ہم پاکستانی عوام مزے میں ہیں۔ اُس خوش قسمت شخص کی طرح جسکے دل کی شریانیں بند ہو رہی تھیں لیکن اُسے معلوم ہی نہ تھا۔ وہ بکرے کے مغز سے لےکر بھینس کے پائے تک اور شیرے سے لبالب بھری ہوئی جلیبی سے لےکر گھی میں تیرتے سوہن حلوے تک سب کچھ کھا رہا تھا اور ڈٹ کر کھا رہا تھا اور وہ جسے اپنے دل کی بیماری کا علم تھا وہ علاج بھی کرا رہا تھا، پرہیز بھی کر رہا تھا اور ڈر بھی رہا تھا۔اس لیے کہ آگہی عذاب ہوتی ہےاور بے خبری میں عیش ہی عیش ہے۔
ہم پاکستانی عوام کو معلوم ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک تو خواندگی کا تناسب پندرہ بیس فی صد سے زیادہ نہیں اور اس پندرہ بیس فی صد میں بھی اُن لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جن کی بین الاقوامی میڈیا تک رسائی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا سے مراد صرف وہ ذرائع نہیں جو امریکہ کے نکتہ نظر کا پرچار کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے اب اُن ذرائع ابلاغ تک بھی پہنچا جا سکتا ہے جو امریکی استعمار کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی عوام کو اس کا اندازہ ہی نہیں کہ دوسرے ملکوں میں بڑے سے بڑا شخص بھی جرم کر کے بچ نہیں سکتا۔ ہمارے اخبارات اُن جرائم سے بھرے ہوئے ہیں جن کا ارتکاب کرنےوالے ہمارے ملک میں مزے سے صرف رہ ہی نہیں رہے بلکہ عزت سے رہ رہے ہیں!
آپ یہ دیکھیے کہ 197 ملکوں کی معیشت کو ”درست“ کرنےوالے آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) کے سربراہ سٹراس کاہن کو بھی ان اہل مغرب نے قانون کے حوالے کر دیا۔۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے کاہن باسٹھ سال کے ہیں۔ دو دن پہلے وہ نیویارک سے فرانس جا رہے تھے کہ امریکی پولیس نے انہیں جہاز سے اتارا اور جیل میں ڈال دیا۔ موصوف ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ تین ہزار ڈالر یعنی پونے تین لاکھ روپے ایک دن کا کمرے کا کرایہ تھا لیکن انسانیت کا معیار ہوٹل کے معیار سے مختلف ہے۔ کاہن نے کمرے کی صفائی کرنےوالی ملازمہ پر حملہ کر دیا اور اسے گھسیٹ کر بیڈ روم میں لے جانے کی کوشش کی، ملازمہ نے مقابلہ کیا اور بھاگنے میں کامیاب ہو گئی۔ کاہن نے فوراً کمرہ چھوڑا اور جہاز میں بیٹھ کر بھاگنے ہی والے تھے کہ پولیس پہنچ گئی۔ آنےوالے انتخابات میں وہ فرانس کی صدارت کے بھی امیدوار بننے والے تھے۔ آپ پوری دنیا کی رہنمائی کرنےوالے ان حضرات کی اخلاقی حالت دیکھئے، لیکن ہمارے لئے یہاں ایک اور سبق بھی ہے۔ آئی ایم ایف کا سربراہ وہی بنتا ہے جو امریکہ کا خاص آدمی ہو، اسکے باوجود امریکی پولیس نے کاہن کا لحاظ نہیں کیا، جہاز سے اتارا اور قانون کے سپرد کر دیا!
