Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, August 20, 2012

دو ارب یا پونے دو ارب


ایک آزاد بین الاقوامی ادارے کی تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق   کرہء ارض پر مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ ہو گئی ہے تاہم کچھ اور ذرائع اس تعداد سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی اصل آبادی دو ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور بھارت، چین، نائیجریا، تنزانیہ اور کچھ اور ممالک مسلمانوں کی تعداد اصل سے کم ظاہر کرتے ہیں!
یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی اپنی جگہ دونوں رپورٹیں درست ہوں اور وہ ادارہ جو مسلمانوں کی آبادی کو ایک ارب ساٹھ کروڑ بتا رہا ہے، خوف کا شکار ہو۔ دو ارب کی تعداد میں سے اگر آپ اُن مسلمانوں کو باہر نکال دیں جو سُنّی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، سلفی وغیرہ ہیں تو ہو سکتا ہے۔ دو ارب کے اعداد ایک ارب ساٹھ ستر کروڑ تک آ جائیں۔ اس لیے کہ یہ سارے گروہ ایک دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے ان میں سے اکثر، ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اگر ان کا موقف تسلیم نہ کیا جائے تو تشدد پر بھی اُتر آ تے ہیں ۔ ان گروہوں کو نکال کر جو تعداد باقی بچتی ہے اُس میں سے تحریکِ طالبان پاکستان کے تازہ ترین موقف کی رُو سے اُن مسلمانوں کو بھی نکالنا پڑے گا جو الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور اُنہیں بھی جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں، اس موقف کا اظہار تحریکِ طالبان پاکستان نے حال ہی میں اُس وقت کیا ہے جب عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کے طور پر وزیرستان میں ایک لاکھ لوگوں کے ہمراہ مارچ کرنے کا اعلان کیا ۔ جو تعداد اب بچ گئی ہے اس میں سے میڈیا میں کام کرنے والے لوگوں کو بھی نکالنا پڑے گا کیونکہ جس صحافی یا کالم نگار کی رائے بھی مسلمان قارئین کو پسند نہیں آتی، وہ ایک لمحہ تامل کئے بغیر اُسے یہودی، کافر، قادیانی یا غیر مسلم قرار دے دیتے ہیں، اب مشکل یہ ہے کہ یہ سارے لوگ اگر مسلمانوں میں سے خارج کر دیے جائیں تو جو تعداد باقی بچتی ہے وہ نہ جانے بچتی بھی ہے یا نہیں!
بہرطور، یہ تعداد دو ارب ہے یا پونے دو ارب، یہ حقیقت ہے کہ یہ انسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت ہے۔ اس سیارے کی کی کل آبادی کا یہ کم از کم ایک تہائی حصہ ہے۔ اگر آپ ان دو یا پونے دو ارب مسلمانوں کے حالات پر غور کریں اور ٹھنڈے دماغ سے تجزیہ کریں تو آپ چند عجیب و غریب نتائج پر پہنچتے ہیں۔
 پہلا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان عسکری حوالے سے طاقتور ہیں نہ اقتصادی لحاظ سے، لیکن اس کے باوجود غیر مسلم طاقتیں ان سے خوفزدہ ہیں۔ یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے۔ اگر آپ دنیا کے عیسائی، یہودی، ہندو اور بُدھ اکٹھے کر لیں تو وہ مسلمانوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں اور ان کی عسکری اور اقتصادی قوت بھی ہزاروں گُنا نہیں، تو سینکڑوں گُنا ضرور زیادہ ہے لیکن پھر بھی یہ سارے گروہ مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں، ان گروہوں کا یہ خیال ہے، یا کم از کم وہ اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ مسلمان اُن کے ممالک پر یعنی دوسرے لفظوں میں پوری دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا نتیجہ جس پر آپ پہنچتے ہیں یہ ہے کہ دنیا کے یہ سارے مسلمان، خواہ جو زبان بھی بولتے ہیں اور جس ملک میں بھی رہتے ہیں، اپنے مذہب کے بارے میں  بے حد حسّاس ہیں    کسی صورت میں بھی وہ اپنے مذہب کی، اپنی آسمانی کتاب کی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ مسلمان اپنی جان قربان کر سکتے ہیں، اپنے بچوں کو بھی قربان کر سکتے ہیں، اپنا مال یہاں تک کہ اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں لیکن اپنے مذہب پر، قرآن کے احترام پر اور اپنے پیغمبر کی شان پر ایک انچ کیا، ایک ذرّہ کیا ، ذرّے کے ہزارویں حصے کے برابر بھی لچک دکھا سکتے ہیں نہ سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔
 تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی عزت پر جان مال، آبرو، اولاد قربان کر دینے والا مسلمانوں کا یہ دو ارب کا جمّ غفیر، اسلام اور اسلامی تعلیمات کی سب سے زیادہ مخالفت خود کرتا ہے۔ آپ کو اس نتیجہ پر یقین نہ آئے تو آپ ایک لمحے کے لیے غور کیجیے۔
 مسلمانوں کے رسول نے انہیں حکم دیا تھا کہ ”علم سیکھنا ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض ہے“ لیکن اس وقت ناخواندگی میں مسلمان دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ رسول کریم کے حکم کی واضح نافرمانی میں یہ اپنی عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔
ان کی آسمانی کتاب میں درجنوں بار حکم دیا گیا ہے کہ کائنات پر غور کرو۔ چاند اور سورج کے آنے جانے اور ہَوائوں کے چلنے پر تدبر کرو لیکن اس کے باوجود کائنات کے بارے میں مسلمانوں کا علم نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ سارا کام غیر مسلم کر رہے ہیں۔
ان کے رسول  نے فرمایا تھا کہ مجھے علم الابدان (یعنی میڈیکل سائنس) اور علم الادیان (مذاہب کا علم) پسند ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے بادشاہ، صدر، وزیر اور امرا سب علاج کے لیے امریکہ اور یورپ کا رُخ کرتے ہیں، بائی پاس سے لے کر پنسلین تک، ہیپاٹائٹس کے انجکشن سے لے کر ٹی بی کے علاج تک ....گذشتہ پانچ سو برس کے دوران مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
 ان کے رسول کا واضح ارشاد تھا کہ بیماری کی صورت میں کوالیفائیڈ (یعنی اہل) طبیب کے پاس جا ئو۔ اس کی مخالفت میں مسلمان ہر عطائی، ہر تعویذ فروش، ہر جعلی پیر اور ہر فراڈ کرنے والے کے پاس جاتے ہیں اور جوق در جوق جاتے ہیں۔
 ان کی مقدس کتاب میں بیسیوں بار حکم دیا گیا ہے کہ امانتوں اور عہد کا خیال رکھو لیکن عہد شکنی میں اس وقت مسلمانوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ نوّے فیصد مسلمان وعدہ نہیں ایفا کرتے، آپ ایک ہزار مسلمانوں سے وعدہ لیں کہ وہ آپ کے پاس شام پانچ بجے پہنچ جائیں گے، شاید سو بھی یہ وعدہ پورا نہ کریں اور  شاید پچاس بھی معذرت  نہ کریں اس لیے کہ ان کے نزدیک وعدہ شکنی کوئی بُرائی نہیں۔ آپ مکان بنا کر دیکھ لیں، بچے کی شادی کی تقریب برپا کر کے دیکھ لیں، تجارتی مال کا آرڈر دے کر دیکھ لیں، عملی زندگی میں مسلمان عہد شکنی میں بے شرمی کی حد تک پست ترین سطح پر اُترے ہوئے ہیں۔
ان کے پیغمبر نے فرمایا تھا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اس وقت مسلمان ملکوں میں ملاوٹ سب سے زیادہ ہے۔ جو ملک اپنے آپ کو اسلام کا سب سے بڑا علمبردار سمجھتا ہے اس میں لائف سیونگ ادویات سے لے کر معصوم بچوں کے دودھ تک، خوراک سے لے کر تعمیراتی سامان تک، ہر شے میں ملاوٹ ہے اور المیہ یہ ہے کہ تاجر حضرات کی اکثریت ”مذہبی“ ہونے کا اظہار بھی کرتی ہے اور دعویٰ بھی۔
ان کے رسول نے حکم دیا تھا کہ غیب کا حال پوچھنا بھی منع ہے لیکن مسلمان ہر اُس شخص سے مستقبل کا حال پوچھتے پھرتے ہیں جو قرآن کی ایک آیت بھی درست نہیں پڑھ سکتا اور اُس کے بے ریش ہونے کو خوبی کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
 چوتھا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان، بدقسمتی سے عزتِ نفس سے بھی محروم ہو گئے ہیں،  پچاس اسلامی ممالک کو چھوڑ کر آباد ہونے کے لیے یہ گروہ در گروہ  اُن ملکوں کا رُخ کر رہے ہیں جنہیں یہ کافر قرار دیتے ہیں۔ غیر مسلم، ترقی یافتہ ملکوں میں لاکھوں مسلمان آباد ہیں اور ان غیر مسلم حکومتوں سے مساجد کی تعمیر سے لے کر بیروزگاری الائونس تک، ہر سہولت لے رہے ہیں یہاں تک کہ متشرع حضرات کی ایک کثیر تعداد،  سوشل سیکورٹی (یعنی بے روزگاری الائونس) لے کر تبلیغ کے کام میں مصروف ہے!

