش ہوا اور وہ بھی یوں کہ پوری دنیا نے دیکھا اور سُنا۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیل کے صدر کو پولیس سٹیشن پر جاکر نو گھنٹے کی تفتیش بھگتنا پڑی۔ اُس پر کسی خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام تھا۔ اُس روز اسرائیل کی پہلی خاتون چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب بھی تھی جس میں صدر کی شمولیت لازم تھی۔ صدر نے پارلیمنٹ سے باضابطہ چھٹی لی اور تقریب میں شامل ہونے کے بجائے پولیس کا سامنا کیا۔ چند ماہ پیشتر حافظ سعید صاحب پاکستانی حکمرانوں کے اللّوں تللّوں کے خلاف عدالتِ عالیہ میں گئے اور انہوں نے اسلامی طرزِ زندگی کے ضمن میں برطانوی وزیراعظم کی سرکاری قیام گاہ کا حوالہ دیا !(اس مقدمے کا کیا بنا؟یہ ایک اور سوال ہے!) ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جن سے یہ حقیقت کسی ابہام کے بغیر بدر جہ اُتم ثابت ہوتی ہے کہ جوفخر یہ دعوے ہم کرتے ہیں، ان کی عملی تعبیر فقط یہود وہنود کے ہاں پائی جارہی ہے۔ آخر کیوں؟۔ اور پھر اس سوال کا جواب بھی دینا ہوگا کہ ہمیں شرم تک کیوں نہیں آتی۔ صرف من موہن سنگھ کا معیارِ زندگی ہی ہمارے ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے۔ مہنگائی کے خلاف احتجاجی جلوسوں میں اس کی بیوی بھی شریک ہوتی ہے۔ ایک بیٹی دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہے۔ دوسری مصنفہ ہے اور تیسری وکالت کررہی ہے۔ یہ سرکاری تقاریب میں جاتی ہیں نہ پریس میں ان کی تصویریں اور خبریں آتی ہیں۔ آخر ہمیں اس سوال کا جواب کیوں نہیں ملتا کہ بھارتی صدر کا صاحبزادہ سرکاری تقاریب میں صدر کے دائیں طرف کیوں نہیں بیٹھتا ؟ بھارتی وزیراعظم کا داماد ورلڈ بینک میں ’’تعینات‘‘ کیوں نہیں ہوتا؟ بھارتی وزیراعظم کا بیٹا دھڑلے سے کیوں نہیں دعویٰ کرتا کہ وہ ایسی بُلٹ پروف گاڑی ایک اور بھی خرید سکتا ہے۔ آخر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کی چارسرکاری قیام گاہیں کیوں نہیں؟ بھارتی وزیرِاعظم چکوال سے ہجرت کرکے گیا، اگر ہمارے ہاں اربوں روپے کے خرچ سے ’’جاتی اُمرا‘‘ بن سکتا ہے تو بے وقوف من موہن سنگھ اربوں روپے لگاکر چکوال کا ’’گاہ‘‘ کیوں نہیں بناتا؟ بھارتی پنجاب کے چیف منسٹر کا صاحبزادہ پورے صوبے کی پولٹری صنعت پر قبضہ کیوں نہیں کررہا۔ ہماری پارلیمنٹ کو (جس میں ٹیکس چور اور مجرم بالکل نہیں بیٹھے ہوئے)اس سوال پر ضرور بحث کرنی چاہیے کہ یہود وہنود کے رہنما لندن کے ہیرڈ، یونان کے جزیرے اور ہسپانیہ کے ساحلی قصبے کیوں نہیں خریدتے؟ اور ان بدبختوں کے پاس فرانسیسی اور برطانوی محلات کی چابیاں کیوں نہیں؟
ہمیں اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا چاہیے کہ ہماری مقدّس ترین مساجد میں چلنے والے ایئرکنڈیشنر پلانٹ، منیٰ میں چلنے والی ریل گاڑیاں اور ہمارے حاجیوں کو ڈھونے والے جہاز کہاں تیار ہوتے ہیں اور ہم خود کیوں نہیں بناسکتے؟ اُندلس اور بغداد کے عالی شان مدارس کا تذکرہ کرکرکے ہماری زبانیں تھکاوٹ سے شل ہوچکی ہیں اور سُن سُن کر کان پک چکے ہیں لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ پچپن مسلمان ملکوں کے لائق طالب علم لندن اور امریکہ کی درسگاہوں میں کیوں پڑھ رہے ہیں اور جو وہاں نہیں جاسکتے ، جانے کے لیے کیوں تڑپ رہے ہیں۔ ہم بوعلی سینا اور دوسرے اطباّ کی داستانیں بیان کرتے ہیں اور جراحی کے ناقابل یقین واقعات سناتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب نہیں تلاش کرتے کہ ہم لندن، ہیوسٹن ،نیویارک، پیرس، سنگاپور اور سڈنی کے شفاخانوں ہی کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ بائی پاس آپریشن کا آغاز اوقیانوس کے اُس پار ہی کیوں ہوا؟ جگر کی پیوندکاری کسی مسلمان ملک میں کیوں نہ شروع ہوسکی؟
یہ محض چند سوالات ہیں جن کے جواب ہمیں تلاش کرنے چاہئیں ۔ بے شمار سوالات اور بھی ہیں لیکن ؎
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
ان سوالوں کا جواب ضرور تلاش کیجیے لیکن ذرا احتیاط کے ساتھ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری طرح آپ پر بھی ایجنٹ ہونے کا الزام لگ جائے۔
کیا ہم نے اس موضوع پر کبھی مکالمہ کیا ہے کہ پچپن کے قریب مسلمان ملکوں میں سے صرف تین چار ملک آمریت سے بچے ہوئے ہیں۔ ان تین چارملکوں میں بھی پاکستان کی جمہوریت ’’شاہی‘‘ جماعتوں کے پنجۂ وراثت میں جکڑی ہوئی ہے اور ایران ’’جمہوری آمریت‘‘ کا شکار ہے کہ وہاں پارلیمنٹ کے اوپر علما اور فقہا کی ایک جماعت اصل حکمران ہے جس کے بارہ میں سے نصف ارکان نامزد ہوتے ہیں۔ علما کی یہ جماعت (گارڈین کونسل) پارلیمنٹ کے کسی بھی اقدام کو ویٹو کرسکتی ہے۔ سوال جو اُٹھتا ہے یہ ہے کہ آخر مسلمان ملکوں میں جمہوریت کیوں نہ پنپ سکی ؟اکیسویں صدی کا سورج سوا نیزے پر ہے اور مراکش سے لے کرشرقِ اوسط کے پانیوں تک ہم پر بادشاہوں کی حکومت ہے اور شام سے لے کر قازقستان تک ایسے ایسے ’’منتخب ‘‘ حکمران قابض ہیں جو تیس تیس چالیس چالیس سال سے الیکشن ’’جیتتے ‘‘ چلے آرہے ہیں ! لیکن ٹھہریے، ہم ایک اور قضیے کا بھی شکار ہیں۔ ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو مروّجہ جمہوریت کو غیراسلامی قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہم عباسیوں، اُمویوں اور عثمانی ترکوں کی موروثی سلطنتوں کو ’’خلافت‘‘ کہنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جب پوری دنیا میں موروثی بادشاہتوں کا دور دورہ تھا، اسلام نے اس کی عملی طورپر مکمل نفی کی۔ عہد رسالتؐ سے لے کر خلافتِ راشدہ کے عہدتک کسی نے بھی اپنی اولاد کو حکمران نہ ہونے دیا !
ہمیں اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا چاہیے کہ جس سادگی اور احتساب کا دعویٰ ہم کررہے ہیں وہ عملی طورپر صرف ’’غیراسلامی‘‘ جمہوریتوں ہی میں کیوں نظر آتا ہے؟ہم فخر سے کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ حکمران ہونے کے باوجود عدالتوں میں گئے اور ان کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو ایک عام شہری کے ساتھ ہوتا تھا۔ اُسی سانس میں ہم اپنے حکمرانوں کو عدالتوں سے برتر قرار دیتے ہیں۔ کل ہی ہمارے اٹارنی جنرل صاحب نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا ہے کہ ’’صدر اور وزیراعظم کسی عدالت کو جواب دہ نہیں۔‘‘ دوسری طرف امریکی صدر عدالت میں پیش ہوا اور وہ بھی یوں کہ پوری دنیا نے دیکھا اور سُنا۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیل کے صدر کو پولیس سٹیشن پر جاکر نو گھنٹے کی تفتیش بھگتنا پڑی۔ اُس پر کسی خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام تھا۔ اُس روز اسرائیل کی پہلی خاتون چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب بھی تھی جس میں صدر کی شمولیت لازم تھی۔ صدر نے پارلیمنٹ سے باضابطہ چھٹی لی اور تقریب میں شامل ہونے کے بجائے پولیس کا سامنا کیا۔ چند ماہ پیشتر حافظ سعید صاحب پاکستانی حکمرانوں کے اللّوں تللّوں کے خلاف عدالتِ عالیہ میں گئے اور انہوں نے اسلامی طرزِ زندگی کے ضمن میں برطانوی وزیراعظم کی سرکاری قیام گاہ کا حوالہ دیا !(اس مقدمے کا کیا بنا؟یہ ایک اور سوال ہے!) ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جن سے یہ حقیقت کسی ابہام کے بغیر بدر جہ اُتم ثابت ہوتی ہے کہ جوفخر یہ دعوے ہم کرتے ہیں، ان کی عملی تعبیر فقط یہود وہنود کے ہاں پائی جارہی ہے۔ آخر کیوں؟۔ اور پھر اس سوال کا جواب بھی دینا ہوگا کہ ہمیں شرم تک کیوں نہیں آتی۔ صرف من موہن سنگھ کا معیارِ زندگی ہی ہمارے ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے۔ مہنگائی کے خلاف احتجاجی جلوسوں میں اس کی بیوی بھی شریک ہوتی ہے۔ ایک بیٹی دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہے۔ دوسری مصنفہ ہے اور تیسری وکالت کررہی ہے۔ یہ سرکاری تقاریب میں جاتی ہیں نہ پریس میں ان کی تصویریں اور خبریں آتی ہیں۔ آخر ہمیں اس سوال کا جواب کیوں نہیں ملتا کہ بھارتی صدر کا صاحبزادہ سرکاری تقاریب میں صدر کے دائیں طرف کیوں نہیں بیٹھتا ؟ بھارتی وزیراعظم کا داماد ورلڈ بینک میں ’’تعینات‘‘ کیوں نہیں ہوتا؟ بھارتی وزیراعظم کا بیٹا دھڑلے سے کیوں نہیں دعویٰ کرتا کہ وہ ایسی بُلٹ پروف گاڑی ایک اور بھی خرید سکتا ہے۔ آخر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کی چارسرکاری قیام گاہیں کیوں نہیں؟ بھارتی وزیرِاعظم چکوال سے ہجرت کرکے گیا، اگر ہمارے ہاں اربوں روپے کے خرچ سے ’’جاتی اُمرا‘‘ بن سکتا ہے تو بے وقوف من موہن سنگھ اربوں روپے لگاکر چکوال کا ’’گاہ‘‘ کیوں نہیں بناتا؟ بھارتی پنجاب کے چیف منسٹر کا صاحبزادہ پورے صوبے کی پولٹری صنعت پر قبضہ کیوں نہیں کررہا۔ ہماری پارلیمنٹ کو (جس میں ٹیکس چور اور مجرم بالکل نہیں بیٹھے ہوئے)اس سوال پر ضرور بحث کرنی چاہیے کہ یہود وہنود کے رہنما لندن کے ہیرڈ، یونان کے جزیرے اور ہسپانیہ کے ساحلی قصبے کیوں نہیں خریدتے؟ اور ان بدبختوں کے پاس فرانسیسی اور برطانوی محلات کی چابیاں کیوں نہیں؟
ہمیں اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا چاہیے کہ ہماری مقدّس ترین مساجد میں چلنے والے ایئرکنڈیشنر پلانٹ، منیٰ میں چلنے والی ریل گاڑیاں اور ہمارے حاجیوں کو ڈھونے والے جہاز کہاں تیار ہوتے ہیں اور ہم خود کیوں نہیں بناسکتے؟ اُندلس اور بغداد کے عالی شان مدارس کا تذکرہ کرکرکے ہماری زبانیں تھکاوٹ سے شل ہوچکی ہیں اور سُن سُن کر کان پک چکے ہیں لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ پچپن مسلمان ملکوں کے لائق طالب علم لندن اور امریکہ کی درسگاہوں میں کیوں پڑھ رہے ہیں اور جو وہاں نہیں جاسکتے ، جانے کے لیے کیوں تڑپ رہے ہیں۔ ہم بوعلی سینا اور دوسرے اطباّ کی داستانیں بیان کرتے ہیں اور جراحی کے ناقابل یقین واقعات سناتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب نہیں تلاش کرتے کہ ہم لندن، ہیوسٹن ،نیویارک، پیرس، سنگاپور اور سڈنی کے شفاخانوں ہی کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ بائی پاس آپریشن کا آغاز اوقیانوس کے اُس پار ہی کیوں ہوا؟ جگر کی پیوندکاری کسی مسلمان ملک میں کیوں نہ شروع ہوسکی؟
یہ محض چند سوالات ہیں جن کے جواب ہمیں تلاش کرنے چاہئیں ۔ بے شمار سوالات اور بھی ہیں لیکن ؎
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
ان سوالوں کا جواب ضرور تلاش کیجیے لیکن ذرا احتیاط کے ساتھ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری طرح آپ پر بھی ایجنٹ ہونے کا الزام لگ جائے۔
Monday, February 25, 2013
اگر جان کی امان ملے
بہتا ہوا پانی صاف ہے۔ اُسے پیتے بھی ہیں۔ اُس سے وضو بھی کیا جا سکتا ہے۔ ’’آبِ رواں‘‘ ادب میں ہمیشہ خوشگوار علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے ؎
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
ٹھہرا ہوا پانی آخر کار تعفّن کا منبع بنتا ہے۔ اُس سے بیماریاں نکلتی ہیں۔ اس میں بیماریاں پھیلانے والے کیڑے پرورش پاتے ہیں۔ لوگ وہاں سے گزرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی حال سوالات کا ہے۔ جس معاشرے میں سوالات کرنے کی آزادی ہو اور سوالوں کے جواب دینے کا کلچر ہو، وہ بہتے پانی کی طرح صاف ہوتا ہے۔ وہاں بدبو کا بسیرا ہوتا ہے نہ غلیظ کیڑے مکوڑے پرورش پا سکتے ہیں، مکالمہ جاری رہتا ہے۔ مغالطے پیدا ہوتے ہیں تو رفع بھی ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں لوگ شخصیات نہیں بلکہ آئیڈیاز کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں۔ ان معاشروں کا ایک طرۂ امتیاز برداشت بھی ہے۔ سوالات جیسے بھی ہوں‘ کوئی پسند کرے یا نہ کرے‘ برداشت کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جوابات بھی برداشت کیے جاتے ہیں۔ خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے تو چراغ سے چراغ جلتے ہیں اور عقلی حوالے سے معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔ اس کے برعکس جس معاشرے میں مکالمے کا کلچر نہ ہو اور سوالات پوچھنے کی آزادی نہ ہو وہ ٹھہرے ہوئے پانی کے مانند متعفن ہو جاتا ہے۔ ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات باہر نہیں آ پاتے تو تخریب کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے معاشرے پر عدم برداشت کی حکمرانی ہوتی ہے۔ لوگ سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہیں اور بات کرنے سے پہلے اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں۔ یہی وہ ماحول ہے جس کے بارے میں ’’دیوار ہم گوش دارد‘‘ کہا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ تار و پود بکھر جاتا ہے۔ ’’تمّت‘‘ کا مرحلہ آ جاتا ہے۔ یہ تمّت بالخیر نہیں ہوتی! اور منظرنامہ کچھ اس قسم کا ہو جاتا ہے ؎
نعرے، ہجوم، گولیاں، لاشے، لہو، تڑپ
گھر سے نکل کے دیکھ‘ بڑی چہل پہل ہے
آج کا پاکستانی معاشرہ ٹھہرا ہوا پانی ہے۔ اس میں لاکھوں کروڑوں ڈینگی مچھر پرورش پا رہے ہیں۔ مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ذہنوں میں سوالات کا انبار ہے۔ افسوس! یہ سوالات دن کی روشنی نہیں دیکھ سکتے۔ یہ پوچھے جا سکتے ہیں نہ کسی میں ان کا جواب سننے کا حوصلہ ہے۔ تیر و تبر اور خنجر و شمشیر کو زندگی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ چوراہوں پر میزائل نصب ہیں۔ گھروں میں دیواروں پر تلواریں سجی ہیں۔ بندوقوں‘ مشین گنوں‘ توپوں اور بمبار جہازوں کے ماڈل ڈرائنگ روموں میں سجاوٹ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ بچے ہوش سنبھالتے ہیں تو جو نعرے اُن کے کانوں میں پڑتے ہیں وہ اس قسم کے ہیں۔ ’’لے کے رہیں گے، ماریں گے، مر جائیں گے، تباہ کر دیں گے، کڑا کے نکال دیں گے‘‘ ملک کا حال یہ ہے کہ انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ توانائی عنقا ہے‘ اندھیروں کا راج ہے‘ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم‘ غریب کو موت کی طرف دھکیل رہی ہے اور امیر کے کارخانے اور محلات بیرون ملک پھیل رہے ہیں لیکن پسے ہوئے مفلوک الحال عوام کو کوئی تو یہ خوشخبری دے رہا ہے کہ جلد فلاں قلعے پر ہمارا پرچم لہرا رہا ہوگا اور کوئی اسّی سال کا ہو کر بھی ایک ہی سبق سکھانے پر تُلا ہوا ہے کہ ایٹم بم چلا دو!