آپ یہ دیکھیے کہ 197 ملکوں کی معیشت کو ”درست“ کرنےوالے آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) کے سربراہ سٹراس کاہن کو بھی ان اہل مغرب نے قانون کے حوالے کر دیا۔۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے کاہن باسٹھ سال کے ہیں۔ دو دن پہلے وہ نیویارک سے فرانس جا رہے تھے کہ امریکی پولیس نے انہیں جہاز سے اتارا اور جیل میں ڈال دیا۔ موصوف ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ تین ہزار ڈالر یعنی پونے تین لاکھ روپے ایک دن کا کمرے کا کرایہ تھا لیکن انسانیت کا معیار ہوٹل کے معیار سے مختلف ہے۔ کاہن نے کمرے کی صفائی کرنےوالی ملازمہ پر حملہ کر دیا اور اسے گھسیٹ کر بیڈ روم میں لے جانے کی کوشش کی، ملازمہ نے مقابلہ کیا اور بھاگنے میں کامیاب ہو گئی۔ کاہن نے فوراً کمرہ چھوڑا اور جہاز میں بیٹھ کر بھاگنے ہی والے تھے کہ پولیس پہنچ گئی۔ آنےوالے انتخابات میں وہ فرانس کی صدارت کے بھی امیدوار بننے والے تھے۔ آپ پوری دنیا کی رہنمائی کرنےوالے ان حضرات کی اخلاقی حالت دیکھئے، لیکن ہمارے لئے یہاں ایک اور سبق بھی ہے۔ آئی ایم ایف کا سربراہ وہی بنتا ہے جو امریکہ کا خاص آدمی ہو، اسکے باوجود امریکی پولیس نے کاہن کا لحاظ نہیں کیا، جہاز سے اتارا اور قانون کے سپرد کر دیا!
ہم پاکستانی مزے میں ہیں، اس لئے کہ ہمیں پاکستان سے باہر کے حالات کا علم تو نہیں ہے، یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان کے اندر کیا ہو رہا ہے، ورنہ ہمیں اُن انکشافات کا ضرور علم ہوتا جن کے بارے میں پوری دنیا جان چکی ہے۔ شکاگو ٹرائی بیون امریکہ کا صف اول کا اخبار ہے اور کِم بارکر اس سے منسلک معروف صحافی خاتون ہے۔ اخبار نے اُسے پاکستان اور افغانستان میں تعینات کیا۔ اس قیام کے دوران اُسکے ساتھ جو واقعات پیش آئے اُن پر مشتمل اس کی کتاب شائع ہو کر تلاطم پیدا کر چکی ہے لیکن ہم مزے میں ہیں کہ ہمیں اس کا پتہ ہی نہیں۔ کِم بارکر نے:
THE TALIBAN SHUFFLE - STRANGE DAYS IN AFGHANISTAN AND PAKISTAN
نامی کتاب میں پاکستان کے ایک چوٹی کے سیاست دان کے بارے میں ناقابل یقین باتیں لکھی ہیں، انٹرویو کے دوران یہ سیاست دان اس صحافی خاتون کو کہتا ہے کہ اپنا ٹیپ ریکارڈر بند کر دے۔ اُسکے بعد کی گفتگو اس امریکی صحافی کے بقول کچھ اس طرح کی ہے
”کِم! کیا تمہارا کوئی دوست ہے؟“
میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اُن کا کیا مطلب ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں، میرے بہت سے دوست ہیں! ....
THE TALIBAN SHUFFLE - STRANGE DAYS IN AFGHANISTAN AND PAKISTAN
نامی کتاب میں پاکستان کے ایک چوٹی کے سیاست دان کے بارے میں ناقابل یقین باتیں لکھی ہیں، انٹرویو کے دوران یہ سیاست دان اس صحافی خاتون کو کہتا ہے کہ اپنا ٹیپ ریکارڈر بند کر دے۔ اُسکے بعد کی گفتگو اس امریکی صحافی کے بقول کچھ اس طرح کی ہے
”کِم! کیا تمہارا کوئی دوست ہے؟“
میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اُن کا کیا مطلب ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں، میرے بہت سے دوست ہیں! ....
”نہیں، کوئی دوست بھی ہے؟“ .
... تب میں سمجھی ۔
”آپکی مراد بوائے فرینڈ سے ہے؟“ ...
. میں نے اُنکی طرف دیکھا۔ میرے پاس دو راستے تھے، سچ کہوں یا جھوٹ بولوں۔ پھر یہ سوچ کر کہ دیکھوں تو سہی، یہ سوال کس طرف جا رہے ہیں، سچ بولنے کا فیصلہ کیا۔
”ہاں میرا بوائے فرینڈ تھا لیکن حال ہی میں ہمارا تعلق ختم ہو گیا“ ۔
”کیوں؟ کیا وہ بہت بور تھا؟
”کیوں؟ کیا وہ بہت بور تھا؟
NOT FUN ENOUGH?“....
