Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, May 29, 2012

گنوار کا وحشت کدہ

میں بنیادی طور پر ایک اجڈ اور جنگلی آدمی ہوں۔ گائوں کا گنوار پن جوں کا توں موجود ہے۔ ظفر اقبال نے شاید میرے لیے ہی کہا ہے :
ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی
چنانچہ میں نے اپنا رہائشی جھونپڑا شہر سے باہر پہاڑ کے دامن میں بنایا ہے۔ مَری جاتے ہوئے،راستے میں ایک اکیلی ، اپنے آپ میں ڈوبی ہوئی، دم بخود ، ندی پڑتی ہے جس کے کنارے کھڑا یہ خانہءوحشت دور ہی سے نظر آتا ہے :
میں دل کو اُس کی تغافل سرا سے لے آیا
اور اپنے خانہءوحشت میں زیرِ دام رکھا
دشت میں خیمہ زن ہونے کے ، گنوار پن کے علاوہ بھی اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ دارالحکومت کے اندر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپکے گھر کے ایک طرف کوئی ریٹائرڈ بیوروکریٹ رہ رہا ہے اور دوسری طرف بزنس مین ہے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے کہ آدمی کُچلا کھا لے کیونکہ مردہ فائلوں کے اصلی اور فرضی نوٹ سُن سُن کر مرنے سے  زہر بہتر ہے ۔  رہے بزنس مین تو ان کا کیا ہی کہنا ! بزنس مین سبزی فروش ہو یا جدہ سے لے کر دبئی تک پھیلے ہوئے لوہے کے کارخانوں کا مالک , ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور چمڑی اور دَمڑی میں سے دمڑی ہی کا انتخاب کرتا ہے۔ الغرض ہر دو مخلوقات کے ساتھ رہنا خدا کی بخشی ہوئی زندگی کی ناشکری ہے۔ جبھی تو احمد جاوید نے کہا ہے :
اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے
دوسری وجہ اصلا َ َ َ َ     کسان ہونا ہے۔ شہر میں جتنا رقبہ مکان کے لیے ملتا ہے اس سے کئی گُنا زیادہ تو مجھے            ویہڑا   ( جسے   اردو   والے  صحن  اور  انگریز    لان   کہتے ہیں ) درکار تھا جس میں مجھے قسم قسم کے بوٹے لگانے تھے۔ ہم فتح جنگ اور پنڈی گھیب کے علاقے کے لوگ چھوٹے کمروں میں گذارا   کر لیتے ہیں لیکن ہمارے گھروں کے صحن ہمارے دلوں کی طرح وسیع ہوتے ہیں جن میں اور بُوٹے ہوں نہ ہوں ، سرخ پھولوں والا  انار کا   بُوٹا ، گھنی چھائوں والی  دھریک  اور   نیاز بو (ریحان) کے پست قد بوٹے لازمی ہوتے ہیں کہ یہ صدیوں سے ہمارے کلچر کا حصہ ہے:
گُلِ انار کُچھ ایسے کھِلا تھا آنگن میں
کہ جیسے کوئی کھڑا رو رہا تھا آنگن میں
تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم بادیہ نشین ڈبّوں میں رہ سکتے ہیں نہ ڈربوں میں ۔ ہم بڑی ڈیوڑھیوں ، کھُلے چھپّروں اور وسیع و عریض دالانوں کے عادی ہیں۔ ہمارے حُجروں ، بیٹھکوں او ر چوپالوں میں سب کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ اُس دانا وزیر اعظم نے جس کا نام یحیٰ تھا اور جس کی وجہ سے برامکہ کا نام آج بھی زندہ ہے اور جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ احسان کرتا ہے تو بھول جاتا ہے لیکن وعدہ کرتا ہے تو نہیں بھولتا ، ہاں اسی دانا یحیٰ برمکی نے کہا تھا کہ دنیا کی راحت آٹھ چیزوں میں ہے :

