Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 26, 2011

سفید لٹھّا اور کافور

جیسے لوڈشیڈنگ کافی نہیں تھی!

جیسے سی این جی کےلئے میلوں لمبی قطاریں بے بس پاکستانیوں کو اذیت دینے کےلئے کم  تھیں۔

جیسے امن و امان کا لفظ اہل پاکستان کی ڈکشنری سے ختم ہو جانا کافی نہیں تھا۔

اب بتایا جا رہا ہے کہ ریلوے کی قبر تیار ہے ریلوے کے وزیر نے جنازے کے وقت کا تقریباً اعلان کر دیا ہے۔ لٹھا خریدنے کےلئے ہرکارہ بازار جا چکا ہے۔ کافور منگوا لیا گیا ہے۔ مولوی صاحب نے صفوں کی تعداد طاق رکھنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔

قیام پاکستان کے وقت ایک ہزار ریلوے انجن ہمارے حصے میں آئے تھے۔ آج صرف پانچ سو بیس ہیں۔ ان میں سے بھی تین سو سے کم ایسے ہیں جو استعمال میں پھینکے جانے کےلئے انتظار کر رہے ہیں یا کچرے میں پھینکے جانے کےلئے دن گن رہے ہیں۔

پونے دو سو کے قریب پل اسقدر مخدوش ہو چکے ہیں کہ انکے اوپر سے ریل کو گزارنا ہی نہیں چاہئے لیکن یہ پل‘ موت کے یہ پل‘ مسلسل استعمال ہو رہے ہیں کیوں کہ ہمارے صدر ہمارے وزیراعظم‘ ہمارے وزیر‘ ہمارے عوامی نمائندے‘ ہمارے جرنیل‘ ہمارے بیوروکریٹ اور ہمارے سیاستدان ان پلوں سے نہیں گزرتے۔ وہ تو جہازوں اور جہازی سائز کی کاروں میں سفر کرتے ہیں۔ رہے عوام‘ جن کے خون پسینے کی کمائی سے یہ صدر‘ یہ وزیراعظم‘ یہ عوامی نمائندے‘ یہ جرنیل اور یہ بیورو کریٹ‘ مغل شہزادوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں‘ تو یہ عوام ہی تو ان پلوں پر سے گزرتی ٹرینوں میں سوار ہیں‘ اس لئے کہ یہ عوام وہ یتیم ہیں جن کا والی وارث کوئی نہیں۔ اٹک کے علاقے میں ایسے موقعوں پر ایک محاورہ بولا جاتا ہے۔ مَا پِنے تے پتر گھوڑے گھنے‘ ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری کرتا پھر رہا ہے۔ آہ و زاری ہے ایسی ماں کےلئے اور تف ہے ایسے بیٹے پر!

تو کیا ریلوے ایک دن میں ایسی حالت کو پہنچی ہے کہ اسے آکسیجن کی نالی لگی ہوئی ہے؟ ایک مہینے میں؟ یا ایک سال میں؟ نہیں‘ ریلوے کو ایک منصوبہ بندی کے تحت‘ ایک ارادے کے تحت اور ایک باقاعدہ منظم پروگرام کے تحت اس قبر تک پہنچایا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں سچ کہنے کا رواج ہے نہ سچ سننے کا‘ اگر آپ کو کسی کی بات پسند نہیں آرہی تو گھبرائیے بالکل نہیں۔ اسے وطن دشمن کہہ دیجئے‘ ہو سکے تو یہودیوں کا ایجنٹ بلکہ اندر سے مکمل یہودی کہہ دیجئے‘ مجال ہے کہ وہ آئندہ آپ کی مرضی کےخلاف کچھ کہہ جائے۔

ریلوے کے وزیر غلام احمد بلور جو متاثر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور بے چارے بات کریں تو قابل رحم لگتے ہیں۔ ایک سچ بول گئے ہیں لیکن ایسا شخص سچ بھی بولے تو کوئی نہیں توجہ دیتا۔ گذشتہ سال ایک انگریزی معاصرے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریلوے کو اس حالت تک پہنچانے کی ذمہ داری این ایل سی پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارتی ریلوے نے بے پناہ منافع کمایا ہے اس لئے کہ بھارت نے این ایل سی جیسی کوئی تنظیم نہیں بنائی!

کوئی مانے یا نہ مانے‘ کسی کی رعونت والی رگ پھڑکے یا سوئی رہے‘ کوئی اس گستاخی پر میان سے تلوار کھینچ کر اٹھ کھڑا ہو یا بیٹھے بیٹھے ہی تالی بجا دے‘ سچی بات یہ ہے کہ ریلوے کو زندہ درگور کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری این ایل سی (نیشنل لاجسٹک سیل) پر عائد ہوتی ہے! یہ ادارہ اگست 1978ءمیں بنایا گیا۔ اس وقت ایک خاص صورت حال تھی۔ کراچی کی بندرگاہ پر سامان اتنا زیادہ جمع ہو گیا تھا کہ بحری جہازوں کو سامان اتارنے کےلئے ایک ایک مہینہ انتظار کرنا پڑتا تھا اور حکومت کو لاکھوں روپے جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ریلوے کی مدد کی جاتی۔ نئے انجن خریدے جاتے نئی پٹڑیاں بچھائی جاتیں یا کوئی اور عارضی بندوبست کیا جاتا۔ لیکن حکومت فوجی آمر کی تھی۔ یہ کام فوج کے سپرد کر دیا گیا۔ این ایل سی بنائی گئی جو بظاہر تو منصوبہ بندی کمیشن کے تحت تھی لیکن عملی اختیار فوجی افسروں کے ہاتھ میں تھا۔ ظلم یہ کیا گیا کہ اس ادارے میں کام کرنےوالے ہر شخص کو تنخواہ کے علاوہ آدھی تنخواہ کے برابر الائونس بھی دئیے گئے۔ پھر یہ بھی نہ ہوا کہ ایمرجنسی ختم ہونے کے بعد اس ادارے کو ختم کر دیا جاتا۔ اسے مستقل کر دیا گیا۔ مرسڈیز ٹرکوں کی فوجی ظفر موج درآمد کی گئی اور این ایل سی کے حوالے کر دی گئی۔ جو جرنیل اس ادارے کا سربراہ تھا۔ مرد مومن مرد حق نے ریلوے بھی اس کے ماتحت کر دی۔ گویا بلی کو دودھ کی رکھوالی پر لگا دیا گیا۔

