Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, November 27, 2012

1870 سے لے کر اب تک

دس اپریل 1869ء کی شام تھی جب ایک بحری جہاز بمبئی سے روانہ ہوا۔ اس کی منزل لندن تھی۔ اس میں دوسرے مسافروں کے علاوہ سرسید احمد خان بھی سوار تھے۔ سرسید احمد خان ایک سال اور پانچ مہینے لندن میں رہے اور 4 ستمبر 1870ء کو واپس روانہ ہوئے۔ اس سفر کی یادداشتیں سرسید نے ’’مسافرانِ لندن‘‘ کے عنوان سے لکھیں۔

میں نے یہ کتاب کئی سال پہلے کراچی سے خریدی اور بغیر پڑھے اپنے کتب خانے میں رکھ دی۔ 2005ء میں کچھ عرصہ انگلستان میں رہنے کا موقعہ ملا۔ واپس آ کر سب سے پہلے یہ کتاب پڑھی اور اب تک کئی بار پڑھ چکا ہوں۔ عربوں کا قول ہے کہ انسان کی بڑائی پر ایک چیز یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ لوگ اس کے بارے میں مختلف اور متضاد آراء رکھتے ہیں۔ یہ سفرنامہ ہندوستان میں مضامین کی صورت میں چھپا تو کچھ لوگوں نے مشہور کر دیا کہ سرسید عیسائی ہو گئے ہیں۔ آج بھی بے شمار لوگ سرسید کو برصغیر کے مسلمانوں کا محسن سمجھتے ہیں اور ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں!

اس سفر کے دو مقاصد تھے۔ ان دنوں ولیم میور نے ’’لائف آف محمدؐ‘‘ کے عنوان سے چار جلدوں میں ایک کتاب لکھی جس میں بہت سے نامناسب اعتراضات کیے گئے۔ سرسید اس کا جواب لکھنا چاہتے تھے اور جن کتابوں سے وہ استفادہ کرنا چاہتے تھے وہ صرف یورپ کے کتب خانوں میں میسر تھیں۔ دوسرا مقصد ان کے اپنے الفاظ میں یہ تھا کہ وہ ’’مغربی ملکوں کی ترقی کا بچشم خود مشاہدہ کریں اور ان مفید اور عمدہ باتوں کو ہندوستان کی بھلائی کے واسطے سیکھیں۔‘‘

زادِ راہ کے لیے سرسید نے اپنے نایاب اور بیش بہا کتب خانے کو فروخت کیا اور آبائی مکان کو گروی رکھ دیا۔ اس سفر میں چار افراد ان کے ساتھ تھے۔ ان کے دو بیٹے سید حامد اور سید محمود، مرزا خداداد بیگ اور سرسید کا پرانا خدمت گار چھجّو۔

اس وقت کے برصغیر میں غسل خانے کے شاور اور بیت الخلاء کے کموڈ کا کوئی تصور نہ تھا۔ بحری جہاز کے باتھ روم کے متعلق سرسید لکھتے ہیں کہ ’’سر کے اوپر ایک چھلنی لگی ہوئی ہے اور دیوار میں ایک پیچ ہے۔ جہاں اس پیچ کو پھرایا اور چھلنی میں سے مینہ برسنا شروع ہوا۔ اس کے نیچے کھڑے ہو کر خوب نہا لیے۔‘‘ بیت الخلاء کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’کموڈ کے ظرفِ چینی میں پانی آیا اور سب کچھ بہا لے گیا اور وہ ظرفِ چینی بالکل صاف ہو گیا۔‘‘

