Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, June 26, 2012

توہین عدالت-----سی ڈی اے سٹائل




خلق خدا زہر پی رہی ہے اور یہ سب کچھ سرکار کی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر....جی ہاں! وہی ترقیاتی ادارہ جس نے ”ماحولیات“ کے نام پر سفید ہاتھی پال رکھے ہیں۔ ایک دو ہاتھی نہیں، ہاتھیوں کا پورا غول!
ان ہاتھیوں کا خرچ خلق خدا اٹھا رہی ہے....جی ہاں! وہی خلق خدا جو زہر پی رہی ہے ۔
تین ہفتے پہلے 5جون کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مرکزی حکومت کے نمائندوں سے استفسار کیا.... ”کیا لوگوں کو زہر پلا پانی پلانا ضروری ہے؟“ ساتھ ہی عدالت عظمی نے اس حقیقت کی بھرپور مذمت کی کہ راولپنڈی کے لوگوں کو جس راول جھیل سے پانی مہیا کیا جا رہا ہے، اس جھیل کو اور اسکے پانی کو محفوظ رکھنے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ جب عدالت عظمیٰ نے کابینہ ڈویژن کے ایڈیشنل سیکرٹری کو کہا کہ وہ تحریری بیان دے کہ جھیل کا پانی پینے کیلئے مناسب ہے تو اس افسر نے اعتراف کیا کہ غلاظت اور بول و براز جھیل میں باقاعدہ گر رہا ہے! اس نے کہا کہ غلاظت تین اطراف سے راول جھیل میں آ رہی ہے۔ ڈپلومیٹک اینکلیو، بری امام اور نور پور شاہاں!
یہی تو غلط بیانی ہے جس کا حکومت کے عہدیدار نے عدالت عظمیٰ کے سامنے ارتکاب کیا۔ افسوس! حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو خلق خدا کی اتنی بھی پروا نہیں جتنی کسان کو بن بلائے جانوروں کی ہوتی ہے۔
کوئی عدالت عظمیٰ کو بتائے کہ راول جھیل میں جو غلاظت، جو زہر اور جانوروں کا جو بول و براز مسلسل گر رہا ہے وہ سملی ڈیم روڈ سے گزرنے والے کو رنگ نالے کے ذریعے گر رہا ہے۔ اور کوئی عدالت عظمیٰ کو بتائے کہ سملی ڈیم روڈ پر واقع بستی شاہ پور اس غلاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں راجہ اختر روڈ ہے۔ اس روڈ کے ذریعے ہر روز ستر سے ایک سو تک ٹریکٹر، ٹرالیاں اور گدھا گاڑیاں کو رنگ نالے میںاترتی ہیں۔ غلاظت سے آلودہ یہ ٹریکٹر اور ٹرالیاں نالے کے اندر لے جائے جاتے ہیں۔ یہاں انہیں دھویا جاتا ہے، ان کا زنگ اتارا جاتا ہے۔ انکے پہیوں سے لگی غلاظت منوں ٹنوں کے حساب سے کورنگ نالے میں مکس ہوتی ہے اور راول جھیل میں جا گرتی ہے۔ کتے اور گدھے یہاں نہاتے ہیں اور نالے کو اپنی آلودگی سے نوازتے ہیں اور یہی وہ پانی ہے جو راولپنڈی کے لاکھوں مکین ”نوش جاں“ کر رہے ہیں ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ کیا کر رہا ہے؟ یہ علاقہ اسلام آباد کیپیٹل
(I.C.T)
کا حصہ ہے۔ یہ ذمہ داری ترقیاتی ادارے کی ہے کہ اس نالے کی حفاظت کرے۔
