Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, August 30, 2011

سفید چادرِ غم تھی

میں ہملٹن کے جزیرے میں ہوں۔
 میلبورن سے اڑھائی ہزار کلو میٹر شمال کی طرف--- تین میل لمبا اور دو میل چوڑا یہ جزیرہ صرف اور صرف سیاحت کےلئے ہے اور گنتی کے چند لوگ یہاں مستقل رہائش پذیر ہیں۔ جزیروں کی ایک قطار ہے جو سمندر میں دور تک نظر آتی ہے۔ بادل نیلے پانیوں کو چُھو رہے ہیں اور جزیرے کی شفاف سڑکوں پر اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ آلودگی سے بچنے کےلئے کاریں چلانے کی اجازت نہیں۔ بجلی سے چلنے والی بگھیاں ہیں جو سیاح خود چلاتے ہیں۔ صفائی کا یہ عالم ہے کہ تنکا بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ تنظیم، قانون کی حکمرانی اور شہریت کا شعور۔ ان  تین چیزوں نے اس جزیرے کو جنت کا ٹکڑا بنا رکھا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح آ رہے ہیں۔ آسٹریلیا اربوں ڈالر کا سالانہ زرمبادلہ کما رہا ہے۔ جزیرے میں کوئی پولیس کا افسر، کوئی فوجی، کوئی داروغہ نہیں دکھائی دیتا۔ گورنر ہاوس ہے نہ وزیراعظم کےلئے کوئی مخصوص رہائش، نہ کسی کےلئے کوئی مفت کھاتہ ہے نہ کوئی وی آئی پی ہے اور سچ پوچھئے تو ہر شخص وی آئی پی ہے۔ دُھند، ساحل کی ریت، شفاف نیلگوں پانی، دلرُبا ہَوائیں، سکیورٹی اور دھیما پن، اس قدر کہ کسی شخص کا چیخنا تو درکنار، بلند آواز سے بات بھی کوئی  نہیں کرتا۔ احمد ندیم قاسمی نے شاید کسی ایسے ہی جزیرے کےلئے کہا تھا
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو بُرا لگتا ہے
میں بندرگاہ کی طرف جا نکلتا ہوں۔ دخانی کشتیوں کے جھنڈ کے جھنڈ کھڑے ہیں۔ پوری دنیا کے سیاح جمع ہیں۔ میں ایک ریستوران میں کافی کا ایک کپ لے کر بیٹھتا ہوں۔ رش اس قدر ہے کہ خالی میز کوئی نہیں،  سامنے والی کرسی پر ایک نوجوان رنگ اور چہرے کے نقوش سے پاکستانی یا ہندوستانی لگتا ہے۔ میں اس سے گفتگو شروع کر دیتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ وہ کہاں کا ہے؟ وہ بتاتا ہے کہ سنگاپور کا ہے۔ اگر وہ چینی ہوتا تو میں اس کے جواب سے مطمئن ہو جاتا لیکن میں اب اُس کی ”اصل“ دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ مخصوص پاکستانی سٹائل کا سوال۔ ”پیچھے سے کہاں کے ہیں؟“ اب کے اس نے جواب دیا کہ وہ پیچھے سے بھی سنگاپور کا ہے۔ میرے چہرے پر عدم اطمینان کا اضطراب دیکھ کر اُس نے مہربانی کی اور یہ خبر بہم پہنچائی کہ اُس کے ماں باپ نے مدراس (موجودہ چنائی) سے اُس وقت سنگاپور کو ہجرت کی تھی جب وہ پرائمری سکول میں پڑھتا تھا، لیکن  اس نے ایک بار پھر کہا”میں سنگاپور کا ہوں۔ میرا ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں۔“
یہ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں، مجھے بنگلہ دیش اور بھارت کے کئی لوگ ملے جو اپنے آپ کو سنگاپور یا فجی کے شہری کہتے ہیں اور تو اور ملائشیا میں بسنے والے چینی بھی اپنے آپ کو ملائشین کہتے ہیں! آج تک کوئی ایک چینی مجھے ایسا نہیں ملا جس نے اپنے آپ کو ہانگ کانگ کا یا بیجنگ کا یا شنگھائی کا کہا ہو۔ ملائشیا ہی ان کا وطن ہے۔
اسکے مقابلے میں آپ کراچی کے باشندوں کا جائزہ لیجئے، سالہا سال سے کراچی میں رہ رہے ہیں۔ پانی کراچی کا پی رہے ہیں، ہَوا کراچی کے ساحلوں کی ہے جس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، دھوپ کراچی کے سورج کی ہے جو ان کےلئے زندگی کا سامان بہم پہنچا رہی ہے لیکن ان میں سے کوئی اپنے آپ کو کراچی کا نہیں کہتا۔ کوئی پٹھان ہے، کوئی ہزارے کا ہے، کوئی مہاجر ہے اور کوئی شکارپور سے تعلق رکھتا ہے، چند دن پہلے ایک کالم نگار دوست کی تحریر نظر سے گزری کہ وہ ”شاہی سیّد“ سے ملنے ”مردان ہاوس“ پہنچے۔“ مردان ہاوس یا لاہور ہاوس نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر ہمیں مردان یا لاہور اتنے ہی عزیز ہیں تو ہم مردان یا لاہور ہی میں کیوں نہیں رہتے؟ ہم اپنے آپ کو کراچی ہی کا کیوں نہیں کہتے؟ فیس بُک پر ایک خاتون کا تعارف یوں تھا : پیدائش کراچی، تعلیم کراچی، تعلق (FROM) حیدر آباد، آندھرا پردیش! بندہ پوچھے  بی بی آپ نے آندھرا پردیش تو دیکھا ہی نہیں، اُس سے آپ کا کیا تعلق؟

کراچی کے مسئلے کا حل فوج ہے نہ رینجرز، یہ سب عارضی حل ہیں۔ یہ ڈسپرین سے بخار کو چند گھنٹوں کےلئے دبانے والی بات ہے۔ اصل علاج اینٹی بیاٹک ہے اور وہ یہ کہ کوئی مردان کا ہو نہ آندھرا پردیش کا، مانسہرے کا ہو نہ اٹک کا، شکار پور کا ہو نہ لاڑکانے کا نہ لاہور کا، سب کراچی کے ہوں۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ اے این پی میں سارے پٹھان ہیں اور ایم کیو ایم میں سارے لوگ ایک اور لسانی پس منظر سے ہیں! کراچی کو ایسی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے جو لسانی اور علاقائی حوالوں سے اپنا تعارف نہ کرائیں۔ ایسی سیاسی جماعتوںکی ضرورت ہے جن میں ساری زبانوں اور ساری قومیتوں کے لوگ شامل ہوں۔

