Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, January 24, 2012

پیٹ اور دماغ کی بجھارتیں

آج تک کوئی نہیں بوجھ سکا!
سائنس نے اتنی ترقی کر لی، سمندر کی گہرائیوں اور خلا کی لا محدود وسعتوں سے انسان ہو آیا۔ انٹرنیٹ کے عجوبے نے ہفتوں مہینوں برسوں کے فاصلے ثانیوں میں طے کر لئے لیکن افسوس! کچھ سربستہ راز ایسے ہیں جو آج تک نہیں کُھل سکے۔ کچھ پہیلیاں ایسی ہیں جن کا آج تک کوئی جواب نہیں دے پایا اور کچھ بجھارتیں ایسی ہیں جو پڑنانی بوجھ سکی نہ نانی نہ ماں نہ نواسی!
مثلاً یہی سربستہ راز لے لیجئے کہ بڑھیا جو چاند پر بیٹھی چرخہ کات رہی ہے، وہاں کیسے پہنچی؟ اور چرخہ کیا ساتھ لے کر گئی یا چاند کی مقامی سہولیات میں یہ شامل تھا؟ کیا کاتی جانےوالی روئی چاند پر اُگنے والی کپاس سے نکلی یاچاند والوں نے زمین سے درآمدکی؟ ان سوالوں کے جواب آج تک کوئی نہیں دے پایا اور وہ گائے جس نے اپنے سینگ پر زمین کو اٹھایا ہوا ہے۔ کھاتی کیا ہے؟ آج تک کسی کو اس کا چارہ لے جاتے نہیں دیکھا گیا اور ان دو مکھیوں نے بالآخر کیا فیصلہ کیا جو سنیما دیکھ کر باہر نکلیں۔ ایک کی رائے تھی کہ ہم اپنے پروں سے اڑکر گھر پہنچیں لیکن دوسری کہتی تھی کہ ہم تھکی ہوئی ہیں کیوں نہ کتا کر لیں! اور یہ جو کہتے ہیں کہ فلاں کی نانی یاد آ گئی تو آخر دادی کیوں نہیں یاد آتی ؟ اور یہ جو کہتے ہیں کہ یہ خالہ جی کا گھر نہیں ہے تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پھوپھی جان کا گھر نہیں ہے اور یہ جو بہت اچھل کود کرنے والے کو کہتے ہیں کہ تم کیا مامے لگتے ہو؟ تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم کیا چاچے لگتے ہو؟
لیکن سربستہ راز جن کا جواب کوئی نہیں دے سکا صرف یہی تو نہیں! ہر دن جو طلوع ہوتا ہے اپنے دامن میں نئے راز لےکر آتا ہے اور نئی بجھارتوں کو جنم دیتا ہے مثلاً یہی بجھارت دیکھ لیجئے کہ پرسوں راولپنڈی میں جو دفاع پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی، اس میں اعجاز الحق کی تقریر کے دوران ”امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے“ کے نعرے لگائے گئے۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ ہم نے اعجاز الحق پر ہمیشہ تنقید کی۔ ہم دیانت داری سے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اداروں کی شکست و ریخت اور قومی خزانے سے غلط بخشیوں کا جو کام ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا اسے جنرل ضیاءالحق نے عروج پر پہنچایا لیکن خدا کے آگے جان ہم نے بھی دینی ہے، اعجاز الحق نے بھی اور دفاع پاکستان کانفرنس کے اصحابِ قضا و قدر نے بھی۔ بات سچی اور انصاف کی کرنی چاہئے بجھارت یہ ہے کہ امریکی غلامی کےخلاف دفاع پاکستان کانفرنس کا انعقاد کرنے والے بزرگوں کو یہ کیوں نہیں معلوم ہوا کہ امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے والے پرویز مشرف کے دست راست تو انکے ساتھ سٹیج پر موجود تھے! بلکہ روایت یہ ہے کہ کانفرنس کے میزبان بھی وہی تھے۔ جو لوگ مشرف کو سید پرویز مشرف کہتے تھے اور امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے سے لے کر لال مسجد کی شہادتوں تک پرویز مشرف کےساتھ تھے۔ انکے بارے میں دفاع پاکستان کانفرنس والے کیوں لاعلم ہیں؟ اور پھر سترہویں ترمیم پرویز مشرف کو پلیٹ میں رکھ کر دینے والی مذہبی (سیاسی) جماعت بھی دفاع پاکستان کانفرنس میں شامل ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے دفاع پاکستان کے کسی اگلے جلسے میں جنرل راشد قریشی اور بیرسٹر سیف بھی سٹیج پر بیٹھے نظر آئیں بلکہ میزبانی کرتے دیکھے جائیں۔