 اوّل  اچھا کھانا ،
دوم  اچھی خوشبو ،
سوم  ٹھنڈا پانی ، 
 چہارم   آرام دہ لباس ،
 پنجم  اپنی بی بی کے ساتھ ہم ذوقی ،
 ششم  وسیع ہوا دا ر مکان ،
 ہفتم ہم خیال دوست ، 
 اور ہشتم رشتہ داروں کےساتھ فیّاضی کا برتائو !
! تو وسیع اور ہوادار مکان اب وسطِ شہر میں تو ملنے سے رہا ! یوں بھی جس بدقسمت ملک کے حکمران اسّی اسّی لاکھ روپے کے لباس خریدیں اور جس کے حزب اختلاف کے رہنما چھینک آنے پر بھی لندن جا پہنچیں اُس ملک میں بجلی کا پنکھا عوام کی قسمت میں کبھی نہیں ہو سکتا چنانچہ پہاڑ کا دامن اور ندی کا کنارہ گرما کی شدّت میں بہشت سے کم نہیں۔ مجید امجد یاد آ گئے :
افق افق پہ زمانوں کی دھُند سے اُبھرے
طیور ، نغمے ، ندی ِ، تتلیاں ، گلاب کے پھول
چوتھی وجہ یہ ہے کہ کتابوں کیلئے کم از کم دو بڑے کمرے درکار تھے۔ اگرچہ بہت سی کتابیں میں دل پر جبر کر کے لائبریری میں محفوظ نہیں کرتا لیکن اسکے باوجود تعداد اتنی کثیر ہے کہ کتابیں سنبھالے نہیں سنبھلتیں ! بڑی جھونپڑی کا یہ فائدہ ہے کہ میں باقی گھر والوں سے الگ ، اپنی کتابوں کےساتھ باعزت طریقے سے پناہ گزین ہوں اور اُن نادر و نایاب قلمی نسخوں کی حفاظت کر رہا ہوں جو میرے دادا کی ملکیت تھے۔ اور جن میں سے کچھ شاہ جہان کے عہد کے ہیں۔ میرے دادا ایک بار ایک کتاب خریدنا چاہتے تھے لیکن اُس وقت وہ خالی ہاتھ تھے ۔ انہوں نے فروخت کرنے والے کو اپنی قمیض اتار کر دے دی اور کتاب حاصل کر لی۔ اب جب میں اپنی لائبریری میں گلستانِ سعدی کا وہ نسخہ دیکھتا ہوں جو آبِ زرّیں سے لکھا گیا ہے اور جو دھوپ میں او ر رنگ دیتا ہے اور سائے میں اور ، یا امیر خسرو کی مثنوی © © © مطلع الانوار دیکھتا ہوں یانظامی گنجوی کا سکندر نامہ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا خبر ! یہی وہ کتاب ہو جو انہوں نے قمیض دےکر خریدی تھی ! میں اپنے خاندان میں تین نسلوں سے کتابوں کی ہر روز بڑھتی ہوئی تعداد پر خواتینِ خانہ کی پریشانی دیکھ رہا ہوں۔ دادی جان کتابوں اور رسالوں کو ©،، پھڑکے ،، کہتی تھیں اور اپنے شوہر کے بارے میں اکثر و بیشتر شکایت کرتیں تھیں کہ ”بھاگوان جہاں بھی جاتا ہے پھڑکے لے آتا ہے“۔
امّی جان کا اندازِ شکایت بدلتے وقت کی وجہ سے نرم ہو گیا تھا۔ وہ کتابوں کی تعداد اور بے ترتیبی دونوں پر شکوہ کناں رہتی تھیں ۔ پھر میری بیگم کا زمانہ آیا۔ اُ س کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ گھر میں جہاں بھی کوئی میز ، کوئی صوفہ ، کوئی الماری رکھتی ہے تو تھوڑے عرصہ بعد اُس پر کتابوں کا قبضہ ہو چکا ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ جس طرح لکھنے والے کی انگلیوں پر روشنائی کا نشان لازماَ َ ہوتا ہے اور جس طرح سپاہی کے لباس پر اسلحہ کے اثرات ضرور ہوتے ہیں اور جس طرح کسان کے کپڑوں پر گوبر ہر حال میں لگا ہوتا ہے اسی طرح ہم جیسے طالب علموں کا اوڑھنا بچھونا مال اسباب سب کچھ کتابیں ہی ہوتی ہیں ۔  اگرچہ آسٹریلیا میں قیام کے دوران اسرار نے مجھے ،، آئی پیڈ ،، بھی تحفے میں دیا اور پھر اس میں کتابیں بھی بھر دیں۔ چنانچہ کاپی کے سائز کے اِس آئی پیڈ میں  پی  جی   وُڈ   ہائوس  کے سارے ناول ، شفیق الرحمان کی تمام تصانیف ، وسط ایشیا اور ترکی کی تاریخ کی کئی کتابیں ، فریڈرک  فور سائیتھ   کے متعدد ناول اور مقامات حریری جیسی عظیم الشان کلاسکس کے انگریزی تراجم اَپ لوڈ ہیں اور بٹن دبانے سے سم سم کا یہ طلسمی دروازہ کھُل جاتا ہے!

لیکن شہر سے باہر پڑائو ڈالنے میں مسائل بھی ہیں۔ مثلا َ َ ایک یہی مسئلہ دیکھیے کہ میری سٹریٹ خستہ حال ہے۔ اس سٹریٹ میں اور بھی گھر ہیں۔ چند دن پہلے میں اسلام آباد کے چیف کمشنر جناب طارق پیر زادہ سے ملا اور درخواست کی کہ سٹریٹ ٹھیک کرنے کا حکم جاری کریں۔ وضعدار شخص ہیں۔ انتہائی شائستگی سے پیش آئے لیکن کام ابھی تک نہیں ہئوا۔ اگر وہ یہ تحریر پڑھیں تو اسے یاد دہانی سمجھ کر کام کرا دیں۔ اُنہیں کچھ نہیں کہا جائےگا ! اگر کالم پڑھنے والے کسی صاحب کو پیر زادہ صاحب ملیں تو وہ بھی انہیں یاد دلائیں۔ ان صاحب کو بھی کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ اس لیے کہ جو کچھ بھی کہنا تھا سعدی کہہ گئے ہیں :
خیری کُن ای فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشتر کہ بانگ بر آید فلان نماند
ناصر کاظمی نے جیسے اسی کا ترجمہ کر دیا ہے :
کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو
 نام ِ خدا ہو  جوان   ابھی کُچھ کر گذرو تو بہتر ہے