ایک بار پھر سنگاپور کا ذکر کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس کالم نگار نے کئی سال پہلے تجویز پیش کی تھی کہ کراچی کے ہر محلے اور ہر حصے میں ملی جُلی زبانوں اور نسلوں کے لوگ رہائش رکھیں۔ سنگاپور میں آج تک نسلی فسادات نہیں ہوئے اسکی وجوہ بہت سی ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ شہر کے ہر حصے میں یہاں تک کہ ہر بلاک میں مختلف نسلوں کی رہائش لازم ہے۔ آپ بھارتی تامل ہیں تو آپ کا پڑوسی بھارتی تامل نہیں ہو سکتا۔ وہ چینی ہو گا یا ملائے، یہ قانونی تقاضا ہے اور اسکی خلاف ورزی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
چنانچہ سنگا پور میں کوئی علاقہ ایسا نہیں جو چینیوں کا ہو یا تامل کا یا ملائے کا! کوالالمپور کی مثال لے لیجئے، 1969ءمیں وہاں چینیوں اور مقامی باشندوں (ملائے) کے درمیان نسلی فسادات ہوئے۔ ملائشیا کی سیاسی قیادت سرجوڑ کر بیٹھی، قیادت میں اتنا وژن تھا اور ایسی صلاحیت تھی کہ اُس نے اپنے فیصلوں سے ملک کی قسمت بدل ڈالی۔ بیالیس سال ہو گئے ہیں کہ نسلی فسادات کا شائبہ تک نہیں گزرا۔ صرف دو فیصلے دیکھئے۔ چینیوں اور ملائے کے درمیان باہمی شادیاں رچانے کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔ مالی فائدے پہنچائے گئے اور یوں دونوں نسلیں ایک دوسرے میں ضم ہوتی جا رہی ہیں۔ دوسرا فیصلہ یہ تھا کہ چینی کارخانہ دار، مقامی لیبر کے لئے منافع میں حصہ رکھیں گے۔

غالباً اصلی اور بڑا پاکستانی وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی تاریخ سے تو کیا، اپنی تاریخ سے بھی کوئی سبق نہ سیکھے۔ مشرقی پاکستان میں یہ ہولناک غلطی کی گئی کہ اردو بولنے والے اصحاب مقامی آبادیوں میں گھل مل کر رہائش پذیر نہ ہو سکے۔ محمد پور اور میرپور کے نام سے الگ بستیاں بسائی گئیں۔ جب فسادات ہوئے تو ان الگ بستیوں کو تباہ و برباد کرنا بہت آسان ثابت ہوا! اب یہ غلطی کراچی میں دہرائی جا رہی ہے۔ سہراب گوٹھ فلاں کا ہے، کٹی پہاڑی فلاں کی ہے اور ناظم آباد فلاں کا ہے۔ کراچی کے حکام میں وژن ہوتا تو لیاری کے باشندوں کی مالی مدد کر کے انہیں پورے شہر میں پھیلا دیتے۔ یوں لیاری پر ایک مخصوص چھاپ نہ رہتی، لیکن جو قیادتیں لوٹ کھسوٹ اور اقربا پروری کے علاوہ کوئی اور ایجنڈا نہ رکھتی ہونے، اُن سے کس وژن کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ آج کراچی کا ہر مظلوم باشندہ زبانِ حال سے دعا مانگ رہا ہے کہ
اِن ظالموں پہ؛پ۰قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
نمرود کی شکل میں آئے یا کسی اور صورت میں۔ قہرِ الٰہی نے آنا ہے اور ضرور آنا ہے۔ کراچی سے اربوں کھربوں کے حساب سے سرمایہ باہر منتقل ہو رہا ہے۔ کاروبار کرنےوالے ملائشیا اور کینیڈا کو ہجرت کر رہے ہیں اور ملک کے وزیراعظم کا ارشاد ہے کہ میں تو اتنے سال سے کراچی میں لاشیں گرتی دیکھ رہا ہوں! !
ہملٹن کے جزیرے پر بادل اُتر آئے ہیں۔ سمندر دھند میں گم ہو گیا ہے۔ کشتیوں کے سفید بادبان برآمدے کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔ میری بیوی مصرع پڑھتی ہے.... ع
سفید صبح کو منظر وہ بادبانوں کا
اور پوچھتی ہے ”تمہارے اس شعر کا پہلا مصرع کیا ہے؟ “
لیکن میں تو ہملٹن کے ساحل پر بیٹھا کراچی کیلئے رو رہا ہوں اور دور سے۔ بہت دور سے۔ پہلا مصرع پڑھ کر اور زور سے رونے لگتا ہوں.... ع
سفید چادرِ غم تھی۔ سفید طائر تھے!

Tuesday, August 23, 2011

مگر مچھ

سامنے جھیل تھی درختوں میں گھری ہوئی۔ جھیل کے پار آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کی عمارت تھی جس پر اس 223 سالہ پرانے ملک کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ بائیں طرف قومی لائبریری تھی۔ لائبریری کے بالکل ساتھ جھیل کے کنارے ارغوانی رنگ کے پیڑوں کی قطار تھی۔ منظر ایسا تھا کہ بس جان نکال کر ہتھیلی پر رکھ دیتا تھا۔ دارالحکومت کینبرا میں پہلی بار آمد پر جس اپارٹمنٹ میں ٹھہرا ہوا تھا، یہ جاں فزا منظر اُس کی کھڑکیوں سے نظر آ رہا تھا۔
کینبرا کےلئے جگہ کا انتخاب 1908ءمیں ہو گیا تھا۔ تعمیر کا کام 1913ءمیں شروع ہوا۔ پارلیمنٹ 1927ءمیں ”عارضی“ عمارت میں منتقل ہو گئی لیکن اسکے بعد ساٹھ سال تک کام ہوتا رہا۔ موجودہ پارلیمنٹ کی عمارت 1988ءمیں آباد ہوئی۔