ترقیاتی ادارے میں ”ماحولیات“ کا ایک طویل و عریض شعبہ ہے۔ فل ٹائم ممبر اس شعبے کی سربراہی کر رہا ہے۔ اسکے نیچے ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر درجنوں کے حساب سے براجمان ہیں۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ راجہ اختر روڈ سے اسی یا سو ٹرالیاں ہر روز کورنگ نالے میں جا کر دونوں کناروں سے مٹی کھود رہی ہیں اور ٹنوں کے حساب سے یہ مٹی نکالی جا رہی ہے۔ دریا کا پاٹ اس قدر چوڑا ہو چکا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے کہ آئندہ برسات میں سیلاب ان کناروں سے چھلکتا اچھلتا کوسوں دور تک جائےگا اور ہزاروں مکان اور مکین سب ڈوب جائینگے۔
دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے ممبر ماحولیات کےلئے نوائے وقت نے متعدد پیغامات چھوڑے تاکہ انکی رائے اس معاملے میں لی جائے لیکن یہ کوشش دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف تھی۔ پریس اور عوام یہی وہ دو خطرے ہیں جن سے ترقیاتی ادارے کے ارکان بچنے کی کوشش کرتے ہیں! کیا ترقیاتی ادارے کو معلوم ہے کہ مائی لارڈ چیف جسٹس نے راول جھیل کے پانی کو بے ضرر اور پاک صاف رکھنے کا حکم دیا ہے؟ کیا ترقیاتی ادارے کو معلوم ہے کہ ادارے کی ناک کے عین نیچے اس عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہے؟ کیا ترقیاتی ادارے کو احساس ہے کہ اسکی یہ لاپروائی، یہ حکم عدولی توہین عدالت کے زمرے میں آ رہی ہے؟؟
اور یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ راولپنڈی جو مسلح افواج کا شہر ہے، اس ظلم پر خاموش ہے۔ سینکڑوں ہزاروں بچے، طالب علم، بوڑھے، مریض اور پاک فوج کے جوان، سب اس راول جھیل کا پانی پی رہے ہیں اور پیئے جا رہے ہیں اور کسی کو پروا نہیں کہ گلوں سے اتر کر یہ زہر پھیپھڑوں، معدوں، انتڑیوں اور خون کی نالیوں میں سرایت کر رہا ہے! اگر کوئی مہذب ملک ہوتا تو ذمہ دار اداروں کے عہدیداروں پر ارادہ قتل کے مقدمے بنتے اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے!
اور اے اہل وطن! اے مظلوم اہل وطن! تم نا خالص دودھ کو رو رہے ہو جو معصوم بچوں کو پلایا جا رہا ہے۔ تم جعلی ادویات کو رو رہے ہو جو مریضوں کو موت کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ تم اس آٹے کا ماتم کر رہے ہو جس میں پرانی روٹیوں کے تعفن زدہ ٹکڑے ملائے جا رہے ہیں۔ تم ان لال مرچوں کی دھونی لے رہے ہو جن میں سرخ اینٹوں کا برادہ شامل ہے اور تم چائے کی اس پتی پر سینہ کوبی کر رہے ہو جس میں لکڑی کا برادہ اور چنے کا چھلکا ملایا جا رہا ہے لیکن یہ سب تو بعد کے مسائل ہیں۔ پہلے یہ بتاﺅ کہ تم پینے کے اس پانی کا کیا کرو گے جس میں رات دن زہر، غلاظت اور بول و براز حل ہو رہا ہے؟
پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

