اس کے سر میں ایک سو آنکھیں ہیں
مونہہ میں اڑتالیس دانت ہیں
جسم میں تین دل ہیں۔
ناک کے اندر چھ چاقو ہیں اور ہر چاقو کا استعمال مختلف ہے۔ جسم کے دونوں طرف تین تین پَر ہیں۔ اسی جسم میں جدید ترین ایکس رے مشین نصب ہے۔
یہ کوئی سمندری بلا نہیں، نہ کسی عفریت کی داستان ہے۔ نہ جادو پری کا قصّہ ہے۔ یہ اُس مچھر کا ذکر ہے جو ہمارا خون چوستا ہے لیکن ابھی حیرت کے دروازے بند نہیں ہوئے۔
مچھر کے جسم میں ایک خاص دوا ہے جو انسانی بدن کے اُس حصّے کو سُن کر دیتی ہے جہاں یہ اپنے دانت گاڑتا ہے تاکہ جس کا خون چوسا جا رہا ہے اسے کم سے کم احساس ہو! اسکے اس ذرا سے جسم میں خون ٹیسٹ کرنے کی ایک جدید مشین بھی لگی ہوئی ہے تاکہ یہ انسانی خون کو ٹیسٹ کرے اور اپنی پسند کا خون پی سکے۔ پھر یہ خون پینے کے عمل کو تیز تر بھی کر سکتا ہے تا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خون پی سکے۔
مونہہ میں اڑتالیس دانت ہیں
جسم میں تین دل ہیں۔
ناک کے اندر چھ چاقو ہیں اور ہر چاقو کا استعمال مختلف ہے۔ جسم کے دونوں طرف تین تین پَر ہیں۔ اسی جسم میں جدید ترین ایکس رے مشین نصب ہے۔
یہ کوئی سمندری بلا نہیں، نہ کسی عفریت کی داستان ہے۔ نہ جادو پری کا قصّہ ہے۔ یہ اُس مچھر کا ذکر ہے جو ہمارا خون چوستا ہے لیکن ابھی حیرت کے دروازے بند نہیں ہوئے۔
مچھر کے جسم میں ایک خاص دوا ہے جو انسانی بدن کے اُس حصّے کو سُن کر دیتی ہے جہاں یہ اپنے دانت گاڑتا ہے تاکہ جس کا خون چوسا جا رہا ہے اسے کم سے کم احساس ہو! اسکے اس ذرا سے جسم میں خون ٹیسٹ کرنے کی ایک جدید مشین بھی لگی ہوئی ہے تاکہ یہ انسانی خون کو ٹیسٹ کرے اور اپنی پسند کا خون پی سکے۔ پھر یہ خون پینے کے عمل کو تیز تر بھی کر سکتا ہے تا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خون پی سکے۔
یہ آ ج مچھروں کی خصوصیات کے بارے میں ہم آپ کو کیوں بتانے بیٹھ گئے۔ اس کا جواب تھوڑی دیر میں عرض کرتے ہیں لیکن پہلے ایک ایسی خبر سنیے جو عبرت کا مرقّع ہے۔
ملک میں کرائے کے بجلی گھروں کے ضمن میں کرپشن کا جو بازار گرم ہے اور جس طرح بجلی کے صارفین کو دن دہاڑے لوُٹا جا رہا ہے اس کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ اور اسی حکومت کے ایک وفاقی وزیر نے اپنی حکومت کےخلاف کروڑوں اربوں کے کرپشن کے نہ صرف الزامات لگائے بلکہ ان الزامات کے بارے میں ثبوت پیش کر کے الزامات کو درست بھی ثابت کردیا۔
وفاقی وزیر فیصل صالح حیات نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ”نیپرا سمیت متعلقہ اداروں نے منصوبوں میں شفافیت کیلئے بنائے گئے رولز کو فالو نہیں کیا ۔ جو دعوے کیے گئے کہ ان منصوبوں میں بین الاقوامی نیلامی رولز کو فالو کیا گیا وہ غلط موقف ہے “ وفاقی وزیر نے عدالت عظمیٰ کو یہ بھی بتایا کہ ”نیپرا ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ اس نے آٹھ کمپنیوں کے ٹیرف طے کیے تو کوئی اشتہار شائع نہیں کیا۔ اسکی وجہ بھی معلوم ہونی چاہیے۔ “
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ نیپرا کس چڑیا کا نام ہے؟ در حقیقت یہ چڑیا نہیں بلکہ ہاتھی ہے اور وہ بھی سفید ہاتھی ! یہ وفاقی حکومت کا ایک محکمہ ہے جو واپڈا اور وفاقی وزارتِ بجلی سمیت تمام اداروں سے بالا تر ہے اور بجلی کے تمام معاملات طے کرتا ہے۔ اس کی اپنی وضع کردہ تعریف کے مطابق ”یہ ایسا تنظیمی ڈھانچہ مہیا کرےگا جو پاکستانی صارفین کو قابل اعتماد ، محفوظ اور مناسب قیمت پر بجلی میسر کرنے کا انتظام کرےگا “