8 comments:

حافظ صفوان محمد چوہان said...

کیا سچی سچی باتیں ہیں۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ میں مسلمان ہوں بھی یا نہیں؟ خود حافظ قرآن اور اپنے بیٹے کو خود حفظ کرانے کے بعد اور ایک تبلیغی مرکز میں سالہا سال تک نماز جمعہ پڑھانے کے باوجود اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین مبارک والے احاطے میں نماز پڑھنے اور وہاں نماز کی امامت کرانے کے باوجود مجھے اپنے مسلمان ہونے کا پتہ نہیں۔
مسلمان صرف وہ ہے جس پر کفر کا فتوی لگے! پوری دنیا میں کوئی مسلمان پارٹی ہندووں اور عیسائیوں سے تعرض نہیں کرتی۔ سب فتوے ان لوگوں کے لیے ہیں جن کے سر اللہ کے آگے جھکتے ہیں، اور یہ سب نمازی مسلمان ایک دوسرے کے نزدیک اللہ کے قرار دیے ہوئے کافروں سے بھی بڑے کافر ہیں۔
سر اظہار صاحب، پلیز اتنی سچی سچی باتیں نہ لکھا کریں، دل کے داغ جل اٹھتے ہیں۔
مزید یہ کہ اب چونکہ ہر طرف عید ہوچکی ہے اور چاند بازی کرنے والوں کو آرام آگیا ہے لہذا اب عید مبارک کہنے میں بھی حرج نہیں۔ امید ہے کہ آپ بھی عید پڑھ چکے ہوں گے۔ علمائے اسلام زندہ باد!!
مزید خبر یہ ہے کہ حکومت نے ان مسلمانوں کو الٹرا ساؤنڈ مشینوں کی جگہ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو چاند جیسی چیز کو پیدائش سے پہلے دیکھ لیتے ہیں۔۔۔

Irfan said...

main to gung ho jata hoon, aap ka column perh ker gehreee soch main doooobbbb jata hoon Sir comment kya karoon

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

محترم ساری باتیں آپ کی سچی ہیں ۔
نہایت گستاخی کے ساتھ کہ ایک بہت بڑی غلطی فہمی آپ کو ہورہی ہے۔
یہ سارے فضائل جو آپ نے بیان کئے ہیں یہ مسلمان کے نہیں ہیں۔
یہ تو۔۔
سُنّی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، سلفی وغیرہ کے ہیں۔

Unknown said...

sir ap ka culum bhot gehri soch deta hy & bhot dard hy is me Milat ka Qoam ka
but
sir in masail ka koi hal b advice kiya kren

Anonymous said...

