Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, September 30, 2012

خواب بیچنے سے پہلے


بیس کروڑ عوام....جن میں سے چند مراعات یافتہ خاندانوں کو الگ کر دیں تو باقی سارے کے سارے مظلوموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پولیس کسی بھی وقت ان سے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ جس دفتر میں جاتے ہیں ان کا کام نہیں ہوتا۔ سرکاری اہلکار ان کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مہنگائی گلے گلے تک ہے۔ انتہا یہ ہے کہ انہیں کسی بھی وقت سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے، دھوپ ہو یا طوفان، برف باری ہو یا بارش.... وہ ایک انچ آگے نہیں جا سکتے، اس لیے کہ روٹ لگا ہوا ہے۔ صدر یا وزیراعظم یا کسی اور حاکم کی سواری گزر رہی ہے۔ سواری کیا ہے، ایک ایک حاکم کے آگے پیچھے بیسیوں قیمتی گاڑیاں جو فراٹے سے گزرتی ہیں اور رکے ہوئے مجبور عوام کے چہروں پر غلامی کی دھول پھینکتی جاتی ہیں۔

افسوس! ان مظلوم لوگوں کی کسی کو پروا نہیں۔ پنڈی گھیب تلہ گنگ کے علاقے کا ایک محاورہ ہے: ما   پِنّے تے پتر گھوڑے گھِنّے۔ یعنی ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری میں مگن ہے۔ یہ محاورہ مجھے اُس وقت یاد آیا جب میں نے دیکھا کہ میرا ایک دوست ٹی وی سکرین پر مسلم یونین کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر یورپ کی یونین بن سکتی ہے تو مسلمان ملکوں کی یونین کیوں نہیں بن سکتی؟ وہ سخت جذباتی ہو رہا تھا۔ اس قدر کہ جذبات کی شدت میں اُس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پوری طرح سمجھ میں نہیں آ رہے تھے۔ اُس کا کہنا تھا کہ کوئی پاسپورٹ نہ ہو۔ بس مسلمان ملکوں میں چلتے جائیں!

یہ ایک خاص کلاس ہے جنہیں ملک کے اندر کی کوئی پروا نہیں۔ کوئی اخباروں میں لکھتا ہے تو ہمیشہ ترکی اور مصر کی بات کرتا ہے اور بیس کروڑ پسے ہوئے عوام کو فخر سے یہ بتاتا ہے کہ عالمِ اسلام کے فلاں فلاں لیڈروں سے میرے تعلقات ہیں اور فلاں فلاں افغان حریت پسند میرے ہاں قیام پذیر رہے۔ کوئی عالمِ اسلام کے اتحاد کا ایسا خوبصورت نقشہ کھینچتا ہے کہ سبحان اللہ۔ وہ کہے اور سنا کرے کوئی۔ خواب بیچنے والے! سراب کو پانی بنا کر پیش کرنے والے! کسی کو پروا نہیں کہ سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے۔ ادارے ختم ہو رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے لاہور، پشاور اور کراچی تک سفر کرنا ایک دردناک عمل ہو گیا ہے۔ ریل ہے نہ جہاز۔ تین ماہ میں خارش زدہ ایئرلائن کی چار ہزار پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں۔ اغوا برائے تاوان کی انڈسٹری زوروں پر ہے۔ پانی نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی راشن بندی کا شکار ہے۔ نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل رہیں۔ بزنس وہ کر نہیں سکتے۔ جہاں چند خانوادوں کے ہاتھ ہی میں سب کچھ ہو، وہاں ایک عامی کا بچہ کیا بزنس کرے گا؟ لوہے کے کارخانوں سے نکل کر اب ان خانوادوں کے کھرب پتی بچوں نے مرغبانی تک کو اپنی اجارہ داری میں لے لیا ہے۔ ریاست کی ساری سہولیات ان کے قدموں میں غلاموں کی طرح پڑی ہیں۔ ان سسکتے عوام کو خواب اور سراب دکھائے جا رہے ہیں کہ آپ بغیر پاسپورٹوں کے مسلمان ملکوں میں سفر کریں گے!!

مسلمان ملکوں کا اتحاد! خواب تو یہ میرا بھی ہے لیکن کیا زمینی حقائق میرے خوابوں کا ساتھ دے رہے ہیں؟ پچپن مسلمان ملکوں میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں مسلمان جا کر اس طرح آباد ہوں جیسے وہ یورپ اور امریکا میں آباد ہو رہے ہیں۔ آخر مشرق وسطیٰ کے امیر ممالک مسلمانوں کو شہریت کیوں نہیں دیتے؟ کیا ”کفیل“ سسٹم غلامی کا دوسرا نام نہیں؟ کیا بے شمار ایسی مثالیں موجود نہیں کہ تیس تیس سال تک کامیاب بزنس کرنے والے مسلمان، ان ملکوں میں، راتوں رات قلاش ہو گئے اور جیلوں میں پہنچا دیئے گئے۔ صرف اس وجہ سے کہ ”کفیل“ صاحب ناراض ہو گئے! آپ وہاں ایک دکان، ایک ٹیکسی حتیٰ کہ ایک مربع فٹ زمین اپنے نام نہیں کرا سکتے۔ اس کے مقابلے میں ”کفار“ کے ملکوں میں آپ کی جائیداد بھی ہے اور حقوق بھی۔ آپ کی ملازمتیں بھی ہیں اور کاروبار بھی۔ یہاں تک کہ آپ سوشل سکیورٹی (گزارہ الاﺅنس) لے کر ماشاءاللہ تبلیغ دین کا کام بھی کر رہے ہیں! (اس کی شہادتیں موجود ہیں، تفصیل پھر سہی!)

ہر مسلمان کی طرح میرا بھی خواب ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر.... مسلمانوں کی ایک مملکت ہو، ایک خلیفہ ہو۔ ایک اکائی ہو۔ پوری دنیا کے نصاریٰ اور یہود و ہنود پر لرزہ طاری ہو جائے۔ ایک مرکزی اتھارٹی کے تحت اجتہاد کرنے والا ادارہ ہو، جس کی آرا پورے عالمِ اسلام پر نافذ ہوں۔ لیکن زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ شام اور مصر کا اتحاد نہ چل سکا۔ الگ ہو گئے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان اکٹھے نہ رہ سکے۔ شام 1970ءمیں اردن پر حملہ آور ہوا۔ عراق نے 1980ءمیں ایران پر فوج کشی کی۔ شام نے 1976ءمیں لبنان پر قبضہ کر لیا۔ شمالی اور جنوبی یمن دس سال تک ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے۔ عربوں کی آپس میں لڑائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد، ان مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے جنہیں اسرائیل کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کرنا پڑا۔ آج ہم مانیں یا نہ مانیں، جب امریکا ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بات کرتا ہے تو ان مسلمان ملکوں میں، جو ایران کے مغرب میں واقع ہیں، اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ دوسری طرف سے ایران اپنے انقلاب کو برآمد کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ لبنان، شام اور دوسرے مسلمان ملکوں میں اپنے حمایتی گروہوں کی ہر طرح کی مدد کرتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عرب ممالک نے اسرائیل کی طرف تعلقات کا ہاتھ بڑھانا شروع کر دیا۔ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے بعد مصر اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات تو قائم ہو ہی گئے تھے، 1994ءمیں دوسرے عرب ملکوں نے بھی ان خطوط پر سوچنا شروع کر دیا۔ اسی سال اکتوبر میں اردن اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ ہوا اور سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ مراکش اور اسرائیل نے ”رابطہ دفاتر“ کھول لیے۔ اسی سال تیونس اور اسرائیل نے اپنے اپنے ملکوں میں قائم بیلجیئم کے سفارت خانوں کے ذریعے ایک دوسرے سے باقاعدہ رابطے قائم کیے۔
یہ رونا آج کا نہیں ہے۔ مسلمان بادشاہ امیر تیمور نے ہندوستان کے تغلق بادشاہ کو تباہ کرنے کی پوری کوشش کی۔ اسی تیمور نے مصر کے مملوک حکمرانوں اور سلطنتِ عثمانیہ کے فرمانروا بایزید اوّل کے پرخچے اڑا دیے ۔ حلب اور دمشق میں خون کے دریا بہائے۔ بابر نے کسی ہندو راجہ سے نہیں، ہندوستان کا تخت ابراہیم لودھی سے چھینا اور سلطان ٹیپو کے خلاف، نظام حیدر آباد نے جو فوج انگریزوں کی مدد کے لیے بھیجی، اُس کی قیادت ایک ایرانی کمانڈر کر رہا تھا۔

اللہ کے بندو! پہلے اس ملک کی فکر کرو جو تم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا اور جہاں آج سب کچھ ہے صرف اسلام نہیں۔ اس لیے کہ اسلام انصاف کا نام ہے، برابری کا نام ہے، قانون کی حکمرانی کا نام ہے۔ اسلام یہ نہیں کہ صبح کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلو تو اسلام کو مسجد میں مقفل کر دو کہ اب ظہر کی نماز پر ملاقات ہوگی اور دن بھر ہم معاملات اپنی مرضی سے طے کریں گے۔ لاکھوں لوگوں کی زبان سے یہ الفاظ تم نہیں چھین سکتے کہ اسلام فلاں فلاں ملکوں میں رائج ہے اور خود مسلمان، مسلمان ملکوں میں رہتے ہیں! خدا خوش رکھے حافظ سعید کو جو وی آئی پی کلچر کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں گئے اور کہا کہ برطانوی وزیراعظم چار بیڈ کے پرانے گھر میں رہتا ہے جو چند مرلوں میں بنا ہے اور چھوٹی سی گلی میں واقع ہے۔ انہوں نے برملا کہا کہ یہ ہے اسلامی طرز !

پہلے اس ملک کی فکر کرو اور حکمرانوں کا اس طرح احتساب کرو جیسے امریکہ، کینیڈا، سنگاپور اور آسٹریلیا میں ہوتا ہے۔ خواب اور سراب بیچنے سے پہلے وہ کچھ تو کرو جو ہو سکتا ہے!!



Friday, September 28, 2012

پہاڑوں سے اٹھے گی کوئی آندھی


تو کیا بلتستان کے معصوم عوام کو پی آئی اے کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہئے؟

پی آئی اے جیسے بدعنوان اور نااہل ادارے پر تو دشمن کا انحصار بھی خدا کرے نہ ہو۔ پی آئی اے جس طرح شمالی علاقہ جات کے لوگوں کی تذلیل کر رہا ہے۔ ناکوں چنے چبوا رہا ہے‘ اس کی مثال افریقہ کے بدترین ملکوں کے علاوہ کہیں نہ ملے گی۔

آپ کا کیا خیال ہے اگر سکردو سے اسلام آباد آنا ہو تو سڑک کے ذریعے کتنے گھنٹے لگیں گے؟ دس؟ پندرہ؟ یا بیس؟ نہیں، پورے تیس اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ! بس کو چلاس کے قریب روکا جائے گا۔ بہت سی بسیں اور ویگنیں اکٹھی ہوں گی تو پھر پولیس کی حفاظت میں یہ قافلہ ان علاقوں کو پار کرے گا، جہاں قتل و غارت کا اندیشہ ہے۔ وہ سڑک جسے کبھی شاہراہ قراقرم کہا جاتا تھا، آج گڑھوں اور کھڈوں کا نام ہے۔ تیس پینتیس گھنٹوں کے انتہائی جانکاہ اور خطرناک سفر کے بعد آپ جب اسلام آباد پہنچیں گے تو آپ کے دل میں اپنے ہی ملک کے بارے میں کس طرح کے جذبات اور خیالات نشو و نما پا رہے ہوں گے؟

تیس پینتیس گھنٹوں کی اذیت اور جان کے خطرے سے بچنے کے لیے آپ پی آئی اے کا رخ کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ فلاں تاریخ، مثال کے طور پر، 23 ستمبر کو کوئی نشست اسلام آباد کے لیے مل سکتی ہے؟ پی آئی اے کا بابو ایک کھٹارہ نما کمپیوٹر پر ٹھک ٹھک کر کے بتاتا ہے کہ جی ہاں! 23
 ستمبر کو اسلام آباد کے لیے نشست مل سکتی ہے۔ آپ رقم ادا کرتے ہیں اور ٹکٹ لے کر اطمینان سے گھر واپس آ جاتے ہیں۔

23
ستمبر کو آپ اپنا سامان اٹھائے سکردو کے ہوائی اڈے پر پہنچتے ہیں اور بورڈنگ کارڈ لینے کے لیے کاﺅنٹر پر جاتے ہیں۔ پی آئی اے کا کارندہ آپ کا ٹکٹ دیکھتا ہے۔ کھٹارے پر ٹھک ٹھک کرتا ہے اور ایک لطف اٹھاتے تاثر کے ساتھ بتاتا ہے کہ آپ کی آج 23 ستمبر کی نشست کنفرم نہیں ہو سکی۔ آپ کا سر گھوم جاتا ہے۔ حواس مجتمع کرنے کے بعد آپ پوچھتے ہیں کہ میں نے آٹھ دس دن پہلے نشست محفوظ کرائی تھی اور ٹکٹ اسی لیے دیا گیا تھا کہ نشست موجود تھی۔ آخر وجہ کیا ہے؟ کارندہ آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتا اور بتاتا ہے کہ جہاز کئی دن نہیں جا سکا اس لیے ان مسافروں کو پہلے بھیجا جا رہا ہے جو مقررہ دنوں پر نہیں جا سکے۔ آپ مزید حیران ہوتے ہیں کہ جس دن میں نے نشست محفوظ کرائی، اس دن سے لے کر آج تک ہر روز جہاز جا رہا ہے۔ اب کارندہ کہتا ہے کہ اس سے پہلے جہاز نہیں جا سکا تھا۔ آپ پوچھتے ہیں کہ اگر اس سے پہلے کے مسافر رہتے تھے تو پھر مجھے 23 کی نشست دی ہی کیوں گئی تھی؟ جب وہ آپ کے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تو ترپ کا آخری پتہ پھینکتا ہے۔ ”جناب یہ نشستیں کراچی سے کنفرم ہوتی ہیں۔“ آپ پوچھتے ہیں کہ کیا میں کل جا سکوں گا؟ کارندہ کہتا ہے کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ آپ شام کے وقت ہیلپ لائن سے پوچھیئے، آپ شام کو ہیلپ لائن فون کرتے ہیں جو اسلام آباد جا ملتا ہے۔ ایک خاتون خالص جاگیردارانہ لہجے میں، آپ کو مزارع سمجھتے ہوئے ہدایت دیتی ہے کہ ابھی کراچی والوں نے فیصلہ نہیں کیا۔ آپ رات کو معلوم کریں۔ آپ رات کو پھر فون کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ آپ کی نشست کل کے لیے کنفرم نہیں ہوئی۔

یہ کھیل آپ کے ساتھ کئی دن کھیلا جاتا ہے۔ پانچ چھ روز کے بعد آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی نشست کنفرم ہو گئی ہے۔ آپ دوسرے دن علی الصبح ایئرپورٹ جاتے ہیں۔ آپ کو بتایا جاتا ہے کہ آج موسم خراب ہے اس لیے اسلام آباد سے جہاز آیا ہی نہیں۔ آپ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ تیز دھوپ سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ ”موسم تو ٹھیک ہے“! ایک اور مسافر آپ کو سرگوشی میں بتاتا ہے کہ عین وقت پر جہاز کو کسی اور شہر کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے!

