بارہ ربیع الاوّل کا مبارک دن گزر گیا۔ الحمد للہ ۔میں اپنے ضمیر سے مطمئن ہوں۔ میں نے اپنے مذہبی فرائض جوش وخروش سے ادا کیے۔ میں نے اس محبت کا اظہار احسن طریقے سے کیا جو مجھے آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ میں نے جلسے اور جلوس کے لیے دل کھول کر رقم دی۔ انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ میرے بچوں نے سبز جھنڈے پکڑ کر اور سبز ٹوپیاں پہن کر جلوس میں شمولیت کی اور کئی میل پیدل چلے۔ میں نے دودھ اور شربت کی سبیلیں لگائیں ، قورمے اور بریانی کی دس دیگیں پکاکر تقسیم کیں۔ منوں کے حساب سے شیر مال تھے۔ کپڑے کے بیسیوں تھان مستحقین میں بانٹے۔
الحمدللہ مجھے اطمینان ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے پوری امید ہے کہ میرا نام اُن مسلمانوں میں ضرور شامل ہوگا جو مدینہ منوّرہ کی خاکِ پاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں۔ سب سے نیچے سہی، فہرست میں اس حقیر پُرتقصیر کا نام تو ہوگا!انشاء اللہ !
میں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریاں پوری کردیں۔ اب میں پورے سال کے لیے سرخروہوں اور آزاد بھی۔ میں اگرسرکاری ملازم ہوں تو اپنی مرضی کے وقت پر دفتر پہنچوں گا۔ پہنچ کر اخبارات کا مطالعہ کروں گا‘ پھر گھر کے کاموں کے لیے ادھر ادھر ٹیلی فون کروں گا۔ سائل آیا تو اسے اپنی صوابدید پر ملوں گا۔ نہ مل سکا تو باہر بٹھائے رکھوں گا۔ دوبارہ آنے کا کہہ دوں گا۔ ملازمین بھرتی کرنے ہوئے تو سفارش اور رشوت کو معیار بنائوں گا۔ اُوپر والوں نے جوکچھ کہا، بے چون وچرا مانوں گا۔ ماتحتوں کی ترقیاں تعیناتیاں کرتے وقت حالات کے تقاضے پیشِ نظر رکھوں گا۔ خالص میرٹ ایک ایسا تصور ہے جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ فیصلے طاقت ور گروہوں کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔ بجلی، گیس ، پٹرول اور سی این جی کی قیمتیں، افراطِ زر کی شرح، بنکوں سے لیے گئے قرضوں کی معافیاں، یہ اور اس قبیل کے دوسرے مسائل میں بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے۔ عوام ہی سب کچھ نہیں، اس بات کا بھی تو خیال رکھنا ہے کہ میری اگلی تعیناتی بیرونِ ملک یا اندرونِ ملک کہاں ہوگی!
میں اگر تاجر ہوں تو ربیع الاوّل کے جشن میں ہر شخص جانتا ہے میرا حصہ سب سے زیادہ تھا۔ اب سال کے باقی ایّام آرام وسکون اور اطمینانِ قلب سے گزریں گے۔ خوراک، پانی، دوائیں، معصوم بچوں کا دودھ اور ملاوٹ، یہ سب کاروبار کی مجبوریاں ہیں، یہ حدیث تو ہے کہ جس شخص نے کوئی عیب والی شے فروخت کی اور خریدار کو وہ عیب نہیں بتلایا تو اللہ کے فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے رہیں گے لیکن اللہ کی ذات گواہ ہے کہ میں نے میلادالنبیؐ میں تن من دھن۔ کسی قسم کی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ میں ٹیکس پورا نہیں دے سکتا۔ دکان کے سامنے ہٹ دھرمی سے میں نے فٹ پاتھ پر قبضہ کررکھا ہے، لیکن اس سے آخر میری آمدنی میں حرام کی ملاوٹ کیسے ہوسکتی ہے ؟سرکاری جگہ ہے، کسی فرد کی تو نہیں، رہا پیدل چلنے والوں کا حق ،تواگر انہیں ذرا سی اذیّت پہنچ رہی ہے تو آخر دنیا کا کاروبار بھی تو چلنا ہی ہے۔ توانائی کی شدید قلّت کے باوجود میں نے دکان دن کے بارہ بجے ہی کھولنی ہے اور رات کے دس بجے تک ہی کاروبار کرنا ہے۔ یہ تو ریاست کا کام ہے کہ توانائی کی قلّت پر قابو پائے۔