اب ایک اور پہلی دیکھئے ۔ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی ایک سیاسی جماعت کی موجودہ حکومت سے اتنی شدید وابستگی ہے کہ انکے معزز لیڈر نے اعلان کیا ہے کہ جیل تک ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اپنی اس وابستگی کا ثبوت دینے کےلئے وہ سپریم کورٹ بھی تشریف لے گئے۔ پہیلی یہ ہے کہ جتنی وابستگی ان حضرات کو حکومت سے ہے، اس کا چوتھا حصہ بھی صوبے کے عوام سے نہیں! آخر کیوں؟ آپ بجا طور پر یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اتحادی تو اور بھی ہیں۔ ہم انہی کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ تو جناب قصہ یہ ہے کہ دو اہم اتحادی ان کے علاوہ ہیں۔ قاف لیگ اور ایم کیو ایم۔ قاف لیگ اس لئے مرفوع القلم ہے کہ وہ صرف دو سیاسی شخصیات پر مشتمل ہے اور عملی طور پر بکھر چکی ہے۔ رہی ایم کیو ایم تو سارے اختلافات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اسکی اپنے ووٹروں سے وابستگی خیبر پختون خواہ والی جماعت سے کہیں زیادہ ہے۔ انکے ناظم نے کراچی کے حالات بدل کر رکھ دیئے۔ایک یا دو بار انکے احتجاج سے گیس پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ بھی حکومت کو واپس لینا پڑا لیکن اس راز سے کوئی بھی پردہ نہیں اٹھا سکتا کہ اس علاقائی جماعت کو کیوں نہیں معلوم ہو رہا کہ گیس غائب ہے، پٹرول کی قیمتیں آسمان پر ہیں، ریلوے تباہ ہو چکی ہے۔ پی آئی اے آخری سانس لے رہی ہے۔ چلیں ریلوے کی تباہی تو اس جماعت کو اس لئے نظر نہیں آ رہی کہ ریلوے کی وزارت اسی  کےپاس ہے لیکن یہ نہیں سمجھ میں آتا کہ آج تک اس جماعت کے قائدین نے مہنگائی، پی آئی اے، سٹیل مل اور کرپشن کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا صوبے کا نام بدلنے کے بعد عوام سے تعلق ختم ہو گیا۔ ہر غلط معاملے میں حکومت کی پیٹھ ٹھونکنے والی اس جماعت کو کیا معلوم ہے کہ خیبر پختون خواہ صوبے میں عوام کی حالت کیا ہے؟ بے روز گاری کتنی ہے؟ خواندگی کا تناسب کس قدر ہے؟ عوام دو وقت کی روٹی کس طرح پوری کر رہے ہیں؟ ٹرانسپورٹ کی صورتحال کیا ہے؟ اس صوبے میں ملتان اور سندھ سے بھی زیادہ گرمی پڑتی ہے، بجلی کے بغیر آخر گرمیاں کس طرح کٹتی ہیں؟ رہا صوبے کا نا م بدلنے کا کارنامہ تو اسکی حقیقت کا اندازہ یوں لگائیے کہ قبائلی علاقے اس صوبے میں شامل ہی نہیں ہونا چاہتے اور الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا پختون بھی آپ کےساتھ نہیں! اگر صوبے کا نام بدلنا سارے مسائل کا حل ہوتا تو قبائلی علاقوں کے عمائدین اور عوام خوشی سے آپکے ساتھ شامل ہو جاتے لیکن ایسا نہیں ہے!آخر کیوں؟
بجھارتوں کا یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پنجاب اسمبلی میں ارکان نے پنجاب پبلک سروس کمشن کی حالت زار کی دہائی دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جنوبی پنجاب کےلئے الگ پبلک سروس کمشن یا اسکی برانچ بنائی جائے۔ ارکان نے یہ بھی کہا ہے کہ ”پنجاب پبلک سروس کمشن میں زیادہ تر ریٹائرڈ پولیس افسروں کی نمائندگی نظر آتی ہے“ نوائے وقت کے ان صفحات میں بہت پہلےہم نے  اس عدم توازن کی طرف اشارہ کر دیا تھا ۔ بجھارت یہ ہے کہ آخر پولیس کے ریٹائرڈ افسر ہی کیوں پبلک سروس کمشن میں رکھے جاتے ہیں۔ کیا ایک مخصوص خاندان سے وفاداری کا حو الہ کام آتا ہے یا یہ سب کچھ ایک سینئر، بہت ہی سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی مرضی سے ہوتا ہے جو تنخواہ تو پنجاب حکومت سے لیتا ہے لیکن کام کسی ایسی شخصیت کےساتھ کر رہا ہے جس کا حکومت سے سرکاری تعلق کوئی نہیں! اور آخری بجھارت! ایک سیاسی جماعت کے شہزادے نے ایک نئی فوڈ سٹریٹ کا افتتاح کیا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے یہ نئی فوڈ سٹریٹ کہاں واقع ہے؟ شاہی مسجد اور شاہی قلعے کے درمیان! فوڈ سٹریٹ میں کھانا تیار کرنےوالے چولہوں میں جلنے والی آگ کی حرارت کا اثر ان تاریخی عمارتوں پر بہت خوشگوار ہو گا لیکن اصل بجھارت یہ نہیں! اصل بجھارت یہ ہے کہ ہمارے سیاسی خاندانوں کے شہزادے لائبریریو ں کا افتتاح کیوں نہیں کرتے؟
اس بجھارت کا جواب شاید یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں پیٹ کے بل بوتے پر چلتی ہیں اور لائبریریوں کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے۔ سو دماغ کا یہاں کیا کام؟