”نہیں، بس بات بنی نہیں“
”اوہ! مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تمہارا دوست کوئی نہیں! اگر تم چاہو تو میں تمہیں تلاش کر دوں؟“
یہاں پہنچ کر کِم بارکر لکھتی ہے ”افغانستان کی سرحد پر عسکریت پسند زور پکڑ رہے تھے، شہروں میں حملوں کی تعداد زیادہ ہو رہی تھی، درہ خیبر سے گزرنا ہی خطرناک ہو رہا تھا، مُلک ہچکولے کھا رہا تھا، کوئی سمت ہی نہیں تھی، جیسے بغیر کٹے ہوئے سر والی مرغی ہو، ایک طرف یہ حال تھا، اور دوسری طرف یہ صاحب مجھے ”دوست“ ڈھونڈ دینے کی پیشکش کر رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے پاکستان کے رہنمائوں کی ترجیحات ”واضح“ تھیں!“
اس دلچسپ گفتگو اور اپنے تبصرے کے بعد کِم بارکر بتاتی ہے کہ اسی سیاستدان نے اُسے اجمل قصاب کے بارے میں معلومات دیں جس پر بھارت ممبئی کی دہشت گردی کا الزام لگا رہا تھا۔ کِم بارکر کے الفاظ میں ”اس سیاستدان نے مجھے ”صحیح“ فرید کوٹ کے بارے میں بتایا جو ضلع اوکاڑہ میں ہے۔ اُس نے مجھے صوبائی پولیس کے سربراہ کا فون نمبر بھی دیا۔ اُس نے مجھے وہ باتیں بھی بتائیں جو بھارتی اور پاکستانی حکام نے اُسے زندہ بچ جانےوالے واحد عسکریت پسند کے بارے میں بتائی تھیں، ہمارے لئے یہ بہت بڑی خبر تھی۔ ایک سینئر پاکستانی اُس بات کی تصدیق کر رہا تھا جس کا حکومت پاکستان نے انکار کیا تھا یعنی یہ کہ حملہ آور پاکستان کے تھے!“
اُسکے بعد صحافی کے بقول کیا ہوا، سُنئے :
”انٹرویو ختم ہوا تو ”انہوں“ نے میری طرف دیکھا اور کہا ”کیا تم اپنے مترجم کو باہر بھیج سکتی ہو؟ میں نے کوئی بات کرنی ہے“ مترجم نے پریشان ہو کر میری طرف دیکھا۔ میں نے اُسے کہا کہ کوئی حرج نہیں۔ وہ باہر چلا گیا۔ پھر انہوں نے ٹیپ ریکارڈر بند کروایا۔
”اوہ! مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تمہارا دوست کوئی نہیں! اگر تم چاہو تو میں تمہیں تلاش کر دوں؟“
یہاں پہنچ کر کِم بارکر لکھتی ہے ”افغانستان کی سرحد پر عسکریت پسند زور پکڑ رہے تھے، شہروں میں حملوں کی تعداد زیادہ ہو رہی تھی، درہ خیبر سے گزرنا ہی خطرناک ہو رہا تھا، مُلک ہچکولے کھا رہا تھا، کوئی سمت ہی نہیں تھی، جیسے بغیر کٹے ہوئے سر والی مرغی ہو، ایک طرف یہ حال تھا، اور دوسری طرف یہ صاحب مجھے ”دوست“ ڈھونڈ دینے کی پیشکش کر رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے پاکستان کے رہنمائوں کی ترجیحات ”واضح“ تھیں!“
اس دلچسپ گفتگو اور اپنے تبصرے کے بعد کِم بارکر بتاتی ہے کہ اسی سیاستدان نے اُسے اجمل قصاب کے بارے میں معلومات دیں جس پر بھارت ممبئی کی دہشت گردی کا الزام لگا رہا تھا۔ کِم بارکر کے الفاظ میں ”اس سیاستدان نے مجھے ”صحیح“ فرید کوٹ کے بارے میں بتایا جو ضلع اوکاڑہ میں ہے۔ اُس نے مجھے صوبائی پولیس کے سربراہ کا فون نمبر بھی دیا۔ اُس نے مجھے وہ باتیں بھی بتائیں جو بھارتی اور پاکستانی حکام نے اُسے زندہ بچ جانےوالے واحد عسکریت پسند کے بارے میں بتائی تھیں، ہمارے لئے یہ بہت بڑی خبر تھی۔ ایک سینئر پاکستانی اُس بات کی تصدیق کر رہا تھا جس کا حکومت پاکستان نے انکار کیا تھا یعنی یہ کہ حملہ آور پاکستان کے تھے!“