Tuesday, June 19, 2012

کیا چیونٹی معاف کر دے گی ؟

ایرانی غلام نے خنجر سے تین وار کئے اور عمر فاروق اعظم گر پڑے۔ وہ تو صبح کی نماز پڑھانے کےلئے کھڑے ہوئے تھے۔ عبداللہ بن عباس کہتے ہیں میں عمر کے پاس تھا۔ اُن پر مسلسل غشی طاری رہی۔ جب دن نکل آیا تو انہیں ہوش آیا۔ انہوں نے سب سے پہلے پوچھا ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ میں نے کہا ہاں۔ بولے : جس نے نماز چھوڑی وہ مسلمان نہیں ہے۔ اسی حالت میں انہوں نے وہ سارے فیصلے کئے جو اُمت کےلئے ضروری تھے۔ چھ بہترین انسانوں کی کمیٹی بنائی جس نے  نئے خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا اور اپنے فرزند کو خلیفہ نہ بنانے کی ہدایت کی۔ پھر وہ اپنے نفس کا محاسبہ فرمانے لگے۔ اب وہ وقت قریب تھا  جب انہیں خدا کے حضور حاضر ہو کر اعمال کا حساب دینا تھا۔ ایک عیادت کو آنے والے نے کہا ”خدا کی قسم! مجھے امید ہے کہ آگ آپ کے جسم کو کبھی مس نہ کرے گی“ آپ نے اس شخص کی طرف دیکھا، اُن کی آنکھیں آنسوئوں سے چھلک اُٹھیں۔ حاضرین کے دل بھر آئے۔ آپ نے اُس سے کہا ”اے شخص، اس معاملے میں تیرا علم بہت قلیل ہے۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں زمین کے سارے خزانے آنے والی آزمائش کے خوف پر نچھاور کر دیتا۔“
لیکن کیا اس معاملے میں اُن کا علم قلیل نہیں کثیر ہے جو دونوں ہاتھوں سے رات دن، سالہا سال سے زمینیں، ڈالر، روپے اور محلات اکٹھے کر رہے ہیں؟ شاید انہیں یقین ہے کہ آگ اُن کے جسموں کو چُھو نہیں سکے گی۔ ”کثیر“ علم رکھنے و الے اِن لوگوں میں قلم کے وہ رکھوالے بھی شامل ہیں جن کے بارے میں انٹرنیٹ پر کروڑوں لوگ جان چکے ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک کروڑ تو کسی نے دو کروڑ اور کسی نے تین کروڑ سے بھی زیادہ روپے لئے ہیں۔ کسی نے امریکہ کے تین اور کسی نے دبئی کے سات پھیرے ”کمائے“ ہیں۔ یہ وہ خوش نصیب ہیں جو اس دنیا میں ہمیشہ رہیں گے!
ایک نیم تعلیم یافتہ شخص چند سال میں کھرب پتی کیسے بنا؟ اُسے اس ملک کی اشرافیہ اور بیورو کریسی نے اس ”رُتبے“ پر پہنچایا، اداروں نے اُس کی خاطر قانون توڑے، پولیس نے اُس کا ساتھ دیا، ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں نے خزانوں کے منہ اُس کیلئے کھول دیے، سیاست دان اُس کی دہلیز پر بیٹھ گئے، افسر شاہی اُس کے پیچھے دُم ہلا کر چلنے لگی۔ پورے ملک کا نظام اُس کے سامنے آنکھیں بچھانے لگا، تب وہ شخص کھرب پتی ہُوا اور طاقت کا مرکز بنا۔ چوہدری نثار نے درست کہا کہ مشرف نے اُس پر مقدمہ چلانے کا کہا اور پھر اُس کا گرویدہ ہو گیا۔ بالکل درست۔ لیکن خود چوہدری نثار صاحب کی پارٹی کے اصحابِ قضا و قدر بھی گنگنا گنگنا کر یہ شعر پڑھ رہے ہیں
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
چیف جسٹس اس آزمائش سے بھی سرخرو ہو کر نکلے۔ شکار کرنے والے اس بار بہت غرور میں تھے مگر وہ اپنے ہی دام میں اُلجھ گئے لیکن اس سارے بکھیڑے کا ایک اور نتیجہ بھی نکلا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے بہت ہی بھیانک رُخ سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارے سیاست دان علم و دانش کے نہیں بلکہ دولت کے پرستار ہیں۔ ایک معروف صحافی نے تحریری شہادت دی ہے کہ ”ملک ریاض پرویز مشرف کا بھی قریبی ساتھی تھا، یہ چوہدری برادران کا بھی بھائی تھا، یہ حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو کاروباری مدد بھی دے رہا تھا۔ اس نے میاں برادران کی الیکشن مہم کو بھی سپورٹ کیا۔ میں نے اُس کے گھر میں یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک کمرے میں شیخ رشید بیٹھا ہے اور دوسرے کمرے میں حنیف عباسی ہے۔“