Tuesday, January 17, 2012

جو ہوتا ہے مسلمانوں کے گھر پیدا نہیں ہوتا

فرشتے گڑ گڑا رہے تھے لیکن قدرت نہیں مان رہی تھی .... قدرت کا فیصلہ تھا کہ یہ امتحان ہے، اگر یہ لوگ اس امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ بچ جائےگی اور اگر یہ لوگ اس امتحان میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر یہ اس قا بل نہیں کہ ارفع کریم جیسی نابغہ انکے درمیان رہے۔



قدرت نے ہمارا امتحان لیا اور افسوس! ہمیں اس میں عبرت ناک ناکامی ہوئی۔


دس سال کی عمر میں اسے بل گیٹس نے امریکہ بلایا اور وہ بل گیٹس جس کے ایک ایک سیکنڈ کی قیمت ہزار ہا ڈالر میں ہوتی ہے۔ اس بل گیٹس نےاس دس سالہ پاکستانی بچی سے تفصیلی ملاقات کی۔ وہ دنیا کی سب سے کم عمر مائکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل
(MCP)
تھی۔ اس نے اس کمسنی میں دبئی اور ہسپانیہ میں منعقدہ بین الاقوامی کمپیوٹر کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور اپنی قابلیت اور ذہانت سے مندوبین کو انگشت بدنداں کر دیا۔ جہاز اڑانے کا خیال آیا تو دس سال کی عمر میں دبئی میں جہاز اڑایا اور ”پہلی کامیاب فلائٹ“ کا سرٹیفکیٹ لیا!


کیا کیا ارادے تھے اسکے! وہ ، وہ کچھ کرنا چاہتی تھی جو پاکستان کے حکمرانوں کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتا! وہ بھارت کی سلی کان ویلی کی طرز پر پاکستان میں ڈیجیٹل ویلی بنانے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ اس ویلی میں وہ ایک ایسا ادارہ بنانا چاہتی تھی جہاں مستحق اور لائق طلبہ کمپیوٹر اور سائنس کی تعلیم مفت حاصل کریں اور ذہین لوگوں کیلئے وسائل مہیا ہوں۔ یہ سارے خواب خواب ہی رہے، دسمبر کے تیسرے ہفتے میں اس پر دل کی بیماری کا حملہ ہوا اور پھر پیچیدگی بڑھتی  گئی، وہ بے ہوش ہو گئی ۔


دنیا کی سب سے کم عمر کمپیوٹر کی نابغہ.... نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کا قیمتی اثاثہ .... ارفع.... چھبیس دن موت و حیات کی کشمکش میں پڑی رہی۔ چھبیس دنوں میں اگر چار دن اور جمع کیے جائیں تو پورا ایک مہینہ بن جاتا ہے۔ اس سارے عرصہ میں حکومت پاکستان کا کوئی نمائندہ ،کوئی وزیر اعظم، کوئی صدر، سائنس ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کا کوئی وزیر اس کے پاس نہ آیا۔ چھپن مسلمان ملکوں میں سے کسی ملک کی حکومت کو خیال نہ آیا کہ ایک مسلمان لڑکی کے، جس نے بھارت اور آئی ٹی میں ترقی یافتہ کئی ملکوں کو ششدر کر دیا ہے، علاج کیلئے سارے امکانات بروئے کار لائے جائیں۔


ہاں! فکر تھی تو اس ”کافر“ بل گیٹس کوتھی جس نے اس کے ماں باپ سے مسلسل رابطہ رکھا اور امریکہ میں مکمل علاج کی پیشکش کی۔ لیکن ارفع تو مشینوں نلکیوں ٹیوبوں اور آلات میں جکڑی ہوئی تھی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس حالت میں وہ کسی دوسرے ملک میں آخر کس طرح منتقل ہو سکتی ہے! اس کا ایک ہی حل تھا، ایئر ایمبولینس! یعنی ایسا ہوائی جہاز جس میں علاج کی سہولتیں موجود ہوتی ہیں، اس میں مریض کو مشینوں ٹیوبوں نلکیوں اور آلات سمیت لٹایا جاتا ہے۔ پیر پگاڑا کو حال ہی میں ایئر ایمبولینس ہی کے ذریعے برطانیہ منتقل کیا گیا تھا۔


لیکن ارفع کریم کو ایئر ایمبو لینس کہاں سے ملتی؟ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کی بیٹی۔ اور ایئر ایمبولینس! یہ کس طرح ممکن تھا! وہ سیاست دان تھی نہ جاگیردار،  گدی نشین تھی نہ جرنیل۔ اور لڑکا بھی نہیں تھا۔ وہ تو لڑکی تھی، جس ملک میں لڑکیوں کے سکول جلا دیئے جاتے ہوں اور جلانے والوں کو ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہو، جس معاشرے میں لڑکیوں کو زندہ، صحرا میں گاڑ دیا جائے اور ایسا کرنے والے وزارتوں پر براجمان کیے جائیں، جس سوسائٹی میں قاتل کی جان بچانے کیلئے اس کی کم سن بہن یا بیٹی مقتول خاندان کے کسی بڈھے کی ”بیوی“ بنا دی جائے اور جس عالم اسلام کے معتبر ترین ملک میں خواتین کو گاڑی چلانے کے ”جرم“ میں گرفتار کر لیا جائے، وہاں ایک لڑکی کیلئے ایئر ایمبولینس! آخر یہ کس طرح ممکن ہے!


