آج تک کوئی نہیں بوجھ سکا!
سائنس نے اتنی ترقی کر لی، سمندر کی گہرائیوں اور خلا کی لا محدود وسعتوں سے انسان ہو آیا۔ انٹرنیٹ کے عجوبے نے ہفتوں مہینوں برسوں کے فاصلے ثانیوں میں طے کر لئے لیکن افسوس! کچھ سربستہ راز ایسے ہیں جو آج تک نہیں کُھل سکے۔ کچھ پہیلیاں ایسی ہیں جن کا آج تک کوئی جواب نہیں دے پایا اور کچھ بجھارتیں ایسی ہیں جو پڑنانی بوجھ سکی نہ نانی نہ ماں نہ نواسی!
مثلاً یہی سربستہ راز لے لیجئے کہ بڑھیا جو چاند پر بیٹھی چرخہ کات رہی ہے، وہاں کیسے پہنچی؟ اور چرخہ کیا ساتھ لے کر گئی یا چاند کی مقامی سہولیات میں یہ شامل تھا؟ کیا کاتی جانےوالی روئی چاند پر اُگنے والی کپاس سے نکلی یاچاند والوں نے زمین سے درآمدکی؟ ان سوالوں کے جواب آج تک کوئی نہیں دے پایا اور وہ گائے جس نے اپنے سینگ پر زمین کو اٹھایا ہوا ہے۔ کھاتی کیا ہے؟ آج تک کسی کو اس کا چارہ لے جاتے نہیں دیکھا گیا اور ان دو مکھیوں نے بالآخر کیا فیصلہ کیا جو سنیما دیکھ کر باہر نکلیں۔ ایک کی رائے تھی کہ ہم اپنے پروں سے اڑکر گھر پہنچیں لیکن دوسری کہتی تھی کہ ہم تھکی ہوئی ہیں کیوں نہ کتا کر لیں! اور یہ جو کہتے ہیں کہ فلاں کی نانی یاد آ گئی تو آخر دادی کیوں نہیں یاد آتی ؟ اور یہ جو کہتے ہیں کہ یہ خالہ جی کا گھر نہیں ہے تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پھوپھی جان کا گھر نہیں ہے اور یہ جو بہت اچھل کود کرنے والے کو کہتے ہیں کہ تم کیا مامے لگتے ہو؟ تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم کیا چاچے لگتے ہو؟
لیکن سربستہ راز جن کا جواب کوئی نہیں دے سکا صرف یہی تو نہیں! ہر دن جو طلوع ہوتا ہے اپنے دامن میں نئے راز لےکر آتا ہے اور نئی بجھارتوں کو جنم دیتا ہے مثلاً یہی بجھارت دیکھ لیجئے کہ پرسوں راولپنڈی میں جو دفاع پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی، اس میں اعجاز الحق کی تقریر کے دوران ”امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے“ کے نعرے لگائے گئے۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ ہم نے اعجاز الحق پر ہمیشہ تنقید کی۔ ہم دیانت داری سے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اداروں کی شکست و ریخت اور قومی خزانے سے غلط بخشیوں کا جو کام ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا اسے جنرل ضیاءالحق نے عروج پر پہنچایا لیکن خدا کے آگے جان ہم نے بھی دینی ہے، اعجاز الحق نے بھی اور دفاع پاکستان کانفرنس کے اصحابِ قضا و قدر نے بھی۔ بات سچی اور انصاف کی کرنی چاہئے بجھارت یہ ہے کہ امریکی غلامی کےخلاف دفاع پاکستان کانفرنس کا انعقاد کرنے والے بزرگوں کو یہ کیوں نہیں معلوم ہوا کہ امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے والے پرویز مشرف کے دست راست تو انکے ساتھ سٹیج پر موجود تھے! بلکہ روایت یہ ہے کہ کانفرنس کے میزبان بھی وہی تھے۔ جو لوگ مشرف کو سید پرویز مشرف کہتے تھے اور امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے سے لے کر لال مسجد کی شہادتوں تک پرویز مشرف کےساتھ تھے۔ انکے بارے میں دفاع پاکستان کانفرنس والے کیوں لاعلم ہیں؟ اور پھر سترہویں ترمیم پرویز مشرف کو پلیٹ میں رکھ کر دینے والی مذہبی (سیاسی) جماعت بھی دفاع پاکستان کانفرنس میں شامل ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے دفاع پاکستان کے کسی اگلے جلسے میں جنرل راشد قریشی اور بیرسٹر سیف بھی سٹیج پر بیٹھے نظر آئیں بلکہ میزبانی کرتے دیکھے جائیں۔