این ایل سی کو مضبوط تر کرنے کےلئے ریلوے کی ایسی تیسی کر دی گئی اور سالہا سال تک کی جاتی رہی۔ جب قوی ہیکل ٹرکوں نے شاہراہوں کو توڑنا شروع کر دیا تو مرمت کا کام اور سڑکیں بنانے کا کام بھی این ایل سی کو دےدیا گیا اور یوں این ایل سی انجینئرز کے نام سے ایک اور سفید ہاتھی وجود میں آگیا۔
این ایل سی کے ادارے کا اس بھوکی ننگی قوم پر تازہ ترین احسان یہ ہے کہ اس نے غیر قانونی طور پر‘ اس وقت کے وزیراعظم کے منع کرنے کے باوجود‘ چار ارب روپے سٹاک ایکسچینج کی ”سرمایہ کاری“ میں جھونک دئیے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ان چار ارب میں سے دو ارب روپے قرض لے کر یہ شوق پورا کیا گیا تھا؟ اور اس ”سرمایہ کاری“ میں ملازمین کا پنشن فنڈ بھی ڈال دیا گیا تھا۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی اور اسکے صدر چودھری نثار علی خان کے بے پناہ شور مچانے کے باوجود اس نقصان کے  ذمہ دار یا تو گالف کھیل رہے ہیں یا اعلیٰ سے اعلیٰ تر ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

این ایل سی ریلوے کو بدستور کھا رہی ہے۔ دو ہفتے پہلے کراچی کی خشک گودی (ڈرائی پورٹ) کا انتظام بھی ریلوے سے لےکر این ایل سی کو دےدیا گیا ہے۔ ریلوے اس گودی سے فی ٹرین ایک کروڑ روپے منافع کما رہی تھی۔ یہ درست ہے کہ ریلوے کے پاس انجنوں کی کمی تھی لیکن کیا اس کا حل یہ نہیں تھا کہ ریلوے کو نئے انجن خرید کر دئیے جاتے؟ جس  این ایل سی نے قوم کو چار ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے‘ اسے بند کرنے کے بجائے ریلوے کا مزید کام بھی اسے سونپا جا رہا ہے!

ریلوے کےساتھ یہ کھیل بھی کھیلا گیا کہ اس کا بزنس زیادہ کرنے کے بجائے لاہور میں اسکی اربوں کی زمین پر گالف کلب بنانے کا پروگرام بنایا گیا۔ پرویز مشرف کا زمانہ تھا۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل ریلوے کا وزیر تھا۔ ایک سو اکتالیس ایکڑ ریلوے کی زمین کلب بنانے کےلئے دے دی گئی۔ نرخ جو ہونا چاہئے تھا وہ باون روپے فی مربع گز تھا لیکن چار روپے فی مربع گز پر یہ سونے سے زیادہ قیمتی زمین دےدی گئی۔ اس ”فیاضی“ سے سرکاری خزانہ چار ارب بیاسی کروڑ روپے سے محروم ہو گیا۔ قانون توڑنے پر غرور اس قدر زیادہ تھا کہ آڈیٹر جنرل کا محکمہ دستاویزات مانگتا رہا لیکن خطوں اور یاد دہانیوں کا جواب تک نہیں دیا گیا۔

ریلوے پوری دنیا میں ”کارگو“ سے یعنی سامان برداری سے نفع کماتی ہے۔ مسافروں والا شعبہ کبھی بھی نفع آور نہیں ہوتا۔ جب کارگو کا یعنی سامان ڈھونے کا کام این ایل سی کو دے دیا گیا اور کئی دوسرے ٹرک مافیا کو فائدے پہنچائے گئے تو ریلوے کی مال گاڑیاں زمین بوس ہو گئیں۔ اندھے کو بھی معلوم تھا کہ مسافر گاڑیاں بند ہو جائیں گی۔ چنانچہ بند ہو رہی ہیں۔ ریلوے قبر کے دہانے ایک دن میں نہیں پہنچی۔ نہ ایک ماہ نہ ایک سال میں‘ اس میں پورے 33 سال لگے ہیں۔ سفید لٹھا خریدنے کےلئے ہرکارہ بازار جا چکا ہے۔ آپ بھی جنازے میں شرکت کیجئے۔