چھبیس دن ارفع کریم موت و حیات کی کشمکش میں رہی، عالم اسلام کی کسی حکومت نے بشمول حکومت پاکستان اس کو دبئی یا امریکہ منتقل کرنے کے انتظامات نہ کیے، انتظامات تو دور کی بات ہے، کسی صدر، کسی وزیر اعظم، کسی بادشاہ، کسی وزیر اعلیٰ کو اتنی توفیق بھی نہ ہوئی کہ وہ آ کر اس نابغہ کو، اس جینیئس کو، اس ہیرے کو، اس موتی کو، اس زندہ معجزے کو.... دیکھ ہی لیتا، بیمار پرسی ہی کر لیتا!


جہاں بات بات پر مذہب کے نام لیوا دھرنے دیتے ہیں اور عوام کی روزمرہ زندگی کو آئے دن غارت کرتے ہیں، جہاں مقدس لوگ جلوس نکالنے کیلئے لاکھوں ڈالر کے معاوضے لیتے ہیں، جہاں چھینک، کھانسی اور زکام کیلئے صوبوں کے حکمرانوں اور پارٹیوں کے سربراہ لندن جاتے ہیں، جہاں ملک کا صدر پورے ملک کے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کو حقارت سے مسترد کرتے ہوئے علاج کے لیے دوسرے ملک میں جاتا ہو، وہاں ارفع کریم کو ایئر ایمبولینس کون مہیا کرتا؟ اسے ہسپتال کون دیکھنے آتا؟ اسکے علاج کی کون فکر کرتا؟ یہ تو ترجیحات کا معاملہ ہے!


ارفع کریم! تم چلی گئیں، اس لیے کہ تمہیں معلوم تھا ہم لوگ تمہارے قابل نہیں! ہمارے پاس تمہارے لیے وقت ہی کہاں تھا! ہم ابھی زمینیں خرید رہے ہیں، ہم اپنے نجی ہوائی جہاز اڑا رہے ہیں، ہم ایئرکنڈیشنڈ  پولٹری فارموں   کی بڑی بڑی   سلطنتیں بنا رہے ہیں۔ ہم رباط سے لیکر کراچی تک اور دبئی سے لیکر جدہ تک محلات اور بُرج اور مینار بنا رہے ہیں۔ ہم جزیرے خرید رہے ہیں۔ ہماری ایک ایک یاچ(کشتی جس میں محل ہوتا ہے) کروڑوں اربوں ڈالروں کی ہے، لندن کا قیمتی سٹور ہمارے لیے اتوار کو نہ کھلے تو ہم پورا سٹور خرید لیتے ہیں۔ ہمیں ہوٹل کا کمرہ نہ ملے تو ہم پورا ہوٹل خرید لیتے ہیں۔ ہمارے باتھ روموں کے واش بیسن، ہمارے کمروں کے کنڈے اور تالے خالص سونے کے ہیں، ہمارے محلات اور فیکٹریاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہم تو اس قدر مصروف ہیں! ہمارے پاس اتنا وقت ہی کہاں تھا کہ ہم ارفع کریم کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے بیرون ملک کے کسی ہسپتال میں منتقل کر دیتے!


پانچ سو سال سے مسلمانوں کے دامن میں کوئی قابل ذکر ایجاد نہیں، ہم نے کوئی نیوٹن، کوئی ایڈیسن، کوئی گراہم بیل، کوئی آئن سٹائن نہیں پیدا کیا۔ پولیو اور ہیپاٹائٹس بی کے ویکسین سے لیکر پینسلین، موتیے کے آپریشن اور ڈیالیسیس کی مشین تک اور مصنوعی گھٹنوں سے لیکر دل کے بائی پاس اور جگر کے ٹرانس پلانٹ تک سب کچھ دوسروں نے کیا ہے۔  ہر دس لاکھ مسلمانوں میں سے صرف دو سو تیس سائنسدان ہیں جب کہ ہر دس لاکھ امریکیوں میں سے چار ہزار اور ہر دس لاکھ جاپانیوں میں سے پانچ ہزار سائنس دان ہیں۔ شنگھائی کی غیر جانبدار جیاﺅ تانگ یونیورسٹی نے دنیا کی بہترین پانچ سو یونیورسٹیوں کی فہرست تیار کی ہے۔ اس میں مسلمان اکثریت والے کسی ایک مسلمان ملک کی یونیورسٹی  بھی جگہ نہیں پا سکی۔


اس لیے کہ ہماری ترجیحات مختلف ہیں، ہماری ترجیحات میں محلات، بینک بیلنس، ذاتی جہاز، یا چیں، چینی کے کارخانے، ، زیورات، جاگیریں، اور قیمتی کاریں شامل ہیں۔ ہم سیاست یا گدی نشینی کے ذریعے ان پڑھ عوام پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں سائنسدانوں کی ضرورت ہے نہ یونیورسٹیوں کی، انجینئروں کی نہ ٹیکنالوجی کی۔ ارفع کریم اگر ایکٹریس ہوتی یا کھلاڑی یا کسی مقتدر خاندان کی چشم و چراغ ہوتی تو عیادت کرنےوالوں میں مشرق وسطیٰ کے شیوخ بھی شامل ہوتے اور ہمارے اپنے حکمران بھی۔ اور ایئر ایمبولینسوں کی قطار لگ جاتی۔ ضمیر جعفری کا یہ شعر مزاحیہ نہیں بلکہ ماتمی ہے:


بڑی مدت سے کوئی دیدہ ور پیدا نہیں ہوتا


جو ہوتا ہے مسلمانوں کے گھر پیدا نہیں ہوتا

Tuesday, January 10, 2012

جو تڑکے شہر میں داخل ہو

پرسوں پاکستان میں دو اہم واقعات رونما ہوئے، ایک شمال میں اور ایک جنوب میں.... تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان دو واقعات کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔ شمال میں یہ ہوا کہ کتوں کی لڑائی کے مقابلے ہوئے، جن پر مبینہ طور پر ایک کروڑ روپے ے زائد کا جوا کھیلا گیا، جیتنے والے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے رہے، اس موقع پر تیسری صنف کے نمائندے بھی وافر مقدار میں موجود تھے جو ٹھمکے لگاتے رہے اور پیسے اکٹھے کرتے کرہے۔ سیالکوٹ میں ہونے والے ان زبردست مقابلوں میں مقامی کتوں کے علاوہ گجرات، جہلم، منڈی بہاﺅالدین، نارووال، شیخوپورہ یہاں تک کہ راولپنڈی تک سے کتوں کو لایا گیا۔ 22 کتوں کے گیارہ مقابلے ہوئے اور ہر مقابلے پر قمار بازی ہوئی۔



دوسرا اہم واقعہ ملک کے جنوبی حصے میں پیش آیا، یہاں ہم ایک بار پھر متنبہ بھی کرتے ہیں اور وضاحت بھی کہ شمال اور جنوب میں پیش آنے والے ان دو واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، کراچی میں زور و شور سے جلسہ ہوا جس میں ہمارے ہیرو پرویز مشرف نے دھواں دھار تقریر کی، یہ تقریر ٹیلی فون پر ہوئی، ٹیلی فون پر تقریروں کا سلسلہ لندن سے شروع ہوا تھا۔ یہ تقریریں سیاسی تھیں، پھر وہ وقت آیا کہ ٹیلی فون کے ذریعے مذہبی تقریریں بھی ہونے لگیں، ایک معروف عالم دین ملک چھوڑ کر کینیڈا جا بسے، پچھلے دنوں انہوں نے راولپنڈی کے ایک جلسہ میں کینیڈا سے ٹیلی فون پر خطاب کیا اور مغرب کے خلاف اعلان جنگ پر زور دیا یعنی وطن اور اہل وطن کو اس مشکل گھڑی میں چھوڑ کر جس مغرب کی گود میں جا بیٹھے ہیں، اسی مغرب کے خلاف اعلان جنگ ہے! میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب۔ لگتا ہے کہ ٹیلی فون یا ویڈیو کے ذریعے جو تقریر بھی ہو گی، بس اسی طرح کی ہو گی!


خیر، پرویز مشرف صاحب نے ٹیلی فون کے ذریعے دھواں دھار تقریر کی، لیکن اس تقریر سے پہلے ان کی اس گفتگو کا ذکر ضروری ہے جو گزشتہ ہفتے انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کی۔ اس میں انہوں نے تین اہم نکات بیان کیے، اوّل یہ کہ پاکستان کے مسائل ”میں ہی حل کر سکتا ہوں، مجھ سے زیادہ کوالیفائیڈ کوئی نہیں“۔ دوم ”میرے آنے سے اگر فوج پر دباﺅ آتا ہے تو آنے دیں، میں آرمی چیف رہا ہوں“ اور سوم ”میں چھوٹا آدمی نہیں ہوں“۔


یعنی پرویز مشرف صاحب جو کچھ بطور صدر کرتے رہے، اس کی ذمہ داری بھی فوج پر ڈال رہے ہیں، شاید وہ یہ چاہتے ہیں کہ فوج ان کے اور قانون کے درمیان خم ٹھونک کر کھڑی ہو جائے اور اگر قانون پرویز مشرف صاحب سے پوچھے کہ دبئی، لندن اور امریکہ کے بنکوں میں آپ کے درجنوں اکاﺅنٹس میں کروڑوں اربوں درہم، ڈالر اور پاﺅنڈ کہاں ے آ گئے تو فوج انہیں اس جواب طلبی سے بچا لے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی مقدس فوج.... جس کے افسر اور جوان ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں۔ پرویز مشرف جیسے انتہائی مشکوک افراد کا دفاع کرے گی؟ پاکستان کی فوج سے محبت کرنے والے پاکستانی عوام اپنی فوج سے اس کی توقع بالکل نہیں رکھتے۔