آیئے‘ آج ہمت کرکے ذہنوں میں اُٹھنے والے اِن سوالات میں سے کم از کم چند کا تو سامنا کریں۔
ہم میں سے کچھ کا پسندیدہ ملک سعودی عرب ہے اور کچھ کا ایران۔ مگر جو کچھ ہمارے ہاں کھلے عام ہو رہا ہے، اُس کی اُن ملکوں میں کیوں اجازت نہیں؟ کیا سعودی عرب اور ایران میں عقائد کی بنیاد پر گروہ بنانا ممکن ہے؟ کیا وہاں اہلِ سنت والجماعت‘ تنظیم اہلِ حدیث‘ سپاہِ محمد‘ سپاہِ صحابہ‘ وحدت المسلمین‘ جمعیۃ العلماء پاکستان اور جمعیۃ العلماء اسلام جیسی تنظیمیں بنانے اور چلانے کی اجازت ہے؟ کیا ایران میں سنیوں کی الگ مسجدیں موجود ہیں؟ آج تک اُن ملکوں پر کسی نے اس بنیاد پر کفر یا الحاد کا الزام نہیں لگایا کہ وہاں اس قبیل کی تنظیموں کا وجود تو کیا‘ محض سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ تو پھر یہ سب کچھ ہمارے ہاں کیوں ہو رہا ہے؟
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قائداعظمؒ کی شخصیت میں سحر اور کرشماتی اثر تھا۔ عوام انگریزی سے نابلد تھے لیکن پھر بھی دم بخود ہو کر ان کی تقریریں سنتے تھے۔ تو پھر یونینسٹ پارٹی کے ٹوڈیوں اور ملکہ کی پرستش کرنے والے جاگیرداروں کو مسلم لیگ میں کیوں لایا گیا؟ آخر مسلم لیگ کی کون سی مجبوری تھی کہ بے پناہ مقبولیت کے باوصف وہ یونینسٹ پارٹی کی محتاج ہو گئی؟
تقسیمِ ہند کے تین سال بعد بھارت میں زرعی اصلاحات نافذ کر دی گئیں۔ یہ اصلاحات اس طرح کی نہیں تھیں کہ جاگیریں نوکروں یا غریب رشتہ داروں کے نام کرا کر پاس ہی رکھ لی گئیں۔ یہ اصلاحات حقیقی اصلاحات تھیں۔ فی کس زرعی زمین بھارت میں اس قدر کم ہے کہ پاکستان میں اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ کیا وجہ ہے کہ یہ اصلاحات پاکستان میں نافذ نہ کی جا سکیں۔ یہاں آج بھی اتنے بڑے بڑے جاگیردار‘ زمیندار اور سردار ہیں کہ جیپ چلتی رہے‘ چلتی رہے‘ چلتی رہے‘ پھر بھی جاگیر نہیں ختم ہوتی!
کیا قائداعظمؒ کی کسی تقریر میں‘ تقسیم سے پہلے یا بعد‘ زرعی اصلاحات کا ذکر ہوا ہے؟ کیا کسی کو معلوم ہے کہ قائداعظمؒ کے ذہن میں زرعی اصلاحات کا کیا پلان تھا؟ تھا بھی کہ نہیں؟
ملک پر اُن گروہوں کی حکومت کیوں ہے جو فخر سے‘ چھاتی پر ہاتھ مار کر‘ کہتے ہیں کہ ہم یہ ملک بنانے کے گناہ میں شامل نہیں؟ آخر یہ لوگ اقتدار کے کیک سے اتنا بڑا ٹکڑا لینے میں کیونکر کامیاب ہو گئے؟
ہمارا ملک بننے کے صرف چوبیس سال بعد ٹوٹ کر دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ یہ بٹوارہ اتنا ہولناک تھا کہ پچانوے ہزار جنگی قیدی بھارت کے ہاتھ لگے۔ اسلامی تاریخ میں غالباً ایسی کوئی مثال اس سے پہلے موجود نہ تھی۔ باقی ماندہ پاکستان میں جو کشت و خون ہو رہا ہے‘ شرم ناک ہے اور عبرت ناک بھی۔ کوئٹہ‘ کراچی‘ پشاور موت کے گڑھ بن چکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہجرت کر رہے ہیں اور اربوں روپے کا سرمایہ دوسرے ملکوں کو منتقل ہو رہا ہے۔ افق پر روشنی کی کوئی لکیر نہیں نظر آ رہی۔ کیا پھر بھی ہم ناکام ریاست نہیں ہیں؟ تو پھر دنیا بھر کے دانشور‘ جن میں مسلمان ملکوں کے دانشور بھی شامل ہیں‘ پاکستان کو کامیاب ریاست کہنے سے ہچکچاتے کیوں ہیں؟
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم پر وہ لوگ حکمرانی کر رہے ہیں جو اخلاقی اور مالی برائیوں کے گٹھڑ ہیں؟ ترقی یافتہ ملکوں میں‘ جو مسلمان ہی نہیں‘ آخر اُن حکمرانوں کو کیوں نہیں برداشت کیا جاتا جو جھوٹ بولتے ہیں اور مالی اور اخلاقی برائیوں میں (جو اُن معاشروں میں برائیاں سمجھی جاتی ہیں) مبتلا پائے جاتے ہیں؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم‘ بحیثیت قوم‘ بادشاہ پرست ہیں اور جمہوریت ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتی؟ بیس پچیس سالہ بلاول کے حضور وہ سیاست دان دست بستہ ہیں جن کی عمریں اِس میدان میں گزر گئیں۔ حمزہ شہباز اور مونس الٰہی اُن کرسیوں پر رونق افروز ہیں جہاں چالیس چالیس سال آبلہ پائی کرنے والے سیاست دان نہیں پہنچ سکے۔ کراچی کے عوام‘ کیا مرد اور کیا عورتیں‘ جس مکمل اطاعت اور آمنّا و صدقنا کے ساتھ‘ فرش پر آلتی پالتی مارے‘ ہزاروں میل دُور سے کی جانے والی تقریریں سنتے ہیں‘ کیا جبر و قدر کی اُس حالت سے مختلف ہے جو مغل درباروں میں رائج تھی؟
یہ وہ چند سوالات ہیں جو پاکستان کے حوالے سے ذہنوں میں اٹھتے ہیں اور جواب نہیں پاتے‘ نہ پسند ہی کیے جاتے ہیں۔ اگلی نشست میں ہم چند ایسے سوالات اٹھائیں گے جو عالمِ اسلام سے متعلق ہیں۔
Friday, February 22, 2013
بھاگ مسافر میرے وطن سے
کیا معصوم خواہش تھی اس جٹی کی جو حجرہ شاہ مقیم کی تھی! پانچ سات پڑوسنیں مر جائیں، اور باقی کو تپ چڑھ جائے۔ کراڑ کی ہٹی (بنیے کی دکان) میں آگ لگ جائے کہ وہاں رات گئے تک چراغ جلتا رہتا ہے۔ فقیر کی کتیا ہلاک ہو جائے جو ہر وقت بھونکتی رہتی ہے۔ جب گلیاں ویران ہو جائیں اور کوئی بھی دیکھنے والا باقی نہ بچے تو پھر میرا یار آئے اور ان گلیوں میں خراماں خراماں چلے۔
پتہ نہیں جٹی کی یہ معصوم خواہش پوری ہوئی تھی یا نہیں، لیکن پاکستان میں گلیاں ویران ہونے کو ہیں۔
کراچی کے ایک بڑے کلب کے، جو اشرافیہ کا پسندیدہ ہے، تیس فیصد ارکان گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران پاکستان کو خیر باد کہہ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ کلب کو اس کا اندازہ یوں ہوا کہ اس کی ماہانہ آمدنی لاکھوں کے حساب سے کم ہو گئی۔ تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ایک ہزار تین سو اسی معزز ممبران امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات منتقل ہو گئے ہیں، ممبروں کی کل تعداد چار ہزار ہے۔ جو ارکان بیرون ملک نہیں گئے، انہوں نے اپنے اہل خانہ کو اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں سے محفوظ رکھنے کے لیے باہر بھیج دیا ہے۔ یہ بھی آمدنی میں کمی کا سبب بن گیا۔
کلمہ پڑھنے والوں کی باری اب آئی ہے لیکن گلیاں ویران ہونے کا آغاز ستر کی دہائی میں اس وقت ہو گیا تھا جب مرد مومن مرد حق منتخب حکومت کا گلا گھونٹ کر تخت پر رونق افروز ہوئے تھے۔ اس زمانے میں کراچی صدر کا علاقہ، بالخصوص ایمپریس مارکیٹ اور
بوہری بازار کے اردگرد گلی کوچے پارسیوں اور عیسائیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ راولپنڈی چھائونی کے علاقے میں بھی کرسچین برادری کی بہت بڑی تعداد آباد تھی۔ اینگلو انڈین بھی موجود تھے۔ جی ایچ کیو، ملٹری اکائونٹس اور کئی دوسرے شعبوں میں رونق انہی کے دم قدم سے تھی۔ لیکن پھر ملک کی مجموعی فضا میں عدم برداشت کا زہر سرایت کرتا گیا۔ ضیاء الحق کا مذہب کا فہم ایک نیم خواندہ مُلّا کے فہم سے زیادہ نہیں تھا۔ اس کے طویل آمرانہ دور میں اسلام لوگوں کی زندگیوں میں تو نہ آ سکا، ہاں سطح کے اوپر اوپر مذہب کا خوب چرچا ہوا۔ ظاہر مذہبی ہو گیا اور باطن میں کچھ بھی نہ رہا۔ ضیاء الحق کا دور ختم ہونے تک، کیا کراچی اور کیا راولپنڈی، پارسی، عیسائی، اینگلو انڈین… سب اڑنچھو ہو گئے۔
اور اب ہیومن رائٹس گروپوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ایک سو اکاون ہندوئوں نے بھارت جا کر پناہ طلب کر لی ہے۔ 2011ء میں سات ہزار ہندو بھارت گئے لیکن واپس صرف چھ ہزار آئے۔ جب بھی کوئی قافلہ جاتا ہے، ساٹھ سے ستر فیصد مسافر واپس نہیں آتے اور وہیں پناہ طلب کر لیتے ہیں۔ پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رامیش کمار کا دعویٰ ہے کہ سندھ سے ہر ہفتے بیس سے پچیس خاندان ہجرت کرکے بھارت کا رُخ کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال عین اقلیتوں کے دن، یعنی گیارہ اگست کو ایک سو چار ہندو سرحد عبور کرکے بھارت چلے گئے۔ دو دن بعد تیس پاکستانی ہندوئوں کا ایک اور گروہ سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے امرتسر پہنچا اور پہنچ کر اعلان کیا کہ وہ واپس نہیں جانا چاہتے۔ انہی دنوں ہندو پنچایت کے صدر لچھمن داس پروانی نے، جو سندھ اسمبلی کے سابق رکن بھی ہیں، بتایا کہ ایک مہینے میں ستر ہندو گھرانے لوٹے گئے اور دو نوجوان ہندو لڑکے اغوا برائے تاوان کے نتیجے میں ہلاک کر دیے گئے۔ میرپور خاص کے ہندو خاص طور پر ان سرگرمیوں کا نشانہ بنائے جا رہے تھے۔ چنانچہ درجنوں خاندان وہاں سے ہجرت کرکے سرحد پار چلے گئے۔
تاہم اب پاکستان چھوڑنے کے میدان میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں ایک ہی رفتار سے دوڑ رہے ہیں۔ ہزارہ جس بے دردی اور تواتر سے موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں اس کے پیش نظر علمدار روڈ کوئٹہ کے ہر مکین کی خواہش اور کوشش ہے
کہ وہ جلد از جلد یہ ملک چھوڑ جائے۔ چند دن پیشتر ایک معروف صحافی نے لکھا ہے کہ یہ قتل و غارت مذہبی گروہ نہیں، بلکہ بعض دوسری قوتیں کرا رہی ہیں تاکہ ہزارہ کی اونے پونے بکنے والی جائیدادیں خریدی جا سکیں۔
تاجروں اور صنعتکاروں کی کثیر تعداد دوسرے ملکوں کو ہجرت کر رہی ہے۔ ہزاروں بزنس مین کروڑوں روپے کا سرمایہ لے کر ملائیشیا چلے گئے ہیں۔ کپڑا بنانے والوں نے کراچی سے اپنے کارخانے اُکھاڑ کر بنگلہ دیش میں جا لگائے ہیں۔ صنعت کاروں کی بھاری تعداد ڈھاکہ، چٹاگانگ اور سلہٹ منتقل ہو گئی ہے۔
دوسری طرف ٹیکنوکریٹ بھی لاکھوں کی تعداد میں ملک چھوڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکائونٹینٹ، سائنس دان اور پروفیسر مغربی ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر طویل قطاریں باندھے کھڑے ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ ؎
بھاگ مسافر میرے وطن سے، میرے وطن سے بھاگ
اُوپر اُوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
ایک سروے کے مطابق 2008ء میں پاکستان کے چھ فیصد لوگ بیرون ملک آباد ہونا چاہتے تھے لیکن آج یہ تعداد بیس فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ لگتا ہے ایک وقت ایسا آ جائے گا کہ یا تو سیاست دان ملک میں رہ جائیں گے یا بندوق بردار مذہبی گروہ۔ گجرات، رائے ونڈ، گڑھی خدا بخش، چارسدہ، لکی مروت، ڈی آئی خان، ملتان، جھنگ، ہالہ اور کراچی کے مخصوص سیاسی خانوادے، جاگیردار اور مذہبی مافیا کے ارکان ہی ملک میں نظر آئیں گے۔ پھر امرا کے یہ طبقات ڈاکٹروں، انجینئروں، سائنس دانوں اور پروفیسروں کو درآمد کرکے اپنی ضروریات پوری کیا کریں گے کیونکہ تمام پڑھی لکھی آبادی جا چکی ہوگی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تکبر سے کہا تھا کہ جو ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں، چلے جائیں، اُنہیں روکتا کون ہے! انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ سب تعلیم یافتہ پاکستانی ہجرت کر گئے تو ان کے صاحبزادوں کی جگہ امتحان کون دے گا؟
ذرا اس منظر کا تصور کیجیے۔ فقیر کی کتیا مر گئی ہے۔ بنیے کی دکان نذر آتش ہو گئی ہے۔ پڑوسنیں کچھ مر گئی ہیں اور کچھ بستروں میں لیٹی ہائے ہائے کر رہی ہیں۔ گلیاں سنسان ہیں اور مرزا یار ان میں خراماں خراماں چل رہا ہے۔ اپنے تین شعر یاد آ رہے ہیں ؎
یہاں سے پہلے تو کچھ بے نوا ہجرت کریں گے
پھر اک دن سب پرندے دیکھنا ہجرت کریں گے
کوئی منظر نہیں ہوگا نہ کوئی آنکھ ہوگی
ہوا اور پھول تارے اور گھٹا ہجرت کریں گے
بکھیرو سرحدوں پر پھول اور سلگائو لوبان
کہ اب اک دن تمہارے بادشہ ہجرت کریں گے
Thursday, February 21, 2013
دو رنگی چھوڑ دے‘ یک رنگ ہو جا