Tuesday, July 19, 2011

دولہا کی تلاش

امریکی مافیا کے سربراہ نے اپنی دختر نیک اختر کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں اور دولہا تلاش کرنے کےلئے وہ میری منت سماجت کر رہا ہے۔
مافیا کا تعارف کراتا چلوں۔ انیسویں صدی میں جنوبی اٹلی میں، خاص طور پر سسلی کے جزیرے میں، مجرموں نے اپنے اپنے گروہ بنا لئے تھے۔  ان سب گروہوں نے باہم متحد ہو کر ایک انجمن سی بنا لی۔ اسی کو مافیا کہتے ہیں۔ یہ مافیا اتنا طاقتور ہو گیا کہ کاروباری افراد، کارخانہ دار، کرنسی کا کام کرنے والے، باغات کے مالک، سب انکے محتاج ہو کر رہ گئے۔ جو مافیا سے ”معاملہ“ طے نہیں کرتے تھے اُنکی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہیں تھی اور ان کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا تھا۔ دو بہادر مجسٹریٹوں  جوانی فالکن  اور  پائولو برسلی نو  نے مافیا پر ہاتھ ڈالا لیکن 1990 کی دہائی میں دونوں کو قتل کر دیا گیا۔
اٹلی سے امریکہ کی طرف ہجرت کی لہر چلی تو مافیا کی شاخ امریکی ساحلوں پر بھی پہنچ گئی۔ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ امریکی مافیا کی جو دراصل اطالوی ہی تھے ایک آزاد تنظیم بن گئی۔ یہ اور بات کہ سسلی کے جرائم پیشہ گروہوں کےساتھ یہ تعاون کرتی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امریکہ کے چھبیس شہر مافیا کا شکار ہو کر رہ گئے۔ شکاگو، بوسٹن، پٹس برگ، فلاڈلفیا، نیو جرسی، نیویارک، میامی، لاس ویگاس اور کئی دوسرے شہروں میں جرائم کی زیر زمین تنظیموں نے پولیس کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ صرف نیویارک ہی میں پانچ جرائم پیشہ خاندان کام کر رہے ہیں۔ یہ اور دوسرے خاندان مافیا کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ خاندان کا سربراہ مافیا کے اجلاس اٹنڈ کرتا ہے۔ سربراہ کو باس یا ڈان کہا جاتا ہے۔ خاندان کا جو رکن بھی واردات کرےگا اس میں سے باس کا ”حصہ“ باس کو پہنچایا جائےگا۔ باس کا انتخاب ووٹوں سے ہوتا ہے لیکن عام طور سب کو معلوم ہی ہوتا ہے کہ اگلا باس کون ہو گا۔ باس کے بعد دوسری طاقتور شخصیت کو ”انڈر باس“ کہا جاتا ہے۔ یہ جرائم پیشہ خاندان کے روزمرہ کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ باس کے بعد اس کا بھی ہر واردات یا کاروبار میں مقررہ حصہ ہوتا ہے۔
مافیا کے قوانین دلچسپ ہیں اور ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ اہم ترین قانون ”اُمرتا“ ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ کسی صورت میں بھی قانون نافذ کرنےوالے اداروں کو کچھ نہیں بتانا۔ دوسرا قانون یہ ہے کہ مکمل رکن ہونے کیلئے اطالوی نسل سے ہونا لازمی ہے۔ ہاں، رفیق یا پارٹنر کوئی بھی سکتا ہے۔ ایک اصول یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے خاندان سے اپنے خاندان کے کاروبار کا ذکر نہیں کیا جائےگا۔ ارکان ایک دوسرے سے لڑائی نہیں کرینگے۔ قتل کی صورت میں باس کی اجازت کے بغیر بدلہ نہیں لیا جائےگا۔ سب سے زیادہ دلچسپ اصول یہ ہے کہ خاندان کے اندر، کوئی ممبر، کسی دوسرے ممبر کی بیوی کو بُری نظر سے نہیں دیکھے گا۔ مونچھیں یا داڑھی رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ہم جنسی کا ارتکاب کرنے والے کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ مافیا کی سزائیں بھیانک ہوتی ہیں۔ قتل کرنے کے بعد کبھی کبھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں۔ ایک بار نیویارک کے مافیا نے اپنے ایک دشمن کو قتل کیا تو اُسکے منہ میں مردہ فاختہ ٹھونس دی۔ ایک ممبر کو، جو وارداتوں میں سے باس کو حصہ نہیں دے رہا تھا، قتل کر کے اسکے جسم میں تین سو ڈالر ٹھونسے گئے، اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص لالچی تھا

!
مافیا کے جرائم پر کئی ناول لکھے گئے جو بہت مشہور ہوئے۔ بے شمار فلمیں اس موضوع پر بنیں۔ سب سے زیادہ مشہور ناول ”گاڈ فادر“ ہوا۔ اس کا مصنف شہرہء آفاق ادیب ”ماریو پوزو“ ہے۔ اس ناول پر فلم بھی بنی۔ اس فلم کا نام بھی گاڈ فادر ہی تھا اور یہ بہت مشہور ہوئی۔ آج تک اسے شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ اس میں افسانہ کم اور حقیقت زیادہ ہے۔
ماریو پوزو اس کالم نگار کے پسندیدہ مصنفین میں سے ہے، اس کی تین اور کتابوں (دی سسلین، لاسٹ ڈان، اُمرتا) میں بھی مافیا کی کہانی ہے۔ ماریو پوزو 1999ءمیں انتقال کر گیا اُس کا آخری ناول (دی فیملی) نامکمل رہ گیا تھا۔ اسے اسکی دوست کارل گینو نے مکمل کیا اور یہ 2001ءمیں شائع ہوا۔