اُسکے بعد صحافی کے بقول کیا ہوا، سُنئے :
”انٹرویو ختم ہوا تو ”انہوں“ نے میری طرف دیکھا اور کہا ”کیا تم اپنے مترجم کو باہر بھیج سکتی ہو؟ میں نے کوئی بات کرنی ہے“ مترجم نے پریشان ہو کر میری طرف دیکھا۔ میں نے اُسے کہا کہ کوئی حرج نہیں۔ وہ باہر چلا گیا۔ پھر انہوں نے ٹیپ ریکارڈر بند کروایا۔
“ مجھے جانا ہے۔ مجھے اپنے اخبار کےلئے سٹوری لکھنی ہے“ میں نے کہا۔
انہوں نے میری بات کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور کہا ”میں نے تمہارے لئے آئی فون خریدا ہے“ ....
اسکے بعد صحافی لکھتی ہے : ....”آخرکار وہ مطلب کی بات پر آئے۔“ .... ”کِم! مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے لئے ”دوست“ نہیں ڈھونڈ سکا۔ میں نے کوشش کی لیکن ناکام رہا، وہ ”پراجیکٹ“ میں ناکامی کی وجہ سے واقعی مغموم نظر آ رہے تھے۔
“ کوئی بات نہیں“ میں نے جواب دیا۔ مجھے اس وقت فی الواقع کسی دوست کی ضرورت نہیں، میں دوست کے بغیر بالکل خوش ہوں، میں دوست کے بغیر رہنا چاہتی ہوں“
اس کے بعد پنجاب کے شیر نے جھپٹا مارا
۔ ”میں تمہارا دوست بننا چاہتا ہوں“ ۔
ابھی اُن کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ میں نے کہا ”نہیں، ہرگز نہیں، یہ نہیں ہو سکتا“ ۔
انہوں نے مجھے خاموش کرنے کےلئے ہاتھ لہرایا ۔ ”میری بات سُنو ۔ مجھے معلوم ہے کہ میں اتنا لمبے قد والا نہیں جتنا تم پسند کرو، میں اتنا فِٹ بھی نہیں، میں موٹا ہوں اور بوڑھا بھی ہوں لیکن اسکے باوجود میں تمہارا دوست بننا چاہونگا“
”نہیں“ ۔ میں نے کہا ۔ ”ہرگز نہیں“
پھر انہوں نے مجھے اپنے ہسپتال میں ملازمت کی پیشکش کی کہ کہ میں یہ ہسپتال چلائوں۔ ظاہر ہے میں اس کام کے لیے بالکل اہل نہیں تھی۔"۔
”نہیں“ ۔ میں نے کہا ۔ ”ہرگز نہیں“
پھر انہوں نے مجھے اپنے ہسپتال میں ملازمت کی پیشکش کی کہ کہ میں یہ ہسپتال چلائوں۔ ظاہر ہے میں اس کام کے لیے بالکل اہل نہیں تھی۔"۔
یہ ہے ہمارے رہنمائوں اور لیڈروں کا اصل چہرہ
16 comments:
انا للہ وانا الیہ راجعون
:(
آپ کا اشارہ نواز شریف کی طرف ہے نا
آجکل فوج اور نواز شریف کی کردار کشی عروج پر ہے
کم ازکم میں کسی ایسی عورت کی بات نہیں مان سکتا جو صحافی بھی ہو اور صحافی اس جھوٹ کے لیے تیار ہوسکتا ہے کہ اسے شہرت ملے یا وہ مخصوص مقاصد حاصل کرسکے۔
ماضی میں آئی ایس ائی کی طرف سے ایک دوپہر کے اخبار کو خبر مہیا کی جاتی تھی کہ ذرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہیں۔ یا اسی قسم کی باتیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں۔
اگر کتاب پر اعتبار کرنا ہے تو پھر مشرف دور میں بازار حسن قسم کی کتابیں پڑھ لیں اور پھر ایمان بھی لے آئی۔
ماضی میں کھر کی سالی کی کتاب بھی لکھوائی گئی تھی۔
موجودہ دور میں نوازشریف واحد سیاست دان ہیں جو مغرب کی آنکھ کو چبھتا ہے اور میں آپ کو یہ بتا دوں کہ غیروں کی باتوں پر یقین کرکے ہم اپنا ہی نقصان کریں گے۔
لیڈروں کا آصلی چہرہ تو ہم نے دیکھا ہی نہیں وہ شاید اس سے بھی بھیانک ہو۔