اب ایک اور پہلی دیکھئے ۔ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی ایک سیاسی جماعت کی موجودہ حکومت سے اتنی شدید وابستگی ہے کہ انکے معزز لیڈر نے اعلان کیا ہے کہ جیل تک ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اپنی اس وابستگی کا ثبوت دینے کےلئے وہ سپریم کورٹ بھی تشریف لے گئے۔ پہیلی یہ ہے کہ جتنی وابستگی ان حضرات کو حکومت سے ہے، اس کا چوتھا حصہ بھی صوبے کے عوام سے نہیں! آخر کیوں؟ آپ بجا طور پر یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اتحادی تو اور بھی ہیں۔ ہم انہی کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ تو جناب قصہ یہ ہے کہ دو اہم اتحادی ان کے علاوہ ہیں۔ قاف لیگ اور ایم کیو ایم۔ قاف لیگ اس لئے مرفوع القلم ہے کہ وہ صرف دو سیاسی شخصیات پر مشتمل ہے اور عملی طور پر بکھر چکی ہے۔ رہی ایم کیو ایم تو سارے اختلافات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اسکی اپنے ووٹروں سے وابستگی خیبر پختون خواہ والی جماعت سے کہیں زیادہ ہے۔ انکے ناظم نے کراچی کے حالات بدل کر رکھ دیئے۔ایک یا دو بار انکے احتجاج سے گیس پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ بھی حکومت کو واپس لینا پڑا لیکن اس راز سے کوئی بھی پردہ نہیں اٹھا سکتا کہ اس علاقائی جماعت کو کیوں نہیں معلوم ہو رہا کہ گیس غائب ہے، پٹرول کی قیمتیں آسمان پر ہیں، ریلوے تباہ ہو چکی ہے۔ پی آئی اے آخری سانس لے رہی ہے۔ چلیں ریلوے کی تباہی تو اس جماعت کو اس لئے نظر نہیں آ رہی کہ ریلوے کی وزارت اسی کےپاس ہے لیکن یہ نہیں سمجھ میں آتا کہ آج تک اس جماعت کے قائدین نے مہنگائی، پی آئی اے، سٹیل مل اور کرپشن کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا صوبے کا نام بدلنے کے بعد عوام سے تعلق ختم ہو گیا۔ ہر غلط معاملے میں حکومت کی پیٹھ ٹھونکنے والی اس جماعت کو کیا معلوم ہے کہ خیبر پختون خواہ صوبے میں عوام کی حالت کیا ہے؟ بے روز گاری کتنی ہے؟ خواندگی کا تناسب کس قدر ہے؟ عوام دو وقت کی روٹی کس طرح پوری کر رہے ہیں؟ ٹرانسپورٹ کی صورتحال کیا ہے؟ اس صوبے میں ملتان اور سندھ سے بھی زیادہ گرمی پڑتی ہے، بجلی کے بغیر آخر گرمیاں کس طرح کٹتی ہیں؟ رہا صوبے کا نا م بدلنے کا کارنامہ تو اسکی حقیقت کا اندازہ یوں لگائیے کہ قبائلی علاقے اس صوبے میں شامل ہی نہیں ہونا چاہتے اور الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا پختون بھی آپ کےساتھ نہیں! اگر صوبے کا نام بدلنا سارے مسائل کا حل ہوتا تو قبائلی علاقوں کے عمائدین اور عوام خوشی سے آپکے ساتھ شامل ہو جاتے لیکن ایسا نہیں ہے!آخر کیوں؟
