حجاج! تو نے یہ کیا کیا؟ افسوس! تو نے کیا کر دیا!
ایک خاتون کے دہائی دینے پر اتنا طوفان کھڑا کیا۔ کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا، سری لنکا سے آنےوالے جہاز کو قزاقوں نے لوٹا، کچھ کو قیدی بنایا، ایک عورت نے دہائی دی۔ یا حجاج! اور تم نے بصرہ سے لےکر دیبل تک.... عراق سے لےکر سندھ تک.... زمین کو اس بے یارو مددگار عورت کی دہائی سے بھر دیا۔ تم نے جواب میں ”لبیک“ کہا اور پھر سینکڑوں ہزاروں کوس پر پھیلے ہوئے کوہ و دشت اور صحرا و دریا پر اور آبادیوں اور ویرانوں پر اپنے لبیک کی گواہی کو چادر کی طرح تان دیا۔ ایک تنی ہوئی چادر، افق تا افق، شہر تا شہر--- ہر اس عورت کو ڈھانپتی ہوئی جو دہائی دے اور حجاج لبیک کہتا ہوا، لشکروں کو روانہ کر دے!
ضائع کیا تم نے اپنے لشکروں کو اے حجاج! ریاست کے لاکھوں درہم اور دینار خرچ کر ڈالے، راجہ کی حکومت کو موت کے گھاٹ اتار دیا، صرف ایک عورت کی فریاد پر! افسوس ہے حجاج! تم پر افسوس ہے!
اور تمہاری تشویش--- اور بے تابی--- اور راتوں کی بے خوابی اور دنوں کا پیچ و تاب--- یوں کہ لشکر دیبل روانہ ہوا تو ایک ایک کوس کی رپورٹ طلب کی، ایک ایک پڑاﺅ کا محاسبہ کیا، ہراول دستے بھیجے اور معلوم کیا کہ وہاں کا پانی کیسا ہے اور کھجور کس معیار کی ہے اور گھوڑے کیسے ہیں؟
حجاج! تم نے یہ سب ایک عورت کی فریاد پر کیا؟ افسوس حجاج! افسوس!
کاش تم آج ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ عورتوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری نہیں! ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ عوتیں ذلیل و رسوا ہوں۔ عورت جس کے بارے میں اللہ کے آخری رسول نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں تلقین کی تھی کہ ان کا خیال رکھنا--- عورت --- ریاست کی ذمہ داری نہیں! ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ عورت کو یہ باور کرائے کہ مملکت خداداد میں اس کےلئے کوئی جگہ نہیں!
وہ عورت تو ان پڑھ بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی اس کےساتھ معاملہ اسی طرح کیا گیا جیسے ان پڑھ عورتوں کےساتھ ونی کی جاتی ہے اور اسوارہ کیا جاتا ہے اور کاروکاری کی جاتی ہے۔ وہ ایک یونیوسٹی میں پروفیسر تھی۔ اپنی گاڑی پر جا رہی تھی۔ اسے ایک مرد نے غلط اوورٹیک کیا اتنا غلط کے اس عورت نے مشکل سے اپنی گاڑی کو اور اپنے آپ کو بچایا۔ اس نے مرد ڈرائیور سے احتجاج کیا اور بحث کی۔ اس گستاخی کی سزا اسے یوں ملی کہ پوری رات تھانے میں گذارنا پڑی، اسے کسی ایف آئی آر--- کسی مقدمے کسی جرم کے بغیر رات بھر محبوس رکھا گیا۔یہ سب کچھ جائز تھا‘ اس لئے کہ یہ اقلیم ان حکمرانوں کی ہے جو ملک میں خونیں انقلاب کی نوید سناتے ہیں جو اپنے لئے محلات نہیں، محلات کے شہر بساتے ہیں۔ جو اپنی کھانسی، اپنے زکام اور اپنی چھینک کے علاج کےلئے بھی سات سمندر پار جاتے ہیں جہاں انکے سرمائے ہیں اور انکی سلطنتیں ہیں۔
ایک خاتون کے دہائی دینے پر اتنا طوفان کھڑا کیا۔ کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا، سری لنکا سے آنےوالے جہاز کو قزاقوں نے لوٹا، کچھ کو قیدی بنایا، ایک عورت نے دہائی دی۔ یا حجاج! اور تم نے بصرہ سے لےکر دیبل تک.... عراق سے لےکر سندھ تک.... زمین کو اس بے یارو مددگار عورت کی دہائی سے بھر دیا۔ تم نے جواب میں ”لبیک“ کہا اور پھر سینکڑوں ہزاروں کوس پر پھیلے ہوئے کوہ و دشت اور صحرا و دریا پر اور آبادیوں اور ویرانوں پر اپنے لبیک کی گواہی کو چادر کی طرح تان دیا۔ ایک تنی ہوئی چادر، افق تا افق، شہر تا شہر--- ہر اس عورت کو ڈھانپتی ہوئی جو دہائی دے اور حجاج لبیک کہتا ہوا، لشکروں کو روانہ کر دے!