یہ ہے وہ سلوک جو بلتستان کے عوام سے روا رکھا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں کے طلبا، سرکاری اور نجی شعبے کے ملازم، بڑے شہروں میں علاج کے خواہش مند مریض، سب اس چکیّ میں پس رہے ہیں۔ اگر اس ملک میں جواب دہی اور 
 محاسبے کا رواج ہو تا تو پی آئی اے سے پوچھا جاتا کہ آخر سکردو سے اسلام آباد کی نشستیں کراچی میں کیوں کنفرم کی جاتی ہیں؟ کیا پی آئی اے کے وہ کارندے جو سکردو میں بیٹھے ہیں، اس کام کے اہل نہیں۔ اگر اہل نہیں تو انہیں ملازمت سے فارغ کیوں نہیں کیا جاتا؟ پی آئی اے سے یہ بھی پوچھا جاتا کہ اگر ایک دن جہاز نہیں جاتا تو اس سے اگلے دن، ایک زائد جہاز کیوں نہیں بھیجا جاتا؟ پورے نظام کو تہس نہس کیوں کر دیا جاتا ہے؟

سکردو سے شِگر اور خپلو تک، اس کالم نگار نے کئی لوگوں سے بات کی۔ ایک نکتے پر سب متفق تھے کہ پی آئی اے مقامی لوگوں کی تذلیل کر رہی ہے۔ کئی تعلیم یافتہ حضرات نے یقین کے ساتھ بتایا کہ اصل وجہ بدعنوانی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ خراب موسم کی وجہ سے پروازیں منسوخ کرنا پڑتی ہیں لیکن ہر بار یہی وجہ نہیں ہوتی۔ ”اور“ بھی ہوتی ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک استاد نے اپنا ذاتی تجربہ بتایا کہ اسے نشست نہیں مل رہی تھی لیکن کچھ ”زائد“ رقم دینے پر مہیا کر دی گئی۔ زبانِ خلق نے یہ خبر بھی دی کہ جب بھی پی آئی اے کے علاوہ دوسری ایئرلائنیں یہاں سے پروازوںکا آغاز کرنے لگتی ہیں تو کچھ مافیا اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اس عمل کو سبوتاژ کر دیتے ہیں۔ خپلو کے شاہی محل میں، جو اب سرینا ہوٹل کی تحویل میں ہے، ایک ذمہ دار شخص نے بتایا کہ آغا خانی بزنس کمیونٹی شمالی علاقوں میں اپنی ایئرلائن قائم کرنا چاہتی تھی لیکن ایسے ”مطالبے“ پیش ہوئے کہ کمیونٹی پیچھے ہٹ گئی۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان صوبے کے گورنر اور چیف منسٹر کو اس صورت حال کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں۔ جس حکومت کو اس بات کی بھی فکر نہ ہو کہ سکردو اور گلگت میں کوئی میڈیکل اور ڈینٹل کالج نہیں، اسے عوام کے دیگر مسائل سے کیا غرض؟

پی آئی اے کی نااہلی اور نااعتباری کی وجہ سے کئی روٹوں پر خود پاکستانیوں نے پی آئی اے کو خیرباد کہہ دیا۔ آسٹریلیا اور مشرق بعید جانے والے پاکستانی پی آئی اے سے بنکاک جاتے تھے اور وہاں سے دوسرے جہاز لیتے تھے۔ پی آئی اے کا جہاز بنکاک کبھی وقت پر نہیں پہنچتا۔ چنانچہ اب یہ سارے مسافر تھائی ایئرلائن کو ترجیح دیتے ہیں، جس کا پابندی¿ وقت کا ریکارڈ قابل رشک ہے۔ کینیڈا اور امریکا جانے والے لندن تک پی آئی اے سے جاتے تھے۔ ان کی اکثریت بھی قومی ایئرلائن سے منحرف ہو چکی۔ سوال یہ ہے کہ بلتستان کے عوام کی پی آئی اے سے جان کیسے چھوٹے۔ انجم رومانی یاد آ گئے

انجم غریب شہر تھے، اب تک اسیر ہیں

سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے

اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی دن بپھرے ہوئے مسافر پی آئی اے کے دفتر پر یا ہوائی اڈے پر حملہ کر دیں اور شدید مایوسی کے عالم میں کچھ کر گزریں۔ پی آئی اے سے اصلاح کی توقع عبث ہے۔ کئی دہائیوں سے سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ”ملازمین“ کا یہ ادارہ ایک بے روح لاش ہے، جو تیزی سے مدفن کی طرف لے جائی جا رہی ہے۔ کیا سپریم کورٹ شمالی علاقوں کے عوام کی تذلیل کا نوٹس لے گی؟ کیا نشستیں محفوظ کرنے کا عمل اور اس پر درآمد، آرمی یا ایئر فورس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا؟ کیا دوسری نجی ایئر لائنوں کو اس روٹ پر نہیں لایا جا سکتا؟ کیا غیر ملکی ایئر لائنوں سے معاہدے نہیں ہو سکتے؟

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں! ہے کہ نہیں!



Thursday, September 27, 2012

عمران خان ---- تاریخ کی مجبوری


رات آدھی ادھر اورآدھی ادھر ہوچکی تھی۔ دونوں لشکر سوئے ہوئے تھے۔ صبح گھمسان کا رن پڑنے والا تھا اور فیصلہ ہونا تھا کہ شمالی ہند شیرشاہ سوری کا ہوگا یا ہمایوں کا۔ پہریدار تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اندھیرے میں گھورتے اور خبردار ہوشیار کا نعرہ لگاتے لیکن چست و چالاک پہریداروں کو معلوم نہ ہو سکا کہ نصف شب کے بعد کچھ سائے ہمایوں کے لشکر سے نکلے اور شیرشاہ سوری کی خوابیدہ سپاہ کے کناروں سے ہوتے ہوئے اس بڑے خیمے میں غائب ہوگئے جہاں شیرشاہ کے بااعتماد رفقا ان کا انتظار کررہے تھے۔ ابتدائی گفت و شنید کے بعد حتمی مذاکرات کیلئے ان ”سایوں“ کو شیرشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ شرائط طے ہوئیں، عہد وپیمان ہوئے اور ”سائے“ صبح کاذب سے پہلے اپنے لشکر میں واپس آگئے۔

وفاداریاں بدلنا اور گھوڑوں کی تجارت برصغیر کے خون میں رچی ہوئی ہے۔ ہمایوں کے بھائیوں نے جتنی دفعہ اس کا ساتھ چھوڑا اور جتنی دفعہ تعلقات کی تجدید کی، تاریخ کا وہ سبق ہے جو آج بھی یادرکھنا چاہیے۔ شاہ جہاں کے بیٹوں نے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے پانچ سالہ عمل کا آغاز کیا تو فلور کراسنگ اس پورے زمانے میں مسلسل جاری رہی لیکن وفا داریاں بدلنے والے ہمیشہ خوش بخت ثابت نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی ان کی ذہانت دھوکہ بھی دے جاتی ہے۔ یہ سب اس لیے یاد آرہا ہے کہ متعدد ٹیلیویژن بحثوں میں تحریک انصاف چھوڑ دینے والوں کا تذکرہ ہوا ہے اور ایک سینئر کالم نگارنے تو اسے عمران خان کیلئے لمحہ فکریہ بھی قرار دیا ہے  ۔ تاہم  بحث کرنے والے دو بنیادی نکات کا ادراک نہ کرسکے۔ ایک یہ کہ پارٹیاں تبدیل کرنے کا عمل یہاں پینسٹھ سال سے جاری ہے اور یہ عمل ہماری تاریخ میں بہت کم فیصلہ کن رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ تحریک انصاف کو چھوڑنے والے افراد سیاست میں اتنے نمایاں نہیں کہ اسے نقصان قرار دیا جائے۔

اصل میں یہ ایک بے معنی بحث ہے۔ تحریک انصاف کی کامیابی یا ناکامی کو اس سے مشروط کرنا سطحیت کے سوا کچھ نہیں۔ عمران خان کی کامیابی کا اگر امکان واضح ہے تو اس میں اس کا کمال کم اور تاریخ کا جبر زیادہ ہے۔ وہ تو مسلسل ایسے قدم اٹھا رہا ہے جن کا نہ اٹھایا جانا بہتر تھا۔ ٹیکسلا اور قصور سے اس نے جن صاحبوں کو اپنی جماعت میں ڈالا ہے ان سے کون متاثر ہوسکتا ہے؟ یہ اثاثے نہیں، مجسم خسارے ہیں۔ پھر راولپنڈی کے جس سیاستدان کو اس نے اپنا اتحادی بنایا ہے، اس کی عزت شاید ہی کسی کے دل میں ہو۔ ٹیلیویژن پر آ کر لوگوں کو محظوظ کرنے اور اینکر حضرات کی ریٹنگ کو اوپر لے جانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ لوگ احترام بھی کرتے ہیں۔ کیا پنڈی کے لوگ اتنے ہی بودے اور گاﺅدی ہیں کہ رات دن مشرف کی چاکری کرنے والے کو بھول جائیں گے؟ مشرف کا عہد اس سیاست دان کا عروج تھا۔ سورج دیوار کے عین اوپر آنے کے بعد نیچے آتا ہے۔ ٹیلی ویژن پر اس کی بے پناہ ”کوشش“ اورشدید ”محنت“ دیکھ کر یہ شعر یاد آنے لگتا ہے۔

نہ پوچھ حال مرا، چوبِ خشکِ صحرا ہوں

لگا  کے آگ  جسے  کارواں   روانہ     ہوا

لیکن آخر اس کاکیا کیا جائے کہ عمران خان کو وہی فوائد حاصل ہیں جو اٹھارویں صدی کے ہندوستان میں انگریزوں کو حاصل تھے۔ پچیس سال دکن میں جنگیں لڑ کر اورنگ زیب نے سلطنت کو اندر سے کھوکھلا کردیا تھا۔ اس کی وفات پر یہ عمارت ڈھے گئی۔ جو راجے، مہاراجے اور نواب ٹکڑوں کے مالک بنے وہ عیاش تھے اور جتنے بلند القابات اپنے لیے پسند کرتے تھے اتنی ہی پست ان کی سوچ تھی۔ بیگمات اور باورچی ان کیلئے امور سلطنت سے زیادہ اہم تھے۔ ہم انگریزوں کو مکار اور دھوکے باز کہہ کر تسکین تو حاصل کرسکتے ہیں، حقیقتوں کو نہیں بدل سکتے۔ کلائیو اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا تھا اور سراج الدولہ پالکی کو ترجیح دیتا تھا۔ سکندر مرزا کے بیٹے کی کتاب ”پلاسی سے پاکستان تک“ پڑھیں تو سراج الدولہ کے جانشینوں کی ذہنی پستی اور کلائیو کے جانشینوں کی شبانہ روز محنت پر حیرت ہوتی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلے دن ہی سے ایسا ٹھوس مالی نظام اپنایا تھا کہ بات بات پر موتیوں سے مُنہ بھر دینے اور سونے میں تولنے والے ہندوستانی حکمرانوں نے ان کے مقابلے میں ضرور قلاش ہونا تھا۔