Tuesday, May 22, 2012

ڈاکو انکل

دوپہر کا وقت تھا اور ہُو کا عالم تھا۔ میں اپنی لائبریری میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔ بچے برآمدے میں کھیل رہے تھے میری چھ سالہ نواسی کمرے میں داخل ہوئی ”نانا ابو، باہر ڈاکو انکل آپ کو بلا رہے ہیں“۔ میں ہنسا اور پھر کام میں مصروف ہو گیا۔ دس منٹ بعد وہ پھر آئی اور کہنے لگی ”نانا ابو ڈاکو انکل پورچ میں کھڑے آپ کا انتظار کر رہے ہیں“۔ اب کے اسے مذاق سمجھنا مشکل تھا۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ پچیس تیس سال کا ایک نوجوان، سر پر ڈھاٹا باندھے، بندوق ہاتھ میں پکڑے کھڑا ہے، ڈھاٹا آنکھوں کے اوپر اس طرح آیا ہوا تھا کہ چہرہ پہچاننا مشکل تھا۔ خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی لیکن میں نے اپنے آپ کو مجتمع رکھا اور رعب دار آواز میں کہا کہ اب تم لوگ باقاعدہ گھر سے باہر بلا کر ڈاکے ڈالو گے؟ وہ ہنسا اس کے پیلے دانت اسے اور بھی خوفناک کر رہے تھے، میں ڈاکہ ڈالنے نہیں آیا۔ آپ اخبار میں لکھتے ہیں میں آپ سے کچھ باتیں کرنے آیا ہوں۔ کیا ہم بیٹھ سکتے ہیں؟ میں اسے لائبریری میں لے آیا، ٹھنڈا پانی پلایا اور اس سے پوچھا کہ کیا کہنا چاہتے ہو؟ اس نے بندوق کتابوں کی الماری کے ساتھ کھڑی کر دی اور اطمینان کے ساتھ کرسی سے ٹیک لگا کر میری طرف دیکھنے لگا۔
آپ ڈاکوﺅں والی خبروں کو بہت اہمیت دیتے ہیں، آپکے خیال میں ہم بدترین مخلوق ہیں، ایسا ہی ہے نا؟ 
میں نے جواب دیا کہ اس میں شک ہی کیا ہے تم لوگ ایک گھر میں داخل ہو کر گھر والوں کو باندھ دیتے ہو، گھر کی بجلی کاٹ کر ٹارچوں کے ساتھ کارروائی کرتے ہو اور جمع پونجی لیکر چل دیتے ہو۔ کیا اس سے بدتر بھی کوئی کام ہو سکتا ہے؟
 وہ ہنسا، پیلے دانت پھر نمودار ہوئے۔
 معاف کیجئے، میں یہی آپ کو بتانے آیا ہوں کہ آپ یا تو چشم پوشی کر رہے ہیں یا اصل ڈاکوﺅں سے خوف زدہ ہیں اور سارا غصہ ہم نقلی ڈاکوﺅں پر نکال رہے ہیں۔
خوب! تو تم نقلی ڈاکو ہو! اصلی ڈاکو کون ہیں؟
بہت اچھا سوال کیا ہے آپ نے۔ ہم کسی ایک گھر کی بجلی ایک آدھ گھنٹے کےلئے کاٹتے ہیں اور ہم بہت بُرے ہیں آپ کا ان ڈاکوﺅں کے بارے میں کیا خیال ہے جو پورے ملک کی بجلی غائب کر دیتے ہیں، پورا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ہے لیکن افسوس! آپکو وہ ڈاکو نہیں دکھائی دے رہے۔ ان لوگوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جنہوں نے پورے پورے شہر کےلئے ایک گرڈ اور پورا پورا گرڈ صرف اپنے گھر کےلئے رکھا ہوا ہے؟ہم ایک گھر کا سامان باندھ کر لے جاتے ہیں لیکن آپ کو وہ لوگ نہیں نظر آتے جو پوری قوم کا مال اسباب باندھ کر دوسرے ملکوں کو لے گئے ہیں اور اب قوم کا وہ سامان جدہ، لندن، پیرس، نیویارک، دبئی اور میڈرڈ میں پڑا ہے! ہم اسلئے ڈاکو ہیں کہ محلات میں نہیں رہتے۔
آپکے راستوں، سڑکوں اور گلیوں پر جو لوگ دن دیہاڑے ڈاکے ڈال رہے ہیں وہ بھی آپ کو نظر نہیں آ رہے۔ کیا بظاہر شریف نظر آنےوالے وہ لوگ ڈاکو نہیں جو آپکی سڑکوں پر ریت، بجری اور سیمنٹ کے ڈھیر ڈال کر آپکا راستہ لوٹ رہے ہیں؟ اپنا گھر اور اپنی دکان بنانے کےلئے سریا اور اینٹیں سڑکوں پر رکھ دیتے ہیں؟ آپ انہیں ڈاکو کیوں نہیں کہتے؟ کیا اس سے بڑا ڈاکہ بھی کوئی ہو سکتا ہے کہ آپ سینکڑوں ہزاروں راہ گیروں اور سواریوں کا راستہ تنگ کر دیں؟ یا بند کر دیں؟ آپ ان لوگوں کو ڈاکو کا خطاب کیوں نہیں دیتے جوراستے پر شامیانے لگا کر لوگوں کا راستہ بند کرتے ہیں، کیا وہ ڈاکو نہیں جو چند سکوں کی خاطر اپنی دکان کے آگے ریڑھی والے کو کھڑا کر دیتا ہے اور پیدل چلنے والے کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہے؟ اور کیا فٹ پاتھ پر دکان کا سامان رکھنے والا ڈاکو نہیں ہے؟ تعجب ہے کہ یہ سارے ڈاکو آپ پر ڈاکے ڈال رہے ہیں اور دن دیہاڑے ڈاکہ ڈال رہے ہیں اور آپ صرف ہم غریب لوگوں کو ڈاکو کا خطاب دیتے ہیں!
ہم ایک آدھ بس لوٹنے کےلئے جب کسی راستے پر ناکہ لگاتے ہیں تو سارا کام ایک دو گھنٹوں میں ختم کر دیتے ہیں اور پھر ناکہ ہٹا کر عوام کےلئے راستہ کھول دیتے ہیں لیکن جو لوگ آپ کا راستہ پورے پورے دن کےلئے بند کرتے ہیں انہیں مناسب خطاب دینے کےلئے آپ کا قلم بے بس ہو جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم ناکہ لگاتے ہیں اور وہ روٹ لگاتے ہیں۔ آپ لوگ ہسپتال پہنچ سکتے ہیں نہ ایئر پورٹ پر، آپکے بچے کمرہ امتحان میں نہیں پہنچ سکتے اور غیر حاضری کی وجہ سے فیل ہو جاتے ہیں، آپکی عورتیں رُکی ہوئی ٹریفک میں بچے جنتی ہیں اور مر جاتی ہیں لیکن آپ لوگ چوں کرتے ہیں نہ اُف کرتے ہیں اور ہم ایک گھنٹہ راستہ روکیں تو ڈاکو ڈاکو کے نعروں سے آسمان میں شگاف پڑ جاتے ہیں، کیا یہ انصاف ہے؟اور آپ انہیں کیوں نہیں ڈاکو کہتے جو آپکی یونیورسٹیوں اور کالجوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں؟ کیا وہ ڈاکو نہیں جو فیل ہونے کے بعد، یونیورسٹی سے تعلق ختم ہونے کے باوجود، ہوسٹلوں کے کمروں پر قابض ہیں؟ اور ان طلبہ کے حق پر ڈاکہ مار رہے ہیں جن کا ان کمروں پر، ان ہوسٹلوں پر حق ہے؟ آپ انہیں کیا کہیں گے جو اساتذہ پر حملے کرکے تعلیم پر ڈاکے ڈال رہے ہیں؟ آپ نام نہاد مذہبی سیاسی جماعتوں کے کردار پر کیوں نہیں لکھتے جو تعلیمی اداروں کو اپنی فتوحات کا حصہ سمجھتی ہیں؟ اور ان ڈاکوﺅں کا کیا ہو گا جو ہر سال حج کرکے، دیگیں تقسیم کرکے، ٹیکس چوری کرتے ہیں اور قومی آمدنی پر ڈاکہ ڈالتے ہیں؟ اور کیا وہ ڈاکو نہیں جو جعلی دوائیں بنا کر اور بیچ کر صحت پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں؟ کیا معصوم بچوں کو ملاوٹ والا دودھ پلانے والے ڈاکو نہیں؟ ناجائز منافع کھانے ولے، ذخیرہ اندوزی کرنے والے اور سودا بیچتے وقت جھوٹ بولنے والے بھی تو ڈاکو ہی ہیں لیکن انہیں آپ حاجی صاحب کہتے ہیں!
حیرت ہے کہ اپنے بندے کو صوبے کی بجلی کمپنی کا سربراہ بنانے کےلئے ووٹ پر ڈاکہ کسی اور نے ڈالا اور خطاب ہمیں مل رہے ہیں! کاش آپ لکھنے والے انصاف سے کام لیتے۔
میں دم بخود ہو کر سن رہا تھا اور پگڑ میں چھپا ہوا چہرہ مسلسل بول رہا تھا۔ بندوق کتابوں والی الماری کے ساتھ کھڑی تھی، میری نواسی کمرے میں داخل ہوئی اور بندوق کو چھیڑنے لگی، میں نے منع کیا تو کہنے لگا، بندوق خالی ہے، بچی کو کھیلنے دیں۔ پھر اس نے جیب سے پچاس روپے کا مڑا مڑا بوسیدہ نوٹ نکالا اور میز پر رکھ دیا۔
میں خالی ہاتھ آیا ہوں، میں ایک غریب ڈاکو ہوں، آپ میری طرف سے ان روپوں سے اپنی نواسی کےلئے آئس کریم منگوا لیجئے۔ اسکی آواز بھرا گئی۔

