Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 19, 2011

دولہا کی تلاش

امریکی مافیا کے سربراہ نے اپنی دختر نیک اختر کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں اور دولہا تلاش کرنے کےلئے وہ میری منت سماجت کر رہا ہے۔
مافیا کا تعارف کراتا چلوں۔ انیسویں صدی میں جنوبی اٹلی میں، خاص طور پر سسلی کے جزیرے میں، مجرموں نے اپنے اپنے گروہ بنا لئے تھے۔  ان سب گروہوں نے باہم متحد ہو کر ایک انجمن سی بنا لی۔ اسی کو مافیا کہتے ہیں۔ یہ مافیا اتنا طاقتور ہو گیا کہ کاروباری افراد، کارخانہ دار، کرنسی کا کام کرنے والے، باغات کے مالک، سب انکے محتاج ہو کر رہ گئے۔ جو مافیا سے ”معاملہ“ طے نہیں کرتے تھے اُنکی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہیں تھی اور ان کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا تھا۔ دو بہادر مجسٹریٹوں  جوانی فالکن  اور  پائولو برسلی نو  نے مافیا پر ہاتھ ڈالا لیکن 1990 کی دہائی میں دونوں کو قتل کر دیا گیا۔
اٹلی سے امریکہ کی طرف ہجرت کی لہر چلی تو مافیا کی شاخ امریکی ساحلوں پر بھی پہنچ گئی۔ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ امریکی مافیا کی جو دراصل اطالوی ہی تھے ایک آزاد تنظیم بن گئی۔ یہ اور بات کہ سسلی کے جرائم پیشہ گروہوں کےساتھ یہ تعاون کرتی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امریکہ کے چھبیس شہر مافیا کا شکار ہو کر رہ گئے۔ شکاگو، بوسٹن، پٹس برگ، فلاڈلفیا، نیو جرسی، نیویارک، میامی، لاس ویگاس اور کئی دوسرے شہروں میں جرائم کی زیر زمین تنظیموں نے پولیس کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ صرف نیویارک ہی میں پانچ جرائم پیشہ خاندان کام کر رہے ہیں۔ یہ اور دوسرے خاندان مافیا کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ خاندان کا سربراہ مافیا کے اجلاس اٹنڈ کرتا ہے۔ سربراہ کو باس یا ڈان کہا جاتا ہے۔ خاندان کا جو رکن بھی واردات کرےگا اس میں سے باس کا ”حصہ“ باس کو پہنچایا جائےگا۔ باس کا انتخاب ووٹوں سے ہوتا ہے لیکن عام طور سب کو معلوم ہی ہوتا ہے کہ اگلا باس کون ہو گا۔ باس کے بعد دوسری طاقتور شخصیت کو ”انڈر باس“ کہا جاتا ہے۔ یہ جرائم پیشہ خاندان کے روزمرہ کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ باس کے بعد اس کا بھی ہر واردات یا کاروبار میں مقررہ حصہ ہوتا ہے۔
مافیا کے قوانین دلچسپ ہیں اور ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ اہم ترین قانون ”اُمرتا“ ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ کسی صورت میں بھی قانون نافذ کرنےوالے اداروں کو کچھ نہیں بتانا۔ دوسرا قانون یہ ہے کہ مکمل رکن ہونے کیلئے اطالوی نسل سے ہونا لازمی ہے۔ ہاں، رفیق یا پارٹنر کوئی بھی سکتا ہے۔ ایک اصول یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے خاندان سے اپنے خاندان کے کاروبار کا ذکر نہیں کیا جائےگا۔ ارکان ایک دوسرے سے لڑائی نہیں کرینگے۔ قتل کی صورت میں باس کی اجازت کے بغیر بدلہ نہیں لیا جائےگا۔ سب سے زیادہ دلچسپ اصول یہ ہے کہ خاندان کے اندر، کوئی ممبر، کسی دوسرے ممبر کی بیوی کو بُری نظر سے نہیں دیکھے گا۔ مونچھیں یا داڑھی رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ہم جنسی کا ارتکاب کرنے والے کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ مافیا کی سزائیں بھیانک ہوتی ہیں۔ قتل کرنے کے بعد کبھی کبھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں۔ ایک بار نیویارک کے مافیا نے اپنے ایک دشمن کو قتل کیا تو اُسکے منہ میں مردہ فاختہ ٹھونس دی۔ ایک ممبر کو، جو وارداتوں میں سے باس کو حصہ نہیں دے رہا تھا، قتل کر کے اسکے جسم میں تین سو ڈالر ٹھونسے گئے، اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص لالچی تھا