ایسی ہی خوش بختی، تاریخ عمران خان کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کررہی ہے۔ آج کا پاکستان اتنا ہی متعفن اور گلا سڑا ہے جتنا اٹھارہویں صدی کا ہندوستان تھا۔ نااہلی اور کرپشن عروج پر ہے۔ وفاق کا تو ذکر ہی کیا جہاں اوسط درجے سے کہیں کم ترافراد وزارت عظمیٰ پر یکے بعد دیگرے بیٹھ رہے ہیں اور وزارتوں میں کوئی کام قاعدے قانون کے مطابق نہیں ہورہا۔ صوبوں کا حال کئی گنا زیادہ ابتر ہے۔ وائٹ ہاﺅس میں صدرزرداری کے ساتھ بیٹھے ہوئے لیڈر کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ خیبر پختونخوا میں ایک عام آدمی کس حال میں ہے۔ صوبے میں خواندگی کتنی ہے اور غربت کی سطح کیا ہے۔ ان لیڈروں کواس بھیانک حقیقت کا بھی شایدہی ادراک ہو کہ پورے ملک میں آبادی کی شرح اضافہ تین فی صد سے کم ہے لیکن خیبر پختونخوا میں ساڑھے چار فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

پنجاب کا حال اور بھی برا ہے۔ بدترین مرکزیت نے اٹھارہ وزارتوں کو ایک شخص کی جیب میں ڈال رکھا ہے۔ خاندان کا ہر فرد حکمرانی کا حق ادا کررہا ہے اور چند مخصوص علاقوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ صوبہ شدید ترین محرومی کا شکار ہے۔ صوبائی دارالحکومت کی ایک اپنی دنیا ہے اور اس دنیا میں رہنے والوں کو باقی صوبے کا علم ہے نہ اس سے غرض ہی ہے۔ سندھ عملی طور پر طوائف الملوکی کا شکار ہے۔ کراچی شہرِ اموات بن کر رہ گیا ہے۔ بلوچستان کی حکومت ایک مذاق سے زیادہ نہیں۔ معاشرے کا یہ حال ہے کہ سرداری نظام کی کوئی مثال مہذب دنیا میں نہیں ڈھونڈی جاسکتی۔

پورے ملک میں نوجوان مایوس ہیں اور جرائم پر آمادہ ہیں۔ تعلقات اور رشوت، یہ دو کنجیاں ہیں جن کے بغیر کوئی دروازہ نہیں کھلتا۔ پی پی پی، نون لیگ، اور قاف لیگ کا ایک عام پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان جماعتوں سے وابستہ افراد اہلیت اور میرٹ کو اپنے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔اس پس منظر میں عمران خان جو وعدے اور جودعوے کررہا ہے وہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہیں۔  اس زبردست خلا کو کسی نہ کسی نے پر کرنا ہے اور تاریخی عمل نے یہ فائدہ عمران خان کو بخشا ہے۔ اگر لوگ اسے بھی آخری امید نہ سمجھیں تو کیا کریں؟ انہیں کوئی نعم البدل نہیں نظر آرہا۔ صرف عمران خان یہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ برسراقتدار آ کر ٹیکس کا نظام منصفانہ بنائے گا۔ صرف وہ یہ وعدہ کررہا ہے کہ سفارش اور رشتہ داری نہیں بلکہ میرٹ نوکریوں کا فیصلہ کرے گا۔ صرف وہ یہ امید دلا رہا ہے کہ اہل افراد کو اداروں کی سربراہی سونپی جائے گی اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے مظلوم عوام کو صرف وہ، یہ روشنی دکھا رہا ہے کہ مراعات یافتہ طبقات کے اقتدار کا خاتمہ کردیا جائیگا۔

اس سیاق وسباق میں چند افراد کا تحریک انصاف کو چھوڑ کرکہیں اور روانہ ہوجانا کوئی ایسا بیرو میٹر نہیں جس سے مستقبل کو ناپا جاسکے۔ جوموضوع بحث کا متقاضی ہے، یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنے دعوﺅں میں سچا ثابت ہوگا؟ کیا وہ عوام کو وہ سب کچھ دے سکے گا جس کے وعدے کررہا ہے؟کیا حد سے زیادہ امیر افراد جو اس کے ہم رکاب ہیں اسے انقلابی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے دیں گے؟ کیا مفادات کا ٹکراﺅ
(Conflict of Interests)
جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی جیسے مخصوص ذہن کے ارکان تحریک کوزیادہ دیر تک عمران خان کے ساتھ رہنے دے گا؟

اگر ، اور یہ بہت بڑا ”اگر“ ہے
(It is a Big"IF")
عمران خان کامیاب ہوجاتا ہے اور پچیس فیصد وعدے بھی پورے کر دکھاتا ہے تو نئے پاکستان کیلئے یہ گھاٹے کا سودا نہیں!



Tuesday, September 25, 2012

ایک خفیہ اجلاس کی روداد

یہ خفیہ اجلاس امریکہ کے ایک نامعلوم مقام پر منعقد ہوا۔ اس میں گستاخانہ فلم بنانے والے تینوں افراد مصنف، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر شریک ہوئے۔ مبصر کے طورپر ایک بھارتی اور ایک اسرائیلی نمائندہ بھی موجود تھا۔ وہ مصری قبطی بھی شریک تھا‘ جس نے فلم کا عربی میں ترجمہ کیا تھا۔ بائیس ستمبر کو ہونے والے اس خفیہ اجلاس کا انعقاد اس قدر احتیاط سے کیا گیا تھا کہ میڈیا کو ہواتک نہ لگنے دی گئی ۔

کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے گستاخانہ فلم کا پروڈیوسر کھڑا ہوا۔ اس کی آواز میں ارتعاش تھا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ خوداعتمادی سے بھرپور تقریر کررہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ”حضرات ! ہم نے یہ فلم بناکر بہت بڑا خطرہ مول لیا۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان جہاں بھی ہوں اور جیسے بھی ہوں۔ اپنے پیغمبر کی توہین نہیں برداشت کرسکتے۔ اس معاملے میں جدید مسلمان، دقیانوسی مسلمان، گنہگار مسلمان اور عابد وزاہد مسلمان سب برابر ہیں۔ یہ ان کی دکھتی رگ ہے۔“

ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ فلم کے مصنف نے اسے ٹوکا ”بات مختصر کیجئے، یہ بتائیے کہ خطرہ کون سا تھا جو ہم نے مول لیا۔“

”میں اسی طرف آرہا تھا۔“ پروڈیوسر نے سلسلہ¿ کلام دوبارہ شروع کیا۔ ”ہم نے بہت بڑا خطرہ مول لیا۔ اس بات کا بہرطور امکان تھا کہ مسلمان اس کے جواب میں اہل مغرب کو نقصان پہنچاتے۔ یہ نقصان کئی طرح کا ہوسکتا تھا۔ وہ ہماری مصنوعات کا بائیکاٹ کرسکتے تھے۔ اگر چوّن پچپن مسلمان ممالک ہماری مصنوعات کا بائیکاٹ کردیتے تو ہمیں لینے کے دینے پڑجاتے۔ یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ گستاخانہ فلم ریلیز ہونے کے بعد تمام مسلم ملکوں کے سربراہ مل بیٹھتے اور کچھ ایسے فیصلے کردیتے جن کے آگے اہل مغرب ، خاص طورپر ، امریکہ کے عوام اور حکومت بے بس ہوجاتی۔ مثلاً یہ مسلمان سربراہ اگر امریکہ سے مطالبہ کربیٹھتے کہ ہولوکوسٹ کی طرح مسلمانوں کے رسول اور قرآن کی توہین کے خلاف بھی قانون سازی کی جائے۔ انکار کی صورت میں اگر تمام کے تمام مسلمان ملک امریکہ سے سفارتی تعلقات توڑ لیتے، امریکی سفیروں کو اپنے اپنے ملک سے نکال دیتے اور امریکیوں کو ویزے دینے سے بھی انکار کردیتے تو امریکہ
 سفارتی تنہائی
(ISOLATION)
برداشت نہ کرسکتا۔ پچپن مسلمان ملکوں سے امریکہ کے لاتعداد مفادات وابستہ ہیں۔ وہ کبھی نہ برداشت کرتا کہ ان تمام ملکوں میں امریکیوں کا داخلہ بند ہوجائے۔ مسلمان ملکوں کے ان متحدہ اقدامات کا نتیجہ یہ نکلتا کہ امریکہ گھٹنے ٹیک دیتا۔ قانون سازی کرنا پڑتی اور فلم بنانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرنا پڑتی۔

ایک اور خطرہ یہ تھا کہ مسلمان ملکوں کے سنجیدہ اور صف اول کے دانشور اکٹھے بیٹھ کر بڑے بڑے تھنک ٹینک بنادیتے‘ جن میں میڈیا ، سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور اقتصادیات کے ماہرین ہوتے۔ یہ لوگ ایسی منصوبہ بندی کرتے کہ اگلے دوعشروں میں مسلمان ممالک مغربی ممالک کے ہم پلہ ہوجاتے اور سائنس، ٹیکنالوجی اور اقتصادیات کے میدانوں میں اس قدر منظم کام کرتے کہ اہل مغرب کے محتاج نہ رہتے۔“

یہ کہہ کر پروڈیوسر بیٹھ گیا۔

اس کے بعد فلم کا ڈائریکٹر اٹھا اور اپنی تقریر کا آغاز کیا۔

”ٹھیک ہے یہ سارے خطرے موجود تھے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور میں اس پر آپ حضرات کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ہم نے خطرات مول لیے اور ہم کامیاب ٹھہرے۔ پروڈیوسر نے ہماری مصنوعات کے بائیکاٹ کا ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں نے آج تک مغربی ملکوں کی مصنوعات کا موثر بائیکاٹ نہیں کیا اور نہ وہ کرسکتے ہیں۔ ان کی بقا کا انحصار ہی ہماری مصنوعات پر ہے۔ کچھ مذہبی رہنما مسلمان عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے کوکا کولا جیسے مشروبات اور اسی قبیل کی چیزوں کا بائیکاٹ کرتے ہیں لیکن بائیکاٹ کا اعلان کرتے وقت ان کی جیبوں میں ہمارے بنائے ہوئے موبائل، ان کے گھروں میں ہمارے ایجاد کردہ انٹر نیٹ، اور ان کی صحت مند تشریفات کے نیچے‘ ہماری بنائی ہوئی کاروں کی آرام دہ نشستیں ہوتی ہیں۔ آخر جاپان ، اٹلی، جرمنی اور کوریا بھی تو ہمارے ہی ساتھی ہیں۔ مسلمان اگر حقیقی معنوں میں ہماری مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو لائف سیونگ ادویات، بچوں کے حفاظتی ٹیکے، ایکسرے مشین، اور درجنوں ایسی اشیاءکہاں سے لیں ‘جن کے بغیر ان کا ایک دن بھی نہیں گزرسکتا۔ ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے حکمران اور امرا عام بیماریوں کے علاج کے لئے بھی ہمارے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ رہا یہ امکان کہ مسلم ملکوں کے سربراہ امریکہ سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیتے اور امریکیوں کا داخلہ مسلمان ملکوں میں بند کردیتے تو اس کا دور دور تک امکان نہیں۔ لاہور اور فیصل آباد سے شائع ہونے والے ایک پاکستانی قومی اخبار نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان ”صرف تین فیصلے“ تھا۔ اس میں مسلمان سربراہوں پر یہی زور دیا گیا لیکن یہ نقارخانے میں طوطی کی آواز تھی۔ درجنوں مسلمان ملکوں نے ہمیں
عسکری مستقر
 (BASES)
دیئے ہوئے ہیں۔ ہم نے عراق پر حملہ کیا تو ہمارے جہاز آخر مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوں ہی سے اڑتے تھے اور افغانستان پر چڑھائی کی تو وسط ایشیائی مسلم ریاستوں اور پاکستان نے ہمارا ساتھ دیا۔ جو مسلمان سربراہ برطانیہ کے سپرسٹوروں اور ہسپانیہ اور یونان کے تفریحی جزیروں میں اربوں ڈالر عیاشی پر خرچ کرڈالیں، وہ ہمیں دھمکی کس منہ سے دیں گے؟ ان مسلمان حکمرانوں کی ریڑھ کی ہڈی میں اتنا زور بھی نہیں جتنا کینچوے کی کمر میں ہوتا ہے! اور جہاں تک اس امکان کا تعلق ہے کہ اس فلم کے ردِّعمل میں مسلمان منصوبہ بندی کرکے اگلے ایک یا دوعشروں میں ہمارے ہم پلہ ہوجاتے تو اس خطرے کا بھی دور دور تک کوئی وجود نہیں۔ مسلمان ملکوں کے عوام کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ ان پر مورثی بادشاہ حکومت کررہے ہیں یا جاگیردار اور کرپٹ سیاستدان۔ ان طبقات کا مفاد اس میں ہے کہ مسلمان عوام غربت ، ناخواندگی جہالت اور توہم پرستی کے کیچڑ میں سر سے پیرتک لتھڑے رہیں۔ اس ساری گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ میڈیا، پریس سائنس، ٹیکنالوجی اور ایجادات ہمارے ہی قبضے میں رہیں گی۔ انٹرنیٹ ،یوٹیوب، فیس بک اور ٹوئٹرجیسے آلات ہماری ہی تحویل میں رہیں گے۔ ہم گستاخانہ خاکے بنائیں یا فلمیں، مسلمان شور تو مچاسکتے ہیں، ہمارا بگاڑ کچھ نہیں سکتے۔

اجلاس کے آخر میں بھارتی نمائندے کو، جو مبصر کی حیثیت سے شریک تھا خطاب کی دعوت دی گئی۔ وہ اٹھا تو مسکرارہا تھا اور مسکراہٹ کی چوڑائی ایک کان سے دوسرے کان تک تھی۔ اس نے اپنی دھوتی کا پلو ٹھیک کیا اور یوں گویا ہوا:

”معزز حضرات !میرا فلم کے معاملے سے براہ راست تو کوئی تعلق نہیں لیکن میں واحد ایٹمی مسلمان ملک کا ہمسایہ ہوں اور اسی حوالے سے کچھ عرض کروں گا۔ کل اکیس ستمبر کو پاکستان میں یوم عشق رسول منایا گیا۔ احتجاج کے لئے حکومت پاکستان نے عام تعطیل کا اعلان کیا۔ میں آپ سب حضرات کو تہنیت پیش کرتا ہوں کہ اس یوم احتجاج نے ثابت کردیا کہ اہل پاکستان اخلاقی پستی کی بدترین گہرائی میں ہیں اور ان کے باہر نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس احتجاج میں جولوگ سنجیدگی سے شریک تھے، انہیں اس حقیقت کا ذرہ بھر ادراک نہیں تھا کہ ان کے نعرے ان کے جذبات کے عکاس تو ہیں لیکن اس سے فلم بنانے والوں اور اہل مغرب کا بالخصوص امریکہ کا بال تک بیکا نہیں ہوسکتا۔ اس ”احتجاج“ کے دوران دو درجن سے زیادہ پاکستانی مسلمان ہلاک ہوئے۔ درجنوں پولیس والوں کو زخمی کیا گیا۔ بنک اور دکانیں لوٹی گئیں ۔ سینما، دفاتر اور پلازے نذر آتش کئے گئے، سرکاری اور نجی گاڑیاں جلائی گئیں ۔ تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کا نقصان اس غارت گری سے ہوا۔ سرکاری تعطیل اور موبائل ٹیلی فونوں کی بندش سے کروڑوں کا زیاں اس کے علاوہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ عوام کو جوش دلانے والے مذہبی رہنما خود، پیش منظر سے غائب تھے۔ ان کی ذہنی حالت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ رہنما الیکٹرانک میڈیا پر اس احتجاج کو کامیاب قرار دے رہے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اہل پاکستان کا سارا زور اپنے ہی ملک کو تباہ وبرباد کرنے پر ہے۔ آپ کو ان سے کوئی خطرہ نہیں!“

اب اسرائیلی نمائندے کی باری تھی لیکن کسی نے ٹیلی ویژن کی آواز بے تحاشا بلند کردی اور میری آنکھ کھل گئی۔ سکرین پر ایک مذہبی رہنما، مغرب سے درآمد شدہ مائیک ہاتھ میں پکڑے، زور وشور سے تقریر فرمارہے تھے۔



Sunday, September 23, 2012

زینب


میں سکردو میں ہوں اور اپنے پڑھنے والوں کو بتانا چاہتا تھا کہ دیوسائی میدان کی شاہراہ کے ساتھ حکومت نے کیا سلوک کیا ہے۔ دیوسائی دنیا کا بلند ترین ہموار میدان ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ چودہ ہزار فٹ بلند ،اتنا بڑا ،میدان دنیا میں اور کہیں نہیں، لیکن جو ”شاہراہ“ سکردو سے دیوسائی جا رہی ہے، وہ اتنی ہولناک ہے کہ پتھر کے زمانے کی سڑکیں بہتر ہوتی ہوں گی۔ کوئی اور ملک ہوتا تو دو رویہ عالی شان شاہراہ ہوتی اور ریل کار بھی چوٹی تک جا رہی ہوتی۔ چین نے تبت میں ٹرین پہنچا دی ہے جو کئی گنا زیادہ مشکل بلندی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اس میدان کو دیکھنے آنا چاہتے ہیں لیکن ”سہولیات“ کا سن کر رخ بدل لیتے ہیں۔

میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع گاﺅں ”گوما“ سے تعلق رکھنے والا رشید پاکستانی فوج کا سپاہی ہے اور قابل فخر کارنامے سرانجام دے چکا ہے۔ وہ نوربخشی ہے اور پاکستان اس کی جان ہے اور ایمان بھی۔ یہ ملک ہر فرقے ہر مذہب ہر علاقے اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والوں کو یکساں عزیز ہے اور یہ فوج بھی ان سب کی فوج ہے۔ اس فوج پر کسی صوبے‘ کسی فرقے اور کسی نسل کی اجارہ داری ہے نہ اس ملک پر کسی خاص صوبے، کسی خاص زبان اور کسی خاص عقیدے کی ٹھیکیداری کامیاب ہو سکتی ہے۔

میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ جو کچھ پاکستان میں یوم عشق رسول پر ہوا اس پر فلم بنانے والوں نے‘ کس طرح اجلاس منعقد کرکے بحث کی ہوگی اور شادیانے بجائے ہوں گے۔

میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ سب کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن اب نہیں بتا رہا۔ اس لئے کہ اس کا ٹیلی فون آ گیا اور اس کے بارے میں بتانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس لئے کہ اللہ کی کتاب میں کچھ لوگوں کے چہروں کی رنگت کا ذکر ہے اور ان لوگوں کو آئینہ دکھانا میرا بھی فرض ہے اور میرے پڑھنے والوں کا بھی۔

میں شنگریلا کی جھیل کے کنارے ایک لوہے کی کرسی پر بیٹھا سیبوں سے لدے پھندے درختوں کو دیکھ رہا تھا جب فون کی گھنٹی بجی۔

”آپ کب آ رہے ہیں؟“

”اکتوبر میں۔“

”اکتوبر کے شروع میں یا اس کے بعد؟“

”پہلے ہفتے میں۔“

”اکتوبر میں کتنے دن رہتے ہیں؟“

”تقریباً دو ہفتے“

”آپ کتنے دن ٹھہریں گے؟“

”چار پانچ دن۔“

”کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ فورٹین (چودہ) دن ٹھہریں؟“

ٹیلی فون پر پہلے اس کی ماں نے بات کی اور بتایا کہ یہ رو رہی ہے اور کہتی ہے کہ میں نے نانا ابو سے فوراً بات کرنی ہے۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں فورٹین دن نہیں رہ سکتا تو رو پڑی اور کہنے لگی آپ ابھی آ جایئے، آج ہی!

سات سال پہلے جب وہ امریکہ میں پیدا ہوئی تو ہسپتال میں شور برپا ہو گیا کہ ایک بچی سیاہ بالوں والی پیدا ہوئی ہے۔ سنہری بالوں والی عورتیں اسے دیکھنے آئیں اور ہر ایک کی خواہش تھی کہ اسے بازوﺅں میں لے کر پیار کرے۔

سات سال سے ہم ایک دوسرے کے بہترین دوست ہیں۔ پیار تو اس کی ماں سے بھی بہت تھا اور ہے کہ دونوں بیٹیاں دعائیں مانگ مانگ کر حاصل کیں لیکن یہ تعلق کچھ اور ہی ہے۔ جب چل نہیں سکتی تھی تو پارک میں ایک گھنٹے کی سیر کے دوران اس کی پرام ساتھ ہوتی تھی۔ باتیں کرنا اور سمجھنا شروع ہوئی تو زندگی بھر کی رات کو مطالعہ کرنے کی عادت‘ اسے کہانیاں سنانے کی نذر ہو گئی۔ لاہور سے جس دن اسے آنا ہوتا، موٹروے ٹول پلازا پر پہنچ کر انتظار کرتا۔ واپس جا رہی ہوتی تو یہ بھی ہئوا  کہ   رخصت کرنے چکری انٹرچینج تک گیا۔ جب بھی جانے کا وقت ہوتا، روتی اور روتے روتے ہی آنکھوں سے اوجھل ہوتی۔ ایک بار اس کے ماں باپ کو قانونی چارہ جوئی کی دھمکی بھی دی کہ میری نواسی زبردستی اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ تھوڑی اور بڑی ہوئی تو مجھے بتانے لگی کہ کس پتلون کے ساتھ کون سا کوٹ پہننا ہے اور کس قمیض کے ساتھ کون سی ٹائی لگانی ہے۔ لیکن جو واقعہ دو سال قبل پیش آیا، جگر پر کھدا ہوا ہے۔ اسی کے گھر میں کوئی تقریب تھی۔ بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے اور ہنگامہ تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ دل کی دھڑکن معمول سے زیادہ تیز ہو رہی ہے۔ پھر نقاہت محسوس ہونے لگی، میں کسی کو بتائے بغیر اوپر کی منزل پر جا کر لیٹ گیا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے آ گئی۔ پہلے گلے لگایا پھر پوچھا، نانا ابو آپ کی طبیعت خراب ہے؟ میں نے کہا، ہاں، لیکن ابھی ٹھیک ہو جائے گی اور میں آپ کے پاس نیچے آ جاﺅں گا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو پہلے جمع ہوئے، پھر ننھے ننھے رخساروں پر بہنے لگے۔ کہنے لگی ”نانا ابو میں دعا کروں گی کہ آپ کبھی فوت نہ ہوں۔“

اس دنیا میں جتنی بھی معلوم راحتیں ہیں،
 جیسے شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے لبریز پیالہ،
دھوپ کے سفر میں شیشم کی گھنی چھاﺅں،
 حدنظر تک کھلے ہوئے پھولوں کا نظارہ،
لمبے بحری سفر کے بعد خوبصورت جزیرے کا دکھائی دینا، باغ میں رنگین پرندوں کا اترنا،
خواب میں اڑتے ہوئے غالیچے کی سواری،
طویل بیماری کے بعد شفایابی، بیٹی کا وجود ان تمام راحتوں سے زیادہ شیریں ہے۔ بیٹی خواہ بیٹی ہو یا نواسی یا پوتی، ایک ایسی نعمت ہے جو ایمان کی نعمت کے بعد شاید سب سے زیادہ قیمتی نعمت ہے۔ میں جب بھی پڑھتا یا سنتا ہوں کہ کسی نے بیٹی کی پیدائش پر بیوی سے بدتہذیبی کا سلوک کیا یا گھر سے نکال دیا تو بے اختیار دل چاہتا ہے کہ جا کر اس سے کہوں کہ پہلے اپنی ماں سے پوچھو وہ کیوں پیدا ہوئی تھی؟ ایسے شخص کی سیاہ بختی کی کیا حد ہوگی جس کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب میں کر دیا ہے.... ”اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوش خبری دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم زدہ ہو جاتا ہے۔“ یہ بدبختی اجڈ ان پڑھوں ہی پر موقوف نہیں، اس کا شکار بڑے بڑے اعلیٰ تعلیم یافتہ، دیندار اور خاندانی کہلانے والے شرفا بھی ہیں۔ جب بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے کا وقت آتا ہے تو متکبر ّ جاگیرداروں کی جاہلیت تو آڑے آتی ہی ہے، حقوق نسواں پر لمبی لمبی بحثیں اور تقریریں کرنے والے تھری پیس سوٹوں میں ملبوس روشن خیال جدیدیئے بھی اپنا تھوکا ہوا چاٹ لیتے ہیں۔ پرپیچ عمامے، لمبی عبائیں اور ریش ہائے دراز، کیا برف سی سفید اور کیا وسمہ زدہ، اس وقت غیض و غضب کا پیکر بن جاتی ہیں‘ جب بیٹی اپنی پسند کی شادی کا حق مانگتی ہے۔ یہ درست ہے کہ گھر سے بھاگ کر عدالتی شادی رچانا مذہب کے نکتہ¿ نظر سے مستحسن ہے نہ معاشرتی زاویے سے
اس کی اجازت دی جا سکتی ہے لیکن آخر اس حقیقت سے کیوں انکار کیا جاتا ہے کہ اسلام نے جوان لڑکی کو اپنی پسند کی شادی کی اجازت دی ہے۔ یہ اس کا حق ہے اور اس پر کسی اور کی پسند مسلط نہیں کی جا سکتی۔ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں ایک خاتون حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں شوہر سے علیحدگی چاہتی ہوں۔ کائنات میں حقوق نسواں کے عظیم ترین محافظ نے پوچھا کہ سبب کیا ہے؟۔ خاتون نے کہا وہ مجھے پسند نہیں! اور آپ نے اس جواب پر کوئی اعتراض نہ فرمایا!
 ہمارا ”اسلامی“ معاشرہ ایسی مثالوں سے اٹا پڑا ہے کہ بیٹی جوان ہو گئی، تعلیم مکمل ہو گئی، برسرروزگار ہو گئی، تیس سے اوپر ہو گئی پھر پینتیس برس کی ہو گئی لیکن قبلہ والد صاحب برادری سے باہر شادی نہیں کرنا چاہتے، دوسری ذات بھی گوارا نہیں، یہ بھی خوف ہے کہ شادی ہوئی تو تنخواہ ہاتھ سے نکل جائے گی، تھک ہار کر بیٹی اپنا حق استعمال کرتی ہے اور اپنا گھر بسا لیتی ہے۔ اب والد صاحب فرماتے ہیں کہ وہ میرے لئے مر گئی ہے۔ جب تک زندہ ہوں اس سے کوئی تعلق نہیں! کاش! عربوں کے ہم نے محاسن بھی لئے ہوتے۔ عورت وہاں آج بھی پسند کے مرد کو خود پیغام بھیجتی ہے اور عہد رسالت میں بھی ایسا ہی تھا۔ ایک صحابی حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ! مجھے فلاں خاتون نے پیغام بھیجا ہے!