Tuesday, May 15, 2012

بھوسے کے تنکے

اونٹنی پر دو تھیلے تھے‘ ایک میں ستو تھے‘ دوسرے میں کھجوریں۔ سامنے پانی سے بھرا مشکیزہ تھا اور پیچھے ایک برتن۔ مسلمانوں کی ایک جماعت ساتھ تھی‘ روزانہ صبح آپ برتن بیچ میں رکھ دیتے اور سب آپکے ساتھ کھانا کھاتے۔ پیشانی سے اوپر کا حصہ دھوپ میں چمک رہا تھا‘ سر پر ٹوپی تھی‘ نہ عمامہ‘ اونٹ کی پیٹھ پر اونی کمبل تھا جو قیام کی حالت میں بستر کا کام بھی دیتا تھا۔ خورجین میں کھجور کی چھال بھری تھی‘ اسے ضرورت کے وقت تکیہ بنا لیا جاتا تھا۔ نمدے کا بوسیدہ کُرتا پہنے تھے اس میں چودہ پیوند تھے اور پہلو سے پھٹا ہوا تھا۔
یہ تھی وہ حالت جس میں عمر فاروق اعظم بیت المقدس میں داخل ہوئے جہاں مخالفین ہتھیار ڈال چکے تھے اور اب وہ معاہدہ کرنے آئے تھے جس کی رو سے یہ عظیم الشان شہر مسلمانوں کی سلطنت میں شامل ہونا تھا۔
آپ نے مفتوح قوم کے سردار کو بلایا‘ اس کا نام جلومس تھا‘ ارشاد فرمایا‘ میرا کرتا دھو کر سی لاﺅ اور مجھے تھوڑی دیر کیلئے کوئی کپڑا یا قمیص دے دو۔

جلومس نے عرض کیا‘ ”آپ عرب کے بادشاہ ہیں‘ اس ملک میں آپ کا اونٹ پر جانا زیب نہیں دیتا‘ اگر آپ دوسرا لباس پہن لیں اور ترکی گھوڑے پر سوار ہو جائیں تو رومیوں کی نگاہ میں عظمت بڑھے گی۔“ جواب دیا۔ ”خدا نے ہمیں جو عزت دی ہے‘ اسلام کی وجہ سے ہے‘ اسکے سوا ہمیں کچھ نہیں چاہیے“۔


ابن کثیر نے طارق بن شہاب کی ایک روایت بھی نقل کی ہے‘ ان کا بیان ہے‘ ”جب حضرت عمر شام پہنچے تو ایک جگہ رستے میں پانی رکاوٹ بن گیا۔ آپ اونٹنی سے اترے‘ موزے اتار کر ہاتھ میں لئے اور اونٹنی کو ساتھ لے کر پانی میں اتر گئے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا‘ آپ نے آج وہ کام کیا جس کی اہل زمین کے نزدیک بڑی عظمت ہے۔ فاروق اعظم نے انکے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا‘ ”ابوعبیدہؓ! کوئی اور کہتا تو کہتا‘ یہ بات تمہارے کہنے کی نہ تھی۔ تم دنیا میں سب سے زیادہ حقیر‘ سب سے زیادہ ذلیل اور سب سے زیادہ قلیل تھے‘ اللہ نے تمہیں اسلام سے عزت دی‘ جب بھی تم اللہ کے سوا کسی سے عزت طلب کرو گے‘ اللہ تمہیں ذلیل کریگا۔“


لیکن لطیفہ یہ ہے کہ جب بھی ان ہستیوں کی مثال دی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو صحابہ تھے‘ یہ تو خلفائے راشدین تھے‘ یہ تو عمر بن عبدالعزیز تھے‘ تو پھر شان و شوکت پر مرنے والے لوگ کیا یہ چاہتے ہیں کہ ہم چنگیز خان اور قیصر یا کسریٰ کی مثالیں دیں؟ کیا ہم عیاش زندگی گزارنے والے ان کیڑے مکوڑوں کو ان بادشاہوں کا سبق پڑھائیں جو بات بات پر کھالیں کھنچواتے تھے؟ کیا ان کا آئیڈیل بنوامیہ کے وہ لالچی لوگ ہیں جنہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو زہر دے دیا تھا؟
 دماغ کے بجائے بھوسے کے بے وزن تنکے ہیں‘ ان لوگوں کے سروں میں جو عمران خان سے تبدیلی کی توقع کر رہے ہیں‘ تمام قومی اخبارات میں جو خبر چھپی ہے‘ کیا اسکے بعد بھی شک کی کوئی گنجائش رہ گئی ہے؟
 ”تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خصوصی طیارے میں سفر کرتے ہیں جو انکی پارٹی کے رہنماءجہانگیر ترین کی شوگر ملوں کی ملکیت ہے۔ جہانگیر ترین نے رابطہ کرنے پر تصدیق کی ہے کہ عمران خان ملک کے اندر انکی کمپنی کے جہاز میں سفر کرتے ہیں تاہم جب وہ یہ جہاز استعمال کرتے ہیں تو میں اپنی جیب سے چارجز ادا کرتا ہوں۔اس کی تصدیق میرے ذاتی اکائونٹ اور کمپنی کے اکائونٹ سے کی جا سکتی ہے۔""۔
 خبر کا مضحکہ خیز حصہ وہ ہے جس میں تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات نے پوچھا ہے کہ اس طرح سفر کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟ نوکر شاہی کا ایک سابق اہلکار اس سے زیادہ سوچ بھی کیا سکتا ہے۔