لیکن یہ موقع نہیں کہ ہم ڈرون حملوں کو بند کرانے کی بات پر سخت موقف پر کسی کی کردار کشی میں لگ جائیں۔
نواز شریف نے اب تک اس کتاب کے مندرجات سے انکار نہیں کیا، حال ہی میں شریف صاحب جس طرح امریکہ کے حق میں راہ ہموار کر رہے ہیں اس سے بھی نہیں لگتا کہ یہ کوئ امریکن سازش ہے۔ ہمارے یہاں ہر خاص وعام سمجھتا ہے کہ یہ باہر کی خواتین بس ہر کسی کے ساتھ تعلقات بنانے پہ تیار ہو جاتی ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے رہ نماءووں کا ایکسپوژر کتنا ہے اور وہ بین القوامی سیاست تو دور بین القاوامی رویوں کے بارے میں کتنا جانتے ہییں۔ ،
ڈی جی آئی ایس آئی نے اسمبلی کے انکیمرہ اجلاس میں بتایا ہے کے انہوں نے ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑنے سے پہلے شہباز شریف کو اعتماد میں لیا تھا، جبکہ یہ دونوں بھائی ہی آخر تک مکرتے رہے کے انہیں کچھہ نہیں معلوم تھا۔ کیا یہ امریکی وفاداری نہیں ہے ؟ اور جہاں تک رہی بات سیاستدانوں کے پر حوس رویے کی تو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب انجلیانا جولی سیلاب زدگان کی مد میں ہمیں بھیک دینے آئی تھی تو اعوان وزیراعظم میں اسے کارڈ کیا بہن بنانے کے لئیے پیش کئیے گئے تھے؟ جنہیں وہ اپنے پیروں تلے روند کر چلی گئی تھی۔
دوسروں کو بت پرستی کا طعنہ دینے والوں کے اپنے بتوں پر جب بات آتی ہے تو بت پرستی چھلک چھلک کر باہر نکلی پڑتی ہے مومنین کی!
ایک نظر اس پر بھی،
.ضیاالحق نے جنرل چشتی سے کہا ’مرشد مروا نہ دینا‘
محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
’ایک بات پراتفاق ہے کہ جنرل ضیا اور ان کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ جو زہریلے بیج اس دور میں بوئے گئے تھے وہ تن آور درخت بن چکے ہیں‘
انیس سو ستتر میں چار اور پانچ جولائی کی درمیانی رات تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت الٹنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ آپریشن کا نام طے ہوچکا تھا ، آپریشن فیئر پلے۔ آپریشن شروع ہونے سے چند لمحے پہلے فوج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق اپنے دستِ راست اور راولپنڈی کے کور کمانڈر لیفٹینٹ جنرل فیض علی چشتی سے ملے۔ آپریشن کی جُزیات ایک بار پھر دہرائی گئیں اور جب فیض علی چشتی مشن پر روانہ ہونے لگے تو مستقبل کے مردِ مومن نے چشتی کے کان میں کہا ’مرشد مروا نہ دینا‘۔
یہ جنرل ضیاءالحق کا انداز دِلرُبائی تھا۔ وہ اپنے جونیئر کی انا کو ایسے سہلاتے کہ وہ اپنے آپ کو سینیئر محسوس کرنے لگتا اور وہ اپنے سینیئر کے قدموں سے ایسے لپٹتے کہ اسے اپنے اوپر خدا کا روپ اترتے ہوئے محسوس ہوتا۔
شاید جنرل ضیاء اندر سے ڈرپوک تھے ورنہ ڈرنے کی کوئی خاص بات نہیں تھی۔ جنرل فیض علی چشتی کی مونچھوں اور توپوں کے سامنے کون سی جمہوری حکومت ٹھہرسکتی تھی۔ چشتی نے نہ کسی کو مارا نہ کسی کو مروایا ۔ پانچ جولائی کی صبح سحر خیزوں کو یہ مژدہ مِلا کہ ایک اور وردی پوش مسیحا نازل ہوچکا ہے۔