زینب میرا انتظار کر رہی ہے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں.... زندگی ہوئی تو.... اس کے پاس پہنچنا ہے۔ وہ دو بجے سکول سے آ جاتی ہے۔ دو بجے کے بعد میں کسی دوست کسی عزیز سے نہیں مل سکتا۔ ہم پہلے ہوم ورک کریں گے پھر ہاشم اور قاسم کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلیں گے۔ سیر کے لئے پارک میں بھی جانا ہوگا اور چھٹی کے دن پلے لینڈ میں بھی بہت سا وقت گزارنا ہے!!

Facebook.com/izharulhaq.net

Friday, September 21, 2012

جب پتھر بولیں گے جب پانی بھڑکے گا


شفیق الرحمن نے ”دجلہ“ میں کہ اردو ادب کا مینار ہے، تین دریاﺅں کا ذکر کیا ہے۔ دجلہ، نیل اور ڈینیوب۔ اور سبحان اللہ کس جادو کے قلم سے ذکر کیا ہے۔ جہاں جہاں سے یہ دریا گزرتے ہیں، پڑھنے والے کو بھی وہیں وہیں ساتھ رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے شفیق الرحمن ”مسجدِ قرطبہ“ سے انسپائر ہوئے ہوں۔ ع

تیرے سمندر کی موج دجلہ و دینوب و نیل

لیکن اپنے قیام بغداد کا ذکر انہوں نے بہرطور کرنا تھا۔ ”دجلہ“ نہ لکھتے تو اردو ادب کو کوئی اور شہکار دے جاتے۔

تین دریاﺅں کا تذکرہ مجھے یوں یاد آیا کہ دو دن پہلے میں سکردو ایئرپورٹ پر اتر کر شنگریلا جا رہا تھا۔ دائیں طرف دریائے سندھ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ خوب چوڑا پاٹ، سکردو کی وادی میں سے خراماں خراماں گزرتا درمیان میں غائب ہو گیا۔ لیکن جب حوتو کا گاﺅں آیا اور شاہراہ کے کنارے پھیلے ہوئے پھلوں کے باغ نظروں کو بھانے لگے تو دریا پھر نمودار ہو گیا۔ شاہانہ تمکنت، وقار اور متانت۔ کاش شفیق الرحمن سندھ کے دریا پر بھی لکھتے۔ وجدان کہتا ہے کہ وہ دجلہ، ڈینیوب اور نیل کو پیچھے چھوڑ جاتے۔ لد ّاخ سے شروع ہونے والا دریائے سندھ پاکستان کے سارے علاقوں سے گزرتا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ لیکن اس کی تفصیل تو پاکستان کی تاریخ ہے اور جغرافیہ بھی، معیشت بھی ہے اور سیاست بھی۔ اور اسے ہر قلم کار نہیں لکھ سکتا۔ اس کے لئے شفیق الرحمن کا سحر درکار ہے۔ جس پر بھی لکھا اسے امر کر دیا۔

سترہ سال بعد بلتستان آنا ہوا ہے۔ سکردو کو چھوٹا تبت بھی کہا جاتا تھا۔ شاہ جہان اور اورنگ زیب کے دربار میں بارہ سال حاضر رہنے والے فرانسیسی ڈاکٹر برنیئر نے شاہ فرانس کو خطوط کے ذریعے برصغیر کے حالات لکھ کر بھیجے تو سکردو کو چھوٹا تبت ہی کہا۔ خپلو کے نور بخشی فرقے کے ارکان اپنی تاریخ بتاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ان کے اجداد لداخ سے آئے تھے۔ کیا خبر یہ فرقہ وہاں اکثریت میں ہو۔ بہرحال گرما کا موسم ہو، پورا چاند ہو اور رات خپلو کے قریب سے گزرنے والے دریا کے کنارے بتائی جائے جس کے اردگرد فلک بوس پہاڑ ہیں تو یہ ایک ایسا تجربہ ہے‘ جس کا مثیل کوئی نہیں۔ کہتے ہیں پورے چاند کی رات میں تاج محل کا دیدار ناقابل بیان ہے۔ لیکن خپلو کی رات اس سے کسی درجہ کم نہ ہوگی۔ ہم نے دنیا کو بتایا ہی کہاں ہے کہ ہمارے پاس کیا کیا ہے اور یہاں سے میں ماتم کا آغاز کرتا ہوں۔

دنیا کی تاریخ میں پاکستان جیسی نعمت کم ہی کسی کو ملی ہوگی اور کم ہی ایسا ہوا ہوگا جیسا اہل پاکستان نے اس نعمت کی ناشکری کی ہے۔ طویل ساحل، بلوچستان کے قدرتی وسائل، سندھ کا صحرا اور پنجاب کے سونا اگلتے میدانوں کو تو الگ رکھیں، صرف شمالی علاقہ جات ہی پاکستان کو اوجِ ثریا تک لے جانے کے لئے کافی تھے۔ دو عشرے پہلے کی وہ رات نہیں بھولتی جب گلگت کے ایک ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے ایک امریکی نے پوچھا تھا ”کیا تم نے سوئٹزر لینڈ دیکھا ہے؟“۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو اس نے بتایا کہ اس نے دیکھا ہے اور ہُنزہ کسی شک اور شائبہ کے بغیر، سوئٹزر لینڈ سے زیادہ خوبصورت ہے۔

ہم نااہل نہ ہوتے تو سیاحت سے کروڑوں کیا اربوں کما سکتے تھے اور ہمارے ملک کا ذکر بالی، سوئٹزر لینڈ اور ان یونانی اور ہسپانوی جزیروں کے ساتھ ہوتا‘ جہاں سال کے بارہ ماہ‘ سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ لیکن سیاحت ایک انڈسٹری ہے اور انڈسٹری، سہولیات مانگتی ہے۔ یہ انفراسٹرکچر کا کھیل ہے۔ ہمیں چینیوں نے شاہراہ قراقرم بنا کر دی۔ ہم اسے بھی عملی طور پر کھو بیٹھے ہیں۔ سکردو اور گلگت سے ایبٹ آباد تک تیس گھنٹے لگتے ہیں۔ جس شاہراہ کے ہر کلومیٹر پر پاکستانی فوجیوں اور چینی کاریگروں نے جان کی قربانی دی تھی‘وہ ناقابل بیان حد تک آج شکستگی کا شکار ہے۔ پورے راستے میں کوئی معیاری ہوٹل، کوئی ڈھنگ کا ریستوران نہیں۔ یہاں تک کہ قضائے حاجت کے لئے صاف ستھرے واش روم ناپید ہیں۔ پھر اگر سیاح سکردو، گلگت اور ہنزہ پہنچ بھی جائے تو انٹرنیٹ کی سروس دستیاب ہے نہ دیگر جدید سہولیات۔ پی آئی اے سکردو اور گلگت تک ناقابل اعتبار پروازیں مہیا کر رہا ہے لیکن وہ خود ایک جاں بلب ادارہ ہے۔ اور بہت سے دوسرے قومی اداروں کی طرح اکھڑے اکھڑے سانس لے رہا ہے۔ فرقہ وارانہ حوالے سے‘ جس طرح مسافروں کو بسوں سے اتار اتار کر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے، اس پس منظر میں سیاحت کا کیا سوال اور سیاحت کو انڈسٹری بنانے کا کیا امکان! نااہلی، اقربا پروری، سفارش اور سیاسی آلودگی کی بدترین مثال دیکھنا ہو تو شمالی علاقوں میں سیاحت کی ناکامی سے بڑی مثال شاید ہی کوئی ہو، سیاحت کا وفاقی ادارہ (پاکستان ٹور ازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن) یا تو سیاسی یتیم خانہ بنا رہا یا سفارشی ٹٹوﺅں کا اجڑا ہوا اصطبل۔ تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ ایک مشہور سیاسی مولانا کے بھائی سیاحت کے وزیر بنے۔ انہیں ٹور ازم کارپوریشن کے سربراہ کی پجارو پسند آ گئی۔ سربراہ نے پجارو کو وزیر صاحب کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ ہوائی اڈے پر وزیر صاحب کے ”بندوں“ نے پجارو پر زبردستی قبضہ کیا اور یوں وزیر صاحب کا مشن کامیابی سے ہمکنار ہوا۔

طویل داستان ہے۔ تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم۔ نوے کی دہائی میں، معروف شاعرہ فاطمہ حسن غریب خانے پر تشریف لائیں۔ ان کے ساتھ ان کے کچھ احباب تھے جو پاکستانی نژاد تھے اور کینیڈا کے شہری۔ وہ سرمایہ کاری کے متمنی تھے۔ شمالی علاقوں میں پھلوں کو محفوظ کرنے کا کارخانہ لگانا چاہتے تھے اور وفاقی حکومت سے منظوری لینا چاہتے تھے۔ جو ٹوٹی پھوٹی مدد ہو سکتی تھی، کی۔ لیکن وہ کچھ بتائے بغیر واپس چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ متعلقہ اہلکاروں نے اپنا ”حصہ“ مانگا تھا۔ یہ انڈسٹری انہوں نے بھارت کے شمالی علاقوں میں لگائی! پاکستانیوں کی اکثریت کو اندازہ ہی نہیں کہ شمالی علاقہ جات میں کثرت سے پیدا ہونے والے پھلوں کا بڑا حصہ ضائع ہو رہا ہے۔ آپ بلتستان، ہنزہ اور چترال کی سڑکوں پر چلیں تو کوسوں تک سڑک پر نہیں، خوبانیوں پر چلتے ہیں۔ سکردو اور کافرستان کی وادیوں خاص طور پر بمبریٹ میں پیدا ہونے والا آلو بخارا، مٹھاس میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ انگور اور آڑو کی پروسیسنگ اور محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں۔ چند کلومیٹر دور، ازبکستان اور تاجکستان میں یہی لینڈ سکیپ ہے اور اسی کے ساتھ کا علاقہ ہے لیکن ایک آڑو، ایک خوبانی اور ایک چیری بھی ضائع نہیں ہونے دی جا رہی۔ جو پھل محفوظ (TIN) ہونے سے بچ جاتے ہیں ان کا رس اور مربہ بنا دیا جاتا ہے جو پورے وسط ایشیا میں فروخت اور استعمال ہوتا ہے۔

آج چترال کے حسن کی ملکہ کافرستان پر افغانوں کے رات دن حملے ہو رہے ہیں۔ ہمارے چرواہے محفوظ ہیں نہ کسان۔ سوات کے ساتھ جو کچھ ہوا، عشروں تک سیاحت متاثر رہے گی اور ابھی یہ کہانی انجام تک نہیں پہنچی! بلتستان اور ہنزہ امن کے گہوارے تھے لیکن فرقہ وارانہ آگ کے شعلے یہاں پہنچ چکے ہیں۔ تو کیا نااہلی اور ناکامی کا احساس ہمیں اس وقت ہوگا جب پانی بھڑک اٹھے گا اور پتھر بول پڑیں گے؟

Facebook.com/izharulhaq.net

Thursday, September 20, 2012

صرف تین فیصلے



انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان عوام کا احتجاج دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے لیکن مسلم حکمران کبھی وہ نہیں کریں گے جو انہیں کرنا چاہئے۔

ان ”باغیرت“ حکمرانوں کا مفاد اسی میں ہے کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو کہ مسلمان عوام سیخ پا ہو جائیں۔ احتجاج کریں، اپنی ہی املاک کی توڑ پھوڑ کریں، اپنے ہی لوگوں کو ماریں۔ یوں ان کی توجہ ان حکمرانوں کے طرز زندگی سے ہٹی رہے۔ ایسا طرز زندگی جس کا قانونی جواز ہے نہ شرعی اور نہ ہی اخلاقی۔ احتجاج کی اس لہر میں اگر امریکی مارے جاتے ہیں تو اسے بھی یہ حکمران اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ امریکیوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ان عوام کو صرف وہی قابو میں رکھ سکتے ہیں۔

جلوس.... جن کی قیادت ایسے لوگ کرتے ہیں جن میں سے بہت سوں کا ذریعئہ معاش ہی کسی کو نہیں معلوم!