کینبرا کے دوستوں نے جب پوچھا کہ پارلیمنٹ ہاﺅس کس وقت جانا پسند کرو گے تو جیسے میری چیخ ہی تو نکل گئی۔ کہاں میں اور کہاں آسٹریلیا کی پارلیمنٹ! مجھے اپنے ملک کی پارلیمنٹ کی عمارت یاد آ گئی۔ اُسکے اندر جانا تو دور کی بات ہے، تین تین میل تک پولیس یوں پھیلی ہوئی ہوتی ہے جیسے ایٹمی اثاثے یہیں رکھے ہیں۔ اس علاقے میں پائے جانےوالے پاکستانیوں کے گُردے، انتڑیاں، پھیپھڑے، جگر اور تلی باہر نکال کر خردبین سے دیکھے جاتے ہیں اور پھر انہیں آگے جانے کی اجازت دےکر یوں احسان جتانے کا تاثر دیا جاتا ہے جیسے گرین کارڈ دیا گیا ہے! اس پس منظر میں جب میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کے اندر جانے کے خیال پر پہلے ہنسا اور پھر رویا تو دوست اصل معاملہ سمجھ گئے۔ انہوں نے تسلی دی کہ نہیں! ان بے وقوفوں نے ہر شخص کےلئے پارلیمنٹ کے دروازے کھول رکھے ہیں۔
پولیس تھی نہ رکاوٹیں، پہریدار تھے نہ تلاشیاں۔ صرف صدر دروازے پر سکینر لگا تھا جس میں سے عام ملاقاتی کو بھی گزرنا پڑ رہا تھا اور دونوں ایوانوں (بالا اور زیریں) کے ارکان کو بھی! مجھے بتایا گیا کہ کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی ایم این اے تشریف لائے تو انہوں نے سکینر سے گزرنے سے انکار کر دیا۔ اُن کا اصرار تھا کہ مجھے اس ”بے عزتی“ سے بچایا جائے لیکن جس قانون سے خود آسٹریلیا کے ارکان پارلیمنٹ کو استثنا نہیں تھا، اُس سے ہمارے ایم این اے کو کیسے مستثنٰی کیا جاتا؟
طلبہ کے گروہوں کے گروہ آ رہے تھے۔ معلوم ہئوا کہ یہ روز کا معمول ہے۔پارلیمنٹ کی کارروائی کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ میں پارلیمنٹ کے وسیع و عریض برآمدوں میں گھوم رہا تھا۔ دیواروں پر  تصویروں کے ذریعے پوری تاریخ دکھائی گئی تھی۔ معلومات عام فہم انداز میں درج تھیں۔  سیاحوں کے غول آرہے تھے اور جا رہے تھے۔ کیفے میں رش تھا۔ جب میں سینیٹ ہال دیکھ کر دوسری طرف نکلا تو تب میں نے وہ چیز دیکھی جس نے مجھے سکتے کی کیفیت کی ڈال دیا۔
برآمدوں کے درمیان ، ایک بہت ہی نمایاں مقام پر، ایک چوڑے ستون پر، بائبل کی تصویر تھی۔ اور اس پر لکھا ہوا تھا THE BOOK THAT CHANGED THE WORLD یعنی یہ ہے وہ کتاب.... جس نے دنیا کو تبدیل کر دیا!
میں نے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا.... کیا اس سے زیادہ خلاف واقعہ.... اس سے زیادہ غلط.... بات لکھی جا سکتی ہے؟ نہیں! بائبل! بائبل کے کسی ایک نسخے پر تو آج تک اتفاق ہی نہیں ہو سکا۔ تاریخ میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں گزرا جسے بائبل حفظ ہو۔ اور پھر بائبل نے کون سی دنیا کو تبدیل کیا ہے؟ کون سے قوانین دئیے ہیں؟ کیا اس میں معاشرت کے طریقے سکھائے گئے ہیں یا حکومت کرنے کے اسالیب موجود ہیں؟ میں مسلسل ستون کی طرف دیکھ رہا تھا۔  میں ایک صدمے سے گزر رہا تھا۔ اچانک میرے کاندھے پر ایک نرم ہاتھ آ لگا اور پھر لگا رہ گیا۔ میں نے دائیں طرف دیکھا۔ یہ گوری رنگت کا ادھیڑ عمر  آسٹریلوی تھا۔ کھچڑی بال، نیلا سوٹ، سفید سلک کی قمیض پر دھاری دار نکٹائی۔
”میں تمہیں بہت دیر سے دیکھ رہا ہوں، تم تناﺅ کی کیفیت میں ہو۔ مجھے معلوم ہے تمہیں کس بات سے دھچکا لگا ہے؟“
 میں خاموش تھا! میں کیا کہتا! اُس کا ہاتھ بدستور میرے کاندھے پر تھا!
”کیا تم کیفے تک چل کر میرے ساتھ کافی کی ایک پیالی پی سکتے ہو؟“
میں چل پڑا۔ اُس نے اپنا ہاتھ میرے کاندھے سے نہ ہٹایا۔ کیفے میں پہنچ کر اُس نے مجھے ایک ٹیبل پر بٹھایا۔ اور خود قطار میں کھڑے ہو کر کافی کے دو کپ لے آیا۔
”میں فلاں یونیورسٹی میں تاریخ کا استاد ہوں۔ پروفیسری کرتے بیس سال ہو گئے ہیں۔ ان بیس سالوں میں سے پندرہ سال میں نے صرف مسلمانوں کی تاریخ پڑھائی ہے۔ یہ مسلمانوں کی وہی تاریخ ہے جسے تم اسلامی تاریخ کہتے ہو۔ خیر‘ یہ ایک اور موضوع ہے۔ اس وقت تو ہم وہ باتیں کریں گے جن سے تم تناﺅ کی اس شدید کیفیت سے باہر آ سکو۔
”بائبل نے کونسی دنیا....
اُس نے میرا فقرہ پورا ہی نہ ہونے دیا۔
”تم درست کہتے ہو۔ بائبل کے کسی ایک نسخے پر آج تک اتفاق نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف تمہاری مقدس کتاب قرآن ایک ناقابل تردید معجزہ ہے۔ وہ جو ہیوسٹن میں قرآن پڑھ رہا ہے اور وہ جو فجی میں اور وہ جو ناروے میں اور وہ جو جنوبی افریقہ میں پڑھ رہا ہے، ان سب کے ایک لفظ میں زیر زبر پیش تک کا فرق نہیں ہے۔ دنیا کو تبدیل کرنے میں جو کردار قرآن کا ہے، بائبل اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ادا کر سکی۔ یہ ساری باتیں درست ہیں لیکن اس ستون پر پھر بھی بائبل ہی کی تصویر ہو گی!
”کیوں؟“ میں نے جارحانہ لہجے میں پوچھا۔
”اس لئے کہ دنیا کا ایک اصول ہے۔ وہ یہ کہ ثقافت اُس کی چلے گی جس کا زور ہو گا! جب تمہارا زور تھا تو ملٹن کی تصنیف سے لےکر سسلی کے باغات تک.... تمہارے ادب اور تمہارے کلچر کی ہر جگہ اور ہر شے پر چھاپ تھی۔ اور اب جس مغرب کا زور ہے بائبل اُس کی ثقافت ہے اور یہی ثقافت نمایاں ہو گی! تم غصہ تو کر سکتے ہو، حقائق بھی تمہارے ساتھ ہیں لیکن دنیا میں تہی دست کو کبھی کچھ نہیں ملا۔
اب تم پوچھو گے کہ مغرب کا  زور کیوں ہے؟ اسکی وجہ بہت آسان ہے۔ دنیا میں زور اور طاقت اُسکے پاس ہو گی جو قرآن پر عمل کرےگا۔ مغرب کو اس حقیقت کا علم ہو گیا۔ افسوس! تم مسلمانوں کو اس حقیقت کا پتہ نہ چل سکا۔ تم خود دیکھ لو.... قرآن میں لکھا ہے، جھوٹ نہ بولو۔ ہم اہل مغرب جھوٹ نہیں بولتے۔ ہمارے دکاندار، ہمارے بچے، ہمارے ٹیکس دینے اور لینے والے، ہمارے کارخانہ دار، ہمارے زمیندار۔ کوئی بھی جھوٹ نہیں بولتا۔ تمہارے ہاں صبح سے شام تک سب جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن میں لکھا ہے کہ وعدہ ایفا کرو۔ ہم اس پر عمل کرتے ہیں تم نہیں کرتے۔ قرآن میں لکھا ہے ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ تم کرتے ہو ہم نہیں کرتے۔ قرآن میں علم پر اور تسخیرِ کائنات پر زور دیا گیا  ہے۔ ہمارا ہر مرد اور ہر عورت خواندہ ہے۔ اور تسخیرِ کائنات  کےلئے یونیورسٹیوں میں رات دن پڑھائی اور تحقیق ہو رہی ہے۔ تمہارے رسول نے کہا تھا کہ علم سیکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے لیکن تمہارے ہاں خواندگی بیس فیصد سے زیادہ نہیں۔ تمہاری یونیورسٹیاں بدعنوانی سفارش اور سیاست کے غلیظ گڑھ ہیں‘ ہماری یونیورسٹیوں میں چار چار سو سال سے داخلے اور امتحانوں کی مقررہ تاریخوں میں تبدیلی نہیں ہوئی۔ تمہارے قرآن میں ہے کہ مشورے سے حکومت کرو۔ ہم نے اسکی روشنی میں ایسا نظام بنایا ہے کہ ہمارے صدر اور وزرائے اعظم پارلیمنٹ کے سامنے اور ہماری پارلیمنٹ عوام کے سامنے بے بس ہے۔ تمہارے اٹھاون ملکوں میں سے تین کو چھوڑ کر ہر جگہ آمریت اور بادشاہت ہے۔ تمہارے خلیفئہ راشد نے عوام سے کہا تھا کہ میں غلط چلوں تو مجھے سیدھا رکھو۔ خدا کی قسم! ہماری حکومتیں غلط چلیں تو ہم انہیں تکلے کی طرح سیدھا کر دیتے ہیں۔ ہمارے حکمران ایک پائی کی بددیانتی نہیں کر سکتے اور کریں تو بچ نہیں سکتے۔ قرآن میں .... لکھا ہے کہ امانتیں ان کو دو جو اہل ہیں۔ لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ ملازمتیں۔ جو سب سے بڑی امانت ہیں۔ چودھریوں شریفوں گیلانیوں اور قائم شاہوں کی سفارش سے ملتی ہیں اور امین فہیم کی صاحبزادی کو بغیر کسی امتحان کے فارن سروس میں تعینات کیا جاتا ہے۔  ہمارے ہاں  کوئی چوہدری ہے نہ امین فہیم۔ اسی لیے تو مسلمان ملکوں سے  ہزاروں لاکھوں  اعلا تعلیم یافتہ لوگ آ کر ان ملکوں میں با عزت  روزگار حاصل کر رہے ہیں۔ قرآن میں لکھا ہے کہ کوئی مالک ہے نہ غلام۔ صرف  نیکی  بڑا یا چھوٹا ہونے کا معیار ہے۔ لیکن تمہارے ہاں بلوچستان میں آج 2011ءمیں بھی چھ بڑے نواب ہیں جن کے سامنے بلوچستان کا ہر باشندہ غلام سے بھی کم تر حیثیت کا مالک ہے۔ تم کاریں اور ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل فون، جہاز اور آبدوزیں، ٹرینیں اور لائف سیونگ ادویات۔ ہر چیز ہماری ایجاد کردہ استعمال کر رہے ہو، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ثقافت تمہاری نمایاں ہو؟
جس دن تم قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر سچائی دیانت اور علم کو اپنا لو گے تو پھر اس ستون پر بھی تمہاری مرضی کی تصویر لگ جائےگی لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ تم جھوٹ اور خیانت میں ڈوبی ہوئی زندگی گزارو، تمہارے دراز ریش تاجر ٹیکس چوری کریں اور ملاوٹ کریں، تمہارے رہنما سرمایہ کاری کےلئے ہمارے ملکوں کو ترجیح دیں، تمہارے علما مذہب کو سیڑھی کے طور پر استعمال کریں، تمہاری یونیورسٹیاں سیاسی بونوں کا گڑھ ہوں اور اساتذہ کو وہاں باقاعدہ پیٹا جائے، خلافت کا نعرہ وہ لوگ لگائیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی تنظیموں میں بھی اپنی اولاد ہی کو اپنا جانشین بنائیں اور منتخب ایوانوں میں اپنی غیر منتخب بیٹیوں ہی کو بھیجیں، تمہارے ہاں دنیا کا قدیم ترین فیوڈل اور سرداری نظام ہو۔ اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے۔ تم قرآن کےلئے آنسو بھی بہاﺅ۔ معاف کرنا۔ یہ مگرمچھ کے آنسو تو ہو سکتے ہیں، درد کے آنسو نہیں ہو سکتے!