پانچ جولائی کی رات کو تو کوئی نہیں مرا لیکن آئندہ گیارہ برسوں میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ پھانسی گھاٹوں پر، ٹھوڑی پھاٹک پر ، بوہری بازار میں، اوجھڑی کیمپ میں، طالبِ علم، مزدور، سیاسی کارکن اور کئی جوگھر سے بازار صرف دودھ خریدنے آئے تھےاور سینکڑوں ایسے تھے جو فوج کے عقوبت خانوں میں سالہاسال موت کی دعا مانگتے رہے۔
ملک کی جان اس وقت چھوٹی جب مردِ مومن و مردِ حق اپنے ساتھ ایک درجن سے زائد جرنیلوں سمیت ایک فضائی حاثے میں ہلاک ہوئے۔ اناللہِ واِناعلیہِ راجعون۔
جنرل ضیاء کے انتقال کے تینتیس سال بعدپاکستانی قوم میں بڑا تفرقہ ہے۔ ’بےغیرت گروپ‘ ’غیرت بریگیڈ‘ سےنبردآزما ہے۔ بلوچ بندوقیں اٹھائے پہاڑوں پر جا بیٹھے ہیں۔ سندھی کہتے ہیں کہ ایک بار پھر زیادتی کرو توہم تمہیں بتاتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض پر پھیلے سینکڑوں لشکر ’نصرمن اللہِ والفتح َ َ قریب‘ کی بشارت دیتے ہیں۔
امریکا کی عمر رسیدہ رکھیلیں طلاق کی بھی دعوے دار ہیں اور اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ کبھی نکاح ہوا تھا۔ نسل در نسل امریکی مفادات کی دلاّلی کرنے والے اس بات پر گھتم گھتا ہیں کہ کمیشن کم کر دیا جائے یا پرانی تنخواہ پر کام کیا جائے۔ اور تو اور آئی ایس آئی چلانے والے اللہ کے پراسرار بندے بھی پارلیمنٹ کے دروازے بند کر کے کہتے ہیں کہ ’پتہ نہیں ہم کیا کرتے پھر رہے ہیں‘۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
لیکن مذ کورہ بالاگروہوں میں ایک بات پراتفاق ہے کہ جنرل ضیا اور ان کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ جو زہریلے بیج اس دور میں بوئے گئے تھے وہ تن آور درخت بن چکے ہیں۔
جنرل ضیاءالحق کا کوئی لے پالک سیاستدان، فوج کا کوئی ریٹائرڈ یا حاضرسروس جنرل شاہ فیصل مسجد کے صحن میں اس کے مزار پر سینہ ٹھونک کر نہیں کہتا کہ وہ ضیاءالحق کےمشن کی تکمیل کرےگا۔ ضیاء دور کے درس پڑھ کر بڑے ہونے والے ٹی وی اینکرز بھی یہ نہیں کہتے پائےجاتے کہ کاش اگر جنرل ضیاء حیات ہوتےتو ہم یوں راندہءِ درگاہ نہ ہوتے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کے سب مرحوم کے مشن کی تکمیل کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے رواں دواں ہیں۔
جنرل ضیاء جب تک حیات رہے، ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں ان کی ایک ہی پالیسی تھی کہ افغانستان کی ہانڈی ابلتی رہے، ابل کر باہر نہ گرے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہانڈی ابلتی رہے۔
افغانستان کی ہانڈی ابالتے ابالتے انہیں اپنے گھر میں لگنے والی آگ کی خبر نہ رہی۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس ہانڈی کو ابالنے کے لیے اتنا ایندھن جھونکا کہ پاکستان میں لاکھوں چولھے ٹھنڈے ہوگئے۔
۔
Abdur Rahman
Daily the Nation, Lahore 30th April 2011
LAHORE – A petition was filed in the Lahore High Court praying for a direction to Pakistan’s top intelligence agency to hold an inquiry into the allegations levelled by American reporter Kim Barker against PML-N chief Mian Nawaz Sharif.