ہڑتالیں.... جن کی زد اپنی ہی معیشت پر پڑتی ہے۔

سرکاری دفاتر نذر آتش، سینکڑوں گرفتار، لانگ مارچ، شاہراہوں کی بندش، شٹر ڈاﺅن، ہوائی فائرنگ، لاٹھی چارج، کنٹینرز اور کاریں تباہ، ہلاک ہونے والے بھی مسلمان۔ زخمی ہونے والے بھی مسلمان، گرفتار ہونے والے بھی مسلمان۔ گرفتار کرنے والے بھی مسلمان۔ گستاخانہ فلم بنانے والے اس صورتحال پر حالت جشن میں ہیں لیکن پچاس سے زیادہ مسلمان ملکوں کے سربراہ کیا کر رہے ہیں؟

اس سوال کا جواب اس انداز زندگی میں ہے جو ان کی غالب اکثریت نے اپنایا ہوا ہے۔ دنیا کے امیر ترین سربراہان مملکت کی فہرست بنائی جائے تو دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں، چھٹے، آٹھویں، دسویں، گیارہویں، تیرہویں، چودھویں، سترھویں اور اٹھارہویں نمبر پر مسلمان ملکوں کے سربراہ ہیں۔ کسی کی ”ذاتی“ دولت چار ارب ڈالر ہے، کسی کی اٹھارہ ارب اور کسی کی بیس ارب ڈالر۔ یہ نفسیاتی مریض کہیں محلات خرید رہے ہیں، کہیں جزیروں کے جزیرے، کہیں پورے پورے فائیو اور سیون سٹار ہوٹل اور کہیں دنیا کے گراں ترین سپر سٹور اپنے نام منتقل کرا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا ہسپانیہ کے سب سے مہنگے شہر ”مار بیلا“ میں مشرق وسطیٰ کا ایک مسلمان حکمران ”آرام“ کرنے آیا۔ یہ شہر ارب پتی رﺅسا، ایکٹروں، ایکٹریسوں، گویوں اور کھلاڑیوں کی رہائش کے لئے مشہور چلا آ رہا ہے۔ جنسی فلموں میں کام کرنے والی رسوائے زمانہ اداکارائیں بھی ”ریٹائرمنٹ“ کے بعد یہیں کا رخ کرتی ہیں۔ بادشاہ سلامت کے افراد خانہ سمیت کل تین ہزار کا گروہ تھا۔ ہسپانیہ کے دارالحکومت میڈرڈ سے چار سو پچاس کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع اس شہر میں ایک عالی شان محل ہے جس کا نام مرمر ہے۔ 185 ملین ڈالر اسے ازسرنو تیار اور صاف کرنے پر لگے۔ محل کے اردگرد کے اعلیٰ ہوٹلوں میں سینکڑوں کمرے الگ مختص کرائے گئے۔ زیورات کی دکانیں اور ریستوران اپنے مقرر کردہ اوقات بھول گئے۔ تیس کروڑ ڈالر کی شاپنگ ہوئی۔ یہی وہ موقع تھا جب یورپین پارلیمنٹ کی اطالوی رکن ایما بونینو کے تاثرات کچھ اس طرح کے تھے کہ شاہی خاندان اپنے ملک سے زیادہ، باہر کے ملکوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پورے یورپ میں یہ خبر عام تھی کہ شاہی قافلہ پچاس لاکھ یورو روزانہ خرچ کرتا ہے۔ کبھی تردید نہیں ہوئی۔

سلطان برونائی کے محل میں ایک ہزار سات سو اٹھاسی غسل خانے، پانچ سوئمنگ پول اور ائرکنڈیشنڈ اصطبل ہیں۔ ایک سو دس گاڑیوں کے گیراج ہیں۔ ایک سو پینسٹھ رولز رائس کاریں اس کے علاوہ ہیں۔ صرف یہ سوچئے کہ محل کی صفائی اور روزمرہ کی دیکھ بھال پر کتنا خرچ اٹھتا ہوگا۔

راچٹسر، امریکی ریاست منی سوٹا کا چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں دنیا کا مشہور ترین ہسپتال میو کلینک واقع ہے۔ دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن یہیں کیا گیا تھا۔ اس کی کثیر المنزلہ عمارت کا وہ فلور اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جو پورے کا پورا ایک مسلمان شاہی خاندان نے خرید لیا تھا۔ مقصد تو بیمار دل کا علاج کرانا تھا لیکن پورے فلور کے سارے کمروں کے تالے، کنڈے اور غسل خانوں کی ٹونٹیاں خالص سونے کی لگائی گئیں۔ پھر نائن الیون آ گیا اور یہ رہائش گاہیں چھوڑنا پڑیں۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے کمروں میں لگا ہوا سونا نیلام کرنا چاہا لیکن کسی نے بھی خریدا نہیں۔ جس چھوٹے سے قصبے میں بھی ایک بہت بڑی پبلک لائبریری تھی، وہاں کے مکین اتنے بے وقوف کیسے ہو سکتے تھے کہ سونے کی بیکار ٹونٹیاں اور تالوں کے کنڈے خریدتے۔

گستاخانہ فلم کی وجہ سے مسلمان عوام کی جان پر بنی ہے۔ وہ مارنا چاہتے ہیں یا مرنا چاہتے ہیں۔ پچپن مسلمان حکمرانوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ایک جہاز لے کر ہر مسلمان دارالحکومت میں جاتا اور مشورہ کرکے سب کو اکٹھا کر لیتا۔ عرب لیگ کو جھُرجھری آئی نہ اسلامی کانفرنس میں ”زمین جنبد نہ جنبد گل محمد“ والی صورت حال بدلی۔

اس کالم نگار کا دعویٰ ہے کہ اگر پچپن مسلمان ملکوں کے سربراہ اکٹھے ہو کر بیٹھیں اور بیک آواز امریکہ سے مطالبہ کریں کہ جس طرح یہودیوں کے ہولو کوسٹ سے انکار کرنا قانوناً جرم ہے، اسی طرح اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن پاک کی توہین کو بھی قانوناً جرم قرار دیا جائے تو امریکہ کے پاس جائے مفر نہیں ہوگا۔ اگر امریکہ یہ مطالبہ تسلیم نہ کرے تو مسلمان ملکوں کے یہ سربراہ صرف تین فیصلے کر دیں۔ اول۔ وہ اپنے سفیروں کو امریکہ سے واپس بلا لیں اور امریکی سفیروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیں۔ دوئم کسی بھی امریکی کو، بلا استثنیٰ، کسی بھی مسلمان ملک کے اندر داخل ہونے کا ویزہ نہ دیا جائے اور سوم‘ مسلمان ملکوں میں موجود تمام امریکیوں کو نکل جانے کا حکم دے دیا جائے۔ اس راستے میں مشکلات ہیں لیکن اگر مسلمان ملکوں کے سربراہ مستقل مزاجی اور عالی ہمتی سے کام لیں اور پیٹھ نہ دکھائیں تو امریکہ چند ہفتوں میں نہیں تو چند مہینوں میں گھٹنے ٹیک دے گا۔

ہمارے جلسوں، جلوسوں اور ہماری املاک کی ہمارے اپنے ہاتھوں تباہی، امریکی پریس میں نصف کالمی سرخی بھی نہیں بنا سکتی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ یو ٹیوب بھی ان کی ہے اور ڈرون جہاز بھی ان کے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا

ہوائیں ان کی، فضائیں ان کی، سمندر اُن کے جہاز اُن کے

گرہ بھنور کی کھُلے تو کیوں کر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ

اس بے بضاعتی میں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو سربراہوں کے متحدہ اقدام ہی سے ہو سکتا ہے۔


Tuesday, September 18, 2012

قبیلے کا فخر

انسان کو کبھی کبھار وہ کچھ ملتا ہے جس پر دوسرے رشک کرتے ہیں۔ پھر ایک ایسا وقت آ جاتا ہے کہ وہ اسے سنبھال نہیں سکتا یا وہ زیادہ کی تمنا کرتا ہے۔

بسا اوقات ایک شخص کو قبیلے کا فخر قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے کسی کارنامے کی وجہ سے یا اس حکمت و دانش کی بنا پر جو اسے ودیعت ہوتی ہے۔ قبیلے کا سردار بھی اس کی تکریم کرتا ہے۔ اب یہ اس کے رویے پر منحصر ہے کہ یہ تکریم وہ کب تک برقرار رکھتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایسا مقام ہے جو متانت اور غیر جانبداری کا متقاضی ہے لیکن اگر وہ متحارب گروہوں میں سے کبھی کسی کا ساتھ دیتا ہے اور کبھی کسی پر تنقید کے نشتر چلاتا ہے تو اس کا بلند مقام اسی نسبت سے نیچے سرکتا آتا ہے اور قبیلہ اسے تو بہت ہی عجیب نظروں سے دیکھتا ہے جو اٹھتے بیٹھتے اپنے کارنامے کا ذکر کرے اور بلند مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود یہ تاثر دے کہ اسے کچھ نہیں ملا۔ قبیلے میں سب مصلحت کیش نہیں ہوتے۔ کچھ سر پھرے بھی ہوتے ہیں اور کچھ دیدہ دلیری سے یہ بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ

جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی

پھر وہی مرحلہء سود و زیاں ہے کہ جو تھا

تاریخ کے بوسیدہ اوراق الٹنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا اپنا زمانہ ہمارے لیے تاریخ سے کم نہیں! نیلسن منڈیلا، مہاتیر محمد اور جدید سنگا پور کا باپ لی کوان! کیا شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی اپنی قوم پر احسانات کئے لیکن جو کچھ قوم نے دیا اس کے لئے زیادہ احسان مند ہیں۔ کیا اقتدار کے اندر اور کیا اقتدار سے باہر، زندگی یوں بسر کی کہ متانت کو جانے دیا نہ عزت و تکریم میں کمی ہونے دی!

سیاست دان تو ایک مقصد کے لئے سرگرم کار ہیں، وہ مقصد اقتدار کا حصول ہے۔ چنانچہ وہ الزامات اور تکرار کے کیچڑ میں لتھڑے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے پر معاصرت کی سنگ زنی کرتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو دشنام کا سہارا بھی لے لیتے ہیں لیکن ایک ایسی شخصیت جس کا سب احترام کریں، سیاسی جماعتوں کو کبھی ہدف نہیں بناتی نہ سیاست دانوں کا نشانہ لیتی ہے۔ اس طرح وقعت کم ہو جاتی ہے۔ مزہ تو جب ہے کہ سب احترام کریں اور بات سنیں تو سر جھکا دیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ بھارتی سائنس دان عبدالکلام نے کیسا رویہ اختیار کیا۔ 2007ءمیں اس نے جب اعلان کیا کہ صدارتی مدت پوری کرنے کے بعد دوسری بار صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لے گا تو لاکھوں نہیں، کروڑوں لوگوں نے منتیں کیں کہ دوبارہ صدر بنیں۔ دولت سے ایسا اغماض کہ جن دو اٹیچی کیسوں کے ساتھ ایوان صدر میں داخل ہوا، انہی کے ساتھ پانچ سال بعد باہر نکالا۔ دوران صدارت کوئی ایسی حرکت نہیں کی کہ مخالف تشہیر طلبی کا طعنہ دیں اور حامیوں کوصدمہ پہنچے۔ ایک ایک ریاست میں گیا۔ بے شمار شہروں اور قصبوں اور قریوں کا سفر کیا۔ کتابیں لکھیں جن میں اور تو بہت کچھ تھا خود ستائی نہ تھی۔ ”ونگز آف فائر“ کے نام سے خودنوشت لکھی۔ عجز سے بھری ہوئی اور غربت کے سفر کی تفصیلات، کروڑوں نے پڑھی۔ خاص طور پر ان مسلمانوں نے جو جنوبی ایشیا کے جھگڑوں سے دور یورپ اور امریکہ میں جا بسے ہیں، پھر ایک اور کتاب لکھی، ”سلگتا ذہن“ اس میں سوال کیا کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ پھر خود ہی جواب دیا، ہماری دشمن غربت ہے۔پھر طریقے تجویز کئے کہ غربت دور کیسے کی جائے۔ پھر نوجوانوں کے لئے ”مشن انڈیا“ تصنیف کی اور پورا نقشہ بنا کر دیا کہ 2020ءتک کس طرح ملک کو تبدیل کر کے رکھ دینا ہے۔ لیڈر کی خصوصیات بتائیں۔ پہلی یہ کہ لیڈر کے پاس وژن ہونا چاہئے۔ اس کے بغیر لیڈر نہیں بنا جا سکتا۔ دوسری یہ کہ لیڈر ان راستوں پر نہ چلے جو پامال ہیں، نئے راستے تلاش کرے۔

ازان کہ پَیروئی خلق گمرہی آرَد

نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست

ہجوم کی پیروی سے گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جن راستوں کو قافلے پامال کر چکے ہیں، ان پر چلنے سے کیا فائدہ۔ تیسری یہ کہ لیڈر کو ناکامی کا سامنا کرنا آتا ہو ورنہ وہ ناکامی سے شکست کھا کر پیش منظر سے غائب ہو جائے گا۔ چوتھی یہ کہ لیڈر میں فیصلے کرنے کی جرا¿ت ہو۔ پانچویں یہ کہ جو کام کرے اس میں شفافیت ہو اور کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے اور چھٹی یہ کہ کسی صورت میں بھی راستی اور دیانت سے نہ ہٹے۔

پھر
 اپنے اہل وطن کو
PURA
 کا تصور دیا
PROVIDING URBAN AMENITIES IN RURAL AREAS
 یعنی دیہاتی علاقوں میں شہری سہولیات کی فراہمی کا ممکن بنانا۔ اس کی تہہ میں یہ اصول بتایا کہ الیکٹرانک اور اقتصادی رسائی سے دور افتادہ علاقوں کو نزدیک لانا ہے۔ اس کے لئے سات ہزار خاکے بنا کر دیئے جن کا پہاڑی دیہات، ساحلی دیہات اور میدانی دیہات پر اطلاق ہوگا۔ یوں دیہات اور شہروں کے درمیان آسودگی کے پل تعمیر ہوں گے اور اطلاعات.... الیکٹرانک رسائی.... گاﺅں گاﺅں جائے گی۔ پھر اپنے ملک کو توانائی کے مستقبل کے بحران سے بچانے کے لئے روایتی توانائی کے تین نعم البدل پیش کئے۔ پہلا شمسی توانائی، دوسرا ایٹمی توانائی اور تیسرا حیاتیاتی (بایو) توانائی۔ پھر سماجی تبدیلی کے لیے تین گرڈ تجویز کئے۔ علم کا گرڈ، صحت کا گرڈ اور ملک کا انتظام کمپیوٹر کے ذریعے چلانے کا گرڈ۔ یہ تمام منصوبے پیش کر کے عبدالکلام فارغ نہیں ہو گیا۔ وہ رات دن کام کر رہا ہے۔ کسی تشہیر اور کسی پارٹی کی قیادت کئے بغیر.... نوجوانوں کی تنظیمیں اور فلاحی ادارے اس کی مدد کر رہے ہیں اور وہ مسلسل سفر میں ہے۔

بھارت پاکستان کا مخالف ہے۔ اس شخص نے بھارت کو ایٹمی میزائل تعمیر کرکے دیئے۔ اس کا نام ہی میزائل مین پڑ گیا۔ مقصد حقیقت کو بیان کرنا ہے۔ دشمن سے ہمارا مقابلہ ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں بھی کرنا ہے لیکن اس کے لئے ذات کی نفی کرنا ہوگی۔ اپنی تعریفوں کے پل دریا برد کرنے ہوں گے۔ خود توصیفی کے نقرئی حصار سے باہر نکلنا ہوگا۔ یہ کام وہ شخص کرے گا جو بابائے وطن ہوگا جو کبھی ایک پارٹی پر اور کبھی دوسری پارٹی پر اور کبھی ایک سیاست دان پر اور کبھی دوسرے سیاست دان پر کنکر نہیں مارتا پھرے گا!