جہاز عدن میں رکا۔ وہاں کے بازار کے بارے میں سرسید لکھتے ہیں ’’یہاں دکاندار اور تمام لوگ نہایت کثیف اور میلے کچیلے ہیں اور صومالی تو بالکل وحشی جنگلی معلوم ہوتے ہیں۔ نان بائیوں اور قہوہ والوں کی دکانیں ایسی خراب بدبودار ہیں کہ پائوں رکھنے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘ مصر میں ریل کا سفر کیا تو سرسید افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ریل کا تمام سامان فرانس اور برطانیہ کا بنا ہوا ہے اور کوئی چیز بھی مصریوں کی بنائی ہوئی نہیں! جنوبی فرانس کے ساحلی شہر مارسیلز کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کارخانوں میں سات ہزار افراد ملازم ہیں۔ ہر سال سولہ لاکھ اسی ہزار من صابن بنتا ہے۔ ایک لاکھ بارہ ہزار من سالانہ تیل تیار ہوتا ہے اور ہر سال سرخ ترکی ٹوپی پچاس ہزار تیار ہوتی ہے! ریڈی میڈ ملبوسات یورپ میں اس وقت بھی عام تھے۔ پیرس میں سرسید کے ہم سفر مرزا خداداد بیگ کو کپڑے لینے پڑے۔ سرسید لکھتے ہیں ’’دکان میں گئے۔ دکاندار نے دریافت کرکے کہ کس قسم کا کپڑا خریدنا ہے، مرزا کا ناپ لیا اور اپنے اسسٹنٹ سے کہا کہ فلاں نمبر کا کوٹ پتلون لائو پھر ایک آراستہ کمرہ بتایا۔ مرزا اس میں گئے اور کپڑے بدل کر برش آئینہ کنگھی کرکے خوبصورت جوان بنے ٹھنے نکل آئے۔‘‘

لندن سے سرسید کا برسٹل جانا ہوا جو لندن سے ایک سو اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ برسٹل کے مشہور پل کی سرسید نے داستان بیان کی ہے۔ 1753ء میں ایک تاجر مسٹر وِک نے مرتے وقت دس ہزار پائونڈ پل کے لیے عطیہ دیا۔ شہریوں نے یہ رقم تجارت

میں لگا دی۔ 1834ء میں یہ رقم اسی ہزار ہو گئی۔ تین لاکھ ستر ہزار پائونڈ چندے میں جمع کیے گئے۔ پھر کمپنی بنائی گئی اور شیئر (حصص) جاری ہوئے اور یوں کمپنی نے پل بنایا۔ سرسید لکھتے ہیں… ’’اب میں اپنے ہم وطنوں سے نہایت دستہ بستہ اور ادب سے پوچھتا ہوں کہ یہ لوگ آدمی ہیں یا ہم؟ جو صرف حیوانوں کی طرح اپنی خودغرضی میں مبتلا ہیں۔ اور ہر کام میں کہتے ہیں کہ گورنمنٹ بندوبست کرے۔ لڑکوں کے پڑھانے کا کام بھی گورنمنٹ کرے۔ ان کو ان کا مذہب سکھانے کا بھی گورنمنٹ ہی بندوبست کرے۔ افسوس صد افسوس ہزار افسوس! حقیقت میں ڈوب مرنے کی جگہ ہے۔ ہم اس قابل بھی نہیں کہ کسی تربیت یافتہ ملک کے لوگوں کو اپنا منہ بھی دکھلاویں!‘‘

سرسید نے قیام برطانیہ کے دوران اپنے وطن کو ایک لمحہ کے لیے بھی فراموش نہیں کیا۔ وہ ہر وقت انگلستان کا برصغیر سے موازنہ کرتے تھے اور انگریزوں کی طاقت اور اپنے ہم وطنوں کی غلامی کے اسباب پر غور کرتے رہتے تھے۔ وہ نوابوں اور لارڈز کی محفلوں میں بھی شریک ہوئے۔ ان سے کم درجہ کے امرا سے بھی ملے۔ متوسط درجے کے اشراف سے بھی ملاقات کی۔ عورتوں کو بھی دیکھا۔ لوئر کلاس کے انگریزوں کے رہن سہن کا بھی مشاہدہ کیا۔ کارخانے، دکانیں اور بازار بھی دیکھے۔ اسباب رکھنے، سودا بیچنے اور خریداروں کے ساتھ پیش آنے کے طریقے بھی دیکھے۔ محلات اور عجائب گھروں کی سیر بھی کی۔ جہاز بنانے، توپیں بنانے اور تار برقی بنانے کے کارخانے بھی دیکھے۔ جنگی جہازوں کا بھی مشاہدہ کیا۔ سوسائٹیوں اور کلبوں کے اجلاسوں اور کھانوں میں بھی شریک ہوئے۔ اس کے بعد وہ کس نتیجے پر پہنچے؟ ان کے اپنے الفاظ میں پڑھیے۔