آ پکا کیا خیال ہے کہ اتنے اہم اور ٹیکنیکل ادارے کا سربراہ کون ہے؟
ایک بار پھر اپنے ذہن میں یہ بات جاگزین کر لیجیے کہ یہ ادارہ پورے ملک کی بجلی کا مائی باپ ہے۔ بجلی پیدا کرنےوالی کمپنیوں کو کنٹرول کرنا، قوانین بنانا ،ان قوانین پر عمل کرانا ، بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا اور قیمت کو متوازن رکھنا ۔ یہ سب اس ادارے کا یعنی نیپرا کا کام ہے۔
آپ کہیں گے کہ اس ادارے کا سربراہ یقینا کوئی انجینیر ہو گا جو بجلی کے سارے تکنیکی معاملات کا ماہر ہو گا۔ اس ٹیکنو کریٹ کی ساری زندگی بجلی کے امور سر کرنے میں گذری ہو گی اور وہ یقینا اتنا علم اور تجربہ رکھتا ہو گا کہ رینٹل پاور منصوبے چلانے والے خرّانٹ انجینئروں اور سائنسدانوں سے معاملات مہارت سے طے کرے!
کاش ایسا ہوتا !
ملک میں کرائے کے بجلی گھروں کے ضمن میں کرپشن کا جو بازار گرم ہے اور جس طرح بجلی کے صارفین کو دن دہاڑے لوُٹا جا رہا ہے اس کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ اور اسی حکومت کے ایک وفاقی وزیر نے اپنی حکومت کےخلاف کروڑوں اربوں کے کرپشن کے نہ صرف الزامات لگائے بلکہ ان الزامات کے بارے میں ثبوت پیش کر کے الزامات کو درست بھی ثابت کردیا۔
وفاقی وزیر فیصل صالح حیات نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ”نیپرا سمیت متعلقہ اداروں نے منصوبوں میں شفافیت کیلئے بنائے گئے رولز کو فالو نہیں کیا ۔ جو دعوے کیے گئے کہ ان منصوبوں میں بین الاقوامی نیلامی رولز کو فالو کیا گیا وہ غلط موقف ہے “ وفاقی وزیر نے عدالت عظمیٰ کو یہ بھی بتایا کہ ”نیپرا ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ اس نے آٹھ کمپنیوں کے ٹیرف طے کیے تو کوئی اشتہار شائع نہیں کیا۔ اسکی وجہ بھی معلوم ہونی چاہیے۔ “
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ نیپرا کس چڑیا کا نام ہے؟ در حقیقت یہ چڑیا نہیں بلکہ ہاتھی ہے اور وہ بھی سفید ہاتھی ! یہ وفاقی حکومت کا ایک محکمہ ہے جو واپڈا اور وفاقی وزارتِ بجلی سمیت تمام اداروں سے بالا تر ہے اور بجلی کے تمام معاملات طے کرتا ہے۔ اس کی اپنی وضع کردہ تعریف کے مطابق ”یہ ایسا تنظیمی ڈھانچہ مہیا کرےگا جو پاکستانی صارفین کو قابل اعتماد ، محفوظ اور مناسب قیمت پر بجلی میسر کرنے کا انتظام کرےگا “
آ پکا کیا خیال ہے کہ اتنے اہم اور ٹیکنیکل ادارے کا سربراہ کون ہے؟
ایک بار پھر اپنے ذہن میں یہ بات جاگزین کر لیجیے کہ یہ ادارہ پورے ملک کی بجلی کا مائی باپ ہے۔ بجلی پیدا کرنےوالی کمپنیوں کو کنٹرول کرنا، قوانین بنانا ،ان قوانین پر عمل کرانا ، بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا اور قیمت کو متوازن رکھنا ۔ یہ سب اس ادارے کا یعنی نیپرا کا کام ہے۔
آپ کہیں گے کہ اس ادارے کا سربراہ یقینا کوئی انجینیر ہو گا جو بجلی کے سارے تکنیکی معاملات کا ماہر ہو گا۔ اس ٹیکنو کریٹ کی ساری زندگی بجلی کے امور سر کرنے میں گذری ہو گی اور وہ یقینا اتنا علم اور تجربہ رکھتا ہو گا کہ رینٹل پاور منصوبے چلانے والے خرّانٹ انجینئروں اور سائنسدانوں سے معاملات مہارت سے طے کرے!
