اشاعتیں

فروری, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اور تم دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہو

چھ فٹ لمبے رشید کمال نے میرا سوال سنا‘ آنکھیں بند کیں اور ایک لمحے بعد کھولیں تو کرب اسکے چہرے پر چھایا ہوا تھا۔ ”آٹھ سال ہو گئے‘ وطن نہیں گیا“۔ ”کب پھیرا لگانے کا ارادہ ہے؟“ .. ..”جب حالات ٹھیک ہونگے“ آٹھ سال پہلے وہ وہیں تھا‘ دارالحکومت میں بیوی بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر کہیں جا رہا تھا‘ پولیس کی گاڑی نے اسے پریشان کیا‘ اس نے احتجاج کیا تو پولیس نے اسکی کار قبضے میں لے لی اور یہ بھی بتایا کہ کار کی ڈگی میں چرس رکھی ہوئی ہے۔ اسکی قسمت اچھی تھی‘ ایک اعلیٰ افسر اس کا دوست تھا اور اس سے رابطہ بھی ہو گیا۔ جان چھوٹ گئی لیکن اسکے اندر کوئی چیز کرچی کرچی ہو چکی تھی۔ آپ اندازہ لگایئے‘ بیوی اور دو بچے سڑک پر کھڑے ہیں‘ کار پولیس کے قبضے میں اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ زیادہ احتجاج کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ بیوی بچوں کی موجودگی میں اسکی پسلیاں توڑی جاتیں اور پھر تھانے میں بند کر دیا جاتا۔ رشید کمال نے ایک فیصلہ کرلیا‘ پناہ کے دروازے انٹرنیٹ پر کھل رہے تھے۔ وہ انٹرنیٹ پر بیٹھ گیا۔ کچھ عرصہ بعد بیوی بچوں کو لیا اور پولیس سٹیٹ کو خیرباد کہہ آیا۔ ”حالات کب ٹھیک ہونگے‘ میں نے پوچھا۔ ”جب مائنڈ سیٹ...

لکڑی کا بیل

اپنی ننھی سی انگلی سے اس نے بٹن آن کیا۔ بیٹری والی کار چلنے لگی۔جہاں رکاوٹ ہوتی، کار ذرا سا رُک کر، واپس ہوتی اور پھر کسی دوسرے رخ چل پڑتی۔ اب وہ اس شور مچاتی کار کو روکنا چاہتا تھا لیکن اس سے بٹن آف نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اسے پکڑ کر میرے پاس لے آیا اور اس زبان میں جسے صرف وہ سمجھتا تھا اور فرشتے، مجھے بند کرنے کےلئے کہا اور میں نے بیٹری کا بٹن آف کر د یا۔ لیکن ڈیڑھ سالہ پوتے کے ساتھ کھیلتے ہوئے میں کہیں اور جا پہنچا تھا۔ مجھے لکڑی کا بیل یاد آ رہا تھا۔ لکڑی کا وہ بیل جو مجھے میرے نانا اور ماموں نے بنوا کر دیا تھا اور جو میرے ننھیالی گاﺅں بکھوال کے ترکھان نے بنایا تھا۔ میں اپنے نانا نانی کا پہلا نواسہ تھا۔اس وقت ان کا پوتا بھی نہیں پیدا ہوا تھا۔ میں وی آئی پی تھا اور وی آئی پی کی پہلی نشانی یہ ہوتی تھی کہ گاﺅں کے ترکھان سے، جسے سرکھجانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی ،  خصوصی طور پر لکڑی کا بیل بنوایا جاتا تھا۔ بیل کے پیچھے ننھا سا چھکڑا تھا۔ نیچے پہیے لگے ہوئے تھے۔ آگے رسی تھی اور میں اسے صحن بھر میں بھگاتا پھرتا تھا۔ ستائیس سال کے بعد میرا بیٹا پیدا ہوا تو میں اسلام آباد میں تھا اور سول س...