کسی معاملے کو حساس کہہ کر اس سے کتنا صرف نظر کیا جا سکتا ہے؟ کوڑا کرکٹ قالین سے ڈھانپ دیا جائے تو کب تک ڈھکا رہ سکتا ہے؟ ادب و احترام کا بہانہ بنا کر لوگوں کو واشگاف رائے دینے سے کب تک باز رکھا جا سکتا ہے؟ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن ایک محدود مدت کے لیے! وقت خاموش رہنے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔
مولانا فضل اللہ، مسلم خان، بیت اللہ محسود اور اس قسم کے دیگر حضرات نے ایک مخصوص مکتبِ فکر کی نمائندگی کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد صرف دو امکانات تھے۔ پہلا یہ کہ وہ واقعی اس مخصوص مکتبِ فکر کے نمائندہ تھے۔ دوسرا یہ کہ وہ نمائندہ نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے نمائندہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کس نے کرنا تھا؟
یہ تھا وہ موڑ جہاں علماء کرام کی رہنمائی کی ضرورت تھی۔ اس مخصوص مکتبِ فکر کے ثقہ اور مسلمہ علماء کرام کا فرض تھا کہ وہ قوم کی رہنمائی کرتے اور بتاتے کہ ہاں! یہ حضرات درست کہہ رہے ہیں یہ واقعی ہمارے مکتبِ فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں اور یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں، ہمارا مسلک اس کی تائید کرتا ہے۔ یا یہ وضاحت کرتے کہ نہیں، ان لوگوں کا ہمارے مکتبِ فکر سے کوئی تعلق نہیں۔ تو کیا علماء کرام نے اس معاملے میں رہنمائی کی؟ جواب نفی میں ہے!
ستم ظریفی یہ ہے کہ ان علماء کرام نے اس مسئلے پر بحث ہی نہیں کی لیکن جیسا کہ ہم نے آغاز میں کہا ہے کہ کوڑا کرکٹ قالین کے نیچے زیادہ دیر تک چھپا نہیں رہ سکتا، بالآخر سچ خود اسی مکتبِ فکر کے ہاں سے ظاہر ہونا شروع ہو رہا ہے۔ پہلے تو سعودی عرب کے ایک ایسے اخبار نے علماء کرام کی ناکامی کا اعتراف کیا جو سعودی عرب کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔ یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ سعودی عرب کی حکومت اور علماء کرام کا اسی مکتبِ فکر سے تعلق ہے جس کی ہم بات کر رہے ہیں۔ اخبار نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میںانتہا پسندی کے حوالے سے ایک مضمون شائع کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ پاکستانی علماء اس ضمن میں کچھ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ جو آواز بلند کرتے ہیں اور طالبان پر تنقید کرتے ہیں، مار دیے جاتے ہیں۔ کچھ موقع پرست ہیں اور طالبان کے جرائم پر خاموش رہتے ہیں۔ تیسرے گروہ نے عافیت کو چنا ہے اور سکوت اختیار کیا ہے۔
اس مکتب فکر کے ایک معروف عالم دین مولانا طاہر اشرفی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کم و بیش انہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’تکفیری حضرات ہمارے (یعنی ہمارے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے) نوجوانوں کے مائنڈ سیٹ کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ اس کا سبب مولانا اشرفی بتاتے ہیں… ’’مسئلہ یہ ہے کہ علماء نے نوجوانوں کو ان تاریک راہوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی ان کی سوچ کو متاثر کیا۔‘‘
تاریخ میں ایسا بھی کم ہی ہوا ہوگا کہ ایک پورے کا پورا مکتب فکر ایک انتہائی اہم موقع پر خاموش ہو گیا ہو۔ تائید نہ تردید، تعریف نہ تنقید نہ تنقیص! کچھ بھی تو نہیں! حافظؔ شیرازی نے کہا تھا ؎
مشکلِ خویش برِ پیر فُغاں بُردم دوش
کو بتائیدِ نظر حلِّ معّما می کرد
دیدمش خُرم و خَندان، قَدح بادہ بدست
وندران آئینہ صد گونہ تماشا می کرد
گفتم این جامِ جہان بین بتو کی داد‘ حکیم
گفت آن روز کہ این گنبد مینا می کرد
(ترجمہ)میں کل اپنی مشکل پیرِ مغاں کے حضور لے گیا اس لیے کہ وہ اپنی نظروں ہی سے گتھی سلجھا دیتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ خوش و خرم، ہاتھ میں ساغر پکڑے ہے۔ ساغر کیا تھا بس ایک آئینہ تھا اور پیرِ مغاں اس میں سو طرح کے مناظر دیکھ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ جامِ جہاں نما تجھے کب ملا، کہنے لگا، اس روز جب یہ گنبدِ مینا بنایا جا رہا تھا!
لیکن آج کوئی پیرِ مغاں نہیں جس کے پاس کوئی اپنی مشکل لے جائے اور اگر کوئی دعویٰ کرتا بھی ہے تو اس کے پاس جامِ جہاں نما نہیں ہے!
جب مولانا فضل اللہ اور ان کے ساتھیوں نے سکول تباہ کرنے شروع کیے اور تشدّد کو اپنا نشان قرار دیا تو لازم تھا کہ اس مسلک کے علماء کرام کھل کر سامنے آتے اور سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتے۔ پھر معاملہ اور آگے بڑھا اور انہوں نے ایک ایسے شخص کی میت قبر سے باہر نکال کر چوراہے پر لٹکا دی جو لوگوں کی بڑی تعداد کے نزدیک محترم تھا! یہ ایک ایسی وحشیانہ حرکت تھی جس کی اسلام اجازت دیتا تھا نہ مقامی ثقافت لیکن اس پر بھی علماء کرام خاموش رہے پھر معاملہ مزید آگے بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ مزاروں پر دھماکے ہوئے اور لاتعداد بے گناہ مسلمان شہید کر دیے گئے۔
تو پھر کیا علماء کرام ان تمام پُرتشدد کارروائیوں کی حمایت کر رہے تھے؟ خاموشی نیم رضا۔ شاید وہ حمایت کر رہے تھے، وگرنہ وہ اختلاف کرتے۔ علماء کرام بہادر ہیں اور جری۔ وہ بے خوفی سے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر وہ خاموش رہے تو غالباً اس لیے کہ وہ ان تمام کارروائیوں کے حامی تھے! اس نکتے کی وضاحت ایک اور مثال سے ہوتی ہے۔ سوات میں کچھ عرصہ قبل مولانا صوفی محمد نے ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا جس میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ ضرور شریک تھے۔ انہوں نے مجمع سے ہاتھ اٹھا کر حلف لیا کہ ہر شخص سیاہ رنگ کی دستار پہنا کرے گا۔ یہ ایک ایسی پابندی تھی جو اسلام کی پوری تاریخ میں کسی عالمِ دین نے مسلمانوں پر عائد نہیں کی! ایسی پابندی عہدِ رسالت میں لگائی گئی نہ خلفاء راشدین کے عہد میں۔ لیکن پورے ملک میں مولانا صوفی محمد کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء میں سے کسی نے اس اقدام کی مخالفت کی نہ ہی شرعی حوالے سے کوئی وضاحت پیش کی۔ مولانا صوفی محمد کوئی گمنام یا بے بضاعت شخصیت نہیں تھے۔ تو کیا علماء کرام اس حلف کی حمایت کر رہے تھے؟
تشدّد کی کارروائیاں دن بدن زیادہ ہو رہی ہیں۔ وہی مخصوص مکتبِ فکر ہے جو ان کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے۔ یہی کچھ کوئٹہ میں ہوا ہے۔ کیا اب بھی اس مکتبِ فکر کے علماء کرام ان گروہوں کی حمایت یا ان سے لاتعلقی کا واضح اعلان نہیں کریں گے؟
Wednesday, February 20, 2013
Monday, February 18, 2013
غیرملکی شہریت… ایک اور مقدمہ
ڈاکٹر طاہرالقادری بگولے کی طرح آئے اور آندھی بن کر ملک کی سیاسی فضا پر چھا گئے۔ بنیادی موقف جس سے انہوں نے تحریک کا آغاز کیا عوام کے لیے بہت پُرکشش تھا۔ ان کا تھیسس یہ تھا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے خواص کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ لوگوں کو ان کے حقوق نہیں مل رہے اور جو جمہوریت رائج ہے، اس میں قانون کی حکمرانی عنقا ہے۔ تاہم ان کے اس سارے قضیے کی تان الیکشن کمیشن پر ٹوٹی۔ الیکشن کمیشن کی تحلیل اور تشکیلِ نو کے لیے وہ عدالتِ عظمیٰ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب طاہرالقادری نے ملک کی سیاسی فضا پر بے یقینی کی چھتری تان دی۔ بہت سے لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ مقدمہ جیت جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں میں شدید اضطراب پیدا ہوگیا اور بظاہر یوں لگتا تھا کہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کرانے میں ڈاکٹر صاحب کامیاب ہوجائیں گے اور یوں انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہوپائیں گے۔
لیکن سپریم کورٹ نے قدم درست سمت میں بڑھایا۔ عدالتِ عظمیٰ نے طاہرالقادری کی درخواست خارج کردی۔ سیاسی فضا پر چھائی ہوئی بے یقینی کی گھٹا چھٹ گئی۔ انتخابات کے التوا کا امکان ختم ہوگیا۔ جو طالع آزما ٹیکنو کریٹ حکومت کے پردے میں آمریت کے خواب دیکھ رہے تھے‘ ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ انتخابات کو وقتِ مقررہ پر منعقد کرانے کے لیے سپریم کورٹ کا یہ اتنا عظیم الشان کردار ہے جس کی تحسین پورا ملک کررہا ہے۔ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ سیاسی پختگی کی طرف ہم نے ایک اور قدم بڑھایا ہے۔ ایک بڑا قدم۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے طاہرالقادری سے جو سوالات کیے اور جو ریمارکس دیے، ان سے کچھ قواعد وضوابط سامنے آئے ہیں اور کچھ قاعدے کلیے بنے ہیں۔ یہ قواعدوضوابط اور قاعدے کلیے بنیادی طورپر پانچ نکات پر مشتمل ہیں: اول۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لیے کینیڈا کا شہری ہونے کی وجہ سے غیرملکی کا لفظ استعمال کیا۔ دوم۔ یہ کہ پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرنے سے کوئی پاکستانی نہیں بن جاتا۔ سوم ۔ طاہرالقادری نے (یا کینیڈا کی شہریت اختیار کرنے والوں نے) ملکہ الزبتھ کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا، پاکستان کے ساتھ وفاداری کا نہیں۔ چہارم۔ ایسے شخص کی وفاداری منقسم ہوتی ہے۔ پنجم۔ ایک دوسرے ملک اور حکمران کی وفاداری کا حلف اٹھانے والا پاکستان کا وفادار کس طرح ہوسکتا ہے؟
مقدمہ جو ہم پیش کرنا چاہتے ہیں یہ ہے کہ موجودہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کینیڈا کے شہری ہیں۔ ان کے پاس کینیڈا کا پاسپورٹ ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وفاقی حکومت کے وزیر جناب صمصام بخاری نے صدر مملکت کو ایک ریفرنس ارسال کیا۔ 8اگست 2012ء کے قومی اخبارات میں اس ریفرنس کے مندرجات شائع ہوئے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ صدر مملکت نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے اس ریفرنس پر رائے بھی طلب کی۔ صمصام بخاری نے ریفرنس میں الزام لگایا کہ آڈیٹر جنرل نے کئی پاسپورٹ حاصل کیے جن میں کینیڈا کا پاسپورٹ بھی شامل ہے۔ اپنے محکمے کو اطلاع دیے بغیر دہری شہریت حاصل کی اور اس کے لیے حکومت پاکستان سے این او سی تک نہ لیا۔
محکمے کو اطلاع دینا یا حکومت سے این اوسی لینا تو محکمہ جاتی مراحل ہیں۔ ہمارا مقدمہ ان قواعد وضوابط کی بنیاد پر ہے جو طاہرالقادری کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سوالات سے وضع ہوئے۔ چنانچہ جو سوالات ابھرتے ہیں یہ ہیں:
1۔ کیا ایک غیرملکی آڈیٹر جنرل ملک کے آئینی منصب پر فائز ہوسکتا ہے؟
2۔ پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرنے سے کوئی پاکستانی نہیں بن جاتا۔ اس حوالے سے کیا آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو پاکستانی کہا جاسکتا ہے؟
3۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ملکہ الزبتھ سے وفاداری کا حلف اٹھایا، پاکستان سے نہیں۔
4۔ کیا آڈیٹر جنرل کی وفاداری بھی منقسم نہیں ؟
5۔ ایک دوسرے ملک اور حکمران کی وفاداری کا حلف اُٹھانے والا آڈیٹر جنرل پاکستان کا کس طرح وفادار ہوسکتا ہے ؟
منقسم وفاداری رکھنے والے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو ان تمام معلومات تک رسائی حاصل ہے جو حساس ہیں‘ خفیہ ہیں اور نہ صرف خفیہ بلکہ سیکرٹ‘ ٹاپ سیکرٹ اور کلاسیفائڈ ہیں۔ ان میں ایٹمی توانائی والے ادارے بھی ہیں اور اسلحہ کے اعدادوشمار بھی۔ ان میں جی ایچ کیو کے ازحد حساس حصے بھی ہیں اور بحری اور فضائی افواج کے خفیہ معاملات بھی۔ ان میں حسّاس یونٹوں کا خفیہ محل وقوع بھی شامل ہے کیونکہ آڈیٹر جنرل کا جو عملہ محکمہ دفاع کے حساب کتاب کی جانچ پڑتال کرتا ہے وہ