جہانگیر ترین نے اب تک اپنے لیڈر کے سفر پر کتنا روپیہ اپنے ذاتی اکائونٹ سے خرچ کیا ہے؟اس کا پتہ اُس وقت چلے گا جب جہانگیر ترین پارٹی سے الگ ہوں گے یعنی جب اُن کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی
مجھے معلوم ہے کہ میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال رہا ہوں لیکن اس وحشت ناک خبر سے کچھ نتیجے تو واضح طور پر نکل رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ ضرور کوئی مجبوری ہے جس کی وجہ سے عمران خان عام فلائٹ میں سفر کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ مجبوری اتنی شدید ہے کہ عمران خان ایک امیر شخص کا احسان اپنے کاندھوں پر لینے کےلئے تیار ہیں۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عمران خان اتنے قلاش ہیں کہ چارجز اپنی جیب سے ادا نہیں کر سکتے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک نیازی پٹھان استطاعت رکھنے کے باوجود کسی کا احسان لے؟ تیسرا یہ کہ مفادات کا ٹکراﺅ
conflict of  interests
 ایک ایسی چڑیا کا نام ہے جس سے تبدیلی لانے والا لیڈر یکسر ناواقف ہے۔ آخر آنکھ میں پانی بھی تو ہوتا ہے! کل پارٹی کے اس امیر رکن کی توقع (یا مطالبہ) کس طرح رد کیا جا سکے گا جو لاکھوں روپے اپنے لیڈر کے سفر پر خرچ کر رہا ہے۔


کیا خو ب  کہ اس میں حرج ہی کیا ہے؟ حرج اور تو کوئی نہیں حضور! صرف یہ حرج ہے کہ جو شخص خصوصی طیارے کے بغیر سفر نہیں کر سکتا‘ خواہ اس کیلئے احسان کا جئوا ہی کندھوں پر کیوں نہ رکھنا پڑے‘ وہ تبدیلی کیا لائے گا؟ سوال حرج کا نہیں‘ نہ ہی جائز یا ناجائز کا ہے‘ سوال مائنڈ سیٹ کا ہے۔ جیسا مائند سیٹ ہو گا ویسا ہی کارنامہ سرزد ہو گا۔ لیڈر کا طرز عمل مثالی ہوتا ہے‘ اسے سو میں سے ساٹھ یا 70 نمبر لینے ہوتے ہیں۔ 33 نہیں۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات نے ابوحنیفہ کا نام سنا ہو گا‘ اگر نہیں تو کسی سے پوچھ لیں۔ امام کپڑا دھو رہے تھے اور دھوئے جا رہے تھے۔ کسی نے پوچھا حضرت! آپ نے تو فقہ کے حساب سے فتویٰ دیا ہے کہ تین دفعہ دھونے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے‘ پھر مسلسل دھوئے جا رہے ہیں؟ فرمایا! وہ فتویٰ تھا‘ یہ تقویٰ ہے۔ لیڈر کے ایک ایک عمل سے سینکڑوں ہزاروں لاکھوں کروڑوں لوگوں کا طرز عمل متاثر ہوتا ہے۔ حرج؟ دریوزہ گری‘ ذاتی آرام و آسائش کیلئے امراءکے زیر بار ہونا‘ کیا اس میں کوئی حرج نہیں؟


قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے  کہ ہاں


رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن


خیر.... یہ تو قرض بھی نہیں‘ یہ تو احسان ہے‘ تادم تحریر امیر شخص نے یہ نہیں کہا کہ وہ یہ سارا خرچ قرض پر کر رہا ہے۔
خدا کے بندو! عزت اس میں نہیں کہ تم یوسف رضا گیلانی کی طرح لاکھوں روپے کا سوٹ پہنو یا شریف برادران کی طرح اربوں کھربوں روپے کے حیرت انگیز محلات میں رہو اور پنجاب پولیس کے سینکڑوں سپاہی پہرے پر کھڑے کرو یا بُگتی سرداروں   کی طرح کئی کئی سو کلاشنکوف بردار ساتھ لئے پھرو یا عمران خان کی طرح عوام سے روپوش ہو کر خصوصی جہاز میں سفر کرو‘ ایک پورے جہاز میں صرف ایک شخص!


عزت اس میں ہے کہ تم مملکت خداداد کے عوام کے رہنماءہو‘ لاکھوں لوگ تمہیں لیڈر مانتے ہیں‘ کیا یہ عزت تمہارے لئے کافی نہ تھی؟ معزز بننے کیلئے رائے ونڈ یا سرے کے محلات ضروری نہیں ہوتے‘ نہ خصوصی جہاز۔ تم سے تو وہ احمدی نژاد بہتر ہے جو پرانے مکان میں رہتا ہے‘ گھر سے لائے ہوئے سوکھے سینڈوچ کھاتا ہے اور جس نے ایوان صدر کی قیمتی قالینیں مسجد میں بھجوا دی ہیں۔ تم سے تو وہ من موہن سنگھ بہتر ہے جس کے پاس کپڑوں کے گنے چنے چند جوڑے ہیں جس کے گھر میں فیکس مشین تک نہیں اور جس کی بیٹی سہیلی کو سبق کے نوٹس فیکس کرنے کیلئے بازار جاتی ہے۔ دماغ کے بجائے بھوسے کے بے وزن تنکے ہیں‘ ان سادہ لوحوں کے سروں میں‘ جو ایسے لیڈروں سے تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں۔ سوال حرج کا نہیں‘ سوال مائنڈ سیٹ کا ہے!