’’ان سب باتوں کا جو نتیجہ حاصل ہوا وہ یہ ہوا کہ ہم جو ہندوستان میں انگریزوں کو ایک نہایت بداخلاقی کا ملزم ٹھہرا کر (اگرچہ اب بھی میں اس الزام سے انگریزوں کو بری نہیں کرتا) یہ کہتے تھے کہ انگریز ہندوستانیوں کو بالکل جانور سمجھتے ہیں اور نہایت حقیر جانتے ہیں، یہ ہماری غلطی تھی۔ وہ ہم کو سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ درحقیقت ہم ایسے ہی ہیں! میں بلامبالغہ نہایت سچے دل سے کہتا ہوں کہ تمام ہندوستانیوں کو اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک، امیر سے لے کر غریب تک سوداگر سے لے کر اہل حرفہ تک، عالم فاضل سے لے کر جاہل تک انگریزوں کی تعلیم و تربیت اور شائستگی کے مقابلے میں درحقیقت ایسی ہی نسبت ہے جیسے نہایت لائق اور خوبصورت آدمی کے سامنے نہایت میلے کچیلے وحشی جانور کو… پس تم کسی جانور کو قابل تعظیم یا لائق ادب کے سمجھتے ہو؟ کچھ اس کے ساتھ اخلاق اور بداخلاقی کا خیال کرتے ہو؟ ہرگز نہیں کرتے۔ پس ہمارا کچھ حق نہیں ہے (اگرچہ وجہ ہے) کہ انگریز ہم ہندوستانیوں کو ہندوستان میں کیوں نہ وحشی جانور کی طرح سمجھیں؟‘

سرسید یہ موازنہ اس جغرافیائی اور موسمی فرق کی وجہ سے نہیں کر رہے جو مختلف ملکوں کے درمیان قدرت نے رکھا ہے بلکہ اخلاقی، تعلیمی اور معاشرتی حوالوں سے کرتے ہیں اور صفائی سلیقے اور ہنر اور تربیت و تعلیم کا رونا روتے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ ان کے ہم وطن ان کی تحریر کو سخت اور جارحانہ قرار دیں گے لیکن ان کا موقف یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے برطانیہ میں دیکھا وہ ان کے ہم وطنوں کے تصور میں بھی نہیں۔ پھر وہ مچھلی اور مینڈک کی مثال دیتے ہیں۔ ایک مچھلی کنویں میں گر پڑی۔ اس نے کنوئیں کے مینڈکوں کو بتایا کہ دریا کتنا بڑا اور چوڑا ہوتا ہے۔ یہ سن کر ایک مینڈک کنوئیں کی دیوار سے ذرا سا پیچھے ہٹ گیا اور پوچھا کہ کیا دریا اتنا بڑا ہوتا ہے جتنا میں کنوئیں کی دیوار سے پیچھے ہوں۔ مچھلی نے کہا اس سے بھی زیادہ۔ مینڈک پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کہ دوسری دیوار سے جا لگا۔ جب مچھلی نے کہا کہ اس سے بھی بڑا تو مینڈک نے اس کا مذاق اڑایاکہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔ اس سے زیادہ کس طرح ہو سکتا ہے!اس پر مچھلی نے کہا کہ جس چیز کو تم نے دیکھا نہیں وہ تمہارے خیال میں کس طرح آ سکتی ہے؟