Tuesday, August 16, 2011

گھوڑے کی کھال

آخر آپ اسے کیا کہیں گے؟
 ناشائستگی ؟
 ایک خاص مائنڈ سیٹ؟
 ایک خاص ذہنی سطح ؟ وہی ذہنی سطح جو پٹواری اور تھانیدار سے اوپر نہیں اُٹھ سکتی
 یا کوئی اور الفاظ جو اسے بیان کر سکیں؟
 آخر آپ اسے کیا کہیں گے؟ جو کچھ قومی اسمبلی میں ہو رہا تھا اور جس طرح رحمن ملک نے بھرے ایوان میں وزیراعظم کو ٹوکا اور منع کیا، اُس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
 خدا کی قسم! کوئی تعلیم یافتہ شخص، کوئی سنجیدہ اور متین پاکستانی، اُن لوگوں سے متاثر نہیں ہو سکتا جو منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہیں، مستثنیات کی بات دوسری ہے لیکن وہ بہت کم ہیں، بہت ہی کم۔ کوئی سنجیدہ اور متین پاکستانی ان لوگوں سے متاثر کیا ہو گا، وہ انکے نزدیک سے بھی گزرنا پسند نہیں کرےگا۔ جو کچھ رحمن ملک نے وزیراعظم سے کہا، اُس سے یہ حقیقت دوپہر کے سورج کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ یہ لوگ بہت ہی افسوسناک ذہنی سطح کے مالک ہیں!
 یہ چار دن پہلے کا واقعہ ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کراچی کی صورتحال پر تقریر کر رہے تھے۔ اس قصے کو فی الحال رہنے دیجئے کہ رحمن ملک کس قسم کے وزیر ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ زیر بحث کراچی کی صورتحال تھی ۔ الم ناک اور خون کے آنسو رُلانے والی صورتحال! اور اس تقریر کے دوران ارکان اسمبلی کی اس موضوع میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنی فائلوں، درخواستوں اور عرضیوں کو ہاتھوں میں پکڑے اپنی نشستوں سے اُٹھ کر، ایوان میں چل پھر کر وزیراعظم کے پاس جا رہے تھے تاکہ ان عرضیوں، ان درخواستوں اور ان سفارشی چٹھیوں پر وزیراعظم کے دستخط کرا سکیں یا اُنکے حوالے کر دیں۔ کوئی فائل اٹھائے وزیراعظم کی نشست کی طرف جا رہا تھا تو کوئی کاغذ پکڑے وہاں سے واپس آ رہا تھا۔ رحمن ملک نے کچھ دیر تو یہ صورتحال برداشت کی لیکن پھر وزیر داخلہ کو اپنے ہی وزیراعظم سے کہنا پڑا کہ ”آپ مجھے ڈسٹرب کر رہے ہیں، جب تک میری تقریر ختم نہیں ہوتی ایسا نہ کریں۔“
آپ کا کیا خیال ہے کہ انتہائی نازک اور دل کو بوجھل کر دینے والی کراچی کی صورتحال کیا اسی توجہ کی محتاج تھی؟ اور اگر ارکان اسمبلی کی ذہنی سطح ایسی نہیں ہے کہ صورتحال کا ادراک کر سکے تو کیا وزیراعظم کو بھی اپنے وزیر داخلہ کی تقریر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی؟ اس سوال کا جواب آپ اپنے آپ سے پوچھیئے!