معاف کیجئے گا۔ اگر ثقاہت کا یہ عالم ہے کہ پانی سے موٹر چلانے کا دعویٰ کرنے والے کی بھی آپ ہاں میں ہاں ملائیں گے تو لوگ آپ کو کس طرح اور کتنی سنجیدگی سے لیں گے؟ یہ اور بات کہ وہ احتراماً یا ازراہ مروت خاموش رہیں!!

Friday, September 14, 2012

کسی مرد کو بلائو

ہلاک ہونے والوں کا ذرا بھی احساس ہوتا تو وفاقی وزراءاس ہولناک حادثے پر سیاسی بیان بازی نہ کرتے۔ غلط کہا ہے خاتون وزیر نے کہ آج ناظمین ہوتے تو وہ غیر قانونی کاروبار نہ کرنے دیتے۔ اور وزیر صاحب کا یہ مطالبہ دیکھئے کہ میڈیا غیر قانونی فیکٹریاں منظر عام پر لاتا رہے! تو پھر ریاست کہاں ہے؟ کیا وفاقی وزیر یہ اعتراف کرنا چاہتے ہیں کہ ریاستی ادارے ختم ہو چکے؟

خدا کی پناہ! آج اس ملک میں انسان سے زیادہ بے وقعت کوئی چیز نہیں! لوگ اس طرح مر رہے ہیں اور مارے جا رہے ہیں جیسے طاعون کی وبا میں چوہے مرتے ہیں یا جیسے گاجر مولی کاٹی جاتی ہیں۔ بدقسمتی دیکھئے کہ میاں نوازشریف سے لے کر الطاف حسین تک اور عمران خان سے لے کر چودھری شجاعت حسین اور مولانا فضل الرحمن تک، ہر کوئی افسوس کر رہا ہے لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ مجرموں کو پکڑو۔ یہی وہ ذہنی ساخت ہے جس نے آج ہمیں ہلاکت کے گڑھے کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔ جب بھی بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتاریں‘ صرف اس وجہ سے کہ اداروں نے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیے تو جانی نقصان پر اظہار افسوس کر دیا جائے اور چیختے چلاتے پس ماندگان سے ہمدردی جتا دی جائے۔ اٹھارہ محکمے اپنی جیب میں رکھنے والے وزیراعلیٰ نے فی کس مالی امداد کا اعلان کیا ہے اور

واقعہ کی ”تحقیقات“ کے لئے خصوصی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ وزیراعلیٰ کے مصاحبوں میں کوئی رجلِ رشید ہوتا تو مشورہ دیتا کہ پہلے ذمہ دار محکموں کے سربراہوں کو جیل میں ڈالیے اور اس کے بعد انہیں کہئے کہ بے گناہی ثابت کریں۔ کیا چین میں پہلی اور آخری شاہراہ ناقص تعمیر کرنے کے جرم میں، چو این لائی کے زمانے میں، ٹھیکیدار اور متعلقہ افسر کو پھانسی نہیں دی گئی تھی؟ کیا خلد آشیانی شاہ عبدالعزیز نے روٹی کا وزن کم کرنے والے نانبائی کو اُسی کے تنور میں نہیں جھونک دیا تھا؟ حج کے موقع پر چالیس لاکھ انسانوں کی آمد کے باوجود‘ چائے کی پیالی اور شربت کی بوتل کا نرخ ایک ریال سے اوپر نہیں جاتا تو کیا یہ بغیر کسی وجہ کے ہے؟ سمرنا کے قاضی اور قرطبہ کے کوتوال کے رومانی قصے لہک لہک کر پڑھنے اور پڑھانے والوں کو اتنی توفیق ارزانی کب ہوگی کہ رمضان میں دام بڑھانے والوں کی کمر کی کھال اتار کر ان کے کندھوں پر لٹکا دیں۔ یہی برصغیر تھا جہاں علاﺅ الدین خلجی کم تولنے والے کے جسم سے اتنے ہی وزن کے برابر گوشت کاٹ لیا کرتا تھا۔ اس کے پورے عہدِ اقتدار میں گندم سے لے کر سبزی تک اور کپڑے سے لے کر دوا تک کسی
شے کا نرخ، سرکاری قیمت سے زیادہ نہ بڑھا۔

جوتے بنانے والے کارخانے میں 25 افراد جل کر مر گئے۔ زخمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ”ڈی سی او لاہور نے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد میں لے کر رہائشی علاقوں میں قائم فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔“ آمریت اسی کو کہتے ہیں۔ سسٹم ہو تو کام خود بخود ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب فیکٹریاں غیر قانونی ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے وزیراعلیٰ کو اعتماد میں لینا کس قانون کا تقاضا ہے؟ دو ہزار پانچ سو فیکٹریاں غیر قانونی طور پر کام کر رہی ہیں۔ اخبارات نے صاف صاف لکھا ہے کہ مختلف صوبائی محکموں نے خود رہائشی علاقوں میں کارخانے لگوائے۔ بلڈنگ بائی لاز کی دن دہاڑے دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جس فیکٹری میں آگ لگی ہے اور دو درجن سے زیادہ انسان ہلاک ہو گئے ہیں، اس فیکٹری کو لیبر کے محکمے نے چیک کرنا تھا۔ نہیں کیا۔ صنعت کے صوبائی محکمے نے اس کا معائنہ کرنا تھا۔ نہیں کیا۔ بجلی نہیں دینا چاہئے تھی۔ دی گئی۔ پانی کا کنکشن نہیں ملنا چاہئے تھا، ملا۔ کوئی قانون کی حکمرانی والا ملک ہوتا تو ان تمام محکموں کے سربراہ حادثے کے بعد پہلی رات ہی گرفتار کر لئے جاتے۔ ان پر قتل کے مقدمے قائم ہوتے۔ اگر پھانسیاں نہ بھی دی جاتیں، طویل عرصہ کے لئے حوالہ ¿ زنداں کئے جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ غیر قانونی فیکٹری تو دور کی بات ہے محکموں کے نئے سربراہ ارادہ کرنے والے کی بھی کھال اتار دیتے۔ آپ اس ملک میں قانون کی تضحیک اور تذلیل کا اندازہ اس سے لگایئے کہ دو درجن بے گناہوں کی موت پر، وہیں کھڑے ہو کر، صنعت کے محکمے کا ضلعی سربراہ یہ قیمتی اطلاع بہم پہنچاتا ہے کہ فیکٹری غیر قانونی طور پر قائم کی گئی تھی۔ سبحان اللہ! کیا احسان فرما رہے ہیں آپ قوم پر ‘یہ انکشاف کر کے۔ خادمِ اعلیٰ کو چاہئے کہ ایسے سارے اہلکاروں کو دانش سکولوں میں تعلیم دیں اور اس کے بعد یہ کرم فرمائی کریں کہ غیر قانونی کام کو روکنے اور جرم کا سدباب کرنے سے پہلے ”اعتماد“ میں لینے کی شرط منسوخ فرما دیں۔ فیکٹری میں حفظِ ماتقدم کے لحاظ سے کوئی ایک اقدام بھی نہیں اٹھایا گیا تھا۔ ایمرجنسی میں باہر نکلنے کا راستہ بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ بجلی کے تار ناقص تھے اور باہر نکلنے والے راستے کے عین درمیان میں خطرناک آتش گیر مادے کے ڈرم پڑے تھے۔ آگ بھڑکی تو سب سے پہلے راستہ بند ہوا۔ کیا ان قاتلانہ غفلتوں کے بعد بھی کوئی نہ پکڑا جائے گا؟

مغلوں کے زوال کا زمانہ تھا۔ شہر کے انتظام کی ذمہ داری انگریز ریذیڈنٹ کی تھی۔ شاہی قلعے میں فقط مشاعرے ہوتے تھے یا آرام! اسی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک شہزادہ پیدائش سے لے کر بلوغت تک زنان خانے ہی میں رہا۔ عادات و اطوار پر اور طرزِ گفتگو پر نسائیت غالب آ گئی۔ ایک بار زنان خانے میں سانپ نکل آیا۔ عورتیں جمع ہو گئیں اور چلّانے لگیں کہ کسی مرد کو بلاﺅ۔ شہزادہ بھی چیخ چیخ کر کہنے لگا ”کسی مرد کو بلاﺅ‘ کسی مرد کو بلاﺅ“۔ اب یہ تحقیق آپ خود کیجئے کہ لاہور میں اس دلدوز سانحے کے بعد، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کس نے کہا ہے کہ غیر قانونی فیکٹریاں ہمارے لئے باعثِ تشویش ہیں۔ ان کے خلاف آہنی ہاتھوں سے کارروائی کی جائے! جون ایلیا یاد آ گیا۔

کون سا قافلہ ہے یہ جس کے جرس کا ہے یہ شور

میں   تو نڈھال    ہو    گیا،    ہم   تو نڈھال ہوگئے

facebook.com/izharulhaq.net

Thursday, September 13, 2012

جنگل


قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، سعودی عرب اور مراکش میں خاندانی بادشاہتیں ہیں۔ بادشاہِ وقت کے اپنے کنبے کے علاوہ شہزادوں اور شہزادیوں کی ایک کثیر تعداد ہر وقت موجود ہوتی ہے۔ مناصب پر، خواہ ملک کے اندر ہوں یا باہر، شاہی خاندان کے افراد کا حق اولین ہے۔ آپ نے اخبارات سے اندازہ لگایا ہوگا کہ مکہ، مدینہ، طائف اور دوسرے اہم شہروں کے گورنر شاہی خاندان کے ارکان ہیں۔ تاہم اس وقت ہم ان مناصب کی بات کر رہے ہیں جو بیرون ملک ہوتے ہیں۔ ان بادشاہتوں کے جو سفارت خانے دوسرے ملکوں میں کام کرتے ہیں، وہاں تعیناتی کے لئے شاہی خاندان کے افراد کو ترجیح دی جاتی ہے یا پھر ان افراد کو فائز کیا جاتا ہے جو شاہی خاندان سے قربت رکھتے ہوں۔

بیرون ملک مناصب پر تعینات ہونے والے شاہی خاندانوں کے یہ افراد نہ صرف ان عہدوں کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ کچھ تو غیر معمولی صلاحیتوں کے بھی مالک ہوتے ہیں۔ ریاض الخطیب جس پائے کے سفارت کار تھے، آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا سعودی سفیر پاکستان میں رہا ہو جو اوسط درجے سے کم  تھا۔ اسی طرح امریکہ میں جو شہزادہ، بندر بن سلطان، سعودی سفیر رہا، وہ پیشہ ور پائلٹ تو تھا ہی، اس نے مشہور عالم امریکی ادارے جان ہاپکن یونیورسٹی سے انٹرنیشنل پبلک پالیسی میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ یہ درست ہے کہ شاہی خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے شہزادہ بائیس سال تک سفارت پر فائز رہا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ واشنگٹن کے سفارتی پیش منظر پر چھایا رہا اور کئی دوسرے ملکوں کے سفیروں سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ پانچ امریکی صدور اور دس امریکی وزرائے خارجہ کو اس نے کامیابی سے بھگتایا۔

پاکستان میں بھی بیرون ملک تعیناتیاں شاہی خاندان کے افراد کی یا ان خاندانوں کے منظور نظر افراد کی ہوتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہاں منظور نظر افراد میں اہلیت کو بالکل نہیں دیکھا جاتا۔ یہ شاہی خاندان خونی رشتے کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفادات کے رشتوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ خاندان بظاہر منتشر لگتا ہے لیکن اس کی بہم پیوستگی بے مثال ہے۔ اس خاندان میں صدر، وزیراعظم، وزراءکرام اور وفاق اور صوبوں میں بیٹھے منتخب نمائندے شامل ہیں۔ بیرونی حاشیوں پر وہ جرنیل اور بیوروکریٹ بھی براجمان ہیں جو اس خاندان کا حصہ نہیں، لیکن قربت رکھتے ہیں۔

یہ سارا پس منظر اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ بلوچستان جہاں اپنی متعدد محرومیاں بیان کرتا رہتا ہے، وہاں دو روز پیشتر اسی نے یہ ہرا زخم بھی دکھایا ہے کہ بیرون ملک تعینات چار سو چورانوے 494 افسروں میں سے صرف انیس (19) کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اسی طرح غیر افسر عملے میں بھی صوبے کا حصہ، جائز حصے سے اڑھائی فی صد کم ہے۔