آپ اگر غور کریں تو یقیناً گواہی دیں گے کہ یہ سب لوگ کسی سکالر یا علم و حکمت کے موتی بکھیرنے والے کسی عالم فاضل کے دروازے پر نہیں جا سکتے۔ ان میں سے اکثر وہ ہیں جنہوں نے شاید پوری پوری زندگی میں تاریخ یا فلسفہء تاریخ یا اخلاقیات پر ایک کتاب بھی نہ پڑھی ہو لیکن چونکہ ملک ریاض کے پاس دولت تھی اور بے پناہ، بے اندازہ دولت، اس لئے یہ سارے اُس کی دہلیز پر بیٹھے تھے۔ یہ اُس کے پاس پورے پروٹوکول کے ساتھ جاتے ہوں گے لیکن یہ طے ہے کہ یہ سب سائل تھے۔ طاقت کے یہ پُتلے عام پاکستانی کےلئے آسمان سے بھی اونچے ہیں۔ اس قبیلے کے ایک فرد کو میں نے کچھ عرصہ ہُوا اسلام آباد کلب میں دیکھا۔ وہ چل رہا تھا اور خدائے بزرگ و برتر کی قسم! یوں چل رہا تھا جیسے روئے زمین پر اُس سے بڑا شخص کوئی نہ ہو۔ مجھے اُس کی شاہانہ چال، آگے کو نکلا ہوا سینہ اور چہرے پر تکبر کی پرچھائیاں دیکھ کر قرآن کی آیت یاد آ گئی --- ”اور زمین پر اکڑ کر مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ ہی لمبا ہو کر پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچ سکتا ہے۔“ میرے جی نے چاہا کہ میں آداب بجا لا کر پوچھوں کہ عالی مرتبت! آجکل کون سی پارٹی میں ہیں اور ایجنڈے پر اگلی پارٹی کون سی ہے لیکن پھر ایک اور آیت یاد آ گئی --- ”کہ جب لغو کے پاس سے گذرو تو بس متانت سے گذر جائو۔“
دولت کی اس پرستش اور دولت کی دہلیز پر اس ہجوم کا نتیجہ یہ ہے کہ آج شہر کے شہر لائبریریوں سے محروم ہیں اور ڈاکٹر، انجینئر، سکالر، پروفیسر ملک چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں، تلچھٹ باقی رہ گئی ہے۔ ایسے میں اس ملک کی قسمت میں کوئی مہاتیر، کوئی ہنری کسنجر، کوئی پروفیسر کونڈا لیز رائس، کوئی ڈاکٹر من موہن کیسے ہو سکتا!
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہمارا دوسرا رُخ یہ سامنے آیا ہے کہ ہم پاکستانیوں کو عزت راس نہیں آتی۔ ہم مملکتِ خداداد پاکستان کے معزز ترین اداروں کی چوٹی پر پہنچتے ہیں۔ ہمارے پاس آبرو بھی ہوتی ہے اور تمام دنیاوی آسائشیں بھی۔ ہم ملک کی آبادی کے ایک فیصد مراعات یافتہ طبقے میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم آخرکار سیٹھ کی نوکری کر لیتے ہیں۔
ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ فرشِ خاک پر بیٹھنا سنہری پیٹی باندھنے سے زیادہ باعزت ہوتا ہے اور گرم تنور کے چبوترے پر لیٹ کر سرد رات گذارنا محل کے اندر سمور اوڑھنے سے کئی گنا زیادہ احترام و افتخار کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن افسوس! ہمارا وژن اُس چیونٹی کے وژن جتنا ہو جاتا ہے جس کے نزدیک زندگی کا مقصد گندم کے دانے کے چوتھے حصے کو کھینچتے ہوئے اپنے سوراخ میں لے جانا ہے۔ لیکن اِن لوگوں کو چیونٹی کے ساتھ تشبیہ دے کر میں چیونٹی سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ چیونٹی جب اتنی خوراک کا ذخیرہ کر لیتی ہے جو اُس کی ضرورت کیلئے کافی ہو تو اُس کے بعد وہ گندم ہو یا چینی، خوراک کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتی۔ چیونٹی کو راز کی یہ بات معلوم ہے کہ اگر اُس نے ضرورت سے زیادہ ذخیرہ کیا تو وہ اُس کے مرنے کے بعد وارثوں کا ہو گا، اُس کا نہیں! یہی وجہ ہے کہ آج تک ایسا نہیں ہُوا کہ کوئی نیم تعلیم یافتہ چیونٹی کھرب پتی بن گئی ہو!