Tuesday, May 08, 2012

پانچ بیماریاں

وہ کئی سال ہمارے ملک میں سفیر رہا‘ سفیر تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن وہ دانشور اور تجزیہ کار بھی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ اس کا مشغلہ ہے۔ جب وہ گفتگو کرتا ہے اور دلائل دیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ غبار چھٹ رہا ہے اور حقیقتیں ایک ایک کرکے سامنے آرہی ہیں۔ ماضی کے تجربوں کی بنیاد پر وہ مستقبل کی ایسی پیشگوئی کرتا ہے کہ آنیوالا زمانہ نظروں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔
میری اس سے ملاقات ایک تقریب میں ہوئی اور میں اسکے علم و دانش کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ جس دن مجھے اطلاع ملی کہ طویل قیام کے بعد وہ یہاں سے واپس جا رہا ہے اور اپنے فرائض منصبی اب کسی اور ملک میں سرانجام دیگا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ روانگی سے پہلے میرے ہاں آئے اور کچھ وقت گزارے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ ہمارے ملک میں تم نے اتنے سال گزارے‘ مشاہدہ کیا! طول و عرض میں گھومے پھرے‘ شہر قصبے اور قریے دیکھ‘ عوام اور خواص سے ملاقاتیں کیں‘ سیاست دان‘ نوکر شاہی‘ فوج سب کو قریب سے دیکھا‘ آخر تم کس نتیجے پر پہنچے ہو اور ہمارا مستقبل تمہیں کہاں اور کیسا نظر آرہا ہے؟
وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا‘ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ میرے سوال کا جواب دینا پسند نہیں کریگا تاہم کچھ دیر کے بعد اس نے میری طرف مسکرا کر دیکھا۔
 ”میں یہاں آنے سے پہلے بہت سے ملکوں میں رہا‘ مسلمان ملکوں میں بھی‘ مغربی ملکوں میں بھی اور مشرقِ بعید کے ملکوں میں بھی۔ میری سوچی سمجھی رائے تمہارے ملک کے بارے میں یہ ہے کہ یہاں بے پناہ ٹیلنٹ ہے‘ ترقی کے لامحدود امکانات ہیں لیکن تمہارے قومی جسم کو چند بیماریاں لاحق ہیں اور یہ بیماریاں ٹیلنٹ کو کچھ بھی نہیں کرنے دیتیں۔
پہلی بیماری تم لوگوں کی انتہا درجے کی جذباتیت ہے‘ جو تمہیں سوچنے سمجھنے سے تجزیہ کرنے سے اور دعویٰ کا ثبوت دیکھنے سے روکتی ہے۔ اسکی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے یا ایک تاریخی روایت کا تسلسل ہے۔ مجھے نہیں معلوم لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام جذبات کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں یہ سن کر حیران ہوتا ہوں کہ تحریک پاکستان میں عوام تمہارے محبوب قائد کی تقریر انگریزی میں سنتے تھے اور بغیر سمجھے لبیک کہتے تھے۔ کاش عوام ان سے یہ پوچھتے کہ ملک چلانے لے لیے  ان کی منصوبہ بندی کیا تھی؟  تم لوگوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہی وہ عوام ہیں جو بغیر سوچے سمجھے ہر بھٹو‘ ہر جمشید دستی‘ ہر پیر سپاہی‘ ہرنجومی اور ہر تعویذ فروش کو کامیاب کراتے ہیں۔ اس جذباتیت کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تم لوگ کسی ثبوت‘ کسی شہادت کے بغیر اپنی رائے کی درستی پر اصرار کرتے ہو اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہو۔ کچھ لوگ آنکھیں بند کرکے طالبان کو الزام دیتے ہیں اور کچھ امریکہ کو.... اور ثبوت دونوں کے پاس نہیں ہیں اور یہ صرف ایک مثال ہے۔
تم لوگوں کو لاحق دوسری خطرناک بیماری یہ ہے کہ تم قانون کو فیصلہ نہیں کرنے دیتے اور خود فیصلہ کرتے ہو‘ یوں ہر شخص کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے۔ جب بھی ٹریفک کا حادثہ ہوتا ہے اور ایک منٹ سے کم عرصہ میں لوگ وہاں جمع ہو جاتے ہیں تو مدعی اور مدعا علیہ دونوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ چھوڑیں‘ کوئی بات نہیں‘ کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ آپکے درمیان پولیس فیصلہ کریگی۔ آپ اس حد تک قانون سے بھاگتے ہیں کہ اپنے اسلامی قوانین کے مقابلے میں بھی ذاتی رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کا پسندیدہ رہنما کرپشن کرے تو آپکی رائے یہ ہوتی ہے کہ سارے کرپشن کرتے ہیں‘ آپ کا پسندیدہ رہنما کسی کو قتل کردے یا کرا دے تو لاکھوں لوگوں کا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ آخر بادشاہ قتل کراتے ہی رہتے ہیں‘ یہاں تک کہ ناجائز زمین پر مسجد بنائی جائے تو اسلامی قانون کو پس پشت ڈال کر صرف یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کا گھر ہے‘ جہاں بھی بن جائے۔ اگر اس رویے کے بجائے تم لوگوں کا رویہ یہ ہو جائے کہ ہر معاملے میں قانون کا فیصلہ دیکھا جائے اور اپنی رائے نہ دی جائے تو تم لوگوں کی حالت ہی بدل جائے۔
تمہاری تیسری بیماری یہ ہے کہ تم لوگ دوسرے سے رابطہ صرف اس وقت کرتے ہو جب تمہارا اپنا کام ہوتا ہے لیکن جب تمہارے ذمے دوسرے کا کام ہو تو تم رابطہ نہیں کرتے۔ دنیا میں جتنی ترقی یافتہ قومیں ہیں‘ وہ اس بے حد خطرناک بیماری سے پاک صاف ہیں جس کے ذمے جو کام ہے‘ وہ اسے پورا کرکے متعلقہ شخص کو یا ادارے کو مطلع کرتا ہے اور اگرکام  نہیں کر سکتا تب بھی اطلاع دیتا ہے۔ تمہارے معاشرے میں ایک غدر برپا ہے‘ سائل مسئول کے پیچھے‘ قرض خواہ مقروض کے پیچھے‘ آجر مزدور کے پیچھے بھاگ رہا ہے جس نے کسی جگہ پہنچنا ہے‘ وہ وہاں پہنچتا ہے نہ کچھ بتاتا ہے جس نے کام کر دیا‘ وہ بھی نہیں بتاتا کہ کام ہو چکا ہے جس نے کام نہیں کیا‘ وہ بھی خاموش ہے یا غائب ہے۔ یہ جہالت ہے یا غیرذمہ داری‘ جو کچھ بھی ہے‘ تمہارے وسائل کو ضائع کر رہی ہے۔
چوتھی خطرناک بیماری یہ ہے کہ تمہاری اکثریت مذہب کو ذاتی اصلاح کے بجائے مالی فائدے کیلئے استعمال کر رہی ہے اور تم لوگوں کو اس کا احساس تک نہیں۔ اسلام کا اولین مقصد فرد کی اصلاح ہے لیکن اسلام کے جو اصول فرد کی اصلاح کیلئے تیربہدف ہیں‘ انہیں آج ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ استعمال کر رہے ہیں اور مسلمان انہیں رات دن اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھ لو کہ وعدہ خلافی تمہارے معاشرے میں اس قدر عام ہے کہ شاید ہی کوئی شخص اسے برا سمجھتا ہے‘ جھوٹ کی وہ کثرت ہے کہ گھر‘ بازار‘ دفتر‘ سیاست‘ تجارت مسجد‘ ہر جگہ جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ دوسری انتہاءیہ ہے کہ تاجر اپنی اشیا بیچنے کیلئے لوگوں کے مذہبی جذبات کا بے تحاشا استحصال کر رہے ہیں۔ شہد بیچتے وقت اسے اسلامی شہد کا نام دیا جاتا ہے‘ میں نے کسی ملک میں عیسائی ہندو یا یہودی شہد نہیں دیکھا۔ دکانوں کا نام مدینہ‘ مکہ‘ اسلامی اور حرمین رکھا جاتا ہے تاکہ جذبات سے کھیلا جائے۔ لالچ اور سنگدلی کی انتہاءیہ ہے کہ نہاری اور پائے تک تم لوگ اپنے رسول کے نام سے بیچ رہے ہو اور اس توہین پر کسی کو شرم نہیں آتی ہے نہ افسوس۔ مذہبی رہنماﺅں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہاری آمدنی کے ذرائع کیا ہیں اور مدرسوں میں پڑھانے والے مفلوک الحال علما مدرسوں کے مالکان سے نہیں پوچھتے کہ تمہارا معیار زندگی کروڑ پتیوں جیسا کس طرح ہو گیا ہے؟
تمہاری پانچویں بیماری یہ ہے کہ افریقی ممالک کو چھوڑ کر تم شاید دنیا میں سب سے زیادہ گندے ہو‘ جتنے گندے تمہاری مسجدوں کے طہارت خانے ہیں‘ اتنا گند میں نے کسی اور مسلمان ملک میں نہیں دیکھا۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں‘ جب میں نے دیکھا کہ وضو کرنے کی جگہ ایک مسواک رکھا ہوتا ہے اور ہر شخص آکر اسے استعمال کرتاہے۔ تم لوگوں کو دھول اور گرد سے گھبراہٹ ہوتی ہے‘ نہ ٹھہرے ہوئے گندے پانی سے گھن آتی ہے۔ مکان تعمیر کرنیوالا تمہاری پوری سڑک پر ریت اور سیمنٹ ڈال دیتا ہے لیکن کوئی چوں بھی نہیں کرتا۔ تمہارے ٹاپ کے شہروں میں لوگ چلتی گاڑیوں سے پھلوں کے چھلکے اور سگریٹ کی خالی ڈبیاں سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور کسی کو شرم آتی ہے اور نہ اعتراض کرتا ہے۔
کاش! تم لوگ پوری دنیا کی اصلاح کرنے کے بجائے کچھ وقت ان پانچ بیماریوں کی فکر بھی کرو جنہوں نے تمہارے جسم کو تعفن میں ڈال رکھا ہے۔