The petition also prayed that the Foreign Ministry be directed to lodge a strong protest against the allegations to America. Advocate Masood Gujjar filed the petition stating that the allegations of sexual harassment by the lady reporter of the Chicago Tribune was a part of character assassination campaign against Mian Nawaz Sharif for taking a bold stance in case of CIA contractor Raymond Davis.
The petitioner requested the court to take action on the matter. He pleaded that the ISI be directed to hold an inquiry into the allegations and submit its report before the court. It may be recalled that Kim Barker, who covered Afghanistan and Pakistan for Chicago Tribune starting in 2003, claimed that she was propositioned by Nawaz Sharif when she met him for an interviews for her newspaper.
In her recently released book “The Taliban Shuffle: Strange Days in Afghanistan and Pakistan”, Barker says she received unusual attention from Nawaz Sharif when she met him to do her job in Afghanistan and Pakistan. She claimed that Nawaz Sharif gave her an Apple iphone as a gift and asked her to be his “special friend”.
Abdur Rahman
پاکستان فوج اور نواز شریف کے خلاف پروپیگنڈا اپنے عروج پر ہے وہ لوگ کہاں ہے جو زور خطابت کر کے گلے کے کینسر کے مریض ہوچکے ہیں اب اگر وہ خیر کے بات بھی کریں تو لوگ ڈر جاتے ہیں۔
ملعون سلمان رشدی نے ایک امریکی اخبار میں کالم لکھا ہے اور بھی اسی قسم کی باتیں سامنے آرہیہیں
مبشر لقمان تو خاص ایم کیو ایم کا بندہ ہے جس نے شاید سب سے پہلے نواز شریف کے خلاف اس قسم کی گھٹیا بات کی ہے اس ویڈیو میں اس کا گھناونا چہرہ سب کو دکھائی دے سکتا ہے
http://www.youtube.com/watch?v=ZycJJ1TmHPY
کتابیں لکھی نہیں لکھوائی جاتی ہیں۔
غیر ملکی صحافیوں کو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ غیر جانبداری کا عنصر برقرار رہے
یہ اتنی گھٹیا کتاب ہے کہ کسی نے اس کا ذکر ہی نہیں کیا اور نہ ہی یہ ذکر کے قابل ہے
رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ "ايک آدمی کے جھوٹا ہونے کيلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغير تصديق کے آگے کہہ دے"
مصنفين اور مبصّرين کے حق ميں بہتر ہو گا کہ اتنا بڑا الزام لگانے سے قبل کچھ ذاتی تحقيق کر ليا کريں اور اگر سْنی ہوئی يا پڑھی ہوئی بات کے درست ہونے کا ثبوت نہ مل سکے تو خاموشی اختيار کريں
اگر آپ سب مسلمان ہيں تو جانتے ہوں گے کہ زناء کی سزا 100 کوڑے ہے اور جھوٹا الزام لگانے کی سزا 80 کوڑے ہے ۔ يہ حدود اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مقرر کردہ ہيں ۔ اور اس کے بغير مُرتکب واردِ جہنم ہو گا
اللہ ہميں سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے
کیا یہ بات کافی نہیں کہ نواز شریف نے اب تک اسکی تردید جاری نہیں کی۔ اب یہ تو واقعی اپنے اپنے بتوں کی بات ہے۔ جب شوکت عزیز پہ کنڈی کو رجھانے کا لزام لگایا گیا اس وقت تو یہ درست معلوم ہوتا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی ایک غیر ملکی ہی نے کہا تھا۔
صرف اردو بلاگرز نے اس خبر کو لفٹ نہیں کروائ۔ وجہ تو صاف نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ اردو بلاگرز کی اکثریت دائیں ان سیاستدانوں کی چشم پوشی کرتی ہے جو طالبانی فکر کے حامل ہیں۔