Tuesday, June 05, 2012

ونڈ سکرین اور وائپر

گھمسان کا رن پڑ رہا تھا۔ ازبک بہادری سے لڑ رہے تھے۔ وہ بہادری جو تاریخ میں ہمیشہ ان کا نشانِ امتیاز رہی ہے۔ مغل بھی کچھ کم نہ تھے۔ فرق یہ تھا کہ مغلوں کی فوج اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور تھی اور ازبک بلخ کا دفاع کر رہے تھے۔ بظاہر مغلوں کی فتح کے آثار نہیں تھے۔ اچانک مغل فوج کا فیلڈ کمانڈر شہزادہ اورنگ زیب گھوڑے سے اُترا اور گھمسان کی لڑائی کے بالکل درمیان ظہر کی نماز پڑھنے لگا۔ بلخ کا حکمران نذر محمد خان جو ازبکوں کی قیادت کر رہا تھا، یہ منظر دیکھ کر دل شکستہ ہو گیا۔ اورنگ زیب کی ہیبت اُسے لے ڈوبی۔ ”ایسے شخص سے لڑنا بیکار ہے۔ اسے کوئی شکست نہیں سے سکتا“ اُس نے سوچا اور پھر ازبک ہار گئے۔ شاہ جہان کی فوج نے بلخ پر قبضہ کر لیا۔

شاہ جہان کی ہوس ملک گیری اور اُسکے لشکر کی ”نمازی“ قیادت نے بلخ کے مسلمانوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا۔ پورے علاقے کی کھیتیاں اور باغات تباہ و برباد ہو گئے۔ مغل قبضے کے پہلے سال صوبے کی پیداوار نصف رہ گئی۔ دوسرے سال اس سے بھی آدھی ہو گئی۔ تجارت ختم ہو گئی۔ افغانوں نے مغل افواج کےخلاف گوریلا جنگ شروع کر دی اور اقتصادی سرگرمیاں صفر ہو گئیں۔ ازبک کرنسی جسے ”خانی“ کہتے تھے اپنی قدر کھو بیٹھی اور لوگ مفلوک الحال ہو گئے۔ شاہ جہانی فوج اس سے بھی بدتر حال میں تھی۔ قحط کی صورتحال میں بلخ پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا اور مغلوں نے  اعلان کردیا کہ ہم ”حالات درست“ کر کے واپس جا رہے ہیں۔ یہ وہی اعلان ہے جو امریکی عراق اور افغانستان سے نکلتے وقت کیا کرتے ہیں! بے پناہ سردی اور برفباری میں واپس جاتی ہوئی مغل فوج تعداد میں کم ہوتی گئی۔ قبائلیوں نے حملے کر کر کے ستیاناس کر دیا۔ چار کروڑ روپے اس مہم پر صرف ہوئے جس کا حاصل کچھ نہ نکلا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب لڑائی کے دوران اورنگ زیب نے نماز پڑھی تو بلخ کے حکمران نذر محمد اور اُسکے بیٹوں عبدالعزیز اور سبحان قُلی نے اسکی نماز سے متاثر ہونے کے بجائے اُسے یہ پیغام کیوں نہ بھیجا کہ اِس نماز سے کیا حاصل جب تم مسلمانوں کو قتل کر رہے ہو؟ مغلوں کے ایک ہزار لشکری ہلاک ہوئے جن میں ہندو بھی تھے جبکہ چھ ہزار مارے جانےوالے ازبک سارے کے سارے مسلمان تھے! شاہ جہاں نے بلخ پر لشکر کشی سے پہلے اپنے وقت کے نامور ترین عالم مُلا فضل کابلی سے مشورہ کیا تو مُلا صاحب نے بلاخوف و خطر کہا کہ بلخ کے لوگ  مسلمان ہیں ان پر لشکر کشی کرنا شرعی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کا نتیجہ نقصان اور تباہی کے سوا کچھ نہ ہو گا!