کاش ایسا ہوتا !
لیکن ایسا نہیں ہے۔
آپ کا اندازہ سراسر غلط ہے۔ آپ بھول گئے ہیں کہ آپ کس ملک میں رہ رہے ہیں۔ یہ وہ ملک نہیں جو امانتوں کو انکے سپرد کرے جو انکے اہل ہیں۔ یہاں تو مناصب ان کو دیے جاتے ہیں جو نہ صرف نا اہل ہیں بلکہ متعلقہ شعبے سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے۔
نیپرا کا سربراہ ایک ایسا شخص ہے جس نے زندگی نوکرشاہی میں گذاری۔ یہ صاحب پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کے سیکرٹری تھے۔ شوکت عزیز کے ذاتی معاون ہونے کے ناطے اختیارات انکے سامنے بچھے ہوئے تھے۔ ریٹائر ہونے کا وقت آیا تو ان صاحب نے اپنے آپ کو ورلڈ بنک میں تعینات کرا دیا ۔ اتنے میں پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی اور ورلڈ بنک کی اُس گھی سے چُپڑی پوسٹ پر کسی اور کو بھیج دیا گیا۔ یہ صاحب نیپرا کے سربراہ بن گئے۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ نیپرا چلے اور بجلی کے مسائل حل ہوں۔ مقصد یہ تھا کہ ریٹائر ہو کر بھی یہ پانچ سال کیلئے ٹیکس دہندگان کے خرچے پر پرورش پاتے رہیں۔ اہل پاکستان گرانی کے سیلاب میں غوطے کھا رہے ہیں۔ بجلی ناپید ہے۔ کئی کئی گھنٹے شہر ،قصبے اور گاوں اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں اور بجلی کے ادارے ، یعنی نیپرا ، کا سربراہ وہ شخص ہے جس کا اس شعبے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ کیا ٹیکس دینے والے عوام کو بتایا جائےگا کہ نیپرا کے سربراہ کو اب تک خزانے سے کتنی رقم بطور تنخواہ، اور کتنی رقم بطور سفر خرچ ادا کی گئی ہے؟ کیا کیا مراعات مل چکی ہیں اور بدستور مل رہی ہیں؟ اور انکی وہ کون سی اہلیت اور خصوصیت تھی جس کی بنیاد پر اس ٹیکنیکل اسامی پر انہیں تعینات کیا گیا؟
اب آئیے مچھر کی اُن ”صفات “ کی طرف جو ہم نے اس تحریر کے آغاز میں بیان کی ہیں۔ اگر آپ غور کریں اور انصاف سے کام لیں تو یہ ساری صفات آپ کو نوکرشاہی میں ملیں گی۔جی۔ او ۔ آر کے کئی کئی ایکڑوں پر مشتمل محلات میں مستقل رہنے والے اور ریٹائر ہو کر بھی پانچ پانچ سال جونک کی طرح ریاست کا خون پینے والے نوکر شاہی کے ان اہلکاروں کو غورسے دیکھیے۔ انکے دہانوں میں اڑتالیس اڑتالیس دانت ہیں۔ انکے ایک ایک نتھنے میں چھ چھ چاقو ہیں۔ یہ انسانی کھال کو خوب پہچانتے ہیں اور اس کھال کو اتارنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انکے جسموں کے اندر خون ٹیسٹ کرنے کی جدید ترین مشینیں نصب ہیں جن کی مدد سے یہ اپنی پسند کا خون پیتے ہیں۔ میٹھا ، گاڑھا اور لذیذ خون ! کوئی نیپرا میں بیٹھا ہے ، کوئی پیمرا میں بھنبھنا رہا ہے، کوئی زندگی کے آخری سانس تک اسلام آباد کے حکومت خانوں میں بیٹھ کر اپنی ”مہارت “ کو ”استعمال“ کرنا چاہتا ہے اور کچھ پیرانِ تسمہ پا لاہور اور کراچی کے بابو خانوں میں بےزبان ٹیکس دہندگان کی گردنوں پر بیٹھے بیٹھے ملکِ عدم کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو قبروں کے اندر میز کرسیاں لگوا لیں !