حسّاس مقامات کا محل وقوع بھی جانتا ہے‘ جبھی تو وہاں جاکر آڈٹ کرتا ہے۔ یہ ساری معلومات رپورٹوں کی شکل میں اس غیرملکی کو پیش کی جاتی ہیں جو آڈیٹر جنرل کے منصب پر بیٹھا ہے۔ ان ساری دستاویزات پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے آخری دستخط اس کینیڈین شہری کے ہوتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ‘ عجیب وغریب ، مضحکہ خیز اور حیران کن صورت حال ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک ایک غیرملکی کو پارلیمنٹ سے نکال باہر کیا ہے‘ لیکن پارلیمنٹ کی طرف سے پورے ملک کے حسابات کی جانچ پڑتال کرنے والا عہدیدار غیرملکی ہے۔ وہ اپنی آڈٹ رپورٹیں پارلیمنٹ کو پیش کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کی نامزدکردہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سارے کام کا مکمل انحصار آڈیٹرجنرل پر ہے۔ دفاعی بجٹ کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کی تفصیلات اس بجٹ تقریر کا حصہ نہیں ہوتیں جو وزیرخزانہ پارلیمنٹ میں کرتا ہے لیکن مسلح افواج‘ بجٹ کی تمام تفصیلات اس غیرملکی کو پیش کرتی ہیں جو آڈیٹر جنرل لگاہوا ہے۔ اس میں وہ تفصیلات بھی ہوتی ہوں گی جو ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق ہیں۔
عدالتِ عظمیٰ کو اب یہ بھی طے کردینا چاہیے کہ منقسم وفاداری رکھنے والا غیرملکی آڈیٹر جنرل کے آئینی منصب پر فائز ہوسکتا ہے یا نہیں۔
لیکن سپریم کورٹ نے قدم درست سمت میں بڑھایا۔ عدالتِ عظمیٰ نے طاہرالقادری کی درخواست خارج کردی۔ سیاسی فضا پر چھائی ہوئی بے یقینی کی گھٹا چھٹ گئی۔ انتخابات کے التوا کا امکان ختم ہوگیا۔ جو طالع آزما ٹیکنو کریٹ حکومت کے پردے میں آمریت کے خواب دیکھ رہے تھے‘ ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ انتخابات کو وقتِ مقررہ پر منعقد کرانے کے لیے سپریم کورٹ کا یہ اتنا عظیم الشان کردار ہے جس کی تحسین پورا ملک کررہا ہے۔ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ سیاسی پختگی کی طرف ہم نے ایک اور قدم بڑھایا ہے۔ ایک بڑا قدم۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے طاہرالقادری سے جو سوالات کیے اور جو ریمارکس دیے، ان سے کچھ قواعد وضوابط سامنے آئے ہیں اور کچھ قاعدے کلیے بنے ہیں۔ یہ قواعدوضوابط اور قاعدے کلیے بنیادی طورپر پانچ نکات پر مشتمل ہیں: اول۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لیے کینیڈا کا شہری ہونے کی وجہ سے غیرملکی کا لفظ استعمال کیا۔ دوم۔ یہ کہ پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرنے سے کوئی پاکستانی نہیں بن جاتا۔ سوم ۔ طاہرالقادری نے (یا کینیڈا کی شہریت اختیار کرنے والوں نے) ملکہ الزبتھ کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا، پاکستان کے ساتھ وفاداری کا نہیں۔ چہارم۔ ایسے شخص کی وفاداری منقسم ہوتی ہے۔ پنجم۔ ایک دوسرے ملک اور حکمران کی وفاداری کا حلف اٹھانے والا پاکستان کا وفادار کس طرح ہوسکتا ہے؟
مقدمہ جو ہم پیش کرنا چاہتے ہیں یہ ہے کہ موجودہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کینیڈا کے شہری ہیں۔ ان کے پاس کینیڈا کا پاسپورٹ ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وفاقی حکومت کے وزیر جناب صمصام بخاری نے صدر مملکت کو ایک ریفرنس ارسال کیا۔ 8اگست 2012ء کے قومی اخبارات میں اس ریفرنس کے مندرجات شائع ہوئے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ صدر مملکت نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے اس ریفرنس پر رائے بھی طلب کی۔ صمصام بخاری نے ریفرنس میں الزام لگایا کہ آڈیٹر جنرل نے کئی پاسپورٹ حاصل کیے جن میں کینیڈا کا پاسپورٹ بھی شامل ہے۔ اپنے محکمے کو اطلاع دیے بغیر دہری شہریت حاصل کی اور اس کے لیے حکومت پاکستان سے این او سی تک نہ لیا۔
محکمے کو اطلاع دینا یا حکومت سے این اوسی لینا تو محکمہ جاتی مراحل ہیں۔ ہمارا مقدمہ ان قواعد وضوابط کی بنیاد پر ہے جو طاہرالقادری کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سوالات سے وضع ہوئے۔ چنانچہ جو سوالات ابھرتے ہیں یہ ہیں:
1۔ کیا ایک غیرملکی آڈیٹر جنرل ملک کے آئینی منصب پر فائز ہوسکتا ہے؟
2۔ پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرنے سے کوئی پاکستانی نہیں بن جاتا۔ اس حوالے سے کیا آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو پاکستانی کہا جاسکتا ہے؟
3۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ملکہ الزبتھ سے وفاداری کا حلف اٹھایا، پاکستان سے نہیں۔
4۔ کیا آڈیٹر جنرل کی وفاداری بھی منقسم نہیں ؟
5۔ ایک دوسرے ملک اور حکمران کی وفاداری کا حلف اُٹھانے والا آڈیٹر جنرل پاکستان کا کس طرح وفادار ہوسکتا ہے ؟
منقسم وفاداری رکھنے والے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو ان تمام معلومات تک رسائی حاصل ہے جو حساس ہیں‘ خفیہ ہیں اور نہ صرف خفیہ بلکہ سیکرٹ‘ ٹاپ سیکرٹ اور کلاسیفائڈ ہیں۔ ان میں ایٹمی توانائی والے ادارے بھی ہیں اور اسلحہ کے اعدادوشمار بھی۔ ان میں جی ایچ کیو کے ازحد حساس حصے بھی ہیں اور بحری اور فضائی افواج کے خفیہ معاملات بھی۔ ان میں حسّاس یونٹوں کا خفیہ محل وقوع بھی شامل ہے کیونکہ آڈیٹر جنرل کا جو عملہ محکمہ دفاع کے حساب کتاب کی جانچ پڑتال کرتا ہے وہ
حسّاس مقامات کا محل وقوع بھی جانتا ہے‘ جبھی تو وہاں جاکر آڈٹ کرتا ہے۔ یہ ساری معلومات رپورٹوں کی شکل میں اس غیرملکی کو پیش کی جاتی ہیں جو آڈیٹر جنرل کے منصب پر بیٹھا ہے۔ ان ساری دستاویزات پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے آخری دستخط اس کینیڈین شہری کے ہوتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ‘ عجیب وغریب ، مضحکہ خیز اور حیران کن صورت حال ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک ایک غیرملکی کو پارلیمنٹ سے نکال باہر کیا ہے‘ لیکن پارلیمنٹ کی طرف سے پورے ملک کے حسابات کی جانچ پڑتال کرنے والا عہدیدار غیرملکی ہے۔ وہ اپنی آڈٹ رپورٹیں پارلیمنٹ کو پیش کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کی نامزدکردہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سارے کام کا مکمل انحصار آڈیٹرجنرل پر ہے۔ دفاعی بجٹ کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کی تفصیلات اس بجٹ تقریر کا حصہ نہیں ہوتیں جو وزیرخزانہ پارلیمنٹ میں کرتا ہے لیکن مسلح افواج‘ بجٹ کی تمام تفصیلات اس غیرملکی کو پیش کرتی ہیں جو آڈیٹر جنرل لگاہوا ہے۔ اس میں وہ تفصیلات بھی ہوتی ہوں گی جو ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق ہیں۔
عدالتِ عظمیٰ کو اب یہ بھی طے کردینا چاہیے کہ منقسم وفاداری رکھنے والا غیرملکی آڈیٹر جنرل کے آئینی منصب پر فائز ہوسکتا ہے یا نہیں۔
Thursday, February 14, 2013
ٹھیکے پر دے دیجیے
غلط کہا ہے ریاستوں اور سرحدی امور کے نئے وفاقی وزیر نے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر قیام پزیر افغان مہاجرین معیشت پر بوجھ ہیں۔ افغان مہاجرین معیشت پر بوجھ نہیں، بوجھ وہ خونخوار مگرمچھ اور بھُوکے بھیڑیے ہیں جو سرکاری دفتروں میں بیٹھے ہیں۔ جن کی ناپاک تھوتھنیاں روپوں اور ڈالروں کی غلاظت میں لُتھڑی ہوئی ہیں اور جو غیر قانونی طور پر غیر ملکیوں کو اندر آنے دے رہے ہیں۔ ان میں صرف افغان نہیں، بنگالی، برمی اور دوسری قومیتوں کے مشکوک افراد بھی ہیں اور لاکھوں میں ہیں۔ وزیر صاحب ٹہنی پکڑ کر جھُول رہے ہیں۔ انہیں ادراک ہی نہیں کہ درخت کی جڑ کہاں اور کس حال میں ہے؟ وفاقی حکومت کا وزیر اُسی سانس میں کہہ رہا ہے کہ قانونی طور پر رہائش پزیر مہاجرین کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے؟ کون سے قانونی مہاجرین؟ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کرنے والے اہلکار کرپٹ ہیں اور اتنے کرپٹ کہ مثال دینی مشکل ہے۔ اگر غیر قانونی مہاجرین بوجھ ہیں تو ’’قانونی‘‘ مہاجرین بوجھ کیوں نہیں؟ کیا اُن کے چھ چھ ہاتھ ہیں اور کیا غیر قانونی مہاجروں کے صرف دو، دو ہاتھ ہیں اور وہ کھانا دن میں بارہ دفعہ کھا رہے ہیں؟
حکومتِ پاکستان کے لیے، جی ہاں، پوری حکومتِ پاکستان کے لیے تیرہ فروری کو یعنی کل شائع ہونے والی یہ خبر باعثِ شرم ہونی چاہیے کہ ’’پاکستانی پاسپورٹوں پر بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر افغانیوں کی مختلف شہروں سے براہ راست برطانیہ آمد کا سخت نوٹس لیتے ہوئے برطانوی حکام نے پاکستانی قومی فضائی کمپنی کی براہ راست پروازیں بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ جب کہ معلوم ہوا ہے کہ حکومتِ پاکستان کے متعلقہ محکمے کا افسر اس میں براہ راست ملوث پایا گیا ہے اور برطانیہ میں مقیم اس کے اہلِ خانہ کے خلاف تحقیقات اور وہاں موجود اثاثوں کی چھان بین بھی شروع کر دی گئی ہے۔‘‘
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ برطانوی یا دوسرے ملکوں کے حکام کو ٹھیکے پر درآمد کریں اور اُن سے عرض گزار ہوں کہ اُن مگرمچھوں اور بھیڑیوں کو پکڑنے میں مدد دیں جو غیر ملکیوں کو پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کر رہے ہیں۔ یہ کیسا اسلام کا قلعہ ہے جس میں دروغ گوئی، جعلسازی اور حرام خوری عروج پر ہے اور ’’کفّار‘‘ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ تم جعلی پاسپورٹوں پر افغانوں کو پاکستانی بنا کر ہمارے ملک میں لا رہے ہو، کیوں نہ ہم تمہاری شہرۂ آفاق ایئرلائن کا داخلہ اپنے ملک میں بند کر دیں۔؟
اس کالم نگار کو خوست کا وہ افغانستانی نہیں بھُولتا جو حرمِ کعبہ کے صحن میں ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور جس کی جائیداد راولپنڈی میں تھی۔ اُس سے پوچھا کہ خدانخواستہ افغانستان اور پاکستان میں جھگڑا ہو جائے تو تم کس کا ساتھ دو گے؟ اُس ملک کا جہاں پیدا ہوئے یا اُس ملک کا جس کا کھا رہے ہو؟ اور اُس بظاہر اَن پڑھ افغان نے اِس ہوشیاری سے موضوع بدلا کہ ’’پڑھا لکھا‘‘ کالم نگار حیران رہ گیا۔ یہ خبر اِسی ملک کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی کہ افغانستان سے حاجی براہ راست سعودی عرب جاتے ہیں اور پاکستانی پاسپورٹوں پر حج کرکے براہ راست ہی واپس افغانستان آتے ہیں۔ اِن لوگوں کو افغانستان میں پاکستانی پاسپورٹ کون پہنچاتا ہے اور کون جاری کرتا ہے؟
یہ کیسا ملک ہے جس میں اسرار اللہ زہری کے فرزندوں کے گارڈ کراچی میں پولیس پر اسلحہ تان لیتے ہیں اور پولیس کا سربراہ اور پُورا محکمہ چُپ سادھ لیتا ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے کہ رائے ونڈ سے لے کر کراچی تک ایک ایک ’’وی آئی پی‘‘ کی حفاظت کے لیے درجنوں پولیس کے اہلکار مامور ہیں اور ملک میں چور، ڈاکو، اغواء کنندگان، قاتل سرِعام دندناتے پھرتے ہیں، سرحدیں کُھلی ہیں، کیا کراچی اور کیا خیبر پختونخواہ، غیر قانونی طور پر آئے ہوئے غیر ملکی بھرے پڑے ہیں اور یوں محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان۔ وہ شہری جو صدیوں سے اس سرزمین پر رہ رہے ہیں‘ شناختی کارڈوں اور پاسپورٹوں کے لیے دھکّے کھا رہے ہیں، ذلیل ہو رہے ہیں، دفتروں کے باہر کھڑے کھڑے سُوکھ رہے ہیں، بدقماش اہلکاروں کی جھڑکیاں کھا رہے ہیں اور غیر ملکیوں کو پاکستانی دستاویزات پلیٹوں میں رکھ کر پیش کی جا رہی ہیں۔ پاکستان سے باہر پاکستانی سفارت خانوں میں بیٹھے سفارشی اہلکار پاکستانی سائلوں سے یوں بچتے ہیں جیسے اُن کے ساتھ جراثیم لگے ہوں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ہیں یا