اگر مسلمان کو جانچنے کا میعار اُسکا نمازی ہونا ہوتا تو عمر فاروق اعظمؓ یہ معیار ضرور قبول کر لیتے لیکن انہوں نے اسے معیار ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے ایک شخص کے بارے میں مسلمانوں سے رائے لی۔ بتایا گیا کہ صوم و صلوٰة میں مستغرق رہتا ہے۔ فرمایا نہیں، یہ بتلائو کہ وہ معاملات میں، لین دین میں اور برتائو میں کیسا ہے؟ یہ ہے وہ معیار جو اسلام نے مسلمانوں کو جانچنے کےلئے مقرر کیا ہے۔ نماز تو سینکڑوں صحابہ کا قاتل حجاج بن یوسف بھی پڑھتا تھا اور پاکستان کے اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والا جنرل ضیاالحق بھی پڑھتا تھا۔ نماز تو وہ وزیراعظم بھی پڑھتا تھا جس کے بارے میں  معروف سفارتکار جاوید حفیظ نے  چند روز پہلے انگریزی روزنامے ”نیشن“ میں انکشاف کیا ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے اس نمازی وزیراعظم نے جاوید حفیظ کو تعیناتی کے چند ماہ بعد ہی برما کی سفارت سے اس لئے ہٹا دیا تھا کہ  اپنے برادرِ نسبتی کو وہاں پوسٹ کرنا تھا۔ یہ وزیراعظم صرف نمازی ہی نہ تھا اسکے خاندان نے مسجدیں بھی بنوائی تھیں اور علامہ طاہر القادری جیسے علما کی سرپرستی بھی کی تھی!
اپنے اقتدار کےلئے باپ کو آٹھ سال قید کرنےوالے اورنگ زیب پر کیا لازم نہ تھا کہ 1646ءمیں بلخ کے مسلمانوں کی تباہی میں حصہ دار نہ بنتا؟ اور باپ کو سمجھاتا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہلاکت کا کوئی جواز نہیں! یہ اور بات ہے کہ اُس وقت بھی ایسے ”علما“ کی کمی نہ تھی جو ہر حکومتی اقدام کا شرعی جواز تلاش کر لیتے تھے بالکل اسی طرح جیسے آج کے ایک سیاسی مولانا عدلیہ کے مقابلے میں سپیکر کی رولنگ کو درست قرار دے رہے ہیں!