رہا پرویز مشرف صاحب کا یہ دعویٰ کہ ”میں چھوٹا آدمی نہیں ہوں“ تو دنیا میں آج تک کسی بڑے آدمی نے یہ نہیں کہا کہ میں چھوٹا آدمی نہیں ہوں۔ عمر فاروق اعظمؓ اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے باپ کے اونٹ چرایا کرتے تھے (مفہوم یہی ہے)۔ یوں بھی گیڈر کی موت آتی ہے تو شہر کا رُخ کرتا ہے۔ جب بھی کسی متکبر شخص نے بڑائی کا یا اپنی طاقت کے دوام کا زعم کیا، اسے زوال ہی آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی میں کہا تھا کہ یہ کرسی بہت مضبوط ہے، اسے کرسی سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس ملک کے اداروں کو مکمل تباہی سے دو چار کرنے والے آمر جنرل ضیاءالحق نے وزارت خزانہ اسلام آباد میں ایک اجلاس کے دوران دعویٰ کیا کہ میرا جانے کا کوئی ارادہ نہیں، اس کے کچھ عرصہ بعد اسے جانا پڑ گیا۔ اب پرویز مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ میں چھوٹا آدمی نہیں ہوں۔ دیکھیے، کیا ہوتا ہے، عقل مندوں نے تو کہا تھا کہ.... ع


نہد شاخِ پُر میوہ سر بر زمین


جتنا کسی ٹہنی پر پھل ہو گا اتنا ہی وہ جھکے گی، جو جتنا بڑا ہوتا ہے، جس کا خاندانی پس منظر جتنا نجیب اور شریف ہوتا ہے، اتنا ہی وہ عجز و انکسار کا مالک ہوتا ہے۔


رہی پرویز مشرف صاحب کی کراچی کی ویڈیو تقریر تو اس میں انہوں نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ ”اللہ نے مجھے عزت دی ہے، چھ مرتبہ خانہ کعبہ کے دروازے میرے لیے کھولے گئے“۔ دونوں ہاتھوں میں دو کتے پکڑنے والے، اور سرکاری اجلاسوں میں سارا دن جمائیاں لینے والے پرویز مشرف صاحب کو کاش ڈاکٹر شیر افگن صاحب ہی بتا دیتے کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول کیلئے ہے۔ کعبہ کے دروازے اگر کھولے گئے تو پاکستان کے صدر کیلئے کھولے گئے، پرویز مشرف کیلئے نہیں کھولے گئے اور یہ بھی کہیں نہیں لکھا ہوا کہ کعبہ کا دروازہ کھلنا، کسی کی بڑائی، نیکی یا عزت کی گارنٹی ہے۔ کیا مشرکین مکہ خانہ کعبہ کا احترام نہیں کرتے تھے؟ اور کیا وہ کعبہ کے اندر اور اس کی چھت پر نہیں جاتے تھے؟ لگتا ہے کہ پرویز مشرف صاحب کا تصور اسلام بس یہیں تک محدود ہے۔ اگر باعزت ہونے کا تصور سرکاری خرچ پر پانچ پانچ لاکھ روپے کے سوٹ پہننے پر مبنی ہے تو ان کا فہم اسلام کا تصور بھی اسی سے ملتا جلتا ہو گا!


اس میں شک بھی کیا ہے کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کیلئے صرف وہی کوالیفائیڈ ہیں۔ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے ایسے ہی ”کوالیفائیڈ“ حضرات کا ایک گروہ بنایا تھا جو شام کے شغل کے دوران اس بدقسمت ملک کے اہم امور کے فیصلے کرتا تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس گروہ کے معزز ارکان کے نام سامنے آئیں۔ دس سال تک سیاہ و سفید کا مالک رہ کر آخر مسائل کیوں نہیں حل کیے؟ بیسیوں دفعہ کالا باغ ڈیم بنانے کا دعویٰ کیا، کیوں نہیں بنایا؟ وزیر اعظم بنایا تو ایسے شخص کو جس کا پاکستان سے تعلق ہی کوئی نہیں تھا۔ امداد آکاش نے یہ خوبصورت شعر شاید شوکت عزیز ہی کیلئے کہا تھا:


مجھ میں مقیم شخص مسافر تھا دائمی


سامان ایک روز اٹھایا نکل گیا


حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل کا ادراک پرویز مشرف صاحب کو ہے نہ تھا، ان کی سوچ عامیانہ اور مسائل کا فہم نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں ملکیت زمین کا ڈھانچہ کیا ہے؟ سرداری نظام کیسے ختم ہو سکتا ہےءنظام تعلیم میں کیا خرابیاں ہیں؟ ہمارے پنجاب سے رقبے میں کہیں کم بھارتی پنجاب کئی گنا زیادہ غلہ کیوں پیدا کر رہا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ہمارے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کیوں عنقا ہے؟ یہ اور اس قبیل کے کئی دوسرے مسائل پرویز مشرف جیسے گملوں میں لگے ہوئے جعلی درختوں کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ گملے میں اس لیے کہ دھرتی سے اور دھرتی کی جڑوں سے ان کا آخر تعلق ہی کیا ہے؟ جب تک صدر رہے، سرکاری پروٹوکول، سرکاری اخراجات، ناقابل عبور حصار کے اندر۔ بدبختی کی انتہا یہ کہ جب بھی کراچی جاتے، ٹریفک بارہ بارہ گھنٹوں کیلئے جام ہوتی اور ہر دفعہ کئی اموات واقع ہو جاتیں۔ صدارت سے اترے تو لندن، امریکہ اور دبئی، وہاں بھی حفاظتی حصار۔ ڈالر اور پاﺅنڈ پانی کی طرح بہائے جا رہے ہیں۔ اب واپسی کی خبر ہے تو وہ بھی اس شرط پر کہ امریکہ بھی حفاظت کا ذمہ لے، سعودی عرب بھی گارنٹی دے اور فوج بھی تحفظ کرے۔سبحان اللہ! کیا عوامی لیڈر ہے اور کیا مسائل کا ادراک ہے! لیکن اس عجیب و غریب ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کل وردی میں دس بار منتخب کروانے والے موجود تھے۔ کیا عجب آج وردی بغیر منتخب کروانے والے میسر آ جائیں۔ اس لیے کہ:


یہاں تاج اسکے سر پر ہو گا جو تڑکے شہر میں داخل ہو


یہاں سایہ ہما کا نہیں پڑتا یہاں کوہِ قاف نہیں ہوتا

Tuesday, January 03, 2012

گھوڑوں کے لیے الگ انتظام

پاکستان اس وقت جس گھمبیر مسئلے میں  پھنسا ہوا ہے، آپ کو اس کا اندازہ ہی نہیں!
آپکو اپنی سیاسی بصیرت پر ناز ہے تو آپ یقینا میمو گیٹ کی طرف اشارہ کرینگے، اس وقت اس مسئلہ نے پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے، آپ کا ہاتھ اگر عوام کی نبض پر ہے تو آپ سی این جی اور گھروں میں استعمال ہونےوالی گیس کی طرف اشارہ کرینگے، گاڑیاں کھڑی ہو گئی ہیں، اور چولہے بجھ گئے ہیں، اگلے وقتوں میں چولہے بجھتے تھے تو کم از کم راکھ تو ہوتی تھی، اب تو وہ بھی نہیں ہے، یعنی یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ....ع
کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے؟
بہت زیادہ ذہانت کا ثبوت دینگے تو آپ یہ رونا روئیں گے کہ ریلوے کی موت واقع ہو رہی ہے اور پی آئی اے عالم نزع میں ہے لیکن افسوس! آپکا جواب درست نہیں ہے، یہ مسائل بھی اہم ہیں بلکہ زندگی اور موت کے درمیان عوام کو لٹکانے والے مسائل ہیں، تاہم ان میں سے کوئی مسئلہ بھی اہم ترین کہلانے کا مستحق نہیں!
اطلاعاً عرض ہے کہ اس وقت پاکستان جس مسئلے میں گھرا ہوا ہے اور جاپان کی پشت پر واقع جزائر ہوائی سے لیکر بحر اوقیانوس تک پوری دنیا جس مسئلے کی وجہ سے سراسیمہ ہے، اس مسئلے کی جڑ قصور میں ہے، خورشید محمود قصوری اور سردار آصف احمد علی میں ٹھنی ہوئی ہے، دونوں ایک دوسرے کےخلاف صف آرا ہیں، ایک کہتا ہے میں ٹکٹ لوں گا، دوسرا کہتا ہے، یہ میری سیٹ ہے، انگریزی محاورے کےمطابق دونوں اپنے اپنے گندے کپڑے گھر سے نکال کر تحریک انصاف میں لے گئے ہیں اور وہاں دھو رہے ہیں، خورشید محمود قصوری، پرویز مشرف کے پورے دور اقتدار میں شریک اقتدار رہے ہیں، اس عرصہ میں انہوں نے جو کام علاقے کیلئے بقول انکے اپنے، کیے ہیں، ان کی دہائی دیکر ٹکٹ پر اپنا حق جتا رہے ہیں، یوں بھی نیکی کرکے جتانے کا تعلق تحریک انصاف سے کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ جاوید ہاشمی نواز لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے ہیں، تو انہیں یہ احسان جتایا جا رہا ہے کہ بھائی جان! کل جب آپ جیل میں تھے تو کھانا تو ہمارے ہاں سے آ رہا تھا! جاوید ہاشمی بہت تجربہ کار اور گرم و سرد زمانہ چشیدہ سہی، بہرحال یہاں مار کھا گئے اور حکماءکی یہ نصیحت انہوں نے یاد نہ رکھی کہ کھانا انکے ہاں سے نہ کھانا جو بعد میں جتائیں! اس لیے کہ صرف ”اعلی“ ظرف والے ہی ایسے احسانات جتایا کرتے ہیں!
ذکر خورشید محمود قصوری اور آصف احمد علی کا ہو رہا تھا،اب یہ نہیں معلوم کہ اہل قصور انکے احسانات جتانے سے رقیق القلب ہوتے ہیں یا پلٹ کر فراق گورکھپوری کا یہ شعر سناتے ہیں کہ:
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مسئلئہ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
اسمبلیوں کی نشستیں وراثت کا حصہ ہیں، آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ خورشید محمود قصوری اور آصف احمد علی کے علاوہ بھی اس وراثت کا کوئی حقدار ہو؟ دل چاہتا ہے کہ اہل قصور سے پوچھا جائے:
”الیس منکم رجل الرشید؟“
کیا ان دو کے علاوہ پورے علاقے میں اور کوئی تمہاری نمائندگی کا اہل نہیں؟
دوسری طرف راوی لکھتا ہے کہ شاہ محمود قریشی ”اپنی“ نشست کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ”تین پشتوں سے ہمارے پاس“ ہے! ہم چونکہ سیانے ہیں اس لیے موروثی نشستیں زندہ ہیں، ہم بھارت کی طرح بے وقوف نہیں ہیں، جس نے 1951ءمیں زرعی اصلاحات متعارف کیں اور سیاست میں وراثت کے قصے کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا۔