معافی چاہتا ہوں بات دور نکل گئی۔ مقصد یہ تھا کہ اپنے پڑھنے والوں کو اصل بات بتانے سے پہلے کسی حد تک پس منظر سے آگاہ کر دوں۔ میری بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ مافیا کے سربراہ نے اپنی دختر نیک اختر کےلئے دولہا تلاش کرنے کا کام میرے سپرد کیا ہے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔ اتنا ہی آسان ہوتا تو مافیا کا سربراہ ہارورڈ سے فارغ التحصیل کسی بھی نوجوان کو پسند کر لیتا۔ مسئلہ تو بہادری کا ہے۔ نڈر اور بے خوف ہونے کا ہے۔ اب ذرا لڑکی والوں کی یعنی مافیا کی  شرائط بھی سُن لیجئے۔
دولہا بہادر ہو۔ اس قدر بہادر کہ قانون کو  پائوں کے نیچے روندتا پھرے۔
اُسکی ڈگری اصلی نہ ہو بلکہ جعلی ہو۔ اصلی ڈگریاں اُن لوگوں کی ہوتی ہیں جو ڈرپوک ہوتے ہیں۔
اُسکے پاس بغیر لائسنس کے اسلحہ ہو اور بہت سا ہو۔
اسکے ساتھ ہمہ وقت اسکے محافظ رہتے ہوں جو مسلح ہوں۔ یہ اسلحہ بھی بغیر لائسنس کے ہو۔
اسکے پاس بہت زیادہ دولت ہو، زرعی زمین، کارخانے، قیمتی گاڑیاں، بنک بیلنس، سونا، ہیرے جواہرات!

 لیکن جب اثاثے ظاہر کرنے کا وقت آئے تو وہ اپنے آپ کو غریب یا مڈل کلاس ظاہر کرے۔ بالخصوص اثاثوں میں اُسکی گاڑیوں کا ذکر بالکل نہ ہو۔
وہ ٹیکس چوری کرے اور ڈنکے کی چوٹ چوری کرے۔

 جب وہ سفر کر رہا ہو تو اُسکی پجارو پر ایک خاص قسم کی پلیٹ نصب ہو، جسے دیکھ کر پولیس، ائر پورٹ حکام، ٹریفک والے، سب اُسے سلام کریں۔
جب اس نے امتحان دینا ہو تو اُسکی جگہ اُس کا بھتیجا کمرہء امتحان میں بیٹھے۔

اگر کسی کالج کا پرنسپل اسکی سفارش نہ مانے تو وہ پرنسپل کی پھینٹی لگا سکے۔
زمین اور پلاٹوں کے فراڈ کے سلسلے میں اگر پولیس اُسے پکڑ لے تو ”عوام“ پولیس کی گاڑی پر حملہ کر کے اُسے چُھڑا لے جائیں!
وہ ائر پورٹ پر کسٹم کے اہلکاروں کو بھی آنکھیں دکھاتا ہو اور کریڈٹ کارڈ چوری کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔

افسر وں، اُستانیوں، ٹیچروں لیکچراروں ، پٹواریوں، تھانیداروں اور تحصیل داروں کے تبادلے، خاص طور پر اُسکے اپنے علاقے میں، اُسکی مرضی سے ہوں۔

آپ میری حالتِ زار کا اندازہ لگائیے، ایک طرف مافیا اور دوسری طرف ۔۔۔ کیا بتائوں کون ہیں
ایک سب آگ، ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں


کیا آپ میری مدد کریں گے؟ 

Tuesday, July 12, 2011

عمران خان سے کوئی خطرہ نہیں

یہ دانشوروں کا اجتماع تھا۔ سیکورٹی سخت تھی۔ سکینر لگے ہوئے تھے۔ صرف تین ملکوں کے دانشور اندر آ سکتے تھے۔ مجھے اپنا حُلیہ بدلنا پڑا۔ واسکٹ پہنی ماتھے پر راکھ ملی۔ دھوتی پیچھے سے اُڑسی ۔ ہاتھ میں مالا پکڑی اور رام رام رام جپتا پہنچ گیا۔ دروازے سے گزرتے وقت مالا کے منکے تیزی سے چلانے شروع کر دیے اور آنکھیں بند کر لیں۔ اندر سے ڈر بھی رہا تھا۔ بہر طور خیریت گزری اور ہال میں داخل ہو گیا۔



یہ منظر میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اسرائیل اور بھارت کے خفیہ گٹھ جوڑ کا ذکر اپنے ملک میں بارہا سنا تھا لیکن دیکھنے کا اتفاق یہاں ہوا، جس طرح بھارتی مندوب اسرائیل کے نمائندوں کےساتھ بے تکلفی سے مل رہے تھے، حیرت انگیز تھا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ لوگ برسوں سے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔ تعارفی خطاب ایک امریکی دانشور نے کیا۔ اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اب تک ہم پاکستان کے حالات سے مطمئن تھے۔ جو کچھ ہو رہا تھا، ہماری خواہشات کے عین مطابق ہو رہا تھا، تین چیزیں پاکستان کو مسلسل کھائی کی طرف دھکیل رہی تھیں، کرپشن ، اقربا پروری اور ٹیکس چوری اور یہی ہمارے لئے اطمینان کا باعث تھیں۔ ہم امداد اس لئے دیتے تھے کہ بس پاکستان رینگ رینگ کر چلتا رہے، جاں بلب رہے، مرے نہ جیئے‘ ہم نے جب بھی امداد کے لئے شرطیں لگائیں، ان میں کبھی یہ نہیں کہا کہ اقربا پروری نہیں ہو گی، وزیراعظم کے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے ہونگے یا کرپٹ لوگوں سے دولت واپس لینا ہو گی، ہم مطمئن تھے۔ ایک اور وجہ ہمارے اطمینان کی یہ تھی کہ عوام کو متحرک کرنے میں علماءبہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ کروڑوں لوگ جمعہ کے خطبات سُن کر متاثر ہوتے ہیں لیکن ہماری خوش قسمتی کہ ٹیکس چوری، اقربا پروری اور اکِل حرام کےخلاف اس ملک کے علما نے کبھی تحریک چلائی نہ منظم کوشش کی۔ رہیں سیاسی جماعتیں، تو وہ تو جاگیریں ہیں۔ ایک ایک پارٹی ایک ایک خاندان کی ملکیت ہے۔ باپ کے بعد بیٹا تیار ہے۔ پارٹیوں کے اندر انتخابات کا کوئی امکان نہیں۔ پرویز مشرف نے سترھویں ترمیم میں ایک شق اسکے متعلق رکھی تھی۔ وہ اٹھارھویں ترمیم میں ختم کر دی گئی۔ جاوید ہاشمی، سعد رفیق اور کشمالہ بی بی نے اس پر احتجاج کیا تھا لیکن انہیں اپنی اپنی پارٹی کی طرف سے مناسب سرزنش کر دی گئی تھی! قصہ کوتاہ ۔ سب کچھ اسی طرح ہو رہا تھا جیسا ہم چاہتے تھے۔ لیکن اب ہمیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ اس کی تفصیل ایک اور مندوب بیان کریں گے۔