برصغیر کی عورتوں کی ناخواندگی کے متعلق انہوں نے عجیب مثال دی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر ہندوستان میں کوئی خاتون بازار سے برہنہ گزرے تو ہمارے ہم وطنوں کو کتنا تعجب ہوگا! اسی طرح جب انگلستان کی عورتیں سنتی ہیں کہ ہندوستان کی عورتیں پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں تو انہیں ایسا ہی تعجب ہوتا ہے! بنگالیوں اور پارسیوں کی ترقی کی تعریف کرتے ہوئے مسلمانوں کی حالت پر افسوس کرتے ہیں… ’’شاید مسلمان تو اتنے دنوں تک پڑے رہیں کہ پھر وقت اور زمانہ ان کی ترقی کا باقی نہ رہے اور جو مرض ہے وہ علاج پزیر نہ رہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو جہلِ مرکب نے گھیرا ہے۔ اپنے باپ دادا کے قصے یاد کرتے ہیں اور جو باغ ان کے سامنے ہے اور گل پھول کھل رہے ہیں اسی جہل مرکب نے ان کی آنکھوں کو اس کے دیکھنے سے اندھا کر رکھا ہے…‘‘

سرسید جتنا عرصہ انگلستان میں رہے اپنی قوم کے تعصب اور تنزل پر کڑھتے رہے۔ کتاب بھی تصنیف کرتے رہے۔ وسائل کی سخت کمی تھی ’’ادھر جب حساب کتاب دیکھتا ہوں تو جان نکل جاتی ہے کہ الٰہی لکھنا اور چھپوانا تو شروع کر دیا روپیہ کہاں سے آئے گا۔ مسلمان آستینیں چڑھا کر اس باب میں تو لڑنے کو تیار ہوں گے کہ انگریزوں کے ساتھ کھانا مت کھائو مگر جب کہو کہ مذہبی تائید میں کچھ روپیہ خرچ کرو تو جان بچائیں گے۔‘‘

ایک اضطراب تھا جس میں سرسید مسلسل مبتلا رہے۔ اپنے وطن کے مسلمانوں کے بارے میں ان کی پریشانی اس باپ کی پریشانی کی طرح بے لوث اور بے غرض تھی جس کا بیٹا بیمار ہو۔ ایک ہی دھن تھی کہ مسلمان پستی سے نکلیں اور ترقی کے زینے پر چڑھیں۔ ان کا خلوص ان سطور سے ظاہر ہوتا ہے جو انہوں نے ایک خط میں مہدی (غالباً مہدی الافادی) کو لکھیں… ’’افسوس کہ مسلمان ہندوستان کے ڈوبے جاتے ہیں اور کوئی ان کا نکالنے والا نہیں۔ ہائے افسوس! امرت تھوکتے ہیں اور زہر اگلتے ہیں۔ ہائے افسوس! ہاتھ پکڑنے والے کا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں اور مگرمچھ کے منہ میں ہاتھ دیتے ہیں۔ اے بھائی مہدی! فکر کرو اور یقین جان لو کہ مسلمانوں کے ہونٹوں تک پانی آ گیا ہے، اب ڈوبنے میں بہت ہی کم فاصلہ باقی ہے۔ اگر تم یہاں آتے تو دیکھتے کہ تربیت کس طرح ہوتی ہے اور تعلیم ِاولاد کا کیا قاعدہ ہے اور علم کیوں کر آتا ہے اور کس طرح پر کوئی قوم عزت حاصل کرتی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں یہاں سے واپس آ کر سب کچھ کہوں گا اور کروں گا مگر مجھ کافر، مردود، گردن مروڑی مرغی کھانے والے، کفر کی کتابیں چھاپنے والے کی کون سنے گا؟‘‘

مسلمانوں کے جو حالات 1870ء میں تھے اور جن کی وجہ سے سرسید احمد خان پریشان تھے۔ کیا اب وہ حالات بدل گئے ہیں؟ سرسید احمد خان نے آخر وحشی جیسا سخت لفظ اپنے ہم وطنوں کے لیے کیوں استعمال کیا؟ ان سوالوں کا جواب ہم اگلی نشست میں دیں گے۔

Facebook.com/www.izharulhaq.net



4 comments:

Anonymous said...