ضائع کیا تم نے اپنے لشکروں کو اے حجاج! ریاست کے لاکھوں درہم اور دینار خرچ کر ڈالے، راجہ کی حکومت کو موت کے گھاٹ اتار دیا، صرف ایک عورت کی فریاد پر! افسوس ہے حجاج! تم پر افسوس ہے!
اور تمہاری تشویش--- اور بے تابی--- اور راتوں کی بے خوابی اور دنوں کا پیچ و تاب--- یوں کہ لشکر دیبل روانہ ہوا تو ایک ایک کوس کی رپورٹ طلب کی، ایک ایک پڑاﺅ کا محاسبہ کیا، ہراول دستے بھیجے اور معلوم کیا کہ وہاں کا پانی کیسا ہے اور کھجور کس معیار کی ہے اور گھوڑے کیسے ہیں؟
حجاج! تم نے یہ سب ایک عورت کی فریاد پر کیا؟ افسوس حجاج! افسوس!
کاش تم آج ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ عورتوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری نہیں! ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ عوتیں ذلیل و رسوا ہوں۔ عورت جس کے بارے میں اللہ کے آخری رسول نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں تلقین کی تھی کہ ان کا خیال رکھنا--- عورت --- ریاست کی ذمہ داری نہیں! ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ عورت کو یہ باور کرائے کہ مملکت خداداد میں اس کےلئے کوئی جگہ نہیں!
وہ عورت تو ان پڑھ بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی اس کےساتھ معاملہ اسی طرح کیا گیا جیسے ان پڑھ عورتوں کےساتھ ونی کی جاتی ہے اور اسوارہ کیا جاتا ہے اور کاروکاری کی جاتی ہے۔ وہ ایک یونیوسٹی میں پروفیسر تھی۔ اپنی گاڑی پر جا رہی تھی۔ اسے ایک مرد نے غلط اوورٹیک کیا اتنا غلط کے اس عورت نے مشکل سے اپنی گاڑی کو اور اپنے آپ کو بچایا۔ اس نے مرد ڈرائیور سے احتجاج کیا اور بحث کی۔ اس گستاخی کی سزا اسے یوں ملی کہ پوری رات تھانے میں گذارنا پڑی، اسے کسی ایف آئی آر--- کسی مقدمے کسی جرم کے بغیر رات بھر محبوس رکھا گیا۔یہ سب کچھ جائز تھا‘ اس لئے کہ یہ اقلیم ان حکمرانوں کی ہے جو ملک میں خونیں انقلاب کی نوید سناتے ہیں جو اپنے لئے محلات نہیں، محلات کے شہر بساتے ہیں۔ جو اپنی کھانسی، اپنے زکام اور اپنی چھینک کے علاج کےلئے بھی سات سمندر پار جاتے ہیں جہاں انکے سرمائے ہیں اور انکی سلطنتیں ہیں۔
جب پولیس آفیسر سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے غیر قانونی طور پر خاتون کو رات بھر کیوں محبوس رکھا تو اخباری رپورٹ کے مطابق وہ مسکراتا ہے اور جواب میں صرف اتنا کہتا ہے کہ مجھے حساس ادارے کے اہلکار نے کہا تھا سبحان اللہ کیا منطق ہے اور کیا اختیار ہے!