ہال میں بیٹھنے کی ترتیب یوں تھی کہ سامنے سٹیج تھا۔ سٹیج کے دائیں طرف اسرائیلی تھے، بائیں طرف بھارتی اور سامنے امریکی۔ میں بھارتیوں کے حصے میں سب سے پیچھے بیٹھا، آنکھیں بند کئے مسلسل مالا جپ رہا تھا۔ کنکھیوں سے سب کچھ دیکھتا تھا۔ کارروائی کا ایک ایک لفظ غور سے سُن رہا تھا اور کوشش کر رہا تھا کہ سب کچھ ذہن میں محفوظ ہوتا جائے! جس خطرے کی نشان دہی تعارفی خطاب میں کی گئی، اس کی تفصیل بتانے کےلئے اسرائیلی مندوب سٹیج پر پہنچا۔


”ہمارے لئے عمران خان خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ اسکی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ نوجوان کثیر تعداد میں اسکے گرد جمع ہو رہے ہیں، اُس نے جو منصوبہ بندی پیش کی ہے اس میں تین باتیں ایسی ہیں جن سے یہ ملک نشیب سے مزید نیچے جانے کے بجائے واپس پلٹ سکتا ہے۔ اول، وہ کرپشن کے سخت خلاف ہے۔ باتیں تو کرپشن کےخلاف دوسری جماعتیں بھی کرتی ہیں لیکن وہ تو خود کرپشن میں گلے گلے تک ڈوبی ہوئی ہیں۔ عمران خان کبھی حکومت میں نہیں رہا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ آ کر کرپشن کا خاتمہ کر دے۔ دوم، اس کا خطرناک ترین ارادہ ٹیکس چوری کا خاتمہ ہے۔ آپ اندازہ لگائیے، اس وقت پاکستان میں صرف دو فی صد آبادی ٹیکس ادا کر رہی ہے یعنی سرکاری ملازم، وہ بھی اس لئے کہ انکی تنخواہوں سے ٹیکس کٹتا ہے اور وہ اس کٹوتی کو روک نہیں سکتے۔ باقی ساڑھے سترہ کروڑ لوگ کوئی ٹیکس نہیں دے رہے۔ جھوٹ اور بدعنوانی کی حد دیکھئے کہ منتخب نمائندے جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں انکی رُو سے انکے پاس گاڑیاں تک نہیں۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے پانچ ہزار روپے ٹیکس دیا۔ یہ لوگ عوام کو دھوکہ دیکھنے کےلئے بتاتے ہیں کہ اُنکی فیکٹریوں نے اتنا زیادہ ٹیکس دیا حالانکہ وہ ٹیکس تو فیکٹریوں کی پیدا کردہ مصنوعات کی قیمتوں میں جمع کر کے خریداروں کی جیب سے نکلوایا جاتا ہے‘ اگر عمران خان تاجروں، صنعت کاروں اور زمینداروں سے ٹیکس لینے میں کامیاب ہو گیا تو یہ ملک اتنا امیر ہو جائےگا کہ غیر ملکی امداد سے بے نیاز ہی ہو جائے گا اور پھر اسکی پالیسیاں بھی آزاد ہو جائینگی۔ اس شخص کا تیسرا خطرناک ارادہ اقربا پروری کا خاتمہ ہے۔ اس وقت سب سیاسی جماعتیں اقربا پروری کا شکار ہیں۔ آپ اندازہ لگائیے سرحد کا وزیر اعلیٰ اور کراچی میں اس سیاسی جماعت کا سربراہ، دونوں پارٹی چیف کے بھانجے بھتیجے ہیں۔ پنجاب کی بڑی سیاسی جماعت میں نمایاں اصحاب سارے کے سارے ایک ہی خاندان سے ہیں۔ بھائی، داماد، بھتیجا، یا پھر ایک ہی برادری سے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن ہر صوبے میں سفارشیوں کا دارالامان ہے۔ ایسے میں عمران خان اگر اقربا پروری کے انسداد میں کامیاب ہو گیا تو یہ ملک سنگا پور بن سکتا ہے، جاپان بن سکتا ہے اور کچھ بھی بن سکتا ہے۔ ہمیں اس کا تدارک کرنا ہو گا۔“


اب بھارتی مندوب کی باری تھی۔ وہ آیا، دھوتی کو ٹھیک کیا، ہاتھ باندھ کر سامنے، دائیں بائیں آداب بجا لایا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ اُسکے چہرے پر اطمینان تھا۔


”حضرات! اس خطے کا باسی بھارت ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نہیں۔ یہاں کی نفسیات سے ہم واقف ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خطرے کی کوئی بات نہیں!“