یہ کس قسم کے لوگ ہیں جو منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا یہ تعلیم یافتہ ہیں؟ تعلیم کو بھی چھوڑئیے، کیا ان کی اکثریت دیانت دار ہے؟ اور کیا ان میں سے زیادہ تر شائستہ اور متین ہیں؟ تازہ ترین اطلاعات کےمطابق ان ارکان اسمبلی نے گذشتہ تین سال کے دوران 25کروڑ 26 لاکھ روپے کے ہوائی ٹکٹ استعمال کئے۔ قاعدے کی رُو سے استعمال شدہ ٹکٹ قومی اسمبلی کے دفتر میں جمع کرائے جانے تھے لیکن نہیں کرائے گئے۔ صرف پچھلے ایک سال کے دوران 33 لاکھ روپے کا کوئی حساب نہیں مل رہا۔ وزیر حضرات اپنے محکموں سے بھی سفر خرچ لے رہے ہیں اور قومی اسمبلی سے بھی ہوائی ٹکٹ لے رہے ہیں۔ اس سارے قصے میں سب سے زیادہ عبرت ناک بات یہ سامنے آئی ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی ہوائی ٹکٹ لیتے رہے ہیں! کیا آپکے ذخیرہء الفاظ میں ایسی لغت موجود ہے جسے آپ اس موقع پر استعمال کر سکیں یا ان حضرات کے اس رویہ کو بیان کرنے کےلئے الفاظ کم پڑ رہے ہیں؟ عابد علی عابد نے شاید کسی ایسے ہی موقع پر کہا تھا
مری زباں پہ لغت بولتی ہے اور مجھے
ملا نہ لفظ تری آنکھ کے فسوں کے لئے
یہ وہ حضرات ہیں جن میں سے 53 کی ڈگریاں مشکوک پائی گئیں اور اگر صوبائی اسمبلیوں کو بھی شامل کریں تو ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ارکان وہ ہیں جن کی ڈگریوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ان میں سے 61 فی صد وہ ”غربا“ اور ”مساکین“ ہیں جو انکم ٹیکس ہی نہیں ادا کر سکتے! اور یہ خبر تو سارے اخبارات میں چھپی تھی کہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے سینٹ کے امیدواروں سے پندرہ کروڑ روپے فی کس یا فی نشست وصول کئے تھے۔ دینے والوں کے نام بھی شائع ہوئے تھے اور لینے والوں کے بھی۔ اسی سال یعنی 2011ءکی فروری میں ایک شخص نے سپریم کورٹ میں ایک ایم این اے کےخلاف مقدمہ دائر کیا کہ ایم این اے نے ٹیلی ویژن پر تسلیم کیا ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے عوض اُس نے رشوت وصول کی تھی!

 جب اتنے نہائے دھوئے ہوئے، صاف شفاف، افراد اسمبلیوں میں تشریف فرما ہونگے تو وہی ہو گا جو ہو رہا ہے، فاٹا (قبائلی علاقوں) کے سیکرٹریٹ کا افسر ان ارکان اسمبلی کو صاف کہتا ہے کہ میں خرچ ہونےوالی رقوم کا حساب نہیں دوں گا۔ جب ارکان اسمبلی اُسے کہتے ہیں کہ فاٹا میں جعلی ڈگریوں والوں کو ملازمت کےلئے بھرتی کیا گیا ہے تو افسر آگے سے جواب دیتا ہے کہ جعلی ڈگریاں تو ارکان اسمبلی کی بھی ہیں! فاٹا کا افسر اگر باذوق ہوتا تو جواب میں وہی کچھ کہتا جو مسولینی نے اپنے حریفوں سے کہا تھا بقول اقبال

پردہء    تہذیب   میں         غارت گری، آدم کُشی
کل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج
یہ کتنی دلچسپ اور مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ ہمارے ارکان اسمبلی کسی کو جعلی ڈگری کا طعنہ نہیں دے سکتے، انکم ٹیکس کے کسی چور کو نہیں کہہ سکتے کہ تم نے انکم ٹیکس نہیں ادا کیا، کسی کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم نے مالی معاملات میں خیانت کی ہے۔ سید عطااللہ شاہ بخاری نے اس مفہوم کی بات کی کہ کسی کی ماں بہن دیکھی تو اپنی ماں بہن یاد آ گئی، اس موقع پر شاہ صاحب نے غالب کا شعر پڑھا اور اپنی بات سے ایسی مناسبت پیدا کی کہ آج تک واہ واہ ہو رہی ہے
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
ہمارے ارکان اسمبلی کسی مجرم پر کیا سنگ اٹھائیں گے کہ مجرم کو بھی ارکان اسمبلی کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے
بھرم کھل جائے ظالم! تری قامت کی درازی کا
اگر اس طرّہء     پُرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
یہ ارکان اسمبلی، کیا مرکزی اور کیا صوبائی، وہ بیج ہیں جو اہل پاکستان نے زمین میں ڈالے ہیں۔ گندم کے بیج سے گندم اور جو کے بیج سے جو پیدا ہوتے ہیں، یہ بیج جو اسمبلیوں میں ڈالے گئے، دیکھئے ان سے درخت کیسے نکل رہے ہیں۔ ڈی آئی خان والے سرائیکی صوبے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ بہاولپور والے ملتان سے برسر پیکار ہیں۔ سندھ کے اندر سندھ کارڈ والوں کےخلاف ہڑتال ہے، ہزارہ والے پختون خوا کے نام سے بیزار ہیں‘ جیسے ارکان اسمبلی‘ ویسی ہی صورتحال!

 اُس زمانے میں جب وسط ایشیا کے ترک کئی کئی ہفتے اور مہینے گھوڑوں پر سوار ہو کر یا پیدل سفر کرتے تھے، تازہ خوراک کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ وہ خوبانیوں کا ملیدہ بناتے تھے۔ پھر اُسے خشک کرتے تھے۔ پھر پھیلا دیتے تھے یہاں تک کہ وہ چادر کی طرح ہو جاتا تھا۔ اب وہ اسے تہہ کر کے محفوظ کر لیتے تھے۔ اسکا رنگ اور سختی گھوڑے کی کھال کی طرح ہو جاتی تھی۔ اس کا نام عربی میں یہی پڑ گیا یعنی جِلدُ الفرس۔ گھوڑے کی کھال۔ اسے دوران سفر پانی میں گھولتے تو یہ سالن کی طرح ہو جاتا۔ اس سے روٹی کھا لی جاتی تھی! پاکستان کے عوام کا مالیدہ بنایا گیا، پھر اسے خشک کیا گیا، پھر اسے پھیلایا گیا، اب وہ گھوڑے کی کھال بن گئے ہیں اور اہل اقتدار اور اہل سیاست کے سامان میں پڑے ہیں۔ جب ان لوگوں کو بھوک لگتی ہے تو روٹی کے ساتھ اسے چٹ کر جاتے ہیں!

Tuesday, August 09, 2011

جرنیل‘ ملائشیا اور پاسپورٹ

ہے تو یہ بھی ریٹائرڈ جرنیل ۔۔ لیکن دوسروں سے الگ ....

ازان کہ پیروی خلق گمرہی آرد

نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست

اس نے کسی غیر ملکی تھنک ٹینک میں ملازمت اختیار کی نہ اپنا تھنک ٹینک بنایا اور نہ ہی اپنے آپ کو منظرعام پر لانے اور اپنی تشہیر کرنے کا سامان برپا کیا۔ بہت مدت پہلے مقتدرہ قومی زبان میں ایک بزرگ تھے۔ نواح اسلام آباد میں انکے مرغی خانے تھے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن حضرت کو تقاریب کی صدارت کا اتنا شوق تھا کہ مسمریزم سے لےکر مرغیاں پالنے تک جس موضوع پر بھی کوئی تقریب ہوتی تو صدارت ضائع نہ ہونے دیتے۔ جس جرنیل کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ وہ ان ریٹائرڈ معززین سے مختلف ہے جو ناشتہ اخبارات میں اپنی تصویر سے شروع کرتے ہیں۔