میں اگر سیاست دان ہوں تو پوری دنیا نے دیکھا ہے کہ بارہ ربیع الاوّل کے مبارک جلسے میں میں نے عشقِ رسولﷺ میں ڈوبی ہوئی تقریر کی۔ فرطِ جذبات سے میری آواز بھرّا گئی اور سننے والوں پر رقّت طاری ہوئی۔ رہیں سال بھر کی سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں تو وہ تو کاروبارِ دنیا ہے۔ سرکاری خرچ پر، عوام کے ٹیکسوں سے، میں نے اس برس بھی حج کرنا ہے۔ یہ جواخبار میں آیا ہے کہ ایک سیاست دان وزیر کے پاس اکاون (51)سرکاری کاریں ہیں تو یہ میڈیا کا پاگل پن ہے جو اس قسم کی خبروں کو اُچھال رہا ہے۔ ہم سیاست دان ہیں اور جب حکومت میں ہوتے ہیں تو ہمارے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔ جب سیاست دان وزیراعظم بنتا ہے تو اسے انتخابات سے پہلے پچاس ارب روپے اپنے صوابدیدی فنڈ میں ڈالنے پڑتے ہیں۔ اگر بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے تیس کروڑ روپے ہرایم پی اے کو دیئے ہیں تو یہ آخر سیاسی تقاضے ہیں جو پورے کرنے پڑتے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے میں میرا بھائی اگر چیف منسٹر ہے اور میرے معاون اور خدمت گار صوبائی حکومت کے ملازم ہیں اور وہاں سے تنخواہ لے کر میری معاونت کررہے ہیں تو سیاست میں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آخر یہ بھی تو دیکھیے کہ عشقِ رسولﷺ میرے دل میں کس شان سے موجزن ہے۔!
میں تاجر ہوں یا سیاست دان، سرکاری ملازم ہوں یا صنعت کار، میری حیثیت پڑوسی کی ہے یا باپ کی، یاماں کی، میں شوہر ہوں یا رشتہ دار، میں جوکچھ ہوں، میں اپنے پیارے نبیﷺ پر جان تو قربان کرسکتا ہوں لیکن یہ ممکن نہیں کہ میں اپنی زندگی اس طرح بسر کروں جس طرح آپﷺ نے بسر فرمائی تھی۔ صبح سے شام تک ہرکام میں، ہر سودے میں، ہر قدم پر، آپﷺ کے احکام پر عمل پیرا ہونا، یہ تو جان قربان کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ آپ خود سوچیے، اگر ملاوٹ سے مجھے کروڑوں روپے کا فائدہ ہے، اگر سرکاری خزانے کے ناجائز استعمال سے میں الیکشن جیت لیتا ہوں اور اگر ’’تحائف‘‘ سے میرے لامتناہی اخراجات پورے ہورہے ہیں تو یہ سب کچھ نہ کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ صلہ رحمی ہی کو لیجیے، اگر میں نے ناراض رشتہ داروں کے گھر جاکر ان سے صلح کرلی تو میری عزت کا کیا بنے گا؟ بیٹی کو جائداد میں سے حصہ دیا تو لڑکوں کو کیا ، منہ دکھائوں گا۔ یہ درست ہے کہ میرے آقاﷺ کا حکم ہے کہ بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کہیں نہ کرو لیکن معاشرے میں سراُٹھا کر کس طرح چلوں گا؟ بھائی!آپﷺ کے احکام پر عمل کرنا اس زمانے میں مجھ جیسے گنہگار کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہوں کہ اپنی ظاہری شکل وصورت اسلامی بنالوں۔ لباس ایسا پہن لوں کہ ہردیکھنے والا مجھے نیکوکار اور متقی سمجھے، ہاتھ میں تسبیح پکڑ لوں‘ حقوق اللہ یعنی نماز روزہ اور حج‘ پورے پورے ادا کروں، لیکن یہ جو میرے آقاومولاﷺ کے احکام حقوق العباد سے متعلق ہیں تو یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ تو خاردار جھاڑیوں والے راستے پر کپڑے سمیٹ کر چلنے کے مترادف ہے۔ میں یہ کروں گا کہ انشاء اللہ، زندہ رہا تو اگلے بارہ ربیع الاوّل کے جلسوں اور جلوسوں میں اور بھی زیادہ سرگرمی سے حصہ لوں گا۔ آپ حضرات دعا کرتے رہیے۔
2 comments:
MashAllah. Very well written as usual. Shaheed
Well said. Reminds me of Sir Syed Ahmad Khan and his Tehzeeb-al-Akhlaq. Bravo!
Toheed Ahmad
Post a Comment