!
مافیا کے جرائم پر کئی ناول لکھے گئے جو بہت مشہور ہوئے۔ بے شمار فلمیں اس موضوع پر بنیں۔ سب سے زیادہ مشہور ناول ”گاڈ فادر“ ہوا۔ اس کا مصنف شہرہء آفاق ادیب ”ماریو پوزو“ ہے۔ اس ناول پر فلم بھی بنی۔ اس فلم کا نام بھی گاڈ فادر ہی تھا اور یہ بہت مشہور ہوئی۔ آج تک اسے شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ اس میں افسانہ کم اور حقیقت زیادہ ہے۔
ماریو پوزو اس کالم نگار کے پسندیدہ مصنفین میں سے ہے، اس کی تین اور کتابوں (دی سسلین، لاسٹ ڈان، اُمرتا) میں بھی مافیا کی کہانی ہے۔ ماریو پوزو 1999ءمیں انتقال کر گیا اُس کا آخری ناول (دی فیملی) نامکمل رہ گیا تھا۔ اسے اسکی دوست کارل گینو نے مکمل کیا اور یہ 2001ءمیں شائع ہوا۔


معافی چاہتا ہوں بات دور نکل گئی۔ مقصد یہ تھا کہ اپنے پڑھنے والوں کو اصل بات بتانے سے پہلے کسی حد تک پس منظر سے آگاہ کر دوں۔ میری بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ مافیا کے سربراہ نے اپنی دختر نیک اختر کےلئے دولہا تلاش کرنے کا کام میرے سپرد کیا ہے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔ اتنا ہی آسان ہوتا تو مافیا کا سربراہ ہارورڈ سے فارغ التحصیل کسی بھی نوجوان کو پسند کر لیتا۔ مسئلہ تو بہادری کا ہے۔ نڈر اور بے خوف ہونے کا ہے۔ اب ذرا لڑکی والوں کی یعنی مافیا کی  شرائط بھی سُن لیجئے۔
دولہا بہادر ہو۔ اس قدر بہادر کہ قانون کو  پائوں کے نیچے روندتا پھرے۔
اُسکی ڈگری اصلی نہ ہو بلکہ جعلی ہو۔ اصلی ڈگریاں اُن لوگوں کی ہوتی ہیں جو ڈرپوک ہوتے ہیں۔
اُسکے پاس بغیر لائسنس کے اسلحہ ہو اور بہت سا ہو۔
اسکے ساتھ ہمہ وقت اسکے محافظ رہتے ہوں جو مسلح ہوں۔ یہ اسلحہ بھی بغیر لائسنس کے ہو۔
اسکے پاس بہت زیادہ دولت ہو، زرعی زمین، کارخانے، قیمتی گاڑیاں، بنک بیلنس، سونا، ہیرے جواہرات!

 لیکن جب اثاثے ظاہر کرنے کا وقت آئے تو وہ اپنے آپ کو غریب یا مڈل کلاس ظاہر کرے۔ بالخصوص اثاثوں میں اُسکی گاڑیوں کا ذکر بالکل نہ ہو۔
وہ ٹیکس چوری کرے اور ڈنکے کی چوٹ چوری کرے۔

 جب وہ سفر کر رہا ہو تو اُسکی پجارو پر ایک خاص قسم کی پلیٹ نصب ہو، جسے دیکھ کر پولیس، ائر پورٹ حکام، ٹریفک والے، سب اُسے سلام کریں۔
جب اس نے امتحان دینا ہو تو اُسکی جگہ اُس کا بھتیجا کمرہء امتحان میں بیٹھے۔

اگر کسی کالج کا پرنسپل اسکی سفارش نہ مانے تو وہ پرنسپل کی پھینٹی لگا سکے۔
زمین اور پلاٹوں کے فراڈ کے سلسلے میں اگر پولیس اُسے پکڑ لے تو ”عوام“ پولیس کی گاڑی پر حملہ کر کے اُسے چُھڑا لے جائیں!
وہ ائر پورٹ پر کسٹم کے اہلکاروں کو بھی آنکھیں دکھاتا ہو اور کریڈٹ کارڈ چوری کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔

افسر وں، اُستانیوں، ٹیچروں لیکچراروں ، پٹواریوں، تھانیداروں اور تحصیل داروں کے تبادلے، خاص طور پر اُسکے اپنے علاقے میں، اُسکی مرضی سے ہوں۔

آپ میری حالتِ زار کا اندازہ لگائیے، ایک طرف مافیا اور دوسری طرف ۔۔۔ کیا بتائوں کون ہیں
ایک سب آگ، ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں


کیا آپ میری مدد کریں گے؟ 

8 comments:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

آپکی کہانی یکطرفہ اور پاکستان کی ایک خاص پارٹی سے بغض پہ مبنی ہے۔ جبکہ اس پارٹی سے بلکہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔

مگر پاکستان کی یہ حالت محض آپ جیسے کسی ایک کے وفاداروں کی وجہ سے ہے۔

خدایا آنکھیں کھولیں۔ آپ کب تک صرف مسلم لیگ نون پہ ہی تنقید کئیے جائیں گے؟۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ اور جو لوگ لکھنے میں امپارشل نہ ہوں اکے الفاظ کا اعتماد کھو گیا ہے۔

پارٹیوں کی وفاداری، شخصیتوں کی وفاداری ، اور مخالفت سے نکل کر اپنا اسکوپ وسیع کریں اور ملک و قوم کے مفاد کو اپنا معیار بنائیں، ۔

الفاظ کی حرمت کا بھی حساب ہوگا۔

Muhammad Akhtar Tareen said...

مجھے جاوید گوندل صاحب کی رائے سے اتفاق نہیں ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کالم نگار کسی ایک سیاسی جماعت پر تنقید کر رہا ہے۔یہ تو کوئی بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس میں پارلیمنٹ کے ارکان پر طنز کی گئی ہے۔"" پجارو پر ایک خاص قسم کی تختی نصب"ہونے سے تو یہی لگتا ہے۔قانون شکنی میں،ناجائز دولت اکھٹی کرنے میں،اور سرکاری کاموں میں مداخلت کرنے میں سب ایم این اے ایک جیسے ہیں۔ اور جب مراعات کا مسئلہ آتا ہے تو سب متحد بھی ہو جاتے ہیں۔

Anonymous said...

javed gondal saab you please open your eyes as well. is any of the facts stated above are wrong? if not, and they are not, then why are you calling it "against a single party for the sake of opponence"??? you think pakistani people should ignore these sort of things and talk about something else? well,maybe you can chose to ignore, but people who actually live in pakistan cannot ignore these things. these are just ew examples, of much more widespread injustice and illegitimate use of powers.

gondal saab, i think this column is not against one specific party, it is against the very widespread social evil in pakistan which needs to go.

you please open your eyes and widen your scope.
think beyond just one specific political party!

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

محترم محمد اختر ترین صاحب اور گمنام صاحب۔

ہم مسلم لیگ نون کو دودھ کا دھلا ہوا نہیں سمجھتے۔ اور پاکستانی جماعتوں کے ساتھ بس اتنی سی دلچسپی ہے جتنی ایک عام پاکستانی کو ہوسکتی ہے۔ اور بس۔

مندرجہ بالا تحریر میں اظہارالحق صاحب نے جن دو واقعوں کو اپنی تحریر کی بنیاد بنایا ہے وہ دونوں مسلم لیگ نون سے متعلق ہیں۔

ایک واقعے میں نون لیگ کا قومی اسمبلی کے رکن کی اس مذموم حرکت کے بارے بیان ہے۔ جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسلحے کی نوک پہ بھاگ نکلا۔جبکہ دوسرا واقعہ برسوں پرانا ہے جس میں نون لیگ کی صوبائی اسمبلی کی ایک خاتون رکن ملوث تھیں اور یہ واقعہ سالوں پرانا ہے۔ اور مسلم لیگ نون نے ان دونوں واقعات کی مذمت کی تھی۔

جسطرح آپ نے بجا فرمایا کے آج کے عوام اب ان جھانسوں میں نہیں آنے والے ۔ اسی طرح مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ آج کا قاری سلیم طبع کالم نگاروں سے قرین انصاف پہ مبنی تحریوں کی توقع رکھتا ہے اور جب اسے الفاظ کے ہیر پھیر میں یکطرفہ طور پہ تنقید نظر آتی ہے تو اسے سخت مایوسی ہوتی ہے۔