بجھارتوں کا یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پنجاب اسمبلی میں ارکان نے پنجاب پبلک سروس کمشن کی حالت زار کی دہائی دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جنوبی پنجاب کےلئے الگ پبلک سروس کمشن یا اسکی برانچ بنائی جائے۔ ارکان نے یہ بھی کہا ہے کہ ”پنجاب پبلک سروس کمشن میں زیادہ تر ریٹائرڈ پولیس افسروں کی نمائندگی نظر آتی ہے“ نوائے وقت کے ان صفحات میں بہت پہلےہم نے اس عدم توازن کی طرف اشارہ کر دیا تھا ۔ بجھارت یہ ہے کہ آخر پولیس کے ریٹائرڈ افسر ہی کیوں پبلک سروس کمشن میں رکھے جاتے ہیں۔ کیا ایک مخصوص خاندان سے وفاداری کا حو الہ کام آتا ہے یا یہ سب کچھ ایک سینئر، بہت ہی سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی مرضی سے ہوتا ہے جو تنخواہ تو پنجاب حکومت سے لیتا ہے لیکن کام کسی ایسی شخصیت کےساتھ کر رہا ہے جس کا حکومت سے سرکاری تعلق کوئی نہیں! اور آخری بجھارت! ایک سیاسی جماعت کے شہزادے نے ایک نئی فوڈ سٹریٹ کا افتتاح کیا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے یہ نئی فوڈ سٹریٹ کہاں واقع ہے؟ شاہی مسجد اور شاہی قلعے کے درمیان! فوڈ سٹریٹ میں کھانا تیار کرنےوالے چولہوں میں جلنے والی آگ کی حرارت کا اثر ان تاریخی عمارتوں پر بہت خوشگوار ہو گا لیکن اصل بجھارت یہ نہیں! اصل بجھارت یہ ہے کہ ہمارے سیاسی خاندانوں کے شہزادے لائبریریو ں کا افتتاح کیوں نہیں کرتے؟
اس بجھارت کا جواب شاید یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں پیٹ کے بل بوتے پر چلتی ہیں اور لائبریریوں کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے۔ سو دماغ کا یہاں کیا کام؟
سائنس نے اتنی ترقی کر لی، سمندر کی گہرائیوں اور خلا کی لا محدود وسعتوں سے انسان ہو آیا۔ انٹرنیٹ کے عجوبے نے ہفتوں مہینوں برسوں کے فاصلے ثانیوں میں طے کر لئے لیکن افسوس! کچھ سربستہ راز ایسے ہیں جو آج تک نہیں کُھل سکے۔ کچھ پہیلیاں ایسی ہیں جن کا آج تک کوئی جواب نہیں دے پایا اور کچھ بجھارتیں ایسی ہیں جو پڑنانی بوجھ سکی نہ نانی نہ ماں نہ نواسی!
مثلاً یہی سربستہ راز لے لیجئے کہ بڑھیا جو چاند پر بیٹھی چرخہ کات رہی ہے، وہاں کیسے پہنچی؟ اور چرخہ کیا ساتھ لے کر گئی یا چاند کی مقامی سہولیات میں یہ شامل تھا؟ کیا کاتی جانےوالی روئی چاند پر اُگنے والی کپاس سے نکلی یاچاند والوں نے زمین سے درآمدکی؟ ان سوالوں کے جواب آج تک کوئی نہیں دے پایا اور وہ گائے جس نے اپنے سینگ پر زمین کو اٹھایا ہوا ہے۔ کھاتی کیا ہے؟ آج تک کسی کو اس کا چارہ لے جاتے نہیں دیکھا گیا اور ان دو مکھیوں نے بالآخر کیا فیصلہ کیا جو سنیما دیکھ کر باہر نکلیں۔ ایک کی رائے تھی کہ ہم اپنے پروں سے اڑکر گھر پہنچیں لیکن دوسری کہتی تھی کہ ہم تھکی ہوئی ہیں کیوں نہ کتا کر لیں! اور یہ جو کہتے ہیں کہ فلاں کی نانی یاد آ گئی تو آخر دادی کیوں نہیں یاد آتی ؟ اور یہ جو کہتے ہیں کہ یہ خالہ جی کا گھر نہیں ہے تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پھوپھی جان کا گھر نہیں ہے اور یہ جو بہت اچھل کود کرنے والے کو کہتے ہیں کہ تم کیا مامے لگتے ہو؟ تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم کیا چاچے لگتے ہو؟