ان موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نیپرا کا سربراہ ایک ایسا شخص ہے جس نے زندگی نوکرشاہی میں گذاری۔ یہ صاحب پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کے سیکرٹری تھے۔ شوکت عزیز کے ذاتی معاون ہونے کے ناطے اختیارات انکے سامنے بچھے ہوئے تھے۔ ریٹائر ہونے کا وقت آیا تو ان صاحب نے اپنے آپ کو ورلڈ بنک میں تعینات کرا دیا ۔ اتنے میں پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی اور ورلڈ بنک کی اُس گھی سے چُپڑی پوسٹ پر کسی اور کو بھیج دیا گیا۔ یہ صاحب نیپرا کے سربراہ بن گئے۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ نیپرا چلے اور بجلی کے مسائل حل ہوں۔ مقصد یہ تھا کہ ریٹائر ہو کر بھی یہ پانچ سال کیلئے ٹیکس دہندگان کے خرچے پر پرورش پاتے رہیں۔ اہل پاکستان گرانی کے سیلاب میں غوطے کھا رہے ہیں۔ بجلی ناپید ہے۔ کئی کئی گھنٹے شہر ،قصبے اور گاوں اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں اور بجلی کے ادارے ، یعنی نیپرا ، کا سربراہ وہ شخص ہے جس کا اس شعبے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ کیا ٹیکس دینے والے عوام کو بتایا جائےگا کہ نیپرا کے سربراہ کو اب تک خزانے سے کتنی رقم بطور تنخواہ، اور کتنی رقم بطور سفر خرچ ادا کی گئی ہے؟ کیا کیا مراعات مل چکی ہیں اور بدستور مل رہی ہیں؟ اور انکی وہ کون سی اہلیت اور خصوصیت تھی جس کی بنیاد پر اس ٹیکنیکل اسامی پر انہیں تعینات کیا گیا؟
اب آئیے مچھر کی اُن ”صفات “ کی طرف جو ہم نے اس تحریر کے آغاز میں بیان کی ہیں۔ اگر آپ غور کریں اور انصاف سے کام لیں تو یہ ساری صفات آپ کو نوکرشاہی میں ملیں گی۔جی۔ او ۔ آر کے کئی کئی ایکڑوں پر مشتمل محلات میں مستقل رہنے والے اور ریٹائر ہو کر بھی پانچ پانچ سال جونک کی طرح ریاست کا خون پینے والے نوکر شاہی کے ان اہلکاروں کو غورسے دیکھیے۔ انکے دہانوں میں اڑتالیس اڑتالیس دانت ہیں۔ انکے ایک ایک نتھنے میں چھ چھ چاقو ہیں۔ یہ انسانی کھال کو خوب پہچانتے ہیں اور اس کھال کو اتارنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انکے جسموں کے اندر خون ٹیسٹ کرنے کی جدید ترین مشینیں نصب ہیں جن کی مدد سے یہ اپنی پسند کا خون پیتے ہیں۔ میٹھا ، گاڑھا اور لذیذ خون ! کوئی نیپرا میں بیٹھا ہے ، کوئی پیمرا میں بھنبھنا رہا ہے، کوئی زندگی کے آخری سانس تک اسلام آباد کے حکومت خانوں میں بیٹھ کر اپنی ”مہارت “ کو ”استعمال“ کرنا چاہتا ہے اور کچھ پیرانِ تسمہ پا لاہور اور کراچی کے بابو خانوں میں بےزبان ٹیکس دہندگان کی گردنوں پر بیٹھے بیٹھے ملکِ عدم کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو قبروں کے اندر میز کرسیاں لگوا لیں !