مردان میں پیدا ہونےوالے جنرل احسان الحق مسلح افواج کے بلند ترین منصب سے سبکدوش ہوئے تو متانت کےساتھ گوشہ سکوت میں چلے گئے لیکن گذشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں پہلی بار گفتگو کی اور کچھ حساس غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔
ہم پاکستانی بنیادی طور پر جذباتی قوم ہیں۔ ہماری ذہنی خوراک کا زیادہ انحصار سنی سنائی باتوں پر ہے۔ دلیل اور ثبوت۔ جو مسلمانوں کے ہتھیار تھے۔ آج اغیار کے پاس ہیں۔ ہم نے اپنا طرہ امتیاز یہ بنا لیا ہے کہ بات کرتے وقت دلیل کی نہیں‘ دھونس کی ضرورت ہے اور بات سنتے وقت ثبوت نہیں‘ صرف جذبات کی مناسبت درکار ہے۔ ثبوت کے علاوہ ہم کسی بھی شے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ کبھی کسی کا سوٹ اور انگریزی‘ کبھی کسی کا جبہ اور دستار‘ کبھی کسی کے منہ میں ٹھنسا ہوا پائپ اور کبھی کسی کے ہاتھ میں لٹکتی ہوئی تسبیح! آج ہم عدم برداشت کے جس عذاب سے دوچار ہیں اسکی ایک وجہ یہ رویہ بھی ہے کہ ہم جذبات کے غلام ہیں یا شخصیات کے۔

جنرل احسان الحق نے اس عام تاثر کو غلط قرار دیا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے اچانک یو ٹرن لیا اور طالبان کو چھوڑ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے پوری کوشش کی کہ جنگ طویل نہ ہو اور درمیانی راستہ نکل آئے۔ اس وقت جنرل احسان الحق آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ حکومت نے انہیں سعودی عرب بھیجا‘ پاکستان نے یہ تجویز کیا کہ طالبان کو اگر کابل چھوڑنا پڑے تو شمالی اتحاد اس پر قبضہ نہ کرے اور شہر کو اقوام متحدہ کے سپرد کر دیا جائے۔ طالبان کی مرکزی قیادت تو امریکی حملے کے اوائل ہی میں تتر بتر ہو گئی تھی۔ بہرطور جو ذمہ دار افراد بھی میسر آئے پاکستان نے انہیں اس تجویز سے آگاہ کیا ۔ جنرل احسان سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کو ساتھ لےکر پیرس اور لندن گئے اور بات آگے بڑھائی لیکن جب واشنگٹن پہنچے تو معلوم ہوا کہ طالبان نے کابل خالی کر دیا ہے۔ شمالی اتحاد کابل کے دروازوں پر تھا۔ یوں کھیل ختم ہو گیا۔

جنرل نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ پاکستان اور طالبان کی گاڑھی چھنتی تھی اور یک جان دو قالب کا سماں تھا! نائن الیون سے پہلے بھی طالبان کی پالیسیوں سے پاکستان کو اختلاف تھا اور اندرون خانہ‘ نواز شریف کے دور میں اور پھر پرویز مشرف کے دور میں بھی، پاکستان طالبان کو کہتا رہا کہ تم دنیا سے کٹ رہے ہو‘ اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا کرو لیکن بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتیں اور پیچیدگیاں طالبان کی ہٹ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ مومن کا تدبر‘ انکی لغت میں یہ لفظ ہی نہیں تھا۔ نائن الیون کے بعد بھی پوری کوشش کی گئی۔ کئی وفود ملا عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ انہیں عالمی صورتحال سمجھانے کی کوشش کی۔ روس‘ چین‘ ایران‘ شمالی کوریا سب اس معاملے میں امریکہ کےساتھ تھے۔ لیکن ملا عمر نے ایک نہ سنی۔ جنرل احسان الحق کی اس بات کی تصدیق ایک اور ذریعہ سے بھی ہوتی ہے۔ طالبان کے اہم حمایتی اور ہمدرد۔۔ قاضی حسین احمد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ۔۔۔ ”ملا عمر نے جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ جس مزاج کا آدمی ہے اس سے اگر مذاکرات کئے جائینگے تو وہ آج بھی کسی درمیانی راستے کی طرف آنے کے بجائے اپنے اس موقف پر اصرار کرےگا کہ افغانستان کے تمام فریق اسے بلا شرکت غیرے امیر المومنین تسلیم کرکے اسکی بیعت کریں۔“

جنرل احسان الحق نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ عافیہ صدیقی کو پاکستان کے کسی ریاستی ادارے نے اغوا کیا نہ امریکہ کے حوالے کیا۔ جنرل نے وضاحت کی کہ عافیہ صدیقی 2007ءتک پاکستان ہی میں تھیں۔ اس سال انہیں اسلام آباد میں دیکھا گیا جہاں وہ اپنے رشتہ دار کے ہاں تھیں۔ اسی طرح سیف اللہ پراچہ کو بھی کسی ریاستی ادارے نے نہیں پکڑا۔ اسے تو یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ امریکی سفارت خانے یا قونصل خانے جانے سے احتراز کرے اور ملک ہی میں رہے لیکن وہ کسی وجہ سے تھائی لینڈ گیا۔ جہاں سے امریکیوں نے اسے اٹھا لیا۔ اس سوال پر کہ پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں جہاں ہر جرنیل کا ذکر کیا ہے وہاں احسان الحق کا ایک بار بھی ذکر نہیں کیا۔ جنرل نے مسکراتے ہوئے پرویز مشرف کا شکریہ ادا کیا!

پاکستان تیزی سے عالمی تنہائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تازہ ترین دھچکا ہمیں چین سے لگا ہے۔ کاشغر میں علیحدگی پسندوں نے ہلاکت آفریں کارروائیاں کی ہیں۔ چین نے الزام لگایا ہے یا یوں کہئے کہ شکوہ کیا ہے کہ کارروائی کرنےوالے لوگ پاکستان سے تربیت لے کر آئے تھے۔ پہلی بار چین نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا ہے کہ مشرقی ترکستان کی تحریک اسلامی نے پاکستان کے قبائلی علاقے میں پڑائو کیا ہوا ہے اور دھماکہ خیز مواد کی تربیت بھی وہیں دی جا رہی ہے!

فوجی ساز و سامان سے لےکر بندرگاہوں کی ترقی تک ہر معاملے میں چین ہمارا ساتھ دے رہا ہے۔ کئی چینی ماہرین زندگیوں کی قربانی بھی دے چکے ہیں۔ کیا ہم اپنا ملک اپنے دوستوں کو (جو چند ہی ہیں) ناراض کرنے کیلئے استعمال ہونے دینگے؟ پوری اسلامی دنیا کا مرکز سعودی عرب ہے۔ کیا سعودی عرب ایسی تحریکوں کو اپنے ہاں پڑائو ڈالنے کی اجازت دےگا؟ کبھی نہیں! سعودی عرب میں تو ان جماعتوں پر بھی مکمل پابندی ہے جن کے بارے میں پاکستان میں بات بھی کی جائے تو قیامت آجاتی ہے! اسکے باوجود سعودی عرب میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں! قصہ یہ ہے کہ ہر ملک کو اپنی سالمیت عزیز ہے اور کوئی ملک کسی فرد‘ کسی گروہ یا کسی تنظیم کو اجازت نہیں دیتا کہ اسکے قوانین کو پامال کرے چہ جائیکہ دوسرے ملکوں سے اسکے تعلقات میں زہر گھولے۔
ہمیں رومانی جذباتیت سے باہر نکل کر حقیقت پسندی کا سامنا کرنا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جذباتی رویوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام تو فہم‘ تدبر‘ ادراک‘ عقل اور حقیقت سے تعلق رکھنے والا دین ہے۔ رومان پرستی اور جذباتیت کی ایک مثال دیکھئے‘ ملائیشیا نے اپنے ہاں سرمایہ کاری کو فرغ دینے کےلئے 2002ءمیں ایک پروگرام شروع کیا جسے ملائیشیا میرا دوسرا گھر کا نام دیا گیا۔ اس پروگرام کی رو سے پچاس سال سے کم عمر کا کوئی بھی غیر ملکی تین لاکھ ڈالر کی ملائیشیا میں سرمایہ کاری کرکے دس سال کےلئے ملائیشیا میں رہائش اختیار کر سکتا ہے۔ ملائیشیا کے قونصل جنرل نے کراچی میں کچھ دن پہلے بتایا کہ تقریباً سات سو پاکستانیوں نے اس پروگرام کے تحت ایک سو اسی ارب روپے ملائیشیا منتقل کئے ہیں۔ ان پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم سرمائے کے اس اخراج پر افسوس کرتے اور یہ ہمارے لئے کراچی کی بدامنی کے نکتہ نظر سے لمحہ فکریہ ہوتا لیکن ہم نے اس سے بھی رومان نکال لیا اور ہمارے کچھ دوستوں نے اس سے ”آفاقیت“ نکال کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاسپورٹ اور ویزے ہونے ہی نہیں چاہیں۔

دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ملائیشیا نے یہ پروگرام خالص ملکی ترقی کےلئے نکالا ہے اور اس کی کڑی شرائط ہیں۔ اسکے تحت ملائیشیا جانے والوں کی بڑی تعداد غیر مسلموں پر مشتمل ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھانے والے ملکوں میں دسویں نمبر پر آتا ہے۔ ملائیشیا نے اس میں کسی مذہب یا نسل کی تخصیص نہیں رکھی نکتہ جو ہم یہاں بیان کرنا چاہتے ہیں یہ ہے کہ کوئی ملک بھی کسی کےلئے اپنے دروازے رات کو کھلے نہیں رکھتا۔ افغان مہاجرین ایران گئے تو انہیں کیمپوں سے باہر نکلنے نہیں دیا گیا۔ چنانچہ وہ نتائج جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔ ایران ان سے محفوظ رہا ہے۔ آج پاکستان میں زندگی کٹھن دور سے گزر رہی ہے بجلی اور گیس ناپید ہیں اور خوراک کا قحط عفریت بن کر سامنے آنے والا ہے۔ کیا اتنے خوشحال اسلامی ملکوں میں سے کوئی ہمارے لئے اپنے دروازے کھول رہا ہے؟  نہیں۔کوئی ایک بھی نہیں! رہی یہ بات کہ پاسپورٹ نہیں ہونے چاہئیں تو حقیقت کچھ اور ہے! پاسپورٹ کا تو تصور ہی اسلامی خلافت کے زمانے میں مسلمانوں نے دیا ہے۔ اس وقت اسلامی مملکت کے اندر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے کیلئے ایک اجازت نامہ دکھانا ضروری تھا جس پر سفر کرنے والے کے بارے میں اندراج ہوتا تھا کہ اس نے زکوٰة یا ٹیکس یا جزیہ ادا کر دیا ہے۔ اسے عربی میں ”برا“ کہتے تھے یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ تجارتی مال کی نقل و حرکت پر بھی پابندی تھی۔ سرحد پر تاجر کو اجازت نامہ دکھانا پڑتا تھا جسے ”تعارف“ کہا جاتا تھا۔ کوئی عام سی ڈکشنری کھول کر دیکھ لیجئے
 ٹیرف (TARIFF)
 کا لفظ اسی ”تعارف“ سے نکلا ہے!

ہم پاکستان میں ساری اسلامی دنیا کے مسلمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن ہماری سرحدوں اور ہمارے قوانین کا احترام اسی طرح کیا جائے جیسے سعودی عرب‘ ملائیشیا ترکی‘ متحدہ امارات اور دوسرے ملکوں میں کیا اور کرایا جاتا ہے!

Tuesday, August 02, 2011

چیخیں ۔ لاشیں ۔ اور تیز ہَوا

ہَوا تیز چل رہی ہے۔ میلبورن شدید سردی کی آہنی گرفت میں ہے۔ 176 سال پہلے جب اس شہر کی بنیاد پڑی تو یہ ایک گائوں تھا۔ دور افتادہ گائوں، چند جھونپڑیوں کا مجموعہ۔ ایک سو چھہتّر سال کے عرصہ میں گروہِ کفار نے اس گائوں کو دنیا کے تین بہترین شہروں میں شامل کرا لیا۔ بہترین یونیورسٹیوں کے لحاظ سے یہ دنیا کے دس اولین شہروں میں ہے۔

ہَوا تیز چل رہی ہے۔ میرے گھر والے ”داستان“ ڈراما دیکھ رہے ہیں جو حال ہی میں کسی پاکستانی چینل پر چلا ہے۔ تقسیم کے وقت سکھوں نے مسلمانوں پر جو ظلم کئے، وہ اس میں دکھائے گئے ہیں۔ میلبورن کی اس چار دیواری میں سوگ برپا ہے۔ مسلمان لڑکی کو سکھوں نے پکڑ لیا ہے اور وہ ایک بچے کی ماں بن گئی ہے۔ ایسی ہزاروں مسلمان عورتیں مشرقی پنجاب میں رکھ لی گئیں۔ ہزاروں نے کنووں میں چھلانگیں لگا کر موت کو گلے سے لگا لیا۔

پاکستان کےلئے کتنی قربانیاں دی گئیں۔ لاکھوں لاشیں، ہزاروں عورتوں کا اغوا، کس لئے؟ تاکہ مسلمان ،ہندوئوں اور سکھوں کے ظلم سے بچ کر الگ رہ سکیں ۔ تاکہ انصاف مل سکے۔  تاکہ میرٹ کا بول بالا ہو۔ تاکہ مسلمانوں کے غریب بچوں کا ہندوئوں کے ہاتھوں استحصال نہ ہو۔ میرے گھر والے سکھوں کے مظالم پر افسردہ ہیں۔ میں پاکستانی اخبارات پڑھتا ہوں۔ لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں، شہیدوں کا لہو، مسلمان بیٹیوں اور بہنوں سے اٹے ہوئے اندھے کنوئیں، سکھوں کے گھروں میں سسک سسک کر جبراً رہنے والی مسلمان عورتیں، کیا اس لئے کہ آج ہم پر یوسف رضا گیلانی جیسے قانون پسند اور دیانت دار گدی نشین حکمرانی کریں؟ میرٹ! کون سا میرٹ؟ انصاف، کون سا انصاف؟ غریب بچوں کےلئے یکساں مواقع۔ کون سے مواقع؟ 