تحریک انصاف کے حوالے سے ایک اور بات یاد آ گئی، اگر تحریک انصاف اس خیال میں ہے کہ بلی کی طرح بار بار گھر بدلنے والے اس کے سایہ عاطف میں آئے ہیں تو بس اب پوتر ہو گئے ہیں تو یہ اس کی غلط فہمی بلکہ ناپختگی ہے۔ اقبال نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ:
براہیمی     نظر  پیدا  مگر  مشکل  سے    ہوتی  ہے
ہوس سینوں میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں
اس کی مثال جناب خورشید محمود قصوری کا تازہ دورہء یو۔اے۔ای ہے جہاں انکی ملا قات پرویز مشرف سے ”اچانک“ ہو گئی، اخبار کی خبر کےمطابق عمران خان نے قصوری صاحب کو آئندہ محتاط رہنے کا مشورہ (یا حکم؟) دیا ہے! ایک روایت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ قصوری صاحب اپنی
 پارٹی (یعنی اپنی نئی پارٹی) کی طرف سے باقاعدہ مذاکرات کیلئے گئے تھے، اور محتاط رہنے کا مشورہ محض عوام کی تسلی کیلئے ہے!
بہرحال جو کچھ بھی ہے، یہ طے ہے کہ پرویز مشرف اپنی ”مستقل مزاجی“ کی وجہ سے سیاست میں آنے پر تلے ہوئے ہیں اور مصر ہیں کہ ملک کو مسائل سے نجات وہی دلوا سکتے ہیں۔ مسائل کے بارے میں انکی سمجھ بوجھ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اپنے عہد اقتدار میں انہوں نے فخر سے کہا کہ ملک میں کاروں کی تعد اد زیادہ ہو گئی ہے اور یہ ترقی کی علامت ہے! حالانکہ ترقی کی علامت ذاتی کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نہیں ہوتی بلکہ عوامی ٹرانسپورٹ کا نظام ہوتا ہے اور پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ نام کی کوئی شے اس وقت موجود نہیں! مجبوراً ہر شخص کو گاڑی رکھنا پڑ رہی ہے اور سڑکیں کاروں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کا ساتھ نہیں دے پا رہیں۔ آج اگر اسلام آباد، لاہور، اور کراچی میں زیر زمین ریلوے ہوتی تو اسلام آباد سے پنڈی صدر، ڈیفنس لاہور یا ملتان روڈ سے مال روڈ اور ناظم آباد کراچی سے آئی آئی چندریگر روڈ اور بندرگاہ تک شاید ہی کوئی اپنی کار استعمال کرتا۔ دلی میں اس وقت انڈر گراﺅنڈ ریلوے، دنیاکے بہترین نظاموں میں شمار ہوتی ہے۔ آلودگی اور آمدورفت، دونوں مسائل کو انہوں نے ایک تیر سے شکار کیا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ نظام کی بربادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں کاروں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ہوائی سفر کا نظام تباہ ہو جائے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا نتیجہ برآمد ہو گا؟ آپ کے ذہن نے اس سوال کا جو جواب سوچا ہے، وہ سو فیصد درست ہے! جس کی مالی استطاعت ہو گی وہ پی آئی اے کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے بجائے اپنا ذاتی جہاز رکھے گا، یہی تو وہ تازہ ترین خبر ہے جس پر ماتم کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ خبر کے مطابق  کھرب پتی حضرات میں نجی طیاروں کا مقابلہ شروع ہو گیا ہے، ان نجی طیاروں میں سات یا دس کی تعداد تک مسافر بیٹھ سکتے ہیں، یہ پرائیویٹ طیارے ملک کے اندر ہی نہیں، باہر بھی جا رہے ہیں۔ یہاں مزہ یہ بھی ہے کہ بہاول پور، سکھر اور نواب شاہ جیسی چھوٹی جگہوں سے بین الاقوامی پرواز پر جانے والے سیٹھ حضرات کو امیگریشن، کسٹم یا پاسپورٹ کے محکموں والے بھی نہیں دکھائی دیتے۔ جہازوں کی پارکنگ کے اخراجات بھی نہیں لیے جا رہے۔ سبحان اللہ! مزے ہی مزے ہیں، کہاں کی رباعی کہاں کی غزل، یعنی کون سی ریاست اور کون سے امیگریشن اور کسٹم کے قوانین!....
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
رہے عوام.... تو پی آئی اے اور ریلوے کی تباہی کے بعد اب وہ قافلوں کی شکل میں سفر کریں۔ مخیر حضرات کو چاہیے کہ گلگت سے لیکر کراچی تک مناسب فاصلوں پر کنوئیں کھدوائیں اور سرائیں بنوائیں۔ سرائے میں بھٹیارن ہو۔
گھو ڑوں کیلئے الگ انتظام ہو ....
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
ہاں دکھا دے پھر وہی نظارہ صبح و شام تو
 

powered by worldwanders.com