اور تم دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہو
چھ فٹ لمبے رشید کمال نے میرا سوال سنا‘ آنکھیں بند کیں اور ایک لمحے بعد کھولیں تو کرب اسکے چہرے پر چھایا ہوا تھا۔ ”آٹھ سال ہو گئے‘ وطن نہیں گیا“۔ ”کب پھیرا لگانے کا ارادہ ہے؟“ .. ..”جب حالات ٹھیک ہونگے“ آٹھ سال پہلے وہ وہیں تھا‘ دارالحکومت میں بیوی بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر کہیں جا رہا تھا‘ پولیس کی گاڑی نے اسے پریشان کیا‘ اس نے احتجاج کیا تو پولیس نے اسکی کار قبضے میں لے لی اور یہ بھی بتایا کہ کار کی ڈگی میں چرس رکھی ہوئی ہے۔ اسکی قسمت اچھی تھی‘ ایک اعلیٰ افسر اس کا دوست تھا اور اس سے رابطہ بھی ہو گیا۔ جان چھوٹ گئی لیکن اسکے اندر کوئی چیز کرچی کرچی ہو چکی تھی۔ آپ اندازہ لگایئے‘ بیوی اور دو بچے سڑک پر کھڑے ہیں‘ کار پولیس کے قبضے میں اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ زیادہ احتجاج کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ بیوی بچوں کی موجودگی میں اسکی پسلیاں توڑی جاتیں اور پھر تھانے میں بند کر دیا جاتا۔ رشید کمال نے ایک فیصلہ کرلیا‘ پناہ کے دروازے انٹرنیٹ پر کھل رہے تھے۔ وہ انٹرنیٹ پر بیٹھ گیا۔ کچھ عرصہ بعد بیوی بچوں کو لیا اور پولیس سٹیٹ کو خیرباد کہہ آیا۔ ”حالات کب ٹھیک ہونگے‘ میں نے پوچھا۔ ”جب مائنڈ سیٹ...