ورنہ انگریزی بلاگز پہ تو اس کا خاصہ تذکرہ ہ۹وا ہے۔ چاہیں تو وہ کیفے پیالہ پہ جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ وہان اس کتاب کے انگرزیزی اقتباسات موجود ہیں۔
رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ "ايک آدمی کے جھوٹا ہونے کيلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغير تصديق کے آگے کہہ دے"۔ افتخار اجمل صاحب اس حدیث کی رو سے تو آپ خود بھی گرفت میں آجاتے ہیں، نہیں عقین تو مختلف بلاگز پر اپنے تبصروں کا خود ہی جائزہ لے لیجئیے۔
ویسے یہی خبر اگر الطاف حسین کے متعلق ہوتی تو رسول اکرم کا ارشاد کسی کو یاد نہیں رہتا۔ اور تمام نامی گرامی بلاگرز اس پہ اظہار خیال کر کے الطاف حسین کو کوڑے لگا چکے ہوتے۔ خیر الطاف حسین تو ایک طرف اگر یہی زرداری ہوتے تو تب بھی صراط مستقیم پہ کوئ نہ چل پاتا۔ اور زرداری کی مٹی پلید کرنے میں ہر ایک بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔یہ صراط مستقیم اتنی سیدھی کیوں نہیں ہے کہ ہر وقت اس پہ چلنے میں دشواری ہوتی ہے۔
ـاکستان فوج اور نواز شریف کے خلاف پروپیگنڈا اپنے عروج پر ہےـ
رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ "ايک آدمی کے جھوٹا ہونے کيلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغير تصديق کے آگے کہہ دے
آخر آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کی آنکھوں پر پردے اور دلوں پر تالے پڑ گے ہیں؟ یہ بھی تو آخر تنزلی کی نشانی ہے اور ایک اللہ کا عذاب ہے کہ فیصلے جذبات کے بل پر اور اس پر مرنے مارنے پر آمادہ، اندھی تقلید اور اس پر فخر۔ احتساب تو دور کی بات اگر کوی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرے تو الٹا اس پر چڑھ دوڑے؟ یا خدا یہ قوم کیسے ترقی کرے گی؟؟
جناب کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کے پاس جا کر پو چھا جاے کہ بھای صاحب کیا یہ سچ ہے؟ اور اگر وہ کہیں صرف تب ےقین کیا جاے؟
عقلمند کی لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ کیا یہ کافی نہیں کہ اتنا اہم انسان اپنے اوپر کیچڑ اچھالنے والے پر اور ساکھ خراب کرنے والے پر کیس کرنا اور غلط الزام لگانے پر آواز اٹھانا تو دور کی بات۔ ایک جملہ تک تردید کا نھیں کہ سکتا؟؟ جناب آپ کو ذاتی تصدیق کا اتنا ہی شوق ہے تو آپ خد جا کر نواز شریف صاحب سے کیوں نہیں پوچھتے کہ بھای جان آپ تردید کرناے کی بجاے یہ کتاب پاکستان سے غایب کرانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟؟ اس میں کیا منطق؟ دل میں چور؟
آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ قوم ترقی نہیں کر سکتی اور یہی چند گنے چنے کرپٹ اور انپڑھ حضرات بار بار قوم پر مسلط یو جاتے ہیں۔
شاذل محترم۔ کیا نواز شریف ایک فرشتہ ہیں کہ ان کے بارے میں کوی بات نہیں ہو سکتی؟
خواتین و حضرات۔ اپنا احتساب کرنا سیکھیے اور برایوں کو ڈھونڈ کر ان کا خاتمہ اور غلطیوں سے سبق سیکھیے۔ اسی چیز کی ہماری قوم کو ضرورت ہے موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے۔
اور کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ اسے سچ مان لیا جائے
اور وہ بھہ بغیر تحقیق کے
واہ صاحب
بغیر تحقیق کے نہیں، دلائل کی رو سے
جن مبصرين نے ميرے متعلق کچھ کہا ہے ۔ ميری دعا ہے کہ اللہ اُنہيں جزائے خير دے
آمین ثمہ آمین!
اور ساتھ ہی انہیں ہمیشہ اسی طرح حق اور سچ کہتے رہنے کی توفیق بھی عطا فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
:)
Post a Comment