Tuesday, May 01, 2012

دجال

بھارت کی صدر تو وہ 2007ءمیں منتخب ہوئی لیکن اس کا سیاسی کیرئر طویل ہے اور چالیس سال پر محیط ہے۔ تین سال وہ راجستھان کی گورنر رہی۔ پانچ سال لوک سبھا کی ہائوس کمیٹی کی سربراہ رہی۔ دو سال راجیہ سبھا کی ڈپٹی چیئرمین رہی اور پورے اٹھارہ سال مہاراشٹر کی صوبائی حکومت میں مختلف محکموں کی وزیر رہی۔
ایم اے کی اور بعد میں قانون کی ڈگری حاصل کرنےوالی پرتیبھا پٹیل 2007ءکے صدارتی مقابلے میں کانگرس اور دوسری اتحادی پارٹیوں کی مشترکہ امیدوار تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ بائیں بازو نے بھی اُسکی حمایت کی تھی۔ بھارتی سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بایاں بازو وہاں کس قدر طاقتور ہے۔ پرتیبھا پٹیل صدارتی مقابلہ جیت گئی اور بھارت کی پہلی خاتون صدر بن گئی۔



1951ءکے ایکٹ کی رو سے بھارت کے صدر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی گذارنے کےلئے ایک سرکاری گھر بنوا سکتا ہے، اس ایکٹ میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ گھر کہاں ہو گا۔ زیادہ تر بھارتی صدور نے دہلی ہی میں گھر بنوائے اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہیں رہے۔


صدر پرتیبھا پٹیل نے اپنے آبائی صوبے مہاراشٹر کے شہر پونا میں سرکاری رہائش گاہ بنوانے کا فیصلہ کیا۔ قانونی طور پر اس میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ ایکٹ کی رُو سے اُسے اسکی اجازت تھی۔ پونا میں زمین جہاں یہ گھر بننا تھا محکمہ دفاع نے دی۔ لیکن بات اُس وقت بگڑی جب سابق فوجیوں کی ایک تنظیم نے میڈیا میں احتجاج کیا۔ تنظیم کی دلیل یہ تھی کہ اس زمین پر اُن بیوائوں کا حق ہے جن کے شوہروں نے بھارت کے دفاع کےلئے جانیں قربانیں کیں۔


آپ کا کیا خیال ہے کہ بھارتی صدر کا ردعمل کیا تھا؟ قانونی طور پر اُس نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا۔ جہاں مکان بنانے کی تیاری ہو رہی تھی، وہاں بیوائوں کے گھر بننے کا کوئی منصوبہ، کوئی نقشہ، کوئی پروگرام نہ تھا۔ احتجاج کرنےوالے اگر عدالت کا دروازے کھٹکھٹاتے تو یقیناً ہار جاتے۔


بھارتی صدر ایک گھر، ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی گذارنے کےلئے بنوا سکتا ہے یا بنوا سکتی ہے اور یہ گھر بھارت میں کہیں بھی بنوایا جا سکتا ہے لیکن آپ بھارتی سیاست کی پختگی اور بھارتی سیاست دانوں کی اپنے عوام کے ساتھ ہم آہنگی دیکھئے کہ پرتیبھا پٹیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب یہ گھر نہیں بنوائے گی۔ یہ بھارتی میڈیا کی فتح ہے نہ سابق فوجیوں کی تنظیم کی سرخروئی ہے، یہ اگر کامیابی ہے تو بھارت کی سیاست کی کامیابی ہے اور اس سے بھارتی اہل سیاست کا وہ رویہ ظاہر ہوتا ہے جس کی وجہ سے آج بھارت پوری دنیا میں ”سب سے بڑی جمہوریت“ کہلاتا ہے اور ہر جگہ اُسے پاکستان پر فوقیت دی جاتی ہے۔