برطانیہ، سکینڈی نیویا کی ریاستیں ہیں یا امریکہ اور یورپ، پاکستانیوں کا سروے کر لیجیے اور اندازہ لگا لیجیے کہ سفارت خانوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟
ٹنوں کے حساب سے حرام کھانے والے اِن اہلکاروں کو کون پکڑے گا؟ اعلیٰ ترین منتخب اداروں میں بیٹھے ہوئے ٹیکس چور؟ وہ وزیر جن کے بنک اکائونٹس میں کروڑوں روپے ڈالے جاتے ہیں اور پھر انہیں پاک صاف ثابت کرنے کے لیے نکال لیے جاتے ہیں؟ وہ پولیس افسر جن کی ساری مدّتِ ملازمت ذاتی وفاداری میں گزرتی ہے اور جنہیں ریٹائرمنٹ کے چند ثانیے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن میں مزید ملازمت مل جاتی ہے؟ وہ وزرائے اعظم؟ جن کے فرزند دوسروں سے امتحان دلوا کر ’’تعلیم یافتہ‘‘ کہلواتے ہیں اور دھڑلے سے کہتے ہیں کہ میں ایسی بلٹ پروف کار ایک اور بھی لے سکتا ہوں اور جو وزیراعظم بننے کے بعد اپنے داماد کو ورلڈ بنک میں تعینات کرتے ہیں اور سپریم کورٹ نوٹس لیتی ہے تو راتوں رات بحرِ اوقیانوس عبور کروا دیتے ہیں؟وہ سیاسی رہنما جن کی جائیدادیں اور کارخانے جدّہ سے لے کر لندن تک اور فرانس سے لے کر ہسپانیہ تک بکھرے پڑے ہیں؟ایک ہی طریقہ ہے۔ ملک کو ٹھیکے پر دے دیجیے، عوام مٹھائی بانٹیں گے۔
حکومتِ پاکستان کے لیے، جی ہاں، پوری حکومتِ پاکستان کے لیے تیرہ فروری کو یعنی کل شائع ہونے والی یہ خبر باعثِ شرم ہونی چاہیے کہ ’’پاکستانی پاسپورٹوں پر بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر افغانیوں کی مختلف شہروں سے براہ راست برطانیہ آمد کا سخت نوٹس لیتے ہوئے برطانوی حکام نے پاکستانی قومی فضائی کمپنی کی براہ راست پروازیں بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ جب کہ معلوم ہوا ہے کہ حکومتِ پاکستان کے متعلقہ محکمے کا افسر اس میں براہ راست ملوث پایا گیا ہے اور برطانیہ میں مقیم اس کے اہلِ خانہ کے خلاف تحقیقات اور وہاں موجود اثاثوں کی چھان بین بھی شروع کر دی گئی ہے۔‘‘
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ برطانوی یا دوسرے ملکوں کے حکام کو ٹھیکے پر درآمد کریں اور اُن سے عرض گزار ہوں کہ اُن مگرمچھوں اور بھیڑیوں کو پکڑنے میں مدد دیں جو غیر ملکیوں کو پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کر رہے ہیں۔ یہ کیسا اسلام کا قلعہ ہے جس میں دروغ گوئی، جعلسازی اور حرام خوری عروج پر ہے اور ’’کفّار‘‘ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ تم جعلی پاسپورٹوں پر افغانوں کو پاکستانی بنا کر ہمارے ملک میں لا رہے ہو، کیوں نہ ہم تمہاری شہرۂ آفاق ایئرلائن کا داخلہ اپنے ملک میں بند کر دیں۔؟
اس کالم نگار کو خوست کا وہ افغانستانی نہیں بھُولتا جو حرمِ کعبہ کے صحن میں ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور جس کی جائیداد راولپنڈی میں تھی۔ اُس سے پوچھا کہ خدانخواستہ افغانستان اور پاکستان میں جھگڑا ہو جائے تو تم کس کا ساتھ دو گے؟ اُس ملک کا جہاں پیدا ہوئے یا اُس ملک کا جس کا کھا رہے ہو؟ اور اُس بظاہر اَن پڑھ افغان نے اِس ہوشیاری سے موضوع بدلا کہ ’’پڑھا لکھا‘‘ کالم نگار حیران رہ گیا۔ یہ خبر اِسی ملک کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی کہ افغانستان سے حاجی براہ راست سعودی عرب جاتے ہیں اور پاکستانی پاسپورٹوں پر حج کرکے براہ راست ہی واپس افغانستان آتے ہیں۔ اِن لوگوں کو افغانستان میں پاکستانی پاسپورٹ کون پہنچاتا ہے اور کون جاری کرتا ہے؟
یہ کیسا ملک ہے جس میں اسرار اللہ زہری کے فرزندوں کے گارڈ کراچی میں پولیس پر اسلحہ تان لیتے ہیں اور پولیس کا سربراہ اور پُورا محکمہ چُپ سادھ لیتا ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے کہ رائے ونڈ سے لے کر کراچی تک ایک ایک ’’وی آئی پی‘‘ کی حفاظت کے لیے درجنوں پولیس کے اہلکار مامور ہیں اور ملک میں چور، ڈاکو، اغواء کنندگان، قاتل سرِعام دندناتے پھرتے ہیں، سرحدیں کُھلی ہیں، کیا کراچی اور کیا خیبر پختونخواہ، غیر قانونی طور پر آئے ہوئے غیر ملکی بھرے پڑے ہیں اور یوں محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان۔ وہ شہری جو صدیوں سے اس سرزمین پر رہ رہے ہیں‘ شناختی کارڈوں اور پاسپورٹوں کے لیے دھکّے کھا رہے ہیں، ذلیل ہو رہے ہیں، دفتروں کے باہر کھڑے کھڑے سُوکھ رہے ہیں، بدقماش اہلکاروں کی جھڑکیاں کھا رہے ہیں اور غیر ملکیوں کو پاکستانی دستاویزات پلیٹوں میں رکھ کر پیش کی جا رہی ہیں۔ پاکستان سے باہر پاکستانی سفارت خانوں میں بیٹھے سفارشی اہلکار پاکستانی سائلوں سے یوں بچتے ہیں جیسے اُن کے ساتھ جراثیم لگے ہوں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ہیں یا
برطانیہ، سکینڈی نیویا کی ریاستیں ہیں یا امریکہ اور یورپ، پاکستانیوں کا سروے کر لیجیے اور اندازہ لگا لیجیے کہ سفارت خانوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟
ٹنوں کے حساب سے حرام کھانے والے اِن اہلکاروں کو کون پکڑے گا؟ اعلیٰ ترین منتخب اداروں میں بیٹھے ہوئے ٹیکس چور؟ وہ وزیر جن کے بنک اکائونٹس میں کروڑوں روپے ڈالے جاتے ہیں اور پھر انہیں پاک صاف ثابت کرنے کے لیے نکال لیے جاتے ہیں؟ وہ پولیس افسر جن کی ساری مدّتِ ملازمت ذاتی وفاداری میں گزرتی ہے اور جنہیں ریٹائرمنٹ کے چند ثانیے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن میں مزید ملازمت مل جاتی ہے؟ وہ وزرائے اعظم؟ جن کے فرزند دوسروں سے امتحان دلوا کر ’’تعلیم یافتہ‘‘ کہلواتے ہیں اور دھڑلے سے کہتے ہیں کہ میں ایسی بلٹ پروف کار ایک اور بھی لے سکتا ہوں اور جو وزیراعظم بننے کے بعد اپنے داماد کو ورلڈ بنک میں تعینات کرتے ہیں اور سپریم کورٹ نوٹس لیتی ہے تو راتوں رات بحرِ اوقیانوس عبور کروا دیتے ہیں؟وہ سیاسی رہنما جن کی جائیدادیں اور کارخانے جدّہ سے لے کر لندن تک اور فرانس سے لے کر ہسپانیہ تک بکھرے پڑے ہیں؟ایک ہی طریقہ ہے۔ ملک کو ٹھیکے پر دے دیجیے، عوام مٹھائی بانٹیں گے۔
Tuesday, February 12, 2013
زیستن برائے خوردن ؟
یہ دو مناظر ہیں جو ان دنوں، الیکٹرانک میل کے ذریعے، گردش کررہے ہیں۔ ایک بہت بڑی قاب ہے، قطر جس کا فٹوں میں نہیں، گزوں میں ماپا جاسکتا ہے۔ اس میں بریاں گوشت کے انبار کے انبار ہیں۔ گوشت بادام، کشمش ، چلغوزوں اور دیگر میوہ ہائے خشک میں گندھا ہوا ہے۔ کہیں کہیں پلائو اور انڈے بھی نظر آتے ہیں۔ پیش کرنے اور تناول کرنے والے حضرات لباس سے مشرق و سطیٰ کے لگتے ہیں۔ پھر اشتہا انگیز کھجوروں کے ڈھیر ہیں اور قہوے کے دور چل رہے ہیں۔ دوسرے منظر میں صدر اباما ایک چھوٹی سی میز کے سامنے بیٹھے ایک مختصر سا برگر کھارہے ہیں ۔
اس موازنے پر اعتراض بھی کیے جاسکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لوگ جس خوراک کو کھاتے دکھائے گئے ہیں وہ ایک نہیں، بہت سے لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جب کہ ایک برگر ایک ہی شخص کھا سکتا ہے۔ لیکن سبق اس موازنے میں جو پوشیدہ ہے، وہ اور ہے۔ غالباً یہ فقرہ سب سے پہلے سعدی نے لکھا تھا اور پھر ہمارے بزرگوں نے اسے قاعدہ کلیہ بنایا۔ خوردن برائے زیستن است نہ زیستن برائے خوردن۔ کھانا اس لیے کھایا جاتا ہے کہ زندگی برقرار رہے، زندگی اس لیے نہیں دی گئی کہ کھانے ہی میں گزار دی جائے اور یہ بات ہوسکتا ہے ہماری سماعتوں پر گراں گزرے اور دلوں کو صدمہ پہنچائے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ اقوام مغرب نے اپنا لیا
ہے اور ہم نے اسے ان بہت سی تعلیمات کی طرح پس پشت ڈال دیا ہے جو ہمارے مذہب نے اور ہمارے بزرگوں نے ہمیں دی تھیں۔ ہم صرف ان کا تذکرہ کرتے ہیں اور درخشندہ ماضی پر چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح ٹانکتے رہتے ہیں لیکن اس پر عمل پیرا ہونے والے ہم نہیں، دوسرے ہیں۔
یہ 2006ء کا ذکر ہے۔ پاکستان سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد واشنگٹن جاتا ہے۔ اس میں بلند مناصب پر فائز بیوروکریٹ شامل ہیں وفد کا سربراہ بلند تر عہدے پر ہے۔ واشنگٹن میں امریکی حکومت اس وفد کے لیے رسمی عشائیے کا اہتمام کرتی ہے اور متعلقہ محکمے کا اعلیٰ منصب دار میزبان کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ یہ عشائیہ کسی ایوان یا کسی پانچ یا سات ستارہ ہوٹل میں نہیں، بلکہ ایک عام ریستوران میں منعقد ہوتا ہے۔ عشائیے کے وقت اس ریستوران میں عام گاہک بھی موجود ہیں۔ ہاں، ’’تقریب‘‘ کے لیے ایک گوشہ، بڑے ہال ہی میں، مختص کردیا گیا ہے۔ سارا عشائیہ تین اجزا پر مشتمل ہے۔ پہلے ایک ایک پلیٹ سلاد کی مہمانوں کو پیش کی جاتی ہے۔ پھر انہیں کہا جاتا کہ دوچیزوں میں سے ایک پسند کرلیں۔ مرغی کا گوشت یا مچھلی، پاکستانی مہمانوں کی اکثریت مچھلی کا انتخاب کرتی ہے چنانچہ ایک ایک پلیٹ مچھلی کی سب کے آگے رکھی جاتی ہے۔ تیسرے اور
آخری نمبر پر سویٹ ڈش کے طورپر پنیر کا کیک پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ مہمان اس کے بجائے چاکلیٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ہے عشائیہ جو دنیا کی طاقت ورترین حکومت سرکاری ضیافت کے طورپر ایک اعلیٰ وفد کو پیش کررہی ہے لیکن زیادہ عبرت ناک منظر عشائیے کے اختتام پر ہے۔ مہمان وفد کا سربراہ میزبان کو تحائف دیتا ہے۔ پاکستان سے وفد کا سربراہ اپنے ایک نہیں ، کئی
معاونین ساتھ لے کر آیا ہے۔ چھوٹا معاون بڑے معاون کو تحفہ پکڑاتا ہے۔ پھر بڑا معاون وفد کے سربراہ کے ہاتھ میں دیتا ہے۔ اس کے برعکس میزبان وفد کے سربراہ کا کوئی معاون
نہیں۔ وہ تحفے ہاتھ میں لے کر اپنی میز پر رکھتا جاتا ہے ۔عینی شاہد بتاتا ہے کہ تحائف ، تین یا چار، جاتے ہوئے وہ خود ہی دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہے خودہی گاڑی کھولتا ہے، اس میں رکھتا ہے اور پھر خود ہی گاڑی چلاتے ہوئے چلا جاتا ہے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ایسا ہی وفد پاکستان میں آئے تو اسے صرف تین اجزا پر مشتمل عشائیہ پیش کیا جائے گا؟ ہماری سرکاری ضیافتوں میں اسراف و ضیاع کے جو مکروہ مناظر دکھائے جاتے ہیں اور احساسِ کمتری کے مارے میزبان جس طرح لاکھوں کروڑوں روپے لٹاتے ہیں، اس کا مہمان مضحکہ اڑاتے ہیں۔ گزشتہ سیلاب کے موقع پر عالمی شہرت یافتہ اداکارہ انجلینا جولی پاکستان آئی اور سابق وزیراعظم اور ان کے خاندان نے اس کے اعزاز میں انواع واقسام پر مشتمل جس عالی شان ضیافت کا اہتمام کیا اس کا، واپس جاکر اس خاتون نے افسوس اور حقارت سے تذکرہ کیا۔ اس کی یہ تحریر کروڑوں افراد نے پڑھی ہوگی۔ اور اہل پاکستان کی ذہنی پختگی کو داد دی ہوگی۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے سارک کے ایک وفد میں بھارت یا