سچ آکھیاں بھانبھڑ مچدا اے

Unknown said...

آپ کے تمام کالم میں نے پڑھے ہیں اور کیٴ با ر سوچا کہ کچھ کہوں۔ ہر بار یہ سوچ کر کہ میں تو ادب کا ایک ادنا سا طالب علم ہوں اور آپ علم کےسمندر۔ لیکن نہ جانے کیوں آج یہ کالم پڑھ کر دل بہت بھر آیا اور دل نے کہاں کہ یہ بہت نہ انصافی ہوگی کہ اگر میں اور لو گوں کی طرح خاموش رہوں اور دل کہ بات بھی نہ کہہ سکوں۔ ہم لوگوں کا یہ بہت بڑا المیہ ہے اور ہماری سو سا یٹی کے ساتھ یہ بہت بڑا سانحہ ہے کہ ہم خاموش ہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ خالانکہ قلم کار کا کا م ہے ج
لکھنا اور قاری کا کام ہے اس کو سرا ہنا یا پھر اس پر تنقد کرنا اور اگر اس کی تحریر میں کویٴ اچھا پہلو ہے تو اس پر اپنی فکرِسوچ کو بدلنا۔ ادب اور لکھنے والے جب تک کسی تحریر کو چھا پتے نہیں ہیں وہ ان کی اپنی ہوتی ہے اور جب وہ چھپ جاتی ہے تو وہ قاری کی ہوتی ہے۔ اب فیصلہ قاری پر ہے کہ وہ اُسے کیسے دیکھتا ہے۔ مقول شاعر۔

وہ حرف اب کہاں ہمارا
جو حرف ہم نے لکھ دیا ہے

موجودہ کالم اس بات کی دلیل ہے کہ اظہار صاحب نے یہ کالم بہت دیانت داری سے لکھا ہے اور الفاظ کی تحریر گواہی دے رہی ہے کہ اس میں اُن کے باطن کی طلب و تجسس بھی شامل ہے۔ فکر انسانی زھن کی بنیاد ہے جو تاثر اور اظہار کے پیراےٴ میں اپنا ابلاغ چاہتی ہے۔ ہہ فکر کبھی عمل ہے اور کبھی ردَعمل اور یہ فکرِسوچ ہی انسانی رابطہ ہے جو کسی بھی تہزیب، تاریخ،مزہب،نظریے اور مکتب کی عکاسی کرتا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں قلم کار کو سراہنا چاہیے کہ اس نے ہم کو سوچنے کے لیے ایک فکر دی اور ا پنی دلیل سے ثابت کیا کہ ہم آج اگر مسلمان ہیں تو کیا کام بھی وہی ہو رہے ہیں جو مسلمانوں کو زیب دیتے ہیں؟ میں اس فکرِکالم سے متاثر تو ضرور ہوں لیکن شاید میری سوچ بھی نہ تبدیل ہو۔ یا پھر میں بھی اپنے مسلمان بھایٴ کی طرح کویٴ نکتہ تلاش کر سکوں جس سے کالم نویس پر تنقد کی جا سکے۔
ادُعا گو۔ ارشد سعید ﴿سٹدنی﴾

Anonymous said...

Thsi article made my heart BLEED :-(. Any thought son it? http://www.reuters.com/article/2012/08/20/us-pakistan-partying-idUSBRE87J0SY20120820

Arsalan Khan said...

Mr"Anonymous" says his heart bleeds. His heart bleeds because a tiny majority is indulged in dancing drinking and having party time. Ok . Fine, these things are bad.
But has his heart ever bled because a vast majority is telling lies, breaking promises and having no ethics? Why doesn't his heart bleeds when "religious" traders produce fake medicines, make adulteration in food item and supply milk to infants which is not worth consumig?
Why doesn"t your hreat bleeds when moulvees make others kaafir? When they leave no stone unturned for making their sons heir to own mosques?
Why his heart does not bleed when millions worship peers, lick their dirty feet and hand over their women to these scoundrals?

Alas! Our Islam is limited to "no drink" " no dance". The rest is allowed

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com