If Sir Syed comes back today for a short visit to Indo-Pak subcontinent, he will find that, by and large, the masses are still illiterate, backward and superstitious as he left them a century ago. He will find an extremely small percentage of people who are at par with the rest of the world when it comes to the general level of IQ, broadmindedness and emotional maturity to look at problems and issues in a rational manner. This ratio may not be any different from what it used to be during the British Raj. The British Raj maintained this situation by a conscious design as a means to effectively manage the colonial rule. The system was designed such that a small cross-section of the local population was allowed and encouraged to do well and to hold middle management positions as an incentive for them to keep the masses in line. The masses were kept poor, helpless and allowed to stay backward to provide cheap labor to support the Raj. Today the situation in that continent is hardly any different except, the British Raj has been replaced by the Raj of the local affluent people most of whom are nothing but treacherous thugs. Today’s Pakistan is an excellent example of that.
Javed

Pervez Ahmed Azmi said...

مضمون انتہائی معلوماتی ہے۔ بہت سی چیزیں جو ہم جانتے تهے، اس کو پڑھ بھی لیا اور بہت سی نئی باتوں کا علم بھی ہوا۔ بہت شکریہ

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

بہت خوب جناب۔۔۔عمدہ انتخاب ہے۔
لیکن میں اس خیال سے قطعی متفق نہیں ہوں کہ معاشرہ از خود بغیر سیاسی و ریاستی نظام میں جوہری تبدیلی لائے بغیر حقیقی تبدیلی کے عمل سے گذر سکتا ہے۔میرے نزدیک یہ ناممکن ہے کیونکہ حضرت انسان اجتماعی تبدیلی کے لیے ہمیشہ مقتدر قوتوں کی طرف دیکھتا ہے اور انہی سے تحریک حاصل کرتا ہے۔اسکی آسان اور سادہ مثال اس طرح سے سمجھی جاسکتی ہے کہ آپ سرسید کی طرح پاکستان میں کسی بہت بڑے تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں لے آئیں۔اور یہ ادارہ لوگوں کو اعلیٰ ترین تعلیم فراہم کرنا شروع کردے اور دنیا بھر میں اس ادارے میں دی گئی تعلیم کو بہترین تسلیم کرلیا جائے۔ اگر آپ ایسا کرنے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اور فارغ التحصیل طلبہ کی بہترین تعلیمی قابلیت کے باوجود اس تعلیم کا کوئی فائدہ ملک اور ان طلبہ کو نہیں دے پاتے اور انہیں اپنے پاکستان میں اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی امید نظر نہیں آتی تو ہوگا یہی کہ وہ طالبعلم تعلیم کے بعد ملک میں زیادہ دیر تک نہیں رک پائیں گے اور تارک الوطنی کو ترجیح دیں گے۔ اور آپ کی ساری جدوجہد ضایع ہوجائے گی۔
جناب کسی زمین پر بہترین فصل تیار کردینا کافی نہیں ہوتا جب تک اس فصل کی منڈی میں مناسب قیمت پر فروخت کا انتظام نہیں ہوجاتا۔
ذات میں تبدیلی نہایت اہم ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری نظام کی تبدیلی ہے۔ اور یقین مانیے کہ پاکستان میں مروجہ سیاسی اور جمہوری ذرائع سے اس تبدیلی کا حصول ناممکن حد تک مشکل ہے۔ کیونکہ ہماری سیاسی وابستگیاں صلاحیت ،ایمانداری ملک گیر سطع کی سوچ سے یکسر عاری ہیں۔
ستم طریفی یہ ہے کہ یہ فقدان ان لوگوں میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے جو تبدیلی کے شدید خواہش مند ہیں۔
تو جناب میں تو تبدیلی کے لیے کسی مسیحا کی آمد کا منتظر ہوں جو ذات برادری ، لسانیت اور صوبائیت سے اوپر اٹھ کر ملک کے ہر حصہ میں انصاف، دیانتداری اور صلاحیت کو فروغ دے سکے۔

حافظ صفوان محمد said...

ہاں! سید القوم سر سید احمد خان بہادر اپنی املاک بیچ کر برطانیہ گئے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیے گئے ولیم میور کے سنجیدہ و غیر سنجیدہ اعتراضات کی جامع کتاب کا جواب تیار کیا۔ حکومت کے پیسوں، امریکہ کے ڈالروں اور عوام کے چندوں کے زور پر عشق رسول کے مظاہرے کرنے اور کروانے والوں کو یہ بات کہاں سمجھ آسکتی ہے۔

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com