غالباً سری لنکا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ضیاء الحق نے ضیافت پر سرکاری خزانے کی رقم پانی کی طرح بہائی۔ مشہور ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے واشنگٹن میں دعوت دی تو پرندوں کا گوشت پاکستان سے منگوایا گیا اور خصوصی باورچی بھی جہازوں میں بیٹھ کر گئے۔ ہنری کسنجر مہمان خصوصی تھا۔ کہتے ہیں کہ اس میز تک گیا ہی نہیں جہاں یہ خصوصی ڈش رکھی گئی تھی۔ اس نے قریب ترین میز سے کھانا لیا، مسلسل باتیں کرتا رہا، کھانے کے اجزا پر توجہ ہی نہیں دی اور مختصر ترین وقت میں پیٹ بھر کر چلا گیا۔ ہوسکتا ہے یہ واقعہ اس طرح رونما نہ ہوا ہو جس طرح اس کالم نگارنے سنا ہے ۔ لیکن ہماری سرکاری ضیافتیں ہوں یا نجی دعوتیں ، ولیمے کی تقاریب ہوں یا دوسرے سماجی مواقع، جس وحشیانہ افراط کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور جس غیرمہذب انداز میں افراتفری اور نفسا نفسی کے ساتھ کھانے کھائے جاتے ہیں، اس سے ہماری ترجیحات کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ دوسری طرف کروڑوں افراد پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے محروم ہیں۔ خالص خوراک عنقا ہورہی ہے۔ معصوم بچوں کا دودھ تک ملاوٹ کے جرم کی نذر ہورہا ہے۔ یہی تضادات ہیں جو معاشرے کو دیمک کی طرح کھارہے ہیں اور ہمیں دن بدن غیرمہذب بنارہے ہیں۔
اس موازنے پر اعتراض بھی کیے جاسکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لوگ جس خوراک کو کھاتے دکھائے گئے ہیں وہ ایک نہیں، بہت سے لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جب کہ ایک برگر ایک ہی شخص کھا سکتا ہے۔ لیکن سبق اس موازنے میں جو پوشیدہ ہے، وہ اور ہے۔ غالباً یہ فقرہ سب سے پہلے سعدی نے لکھا تھا اور پھر ہمارے بزرگوں نے اسے قاعدہ کلیہ بنایا۔ خوردن برائے زیستن است نہ زیستن برائے خوردن۔ کھانا اس لیے کھایا جاتا ہے کہ زندگی برقرار رہے، زندگی اس لیے نہیں دی گئی کہ کھانے ہی میں گزار دی جائے اور یہ بات ہوسکتا ہے ہماری سماعتوں پر گراں گزرے اور دلوں کو صدمہ پہنچائے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ اقوام مغرب نے اپنا لیا
ہے اور ہم نے اسے ان بہت سی تعلیمات کی طرح پس پشت ڈال دیا ہے جو ہمارے مذہب نے اور ہمارے بزرگوں نے ہمیں دی تھیں۔ ہم صرف ان کا تذکرہ کرتے ہیں اور درخشندہ ماضی پر چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح ٹانکتے رہتے ہیں لیکن اس پر عمل پیرا ہونے والے ہم نہیں، دوسرے ہیں۔
یہ 2006ء کا ذکر ہے۔ پاکستان سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد واشنگٹن جاتا ہے۔ اس میں بلند مناصب پر فائز بیوروکریٹ شامل ہیں وفد کا سربراہ بلند تر عہدے پر ہے۔ واشنگٹن میں امریکی حکومت اس وفد کے لیے رسمی عشائیے کا اہتمام کرتی ہے اور متعلقہ محکمے کا اعلیٰ منصب دار میزبان کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ یہ عشائیہ کسی ایوان یا کسی پانچ یا سات ستارہ ہوٹل میں نہیں، بلکہ ایک عام ریستوران میں منعقد ہوتا ہے۔ عشائیے کے وقت اس ریستوران میں عام گاہک بھی موجود ہیں۔ ہاں، ’’تقریب‘‘ کے لیے ایک گوشہ، بڑے ہال ہی میں، مختص کردیا گیا ہے۔ سارا عشائیہ تین اجزا پر مشتمل ہے۔ پہلے ایک ایک پلیٹ سلاد کی مہمانوں کو پیش کی جاتی ہے۔ پھر انہیں کہا جاتا کہ دوچیزوں میں سے ایک پسند کرلیں۔ مرغی کا گوشت یا مچھلی، پاکستانی مہمانوں کی اکثریت مچھلی کا انتخاب کرتی ہے چنانچہ ایک ایک پلیٹ مچھلی کی سب کے آگے رکھی جاتی ہے۔ تیسرے اور
آخری نمبر پر سویٹ ڈش کے طورپر پنیر کا کیک پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ مہمان اس کے بجائے چاکلیٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ہے عشائیہ جو دنیا کی طاقت ورترین حکومت سرکاری ضیافت کے طورپر ایک اعلیٰ وفد کو پیش کررہی ہے لیکن زیادہ عبرت ناک منظر عشائیے کے اختتام پر ہے۔ مہمان وفد کا سربراہ میزبان کو تحائف دیتا ہے۔ پاکستان سے وفد کا سربراہ اپنے ایک نہیں ، کئی
معاونین ساتھ لے کر آیا ہے۔ چھوٹا معاون بڑے معاون کو تحفہ پکڑاتا ہے۔ پھر بڑا معاون وفد کے سربراہ کے ہاتھ میں دیتا ہے۔ اس کے برعکس میزبان وفد کے سربراہ کا کوئی معاون
نہیں۔ وہ تحفے ہاتھ میں لے کر اپنی میز پر رکھتا جاتا ہے ۔عینی شاہد بتاتا ہے کہ تحائف ، تین یا چار، جاتے ہوئے وہ خود ہی دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہے خودہی گاڑی کھولتا ہے، اس میں رکھتا ہے اور پھر خود ہی گاڑی چلاتے ہوئے چلا جاتا ہے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ایسا ہی وفد پاکستان میں آئے تو اسے صرف تین اجزا پر مشتمل عشائیہ پیش کیا جائے گا؟ ہماری سرکاری ضیافتوں میں اسراف و ضیاع کے جو مکروہ مناظر دکھائے جاتے ہیں اور احساسِ کمتری کے مارے میزبان جس طرح لاکھوں کروڑوں روپے لٹاتے ہیں، اس کا مہمان مضحکہ اڑاتے ہیں۔ گزشتہ سیلاب کے موقع پر عالمی شہرت یافتہ اداکارہ انجلینا جولی پاکستان آئی اور سابق وزیراعظم اور ان کے خاندان نے اس کے اعزاز میں انواع واقسام پر مشتمل جس عالی شان ضیافت کا اہتمام کیا اس کا، واپس جاکر اس خاتون نے افسوس اور حقارت سے تذکرہ کیا۔ اس کی یہ تحریر کروڑوں افراد نے پڑھی ہوگی۔ اور اہل پاکستان کی ذہنی پختگی کو داد دی ہوگی۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے سارک کے ایک وفد میں بھارت یا
غالباً سری لنکا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ضیاء الحق نے ضیافت پر سرکاری خزانے کی رقم پانی کی طرح بہائی۔ مشہور ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے واشنگٹن میں دعوت دی تو پرندوں کا گوشت پاکستان سے منگوایا گیا اور خصوصی باورچی بھی جہازوں میں بیٹھ کر گئے۔ ہنری کسنجر مہمان خصوصی تھا۔ کہتے ہیں کہ اس میز تک گیا ہی نہیں جہاں یہ خصوصی ڈش رکھی گئی تھی۔ اس نے قریب ترین میز سے کھانا لیا، مسلسل باتیں کرتا رہا، کھانے کے اجزا پر توجہ ہی نہیں دی اور مختصر ترین وقت میں پیٹ بھر کر چلا گیا۔ ہوسکتا ہے یہ واقعہ اس طرح رونما نہ ہوا ہو جس طرح اس کالم نگارنے سنا ہے ۔ لیکن ہماری سرکاری ضیافتیں ہوں یا نجی دعوتیں ، ولیمے کی تقاریب ہوں یا دوسرے سماجی مواقع، جس وحشیانہ افراط کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور جس غیرمہذب انداز میں افراتفری اور نفسا نفسی کے ساتھ کھانے کھائے جاتے ہیں، اس سے ہماری ترجیحات کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ دوسری طرف کروڑوں افراد پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے محروم ہیں۔ خالص خوراک عنقا ہورہی ہے۔ معصوم بچوں کا دودھ تک ملاوٹ کے جرم کی نذر ہورہا ہے۔ یہی تضادات ہیں جو معاشرے کو دیمک کی طرح کھارہے ہیں اور ہمیں دن بدن غیرمہذب بنارہے ہیں۔
Monday, February 11, 2013
تخت نشینی کی تازہ ترین جنگ
سیاست کے نقار خانے میں یہ جو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی اور یہ جو ہڑبونگ مچی ہوئی ہے تو اس پر تعجب صرف وہ کر سکتا ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ سے ناواقف ہے! یہ داستان آج کی نہیں، صدیوں پرانی ہے۔ مسلمانوں کی کون سی حکومت تھی جسے برصغیر میں خود مسلمان بھائیوں نے چین لینے دیا؟ تاریخ نہیں، یہ فلسفۂ تاریخ کا مسئلہ ہے اور اس قدر آسان کہ کسی ابن خلدون کی ضرورت نہیں! برصغیر کی تاریخ سے دو سبق ملتے ہیں۔ اول: مسلمان، مسلمان بھائی کا اقتدار نہیں برداشت کر سکتا۔ دوم: عوام کبھی بغاوت نہیں کرتے۔ 1857ء میں بغاوت ہوئی تو اکثریت نے ساتھ نہ دیا۔ اگر عوام میں بغاوت کا مزاج ہوتا تو جلیانوالہ باغ کی ٹریجڈی کے بعد قیامت کھڑی ہو جاتی۔ آج کا پاکستان دیکھ لیجیے، حکمران گزرتے ہیں اور خلق خدا کو گھنٹوں سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے۔ اس لعنت کو ’’روٹ لگنا‘‘ کہتے ہیں۔ بیمار رکی ہوئی ٹریفک میں مر جاتے ہیں اور حاملہ عورتیں چوراہوں پر بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ اگر دس فیصد امکان بھی بغاوت کا ہوتا تو لوگ حکمرانوں کے قافلوں کو نیست و نابود کر دیتے۔ گیس اور پٹرول کی مصنوعی قلّت پیدا کرکے چند ڈاکوئوں کو مزید ثروت مند بنایا جا رہا ہے اور میلوں لمبی قطاریں گاڑیوں کی پٹرول پمپوں کے سامنے پہروں انتظار کرتی ہیں۔ بغاوت کے آثار پھر بھی نہیں لیکن اس کالم میں ہم صرف تاریخ کے پہلے سبق پر بات کرنا چاہتے ہیں۔
آصف زرداری راوی کے کنارے خیمہ زن ہو گئے ہیں۔ نوازشریف نے سندھ کو مستقر بنا لیا ہے۔ طاہر القادری کے دائیں بائیں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کرسی نشین ہیں۔ غبار چھٹے تو کیا عجب قاف لیگ بھی منہاج القرآن کے گھوڑے پر سوار نظر آئے۔ شاہراہیں جو پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی طرف جا رہی ہیں، مسافروں سے اٹی پڑی ہیں۔ کوئی اِدھر سے اُدھر جا رہا ہے اور کوئی بگٹٹ واپس چلا آتا ہے۔ جانے والے رات کی تاریکی میں پارٹی چھوڑ رہے ہیں اور آنے والوں کے ڈھول باجوں سے استقبال ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر وہی سماں ہے جو سطح سمندر کے نیچے بحری روئوں کا ہوتا ہے۔ مختلف سمتوں میں چلتی، ایک دوسرے کو قطع کرتی روئیں! مولانا فضل الرحمن ایک محاذ کوئٹہ میں گورنر راج کے خلاف کھولے ہوئے ہیں تو دوسرا پڑائو ان کا قطر میں طالبان افغان مذاکرات کے دروازے پر ہے۔ اے این پی اپنے کئی سرداروں کی قربانی دے کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم حکومت کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ برون در بھی ہے اور اندرون خانہ بھی ؎
بامن آویزشِ او‘ الفتِ موج است و کنار
دمبدم بامن و ہر لحظہ گریزاں از من
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا رشتہ وہی ہے جو موج اور ساحل کا ہے۔ ابھی کنارے کے ساتھ لپٹتی ہوئی اور ابھی اسے بلکتا ہمکتا چھوڑ کر دور جاتی ہوئی۔ لیکن اس صورت حال پر کانوں کو صرف وہ ہاتھ لگاتا ہے جسے مسلم برصغیر کا ماضی نہیں معلوم ؎
مومنؔ اسی نے مجھ پر دی برتری کسی کو
جو پست فہم میرے اشعار تک نہ پہنچا
بلبن، خلجی، تغلق اور لودھی! اگر انگریزی کا محاورہ ’کٹ تھروٹ‘ کہیں صادق آتا ہے تو انہی حضرات کی باہمی قتل و غارت پر آتا ہے۔ بھتیجا چچا کا گلا کاٹ رہا ہے اور بھائی بھائی کی آنکھوں میں سلائی پھروا رہا ہے۔ صرف ہمایوں کا زمانہ ہی آج کے پاکستان کو سمجھنے کے لیے کافی ہے‘ اس لیے کہ جو مسلم برصغیر کے ماضی کو نہیں جانتا اور آج کی سیاست کو سمجھنے کا زعم رکھتا ہے اس کا حال وہی ہے کہ ؎
آں کس کہ نداند و نداند کہ نداند
در جہلِ مرکب ابد الدہر بماند
جو شخص کہ نہیں جانتا اور نہیں سمجھتا ہے کہ وہ نہیں جانتا‘ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سخت جہالت میں مبتلا رہے گا۔ ہمایوں آگرہ میں تھا۔ معلوم ہوا کہ جنوب میں گجرات کا حاکم سلطان بہادر پرتگالیوں کی مدد سے اس کے علاقے ہتھیانے کی فکر میں ہے۔ ہمایوں مارچ کرتا ہوا گیا اور ایک مہینے کے اندر گجرات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لیکن خبر ملی کہ شیرشاہ سوری آگرہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ واپس ہوا تو سلطان بہادر نے گجرات پر دوبارہ اپنی حکومت قائم کر لی۔ دوسری طرف آگرہ بچ گیا لیکن بنگال چھن گیا۔ پھر اس کے چھوٹے بھائی ہندال نے مسجدوں میں اپنے نام کا خطبہ پڑھوانا شروع کر دیا۔ دوسرے بھائی کامران نے ہندال سے معاہدہ کر لیا کہ ہمایوں بجھتا ہوا چراغ ہے، سلطنت آپس میں ہم بانٹ لیں گے۔ بنارس کے قریب گنگا کے کنارے شیرشاہ سوری اور ہمایوں کے لشکر آمنے سامنے خیمہ زن تھے۔ رات کے وقت کچھ سائے ہمایوں کے لشکر سے نکلے اور چھپتے چھپاتے شیر شاہ سوری کے شاہی خیمے میں داخل ہوئے اور پو پھٹے خاموشی سے واپس اپنے کیمپ میں آئے ؎
ملی تھیں آخر شب خلعتیں جنہیں اظہارؔ
وہی تو چند قبیلے مرے موافق تھے!!