مسلم لیگ کے ان دونوں واقعں کے درمیان سالوں کا وقفہ ہے۔ کیا اس دوران پاکستان کی سیاست نے کوئی لطیفہ ایسا نہیں چھوڑا ۔ جسے اظہار الحق صاحب بیان کرسکتے؟ یقینا پاکستانی سیاست میں اس دوران بڑے بڑے گھپلے ہوئے۔ لطائف وجود میں آئے۔ گل فشانیاں ہوئیں۔ مگر اظہار الحق صاحب نے انھیں موضوع بنانے سے اجتناب کیا کیونکہ ممکن ہے ایسے تعلقات کا تعلق مسلم نون لیگ سے اس نوعیت کا نہ ہو جسے بنیاد بنا کر کسی ایک پاڑتی کو نشانہ بنایا جاسکتا ہو۔ جیسے مسلم لیگ نون کو۔

اور یہ وہ وجہ ہے جو ہمارے اختلاف کی بنیاد ہے کہ جب آپ اپنے الفاظ کے زریعے اصلاح کا بیڑہ اٹھاتے ہیں تو تو انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق سبھی کو مورد الزام دیں۔ سبھی پارٹیوں میں سے اطالوی مافیا کے سربراہ کا داماد تلاش کریں۔ بے شک نون لیگ پہ بھی اپنی نظر عنائت کریں مگر مگر دوسرے کسی کو معاف بھی مت کریں۔

لیکن جب یکطرفہ طور پہ صرف ایک جمائت کو ہی پاکستانی سیاست کی ہر برائی کی جر بنا کر پیش کیا جائے گا تو ایک عام آدمی اور قاری کی حیثیت سے ہمیں اعتراض ہے۔

البتہ جہاں تک پاکستان کی سیاست کا تعلق ہے تو اسمیں سبھی اپنے مفادات کے گرد گھومتے ہیں اور انمیں مسلم لیگ نواز بھی شامل ہے۔

امید کرتا ہوں آپکی تسلی ہوگئی ہوگی۔

فخرنوید said...

آپ رشتے کے لئے ہاں کر دیں یہ شرائط تو میں پہلے ہفتے میں ہی پوری کردوں گا۔

Anonymous said...

Izhar Sahib, funny that you should talk about the historical Italian mafia, the well known organized crime lords who were a big force in the US during 1920s and 30s. Some of them still operate on limited basis in North America, mainly working with drug cartels.
The most profound mafias of today are various national and international political parties. Through their strategic alliance with like minded nations, they control energy and economy of the world. The imperial America and NATO are just two of those forces. Pakistani political parties are examples of lower ranking mafia groups providing regional services to the afore mentioned international mafias.
All of Pakistani political parties (with the exception of Imran Khan’s party) are feudal operations on various scale. Some of them have lots of looted money which they invest to control elections and then they recover ten times the amount they had invested. The police and a good part of courts are in their back pockets. Two parties which definitely qualify to be called mafias are PPP and MQM with MLN close behind. The political mafia groups operate by being in bed with the larger and more powerful, state funded international mafias such as MI6, CIA, the Neocon-Zionist controlled US administration as well as NATO. PPP mafia has been destroying the country for three and a half years under the illusion of democracy. With the US and NATO blessings, Karzai runs his own mafia franchise out of Kabul.
Pakistani voters must refrain from sporting any of the established political parties such as PPP, MQM, MLN, MLQ, ANP etc to get out of the political mafias. But how many voters actually read and write and have a half decent ability to analyze the mafia ruling them. Not many have the ability or capacity, so the country stays under the clutches of one mafia or the other.

Javed

Mafia-buster said...

Javed Gondal sahab,
may be you should ask the PML-nuun parliamentarians to stop acting like a rotten mafia, so that the columnist does not need to portray the character of their party and upset you so much?

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

سبحان اللہ
مجھے کیا پڑی ہے کہ پاکستانی سیاہ ست دانوں کے منہ لگوں؟ اور آپ کو کس احمق نے کہہ دیا ہے کہ نون لیگ میری سیاسی جماعت ہے؟ نیز میں کالم ناگر کی نگارش پہ اپ سیت ہوا ہوں؟
آپکی کالم نگار کے ساتھ اتنی وفاداری پہ قربان ہونے کو دل کرتا ہے۔ :) ۔

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com