ان موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
اسی لیے تو یہ ملک ایڑیاں رگڑرہا ہے۔ بین الاقوامی حوالے سے ہم پستی کی اُس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ آئے دن ہماری عزت نیلام ہو رہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے جاپانی سرمایہ کاروں نے ہمارے رخساروں پر زنّاٹے کا تھپڑ رسید کیا ہے۔ پاکستان نے انہیں کراچی میں دو ہزار ایکڑ پر مشتمل معاشی زون کی پیشکش کی تھی لیکن اسے مسترد کرتے ہوئے وہ بھارت پہنچ گئے ہیں جہاں وہ چھ بڑے شہروں میں کاروبار کرینگے۔ دو سال میں جاپان کی پاکستان میں سرمایہ کاری131 ملین ڈالر سے کم ہو کر 26 ڈالر رہ گئی ہے۔ پانی گیس بجلی کا بحران، انفرا سٹرکچر کا نہ ہونا اور بے پناہ کرپشن ! ایسے میں سرمایہ کاری وہی کرےگا جو اندھا بھی ہو اور بہرا بھی۔ جاپان کو تو چھوڑیے اُس پاکستانی کا عزم صمیم دیکھیے جس نے بریڈ فورڈ میں اعلان کیا ہے کہ اب وہ کبھی بھی پاکستان نہیں آئےگا۔ وہ اپنے ملک آیا تھا کہ راولپنڈی سے اسے اغوا کر لیا گیا۔ بیس دن تک اسے زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا اور پندرہ ہزار پائونڈ لے کر چھوڑا گیا۔ اگر پولیس کا کام صرف حکمرانوں کا باڈی گارڈ بننا ہے تو اغوا کنندگان تاوان دے کر ہی چھوٹیں گے !
اسی لیے تو یہ ملک ایڑیاں رگڑرہا ہے۔ بین الاقوامی حوالے سے ہم پستی کی اُس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ آئے دن ہماری عزت نیلام ہو رہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے جاپانی سرمایہ کاروں نے ہمارے رخساروں پر زنّاٹے کا تھپڑ رسید کیا ہے۔ پاکستان نے انہیں کراچی میں دو ہزار ایکڑ پر مشتمل معاشی زون کی پیشکش کی تھی لیکن اسے مسترد کرتے ہوئے وہ بھارت پہنچ گئے ہیں جہاں وہ چھ بڑے شہروں میں کاروبار کرینگے۔ دو سال میں جاپان کی پاکستان میں سرمایہ کاری131 ملین ڈالر سے کم ہو کر 26 ڈالر رہ گئی ہے۔ پانی گیس بجلی کا بحران، انفرا سٹرکچر کا نہ ہونا اور بے پناہ کرپشن ! ایسے میں سرمایہ کاری وہی کرےگا جو اندھا بھی ہو اور بہرا بھی۔ جاپان کو تو چھوڑیے اُس پاکستانی کا عزم صمیم دیکھیے جس نے بریڈ فورڈ میں اعلان کیا ہے کہ اب وہ کبھی بھی پاکستان نہیں آئےگا۔ وہ اپنے ملک آیا تھا کہ راولپنڈی سے اسے اغوا کر لیا گیا۔ بیس دن تک اسے زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا اور پندرہ ہزار پائونڈ لے کر چھوڑا گیا۔ اگر پولیس کا کام صرف حکمرانوں کا باڈی گارڈ بننا ہے تو اغوا کنندگان تاوان دے کر ہی چھوٹیں گے !
اڑتالیس اڑتالیس نوکیلے دانت،
چھ چھ چاقو اور پسند کا خون تلاش کرنے کیلئے دہانوں کے اندر لیبارٹریاں !
چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے کا وقت ہے۔
2 comments:
ز برون در گذشتم ز درون خانہ گفتم
سخنی نگفتہ ئی را چہ قلندرانہ گفتم
محترم!
جو لوگ قوت گویائی سے محروم ہوں ۔ وہ کیسے "اذانیں" دیں؟
Post a Comment