میں انٹرنیٹ پر اخبارات دیکھتا ہوں۔ میرے کانوں میں مسلمان عورتوں کی چیخیں گونج رہی ہیں۔ میری آنکھیں آج کا پاکستان دیکھ رہی ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر کو سرکاری خزانے سے ایک رقم مہیا کی گئی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ غیر ملکی مہمانوں کو مناسب تحفے دئیے جائیں اور مستحق غربا کو امداد دی جائے۔ خزانے کی اس مد کا نام
ID-2008
تھا۔ اسے ہیڈ آف اکائونٹ کہتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے اس میں سے ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے اپنے دفتر میں کام کرنے والے تنخواہ دار افسروں اور سٹاف کے کھانوں پر خرچ کر دیے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان ملازمین کو مفت ناشتہ، مفت دوپہر کا کھانا اور مفت عشائیہ مہیا کیا جائے گا۔ اس کےلئے انہوں نے اپنی جیب سے نہیں، عوام کے ٹیکس سے رقم نکالی۔ اوسطاً روزانہ تیس ہزار روپے اس عیاشی پر لگے۔ یاد رہے کہ ان کے دفتر میں کام کرنے والے ملازمین کو تنخواہ کے علاوہ خصوصی الائونس، اور ان کے گھروں میں خرچ ہونے والی بجلی اور گیس کےلئے الگ رقم دی جاتی ہے۔ گویا اگر باقی ملازم چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں تو وزیراعظم کے دفتر میں کام کرنے والوں کے دن اور راتیں زیادہ لمبی ہیں! جب پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اعتراض کیا تو خزانے کے صالح افسروں نے اس مقصد کےلئے نئی مد یعنی حسابات میں نئی گنجائش رکھ دی! سوال یہ ہے کہ وہ سارے سرکاری ملازم جو وزیراعظم کے سیکرٹریٹ میں کام نہیں کر رہے کیا بھارت کے ملازم ہیں؟ کس انصاف اور کس میرٹ کے تحت وزیراعظم کے دفتر میں تیس ہزار روزانہ کھانے پر خرچ ہو رہا ہے؟صوبوں اور نیم خود مختار اداروں میں لاکھوں دیانت دار ملازمین مغرب کے بعد تک کام کرتے ہیں!

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے چیئرمین ایاز صادق نے کہا ہے کہ انہوں نے ریلوے کو موت سے بچانے کے لئے مفصل تجاویز پیش کی تھیں لیکن ”نااہل وزیراعظم اور ان کی کابینہ نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔“ ایاز صادق نے الزام لگایا ہے کہ کمیٹی نے بھیانک صورت حال سے ریلوے کو نکالنے کےلئے ایک قابل عمل منصوبہ دیا لیکن وزیراعظم نے کمیٹی کو کوئی اہمیت نہ دی حالانکہ کمیٹی پارلیمنٹ کی نمائندگی کر رہی تھی اور اس میں پیپلز پارٹی سمیت ساری سیاسی جماعتیں شامل تھیں! حکومت کی ”اہلیت“ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کابینہ کا منظور شدہ گیارہ ارب روپے، وزارت خزانہ سے نکلوایا ہی نہ جا سکا! ایاز صادق نے ریلوے کی موت کی تین وجوہات بتائیں، اول : حکومت کا سوتیلا سلوک، دوم : بے پناہ کرپشن اور سوم : بدعنوان افسروں اور بدعنوان عملے کا مکمل عدم احتساب! حرام کھانے کی سطح اتنی پست ہو چکی ہے کہ ملاوٹ والے تیل کی وجہ سے ایک سو اٹھانوے انجن بیکار ہو چکے ہیں، ملاوٹ کرنے والے کھلے عام دندنا رہے ہیں!


سرکاری ہسپتالوں کے سربراہوں کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے سیکرٹریٹ میں طلب کیا گیا ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ بھرتی اُس فہرست کے مطابق ہونی چاہئے جو فہرست وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے ”مہیا“ کی گئی ہے۔ یہ خبر اخبارات میں کھلے عام شائع ہوئی ہے کہ بچوں کے ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر احسن وحید راٹھور کو بتا دیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے پارٹی کے پسندیدہ امیدواروں کو ملازمت نہ دی تو انہیں او ایس ڈی بنا دیا جائے گا۔ ڈاکٹر راٹھور نے یہ گستاخی کی تھی کہ نااہل امیدواروں کو مستقل اسامیوں پر بھرتی کرنے سے معذرت کی تھی۔ لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر افضل اور جناح ہسپتال کے ڈاکٹر افضل شاہین نے بھی وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں یہی کہا کہ جن امیدواروں کےلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے وہ نااہل ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے پاس جب فریادی گئے کہ بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہیں تو ہائی کورٹ نے فیصلہ آنے تک بھرتیوں سے منع کر دیا لیکن اس کا حل قانون کے صوبائی حکیموں نے یہ نکالا ہے کہ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے احکام کے مطابق بھرتی کے خطوط جاری کر دئیے جائیں اور ہائی کورٹ کو آنکھ مارنے کے لئے اُن پر لکھ دیا جائے کہ
These orders are issued subject to the final decision of the writ petition No 15815/2011
گویا عدالتی احکام سے بچنے کےلئے دائرے کے اندر گھومنے کی مضحکہ خیز حرکت صرف وفاقی حکومت نہیں کر رہی۔ حسبِ توفیق سب لگے ہوئے ہیں۔


آپ نے سُنا ہو گا کہ مرکز کی وزارتوں کے کام صوبوں کو سونپ دیے گئے ہیں۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مرکز کے وزیروں کی تعداد کم ہو جائے گی اور اخراجات گھٹ جائیں گے تو آپ غلط فہمی میں ہیں۔ پہلے ڈاکخانے کے محکمے کےلئے الگ سیکرٹری اور وزیر رکھے گئے تھے۔ اب تین مزید وزارتیں ”پیدا“ کی گئی ہیں۔ یہ فیصلہ دو دن پہلے ہُوا ہے۔ ایک وزارت افرادی قوت کی، ایک قومی یکجہتی کی اور ایک پیشہ ورانہ تربیت کی۔ شنید یہ ہے کہ ان اہم نئی وزارتوں پر قاف لیگ کے جمہوری مجاہدوں کو فائز کیا جائے گا۔ مزید ”بچت“ کرنے کےلئے اور بھی بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ کو کھپانے کےلئے ایک اور نئی اسامی نکالی گئی ہے۔ اس پوسٹ کا نام ”کوآرڈی نیٹر“ رکھا گیا ہے۔ تنخواہ لاکھوں میں ہو گی جسے ایم پی ون سکیل کہتے ہیں۔ کیا عجب کل اس قسم کی ”ضروری“ اسامیاں باقی وزارتوں میں بھی پیدا کر لی جائیں۔ ایک اور ریٹائرڈ ملازم کو وزیراعظم کا پریس سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اور بات کہ سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ رکھنے سے منع کیا ہوا ہے۔

باہر ہَوا زور سے چل رہی ہے۔ میلبورن شدید سردی کی لپیٹ میں ہے اندر ڈرامہ ”داستان“ چل رہا ہے۔ سکھوں کے نرغے میں آئی ہوئی مسلمان عورتوں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔ ڈرامہ دیکھنے والا ایک بچہ غصے سے مُٹھیاں بھینچ کر چیختا ہے ”میں سکھوں کو قتل کر دوں گا“ ہزاروں لاکھوں مسلمان عورتوں نے .... فرشتے جن کی عصمت پر گواہی دیتے تھے .... پاکستان کےلئے قربانیاں دیں۔ انصاف کےلئے، میرٹ کےلئے!
انصاف؟ ہاں انصاف! سہیل احمد کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے کیوں کہ اُس نے عدالتِ عظمیٰ کا حکم مانا تھا۔ حسین اصغر کو گلگت بھیج دیا گیا ہے کیوں کہ اس نے حج کرپشن کیس میں وزیراعظم کے فرزند ارجمند سے پوچھ گچھ کرنے کی گستاخی کی تھی۔ ایک سینئر وزیر کے اکائونٹ میں چار کروڑ روپے آئے جو واپس کر دیے گئے، کیوں آئے تھے؟ یہ معلوم کرنے کےلئے کسی سہیل احمد کسی حسین اصغر کو اجازت نہیں دی جائے گی۔


انصاف، میرٹ........
مسلمان عورتوں کی چیخیں....
لاکھوں لاشیں، لہو ، قربانیاں....
وہ دیکھو .... باہر تیز ہوا چل رہی ہے!
 

powered by worldwanders.com