ہاں، درست ہے کہ حساس ادارے کے افسر اور اہلکاروں نے غلط کام کیا‘ انہوں نے اپنے دائرے سے تجاوز کیا۔ حساس اداروں کے اصحاب قضا و قدر کو یہ امر یقینی بنانا چاہئے کہ کسی فرد واحد کے ذاتی جھگڑے یا ذاتی انا کےلئے شعبے کا استعمال بند ہو لیکن کیا ایک پولیس افسر اتنا چھوئی موئی، اتنا بے بس اور اتنا ڈرپوک ہوتا ہے کہ کسی بھی حساس ادارے کے اہلکار اس سے جو چاہیں کروا سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنے افسر اعلیٰ کو بھی صورتحال سے آگاہ نہیں کر سکتا تھا؟ تو پھر کل کو رینجرز، ایف سی، سکاﺅٹ اور ملیشیا بھی تھانوں میں اپنی مرضی چلائیں گے پھر پرسوں واپڈا تھانوں کو دھمکی دے گا کہ اگر اس کے کہنے پر فلاں عورت کو محبوس نہ کیا گیا تو وہ تھانے کی بجلی کاٹ دینگے۔ واہ! کیا اسلوب حکمرانی ہے۔ سچ کہا تھا اہل دانش نے کہ جب صوبوں کے سربراہ اداروں کو پامال کر کے ہر کام اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور مجوزہ طریق کار کے بجائے ”حکم“ چلے گا اور ہر بازار سے نظر گھنٹہ گھر ہی پر پڑے گی تو اہلکار کام کرنا چھوڑ دیں گے اور ادارے خاک کا ڈھیر بن جائیں گے اور پوری مشینری صرف ایک شخص کا امیج تعمیر کرنے میں لگ جائےگی۔
جب صورتحال ایسی ہو جائے تو پھر لوگ قانون کے محافظوں پر تین حرف بھیج کر طالبان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ لاقانونیت کے اس جنگل میں خلق خدا کو دہشت گرد بھی بھلے لگنے لگتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں کو بھی بغیر کسی جرم کے رات رات بھر تھانوں میں رکھا جائےگا۔ تو لوگ وفاداریاں بدل لیں گے۔ وہ اپنی حفاظت کےلئے اپنی عزت بچانے کیلئے پگڑیوں اورداڑھیوں والوں کو بھی خوش آمدید کہیں گے اور سفید چمڑی والوں کو بھی نجات دہندہ سمجھنے لگ جائینگے۔
ہاں، درست ہے کہ حساس ادارے کے افسر اور اہلکاروں نے غلط کام کیا‘ انہوں نے اپنے دائرے سے تجاوز کیا۔ حساس اداروں کے اصحاب قضا و قدر کو یہ امر یقینی بنانا چاہئے کہ کسی فرد واحد کے ذاتی جھگڑے یا ذاتی انا کےلئے شعبے کا استعمال بند ہو لیکن کیا ایک پولیس افسر اتنا چھوئی موئی، اتنا بے بس اور اتنا ڈرپوک ہوتا ہے کہ کسی بھی حساس ادارے کے اہلکار اس سے جو چاہیں کروا سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنے افسر اعلیٰ کو بھی صورتحال سے آگاہ نہیں کر سکتا تھا؟ تو پھر کل کو رینجرز، ایف سی، سکاﺅٹ اور ملیشیا بھی تھانوں میں اپنی مرضی چلائیں گے پھر پرسوں واپڈا تھانوں کو دھمکی دے گا کہ اگر اس کے کہنے پر فلاں عورت کو محبوس نہ کیا گیا تو وہ تھانے کی بجلی کاٹ دینگے۔ واہ! کیا اسلوب حکمرانی ہے۔ سچ کہا تھا اہل دانش نے کہ جب صوبوں کے سربراہ اداروں کو پامال کر کے ہر کام اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور مجوزہ طریق کار کے بجائے ”حکم“ چلے گا اور ہر بازار سے نظر گھنٹہ گھر ہی پر پڑے گی تو اہلکار کام کرنا چھوڑ دیں گے اور ادارے خاک کا ڈھیر بن جائیں گے اور پوری مشینری صرف ایک شخص کا امیج تعمیر کرنے میں لگ جائےگی۔