اسے مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائینگے

ایک چھوٹی سی خبر.... کسی نے دیکھی کسی نے نہیں.... لیکن اگر ذہن کھلا ہو اور نیت صاف ہو تو یہ چھوٹی سی خبر ہی بیماری کی تشخیص بھی ہے اور علاج بھی۔ ہاں‘ اگر کوئی حیرت سے یہ پوچھے کہ کون سی بیماری؟ ہم تو بالکل تندرست ہیں ، بالکل نرول‘ تو پھر علاج کی ضرورت ہے نہ تشخیص کی! الحمد للہ! پہلے کی نسبت ہماری مسجدیں زیادہ آباد ہیں۔ باریش چہروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ نقاب اوڑھنے والی اور حجاب کرنے والی بیٹیوں اور بہنوں کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ نماز پڑھ کر باہر نکلنے والے لوگ‘ صحن میں دھری ہوئی صندوقچی میں ضرور کچھ نہ کچھ ڈالتے ہیں۔ دعوت دینے والے بھائیوں کے اجتماع آئے دن برپا ہوتے ہیں اور لاکھوں میں حاضری ہوتی ہے۔ احرام کی چادریں‘ ٹوپیاں‘ اور عبائیں‘ تسبیحیں‘ جائے نمازیں اور مسواکیں بیچنے والوں کے ہاں رونقیں لگی ہیں۔ الحمد للہ آج پہلے کی نسبت مذہب کا ہماری زندگیوں میں کہیں زیادہ عمل دخل ہے! بس ایک ذرا سا مسئلہ ہے۔ سندھ حکومت نے بتایا ہے کہ چالیس ہزار ایسے افراد کا پتہ چلا ہے۔ جو تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن کبھی ڈیوٹی پر نہیں آئے۔ لاکھوں افراد اور سینکڑوں ہزاروں کاروباری مراکز بجلی ...

فرشتوں کی زاری

پہلا منظر: -- بوڑھے بچے جوان مرد عورتیں جمع ہیں، لوگ نعرے لگا رہے ہیں، لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان، مقرر تقریر کر رہا ہے۔ ”ہم مسلمانوں کو ہندوﺅں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، ہندو بنیے کے پاس دولت ہے، متحدہ ہندستان میں ہندو بنیا اپنی دولت کی بنیاد پر مسلمانوں کا جینا حرام کر دے گا۔ ہمیں ہندو بنیے سے انصاف کی توقع نہیں، مسلمانوں کو انصاف چاہیے، عزت کی زندگی چاہیے، مسلمانوں کو مناصب وزارتیں اور اسمبلیوں کی ممبریاں  اہلیت کی بنیاد پر چاہئیں، دولت کی بنیاد پر نہیں“۔ لوگ مقرر کو داد دے رہے ہیں، نعرے ایک بار پھر لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔ دوسرا منظر: -  قافلہ جا رہا ہے سامان بیل گاڑیوں پر لدا ہے لوگوں نے سروں پر بھی گٹھڑیاں صندوق اور بستر اٹھائے ہوئے ہیں۔ عورتوں سے چلا نہیں جا رہا، بوڑھے تھک تھک کر گر رہے ہیں بچے بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہیں لوگ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں: ”سرحد کتنی دور ہے“۔ ”پاکستان کس وقت پہنچیں گے؟“ ”قائد اعظم کا پاکستان ہمیں اپنی پناہ میں کب لے گا“۔ اچانک ...

دونوں میں سے ایک----صرف ایک

سڈنی سے ہم شمال کی طرف چلے۔ یوں کہ دائیں طرف کچھ فاصلے پر سمندر تھا۔ یہ سمندر بحرالکاہل ہے۔اگرچہ اہلِ آسٹریلیا بحرالکاہل کے اُس حصے کو جو آسٹریلیا کے مشرقی ساحلوں سے ٹکراتا ہے،بحرِ تسمان کہتے ہیں۔ بحرالکاہل بھی کیا کیا نظارے اور بہاریں دکھاتا ہے۔ مغربی کینیڈا جائیں تو بحر الکاہل کے دم سے رونقیں ہیں۔لاس اینجلز جائیں تو بحرالکاہل کی کرم فرمائیاں ہیں۔ آسٹریلیا، جاپان، فجی، ہوائی، فلپائن اور نیوزی لینڈ جیسے ہوشربا جزیرے بحرالکاہل کی آغوش ہی میں سرمستیاں کر رہے ہیں۔ تو سڈنی سے ہم شمال کی طرف چلے اور ڈیڑھ گھنٹہ کی ڈرائیو کے بعد تقریباً اسّی کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے Gosford گاس فرڈ پہنچے جب ہوائی جہاز نہیں تھے تو ہمارے لیے سب کچھ برصغیر ہی تھا اور برصغیر بھی پورا نہیں بلکہ صرف شمالی حصہ اسی لیے کشمیر کے بارے میں ہم نے کہا تھا کہ اگر فردوس بر روئی زمین است .... اگر فردوس بر روئی زمین است ہمین است و ہمین است و ہمین است مغلوں کو تو کشمیر بہت ہی پسند تھا۔ جہانگیر کشمیر ہی سے واپسی کے دوران لاہور میں چل بسا اور وہیں دفن ہوا ۔ لیکن کرہ ارض پر بے شمار ایسے علاقے ہیں، ساحلی...