جس ملک میں مسائل حل کرنے کا کامیاب ترین فارمولا ”مٹی پاﺅ“ رہا ہو، وہاں بیرون ملک تعیناتیوں کے بکھیڑے پر غور کرنے کا دماغ کس کو ہوگا؟ دن کو دو بجے بیدار ہونے والے ”شاہی خاندان“ کے افراد کے نزدیک یہ مسئلہ، مسئلہ ہی نہیں، وقت کا ضیاع ہے۔ یہ درست ہے کہ برطانوی حکومت ایک مضبوط فارن سروس کی روایت چھوڑ گئی ہے جس میں داخلہ، مقابلے کے امتحان کے ذریعے ہوتا ہے لیکن پاکستانی سفارت خانوں میں جو کونسلر، کونسلر جنرل، پریس اتاشی، کمیونٹی ویلفیئر اتاشی اور اس قبیل کے دوسرے مناصب پر سرکاری ملازم تعینات ہوتے ہیں، وہ فارن سروس کے نہیں ہوتے۔ یہی وہ تعیناتیاں ہیں جو پوری بددیانتی سے، سفارش، اقربا پروری اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر طے پاتی ہیں۔ اس کا سنگ بنیاد بھٹو صاحب کے دور میں رکھا گیا جب سیاسی تقرریوں کو باقاعدہ ادارے کی صورت دی گئی۔ ضیاءالحق کے طویل دور میں یہ بددیانتی اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ دس دس سال تک منظور نظر افراد کو ایک ہی ملک میں رکھا گیا۔ بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

یہ سلسلہ آج بھی پوری بددیانتی اور ڈھٹائی سے جاری ہے اور ”شاہی خاندان“ اہلیت پر مسلسل ڈاکے ڈال رہا ہے۔ صرف دس ماہ پیشتر جو کچھ ہوا ہے، ثبوت کے لئے کافی ہے۔ وزارت اوورسیز پاکستانیز نے بیرون ملک سفارت خانوں میں درجن ڈیڑھ درجن ویلفیئر اتاشی تعینات کرنے تھے۔ یہ پورا طریق کارایک  طویل ”پروسیس“ تھا جس کا آغاز وزارت نے جنوری 2011ءمیں کیا۔ تمام وفاقی اور صوبائی محکموں سے نام منگوائے گئے۔ امتحان ہوئے۔ انٹرویو ہوئے۔ اسناد کی چھان پھٹک ہوئی۔ اس میں ایک سال لگا اور چار سو امیدواروں میں سے 67 منتخب کئے گئے جن میں سے آخری چناﺅ ہونا تھا۔ جب سارے مرحلے طے ہو گئے اور ان 67 امیدواروں کے انٹرویو شروع ہونے لگے تو اوپر سے حکم آیا کہ چار ”خصوصی“ امیدواروں کو فہرست میں شامل کیا جائے اور وہ مراحل جن میں ایک برس لگا تھا، ان چار کے لئے فوراً طے کئے جائیں۔ ان میں کسی کی مدت ملازمت کم تھی اور کوئی کسی بنک کا ملازم تھا اور تعیناتی کا کسی طرح اہل نہ تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا، وزارت کے اہلکار، حکم حاکم ماننے پر مجبور تھے ؛ چنانچہ وہی ہوا، جو کہا گیا!

درجنوں، بیسیوں نہیں، سینکڑوں مثالیں ہیں۔ 2008ءمیں نیویارک اور کینیڈا جیسے مقامات پر خصوصی اسامیاں پیدا کی گئیں۔ تعیناتی کے لئے تحریری امتحان، جو لازمی تھا، نہیں لیا گیا۔ صرف انٹرویو کی بنیاد پر فیصلے ہوئے۔ کہیں کسی وزیر کے پرسنل سیکرٹری کو لگایا گیا، کہیں اس شخص کے بھائی کو تعینات  کیا گیاجو کسی بڑے شخص کا جیل کے زمانے کا ساتھی تھا۔ کسی وزیر کی صاحبزادی کو مقابلے کے امتحان کے بغیر یورپ میں تعینات کیا گیا اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والی کوئی محترمہ کسی کی اہلیہ تھیں۔
یہ جنگل ہے اور جنگل میں جنگل ہی کا قانون چلتا ہے۔ یہاں بلوچستان کے جائز حصے کو کون دیکھے گا؟ مقتدر ایوانوں میں اس شکایت پر ایک لمحے کے لئے بھی غور نہ ہوگا۔ ترجیحات میں یہ مسائل شامل ہی نہیں۔ جس صوبے کے اندر، سرکاری تعیناتیاں قبائلی سرداروں کی ”منظوری“ سے طے ہوتی ہوں اور ہر ماہ تنخواہ لینے کے لئے سردار کی پرچی دکھانا ضروری ہو، وہاں اس صوبے کو بیرون ملک پوسٹوں میں جائز حصہ کون دے گا؟

Monday, September 03, 2012

بسم اللہ

فساد نے ہماری خشکی اور ہماری تری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چوپایوں اور حشرات الارض میں سمجھوتہ ہو چکا ہے۔ انسان جو پہلے ہی اقلیت میں تھے، اپنی ہی آبادیوں میں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ جس طرح گرد کا پہاڑ ایک سمت سے اٹھتا ہے اور چاروں طرف چھا جاتا ہے، ظلم بھی اسی انداز سے چھا چکا ہے۔

آخر ظلم ہے کیا؟ ظلم کی تعریف ہی عقل مندوں نے یہ کی تھی.... وَضعُ شیِ فی غیر محلّہ------  یعنی کسی شے کا وہاں رکھ دینا جہاں اسے نہیں رکھنا چاہئے۔ وسائل جہاں خرچ ہونے چاہئیں وہاں نہیں، کہیں اور خرچ ہو رہے ہیں۔ نااہل، اہل کو کہنی مار کر پیچھے ہٹا رہا ہے۔ سعدی نے پورے اعتماد سے کہا تھا ”محال ہے کہ ہنرمند مر جائیں اور بے ہنر ان کی جگہ لے لیں“۔ لیکن گلستان اور بوستان جیسی سدابہار کتابوں کا مصنف آج قبر سے اٹھ سکتا تو سر پیٹ لیتا اور کہتا کہ زمین کا پیٹ، زمین کے سینے سے یقینا بہتر ہے۔ سمرقند اور بخارا لٹانے والا حافظ زیادہ حقیقت پسند تھا۔ سینکڑوں سال پہلے ہماری مملکت کا نقشہ کھینچ ڈالا۔
 احمقوں کے لئے گلاب و قند کے شربت اور اہل دانش کے لئے خونِ جگر سے بھرے ساغر، اعلیٰ نسل کے گھوڑے پالان کی نوکوں سے زخم زخم اور گدھوں کی گردنوں میں سنہری رسیاں!
 فساد نے ہماری خشکی اور ہماری تری کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔

تو پھر کیا ہم تھک ہار کر بیٹھ جائیں؟ کیا ہم شکست خوردہ ہو کر منزل کی طرف پیٹھ کر لیں؟ ثروت حسین نے پوچھا تھا

تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم

یونہی دن گذارے چلے جائیں گے؟

نہیں! مایوسی کفر ہے۔ ہم مایوس ہوں گے نہ ہونے دیں گے۔ مسحور کر دینے والی وادیوں کے وطن سکیسر سے اٹھنے والے شاعر احمد ندیم قاسمی نے ایک قاعدہ کلیہ بتایا تھا

اگر گھنا  ہو  اندھیرا     اگر ہو دُور سویرا

تو یہ اصول ہے میرا کہ دل کے دیپ جلاﺅ

اور سویرا تو دور بھی نہیں ہے۔ ہم گھٹا ٹوپ اندھیروں والی رات کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ہم صبحِ کاذب کی درد بھری ہوا میں سے گزر رہے ہیں۔ دل لہو سے بھر چکے ہیں لیکن یہ لہو نہیں، یہ چراغ کا تیل ہے۔  الیس الصبح بقریب؟ آخر صبح دور ہی کتنی ہے۔ صبح اس قدر قریب ہے کہ ہم اسے دیکھ ہی نہیں، چھو بھی سکیں گے! دریچہ وا ہو چکا ہے اور منظر سامنے ہے!

آج ہم جس سفر کا آغاز کر رہے ہیں اس نے ہمیں ان منظروں کی طرف لے کر جانا ہے جن کے ہم منتظر ہیں۔ گرد سفر میں سے، وہ سامنے، فصیل نظر آ رہی ہے، روشن فصیل، اعتماد اور امید کا ثمر!

اس سفر میں ہمارا رختِ سفر صرف سچ ہے، سچ.... بغیر کسی آمیزش کے اور بغیر کسی مداہنت اور مصلحت کے۔ ہم سیاہ کو سیاہ کہیں گے اور سفید کو سفید کہیں گے۔ ہم میرٹ کی پاسداری کریں گے۔ اہلیت کو سلام کریں گے۔ اقربا پروری پر گرفت کریں گے اور دوست نوازی پر نفرین بھیجیں گے۔ ہم ان کروڑوں عوام کی ترجمانی کریں گے جو مٹھی بھر مراعات یافتہ اقلیت کی گردن بلندی کا شکار ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے یا کہتا ہے کہ ہم سخن فہم نہیں، بلکہ غالب کے طرفدار ہیں تو وہ بدگمان ہے یا قنوطی۔ ہم بدگمانی سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اور بدگمانی پھیلانے والوں سے بھی۔ رہی قنوطیت، تو اس کا کوئی علاج نہیں! ایک قنوطی کو بتایا گیا کہ اس کا کتا کمال کا کتا ہے، پانی پر چل رہا تھا۔ تو اس نے ایک آہ بھری اور کہا کہ وہ پانی پر چلا ہوگا لیکن ہائے افسوس! تیر تو نہیں سکا!
یوں بھی کسی شے کے وقوع ہونے سے پہلے رائے قائم کرنا حاطب اللیل لوگوں کا وتیرہ ہے، رات کو لکڑیاں چننے والوں کا! بھلا رات کے اندھیرے میں کیسے معلوم ہوگا کہ کون سی لکڑی گیلی ہے اور کون سی خشک!

ہمیں معلوم ہے ہمارا سفر آسان نہیں، پرُتعب ہے! ہمارے سامنے شیروں کی کچھاریں ہیں اور بھڑوں کے چھتے، اس ارض مقدس کو جن لوگوں نے اس حال کو پہنچایا ہے وہ عام لوگ نہیں، ان کی دولت لامحدود ہے اور طاقت حیران کن۔ ان کا تکبر ایسا ہے جیسے وہ چلتے ہوئے زمین کو پھاڑ ہی تو دیں گے لیکن جدوجہد ہمیشہ ایسے ہی طبقات کے خلاف کی جاتی ہے!ہمیں معلوم ہے ہماری جدوجہد آسان نہیں ہوگی! مشرق میں واقع ہمارے پڑوسی ملک نے تقسیم کے چار سال بعد زرعی اصلاحات برپا کر ڈالیں۔ ہم نہ کر سکے اور منتخب اداروں میں براجمان خاندانوں کا تسلسل بھگت رہے ہیں۔ ہم تریسٹھ سالوں میں وزیرستان کو یونیورسٹی دے سکے نہ کارخانہ، ہم بلوچستان کے عام پاکستانی کو ان سرداروں سے آزاد نہ کرا سکے جو اپنے ہی قبیلوں کے ارکان کو چیونٹیوں بھری غاروں میں بند کر دیتے ہیں اور بند کرنے سے پہلے برہنہ جسموں پر شہد ملتے ہیں۔ ہم جعلی ڈگری والوں کو ان کی اوقات میں نہ رکھ سکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اصلی ڈگریوں والے غیر ملکی سفارت خانوں کے سامنے قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے ہمارا راستہ کٹھن ہے۔ لیکن ہم اس مقدس سرزمین کی خاطر اس راستے پر ضرور چلیں گے۔ مسلک ہو یا مشرب، زبان ہو یا علاقہ، نسل ہو یا عقیدہ، ہم ان میں سے کسی کو نفرت کی بنیاد نہیں بننے دیں گے۔ ہم چراغ بدست چلتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ وہ جو اندھیرے مکانوں میں ہمارے منتظر ہیں، کھڑکیوں سے ہمارا چراغ دیکھ کر پکار اٹھیں گے کہ اندھیرا چھٹ گیا اور روشنی پھیل گئی!

آج سے ساڑھے آٹھ سو سال پہلے جادو کا قلم رکھنے والے نظامی گنجوی نے اپنی مشہور کتاب مخزنِ اسرار تصنیف کی تو اس کا آغاز اس شعر سے کیا

ہست کلیدِ درِ گنجِ حکیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سو سال گزر گئے۔ ہندوستان کی خاک سے وہ ستارہ اُبھرا جسے دنیا امیر خسرو کے نام سے جانتی ہے۔ خسرو نے نظامی کے خمسہ کے جواب میں اپنا خمسہ لکھا اور مخزنِ اسرار کے جواب میں مثنوی مطلعِ انوار تحریر کی۔ اس کا پہلا شعر یوں کہا

خطبئہ   قُدس است بملکِ قدیم

بسم    اللہ    الرحمن     الرحیم

ڈیڑھ سو سال بعد خراسان سے صوفیوں کا صوفی عبدالرحمن جامی اٹھا۔ اس نے دونوں بزرگوں کے تسلسل میں
تحفئہ  احرار لکھی۔ اس کا پہلا شعر یوں تھا

ہست صلائی سرِ خوانِ کریم

بسم   اللہ    الرحمن   الرحیم

ہم اپنے بزرگوں کی پیروی میں اپنے سفر کا آغاز بسم اللہ سے کرتے ہیں۔


 

powered by worldwanders.com