سب چوکنے ہو گئے، اسرائیلی اور امریکی دانشوروں کے چہروں سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ بھارتی دانشور کی اس بڑ کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن بھارتی مندوب مسلسل مسکرا کرائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔ وہ پھر گویا ہوا ”حضرات! کیا عمران خان نے آج تک زرعی اصلاحات کی بات کی ہے؟ کیا اس نے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں سرداری نظام کے خاتمے کا کبھی ذکر کیا ہے، میرے سوال کا جواب دیجئے۔“


شرکا نے اپنے سامنے پڑے ہوئے کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ سب نے جواب نفی میں دیا۔ بھارتی دانشور نے اپنا خطاب جاری رکھا۔


”حضرات، امریکی اور اسرائیلی دانشور برصغیر کی تاریخ، نفسیات اور سماجیات سے بے بہرہ ہیں۔ 1951ءمیں جب ہم نے بھارت میں زرعی اصلاحات نافذ کیں تو ہمیں ڈر تھا کہ پاکستان بھی کہیں زرعی اصلاحات کی طرف قدم نہ بڑھا دے۔ ہم سخت اضطراب میں تھے۔ بالآخر ہماری امید بر آئی اور پاکستان میں ایسا نہ ہوا۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ تقسیم سے عین پہلے جاگیردار مسلم لیگ میں جوق در جوق یوں ہی تو نہیں داخل ہوئے تھے ۔ مسلم لیگ کے منشور میں زرعی اصلاحات کا ذکر تک نہ تھا۔ بھٹو نے یہ اصلاحات کیں لیکن وقت گزر چکا تھا۔ جاگیرداروں نے یہ کوشش سبوتاژ کر دی۔ زمینیں نوکروں کے نام کر دی گئیں، آج صورتِ حال یہ ہے کہ سارا جنوبی پنجاب، سندھ کا سارا اندرونی حصہ اور بلوچستان سارا جاگیرداروں اور سرداروں کی مٹھی میں ہے۔ عمران خان ان علاقوں سے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کروڑوں ہاری، مزارع اور کارندے صرف ٹھپہ لگاتے ہیں، وہ بھی وہاں جہاں حویلیوں والے بتاتے ہیں، عمران خان فردِ واحد ہے اسکے پاس اپنی پارٹی کو دوسری پارٹیوں سے مختلف انداز میں چلانے کا  کوئی میکانزم نہیں۔ اسکی پارٹی میں بے شمار عہدہ دار تو وہ ہیں جو دوسری جماعتوں میں منہ مار کر آئے ہیں اور جن کی شہرت مجہول ہے۔ آپ عمران خان کی ”بصیرت“ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اُس نے ایک ایسے ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو پارٹی میں شمولیت کےلئے کہا جس کی اخلاقی دیانت کا یہ عالم ہے کہ وہ جب ایک محکمے کا سربراہ بنا تو اس نے سب سے پہلے ایک قریبی عزیز کو بیرون ملک تعینات کیا۔ دیگ کے باقی چاولوں کا حساب اسی سے لگا لیجئے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ عمران خان کے گرد جو لوگ جمع ہیں ان میں سے کسی کو ادراک ہی نہیں کہ ملکیتِ زمین کا موجودہ ڈھانچہ
land ownership pattern
 ملک میں کسی بنیادی تبدیلی کو آنے ہی نہیں دےگا۔ وہی جدی پُشتی نمائندے اسمبلیوں میں آئینگے اور اقربا پروری کےخلاف ہر کوشش کو سبوتاژ کر دینگے۔ شہروں سے لی گئی چند نشستیں عمران خان کو کچھ بھی نہیں کرنے دینگی!  رہے عمران خان کے ارادے دہشت گردی کے خلاف  توجب تک سندھ اور جنوبی پنجاب میں جاگیرداری ہے اور قبائلی علاقوں میں رشوت خور خان موجود ہیں، نوجوان دہشت پسند تنظیموں کے پاس جانے کے علاوہ کر بھی کیا سکیں گے۔!“


میں نے دیکھا کہ سب شرکائے اجلاس بھارتی مندوب سے گلے مل رہے تھے اور مبارکیں دے رہے تھے۔

Tuesday, July 05, 2011

نائب سفیر کا قتل

2010ءکا مارچ تھا یا شاید اپریل....میں کئی دن بعد اسلام آباد کلب آیا تھا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ یوں لگا جیسے ادا سی کی زرد چادر ہر طرف تنی ہے۔ میں اپنے دوستوں کی منڈلی میں جا کر بیٹھ گیا۔ سب چُپ تھے۔ ایک ویٹر تفصیل بتا رہا تھا۔ یہ دو دن پہلے کا واقعہ تھا۔ مشتاق رضوی لاﺅنج میں اپنی مخصوص نشست پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے چائے منگوائی۔ ویٹر چائے لےکر پہنچا تو وہ سو رہے تھے۔ اس نے آواز دی۔ پہلے آہستہ، پھر اونچی....لیکن رضوی صاحب بہت دور جا چکے تھے۔ وہاں، جہاں پرویز مشرف کو بھی جانا پڑےگا۔ اس جرنیل کو بھی جس کے جرم پر پردہ ڈالنے کےلئے پرویز مشرف نے مشتاق رضوی کو دس سال اذیت میں رکھا اور نوکر شاہی کے اُن تین کارندوں کو بھی جو قوم کے خرچ پر ”انکوائری“ کرنے جکارتہ گئے اور مجرم کو بچا کر، بےگناہ مشتاق رضوی کے پیچھے پڑ گئے۔ ان کارندوں نے اس دنیا میں تو ”خدمت“ کا صلہ پا لیا لیکن مشتاق رضوی پُل کے اُس پار ان کا انتظار کر رہا ہے!