یہی رات تھی جس کے اگلے روز نظام سقہ ہماری تاریخ کا مستقل حصہ بنا اور پھر آج تک نظام سقوں سے جان نہیں چھوٹی! شیرشاہ نے آگرہ بھی چھین لیا۔ ہمایوں لاہور بھاگ گیا۔ شیرشاہ تعاقب میں تھا یہاں تک کہ سرہند پہنچ گیا۔ ہمایوں نے سفارت بھیجی اور کہا کہ خدا کے بندے، سارا ہندوستان تم نے لے لیا‘ لاہور تو میرے پاس رہنے دو، سرہند کو تمہارے اور میرے درمیان سرحد بنا لیتے ہیں۔ لیکن طاقت نہ ہو تو درخواستوں سے ڈرون حملے کبھی نہیں رکتے۔ شیرشاہ سوری نے جواب بھیجا کہ میں نے کابل تمہارے لیے چھوڑ دیا ہے، وہیں جائو۔ کابل ہمایوں کے بھائی کامران کے پاس تھا۔
اس نے اپنی سلطنت کا ایک انچ بھی بھائی کو دینے سے انکار کر دیا۔ صرف یہی نہیں، اس نے شیرشاہ کو پیغام بھیجا کہ میں بھائی کے خلاف بغاوت کرتا ہوں‘ تم مجھے پنجاب سے حصہ دو، شیرشاہ اپنی پوزیشن مستحکم کر چکا تھا۔ اس نے کامران کی پیشکش حقارت سے ٹھکرا دی۔
یہ ایک جھلک ہے برصغیر کے مسلمان حکمرانوں کے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کی اور پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کی! ساری تاریخ اسی نفسانفسی سے بھری پڑی ہے اور اس کا نقطۂ عروج وہ ہولناک جنگ ہے جو شاہجہان کے چار فرزندانِ ارجمند کے درمیان پانچ سال جاری رہی۔ قبریں تین تھیں اور جسم چار! تین نے ہر حال میں مارا جانا تھا۔ معاملہ تین ہی کا نہ تھا، دارا شکوہ کا بیٹا سلیمان شکوہ بھی پوست پیتے پیتے چچا کی سلطنت پر قربان ہو گیا۔
نہیں! جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے، یہ الیکشن کی تیاریاں نہیں! یہ تخت نشینی کی جنگ ہے۔ یہ نوازشریف اور زرداری نہیں، یہ عمران خان اور الطاف حسین نہیں، یہ فضل الرحمن اور رئیسانی نہیں، یہ بابر اور ابراہیم لودھی ہیں، یہ شیرشاہ اور ہمایوں ہیں، یہ شاہ جہان کے شمشیر بکف بیٹے ہیں۔ ’’ہم پرویز مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرائیں گے۔‘‘ اور پھر پرویز مشرف کو یوں چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے اس سے کبھی رابطہ ہی نہ تھا، یہی کچھ تو ہمایوں کے بھائی کر رہے تھے، جیسے وہ کبھی ہمایوں کے بھائی ہی نہ تھے۔ کیا برصغیر کے مسلمان اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھ سکتے؟ کیا ان کا مستقبل ایسا ہی رہے گا جیسا ان کا حال ہے؟ گلے پینسٹھ سال سے نہیں، صدیوں سے کاٹے جا رہے ہیں!
آصف زرداری راوی کے کنارے خیمہ زن ہو گئے ہیں۔ نوازشریف نے سندھ کو مستقر بنا لیا ہے۔ طاہر القادری کے دائیں بائیں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کرسی نشین ہیں۔ غبار چھٹے تو کیا عجب قاف لیگ بھی منہاج القرآن کے گھوڑے پر سوار نظر آئے۔ شاہراہیں جو پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی طرف جا رہی ہیں، مسافروں سے اٹی پڑی ہیں۔ کوئی اِدھر سے اُدھر جا رہا ہے اور کوئی بگٹٹ واپس چلا آتا ہے۔ جانے والے رات کی تاریکی میں پارٹی چھوڑ رہے ہیں اور آنے والوں کے ڈھول باجوں سے استقبال ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر وہی سماں ہے جو سطح سمندر کے نیچے بحری روئوں کا ہوتا ہے۔ مختلف سمتوں میں چلتی، ایک دوسرے کو قطع کرتی روئیں! مولانا فضل الرحمن ایک محاذ کوئٹہ میں گورنر راج کے خلاف کھولے ہوئے ہیں تو دوسرا پڑائو ان کا قطر میں طالبان افغان مذاکرات کے دروازے پر ہے۔ اے این پی اپنے کئی سرداروں کی قربانی دے کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم حکومت کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ برون در بھی ہے اور اندرون خانہ بھی ؎
بامن آویزشِ او‘ الفتِ موج است و کنار
دمبدم بامن و ہر لحظہ گریزاں از من
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا رشتہ وہی ہے جو موج اور ساحل کا ہے۔ ابھی کنارے کے ساتھ لپٹتی ہوئی اور ابھی اسے بلکتا ہمکتا چھوڑ کر دور جاتی ہوئی۔ لیکن اس صورت حال پر کانوں کو صرف وہ ہاتھ لگاتا ہے جسے مسلم برصغیر کا ماضی نہیں معلوم ؎
مومنؔ اسی نے مجھ پر دی برتری کسی کو
جو پست فہم میرے اشعار تک نہ پہنچا
بلبن، خلجی، تغلق اور لودھی! اگر انگریزی کا محاورہ ’کٹ تھروٹ‘ کہیں صادق آتا ہے تو انہی حضرات کی باہمی قتل و غارت پر آتا ہے۔ بھتیجا چچا کا گلا کاٹ رہا ہے اور بھائی بھائی کی آنکھوں میں سلائی پھروا رہا ہے۔ صرف ہمایوں کا زمانہ ہی آج کے پاکستان کو سمجھنے کے لیے کافی ہے‘ اس لیے کہ جو مسلم برصغیر کے ماضی کو نہیں جانتا اور آج کی سیاست کو سمجھنے کا زعم رکھتا ہے اس کا حال وہی ہے کہ ؎
آں کس کہ نداند و نداند کہ نداند
در جہلِ مرکب ابد الدہر بماند
جو شخص کہ نہیں جانتا اور نہیں سمجھتا ہے کہ وہ نہیں جانتا‘ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سخت جہالت میں مبتلا رہے گا۔ ہمایوں آگرہ میں تھا۔ معلوم ہوا کہ جنوب میں گجرات کا حاکم سلطان بہادر پرتگالیوں کی مدد سے اس کے علاقے ہتھیانے کی فکر میں ہے۔ ہمایوں مارچ کرتا ہوا گیا اور ایک مہینے کے اندر گجرات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لیکن خبر ملی کہ شیرشاہ سوری آگرہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ واپس ہوا تو سلطان بہادر نے گجرات پر دوبارہ اپنی حکومت قائم کر لی۔ دوسری طرف آگرہ بچ گیا لیکن بنگال چھن گیا۔ پھر اس کے چھوٹے بھائی ہندال نے مسجدوں میں اپنے نام کا خطبہ پڑھوانا شروع کر دیا۔ دوسرے بھائی کامران نے ہندال سے معاہدہ کر لیا کہ ہمایوں بجھتا ہوا چراغ ہے، سلطنت آپس میں ہم بانٹ لیں گے۔ بنارس کے قریب گنگا کے کنارے شیرشاہ سوری اور ہمایوں کے لشکر آمنے سامنے خیمہ زن تھے۔ رات کے وقت کچھ سائے ہمایوں کے لشکر سے نکلے اور چھپتے چھپاتے شیر شاہ سوری کے شاہی خیمے میں داخل ہوئے اور پو پھٹے خاموشی سے واپس اپنے کیمپ میں آئے ؎
ملی تھیں آخر شب خلعتیں جنہیں اظہارؔ
وہی تو چند قبیلے مرے موافق تھے!!
یہی رات تھی جس کے اگلے روز نظام سقہ ہماری تاریخ کا مستقل حصہ بنا اور پھر آج تک نظام سقوں سے جان نہیں چھوٹی! شیرشاہ نے آگرہ بھی چھین لیا۔ ہمایوں لاہور بھاگ گیا۔ شیرشاہ تعاقب میں تھا یہاں تک کہ سرہند پہنچ گیا۔ ہمایوں نے سفارت بھیجی اور کہا کہ خدا کے بندے، سارا ہندوستان تم نے لے لیا‘ لاہور تو میرے پاس رہنے دو، سرہند کو تمہارے اور میرے درمیان سرحد بنا لیتے ہیں۔ لیکن طاقت نہ ہو تو درخواستوں سے ڈرون حملے کبھی نہیں رکتے۔ شیرشاہ سوری نے جواب بھیجا کہ میں نے کابل تمہارے لیے چھوڑ دیا ہے، وہیں جائو۔ کابل ہمایوں کے بھائی کامران کے پاس تھا۔
اس نے اپنی سلطنت کا ایک انچ بھی بھائی کو دینے سے انکار کر دیا۔ صرف یہی نہیں، اس نے شیرشاہ کو پیغام بھیجا کہ میں بھائی کے خلاف بغاوت کرتا ہوں‘ تم مجھے پنجاب سے حصہ دو، شیرشاہ اپنی پوزیشن مستحکم کر چکا تھا۔ اس نے کامران کی پیشکش حقارت سے ٹھکرا دی۔
یہ ایک جھلک ہے برصغیر کے مسلمان حکمرانوں کے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کی اور پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کی! ساری تاریخ اسی نفسانفسی سے بھری پڑی ہے اور اس کا نقطۂ عروج وہ ہولناک جنگ ہے جو شاہجہان کے چار فرزندانِ ارجمند کے درمیان پانچ سال جاری رہی۔ قبریں تین تھیں اور جسم چار! تین نے ہر حال میں مارا جانا تھا۔ معاملہ تین ہی کا نہ تھا، دارا شکوہ کا بیٹا سلیمان شکوہ بھی پوست پیتے پیتے چچا کی سلطنت پر قربان ہو گیا۔
نہیں! جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے، یہ الیکشن کی تیاریاں نہیں! یہ تخت نشینی کی جنگ ہے۔ یہ نوازشریف اور زرداری نہیں، یہ عمران خان اور الطاف حسین نہیں، یہ فضل الرحمن اور رئیسانی نہیں، یہ بابر اور ابراہیم لودھی ہیں، یہ شیرشاہ اور ہمایوں ہیں، یہ شاہ جہان کے شمشیر بکف بیٹے ہیں۔ ’’ہم پرویز مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرائیں گے۔‘‘ اور پھر پرویز مشرف کو یوں چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے اس سے کبھی رابطہ ہی نہ تھا، یہی کچھ تو ہمایوں کے بھائی کر رہے تھے، جیسے وہ کبھی ہمایوں کے بھائی ہی نہ تھے۔ کیا برصغیر کے مسلمان اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھ سکتے؟ کیا ان کا مستقبل ایسا ہی رہے گا جیسا ان کا حال ہے؟ گلے پینسٹھ سال سے نہیں، صدیوں سے کاٹے جا رہے ہیں!