جب صورتحال ایسی ہو جائے تو پھر لوگ قانون کے محافظوں پر تین حرف بھیج کر طالبان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ لاقانونیت کے اس جنگل میں خلق خدا کو دہشت گرد بھی بھلے لگنے لگتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں کو بھی بغیر کسی جرم کے رات رات بھر تھانوں میں رکھا جائےگا۔ تو لوگ وفاداریاں بدل لیں گے۔ وہ اپنی حفاظت کےلئے اپنی عزت بچانے کیلئے پگڑیوں اورداڑھیوں والوں کو بھی خوش آمدید کہیں گے اور سفید چمڑی والوں کو بھی نجات دہندہ سمجھنے لگ جائینگے۔
کہاں کی سیاست اور کہاں کے تجزیے! کون سے بجٹ اور کیسی فی کس شرح آمدنی! خدا کے بندو، ایک بڑے، بہت بڑے شہر میں ایک بے گناہ خاتون کو رات بھر پولیس سٹیشن میں بند رکھا جاتا ہے اور تم اسمبلیوں میں اپنے استحقاق کی تحریکیں جمع کراتے پھرتے ہو۔ بس گنے جا چکے تمہارے دن او ر ہو چکا فیصلہ تمہاری کھڑپینچی کے بارے میں .... جعفر برمکی نے آنکھوں کو خیرہ کرنےوالا محل بنوایا اور اس میں داخل ہونے کیلئے ستارہ شناسوں سے مبارک گھڑی پوچھی۔ ایک راہ گیر نے سنا تو اس نے ساری ستارہ پرستی اور دولت کا گھمنڈ چٹکی میں اڑا دیا۔ اس نے کہا ....
تدبر بالنجومِ ولست تدری
و رب النجم یفعل ما یشائ
تو ستاروں کی مدد سے تدبیریں کرتا ہے لیکن تجھے معلوم نہیں کہ ستاروں کو پیدا کرنےوالا جو چاہے کر لیتا ہے! افسوس ہے حجاج! تم پر تم نے ایک عوت کی فریاد پر دھرتی ہلا ڈالی اور جواب میں ایسی لبیک کہی کہ آسمانوں نے سنی، تم زندہ ہوتے تو مملکت خداداد میں خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک سے سبق سیکھتے۔ ہائے حافظ شیرازی کہاں یاد آ گیا....
خون ما خوردند، ایں کافر دلان
ای مسلمانان! چہ درماں الغیاث
یہ کافر دل تو ہمارا خون بھی پی چکے ۔ اے مسلمانو! آخر علاج کیا ہے؟ الغیاث--- الغیاث۔
تدبر بالنجومِ ولست تدری
و رب النجم یفعل ما یشائ
تو ستاروں کی مدد سے تدبیریں کرتا ہے لیکن تجھے معلوم نہیں کہ ستاروں کو پیدا کرنےوالا جو چاہے کر لیتا ہے! افسوس ہے حجاج! تم پر تم نے ایک عوت کی فریاد پر دھرتی ہلا ڈالی اور جواب میں ایسی لبیک کہی کہ آسمانوں نے سنی، تم زندہ ہوتے تو مملکت خداداد میں خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک سے سبق سیکھتے۔ ہائے حافظ شیرازی کہاں یاد آ گیا....