مشتاق رضوی سے میری پہلی ملاقات وزارت خارجہ میںاپنے دوست زاہد سعید کے دفتر میں ہوئی تھی۔ شگفتہ چہرہ، دھیمی آواز، اتنی دھیمی کہ سننے کیلئے ہمہ تن گوش ہونا پڑتا تھا۔ ہم چائے پی رہے تھے اور زاہد سعید مجھے رضوی صاحب کی کہانی سنا رہا تھا۔ چائے کے گھونٹ میرے حلق سے نیچے نہیں اُتر رہے تھے۔ میں نے پیالی رکھ دی اس رات میں بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔ میں خوف زدہ تھا۔ جس ملک میں اتنا کھلا، اتنا واشگاف، اور اتنا بڑا ظلم ہو رہا ہو اس ملک کا کیا بنے گا؟ کوئی آفت تو ضرور آئےگی۔ آسمان سے پتھر برسیں گے۔ مینڈکوں، بچھوﺅں اور سانپوں کی بارش ہو گی۔ سیلاب آئینگے۔ کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا ....


موت آئے گی کہ تو آئے گا کچھ ہو گا ضرور


ہجر کی شب چاند کا چہرہ کبھی ایسا نہ تھا


زاہد سعید مجھے پیچھے لے گیا۔ یہ 2002ءکی بات تھی۔ مشتاق رضوی جکارتہ کے پاکستانی سفارت خانے میں نائب سفیر تھے۔ وہ بہت سینئر تھے۔ تیس سال کا وزارت خارجہ کا تجربہ تھا لیکن پھر بھی نائب سفیر تھے اس لئے کہ سفیر ایک ریٹائرڈ جرنیل تھا۔ ریٹائرڈ جرنیل ہونا بھی کچھ کم نہ تھا اس پر مستزاد یہ کہ وہ پرویز مشرف کا انتہائی قریبی دوست بھی تھا اور پرویز مشرف ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ مسلم لیگ قاف اسکے آگے سجدہ ریز تھی جب اتنی طاقتیں یکجا ہو جائیں تو مشتاق رضوی جیسے ہنر مند بے چارے نائب سفیر ہی لگ سکتے ہیں!


حکومت پاکستان جکارتہ میں خوشحال تھی اس لئے کہ تیس سال پہلے اچھے وقتوں میں اس نے سفارت خانے کےلئے اپنی عمارت خرید لی تھی۔ جرنیل سفیر نے فیصلہ کیا کہ یہ عمارت فروخت کر دینی چاہیے۔ قاعدے کےمطابق وزارت خارجہ سے اجازت لینا ضروری تھی۔ اگر فروخت کرنے کی اجازت مل جاتی تو اخبار میں اشتہار دےکر زیادہ سے زیادہ قیمت لینے کی کوشش کی جانی تھی اور فروخت کی صورت میں ادائیگی ڈالروں میں ہونا چاہیے تھی لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ ریٹائرڈ جرنیل صاحب نے مشتہر کیے بغیر عمارت اونے پونے داموں بیچ ڈالی اور قیمت مقامی کرنسی میں وصول کی۔ نائب سفیر نے اعتراض کیا جو ظاہر ہے سفیر صاحب نے مسترد کر دیا۔ مشتاق رضوی قاعدے قانون کا آدمی تھا۔ وہ اتنی بڑی بے قاعدگی، جس میں حکومت پاکستان کو نقصان ہی نقصان تھا، کیسے ہضم کرتا۔ اس نے وزارت خارجہ کو اطلاع دی کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور غلط ہو رہا ہے‘ اسے روکا جائے‘ اس نے اپنا فرض پورا کیا۔


اگر کوئی عام سفیر ہوتا تو وزارت خارجہ خود ہی تحقیق کر سکتی تھی لیکن یہ تو ایک ریٹائرڈ جرنیل کا معاملہ تھا اور وہ بھی پرویز مشرف کا خاص آدمی۔ اس خاص آدمی کو بہرحال چھونا بھی نہیں تھا اور ہمت بھی کس کی تھی کہ اسے چھو سکے! چنانچہ انکوائری کا کام بھی چیف ایگزیکٹو کے دفتر نے سنبھال لیا۔ (ان دنوں پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو کہلاتا تھا)۔ وزارت خارجہ یوں ایک طرف کر دی گئی۔ جیسے دودھ سے مکھی نکال کر ایک طرف پھینک دی جاتی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ اس وقت کے سیکرٹری کابینہ کو مقرر کیا گیا جو پرویز مشرف کا براہ راست ماتحت تھا۔ دو اور افسر کمیٹی میں ”ڈالے“ گئے اور یہ کمیٹی جکارتہ پہنچ گئی۔


دنیا کی اس عجیب و غریب تحقیقاتی کمیٹی نے تین سفارشات پیش کیں۔ اوّل یہ کہ اس سارے سودے میں بے قاعدگی ہوئی ہے۔ دوم یہ کہ سودے کی منظوری دے دی جائے۔ سوم یہ کہ نائب سفیر مشتاق رضوی کےخلاف کارروائی کی جائے۔ اِنّا لِلّٰہ وَ اِنّا الیہِ راجِعون۔ کمیٹی واپس آئی‘ اس کا اجلاس ہوا‘ اجلاس کی صدارت خود پرویز مشرف نے کی اور تینوں سفارشات منظور کر لی گئیں۔ ایک بار پھر اِنّا لِلّٰہ وَ اِنّا الیہِ راجِعون۔