Saturday, February 09, 2013
جلد یا بدیر
مسئلہ صرف جنوبی پنجاب کا نہیں، مغربی پنجاب کا بھی ہے اور اتنا ہی سنجیدہ جتنا کسی بھی محروم خطّے کا ہوسکتا ہے۔ انصاف کیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جتنی اہمیت ہزارہ کے علاقے کو خیبر پختونخوا میں حاصل ہے، مغربی پنجاب کے بارانی اضلاع کو اس کا عشر عشیر بھی اپنے صوبے میں نہیں حاصل۔ مغربی پنجاب کے عوام کو ابھی اس کا شعور نہیں، اتنے تیز اتنے باشعور اگر وہ ہوتے تو فرنگی حکومت انہیں مارشل ایریا کا بے معنی نام دے کر ترقی سے محروم نہ کردیتی۔ ان کے کھیتوں کے لیے آب پاشی کا انتظام کیا گیا نہ ہی صنعت کو ان کے نزدیک جانے دیا گیا ۔ اور آج پنجاب کے وہ علاقے جہاں نہروں کے جال بچھے ہیں اور جہاں کارخانے شمار سے باہر ہیں، پنجاب کے تخت پر قابض ہیں اور مغربی پنجاب کے اضلاع آسمان کی طرف منہ اٹھائے زبان حال سے کہہ رہے ہیں ؎
عدو کو بادۂ خوش رنگ دے کے کہتے ہیں
ولیؔ ولی ہے ولی نے پیا پیا، نہ پیا
آخر سندھ سے بھی تو نہریں نکالی جاسکتی تھیں۔ جنڈ، پنڈی گھیب اور میانوالی کے وسیع علاقے ان نہروں سے سیراب ہوسکتے تھے لیکن اگر زمینیں سونا اگلنے لگتیں تو فوج میں بھرتی کون ہوتا؟ فرنگی سوسال آگے کا سوچتے تھے۔ انہوں نے علاقے تقسیم کرلیے۔ یہ فوجی بھرتی کے لیے۔ وہ گندم اُگانے کے لیے اور وہ کپڑا بنانے کے لیے۔ یُوں آب پاشی اور کارخانوں کے لیے علاقے مخصوص ہوگئے۔ مگر اب تو فرنگی حکمرانوں کو گئے ہوئے بھی ساڑھے چھ دہائیاں ہوگئی ہیں۔ اب تو تبدیلی آجاتی! لیکن یہاں کون سی تبدیلی شرافت سے آئی ہے؟لاتوں کے بھُوت باتوں سے نہیں مانتے۔ ع اپنا حق شہزادؔ ہم چھینیں گے مانگیں گے نہیں !مغربی پنجاب کے محروم اضلاع کو کوئی بابا حیدرزمان، کوئی محمدعلی درانی کوئی نواب عباسی مل جاتا تو حالات مختلف ہوتے ؎
می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما
لیکن حدِّنگاہ تک کوئی مرد ایسا نظر نہیں آرہا۔
اوباما دوسری بار امریکہ میں الیکشن جیتا تو کئی امریکی ریاستوں نے وفاق سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا۔ ہزاروں شہریوں نے انٹرنیٹ پر مہم چلائی ۔کسی نے انہیں غدّاری کا طعنہ دیا نہ بے وقوفی کا! اگر جنوبی پنجاب اور بہاولپور الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں تو ضرور بنائیں۔ اس سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی ۔ اور ٹھیک اسی اصول کے تحت مغربی پنجاب کو بھی الگ انتظامی اکائی بننا چاہیے۔ سیاست اور بیوروکریسی کے طاقت ور افراد جو لاہور میں رہتے ہیں، اور جن کی اکثریت وسطی پنجاب سے ہے، اس مسئلے کو کبھی نہیں سمجھیں گے۔ پنجاب سے شریف برادران کی کچن کیبنٹ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو وسطی پنجاب سے باہر کا ہو۔ چودھری نثار علی خان لیڈر آف اپوزیشن ضرور ہیں لیکن معاف کیجیے، قومی اسمبلی میں ہیں، لاہور میں نہیں! وہ بہرحال شریف برادران کی کچن کیبنٹ یا ’’کورکمیٹی‘‘ میں نہیں۔ خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف ، رانا ثناء اللہ، احسن اقبال سب لاہور یا نواحی علاقوں سے ہیں۔ رہے اسحاق ڈار اور عابدشیر علی تو وہ شاہی خاندان کے افراد ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں میاں صاحبان کے رشتہ دار اگر اتنی تعداد میں نہیں جتنے بہادر شاہ ظفر کے رشتہ دار لال قلعے میں تھے تو اتنے کم بھی نہیں !جہاں تک راجہ ظفرالحق کا تعلق ہے وہ پوٹھوہار کی ترقی کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ وہ ضیاء الحق کی دریافت تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمنعم خان ایّوب خان کی دریافت تھے۔ راجہ ظفرالحق اور عبدالمنعم خان میں یہ قدر مشترک تو ضرور ہے کہ دونوں فوجی آمروں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی رہے لیکن یہ قدر مشترک بھی کم نہیں کہ دونوں وکیل تھے اور ایسے کہ وکالت کو دونوں میں سے ایک پر بھی ناز نہ تھا۔ راجہ صاحب نے ضیاء الحق کے دور آمریت میں وزارت کے مزے لوٹے اور سفارت کے بھی۔ اب نون لیگ میں وہ تبرک سے زیادہ کچھ نہیں ؎
نہ پُوچھ حال مرا، چوبِ خشک صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا
بات محروم علاقوں کی ہورہی تھی۔ راولپنڈی، اٹک ،چکوال، جہلم، میانوالی، آخر ان اضلاع کی لاہور میں کیا وقعت ہے؟(میانوالی کے عوام اور خواص نے جنوبی پنجاب کے مجوزہ صوبے میں میانوالی کی زبردستی شمولیت کو رد کردیا ہے اور اس دھڑلے اور شورشرابے کے ساتھ کہ کسی شک یا ابہام کی گنجائش ہی نہیں!) شریف برادران میں اتنا ادراک ہے نہ وژن کہ وہ یہ بات سمجھ سکیں کہ ان کے اردگرد جو سیاست دان اور بیوروکریٹ فصیلِ اقتدار کی برجیوں پر قابض ہیں، وہ سبھی لاہور اور نواح لاہور سے ہیں۔ بیوروکریسی کی زمام انہوں نے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے ہاتھ میں دی ہوئی ہے جس کو جنوبی پنجاب کی حرکیات کا علم ہے نہ مغربی پنجاب کے مسائل کا۔ ہمارے چالیس چالیس سالہ پرانے دوست جو کبھی گجرات کے چودھریوں کے ساتھ ہُوا کرتے تھے، اور اب ریٹائرہوکر بھی پنجاب حکومت سے وابستہ ہیں اور خوب طاقت ور ہیں ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جن دنوں وہ دوست ہوا کرتے تھے، لاہور سے باہر کے دوستوں کی ، بالخصوص مغربی اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی کس طرح تحقیر کیا کرتے تھے۔
مغربی پنجاب کے ان محروم اضلاع میں اگر مسلم لیگ (ن) جیتی بھی تو صرف اس لیے جیتے گی کہ امیدوار ہوں گے ہی جیتنے والے۔ حنیف عباسی ہی کو لے لیجیے، جماعت اسلامی میں تھے، تب بھی جیتے۔ پھر جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو حنیف عباسی ایک ثانیہ سوچے بغیر نون لیگ میں چلے گئے۔ فرض کریں آج نون لیگ انتخابات کا بائیکاٹ کردے یا انہیں ٹکٹ نہ دے تو وہ اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے پھر پارٹی بدل لیں گے لیکن جس پارٹی میں بھی ہوں گے جیت جائیں گے۔ اس پر دوسرے اضلاع کو قیاس کر لیجیے۔ مسئلے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے موجودہ سربراہ ذہنی طورپر اور جذباتی لحاظ سے لاہور سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ کہیں جاتے بھی ہیں تو وائسرائے کی طرح۔ یہی مثال لے لیجیے۔، فتح جنگ اور پنڈی گھیب کے گائوں گائوں اور بچے بچے کو معلوم ہے کہ اس علاقے کے ایک چھوٹے سے غریب گائوں میں ڈسپنسری نہیں بننے دی جارہی۔ ڈی سی او اٹک نے چارسال سے بیس لاکھ (صرف بیس لاکھ) روپے کا بجٹ مانگا ہوا ہے۔ نہیں دیا جارہا اس لیے کہ یہ گائوں لاہور میں ہے نہ نواح لاہور میں۔ یا پھر اس لیے کہ جس ناظم نے ڈسپنسری کی منظوری دی تھی وہ مسلم لیگ (ق) کا تھا یا شاید اس لیے کہ ایک کالم نگار کا تعلق اسی گائوں سے ہے اور وہ کالم نگار پنجاب حکومت پر کبھی کبھی جائز تنقید کرتا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ع
قیاسِ کن زِ گلستانِ من بہارِ مرا
بھارتی پنجاب پاکستانی پنجاب سے بڑا نہیں تھا لیکن اسے تین صوبوں میں بانٹ دیا گیا۔ 1966ء میں ہریانہ وجود میں آیا اور 1971ء میں ہما چل پردیش۔ تاریخ کا پانی نشیب سے بلندی کی طرف نہیں بہہ سکتا ۔ آج جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے صوبوں کی بات ہورہی ہے، ہزارہ انگڑائیاں لے رہا ہے ، قبائلی علاقے جاگ رہے ہیں ۔ مغربی پنجاب کی انتظامی اکائی بھی جلد یا بدیر حقیقت کا روپ دھارے گی۔
Friday, February 08, 2013
اے اہل کشمیر
یہ جو ہم پانچ فروری کو ہر سال یومِ کشمیر مناتے ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ دنیا کو باور کرایا جا سکے۔ ہم تقاریب منعقد کرتے ہیں۔ کوہالہ، منگلا اور جانے کہاں کہاں انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بناتے ہیں۔ تقریریں کرتے ہیں۔ جلوس نکالتے ہیں، بین الاقوامی اداروں کو یادداشتیں پیش کرتے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں کو مسئلے کی تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں اور بھارت کو پیغام دیتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کشمیر پاکستان کا ہے اور یہ کہ ہم جلد یا بدیر، کشمیر لے کر رہیں گے۔ یہ سب کچھ جو ہم پانچ فروری کو کرتے ہیں‘ علامتی سرگرمیاں ہیں۔ یہ دن اس عہدِ وفا کی علامت ہے جس کی ہم تجدید کرتے ہیں، اپنے ساتھ اور اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ!
تاہم اصل تیاری جو ہم کر رہے ہیں اُس کا دنیا اور اہلِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم ملک کے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جب کشمیر پاکستان میں شامل ہو تو ہم فخر کے ساتھ اہلِ کشمیر کو ان کا نیا وطن پیش کر سکیں۔ ہم اکثر و بیشتر اس المناک حقیقت کا رونا روتے ہیں کہ بھارتی ملازمتوں میں بھارتی مسلمانوں کا حصّہ برائے نام ہے۔ ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے اور ان کی آبادی کے مقابلے میں نوکریوں کی تعداد کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم پاکستان میں میرٹ کا بول بالا کر رہے ہیں۔ کل جب کشمیر کے نوجوان غلامی کی زنجیریں کاٹ کر اس وطن کو گلے لگائیں گے تو یہ دیکھ کر پھولے نہیں سمائیں گے کہ ان کے نئے ملک میں سفارش کی ضرورت ہے نہ کوئی انہیں ان کے حق سے محروم رکھ سکتا ہے۔
بیرون ملک تعیناتیوں ہی کو لے لیجیے، یہ سب مکمل ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ اصل میرٹ تک پہنچنے کے لیے پارٹی کے بڑے بڑے رہنمائوں میں بیرون ملک پوسٹیں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ یوں تو ماشاء اللہ جب سے یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے، بیرون ملک تعیناتیاں صرف اور صرف ’’میرٹ‘‘ پر ہو رہی ہیں؛ تاہم موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں ماضی کی شفافیت کو مات کر دیا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ کشمیری بھائی آئیں تو بھارتی ناانصافیوں سے نجات پانے پر سجدۂ شکر ادا کریں۔ حکومت نے بیرونِ ملک تعینات چالیس سے زیادہ کمرشل کونسلروں کو اچانک واپس بلا لیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ آسامیاں وفاداروں میں تقسیم کی جائیں گی۔ ان آسامیوں کو پُر کرنے کے لیے امتحان لیا گیا تھا۔ یہ امتحان لاہور کی ایک بین الاقوامی شہرت کی حامل یونیورسٹی نے منعقد کیا۔ پہلے یونیورسٹی کو بتایا گیا کہ ساٹھ فیصد یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کو کامیاب قرار دیا جائے لیکن اس معیار سے میرٹ کا حق نہیں ادا ہو رہا تھا۔ میرٹ کا بول بالا کرنے کے لیے اور قابل ترین امیدواروں کو موقع دینے کے لیے معیار ساٹھ فیصد سے کم کرکے چالیس فیصد کر دیا گیا یعنی چالیس فیصد نمبر حاصل کرنے والے بھی تعیناتی کے اہل ہوں گے! سونے پر سہاگہ یہ کہ یونیورسٹی کو حکومت کی طرف سے ہدایت دی گئی کہ کامیاب امیدواروں کے نمبر صیغۂ راز میں رکھے جائیں حالانکہ اس سے پہلے اسی قسم کے امتحانات کے نمبر بتا دیے جاتے تھے۔ یہ نمبر صرف وزیرِ تجارت کے علم میں ہیں جو انٹرویو بورڈ کے صدر ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ وزیرِ تجارت ٹیکس ریٹرن ہی نہیں فائل کرتے۔
میرٹ کی اس کہانی کا دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب اخباری نمائندے نے وزارتِ تجارت کے ترجمان افسر سے پوچھا کہ کیا کمرشل کونسلروں کے انتخاب میں سیاسی اثر و رسوخ کا عمل دخل بھی ہو رہا ہے؟ افسر کا جواب لاجواب تھا۔ آپ نے فرمایا… ’’سلیکشن کمیٹی کے صدر وزیرِ تجارت ہیں جو سیاست دان ہیں۔ سیاست کوئی بُری چیز نہیں…‘‘۔ تعجب ہے کہ اس تاریخی جواب پر ابھی تک وزارت کے ترجمان کو کوئی تمغہ‘ کوئی انعام نہیں دیا گیا۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پارٹی کے بڑوں میں سخت کھینچا تانی ہو رہی ہے کہ کس بڑے کو کتنی تعیناتیاں ’’الاٹ‘‘ ہوں گی!
ہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمان نوجوانوں کو مبارک دیتے ہیں کہ جس پاکستان سے الحاق کے لیے وہ اپنی جانوں کا نذرانہ دے ہے ہیں اور دیے جا رہے ہیں اس پر خالص میرٹ کی حکمرانی ہے۔
فخر کے اسباب اور بھی ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے بین الاقوامی ترقی نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں سے ان کی ٹیکس چوری کے بارے میں کُھل کر دو ٹوک بات کی جائے۔ کمیٹی کے سربراہ سر میلکام برُوس نے بین الاقوامی ترقی کی برطانوی وزیر جسٹین گریننگ سے کہا ہے کہ تم پاکستانی سیاستدانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیوں نہیں کہتیں کہ ’’میں برطانیہ میں ٹیکس ادا کرتی ہوں کیا تم پاکستان میں ٹیکس دے رہے ہو…‘‘؟ کمیٹی کے سربراہ کو جب
معلوم ہوا کہ پاکستان کے ستّر فیصد عوامی نمائندے ٹیکس نہیں دیتے تو ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ وزیر بین الاقوامی ترقی نے یقین دلایا کہ وہ اپنے دورۂ پاکستان میں یہ مسئلہ اٹھائیں گی۔ اس پر کمیٹی کے سربراہ نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا کہ… ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ دورہ اس حوالے سے نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ کمیٹی کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی حکومت مدد چاہتی ہے۔ ’’یہ لوگ ہمارے ٹیکس کھا رہے ہیں لیکن خود ٹیکس نہیں ادا کرتے۔ بنکوں میں ان کے اربوں پائونڈ پڑے ہیں اور پیسہ آئی ایم ایف سے مانگتے پھر رہے ہیں…‘‘ کمیٹی کی ایک اور رکن (فیانا ڈونل) نے اپنے گزشتہ دورۂ پاکستان کے حوالے سے کہا… ’’میں نے عام پاکستانیوں کو یہ کہتے سنا کہ ہم ٹیکس کیوں ادا کریں؟ حکومت اس قدر بدعنوان ہے کہ اس سے کسی اچھے کام کی توقع ہی نہیں۔ ہم یہی رقم کسی خیراتی ادارے کو دینا پسند کریں گے…‘‘
انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بنانے سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا یا نہیں؟ یہ تو نہیں معلوم لیکن یہ امر یقینی ہے کہ پاکستان سے الحاق کے بعد کشمیری نوجوان اُن ناانصافیوں کو بھول جائیں گے جو بدبخت بھارتی ہندو اُن سے روا رکھے ہوئے ہیں!
پاکستان ایک باغ ہے۔ سرسبز و شاداب باغ۔ پُرامن باغ۔ جس میں ہر طرف میرٹ کے چشمے بہہ رہے ہیں۔ اے اہلِ کشمیر! خوش آمدید! ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)