نہیں! جناب! نہیں! اسلام نے معتبر یا غیر معتبر ہونے کا معیار نماز اور روزے کو قرار نہیں دیا۔ یقیناً نماز فرض ہے اور روزہ بھی فرض ہے اور یہ اسلام کے بنیادی ستون ہیں، انہیں ترک کرنےوالا گنہگار ہے اور نہ ماننے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن یہ معاملہ بندے اور خالق کے درمیان ہے۔ اس سے مسلمان کا معتبر یا غیر معتبر ہونا ثابت نہیں  ہوتا ورنہ جب لوگوں نے گواہی دی کہ فلاں مسلمان نماز روزے میں مگن رہتا ہے تو آخر حضرت عمر فاروقؓ نے اس گواہی کو کیوں تسلیم نہ کیا اور یہ کیوں پوچھا کہ وہ معاملات میں کیسا ہے؟

یہی وہ مار ہے جو آج اہل پاکستان کو پڑ رہی ہے۔  مثال کے طور پر  یہی دیکھ لیجیے کہ ہماری تاجر برادری کی اکثریت اور اگر اکثریت نہیں تو کم از کم نصف حصہ متشرّع بزرگوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ شکل و صورت سے پہلے زمانے کے مسلمان لگتے ہیں اور نماز، روزہ، حج اور عمرہ کے شیدائی ہیں لیکن ہولناک المیہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام اسی تاجر برادری کے آہنی ہاتھوں میں تڑپ رہے ہیں، یہ تاجر برادری، یہ متشرّع کاروباری حضرات معصوم شیرخوار بچوں کے دودھ سے لےکر، لائف سیونگ ادویات تک ہر شے میں ملاوٹ کر رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، کم تولنا، بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانا، خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ کرنا، ٹیکس چُرانا اور پھر اس کو جائز ثابت کرنا، یہ سب کچھ تاجر برادری کا روزمرہ کا معمول ہے لیکن پھر بھی ان حضرات کا شمار نیکو کاروں میں ہوتا ہے۔ صرف اس لئے کہ ہم نے اسلام کو، جو پوری زندگی کا نگران ہے، صرف حقوق اللہ اور ظاہری شکل و صورت اور لباس تک محدود کر دیا ہے، اصل اسلام تو یہ ہے کہ آپ نے صبح سے لےکر رات بستر پر دراز ہونے تک جو کچھ کیا ہے وہ اسلامی احکام کےمطابق تھا یا نہیں! آپ نے اسلام کی خاطر اپنے نفس کو کُچلا یا اُسکے ہاتھ میں کھیلے؟ مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق جائز نہیں۔ کیا آپ نے اپنے ناراض مسلمان بھائی سے تجدید تعلق کیا؟ کیا آپ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کر رہے ہیں؟ یا بدلے پر بدلہ لے رہے ہیں؟ کیا آپ اُس گاہک کو تلاش کر رہے ہیں جسے آپ شے بیچتے وقت شے کا نقص بتانا بھول گئے؟ کیا آپ اُس دکاندار کے پاس واپس جا رہے ہیں جس نے غلطی سے آپ کو ایک ہزار یا کئی ہزار روپے زیادہ ادا کر دیے۔ کیا آپ نے ائر کنڈیشنڈ کمرے میں مرغن کھانا کھانے سے پہلے اُن مزدوروں کو کھانا کھلا دیا ہے جو باہر چلچلاتی دھوپ میں جانکاہ مشقت کر رہے ہیں؟ کیا شام کے وقت پُررونق مارکیٹ میں اپنے بچوں کو آئس کریم کھلاتے وقت  آپ نے اُس بچے کے بارے میں سوچا ہے جو آپ کی گاڑی کی ونڈ سکرین پر وائپر مار رہا ہے؟ کیا آپ نے ماں باپ کے حقوق اسلامی احکام کےمطابق ادا کئے ہیں؟ کیا آپ نے بستر پر دراز ہوتے وقت حساب لگایا ہے کہ آج جھوٹ کتنی بار بولا اور وعدہ خلافی کتنی بار کی؟ یاد رکھیے، ان سب چیزوں کا حساب آپ سے اُسی طرح لیا جائےگا جس طرح نمازی اورنگ زیب سے چھ ہزار مسلمانوں کے قتل کا حساب ہو گا!
 

powered by worldwanders.com