خون ما خوردند، ایں کافر دلان
ای مسلمانان! چہ درماں الغیاث
یہ کافر دل تو ہمارا خون بھی پی چکے ۔ اے مسلمانو! آخر علاج کیا ہے؟ الغیاث--- الغیاث۔
8 comments:
تحریر اور نیت دونوں اچھی ہیں آپکی، بہتر ہوتا دوھائی کا مرکز ایک متنازہ شخصیت ایک ایسی شخصیت جو کے کعبہ شریف پر حملے کا مرکزی کردار رہا، کو بنانے کے بجائے اصل ہستی کو بناتے جس نے محض سترہ سال کی عمر میں اتنے بڑے بڑے کارنامے کر دکھائے۔
اضل کالم نگار نے نہایت چابک دستی سے سارے فساد کی جڑ یعنی خفیہ ادارے کے اہل کار کا ذکر گول کر دیا اور سارا الزام پولیس والے پر ڈال دیا جو میری نظر میں اس واقعے میں خاتون جتنا تو نہیں، مگر بڑی حد تک مظلوم ہے. چلتے چلتے منتخب حکمرانوں کو بھی رگید ڈالا جیسا کہ آج کل کا رواج ہے. اظہار الحق صاحب کی نگاہ دروں بین سے یقینا یہ امر پوشیدہ نہیں ہوگا کہ اس غیر مرئی طاقت یعنی خفیہ ادارے کے اہل کار کے حکم سے سرتابی یا اس کی سمت انگشت نمائی کی ہمت کسی پولیس والے، کسی منتخب نمایندے، کسی دانشور اور جیسا کہ اس تحریر سے ظاہر ہے، کسی کالم نگار میں نہیں ہے. کوئی اگر ذرا سی نا عاقبت اندیشی دکھاے تو اسے صبا دشتیاری، سید سلیم شہزاد یا حبیب جالب بلوچ بنا دیا جاتا ہے. بہت خوش قسمت نکلے تو عمر چیمہ کی طرح چار ابرو کے صفایا اور چند ضربات شدیدہ پر بات ٹل جاتی ہے ورنہ یہ خون خاک نشیناں، کسی مدعی و شہادت کے بغیر رزق خاک کر دیا جاتا ہے. حجاج بن یوسف کی مثال بہت بر محل ہے مگر یہ مزعومہ فاتح سندھ کا نہیں بلکہ اس حجاج کا موجودہ روپ ہیں جس کی اس دور کی آئ ایس آئ یعنی خفیہ ادارے کے کارپردازان نے مسلم بن عقیل کو اذیتیں دے کر شہید کر ڈالا تھا. مگر جیسا کہ تاریخ شاہد ہے، حجاجوں کا ظلم سخت ضرور ہوتا ہے مگر وہ حد سے گزرنے پر خون آلودہ خاک سے کسی مختار ثقفی کو ضرور جنم دیتا ہے. اور بالآخر دار و رسن کے لالے پڑ جاتے ہیں..
بجا ارشاد فرمایا
میرے خیال میں حساس ادارے کا ذکر کردینا ہی کافی ہے اور اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کالم نگار
اس کے سفاک، مذموم اور بے انصاف رویہ سے نالاں ہے تاہم حالات کا تقاضا یہی ہے کہ عقلمد کو صرف اشارہ دے دیا جاے۔ خاص طور پر سلیم شہزاد کے واقعے کے بعد۔ ان خونی درندوں سے، جو پاکستان کو اپنے والد کی جاگیر سمجھتے ہیں، پاکستان میں کوی محفوظ نہیں۔
رہا ذکر حجاج کا، تو میرے خیال میں بہت موزوں اور برمحل ہے۔ بےشک محمد بن قاسم زنجیر کی اہم ترین کڑی ہے تاہم حجاج ہی اس تمام واقعے کا متحرک بنا تھا، اور تمام برایوں کے باوجود وہی تھا جس نے مظلوم کی فریاد پر لبیک کہا اور ایک عظیم الشان فوج ترتیب دی جس کا سپہ سالار اس نے خود محمد بن قاسم کو مقرر کیا۔ اس context میں آج کے حکمرانوں کی ناپید اور non-existant شرم اور غیرت کو آواز دینے کی کوشش کے لیے حجاج کا ہی حوالہ برمحل اور عبرت انگیز نظر آتا ہے
کاش ہمارا ملک ان عفریتوں سے نجات حاصل کر سکے۔
بے نام صاحب اپنی تاریخی معلومات پر نظر ثانی کرلیں آپ، عظیم الشان فوج ترتیب دینے کے لئیے فوج ہی موجود نہ تھی مجاہدین کے تمام دستے یورپ اور افریقہ میں پرسرپیکار تھے، یہ محمد بن قاسم ہی کا دم تھا جس نے گلی گلی پھر کر لوگوں کو مظلوم ناہید کے داستان سنائی اور جذبہ ایمانی جگایا اور جوق در جوق عم شہریوں نے اس جہاد میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ میرا مقصد آپ پر یا کسی اور پر تنقید کرنا نہیں تاریخٰی حقیقت کو آشکار کرنا ہے۔
درست فرمایا۔ یہ فوج شہریوں ہی سے ترتیب دی گئی تھی تاہم میری ناقص معلومات کے مطابق یہ حجاج ہی تھا جس نے یہ مہم ترتیب دی تھی۔ محمد بن قاسم اس وقت قتیبہ بن مسلم کے لشکر میں ماورا النہر بر سر پیکار تھا۔ جب وہ قتیبہ کا پیغام لے کر حجاج کے پاس پہنچا (جو اس کا غالباَ چچا بھی تھا)، حجاج نے اس کی فہم و فراست سے متاثر ہو کر اسے ہند کی مہم کا سربراہ بنایا تھا۔
اگر تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں تو براہ مہربانی حوالاجات دے کر ہمارے علم میں اضافہ کیجیے۔ نہایت ممنون ہوں گا۔
عنیقہ بالکل سچ کہتی ہیں واقعی جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے!!!!