قانون توڑنے والا جرنیل سفیر صاف بچ گیا۔ حکومت پاکستان نقصان کو پی گئی۔ تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان کو ترقیاں ملیں۔ ایک صاحب تو پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری لگ گئے اور اسکے سارے کارناموں میں شریک رہے لیکن سزا نائب سفیر مشتاق رضوی کو ملی۔ اسے فوراً واپس ملک بلا لیا گیا اور پھر اسکے ساتھ وہ سلوک ہوا جو تاریخ میں کسی سے نہیں ہوا تھا۔ اس سے عہدہ و منصب سب کچھ چھین لیا گیا۔ اسے وزارت خارجہ ہی سے نکال دیا گیا۔ اسے کہا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرو۔


یاد رہے کہ وزارت خارجہ کے ملازمین اگر عہدے کے بغیر (او۔ایس۔ڈی) بھی ہوں تو وزارت خارجہ ہی میں رہتے ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا کہ وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھیج دیا گیا۔ ایک ماہ یا دو ماہ نہیں۔ ایک سال یا دو سال نہیں۔ پورے چھ سال اسے بے یارو مددگار رکھا گیا۔ جس دیانت دار شخص نے ساری ملازمت قاعدے قانون کےمطابق کی۔ ملک کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، اسے بغیر کسی جرم کے سزا دی گئی۔ اسکے ماتحت ترقیاں لیتے رہے، سفیر لگتے رہے، وہ چھ سال بیکار بیٹھا رہا۔ ذہنی اذیت میں مبتلا رہا۔ خون کے آنسو روتا رہا۔ اس نے پرویز مشرف کے دوست کی لاقانونیت پر اعتراض کیا تھا۔ پورے ملک میں کوئی نہیں تھا جو اسے پرویز مشرف کے عتاب سے بچا سکتا۔ دن رات اسی طرح آتے اور جاتے رہے۔ یہاں تک کہ 2008ءمیں مشتاق رضوی وزارت خارجہ واپس گئے بغیر ہی ریٹائر ہو گیا! اگر اسکی ریٹائرمنٹ نہ ہوتی تو سزا نے تو ختم نہیں ہونا تھا۔ رہائی تو کیا ہونی تھی، وہ قید خانہ ہی ساتھ اٹھا لایا۔


اس نے وکالت شروع کر دی، شام کو اسلام آباد کلب آ جاتا۔ میری اس سے ملاقات اکثر کلب کی لائبریری میں ہوتی۔ وہی دھیما انداز گفتگو، لیکن میں صاف دیکھ رہا تھا کہ وہ اندر سے کھوکھلا ہو رہا ہے۔ کبھی لائنج میں بیٹھا خلا کو گھور رہا ہوتا، کبھی لائبریری میں اخبار یا رسالہ دیکھ رہا ہوتا لیکن وہ دیکھتا تو کیا دیکھتا، اس کا ذہن ، اس کی آنکھوں کا ساتھ نہیں دیتا تھا۔ اس نے صبر کیا اور صبر ہی میں موت کا پیالہ پی لیا۔ اس شام وہ کلب ہی میں تھا۔ چائے منگوائی اور چائے آنے سے پہلے وہاں چلا گیا، جہاں مشرف نے بھی جانا ہے، اس کے جرنیل دوست نے بھی تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان نے بھی اور اس رکن نے بھی جو بعد میں پرویز مشرف کا دست راست بن گیا۔


آج سے چار دن پہلے یعنی یکم جولائی کو یہ سارا معاملہ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔ کمیٹی کے ارکان نے ظلم کی یہ داستان سنی تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ نائب سفیر نیم پاگل ہو کر موت کے گھاٹ اتر گئے اور اب انکی بیوہ کا بھی بُرا حال ہے تو وہ جیسے اندر باہر سے ہل گئے۔ کمیٹی کے رکن ندیم افضل چن کا تو کہنا تھا کہ مشتاق رضوی کا قتل ہوا ہے۔ ایم این اے ایاز صادق نے نام نہاد تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کو کہا کہ تم پر مشرف کا دباﺅ تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ یعنی نوکر شاہی کے اس ریٹائرڈ رکن نے افسوس کا اظہار کیا ہو گا اور ظلم پر پچھتایا ہو گا؟ نہیں! اس نے کہا کہ میں نے کبھی دباﺅ قبول نہیں کیا۔ اس پر ندیم افضل چن نے کہا کہ تمہاری صرف انگریزی ٹھیک ہے۔ کچھ اور ٹھیک ہوتا تو ملک ترقی کر چکا ہوتا۔ ایاز صادق نے کہا کہ لگتا ہے کہ یہ جائیداد جو اونے پونے بیچ دی گئی، پرویز مشرف کے والد کی جائیداد تھی! سردار ایاز صادق کا خیال تو یہ بھی ہے کہ نام نہاد تحقیقاتی کمیٹی اس سارے معاملے میں ملوث تھی! پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا موقف یہ ہے کہ مشتاق رضوی کے قاتل کون ہیں، اس کا تعین ہونا چاہیے۔


پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی یہ بھی چاہتی ہے کہ وازارت خارجہ نائب سفیر کی بیوہ سے معافی مانگے۔ کاش یہ انصاف مشتاق رضوی کی زندگی میں ہو سکتا:


آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ


صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا


وزارت خارجہ کو محکمانہ رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی ملک کی پارلیمنٹ کی نمائندہ ہے۔ کیا پارلیمنٹ اس سفیر کو سزا دے سکے گی جس نے یہ غلط کام کیا؟ اور کیا ان لوگوں کو بھی سزا ملے گی جنہوں نے مجرم کو چھوڑ دیا اور نائب سفیر کو پکڑ لیا؟
 

powered by worldwanders.com