ہم اپنی خفّت مٹانے کیلئے لاکھ واویلا کریں کہ بھارت میں کروڑوں شودر غیر انسانی زندگی بسر کر رہے ہیں، بھارت میں اقلیتوں کےساتھ بدسلوکی ہو رہی ہے۔ بھارت پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال جیسے پڑوسیوں پر دھونس جماتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاسی ریکارڈ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جسے ہم بھارتی صدر کے اس اقدام کے مقابلے میں پیش کر سکیں۔ پورا ملک چیخ رہا ہے کہ سوئٹزر لینڈ سے قوم کا مال واپس لایا جائے، وزیراعظم حکومت میں رہنے کا استحقاق کھو بیٹھے ہیں لیکن صدر پر کوئی اثر ہوتا ہے نہ وزیراعظم کے کان پر جُوں رینگتی ہے۔


قانون کے معاملے میں ہمارا رویہ اسی ایک مثال سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ ایک سابق آرمی چیف مہران بنک سکینڈل کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ میں حاضر ہوتے ہیں تو اظہار افسوس کے بجائے دھڑلے سے اعلان کرتے ہیں کہ تیسری بار عدالت میں پیش ہو کر انہوں نے ہیٹ ٹرک مکمل کی ہے!


ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم دونوں تاشقند میں پاک بھارت کانفرنس میں شریک تھے۔ شاستری کا وہیں انتقال ہو گیا۔ وفات کے وقت اس کا بیٹا بمبئی کے ایک بنک میں عام سا ملازم تھا، اسکے مقابلے میں ایوب خان کے بیٹوں نے جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے جسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ آپ بلاول، حمزہ اور مونس الٰہی کا سیاسی ”کیرئیر“ دیکھئے اور اسکے مقابلے میں راہول گاندھی کے کیرئیر پر نظر ڈالئے، وہ آٹھ سال سے سیاست میں ہے لیکن کانگرس کا ”چیئرمین“ ہے نہ اس پر مالی بددیانتی کا کوئی مقدمہ یا الزام ہے اور نہ ہی کوئی عورت ملک بھر میں پریس کانفرنسیں کرتی پھرتی ہے کہ میں راہول کی قانونی بیوی ہوں اور یہ رہا میرا نکاح نامہ!


یہ موازنہ اُس بھارت سے ہے جو اسی خطے میں واقع ہے اور ہمارا حریف ہے، رہے ترقی یافتہ ممالک تو اُنکے ساتھ موازنے کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اُن ملکوں میں تو ریاست اور حکومت کے سربراہ اُس معیارِ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے جس سے ہمارے صدر، وزیراعظم اور صوبوں کے سربراہ لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مارگریٹ تھیچر کھانا اپنے ہاتھوں سے پکاتی تھی۔ کلنٹن کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ رواں ہفتے کی خبر ہے کہ آسٹریلیا کے ایک وزیر نے سرکاری کریڈٹ کارڈ سے کھانا کھایا، وزیراعظم نے اُسے فارغ کر دیا ہے۔


ہمارے ہاں ریلوے کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں؟ کیا میں ڈرائیور تھا؟ گویا سزائیں صرف ڈرائیوروں کےلئے ہیں۔ وزیراعظم نے شکوہ کیا ہے کہ عدلیہ مجھے چپڑاسی سمجھتی ہے۔ گویا قانون کی نظر میں وزیراعظم اور چپڑاسی میں فرق ہونا چاہئے۔ ماضی میں پولیس نے ایک معروف سیاست دان کے گھر کا رُخ کرنا چاہا تو کہا گیا کہ یہ مالو مصلّی کا گھر نہیں ہے۔ گویا مالو مصلّی ہی سے حساب کتاب کیا جا سکتا ہے اور کسی سے نہیں!


تعجب ہے کہ ہمارے اہل مذہب اُن احادیث کا پرچار تو کرتے ہیں جن کی پیش گوئیاں ابھی ظہور پذیر ہونی ہیں لیکن اللہ کے رسول کے وہ فرمان انہیں یاد نہیں جن کی سچائی کا آج ہم سامنا کر رہے ہیں۔ اللہ کے رسول نے بتا دیا تھا کہ جو قومیں اپنے طاقتوروں کو چھوڑ دیتی ہیں اور کمزوروں کو قانون کے شکنجے میں جکڑتی ہیں وہ تباہ ہو جاتی ہیں۔ آج پوری دنیا ہماری تباہی کی گواہ ہے اور ہم سے عبرت پکڑ رہی ہے۔ ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت کا چالیس فیصد حصہ بنگلہ دیش میں منتقل ہو چکا ہے۔ اسکے نتیجہ میں صرف پنجاب میں دو لاکھ خاندان بے روزگار ہوئے ہیں اور فاقے کر رہے ہیں۔ آٹھ سو ارب روپے سے زائد کا سرمایہ ملائیشیا منتقل ہو چکا ہے۔
ہمارے ڈاکٹروں، انجینئروں اور سائنس دانوں کی اکثریت مغربی ملکوں کے سفارت خانوں کے سامنے ہاتھوں میں پاسپورٹ پکڑے قطاروں میں کھڑی ہے۔ سیاسی اور سفارشی بھرتیوں سے قومی ائر لائن شہید ہو چکی ہے۔ نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ ناقابل پرواز جہازوں کو روکنے والا کوئی نہیں۔ ریلوے کی زمینوں پر جن جرنیلوں نے قانون کو پائوں تلے روند کر گالف کلب بنوائے وہ آج بھی ٹیلی ویژن پر لوگوں کو وعظ سُنا رہے ہیں۔ عقیدے اور زبان کی بنیاد پر بے گناہوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔


اس صورت حال کو ہم تباہی کا نام نہ بھی دیں تو ریت میں سر چھپانے سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ جس دجّال نے ابھی آنا ہے اُسکے بارے میں  کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور مفت تقسیم ہو رہی ہیں لیکن جو ہمارے درمیان چل پھر رہے ہیں ہیں ان کی کسی کو پرواہ نہیں۔
 

powered by worldwanders.com