ان مومنین کے کرتوت دیکھیں اور واہ واہ کریں ،
یہ ہے وہ لنک جو اس منافق اعظم اور جاہل اعظم نے لگایا!
بظاہر یہ 23 مئی 2011
ڈان اخبار ہے!
http://www.dawn.com/2011/05/23/2009-us-assessment-of-karachi-violence.html
اسے کھولنے پر اوپر بلوگ اور فورم بھی لکھا نظرآتا ہے!
اور یہ کوئی خبر نہیں بلکہ ایک بلوگ پوسٹ ٹائپ افواہ ہے!
اور یہ ہے ،
23 مئی 2011
کا اصلی ڈان اخبار،
http://www.dawn.com/postt?post_year=2011&post_month=5&post_day=23&monthname=May&medium=newspaper&category=37&categoryName=Front Page
اب آپ ان دونون لنکس مین فرق ڈھونڈیئے،یہ آپ تمام حضرات کی ذہانت کا امتحان ہے!!!!!!
:)
اور پھر آپ حضرات اس ڈان مین وہ خبر ڈھونڈیئے جس کا لنک اس منافق اعظم نے لگایا ہے!
مجھ کم نظر کو تو نظر نہیں آئی،شائد آپلوگوں کو دکھ جائے!!!!!
:)
یہ جھوٹے اور ایجینسیوں کے کتے مجھے گھر پہنچا رہے تھے!!!!
اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنا بڑا جھوٹا ہے اور کون کس کو گھر پہنچاتا ہے!!!!
:)
ویسے یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں ،
ایجینسیون کے پے رول پر بھونکنے والے ،
ایسی جھوٹی خبریں ہمیشہ سے ہی ایم کیو ایم کے خلاف بنابنا کر پھیلاتے رہے ہیں!
کبھی واشنگٹن پوسٹ لاہور سے چھپنا شروع ہوجاتا ہےتو کبھی لندن پوسٹ!!!
:)
ہمیشہ انکا جھوٹ انہی کے گلے میں آکر پڑتا ہے مگریہ بے غیرت اپنی ذلالتون سے باز آنے والے کہاں!
میں یہ تبصرہ اور بھی کئی بلاگس پر پوسٹ کررہا ہوں اگر تم نے نہیں چھاپا تب بھی سب کو لگ پتہ جائے گا،
کیاسمجھے!!!!
Abdullah
Mr Abdullah,
Sir, few things:
1. You have a very nice name mashallah but unfortunately the language you have used in your writings is not as nice
2. Please dont get personal and abusive in educated discussions
Try to keep your arguments healthy
3. Seems like you dont know much about how internet works. The links you have posted both come from "www.dawn.com". this is a domain name, and no matter how good someone is at faking
you just cant fake a domain name. that means, if the link is showing www.dawn.com, it HAS to be from dawn.com
4. if you still dont believe it, the other thing you can try is go to dawn official page, or the second link you have posted as the original paper, go to the search box on that page (top right), and search for the keywords:
2009: US assessment of Karachi violence
what do you see?
I just did that, after your above post and found that it IS from dawn.com
(all the search results are from dawn)
So please test your own "zihanat" before challenging others' intelligence.
5. Please, be mature and open minded in your discussions. Dont attack on people personally and open your eyes, see what is happening in world.
Best regards
yes you are right,
but about using the abusive language,
I am not the first
there is a group of people and they do it on and on,
they have no respect in there eyes for any one,
so some time I have to give them some answer in there own language!
I won't like it too.
Abdullah
Post a Comment