لیکن سربستہ راز جن کا جواب کوئی نہیں دے سکا صرف یہی تو نہیں! ہر دن جو طلوع ہوتا ہے اپنے دامن میں نئے راز لےکر آتا ہے اور نئی بجھارتوں کو جنم دیتا ہے مثلاً یہی بجھارت دیکھ لیجئے کہ پرسوں راولپنڈی میں جو دفاع پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی، اس میں اعجاز الحق کی تقریر کے دوران ”امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے“ کے نعرے لگائے گئے۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ ہم نے اعجاز الحق پر ہمیشہ تنقید کی۔ ہم دیانت داری سے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اداروں کی شکست و ریخت اور قومی خزانے سے غلط بخشیوں کا جو کام ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا اسے جنرل ضیاءالحق نے عروج پر پہنچایا لیکن خدا کے آگے جان ہم نے بھی دینی ہے، اعجاز الحق نے بھی اور دفاع پاکستان کانفرنس کے اصحابِ قضا و قدر نے بھی۔ بات سچی اور انصاف کی کرنی چاہئے بجھارت یہ ہے کہ امریکی غلامی کےخلاف دفاع پاکستان کانفرنس کا انعقاد کرنے والے بزرگوں کو یہ کیوں نہیں معلوم ہوا کہ امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے والے پرویز مشرف کے دست راست تو انکے ساتھ سٹیج پر موجود تھے! بلکہ روایت یہ ہے کہ کانفرنس کے میزبان بھی وہی تھے۔ جو لوگ مشرف کو سید پرویز مشرف کہتے تھے اور امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے سے لے کر لال مسجد کی شہادتوں تک پرویز مشرف کےساتھ تھے۔ انکے بارے میں دفاع پاکستان کانفرنس والے کیوں لاعلم ہیں؟ اور پھر سترہویں ترمیم پرویز مشرف کو پلیٹ میں رکھ کر دینے والی مذہبی (سیاسی) جماعت بھی دفاع پاکستان کانفرنس میں شامل ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے دفاع پاکستان کے کسی اگلے جلسے میں جنرل راشد قریشی اور بیرسٹر سیف بھی سٹیج پر بیٹھے نظر آئیں بلکہ میزبانی کرتے دیکھے جائیں۔
اب ایک اور پہلی دیکھئے ۔ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی ایک سیاسی جماعت کی موجودہ حکومت سے اتنی شدید وابستگی ہے کہ انکے معزز لیڈر نے اعلان کیا ہے کہ جیل تک ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اپنی اس وابستگی کا ثبوت دینے کےلئے وہ سپریم کورٹ بھی تشریف لے گئے۔ پہیلی یہ ہے کہ جتنی وابستگی ان حضرات کو حکومت سے ہے، اس کا چوتھا حصہ بھی صوبے کے عوام سے نہیں! آخر کیوں؟ آپ بجا طور پر یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اتحادی تو اور بھی ہیں۔ ہم انہی کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ تو جناب قصہ یہ ہے کہ دو اہم اتحادی ان کے علاوہ ہیں۔ قاف لیگ اور ایم کیو ایم۔ قاف لیگ اس لئے مرفوع القلم ہے کہ وہ صرف دو سیاسی شخصیات پر مشتمل ہے اور عملی طور پر بکھر چکی ہے۔ رہی ایم کیو ایم تو سارے اختلافات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اسکی اپنے ووٹروں سے وابستگی خیبر پختون خواہ والی جماعت سے کہیں زیادہ ہے۔ انکے ناظم نے کراچی کے حالات بدل کر رکھ دیئے۔ایک یا دو بار انکے احتجاج سے گیس پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ بھی حکومت کو واپس لینا پڑا لیکن اس راز سے کوئی بھی پردہ نہیں اٹھا سکتا کہ اس علاقائی جماعت کو کیوں نہیں معلوم ہو رہا کہ گیس غائب ہے، پٹرول کی قیمتیں آسمان پر ہیں، ریلوے تباہ ہو چکی ہے۔ پی آئی اے آخری سانس لے رہی ہے۔ چلیں ریلوے کی تباہی تو اس جماعت کو اس لئے نظر نہیں آ رہی کہ ریلوے کی وزارت اسی کےپاس ہے لیکن یہ نہیں سمجھ میں آتا کہ آج تک اس جماعت کے قائدین نے مہنگائی، پی آئی اے، سٹیل مل اور کرپشن کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا صوبے کا نام بدلنے کے بعد عوام سے تعلق ختم ہو گیا۔ ہر غلط معاملے میں حکومت کی پیٹھ ٹھونکنے والی اس جماعت کو کیا معلوم ہے کہ خیبر پختون خواہ صوبے میں عوام کی حالت کیا ہے؟ بے روز گاری کتنی ہے؟ خواندگی کا تناسب کس قدر ہے؟ عوام دو وقت کی روٹی کس طرح پوری کر رہے ہیں؟ ٹرانسپورٹ کی صورتحال کیا ہے؟ اس صوبے میں ملتان اور سندھ سے بھی زیادہ گرمی پڑتی ہے، بجلی کے بغیر آخر گرمیاں کس طرح کٹتی ہیں؟ رہا صوبے کا نا م بدلنے کا کارنامہ تو اسکی حقیقت کا اندازہ یوں لگائیے کہ قبائلی علاقے اس صوبے میں شامل ہی نہیں ہونا چاہتے اور الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا پختون بھی آپ کےساتھ نہیں! اگر صوبے کا نام بدلنا سارے مسائل کا حل ہوتا تو قبائلی علاقوں کے عمائدین اور عوام خوشی سے آپکے ساتھ شامل ہو جاتے لیکن ایسا نہیں ہے!آخر کیوں؟
بجھارتوں کا یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پنجاب اسمبلی میں ارکان نے پنجاب پبلک سروس کمشن کی حالت زار کی دہائی دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جنوبی پنجاب کےلئے الگ پبلک سروس کمشن یا اسکی برانچ بنائی جائے۔ ارکان نے یہ بھی کہا ہے کہ ”پنجاب پبلک سروس کمشن میں زیادہ تر ریٹائرڈ پولیس افسروں کی نمائندگی نظر آتی ہے“ نوائے وقت کے ان صفحات میں بہت پہلےہم نے اس عدم توازن کی طرف اشارہ کر دیا تھا ۔ بجھارت یہ ہے کہ آخر پولیس کے ریٹائرڈ افسر ہی کیوں پبلک سروس کمشن میں رکھے جاتے ہیں۔ کیا ایک مخصوص خاندان سے وفاداری کا حو الہ کام آتا ہے یا یہ سب کچھ ایک سینئر، بہت ہی سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی مرضی سے ہوتا ہے جو تنخواہ تو پنجاب حکومت سے لیتا ہے لیکن کام کسی ایسی شخصیت کےساتھ کر رہا ہے جس کا حکومت سے سرکاری تعلق کوئی نہیں! اور آخری بجھارت! ایک سیاسی جماعت کے شہزادے نے ایک نئی فوڈ سٹریٹ کا افتتاح کیا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے یہ نئی فوڈ سٹریٹ کہاں واقع ہے؟ شاہی مسجد اور شاہی قلعے کے درمیان! فوڈ سٹریٹ میں کھانا تیار کرنےوالے چولہوں میں جلنے والی آگ کی حرارت کا اثر ان تاریخی عمارتوں پر بہت خوشگوار ہو گا لیکن اصل بجھارت یہ نہیں! اصل بجھارت یہ ہے کہ ہمارے سیاسی خاندانوں کے شہزادے لائبریریو ں کا افتتاح کیوں نہیں کرتے؟
اس بجھارت کا جواب شاید یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں پیٹ کے بل بوتے پر چلتی ہیں اور لائبریریوں کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے۔ سو دماغ کا یہاں کیا کام؟